
Super User
ميانمار، مسلمانوں پرتشدد پولیس برابر کی شریک
میانمار میں مسلمانوں پر انتہا پسند بڈھسٹوں کے تشدد میں اس ملک کی پولیس بھی برابر کی شریک ہے۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق ایک ویڈیو منظر عام پر آئي ہے جس میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ ایک مسلمان سنار کی دکان پر بدھ بلوائی حملے کر رہے ہیں۔جلاوٴ گھیراوٴ میں پولیس خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔یہ ویڈیو پولیس نے خود ہی میکتیلا قصبے میں مارچ کے اواخر میں بنائی۔جہاں نسلی فسادات میں تینتالیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بلوائیوں کی ٹولیاں دکانوں اور گھروں کو لوٹ کر نذرِ آتش کر رہی ہیں۔
دریں اثناء فرانسیسی باشندوں نے پیرس میں مسلمانوں کی حمایت میں جلوس نکالا ۔ پیرس میں کل نکالے جانے والے جلوس میں فرانسیسی عوام نے میانمار کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور ان کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیا۔
اسرائیل کی حماقت کا نتیجہ اس کی اپنی نابودی
اسلامی جمہوریہ ایران کی برّی فوج کے کمانڈر بریگیڈیر احمد رضا پوردستان نے کہا ہے کہ ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی ہر طرح کی حماقت اس حکومت کی نابودی پر منتج ہوگی۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق بریگیڈیر احمد رضا پوردستان نے کل تہران میں ایران کے دوست ممالک کے فوجی اتاشیوں سے ملاقات میں کہا کہ صیہونی حکام کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہۓ کہ ملت ایران کے خلاف ان کی کسی بھی طرح کی حماقت ان کی اپنی خود کشی کے مترادف ہوگي اور اس حماقت کا نتیجہ صیہونی حکومت کی نابودی کے سوا کچھ اور نہیں نکلے گا۔
احمد رضا پوردستان نے آٹھ روزہ جنگ میں صیہونی حکومت کے مقابلے میں ملت فلسطین کی فتح کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مجاہدین نے خدا تعالی پر ایمان ، اور اپنی ہمت پر بھروسہ کرتے ہوئے ناجائز صیہونی حکومت کو ناامید کردیا ہے۔
یورینیم کی افزودگي سمیت پرامن ایٹمی سرگرمیاں ایران کا حق
ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم کے رکن عراقچی نے این پی ٹی معاہدے کے تحت یورینیم کی افزودگي سمیت پرامن ایٹمی سرگرمیوں کو ایران کا حق قرار دیا ہے۔
مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم کے رکن اور نائب وزیر خارجہ نے تہران میں غیرملکی سفیروں اور سفارتی نمائندوں کے ساتھ ایک نشست میں کہا کہ ایران این پی ٹی معاہدے میں دیے گئے اپنے ایٹمی حقوق سے ہر گز دستبردار نہیں ہو گا۔
عراقچی نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے آلماتی مذاکرات میں گروپ پانچ جمع ایک کو قابل عمل تجاویز پیش کی ہیں اور اگر انہیں تسلیم کر لیا جاتا ہے تو ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق مسائل قدم بہ قدم اور متوازن طریقے اپنے حل کی طرف آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے حتمی اتفاق رائے کے حصول تک مذاکرات جاری رکھنے پر ایرانی وفد کی آمادگي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر گروپ پانچ جمع ایک یورینیم کی افزودگي سمیت ملت ایران کے حقوق کو تسلیم کر لیتا ہے اور مخاصمانہ اقدامات سے اجتناب کرتے ہوئے پابندیاں ختم کر دیتا ہے تو مذاکرات آسان اور تیزی سے آگے بڑھیں گے۔
سمندری راستے منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے بارے میں ایران پاکستان اور افغانستان کا سہ فریقی اجلاس تہران میں منعقد ہوا۔
رپورٹ کے مطابق اس اجلاس میں ایرانی وفد کے سربراہ بریگیڈیر علی مویدی نے کہا کہ آج سمندر میں ایک نیا محاذ کھول دیا گيا ہے کہ جس کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقے کے تمام ملکوں کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے جدید خطوط پر کام کرنا ہو گا اور سائنٹفک طریقے اپنانا ہوں گے۔
اس اجلاس میں متحدہ عرب امارات نے مبصر رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔
غیر ذمہ دارانہ صحافت سے مسلمان آبادی بدنام
پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا ہے کہ میڈیا غیر ذمہ دارانہ صحافت سے مسلمان آبادی کو بدنام کر رہا ہے اور مسلمانوں کے خلاف برتے جانے والے امتیاز کے باعث اْن کے اندر ناانصافی کا احساس پیدا ہورہا ہے۔ جسٹس کاٹجوگزشتہ روز ’دہشت گردی کی رپورٹنگ، میڈیا کتنا حساس ہے؟‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے سربراہ نے کہا کہ جب بھی کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے یا ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو ایک آدھ گھنٹے کے اندر ہی بہت سے نیوز چینل یہ دکھانے لگتے ہیں کہ انڈین مجاہدین، جیش محمد یا حرکة الجہاد الاسلامی یا کسی اور مسلم تنظیم کے نام سے ایک اِی میل یا ایس ایم ایس آیا ہے، جس میں اِس واردات کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا اِی میل یا ایس ایم ایس کوئی بھی بھیج سکتا ہے اور ایسی رپورٹنگ سے فرقہ واریت پروان چڑھتی ہے۔
عفیفہ، قبول اسلام سے قبل ایک آزاد خیال ہندو لڑکی
قبولِ اسلام سے قبل عفیفہ ایک آزاد خیال ہندو لڑکی اور ہاکی کی کھلاڑی تھی۔ مگر جب اس نے اسلام کو فطرت کے قریب اور اپنے ضمیر کی آواز پایا تو اسے قبول کرلیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کی ایک ہاکی کھلاڑی آرہی ہیں تو ہم سوچ رہے تھے کہ آپ ہاکی کے ڈریس میں آئیں گی، مگر آپ ماشاءاللہ برقع میں ملبوس، اور دستانے پہن کر مکمل پردے میں ہیں۔ آپ اپنے گھر سے برقع اوڑھ کر کیسے آئی ہیں؟
عفیفہ: الحمدللہ میں پچھلے دو ماہ سے شرعی پردے میں رہتی ہوں۔
ابھی آپ کے گھر میں تو کوئی مسلمان نہیں ہوا؟
عفیفہ: جی، میرے گھر میں ابھی میرے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے۔ اس کے باوجود میں الحمدللہ کوشش کرتی ہوں کہ میں اگرچہ گھر میں اکیلی مسلمان ہوں مگر میں آدھی مسلمان تو نہ بنوں، آدھی اِدھر، آدھی ادھر، یہ تو نہ ہونا چاہیے۔
٭.... آپ کو ہاکی کھیلنے کا شوق کیسے ہوا، یہ تو بالکل مردوں کا کھیل ہے؟
عفیفہ: اصل میں، مَیں ہریانہ کے سونی پت ضلع کے ایک گاوں کی رہنے والی ہوں۔ ہمارے گھر میں سبھی مرد پڑھے لکھے ہیں اور اکثر کبڈی کھیلتے ہیں۔ میں نے اسکول میں داخلہ لیا اور ابتدا ہی سے کلاس میں ٹاپ کرتی رہی۔ سی بی ایس ای بورڈ میں میری ہائی اسکول میں گیارھویں پوزیشن رہی۔ مجھے شروع ہی سے مردوں سے آگے نکلنے کا شوق تھا، اس کے لیے میں نے اسکول میں ہاکی کھیلنا شروع کی۔ پہلے ضلع میں نویں کلاس میں سلیکشن ہوا، پھر ہائی اسکول میں ہریانہ اسٹیٹ کے لیے لڑکیوں کی ٹیم میں میرا سلیکشن ہوگیا۔ ۱۲ویں کلاس میں بھی میں نے اسکول میں ٹاپ کیا اور سی بی ایس ای بورڈ میں میرا نمبر ۱۸واں رہا۔ اسی سال میں خواتین کی بھارتی ہاکی ٹیم میں منتخب ہوگئی۔ عورتوں کے ایشیا کپ میں بھی کھیلی اور بہت سے ٹورنامنٹ میری کارکردگی کی وجہ سے جیتے گئے۔ اصل میں ہاکی میں بھی سب سے زیادہ فعال کردار سنٹرفارورڈ کا ہوتا ہے، یعنی سب سے آگے درمیان میں کھیلنے والے کھلاڑی کا۔ میں ہمیشہ سنٹرفارورڈ پوزیشن پر کھیلتی رہی۔ مردوں سے آگے بڑھنے کا جنون تھا، مگر روزانہ رات کو میرا جسم مجھ سے شکایت کرتا تھا، کہ یہ کھیل عورتوں کا نہیں ہے۔ مالک نے اپنی دنیا میں ہر ایک کے لیے الگ کام دیا ہے۔ ہاتھ پاوں بالکل شل ہوجاتے تھے، مگر میرا جنون مجھے دوڑاتا تھا اور اس پر کامیابی اور واہ واہ مجھے فطرت کے خلاف دوڑنے پر مجبور کرتی تھی۔
٭.... اسلام قبول کرنے سے پہلے تو آپ کا نام پریتی تھا؟
عفیفہ: حضرت کلیم صدیقی نے میرا نام عفیفہ، ابھی یعنی کچھ ماہ پہلے رکھا ہے۔
٭.... آپ کے والد کیا کام کرتے ہیں؟
عفیفہ: وہ سی بی ایس ای بورڈ کا ایک اسکول چلاتے ہیں، اس کے پرنسپل ہیں۔ میرے ایک بڑے بھائی اس میں پڑھاتے ہیں، میری بھابی بھی پڑھاتی ہیں۔ وہ سب کھیل سے دل چسپی رکھتے ہیں، میری بھابی بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہیں۔
٭.... ایسے آزاد ماحول میں زندگی گزارنے کے بعد ایسے پردے میں رہنا آپ کو کیسا لگتا ہے؟
عفیفہ: ا نسان اپنی فطرت سے کتنا ہی دور ہوجائے اور کتنے زمانے تک دور رہے، جب بھی وہ اس کی طرف پلٹتا ہے تو وہ کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرے گا۔ وہ ہمیشہ محسوس کرے گا کہ اپنے گھر لوٹ آیا۔ اللہ نے عورتوں کی فطرت مردوں سے بالکل الگ بنائی ہے۔ بنانے والے نے عورت کو چھپنے اور پردہ میں رہنے کے لیے بنایا۔ اسے سکون اور چین، لوگوں کی ہوس بھری نگاہ سے بچے رہنے میں ہی مل سکتا ہے۔ اسلام دین فطرت ہے، جس کے سارے حکم انسانی فطرت سے میل کھاتے ہیں، مردوں کے لیے مردوں کے فطرت کی بات، اور عورتوں کے لیے عورتوں کی فطرت کی بات۔
٭.... آپ کی عمر کتنی ہے؟
عفیفہ: میری تاریخ پیدایش جنوری ۱۹۸۸ءہے، گویا ۲۲سال۔
٭.... آپ کے گھر میں آپ کے اتنے بڑے فیصلے پر مخالفت نہیں ہوئی؟
عفیفہ: ہوئی اور خوب ہوئی، مگر سب جانتے ہیں کہ عجیب دیوانی لڑکی ہے، جو فیصلہ کرلیتی ہے پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتی۔ اس لیے شروع میں ذرا سختی ہوئی مگر جب اندازہ ہوگیا کہ میں دور تک جاسکتی ہوں تو سب موم ہوگئے۔
٭.... آپ ہاکی اب بھی کھیلتی ہیں؟
عفیفہ: نہیں، اب میں نے ہاکی چھوڑ دی ہے۔
٭.... اسے تو گھر والوں نے بہت محسوس کیا ہوگا؟
عفیفہ: ہاں، مگر فیصلہ لینے کا حق مجھے تھا۔ میں نے فیصلہ لیا اور میں نے اپنے اللہ کا حکم سمجھ کر لیا، اب اللہ کے حکم کے آگے بندوں کی چاہت کیسے ٹھیرسکتی ہے۔
٭.... آپ کے تیور تو گھر والوں کو بہت سخت لگتے ہوں گے؟
عفیفہ: آدمی کو ڈِھل مِل نہیں ہونا چاہیے۔ اصل میں آدمی پہلے یہ فیصلہ کرے کہ میرا فیصلہ حق ہے کہ نہیں، اور اگر اس کا حق پر ہونا ثابت ہوجائے، تو پہاڑ بھی سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔
٭.... آپ کے اسلام میں آنے کا ذریعہ کیا چیز بنی؟
عفیفہ: میں ہریانہ کے اس علاقے کی رہنے والی ہوں جہاں کسی ہندو کا مسلمان ہونا تو دور کی بات ہے، الٹا کتنے مسلمان ہیں جو ہندو بنے ہوئے ہیں۔ خود ہمارے گاؤں میں تیلیوں کے بیسیوں گھر ہیں جو ہندو ہوگئے ہیں، مندر جاتے ہیں، ہولی دیوالی مناتے ہیں۔ لیکن مجھے اسلام کی طرف وہاں جاکر رغبت ہوئی جہاں جاکر خود مسلمان اسلام سے آزاد ہوجاتے ہیں۔
٭.... کہاں اور کس طرح؟ ذرا بتائیں؟
عفیفہ: میں ہاکی کھیلتی تھی تو بالکل آزاد ماحول میں رہتی تھی۔ آدھے سے کم کپڑوں میں ہندوستانی روایات کا خیال بھی ختم ہوگیا تھا۔ ہمارے اکثر کوچ مرد رہے۔ مرد ٹیم کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ٹیم میں ایسی بھی لڑکیاں تھیں جو رات گزارنے بلکہ خواہشات پوری کرنے میں ذرّہ برابر کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ اللہ کا کرم تھا کہ مجھے اس نے اس حد تک نہ جانے دیا۔ گول کے بعد اور میچ جیت کر مردوں عورتوں کا گلے لگ جانا، چمٹ جانا تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔ میری ٹیم کے کوچ نے کئی دفعہ بے تکلفی میں میرے کسی شاٹ پر ٹانگوں یا کمر میں چٹکیاں بھریں۔ میں نے اس پر نوٹس لیا اور ان کو وارننگ دی، مگر ٹیم کی ساتھی لڑکیوں نے مجھے برا بھلا کہا کہ اتنی سی بات کو دوسری طرح لے رہی ہو، مگر میرے ضمیر پر بہت چوٹ لگی۔
ہماری ٹیم ایک ٹورنامنٹ کھیلنے ڈنمارک گئی۔ وہاں مجھے معلوم ہوا کہ ڈنمارک کی ٹیم کی سنٹرفارورڈ کھلاڑی نے ایک پاکستانی لڑکے سے شادی کرکے اسلام قبول کرلیا ہے، اور ہاکی کھیلنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نے شادی کے لیے اس لڑکے کی محبت میں اسلام قبول کیا ہے۔ مجھے یہ بات عجیب سی لگی۔ ہم جس ہوٹل میں رہتے تھے، اس کے قریب ایک پارک تھا، اس پارک سے ملا ہوا ان کا مکان تھا۔ میں صبح کو اس پارک میں سیر کر رہی تھی کہ ڈنمارک کی ایک کھلاڑی نے مجھے بتایا: وہ سامنے برٹنی کا گھر ہے جو ڈنمارک کی ہاکی کی مشہور کھلاڑی رہی ہے۔ اس نے اپنا نام اب سعدیہ رکھ لیا ہے اور گھر میں رہنے لگی ہے، مجھے اس سے ملنے کا شوق ہوا۔ میں ایک ساتھی کھلاڑی کے ساتھ اس کے گھر گئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جانے والی تھی، بالکل موزے ، دستانے اور پورے برقعے میں ملبوس۔ میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی اور ہم دونوں ہنسنے لگیں۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ مجھے پہچانتی تھی۔ وہ بولی میں نے تمھیں کھیلتے دیکھا ہے۔ سعدیہ نے کہا: 'ہمارے ایک سسرالی عزیز کا انتقال ہوگیا ہے، مجھے وہاں جانا ہے، ورنہ میں آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرتی۔ میں تمھارے کھیلنے کے انداز سے بہت متاثر رہی ہوں۔ ہاکی کا کھیل عورتوں کی فطرت سے میل نہیں کھاتا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ تمھاری صلاحیتیں فطرت سے رچاؤ رکھنے والے کاموں میں لگیں۔ میں تم سے ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں‘۔ میں نے کہا: 'آپ میرے کھیل کے انداز سے متاثر ہیں اور مجھ سے کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں، جب کہ میں تو آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سے ملنے آئی ہوں کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہوکر آپ نے کیوں ہاکی چھوڑ دی؟ میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں‘۔ سعدیہ نے کہا:'اچھا آج رات کو میرے ساتھ کھانے کی دعوت قبول کرو‘۔ میں نے کہا کہ آج تو نہیں، کل ہوسکتا ہے، اور یہ طے ہوگیا۔
میں ڈنر پر پہنچی، تو سعدیہ نے اپنے قبولِ اسلام کی روداد مجھے سنائی اور بتایا کہ میں نے شادی کے لیے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی شرم اور اپنی عصمت کی عزت و حفاظت کے لیے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کےلیے شادی کی ہے۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی۔ اس نے فون کرکے دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کو بلایا، جو ان کے محلے میں رہتی تھیں، اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئی تھیں۔ وہ مجھے سب سے زیادہ اسلام کے پردے کے حکم کی خیر و برکت بتاتی رہیں اور بہت اصرار کر کے مجھے برقع پہنا کر باہر جاکر آنے کو کہا۔ میں نے برقع پہنا۔ ڈنمارک کے بالکل مخالف ماحول میں، میں نے برقعے پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر برقع میرے دل میں اتر گیا۔ بیان نہیں کرسکتی کہ میں نے مذاق اڑانے یا زیادہ سے زیادہ اس کی خواہش کے لیے برقع پہنا تھا، مگر مجھے اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا۔ اب مجھے اپنے کوچ کی بے شرمانہ شہوانی چٹکیوں سے گھن بھی آرہی تھی۔ میں نے برقع اتارا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھے واقعی برقع پہن کر بہت اچھا لگا، مگر آج کے ماحول میں جب برقعے پر مغربی حکومتوں میں پابندی لگائی جارہی ہے، برقع پہننا کیسے ممکن ہے، اور غیرمسلم کا برقع پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں؟ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کو کہتی رہیں اور بہت اصرار کرتی رہیں۔ میں نے معذرت کی کہ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔ ابھی مجھے دنیا کی نمبر ون ہاکی کی کھلاڑی بننا ہے، یوں میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر جائے گا۔ سعدیہ نے کہا: 'مجھے آپ کو ہاکی کی فیلڈ سے برقعے میں لانا ہے۔ میں نے اپنے اللہ سے دعا بھی کی ہے اور بہت ضد کرکے دعا کی ہے‘۔ اس کے بعد ہم ۱۰روز تک ڈنمارک میں رہے۔ وہ مجھے فون کرتی رہی، دوبار ہوٹل میں ملنے آئی، اور مجھے اسلام پر کتابیں دے کر گئی۔
٭....آپ نے وہ کتابیں پڑھیں؟
عفیفہ: کہیں کہیں سے دیکھی ہیں۔
٭.... اس کے بعد اسلام میں آنے کا کیا ذریعہ بنا؟
عفیفہ: میں بھارت واپس آئی۔ ہمارے یہاں نریلا کے پاس گاؤں کی ایک لڑکی (جس کے والد ۱۹۷۴ئ میں ہندو ہوگئے تھے، اور بعد میں آپ کے والد مولانا کلیم اللہ کے ہاتھوں مسلمان ہوگئے تھے، ان کی مرید بھی تھے اور حج بھی کر آئے تھے) ہاکی کھیلتی تھی۔ وہ دلی اسٹیٹ کی ہاکی ٹیم میں تھی اور بھارت کی طرف سے منتخب ہونے کے بعد روس میں کھیلنے جانے والی تھی۔ وہ مشورے اور کھیل کے انداز میں رہنمائی کے لیے میرے پاس آئی۔ میں نے اس سے ڈنمارک کی مشہور کھلاڑی برٹنی کا ذکر کیا۔ اس نے اپنے والد صاحب کو ساری بات بتائی۔ وہ اپنی لڑکی کے ساتھ مجھ سے ملنے آئے، اور مجھے حضرت کی کتاب آپ کی امانت اور اسلام ایک پریچے دی۔ آپ کی امانت چھوٹی سی کتاب تھی، برقعے نے میرے دل میں جگہ بنا لی تھی۔اس کتاب نے برقع کے حکم کو میرے دل میں بٹھا دیا۔ میں نے حضرت صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ دوسرے روز حضرت کا پنجاب کا سفر تھا۔ اللہ کا کرنا کہ بہال گڑھ ایک صاحب کے یہاں ہائی وے پر ملاقات طے ہوگئی اور حضرت نے ۱۰، ۱۵ منٹ مجھ سے بات کر کے کلمہ پڑھنے کو کہا، اور انھوں نے بتایا کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ برٹنی نے اپنے اللہ سے آپ کو برقعے میں لانے کی بات منوا لی ہے۔ بہرحال میں نے کلمہ پڑھا اور حضرت نے میرا نام عفیفہ رکھا، اور کہا: عفیفہ پاک دامن کو کہتے ہیں۔ چونکہ فطرتاً آپ اندر سے پاک دامنی کو پسند کرتی ہیں، میری بھانجی کا نام بھی عفیفہ ہے، میں آپ کا نام عفیفہ ہی رکھتا ہوں۔
٭....اس کے بعد کیا ہوا؟
عفیفہ: میں نے برٹنی کو فون کیا اور اس کو بتایا۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ جب میں نے حضرت کا نام لیا تو انھوں نے اپنے شوہر سے بات کرائی۔ ڈاکٹر اشرف ان کا نام ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حضرت کی بہن کے یہاں رہنے والی ایک حرا کی شہادت اور اس کے چچا کے قبولِ اسلام کی کہانی سن کر ہمیں اللہ نے اسلام کی قدر سکھائی ہے، اور اسی کی وجہ سے میں نے برٹنی سے شادی کی ہے، یہ کہہ کر کہ اگر تم اسلام لے آتی ہو تو میں تم سے شادی کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعد میں نے اخبار میں اشتہار دیا، گزٹ میں نام بدلوایا، اپنی ہائی اسکول اور انٹر کی ڈگریوں میں نام بدلوایا اور ہاکی سے ریٹائرمنٹ لے کر گھر پر اسٹڈی شروع کی۔
٭.... اب آپ کا کیا ارادہ ہے ، آپ کی شادی کا کیا ہوا؟
عفیفہ: میں نے آئی سی ایس (انڈین سول سروس) کی تیاری شروع کی ہے۔ میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ میں ایک آئی سی ایس افسر بنوں گی اور برقع پوش آئی ایس آئی افسر بن کر اسلامی پردے کی عظمت لوگوں کو بتاوں گی۔
٭.... آپ اس کے لیے مطالعہ کر رہی ہیں؟
عفیفہ: میں نیٹ پر اسٹڈی کر رہی ہوں۔ میرے اللہ نے ہمیشہ میرے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے کہ میں جو ارادہ کرلیتی ہوں، اسے پورا کردیتے ہیں۔ جب کافر تھی تو پورا کرتے تھے، اب تو اسلام کی عظمت کے لیے میں نے ارادہ کیا ہے، اللہ ضرور پورا کریں گے۔ مجھے ایک ہزار فی صد امید ہے کہ میں پہلی بار میں ہی آئی سی ایس امتحانات پاس کرلوں گی۔
٭.... مگر آپ کے انٹرویو کا کیا ہوگا؟
عفیفہ: برقع اوراسلام کے سارے مخالف بھی اگر انٹرویو لیں گے تو وہ میرے سلیکشن کے لیے ان شائ اللہ مجبور ہوجائیں گے۔
٭.... گھر والوں کو آپ نے دعوت نہیں دی؟
عفیفہ: ابھی دعا کر رہی ہوں، اور قریب کر رہی ہوں۔ ہمیں ہدایت کیسے ملی؟ ہندی میں مَیں نے گھر والوں کو پڑھوائی۔ سب لوگ حیران رہ گئے، اور اللہ کا شکر ہے کہ ذہن بدل رہا ہے۔
٭.... کوئی پیغام آپ دیں گی؟
عفیفہ: عورت کا بے پردہ ہونا اس کی حددرجہ توہین ہے۔ مرد خدا کے لیے، اپنے جھوٹے مطلب اور اپنا بوجھ عورتوں پر ڈالنے کے لیے ان کو بازاروں میں بے پردہ پھرا کر ان کی تحقیر و تذلیل سے باز رہیں، اور عورتیں اپنے مقام اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے اسلام کے پردے کے حکم کی قدر کریں۔
اسلام کی نظر میں عورت کی اہمیت
قرآن اور اہلبیت علیہم السلام کی روایتوں میں بعض عورتوں کو نیکی اور اچھائی کے ساتھ یاد کیا گیا ہے ،اس مقام پر ہم چند آیت وروایت بطور نمونہ پیش کرتے ہیں:
آیات:
١۔''انّ المسلمین والمسلمات والمومنین و المومنات والقانتین والقانتات والصّادقین و الصّادقات والصّابرین والصّابرات والخاشعین والخاشعات والمتصدّقین والمتصدّقات والصّائمین والصّائمات والحافظین فروجھم والحافظات والذّاکرین اللّٰہ کثیراً والذّاکرات اعدّ اللّٰہ لھم مغفرة واجراً عظیما''١
''بے مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صابر مرد اور صابر عورتیں اور فروتنی کرنے والے مرد اور فروتنی کرنے والی عورتیں اور صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں ،روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں اور اپنی عفت کی حفاظت کرنے والے مرد اور عورتیں اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں۔اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیا کررہا ہے'' ۔
اس آیۂ کریمہ میں مرد اور عورت کا تذکرہ ایک دوسرے کے پہلو میں کیا گیا ہے اور خداوند عالم نے ان دونوں کے درمیان ثواب اور جزاکے لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھا ہے ۔
٢۔''یا ایّھا الناس انّا خلقناکم من ذکر وانثیٰ وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا انّ اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم انّ اللّٰہ علیم خبیر''٢
''اے انسانو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اورقبیلے قرار دیئے ہیں تا کہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک تم میں سے خدا کے زندیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے'' ۔
خداوند عالم نے اس آیۂ کریمہ میں بھی مرد اور عورت کی جنسیت ،حسب ونسب اور رنگ کی بناء پر انسانوں کی برتری اور بلندی کو معیار قرار نہیں دیا ہے ،بلکہ خداوند عالم کے نزدیک سب سے اہم اور گرانقدر شے تقویٰ اور احکام الٰہی پر عمل کرنا ہے اور یہ آیت قوم پرستی کوباطل سمجھی ہے۔
٣۔''من عمل صالحاً من ذکر اوانثیٰ وھو مومن فلنحیینّہ حیاة طیّبة ولنجزینّھم اجرھم باحسن ما کانوا یعملون ''٣
''جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت بشرطی کہ صاحبان ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انھیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے''۔
خداوند عالم نے اس آیۂ کریمہ میں جزا اور ثواب کو عمل کے بدلہ میں قرار دیا ہے اور مرد وعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔
٤۔''ومن آیاتہ اَن خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودّة ورحمة انّ ذالک لآیات لقوم یتفکرون''٤
''اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھارا جوڑا تمھیں میں سے پیدا کیا ہے تا کہ تمھیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمھارے درمیان محبت اور رحمت قرار دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں''۔
خداوند عالم نے اس آیۂ کریمہ میں عورت کی خلقت کو اپنی نشانیاں قرار دی ہیں اور بتایا ہے کہ عورت ،محبت ،رحمت اور آرام وسکون کا باعث ہوتی ہے ،مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہونے سے کامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر دونوں کا وجود ناقص ہے ۔
خداوند عالم آیت کے آخر میں فرماتا ہے یہ مطالب ان افراد کے لئے ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں اور اگر کوئی شخص عاقل اور متعال انسان ہوتووہ متوجہ ہوگا کہ مرد اور عورت ایک دوسری کی تکمیل کا باعث ہوتے ہیں اور عورت ہی ہے جو خانوادہ کے وجود کوسرگرم اور خوشحال رکھتی ہے اور انسان کے رشد وکمال کا باعث ہوتی ہے ۔
روایات:
١۔رسول اکرم ۖنے فرمایا:''خیر اولادکم البنات''۔''تمھاری بہترین اولاد لڑکیاں ہیں''۔
٢۔حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:''اذا آذاھا لم یقبل اللّٰہ صلاتہ ولا حسنة من عملہ وکان اوّل من یرد النّار''''اگر مرد اپنی زوجہ کو تکلیف پہونچائے تو خداوند عالم اس کی نماز قبول نہیں کرتا ہے اور اسے اس کے عمل کی جزا نہیں دیتا ہے ،وہ سب سے پہلا شخص ہے جو جہنم میں داخل ہوگا''۔
یہ ہے اسلام میں عورت کی اہمیت اور اس کی منزلت لیکن خواتین بالخصوص علم حاصل کرنے والی لڑکیاں عام طور سے یہ سوال کرتی ہیں کہ مرد کی بہ نسبت عورت کی میراث آدھی کیوں ہے؟کیا یہ عدالت کے مطابق ہے اوریہ عورت کے حقوق پرظلم نہیں ہے؟
جواب:
اول یہ کہ :ہمیشہ ایسانہیں ہے کہ مرد،عورت کی میراث سے دو گنا میراث پائے،بلکہ بعض وقت مرد اورعورت دونوں برابر میراث پاتے ہیں منجملہ میت کے ماں باپ دونوں میراث کاچھٹاں حصہ بطورمساوی پاتے ہیں،اسی طرح ماں کے گھرانے والے خواہ عورتیں ہوں یامرددونوں بطور مساوی میراث پاتے ہیں اوربعض وقت عورت پوری میراث پاتی ہے ...
دوسرے یہ کہ: دشمن سے جہادکرنے کے اخراجات مردپرواجب ہوتے ہیں جب کہ عورت پریہ اخراجات واجب نہیں ہیں ۔
تیسرے یہ کہ: عورت کے اخراجات مردپر واجب ہیں اگرچہ عورت کی درآمد بہت اچھی اورزیادہ کیوں نہ ہو۔
چوٹھے یہ کہ:اولاد کے اخراجات چاہے وہ خوراک ہویالباس وغیرہ ہوں،مردکے ذمہ ہے ۔
پانچویں یہ کہ:اگر عورت مطالبہ کرے اورچاہے توبچوں کوجودودھ پلاتی ہے وہ شیربہا (دودھ پلانے کاہدیہ) لے سکتی ہے ۔
چھٹے یہ کہ:ماں باپ اوردوسرے افرادکے اخراجات کہ جس کی وضاحت رسالۂ عملیہ میں کی گئی ہے،مرد کے ذمہ ہے ۔
ساتویں یہ کہ:بعض وقت دیہ (شرعی جرمانہ)مردپرواجب ہے جب کہ عورت پرواجب نہیں ہے اوریہ اس وقت ہوتاہے کہ جب کوئی شخص سہواً جنایت کا مرتکب ہو،تو اس مقام پرمجرم کے قرابتداروں (بھائی،چچااوران کے بیٹوں)کوچاہیئے کہ دیہ ادا کریں ۔
آٹھویں یہ کہ:شادی کے اخراجات کے علاوہ شادی کے وقت مرد کو چاہیئے کہ عورت کو مہر بھی ادا کرے ۔
اس بناء پرزیادہ تر مرحلوں میں مردخرچ کرنے والااورعورت اخراجات لینے والی ہوتی ہے،اسی وجہ سے اسلام نے مرد کے حصہ کوعورت کی بہ نسبت دو گناقرار دیاہے تاکہ تعادل برقراررہے اوراگر عورت کی میراث مرد کی میراث سے آدھی ہوتویہ عین عدالت ہے اوراس مقام پرمساوی ہونا مرد کے حقوق پر ظلم ہے ۔
اسی بناء پر حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا:ماں باپ اوراولاد کے اخراجات مرد پر واجب ہیں۔
حضرت سے پوچھا گیاکہ عورت کی بہ نسبت مرد کی میراث دو گنا کیوں ہوتی ہے؟حضرت نے فرمایا:اس لئے کہ عاقلہ کا دیہ، زندگی کے اخراجات،جہاد،مہر اوردوسری چیزیں عورت پر واجب نہیں ہیں جب کہ مرد پر واجب ہیں ۔
جب حضرت امام علی رضا ـسے پوچھاگیاکہ عورت کی میراث کے آدھی ہونے کی علت کیاہے،توآپ نے فرمایا:اس لئے کہ جب عورت شادی کرتی ہے تو اس کاشمار (مال) پانے والی میں ہوتا ہے جب کہ مرد کا شمار خرچ کرنے والوں میں ہوتا ہے،اس کے بعد امام نے سورۂ نساء آیت نمبر ٣٤ کودلیل کے طور پر پیش کیا۔
کیا مرد اور عورت کے درمیان عقل کے لحاظ سے کوئی فرق ہے؟
بعض وقت خواتین کے درمیان یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض روایتوں میں عورت کی مذمت کیوں ہوئی ہے اور اسے ناقص العقل کیوں کہا گیا ہے؟
جواب:
اول یہ کہ: روایتوں میں یہ مذمت عورت کے اصل وجود سے متعلق نہیں ہے اس لئے کہ قرآن کریم کی نظر میں مرد اور عورت دونوں کا وجود ،کامل ہے ،مرد اور عورت ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے بلکہ یہ مذمت فقط بعض عورتوں سے متعلق ہے ۔در حقیقت یہ مذمت مردوں کے لئے ایک یاددہانی ہے کہ وہ بے تقویٰ اور گنہگار عورتوں کے فریب سے بچیں،اس بناء پر یہ مذمت صرف عورتوں سے مخصوص نہیں بلکہ مردوں سے بھی مربوط ہے ،جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ منافق ،شریر، بدمعاش ،احمق ،حاسد،بخیل ،جھوٹے اور فاسد لوگوں کی ہمنشینی اختیار نہ کی جائے اور ان سے مشورہ نہ لیا جائے یہ ایک ایسا عقلی قانون ہے کہ جسے دنیا میں تمام عقلمند انسان قبول کرتے ہیں کہ اگر کوئی سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے تو اس طرح کے لوگوں سے دوری اختیار کرے۔
لہٰذا مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگر چہ مرد کی بہ نسبت عورت کے اندر کشش اور جاذبہ زیادہ پایاجاتا ہے ،مگر اسلام سے آشنا نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ صرف ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو عورت کی مذمت میں آئی ہے پھر بھی سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔
خلاصۂ مطلب:
جب ہم قرآن کریم کی آیتوں اور روایتوں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو متوجہ ہوتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں بہادر مومن مرد ہیں اسی طرح بہادر مومنہ عورتیں بھی ہیں جس طرح مردوں میں شریر افراد پائے جاتے ہیں اسی طرح شریر،عورتوں میں بھی ہیں جبکہ مردوں کی شرارت عورتوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ،چونکہ قدرت وطاقت مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے عام طورسے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیں جہاں بھی عورتوں کی جانب سے ایک جرم سرزد ہوتا ہے اسے کئی مرتبہ فاش کیا جاتا ہے جبکہ مردوں کے جرائم کا مقائسہ عورتوں سے نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دوسرے یہ کہ:بعض روایتوں میں یہ مذمت زمانے کے ایک خاص حصہ میں بعض عورتوں سے متعلق ہے اور یہ عورتوں ہی سے مخصوص نہیں ہے اس کے لئے زمانے کے ایک خاص حصہ میںبعض مرد یابعض شہروں کے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے اور یہ مذمت دلیل نہیں ہے کہ عورت یا مرد یا فلاں شہر ہمیشہ کے لئے قابل مذمت ہو اور اس کے برعکس بعض روایتوں میں بعض شہروں کے لوگ اچھائی کے ساتھ یاد کئے گئے ہیں تو یہ دلیل نہیں ہے کہ ان شہروں کے لوگ ہمیشہ کے لئے نیک اور متقی ہوں، بعض عورتوں کے متعلق یہ مذمتیں بصورت موقت ہیں۔
تیسرے یہ کہ: کہا گیا ہے کہ عورت ناقص العقل ہے اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ عورت عقل کے لحاظ سے نقص رکھتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب ہم مرد کا عورت سے مقائسہ کرتے ہیں تو مرد کو عورت سے سخت اور محکم پاتے ہیں اور قد کے لحاظ سے وہ عورت سے بلند ہے اور عورت مرد سے بہت نازک اور قد کے اعتبار سے چھوٹی ہے ،ان اسی کی بہ نسبت اس کا مغز مرد کے مغز سے بہت چھوٹا ہے ۔
اسی بنیاد پر فقیہ عالیقدر آیت اللہ شہید مطہری فرماتے ہیں:
''متوسط مرد کا مغز متوسط عورت کے مغز سے بڑاہوتا ہے لیکن عورت کے تمام جسم کی بہ نسبت اس کا مغز مرد کے مغز سے بڑا ہے ،اس بناء پر عورت ایک ناقص العقل وجود کا نام نہیں ہے ''۔
چوتھے یہ کہ:اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ عقل کا ایک معنی اجرائی امور میں فکر وتدبر کرنا ہے اور ایک طرف اجرائی منصب بہت مشکل اور سخت ہے ،عورت کے لطیف اور نازک جسم کے مناسب نہیں ہے لہٰذا خداوند حکیم نے اجرائی امور میں اس کے فکر وتدبر کی قدرت وطاقت کی بہ نسبت اسے بہت کم ودیعت کی ہے اس لئے کہ اجرائی منصب کوئی ایسامقام نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے عورت کی شان وشوکت میں کوئی کمی پیداہو،وہ مرد ہی ہے جو سب سے زیادہ اجرائی امور اوراجتماعی کاموں سے سروکار رکھتا ہے اور دوسری طرف چونکہ عورت خانوادہ اور سماج میں فطرت کے مطابق تربیت اور اخلاق کی بنیاد ہے اسی لئے مرد کی بہ نسبت اس کی محبت کی طاقت بہت زیادہ ہے۔
حوالے:
١۔سورۂ احزاب ،آیت نمبر ٣٥۔
٢۔سورۂ حجرات ،آیت نمبر ١٣۔
٣۔سورۂ نحل ،آیت نمبر ٩٧۔
٤۔سورۂ روم ،آیت نمبر ٢١۔
تحرير: جناب جلال پوری
نواز شریف کا انتباہ
پاکستان کی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ انتخابی عمل کو روکنے کےلئے کسی بھی کوشش ،ملک کےلئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق نواز شریف نے گذشتہ روز مسلم لیگ ن کے رہنما ثناءاللہ زہری کے آبائی گاؤں سے واپسی پر کوئٹہ ایئرپورٹ میں کہا کہ انتخابات وقت پر منعقد ہونا ہے اور انتخابی عمل کو روکنے کےلئے کسی بھی کوشش ،ملک کےلئے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر مسئلے کا حل جمہوریت کے فروغ اور آئین کی بالادستی میں ہے، بلوچستان میں مخدوش حالات کے باوجود انتخابات ہونے چاہئیں تاکہ جن مسائل کا آج ہمیں سامنا ہے ان کا تدارک کیا جاسکے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ نے مزید کہا کہ جمہوری ملکوں کی روایت رہی ہے کہ حالات چاہے جتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں انتخابی عمل کو کسی صورت بھی روکا نہیں جاتا، درحقیقت مسائل کاحل صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں ہی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ گیارہ مئی کو مقرر کیا گیا ہے۔
چالیس ہزار برطانوی باشندےمشرف بہ اسلام
تحقیقاتی گروپ فیتھ میٹرز کی تازہ ترین رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ دس سال کے دوران چالیس ہزار سے زائد برطانوی باشندوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سنہ دو ہزار گيارہ میں پانچ ہزار دو سو برطانوی باشندوں نے اسلام قبول کیا جن میں اکثریت خواتین کی تھی جبکہ ان میں سے دو تہائی افراد نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی عمریں ستائیس سے تیس سال کے درمیان ہیں۔
ان افراد نے برطانوی معاشرے میں پھیلی ہوئی بے راہ روی اور معنویت کے فقدان کو اسلام قبول کرنے کی وجہ بتایا ہے۔
اسلامي گھرانہ اور خانداني نظام زندگي
ہر وہ ملک جس ميں گھرانے کي بنياديں مستحکم ہوں تو اُس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً اخلاقي مشکلات اُس مستحکم اورصحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہوجائيں گي .
اسلام ميں ايک معاشرے کي اصل اکائي گھرانہ ہے يہي وجہ ہے کہ اسلام گھرانے اور خاندان کے استحکام کو بہت زيادہ اہميت ديتا ہے ؟ اس ليے کہ گھرانہ، آرام و سکون و آسائش ، امن ، تربيت و ايمان اور معنويت کي پرورش کا اور روحي اور نفسياتي مشکلات کے حل کي جگہ ہے .يہ خاندان ہي ہے جہاں ثقافت ، اعتقادات، خانداني روايتيں اور آداب و روسوم اگلي نسلوں تک منتقل ہوتے ہيں ؟ يہي وہ مقام ہے کہ جہاں کھوئي ہوئي طاقت کو بحال کيا جاتا ہے، ارادوں کو مضبوط بنايا جاتا ہے اور خوشبختي اور بہشت بريں کا راستہ اسي گھرانے سے ہو کر گزرتا ہے . اسلام نے گھر کے ماحول ميں شادابي و نشاط اورمعنويت و محبت پر بہت زيادہ تاکيد کي ہے .
اسلام ميں گھرانے اور خاندان کي اہميت:
گھرانہ ، کلمہ طيبہ يا پاکيزہ بنياد
گھرانہ، کلمہ طيبہ 1 کي مانند ہے اور کلمہ طيبہ کي خاصيت يہ ہے کہ جب يہ وجود ميں آتا ہے تو مسلسل اس کے وجود سے خير وبرکت اورنيکي ملتي رہتي ہے اوروہ اپنے اطراف کي چيزوں ميں نفوذ کرتا رہتا ہے .کلمہ طيبہ وہي چيزيں ہيں کہ جنہيں خداوند متعال نے انسان کي فطري ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کي صحيح بنيادوں کے ساتھ اُسے تحفہ ديا ہے . يہ سب کلمہ طيبہ ہيں خواہ وہ معنويات ہوں يا ماديات 2
گھرانہ ، انساني معاشرے کي اکائي:
جس طرح ايک انساني بدن ايک اکائي ’’سيل ‘‘ يا ’’خليے‘‘ سے تشکيل پاتا ہے اور ان خليوں کي نابودي ،خرابي اور بيماري خودبخود اور فطري طور پر بدن کي بيماري پر اختتام پذير ہوتي ہے .اگر ان اکائيوں ’’خليوں‘‘ ميں پلنے والي بيماري بڑھ جائے تو خطرناک شکل ميں بڑھ کر پورے انساني بدن کيلئے خطرے کا باعث بن سکتي ہے.اسي طرح انساني معاشرہ بھي اکائيوں سے مل کر بنا ہے جنہيں ہم ’’گھرانہ ‘‘ کہتے ہيں اور گھرانہ انسان کے معاشرتي بدن کي اکائي ہے . جب يہ صحيح و سالم ہوں گے اور صحيح اور اچھا عمل انجام ديں گے تو معاشرے کا بدن بھي يقينا صحيح و سالم ہوگا. 3
-------------
1 سورہ ابراہيم کي آيت 24 کي طرف اشارہ ہے کہ ’’اللہ تعالي نے کلمہ طيبہ کي مثال پيش کہ ہے کہ جيسے ايک شجر طيبہ کہ جس کي جڑيں زمين ميں مستحکم ہوں اور شاخيں آسمان پر پھيلي ہوئي ہوں‘‘
2 خطبہ نکاح 6/3/2000
3 خطبہ نکاح 29/5/2002
اچھا گھرانہ اور اچھا معاشرہ:
اگر کسي معاشرے ميں ايک گھرانے کي بنياديں مستحکم ہوجائيں،مياں بيوي ايک دوسرے کے حقوق کا خيال رکھيں ،آپس ميں خوش رفتاري،اچھے اخلاق اور باہمي تعاون سے پيش آئيں، مل کر مشکلات کو حل کريں اوراپنے بچوں کي اچھي تربيت کريں تو وہ معاشرہ بہتر صورتحال اور نجات سے ہمکنار ہوگا اور اگر معاشرے ميں کوئي مصلح موجود ہوتو وہ معاشروں کي اصلاح کرسکتا ہے . ليکن اگر صحيح و سالم اور اچھے گھرانے ہي معاشرے ميں موجود نہ ہوں تو کتنے ہي بڑے مصلح کيوں نہ آجائيں وہ معاشرے کي اصلاح نہيں کرسکتے. 1
ہر وہ ملک جس ميں گھرانے کي بنياديں مستحکم ہوں تو اُس ملک کي بہت سي مشکلات خصوصاً اخلاقي مشکلات اُس مستحکم اورصحيح و سالم گھرانے کي برکت سے دور ہوجائيں گي يا سرے ہي سے وجود ميں نہيں آئيں گي.2
گھر کو بسانا دراصل انسان کي ايک اجتماعي ضرورت ہے ? چنانچہ اگر کسي معاشرے ميں ’’گھرانے‘‘ صحيح و سالم اور مستحکم ہوں ، حالات زمانہ اُن کے پائے ثبات ميں لغزش پيدا نہ کريں اور وہ مختلف قسم کي اجتماعي آفات سے محفوظ ہوں تو ايسا معاشرا اچھي طرح اصلاح پاسکتا ہے، اس کے باشندے فکري رشد حاصل کرسکتے ہيں، وہ روحاني لحاظ سے مکمل طور پر صحيح و سالم ہوں گے اور وہ ممکن ہے کہ نفسياتي بيماريوں سے بھي دور ہوں . 3
گھرانہ، روح و ايمان اور پاکيزہ فکر وخيال کي بہترين پرورش گاہ
اچھے گھرانوں سے محروم معاشرہ ايک پريشان، غير مطمئن اور زبوں حالي کا شکار معاشرہ ہے اور ايک ايسا معاشرہ ہے کہ جس ميں ثقافتي ، فکري اور عقائدي ورثہ آنے والي نسلوں تک با آساني منتقل نہيں ہوسکتا ? ايسے معاشرے ميں انساني تربيت کے بلند مقاصد حاصل نہيں ہوپاتے يا اُس ميں صحيح و سالم گھرانوں کا فقدان ہوتا ہے يا پھر اُن کي بنياديں متزلزل ہوتي ہيں .ايسے معاشروں ميں انسان اچھے تربيتي مراکز اور پرورش گاہوں ميں بھي اچھي پرورش نہيں پاسکتے . 4
صحيح وسالم گھرانے کا فقدان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ نہ اُس ميں بچے صحيح پرورش پاتے ہيں اور نہ ہي نوجوان اپني صحيح شخصيت تک پہنچ سکتے ہيں اور انسان بھي ايسے گھرانوں ميں کامل نہيں بنتے ؟ اس گھر سے تعلق رکھنے والے مياں بيوں بھي صالح اور نيک نہيں ہوں گے، اس گھر ميں اخلاقيات کابھي فقدان ہوگا اور گزشتہ نسل کے اچھے اورقيمتي تجربات اگلي نسلوں تک منتقل نہيں ہوسکتے . 1
جب ايسے معاشرے ميں اچھے گھرانے موجود نہ ہوں تو جان ليجئے کہ اس معاشرے ميں ايمان اور دينداري کو وجود ميں لانے کا کوئي مرکز موجود نہيں ہے . 2
------------------
1 خطبہ نکاح 5/9/1993
2 خطبہ نکاح 23/11/1997
3 خطبہ نکاح 23/8/1995
4 خطبہ نکاح 1/1/1996
ايسے معاشرے کہ جن ميں گھرانوں کي بنياديں کمزور ہيں يا جن ميں اچھے گھرانے سرے ہي سے وجود نہيں رکھتے يا اگر ہيں تو ان کي بنياديں متزلزل ہيںتو وہ معاشرے نابوي کے دھانے پر کھڑے ہيں ايسے معاشروں ميں نفسياتي الجھنوں اور بيماريوں کے اعداد و شمار اُن معاشروں کي بہ نسبت زيادہ ہيں جن ميں اچھے اور مستحکم گھرانے موجود ہيں اور مرد و عورت ’’ گھرانے‘‘ جيسے ايک مضبوط مرکز سے متصل ہيں 3
گھرانہ ، سکون اور اصلاح کا مرکز
انساني معاشرے ميں گھرانہ بہت اہميت اور قدر وقيمت کا حامل ہے آنے والي نسلوں کي تربيت اور معنوي،فکري اور نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم انسانوں کي پرورش کيلئے گھرانے کے فوائد تک نہ کوئي پہنچ سکتا ہے اور نہ ہي کوئي چيز تعليم و تربيت کے ميدان ميںگھر و گھرانے کي جگہ لے سکتي ہے جب خانداني نظام زندگي بہتر انداز ميں موجود ہو تو ان کروڑوں انسانوں ميں سے ہر ايک کيلئے ديکھ بھال کرنے والے (والدين جيسے دو شفيق موجود) ہميشہ ان کے ہمراہ ہوں گے کہ جن کا کوئي نعم البدل نہيں ہوسکتا 4
’’گھرانہ‘‘ايک امن و امان کي وادي محبت اور پُر فضا ماحول کا نام ہے کہ جس ميں بچے اوروالدين اس پُر امن ماحول اور قابل اعتماد فضا ميں اپني روحي و فکري اور ذہني صلاحيتوں کو بہتر انداز ميں محفوظ رکھتے ہوئے اُن کي پرورش اور رُشد کا انتظام کرسکتے ہيں ليکن جب خانداني نظام کي بنياديں ہي کمزور پڑجائيں تو آنے والي نسليں غير محفوظ ہوجاتي ہيں 5
انسان تربيت، ہدايت اور کمال وترقي کيلئے خلق کيا گيا ہے اور يہ سب اہداف صرف ايک پر امن ماحول
------------
1 خطبہ نکاح 20/5/2000
2 خطبہ نکاح 1/2/1993
3 خطبہ نکاح 12/3/2000
4 خطبہ نکاح 25/5/2000
5 خطبہ نکاح 9/3/1997
ميں ہي حاصل ہوسکتے ہيں ايسا ماحول کہ جس کي فضا کو کوئي نفسياتي الجھن آلودہ نہ کرے اور ايسا ماحول کہ جس ميں انساني صلاحيتيں اپنے کمال تک پہنچ سکيں ? ان مقاصد کے حصول کيلئے ايسے ماحول کاوجود لازمي ہے جس ميں تعليمات ايک نسل کے بعد دوسري نسل ميں منعکس ہوں اور انسان بچپن ہي سے صحيح تعليم ، مددگار نفسياتي ماحول اور فطري معلموں يعني والدين کے زير سايہ تربيت پائے جو عالم دنيا کے تمام انسانوں سے زيادہ اس پر مہربان ہيں 1
اگرمعاشرے ميں صحيح خانداني نظام رائج نہ ہوتو انساني تربيت کے تمام اقدامات ناکام ہوجائيں گے اور اُس کي تمام روحاني ضرورتوں کو مثبت جواب نہيں ملے گا? يہ وجہ ہے کہ انساني تخليق اور فطرت ايسي ہے کہ جو اچھے گھرانے، صحيح و کامل خانداني نظام کے پر فضا اور محبت آميز ماحول اور والدين کي شفقت و محبت کے بغير صحيح و کامل تربيت ، بے عيب پرورش اورنفسياتي الجھنوں سے دور اپني لازمي روحاني نشوونما تک نہيں پہنچ سکتي ہے ? انسان اپني باطني صلاحيتوں اور اپنے احساسات و جذبات کے لحاظ سے اُسي وقت مکمل ہو سکتا ہے کہ جب وہ ايک مکمل اور اچھے گھرانے ميں تربيت پائے ايک مناسب اور اچھے خانداني نظام کے تحت چلنے والے گھر ميں پرورش پانے والے بچوں کيلئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نفسياتي لحاظ سے صحيح و سالم اور ہمدردي اور مہرباني کے جذبات سے سرشار ہوں گے 2
ايک گھرانے ميں تين قسم کے انسانوں کي اصلاح ہوسکتي ہے ? ايک مرد ہيں جو اس گھر کے سرپرست يا والدين ہيں، دوسرے درجے پر خواتين جو ماوں کا کردار ادا کرتي ہيں اور تيسرے مرحلے پر اولاد جو اس معاشرے کي آنے والے نسل ہے 3
اچھے گھرانے کي خوبياں
ايک اچھا گھرانہ يعني ايک دوسرے کي نسبت اچھے، مہربان، پرخلوص جذبات اور احساسات کے مالک اور ايک دوسرے سے عشق و محبت کرنے والے مياں بيوي جو ايک دوسرے کي جسماني اور روحاني حالت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق ايک دوسرے کي مدد کريں،ايک دوسرے کي فعاليت،کام کاج اور ضرورتوں کو اہميت ديں اور ايک دوسرے کو آرام و سکون اور بہتري اوربھلائي کو مدنظر رکھيں.
-----------
1 خطبہ نکاح 11/8/1997 2 خطبہ نکاح 25/11/1995 1 خطبہ نکاح 9/5/1995
دوسرے درجے پر اس گھر ميں پرورش پانے والي اولاد ہے کہ جس کي تربيت کيلئے وہ احساس ذمے داري کريں اور مادي اور معنوي لحاظ سے اسے صحيح و سالم پرورش کا ماحول فراہم کريں اُن کي خواہش يہ ہوني چاہيے کہ اُن کے بچے مادي اور معنوي لحاظ سے بہتري اور سلامتي تک پہنچيں،وہ اپني اولاد کو بہترين تعليم و تربيت ديں، انہيں مودب بنائيں، اچھے طريقوں سے اپني اولاد کو بُرے کاموں کي انجام دہي سے روکيں اور بہترين صفات سے اُن کي روح کو مزين کريں ايک ايسا گھرانہ دراصل ايک ملک ميں ہونے والي تمام حقيقي اصلاحات کي بنياد فراہم کرسکتا ہے چونکہ ايسے گھرانوں ميں اچھے انسان ہي تربيت پاتے ہيں اور وہ بہترين صفات کے مالک ہوتے ہيں جب کوئي معاشرہ شجاعت، عقلي استدلال ، فکري آزادي، احساس ذمے داري، پيارو محبت، جرآت و بہادري، وقت پر صحيح فيصلہ کرنے کي صلاحيت، دوسروں کي خير خواہي اور اپني خانداني پاکيزگي اور نجابت کے ساتھ پرورش پانے والے لوگوں کا حامل ہو تو وہ کبھي بدبختي اورروسياہي کي شکل نہيں ديکھے گا 1
اچھے خانداني نظام ميں ثقافت کي منتقلي کي آساني
ايک معاشرے ميں اُس کي تہذيب وتمدن اور ثقافت کے اصولوں کي حفاظت اور آئندہ نسلوں تک اُن کي منتقلي اچھے گھرانے يا بہترين خانداني نظام کي برکت ہي سے انجام پاتي ہے 2
رشتہ ازدواج ميں نوجوان لڑکے اور لڑکي کے منسلک ہونے کا سب سے بہترين فائدہ ’’گھر بسانا‘‘ ہے .اس کا سبب بھي يہي ہے کہ ايک معاشرہ اچھے گھرانوں، خانداني افراد اور بہترين نظام تربيت پر مشتمل ہو تو وہ بہترين معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے اور وہ اپنے تاريخي اور ثقافتي خزانوں اور ورثے کو بخوبي احسن اگلي نسلوں تک منتقل کرے گا اور ايسے معاشرے ميں بچے بھي صحيح تربيت پائيں گے ? چنانچہ وہ ممالک اور معاشرے کہ جہاں خانداني نظام مشکلات کا شکار ہوتا ہے تو وہاں ثقافتي اور اخلاقي مسائل جنم ليتے ہيں 3
اگر موجودہ نسل اس بات کي خواہشمند ہو کہ وہ اپني ذہني اورفکري ارتقا ، تجربات اور نتائج کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرے اور ايک معاشرہ اپنے ماضي اور تاريخ سے صحيح معني ميں فائدہ حاصل کرے تو يہ صرف اچھے گھرانوں يا اچھے خانداني نظام کے ذريعے ہي ممکن ہے . گھر کي اچھي فضا ميں اس معاشرے کي ثقافتي اورتاريخي بنيادوں پر ايک انسان اپنے تشخص کو پاتا ہے اور اپني شخصيت کي تعمير کرتا ہے . يہ والدين ہي ہيں جو غير مستقيم طور پر بغير کسي جبر اور تصنع (بناوٹ) کے فطري اور طبيعي طور پر اپنے فکري مطالب، عمل، معلومات اور تمام مقدس امور کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں . 1
-----------
1 خطبہ نکاح3/3/1998
2 خطبہ نکاح15/4/1998
3 خطبہ نکاح 15/4/1998
خوشحال گھرانہ اور مطمئن افراد
اسلام ’’گھرانے‘‘ پر مکمل توجہ ديتا ہے اور گھرانے پر اس کي خاص الخاص نظر اپنے پورے اہتمام کے ساتھ جمي ہوئي ہے کہ جس کي وجہ سے خانداني نظام يا گھرانے کو انساني حيات ميں مرکزيت حاصل ہے .اسي ليے اس کي بنيادوں کو کمزور يا کھوکھلا کرنے کو بدترين فعل قرار دياگيا ہے. 2
اسلام ميں گھرانے کا مفہوم يعني ايک چھت کے نيچے دو انسانوں کي سکونت ،دو مختلف مزاجوں کا بہترين اور تصوراتي روحاني ماحول ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا، دو انسانوں کے اُنس و اُلفت کي قرار گاہ اور ايک انسان کے ذريعے دوسرے انسان کے کمال اور معنوي ترقي کا مرکز ، يعني وہ جگہ کہ جہاں انسان پاکيزگي حاصل کرے اور اُسے روحاني سکون نصيب ہو ? يہ ہے اسلام کي نظر اور اسي ليے اس مرکز ’’گھرانے‘‘ کو اتني اہميت دي ہے .3
قرآن کے بيان کے مطابق اسلام نے مرد وعورت کي تخليق ،ان کے ايک ساتھ زندگي گزارنے اور ايک دوسرے کا شريک حيات بننے کو مياں بيوي کيلئے آرام و سکون کا باعث قرار ديا ہے .4
قرآن ميں ارشاد خداوندي ہے کہ ’’وَجَعَلَ مِنھَا زَوجَھَا لِيَسکُنَ اِلَيھَا‘‘. 5 جہاں تک مجھے ياد ہے کہ قرآن ميں دو مرتبہ ’’سکون‘‘ کي تعبير آئي ہے ? ’’وَمِن آيَاتِہِ خَلَقَ لَکُم مِن آَنفُسَکُم آَزوَاجًا لِتَسکُنُوا اِلَيھَا‘‘6 خداوند عالم نے انساني جوڑے کو اس کي جنس (انسانيت) سے ہي قرار ديا ہے ?يعني عورت کا جوڑا مرد اور مرد کا جوڑا عورت تاکہ ’’لِيَسکُنَ اِلَيھَا‘‘ يعني يہ انسان خواہ مرد ہو يا عورت ،اپنے مياں يا بيوي سے آرام وسکون حاصل کرے. 1
----------
1 خطبہ نکاح 5/1/2001
2 خطبہ نکاح 5/1/2001
3 خطبہ نکاح 25/12/2005
4 خطبہ نکاح 27/11/1997 5 سورہ اعراف/ 189 6 سورہ روم / 21
يہ آرام و سکون دراصل باطني اضطراب کي زندگي کے پر تلاطم دريا سے نجات و سکون پانے سے عبارت ہے . زندگي ايک قسم کا ميدان جنگ ہے اور انسان اس ميں ہميشہ ايک قسم اضطراب و پريشاني ميں مبتلا رہتا ہے لہ?ذا يہ سکون بہت اہميت کا حامل ہے . اگر يہ آرام و سکون انسان کو صحيح طور پر حاصل ہوجائے تو اُس کي زندگي سعادت و خوش بختي کو پالے گي، مياں بيوي دونوں خوش بخت ہوجائيں گے اور اس گھر ميں پيدا ہونے والے بچے بھي بغير کسي نفسياتي دباو اور الجھن کے پرورش پائيں گے اور خوش بختي اُن کے قدم چومے گي? صرف مياں بيوي کے باہمي تعاون، اچھے اخلاق و کردار اور پرسکون ماحول سے اس گھرانے کے ہر فرد کيلئے سعادت و خوش بختي کي زمين ہموار ہوجائے گي. 2
گھرانہ ، زندگي کي کڑي دھوپ ميں ايک ٹھنڈي چھاوں
جب مياں بيوں دن کے اختتام پر يا درميان ميں ايک دوسرے سے ملاقات کرتے ہيں تو دونوں ايک دوسرے سے يہي اميد رکھتے ہيں کہ اُنہوں نے گھر کے ماحول کو خوش رکھنے، اُسے زندہ رکھنے اور تھکاوٹ اورذہني الجھنوں سے دور کرکے اُسے زندگي گزارنے کے قابل بنانے ميں اپنا اپنا کردار موثر طريقے سے ادا کيا ہوگا تو ان کي ايک دوسرے سے توقع بالکل بجا اور درست ہے ? اگر آپ بھي يہ کام کرسکيں تو حتماً انجام ديں کيونکہ اس سے زندگي شيريں اور ميٹھي ہوتي ہے . 3
انساني زندگي ميں مختلف ناگزير حالات و واقعات کي وجہ سے طوفان اٹھتے رہتے ہيں کہ جس ميں وہ ايک مضبوط پناہ گاہ کا متلاشي ہوتا ہے ? مياں بيوں کا جوڑا اس طوفان ميں ايک دوسرے کي پناہ ليتا ہے /عورت اپنے شوہر کے مضبوط بازووں کا سہارا لے کر اپنے محفوظ ہونے کا احساس کرتي ہے اور مرد اپني بيوي کي چاہت و فداکاري کي ٹھنڈي چھاوں ميں سکھ کا سانس ليتا ہے . مرد اپني مردانہ کشمکش والي زندگي ميں ايک ٹھنڈي چھاوں کا ضرورت مند ہے تاکہ وہاں کي گھني چھاوں ميں تازہ دم ہوکر دوبارہ اپنا سفر شروع کرے /يہ ٹھنڈي چھاوں اُسے کب اور کہاں نصيب ہوگي؟ اس وقت کہ جب وہ اپنے گھر کي عشق و اُلفت اور مہرباني و محبت سے سرشار فضا ميں قدم رکھے گا ، جب وہ اپني شريک حيات کے تبسم کو ديکھے گا کہ جو ہميشہ اس سے عشق و محبت کرتي ہے، زندگي کے ہر اچھے برے وقت ميں اُس کے ساتھ ساتھ ہے، زندگي کے ہر مشکل لمحے ميں اس کے حوصلوں ميں پختگي عطا کرتي ہے اور اُسے ايک جان دو قالب ہونے کا احساس دلاتي ہے /يہ ہے زندگي کي ٹھنڈي چھاوں .1
----------
1 خطبہ نکاح 25/12/1996 2 خطبہ نکاح 22/7/1997 3 خطبہ نکاح 13/4/1998
بيوي بھي اپني روزمرہ کي ہزاروں جھميلوں والي زنانہ زندگي ميں (صبح ناشتے کي تياري، بچوں کو اسکول کيلئے تيار کرنے، گھر کو سميٹنے اور صفائي ستھرائي ،دوپہر کے کھانے کي تياري، بچوں کي اسکول سے آمد اور انہيں دوپہر کا کھانا کھلانے ، سلانے ، نماز ظہر وعصر، شام کي چائے، شوہر کي آمد اور رات کے کھانے کي فکر جيسي ديگر) دسيوں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرتي ہے ? خواہ وہ گھر سے باہر کام ميں مصروف ہو اور مختلف قسم کي سياسي اور اجتماعي فعاليت انجام دے رہي ہو يا گھر کي چار ديواري ميں گھريلو کام کاج ميں عرق جبيں بہار ہي ہو کہ اس کے اندرون خانہ کام کي زحمت و سختي اور اہميت گھر سے باہر اُس کي فعاليت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے !
ايک صنف نازک اپني لطيف و ظريف روح کے ساتھ جب ان مشکلات کا سامنا کرتي ہے يہ تو اُسے پہلے سے زيادہ آرام و سکون اور ايک مطمئن شخص پر اعتماد کرنے کي ضرورت ہوتي ہے، ايسا شخص کون ہوسکتا ہے؟ يہ اُس کے وفادار شوہر کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے! 2
انسان کوئي گاڑي يا مشين تو نہيں ہے ، انسان روح اور جسم کا مرکب ہے ، وہ معنويت کا طالب ہے، وہ ہمدردي، مہرباني و فداکاري کے جذبات و احساسات کا نام ہے اور وہ زندگي کي کڑي دھوپ ميں آرام و سکون کا متلاشي ہے اور اُسے آرام و سکون صرف گھر کي ہي فضا ميں ميسر آسکتا ہے ? 3
گھر کے ماحول کو آرام دہ ہونا چاہيے ? مياں بيوي ميں ايک دوسرے کيلئے موجود ہمدردي اور ايثار ومحبت کے يہ احساسات اُن کے اندروني سکون ميں اُن کے مددگار ثابت ہوتے ہيں ? اس آرام و سکون کا ہرگز يہ مطلب نہيں ہے کہ انسان اپنے کام کاج کو متوقف اور فعاليت کو ترک کردے! نہيں، کام کاج اور فعاليت ضروري اور بہت اچھي چيز ہے . آرام وسکون کا تعلق دراصل انساني زندگي کي مشکلات اور مسائل سے ہے ?
-----------
1 خطبہ نکاح 28/8/2002 2 حوالہ سابق 3 خطبہ نکاح 8/2/1989
انسان کبھي کبھي اپني زندگي ميں پريشان ہوجاتا ہے تو اُس کي بيوي يا شوہر اُسے سکون ديتا ہے .يہ سب اُسي صورت ميں ممکن ہے کہ جب گھر کي فضا اور ماحول آپس کي چپقلش، لڑائي، جھگڑوں ،باہمي نااتفاقي اور مشکلات کا شکار نہ ہو .1
اچھے گھرکا پرسکون ماحول
ہر انسان کو خواہ مرد ہو يا عورت، اپني پوري زندگي ميں شب وروز مختلف پريشانيوں اور مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور غير متوقع حالات وواقعات سے اس کي زندگي اضطراب کا شکار رہتي ہے ? يہ حادثات و واقعات انسان کو اعصابي طور پر کمزور،خستہ تن اور اس کي روح کو بوجھل اور طبيعت و مزاج کو چڑچڑا بناديتے ہيں .ايسي حالت ميں جب انسان گھر کي خوشگوار فضا ميں قدم رکھتا ہے تو اُس گھر کا روح افزا ماحول اور سکون بخش نسيم اُسے توانائي بخشتي ہے اور اُسے ايک نئے دن و رات اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ خدمت و فعاليت انجام دينے کيلئے آمادہ و تيار کرتي ہے . اسي لئے خانداني نظام زندگي يا گھرانے، انساني حيات کي تنظيم ميں بہت کليدي کردار ادا کرتے ہيں . البتہ يہ بات پيش نظر رہے کہ گھر کو صحيح روش اور اچھے طريقے سے چلانا چاہيے . 2
رشتہ ازدواج کے بندھن ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا اور گھر بسانا، مياں بيوي کيلئے زندگي کا سب سے بہترين ہديہ اور سب سے اہم ترين زمانہ ہے ? يہ روحاني آرام و سکون ، زندگي کي مشترکہ جدوجہد کيلئے ايک دوسرے کو دلگرمي دينے، اپنے ليے نزديک ترين غمخوار ڈھونڈھنے اور ايک دوسرے کي ڈھارس باندھنے کا ايک وسيلہ ہے کہ جو انسان کي پوري زندگي کيلئے اشد ضروري ہے. 3
گھريلو فضا ميں خود کو تازہ دم کرنے کي فرصت
ايک گھر ميں رہنے والے مياں بيوي جو ايک دوسرے کي زندگي ميں شريک اور معاون ہيں، گھر کے پرفضا ماحول ميں ايک دوسرے کي خستگي ، تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا شکار کرنے والي يکسانيت کودور کرکے کھوئي ہوئي جسماني اور ذہني قوتوں کو بحال اور اپني ہمت کو تازہ دم کرکے خود کو زندگي کي بقيہ راہ طے کرنے کيلئے آمادہ کرسکتے ہيں .
-----------
1 خطبہ نکاح 29/5/2002
2 خطبہ نکاح 19/1/1998 3 خطبہ نکاح29/2/2001
آپ جانتے ہيں ہيں کہ زندگي ايک ميدان جنگ ہے /پوري زندگي عبادت ہے ايک بڑي مدت والي جنگ سے، فطري و طبيعي عوامل سے جنگ، اجتماعي موانع سے جنگ اور انسان کي اپني اندروني دنيا سے جنگ کہ جسے جہاد نفس کہا گيا ہے . لہذا انسان ہر وقت اس حالت جنگ ميں ہے . انسان کا بدن بھي ہر وقت جنگ ميں مصروف عمل ہے اور وہ ہميشہ مضر عوامل سے جنگ ميں برسرپيکار ہے .جب تک بدن ميں اس لڑائي کي قدرت اور قوت مدافعت موجود ہے آپ کا جسم صحيح و سالم ہے ? ضروري بات يہ ہے کہ انسان ميں يہ مبارزہ اورجنگ ، درست سمت ميں اپني صحيح اور اچھي روش و طريقے اور صحيح عوامل کے ساتھ انجام پاني چاہيے .
زندگي کي اس جنگ ميں کبھي استراحت و آرام لازمي ہوتا ہے .زندگي ايک سفر اور مسلسل حرکت کا نام ہے اور اس طولاني سفر ميں انسان کي استراحت گاہ اس کا گھر ہے 1
دينداري ، خاندان کي بقا کا راز
اپنے گھر کو آباد کرنے اور اس کي حفاظت کيلئے اسلامي احکام کا خيال رکھنا ضروري ہے تاکہ يہ گھر ہميشہ آباد اور خوشحال رہے ? لہ?ذا آپ ، ديندار گھرانوں ميں کہ جہاں مياں بيوي اسلامي احکامات کا خيال رکھتے ہيں، ديکھيں گے کہ وہ سالہا سال مل جل کر زندگي بسر کرتے ہيں اور مياں بيوي کي محبت ايک دوسرے کيلئے ہميشہ باقي رہتي ہے، ہرگزرنے والا دن اُن کي چاہت ميں اضافہ کرتا ہے، ايک دوسرے سے جدائي اور فراق کا تصور بھي دونوں کيلئے مشکل ہوجاتا ہے اور اُن دونوں کے دل ايک دوسرے کي محبت سے سرشار ہوتے ہيں . يہ ہے وہ محبت و چاہت جو کسي گھرانے يا خاندان کو دوام بخشتي ہے اور يہي وجہ ہے کہ اسلام نے ان چيزوں کو اہميت دي ہے2
اگر اسلام کے بتائے ہوئے طريقے اور روش پر عمل درآمد کيا جائے تو ہمارا خانداني نظام پہلے سے زيادہ مستحکم ہوجائے گا کہ جس طرح گزشتہ زمانے ميں_ طاغوتي دور حکومت ميں_ جب لوگوں کا ايمان ، سالم اور محفوظ تھا اور ہمارے گھرانے اور خانداني نظام مضبوط اور مستحکم تھے تو اس ماحول ميں مياں بيوي ايک دوسرے سے پيار کرنے والے تھے اور گھر کے پرسکون ماحول ميں اپني اولاد کي تربيت کرتے تھے اور آج بھي يہي صورتحال ہے ؟ وہ گھرانے اور خاندان جو اسلامي احکامات اور آداب کا خيال رکھتے ہيں وہ غالباً دوسروں کي بہ نسبت زيادہ مضبوط ومستحکم اور بہتر ہوتے ہيں اور وہ اپنے بچوں کو پرسکون ماحول فراہم کرتے ہيں 1.
-----------
1 خطبہ نکاح 29/5/2002
2 خطبہ نکاح 13/3/2002
دينداري ، خاندان کي حقيقي صورت
اسلامي معاشرے ميں مياں بيوي، زندگي کے سفر ميں ايک ساتھ، ايک دوسرے سے متعلق ، ايک دوسرے کي نسبت ذمہ دار، اپني اولاد کي تربيت اور اپنے گھرانے کي حفاظت کے مسؤل اور جوابدہ تصور کيے جاتے ہيں آپ ملاحظہ کيجئے کہ اسلام ميں گھرانے اور خاندان کي اہميت کتني ہے! 2
اسلامي ماحول ميں خاندان کي بنياديں اتني مضبوط اور مستحکم ہيں کہ کبھي آپ ديکھتے ہيں دو نسليں ايک ہي گھر ميں زندگي گزار ديتي ہيں اور دادا، باپ اور بيٹا (پوتا) باہم مل کر ايک جگہ زندگي گزارتے ہيں، يہ کتني قيمتي بات ہے! نہ اُن کے دل ايک دوسرے سے بھرتے ہيں اور نہ ايک دوسرے کي نسبت بدبين و بدگمان ہوتے ہيں بلکہ ايک دوسرے کي مدد کرتے ہيں 3
اسلامي معاشرے ميں يعني ديني اور مذہبي فضا ميں ہم مشاہدہ کرتے ہيں کہ دو آدمي ايک طويل عرصے تک باہم زندگي بسر کرتے ہيں اور ايک دوسرے سے بالکل نہيں اُکتاتے بلکہ ايک دوسرے کيلئے اُن کي محبت و خلوص زيادہ ہوجاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ايک دوسرے کيلئے اُن کي اُلفت، اُنس اور چاہت ميں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور يہ سب آثار ، دينداري ،مذہبي ہونے اور خداوند عالم کے بتائے ہوئے احکامات اور آداب اسلامي کي رعايت کرنے کا ہي نتيجہ ہيں ?4
اسلام اور اسلامي ثقافت و تمدن ميں خاندان کو دوام حاصل ہے گھر ميں دادا، دادي اور ماں باپ سبھي تو موجود ہيں جو اپنے پوتے پوتيوں کو اپنے ہاتھوں سے کھلا کر جوان کرتے ہيں يہي لوگ ہيں جو آداب و رسوم کو آنے والي نسلوں تک منتقل کرتے ہيں اور پچھلي نسل اپنے تاريخي اورثقافتي ورثے کو آنے والي نسلوں کے ہاتھوں ميں باحفاظت تھماتي ہے ايسے ماحول ميں ايک دوسرے کٹ کر رہنے، تنہائي اور عزت نشيني اختيار کرنے اور مہرباني ومحبت سے عاري سلوک روا رکھنے کے تمام دروازے اس گھر کے تمام افراد کيلئے بند ہيں 5
--------------
1 خطبہ نکاح 4/4/1998
2 خطبہ نکاح 9/9/1992
3 خطبہ نکاح 10/1/1993
4 خطبہ نکاح23/3/2001 5 خطبہ نکاح 15/8/1995
اسلامي تعليمات ميں مذہبي گھرانے کے خدوخال
مذہبي گھرانہ، دنيا کيلئے ايک آئيڈيل
الحمد للہ ہمارے ملک اور مشرق کے مختلف معاشروں ميں خصوصا ً اسلامي معاشروں ميں گھرانے اور خاندان کي بنياديں ابھي تک محفوظ ہيں اور خانداني روابط تعلقات ابھي تک برقرار ہيں آپس ميں محبت، خلوص، دلوں کا کينہ و حسد سے خالي ہونا ابھي تک معاشرے ميں موجود ہے بيوي کا دل اپنے شوہر کيلئے دھڑکتا ہے جبکہ مرد کا دل اپني بيوي کيلئے بے قرار رہتا ہے، يہ دونوں دل کي گہرائيوں سے ايک دوسرے کو چاہنے والے اور عاشق ہيں اور دونوں کي زندگي ميں پاکيزگي و نورانيت نے سايہ کيا ہوا ہے اسلامي ممالک خصوصاً ہمارے ملک ميں يہ تمام چيزيں زيادہ ہيں لہذا ان کي حفاظت کيجئے 1
دومختلف نگاہيں مگر دونوں خوبصورت
فطري طور پر مرد کے بارے ميں عورت کي سوچ ، مرد کي عورت کے بارے ميں فکر وخيال سے مختلف ہوتي ہے اور اُسے ايک دوسرے سے مختلف بھي ہونا چاہيے اور اس ميں کوئي عيب اور مضائقہ نہيں ہےمرد، عورت کو ايک خوبصورت، ظريف و لطيف اور نازک و حساس وجود اور ايک آئيڈيل کي حيثيت سے ديکھتا ہے اور اسلام بھي اسي بات کي تائيد کرتا ہے ’’اَلمَرآَُ رَيحَانَ‘‘ ،يعني عورت ايک نرم ونازک اور حسين پھول ہے ، يہ ہے اسلام کي نظرعورت، نرم و لطيف اورملائم طبيعت و مزاج سے عبارت ہے جو زيبائي اور لطافت کا مظہر ہے مرد، عورت کو انہي نگاہوں سے ديکھتا ہے اور اپني محبت کو اسي قالب ميں مجسم کرتا ہے ؟ اسي طرح مرد بھي عورت کي نگاہوں ميں اُس کے اعتماد اور بھروسے کا مظہر اور مضبوط تکيہ گاہ ہے اور بيوي اپني محبت اور دلي جذبات و احساسات کو ايسے مردانہ قالب ميں سموتي اور ڈھالتي ہے .
-----------
1 خطبہ نکاح 22/7/1997
زندگي کي اس مشترکہ دوڑدھوپ ميں مرد و عورت کے يہ ايک دوسرے سے مختلف دو کردار ہيں اور دونوں اپني اپني جگہ صحيح اور لازمي ہيں ? عورت جب اپنے شوہر کو ديکھتي ہے تو اپني چشم محبت و عشق سے اس کے وجود کو ايک مستحکم تکيہ گاہ کي حيثيت سے ديکھتي ہے کہ جو اپني جسماني اور فکري صلاحيتوں اور قوت کو زندگي کي گاڑي کو آگے بڑھانے اور اُس کي ترقي کيلئے بروئے کار لاتا ہے مر د بھي اپني شريکہ حيات کو اُنس و اُلفت کے مظہر، ايثار و فداکاري کي جيتي جاگتي اور زندہ مثال اور آرام و سکون کے مخزن کي حيثيت سے ديکھتا ہے کہ جو شوہر کو آرام وسکون دے سکتي ہے ؟ اگر مرد زندگي کے ظاہري مسائل ميںعورت کا تکيہ گاہ اور اُس کے اعتماد و بھروسے کا مرکز ہے تو بيوي بھي اپني جگہ روحاني سکون اور معنوي امور کي وادي کي وہ باد نسيم ہے کہ جس کا لطيف احساس انسان کي تھکاوٹ و خستگي کو دور کرديتا ہے ؟ گويا وہ انس و محبت، چاہت و رغبت ، پيار و الفت اور ايثار و فداکاري کا موجيں مارتا ہوا بحر بيکراں ہے ؟ يقينا شوہر بھي محبت، سچے عشق اور پيار سے سرشار ايسي فضا ميں اپنے تمام غم و اندوہ ، ذہني پريشانيوں اور نفسياتي الجھنوں کے بار سنگين کو اتار کر اپني روح کو لطيف وسبک بناسکتا ہے ؟ يہ ہيں مياں بيوي کي روحي اور باطني قدرت و توانائي؟ 1
حقيقي اور خيالي حق
کسي بھي قسم کے ’’حق‘‘ کا ايک فطري اور طبيعي منشا سبب ہوتا ہے ، حقيقي اور واقعي حق وہ ہے کہ جو کسي فطري سبب سے جنم لے يہ حقوق جو بعض محفلوں 2 ميں ذکر کيے جاتے ہيں، صرف توہمات اور باطل خيالات کا پلندا ہيں
مرد وعورت کيلئے بيان کيے جانے والے حقوق کو اُن کي فطري تخليق ، طبيعت و مزاج اور ان کي بدني طبيعي ساخت کے بالکل عين مطابق ہونا چاہيے 3
آج دنيا کے فيمنسٹ (Femuinism) يا حقوق نسواں کے ادارے کہ جو ہر قسم کے مرد و عورتوں سے بھرے پڑے ہيں، حقوق نسواں کے دفاع کے نعرے سے سامنے آتے ہيں ? ميري نظر ميں يہ لوگ حقوق نسواں کي الف ب سے بھي واقف نہيں ہيں کيونکہ حق و حقوق کوئي ايسي چيز نہيں ہے کہ جنہيں گڑھا يا اختراح کيا جاسکے اور ان کا حقيقت سے کوئي رابطہ نہ ہو بلکہ ان سب حقوق کا ايک فطري منشا و سبب ہے 1
2 اشارہ ہے حقوق نسواں، انساني حقوق کے کميشن اورمختلف ممالک ميں ان کے ذيلي اداروں اورNGOکے بے بنياد فرضيوں اور ايجنڈوں کي جانب جو از خود مرد و عورت کيلئے حقوق اختراح کرتے پھرتے ہيں ? (مترجم) 3 خطبہ نکاح 12/3/1999
------------
1 خطبہ نکاح 28/9/2002
خوش بختي کا مفہوم
خوش بختي عبارت ہے روحي آرام و سکون ، سعادت اور امن کے احساس سے 2 بڑے بڑے فنکشن اور اسراف وفضول خرچي کسي کو خوش بخت نہيں بناتے ؟ اس طرح مہر کي بڑي بڑي رقميں اورجہيز کي بھر مار بھي انساني سعادت و خوش بختي ميں کسي بھي قسم کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے يہ صرف شريعت ہي کي پابندي ہے کہ جو انسان کو خوش بخت بناتي اور سعادت سے ہمکنار کرتي ہے 3
ايک دوسرے کو جنتي بنائيے
شادي اور شريکہ حيات کا انتخاب انساني قسمت ميں کبھي موثر کردار ادا کرتاہے بہت سي ايسي بيوياں ہيں جو اپنے شوہروں کو اور بہت سے مرد اپني بيويوں کو جنتي بناتے ہيں اور صورتحال اس کے برعکس بھي پيش آتي ہے اگر مياں بيوي اس اہم مرکز ’’گھر‘‘ کي قدر کريں اور اس کي اہميت کے قائل ہوں تو ان کي زندگي امن و سکون کوگہواہ بن جائے گي اور اچھي شادي کي برکت سے انساني کمال کا حصول مياں بيوي کيلئے آسان ہوجائے گا4
کبھي ايسا بھي ہوتا ہے کہ مرد زندگي ميں ايسے دوراہے پر جاپہنچتا ہے کہ جس ميں ايک راہ کا انتخاب اُس کيلئے ضروري ہوتا ہے کہ وہ دنيا يا صحيح راہ اور امانت داري و صداقت ميں سے کسي ايک کو منتخب کرے يہاں اس کي بيوي اہم کردار ادا کرتي ہے کہ اُسے پہلے يا دوسرے راستے کي طرف کھينچ کر لے جائے صورتحال اس کے برعکس بھي ہوتي ہے کہ شوہر حضرات بھي اپني شريکہ حيات کيلئے موثر ثابت ہوسکتے ہيں آپ سعي کيجئے کہ آپ دونوں اچھي راہ کے انتخاب ميں ايک دوسرے کي مدد کريں
آپ کوشش کريں کہ دينداري ،خدا اوراسلام کي راہ ميں قدم اٹھانے ، حقيقت ، امانت اور صداقت کي راہ ميں اپنا سفرجاري رکھنے کيلئے ايک دوسرے کي مدد کريں اور انحراف اورلغزش سے ايک دوسرے کي حفاظت کريں 2?
----------
1 حوالہ سابق
2 خطبہ نکاح0 20/6/200
3 خطبہ نکاح 30/5/1996
4 خطبہ نکاح 30/5/1996
5 خطبہ نکاح 12/3/2001
اسلامي انقلاب کي کاميابي سے قبل اور ا س کے بعد ابتدائي سخت سالوں اورجنگ کے مشکل زمانے ميں بہت سي خواتين نے اپنے صبر و تعاون سے اپنے شوہروں کو جنتي بناليا? مرد مختلف قسم کے محاذوں پرگئے اور انہوں نے گونا گوں قسم کي مشکلات اورخطرت کو مول ليا، يہ خواتين گھروں ميں تنہا رہ گئيں اور انہوں نے تن تنہا مشکلات کا مقابلہ کيا ليکن زبان پر کسي قسم کا شکوہ نہيں لائيں اور يوں انہوں نے شوہروں کوبہشت بريں کا مسافر بنايا? جبکہ وہ ايسا بھي کرسکتي تھيں کہ ان کے شوہر ميدان جنگ جانے اور جنگ کرنے سے پشيمان ہوجائيں مگر انہوں نے ايسا نہيں کيا اور صبر کادامن ہاتھ سے نہيں چھوڑا بہت سے ايسے شوہر تھے کہ جنہوں نے اپني بيويوں کو جنت کا راہي بنايا ان کي ہدايت ، تعاون، دستگيري اورمدد سے يہ خواتين اس قابل ہوئيں کہ خدا کي راہ ميں حرکت کرسکيں
صورتحال اس کے برعکس بھي ہے بہت سي خواتين اور مرد ايسے تھے کہ جنہوں نے ايک دوسرے کو جہنمي بنايا آپ کو چاہيے کہ ايک دوسرے کي مدد کريں اور ايک دوسرے کو جنتي اور سعادت مند بنائيں ? آپ کي کوشش ہوني چاہييے کہ تحصيل علم، کمال کے حصول ، پرہيز گاري ، تقوي? کے ساتھ سادہ زندگي گزارنے کيلئے ايک دوسرے کي مدد کريں1
ايک دوسرے کو خوش بخت کيجئے
بہت سي بيوياں اپنے شوہروں کو جنتي اور بہت سے مرد اپني بيويوں کو حقيقتاً سعادت مند بناتے ہيں جبکہ اس کے برخلاف بھي صورتحال تصور کي جاسکتي ہے ? ممکن ہے کہ مرد اچھے ہوں ليکن اُن کي بيوياں انہيں اہل جہنم بناديں يا بيوياں اچھي اور نيک ہوں مگر اُن کے شوہر انہيں راہ راست سے ہٹاديں اگرمياں بيوي ان مسائل کي طرف توجہ رکھيں تو اچھي باتوں کي تاکيد ، بہترين انداز ميں ايک دوسرے کي اعانت و مدد اور گھر کي فضا ميں ديني اوراخلاقي احکامات کو زباني بيان کرنے سے زيادہ اگر عملي طور پر ايک دوسرے کے سامنے پيش کريں اور ہاتھ ميں ہاتھ ديں تو اس وقت ان کي زندگي کامل اورحقيقتاً خوش بخت ہوگي 2
-----------
1خطبہ نکاح 13/3/2000 2 خطبہ نکاح 2/3/1998
ايک مرد اپني ہمدردانہ نصيحتوں ، راہنمائي ،وقت پر تذکر دينے اوراپني بيوي کي زيادہ روي ،زيادتي اور اس کے بعض انحرافات کا راستہ روک کر اُسے اہل جنت بناسکتا ہے البتہ اُس کے برعکس بھي اس کي زيادتي، ہوس، بے جا توقعات اور غلط روش کي اصلاح نہ کرتے ہوئے اُسے جہنمي بھي بناسکتا ہے 1
حق بات نصيحت اورصبر کي تلقين
مياں بيوي کے دلوں کے ايک ہونے اورايک دوسرے کي مدد کرنے کا معني يہ ہے کہ آپ راہ خدا ميں ايک دوسرے کي مدد کريں ’’تَوَاصَوا بِالحَقِّ وَتَوَاصَوا بِالصَبرِِ‘‘ ،يعني حق بات کي نصيحت اور صبر کي تلقين کريں
اگر بيوي ديکھے کہ اُس کا شوہر انحراف کا شکار ہورہا ہے ، ايک غير شرعي کام انجام دے رہا ہے يا رزق حرام کي طرف قدم بڑھارہا ہے اور غير مناسب دوستوں کے ساتھ اٹھنے بيٹھنے لگا ہے تو سب سے پہلے جو اُسے تمام خطرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے ، وہ اس کي بيوي ہے يا اگر مرد اپني بيوي ميں اس قسم کي دوسري برائيوں کامشاہدہ کرے تو اُسے بچانے والوں ميں سب سے پہلے اس کا شوہر ہوگا البتہ ايک دوسرے کو برائيوں سے بچانا اور خطرات سے محفوظ رکھنا محبت ، ميٹھي زبان ، عقل و منطق کے اصولوں کے مطابق ،حکيمانہ اورمدبرانہ رويے کے ذريعے سے ہو نہ کہ بداخلاقي اور غصے وغيرہ کے ذريعے يعني دونوں کي ذمے داري ہے کہ وہ ايک دوسرے کي حفاظت کريں تاکہ وہ راہ خدا ميں ثابت قدم رہيں 2
ايک دوسرے کا ساتھ ديں اور مدد کريں خصوصاًديني امور ميں اگرآپ يہ ديکھيں کہ آپ کا شوہر يا بيوي نماز کي چور ہے، دونوں ميں کوئي ايک نماز کو کم اہميت ديتا ہے، سچ بولنے يا نہ بولنے ميں اُسے کوئي فرق نہيں پڑتا، شوہر لوگوں کے مال ميں بے توجہي سے کام ليتا ہے اوراپنے کام سے غير سنجيدہ ہے تو يہ آپ کا کام ہے کہ اُسے خواب غفلت سے بيدار کريں، اُسے بتائيے، سمجھائيے اور اس کي مدد کيجئے تاکہ وہ اپني اصلاح کرے
اگر آپ ديکھيں کہ وہ محرم ونامحرم ، پاک و نجس اورحلال و حرام کي پرواہ نہيں کرتا اور اُن سے بے اعتنائي برتتا ہے تو آپ اُسے متوجہ کريں، اُسے تذکر ديں اور اُس کي مددکريں تاکہ وہ بہتر اور اچھا ہوجائے يا وہ جھوٹ بولنے يا غيبت کرنے والا ہو تو آپ کي ذمہ داري ہے کہ اُسے سمجھائيے نہ کہ اُس سے لڑيں جھگڑيں،نہ کہ اپنے گھر کي فضا خراب کريں اور نہ اس شخص کي مانند اسے زباني نصيحت کريں جو الگ بيٹھ کر صرف زباني تنقيد کے نشتر چلاتا ہے 3
-----------
1 خطبہ نکاح 20/9/1999
2 خطبہ نکاح 12/11/2000
3 خطبہ نکاح 4/9/1995
تحرير : صبیحه سجاد
رہبر معظم کی 29 فروردین اور یوم فوج کی آمد کے موقع پر بعض اعلی فوجی کمانڈروں اور اہلکاروں سے ملاقات
۲۰۱۳/۰۴/۱۷- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے آج ( بروز بدھ) سہ پہر کو 29 فروردین کی آمد اور اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے دن کی مناسبت سے فوج کے بعض اعلی کمانڈروں،ممتاز اہلکاروں، فوج کی رضاکار یونٹوں کے ارکان اور اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجیوں کے بعض خاندانوں کے ساتھ ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو باعث فخر ، مایہ ناز، عوامی ، علمی، اعتقادی اور گوناگوں صلاحیتوں کی حامل ،آزمودہ اور تجربہ کار فوج قراردیا اور امریکہ کی سرپرستی میں سامراجی محاذ کے غیر منطقی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج مغربی تمدن ، متضاد، غیر منطقی اور منہ زور پالیسیوں اور انسانی اصولوں پر عدم توجہ کی وجہ سے تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کی خاص خصوصیات کی تشریح میں ایرانی فوج کے عوامی ہونے کی اہم خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اسلامی جمہوری نظام میں عوام ،فوج کی تعظیم و تکریم اس کی منہ زوری اور قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ فوج کی فداکاری ، ایثار اور مجاہدت کی وجہ سے کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو عوامی حمایت اور پشتپناہی حاصل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فوج کی علمی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مسلح افواج بالخصوص فوج میں علمی اور تحقیقاتی امور بالخصوص دفاعی صنعت اور الیکٹرانک شعبہ میں وسیع ، حیرت انگیز اور خاطر خواہ پیشرفت حاصل ہوئی ہے جس کا انقلاب اسلامی سے قبل، حتی انقلاب اسلامی کے آغاز کے دور سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایسے شرائط میں یہ تمام ترقیات حاصل ہوئيں ہیں جب بد نیت دشمنوں نے ایرانی قوم کو معمولی وسائل دینے میں بھی بخل کیا لیکن ایرانی جوانوں کی اندرونی صلاحیتوں اور ایرانی قوم کی داخلی توانائیوں کی بدولت یہ حیرت انگیز کارنامہ خلق ہوا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی فوج کی دینی اور اعتقادی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دینی ، انقلابی جذبے اور ذمہ داری کے احساس کی بنیاد پر کام کرنے کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج دینی و مذہبی اقدار اور اعتقادات کی پابند فوج میں تبدیل ہوگئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: یقینی طور پر ایسی فوج ہر امتحان میں کامیاب اور سربلند رہےگي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 8 سالہ دفاع مقدس میں ایرانی فوج کے تجربات کو ایرانی فوج کی ایک اہم خصوصیت قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج نے دفاع مقدس کے دوران مختلف کارروائیوں میں ممتاز نقش ایفا کیا اور بڑے اور نمایاں کام انجام دیئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ اپنے فوجی ہونے پر فخر کریں اور اپنی ہمت کو ان تمام خصوصیات کی حفاظت اور تقویت کے لئے صرف کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی افواج اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کےدرمیان نمایاں فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:فوج، سپاہ اور رضاکار فورس نے دنیا کے سامنے ایک نئی ثقافت اور نئی حقیقت پیش کی ہے جو دنیا کی زیادہ تر تسلط پسند اور سامراجی فوجوں کے مقابلے میں شاندار نمونہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سامراجی محاذ بالخصوص امریکی فوجی مجموعہ کے تسلط پسندانہ عزائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی و سامراجی فوجی جہاں کہیں بھی جاتے ہیں وہاں قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا بازآر گرم کرتے ہیں اور غیر اخلاقی حرکتیں اور فتنہ و فساد برپا کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مخالفت پر مبنی امریکیوں کے دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی دعوے کے برعکس امریکہ کے ڈرون طیارے افغانستان اور پاکستان میں بچوں ، عورتوں اور بےگناہ افراد کا قتل عام کررہے ہیں اور عراق اور شام میں امریکہ کی خفیہ اور آشکارا حمایت پانے والےدہشت گرد بےگناہ افراد کو بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ قتل کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امریکہ کی عالمی امور میں متناقض اور متضاد پالیسی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ اور انسانی حقوق کے دوسرے مدعی پاکستان، افغانستان، عراق اور شام میں بےگناہ عوام کے قتل عام پر خاموشی اور سکوت اختیار کرتےہیں ، لیکن امریکہ میں چند بم دھماکوں کے بعد پوری دنیا میں شور و غل مچا دیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ اور انسانی حقوق کے دوسرے دعویداروں کی بےگناہ عوام کے قتل عام کے بارے میں رفتار متضاد اور متناقض ہے اور اسی بنیاد پر ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مد مقابل امریکی محاذ غیر منطقی محاذ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج مغربی تمدن ، انہی متضاد، غیر منطقی اور منہ زور پالیسیوں، اور انسانی اصولوں پر عدم توجہ کی وجہ سے تباہی اور بربادی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ کیسی منطق ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں امریکہ بچوں ، عورتوں اور بےگناہ افراد کو قتل کرے اور شام میں امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گرد خوفناک اور المناک حوادث کو جنم دیں تو کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر امریکہ یا کسی مغربی ملک میں ایک بم دھماکہ ہوجائے تو اس کا تاوان پوری دنیا کو ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ امریکی اور مغربی سوچ و فکر اور نظریہ ہے کہ وہ خود کو دوسروں سے برتر اور الگ سمجھتے ہیں اور یہی فکر ان کی روز افزوں تباہی، بربادی اور زوال کا اصلی سبب ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام میں حاکم منطقی افکار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان منطقی افکار کی بنیاد ایک گہرے اور پائدار تمدن پر استوار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں فوجیوں کے خاندانوں ، ہمسروں اور بچوں کی فداکاری، ہمراہی، اور ہمدلی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: فوجیوں کے محترم اہلخانہ کو اپنے ایسے مردوں پر ہمیشہ فخر اور ناز کرنا چاہیے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل مسلح فوج کے کمانڈر میجر جنرل صالحی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی آمادگی اور توانائیوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کے بعض جانباز اور معذور اہلکاروں نے رہبر معظم انقلاب کے ساتھ قریب سے ملاقات کی۔