
Super User
رہبر معظم سے 17 ربیع الاول کی مناسبت سے اعلی حکام ،سفراء اور وحدت کانفرنس کے مہمانون کی ملاقات
۲۰۱۳/۰۱/۲۹ - نور مجسم ،پیکر رحمت حضرت محمد مصطفی (ص) اور ان کے عزیز فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے بعض اعلی حکام، 26ویں اسلامی وحدت کانفرنس کے مہمانوں ، اسلامی ممالک کے سفراء اور عوام کے مختلف طبقات نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں سترہ ربیع الاول پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) اور ان کے فرزند حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور اسلامی اتحاد و یکجہتی کو ایک مقدس نعرہ اور امت اسلامی کے درمیان باہمی اتحاد و اخوت کو پیغمبر اسلام کی رسالت کا اہم پیغام قراردیا اور عالم اسلام بالخصوص شمال افریقہ میں اسلامی بیدار کی تحریک کی طرف اشارہ کیا اور اسے اللہ تعالی کے وعدے کے محقق ہونے کا ایک حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: آج اسلامی بیداری کے مقابلہ کے لئے سامراجی طاقتوں کی اصلی پالیسی اسلامی ممالک میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنا اور انھیں ایکدوسرے کے خلاف اکسانا ہے لہذا عالم اسلام کے دانشوروں، سیاسی ، دینی اور سماجی شخصیات کے دوش پر اسلامی اتحاد و یکجہتی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سنگین اور عظیم ذمہ داری عائد ہے اور انھیں دشمن کے تفرقہ انگیز منصوبوں سے امت اسلامی کو آگاہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیغمبر اسلام (ص) اور امام جعفر صادق(ع) کی ولادت باسعادت کی بدولت ماہ ربیع الاول کو زندگی اور حیات کی بہار قراردیتے ہوئے فرمایا: عید میلادالنبی (ص) کے عظیم موقع پر صرف جشن و سرور ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس عظيم موقع پر مسلمانوں کو نبی مکرم (ص) کے ساتھ معنوی، قلبی اور عاطفی رابطے کو بھی زیادہ سے زیادہ مضبوط اور قوی بنانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امت اسلامی کے لئے سترہ ربیع الاول کے دن، پیغمبر اسلام (ص) کے دستورات کی اطاعت اور پیروی پر زیادہ سے زیادہ اہتمام کرنےکوضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: مسلمانوں کو اپنی زندگی میں نبی مکرم (ص) کےدستورات پر عمل کرنا چاہیے اور معاشرے میں اپنی انفرادی، اجتماعی اور سیاسی رفتار میں آنحضور کے دستورات کی روشنی میں عمل کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کی وجہ سے خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی (ص) کے دستورات کی عملی پیروی کی راہ اور شرائط کو ہموار قراردیتے ہوئے فرمایا: عالم اسلام پر مغربی ممالک کے دسیوں سال کے تسط و دباؤ کے بعد اب مسلمان یہ احساس کررہے ہیں کہ اسلام ،ان کی عزت، سربلندی اور استقلال کا سرچشمہ ہے۔اور امت اسلامی کی تمام تمنائیں اسلام کی برکت سے پوری ہوسکتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسلمانوں کےدرمیان مغربی سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں استقامت و قیام کے احساس اور مغربی ممالک کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کو اسلامی برکات شمار کرتے ہوئے فرمایا: ایران میں 34 سال قبل جس اسلامی بیداری کا آغاز ہوا وہ اب عالم اسلام میں فروغ پارہی ہے۔جو اللہ تعالی کے وعدوں کے محقق ہونے اور کامیابی کی جانب حرکت کا شاندار مظہر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سامراجی طاقتوں نے اسلامی بیداری کی راہ میں ابتدا ہی سے رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں شروع کیں لیکن اگر مسلمان اللہ تعالی پر توکل رکھیں اور آگے کی سمت سنجیدگی کے ساتھ حرکت جاری رکھیں تو قطعی ویقینی طور پر وہ دشمن کی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیں گے اور وہ قدم بقدم کامیابیوں سے نزدیک تر ہوتے جائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کا مقابلہ کرنے کے لئے اختلاف پیدا کرنےاورمسلمانوں کو آپس میں لڑانے کو دشمن کی اصلی کوشش قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ابتداء ہی سے اختلاف ڈالنے کی پالیسی کا آغاز ہوا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے دشمن کی اس سازش کا سنجیدگی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا اوراتحاد و یکجہتی کے پرچم کو سربلند کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نےاپنی زندگی میں بارہا تاکید کی کہ ہم اسلامی اخوت و برادری پر یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں اور ان کے بعد آج تک اس راہ پر پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے۔
رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی ممالک کے اندر مسلمانوں کے مختلف گروہوں ، مذاہب اور احزاب کے درمیان اتحاد کے احساس کے ذریعہ ہی ہم دشمن کی تفرقہ انگیز پالیسیوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے درمیان اختلاف کو مسئلہ فلسطین کے سائیڈ پرہوجانے کا باعث قرار دیا اور امریکہ کی تسلط پسندانہ پالیسی اور منہ زوری کے مد مقابل استقامت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مسلمانوں کے باہمی اختلافات کے نتیجے میں مغربی ممالک نے افریقی قوموں پر مسلط ہونے کے لئے ایک نئی حرکت اور پالیسی کا آغاز کردیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پاکستان کے دردناک واقعات، شام میں جنگ و خونریزی، بحرینی عوام کی آواز کا بائیکاٹ اور مصر میں عوام کا ایکدوسرے کے آمنے سامنے آجانے کو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے نتائج کے بعض نمونے شمارکرتے ہوئے فرمایا: اسلامی ممالک میں مسلمان قوموں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی ہر کوشش یقینی طور پر دشمن کے منصوبے کے مطابق اس کی زمین میں بازی کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی ممالک کے حوزات علمیہ ، یونیورسٹیوں کےدانشوروں، سیاسی ، سماجی اور مذہبی شخصیات کو اتحاد و یکجہتی کے موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: امت اسلامی کے دانشوروں کو اختلاف پیدا کرنے کے سلسلے میں دشمن کے خطرناک منصوبوں کی تشریح کے ساتھ خود بھی ہر قسم کے اختلافات سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اختلافات کی آگ کو شعلہ ور کرنے سے قوموں کی تقدیر سیاہ ہوجاتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی اتحاد کے نعرے کو ایک مقدس نعرہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر آج پیغمبر اسلام (ص) ہمارے درمیان ہوتے تو ہم سب کو اتحاد و یکجہتی اور اختلاف سے پرہیز کرنے کی دعوت دیتے ۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر احمدی نژاد نے اپنے خطاب میں پیغمبر اسلام (ص) اور حضرت امام حعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور پیغمبر اسلام (ص) کو بشریت کی سعادت کے لئے انبیاء (ع) کی راہ کو پایہ تکمیل تک پہنجانے کا اہم وسیلہ قراردیتے ہوئے کہا : امت اسلامی کی نجات کا راستہ پیغمبر اسلام(ص) کی اطاعت اور پیروی میں ہے۔
صدر احمدی نژاد نے توحید کی طرف تمام انبیاء بالخصوص پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عالمی سامراجی طاقتیں اور صہیونی عناصر اختلافات ڈالکر دنیا پر مسلط ہونے کی کوشش کررہے ہیں لہذا اتحاد عالم اسلام بلکہ دنیا کا سب سے اہم موضوع ہے۔
اس ملاقات کے اختتام پر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قریب پہنچ کر بعض مہمانوں کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔
تہران بہترین تعلقات کا خواہاں
مجلس اعلائے اسلامی عراق کے سربراہ سید عمار حکیم نے تہران میں مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ڈاکٹر علی لاریجانی نے کہا کہ دشمن ملت عراق کو تفرقے کانشانہ بنارہا ہے لیکن عراق کے انقلابی عوام ہرطرح کے اختلافات سے پرہیز کرتے ہوئے دشمن کی سازشوں کوناکام بنادیں گے۔ انہوں نے ایران و عراق کے تعلقات کو دوستانہ قراردیتےہوئے کہا کہ تہران بغداد کے ساتھ تمام شعبوں میں بہترین تعلقات کا خواہاں ہے۔ ڈاکٹر لاریجانی نے عراق کی ارضی سالمیت اور استحکام کے تحفظ پر زور دیا۔ ادھر بغداد میں ایران کے سفیر نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق کے ساتھ تعلقات میں فروغ لانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں کو استعمال کررہا ہے۔فارس نیوز کی رپورٹ کے مطابق حسن دانائي فر نے صوبہ بصرہ کے گورنر خلف عبدالصمد خلف سے ملاقات میں کہا کہ دونوں ملکوں کے حکام باہمی تعلقات و تعاون کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اس ملاقات میں ایران کے تجربوں سے استفادہ کرنے بھی پر تاکید کی گئي ۔
تہران میں چھبیسویں وحدت اسلامی کانفرنس
تہران میں چھبیسویں وحدت اسلامی کانفرنس شروع ہوگئي۔
اس بین الاقوامی کانفرنس میں دنیا کے 102 ممالک کے شیعہ و سنی دانشور شرکت کر ر ہے ہیں۔
پوری دنیا خاص طور پر عالم اسلام کے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کانفرنس بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔
پہلی وحدت اسلامی کانفرنس انیس سو چھیاسی میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جانب سے بارہ سے سترہ ربیع الاول تک کے ایام کو ہفتۂ وحدت قرار دینے کے بعد منعقد ہوئی تھی۔ اس وقت سے لے کر اب تک یہ کانفرنس ہر سال تہران میں منعقد ہوتی ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے علمائے کرام، دانشور حضرات اور ممتاز شخصیات شرکت کرتی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹرمحمود احمدی نژاد نے چھبیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعادت مندانہ زندگی اتحاد کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ خدا وند متعال نے انسان کو مقابلے اور دشمنی کے لئے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ انسان کی تخلیق اس لئے ہوئي ہے کہ وہ تعاون، اتحاد اور محبت کے ساتھ ایسا ماحول بنائے کہ پوری انسانیت سعادت مندانہ زندگي سے ہمکنار ہوسکے اور یہ کہ جتنا اخلاص زیادہ ہوگا اتحاد و یکجہتی بھی اتنی ہی زیادہ ہوگي۔
صدر مملکت نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ دنیا اور علاقے کو درپیش مشکلات اور خطرات اختلافات سے پرہیز اور اتحاد کا تقاضا کرتے ہیں کہا کہ جو لوگ تسلط پسند اور اقتدار کے بھوکے ہیں وہ خدا اور حاکمیت خدا کی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہرگز نہیں ہوسکتے۔
حجاب، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے .
پہلا باب: اسلامی ثقافت میں حجاب کا مقام
فطری انسانی نظام
حجاب انسان کی فطرت سے ہم آہنگ اقدار کا جز ہے۔ دونوں صنف مخالف کا حد سے زیادہ آمیزش کی سمت بڑھنا، بے پردگی اور ایک دوسرے کے سامنے عریانیت فطرت انسانی اور مزاج انسانی کے خلاف عمل ہے۔ اللہ تعالی نے مرد و زن کی زندگی کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے اور فوائد کی بنیاد پر ایک فطری نظام قائم کیا ہے تاکہ وہ دونوں مل کر دنیا کا نظم و نسق چلائیں۔ کچھ فرائض عورتوں اور کچھ مردوں کے دوش پر رکھ دئے ہیں اور ساتھ ہی مرد و زن کے لئے کچ حقوق کا تعین کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر عورت کے حجاب کے سلسلے میں مرد کے لباس سے زیادہ سخت گیری کی گئی ہے۔ یوں تو مرد کو بھی بعض اعضا کو چھپانے کا حکم دیا گيا ہے لیکن عورت کا حجاب زیادہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عورت کے مزاج، خصوصیات اور نزاکت کو قدرت کی خوبصورتی و ظرافت کا مظہر قرار دیا گيا ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ کشیدگی، آلودگی اور انحراف سے محفوظ رہے اور اس میں گمراہی نہ پھیلے تو اس صنف (نازک) کو حجاب میں رکھنا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے مرد پوری طرح عورت کی مانند نہیں ہے اور اسے تھوڑی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس کی وجہ دونوں کی فطری ساخت اور اللہ تعالی کی نظر میں نظام حیات چلانے کے تقاضے ہیں۔
اسلام میں جمالیات کی اہمیت
اسلام میں جمالیات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ خوبصورتی، جمال پسندی اور خوبصورتی پیدا کرنا ایک فطری چیز ہے۔ البتہ یہ چیز جدیدیت سے کچھ مختلف ہے۔ جدیدیت اس سے زیادہ عام چیز ہے جبکہ آرائش اور پوشاک کا مسئلہ ایک خاص چیز ہے اور انسان بالخصوص نوجوان کو خوبصورتی پسند ہوتی ہے، اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ خود بھی خوبصورت لگے۔ ہم اکثر و بیشتر سنتے ہیں : " ان اللہ جمیل و یحبّ الجمال" اللہ تعالی جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ احادیث کی کتابوں میں وضع قطح درست رکھنے کے تعلق سے بہت سی روایات منقول ہیں۔ نکاح سے متعلق احادیث میں تفصیلی بیان ہے کہ عورت اور مرد اپنی وضع قطح پر توجہ دیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مردوں کو ہمیشہ سر منڈوائے رہنا چاہئے۔ جی نہیں، شریعت نے نوجوانوں کے لئے بال رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ روایت میں ہے: " الشعر الحسن من کرامۃ اللہ فاکرموہ" خوبصورت بال الہی وقار کی چیز ہے لہذا اس کی عزت کیجئے۔ اسی طرح روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم جب اپنے احباب سے ملنے جاتے تو پانی کے برتن میں اپنا چہرا دیکھتے اور اپنے بالوں کو سنوارتے تھے۔ اس زمانے میں آج کی طرح ہر گھر میں آئینہ نہیں ہوتا تھا۔ مدینہ کا معاشرہ یوں بھی غریبوں کا معاشرہ تھا۔ پیغمبر اکرم کے گھر میں ایک برتن میں پانی رکھا رہتا تھا اور جب بھی آپ اپنے احباب و اصحاب سے ملنے جاتے تو اس برتن کو آئینے کے طور پر استعمال فرماتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وضع قطح درست رکھنا اور اچھا لباس زیب تن کرنا شریعت اسلامی میں مستحسن چیزیں ہیں۔ برائی تب پیدا ہوتی ہے جب یہ چیزیں فتنہ و فساد کا باعث بننے لگیں۔
حجاب، اقدار کا جلوہ
مرد و زن کے ما بین ایک حد بندی کا موضوع مسلمانوں کے نزدیک ایک بنیادی اصول ہے۔ یہ واقعی ایک بنیادی اصول ہے۔ مسلمانوں کا اس پر ایقان ہے۔ حالانکہ یہ فروع دین کا جز ہے۔ حجاب فروع دین کا حصہ ہے۔ ناجائز طریقے سے مرد و زن کی آمیزش کی حرمت فروع دین کا جز ہے لیکن مرد و زن کے مابین حدود کا مسئلہ بذات خود اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ یہاں سیاہ چادر کی بات نہیں ہے، یہ خود کو اوپر سے ڈھانپ لینے کی بات نہیں ہے، یہ مسئلہ نہیں ہے کہ حجاب کی شکل کیا ہو۔ کیونکہ ممکن ہے کہ مختلف ادوار میں، مختلف مقامات پر اور مختلف مناسبتوں کے لحاظ سے اس کی شکل بھی مختلف ہو۔ لیکن بذات خود یہ حد اور یہ حفاظتی دیوار اسلامی نظرئے سے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ حجاب کا مسئلہ اقدار سے تعلق رکھتا ہے۔ حجاب حالانکہ خود تو بلند تر چیزوں کے لئے مقدمے اور تمہید کا درجہ رکھتا ہے لیکن بجائے خود بھی یہ اقدار میں شامل ہے۔ ہم جو حجاب پر اتنی تاکید کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حجاب سے عورت کو یہ آسانی ہوتی ہے کہ اپنے مطلوبہ معنوی و روحانی مقام پر پہنچ جائے اور اس کے سر راہ موجود لغزش کے اسباب و علل سے اس کے قدم نہ ڈگمگائیں۔
مرد اور عورت کے روابط
مرد و زن کے درمیان ایک حد بندی ہے، وہ آپس میں ایک دوسرے سے گفتگو کریں، لین دین رکھیں، بحث و تکرار کریں، دوستانہ انداز میں گفتگو کریں لیکن اس حد بندی اور حفاظتی فاصلے کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ یہ چیز اسلام میں ہے اور اس کا پاس و لحاظ ضروری ہے۔ مرد و زن کے درمیان قائم سرحد سے تجاوز اور عورت کے انسانی وقار کو مجروح کرنا اور اسے لذت کے سامان یا زرق برق مصنوعات کے استعمال کی مشین بنا دینا ممنوع ہے۔
اسلام عورت کو ایسا با شرف اور با وقار دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ قطعا اس بات پر توجہ نہ دے کہ کوئی مرد اسے دیکھے۔ یعنی عورت ایسی با وقار رہے کہ اس پر اس کا کوئی فرق نہ پڑے کہ کوئی مرد اسے دیکھ رہا ہے یا نہیں۔ یہ کہاں اور وہ کہاں کہ عورت کا اپنے لباس، اپنے میک اپ، اپنے طرز گفتگو اور چلنے کے انداز کے سلسلے میں سارا ہم و غم یہ ہو کہ مرد اسے دیکھیں؟! ان دونوں کے مابین کتنا فرق ہے؟!
خود نمائی ممنوع
اسلام میں تبرج ممنوع ہے۔ تبرج یعنی فتنہ انگیزی کی غرض سے مردوں کے سامنے عورتوں کی خود نمائی۔ یہ ایک طرح کا فتنہ ہے اور اس سے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے یہی ایک مسئلہ پیدا نہیں ہوتا کہ ایک نوجوان لڑکی یا نوجوان لڑکے سے گناہ سرزد ہو رہا ہے، یہ تو بالکل ابتدائی چیز ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سب سے معمولی چیز ہے، اس کا سلسلہ خاندانوں تک پہنچتا ہے۔ بے روک ٹوک اور بے لگام روابط خاندانوں کے لئے سم مہلک کا درجہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ خاندانوں کا دار و مدار عشق و محبت پر ہوتا ہے۔ خاندان کی عمارت عشق و الفت پر ٹکی ہوتی ہے۔ اگر یہ (جذبہ) عشق، خوبصورتی کا عشق اور صنف مخالف کا عشق، کسی اور جگہ تسکین پانے لگے تو کنبے کی محکم بنیاد ختم ہو جائے گی اور خاندان متزلزل ہو جائیں گے اور ان کی وہی درگت ہوگی جو آج بد قسمتی سے مغربی دنیا بالخصوص شمالی یورپ کے ممالک اور امریکا میں ہوئی ہے۔ خاندان بکھر کر رہ جائیں گے، یہ بہت بڑی بلا ہے۔ اس بلا کا نقصان سب سے پہلے خواتین کو ہی پہنچتا ہے۔ یوں تو مردوں کو بھی بے شمار مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن عورتوں کو زیادہ خسارہ ہوتا ہے اور پھر اس نسل کو جو دنیا میں آ رہی ہے۔ دنیا اور امریکا کی اس گمراہ نسل کو آپ دیکھ رہے ہیں؟ اس کا سرچشمہ وہی ہے۔ یعنی یہ چیز اس شر کا مقدمہ اور کنجی ہے جس سے پے در پے شر وجود میں آتا ہے!
حجاب اور عورت کی سماجی ترقی
اسلام چاہتا ہے کہ عورتوں کا فکری، علمی، سماجی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر روحانی ارتقاء اپنی بلند ترین منزل تک پہنچے اور ان کا وجود معاشرے اور انسانی کنبے کے لئے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر ثمرات اور فوائد کا سرچشمہ قرار پائے۔ اسلام کی تمام تعلیمات منجملہ حجاب کی بنیاد اسی چیز پر رکھی گئی ہے۔ حجاب، عورت کو معاشرے سے الگ کر دینے کے معنی میں نہیں ہے۔ اگر پردے کے سلسلے میں کسی کا تصور یہ ہے تو بالکل غلط ہے تصور ہے۔ حجاب، معاشرے میں مرد اور عورت کی بے ضابطہ آمیزش کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ یہ آمیزش معاشرے اور مرد و زن دونوں کے بالخصوص عورت کے نقصان میں ہے۔
دوسرا باب: مغربی تہذیب میں حجاب
اسلام اور مغربی تہذیب میں حجاب کا چیلنج
میں نے بارہا کہا ہے کہ یہ ہماری مجبوری نہیں ہے کہ ہم اپنے موقف کا دفاع کریں۔ دفاع تو مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت کو کرنا چاہئے۔ عورتوں کے سامنے جو بات ہم پیش کرتے ہیں اس کا کوئی بھی با شعور اور منصف مزاج انسان منکر نہیں ہو سکتا۔ ہم عورت کو عفت، پاکیزگی، حجاب، مرد و زن کی حد سے زیادہ آمیزش سے اجتناب، انسانی وقار کی حفاظت، غیر مردوں کے سامنے سجنے سنورنے سے اجتناب کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا یہ بری چیز ہے؟ یہ تو مسلمان عورت کے وقار کی ضمانت ہے، یہ عورت کے عز و شرف کی بات ہے۔ جو لوگ عورت کو اس انداز کے میک اپ کی ترغیب دلاتے ہیں کہ گلی کوچے کے لوگ اسے ہوسناک نظروں سے دیکھیں، انہیں اپنے اس نظرئے کا دفاع کرنا چاہئے کہ انہوں نے عورت کو اتنا کیوں گرا دیا ہے اور اس کی اس انداز سے تذلیل کیوں کر رہے ہیں؟! ان کو اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہماری ثقافت تو ایسی ثقافت ہے جسے مغرب میں بھی با شعور افراد اور اچھے انسان پسند کرتے ہیں اور اسی انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہاں بھی با عفت و متانت خواتین اور وہ عورتیں جو اپنی شخصیت کو اہمیت دیتی ہیں کبھی بھی غیروں کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کا ذریعہ بننا پسند نہیں کرتیں۔ مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت میں ایسی مثالیں بہت ہیں۔
یورپ میں حجاب کی قدر و قیمت کی نفی
مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں جواب دے جس نے گزشتہ ادوار سے موجودہ دور تک عورتوں کی اتنی توہین کی اور انہیں اتنا گرا دیا! آپ دیکھئے کہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتوں کو مالیاتی اختیارات حاصل نہیں تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجدو اور عجیب و غریب انداز کی بے پردگی کے باوجود جو مغرب میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس بے لگام جنسی اختلاط اور آمیزش کے باوجود جسے وہ عورت کے احترام اور قدر و قیمت کی علامت قرار دیتے ہیں، ان ساری چیزوں کے باوجود عورت کو یہ حق نہیں تھا کہ اس ثروت کو بھی جو اس کی اپنی ہوتی تھی، اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے! شوہر کے سامنے وہ اپنے مال و متاع کی بھی مالک نہیں ہوتی تھی۔ یعنی جو عورت شادی کرتی تھی اس کی ساری دولت اس کے شوہر کی ہو جاتی تھی۔ اسے یہ حق نہیں ہوتا تھا کہ خود اسے استعمال کرے۔ پھر رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل میں عورت کو مالکانہ حقوق ملے اور کام کی آزادی دی گئی۔ یعنی اس چیز سے بھی عورت کو محروم رکھا تھا جو بنیادی ترین انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہے۔ ان کا سارا زور اقدار کا درجہ رکھنے والے امور کے منافی چیزوں پر تھا۔ حجاب کے سلسلے میں ہم جو اتنی تاکید کرتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔
عریانیت اور الکحل ازم، یورپی روایت
اس وقت دنیا میں کچھ مخصوص چیزوں کے سلسلے میں بڑی حساسیت دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کسی شخصیت، کسی فلسفی، کسی سیاستداں نے عورت کی عریانیت کی مخالفت کر دی تو اس پر دنیا میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے! بہت سی بری عادتوں اور حرکتوں کے سلسلے میں یہ حساسیت نہیں ہے! اگر کوئی ملک پالیسی کے تحت شراب کی مخالفت کرنے لگے تو ایک شور شرابا مچ جاتا ہے اور تمسخرانہ مسکراہٹیں نظر آنے لگتی ہیں، اسے رجعت پسند کہا جانے لگتا ہے! یہ بھی کوئی ثقافت ہوئی؟ ثقافت کے جز کے طور پر عورت کی عریانیت اور نشے کو عمومی رواج کے طور پر متعارف کرانا کس کا کام ہے؟ اس کا تعلق یورپ سے ہے اور یہ چیز ان ممالک کی قدیمی تہذیب سے نکلی ہے۔ یہی چیزیں اب دنیا کے دیگر علاقوں میں مسلمہ رواج کا درجہ حاصل کر چکی ہیں اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو گویا اس سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ہو۔
مغرب کی متضاد باتیں
یورپی ممالک میں جو خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور اپنے پروپیگنڈوں میں ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی حقوق اور انسانوں کی آزادی کا موضوع ان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے یعنی انہی برطانیہ اور فرانس نے چند عورتوں یا لڑکیوں کو اتنی بھی اجازت نہیں دی کہ وہ اسلامی حجاب کے ساتھ آمد و رفت کر سکیں اور اسکولوں میں جائیں! اس مرحلے میں تو اکراہ و اجبار سب کچھ ان کے لئے جائز ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں رہ جاتا! لیکن اسلامی جمہوریہ پر اس وجہ سے کہ وہ معاشرے میں حجاب کو لازمی سمجھتا ہے ان حلقوں نے شدید اعتراض کیا ہے! اگر عورتوں کو کسی وضع قطع یا کسی لباس میں رہنے پر مجبور کرنا برا ہے تو یہ برائی حجاب کو ضروری قرار دئے جانے کی برائی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ (حجاب) سلامتی و تحفظ سے زیادہ نزدیک ہے۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ دونوں کی باتوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے لیکن مغرب کا نظریہ یہ نہیں ہے۔
مغربی ثقافت میں عورت کی تذلیل و تحقیر
عورتوں کے مسئلے میں ہمارا موقف دفاعی نہیں، جارحانہ ہے۔ مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہیں، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گيا ہے۔ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ عورتوں کے قضیئے میں ان کی مشکل اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گيا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ یہ جو سفارت کاری کے امور میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں اس سے اس کاری ضرب کی تلافی نہیں ہو سکتی جو مغرب نے عورت پر لگائی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں ہے۔ اسے چاہئے کہ سجے سنورے تاکہ مردوں کو اچھی لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔
حجاب، اسلامی ثقافت کی کنجی
کسی ملک پر دائمی قبضے اور تسلط کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی ثقافت بدل دی جائے۔ یعنی اس ملک کو قابض ملک کی ثقافت میں ڈھال دیا جائے تاکہ وہ پوری طرح ہتھیار ڈال دے۔ مغرب والوں نے ماضی میں مشرقی خطوں میں یہ کام کیا لیکن انہیں بہت کامیابی نہیں ملی۔ اس وقت وہ افغانستان میں یہی کام کرنا چاہتے ہیں اور یقینا ان کا ایک ہدف یہ ہے کہ شخصیت اور تشخص ساز بنیادوں کو ختم کر دیں۔ بات اسلام سے شروع کرتے ہیں۔ حجاب کی مخالفت کرتے ہیں، لوگوں کی دینداری اور مذہبی علامتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان اقدار کی حفاظت کرنا چاہئے انہیں تقویت پہنچانا چاہئے۔
مغرب اسلامی جمہوریہ کو، جہاں عورتوں کی پوشاک کی ایک لازمی شکل معین ہے، تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن ان ملکوں کے سلسلے میں اس کی تیوریوں پر کبھی بل نہیں پڑتے جنہوں نے عریانیت اور عورت اور مرد کے ما بین بے پردگی کو جبرا لازمی قرار دے دیا ہے! اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ (حجاب) مغرب کی عام ثقافت کے برخلاف ہے۔ یہ (مغرب والے) اس سلسلے میں بہت حساس ہیں۔
یورپ میں حجاب پر پابندی
ان حالیہ چند برسوں میں یورپ میں، فرانس، جرمنی اور کچھ دیگر ممالک میں حجاب کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے۔ کچھ لڑکیاں اسکارف کے ساتھ اسکول جا رہی تھیں، انہیں صاف منع کر دیا گيا کہ "بالکل ہو ہی نہیں سکتا" اس کی مخالفت کی گئی! دوسری طرف آپ یہ دیکھیں گے کہ عالمی معیاروں کی بات کی جا رہی ہے۔ جب وہ اسلامی جمہوریہ کو کچھ فرائض کی انجام دہی کی تلقین کرنا چاہتے ہیں تو جس چیز پر ان کی سب سے زیادہ تاکید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ " ایران کو خود کو عالمی معیارات سے ہم آہنگ کر لینا چاہئے" معیارات سے مراد یہی چیزیں ہیں! یعنی وہ چیزیں جو مغربی ثقافت سے میل کھاتی ہوں۔ تو مغرب کی جانب سے یہ سخت گیر رویہ اور یہ دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، جب بھی کوئی ثقافت بالخصوص یہ اسلامی ثقافت، جو اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتی ہے اور کمزور اور دفاعی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، آگے آنا چاہتی ہے تو اسے تذلیل، توہین اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تیسرا باب: ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں حجاب
حجاب کا اثر و نفوذ
آپ دیکھ رہے ہیں کہ عورتیں مختلف ممالک میں، خواہ وہ ایسے اسلامی ممالک ہوں جہاں حجاب کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور جو مغربی ثقافت میں غرق ہیں یا خود یورپی ممالک، حجاب میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ البتہ یہ میلان پہلے مسلمانوں کے یہاں نظر آیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم نے دیکھا کہ دور دراز کے ممالک نے بھی جو مغربی و یورپی تہذیب کے دلدادہ یا زیر اثر تھے، ایرانی خواتین کے حجاب کو اختیار کیا اور اس میں دلچسپی دکھائی۔ آج بھی مغربی دنیا اسلامی حجاب کی سمت بڑھ رہی ہے۔ میں نے شمالی افریقا کے مسلمان نشین علاقے کے ایک ملک میں دیکھا کہ عورتیں اور لڑکیاں ایرانی عورتوں کے حجاب کی طرز پر حجاب استعمال کر رہی ہیں۔ آج مغربی دنیا بھی رفتہ رفتہ اسلامی حجاب کی جانب راغب ہو رہی ہے۔
عالم اسلام کے مشرقی علاقے میں، جہاں تک اطلاعات حاصل ہو رہی ہیں، حقیقی و خالص و انقلابی اسلام کی عملی تصویر، ملت ایران کی اس عظیم تحریک کے اثرات لوگوں کے دلوں پر پڑے ہیں۔
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض مغربی ممالک میں، غیر اسلامی حکومتوں والے مسلم ممالک میں حجاب دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، یہ عورتوں میں حجاب کی گہری رغبت کی علامت ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں جہاں پردے پر توجہ نہیں دی جاتی تھی، اسلامی ممالک میں جہاں میں نے خود نزدیک سے مشاہدہ کیا کہ پردے اور حجاب کا نام لینا گوارا نہیں کیا جاتا تھا انقلاب کے بعد عورتیں بالخصوص روشن خیال خواتین اور خصوصا طالبات میں حجاب کی شدید رغبت نظر آنے لگی۔ انہوں نے حجاب کو اپنایا اور اس کی حفاظت کی۔
مغربی ثقافت کی جبری ترویج
جس نے مغربی تہذیب یعنی در حقیقت ایران پر مغرب کے تسلط کے حق میں اور برطانیہ کے سامراجی قبضے کے مفاد میں اس زمانے میں سب سے بڑا قدم اٹھایا وہ (سابق شاہ ایران) رضا خان تھا۔ موجودہ حالات میں یہ اقدامات کتنے شرمناک سمجھے جاتے ہیں کہ کوئی بادشاہ یکبارگی ملک کے قومی لباس کو بدل دے! ہندوستان اور دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں قوموں کے پاس اپنی پوشاک اور اپنا لباس ہے اور وہ اس پر فخر بھی کرتی ہیں، کسی طرح کی خفت محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن ان (ایران کے شاہی دربار سے متعلق) لوگوں نے یکبارگی اعلان کر دیا کہ یہ (قومی) لباس ممنوع ہے! کیوں؟ کیونکہ اس لباس کے ساتھ صاحب علم نہیں ہوا جا سکتا! واہ بھئی واہ! ایران کے عظیم ترین سائنسداں جن کی کتابیں اب بھی یورپ میں پڑھائی جاتی ہیں اسی ثقافت اور اسی ماحول میں پلے بڑھے۔ اس لباس کا (ان پر) کیا (منفی) اثر پڑا؟ یہ کیا بات ہوئی؟! اس طرح کی مسخرے پن کی باتیں کی گئيں۔ ایک قوم کا لباس ہی بدل دیا گيا۔ عورتوں کی چادر کو ممنوع کر دیا گيا۔ اعلان کر دیا گيا " چادر میں رہ کر عورت دانشور اور سائنسداں نہیں بن سکتی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی" میں سوال کرتا ہوں کہ ایران میں چادر پر پابندی لگا دینے کے بعد عورتوں نے سماجی سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیا؟ کیا رضا خان کے دور حکومت میں یا رضا خان کے بیٹے کے دور میں عورتوں کو سماجی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دی گئی؟! نہ مردوں کو اس کی اجازت دی جاتی تھی اور نہ عورتوں کو اس کا موقع ملتا تھا۔ جس وقت ایرانی خواتین سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اتریں اور انہوں نے ملک کو اپنے مقتدر ہاتھوں پر بلند کیا اور ملک کے مردوں کو بھی جد و جہد کے میدان میں کھینچا اس وقت وہ چادر پہنے ہوئے میدان میں آئی تھیں۔ چادر کے کیا منفی اثرات ہیں؟! کسی مرد یا کسی عورت کی سرگرمیوں میں لباس کب رکاوٹ بنتا ہے؟! یہ نادان، ان پڑھ غنڈہ رضاخان دشمن کے ہاتھوں میں پڑ گیا اور اس نے اچانک ہی ملک کا لباس بدل دیا۔ اس لئے کہ مغربی عورتوں کے ہاں سر برہنہ باہر نکلنے کا رواج تھا! مغرب سے یہ چیزیں لائی گئی تھیں۔ قوم کو جن چیزوں کی اشد ضرورت تھی وہ نہیں لائی گئیں۔ علم و دانش لانے کی کوشش نہیں کی گئی، تجربات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، سعی و کوشش اور محنت کی عادت کی پیروی نہیں کی گئی، مہم جوئی (کے جذبے) کو لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہر قوم میں کچھ اچھی صفات و خصائص ہوتے ہیں، ان صفات کو اپنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جو چیزیں لائی گئیں انہیں آنکھ بند کرکے قبول کر لیا گيا۔ جو افکار و نظریات لائے گئے وہ بغیر غور و فکر کے من و عن قبول کر لئے گئے۔ کہا گیا کہ چونکہ یہ مغربی (افکار و نظریات) ہیں اس لئے انہیں قبول کر لینا بہتر ہے۔ لباس، غذا، انداز گفتگو اور چلنے کی روش چونکہ مغربی ہے اس لئے اسے اپنا لینا چاہئے! اس میں کسی پس و پیش کی گنجائش نہیں ہے! کسی بھی ملک کے لئے یہ صورت حال مہلک زہر کی مانند ہوتی ہے۔ یہ قطعا درست نہیں ہے۔
مسلمان عورت پر مظالم
بے ضمیر اور پست سلطنتی نظام میں عورت حقیقت میں ہر لحاظ سے مظلوم تھی۔ اگر وہ علمی میدان میں وارد ہونا چاہتی تو اسے دین و تقوا و عفت و پاکیزگی سے کنارہ کشی کرنی پڑتی تھی۔ یہ کہاں ممکن تھا کہ مسلمان خاتون یونیورسٹی، تعلیمی مراکز، علمی و ثقافتی اداروں میں آسانی سے اپنے حجاب، متانت اور وقار کو برقرار رکھتی؟ یہ کہاں ممکن تھا کہ تہران اور بعض دیگر شہروں کی سڑکوں پر مسلمان خاتون اسلامی متانت و وقار کے ساتھ یا حتی آدھے ادھورے حجاب کے ساتھ آسانی سے گزر جائے اور اسے مغربی فحاشی و فساد کے دلدادہ افراد کے رکیک جملوں کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ نوبت یہ آ گئی تھی کہ اس ملک میں عورتوں کے لئے حصول علم تقریبا نا ممکن ہو گیا تھا۔ البتہ اس میں کچھ استثنا بھی ہے لیکن اکثر و بیشتر عورتوں کے لئے علمی میدان میں وارد ہونا ممکن نہیں ہو پاتا تھا۔ اس کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ حجاب ترک کر دیں اور تقوی و اسلامی وقار سے خود کو الگ کر لیں۔
ایران میں حجاب اور عورتوں کی سماجی ترقی
اسلام، انقلاب اور امام (خمینی رہ) نے اس ملک میں آکر عورت کو سیاسی سرگرمیوں کے محور و مرکز میں پہنچا دیا اور انقلاب کا پرچم خواتین کے سپرد کر دیا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ عورتوں نے اپنے حجاب و وقار و اسلامی متانت، دین و تقوا اور عفت و پاکدامنی سے بھی خود کو آراستہ رکھا۔ آج مسلمان ایرانی عورت کی گردن پر کوئی حق باقی نہیں رہ گيا ہے جو ادا نہ ہوا ہے۔
آپ غور کیجئے! جب ایک مسلمان عورت اپنی فطرت اور حقیقت کی سمت لوٹتی ہے تو کیسے کیسے شاہکار تخلیق کرتی ہے! بحمد اللہ ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام میں اس کا مشاہدہ کیا گيا اور آج بھی یہ چیز ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے کب عورتوں کی یہ قدرت و عظمت دیکھی تھی جو آج مادران شہدا کے ہاں دیکھ رہے ہیں؟! ہم نے نوجوان لڑکیوں کا یہ ایثار کہاں دیکھا تھا کہ وہ اپنے عزیز شوہروں کو محاذ جنگ پر بھیجیں اور یہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ ان میدانوں میں سرگرم عمل رہیں؟ یہ عظمت اسلام ہے جو انقلاب کے ایام میں اور آج بھی ہماری انقلابی خواتین کے چہروں سے ہویدا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ نہیں کیا جانا چاہئے کہ حجاب اور عفت کی حفاظت کے ساتھ، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کے ساتھ انسان علمی میدانوں میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ آج ہم اپنے سماج میں بحمد اللہ کتنی خاتون سائنسدانوں اور مختلف میدانوں کی ماہر عورتوں کو دیکھ رہے ہیں! محنتی، با صلاحیت اور با ارزش طالبات سے لیکر فارغ التحصیل خواتین اور ممتاز و صف اول کی ڈاکٹروں تک! اس وقت اسلامی جمہوریہ میں مختلف علمی شعبے خواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان عورتوں کے ہاتھوں میں جنہوں نے اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کی ہے، حجاب کی بھی مکمل پابندی کی ہے، اسلامی روش کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش بھی کی ہے، جو اسلام کا حکم ہے اسی انداز سے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض بھی انجام دئے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ علمی اور سیاسی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں۔ اسلامی ماحول میں، اسلامی مزاج کے ساتھ خاتون حقیقی کمال تک پہنچ سکتی ہے۔ آرائشی سامان اور استعمال کی چیز بنے بغیر۔
ایران کی مسلمان خواتین کا پیغام
ایرانی خواتین بالخصوص وہ عورتیں جو مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں، اسلام اور اسلامی احکامات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر حجاب کی پابندی کے ساتھ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہیں، وہ اپنے عمل سے دنیا کی عورتوں، لڑکیوں اور طالبات کو یہ دکھائیں کہ نہ تو تعلیم کے معنی بے راہروی کے ہیں اور نہ ہی تحصیل علم کا لازمہ مرد اور عورت کے ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے متعلق اخلاقی اصول و ضوابط سے بے اعتنائی ہے۔ ان ضوابط اور اقدار کی مکمل پابندی کرتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا بھی جا سکتا ہے اور ساتھ ہی مسلمان خاتون کے وجود کو اسلام کے عالمی پیغام کے ایک نمونے کے طور پر پیش بھی کیا جا سکتا ہے۔
چارلی چیپلن کا اپنی بیٹی گیرالڈن کے نام ایک خط
میری بیٹی !
ابھی رات کا وقت ہے ، ایک کرسمس رات ۔ تمام بےنام جنگیں میرے چھوٹے سے قلعے میں محوخواب ہیں ۔ تیرے بہن بھائیوں میں کوئی بھی نہیں جاگ رہا حتی آپ کی ماں بھی سوئی ہوئی ہیں.
میں تکیف کے ساته ان سوئے ہوئے پرندوں کے جگانے کے بغیر اپنے آپ کو اس چهوٹے کمرے تک _ موت سے پہلے ویٹینگ روم _ تک پہنچ سکا. میں تجه سے بہت دور ہوں لیکن میری آنکهیں اندهی ہوجائیں اگر ایک لمحہ تیری تصویر کو اپنے آپ سے جدا کروں۔ تیری تصویر وہاں میز پر ہے. یہاں میرے دل میں بهی ہے. لیکں تو کہاں ہے ؟ وہاں جادوگر پاریس میں. تهیٹر کے اسٹیج پر ناچتی ہے. رات کٹ سکوت میں تیرے قدم کی آواز کو سنتا ہوں. سرد اندهیرے پن میں تیری آنکهوں کے تاروں کی بجلی کو دیکهتا ہوں. میں نے سنا ہے، تیرا کردار اس تهیٹر میں ایرانی شہزادی ہے جو خان تاتار کی قیدی بن گئی ہے. شہزادی بن جاؤ اور ناچو. تارا بنو اور چمکو. لیکن اگر تماش بینوں کی تعریفی ٹهٹهہ نے اور یا اگر پهولوں کا مست کرنے والا جو تیرے لئے بهیج دیتے ہیں یہ اجارت دے۔ کسی گوشہ میں بیٹه جاؤ اور میرے خط کو پڑهو. اپنے باپ کی آواز کو سنو. میں چارلی چیپلن ہوں . جب تم بچی تهی تیرے سرهانے کے قریب بیٹهتا تها اور تمہیں کہانی سناتا تها. اسلیپینگ بیوٹی کی کہانی. میری آنکهوں کو نیند ستاتی تهی اور اسے طعنہ دیتا تها کہ جاؤ میں اپنی بیٹی کی نیند میں سو گیا ہوں. خواب دیکهتا تها تیرے ماضی کا خواب، تیرے حال کا خواب. کسی لڑکی کو اسٹیج پر دیکهتا تها. کسی فرشتے کو دیکهتا تها جو آسمان پر ناچتا ہے. اور سنتا تها کہ تماش بین یہ کہتے تهے : کیا اس لڑکی کو جانتے ہیں؟ وه اس بوڑهے مسخرے کی بیٹی ہے. کیا نام تها اس کا؟ چارلز! جی. میں چارلز ہوں. آج تیری باری ہے ۔ میں ٹکڑی ٹکڑی چوڑی پتلون کے ساته ناچتا تها. اور اب تو شہزادیوں کے ریشم کپڑوں میں ناچتی ہے. یہ ناچ اور تماش بینوں کی تالیاں بجانا تجهے آسمان تک لے جائے گا. جاؤ. وہاں بهی جاؤ. لیکن کبهی کبهار زمین پر بهی آؤ. عام لوگوں کی زندگی کو دیکهو. پهیری والیوں ، ناچنے والیوں کی زندگی جو اندهیری گلی میں بهوکے پیاسے ناچتے ہیں. ان پاؤں کے ساته جو اپنی بدقسمتی سے لرزتے ہیں. میری زندگی بهی ان کی طرح تهی. ان راتوں میں، تیری بچپن کی اچهی راتوں میں جب تو میری لوری کو سنتے سنتے سوتی تهی ۔ میں جاگتا رہتا تها. تجه پر نظر ڈالتا تها. تیرے دل کی دهڑکنوں کو گنتا تها. میں اپنے آپ سے پوچهتا تها، کیا یہ چهوٹی بلّی تجهے پہنچانے گی! تو مجهے نہیں جانتی ہے. میں نے تیرے لئے زیاده کہانیاں سنائی ہیں.
لیکن کبهی اپنی کہانی کو نہیں سنایا ہے. بهوکے مسخرے کی کہانی کہ لندن کے ادنی مقاموں میں گانا گاتا تها اور خیرات اکٹهی کرتا تها.
میں نے بھوکے پن کے مزه کو چکها ہے. میں نے آوارگی کے درد کو چکها ہے. میں پهیری والے مسخرے کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ جو اس کے دل میں ٹهاٹهیں مارتا ہے لیکن کسی مغرور راہگیر کا کہ اسے توڑ دیتا ہے. اگرچہ میری کہانی تیرے کام نہیں آتی ہے. میں نے اسی نام سے لوگوں کو ہنسایا.
جرالدین! دنیا میں صرف ناچنا اور گانا بجانا نہیں. آدهی رات جب ہال سے باہر نکلتی ہے. امیر تعریف کرنے والوں کوبهول جاؤ. اب ٹیکسی ڈرائیور کے حال کو پوچهو. اگر ضرورتمند تها کچه رقم کپڑا خریدنے کے لئے اسے دے دو. چیک لکه کر اس کی جیب میں رکهو.
میں اپنے عامل کو پیرس میں آرڈر دے چکا ہوں. صرف تیرے ایسے خرچوں کو بے پوچه گچھ مان لے. لیکن دوسرے خرچوں کے لئے بل بهیجنا چاہیئے.
کبهی کبهار بس یا مٹرو کے ذریعہ شہر کی سیر کرو. اور یتیم بچوں پر نظر ڈالو.
میری پیاری بیٹی فن، سب سے پہلے تیرے پاؤں کو ٹور دیتا ہے. اور اس کے بعد تجهے اڑانے کے لئے پر دیتا ہے. اگر تو اپنے آپ کو تماش بینوں سے افضل جان لے اسی لمحے میں اسٹیج کو چهوڑ دو . اور ٹیکسی کے ذریعہ اپنے آپ کو پیرس کے اردگرد تک پہنچاؤ. میں وہاں کو اچهی طرح جانتا ہوں. پہلے وہاں خانہ بدوشوں کا بہاری پنگھوڑا تها. تیرے جیسی ناچنے والیاں. تجه سے خوبصورت، ہوشیار اور مغرور. وہاں شانزه لیزه تهیٹر کے کهوج روشنی کی انهی کرنے والی روشنی نہیں. خانہ بدوش ناچنے والیوں کی روشنی، چاند کی روشنی ہے.
کیا تجه سے بہتر نہیں ناچتے ہیں؟! اقبال جرم کرو. میری بیٹی یہ جان لو، چالی کے گهرانے میں ہرگز کوئی آدمی اس قدر گستاخ نہیں تها کہ ٹانگے والے اور غریب آدمی کو گالی دے سکے.
توہین کا سامنا کیا مگر حجاب کو اختیار کیا
محترمہ زھرا گونزالس
محترمہ زھرا گونزالس ایک امریکی مسلمان ہیں ۔ انہوں نے ایک مراسم بنام " جشنوارہ دختران آفتاب " میں مغربی ممالک کی مسلمان خواتین کے لیۓ حجاب کے متعلق پائی جانے والی مشکلات کے متعلق بات کرتے ہوۓ کہا مسلمان عورتیں یورپی ممالک میں خود کو محجب رکھنے کے لیۓ بہت ہی سختیاں جھیلتی ہیں ۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوۓ اس پر ایک طرح کا لرزہ طاری تھا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر افسوس ہوتا ہے کہ ایران اور دوسرے بہت سے اسلامی ممالک، جہاں پر حجاب آزاد ہے اور مسلمان خواتین آسانی سے اپنی عزت و حرمت کو پوشیدہ رکھ سکتی ہیں مگر اس کے باوجود بعض عورتیں اپنے حجاب کا خیال نہیں رکھتی ہیں ۔
انہوں نے اپنے متعلق بتاتے ہوۓ کہا کہ میری عمر کوئی 12 یا 13 برس ہو گی جب میری والدہ مشرف بہ اسلام ہوئیں تھیں۔ میری ماں نے مسلمان ہونے کے بعد کسی جبر کے بغیر مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو اسلام کی دعوت دی جسے ہم سب نے بڑی محبت اور چاہت کے ساتھ قبول کر لیا اور اسلام کے دائرے میں داخل ہو گۓ ۔ اس دن کے بعد سے میں حجاب کرکے باہر آیا کرتی تھی ۔ مجھے اچھی طرح سے وہ دن یاد ہے جب اسکول میں پہلی بار میں سر پر روسری رکھ کر گئی تھی ۔ اس دن میں نے روسری پہن کر بار بار خود کو آئینے کے سامنے دیکھا ۔ میں روسری پہن کر بڑی خوشی محسوس کر رہی تھی اور چاہتی تھی کہ میرے دوست بھی میری اس خوشی میں شامل ہوں ۔ میرا تو خیال یہ تھا کہ میرے سارے دوست میری اس روسری کو دیکھ کر بہت خوش ہونگے مگر اس صبح جیسے ہی سکول کی بس پہنچی تو بس میں داخل ہونے والی آخری نفر تھی ۔ مجھے دیکھتے ہیں سارے بچے ساکت سے ہو گۓ ۔ اس کے بعد ایک نے آواز لگائی کہ اسے دیکھو ! سر پر کیا رکھا ہے ۔ ایک دوسرے بچے نے میری طرف گندی چیز پھینکی ۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا اور میرا دل کرتا تھا کہ بس سے اتر کر بھاگ جاؤں مگر اسی دوران بس کے ڈرائیور نے دروازہ بند کرتے ہوۓ بس کو چلا دیا تھا ۔ میں بڑی مشکل سے اپنی جگہ پر جا کر بیٹھی ۔ اس دن میں نے مدرسہ تک کا فاصلہ بہت ہی سختی کے ساتھ طے کیا مگر ان سب کے جملوں اور بدتمیزیوں کو برداشت کرتی رہی ۔ مدرسے پہنچ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ جیسے میری روسری گیلی ہو چکی ہے ۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ میرے پیچھے بیٹھے ہوۓ بچے باری باری میرے سر پر تھوکتے رہے تھے جس کی وجہ سے میری روسری گیلی ہو گئی ۔ اس کے بعد یہ ماجرا تقریبا ہر روز میرے لیۓ عادی ہو چکا تھا جس کی وجہ سے میں ہمیشہ دو یا تین روسریاں اپنے ساتھ رکھا کرتی تھی تاکہ اگر ایک خراب ہو جاۓ تو اتار کر دوسری پہن لوں ۔
محترمہ گونزالس بڑے جذبے کے ساتھ یہ ساری داستان بیان کر رہی تھی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ بالکل بھی ان یادوں سے ناراحت نہیں تھیں ۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ ان واقعات کو یاد کرکے غمگین ہوتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا !
کیا میں حضرت زینب (س) سے افضل ہوں ؟ جنہوں نے کربلا کے سارے دکھوں اور تکالیف کو خوشی کے ساتھ برداشت کیا ۔
ھرگز نہیں !
اب میں اپنے مسلمان ہونے پر ایک چھوٹا سا وظیفہ ادا کرکے بھلا کیوں غمگین ہوں ۔
مکہ مسجد – حيدرآباد هندوستان
مکہ مسجد : Makkah Masjid - మక్కా మసీదు- بھارت کی ریاست آندھرا پردیش کا دارالحکومت شہرحیدرآباد، دکن کی ایک عظیم مسجد ہے۔
یہ مسجد پرانے شہر میں واقعہ ہے۔ اس کے اطراف و اکناف چار مینارچومحلہ پیلس، لاڈ بازار وغیرہ ہیں۔
اس مسجد کی تعمیر میں استعمال کی گئی اینٹوں کو شہر مکہ سے منگوائی گئی مٹی سے بنایا گیا ہے۔
اس مسجد کی تعمیر چھٹویں قطب شاہی سلطان سلطان محمد قطب شاہ نے تعمیر کروایا۔ اس کے تین آرچ ایک ہی پتھر سے تراشے گئے ہیں۔ اس کی تعمیر میں 8000 کاریگروں نے کام کیا۔
مکہ مسجد ۔ 19ویں صدی کے اواخر میں
حج : امام خمینی(رہ) کی نظر میں
مشرقی اور ا سلامی ممالک جب تک اسلام کو پا نھیں لیتے با عزت زندگی نھیں گزار سکتے ۔ مسلمانوں کو چاھئے کہ وہ اسلام کی جستجو کریں ۔ اسلام ان سے دورھو گیا ھے ۔ ھم آج نھیں جانتے کہ اسلام کیا ھے ؟ مغرب والوں اور ان ظالموں نے ھمارے ذھن غلط افکار سے اس قدر بھر دیئے ھیں کہ ھم نے اسلام کو گنوادیا ھے ۔ جب تک اسلام کو نھیں پا لیتے اصلاح نا ممکن ھے ۔ اس مرکز یعنی کعبھٴ معظمہ کہ جھاں ھر سال مسلمان جمع ھوتے ھیں ، سے لے کر اسلامی ممالک کے آخری نکتہ تک اسلام کا نام و نشان نھیں ملتا ۔ وہ نھیں جانتے کہ اسلام کیا ھے ۔ یھی وجہ ھے کہ مسلمان مکہ معظمہ میںکہ جو ایسا مقام ھے جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کے روحانی اجتماع کے لئے مرکز قرار دیا ھے، جمع تو ھوتے ھیں مگر نھیں جانتے کہ وہ کیا کر رھے ھیں ۔ وہ اس سے اسلامی فائدہ نھیں اٹھاپاتے ۔ اس سیاسی مرکز کو ایسے امور میں تبدیل کر دیا گیاھے کہ جن کے سبب مسلمانوں کے تمام مسائل غفلت کا شکار ھو گئے ھیں ۔
اسلام کو تلاش کرنا چاھئے ۔ مسلمان اگر حقیقت حج کو درک کر لیں ، اسلام کی طرف سے حج میں جو سیاست اختیار کی گئی ھے ،صرف اسی کو درک کر لیں تو حصول استقلال کے لئے کافی ھے ۔ لیکن افسوس ھم نے اسلام کو کھو دیا ھے وہ اسلام جو ھمارے پاس ھے اسے سیاست سے بالکل جدا کر دیا گیا ھے ۔ اس کا سر کاٹ دیا گیا ھے۔ وہ چیز کہ جو مقصود اصلی تھی اس سے کاٹ کر جدا کر دی گئی ھے اور بچا کھچا اسلام ھمیں تھما دیا گیا ھے ۔ ھم سب کو یہ دن دیکھنا پڑرھے ھیں کہ ھم نھیں جانتے کہ راز اسلام کیا ھے ۔ ھم سب مسلمان جب تک اسلام کو درک نھیں کر لیتے اپنی عظمت اور وقارکو حاصل نھیں کر سکتے ۔
عظمت اسلام ، آغاز اسلام میں تھی کہ جب ایک چھوٹی سی جماعت نے دو سُپر طاقتوں کو ختم کر دیا تھا ۔ وہ عظمت اسلام ، حدود مملکت کی وسعتوںکی وجہ سے نھیں تھی بلکہ تعمیر انسانیت کی وجہ سے تھی ۔ یہ خیال اشتباہ ھے کہ اسلام حدود مملکت کی وسعتوں کے لئے ھے ۔ اسلام سرحدوں کو وسیع نھیں کرنا چاھتا بلکہ وہ چاھتا ھے کہ تمام ممالک کے لوگ انسان بن جائیں ۔ اسلام خواھش مند ھے کہ جو انسان نھیںھیں وہ انسان بن جائیں ۔ ایک جنگ میں کچہ لوگوں کو قیدی بنایا گیا ، تاریخ میںلکھا ھے کہ انھیں ( مسلمانوں نے ) باندہ رکھا تھا ۔ رسول اللہ کے سامنے لایا گیا ۔ آپ نے فرمایا :� دیکھو مجھے چاھئے کہ میں ان لوگوں کو زنجیروں کے ساتہ جنت میں لے جاؤں �۔ اسلام معاشرے کی اصلاح کے لئے آیا ھے ۔ اگر اس نے تلوار استعمال کی ھے و ہ صرف اس لئے کہ جو لوگ فاسد ھیں انکی اصلاح ھو ، انھیں ختم کیا جائے تاکہ دوسروں کی اصلاح ھو جائے ۔
حج کے سیاسی پھلو سے غفلت
حج کے تمام پھلوؤں میں سے سب سے زیادہ غفلت اور لا پرواھی کا شکار ان عظیم مناسک کا سیاسی پھلو ھے ۔ خیانت کاروں کی سب سے زیادہ فعالیت اس امر سے غافل کرنے میں رھی ھے اور رھے گی کہ اس کا یہ پھلو کسی گوشے میں مقید ھو جائے ۔ آج کے دور میں کہ جب دنیا میں جنگل کا قانون چل رھا ھے ،مسلمان گذشتہ زمانوں کی نسبت زیادہ ذمہ دار ھیں کہ وہ اس پھلو کے بارے میں اظھار کریں اور اس سے متعلق ابھامات دور کریں کیونکہ بین الاقوامی بازی گر مسلمانوں کو غفلت میں ڈال کر انھیں پسماندہ رکہ کر نیز مفاد پرست حکمراں ، نادان اور غفلت زدہ افراد ، درباری و کج فھم مُلا اور جاھل عابد سب دانستہ و غیر دانستہ مل کر اس تقدیر ساز اور مظلوموں کے نجات دھندہ پھلو کو ختم کرنے کے در پے ھیں ۔
فرض شناس ، بیدار اور دل سوز افراد اسلام کی غربت کے پیش نظر اور احکام اسلام سے اس سیاسی پھلو کے متروک ھو جانے کے خطرے کے پیش نظر ، خصو صاً حج کے دوران کہ جھاں یہ پھلوزیادہ نمایاں اور ظاھر ھے ، اٹہ کھڑے ھوں اور قلم ،بیان ، گفتار اور تحریر کے ذریعے جد و جھد کریں ۔ حج کے ایام میں اس کی زیادہ کوشش کریں کیونکہ ان مراسم کے اختتام پر دنیا کے مسلمان جب اپنے شھروں اور علاقوں کی طرف لوٹتے ھیں تو وہ اس عظیم پھلو کو مد نظر رکھتے ھوئے وھاں کے مسلمانوں اور دنیا کے مظلوموں کو بیدار کر سکتے ھیں ۔ امن کے دعویدار ستمگروں کے روز افزوں ظلم سے نجا ت حاصل کرنے کے لئے انھیں حرکت اور انقلاب کےلئے تیار کر سکتے ھیں ۔
یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ اگر اس عظیم عالمی اجتماع میں کہ جھاں اسلامی اقوام کے مظلوم اورھر مذھب ، قوم ، زبان ، فرقے ، رنگ اور جغرافیہ سے تعلق رکھنے والے تمام طبقات ایک جیسے لباس میں ھر قسم کے تصنع اور بناوٹ سے پاک ھو کر اکٹھے ھوتے ھیں،اسلام اور مسلمانوں اور دنیا کے تمام مظلوموں کے بنیادی مسائل حل نہ ھوں اور ظالم و جابر حکومتوں سے نجات پانے کی کوئی سبیل نہ کی جائے تو پھر چھوٹے علاقائی اور لوکل اجتماعات سے کچہ نہ بن پڑے گا اور کوئی ھمہ گیر راہ حل ھاتہ نہ آئے گا ۔
حقیقی حج ابراھیمی و محمدی صدیوں سے متروک ھو چکا ھے
حجاج محترم کو جاننا چاھئے کہ ابراھیمی و محمدی حج سالھا سال سے غریب الوطن اور متروک ھے ۔ اس کے معنوی و عرفانی اور سیاسی و اجتماعی پھلو متروک ھیں ۔ تمام اسلامی ممالک کے حجاج کرام کو چاھئے کہ خانھٴ خدا کے ان تمام پھلوؤں کا تعارف کرائیں ۔ اس کے عرفانی و روحانی اسرار کا تعارف کرانا حجاج کے ذمے ھے ۔ ھمارا مورد بحث پھلو اس کا سیاسی اور اجتماعی پھلو ھے ۔یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ ھم اس کے سیاسی پھلوسے کوسوں دور ھیں ۔ اس نقصان کی تلافی کرنا ھماری ذمہ داری ھے ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام و محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت پر منعقد کی جانے والی یہ سراپا سیاسی، کانفرنس کہ جس میں دنیا کے گوشہ و کنار کے لوگ جمع ھوتے ھیں ، انسانوں کے فائدے اور عدل و قسط قائم کرنے کے لئے ھے ۔ یہ کانفرنس حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بت شکینوں کا تسلسل اور موسیٰ علیہ السلام کی طاغوت شکنی و فرعون شکنی کا دوام ھے ۔ شیطان بزرگ امریکہ اور عالمی طاغوتوں سے بڑے اور کون سے بت ھو سکتے ھیں کہ جو دنیا کے تمام مستضعفوں کو اپنی اطاعت اور مدح سرائی کے لئے مجبور کرتے ھیں اوراللہ کے تمام آزاد بندوں کو اپنا فرمانبردار غلام سمجھتے ھیں ۔
فریضہ ٴ حج ، حق کی آواز پر لبیک کھنے اور حق تعالیٰ کے طرف ھجرت کرنے کا نام ھے اور یہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت محمد(ص) کی برکتوں سے ھے ۔ یہ شیطان زادوں سے اظھار براٴت کرنے کی جگہ ھے ۔عالمی لیٹرے شیطان بزرگ امریکہ اور جارح بے دین روس سے بڑا اور کون سابُت ھو سکتا ھے ؟ ھمارے زمانے کے طاغوتوں سے بڑا طاغوت اور کون سا ھو سکتا ھے ؟
لبیک لبیک کھہ کر تمام بتوں کی نفی کریں اور تمام چھوٹے چھوٹے طاغوتوں کے خلاف � لا � کی فریاد بلند کریں ۔ طواف ِحرم حق عشق کی علامت ھے ۔ طواف کرتے ھوئے دلوں سے غیر اللہ کی محبت نکال دیں ۔ اپنی روح پاک کریں ۔ حق کے ساتہ عشق کے موقع پر چھوٹے بڑے بتوں ، طاغوتوں اور ان کے ھمکاروں سے اظھاربر اٴت کریں ۔ اللہ اور اس کے پیاروں نے ان سے اظھار بیزاری کیا ھے اور دنیا کے تمام آزاد انسان ان سے بیزار ھیں ۔
حجر الاسود کو مس کر کے اللہ کے ساتہ بیعت کریں کہ اس کے اور اس کے رسولوںاور صالح وآزاد بندوں کے دشمنوں کے دشمن رھیں گے۔وہ کوئی بھی ھوں اور جھاں بھی ھو ان کی اطاعت و بندگی کے لئے سر تسلیم خم نھیں کریں گے ۔
خوف و وحشت دل سے نکال دیں کیونکہ دشمنان خدا ،جن میں سر فھرست شیطان بزرگ ھے ،ھی بے بس و عاجز ھیں اگر چہ وہ آدم کشی اور تباھی و جرائم کے ھتھیاروں میں دوسروں پر برتری رکھتے ھوں ۔
صفا و مروہ کے درمیان ،سعی کے وقت ، صدق و صفا کے ساتہ محبوب کو پا نے کی سعی کریں کیونکہ اسے پالینے سے تمام دنیاوی و ابستگیاں ختم ھو جاتی ھیں ، سب تو ھمات اور شکوک مٹ جاتے ھیں ، خوف ، حیوانی خواھشات اور سب مادی دلچسپیاں ختم ھو جاتی ھیں ۔ آزادیاں کھل اٹھتی ھیں ۔ شیطان اور طاغوت بندگان خدا کو اسارت و اطاعت کے جن زندانوں میں مقید کرتا ھے وہ منھدم ھو جاتے ھیں ۔
شعور و عرفان کی حالت میں مشعر الحرام اور عرفات میں داخل ھو جائیں ۔ ھر ایک مقام پر اللہ کے و عدوں اور حکومت مستضعفین سے متعلق اپنے اطمینان قلب میں اضافہ کریں۔ سکوت و سکون کے ساتہ حق کی نشانیوں میں غور و فکر کریں ۔ محروموں اور مستضعفوں کو عالمی استکبار کے چنگل سے آزاد کرنے کی فکر کریں ۔ ان مقدس مقامات پر اللہ سے دعا کریں کہ وہ نجات کی راھیں پیدا کرے ۔
اس کے بعد منیٰ میں جائیں اور حقیقی آرزؤں کو وھاں تلاش کریں ۔ یاد رکھیں کہ جب تک آپ اپنے محبوبوں سے کہ جن میں سر فھرست حب نفس ھے اور حب دنیا اس کی تابع ھے ،سے کنارہ گیری نھیں کر لیتے ،محبوب مطلق تک رسائی نا ممکن ھے ۔ ایسی حالت میں شیطان کو رجم کریں تاکہ وہ آپ سے دور بھاگ جائے ۔ رجم شیطان کو مختلف مواقع پر اللہ کے احکامات کے مطابق تکرار کریں تاکہ شیطان اور شیطان زادے بھاگ جائیں ۔
فطری آرزوؤں اور انسانی تمناؤں کو حاصل کرنے کے لئے اعمال حج میں شرط ھے کہ تمام مسلمان ان مراحل و مقامات پر جمع ھوں اور مسلمانوں کے گروھوں میں وحدت کلمہ ھو ، زبان، رنگ ،قبیلہ ،گروہ ، سر حد اور قومیت کے فرق اور دور جاھلیت کے تعصبات کے بغیر متحد ھو کر اس دشمن مشترک پر ٹوٹ پڑیں کہ جو اسلام عزیز کا دشمن ھے اور موجودہ دور میں اس نے اس اسلام سے زخم کھائے ھیں ۔ وہ اسلام کو اپنے اھداف کے سامنے حائل خیال کرتا ھے ۔ وہ چاھتا ھے کہ فرقہ واریت اور نفاق کے ذریعے اس محسوس رکاوٹ کو اپنے راستے سے ھٹا دے ۔ ان کے کارندوں میں سر فھرست وہ دنیا پرست ، درباری اور حاسد مُلّا ھیں جو ھر جگہ اور ھر وقت خصوصاً ایام حج اور مراسم حج میں۔ ان برے مقاصد کے حصول پر مامور ھوتے ھیں۔ مسلمانا ن عالم کے مراسم دعا کا سب سے اھم مقصد مستضعفین کے مفادات کا دفاع کرنا ھے ۔
مسلمانوں کے لئے اسلامی ممالک سے عالمی لیٹروں کے تسلط کے خاتمے سے بڑا اور کون سا نفع ھو سکتا ھے ۔ ان مراسم عبادت میں مسلمانوں پر لازم ھے کہ وہ ھوشیاری کے ساتہ ان خبیث کارندوں اور فرقہ پرست ملاؤں کے خلاف اسلام اور خلاف قرآن کرتوتوں پر کڑی نظر رکھیں ۔ ان لوگوں کو کہ جو نصیحت کے با وجود اسلام اور مفاد مسلمین کے خلاف اپنے کوشیشیں جاری رکھتے ھیں، دور مار بھگائیںکیونکہ یہ طاغوتوں سے کھیں زیادہ پست ھیں ۔
حج وعبادت
توجہ رھے کہ سفر حج ،تجارت اور حصول دنیا کا سفر نھیں ھے بلکہ سفر الی اللہ ( اللہ کی طرف سفر) ھے ۔آپ خانھٴ خدا کی طرف جا رھے ھیں ۔ آپ جتنے بھی امور انجام دیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے انجام دیں ۔ یھاں سے آپ کا جو سفر شروع ھو رھا ھے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سفر ھے ۔ انبیا علیھم السلام اور ھمارے بزرگان دین کی تمام تر زندگی سفر الی اللہ سے عبارت تھی اور وہ � وصول الی اللہ � کے ھدف سے ایک قدم بھی ادھر اُدھر نہ رکھتے تھے۔
عبادت و سیاست باھم مدغم ھیں
اسلام میں موجود عید الفطر ، عید الاضحیٰ ، حج ،مقامات ِ حج ، نماز جمعہ و جماعت اور روز و شب کی با جماعت نمازوں جیسے امور اور مواقع عبادی پھلو بھی رکھتے ھیں اور سیاسی و اجتماعی پھلوبھی ۔ اسلام کا جنبھٴ عبادی اس کے جنبھٴ سیاسی میں ھے ۔ یہ دونوں پھلو باھم مدغم اور ایک دوسرے میں ضم ھیں ۔ دین اسلام فقط عبادی نھیںھے۔ یہ بندے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ما بین فقط ایک تعلق کا نام نھیں ھے ۔ اس کی سیاست اس کی عبادات میں مدغم ھے اور اس کی عبادت سیاست میں رچی بسی ھے ۔یعنی عبادی پھلو ھی سیاسی پھلو ھے ۔ عیدوں کے موقع پر اجتماعی نماز ،عبادت ھے لیکن یہ اجتماع بذات خود سیاسی پھلو بھی رکھتا ھے ۔ مسلمانوں کو چاھئے کہ ان اجتماعات سے خوب فائدہ اٹھائیں ۔
صرف عالم دین ھی کو نھیں بلکہ سب گروھوں کو سیاست میں حصہ لینا چاھئے ۔ سیاست مال و دولت کی طرح کوئی موروثی چیز نھیں ھے۔ اسی طرح یہ کوئی پارلیمنٹ یا بعض خاص افراد سے بھی مختص نھیںھے ۔ سیاست کا معنی کسی ملک کی چیزوں کی وضعیت کے پیش نظر اس ملک کا نظام چلانا ھے ۔تمام مسلمان اس معنی کے لحاظ سے سیاست میں حصہ لینے کا حق رکھتے ھیں ، عورتوں کو حق پھنچتا ھے کہ وہ سیاست میں حصہ لیں ۔ ان کی یہ ذمہ داری بھی ھے ۔ علماء کو بھی حق پھنچتا ھے کہ سیاست میں حصہ لیں ۔ ان کی بھی یہ ذمہ داری ھے ۔ دین اسلام دین سیاست ھے ۔ اس طرح سے کہ اس کی عبادت بھی سیاست ھے ۔ آپ دیکھیں کہ یھی نماز جمعہ طاغوت کے زمانے میں ( شاہ کے دور میں ) درست طور پر بر پا نھیں ھو سکتی تھی ۔ کبھی چپکے سے کسی ایک مسجد میں نماز پڑہ لیتے تھے جبکہ نماز جمعہ کی وضیعت ایسی نھیں ھے بلکہ ویسی ھے کہ جیسی اب انجام پاتی ھے ۔
نماز جمعہ عبادت ھونے کے ساتہ ساتہ ایک سیاسی اجتماع ھے ، نماز جمعہ کے خطبے میں دور حاضر کے سیاسی مسائل زیر بحث آنے چاھئیں ،اس میں مسلمانوں کی مشکلات کو ذکر ھونا چاھئے نماز جماعت بھی اسی طرح ھے ۔نماز جماعت میں ایک محلے کے لوگوں کا اجتماع ھوتا ھے ، یہ اس لئے ھے تاکہ یہ لوگ اپنی مملکت کے حال سے آگاہ ھوں ۔ اپنی مشکلات سے آگاہ ھوں اور انھیں دور کریں ۔ مکہ میں مختلف جگھوں پر عظیم اجتماع ، منیٰ میں ، عرفات میں ، مشعر میں ، مکہ میں اور مدینہ میں اجتماع ، اسلامی ممالک کے تمام طبقوں کا اجتماع ، ان سب مسلمان کا اجتماع کہ جو استطاعت رکھتے ھیں اور مشرف ھوتے ھیں ۔ یہ سب سیاسی امور ھیں ۔ ھر مقام پر اس کی اپنی حد کے مطابق اجتماعی اعمال رکھے گئے ھیں،کبھی شھر کی حد تک اور کبھی گاؤں کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لوگوں میں سے بھت سے ایسے لوگ ھیں جو مسائل حج کو اچھی طرح سے نھیں جانتے آپ جھاں کھیں بھی ھوں عوام کو جمع کریں اور ان سے با قاعدہ مسائل حج بیان کریں ۔ واجبات و محرمات وغیرہ بیان کریں ۔ علاوہ ازیں وہ مسائل بھی کہ جو مسلمانوں سے بیان کئے جانے چاھئیں ۔ اس کے لئے ان کے ساتہ مل کر بیٹھیں ۔ البتہ یہ سب ایک نظام اور پروگرام کے تحت ھونا چاھئے ۔ انھیں متوجہ کریں کہ امریکہ دنیا کے اس کونے سے کیوں آئے اور آپ کا نظام چلائے ، وہ خلیج فارس کا نظام کیوںچلائے ؟ خلیج فارس کا امریکہ سے کیا مطلب ؟ وہ کون ھے کہ اس کونے سے خلیج فارس کو کنٹرول کرے ؟ یہ کام ھمیں خود کرنا چاھئے ، امریکہ کا اس سے کیا تعلق ھے ؟ مسلمانوں کو یہ کام خود سے کرنا چاھئے ۔خلیج کے رھنے والوں کو یہ کام کرنا چاھئے ۔ھماری خواھش ھے کہ ھم تمام اسلامی ممالک کے ساتہ بھائی چارہ قائم کریں ، ھم سب کی بھلائی چاھتے ھیں ۔ ھم چاھتے ھیں کہ وہ با عزت ھوں ۔ ھم چاھتے ھیں کہ وہ امریکہ کے غلام نہ ھوں ۔ امریکہ دنیا کے اس حصے سے ھم پر سرداری نہ کرے ۔ اس طرف سے روس بھی ( ایسا نہ کرے ) آپ آپس میں اکٹھے ھوں ۔ آپ کی یھی حکومتیں آپس میں اکٹھی ھوں ۔ آپ کی قومیں آپ کے پیچھے ھیں ۔ آپ قوموں سے اچھا سلوک کریں ۔ اگر آپ نے ایسا کیا اور اسلامی اصولوں کو ملحوظ رکھا تو یہ قومیں آپ کے ساتہ ھیں ۔ پھر آپ کو کوئی نقصان نھیں پھنچ سکتا ۔
مقامات مقدسہ پر آنے والے مسلمان جس قوم و مذھب سے بھی ھوں انھیں یہ بات بخوبی جاننا چاھئے کہ اسلام ، قرآن کریم اور عظیم الشان رسول کا اصل دشمن بڑی طاقتیں بالخصوص امریکہ اور اس کی نا جائز اولاد اسرائیل ھے ۔ ان کی نگاہ حرص اسلامی ممالک پر لگی ھے ۔ وہ ان ممالک کے زیر زمین اور بالائے زمین عظیم خزانوں کو لو ٹنے کے لئے کسی بھی ظلم و سازش سے ھاتہ اٹھانے والے نھیں ھیں ۔ اس شیطانی سازش میں ان کی کامیابی کا راز یہ ھے کہ وہ جس طرح سے بھی ممکن ھو سکے مسلمانوں کے مابین تفرقہ پیدا کریں ۔ ممکن ھے مراسم حج میں ایجنٹ ملاؤں جیسے افراد شیعہ و سنی کے مابین تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس شیطانی کام میں اتنا آگے بڑہ جائیں کہ بعض سادہ دل ان کی باتوں کا یقین کر بیٹھیں اور یوں وہ تفرقہ و فساد کا موجب بنیں ۔ ھر دو فرقوں کے بھائی بھن ھوشیار رھیں اور یہ بات جان لیں کہ کور دل و ظیفہ خوار چاھتے ھیں کہ اسلام ، قرآن مجید اور سنت رسول کے نام پر اسلام ، قرآن اور سنت کو مسلمانوں کے درمیان سے نکا ل دیں یا کم از کم انحراف پیدا کر دیں ۔
حج اسلامی کانفرنس ھے
حج کے موقع پر مسلمانوں کے مسائل کا حل سوچیں ۔اسلامی اقوام کی سستی اور سھل انگاری کے باعث استعمار کے قدم ملت قرآن کی عظیم سر زمینوں میں اتر چکے ھیں ۔ استعمار کی مسموم ثقافت اسلامی ممالک کے قصبوںاور دیھاتوں تک سرایت کرگئی ھے ۔ اس نے قرآنی ثقافت کو پیچھے ڈھکیل دیاھے ۔ ھمارے نورسیدہ جوان، گروہ در گروہ غیروں اور استعماری قوتوں کی خدمت میں چلے جا رھے ھیں ۔ یہ ثقافت ھر روز نئے۔نئے راگ الاپ کر اپنے پرُفریب ناموں کے ذریعے ھمارے جوانوں کو منحرف کر رھی ھے ۔ اس صورت حال میں تمام مسلمانوں پر لازم ھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ھوئے کچہ سوچیں ، مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے آپس میں تبادلھٴ خیال کریں اور افھام و تفھیم پیدا کریں ۔ آپ کی توجہ اس امر کی طرف ھونا چاھئے کہ یہ عظیم اجتماع جو ھر سال اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس سر زمین مقدس پر منعقد ھوتا ھے، مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کرتا ھے کہ وہ اسلام کے مقدس اھداف ، شریعت مطھرہ کے بلند مقاصد ، مسلمانوں کی ترقی و ارتقاء اور اسلامی معاشرے کے اتحاد و ھم بستگی کے لئے کوشش کریں ۔حصول استقلال کے لئے اور استعمار کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے آپس میں ھم فکر و ھم پیمان ھوں ۔ اسلامی اقوام کی مشکلات کو خود ھر ملک کے رھنے والوں کی زبانی سن کر ان کے حل کے لئے کسی بھی اقدام سے دریغ نہ کریں ۔ اسلامی ممالک کے غریب حاجتمندوں کے لئے فکر کریں ۔ اسلامی سر زمین فلسطین کو اسلام و انسانیت کے سخت ترین دشمن صھیونزم کے چنگل سے آزادکرانے کے لئے چارہ اندیشی کریں ۔ آزادی فلسطین کے جانباز مجاھد کی مدد اور تعاون سے غفلت نہ برتیں ۔ جس ملک کے بھی علماء اس اجتماع میں شریک ھوں انھیں چاھئے کہ قوموں کی بیداری کےلئے باھمی تبادلھٴ خیال سے ایک مدلل و مستدل بیان تیار کر کے اس وحی کے ماحول میں مسلمانوں کے مابین تقسیم کریں اور اپنے اپنے ملک میں واپس جا کر بھی اس کی تشھیر کریں ۔ ایسے بیانات میں اسلامی ممالک کے سربراھوں سے تقاضا کریں کہ وہ اسلامی اھداف کو اپنا نصب العین قرار دیتے ھوئے اختلافات کو ایک طرف رکہ دیں اور استعمار کے چنگل سے آزادی کے لئے چارہ اندیشی کریں ۔
حج کے اس عظیم اجتماع میں اسلام اور مسلمین کو فائدہ حاصل ھونا چاھئے لیکن بڑے افسوس کی بات ھے کہ بعض استعماری ایجنٹوں کے مسموم قلم مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لئے صاحب وحی کے مقاصد کے بر خلاف مرکز وحی میں � الخطوط العریضہ � وغیرہ جیسی چیزیں شائع کر رھے ھیں اور اس طرح استعماری قوتوں کی مدد کر رھے ھیں ۔ ان کی کوشش ھے کہ دروغ و افترا کے ذریعے ایک بڑے طبقے کو مسلمانوں کی صفوں سے جدا کر دیں ۔ باعث تعجب ھے کہ حکومت حجاز کس طرح سے ایسی گمراہ کنندہ چیزیں مرکز وحی میں تقسیم کرنے کی اجازت دیتی ھے ۔
اسلامی اقوام پر لازم ھے کہ وہ ایسی تفرقہ انگیز اور استعماری کتابوں کی اشاعتوں سے اجتناب کریں اور اسلامی اتحاد کے ان مخالفوں کو ٹھکرا دیں ۔ حج کے اس مقدس اجتماع میں اولاً اسلام کے اساسی مسائل اور ثانیاً اسلامی ممالک کے خصوصی مسائل پر تبادلھٴ نظر کریں ۔ دیکھیں کہ استعمار اور اس کے ایجنٹوں کے ھاتھوں مختلف ملکوں کے اندر ان کے بھائیوں پر کیا گزر رھی ھے ،ھر ملک کے رھنے والے اس مقدس اجتماع میں اپنی قوم کے مشکلات مسلمانان عالم کو بتائیں ۔
اسلامی اجتماعات ھم آھنگی و اخوت کا مظھر ھیں
حج تمام مسلمان گروھوں کا ایک اجتماع عام ھے ۔ تمام گرھوںکو چاھئے کہ وہ مشرق میں ھوں یا مغرب میں ھوں ،شمال میں ھوں یا جنوب میں ، جھاں کھیں اورجس ملک میں بھی ھوں ، اس دعوت پر غور و فکر کریں ۔ عوام �ناس � کو دعوت دی گئی ھے ، صرف مسلمانوں ھی کو نھیں ۔ سب مسلم بن جائیں اور سب جائیں یعنی وہ سب کہ جو مستطیع ھیں ۔ وہ مستطیع افراد کہ جو مکہ جا سکتے ھیں ان سے کھاگیا ھے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ وھاں جائیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ وھاں ایک اجتماع عام منعقد کرنا چاھتا ھے ۔ اس اجتماع عام کی اگر مسلمان قدر پھچانیں تو اس سے مسلمان گروھوں کے مسائل کے حل سامنے آسکتے ھیں ۔مثلا اگر ایران کے مسلمان وھاں جائیں اور اپنے مسائل لوگوں سے بیان کریں تو مسلمانوں پر لازم ھے کہ ان مسائل و مشکلات کے حل کے لئے ان کا ساتہ دیں ۔ سبھی افراد کہ جو حج کے لئے آئے ھیں جب سمجہ جائیں کہ مثلا ایران کیا چاھتا ھے، کیا کرتا ھے ، حکومت ایران اپنے عوام سے کیسا سلوک کرتی ھے پھرجب وہ واپس اپنے اپنے علاقوں میں جائیں تو یہ باتیں پھنچائیں ۔ اسی طرح اگر انھوں نے اپنی حکومت یا عوام کے بارے میں کچہ دیکھا ھو تو یھاں پھنچ کر دوسروں کو بتائیں اور پھر دوسرے ذمہ دار ھیں کہ ان کا ساتہ دیں ۔ اسلام اس طرح کا دین ھے کہ اس کے اجتماعات عبادت ھونے کے ساتہ ساتہ سیاسی بھی ھیں ۔
ایک اور مشکل قوموں کے ما بین عدم ارتباط ھے ۔ قوموں کے ما بین یا تو اصلاً ارتباط ھے ھی نھیں یا پھر کم ھے ۔ سب مومنین اللہ کے حکم کے مطابق بھائی ھیں ۔ بھائیوں کو ایک دوسرے کے حال سے آگاہ رھنا چاھئے ۔ بھائیوں کو ایک دوسرے کی مشکلات حل کرنا چاھئے ، اسلام نے تمام گروھوں کے ما بین ھم آھنگی و تفاھم کے لئے پروگرام دیا ھے اور وہ حج ھے ، فریضہ حج کے مطابق تمام اسلامی ممالک کے مستطیع افراد کا فریضہ ھے کہ وہ مکہ جائیں ۔ وھاں پر بھی اس نے کئی ایک مقامات فراھم کئے کہ جوآپسی تفاھم کا سبب بن سکتے ھیں ۔ قابل افسوس امر یہ ھے کہ مسلمان غافل ھیں ۔ اگر حکومتیں مختلف ممالک سے دو سو افراد کو جمع کر کے ایک اجتماع منعقد کرنا چاھیں تو انھیں کس قدر زحمتیں اور کس قدر اخراجات برداشت کرنا پڑیںگے پھر کھیںجا کے کسی ایک مقام پر دو سو افراد جمع ھوںگے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کئی ملین افراد کا ایک اجتماع مسلمانوں کو مھیا کر دیاھے اور اس نے کھا ھے کہ سب وھاں جائیں اور یہ سب آپس میں بھائی ھیں ۔ مومن آپس میں بھائی اوربرادر ھیں ۔اب اگر یہ بھائی ایک دوسرے کا حال نہ پوچھیں اور کام نہ آئیں تو پھر یہ اسلام کا قصور ،نھیں قصور ھمارا ھے ۔ وہ مواقف کہ جو اسلام نے مقرر کئے ھیں اور لوگوں کو ان کی طرف ھدایت کی ھے ھم اگر انھیں محفوظ رکھیں اور ان سے کام لیں تو اسلام ترقی کرنے لگا ،اسلامی ممالک کی مشکلات حل ھو جائیںگی ۔ پھر غیر ھماری طرف للچائی ھوئی نظروں سے نھیںدیکھیں گے ۔ ایک ارب مسلمان مٹھی بھر افراد یا ایسی حکومتوں کے غلام نھیں ھوںگے، ایک ارب کی تعداد جن کے پاس اتنے خزانے ھیں ،زیر زمین خزانے ھیں ، جن کے پاس ایمان کی قوت ھے ، اللہ پر ایمان کی قوت ، ایسی عظیم مادی اور روحانی طاقت جو مسلمانوں کے پاس ھے کسی اور کے پاس نھیں ۔ اگر وہ اس سے استفادہ نہ کریں تو خود ان کا قصور ھے ۔ مسلمانوں کو چاھئیے کہ اپنی حالت کو بدلیں ۔
مسلمان بھن بھائی سب اس امر کی طرف توجہ رکھیں کہ حج کا ایک اھم فلسفہ یہ ھے کہ مسلمانوں کے ما بین ھم آھنگی پیدا ھو اور ان کے درمیان اخوت کا رشتہ مضبوط ھو ، علما ء پر لازم ھے کہ وہ اپنے بنیادی سیاسی و معاشرتی مسائل دیگر برادران سے بیان کریں اور ان کے حل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کریں اور اپنے ممالک میں واپس جاکر یہ منصوبہ بندی وھاں کے علما اور ارباب نظر کی خدمت میں پیش کریں ۔
مسائل اسلام کے حل کے لئے یہ اجتماع واجب قرار دیا گیا ھے
اگر ھم حج کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرتے تو مسلمانوں کو در پیش یہ بھت سی مشکلات پیش ھی نہ آتیں ۔ اگر اسلامی حکومتیں واقعاً ھوش میں آتیں ، توجہ کرتیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ایسا عظیم اجتماع ھمارے لئے فراھم کیا جوکچہ افراد پر لازم ھے اور باقی سب کے لئے مستحب ھے ، اگر مسلمان حکومتیں اس کے وسائل فراھم کرتیں اور وھاں پر جمع ھونے والی اقوام کے افرادفراخدلی سے ملاقات کرتے ، آپس میں ایک دوسرے سے اپنے اپنے علاقوں کی مشکلات بیان کرتے ، جو مشکلات انھیں بڑی طاقتوں کی طرف سے پیش آتی ھیں انھیں زیر بحث لاتے ، گفتگو کرتے اور پھر اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر ان مسائل کی تبلیغ کرتے تو سارا عالم اسلام خوش حال ھوتا اگر یہ حکومتیں وسائل فراھم کرتیں تو حج کا عظیم اجتماع آج ایسا نہ ھوتا بلکہ حج درست طور پر بجالایا جاتا ، یہ حکمران خود بھی ان اجتماعات میں شریک ھوتے ، بیٹھتے اور اپنے مسائل حل کرتے ، پھر اسلام ایک ایسی قوت بن جاتا کہ کوئی بھی قوت اس کے مقابل نہ ھوتی ۔ یہ ایک راستہ ھے ( مسائل کے حل کا ) سب لوگوں کو تمام علاقوں سے سال میں ایک دفعہ دعوت دی گئی ھے اگر کوئی جا سکتا ھوتو جائے ۔ � للّہ علی الناس حج البیت �
سیاسی مسائل پر غور و خوض کا مقام
اسلام دین سیاست ھے ۔ یہ وہ دین ھے کہ جس کے احکام میں سیاست واضح طور پر دکھائی دیتی ھے ۔ ھر روز اسلامی ممالک کی تمام مسجدوں میں شھروں سے لے کر دیھات تک جماعت کےلئے اجتماع ھوتا ھے تاکہ ھر شھر اور ھر قصبے کے مسلمان ایک دوسرے کے حالات کو جانیں اور مستضعفین کے حالات سے باخبر ھوں ۔ اسی طرح ھفتے میں ایک مرتبہ کسی ایک مقام پر نماز جمعہ کے لئے ایک بڑے اجتماع کا انعقاد ھوتا ھے ۔ یہ نماز دو خطبوں پر مشتمل ھے ۔ اس میں ضروری ھے کہ سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی پھلو زیر بحث آئیں اور عوام ان مسائل سے آگاہ ھوں ۔ اسی طرح سال میں دو عیدیں ھوتی ھیں ۔ ان مواقع پر بھی اجتماعات منعقد ھوتے ھیں ۔ نماز عید میں بھی دو خطبے ھوتے ھیں ۔ ان دو خطبوں میں بھی حمد اور رسول اکرم اور ائمہ علیھم السلام پر درود و سلام کے بعد سیاسی ، اجتماعی اور اقتصادی پھلوؤں نیز ملک اور علاقے کی ضروریات پرگفتگو ھونی چاھئے ۔ خطبائے کرام کو چاھئے کہ وہ عوام کو مسائل سے آگاہ کریں۔سب سے بڑہ کر حج کا اجتماع ھے کہ جو سال میں ایک مرتبہ منعقد ھوتا ھے ۔ واجب ھے کہ تمام اسلامی ممالک سے جو افراد مستطیع ھیں وہ جمع ھوں اور ضروری ھے کہ وھاں مسائل اسلامی پر بات ھو ۔حج کے مقامات پر ، عرفات میں ، خصوصاً منیٰ میں اور اس کے بعد رسول اکرم کے حرم میں عوام کو اپنے ملک اور اسلامی ممالک کے حالات سے آگاہ ھونا چاھئے ۔
باعث افسوس ھے کہ ان امورسے غفلت برتی جا رھی ھے ۔ اجتماعات منعقد ھوتے ھیں لیکن ان سے نتیجہ حاصل نھیں کیا جاتا ۔ مسلمان مکھٴ مکرمہ اور دیگر مقامات مقدسہ پر جمع ھوتے ھیںلیکن اس طرح سے کہ ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ ھوتے ھیں ۔ مختلف شھروں میں اجتماعات منعقد ھوتے ھیں ، نماز جمعہ کے اجتماعات ، نماز عید کے اجتماعات لیکن اس طرح سے کہ گویا لوگوں میں باھم کسی بات پر کوئی وحدت و ھم آھنگی نہ ھو ۔ اسلام نے لوگوں کو ان اجتماعات کی دعوت بڑے مقاصد کے لئے دی ھے ۔ اسلام کے پیش نظر ان اجتماعات کے بھت بلند مقاصد ھیں ۔
حج کو مظلوموں کی فریاد کا جواب دہ ھونا چاھئے
ھم جس ملک سے بھی تعلق رکھتے ھوںھمیں اپنی اسلامی اور قوی حیثیت کا دفاع کرنا چاھئے ۔ کسی کی رو رعایت سے بے پرواہ ھو کر امریکہ ، صھیونیت اور شرق و غرب کی طاقتوں کے مقابلے میں اسلامی اقوام و ممالک کا دفاع کرنا چاھئے ۔ھمیں چاھئے کہ ھم اسلام دشمنوں کے مظالم کو آشکار کریں ۔
ھمارے مادی و روحانی وسائل کو مشرق و مغرب کی بڑی طاقتیں لوٹے لئے جا رھی ھیں ۔ انھوں نے ھمیں سیاسی اقصادی ، ثقافتی اور فوجی لحاظ سے فقر و وابستگی میں مبتلا کر رکھا ھے ۔ ھمیں چاھئے کہ ھوش میں آئیں اور اپنے کھوئے ھوئے اسلامی وقار کو پھر سے حاصل کریں ظلم کو قبول نہ کریں عالمی لٹیروں کہ جن کا سرغنہ امریکہ ھے ،کی سازشوں کو ھوش مندی کے ساتہ فاش کریں ۔
آج مسلمانوں کا قبلھٴ اول اسرائیل کے قبضے میں ھے کہ جو مشرق وسطیٰ میں کینسر کی حیثیت رکھتا ھے ۔ آج وہ ھمارے فلسطینی و لبنانی بھائیوں پر پوری قوت سے ظلم ڈھارھا ھے اور انھیں خاک و خون میںغلطاں کر رھا ھے ۔ آج اسرائیل اپنے تمام تر شیطانی وسائل کے ساتہ مسلمانوں کے درمیان افتراق و اختلاف پیدا کرنے میں مصروف ھے ۔ ھر مسلمان کے لئے ضروری ھے کہ وہ اپنے آپ کو اسرائیل کے خلاف تیار کرے ۔ آج ھمارے افریقی مسلمان ممالک امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے ھاتھوں بکے ھوئے افراد کے زیر تسلط ھاتہ پاؤں مار رھے ھیں ۔
آج افریقی مسلمان اپنی پوری قوت سے مظلومانہ فریاد بلند کئے ھوئے ھے ۔ فلسفھٴ حج کو اس مظلومانہ فریاد کا جواب دینا چاھئے ۔ خانھٴ خدا کے گرد طواف کا مطلب یہ ھے کہ غیر خدا کے گرد طواف نہ کیا جائے ۔ رجم عقبات در حقیقت جن و انس کے شیطانوں کورجم کرنا ھے ۔ھم اپنے خدا سے عھد کریں کہ اسلامی ممالک سے انسانی شیطانوں اور بڑی طاقتوں کو نکال باھر کریں گے ۔ آج عالم اسلام امریکہ کے ھاتھوں میں اسیر ھے ۔ ھمیں چاھئے مختلف برّ اعظموں کے مسلمانوں کےلئے اللہ کا پیغام لے جائیں کہ وہ خدا کے سوا کسی اور کی غلامی اور بندگی اختیار نہ کریں ۔
اے مسلمانان عالم ! اور اے پیروان مکتب توحید ! اسلامی ممالک کی تمام تر مشکلات کا باعث عدم ھم آھنگی اور ھم آواز نہ ھونا ھے اور کامیابی کا راز ھم آواز ھونا اور ھم آھنگی پیدا کرنا ھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جملے میںبیان فرما دیا ھے : � و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا �
اعتصام بحبل اللہ ( اللہ کی رسی کو تھامنا ) تمام مسلمانوں کی ھم آھنگی سے عبارت ھے ۔ سب اسلام کی خاطرمسلمانوں کے مصالح کے لئے ھم آھنگ ھو جائیں ۔ تفرقہ ، جدائی اور گروہ پرستی کہ جو تمام تر بد بختیوں اور عقب ماندگی کی بنیاد ھے ، سے گریز کریں ۔
بڑی طاقتوں سے نجات کا ذریعہ اتحاد ھے
عازمین حج چاھے کسی بھی ملک ، قوم اور مکتب سے تعلق رکھتے ھوں ، سب کے سب امت مسلمہ سے تعلق رکھتے ھیں ،رسول اللہ کے تابع اور قرآن مجید کے احکامات کے پیرو ھیں ۔
مسلمانوں کے اتحاد اور اجتماعی وحدت کا بنیادی راستہ اسلامی ممالک سے بڑی طاقتوں کے تسلط کے خاتمے اور اپنے ممالک میں مقدس مقامات کے شعائر کو عملی جامہ پھنانے سے ممکن ھے کہ جس کا پھلا قدم اپنے دلوں سے نا امیدی ختم کرنا ھے ، جسے مغرب و مشرق کی کوششوں سے ان کے خبیث ایجنٹوں نے مسلمانوں کے ذھن میں بٹھا دیا ھے اور ان کو باور کروا دیا گیا ھے کہ بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک کے ساتہ وابستہ ھوئے بغیر زندگی نھیں گزاری جا سکتی ۔ ایرانی قوم اور حکومت نے اس عظیم انقلاب کے ذریعے ثابت کر دکھایا ھے کہ اس قسم کا اعتقاد مھمل اور بے بنیاد ھے اگر چہ بڑی طاقتوں نے اس آتش سوزاں کو جو اس ملک میں مغرب و مشرق کی آرزوؤں کو خاک میں ملانے کے لئے بھڑکی تھی ، ھر حیلہ و سازش کے ساتہ خاموش کرنا چاھا لیکن اس میں کامیاب نھیں ھوئیں۔
برائت از مشرکین ۔ ھر دور میں
ھمیں معلوم ھونا چاھئے کہ ابدی کتاب ( قرآن ) ھر رنگ وزبان اور ھر خطے کے بشر کی تا قیامت راھنمائی کے لئے نازل ھوئی ھے اس کی حکمت یہ ھے کہ نھایت اھم مسائل کو زندہ رکھا جائے چاھے ان کا تعلق روحانی مسائل سے ھو یا ملکی نظام سے ، نیز یہ کتاب سمجھانا چاھتی ھے کہ اس کے مسائل کسی ایک عصر یا علاقے کے لئے نھیں ھیں ۔ یہ گمان نہ ھو کہ ابراھیم و موسیٰ و محمد علیھم السلام کا مقصد کسی ایک زمانے کے لئے مخصوص نھیں ھے بلکہ یہ ایک ابدی حکم ھے اگر چہ حجاز کے مشرک ختم ھو چکے ھیں تاھم � قیاماً للناس � کسی زمانے کے لئے خاص نھیں ھے ، بلکہ ھر زمان و مکان کے لئے ھے اور یہ ھر سال انسانوں کے اس اجتماع عام میں ابد تک ایک اھم عبادت ھے ۔ یھی وجہ ھے کہ ائمہ مسلمین نے عزاداری سید الشھداء علیہ السلام کو ھمیشہ قائم رکھنے کی تاکید فرمائی ھے تاکہ اھل بیت علیھم السلام رسول اللہ کی فریادِ مظلومیت اور بنی امیہ کے مظالم کی داستانوں کو زندہ رکھا جائے حالانکہ بنی امیہ ختم ھو چکے ھیں ، لیکن یہ عزاداری ظالم کے خلاف مظلوم کی فریاد ھے ۔ یہ جنگ اور فریاد ھمیشہ زندہ رھنی چاھئے۔
آج ھمارا مشرکین و کافرین سے برائت کا اعلان کرنا ،ستمگروں کے ستم کے خلاف فریاد کرنا ایک ایسی امت کی فریاد ھے جس کا وجود مغرب و مشرق خصوصاً امریکہ اور اس کے ایجنٹوں کی جارحیت کو خطرے میں ڈال رھاھے ۔ اس قوم کا گھر ، وطن اور سرمایہ لوٹ لیا گیا ھے ۔ ھماری فریاد برائت ، افغانستا ن کے ستم دیدہ مظلوم عوام کی فریاد ھے ۔
ھماری فریاد برائت افریقہ کے مسلمان عوام کی فریاد ھے ۔ ھمارے ان دینی بھن بھائیوں کی آواز ھے جو سیاہ ھونے کے جرم میں بے ثقافت نسل پرستوں کے ستم جھیل رھے ھیں ۔
ھماری فریاد برائت لبنان ، فلسطین ، تمام اقوام و ملل کی فریاد برائت ھے کہ جن کی طرف مشرق و مغرب کی قوتوں خصوصا ًامریکہ اور اسرئیل نے چشم طمع لگا رکھی ھے ان کا سرمایہ لوٹ کر لے گئے ھیں ۔ ان پر اپنے ایجنٹوں کو مسلط کر رکھا ھے ۔ ھزاروں کلو میٹر کے فاصلے سے ان کی سر زمینوں پر قبضہ کیا ھوا ھے اور ان کے ملک کی بحری و بری حدود پر قبضہ جمایا ھوا ھے ۔
حج مقام انقلاب
� جعل اللہ الکعبة البیت الحرام قیاما للناس �
الٰھی فرائض میں سے فریضہ ٴ حج ، خاص اھمیت کا حامل ھے اور شاید اس کے سیاسی و اجتماعی پھلو دیگر پھلوؤں پر غالب ھوں حالانکہ اس کا عبادی پھلو بھی خاص اھمیت رکھتا ھے ۔ فرض شناس مسلمان جو اس عمومی اجتماع اور الٰھی تنظیم میں ھر برتری کو ختم کر کے یک شکل ھو کر رنگ ، زبان ملک اور علاقے سے بالاتر ھو کر ھر سال ایک بار مکے میں جمع ھوتے ھیں ، مادی اعتبار سے سادہ ترین اور بے آسائش ترین طریقے سے نیز معنوی پھلوؤں کی طرف توجہ کئے ھوئے خدا کی طرف اکٹھے ھوتے ھیں ۔ ان کو چاھئے کہ اسلامی فرائض اور آداب پر عمل کریں ۔ اس کے سیاسی اجتماعی پھلوؤں سے بھی غافل نہ رھیں ۔ علمائے اعلام اور خطبائے عظام مسلمان کو سیاسی جھات اور ان کے عظیم فرائض سے آگاہ کریں ، ایسے عظیم فرائض کہ اگر دنیا کے مسلمان کوشش کریں اور اس کی طرف توجہ کر کے ان پر عمل کریں تو خدا نے جو عزت مومنین کو دی ھے اس کو پالیں گے ۔ اسلامی الٰھی افتخارات تک جو مسلمانوں کا حق ھے ان تک رسائی حاصل کر لیں ۔ اسلام عزیز اور توحید کے عَلَم اور لا الہ الا اللہ کے پرچم تلے جمع ھو کر حقیقی آزادی سے ھمکنار ھوں ،مستکبروں اور ان کے ایجنٹو ں کے ھاتہ اسلامی ممالک سے منقطع کریں اور اسلامی مقام و عظمت کو واپس لوٹائیں ۔
خدا وند تعالیٰ نے مذکورہ آیہ شریفہ میں حج کا مقصد اور کعبہ و بیت اللہ الحرام کے بنانے کی غایت کو انسانی مصالح اور دنیا کے محروم عوام کے مفادات کے لئے مسلمانوں کے قیام و نھضت کو قرار دیا ھے ۔ اس عظیم الٰھی اجتماع میں کہ جسے خدا وند لایزال کی قدرت کے علاوہ کوئی اور فراھم نھیں کر سکتا ، مسلمانوں کو چاھئے کہ وہ مسلمانوںکی عمومی مشکلات کا جائزہ لیں اور ان کودور کرنے کے لئے کوشش کریں ، مسلمانوں کا متحدنہ ھونا بزرگترین اور بنیادی ترین مشکلات میں سے ھے کہ جس کی وجہ بعض اسلامی ممالک کے نام نھاد سربراھان ھیں اور افسوس تو یہ ھے کہ اس مشکل کو دور کرنے کے لئے ابھی تک کوئی قدم نھیںبھی اٹھایا گیا ،بلکہ بعض ظالم قسم افراد تو ایسے ھیںجو قوموں اورحکومتوں کے اختلاف سے اپنے مفادات حاصل کرتے ھیںاوراپنے ایجنٹوں کے ذریعے اختلاف پیدا کرتے ھیں ،جب بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی بنیاد رکھی جاتی ھے تو اپنی پوری قوت سے مخالفت کرتے ھیں اور اختلاف کا بیج بوتے ھیں ۔
حج مسلمانوں کی بیداری اور اتحاد کا موقع ھے
وہ حج جو اللہ تبارک و تعالیٰ ھم سے چاھتا ھے اور وہ حج جو اسلام ھم سے چاھتا ھے یہ ھے کہ ھم جب حج پر جائیں تو دنیا کے مسلمانوں کو بیدار کریںاور آپس میں متحد کریں ۔ انھیں سمجھائیں کہ ایک ارب مسلمان ،مٹھی بھر آبادی کی دو بڑی طاقتوں کے زیر تسلط کیوں رھیں ؟ یہ تمام مصیبتیں اس لئے ھیں کیونکہ مسلمانوں کو جو راستہ اسلام نے دکھایا ھے وہ اس سے منہ موڑے ھوئے ھیں وہ لوگ جو صھیونیت کے خلاف ایک آواز بلند کرنے پر مذمت کرتے ھیں وہ کم از کم امریکہ کے خلاف تو ایک لفظ کھہ ھی دیں ۔ یہ لوگ ان عیسائی علماء سے کمتر نھیں ھیں جو یہ کھتے ھیں کہ کوئی بات نھیں کرنی چاھئے اور یہ لوگ امریکہ کے طرف دار علما ء سے بھی کم نھیں ھیں ، یہ بھی امریکہ کے طرف دار ھیں ، مسلمانوں کو بیدار ھونا چاھے، ان ایک ارب مسلمانوں کو بیدار ھونا چاھے تاکہ ان دو بڑی طاقتوں اور دیگر قوتوں کو جڑ سے اکھاڑ دیں جوان علاقوں میں فساد پھیلانے میں مشغول ھیں ۔
کیا اسلامی ممالک اور اسلامی ممالک کی حکومتوں کے لئے ذلت کا باعث نھیں ھے کہ اسرئیل اٹھے اور فلسطینوں کے ساتہ اس قدر وحشیانہ طریقے سے پیش آئے ؟ لبنان میں وہ مظالم ڈھاتا رھا اور ایک ارب مسلمانوں کی آبادی بیٹھی ان کا تماشا دیکھتی رھی ،یہ لوگ کس چیز سے ڈرتے ھیں ؟ کیوں اتنے بے غیرت ھو گئے ھیں ؟ مشرق و مغرب کی رگ حیات مسلمانوں کے ھاتہ میں ھے ۔ اگر دس دن ان پر تیل بند کردیں تو وہ گٹھنے ٹیک دیں ، باوجود اس کے کہ یہ رگ حیات ، نام نھاد اسلامی حکومتوں کے ھاتہ میں ھے پھر بھی یہ حکومتیں ان ظالم طاقتوں کے آگے سر تسلیم خم کر دیتی ھیں۔کیا مسلمانوں کے لئے یہ افسوس کا مقام نھیں ھے کہ وہ اپنی تمام چیزیں غیروں کو دیدیں اور ان کی خوشامدیں کرے کہ وہ ان سے قبول کریں ؟ جب صورت حال یہ ھو کہ مسلمان مسائل الٰھی کی طرف توجہ نہ کریں، قرآنی مسائل کی طرف توجہ نہ دیں ، اسلامی احکام کی طرف صحیح طور پر توجہ نہ کریں اور اسلام کی دعوت وحدت کو پاؤں تلے روند ڈالیں تو پھر ضروری ھے کہ ان کے ساتہ ایسا ھی سلوک ھو کہ اپنی تمام چیزیں بھی اغیارکو دیں اور ان کی منت بھی کریں تاکہ وہ ان سے قبول کرلیں کیا اب بھی ھمیں بیدار نھیں ھونا چاھئے ؟ کیا انھیں ایران سے سبق حاصل نھیں کرنا چاھئے ؟
حج ۔ مرکز معارف اسلامی
اسلامی معاشروں کا سب سے بڑا المیہ یہ ھے کہ ابھی تک انھوں نے بھت سے احکام الٰھی کا حقیقی فلسفہ نھیں سمجھاھے ۔حج کہ جو اس قدر اسرار و عظمت کا حامل ھے ابھی تک ایک خشک عبادت اور بے حاصل و بے ثمر حرکت کی صورت میں باقی ھے ۔
مسلمانوں کی ایک بڑی ذمہ داری یہ ھے کہ وہ حج کی حقیقت کو سمجھیں اور غور کریں کہ آخر کیوں ھم ھمیشہ اپنے کچہ مادی و روحانی وسائل سے حج کا اھتمام کرتے ھیں؟ جاھلوں ، خود غرض وظیفہ خواروں نے ابھی تک فلسفہ حج یہ بتایا ھے کہ یہ ایک اجتماعی عبادت ھے اور زیارت و سیاحت کے لئے ایک سفر ھے ۔حج کو اس سے کیا سروکار کہ کیسے جیا جائے ،جھاد کیسے کیا جائے اور سرمایہ داری اور اشتراکی دنیا کا مقابلہ کیسے کیا جائے ! حج کو اس سے کیا سروکار کہ مسلمانوں اور محروموں کے حقوق ظالموں سے واپس لئے جائیں ! حج کو اس سے کیا کام کہ مسلمانوں پر موجود روحانی و جسمانی دباؤ کے بارے میں چارہ اندیشی کی جائے ! حج کو اس سے کیا کام کہ مسلمان ایک عظیم طاقت اور دنیا کی تیسری قوت کے طور پر ابھریں ! حج کو اس سے کیا سروکار کہ مسلمانوں کو ایجنٹ حکومتوں کے خلاف ابھارا جائے بلکہ حج تو صرف کعبہ و مدینہ کی زیارت کے لئے ایک تفریحی سفر ھے۔ جبکہ حج انسان کی صاحب بیت سے قربت اور اس سے اتصال کے لئے ھے ۔ حج صرف چند حرکات ، اعمال اور الفاظ کا نام نھیں ھے۔ خشک الفاظ و حرکات کے ذریعے انسان اللہ تک نھیں پھونچ سکتا ۔ حج معارف اسلامی کا وہ مرکز ھے کہ جس سے زندگی کے تمام زاویوں کے لئے سیاست اسلامی کا مفھوم اخذ کرنا چاھئے ۔ حج مادی و روحانی رذائل سے پاک ایک معاشرے کی تشکیل کا پیغام دیتا ھے ،حج ایک انسان کی عشق آفریں زندگی کے تمام حصوں اور دنیا میں ایک کمال یافتہ معاشرے کی تجلی و تکرار سے عبارت ھے ۔مناسک حج مناسک زندگی ھیں ۔ امت اسلامی کا تعلق کسی بھی نسل اور قوم سے ھو اسے ابراھیمی ھو جانا چاھئے تاکہ امت محمدی سے اس کا ارتباط ھو سکے اور وہ متحد ھوسکے ۔ حج توحیدی زندگی کی تنظیم اور تشکیل کا نام ھے ۔ حج مسلمانوں کی مادی و روحانی صلاحیتوں اور قوتوں کے اظھار کا مرکز اور پیمائش کا معیار ھے ۔حج قرآن کی مانند ھے کہ جس سے سب بھرہ ھوتے ھیں لیکن مفکر ، غوّاص اور امت اسلامی کے درد آشنا اگر اس دریائے معارف میںاتریں اور اس کے احکام و سیاست اجتماعی کے قریب ھونے اور گھرائی میں اترنے سے نہ ڈریں تو اس دریا کے صدف سے ھدایت ، رشد ، حکمت اور حریت کے بے بھاگوھر ان کے ھاتہ لگیں گے اور اس کی حکمت و معرفت کے آب شیریں سے تا ابد سیراب ھوتے رھیں گے لیکن کیا کیا جائے اور اس غم بے پایاں کو کھاں لے جایا جائے کہ حج قرآن ھی کی طرح مھجور و متروک ھو چکا ھے ۔ جیسے وہ کتاب زندگی اور صحیفھٴ کمال و جمال ھمارے خود ساختہ پردوں میں پنھاں ھو چکا ھے اس خلقت کا یہ گنجینہ جس طرح ھماری کج فکریوں کے ڈھیر میں دفن اور پوشیدہ ھو چکا ھے اور اس کی ھدایت زندگی اور حیات بخش فلسفہ فراموشی کا شکار ھو چکا ھے اسی طرح حج کا بھی یھی حال ھوا ھے ،لاکھوں مسلمان ھر سال مکہ جاتے ھیں ۔ رسول اکرم ، حضرت ابراھیم علیہ السلام ، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور جناب ھاجرہ علیھا السلام کے نقش قدم پر اپنے قدم رکھتے ھیں لیکن کوئی نھیںھے کہ جو اپنے آپ سے پوچھے کہ ابراھیم علیہ السلام اور محمد (ص) کون تھے اور انھوں نے کیا کیا ، ان کا مقصد کیا تھا اور وہ ھم سے کیا چاھتے تھے ؟ گویا جس ایک چیز کے بارے میں نھیں سوچا جاتا وہ یھی ھے۔ یہ امر مسلم ھے کہ وہ حج جوبے روح و بے تحرک ھو ، جس میں قیام نہ ھو ، جو بے برائت ھو ، جس میں وحدت نہ ھو اور جس کے ذریعے کفر و شرک منھدم نہ ھو ،حج ھی نھیںھے ۔
مختصر یہ کہ تمام مسلمانوں کو چاھئے کہ حج اور قرآن کریم کے احیاء کی کوشش کریں اور سعی کریں کہ یہ دونوں عرصھٴ حیات میں لوٹ آئیں نیز اسلام کے فرض شناس محققین کو چاھئے کہ فلسفہ حج کی صحیح اور حقیقی تفسیر پیش کر کے درباری علما ء کے خرافات پر مبنی سارے تانے بانے دریا میں اٹھا پھینکیں ۔
امام خمینی (رھ) کی تقریروں سے ماخوذ جملے
اصولاً برائت از مشرکین حج کے سیاسی فرائض میں سے ھے اور اس کے بغیر ھمارا حج ،حج ھی نھیںھے ۔
حج کے موقع پر برائت از مشرکین وہ سیاسی ، عبادی پکار ھے کہ جس کا امر رسول اللہ نے فرمایا ھے ۔
ھماری صدائے برائت ان سب لوگوں کی پکار ھے جو امریکہ کی فرعونیت اور اس کی ھوس اقتدار کو اب مزید برداشت نھیں کر سکتے ۔
حج کے ان عظیم مناسک کا سب سے زیادہ مترو ک اور غفلت زدہ پھلو سیاسی پھلو ھے خائنوں کا ھاتہ اسے متروک بنانے میں سب سے زیادہ کار فرما رھاھے آج بھی اور آئندہ بھی رھے گا ۔
جو درباری ملّایہ کھتے ھیں کہ حج کو سیاسی پھلوؤں سے خالی ھونا چاھئے وہ رسول اللہ کی مذمت کرتے ھیں ۔
آج عالم اسلام امریکہ کے ھاتھوں میں اسیر ھے۔ ھمارا فریضہ ھے کہ دنیا کے مختلف بر اعظموں میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے اللہ کا یہ پیغام لے جائیں کہ وہ خدا کے سوا کسی کی غلامی اور بندگی کو قبول نہ کریں ۔
حجر اسود کو بوسہ دیتے ھوئے اللہ سے بیعت کریں کہ ھم اس کے اوراسکے رسولوں کے ،صالحین کے اور حریت پسندوں کے دشمنو ں کے دشمن ھونگے ۔
نبی ایک قرآن تو کیوں فرقہ پرستی ، پاکستان کے وزیراعظم
پاکستان کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہاہے کہ اسلام میں قاضی خود مختار اورغیر جانبدار ہوتا ہے اسلام آباد سے ھمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق قومی سیرت النبیصلی اللہ علیہ والہ وسلم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پوری امت مسلمہ کوعیدمیلاد النبیصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کوسب سے زیادہ نقصان دہشت گردی نے پہنچایا، ہم اسلام کا چہرہ بگاڑ رہے ہیں، اس کو دنیا میں بدنام کررہے ہیں،ہم اپنے افعال سے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے پیغام کی نفی کررہے ہیں،آج دہشت گردی کے باعث آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے پناہ مانگتا ہے،یہ کون لوگ ہیں جو مسجدوں میں اور اسکولوں میں دہشت گردی کررہے ہیں،۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ہمارے افعال اسلام کی اجتماعیت کو نقصان پہنچارہے ہیں، ہمارا نبی ایک ہے ، قرآن ایک ہے تو ہم کیوں فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں،دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ہمیں ایک سوچ پراکٹھا ہونا پڑے گا،پاکستان ہرقسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے، جوبیگناہ لوگوں کاقتل کرتاہے وہ دہشتگرد ہے،ڈرون حملے کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ شدید نقصان دہ ہیں، ہم اس نبی کے پیروکارہیں جس نے دنیاکوامن کا پیغام دیا اگرہم حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام ہیں توہم آپس میں تقسیم نہیں ہوں گے اسلام، کسی سوچ یانظریئے کو بالجبرمسلط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
پاکستان پر امریکی ڈرون حملے عالمی قوانین اور پاکستان کی سا لمیت کی خلاف ورزی، پاکستان کی وزیر خارجہ
پاکستان نے امریکی ڈرون حملوں کی مزمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین اور پاکستان کی سا لمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اسلام آباد سے رپورٹ کے مطابق حنا ربانی کھر نےآج اس ملک کے ایوان بالا سینیٹ کو یقین دہانی کرائی کہ امریکی حکام کی جانب سے ڈرون حملے جاری رکھنے کا معاملہ امریکا کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھایا جائے گا۔ سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ڈرون حملے عالمی قوانین اور پاکستان کی سا لمیت کی خلاف ورزی ہیں،اور یہ معاملہ پہلے بھی امریکا کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھایا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سی آئی اے کی جانب سے ڈرون حملے جاری رکھنے کے بیان پر امریکا کی جانب سے کوئی وضاحت نہیں آئی حکومت اس معاملے پر امریکی حکام اور پاکستان میں امریکی سفیر کے ساتھ بھی بات کرے گی۔
واضح رہے کہ پاکستان کی حکومت،پارلیمنٹ،سیاسی اور مذھبی جماعتوں کے رہنموں اور اس ملک کے عوام کے احتجاج کے باوجود پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکہ کے ڈرون حملے بدستور جاری ھیں ۔