Super User

Super User

درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی عمارات

اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی المعروف غریب نواز کی درگاہ 800 سالوں سے روحانی تحریک ، رشد وہدایت اور سکون ِ قلب کا نورانی مرکز وگہوارہ ہے۔

درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی عمارات

درگاہ شریف : حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی درگاہ کئی نہایت شاندار عمارتوں کا مجموعہ ہے، جنہیں شہنشاہوں ، بادشاہوں نے تعمیر کرایا ہے، یہ عمارتیں اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ کس طرح دنیوی اقتدار روحانی طاقت کے آگے سر جھکاتا ہے۔

درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی عمارات

مزار شریف : حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ان کے اسی حجرے میں ہوا تھا، جہاں رات رات بھر عبادت وریاضت میں مصروف رہتے تھے اور یہیں انہیں سپرد خاک بھی کیا گیا ، سلطان غیاث الدین نے اس کی تعمیر کرائی، آستانے پر موجود گنبد بھی ان ہی کا تعمیر کردہ ہے، گنبد پر نقاشی کا کام سایں ن محمود بن ناصر الدین کے زمانے میں ہوا، مزار شریف کا دروازہ بادشاہ مانڈونے بنوایا تھا، آستانہ مبارک کے اندر سنہری کٹہرہ مغل شہنشاہ جہانگیر نے اور نقرئی کٹہرہ شہزادی جہاں آرا نے تعمیر کرایا ، آستانہ مبارک کے دروازے شہنشاہ اکبر نے پیش کئے تھے ، اندرون حصے میں سونے کا کام اور مخمل کی زریں چھت گری کے نیچے چار طلائی قمقمے سو نے کی زنجیروں میں لٹکے ہوئے ہیں۔

درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی عمارات

بلند دروازہ: سلطان محمود خلجی نے 1455میں تعمیر کرایا تھا، اس کی اونچائی 85 فٹ ہے، اس کے فرش میں سنگ مرمر اور سنگ موسیٰ بڑے سلیقے سے گوندھا گیا ہے، محراب میں تین طلائے گولے لٹکے ہیں ، بلند درواز پر چڑھنے کے لیے دونوں طرف زینے ہیں، یہ دروازہ درگاہ کی تمام اندرونی عمارتوں سے اونچا ہے ، اس لیے اس کو بلند دروازہ کہا جاتا ہے۔

درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی عمارات

مسجد اکبری : اکبر نے سرخ پتھروں کی یہ مسجد 1570میں تعمیر کرائی تھی، مسجد کی محراب کی اونچائی 56فٹ ہے۔

درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کی عمارات

مسجد صندل خانہ : سلطان محمود خلجی نے جنگ میں کامیابی کے بعد مزار مبارک کے قریب 1425 میں مسجد کی تعمیر کرائی ، جسے اب صندل خانہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مسجد شاہ جہانی : یہ مسجد شاہ جہاں نے 1640میں 2 لاکھ 40روپے کا لاگت سے بنوائی تھی اور اس کی تعمیر 14سال میں مکمل ہوئی تھی۔

شاہجہانی دروازہ ( نقار خانہ) : شہنشاہ شاہ جہاں نے یہ دروازہ 1638 میں بنوایا تھا ، دروازہ کے محراب پر سنہری حروف میں کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے ، اس کے اوپر نقارخانہ بھی ہے، ا س وجہ سے اس کو نقار خانہ بھی کہا جاتا ہے۔

مسجد اولیا: یہ مسجد کٹہیار کے خان بہادر چوہدری محمد بخش نے 1851میں اس مقدس مقام پر بنوائی تھی، جہاں خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے پہلی نماز ادا کی تھی۔

نظام دروازہ: یہ درگاہ میں داخلے کا صدر دروازہ ہے،جسے نظام حیدر آباد میری عثمان علی خان نے 15۔1912کے دوران تعمیر کرایا تھا، یہ 70فٹ اونچا ہے، اس کے اوپر بڑے بڑے نقارے رکھے ہوتے ہیں ، جو شہنشاہ اکبر نے پیش کئے تھے ۔

دیگیں : درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے احاطے میں بڑی دیگ اور چھوٹی دیگ ہے، ان تاریخی دیگوں کی اپنی خصوصیتوں اور دلچسپیوں کے لحاظ سے بے مثال سمجھی جاتی ہیں، دنیا کی کئی درگاہ میں ان دیگوں کی مثال نہیں ملتی ۔

 

 

بڑی دیگ : دروازے کے مغرب میں رکھی ہے، یہ شہنشاہ اکبر نے 1569میں پیش کی تھی ، اس میں تقریباً 37 کوئنٹل (100من) تبرک پکایا جاسکتا ہے۔

چھوٹی دیگ : بلند دروازہ کے مشرق میں رکھی ہے، یہ دیگ شہنشاہ جہانگیر نے آگرہ میں تیار کروائی تھی، 1033میں پیش کی تھی، اس میں تقریباً 29 کوئنٹل (80من) تبرک کی گنجائش ہے، سالوں سال سے یہ طریقہ عام ہے کہ اپنے وقت کے بڑے حکمرانوں ، امیروں ، عام آدمی اپنی عقیدت اور خاص جذبات کے ساتھ یہاں حاضری دیتے ہیں اور اپنی طاقت کے مطابق بڑی چھوٹی دیگ کے تبرک میں اپنا حصہ شامل کرتے ہیں، ان دیگوں میں جو تبرک تیار ہوتا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، چاول، شکر، گھی اور بعض دوسری چیزیں ملادیتے ہیں، اس کھانے میں جو ذائقہ پیدا ہوتا ہے ، وہ چکھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے ، دیگوں کے اس تبرک پر خادموں کا ایک خاص گروپ نگرانی کرتا ہے، خادموں کا یہ گروہ چمڑے کا خاص لباس پہن کر دیگوں میں اُتر کر تبرک نکالتا ہے ، جبکہ یہ منظر دیکھنے کے لائق ہوتا ہے-

عراق میں آج بھی دہشتگردانہ بم دھماکے ہوئےہیں۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق آج جنوب مشرقی صوبے قادسیہ کے شہر دیوانیہ میں دو کار بم دھماکے ہوئے جن میں پانچ افراد جاں بحق اور چالیس زخمی ہوئے ہیں۔ واضح رہے گذشتہ روز بغداد میں دو کار بم دھماکے ہوئے تھے جن میں چوبیس افراد جاں بحق اور تیس زخمی ہوئے تھے۔ عراقی حکام کا کہنا ہےکہ عراق میں تکفیری دہشتگرد گروہ عوام کا قتل عام کرنے میں ملوث ہیں جنہيں سعودی عرب اور قطر کی حمایت حاصل ہے۔ ادھر مجلس اسلامی عراق کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ داخلی اختلافات کے جاری رہنے سے ملک کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ سید عمار حکیم نے سیاسی گروہوں کے اختلافات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہےکہ بعض لوگ ملک میں بدامنی پھیلا کر ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی گروہوں کے مذاکرات پر تاکید کی۔ ادھر العراقیہ البیضاء کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہےکہ ترکی اور قطر کے حکام عراق کوٹکڑے کرنے کے توھم میں گرفتار ہیں۔ شفق نیوز کے مطابق جمال البطیخ نے آج پارلیمنٹ میں کہا کہ ترکی اور قطر کے حکام عراق کو ٹکڑے کرنے کے توھم میں گرفتار ہیں وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کو سرنگوں کرنے میں انہیں ہرگز کامیابی نہیں ملے گي۔ انہوں نے کہاکہ ایسے ٹھوس ثبوت و شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ ترکی اور قطر اپنے ایجنٹوں سے عراق کے مغربی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے کروارہے ہیں اور ان ایجنٹوں کومالی امداد دے کر بغداد میں بھی اس طرح کے مظاہرے کروانا چاہتے ہیں۔

۲۰۱۳/۰۲/۲۷ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات میں امت مسلمہ کی بہت سے مشکلات کو مصنوعی اور دشمنان اسلام کی جانب سے مسلط کردہ مشکلات قراردیتے ہوئے فرمایا: عالم اسلام کی قدرتی توانائیوں ، انسانی اور جغرافیائی صلاحیتوں کو احیاء کرنے سے بہت سے مؤثر اور مفید اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کی مشکلات حل کرنے کا دوسرا عامل اسلامی ممالک کے باہمی روابط کو فروغ دینے اور مستحکم بنانے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا صہیونیوں اور سامراجی طاقتوں کےاصلی منصوبوں اورمسلّم پالیسیوں میں شامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور پاکستان کے برادرانہ اور دوستانہ روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمارا دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی ، سیاسی ،سماجی ، تعمیراتی اور سکیورٹی تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنانے پر سنجیدہ اور ٹھوس اعتقاد ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن کو تہران اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کا اہم نمونہ قراردیا اور دونوں ممالک کے باہمی روابط کو فروغ دینے کے خلاف دشمنوں کی سازشوں اور مخالفتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں کی مخالفتوں کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرنا اور ان سے عبور کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہر ملک منجملہ پاکستان کے لئے انرجی کے مطمئن اور پائدار ذخیرہ کو سب سےپہلے درجہ کی اہمیت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس علاقہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس انرجی کا مطمئن ذخیرہ ہے اور ہم پاکستان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پاکستان میں مذہبی اختلاف و تفرقہ پیدا کرنے کو ایک غیر ملکی خطرناک جراثیم قراردیتے ہوئے فرمایا: پاکستان میں مذہب کے نام پر قتل عام حقیقت میں افسوسناک ہے اور پاکستان کے قومی اتحاد میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف سخت اور ٹھوس کارروائی کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس مشکل کو حل کرنے کے سلسلے میں پاکستانی حکومت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: امیدوار ہوں کہ آپ کی حکومت قومی و مذہبی اتحاد کے سائے میں پاکستان کی ترقی و پیشرفت میں کامیاب اور کامراں ہو۔

پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اس ملاقات پر اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: میں دونوں ممالک کے باہمی روابط کو فروغ دینے پر یقین رکھتا ہوں۔

پاکستان کے صدر نے کہا: علاقائی اور عالمی بازیگروں کی ایران اور پاکستان کے باہمی روابط کو فروغ دینے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ناکام ہوگئی ہے کیونکہ قوموں نے دشمن کے خلاف قیام کرنے کا طریقہ کار سیکھ لیا ہے۔

پاکستان کے صدر زرداری نے پاکستان میں اندرونی جنگ چھیڑنے کے نقشہ کو پاکستان کے دشمنوں کا نقشہ قراردیتے ہوئے کہا: جنابعالی کی دعاؤں کے سائے میں دشمنوں کے نقشہ کو اجرا نہیں ہونے دیں گے۔

تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی کی امامت میں ادا کی گئي ۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ ملت ایران پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو اپنا مسلمہ حق سمجھتی ہے۔

آیت اللہ کاظم صدیقی نے آلماتی میں پانچ جمع ایک گروپ اور ایران کے مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مواقف ٹھوس ہیں کیونکہ ملت ایران پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو سائنسی اور صنعتی استعمال کے لئے اپنا مسلمہ حق سمجھتی ہے اور کسی طاقت سے مرعوب نہیں ہے۔ انہوں نے الماتی مذاکرات کے بارے میں کہا کہ ان مذاکرات میں پانچ جمع ایک گروپ کا موقف ماضی سے بہتر اور حقیقت پسندانہ تھا۔ خطیب جمعہ تہران نے امریکی صدر باراک اوباما کے اس بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران کو ایٹم بم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گي کہا کہ دین اسلام اور اس کے تحت رہبرانقلاب اسلامی کے بیانات اور فتوے کے مطابق ایران ایٹمی ہتھیار کے درپئے نہیں ہے کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری انسانیت مخالف جرم ہے۔ آيت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ایٹم بنانے کا ارادہ کرے تو امریکہ سمیت کوئي طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ملت ایران چونتیس برسوں سے عالمی طاقتوں کے مقابل ڈٹی ہوئي ہے اور دشمنوں کی تمام سازشوں کو منجملہ عراق کی بعثی حکومت کی مسلط کردہ جنگ کو کامیابی سے سرکرچکی ہے۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ ملت ایران ہر اس تجویز کو مسترد کرتی ہے جس میں پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو روکنے کی بات کہی گئي ہو اور کسی بھی عھدیدار کو اس سلسلے میں معاملہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ خطیب جمعہ تہران نے پیغمبر اعظم آٹھ فوجی مشقوں کو کامیاب قراردیتے ہوئے کہا کہ ان فوجی مشقوں کا مقصد ملت ایران کی طاقت اور دفاعی ترقی کی نمائش کرنا تھا جس سے دشمن مایوس ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان فوجی مشقوں کا ایک اور مقصد دشمنوں کو خبردار کرنا ہے کہ ایران پر حملے کا خيال ذہن سے نکال دیں اور انہیں جان لینا چاہیے کہ ملت ایران تمام جارح طاقتوں کے مقابل ڈٹ جائے گي اورہمیشہ کی طرح کامیاب رہے گي۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ پیغمبر اعظم آٹھ فوجی مشقوں سے علاقے کے ملکوں کو امن و صلح کا پیغام دیا گيا ہے اور اس بات پر تاکید کی گئي ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران کڑے حالات میں علاقے کی قوموں کے ساتھ رہے گي کیونکہ ایران علاقے کے ملکوں کا خیر خواہ ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے اراکین پارلیمنٹ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام ہرگز نہیں روکا جاسکتا۔

ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اراکین نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایران کی مذاکراتی ٹیم این پی ٹی اور ایٹمی توانائي کی بین الاقوامی ایجنسی، آئي اے ای اے، کے اصول و قوانین کے دائرے میں ملت ایران کے حقوق کا سنجیدگي کے ساتھ دفاع کرے اور کسی بھی طرح کا اشتراک عمل ملت ایران کے حقوق اور قومی مفادات کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ایرانی اراکین پارلیمنٹ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ روس اور چین سے، جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں، امید کی جاتی ہے کہ وہ امریکہ کے غیرمنطقی مطالبات کے آگے نہیں جھکیں گے اور این پی ٹی کے اصول و قوانین، خاص طور سے، اس کی شق نمبر 4 کا دفاع کریں گے جس کی رو سے رکن ممالک کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کا حق حاصل ہے۔ ایرانی اراکین پارلیمنٹ نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے آج کے حقائق کو تسلیم کریں اور مقابلے کی پالیسی کے بجائے تعاون کی پالیسی اختیار کریں۔

رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي بے نظير اخلاقي صفات ميں ايک نرم دلي اور رواداري ہے- آپ بدو عربوں يہاں تک کہ کينہ پرور دشمنوں کي درشت خوئي، بے ادبي اور جايلت پر نرمي اور رواداري سے پيش آتے تھے- آپ کي اس صفت نے بے شمار لوگوں کو اسلام کي طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا گرويدہ بھي بنا ديا-

حضرت علي عليہ السلام فرماتے ہيں بلين الجانب تانس القلوب"نرمي اور (مريباني) سے ہي لوگ مانوس ہوتے ہيں- (غررالحکم ج 2 ص 411 )

( رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم سے روايت ہے کہ وعليکم بالاناءۃ واللين والتسرع من سلاح الشيطان وما من شئي احب الي اللہ من الاناءۃ واللين-

تمہيں نرمي اور رواداري اختيار کرني چاہيے ،اور ايک دوسرے کے ساتھ پيش آنے ميں جلد بازي شيطان کا کام ہے اور خدا کے نزديک نرمي اور رواداري سے پسنديدہ اخلاق اور کوئي نہيں ہے- (علل الشرايع ج 2 ص210)

حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت ہے کہ ان العلم خليل المومن ، والحلم وزيرہ

بے شک علم مومن کاسچا دوست ہے حلم اس کا وزير ہے صبر اسکي فوج کا امير ہے دوستي اس کا بھائي ہے نرمي اس کا باپ ہے- (مجلسي ج 78 ص 244)

رسول اکرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي نرم خوئي اور رواداري خدا کي خاص عنايت و لطف ميں ہے اسي صفت کي وجہ سے لوگ آپ کي طرف کھنچے چلے آتے تھے- سورہ مبارکہ آل عمران ميں آپ کي ان ہي صفات کي طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہو رہا ہے "فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظا غليظا القلب لانفضوامن حولک فا‏عف عنھم واستغفرلھم- پيغمبر اللہ کي مہرباني ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو يہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہيں معاف کر دو اور ان کے لئے استعفار کرو-(آل عمران 150)

رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي نرم مزاجي اور رواداري کے بارے ميں دو واقعات ملاحظہ فرمائيں-

محدث قمي نے سفينہ البحار ميں انس بن مالک سے روايت کي ہے کہ انس بن مالک کہتے ہيں کہ ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کے پاس تھا آپ ايک عبا اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے تھے ايک عرب آتا ہے اور آپ کي عبا کو پکڑ کر زور سے کھينچتا ہے جس سے آپ کي گردن پر خراش پڑ جاتے ہيں اور آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد ميرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال ميں سے جو تمہارے پاس ہے لاد دو کيونکہ وہ نہ تو تمہارا مال ہے اور نہ تمہارے باپ کا- رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم مرد عرب کي يہ بات سنکرخاموش رہے اور فرمايا المال مال اللہ وانا عبدہ- سارا مال خدا کا ہے اور ميں خدا کا بندہ ہوں- اس کے بعد فرمايا اے مرد عرب تو نے جو ميرے ساتھ کيا ہے کيا اسکي تلافي چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہيں کيونکہ تم ان ميں سے نہيں ہو جو برائي کا بدلہ برائي سے ديتے ہيں- آنحضرت يہ سنکر ہنس پڑے اور فرمايا مرد عرب کے ايک اونٹ پر جو اور دوسرے پر خرما لاد ديا جائے- اسکے بعد اسے روانہ کر ديا- (سفينہ البحار باب خلق)

1- شيخ صدوق نے اپني کتاب امالي ميں ساتويں امام عليہ السلام کے واسطے سے حضرت امير المومنين علي عليہ السلام سے روايت کي ہے کہ رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم پر ايک مرد يہودي کي چند اشرفياں قرض تھيں ، يہودي نے آنحضرت سے قرضہ طلب کر ليا- آپ نے فرمايا ميرے پاس تمھيں دينے کو کچھ بھي نہيں ہے- يہودي نے کہا ميں اپنا پيسہ ليئے بغير آپ کو جانے نہيں دونگا- رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا اگرايسا ہے تو ميں تيرے پاس ہي بيٹھا رہوں گا، آپ اس مرد يہودي کے پاس بيٹھ گئے اور اس دن کي نمازيں وہيں ادا کيں- جب آپ کے صحابہ کو واقعے کا علم ہوا تو يہودي کے پاس آئے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے- آپ نے صحابہ کو منع فرمايا اصحاب نے کہا اس يہودي نے آپ کو قيدي بنا ليا ہے اس کے جواب ميں آپ نے فرمايا لم پبعثني ربي بان اظلم معاھدا ولاغيرہ- خدا نے مجھے نبي بنا کر نہيں بھيجا تاکہ ميں ہم پيمان کافر يا کسي اور پر ظلم کروں- دوسرے دن مرد يہودي اسلام لے آيا اس نے شہادتين جاري کيں اور کہا کہ ميں نے اپنا نصف مال راہ خدا ميں ديديا خدا کي قسم ميں نے يہ کام نہيں کيا مگر يہ کہ ميں نے توريت ميں آپ کي صفات اور تعريف پڑھي ہے توريت ميں آپ کے بارے ميں اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکہ و مہجرہ بطيبہ وليس بفظ ولاغليظ و بسخاب و لا متزين بفحش ولاقول الخناء وانا اشھدان لا الہ الا ا للہ وانک رسول اللہ وھذا مالي فاحکم فيہ بما ا نزل اللہ- محمد ابن عبداللہ جس کي جائے پيدائش مکہ ہے اور جو ہجرت کر کے مدينے آئے گا نہ سخت دل ہے نہ تند خو ،کسي سے چيخ کر بات نہيں کرتے اور نہ ان کي زبان فحش اور بيہودہ گوئي سے آلودہ ہے ،ميں گواہي ديتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئي معبود نہيں ہے اور آپ اس کے رسول ہيں اور يہ ميرا مال ہے جو ميں نے آپ کے اختيار ميں ديديا اب آپ اس کے بارے ميں خدا کے حکم کے مطابق فيصلہ کريں-

سورہ توبہ ميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم کي تعريف ميں ارشاد ہوتا ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم عزيزعليہ ماعنتم حريص عليکم بالمومنين رۆف رحيم- فان تولوا فقل حسبي اللہ لا الہ الا اللہ ہو عليہ توکلت و ہورب العرش العظيم-

يقيناً تمہارے پاس وہ پيغمبر آيا ہے جو تمہيں ميں سے ہے اور اس پر تمہاري ہر مصيبت شاق ہوتي ہے ، وہ تمہاري ہدايت کے لئے حرص رکھتا ہے اور مومنين کے حال پر شفيق و مہربان ہے اب اس کے بعد بھي يہ لوگ منہ پھير ليں تو کہ ديجئے کہ ميرے لئے خدا کافي ہے اس کے علاوہ کوئي خدا نہيں ہے ميرا اعتقاد اسي پر ہے اور وہي عرش اعظم کا پروردگار ہے-

Wednesday, 27 February 2013 08:33

ملکہء سبا

ملکہء سبا حضرت سلیمان کی حکومت عظیم تھی چرند پرند حیوانات جن وغیرہ انکے تابع ، جب سفر کر تے ہوا کے دوش پر سوار سائیباں کے طور پر پرندے بالا سر ہوتے تاکہ دھوپ سے بچ جائیں ،جگہ خالی دیکھی معلوم ہوا کہ ہد ہد نہیں ہے ۔ ناراضگی کا اظہار کیا ہد ہد نے حاضری کے بعد ملکہ سبا کی حکومت کا تذکرہ کیا۔ ارشاد رب العزت ۔

إِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَأَةً تَمْلِکُہُمْ وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ وَّلَہَا عَرْشٌ عَظِیمٌ وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللہ ۔

" میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمران ہے اسکے پاس ہر قسم کی نعمت موجود ہے اور اسکا ایک عظیم الشان تخت ہے میں نے دیکھا کہ وہ اور اسکی قوم اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں ۔ " (نمل: ۲۲تا۲۳)

حضرت سلیمان نے خط دیا کہ وہاں ڈال آئے ۔ خط کا مضمو ن إِنَّہ مِنْ سُلَیْمَانَ وَإِنَّہ بِاِسْمِ اللہ الرَّحْمَانِ الرَّحِیْمِ أَلاَّ تَعْلُوْا عَلَیَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ (ملکہ نے کہا دربار لگاؤ میری طرف ایک محترم خط آیا ہے یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور وہ یہ ہے) خدا کے رحمان و رحیم کے نام سے شروع ۔ تم میرے مقابلہ میں بڑائی مت کرو اور فرماں بردار ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ (نمل: ۳۰تا۳۱)

امراء و وزراء سے مشورہ کیا۔ عام طور پر بادشاہ جب کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو معزز لوگ بھی ذلیل ہو جاتے ہیں ۔ طے ہوا کہ ہدیہ بھیج کر دیکھا جائے کہ کیا صورت حال ہے۔

حضرت سلیمان نے ہدیہ قبول نہیں کیا۔ فرمایا کون ہے ۔ جوتخت بلقیس کو لائے۔ عفریت (جو جن تھا)

کہنے لگا میں حاضر۔ لیکن ایک وزیر آصف بن برخیا تھا عرض کرنے لگا۔ پلک جھپکنے میں پیش کر سکتا ہوں پھر دیکھا کہ تخت سامنے موجود ہے۔ جب ملکہ بھی آگئی ۔ تو اسے محل کی طرف بلایا گیا۔

ارشاد رب العزت قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّةً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا قَالَ إِنَّہ صَرْحٌ مُمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

. "ملکہ سے کہا گیا محل میں داخل ہو جائیے ۔ جب سامنے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں۔ سلیمان نے کہا یہ شیشہ سے مرصع محل ہے۔ ملکہ نے کہا۔ پروردگار میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین پر ایمان لاتی ہوں۔" (نمل:۴۴) جب تک یہ عورت سورج پرست تھی ۔ کافرہ مشرکہ سزا کی مستوجب جب ایمان لائی۔ صالح عمل بجا لائی تو بارگاہ رب العزت میں معزز و مکرم ٹھہری۔ اصل مسئلہ ارتباط بہ خدا ہے اور یہاں مرد و عورت میں مسابقت ہے پس جو بازی لے جائے۔

معاشرے میں عورت کا کردار اور حقوق

انسانی معاشرے میں عورت کا کردار

 

عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ معلوم ہوا کھ عورتوں کا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم زمانے سے ہی معاشروں میں مفکرین کی سطح پر اسی طرح مخلتف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں اس پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔

 

عورت کے سلسلے میں منطقی نقطہ نظر

 

عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کھ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟

 

صنف نسواں پر تاریخی ظلم

 

پوری تاریخ میں مختلف معاشروں میں عورتوں کے طبقے پر ظلم ہوا ہے۔ یہ انسان کی جہالت کا نتیجہ ہے۔ جاہل انسان کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے سر پر کوئی سوار نہیں ہے اور کوئی طاقت اس کی نگرانی نہیں کر رہی ہے، خواہ یہ نظارت انسان کے اندر سے ہو جس کا اتفاق بہت کم ہی ہوتا ہے یعنی قوی جذبہ ایمانی، اور خواہ باہر سے ہو یعنی قانون، اگر قانون کی تلوار سر پر لٹکتی نہ رہے تو اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ طاقتور، کمزور کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔

 

حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو اس کی شان و شوکت حاصل ہونا چاہئے، عورت ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بہت ہی بری چیز ہے۔ خواہ وہ زیادتی ہو جو عورت پر کی جاتی ہے اور اسے زیادتی کہا بھی جاتا ہے اور خواہ وہ زیادتی ہو کھ جسے سرے سے زیادتی سمجھا ہی نہیں جاتا جبکہ فی الواقع وہ ظلم ہے، زیادتی ہے۔ مثلا یہی بننا سنورنا، واہیات میک اپ اور اسے استعمال کی چیز بنا دینا۔ یہ عورت پر بہت بڑا ظلم اور سراسر زیادتی ہے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عورت کے حق میں سب سے بڑی نا انصافی ہے کیونکہ یہ چیز اسے ارتقاء اور کمال کے تمام اہداف اور امنگوں سے غافل اور منحرف کرکے انتہائی بے وقعت اور گھٹیا چیزوں میں مشغول کر دیتی ہے۔

 

دنیا میں عورت کا مسئلہ

 

انسان نے اپنے تمام تر دعوؤں کے باجود، اپنی تمام تر پر خلوص اور ہمدردانہ مساعی کے باوجود، عورت کے سلسلے میں انجام دئے جانے والے علمی و ثقافتی کاموں کے باوجود ہنوز دونوں صنفوں بالخصوص صنف نازک کے بارے میں کوئی صحیح راستہ منتخب اور طے کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔

 

دوسرے لفظوں میں، زیادہ روی، کجروی اور غلط نتائج نکالنے اور پھر اسی بنا پر زیادتی، نا انصافی، ذہنی امراض، خاندان سے متعلق مسائل، دونوں صنفوں کے روابط اور میل ملاپ سے متعلق مشکلات آج بھی انسانی معاشرے میں لا ینحل باقی ہیں۔ یعنی جس انسان نے مادی شعبوں میں، فلکیات کے میدان میں، سمندروں کی گہرائیوں میں اتر کر بے شمار دریافتیں کیں اور جو نفسیات کی مو ش‍گافی اور سماجی و معاشی امور میں باریک بینی کا دم بھرتا ہے، اور حقیقت میں بھی بہت سے میدانوں میں اس نے ترقی کی ہے، اس (عورت کے) مسئلے میں ناکام رہا ہے۔

 

عورت کے سماجی وقار میں حجاب کا کردار

 

مکتب اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان ایک حجاب اور حد بندی قائم کی گئی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ عورتوں کی دنیا مردوں کی دنیا سے بالکل جدا اور مختلف ہے۔ نہیں عورتیں اور مرد معاشرے میں اور کام کی جگہوں پر ایک ساتھ ہوتے ہیں ہر جگہ ان کو ایک دوسرے سے کام پڑتے ہیں۔ سماجی مسائل کو مل جل کر حل کرتے ہیں، جنگ جیسے مسئلے کو بھی باہمی تعاون و شراکت کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں اور ایسا انہوں نے کیا بھی ہے، کنبے کو مل جل کر چلاتے ہیں اور بچوں کی پرورش کرتے ہیں لیکن گھر اور خاندان کے باہر اس حد بندی اور حجاب کو ہر حال میں ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ یہ اسلامی طرز زندگی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہی فحاشی پھیلے گی جس میں آج مغرب مبتلا ہے۔ اگر اس نکتے کا خیال نہ رکھا جائے تو عورت اقدار کی سمت اپنی پیش قدمی کو جو آج ایران میں نظر آ رہی ہے، جاری نہیں رکھ سکے گی۔

 

حجاب کا مطلب عورت کو سب سے الگ تھلگ کر دینا نہیں ہے۔ اگر حجاب کے سلسلے میں کسی کا یہ نظریہ اور تصور ہے تو یہ سراسر غلط نظریہ ہے۔ حجاب تو در حقیقت معاشرے میں مرد اور عورت کو ضرورت سے زیادہ اختلاط سے روکنا ہے۔ ضرورت سے زیادہ قربت معاشرے، مرد اور عورت دونوں بالخصوص عورت کے لئے تباہ کن نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ حجاب کو ملحوظ رکھنے سے عورت کو اپنے اعلی روحانی مقام پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے اور وہ سر راہ موجود نازک موڑ پر لغزش سے محفوظ رہتی ہے۔

 

عورتوں کے دفاع کے سلسلے میں کیا جانے والا ہر اقدام بنیادی طور پر عورت کی عفت و پاکیزگی کی حفاظت پر مرکوز ہونا چاہئے۔ عورت کی عفت و پاکیزگی فی الواقع دوسروں کی نظر میں حتی خود شہوانی خواہشات میں غرق انسانوں کی نظر میں عورت کا احترام اور وقار قائم کرتی ہے۔ اسلام عورت کی عفت و پاکدامنی پر خاص تاکید کرتا ہے۔ البتہ مردوں کی پاکدامنی بھی ضروری چیز ہے۔ عفت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں ہے، مردوں میں بھی پاکدامنی ہونی چاہئے۔

 

جہاں عورتوں کو حجاب سے محروم کر دیا جاتا ہے، جہاں عورت کو عریانیت اور برہنگی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے وہاں سب سے پہلے تو خود عورت کی سلامتی اور اس کا تحفظ اور دوسرے مرحلے میں مردوں اور نوجوانوں کی سلامتی خطرات کی زد پر آ جاتی ہے۔ معاشرے اور ماحول کو محفوظ اور صحتمند رکھنے کے لئے اور ایسی فضا قائم کرنے کے لئے اسلام نے حجاب کا اہتمام کیا ہے جس میں عورت بھی معاشرے میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکے اور مرد بھی اپنے فرائض سے عہدہ بر آ ہو سکے۔

 

عورتوں کی ذمہ داریاں اور کردار

 

اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ " من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم" ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔

عورتوں کی سماجی سرگرمیوں کی بنیاد

 

کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، جب غور و فکر، عقل و خرد، تشخیص و توجہ، مصلحت اندیشی و بار آوری اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوار ہو۔ عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے انجام دئے جانے والے ہر عمل میں اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہئے یعنی ہر حرکت دانشمندانہ سوچ پر مبنی ہو اور حقائق، عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان و رغبت سے آگاہی، عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے واقفیت، مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے، غیروں سے مرعوب ہوکر اور اندھی تقلید کی بنیاد پر انجام نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر یہ حرکت غیروں سے مرعوب ہوکر، اندھے فیصلے اور اندھی تقلید کی بنیاد پر آنکھیں بند کرکے انجام دی گئی تو یقینا ضرررساں ثابت ہوگی۔

 

قومی ترقی میں عورتوں کا کردار

 

اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ دین مقدس اسلام کی اعلی تعلیمات پر اتکاء کرتے ہوئے اپنے حقوق کا بخوبی دفاع کر سکیں، اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی فعالیتوں کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔

 

حصول علم لازمی اور واجب

 

عورتیں اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھنا لکھنا نہیں چاہئے۔ یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ لڑکیوں کو چاہئے کہ اپنے لئے مفید ثابت ہونے والے موضوعات میں جن سے انہیں دلچسپی اور لگاؤ ہے تعلیمی سرگرمیاں انجام دیں۔ معاشرے کو لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تعلیم یافتہ لڑکوں کی ضرورت ہے۔ البتہ تعلیمی ماحول صحتمند ہونا چاہئے۔ تعلیم کے لئے مرد اور عورت کی معاشرت سے متعلق اخلاقی اقدار سے دوری ضروری نہیں ہے بلکہ ان اقدار کی مکمل پابندی کے ساتھ تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا جا سکتا ہے۔

 

انتہائی اہم اور بنیانی کاموں میں ایک، عورتوں کو کتابوں کے مطالعے کا عادی بنانا ہے۔ ایک ایسی جدت عمل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر عورتیں گھروں کے اندر کتابوں کے مطالعے کی عادی ہو جائیں۔ انسانی معرفتوں کی کتابیں ذہنوں کو بہتر ادراک، بہتر فکر، بہتر جدت عمل کے لئے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں خود کو پہنچانے کے لئے آمادہ اور تیار کرتی ہیں۔

 

علم و دانش تو بے حد عزیز چیز ہے اور میں تو اس کا قائل ہوں کہ اسلامی معاشرے میں عورتیں تمام موضوعات پر عبور حاصل کریں۔ بعض خواتین خیال کرتی ہیں کہ اگر کوئی خاتون، عورتوں سے متعلق موضوع کا علم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے عورتوں کی خاص بیماریوں کا علم حاصل کرنا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ طب کے مختلف شعبوں جیسے نیورولوجی اور کارڈیولوجی وغیرہ کے سلسلے میں کام کریں۔ یہ شرعی اور سماجی فریضہ ہے۔

 

عورتیں گھر سے باہر کام کر سکتی ہیں

 

اسلام عورت کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ اگر گھر کے باہر کام عورت کے بنیادی فریضے یعنی بچوں کی تربیت اور کنبے کی نگہداشت سے متصادم نہیں ہو رہا ہے تو شائد یہ ضروری بھی ہو۔ کوئی بھی ملک گوناگوں شعبوں میں عورتوں کی افرادی طاقت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

 

بعض لوگ انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے گھر، شوہر اور بچوں کا خیال رکھ پانا مشکل ہو جاتا ہے لہذا سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کر لینی چاہئے جبکہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ گھر، شوہر اور بچوں کی وجہ سے سماجی سرگرمیوں کا موقع نہیں مل پاتا لہذا شوہر اور بچوں سے ناتہ توڑ لینا چاہئے۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ کسی ایک کو بھی دوسرے کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہئے۔

 

البتہ گھر سے باہر کام، عورتوں کا اولیں اور بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام عورتوں کے کام کرنے اور فرائض کی انجام دہی کا مخالف نہیں ہے، سوائے کچھ کاموں کے کہ جن میں سے کچھ کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اتفاق رائے ہے اور کچھ کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم عورت کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس روزگار ہے یا نہیں۔ عورت کا بنیادی ترین مسئلہ اور فریضہ وہ ہے جسے آج بد قسمتی سے مغرب میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ ہے تحفظ کا احساس، سلامتی کا احساس اور صلاحیتوں کے نشو نما پانے کے امکانات کی فراہمی کا احساس اور معاشرے میں، خاندان میں، شوہر کے گھر میں یا والدین کے گھر میں اس کا ظلم و زیادتی سے محفوظ رہنا۔ جو لوگ عورتوں کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں انہیں ان پہلوؤں پر کام کرنا چاہئے۔

 

دوسرا باب: خاندان میں عورت کا کردار

 

عورتوں کی اسلامی تربیت

 

اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گي۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوشبخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔

 

انتہائی اہم چیزوں میں ایک، گھر کے اندر کے فرائض یعنی شوہر اور بچوں سے برتاؤ کی نوعیت کے تعلق سے عورتوں کو صحیح طریقوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جو بہت اچھی ہیں، ان میں صبر و تحمل، حلم و بردباری، درگزر اور رواداری کا جذبہ اور اچھا اخلاق پایا جاتا ہے لیکن وہ بچوں اور شوہر کے سلسلے میں اپنا رویہ درست نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اور روش با قاعدہ ایک علم ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی تجربات کے ساتھ روز بروز بہتر ہوئی ہیں اور آج اچھی صورت حال میں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہیں جن کے پاس بڑے گرانقدر تجربات ہیں۔ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے جس سے یہ عورتیں گھر کے اندر رہتے ہوئے ان روشوں اور طریقوں سے آگاہ ہو سکیں اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔

 

خاوند کے انتخاب کا حق

 

عورت ایک بیوی اور شریکہ حیات کی حیثیت سے مختلف مراحل پر اسلام کی خاص توجہ کا مرکز بنی نظر آتی ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ شریک حیات کے انتخاب کا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے عورت اپنے شوہر کے انتخاب میں آزاد ہے اور کوئی بھی شخص شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں عورت پر کوئی بات جبرا مسلط نہیں کر سکتا۔ یعنی حتی عورت کے بھائی اور والد بھی، دور کے رشتہ داروں کی تو بات ہی الگ ہے، اگر اسے مجبور کرنا چاہیں کہ تمہیں لا محالہ فلاں شخص سے ہی شادی کرنی ہے تو انہیں اس کا حق نہیں ہے اور وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ البتہ ماضی میں اسلامی معاشرے میں بھی کچھ غلط اور جاہلانہ رواج تھا۔ تاہم جاہل مسلمان جو کچھ کرتے ہیں اسے اسلام سے نہیں جوڑنا چاہئے۔ یہ تو جاہلانہ عادات و اطوار ہیں۔ جاہل مسلمان جاہلانہ عادات و اطوار کی بنیاد پر کچھ کام ایسے کر جاتے ہیں جن کا اسلام اور اس کے نورانی احکامات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

 

 

شادی سے متعلق دو جاہلانہ رسمیں

 

اگر کوئی شخص کسی لڑکی کو مجبور کرتا ہے کہ تمہیں اپنے چچازاد بھائی سے شادی کرنی ہے تو اس نے غلط کام کیا ہے۔ اگر کوئی چچازاد بھائی اپنی چچازاد بہن کے سلسلے میں اپنے لئے یہ اختیار اور حق محفوظ سمجھتا ہے کہ اسے کسی اور سے شادی کرنے سے روک دے اور یہ کہے کہ چونکہ تم نے مجھ سے شادی نہیں کی لہذا میں تمہیں شادی کی اجازت نہیں دوں گا، تو اس لڑکے اور اس کی مدد کرنے والے ہر شخص سے فعل حرام سرزد ہوا ہے۔ یہ شریعت کی کھلی مخالفت ہے اور فقہائے اسلام کے درمیان اس سلسلے میں مکمل اتفاق رائے ہے۔

 

اگر کسی قبیلے سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص، کسی دوسرے قبیلے سے اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لئے، فرض کیجئے کہ دونوں کے درمیان تنازعہ اور جنگ و خونریزی کا سلسلہ چل رہا ہے، اس اختلاف کو حل کرنے اور تنازعے کو ختم کرنے کی غرض سے ایک قبیلے کی لڑکی کی شادی دوسرے قبیلے میں کر دے اور اس لڑکی سے اس کی رضامندی حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہ کرے تو اس نے شریعت کے خلاف عمل کیا ہے۔ ہاں اگر لڑکی سے رضامندی حاصل کر لی گئی ہے تو پھر کوئی اشکال نہیں ہے۔ کوئی لڑکی ہے جو خود بھی مائل ہے اور اس کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اس کی شادی دوسرے قبیلے کے کسی لڑکے سے کر دی جائے اور اس شادی کے نتیجے میں اختلاف اور تنازعہ بھی ختم ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی لڑکی کو اس کے لئے مجبور کیا جائے تو یہ عمل خلاف شریعت اور اسلامی احکام کی خلاف ورزی ہے۔

 

آشیانے کا چین و سکون

 

انسان کو جن چیزوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے ان میں ایک سکون و چین ہے۔ انسان کی خوشبختی اس میں مضمر ہے کہ ذہنی تلاطم اور اضطراب سے محفوظ و مطمئن رہے۔ انسان کو یہ نعمت کنبے اور خاندان سے ملتی ہے، عورت کو بھی اور مرد کو بھی۔

 

یہ آیہ کریمہ مرد و زن کے سلسلے میں بنیادی طور پر خاندان کے تناظر میں کہتی ہے کہ " و من آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا" یعنی قدرت خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ تم انسانوں کے لئے، خود تمہاری جنس سے، تمہارا جوڑا پیدا کیا ہے۔ تم مردوں کے لئے عورتوں کو اور تم عورتوں کے لئے مردوں کو۔ تم خود "من انفسکم" ایک دوسرے سے ہو، الگ الگ جنس سے نہیں ہو۔ الگ الگ درجے کے نہیں ہو۔ سب کی حقیقت و ماہیت ایک ہے۔ سب ایک ہی حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب کا جوہر اور سب کی حقیقت ایک ہے۔ البتہ بعض خصوصیات کے لحاظ سے کچھ فرق ضرور ہے چنانچہ ان کے فرائض بھی الگ الگ ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ " لتسکنوا الیھا" یعنی انسانوں میں دو صنفیں ایک عظیم ہدف کے لئے قرار دی گئی ہیں۔ وہ ہدف ہے سکون و طمانیت۔ عورتیں (اور مرد) گھر کے اندر اپنی اپنی مخالف صنف کے ساتھ، مرد عورت کے ساتھ اور عورت مرد کی معیت میں طمانیت حاصل کرے۔ گھر میں داخل ہونے پر داخلی فضا پر محیط سکون و چین، مہربان، محبتی اور امانتدار عورت پر نظر پڑنا مرد کے لئے باعث سکون و طمانیت ہوتا ہے۔ عورت کے لئے بھی ایسے مرد اور ایسے سہارے کا وجود، جو اس سے محبت کرے اور اس کے لئے کسی مستحکم قلعے کی مانند ہو، خوشبختی کی علامت اور اس کے لئے باعث سکون و اطمینان اور موجب خوشـبختی و سعادت ہے۔ خاندان دونوں کو یہ نعمت عطا کرتا ہے۔ مرد کو قلبی سکون کے لئے گھر کی فضا میں بیوی کی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کو سکون و چین کے لئے گھر میں مرد کی احتیاج ہوتی ہے۔ "لتسکنوا الیھا" دونوں کو سکون و چین کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔

 

خاندان میں عورت کی اہمیت

 

خاندان کی تشکیل تو در حقیقت عورت ہی کرتی اور وہی اسے چلاتی ہے۔ کنبے کی تشکیل کا بنیادی عنصر عورت ہے، مرد نہیں۔ مرد کے بغیر ممکن ہے کہ کوئی کنبہ موجود ہو۔ کوئی خاندان ایسا ہے جس میں مرد موجود نہیں ہے، دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو گھر کی عورت اگر سمجھدار اور سلیقے مند ہے تو خاندان کو (بکھرنے سے) بچائے رکھے گی لیکن اگر خاندان میں عورت نہ ہو تو مرد خاندان کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، معلوم ہوا کنبے اور خاندان کی حفاظت عورت کرتی ہے۔

 

یہ جو اسلام خاندان کے اندر عورت کے کردار کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت نے خاندان کے فریضے کو سنبھال لیا اور اس میں دلچسپی دکھائی، بچوں کی تربیت و پرورش کو اہمیت دی، اپنے بچوں کا خیال رکھا، انہیں دودھ پلایا، انہیں اپنی آغوش میں پالا، ان کے لئے ثقافتی آذوقہ فراہم کیا یعنی قرآنی حکایتیں، قصے، احکام اور رہنما واقعات سنائے اور فرصت کے وقت میں جسمانی ضرورت کی غذا کی مانند ان چیزوں کا ذائقہ بھی چکھایا تو اس معاشرے کی انسانی نسلیں با شعور اور قابل افتخار ہوں گی۔ یہ عورت کا فن ہے اور یہ تعلیم حاصل کرنے، تعلیم دینے، گھر سے باہر کام کرنے اور سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہونے اور ایسے دیگر امور کی راہ میں حائل بھی نہیں ہے۔

 

تمام سماجی منصوبوں اور پروگراموں میں خاندان اور کنبے کو معیار اور اساس بنانا چاہئے۔ ماں کا مسئلہ، بیوی کا مسئلہ، گھر اور خاندان کا مسئلہ بہت ہی اہم اور حیاتی نوعیت کا ہے۔ یعنی اگر کوئی عورت بہت بڑی ماہر ڈاکٹر بن جائے یا کسی اور شعبے میں مہارت حاصل کر لے لیکن گھر کے فرائض سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تو یہ اس کے لئے ایک نقص اور کمی ہے۔ گھر کی مالکہ کا وجود ضروری ہے، بلکہ محور یہی ہے۔ بلا تشبیہ عورت شہد کی رانی مکھی کا درجہ رکھتی ہے۔

 

 

عورتوں کا فطری اثر و نفوذ

 

کچھ استثنائات سے قطع نظر عموما شوہروں پر بیویوں کا خاص اثر و نفوذ ہوتا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر پر حاوی ہے تب کہا جائے کہ اسے بڑا اثر و نفوذ حاصل ہے، نہیں۔ بات خداداد فطری اثر و نفوذ کی ہو رہی ہے۔ میں اپنے اندازے کے مطابق عورت کو مرد سے زیادہ مضبوط اور قوی سمجھتا ہوں، یہ میرا یقین ہے۔ ایک طویل مقابلے میں، اگر مقابلہ لمبا کھنچے، سرانجام فتح عورت کی ہوگی۔ یعنی عورت آخرکار ان روشوں اور خصائص کے ذریعے جو اللہ تعالی نے اس کے مزاج اور اس کی فطرت میں ودیعت کر دئے ہیں، مرد پر غلبہ حاصل کر لے گی۔ یہ قدرت کی ایک پر کشش حقیقت اور خلقت کا ایک حسین راز ہے۔ میدان عمل میں موجودگی کے سلسلے میں اپنی پچاس فیصدی کی شراکت کے علاوہ عورتیں دوسرے پچاس فیصدی میں بھی جو مردوں سے متعلق ہے موثر ثابت ہوتی ہیں (یعنی اپنے ساتھ مردوں کو بھی میدان عمل میں لانے میں موثر کردار ادا کرتی ہیں)۔

 

مرد اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے بیوی بچے گھر میں رہیں اور وہ خود باہر کی ذمہ داری سنبھالے۔ مثلا ہم لوگ جو ایک زمانے میں دفاعی جنگ لڑ رہے تھے، یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ اپنی عورتوں کو میدان جنگ میں لے جائیں۔ ہم یہی کہتے تھے کہ" آپ لوگ یہیں رہیں، ہم خود جاکر یہ محاذ سنبھالیں گے" لیکن جب عورت میدان جنگ میں جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھی ساتھ لے جاتی ہے اور اسے آگے بھیجتی ہے۔ ایک ایسی ہستی کا نام ہے عورت۔ یہ شخصیت، یہ ذاتی اثر و نفوذ، میدان جنگ میں یہ درخشاں کارکردگی، ماضی و حال اور مستقبل میں جد و جہد کے لئے ہمیشہ قائم و دائم رہنا چاہئے۔

 

مہر و محبت کا گہوارا

 

خاندان کے تناظر میں مرد اور عورت کی پاکیزہ فطرت ایسی ہے جو دونوں کے درمیان ایک خاص وابستگی اور لگاؤ پیدا کر دیتی ہے، عشق و الفت کا رابطہ برقرار کر دیتی ہے "مودۃ و رحمۃ"۔

 

مرد اور عورت کا صحیح اور منطقی رابطہ عشق و الفت کا رابطہ ہے، دوستی و محبت کا رابطہ ہے، مہربانی اور ہمدردی کا رابطہ ہے، وہ ایک دوسرے سے محبت کریں، ایک دوسرے کے گرویدہ رہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر نثار ہوں۔

 

خاندان تو وہ مرکز ہے جہاں الفتوں اور جذبات کو پروان چڑھنا چاہئے، بچوں کو مامتا اور شفقت ملنی چاہئے۔ خاص مردانہ مزاج کے باعث زوجہ کے سلسلے میں مرد کی فطرت ایسی ہوتی ہے کہ بعض چیزوں کے سلسلے میں اس کا دل بہت جلدی ٹوٹ جاتا ہے اور ایسے موقع پر اس کے زخموں کا مرہم صرف اور صرف زوجہ کی نوازش اور محبت ہوتی ہے، ایسے میں ماں کی شفقت بھی کافی نہیں ہوتی۔ ایک جوان مرد کے لئے زوجہ وہ کام کرتی ہے جو ماں ایک چھوٹے بچے کے لئے انجام دیتی ہے۔ ظریف اور لطیف مزاج رکھنے والی خواتین اس حقیقت سے آگاہ بھی ہیں۔ اگر گھر میں اس مرکزی نقطے یعنی گھر کی مالکہ کے تعلق سے یہ جذبات و احساسات نہ ہوں تو اس کنبے کا کچھ مفہوم نہ ہوگا وہ روح سے خالی جسم کی مانند ہوگا۔

 

فرائض کی تقسیم

 

مرد اور عورت دونوں کے مزاج کی کچھ الگ الگ خصوصیات ہیں۔ گھر کے اندر عورت سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ مردوں کے انداز میں کام کرے، اسی طرح کوئی مرد سے عورتوں کے برتاؤ اور اسلوب کی توقع نہ رکھے۔ دونوں کے مزاج اور فطرت کے الگ الگ تقاضے ہیں اور انسان، معاشرے، مرد اور عورت کے سماجی نظام کی مصلحت اسی میں ہے کہ گھروں کے اندر مرد اور عورت کے مزاج اور ان کے فطری تقاضوں کا مکمل طور پر لحاظ کیا جائے۔ اگر اس کا خیال رکھا گيا تو دونوں کی خوشبختی و کامیابی کی راہ ہموار ہوگی۔ کسی کو بھی دوسرے کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کرنے کا حق نہیں ہے۔ بعض مردوں کی سوچ یہ ہے کہ عورت کو ان کے سارے کام انجام دینے ہیں۔ ویسے گھر کے اندر جہاں میاں بیوی کے درمیان گہرا محبت و الفت کا رشتہ ہے، دونوں ایک دوسرے کے کام بڑے شوق اور رغبت سے انجام دیتے ہیں۔ لیکن رغبت اور دلچسپی سے کوئی کام انجام دینا اور بات ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے یا اپنے انداز سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ عورت ایک خادمہ کی طرح مرد کی خدمت کرے اور اسے اپنا فرض سمجھے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔

 

گھر کا فریضہ اولیں ترجیح

 

بعض عورتیں بڑی مصروف ہیں، گھر کے باہر رہتی ہیں، آپریشن کرتی ہیں، اپنے مریضوں کو بھی دیکھتی ہیں، کسی علمی تحقیق میں بھی مصروف ہیں، کوئی پروجیکٹ تیار کر رہی ہیں، کسی یونیورسٹی میں لیکچر بھی دے رہی ہیں، یہ ساری سرگرمیاں اپنی جگہ بالکل درست ہیں لیکن گھر کے فرائض بھی نظر انداز نہیں کئے جانے چاہئے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ گھر کے کاموں کی کیفیت کو مقدار پر ترجیح دی جائے، یعنی اس کی مقدار کو کچھ کم کر دیا جائے۔ عورت کی چوبیس گھنٹہ گھر میں موجودگی کی بات الگ ہے۔ اگر ان چوبیس گھنٹوں میں سے کـچھ گھنٹے کم ہو گئے ہیں لیکن (گھر کے اندر فرائض کی انجام دہی کی ) کیفیت اعلی درجے کی ہے تو یہ ایک الگ صورت حال ہوگی۔ اگر آپ نے دیکھا کہ آپ کے اس (باہر کے) کام سے اس مسئلے ( یعنی گھر کے فرائض) پر منفی اثر پڑ رہا ہے تو آپ کو اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا۔ یہ بہت اہم اور بنیادی چیز ہے، سوائے کچھ ہنگامی صورتوں کے۔ تمام کاموں میں کچھ ایسی ہنگامی صورتیں ہوتی ہیں جو قاعدے اور ضابطے سے مستثنی رکھی جاتی ہیں۔ عورتوں کا سب سے بڑا کام بچوں کی تربیت اور اہم میدانوں میں اترنے اور اعلی مدارج پر فائز ہونے کے لئے شوہروں کی ہمت بندھانا اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

 

بچوں کی تربیت، ایک اہم فریضہ

 

گھر اور کنبے کے اندر عورتوں کی ایک بڑی ذمہ داری بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ جو عورتیں گھر کے باہر کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے ماں بننے سے گریز کرتی ہیں وہ در حقیقت انسانی فطرت اور اپنے نسوانی مزاج کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔ جو خواتین اپنے بچوں، ان کی تربیت، انہیں دودھ پلانے اور انہیں اپنی مہر آگیں آغوش میں لینے اور پرورش کرکے انہیں پروان چڑھانے جیسے کاموں کو بعض ایسے امور کی وجہ سے ترک کر دیتی ہیں جن کی انجام دہی کا انحصار ان کی ذات پر نہیں ہے، وہ بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں۔ بچوں کی پرورش کی بہترین روش یہ ہے کہ ان کی پرورش ماں کی آغوش میں اس کی مہر و الفت اور مامتا کی چھاؤں میں ہو۔ جو خواتین اپنے بچوں کو اس خداداد نعمت سے محروم کر دیتی ہیں، ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہو رہی ہے۔ ان کا یہ عمل ان کے بچوں کے لئے بھی نقصان دہ ہے، خود ان کے اپنے لئے بھی ضرر رساں ہے اور معاشرے کے لئے زیاں بار ثابت ہوتا ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ عورت کا ایک اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ بچوں کو اپنے جذبات کی گرمی سے، اپنی صحیح تربیت سے اور اپنی پوری توجہ اور دلجمعی کے ذریعے ایسا بنائيں کہ یہ بچہ جب بڑا ہو تو ذہنی اور نفسیاتی لحاظ سے ایک صحتمند انسان ہو، احساس کمتری سے دوچار نہ ہو، نفسیاتی پیچیدگیوں میں گرفتار نہ ہو، اس ذلت و بد بختی اور بے شمار مصیبتوں سے محفوظ رہے جن سے مغرب میں یورپ اور امریکا کی نوجوان نسلیں دوچار ہیں۔

 

مغربی ممالک میں خواتین چونکہ گھر اور پچوں کی تربیت پر توجہ نہیں دیتیں اس لئے ان مغربی معاشروں کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ یورپی اور امریکی ممالک میں دسیوں لاکھ بد عنوان اور گمراہ نوخیز لڑکیاں اور لڑکے، اس مادہ پرست ثقافت، ان فلک بوس محلوں، ان ایٹمی چھاونیوں، سو منزلہ سے بھی زیادہ اونچی، آسمانوں سے سرگوشیاں کرتی عمارتوں میں دس سال بارہ سال کے سن سے بد عنوانیوں میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں، چور بن چکے ہوتے ہیں، قاتل بن چکے ہوتے ہیں، اسمگلر بن چکے ہیں، نشہ کی لت میں پڑے ہوئے ہیں، سگریٹ پیتے ہیں، حشیش استعمال کرتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ مغربی عورت نے خاندان اور کنبے کی اہمیت و ارزش کو نہیں پہچانا، اس کی قدر نہیں کی۔

 

گل اور باغباں کی داستان

 

اسلام کے نقطہ نگاہ سے مرد کا فریضہ ہے کہ گھر میں عورت کا خیال بالکل ایسے رکھے جیسے نازک پھول کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ " المرآۃ ریحانۃ" عورت ایک پھول ہے۔ اس (ہدایت) کا تعلق سیاسی، سماجی، تعلیمی اور دیگر میدانوں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق گھر کے اندر کے ماحول سے ہے۔ " المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ" پیغمبر اکرم نے اپنے اس خطاب سے اس غلط نظرئے اور نا درست طرز فکر پر خط بطلان کھینچ دیا جس کے مطابق عورت کو گھر کے اندر تمام کاموں کی انجام دہی کا پابند تصور کیا جاتا تھا۔ عورت پھول ہے جس کا بہت خیال رکھا جانا چاہئے۔ پھول کے ساتھ زور زبردستی کیجئے تو وہ ایک لحظے میں بکھر کر رہ جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے پھول کی نزاکت کو سمجھا اور اس کے ساتھ نزاکت آمیز سلوک کیا تو وہ باعث زینت ہوگا، اپنا اثر دکھائے گا، اپنے محاسن ظاہر اور نمایاں کرے گا۔ جسمانی اور جذباتی نزاکتوں والی اس مخلوق کو اس نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عورت میں اس زنانہ نزاکت کو محفوظ رکھا گیا ہے جس کے زیر اثر اس کے تمام جذبات، خصوصیات اور خواہشات ہوتی ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا گيا ہے کہ وہ عورت ہوتے ہوئے بھی مردوں کے انداز میں سوچے، مردوں کی مانند کام کرے، اپنی خواہشات مردوں کے مطابق بنائے۔ یعنی عورت کے نسوانی انداز کو، جو اس کی ایک فطری اور قدرتی چیز ہے اور جو اس کے تمام جذبات اور سرگرمیوں کا محور بھی ہے، اسلامی طرز فکر میں ملحوظ رکھا گیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ علم کا میدان، روحانیت و معنویت کا میدان، تقوا و پرہیزگاری کا میدان اور سیاسی سرگرمیوں کا میدان اس کے لئے کھلا رکھا گیا ہے۔ یہی نہیں اسے ترغیب دلائی گئی ہے حصول علم کی ، اسی طرح گوناگوں سیاسی و سماجی میدانوں میں اترنے کی۔

 

گھر کے اندر مرد کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اسے جاہلانہ انداز میں اپنی طاقت کے استعمال، زیادہ روی، تحکمانہ روئے اور جبر و اکراہ کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ ہے اسلامی نقطہ نگاہ۔ " و لیست بقھرمانۃ" یہاں فارسی والا قہرمان( چیمپین) مراد نہیں ہے، یہ عربی اصطلاح ہے جو در حقیقت فارسی سے لی گئی ہے۔ عربی میں قہرمان کے معنی ہیں کاموں کی انجام دہی پر مامور سینئر نوکر۔ یعنی مرد گھر میں عورت کو کاموں کی انجام دہی پر مامور نہ سمجھے۔ یہ خیال نہ کیا جائے کہ مرد مالک ہے اور گھر کے کام، بچوں کی نگہداشت وغیرہ کو اس نے ایک سینئر نوکر کے سپرد کر دیا ہے اور وہ سینئر نوکر اس کی بیوی ہے لہذا وہ اس کے ساتھ تحکمانہ برتاؤ کر سکتا ہے۔

 

 

گھروں میں عورتوں پر مظالم

 

اس وقت عالمی سطح پر عورتیں لا متناہی اور لا ینحل مسائل سے دوچار ہیں۔ اس وقت دنیا میں عورتیں دو میدانوں میں شدید رنج و الم برداشت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے خاندان اور دوسرا میدان ہے سماج اور معاشرہ۔ یہ چیز یورپ اور امریکا میں اسی طرح ان ممالک میں ہے جنہوں نے انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیا ہے۔ کہیں بہت زیادہ شدت نظر آتی ہے تو کہیں یہ شدت کچھ کم ہے۔ گھر کے اندر عورت مظلوم ہے۔ یعنی شوہر گھر کے اندر واقعا بیویوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس ماحول میں گھر کے اندر عورتوں پر مردوں کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ مرد، عورت کو اپنی شریکہ حیات نہیں سمجھتا۔ اپنے تمام جذبات و احساسات کو عورت پر نثار نہیں کرتا۔ یہ مرد گھر کے باہر غیر اخلاقی حرکتوں، عیاشیوں اور شہوانی مشغلوں میں مصروف ہیں جبکہ گھر کے اندر ایک سرد مہری اور بے رخی کا انداز ہے جو کبھی کبھی بد اخلاقی اور زور زبردستی کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ سب سے اہم بات مرد اور عورت کا باہمی تعاون اور تال میل ہوتا ہے۔ انسان اپنی بیٹی کو معلوم نہیں کیسی کیسی زحمتیں گوارا کرکے پیار محبت سے بڑا کرتا ہے۔ وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی جو ماں باپ کے گھر میں ہنوز بچی ہی شمار کی جاتی ہے، اس کے بعد شوہر کے گھر جاتی ہے جہاں اس سے یکبارگی یہ توقع ہو جاتی ہے کہ ہر بات سمجھے، ہر کام انجام دے اور ہر ہنر سے واقف ہو۔ اس سے ذرا سی غلطی ہوئی نہیں کہ چڑھائی کر دی جاتی ہے! یہ نہیں ہونا چاہئے۔

 

مرد نے اگر گھر میں مالکانہ اور تحکمانہ رویہ اپنایا، عورت کو خادمہ کی حیثیت سے دیکھا تو یہ اس کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہے، جو بد قسمتی سے بہت سے مردوں کے ہاں پائی جاتی ہے۔ گھر کے باہر بھی یہی صورت حال ہے۔ اگر عورت کو تعلیم حاصل کرنے، کوئی کام انجام دینے اور بعض مواقع پر پیسے کمانے کے لئے محفوظ ماحول میسر نہ ہو تو یہ ظلم ہے، نا انصافی ہے۔ عورت کو اگر علم و معرفت حاصل کرنے کا موقع نہ دیا جائے تو اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر حالات ایسے ہوں کہ عورت مختلف کاموں اور گوناگوں ذمہ داریوں کے باعث تہذیب اخلاق، اپنے دین اور اپنے علم و معرفت کی جانب توجہ نہ دے سکے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔ اگر عورت کو اس کی ذاتی اور نجی ملکیت اور اثاثے کے آزادانہ اور حسب منشاء استعمال کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر شادی کے وقت عورت کے سر کسی مرد کو مڑھ دیا جائے یعنی خاوند کے انتخاب میں خود اس کا اپنا کوئی کردار نہ ہو اور اس کی خواہش اور مرضی کا خیال نہ رکھا گيا ہو تو یہ سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔ عورت جب (شوہر کے) گھر میں زندگی بسر کر رہی ہے اس وقت اسی طرح شوہر سے جدا ہو جانے کی صورت میں اگر بچوں کو پیار کرنے اور مامتا کے جذبے کی تسکین کا موقع نہ پائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر عورت میں استعداد اور صلاحیت ہے مثلا علمی صلاحیت سے مالامال ہے، ایجادات اور نئی دریافتوں کی صلاحیت رکھتی ہے، سیاسی شعور رکھتی ہے، سماجی کاموں کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اسے اس کی استعداد کو استعمال کرنے اور اس پر نکھار لانے کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے تو یہ اس کے ساتھ ظلم ہے۔

 

تحرير : مسز رضوی کلکته

Wednesday, 27 February 2013 08:29

دختر جناب شعیب عليه السلام

حضرت شعیب کی خدمت میں موسیٰ کی آمد ۔ شعیب کی طرف سے شادی کی پیش کش ۔حق مہر کا تعین ۔کئی سال کاکام ۔پھر واپس روانگی۔ راستہ میں بچے کی ولادت اور نبوت کا ملنا ان واقعات میں موسیٰ کی ماں کا مامتا پر ضبط، خواہر موسی کی جفا کشی اور خبرداری پھر زوجہ ٴ فرعون کا ہر مرحلہ میں حضرت موسیٰ کا تحفظ ۔ان مراحل میں عورت کی عظمت، عورت کی محبت و ایثار اور نبی کی جان کے تحفظ ۔ایسے واقعات ہیں جن سے عورت کی عظمت واضح و آشکار ہوتی ہے ۔

 

تزویج حضرت موسیٰ ع

 

قَالَتْ إِحْدَاہُمَا یَاأَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ قَالَ إِنِّی أُرِیْدُ أَنْ أُنْکِحَکَ إِحْدَی ابْنَتَیَّ ہَاتَیْنِ عَلٰی أَنْ تَأْجُرَنِی ثکَلنِیَ حِجَجٍ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْ إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ بَیْنِیْ وَبَیْنَکَ أَیَّمَا الْأَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَلاَعُدْوَانَ عَلَیَّ وَاللہ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ

.

"ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا اے ابا اسے نوکر رکھ لیں کیونکہ جیسے آپ نوکر رکھنا ہو تو ان سب سے بہتر وہ ہے جو طاقتور ، امانت دار ہو شعیب نے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں ایک کا نکا ح اس شرط پر تمہارے ساتھ کروں کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو اور اگر تم دس سال پورے کرو تو یہ تمہاری مرضی ہے اور میں تمہیں تکلیف نہ دوں گا انشا ء اللہ تم مجھے صالحین میں سے پاوٴگے ۔موسیٰ نے کہا یہ میرے اور آپ کے درمیان وعدہ ہے میں ان دونوں میں سے جو بھی مدت پوری کروں مجھ سے کوئی زیادتی نہ ہو اور یہ جو کچھ ہم یہ کہہ رہے ہیں ا س پر اللہ ضامن ہے ۔" (قصص:۲۶تا۲۸)

 

فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَہْلِہ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِأَہْلِہ امْکُثُوْا إِنِّیْ آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْ آتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُونَ فَلَمَّا أَتَاہَا نُودِی مِنْ شَاطِئِی الْوَادِ الْأَیْمَنِ فِی الْبُقْعَةِ الْمُبَارَکَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ یَّامُوسٰی إِنِّیْ أَنَا اللہ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ وَأَنْ أَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَآہَا تَہْتَزُّ کَأَنَّہَا جَانٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یَامُوْسٰی أَقْبِلْ وَلَاتَخَفْ إِنَّکَ مِنَ الْآمِنِیْنَ اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَاءَ مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ ۔

 

"پھر جب موسیٰ نے مدت پوری کی اور وہ اپنے اہل کو لیکر چل دیے تو کوہ طور کی طرف سے ایک آگ دکھائی دی وہ اپنے اہل سے کہنے لگے ٹھہرو میں نے ایک آگ دیکھی ہے شائد وہاں سے کوئی خبر لاوٴں یا آگ کا انگارہ لے کر آوٴں تا کہ تم تاپ سکو جب موسیٰ وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے ایک مبارک مقام میں درخت سے ندا آئی اے موسیٰ میں ہی عالمین کا پروردگار اللہ ہوں ۔ اور اپنا عصا پھینک دیجیے پھر جب موسیٰ نے عصا کو سانپ کی طرح حرکت کرتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر پلٹے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ہم نے کہا اے موسیٰ آگے آیئے اور خوف نہ کیجیے یقینا آپ محفوظ ہیں اے موسیٰ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈل دیجیے وہ بغیر کسی عیب کے چمکدار ہو کر نکلے گا ۔" (قصص:۲۹تا۳۲)

 

حضرت موسیٰ کے واقعہ کا عجیب منظر ہے ۔ایک طرف ماں کی مامتا پھر بہن کی جفا کشی اور بھائی کے صندوق کے ساتھ چل کر اپنی محبت کا ثبوت ۔ آسیہ کا اخلاص اور نور کی چمک سے اس کے دل کی روشنی پھر مصیبت میں مبتلا حضرت موسیٰ کو ان کی نیکی ۔ بےچاروں کی مدد سے اب شفیق و مہرباں بزرگ سے ملاقات ۔ جس نے ان کے کام سے خوش ہوکر داماد بنا لیا ۔ جہاں حضرت موسیٰ جیسے بیٹے اور داماد کی طرح آٹھ دس سال سکون سے رہے۔ قدم قدم عورت وسیلہ سکون و راحت حضرت موسیٰ بن رہی ہے۔ کیا کہنا عظمتِ عورت کا ۔

Wednesday, 27 February 2013 08:28

خاتون قرآن کی روشنی میں

حضرت انسان میں سلسلہ تفاضل، ابتداء خلقت انسان سے موجود ہے۔سب سے پہلے تفاضل یعنی ایک دوسرے پہ فضیلت کا دعویٰ حضرت آدم - اور ملائکہ کے درمیان ہوا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِیّ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ ج وَنَحْنُ نُسِبِّحُ بِحَمْدِکَ ونُقَدِّسُ لَکَ "اور تیرے رب نے جب فرشتوں سے کہا:

میں اس زمین میں ایک خلیفہ ( نائب ، نمائندہ ) بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو خلیفہ بنائے گا جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا جب کہ ہم تیری حمد و ثناء کی تسبیح اور پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔" (بقرہ ۳۰) پھر یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر قابیل و ہابیل میں ہوا جب خدا وند قدوس نے ایک کی قربانی قبول فرمائی اور دوسرے کی رد کر دی۔

وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ م إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ۔

"اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں۔ جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہامیں ضرور تجھے قتل کر دوں گا (پہلے نے کہا ) اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے ۔" (مائدہ :27)

یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر یعنی ایک دوسرے پر فوقیت کا دعویٰ آج بھی موجود ہے ہر جگہ رائج ہے حالانکہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ "وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔" (موٴمن :67) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِیْنٍ ج ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَة ً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ "ضاور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا پھر ہم نے اسے محفوظ جگہ میں نطفہ بنا دیا۔" ( الموٴمنون :12.13)

مرداور عورت خلقت کے لحاظ سے مساوی اور برابر ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی، نطفہ سے پیدائش کے بعد تمام مراحل میں ایک جیسے ہیں پھر ذکر و انثیٰ یعنی مرد اور عورت کی پیدائش کے حوالے سے ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : یَاأَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔

"اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ،پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔"(حجرات: 13) ہاں تو خلقت ایک جیسی، محل خلقت ایک جیسا ، اساس خلقت ایک ، اس کے باوجود تفاضل و تفاخر کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ آخر کیوں ؟ اسلام نے خواہ مرد سے مرد کا مقابلہ ہو یا عورت کا عورت سے تقابل ہو، یا مردا ور عورت کا آپس میں تفاخر ہو، ان سب میں برتری کا معیار صرف تقویٰ، خوف خدا اور عظمت ِرب کے احساس کو قرار دیا ہے ارشاد ہو رہا ہے: إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہ أَتْقَاکُمْ۔ "اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے " (حجرات :13)

مرد اور عورت کے باہمی فخر و مباہات کا سلسلہ ایسا چلا کہ عورت کو بے چارا بنا دیا گیا۔ قبل از اسلام تو انسانیت کے دائرہ سے بھی خارج قرار دیا گیاتھا، یونانیوں میں عورت کا وجود ناپاک اور شیطانی تصور کیا جاتا تھا۔ عورت فقط خدمت اورنفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ تھی۔ رومی لوگ عورت کو روح انسانی سے خالی جانتے تھے وہ اسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں عورت کا شمار اشیاء خرید و فروخت میں ہوتا تھا، یہودیوں میں عورت کی گواہی نا قابل قبول تھی۔ زمانہ جاہلیت کے عرب تو بیٹی کی پیدائش کو اپنے لئے موجب ننگ و عار جانتے تھے۔ہندو اور پارسی ،عورت کو ہر خرابی کی جڑ ، فتنہ کی بنیاد اور حقیر ترین چیز شمار کرتے تھے۔ چین کے فلسفی (کونفوشیوس) کا قول ہے عورت حکم و احکام دینے کے قابل نہیں ہے ،

عورت کو گھر میں بند رہنا چاہئے تاکہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔قبل از اسلام جزیرہ نما عرب میں عورت زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بیٹی کی پیدائش ننگ و عار اور فضیحت و شرمساری کا موجب تھی ۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا اور ایسی عظمت دی جس کا تصور کسی غیر مسلم معاشرے میں ممکن نہیں ہے ۔ اسلام میں عورت کی عظمت کا کیا کہنا کہ جب بیٹی ملنے آتی تو علت غائی ممکنات ، انبیاء کے سرداربنفس نفیس تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے اور اپنی مسند پر بٹھاتے عظمت عورت کا ذریعہ جناب فاطمہ ہیں ۔ قبل از اسلام اہل عرب بیٹی کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے ۔جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے۔

وَاِذَا الْمَوْء دَةُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ "اور جب زندہ در گور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ۔" (تکویر :9-8) یہ قبیح رسم اس قدر عام تھی کہ جب عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھودکر اسے وہاں بیٹھا دیا جاتا پھراگر نوزائیدہ لڑکی ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا ،اسی لئے اس دور کے شعراء میں ایک شاعر بڑے فخریہ انداز میں کہتا ہوا نظر آتا ہے: سمیتھا اذا ولدت تموت والقبر صہرضامن زمیت (مجمع البیان ج 10ص444)

"میں نے اس نوزائدہ لڑکی کا نام اس کی پیدائش کے وقت تموت (مر جائے گی) رکھا اور قبر میرا داماد ہے، جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کر دیا۔" بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی رسم بڑی دردناک ہے۔ ان واقعات کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اس نے (متأثر ہونے کے بعد سچا اسلام قبول کیا ) ایک آپ کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگا یا۔ رسول اللہ اگر میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا:

"خد ا رحم الراحمین ہے ۔" اس نے عرض کیا یا رسول اللہ !میرا گناہ بہت بڑا ہے۔ فرمایا! وائے ہو تجھ پر تیرا گناہ کتنا ہی بڑا ہی کیوں نہ ہو خدا کی بخشش سے تو بڑا نہیں ؟۔ اس نے کہا !اگر یہ بات ہے تو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں زمانہ جاہلیت میں ،میں دور دراز سفر پر گیا ہوا تھا، ان دنوں میری بیوی حاملہ تھی چار سال بعد گھر لوٹاتو میری بیوی نے میرا ستقبال کیا ،گھر میں ایک بچی پر نظر پڑی، میں نے پوچھا یہ کس کی بیٹی ہے ؟

بیوی نے کہا !ایک ہمسائے کی بیٹی ہے۔ میں نے سوچا یہ ابھی اپنے گھر چلی جائے گی، لیکن مجھے اس وقت بہت تعجب ہوا جب وہ نہ گئی ،آخر کار مجھے پوچھنا ہی پڑا ،میں نے بیوی سے پوچھا ۔سچ بتایہ کس کی بیٹی ہے ؟ بیوی نے جواب دیا۔ آپ سفر پر تھے، یہ پیدا ہوئی، یہ تمہاری ہی بیٹی ہے۔ وہ شخص کہتا ہے۔ میں نے ساری رات پریشانی میں گزاری ،کبھی آنکھ لگتی اور کبھی بیدار ہو جاتا، صبح قریب تھی میں بستر سے اٹھا میں نے بچی کو ماں کے ساتھ سویا ہوا دیکھا ، بڑی خوبصورت لگ رہی تھی اسے جگایا اور کہا۔ میرے ساتھ چلو ہم نخلستان کی طرف چلے وہ میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی، جب ہم نخلستان میں پہنچے میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا، وہ میری مدد کرتی رہی ،مٹی باہر پھینکتی رہی، میں نے اسے بغل کے نیچے سے ہاتھ رکھ کر اٹھایا اور اسے گڑھے میں پھینک دیا۔ یہ سننا تھا رسول اعظم کی آنکھیں بھر آئیں ۔

اس نے بات کو آگے بڑھایا، میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تاکہ وہ باہر نہ نکل سکے اور دائیں ہاتھ سے مٹی ڈالنے لگا اس نے بہت کوشش کی اور بڑی مظلومانہ انداز میں فریاد کرتی تھی اور بار بار کہتی تھی بابا جان! کچھ مٹی آپ کی داڑھی اور کپڑوں میں پڑ گئی ہے، وہ ہاتھ بڑھا کر اس مٹی کو صاف کرنے لگی ،لیکن میں پوری قساوت اور سنگدلی سے اس پر مٹی ڈالتا رہا، یہاں تک اس کے نالہ و فریاد کی آخری آواز آئی اور وہ خاک میں دم توڑ گئی۔ حضرت رسول اعظم نے دکھی حالت میں یہ داستان سنی، پریشانی ظاہر تھی۔اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے فرمایا: اگر رحمت خدا کو اس کے غضب پر سبقت نہ ہوتی تو حتمًاجتنا جلدی ہوتا خدا اس سے انتقام لیتا۔ (القرآن ،یواکب الدہر،ج 2ص 214)

جزیرہ عرب کے کفار توہین کے انداز میں ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور فرشتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش پر ان کا چہرہ مارے غصہ کے سیاہ ہو جاتاہے جیسا کہ ارشاد خدا ندی ہے:

أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنَاتٍ وَّأَصْفَاکُمْ بِالْبَنِیَنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَانِ مَثَلاً ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ أَوَمَنْ یُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَةِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ وَجَعَلُوا الْمَلاَئِکَةَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَانِ إِنَاثًا أَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ ۔

"کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے (اپنے لیے)بیٹیاں بنا لیں ہیں اور تمہیں بیٹے چن کردیئے حالانکہ ان میں سے جب کسی ایک کوبھی بیٹی کامثردہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدا ئے رحمان کی طرف منسوب کی تھی تواندر اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ کیا وہ جو ناز و نعم کے زیورمیں پلی ہے اور جھگڑے کے وقت (اپنا) مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی۔ (اللہ کے حصہ میں آتی ہے؟) اورا ن لوگوں نے فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں (خدا کی)بیٹیاں بنا ڈالا ۔ کیا وہ فرشتوں کی پیدائش کو کھڑے دیکھ رہے تھے؟ (زخرف،16تا19)

ہو سکتاہے کہ یہ خیال زمانہ جاہلیت کی خرافات سے عربوں تک پہنچا ہو لیکن عرب ظلم و جور میں بہت آگے بڑھ گئے وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ (زخرف،16تا19) ارشاد خدا وندی ہے:

وَیَجْعَلُونَ لِلَّہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہ وَلَہُمْ مَّا یَشْتَہُوْنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَّا بُشِّرَ بِہ أَیُمْسِکُہ عَلٰی ہُوْنٍ أَمْ یَدُسُّہ فِی التُّرَابِ أَلاَسَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ

"اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور یہ لوگ اپنے لیے وہ اختیار کرتے ہیں جو یہ پسند کریں یعنی لڑکے اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غصے کی وجہ سے ان کا منہ سیاہ ہوجاتاہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا انہیں اس ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دیا جائے یا انہیں زیر خاک دفن کردیا جائے۔دیکھو کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ " ( سورہ نحل آیت 57-58-59 ) بہر حال اسلام سے قبل بیٹی( لڑکی) انسان ہی نہیں سمجھی جاتی تھی اور آج بھی بیٹے کی پیدائش پر خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں ، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں ،ہدیہ تبریک پیش کیا جاتاہے ۔

اوربیٹی کی پیدائش پر بس سردمہری ، سکوت اور خاموشی کا مظاہرہ ہوتا ہے آخر ایسا کیوں ہے؟