
Super User
بیت المقدس میں فلسطینی خواتین نے صیہونیوں کے ہاتھوں قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق بیت المقدس میں فلسطینی خواتین نے قرآن کریم کی بے حرمتی پر مبنی صیہونیوں کے اقدام کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔مظاہرہ کرنے والی فلسطینی خواتین نے اپنے ہاتھوں میں قرآن اٹھا رکھا تھا اور صیہونی حکومت کے خلاف نعرے لگا رہی تھیں۔مظاہرین نے فلسطینی خواتین کو مسجد الاقصی میں داخل ہونے سے روکنے کے صیہونی حکومت کے اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی حکومت پر اس کے جارحانہ اقدامت روکنے کے لئے دباؤ ڈالیں۔
قابل ذکر ہے کہ ابھی حال ہی میں صیہونی حکومت کے ایک پولیس اہلکار نے مسجد الاقصی میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی تھی۔
رہبر معظم کی عالمی چمپیئن حاصل کرنے والے کھلاڑیوں سے ملاقات
۲۰۱۳/۰۳/۱۱ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 2012 ء میں اولپیک ، پیرااولپیک اور عالمی مقابلوں کےچمپیئنز اورمیڈلز حاصل کرنے والے کھلاڑیوں سے ملاقات میں ملک کے پہلوانوں اور ممتاز کھلاڑیوں کو ایرانی قوم کے تشخص ، پہچان، پختہ عزم، ذہانت ، ایمان اور شریعت پر پابند رہنے کے سفیر قراردیتے ہوئے فرمایا: ممتاز اور بہادر کھلاڑی اس بلند چوٹی کے مانند ہیں جس کی جانب وہ پوری قوم بالخصوص باصلاحیت جوانوں کی حرکت کی راہ ہموار کرنے کے سلسلے میں نمونہ عمل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چیمپئن شپ کے پلیٹ فارم پرپہنچنے کے لئے پختہ عزم و ارادے ،ہمت، اور اعلی ذہانت کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: ممتاز کھلاڑی اور چیمپئنز ایک قوم کی توانائيوں کا مظہرہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ خوداعتمادی اور قومی اعتماد میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شرعی حدود کی رعایت، جوانمردانہ جذبہ اور اخلاق کی حفاظت کے ساتھ کھلاڑیوں کی بین الاقوامی میدانوں میں شرکت کو ایک قوم کے ممتاز صفات اور اقدار کی عالمی تبلیغ قراردیتے ہوئے فرمایا: ان میں سے ایک مورد اسلامی حجاب کی مکمل رعایت کے ساتھ جوان خواتین کی کھیل کےعالمی میدانوں میں شرکت ہے اور یہ اقدام بہت ہی عظيم ، اہم اور گرانقدر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یورپ میں باپردہ مسلمان خواتین کے متعدد قتل، حملوں اور دھمکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایسے شرائط میں جب ایک باپردہ ایرانی مسلمان عورت چیمپئن شپ پلیٹ فارم پر کھڑی ہوتی ہے اور سب کو احترام و تکریم پر مجبور کرتی ہے تو حقیقت میں اس نے بہت بڑا اور عظيم کام انجام دیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کھیل میں شرکت کرنے والی خواتین کی سب کو دل کی گہرائیوں سے قدر کرنی چاہیے جو اسلامی حجاب، سنجیدگی اور وقار کے ساتھ کھیل میں شرکت کی غرض سےعالمی میدانوں میں حاضر ہوتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کھیل کےعالمی میدانوں میں جانبازوں اور معذور افراد کی کامیابیوں کو پیغام پہنچانے کا دوسرا نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام جسمی دشواریوں اورسختیوں کے ساتھ جانباز اور معذور افراد کا چمپیئن پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا ان کے قوی اور پختہ عزم و ارادے اور اسی طرح ایک قوم کی بلند ہمتی اور تشخص کا مظہر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کھلاڑیوں کی بین الاقوامی کامیابیوں کے سلسلے میں میرے شکریے کے پیغامات سچے اور حقیقی احساسات کا مظہر ہیں اور اس بات پر اعتقاد ہے کہ کھلاڑی عالمی چمپیئن حاصل کرکے قوم اور ملک کی خدمت کررہے ہیں اور ایرانی قوم کی استقامت ،عزم و ارادہ اور ایمان کے پیغام کو دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کھیل چمپیئن کے بین الاقوامی میدانوں میں دینی اور معنوی شعائر کو زندہ رکھنے والے کھلاڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں تمام ان کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو عالمی چمپیئن کے میدانوں میں آئمہ معصومین (ع) کا نام زبان پر جاری کرتے ہیں اللہ تعالی کا شکر بجالانے کے لئےسجدہ کرتے ہیں دعا کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں یا پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کو سر کرنے کے بعد اذان کہتے ہیں اور اسی طرح ان تمام خواتین کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو کھیل کے میدان میں اسلامی حجاب و عفاف اور معنویت کی رعایت کرتی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا میں جوانوں کی بے دینی اور بد اخلاقی کی جانب حرکت اور ایسے شرائط میں معنویات کے نمایاں مقام کو شکریہ ادا کرنے کی دلیل قراردیتے ہوئے فرمایا: اسی وجہ سے کھلاڑیوں کو اپنی قدر و قیمت پہچاننی چاہیے اور جوانمردی، پہلوانی اور معنوی جذبے کے صفات کی حفاظت اور ان کو مضبوط و مستحکم بنانے کے سلسلے میں تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صہیونی اور اسرائیلی کھلاڑیوں کے ساتھ ایرانی کھلاڑیوں کے مقابلہ نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیل کی غاصب حکومت کے کھلاڑیوں کے مقابلے میں ایرانی کھلاڑیوں کا یہ اقدام بہت ہی گرانقدر ، حساس اور نہایت ہی اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مختلف میدانوں میں ایرانی جوانوں کی صلاحیتوں کے رشد و نمو اور درخشاں ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کھیل اور ورزش کے میدان میں ایرانی جوانوں کی پیشرفت اور کامیابیاں ، مختلف میدانوں میں ایرانی جوانوں کی بہت ہی عظیم اور درخشاں صلاحیتوں اور توانائیوں کا مظہر ہیں اور ان توانائیوں اور صلاحیتوں کونمایاں کرنے کے سلسلے میں پرورش ، تربیت اور سرمایہ کاری لگانے کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹیکنالوجی ، تحقیقات اور دیگر علمی شعبوں میں ایرانی جوانوں کی عظیم توانائیوں کو ناقابل انکار قراردیتے ہوئے فرمایا: اس موضوع کے بارے میں اسلامی ایران کی تاریخ بھی گواہ ہے اور ابن سینا، زکریا رازی،فارابی، سعدی اور حافظ جیسی ممتاز اور برجستہ شخصیتیں دنیا کے اس علاقہ میں عظیم صلاحیتوں کے موجود ہونے کا شاندار نمونہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تمام افراد بالخصوص جوانوں کے درمیان ورزش اور کھیل کو فروغ دینے کے سلسلے میں کھیل کے چمپیئنز کی اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کے درمیان کھیل اور ورزش کو ہمہ گير بنانا ملک کی ایک اساسی اور بنیادی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کھیل چمپیئنز کو عمومی کھیل اور ورزش کا محرک موٹر قراردیا اورعمومی ورزش اور کھیل پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایک ملک کی پیشرفت و ترقی ، سالم ، عالم،باہمت اور دیندار انسانوں پر منحصر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: عوام میں عمومی ورزش کے ہمہ گير ہونے سے معاشرے کی بہت سی مشکلات حل ہوجائیں گی جن میں منشیات کی عادت چھوٹنے کی مشکل بھی شامل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اخلاق کو ورزش اور کھیل میں بہت ہی اہم موضوع قراردیتے ہوئے فرمایا: خوشی کا مقام ہے کہ ہمارا ورزشی معاشرہ صحیح و سالم ہے لیکن جب ایک ورزشی جوان اور کھلاڑی عالمی توجہ اور تبلیغ کا مرکزقرار پاتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے اخلاقی خطرہ لاحق ہوجاتا ہےلہذااپنی حفاظت اور مراقبت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایک کھلاڑی اور ورزش کار کے لئے مغرور نہ ہونا، عوام کے ساتھ رہنا اور جوانمرد باقی رہنا اور دل میں عوام کی تڑپ رکھنا ،لازمی اخلاقی خصوصیات ہیں اورتمام کھلاڑیوں کو ان جذبات کی حفاظت اور تقویت کے لئے تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کھیل کے ایک چمپیئن کو انفرادی لحاظ سے بھی بلند و بالا خود اعتمادی کی بنا پر چاپلوسی ، تملق اور جھوٹ جیسی ناپسندیدہ خصلتوں سے دور رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تہمت، جھوٹ،نزاع اور افراد کی تخریب کے ذریعہ ملک کی ورزشی فضا کو خراب کرنے کے سلسلے میں بعض افراد کی کوششوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: اس غیر اخلاقی کام میں ورزشی میڈیا کا حصہ بھی کچھ کم نہیں ہےاور میں اس سلسلے میں آگاہ اور متنبہ کرتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض ورزشی ذرائع ابلاغ چھوٹے اور معمولی موضوعات کو بڑا بنا کر پیش کرنے اور ورزشی فضا میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انٹرویو لینے والے افراد سے غلط اور تحریک آمیز باتیں نکلوانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ورزشی میڈیا کو اخلاقی نقطہ پرزیادہ توجہ مرکز کرنی چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےملک کے کھیل کے حکام کو کھیل کے شعبوں ترجیحات کی منصوبہ بندی کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے اندربعض کھیل جو تاریخی اور قدیمی ہیں ان پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کا اہتمام کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کھیل و ورزش کو علمی بنانے کو ملک کے بہت ہی ضروری مسائل میں قراردیتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں ورزشی رشتوں اورعلمی تحقیقات پر خاص توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور صرف بیرونی علمی تحقیقات پر اکتفا نہیں کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب ہمارے جوان دانشور اور سائنسداں ، سائنس و ٹیکنالوجی کے پیچیدہ میدانوں میں کامیاب اور حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں تو ہمارے جوان کھیل کے میدان میں بھی شاندار تحقیقات اور اپنی عظیم توانائیوں کا بھر پور ثبوت پیش کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام میں ملک کےممتاز اور مایہ ناز کھلاڑیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ ایرانی قوم کے چشم و چراغ ہیں اورہمیشہ ایسا ہی رہنے کی امید کرتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل 6 ممتاز اور عالمی میڈلزجیتنے والے کھلاڑیوں نے ملک کے کھیل کے مسائل کے بارے میں اپنے نظریات اور تجاویز پیش کیں۔
جناب حمید سوریان ، فرنگی کشتی میں پانچ انٹر نیشنل میڈلز، انھوں نے ورزشی رشتوں کے لئے علمی اکیڈمی تشکیل دینے پر تاکید کی، اور بڑی تعداد میں والدین کی طرف سے اپنے فرزندوں کو عالمی میڈلز حاصل کرنے کے سلسلے میں ترغیب و تشویق کی طرف اشارہ کیا اور والدین کی طرف سے اپنے بچوں کے روزگار کے بارے میں تشویش سے آگاہ کیا اور چمپیئنز افرادکی نوکری کے قانون کے فوری طور پرنفاذ کا مطالبہ کیا۔
جناب حسن گرامی کوہنورد، پاکستان میں ترانگو برجوں کے نام سے دنیا کی معروف دیوار پر صعود کرنے والی پہلی ٹیم کے سرپرست، انھوں نے ایرانی کوہ پیماؤں کی کامیابیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کے بعد اذان کہنے کے بارے میں اگاہ کیا۔
محترمہ مہ لقا جان بزرگی، تیر اندازی کے 2012 ء کے مقابلوں میں قومی ٹیم کی رکن، انھوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی خواتین کی طرف سے اسلامی حجاب کی رعایت کے ساتھ عالمی مقابلوں میں بھر پور شرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایرانی خواتین کی باپردہ شرکت کےدیگر اسلامی ممالک کی مسلمان خواتین پر اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں انھوں نے ملک میں خواتین کے لئے زیادہ سے زیادہ ورزشی مکانات کی تعمیر پر تاکید کی۔
احسان لشکری نے 2012 ء کے اولمپیک کھیلوں میں میڈل حاصل کیااور آزاد کشتی میں عالمی چمپیئن قرار پائے انھوں نے کھیل کے حکام پر زوردیا کہ وہ بین الاقوامی کھیلوں سے آزاد کشتی کو حذف کرنے کے اقدام کی بھر پور مخالفت کریں۔
جلیل باقری جدی ، ستر فیصد جانباز ،پیرااولمپیک کھیلوں میں ڈیسک پھیکنے میں عالمی چمپیئن ، انھوں نے جانبازوں کی ورزشی نقل و حرکت کے سلسلے میں سڑکوں کو جانبازوں کے حالات کے مناسب بنانے پر تاکید کی۔
جناب حسین رضا زادہ ، وزن بردار فیڈریشن کے سرپرست ، اور اس رشے کے عالمی چمپیئن نے ملک میں کھیل کی پیشرفت کے لئے صلاحیتیں تلاش کرنے والےمراکز کی تقویت پر تاکید کی، انھوں نے کھیل کے شعبہ میں غیر فنی اور غیر اصولی نظریات سے پرہیز کرنے پر بھی تاکید کی۔
اس ملاقات میں کھیل اور جوانوں کے وزیر جناب عباسی نے عالمی مقابلوں، اولمپیک ، پیرا اولمپیک مقابلوں اور ایشیائی کھیلوں میں ایرانی جوانوں کی کامیابیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: ملکی کھیل کی تاریخ میں سال 1391 ہجری شمسی تاریخ کا درخشاں ترین سال رہا ہے۔انھوں نے اسی طرح ملک میں ورزش اور کھیل کے فروغ کے سلسلے میں بنیادی ڈھانچوں کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی ۔
ملاقات کے اختتام پر ملک کے ممتاز کھلاڑیوں اور چمپیئنز نے صمیمانہ ماحول میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی۔
کرزئی کے امریکہ مخالف بیانات، امریکی افواج کی سیکیورٹی سخت کرنے حُکم
افغان صدرحامد کرزئی نے امریکہ کے خلاف جو کئی بیان حال ہی میں جاری کئے ہیں، اُس کے بعد افغانستان میں امریکی کمانڈر نے اپنی فوجوں کو خاموشی کے ساتھ یہ ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ اپنے سیکیورٹی کے اقدامات کو اور بھی سخت کردیں۔
اُنھوں نے خبردار کیا ہے کہ مسٹر کرزئی کے بیانوں کی وجہ سے افغان سیکیورٹی افواج کے غُنڈہ عناصر اور عسکریت پسندوں کی طرف سے ملک میں مغربی فوجوں کو خطرہ لاحق ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ حکم مسٹر کرزئی کی طرف سے امریکہ کی سنگین مذمت کے بعد آیا ہے۔ اس میں ان کی منگل کی ایک تقریر بھی شامل ہے جس میں اُنھوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکہ نے بگرام کےقیدخانے کو اُن کےحوالے کرنے میں تاخیر کی، تو وہ یک طرفہ کاروائی کرکے زبردستی اس قید خانے کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ متعدد افغان لیڈروں نے ایک مشترکہ بیان میں مسٹر کرزئی پر نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا ہےکہ مسٹر کرزئی کے بیانات اُن کی ترجمانی نہیں کرتے، اور اگرچہ امریکی سفارتی اور فوجی عہدہ داروں نے مسٹر کرزئی کے بیانوں پر اعلانیہ کُچھ کہنے سے احتراز کیا ہے، نجی محفلوں میں اُنہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ کے نازُک مرحلے پر دونوں اتّحادیوں کے باہمی تعلّقات میں سخت ابتری آئی ہے۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ افغانستان میں تشدّد کی تازہ ترین واردات میں جس کے لئے افغان عہدہ دار طالبان کو ذمّہ دار ٹھہراتے ہیں، ایک خود کُش بمبار نے شمالی قُندوز صوبے میں بُز کُشی کے ایک مقابلے کے تماشائیوں کو نشانہ بنایا جس میں پولیس کے سربراہ، اس کے بیٹے اور اُس کے والد کے علاوہ سات افراد کو ہلاک کیا گیا۔ پولیس کا یہ سربراہ افغان پارلیمنٹ کے سپیکر اور ایک صدارتی مُشیر کا بھائی تھا۔ یہ دو تو وہاں موجود نہیں تھے، لیکن مرنے والوں میں اُن کا والد شامل تھا۔
رہبر معظم کا آیت اللہ سید محمد کاظم یزدی کی یاد میں منعقد کانفرنس کے نام پیغام
۲۰۱۳/۰۳/۱۴ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای
نے علامہ آیت اللہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی صاحب کتاب عروۃ الوثقی کی یاد میں منعقد کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں مرحوم آیت اللہ علامہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے افکار کا جائزہ لینے پر زوردیا اور عوام کے سامنے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کوپہچنوانے پر تاکید کی۔
اس پیغام کو رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر کے انچارج حجۃ الاسلام والمسلمین محمد گلپائگانی نے پڑھ کر سنایا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آیت اللہ سید محمد کاظم یزدی کی جامع شخصیت کی طرف اشارہ کیا اور اس عظیم شخصیت کو علمی ، معنوی اور جہاد کے لئے آمادگی کے تین ممتاز عناصر کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: آیت اللہ سید محمد کاظم کے فقہی نظریہ اور اصول کے بارے میں گہری اور دقیق تحقیق کی ضرورت ہے۔
دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوں گي
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ احمد جنتی کی امامت میں ادا کی گئي۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ آئندہ صدارتی انتخابات کے موقع پر کشیدگي پھیلانے اور قوم کو انتخابات میں شرکت سے روکنے کی دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوکررہیں گي۔ آیت اللہ جنتی نے کہا کہ عالمی طاقتیں اپنے داخلی ایجنٹوں کی مدد سے جون دوہزار تیرہ کے صدارتی انتخابات کے موقع پر انتخاباتی سرگرمیوں کو مختلف چیلنجوں سے دوچار کردیں لیکن ملت ایران ہمیشہ کی طرح انتخابات میں بھرپور شرکت کرکے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنادے گي۔ آیت اللہ جنتی نے دشمنوں کے ان الزامات کو مسترد کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں انتخابات آزاد نہیں ہوتے بلکہ امتیازی رویوں پر مشتمل ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران میں آزاد اور منصفانہ انتخابات نہ ہوتے تو آج ایران دیگر قوموں کے لئے دینی جمہوریت کا نمونہ عمل نہ ہوتا۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ ایران میں امیدواروں کی اہلیت قانون کے مطابق انجام پاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے عوام انتخابات کے موقع پر امن و سکون کےخواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ امیدواروں کو پرامن فضا میں ووٹ دیں۔ آیت اللہ جنتی نے کہا کہ امریکی حکام نے بھی مختلف سائنسی اور ٹکنالوجیکل میدانوں میں ملت ایران کی پیشرفت کا اعتراف کیا ہے، انہوں نے تاکید کی کہ پٹرولیم اور فوجی صنعتوں میں اپنی مقامی ضرورتوں کے مطابق ترقی کرنا اور برآمدات میں اضافہ ان لوگوں کی شکست ہے جو یہ خيال کرتے تھے کہ پابندیوں میں شدت لاکر ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مغربی ملکوں کو نصیحت کی کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنے کے بجائے اپنی پالیسیوں پرنظر ثانی کریں اور ایران کے ایٹمی حقوق کو تسلیم کرلیں کیونکہ دباؤ کا کوئي نتیجہ نہیں نکلے گا۔ آیت اللہ جنتی نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں امریکہ کا ہاتھ واضح طریقے سے دکھائي دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام سے سامراج کا ھدف پاکستان کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا اور ملک میں افراتفری پھیلانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سامراج اس طرح سے پاکستان میں اپنے تسلط پسندانہ اہداف تک پہنچناچاہتا ہے۔
ہندوستان کا کروز میزائل تجربہ ،ناکام
ہندوستان نے پہلی بار میڈیم رینج کے کروز میزائل “نربھے” کا تجربہ کیا جو ناکام ثابت ہوا ۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ کروز میزائل داغے جانے کے بعد منحرف ہوکر ہدف کو نشانہ نہ بنا سکا۔
ہندوستانی ذرائع کے مطابق میڈیم رینج کے نئے نئے تیار کردہ آواز کی رفتار سے کم رفتار کے کروز میزائل “نربھے” کو چاندی پور آن سی پر مربوط ٹسٹ رینج کے کمپلکس نمبر 3 سے آزمائشی طور پر داغا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ہندوستان نے پہلی بار ایک کروز میزائل تیار کیا ہے جوکہ آواز کی رفتار سے کچھ دھیمی رفتار سے اڑے گا۔ یہ نربھے سب سونک کروز میزائل امریکہ میں تیارشدہ ایک دور مار سب سونک کروز میزائل توماہاک کے برابر ہے۔
حضرت عمار یاسر کےمقبرے پر حملہ
شام میں مسلح دہشت گردوں نے رسول خدا ۖ کے ایک صحابی کے مقبرے کو دھماکے سے اڑادیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مسلح تکفیری گروہوں نے شام میں اپنی تخریبی اور دہشت گردانہ کارروائياں جاری رکھتے ہوئے شمالی شہر الرقہ میں واقع رسول خدا ۖ کے ایک صحابی حضرت عمار یاسر کا مقبرہ دھماکے سے اڑادیا ہے۔
بدنام زمانہ گوانتانامو جیل کے خلاف احتجاج
واشنگٹن میں درجنوں وکلاء نے امریکہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سامنے اجتماع کرکے بدنام زمانہ گوانتانامو جیل کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
غیرملکی خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وکلاء نے گوانتانامو جیل میں قیدیوں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں کئےگئےاپنے وعدوں پر عمل کرے ۔
واضح رہے کہ گوانتانامو بے میں زیر حراست ایک سو سے زائد قیدیوں نے اپنی ذاتی اشیاءضبط کئے جانے پر بطور احتجاج بھوک ہڑتال کی ہے ۔۔ ہڑتال کرنے والوں میں نائن الیون واقعہ کے مرکزی ملزم خالد شیخ بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فروری کے آغاز میں چند قیدیوں سے ان کی ذاتی اشیاءضبط کر لی گئیں، جن میں قرآن پاک کے نسخے بھی شامل تھے۔ ان قیدیوں کے وکلاء اور حراستی مرکز گوانتانامو بے کے اہلکاروں نے مطلع کیا کہ اس اقدام کے احتجاج میں چند زیرحراست ملزمان نے بھوک ہڑتال جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہڑتالی قیدیوں نے کہا ہے کہ جیل حکام ان کے مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
قیدیوں کے وکیل کا کہنا ہے کہ بھوک ہڑتال کرنے والوں کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (ع) خواتين کے لئے نمونه عمل
اسلام نے نہ صرف يہ کہ خواتين کيلئے حقوق، حدود اور آئيڈيل کو مشخص اور واضح کيا ہے بلکہ اپني تعليمات کے مطابق ان آئيڈيل اورمثالي نمونوں کو پرورش ديتے ہوئے انہيں عوام کے سامنے
ان کي قدر و قيمت کا اندازہ لگانے اور پيروي کرنے کيلئے قرار ديا ہے ۔ اسلام ميں آئيڈيل شخصيات کي کوئي کمي نہيں ہے ليکن ان ميں سب سے زيادہ معروف اورکامل شخصيت حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي ہے ۔ اگر چہ کہ ان کي زندگي بہت مختصر تھي ليکن زندگي کے مختلف شعبوں ، جہاد، سياست، گھر اور معاشرے واجتماعيت ميں ان کي زندگي کي برکت، نورانيت،درخشندگي اور جامعيت نے انہيں ممتاز اور بے مثل و نظير بناديا ہے ۔
خواتين اپنے حقوق اور اسلام کي نظر ميں عورت کے کردار ميں معيار و ميزان کے فہم اوران معياروں کي اساس پر اپني تربيت و خود سازي کي روش و طريقہ کار کي دستيابي کيلئے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام جيسي عظيم المرتبت شخصيت کو اپنے سامنے موجود پاتي ہيں اور اس بنا پر وہ ديگر آئيڈيل شخصيات سے بے نياز ہيں ۔ حضرت زہر علیھا السلام اور ان کي سراپا درس و سبق آموز زندگي کي طرف توجہ کرنا خواتين کو معنويت ، اخلاق ،اجتماعي فعاليت و جدوجہد اورگھرانے کے ماحول ميں اُن کي انساني شان کے مطابق ايک مطلوبہ منزل تک پہنچانے کا باعث ہوگا۔
مردوں کے جہاد، فعاليت و جدوجہد اورخود سازي اور اجتماعي ومعاشرتي وظائف ميں اُن کي پيشرفت ميں خواتين بہت اہم کردار کي مالک ہيں اورحضرت زہرا علیھا السلام کي زندگي ميں يہ کردار بہت نماياں نظر آتا ہے ۔ يہي وجہ ہے کہ اسلامي انقلاب ميں يہ کردار بہت واضح صورت ميں ظہور پذير ہوا اور تاريخ نے اس کردار کو سنہري حروف سے اپنے دامن ميں محفوظ کرليا ہے۔
حضرت زہرا علیھا السلام کي جامع و کامل شخصيت
حضرت زہر علیھا السلام کي شخصيت کي نسبت محبت و مجذوبيت کے مراحل کے بعد ہم جس نکتے کي طرف متوجہ ہوتے ہيں وہ يہ ہے کہ ہم معدن ِ نور اورفضيلت کے اس منبع سے جتني محبت کريں گے وہ کم ہي ہوگي اور اس ميں ہميشہ تشنگي باقي رہے گي۔ہميں يہ ديکھنا چاہيے کہ اس قلبي اور روحاني رابطے و رشتے کے ضمن ميں ہمارا کيا وظيفہ ہے ۔ چنانچہ اگر ہم نے اپني اس ذمے داري پر توجہ نہيں دي اور اس کے تقاضے پورے نہيں کيے تو ممکن ہے خدانخواستہ يہ محبت ہميں وہ نتيجہ نہ دے کہ جس کا ہم انتظار کر رہے ہيں کيونکہ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام کوئي معمولي شخصيت نہيں ہيں ۔ وہ تاريخ بشريت کي برترين شخصيات ميں سے ايک ہيں ۔
امام جعفر صادق نے فرمايا کہ ’’يَاسيدِّۃَ نِسَائِ العَالَمِينَ‘‘ ۔ ر اوي نے سوال کيا کہ ’’ھَِ سَيِّدَۃُ نِسَآئِ عَالَمِھَا؟‘‘، کيا آپ کي جدہ امجد اپنے زمانے کي خواتين کي سردار تھيں ؟ امام نے جواب ديا کہ ’’ذَاکَ مَريَم‘‘، وہ جناب مريم تھيں جو اپنے زمانے کي خواتين کي سردار تھيں، ’’ھِيَ سَيِّدَۃُ نِسَآئِ الاَوّلِينَ وَالاٰخِرِينَ فِي الدُّنيَا و الآخِرَۃ‘‘ ١ ، ’’وہ دنيا و آخرت ميں اولين و آخرين کي سرورزنان ہيں‘‘ اور ان کي يہ عظمت ان کے زمانے تک محدود نہيں ہے ۔ اگر آپ تمام مخلوقات عالم ميں پوري تاريخ ميں خلق کيے گئے ان کھربوں انسانوں کے درميان اگر انگليوں پر شمار کي جانے والي بہترين شخصيات کو ڈھونڈھنا چاہيں تو ان ميں سے ايک يہي مطہرہ ومنورہ شخصيت ہے کہ جس کا نام اور ياد و ذکر ہميں عطا کيا گيا ہے ۔ خداوند عالم نے اپنے فضل و احسان کے ذريعے ہميں يہ موقع ديا ہے کہ اپني زندگي کے کچھ حصوں کو اُن کي ياد ميں بسر کريں ، اُن کے بارے ميں باتيں کريں اور اُس عظيم ہستي سے متعلق باتوں کو سنيں ۔ لوگوں کي اکثريت اُن سے غافل ہے جبکہ يہ ہم پر خداوند متعال کا بہت بڑا لطف و کرم ہے کہ ہم اُن سے متمسک ہيں ۔ يعني وہ اتني عظيم المرتبت شخصيت کي مالک ہيں کہ بڑے بڑے مسلمان علما اور مفکرين يہ بحث کرتے تھے کہ کيا حضرت زہرا علیھا السلام کي شخصيت بلند ہے يا امير المومنين علي ابن ابي طالب ٴ کا مقام زيادہ ہے؟ کيا يہ کوئي کم مقام و حيثيت ہے کہ مسلمان علما بيٹھيں اور ايک کہے کہ علي کا مرتبہ زيادہ بلند ہے اور ايک کہے زہرا علیھا السلام کي عظمت زيادہ ہے! يہ بہت بلند مقام ہے ۔ لہٰذا اُس عظيم المرتبت ذات سے ہمارے تعلق اورمحبت نے ہمارے دوش پر ايک بہت سنگين ذمے داري عائد کي ہے ۔ وہ ذمہ داري يہ ہے کہ ہم اُس عظيم ذات کي سيرت اورنقش قدم پر چليں،خواہ ان کا ذاتي و انفرادي کردار ہو يا اُن کي اجتماعي و سياسي زندگي۔ راستہ يہي ہے کہ جس نے آج خداوند عالم کے فضل وکرم سے لوگوں کيلئے انقلاب کي راہ ہموارکي ہے ۔
-----------
١ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ٢٦
يہ وہي حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي راہ ہے يعني خودسازي (تعمير ذات) اورجہان سازي (تعمير دنيا) کي راہ۔ خود سازي يعني اس جان و روح کي آبادي و تعمير کہ جس کيلئے جسم کا پيکر خاکي ديا گيا ہے ۔فاطمہ زہر علیھا السلام ’’کَانَت تَقُومُ فِي مِحرَابِ عِبَادَتِھَا حَتٰي تَوَرَّمَت قَدَمَاھَا ‘‘ ١ ۔ اس عظيم اور جوان دختر نے کہ جو اپني شہادت کے وقت صرف اٹھارہ سال کي تھي، اتني عبادت کي آپ کے پاوں ورم کرجاتے تھے! يہ عظيم المرتبت خاتون اتنے عظيم مقام و منزلت کے باوجود گھر کے کام بھي خود انجام ديتي تھيںاور شوہر کي خدمت بچوں کي ديکھ بھال اورتربيت بھي انہي کے ذمے تھي۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کے بچپن کا سخت ترين زمانہ
يہ عظيم خاتون ايک گھريلو عورت تھي، اس کا اپنا گھر تھا، شوہر، بچے سب کچھ اور يہ اپنے بچوں کي بہترين تربيت کرنے والي ماں بھي تھي۔ يہ بانوئے عصمت و طہارت ، زندگي کے سخت سے سخت مراحل ميں اپنے شوہر اور والد کيلئے دلجوئي اوردلگرمي کا سبب تھي۔ حضرت زہر علیھا السلام نے بعثت کے پانچويں سال دنيا ميں قدم رکھا کہ جب پيغمبر اکرم۰ کي دعوت حق اپنے عروج پر تھي۔يہ وہ زمانہ تھا کہ تمام سختيوں، مشکلات اور مصائب نے پيغمبر اکرم۰ اور ان کے گھرانے کو اپنے نشانے پر ليا ہوا تھا۔
------------
١ بحارالانوار ۔ جلد ٤٣ صفحہ ٧٦
يہ واقعہ تو آپ نے سنا ہي ہے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام کي ولادت کے وقت شہر کي خواتين حضرت خديجہ علیھا السلام کي مدد کيلئے نہيں آئي تھيں ۔ يہ بہت بڑي بات ہے کہ جب پيغمبر اکرم۰ کفار سے مقابلہ کررہے تھے تو اس وقت کفار مکہ نے آپ کا ہر طرح سے بائيکاٹ کيا ہوا تھا اور ہر قسم کے رابطے اور تعلقات کو بالکل قطع کرديا تھا تاکہ اس کے ذريعے رسول خدا۰ پر دباو ڈالا جاسکے ۔ يہ وہ مقام تھا کہ جہاں حضرت خديجہ علیھا السلام جيسي فداکاراور ايثار کرنے والي عورت نے استقامت دکھائي۔ آپ اپنے شوہر حضرت ختمي مرتبت۰ کي دلجوئي فرماتيں اوراس کے بعد گھر ميں اپنے بيٹي کي ديکھ بھال اور تربيت کرتيں ۔ جب يہ دختر نيک اختر بڑي ہوئي اور پانچ چھ سال کي عمر کو پہنچي تو شعب ابي طالبٴ کا واقعہ پيش آيا۔ آپ نے اس کوہستاني وادي کي گرمي، بھوک، سختي، دباو اور غريب الوطني کي مشکلات کو اس وقت تحمل کيا کہ جب سب نے ساتھ چھوڑ ديا تھا۔ شعب ابي طالبٴ ميں آفتاب کي تمازت سے دھکنے والے دن، سرد راتيں اور اس علاقے کي شب و روز ميں ناقابل تحمل آب وہوا، ان دشوار حالات ميں بچے بھوکے پيٹوں اور تشنہ لبوں کے ساتھ ان افراد کے سامنے تڑپتے رہتے تھے ۔ سختي اور مشکلات کے يہ تين سال کہ رسول اکرم۰ نے مکے سے باہر بيابان ميں اِسي طرح گزارے ۔
فاطمہ زہر علیھا السلام اپنے والد کي مونس و غمخوار
يہ بيٹي، ان سخت ترين حالات ميں اپنے والد کيلئے فرشتہ نجات تھي اور يہ زمانہ تھا کہ جب حضرت خديجہ علیھا السلام نے داعي اجل کو لبيک کہا اور يہي وقت تھا کہ جب آپ کے محسن اور چچا، حضرت ابو طالبٴ نے دنيا سے رخت سفر باندھا اور پيغمبر اکرم۰ کو يکتا و تنہا چھوڑديا۔ يہ وہ وقت تھا کہ جب يہ بيٹي اپنے باپ کي دلجوئي کرتي تھي، ان کي خدمت کرتي اورغم و مشکلات کي گرد وغبار کواُ ن کو چہرے سے صاف کرتي۔ اس بچي نے اپنے باپ کي اتني خدمت کي کہ پيغمبر ۰ نے اس سات ، آٹھ سالہ دختر کو کہا ’’اُمُّ اَبِيھَا‘‘ ،يعني ’’ماں‘‘ يعني يہ بچي اپنے والد کي ماں کي طرح ديکھ بھال کرتي تھي۔
ايسا باپ کہ عالم کي تمام مشکلات نے جسے اپنے نشانے پر ليا ہوا تھا ليکن اس کے باوجود تمام بشريت کي ہدايت کي ذمہ داري اُس کے دوش پر تھي۔وہ ايسا پيغمبر تھا کہ اُس کا رب اُسے سختيوں،مشکلات ، غموں کے برداشت کرنے اور حق ميں مسلسل اور اَن تھک محنت و مشقت کي وجہ سے اس کي دلجوئي کرتا ہے ۔ ’’طٰہٰ مَآ اَنزَلنَا عَلَيکَ القُراَنَ لِتَشقيٰ‘‘ ١ اے رسول تم خود کو اتني سختي ميں کيوں ڈالتے ہو؟ اتنا رنج کيوں اٹھاتے ہو اور اپني پاک و پاکيزہ روح پر اتنا دباو کيوں ڈالتے ہو؟ يہ وہ مقام ہے کہ جہاں خدا اپنے حبيب۰ کو تسلي ديتا ہے ۔ ان سخت ترين حالات ميں حضرت ختمي مرتبت۰ کي روح پر دباو بہت زيادہ تھا اور دشوار ترين حالات ميں يہ چھوٹا فرشتہ ،معنوي وملکوتي روح کي حامل بيٹي اوردختر پيغمبر اکرم ۰ اس نور کي مانند ہے جو پيغمبر اکرم۰ اور نئے مسلمان ہونے والے افراد کي تاريک شبوں ميں اپني پوري آب و تاب اور نورانيت کے ساتھ چمک رہا ہے ۔ امير المومنين ٴکا وجود بھي بالکل ايسا ہي نوراني تھا ۔ روايت ميں ہے کہ ’’سُمِّيَت فَاطِمَۃُ زَھرَائ? ‘‘ ٢ ۔حضرت فاطمہ کو ’’زہرا‘‘ اس ليے کہا جاتا ہے آپ دن ميں تين بار حضرت علي ٴ کي نگاہوں کے سامنے جلوہ فرماتيں ۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کي علمي فضيلت اور راہ خدا ميں آپ کا جہاد
اگر عورت مرد کي پشت پناہ ہو اورزندگي کے مختلف ميدان ہائے عمل ميں اُس کے شانہ بشانہ ،قدم بقدم اوراس کي ہمت و حوصلے کو بڑھانے والي ہو تو مرد کي قوت وطاقت کئي برابر ہوجاتي ہے ۔ يہ حکيمہ، عالمہ اور محدثہ خاتون، يہ خاتون کہ جو عالم ہائے غيب سے متصل تھي، يہ خاتون کہ فرشتے جس سے ہمکلامي کا شرف حاصل کرتے تھے ٣ اور يہ عظيم المرتبت ہستي کہ جس کا قلب ،علي ٴ و پيغمبر ۰ کے قلوب کي مانند ملک وملکوت کے عالموں کي نورانيت سے منور تھا،اپني تمام تر استعداد وصلاحيت کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنے تمام تر اعليٰ درجات کے ساتھ تمام مراحل زندگي ميں جب تک زندہ رہي (اپنے شوہر، صحابي رسول ۰، اپنے امام وقت اور) امير المومنين ٴ کے پيچھے ايک بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ کي مانند کھڑي رہي۔
آپ نے اپنے امام وقت اور اس کي ولايت کے دفاع کيلئے کسي بھي قسم کي قرباني سے دريغ نہيں کيا اور حضرت علي ٴکي حمايت ميں ايک بہت ہي فصيح و بليغ خطبہ ديا۔ علامہ مجلسي رضوان اللہ عليہ فرماتے ہيں کہ فصاحت و بلاغت کے علما اور دانشوروں نے اس خطبے کي فصاحت و بلاغت ،اعلي اوربے مثال کلمات،جملوں کي ترتيب،
------------
١ سورہ طہ/ ١۔٢ ٢ بحار الانوار جلد ٤٣ صفحہ ١٦
٣ حضرت استاد مولاناسيد آغا جعفر نقوي مرحوم اپنے استاد آيت اللہ شيخ محمد شريعت اصفہاني (آقائے شريعت) سے نقل فرماتے تھے کہ حديث کسا کي راوي حضرت زہرا ہيں اور يہ آپ کي عظمت وفضيلت ہے کہ آپ حضرت جبرئيل اور خدا کے درميان ہونے والي گفتگو کو خود سن کر نقل فرما رہي ہيں! (مترجم)
معاني اور اُس کے ظاہر و باطن کي خوبصورتي سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ ڈالا ہے! يہ نکتہ بہت ہي عجيب ہے ۔علامہ مجلسي نے آئمہ عليہم السلام سے اتني کثير تعداد ميں روايات کو نقل کيا اور ہمارے ليے گرانبہا ذخيرہ چھوڑا ہے ليکن جب اس خطبے کے مقابل اپنے آپ کو پاتے ہيں تو اُن کا وجود فرط جذبات و احساسات اورخطبے کي عظمت سے لرز اٹھتا ہے! يہ بہت ہي عجيب خطبہ ہے اور اسے نہج البلاغہ کے خوبصورت اور فصيح وبليغ ترين خطبوں کا ہم وزن شمار کيا جاتا ہے ۔
ايسا خطبہ جو شديد ترين غم و اندوہ کے عالم ميں ، مسجد النبي۰ ميں سينکڑوں مردوں اور مسلمانوں کے سامنے ديا جاتا ہے ۔ يہ خطبہ بغير کسي تياري اورتفکر کے في البديع اس عظيم خاتون کي زبان پر جاري ہوتا ہے ۔ اس کا وہ بيانِ رسا،اس کي حکمتيں، عالم غيب سے اُس کا رابطہ ،وہ عظيم ترين مطالب، وہ معرفت الٰہي و شريعت کے گوہر ہائے بے مثل و نظير ، و ہ عمق و گہرائي ، وہ عظمت الٰہي کو بيان کرنے والے کلام کي رفعت وبلندي اور سب سے بڑھ کر وہ نوراني قلب کہ جس سے حکمت و معرفت کہ يہ چشمے جاري ہوئے ،وہ نوراني بيان کہ جس نے سب کو مبہوت کرديا اور وہ نوراني اور مبارک زبان کہ جس کے ذريعے اُس خاتون نے اپنے کلمات کو خدا کي راہ ميں بيان کيا ۔ اس تمام عظمت و فضيلت کے بارے ميں ہمارے سرمائے کي کيا حيثيت ہے کہ اگر ہم اُسے مکمل طور پر خدا کي راہ ميں خرچ کرديں! ہمارے سرمائے کيا حيثيت رکھتے ہيں؟ کيا ہمارا سرمايہ اُس عظيم سرمائے کہ جسے حضرت زہر علیھا السلام ، اُن کے شوہر ، اُن کے والد ماجد اور ان کي اولاد نے خد اکي راہ ميں خرچ کيا، قابل مقايسہ ہے؟!
ہمارا يہ مختصر علم، ہماري يہ ناقابل قوت بيان و زبان ،قليل سرمايہ ، مختصر پيمانے پر ہمارا اثر ونفوذ ، ہماري محدود صلاحيتيں اور نچلي سطح کي مختصر سي معرفت اُس عظيم اور بے مثل و نظير ذخيرے کے مقابلے ميں کہ جسے خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے ملکوتي و نوراني وجود ميں قرار ديا تھا، کس اہميت کا حامل ہے؟! ہمارے پاس ہے ہي کيا جو راہ خدا ميں بخل سے کام ليں؟ آج علي ٴ، فاطمہ عليہما السلام اور آئمہ کي راہ وہي امام خميني۲ کي راہ ہے ۔ اگر کسي نے اس (راہ اور اس راہ دکھانے والي شخصيت) کونہ جانا اور نہ سمجھا ہو تو اسے اپني بصيرت کے حصول کيلئے از سر نو جدوجہد کي ضرورت ہے ۔ ہمارے پاس جو کچھ بھي ہے، اسي راہ ميں خرچ کرنا چاہيے اور يہي وہ چيز ہے کہ جو اہل بيت ٴ سے ہمارے تعلق اور لگاو کو حقيقت کا رنگ بخشتي ہے١۔
---------
١ ١٥ دسمبر ١٩٩٢ ميں نوحہ خوان حضرات سے خطاب
فاطمہ علیھا السلام ،عالم ہستي کا درخشاں ستارہ
ہم نے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے بارے ميں حقيقتاً بہت کم گفتگو کي ہے اور حقيقت تو يہ ہے کہ ہميں نہيں علم کہ ہم کيا کہيں اور کيا سوچيں؟ اس انسيّہ حورائ، روح مجرد اورخلاصہ نبوت ولايت کے بابرکت وجود کے ابعاد اور جہات ہمارے سامنے اتنے زيادہ وسيع، لامتناہي اور ناقابل درک ہيں کہ ہم جب اس شخصيت پر نگاہ ڈالتے ہيں تو وادي حيرت ميں ڈوب جاتے ہيں ۔ آپ اس امر سے بخوبي واقف ہيں کہ زمانہ اُ ن من جملہ سے تعلق رکھتا ہے کہ جو انسان کو شخصيت کہ صحيح طور پر پہنچانے اور درک کرنے کي راہ ميں مانع ہوتے ہيں ۔
عالم بشريت کے اکثر و بيشتر ستارے اپني حيات ميں اپنے ہم عصر افراد کے ذريعے ناقابل شناخت رہے اور انہيں پہنچانا نہيں گيا۔ انبيا واوليا ميں سے بہت کم افراد ايسے تھے جو اپنے قريبي ترين مخصوص و مختصر افرادکے ذريعے پہچانے گئے ۔ ليکن حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام کي شخصيت ايسي ہے کہ جس کي نہ صرف اپنے زمانے ميں اپنے والد ،شوہر ، اولاد اور خاص شيعوں کے ذريعے سے بلکہ اُن افراد کے ذريعے سے بھي کہ جو حضرات زہرا علیھا السلام سے شايد اتنے قريب بھي نہيں تھے، مدح و ثنا کي گئي ہے ۔
اہل سنت کي کتابوں ميں حضرت زہر علیھا السلام کي شخصيت
اگر آپ اہل سنت محدثين کي حضرت زہر علیھا السلام کے بارے ميں لکھي ہوئي کتابوں کا مطالعہ کريں تو آپ ديکھيں کہ پيغمبر اسلام ۰ کي زبان حضرت صديقہ طاہرہ علیھا السلام کي مدح و ستائش ميں بہت سي روايات نقل کي گئي ہيں يا حضرت زہرا علیھا السلام سے آنحضرت۰ کے کردار و سلوک کو بيان کيا گيا ہے يا ازواج نبي يا ديگر شخصيات کي زباني تعريف کي گئي ہے ۔
حضرت عائشہ سے يہ معروف حديث نقل کي گئي ہے ’’واللّٰہِ مارَاَيتُ فِي سمتہ و ھديۃ اَشبَہُ بِرَسُولِ اللّٰہِ مِن فَاطِمَۃَ‘‘ ۔ميںنے پيغمبر اکرم کي شکل و شمائل ،ظاہري قيافے،درخشندگي اور حرکات و رفتار کے لحاظ سے کسي ايک کو بھي فاطمہ سے زيادہ شباہت رکھنے والا نہيں پايا‘‘ ۔ وَکَانَ اِذَا دَخَلَت عَلٰي رَسُولِ اللّٰہِ قَامَ اِلَيھَا‘‘۔ جب فاطمہ زہرا علیھا السلام رسول اللہ۰ کے پاس تشريف لائيں تو آپ۰ اُن کے احترام ميں کھڑے ہوجاتے اور مشتاقانہ انداز ميں ان کي طرف بڑھ کر اُن کااستقبال کرتے ۔ يہ ہے ’’قَامَ اِلَيھَا‘‘ کي تعبير کا معني۔ ايسا نہيں تھا کہ جب حضرت زہرا علیھا السلام تشريف لاتيں تو آپ۰ صرف کھڑے ہوکر اُن کا استقبال کرتے، نہيں ! ’’قَامَ اِلَيھَا‘‘ يعني کھڑے ہوکر اُن کي طرف قدم بڑھاتے ۔بعض مقامات پر اسي راوي نے اس روايت کو اس طرح نقل کيا ہے کہ ’’وَ کَانَ يُقَبِّلُھَا ويُجلِسُھَا مَجلِسَہُ ‘‘۔’’وہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کو پيار کرتے، چومتے اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر اپني جگہ پر بٹھاتے‘‘۔ يہ ہے حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کا مقام ومنزلت ۔ اس باعظمت شخصيت کے بارے ميں ايک عام انسان کي کيا مجال کہ وہ لب گشائي کرے!
سيرت حضرت زہرا علیھا السلام کي کما حقہ معرفت
ميرے محترم دوستو! حضرت فاطمہ علیھا السلام کي عظمت و فضيلت اُن کي سيرت ميں واضح و آشکار ہے ۔ايک اہم مسئلہ يہ ہے کہ ہم حضرت زہرا علیھا السلام کے بارے ميں کيا شناخت و آشنائي رکھتے ہيں ۔ اہل بيت ٴ کے محبوں نے پوري تاريخ ميںحتي الامکان يہي کوشش کي ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کي کما حقہ معرفت حاصل کريں ۔ ايسا نہيں ہے کہ کوئي يہ خيال کرے کہ يہ عظيم شخصيت صرف ہمارے زمانے ميں ہي ہر دلعزيز ہے ۔ آج الحمدللہ اسلامي حکومت کا زمانہ ہے اور حکومت قرآن ، حکومت علوي اور حکومت اہل بيت ٴ کا دوردورہ ہے ۔جو کچھ دل ميں موجزن ہے وہ زبانوں پر بھي جاري ہوتا ہے اور ہميشہ سے ايسا ہي ہوتا رہا ہے ۔
دنيائے اسلام کي قديمي ترين جامعہ (يونيورسٹي) جس کا تعلق تيسري اور چوتھي صدي ہجري سے ہے، حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے نام پر ہے ۔ اسي معروف جامعۃ الازھر کا نام حضرت زہر علیھا السلام کے نام سے اخذ کيا گيا ہے ۔ اُن ايام ميں حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کے نام پر يونيورسٹي بناتے تھے ۔ مصر ميں حکومت کرنے والے فاطمي خلفائ سب شيعہ تھے ۔ بنا برايں ، صديوں سے شيعوں کي يہي کوشش رہي ہے کہ اس عظيم ہستي کي کماحقہ معرفت حاصل کريں ۔
عظمت خدا کا ايک نمونہ!
ايک اور مسئلہ يہ ہے کہ ہم تمام ستاروں سے اپني راہ تلاش کريں ۔ ’’وَبِالنِّجمِ ھُم يَھتَدُونَ ‘‘ ١ ۔عاقل انسان کا يہي عمل ہوتا ہے ۔ستارہ جو آسمان پر چمک رہا ہے اُس سے استفادہ کرنا چاہيے ۔ ستاروں کي بھي اپني ايک
-------------
١ سورہ نحل / ١٦
عجيب اورعظيم دنيا ہے ۔ کيا يہ ستارے يہي ہيں کہ جو ہم اور آپ ديکھ رہے ہيں؟ کہتے ہيں کہ آسمان پر چمکنے والے ان چھوٹے سے ستاروں ميں سے بعض ستارے کہکشاں کہ جس ميں خود اربوں ستارے موجود ہيں، سے بڑے ہيں! قدرت الٰہي کي نہ کوئي حد ہے اور نہ کوئي اندازہ۔ عاقل انسان کہ جسے خداوند عالم نے قوتِ بصارت دي ہے، کو چاہيے کہ اپني زندگي کيلئے ان تمام ستاروں کے وجود سے فائدہ حاصل کرے ۔ قر آن کہتا ہے کہ ’’وَبِالنِّجمِ ھُم يَھتَدُونَ ‘‘ ۔ يہ ستاروں کے ذريعے سے راستہ کو پاتے ہيں ۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام سے درس خدا ليجئے!
ميرے عزيز دوستو! عالم خلقت کا يہ درخشاں ستارہ ايسا نہيں ہے جو ہميں نظر آرہا ہے، اس کي حقيقت اور مقام و منزلت اس ظاہري اور نظر آنے والے وجود سے بہت بلند و برتر ہے ۔ ہم حضرت زہر علیھا السلام سے صرف ايک نور و روشني ديکھ رہے ہيں ليکن حقيقت اس سے بہت آگے اور بلند ہے ۔ ميں اور آپ ان بزرگوار ہستي سے کيا استفادہ کرسکتے ہيں؟ روايت ميں ہے کہ ’’تُظھِرُ الآَھلَ السَّمآئِ ‘‘ عالم ملکوت کے رہنے والوں کي آنکھيں حضرت زہرا علیھا السلام کے نور سے خيرہ ہوجاتي ہيں،تو ميں اور آپ کيا حقيقت رکھتے ہيں!يہاں ايک بنيادي سوال يہ ہے کہ ہم اس عظيم ہستي کے وجود سے کيا فائدہ اٹھا سکتے ہيں؟ چاہيے کہ اس روشن و درخشاں ستارے سے خدا اوراس کي بندگي کي راہ کو ڈھونڈيں کيونکہ يہي سيدھا راستہ ہے اور فاطمہ زہرا علیھا السلام نے اس راہ کو پايا اور فاطمۃ الزہرائ بن گئيں ۔ خداوند عالم نے اُن کے وجود کو اعلي و ارفع قرار ديا ،اس ليے کہ وہ جانتا تھا کہ وہ عالم مادہ اور عالم ناسوت کے امتحان ميں اچھي طرح کامياب ہوں گي۔
حضرت زہر علیھا السلام کے صبر اور غوروفکر کي عظمت! اِمتَحَنَکِ اللّٰہُ الَّذِي خَلَقَکِ قَبلَ اَن يَخلُقَکِ فَوَجَدَکِ لِمَا امتَحَنَکِ صَابِرَۃً ‘‘١ ۔خدا نے آپ کي تخليق سے قبل امتحان ليا اور ان تمام حالات ميں آپ کو صابر پايا)۔ اگر خداوند عالم نے (خلقت سے قبل) اُن کے (نوراني) وجود پر اپنا خاص لطف کيا ہے تواُس کي ايک وجہ يہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام (دنيوي) امتحانات ميں کس طرح کامياب ہوںگي۔ ورنہ بہت سے افراد کي شروعات تو بہت اچھي تھيں
-----
١ مناقب، جلد ٣، صفحہ ٣٤١
ليکن کيا وہ سب امتحانات ميں کامياب ہوگئے؟ ہميں اپني نجات کيلئے حضرت زہرا علیھا السلام کي زندگي کے اس حصے کي اشد ضرورت ہے ۔ يہ حديث شيعہ راويوں سے نقل کي ہے کہ پيغمبر اکرم نے حضرت فاطمہ عليہا السلام سے فرمايا ’’يا فاطِمَۃُ بِنتَ محمّدٍ اِنّي لَا اَغنيٰ عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَيئًا‘‘۔اے ميري پياري لخت جگر، اے ميري فاطمہ ميں خدا کيلئے تم کو کسي چيز سے بے نياز نہيں کرسکتا ہوں ۔ يعني تم اپنے غوروفکر کے ذريعے سے بارگاہ الٰہي ميں آگے بڑھو اور ايسا ہي تھا۔ وہ اپني فکر و معرفت کے ذريعے اِس مقام تک پہنچيں ۔
دوسري فصل
عملي سيرت
فاطمہ ، ماں کي خالي جگہ
آپ توجہ کيجئے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام نے اپنے بچپن سے ليکر شہادت تک کي مختصر زندگي کس طرح بسر کي ہے؟ اپني شادي سے قبل کہ جب وہ ايک چھوٹي سے لڑکي تھيں تو انہوں نے نور و رحمت کے پيغمبر، دنيائے نور کو متعارف کرانے والي عظيم شخصيت اور عظيم عالمي انقلاب کے رہبر و مدير کے ساتھ کہ جن کا انقلاب تاقيامت باقي رہے گا کہ جس دن سے اُنہوں نے اس پرچم توحيد کو بلند کيا، حضرت زہرا علیھا السلام نے ايسا برتاو کيا کہ اُن کي کنيت ’’اُمّ اَبِيھَا‘‘ ، ’’اپنے والد کي ماں ‘‘رکھي گئي۔يہ تھي اُن کي خدمت ،کام، محنت و مشقت اور جدوجہد۔ بغير کسي وجہ کے تو اُن کو ’’اُمّ اَبِيھَا‘‘ نہيں کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ مکے کے شب و روز ہوں يا شعب ابي طالب ٴکے اقتصادي و معاشي محاصر ے کے سخت ترين دن و رات يا وہ وقت کہ جب آپ کي والدہ حضرت خديجہ، رسول اکرم۰ کو تنہا چھوڑ گئيں اور پيغمبر۰ کے قلب مبارک کو مختصر عرصے ميں دو صدمے اٹھانے پڑے ، يعني حضرت خديجہ اور حضرت ابوطالبٴ کي پے در پے وفات۔ ايسے کڑے و مشکل وقت ميں حضرت زہرا علیھا السلام آگے بڑھيںاور اپنے ننھے ہاتھوں سے رسول اکرم۰ کے چہرہ مبارک پر پڑئے ہوئے غم و اندوہ کے گرد وغبار کو صاف کيا اور اپنے والد کي تسلي کا سبب بنيں ۔ حضرت زہرا علیھا السلام کي جدوجہد يہاں سے شروع ہوئي۔ آپ ديکھئے کہ حضرت زہرا علیھا السلام کي شخصيت اور جدوجہد کا يہ بحر بيکراں کتنا عظيم ہے!
طلوع اسلام کے بعد علي و فاطمہ علیھا السلام کي خدمات
اس کے بعد اسلام کا آفتاب طلوع ہوتا ہے اور اس کے بعد آپ حضرت علي مرتضي ٴسے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوجاتي ہيں ۔ حضرت علي ابن ابي طالب ٴ ايک فداکار اورانقلابي رضاکار کا مصداق کامل ہيں ۔يعني اُن کا پور ا وجود اسلام کي تبليغ اور اُسے مضبوط بنانے اور خدا اور رسول۰ کي خوشنودي و رضا کے حصول کيلئے وقف تھا۔حضرت امير المومنين ٴ نے اپني ذات کيلئے کوئي سرمايہ نہيں چھوڑا۔ حضرت ختمي مرتبت کي حيات مبارکہ کے آخري دس سالوںميں امير المومنين نے جو کام بھي انجام ديا وہ صرف اسلام کي پيشرفت کيلئے تھا۔
يہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت زہرا علیھا السلام ، اميرالمومنين اور اُن کے بچے کئي کئي دن بھوکے رہتے تھے تو اس کي وجہ يہي ہے کہ ان کے پاس جو کچھ تھا وہ سب راہ خدا ميں نئے مسلمان ہونے والوں کيلئے وقف کرديا تھا ۔ ورنہ تو اگر يہ جوان تجارت اور کمانے کي فکر کرتا تو سب لوگوں سے زيادہ کماسکتا تھا۔ يہ وہي علي ٴ ہيں کہ جو آنے والے زمانے ميں کنويں کھودتے تھے اور جب پاني تيزي سے ابلنے لگتا تو باہر تشريف لاتے اور مٹيالے پاني ميں آلودہ اپنے ہاتھ و پير کو دھوئے بغير بيٹھ کر کنويں کو وقف کرنے کا حکم تحرير فرماتے ۔ امير المومنين ٴ نے اس قسم کے کام بہت زيادہ انجام ديئے ہيں، کتنے ہي نخلستانوں کو آپ نے خود آباد و سرسبز و شاداب بنا ياہے، يہ وہي مدينہ ہے تو امير المومنين اس مدينے ميں بھوکے کيوں رہيں؟ حديث ميں ہے کہ ايک مرتبہ حضرت فاطمہ علیھا السلام خدمت رسول اکرم ۰ ميں تشريف لے گئيں تو فاقوں کي وجہ سے آپ کا رنگ زرد ہوگيا تھا۔ جب حضرت ختمي مرتبت۰ نے حضرت فاطمہ علیھا السلام کي اس حالت کا مشاہدہ کيا تو اُن کا دل بہت بيقرار ہوا اور انہوں نے حضرت زہرا علیھا السلام کيلئے دعا کي۔
حضرت اميرالمومنين ٴ کي تمام جدوجہد کا ہدف، خوشنودي خدا کا حصول اور اسلام کي پيشرفت تھي، انہوں نے اپنے ليے کوئي ايک کام بھي انجام نہيں ديا۔ يہي وجہ ہے کہ وہ ايک رضاکار کا مصداق کامل ہيں ۔ميں علي و فاطمہ علیھا السلام کے نام نامي سے منسوب اس ملک کے تمام رضاکاروں (بسيجيوں) کي خدمت ميں عرض کرتا ہوں کہ حضرت امير المومنين ٴ کو اپنے ليے اسوئہ عمل قرارديں ۔ اس ليے کہ پوري دنيا ميں مسلمان رضاکاروں کيلئے سب سے بہترين اور بزرگترين اسوہ، حضرت علي ابن ابي طالب ٴہيں ۔
علي سے شادي کيلئے خدا کاانتخاب
حضرت زہرا علیھا السلام سے شادي کے بہت سے طلبگار تھے ۔ يہ کوئي معمولي بات نہيں ہے اس لئے کہ آپ عالم اسلام کے عظيم رہبر اور حاکم ِوقت کي صاحبزادي تھيں ۔ رشتے کے طلبگاروں ميں بڑے بڑے افراد، صاحب مقام و حيثيت اور ثروت مند افراد شامل تھے ۔ ليکن حضرت زہرا علیھا السلام نے راہِ الٰہي ميں اپني پوري دنيا کو وقف کردينے والے پاکيزہ نوجوان ، جو ہميشہ ميدان جنگ کا شہسوار تھا، کا انتخاب کيا۔ يعني يہ انتخاب خدا نے کيا تھا اور وہ بھي خدا کے انتخاب سے راضي اور خوشحال تھيں ۔
رشتہ ازدواج ميں منسلک ہونے کے بعد حضرت زہرا علیھا السلام نے حضرت علي کے ساتھ اس طرح زندگي بسر کي کہ امير المومنين ٴاُن سے پوري طرح سے راضي تھے ۔ اپني عمر کے آخري ايام ميں حضرت زہرا علیھا السلام نے حضرت علي ٴ سے جو الفاظ اد اکيے وہ اسي چيز کي عکاسي کرتے ہيں کہ ميں آج عيد کے دن اُن (مصائب کے) جملوں کو دہرانا نہيں چاہتا۔ انہوں نے صبر سے کام ليا، بچوں کي صحيح تربيت کي اور ولايت کے دفاع کيلئے تن من دھن ،سب کچھ قربان کرديا۔ اس راہ ميں تما صعوبتوں کو برداشت کيا اور اُس کے بعد خندہ پيشاني سے شہادت کااستقبال کيا او ر اُسے خوشي خوشي گلے لگايا ١۔ تيسري فصل
شوہروں کي جدوجہد وفعاليت ميں خواتين کا بنيادي کردار
عورت کا جہاد؟!
مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں ايک مرد مختلف قسم کي جدوجہد اور فعاليت انجام دينے ميں اپني بيوي کے
---------
١ نومبر ١٩٩٤ ميں نوحہ خواں حضرات سے خطاب
ساتھ دينے ، ہمراہي ، صبر اور موافقت کا مرہون منت ہے اور ہميشہ يہي ہوتا رہتاہے ۔ يہ جو کہا گيا کہ ’’جِھَادُ المَرآَۃِ حُسنُ التَّبَعُّلِ ‘‘،عورت کا جہاد بہترين شوہر داري ہے ۔ ’’حُسنُ التَّبَعُّلِ ‘‘ کا کيا مطلب ہے؟کچھ لوگ خيال کرتے ہيں کہ عورت کا جہاد يہ ہے کہ وہ صرف شوہر کے آرام و سکون کے وسائل فراہم کرے، حُسنُ التَّبَعُّلِ صرف يہ نہيں ہے اور نہ ہي يہ جہاد ہے ۔ عورت کا جہاد يہ ہے کہ جب ايک مومن وفداکار عورت کا شوہر مختلف قسم کي سنگين ذمے داريوں کا حامل ہے تو اُس سنگين ذمے داري کا بارگراں آپ کے کندھوں پر بھي آئے گا اور آپ خواتين بھي ان کي ماموريت اور وظائف ميں شريک ہوں گي۔ آپ خواتين کي خدمات اسي طرح کي ہيں ۔
جب مرد دن بھر کے کام، کاج، تجارت اور ديگر وظائف کي بجا آوري سے تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو اُس کي تھکاوٹ کے اثرات گھر ميں بھي ظاہر ہوتے ہيں ۔ جب وہ گھر ميں قدم رکھتا ہے تو تھکا ہوا ،خستہ تن اورر کبھي بد اخلاق بھي ہوتا ہے ۔ اُس کے کام ،آفس يا تجارت و بازار سے آنے والي يہ خستگي ، بداخلاقي اور درد سر گھر کي اندورني فضا ميں بھي منعکس ہوتي ہے ۔ اب اگر يہ عورت جہاد کرنا چاہتي ہے تو اس کا جہاد يہ ہے کہ وہ شوہر کي بداخلاقي اورکم ہمتي کا خوش اخلاقي سے جواب دے، اُن سختيوں اور زحمتوں کے ساتھ اپني شيريں زندگي کي تعمير کرے اور خدا کي خوشنودي کيلئے اُنہيں تحمل کرے ۔ اِسے کہا جاتا ہے حُسنُ التَّبَعُّلِ يا بہترين شوہر داري۔
حضرت فاطمہ علیھا السلام کا عظيم ترين جہاد!
جب رسول اکرم۰ نے مدينے ہجرت کي تو امير المومنين ٴکي عمر مبارک تقريباً تئيس يا چوبيس سال تھي۔ ہجرت کے فوراً بعد مختلف قسم کے غزوات اورجنگيں شروع ہوگئيں ۔ ان تما م جنگوں يا غزوات ميں يہ نوجوان يا علمدار سپاہ اسلام تھا ياسب سے آگے آگے رہتا تھا يا جنگ کا شجاع ترين مجاہد تھا۔ غرضيکہ سب سے زيادہ ذمے داري اسي نوجوان کے پاس تھيں ۔
جنگ تو موسم کے مطابق نہيں ہوتي ہے، کبھي موسم گرم ہے اور کبھي ٹھنڈا، کبھي صبح اورگھر ميں بچہ بيمار ہے (اُسے دوا کي ضرورت ہے ليکن حکم جنگ آگيا تو اب جنگ کيلئے فوراً جانا ہے ، سب کچھ چھوڑ کر)۔ رسول اکرم۰ کي دس سالہ حکومت ميں تقريباً ستر چھوٹي بڑي جنگيں ہوئيں، کچھ جنگيں چند روز پر مشتمل تھيں اور کچھ جنگيں ايک ماہ کے طويل عرصے تک لڑي گئيں ۔ صرف ايک جنگ کے علاوہ امير المومنين ٴنے تمام جنگوں اور غزوات ميں شرکت کي۔ ان جنگوں ميں شرکت کے علاوہ انہيں مختلف قسم کي ماموريت کيلئے بھيجا جاتا تھا، مثلاً رسول اکرم۰ نے امير المومنين ٴکو کچھ مدت کيلئے قضاوت کي غرض سے يمن بھيجا۔ بنابرايں، يہ حضرت فاطمہ علیھا السلام تھيں جو ہميشہ ان تمام حالات کا سامنا کرتي رہيں ۔ يا اُن کے شوہر جنگ ميں ہوتے يا زخمي و خون آلودہ بدن کے ساتھ گھر لوٹتے يااگر يہ دونوں حالتيں نہيں بھي ہوتيں تو بھي پيغمبر اکرم۰ کي خدمت ميں مختلف اہم امور کي انجام دہي کيلئے مدينے ميں سرگرم عمل ہيں يا پھر سفر وماموريت پر گئے ہيں ۔ حضرت فاطمہ زہر علیھا السلام نے ان تمام سخت و دشوار حالات کا جبکہ اُن کے فعال ترين شوہر ہميشہ کاموں ميں مشغول تھے،مہرباني ، ايثار اور فداکاري سے مقابلہ کيا اور چار بچوں کو اپني تعليم و تربيت کے زير سايہ پروان چڑھايا۔ ان ميں سے ايک حضرت امام حسين ٴ ہيں کہ پوري تاريخ بشريت ميں پرچم آزادي کو بلند کرنے والي اُن سے بڑي شخصيت کوئي اور نہيں ہے ۔ پس ’’حُسنُ التَّبَعُّلِ ‘‘ کا معني يہ ہے ۔
يہ وجہ ہے کہ ميرا يقين ہے اور اسي بنا پر تاکيداً آپ مرد حضرات کي خدمت ميں عرض کررہا ہوں کہ آپ کي مائيں خصوصاً آپ کي زوجات آپ کے اجر وثوات ميں شريک ہيں اور يہ درحقيقت اُن کا آپ کي فعاليت ،کام اور جدوجہد ميں اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے ساتھ دينا ہے کہ جو انہوں نے انجام ديا ۔ کبھي پچا س فيصد،کبھي ساٹھ فيصد اور کبھي ستر فيصد وہ آپ کے کاموں اور اجر و ثواب ميں شريک ہيں ۔
مرد،خواتين کي اکثر زحمتوں سے بے خبر ہيں!
اگر آپ خواتين اپنے شوہروں کي طرف سے زحمت و مشقت کو برداشت کرتي ہيں اور آپ کا شوہر کام ، ملازمت، اجتماعي فعاليت و جدوجہد کي وجہ سے (نہ چاہتے ہوئے بھي) يہ زحمت و مشقت آپ کے کندھوں پر ڈالتا ہے تو جان ليجئے کہ آپ کي اس زحمت و مشقت کا خدا کي بارگاہ ميں اجر محفوظ ہے ۔ خواہ وہ ايک لمحے وايک گھنٹے ہي کا کيوں نہ ہو اور خواہ کوئي اُس کي طرف متوجہ نہيں بھي ہو ۔
بہت سے افراد، خواتين (خصوصاً بيويوں) کي زحمت و مشقت سے بے خبر ہيں ۔ اکثر لوگ يہ سمجھتے ہيں کہ زحمت و مشقت وہ چيز ہے کہ جسے انسان اپنے زور بازو اوربدني طاقت سے برداشت کرے يا انجام دے ليکن وہ لاعلم ہيں کہ کبھي کبھي روحي اور قلبي احساسات کے ذريعے برداشت کي جانے والي زحمت کا بار بہت سنگين ہوتا ہے اور لوگوں نے اسي مطلب کو اپنے ذہنوں ميں بٹھاليا ہے ۔ مرد حضرات بھي آپ خواتين کي زحمتوں سے اچھي طرح مطلع نہيں ہيں ليکن خداوند متعال ’’لَا يَخفيٰ عَلَيہ خَافِيَۃ?‘‘ ہے اور کوئي چيز اس سے پوشيدہ نہيں رہتي، وہ آپ کے کاموں پر حاضر و ناظر ہے اور آپ اُس کي بارگاہ ميں مآجور ہيں ۔
پس آپ مرد حضرات کي خدمت ميں عرض کروں کہ ان خواتين کي قدر کيجئے کہ جو زندگي کے مسائل ميں اپنے اپنے محاذ جنگ پر رہتے ہوئے آپ کے ساتھ آپ کي فعاليت و جدّوجہد شريک ہيں ۔ آپ خواتين کي خدمت ميں بھي عرض کروں يہ مرد حضرات جو کام انجام دے رہے ہيں اگر اچھي طرح انجام ديں تو ان کے يہ کام بہترين کاموں سے تعلق رکھتے ہيں ۔ راہ انقلاب ميں پاسداري و حفاظت ،بہترين کاموں سے تعلق رکھتي ہے اور اس کا اجر وثواب بھي بہت زيادہ ہے ۔ اگر آپ اپنے جوان شوہر جو اس ذمے داري کاحامل ہے،کي کاميابي ميں اُس کي مدد کريں تو اُسي نسبت سے خدا کي بارگاہ ميں آپ کي قدر و اہميت اور اجر وثواب زيادہ ہوگا۔ ہمت و حوصلے سے ان وظائف کو انجام دينا ہي ہر ملک ميں بڑے بڑے کاموں کي انجام دہي کا سبب بنتا ہے ۔ جب ايک ملک کے مردوں ،خواتين اور پيرو جوان اورمختلف افراد کي ہمت و حوصلے اور ارداے و طاقت ايک ساتھ جمع ہوجائے تو اُس قوم سے عظمت و قدرت کا ايک سيلاب امڈتا ہے کہ جو قوموں کي بے مثل ونظير طاقت و قدرت کا باعث بنتا ہے ١۔
----------
پردہ کا فلسفہ کیا ہے؟
حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی دام ظلہ
بے شک عصر حاضر میں جس کو بعض لوگوں نے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ قرار دیا ہے، اور مغرب نواز لوگوں نے اس کو عورتوں کی آزادی کا ایک حصہ قرار دیا ہے، لہٰذا ایسے لوگ پردہ کی باتوں کو سن کر منہ بناتے ہیں اور پردہ کو گزشتہ زمانہ کا ایک افسانہ شمار کرتے ہیں۔
لیکن اس آزادی اور بے راہ روی سے جس قدر فسادات اور برائیاں بڑھتی جارہی ہیں اتنا ہی پردہ کی باتوں پر توجہ کی جارہی ہے۔
البتہ اسلامی اور مذہبی معاشرہ میں خصوصاً ایرانی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اور بہت سے سوالات کا اطمینان بخش جواب دیا جا چکا ہے، لیکن چونکہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے لہٰذا اس مسئلہ پر مزید بحث و گفتگو کی ضرورت ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ (بہت ہی معذرت کے ساتھ)کیا عورتوں سے (ہمبستری کے علاوہ) سننے ، دیکھنے اور لمس کرنے کی دوسری لذتیں تمام مردوں کے لئے ہیں یا صرف ان کے شوہروں سے مخصوص ہیں؟!
بحث اس میں ہے کہ عورتیں اپنے جسم کے مختلف اعضا کی نمائش کے ایک بے انتہا مقابلہ میں جوانوں کی شہوتوں کو بھڑکائیں اور آلودہ مردوں کی ہوس کا شکار بنیں یا یہ مسائل شوہروں سے متعلق ہیں؟!
اسلام اس دوسری قسم کا طرف دار ہے ، اور حجاب کو اسی لئے قرار دیا ہے، حالانکہ مغربی ممالک اور مغرب نواز لوگ پہلے نظریہ کے قائل ہیں۔
اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذت اور دیکھنے ، سننے اور چھونے کی لذت شوہر سے مخصوص ہے اس کے علاوہ دوسرے کے لئے گناہ، آلودگی اور معاشرہ کے لئے ناپاکی کا سبب ہے۔
فلسفہ حجاب کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز نہیں ہے، کیونکہ:
۱۔ بے پردہ عورتیں معمولاً بناؤ سنگار اور دیگر زرق و برق کے ذریعہ جوانوں کے جذبات کو ابھارتی ہیں جس سے ان کے احساسات بھڑک اٹھتے ہیں اور بعض اوقات نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں،انسان کے احساسات کتنے ہیجان آور وزن کو برداشت کرسکتے ہیں؟ کیا نفسیاتی ڈاکٹر یہ نہیں کہتے کہہمیشہ انسان میں ہیجان سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔
خصوصاً جب یہ بھی معلوم ہو کہ جنسی غریزہ انسان کی سب سے بنیادی فطرت ہوتی ہے جس کی بنا پر تاریخ میں ایسے متعددخطر ناک حوادث اور واقعات ملتے ہیں جس کی بنیاد یہی چیز تھی،یہاں تک بعض لوگوں کا کہنا ہے: ”کوئی بھی اہم واقعہ نہیں ہوگا مگر یہ کہ اس میں عورت کا ہاتھ ضرور ہوگا“!
ہمیشہ بازاروں اور گلی کوچوں میں عریاں پھر کر احساس کو بھڑکانا؛ کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ اور کیا یہ کام عقلمندی ہے؟!
اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ مسلمان مرد اور عورت چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کریں اور ان کی آنکھیں اور کان غلط کاموں سے محفوظ رہیں اور اس لحاظ سے مطمئن طور پر زندگی بسر کریں، پردہ کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے۔
۲۔ مستند اور قطعی رپورٹ اس چیزکی گواہی دیتی ہیں کہ دنیا بھر میں جب سے بے پردگی بڑھی ہے اسی وقت سے طلاقوں میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیونکہ ”ہر چہ دیدہ بیند دل کند یاد“ انسان جس کا عاشق ہوجاتا ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا انسان ہر روز ایک دلبرکو تلاش کرتا ہے تو دوسرے کو الوداع کہتا ہوا نظر آتا ہے۔
جس معاشرہ میں پردہ پایا جاتا ہے (اور اسلامی دیگر شرائط کی رعایت کی جاتی ہے) اس میں یہ رشتہ صرف میاں بیوی میں ہوتا ہے ان کے احساسات، عشق اور محبت ایک دوسرے کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔
لیکن ”اس آزادی کے بازار“ میں جبکہ عورتیں ؛ عملی طور پر ایک سامان کی حیثیت رکھتی ہیں (کم از کم جنسی ملاپ کے علاوہ) تو پھر ان کے لئے میاں بیوی کا عہد و پیمان کوئی مفہوم نہیں رکھتا، اور بہت سی شادیاں مکڑی کے جالے کی طرح بہت جلد ہی جدائی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں، اور بچے بے سر پرست ہوجاتے ہیں۔
۳۔ فحاشی کا اس قدر عام ہوجانا اور نا جائز اولادیں پیدا ہونا؛ بے پردگی کے نتیجہ کا ایک معمولی سا درد ہے، جس کے بارے میں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ مسئلہ خصوصاً مغربی ممالک میں اس قدر واضح ہے جس کے بارے میں بیان کرناسورج کو چرا غ دکھاناہے، سبھی لوگ اس طرح کی چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ سے سنتے رہتے ہیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور نا جائز بچوں کی پیدائش کی اصل وجہ یہی بے حجابی ہے،ہم یہ نہیں کہتے کہ مغربی ماحول اور غلط سیاسی مسائل اس میں موثر نہیں ہے، بلکہ ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ عریانی اور بے پردگی اس کے موثر عوامل اور اسباب میں سے ایک ہے۔
فحاشی اور ناجائز اولاد کی پیداوار کی وجہ سے معاشرہ میں ظلم و ستم اور خون خرابہ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے پیش نظر اس خطرناک مسئلہ کے پہلو واضح ہوجاتے ہیں۔
جس وقت ہم سنتے ہیں کہ ایک رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں ہر سال پانچ لاکھ بچے ناجائز طریقے سے پیدا ہوتے ہیں، اور جب ہم سنتے ہیں کہ انگلینڈ کے بہت سے دانشوروں نے حکومتی عہدہ داروں کو یہ چیلنج دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک کی امنیت کو خطرہ ہے، (انھوں نے اخلاقی اور مذہبی مسائل کی بنیاد پر یہ چیلنج نہیں کیا ہے) بلکہ صرف اس وجہ سے کہ حرام زادے بچے معاشرہ کے امن و امان کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں، کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت کے مقدموں میں اس طرح کے افراد کا نام پایا جاتا ہے، تو واقعاً اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دین و مذہب کو بھی نہیں مانتے ،اس برائی کے پھیلنے سے وہ بھی پریشان ہیں، لہٰذامعاشرہ میں جنسی فساد کو مزید پھیلانے والی چیزمعاشرہ کی امنیت کے لئے خطرہ شمار ہوتی ہے اور اس کے خطر ناک نتائج ہر طرح سے معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہیں۔
تربیتی دانشوروں کی تحقیق بھی اسی بات کی عکاسی کرتی ہے کہ جن کالجوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں یا جن اداروں میں مرد اور عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی ہے تو ایسے کالجوں میں پڑھائی کم ہوتی ہے اور اداروں میں کام کم ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس بھی کم پایا جاتا ہے۔
۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کی عظمت کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس کی آرائش کا تقاضا بڑھتا جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوتا جائے گا، جب عورت جنسی کشش کی بنا پر ساز و سامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی ، انتظار گاہوں میں دل لگی کا سامان ہوگی اور سیّاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرہ میں اس کی حیثیت کھلونے یا بے قیمت مال و اسباب کی طرح گرجائے گی، اور اس کے شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گے، اور اس کا افتخار صرف اس کی جوانی، خوبصورتی اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا۔
اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سر کش ہواو ہوس پوری کرنے کے آلہٴ کار میں بدل جائے گی!۔
ایسے معاشرہ میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم و آگہی اور بصیرت کے جلووں کو کیسے پورا کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟!
واقعاً یہ بات کتنی تکلیف دِہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی جو ”فنکار“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھیں اُس گندے ماحول کے ذمہ دار اُن کے لئے آنکھیں بچھاتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں وہ سب گندگی ختم کردی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رُسوا کردیا گیا تھا، اور وہ ثقافتی کھلونے اور بے قیمت ساز و سامان بن کر رہ گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام و وقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے کو پردہ سے ڈھانپ لیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہو، بلکہ معاشرہ کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں یہاں تک کہ میدان جنگ میں اسی اسلامی پردے کے ساتھ بڑی بڑی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
حجاب کے مخالفین کے اعتراضات
(قارئین کرام!) ہم یہاں پر حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کو بیان کرتے ہیں اور مختصر طور پر ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں:
۱۔ حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں پردہ میں رہیں گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔
لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ:
اولاً : یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی پردہ کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا ہے کہ عورتیں اسلامی پردہ میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہیں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگہداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔