
Super User
رہبر معظم کا نئے ہجری شمسی سال 1392 کی مناسبت سے قوم کے نام پیغام
۲۰۱۳/۰۳/۲۰ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال 1392 کے آغاز کی مناسبت سے اپنے پیغام میں گذشتہ سال میں ایران کی ترقی بالخصوص عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی مقابلہ میں آگے کی جانب پیشرفت کی طرف اشارہ کیا اورنئے سال کے تناظر میں سیاسی و اقتصادی میدانوں میں ایرانی قوم کے مجاہدانہ حضور،تجربہ، حرکت و پیشرفت کو امید افزا قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نقطہ نگاہ سے نئے سال کو عظيم سیاسی اور اقتصادی رزم کا سال قراردیتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:
بسماللهالرّحمنالرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال.
اللّهمّ صلّ علی حبیبتك سیّدة نساء العالمین فاطمة بنت محمّد صلّی الله علیه و ءاله. اللّهمّ صلّ علیها و علی ابیها و بعلها و بنیها. اللّهمّ کن لولیّك الحجّة بن الحسن صلواتك علیه و علی ءابائه فی هذه السّاعة و فی کلّ ساعة ولیّا و حافظا و قائدا و ناصرا و دلیلا و عینا حتّی تسکنه ارضك طوعا و تمتّعه فیها طویلا. اللّهمّ اعطه فی نفسه و ذرّیّته و شیعته و رعیّته و خاصّته و عامّته و عدوّه و جمیع اهل الدّنیا ما تقر به عینه و تسرّ به نفسه.
میں ملک بھر کےاپنے تمام اہل وطن بھائیوں بہنوں ، دنیا کے گوشہ گوشہ میں رہنے والے تمام ایرانیوں ، نوروز کی تقریبات منعقد کرنے والی تمام قوموں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ؛ بالخصوص ایثارگروں۔ جانبازوں اور شہداء کے اہلخانہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور تمام ان افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو ملک میں اسلامی نظام کی خدمت کرنے میں مشغول اور مصروف ہیں اور اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس آغاز اور اس نئے سال کو تمام ایرانیوں ، دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے لئے خوشحالی، شادمانی، کامیابی اور نشاط کا باعث قراردے اور ہمیں اپنے وظائف اور ذمہ داریوں پر عمل کرنے میں مؤفق اور کامیاب فرمائے اور اپنے ہم وطن ایرانیوں سے سفارش کرتا ہوں کہ عید نوروز کے اواسط میں ایام فاطمیہ ہیں اور وہ ان ایام پر توجہ مبذول کریں کیونکہ ان ایام کا احترام اور تکریم ہم سب پر لازم ہے۔
تحویل کا وقت اور تحویل کی گھڑی درحقیقت ایک اختتام اور ایک آغاز کے درمیان حد فاصل ہے گذشتہ سال کا اختتام اور نئے سال کا آغاز ہورہا ہے، البتہ ہماری زيادہ تر توجہ آگے کی سمت مرکوز ہونی چاہیے۔؛ ہم نئے سال کا مشاہدہ کریں اور اس کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کریں؛ لیکن گذشتہ سال میں ہم نے جو راستہ طے کیا ہے جو پیشرفت حاصل کی ہے اس پر توجہ بھی ہمارے لئے مفید ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ ہم نے کیا کام انجام دیئے ہیں، ہماری حرکت کیسی رہی ہے ہم نے کون سے نتائج حاصل کئے ہیں اور ان سے ہمیں سبق اور تجربہ حاصل کرنا چاہیے۔
تمام سالوں کی طرح گذشتہ سال بھی متنوع ، گوناگوں رنگوں اور نقشوں کا حامل رہا، حلاوت اور مٹھاس کا حامل بھی رہا ، تلخی اور کڑواہٹ کا حامل بھی رہا؛فتح و کامیابی کا حامل بھی رہا اور پسماندگی بھی رہی ، اور طول تاریخ میں انسانوں کی زندگی بھی انھیں نشیب و فراز سے دوچار رہی ہے، سختی اور فراخی کے ہمراہ رہی ہے لیکن سب سے زيادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو نشیب سے نکال کر اوج اور بلندیوں تک پہنچائیں۔
سن 1391 ہجر شمسی میں سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلے میں جو بات واضح اور آشکار رہی وہ یہ تھی کہ دشمنوں نے اسلامی نظام اور ایرانی قوم کے خلاف کافی سخت اقدام اٹھائے البتہ بظاہر دشمن کے سخت اقدامات تھے لیکن حقیقت میں ایرانی قوم کی مختلف میدانوں میں پیشرفت ، فتح اور کامیابی تھی،ہمارے دشمنوں نے مختلف اہداف کو نشانہ بنا رکھا تھا لیکن ان کا اصلی ہدف سیاسی اور اقتصادی شعبہ تھا۔
اقتصادی شعبہ میں انھوں نے واضح اور واشگاف لفظوں میں کہا کہ وہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ ایرانی قوم کو مفلوج کرنا چاہتے ہیں؛ لیکن وہ ایرانی قوم کو مفلوج نہیں کرسکے۔ اور ہم نے مختلف شعبوں میں اللہ تعالی کی مدد اور نصرت اور فضل و کرم سے خاطر خواہ ترقیات حاصل کیں ؛ جن کی تفصیل سے ایرانی قوم کو آگاہ کیا گیا ہے اور آگاہ کیا جائے گا؛ اور میں بھی انشاء اللہ ؛بشرط زندگی ، یکم فروردین ( 21 مارچ ) کے خطاب اس سلسلے میں کچھ مطالب پیش کروں گا۔ البتہ اقتصادی شعبہ میں عوام پر دباؤ پڑا ہے، کچھ مشکلات پیش آئی ہیں؛ بالخصوص اندرونی سطح پر بھی کچھ اشکالات موجود تھے،؛ داخلی سطح پر بھی غفلت اور لاپرواہی ہوئی ہے جس کی وجہ سے دشمن کے نقشوں کو عملی جامہ پہننے میں مدد ملی ہے؛ لیکن مجموعی طور پر عوام اور اسلامی نظآم کی حرکت آگے کی سمت پیشرفت پر مبنی رہی ہے؛انشاء اللہ ان تجربات کے آثار اور نتائج آئندہ نمایاں ہوں گے۔
سیاسی میدان میں دشمن کی تلاش و کوشش ایرانی قوم کو الگ تھلگ کرنے پر مرکوز رہی اور ایک لحاظ سے دشمن نے ایرانی قوم میں شک و تردید ایجاد کرنے کی بڑی کوشش کی؛ ایرانی قوم کی ہمت کو پست و کمزور کرنے کی کوشش کی؛ لیکن حقیقت میں اس کے بر عکس ہوا، اس کے خلاف ہوا، دشمن ہمیں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی میدان میں محدود کرنے میں ناکام ہی نہیں رہا بلکہ ہمیں اس میدان میں قابل توجہ پیشرفت بھی حاصل ہوئی جس میں ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کا تہران میں اجلاس بھی شامل ہے جس میں دنیا بھر کے سیاسی رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ،جو دشمنوں کی توقع اور ان کے منصوبوں کے باکل خلاف تھا اس اجلاس سے ظاہر ہوگیا کہ ایرانی قوم نہ صرف دنیا میں الگ تھلگ نہیں بلکہ دنیا میں اسے عزت، احترام اور وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اندرونی مسائل میں بھی جہاں ضرورت پڑی وہاں قوم نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا سن 91 میں 22 بہمن کی ریلیوں میں عوام نے شجاعت اور دلاوری کے انمٹ نقوش قائم کئے؛ گذشتہ برسوں کی نسبت کثیر تعداد میں اور زیادہ جوش و ولولہ کے ساتھ لوگ ریلیوں میں حاضر ہوئے ؛ ایک دوسرا نمونہ خراسان شمالی کے عوام کا پابندیوں کے اوج میں شاندار حضور تھا جو ایرانی قوم کے جذبہ ، ولولہ اور نشاط کا مظہر تھاگذشتہ سال میں اسلامی نظام کے سلسلے میں حکام نے بحمداللہ عظيم اور نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں، علمی و سائنسی شعبہ میں پیشرفت، بنیادی اور تعمیری کام، عوام اور حکام کی قابل توجہ جد و جہد جس سے انشاء اللہ آگے کی سمت حرکت کی راہ ہموار ہوئی ہے، سیاسی ، اقتصادی اور دیگر تمام حیاتی شعبوں میں بھی پیشرفت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
اللہ تعالی کی مدد و نصرت اور عوام کی ہمت کی بدولت سال 92 ہجری شمسی میں بھی منصوبے ہمارے لئےامید افزا اور ترسیم شدہ ہیں نیا سال ایرانی عوام کی جد وجہد، تحرک، پیشرفت اور تجربہ کا سال رہےگا۔؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دشمن کی عداوت اور دشمنی میں کوئي کمی آجائے گی۔بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم کی آمادگی زیادہ سے زیادہ ، مؤثر ، تعمیری اور انشاء اللہ ان کے اپنے ہاتھ میں رہے گی۔
البتہ سال 92 ہجری شمسی میں ہمیں سیاست اور اقتصاد کے دو اہم شعبوں میں جن چیزون کا سامنا ہے ان میں ہمیں قومی پیدوار کے شعبہ پر توجہ مبذول کرنی چاہیے؛جیسا کہ گذشتہ سال کا نعرہ بھی ہی تھا؛ البتہ اس سلسلے میں بعض کام انجام پذیر ہوئے ہیں لیکن قومی پیداوار کی ترویج اور ایرانی سرمایہ اور کام کی حمایت ایک دراز مدت مسئلہ ہے؛ یہ کام ایک سال کا نہیں ہے خوشبختی سے گذشتہ سال کے دوسرےچھ ماہ میں قومی پیداوار کا پروگرام منظور اور ابلاغ ہوا یعنی اس کام کی ریل بچھا دی گئی ہے جس کی بنیاد پر حکومت اور پارلیمنٹ منصوبہ بنا سکتے ہیں اور اچھی حرکت کا آغاز کرسکتے ہیں اور انشاء اللہ بلند ہمت اور تلاش و کوشش سے اگے بڑھ سکتے ہیں۔
سیاسی شعبہ میں بھی سن 1392 ہجری شمسی میں صدارتی انتخابات ہیں،؛ جو در حقیقت سیاسی اور انتظامی امور میں فیصلہ کن ہیں اور ایک لحاظ سے ملک کے آئندہ چار سالہ دور کے لئے سرنوشت ساز اور فیصلہ کن ہیں۔ انشاء اللہ عوام انتخابات میں بھر پور شرکت کرکے اپنا تابناک اور درخشاں مستقبل رقم کریں گے البتہ سیاست اور اقتصاد کے شعبوں میں عوام کا جہادی حضور بہت ضروری ہے شوق و نشاط اور شجاعت کے ساتھ میدان میں وارد ہونا چاہیے بلند ہمت اور امید افزا نگاہ کے ساتھ وارد ہونا چاہیے؛ با نشاط اور پرامید دل کے ساتھ وارد ہونا چاہیے؛ اور دلیری و شجاعت کے ساتھ اپنے اہداف تک پہنچنا چاہیے۔
اس نقطہ نظر سےسال 92 ہجری شمسی کو " سیاسی اور اقتصادی رزم " کے نام سے موسوم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمدرد و دلسوز حکام اور عوام باہمی تعاون کے ساتھ اقتصادی اور سیاسی رزم کا شاندار نمونہ پیش کریں گے۔
اللہ تعالی اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی توجہات کا طالب اور حضرت امام (رہ) اور شہداء کی ارواح پر درود و سلام نثار کرتا ہوں۔
و السّلام علیكم و رحمةالله و بركاته
رہبر معظم کا نئے ہجری شمسی سال 1392 کی آمد پرحضرت امام رضا علیہ السلام کےروضہ کے لاکھوں زائرین و مجاورین سے خطاب-
۲۰۱۳/۰۳/۲۱ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نئے سال 1392 ہجری شمسی اور بہار کے پہلے دن کے موقع پرحضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کے لاکھوں زائرین اور مجاورین کے ایک عظیم اور شاندار اجتماع سے اپنےاہم خطاب میں گذشتہ سال 1391 ہجری شمسی میں ایرانی قوم کے دشمنوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر رکاوٹوں اور گمراہ پروپیگنڈے کے باوجود ایرانی قوم کی پیشرفت و ترقی کا جائزہ لیا اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں اساسی اور بنیادی نکات پیش کئے ، اقتصادی جہاد اور تیل کی درآمد سے وابستگي ختم کرنے اور بلند مدت اقتصادی پالیسیاں وضع کرنے اور دشمن کے شوم منصوبوں کے اجراء سے قبل سنجیدہ اور ہوشمندانہ اقدام کے بارے میں تشریح فرمائي، اور ایران میں انتخابات کے انعقاد کو ایرانی سیاست کا شاندار مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے ساتھ دوستی اورمحبت رکھنے والے تمام افراد اورسیاسی جماعتوں کو انتخابات میں بھر پور شرکت کرنی چاہیے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت بہت ضروری ہے کیونکہ ملک کے تمام اصلی مسائل میں صدارتی انتخابات بہت ہی اہم اور مؤثر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےاپنے اہم خطاب میں نئے سال کی آمد پر ایک بار پھر مبارکباد پیش کی، اور گذشتہ سال میں ملک کے کمزور اور قوی نقاط کا جائزہ لیا اور اس جائزے کی روشنی میں بلند مدت منصوبہ وضع کرنے کو لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: جس طرح انسان کو انفرادی، ذاتی اور شخصی طور پر اپنے دائمی محاسبہ کی ضرورت ہے، اسی طرح ملک کےقومی مسائل کا محاسبہ اور جائزہ بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گذشتہ امورکو ںظر میں رکھتے ہوئے ان کی بنیاد پر آئندہ کے لئے فیصلہ کرنے چاہییں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف ممالک ، دانشوروں اور اقوام کی جانب سے تجربات حاصل کرنے کے لئے ایرانی قوم کی کامیابیوں اور کارکردگیوں پر گہری اور دقیق نظر اور اسی طرح ایرانی قوم کےکمزور نقاط پر دشمنوں کی طرف سے بھی دقیق اور گہری نظر رکھنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس لحاظ سے بھی ایرانی قوم کو ملک کے شرائط کے بارے میں صحیح اور درست حقائق پر مبنی نگاہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صرف اقتصادی دباؤ، بعض کارخانوں کی پیداوار میں کمی اور مہنگائی جیسے مسائل کو مد نظر رکھنے اور ان کا جائزہ لینے کو غلط و ناقص جائزہ اور تحلیل قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے چیلنجوں کے میدان میں صحیح نگاہ یہ ہے کہ کمزورو ضعیف نقاط اور مشکلات کے ساتھ ساتھ ترقی و پیشرفت کے عظيم نتائج پر بھی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور اس صورت میں ایرانی قوم کی کامیابی اور سربلندی کا صحیح نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران قوم کو مفلوج کرنے کے بارے میں اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے سلسلے میں امریکی حکام کے صریح اور آشکارا بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے چلینج کے اس میدان میں دشمن کی دھمکیوں کو ہوشمندی اور عظیم ظرفیت کے ذریعہ فرصت میں تبدیل کردیا اور اس میدان میں بھی ایرانی قوم ایک کامیاب کھلاڑی کی طرح میدان سے کامیاب باہر آگئی جسے سبھی تحسین آمیز نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر ایسی نگاہ ملک کے شرائط پر ڈالی جائے تویقینی طور پر ایرانی قوم اس عظیم میدان کی فاتح ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: چيلنجز سے بھرے ہوئے اس میدان میں ایرانی قوم کی کامیابیاں ایسی واضح اور روشن ہیں جن کی مختلف ممالک کے دانشور، سیاسی ماہرین ، ممتاز شخصیات تعریف کررہے ہیں اور حتی ایرانی قوم کے بارے میں بری نیت رکھنے والے ممالک بھی ان کامیابیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں ۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی قوم کی پیشرفت سے ہمیشہ ناراض رہنے والے گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: یہ گروہ جو ایرانی عوام کا اصلی دشمن ہے اوروہ ایرانی قوم کی ترقی اور پیشرفت کر روکنے کے لئے دو طریقوں سے استفادہ کررہا ہے؛1) عملی رکاوٹ جس میں اقتصادی پابندیاں ، دھمکیاں، حکام اور قوم کے دانشوروں اور اعلی شخصیات کو فرعی اور غیر ضروری امور میں مشغول کرنا، 2) ایرانی قوم کی عظیم ترقیات کو پنہاں کرنے اور کمزور نقاط کو بڑھا چڑھا کر اور بڑا بنا کر پیش کرنے کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران قوم کے بد نیت دشمنوں کی جانب سے سال 1391 ہجری شسمی کو بڑی تلاش و کوشش کا سال قراردیتے ہوئے فرمایا: انھوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ان کا مقصد ایرانی قوم کو مفلوج کرنے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے، لہذا اگر ایرانی قوم ان کے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود اپنے پاؤں پر کھڑی ہےتو یہ ان کی آبروریزی اور شکست و ناکامی کا باعث ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد دو سوال پیش کئے: 1) ایرانی قوم کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز کہاں ہے؟ 2) ایرانی قوم کے دشمن کون لوگ ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز امریکہ ہے اور گذشتہ 34 برسوں سے آج تک جب بھی دشمن کا نام لیا جاتا ہے ایرانی قوم کا ذہن امریکہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکام کو اس مطلب کے بارے میں دقت کے ساتھ غور کرنا چاہیے اور اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ دشمن کا نام لیتے وقت ایرانی قوم کا ذہن ہمیشہ کیوں امریکہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی طرح ایرانی قوم کے دشمنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ایرانی قوم کے خلاف سازشوں کا اصلی مرکز اور ایرانی قوم کا درجہ اول کا دشمن ہے لیکن امریکہ کے علاوہ ایرانی قوم کے کچھ اور بھی دشمن ہیں جن میں برطانیہ کی خبیث حکومت بھی شامل ہے جو خود مستقل نہیں بلکہ وہ امریکہ کی پیروکار اور اس کے تابع ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس مرحلے میں فرانسیسی حکومت کے بارے میں بھی ایک نقطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کو فرانسیسی قوم اور حکومت کے ساتھ کوئی مشکل نہیں رہی ہے لیکن حالیہ برسوں بالخصوص سرکوزی کی حکومت نے ایرانی قوم کے ساتھ عداوت اور دشمنی کی پالیسی کی داغ بیل ڈالی اور فرانس کی یہ غلط پالیسی اسی طرح جاری ہے اور فرانس کا یہ اقدام غیر سنجیدہ اور غیر دانشمندانہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائيل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسرائیلی حکومت کی اتنی حیثیت اور وقعت نہیں ہے کہ وہ ایرانی دشمنوں کی صف میں شمار ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائیلی حکام کی طرف سے ایران کے خلاف فوجی حملے پر مبنی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر اسرائیل نےکسی غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب کیا تو اسلامی جمہوریہ ایران تل ابیب اور حیفا کو خاک کے ساتھ یکساں کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ ہمیشہ ایرانی قوم کے ان چند دشمنوں کو " عالمی برادری " کے نام سے تعبیر کرتا ہے جبکہ یہ چند ممالک عالمی برادری نہیں اور جو حقیقت میں عالمی برادری ہے اس کو ایران اور ایرانی قوم سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے معدود اور چند حقیقی دشمنوں کے بارے میں وضاحت اور سال 1391 ہجری شمسی میں ان کے معاندانہ اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکیوں نے ایرانی قوم کے ساتھ ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ، گذشتہ سال کے اوائل سے ایران کے تیل کے شعبہ اور بینکی نظام کےخلاف شدید پابندیاں عائد کرنے کا آغاز کیا اور ان معاندانہ اقدامات کے بعد بھی وہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ ایرانی قوم کے دشمن تصور نہ کئے جائیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی اس پالیسی کو آہنی پنجہ پر مخملی دستانہ چڑھانے کی پالیسی کا حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: انھوں نے ظاہری فریب کے برعکس طے شدہ منصوبوں کے مطابق اپنی حرکت کا آغاز کیا اور انھیں توقع تھی کہ ایرانی قوم چند ماہ کے بعد ان کی منہ زوری اور تسلط پسندی کے سامنے تسلیم ہوجائے گی اور اپنی علمی اور سائنسی سرگرمیوں کا سلسلہ بند کردےگی لیکن ایسا نہیں ہوا اور ایرانی قوم نے دشمنوں کی مرضی کے خلاف عمل کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں کے مؤثر واقع ہونے کے بارے میں امریکیوں کی خوشی اور اس سلسلے میں بعض ایرانی حکام کے اظہارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اقتصادی پابندیوں کا وہ اثر نہیں ہوا جیسا وہ چاہتے تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر پابندیوں کا کچھ اثر ہوا بھی ہے تو وہ ایران کے اقتصاد کے تیل سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے اور اسی بنیاد پر آئندہ حکومت کے اصلی ترجیحی منصوبوں میں تیل سے وابستہ اقتصاد شامل نہیں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیل سے غیر وابستہ اقتصاد اور تیل کے کنویں مرضی کے مطابق بند کرنے کے بارے میں اپنے چند سال قبل کےبیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں بعض حضرات جو اپنے آپ کو ٹیکنوکریٹ تصور کرتے تھے وہ میری یہ بات سنکر مسکرا دیئے اور انھوں نے کہا کہ کیا ایسا کام امکان پذیر ہے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تیل سے غیر وابستہ اقتصاد تک پہنچنا امکان پذیر ہے لیکن اس کی اصلی شرط درست منصوبہ بندی اور اجراء ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سال 91 ہجری شمسی میں دشمنوں کی طرف سے انجام پانے والے معاندانہ اقدامات کی تشریح کے بعد ان کی سیاسی میدان میں کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے دشمنوں نے سیاسی میدان میں بھی ایران کو الگ تھلگ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن تہران میں ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کے اجلاس اور اس اجلاس میں عالمی رہنماؤں کی بڑے پیمانے پر شرکت ، اور عالمی رہنماؤں کی جانب سے ایران کی حیرت انگیز پیشرفت پرخوشحالی سے دشمن کے شوم منصوبے مکمل طور پر شکست و ناکامی سے دوچار ہوگئے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاسی میدان میں دشمنوں کے دیگر اقدامات میں ایرانی قوم میں شک و تردید ایجاد کرنے اور ایرانی قوم کو اسلامی نظام سے دور کرنے کی کوشش قراردیتے ہوئے فرمایا: بائيس بہمن کی عظیم ریلیوں میں عوام کی بھر پور شرکت اور اسلام اور انقلاب اسلامی کے بارے میں ان کے احساسات و جذبات کا اظہار دشمنوں کے منہ پر زوردار طمانچہ تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سکیورٹی کے شعبہ میں دشمن کی بعض ناکام کوششوں اور علاقائي سطح پر ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی تلاش و کوشش کو دشمن کے دیگر سیاسی اقدامات کا حصہ قراردیتے ہوئے فرمایا: غزہ کی 8 روزہ جنگ کے پیچھے ایران کا طاقتور ہاتھ اور فلسطینی مجاہدین کے مقابلے میں اسرائیلی حکومت کی شکست ، ایران کی عدم موجودگی کی وجہ سےعلاقائي مسائل کے حل نہ ہونے کے بارے میں دشمنوں کا اعتراف ، ان میدانوں میں دشمن کی عداوتوں کے غیر مؤثر ہونے کا سبب ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کے دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ بڑے مثبت اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں جن میں گذشتہ سال کے دوران ایرانی قوم کی اندرونی صلاحیتوں کے فعال ہونے اور عظیم تعمیری کاموں کی تکمیل کے منصوبے شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی پابندیوں کے باوجود گذشتہ سال میں انجام پانےوالے ترقیاتی اور تعمیری کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تیل اور یورینیم کے جدید ذخائر کا انکشاف، بجلی پلانٹس اور آئیل ریفائنری کے شعبہ میں فروغ، انرجی اور روڈ کے شعبہ میں ترقیاتی کام، سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اہم پیشرفت اور ناہید سٹلائٹ اور زندہ جانور کے ساتھ پیشگام سٹلائٹ کو فضا میں بھیجنے ، پیشرفتہ جنگي جہاز بنانے ، جدید ترکیب پر مشتمل نئی دواؤں کی ساخت، علاقائي سطح پر نانو ٹیکنالوجی میں پہلے مقام کا حصول، سائنس و ٹیکنالوجی میں اہم پیشرفت، ملک میں طلباء کی تعداد میں اضافہ، اسٹیم سیلز کے شعبہ میں اہم کامیابی، ایٹمی اور جدید انرجی کے شعبوں میں پیشرفت ، ایرانی جوانوں اور سائندانوں کی اس سال میں پیشرفت کا مظہر ہیں جس میں دشمن نے ایرانی قوم کو مفلوج کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سال 91 ہجری شمسی کے نتائج اور کامیابیوں کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ دشمن ایک زندہ دل قوم کو دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ اپنے سامنے تسلیم ہونے پر مجبور نہیں کرسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سال 91 ہجری شمسی در حقیقت ایک تمرین اور مشق کا سال تھا جس میں ایرانی قوم نے اپنی توانائیوں اور ترقیات کو پیش کیا اور اس کے ساتھ اس نے اپنی بعض خامیوں کو بھی پہچان لیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ سال ملک کے کمزور اقتصادی نقاط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی تیل کے ساتھ وابستگي، بلند مدت اقتصادی پالیسیوں پر عدم توجہ، اور روز مرہ کے امور میں گرفتاری اقتصادی مشکلات کا اصلی سبب ہیں اور آئندہ آنے والی حکومت کو ان امور پر توجہ دینی چاہیےاور ملک کی بلند مدت اقتصادی پالیسیوں کو واضح ، آشکار اور منصوبہ بندی کے ساتھ تدوین کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی قوی بنیاد کے مشخص ہونے کو سال 91 ہجری شمسی کا ایک اور درس قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک کی بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اور حکام جس قدر اتحاد ، ہمدلی اور تدبیر کے ساتھ کام انجام دیں گے دشمن کے معاندانہ اقدامات کے اثرات اتنے ہی کم ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصاد کے علاوہ سکیورٹی، عوام کی صحت و سلامتی ، سائنسی ترقیات، قومی عزت و استقلال جیسے مسائل کو بھی ملک کے اہم مسائل قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے گذشتہ سال میں اپنی کامیابیوں کے ذریعہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ عدم وابستگی پسماندگی کا سبب نہیں بلکہ پیشرفت اور ترقی کا موجب بنتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سال 91 ہجری شمسی میں ملک کے حقیقی شرائط کے بارے میں جامع تحلیل و تجزيہ پیش کرنے کے بعد گذشتہ سال کے مسائل سے آئندہ کے بارے میں دو نکتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پہلا نکتہ یہ ہے کہ دشمن کے منصوبہ کو ہوشیاری کے ساتھ قبل از وقت پہچان لینا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا: تہران کے دوا بنانے کے ریکٹر کے لئےبیس فیصد یورینیم افزودہ کرنے کے سلسلے میں ایرانی جوانوں کا اقدام اسی سلسلے کا ایک نمونہ ہے اور ملک کے تمام مسائل میں اسی قسم کے اقدامات انجام دینے چاہییں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی کاموں میں پیشقدمی کو حکومتوں، صنعتکاروں، کسانوں، سرمایہ کاروں، تاجروں،محققین، ،صنعتی اور علمی منصوبہ سازوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ ، اقتصادی ماہرین، سائنس اور ٹیکنالوجی پارک کے دانشوروں کی عظیم اخلاقی ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو دشمن کے حملوں کے مقابلے میں مضبوط ، مستحکم اور ناقابل تسخیربنانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ موضوع پائدار اقتصاد کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس حصہ میں دوسرے نکتہ کے طور پر مذاکرات کے سلسلے میں امریکیوں کے متعدد پیغامات اور اظہارات کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی کچھ عرصہ سے متعدد طریقوں سے پیغام بھیج رہے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاملے پر الگ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن میں گذشتہ تجربات کی روشنی میں ان مذاکرات کے بارے میں مطمئن نہیں ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: امریکی گفتگو اور مذاکرات کے ذریعہ کسی منطقی راہ حل تک پہنچنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ امریکہ گفتگو کے ذریعہ فریق مقابل کو اپنے مطالبات کے سامنے تسلیم کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا ہم ہمیشہ امریکی مذاکرات کو مسلط کردہ مذاکرات سمجھتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کوبھی اس قسم کے مذاکرات کبھی پسند نہیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: البتہ مجھے مذاکرات سے کوئي مخالفت بھی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکیوں کے لئے چند مطالب بالکل واضح طور پر بیان کئے۔
پہلا مطلب جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا، وہ ایرانی حکومت کو تبدیل نہ کرنے پر مبنی امریکہ کے متعدد پیغامات ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں اسلامی نظام کی تبدیلی کے امریکی قصد و ارادے پر کبھی تشویش لاحق نہیں ہوئی کیونکہ جس دور میں امریکی واضح طور پر ایران کے اسلامی نظام کو تبدیل کرنے کی آشکارا بات کرتے تھے اس دور میں بھی وہ ایسا نہیں کرسکے اور اس کے بعد بھی امریکی ایسا نہیں کرسکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات میں امریکیوں کی صداقت کو دوسرے موضوع کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہیں لیکن امریکی ہماری بات پر یقین نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ انھیں یقین نہیں آتا ہے تو ایسے شرائط میں ہم کیسے مذاکرات میں امریکیوں کی بات کو سچا مان سکتے ہیں جبکہ ماضی کی تاریخ امریکیوں کے جھوٹ سے بھری پڑی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمارا خيال یہ ہے کہ مذاکرات کی تجویزامریکہ کی حکمت عملی ہے اور وہ اپنی اس حکمت عملی کے ذریعہ عالمی رائے عامہ اور ایرانی عوام کو فریب دینا چاہتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر امریکیوں کو یہ بات عمل میں ثابت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی سلسلے میں امریکیوں کی ایک تبلیغاتی حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انھوں نے بعض موارد میں کہا ہے کہ ایران کے رہبر کی جانب سے بعض افراد نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں جبکہ یہ بات بالکل جھوٹی ہے اور اب تک کسی نے بھی ایران کے رہبر کی جانب سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مختلف حکومتوں نے بعض عارضی موضوعات کے بارے میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے لیکن ان مذاکرات میں بھی حکومتی افراد رہبری کی ریڈ لائنوں کی رعایت کرنے کے پابند تھے اور آج بھی ریڈ لائنوں کی پابندی ضروری ہے۔۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں تیسرے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ نہیں چاہتا کہ ایران کے ایٹمی مذاکرات کسی منطقی نتیجے تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر امریکی حقیقت میں ایران کے ایٹمی معاملے کا حل چاہتے ہیں تو یہ حل بالکل آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لئے ایران کے یورینیم افزودہ کرنے کے حق کو تسلیم کرلیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں تشویش دور کرنے کے لئے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی نگرانی کو سبب مطمئن عمل قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تجربات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایٹمی معاملے کے حل کی تلاش و کوشش میں نہیں ہے بلکہ وہ ایرانی قوم کو مفلوج کرنے اور اس پر دباؤ قائم کرنے کے لئے اس معاملے کو باقی رکھنے کے حق میں ہے لیکن دشمنوں کی آنکھیں اندھی ہوجائیں گي وہ ایرانی عوام کو مفلوج نہیں کرسکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں آخری نکتہ کے طور پر امریکیوں کو ایک راہ حل پیش کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر امریکی صداقت کے ساتھ تمام معاملات حل کرنا چاہتے ہیں تو راہ حل کے سلسلے میں ہماری تجویز یہ ہے کہ امریکہ اپنی رفتار اور گفتار میں ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی ترک کردے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ 34 برسوں میں ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی معاندانہ پالیسیوں اور ان کی شکست و ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر امریکہ کی یہ پالیسیاں جاری رہتی ہیں تو پھر بھی انھیں شکست ہی نصیب ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر 24 خرداد کو ملک کے صدارتی انتخابات کے اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات سیاسی کامیابی ، اسلامی نظام کے اقتدار ، قومی عزم اور نظام کی عزت و آبرو کا مظہر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کو بڑی اہمیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کی انتخابات میں بڑے پیمانے پر شرکت سے ملک میں امن و سلامتی اور دشمن کو مایوسی ملے گی اور دشمن کی دھمکیاں غیر مؤثر ثابت ہوں گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام پر اعتقاد رکھنے والے تمام سیاسی گروہوں کو انتخابات میں شرکت کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کسی خاص سیاسی جماعت یا گروہ سے متعلق نہیں ہیں بلکہ ان تمام گروہوں اور احزاب کے لئے انتخابات میں شرکت ضروری ہے جن کے دل ملک کے استقلال اور قومی مفادات کے لئے تڑپتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انتخابات سے روگردانی ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جو انقلاب کے مخالف ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں عوام کی رائے کو فیصلہ کن قراردیتے ہوئے فرمایا: صدارتی امیدواروں میں اصلح امیدوار کی تشخیص بہت اہم ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ قابل وثوق افراد کے ساتھ مشورے کے ذریعہ اصلح امیدوار کا انتخاب کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: رہبری کا ووٹ ایک ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ یہ ووٹ کس کو ملےگا اور کسی خاص فرد کے متعلق رہبری کی نظر کے بارے میں ہر قسم کی بات غلط ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام سے سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اصلح فرد کی شناخت کے سلسلے میں پروپیگنڈوں اور ایس ایم ایس کے پیغامات سے متاثر نہ ہوں جن کا آجکل کافی رواج ہوگیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےسب کو قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: سال 88 کے فتنہ کا آغاز اسی وجہ سے ہوا کہ ایک گروہ نے قانون اور عوام کی رائے کے سامنے تسلیم ہونے سے انکار کردیا اور عوام کو تشدد کے لئےسڑکوں پر آنے کی دعوت دی اور یہ ناقابل تلافی جرم تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: خوش قسمتی سے شبہات کو دور کرنے کے لئے قانون میں تمام راہیں موجود ہیں لہذا سب کو عوام کی اکثریت آراء کا احترام کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آئندہ صدر کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آئندہ صدر کو گذشتہ صدر کی تمام خوبیوں کا حامل اور اس کی تمام خامیوں اور کمزوریوں سے دور رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی انتخاب میں عوام کا انتخاب بہترین پیشرفت اورشاندار تکامل کا مظہر ہونا چاہیے اور گذشتہ انتخابات کی نسبت اسے زیادہ جوش و ولولہ سے سرشار ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا: جو لوگ صدارتی انتخابات میں نامزد ہونا چاہتے ہیں انھیں انقلاب اسلامی اور اس کے اقدار کا پابند ہونا چاہیے، انھیں قومی مفادات کی حفاظت کا پابند ہونا چاہیے اور انھیں عقل جمعی باہمی صلاح و مشورے اور تدبیر کے ذریعہ ملک کو چلانے کا اعتقاد رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل خراسان میں ولی فقیہ کے نمائندے اور آستان قدس رضوی کے متولی آیت اللہ واعظ طبسی نے امام رضا علیہ السلام کے زائرین کو خوش آمدید کہا اور اس سال کے نام اور نعرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: سیاسی اور اقتصادی رزم و جہاد کے سال میں ایران کی ہوشیار اور بصیر قوم مختلف سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرےگی اور مشکلات کو باہمی تعاون اور ہمدلی کے ساتھ حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی.
امریکہ کا، شام میں مسلح دہشت گردوں کو تربیت دینے کا اعتراف
امریکی حکام نے ان خبروں کی تائيد کردی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ امریکہ شام میں ان مسلح دہشت گردوں کو تربیت دے رہا ہے جو شامی حکومت اور عوام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ امریکہ دہشت گردوں کے ذریعہ شام کو اسرائيل کے مقابلے میں کمزور بنانا چاہتا ہے۔ ای بی سی نیوز کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ ایک امریکی اہلکار نے ایسوشی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کئی ماہ سے شام میں سرگرم عمل مسلح دہشت گردوں کو تربیت دے رہا ہے امریکی اہلکار کے مطابق امریکہ اردن میں دہشت گردوں کو تربیت دے رہا ہے۔ اس سے قبل ایسی خبریں موصول ہوئی تھیں کہ امریکہ شام میں مسلح دہشت گردوں کو اردن میں تربیت دے رہا ہے لیکن اب امریکی حکام نے اس خبر کی توثیق کردی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کا دہشت گردوں کے ساتھ قریبی رابطہ ہی نہیں بلکہ امریکہ دیگر ممالک میں سرگرم عمل دہشت گردوں کی تربیت بھی کرتا ہے۔
اعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
جان لو کہ اللہ ہی زمین کو اُس کی مُردنی کے بعد زندہ کرتا ہے، اور بیشک ہم نے تمہارے لئے نشانیاں واضح کر دی ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو [17:57]
ہندوستان میں خواتین کے تحفظ کے قوانین مزید سخت
ہندوستان میں خواتین کی آبروریزی اور زور زبردستی سے متعلق سخت قوانین منظور کئے گئے ہیں –حکومت ہندوستان نے آج خواتین کی آبروریزی کرنے والوں کے خلاف اور خواتین کو بہتر تحفظ فراہم کرنے کے لئے شدید قوانین بنائے ہیں ۔ یہ فیصلہ ، ہندوستان میں ایک لڑکی کی آبروریزی اور اس کے سبب اس کی موت واقع ہوجانے کے خلاف پورے ہندوستان میں ہونے والے وسیع مظاہروں کے بعد کیا گیا ہے –ہندوستان کی مرکزی کابینہ نے اس بل میں جنسی جارحیت ، تیزاب پھینکنے اور جنسی انحراف انجام دینے والوں کے خلاف شدید سزائیں معین کی ہیں اور جنسی جارحیت انجام دینے والوں کی کم از کم سزا 20 سال قید اور زیادہ سے زیادہ عمر قید معین کی ہے جبکہ اگر اس جرم میں لڑکی کی موت واقع ہوجائے تو مجرم کو پھانسی کی سزا ہوگی – اس بل کا آل انڈیا پارٹیز کے رہنما کل جائزہ لینگے –
گيارہ ستمبر، شکوک وشبہات
نئي تحقیقات سے گيارہ ستمبر کے دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں امریکی حکومت اور اس کے سرکاری کمیشن کے دعووں کے بارے میں مزید شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق گيارہ ستمبر کے واقعات کو بارہ برس ہورہے ہیں اور ہر روز ان واقعات کے بار ے میں امریکی حکومت اور اس کے خصوصی کمیشن کے دعووں کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جنگ مخالف ویب سائٹ اوپڈ نیوز نے لکھا ہے کہ گيارہ ستمبر کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ، دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار کئے گئے افراد کے جھوٹے اعترافات پر مبنی ہے۔ یہ رپورٹ دوہزار چار میں سامنے آئي تھی لیکن اس سے آج بھی عالمی رائےعامہ مطمئن نہیں ہوسکی ہے۔ اس سائٹ نے لکھا ہے کہ امریکی حکومت کے کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی ہے وہ گرفتارشدہ افراد کے اعترافات پر مبنی ہے جنہوں نے شدید ایذاؤں کی بناپر زبردستی اعتراف کیا تھا اور کم از کم چار افراد نے جن کے نام اس رپورٹ میں آئے ہیں کہا ہے کہ انہوں نے جسمانی ایذاوں سے بچنے کےلئے اعتراف کیا تھا۔ اوپڈ نیوز ویب سائٹ کے مطابق گيارہ ستمبر کے واقعات کے بارے میں اعترافات کرانے کے لئے امریکیوں نے وسیع پیمانے پر جسمانی ایذاؤں کا ہتھکنڈا استعمال کیا ہے۔
جماران دو نامی جنگی بحری جہاز ایرانی بحریہ کے حوالے کردیا گيا
جماران دو نامی جنگی بحری جہاز ایرانی بحریہ کے حوالے کردیا گيا ۔ اس سلسلے میں ایک تقریب منغقد کی گئي جس میں صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے بھی شرکت کی۔ جماران دو نامی ڈیسٹرائر ایرانی ماہرین نے بنایا ہے۔اس میں نیوی گيشن اور دفاع کے جدید ترین ساز و سامان اور آلات لگے ہیں اور یہ سارا ساز و سامان ایرانی ماہرین نے بنائے ہیں۔یہ دنیا کے جدید ترین ڈیسٹرائر بحری جہازوں میں شمار ہوتا ہے۔ جماران دو ڈسٹرائر مختلف تجربوں سے گزرنے کے بعد نئے شمسی سال میں باضابطہ طور پر بحریہ میں شامل ہوجائے گا۔ جماران دو ڈیسٹرائر کو بحریہ کے حوالے کرنے کی تقریب میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع جنرل احمد وحیدی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی مشترکہ کمان کے سربراہ جنرل سید حسن فیروزآبادی بھی شریک تھے۔
امریکی فوجیوں کے درمیان خودکشی کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ
اسکائي نیوز ٹی وی چینل کی تازہ رپورٹ کے مطابق عراق سے واپس آنے والے امریکی فوجیوں میں خودکشی کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور تقریبا" روزانہ ایک امریکی فوجی خودکشی کررہا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بے گھر ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد بڑھ کر 62 ہزار تک پہنچ گئي ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جنگ عراق کو دس سال ہونے کے باوجود اس جنگ میں شریک ہونے والے امریکی فوجیوں میں خود کشی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے اور امریکہ میں ہونے والے خود کشی کے کل واقعات میں 20 فی صد واقعات کا تعلق امریکی فوجیوں سے ہے۔
کابل میں امریکہ مخالف مظاہرہ
خبرکے مطابق فغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہزاروں افراد نے امریکہ مخالف زبردست مظاہرہ کیا جس میں صوبۂ وردک کے عوام بھی شریک تھے۔
اس مظاہرے میں لوگوں نے امریکہ کے خلاف نعرے لگائے اور صوبۂ وردک سے غیر ملکی فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین نے متنبہ کیا کہ اگر امریکی فوجیوں نے صوبۂ وردک سے انخلا نہ کیا تو ان کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مظاہرین نے صوبۂ وردک کے لوگوں کے قتل اور ایذا رسانی کے ملزم امریکی فوجیوں پر مقدمہ چلانے کا بھی مطالبہ کیا۔
یہ مظاہرہ ایسے وقت ہوا ہے جب حال ہی میں افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی کمانڈوز کو صوبہ وردک چھوڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ افغان صدر نے یہ حکم اس وقت دیا جب امریکی کمانڈوز اور ان کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں پر تشدد اور گمشدگیوں کے الزامات سامنے آئے۔
صدر کرزئی نے امریکی کمانڈوز کو گزشتہ اتوار تک کا وقت صوبہ چھوڑنے کے لیے دیا تھا۔ تاہم اس کے بعد حامد کرزئی نے امریکی فوج کو تھوڑی اور مہلت دی تھی تاکہ صوبے کی سکورٹی کو افغان فورسز کے حوالے کرنے پر مذاکرات ہو سکیں۔
صوبہ وردک کی جغرافیائی پوزیشن بہت اہم ہے کیونکہ کابل میں اسلحہ لے کر آنے کا یہ اہم راستہ ہے۔
رہبر معظم کی نوروز کے سفر کے دوران خدمات پہنچانے والے اداروں کے بعض اہلکاروں سے ملاقات
۲۰۱۳/۰۳/۱۶ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےآج (بروز سنیچر) نوروز کے سفر کے دوران عوام کوخدمات بہم پہنچانے والے اداروں کےبعض اہلکاروں سے ملاقات میں نوروز کی تعطیلات کے ایام میں عوام کو خدمات بہم پہنچانے والے اداروں اور مراکز کے اہلکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: تمام اداروں کے حکام کو باہمی تعاون کے ساتھ نوروز کے سفر کے دوران حوادث کو کمترین سطح تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عید نوروز کی تعطیلات کے دوران عوام کی خدمت کے اجر و ثواب کو سال کی دیگر مناسبتوں بالا تر قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام خدمات اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہیں اور ان پر حساب و کتاب مرتب ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اللہ تعالی شاکر اور علیم ہے اور وہ عید کی تعطیلات کے ایام میں عوام کی خدمت میں پیش آنے والی سختیوں اور زحمتوں سے آگاہ اور آشنا ہے اور یقینی طور پر وہ ان نیکیوں اپنے بندوں کا شکر ادا کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ان خاندانوں کا بھی شکریہ ادا کیا جن کے عزيز اور اہلکار نوروز کی تعطیلات کے ایام میں عوام کو خدمات بہم پہنچانے کی غرض سے اپنےخاندان سے دور ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوروز کے ایام میں سفر کے دوران پیش آنے والے حوادث کے بارے میں اپنے شدید خدشات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: سفر کے سلسلے میں مؤثر تمام اداروں اور ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ حوادث کو کمترین سطح تک پہنچانے کی تلاش و کوشش کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام اور مسافروں سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ قوانین اور مقررات کی زيادہ سے زيادہ پابندی کریں تاکہ خدانخواستہ خوشی کے ان ایام میں انھیں کوئي ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا: عید نوروز اور تعطیلات کے ایام ایرانی عوام کے لئے خوشی ، شادمانی اور مسرت کا باعث قرار پائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ڈائریکٹر جنرل پولیس احمدی مقدم نے پولیس کی طرف سے نوروز کے ایام میں کئے گئے اقدامات اور ٹریفک کے حوادث میں کمی کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نے ہمہ گیر تعلیم اور سماجی انضباط ، جدید ٹیکنالوجی اورٹریفک کنٹرول کے انٹیلجنٹ نظام سے استفادہ، ٹریفک کے نئے قانون کی منظوری اور نفاذ، حوادث میں زخمی اور متاثرہ افراد کی خدمت رسانی میں سرعت کو گذشتہ برسوں میں ٹریفک حوادث میں کمی کا باعث قراردیتے ہوئے کہا: گاڑی بنانے والی کمپنیوں کو بھی چاہیے کہ وہ معیاری اور اسٹینڈرڈ کے مطابق گاڑیاں بنانے پر اپنی توجہ مبذول کریں ۔