Super User

Super User

امام راحل کی 24 ویں برسی، تہران میں 30 ہزار پولیس اہلکار تعیناتاسلامی جمہوریہ ایران کے پولیس چیف نے کہا ہےکہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی چوبیسویں برسی کے پروگراموں کے موقع پر تہران میں تیس ہزار پولیس اھلکار تعینات رہیں گے۔ مھر نیوز کے مطابق جنرل اسماعیل احمدی مقدم نےآج تہران میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس سال امام خمینی رح کی برسی کے پروگراموں کے موقع پر تیس ہزار پولیس اھلکار تعینات رہیں گے جو ٹریفک کنٹرول اور سکیوریٹی فراہم کرنے کی ذمہ داریاں انجام دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس موقع پر چھے ہزار چھے سو موبائيل یونٹ بھی سرگرم رہیں گے اور ہیلی کاپٹروں سے بھی نظر رکھی جائے گي۔ جنرل احمدی مقدم نے کہا کہ امام خمینی کی برسی کےموقع پر بیس لاکھ سے زائد زائر ایران اور مختلف ملکوں سے آئيں گے اور تیس ہزار بسوں کو زائرین کی سہولت کے لئے پرمٹ دئے گئے ہیں۔ واضح رہے اسلامی جمہوریہ ایران میں چار جون کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی چوبیسویں برسی منائي جائے گي۔

شام، مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام شہیدشام میں النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےعین العروس نامی علاقے میں جو شام کے شمال میں واقع ہے مسلمانوں کی اھم زیارتگاہ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کر دیا۔النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےاس گھناونے اقدام کے بعد انٹر نیٹ پر اس کی ویڈیو بھی نشر کی۔

شام میں مقام حضرت ابراھیم(ع) ایک تاریخی اور قدیم ترین آثار میں سے تھا۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی وہابیت کے ٹکڑوں پر پلنے والے النصرہ کے ایجنٹوں نے پیغمبر اسلام کے جلیل القدر صحابی حجر ابن عدی کے مرقد مطہر پر حملہ اور نبش قبر کرکے ان کی ضریح مبارک کو مسمارکردیا اور ان کے جسد اطہر کو جو چودہ سو برسوں کے بعد آج بھی تر وتازہ اور خون آلود تھا نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ نبش قبر جیسے غیرانسانی فعل کی نسبت کسی بھی مسلمان کی طرف نہیں دی جاسکتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سینکڑوں بے گناہ بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کا خون بہاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ نوجوانوں کی گردنوں کو بڑی بے رحمی سے تلواروں سے اڑاکر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور پھر ان لاشوں کی تصاویر کو انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ پر نشر کرتے ہیں اور خود کو مسلمان ثابت کرکے اسلام کا بدترین چہرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ اقدام ان دہشت گرد عناصر نے کیا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اپنی دہشتگردی کو جہاد کا مقدس نام بھی دیتے ہیں۔ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کر کے اسکی مسماری ان دہشت گردوں کا پہلا گھناونا اقدام نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ان دہشت گردوں نے اسلامی مقدسات اور تاریخ اسلام کی اہم شخصیات کے مزارات کو نشانہ بنایا ہے اور ان کے آقاؤں نے انہدام جنت البقیع جیسا فعل انجام دیا تھا۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) کی نواسی اور سیدالشہداء امام حسین کی ہمشیرہ گرامی حضرت زينب (س) کے مزار کو مارٹر گولوں سے تباہ کرنے کی بارہا کوشش کی ہے۔ یہ دہشت گرد صرف مزارات کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ شام کے نہتے شہری بھی انکی بربریت سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے اندر انتہاء پسندی کی بنیاد رکھنے میں سعودی عرب کا بنیادی ہاتھ ہے، البتہ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ سعودی عرب کے ہر اقدام کے پیچھے امریکی اور برطانوی استعمار کا ہاتھ ہوتا ہے، اور اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سعودی عرب اور اسکے بعض عرب اتحادی سلفیت اور تکفیری گروہوں کے ذریعے شام سمیت کئی ملکوں میں امریکی ایجنڈے کو آگئے بڑھا رہے ہیں۔شام میں ہونے والی دہشت گردی میں قطر اور سعودی عرب کا ہاتھ بہت ہی واضح ہے اور وہ میڈیا کے ذریعے واضح طور پر اس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ قطر، سعودی عرب اور ترکی شام میں بہنے والے خون کے ہر قطرے اور اسلامی مقدسات کی توہین کے ذمہ دار ہیں اور عالمی برادری کو چاہیے کو وہ ان ممالک کو شامی دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور انہیں ہتھیار فراہم کرنے سے روکے۔

شام میں موجودہ حوادث کے آغاز میں اپریل کے مہینے میں سعودی ولی عہد نائف بن عبدالعزیز نے سعودی جیلوں کا دورہ کیا تھااور القاعدہ کے گرفتار افراد کو شام میں کردار ادا کرنے کی شرط پر رہا کر دیا۔ الظواہری نے گزشتہ جون میں اپنے بیان میں شام کی موجودہ حکومت کے خاتمے کی حمایت کی تھی، علاوہ ازیں مختلف ذرائع کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان، عراق اور یمن سے القاعدہ کے سینکڑوں اراکین کو شام روانہ کیا گیا ہےلہزا شام میں القاعدہ اور النصرہ میں کوئی فرق نہیں

شام کے سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار ریاض الاخرس نے بھی القاعدہ اور امریکہ کے مابین شامی حکومت کے خاتمے کے لیے ہم آہنگی کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں کا اتحاد دراصل وائٹ ہاﺅس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہ فقط شام کے ہمسایہ ممالک سے القاعدہ کے ارکان کو رہا کرکے شامی سرحدوں کے قریب بھجوایا گیا ہے، بلکہ برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک سے بھی القاعدہ کے اراکین کو آزاد کرکے اردن وغیرہ بھجوایا گیا ہے، تاکہ انھیں حسب ضرورت شام روانہ کیا جائے اور وہ شام میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں جیسی کارروائیاں کرسکیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسا بڑا ہدف ہے جس نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور القاعدہ وغیرہ کو یکسو کر دیا ہے۔ شام میں ان قوتوں کے اتحاد کا مقصد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ سب قوتیں عوام دوست اور جمہوریت پسند ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ”ہاں“ وہی کہے گا جو احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور اردن کی موجودہ خاندانی بادشاہتوں کے سرپرستوں کو جمہوریت کتنی عزیز ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔

 

القاعدہ کی ہر کارروائی آج تک امریکہ اور اس کے دوستوں کے مفاد میں تمام ہوئی اور اس کی ہر ضرب کا زخم ہمیشہ مسلمانوں کے بدن پر لگا ہے۔ آج اسرائیل، امریکہ اور القاعدہ شام میں پھر ایک ہوگئے ہیں تو اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے شام کی موجودہ حکومت کا طویل عرصے سے اسرائیل کے خلاف جرات مندانہ موقف۔

شام میں النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےعین العروس میں واقع مسلمانوں کی اھم زیارتگاہ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کیا ہے اور یہ وہی عمل ہے جسکا ارتکاب القاعدہ اور اسکے ہم فکر سلفی و وہابی گروہ اس سے پہلے کرتے رہے ہیں

عراقی صوبی بصرہ میں ہزاروں افراد کا امام خمینی کو خراج عقیدتعراق کے جنوبی صوبے بصرہ میں حضرت امام خمینی قدس سرہ کی چوبیسویں برسی کی مناسبت سے پروگرام ہوئے ہیں۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق یہ پروگرام الرافدین ادارے نے کرائے ہیں اور ان میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ ان پروگراموں میں شریک افراد نے حضرت امام خمینی قدس سرہ کو خراج عقیدت پیش کرتےہوئے کہا کہ آپ نے ڈٹ کر سامراج کا مقابلہ کیاتھا۔ پروگرام میں شریک افراد نے آپ امت اسلام میں اتحاد قائم کرنے کی آپ کی نصحیتوں پرعمل کرنے کی ضرورت پرتاکید کی۔ الرافدین ادارے کے سربراہ نے اس موقع پر کہا کہ امام خمینی نے علماء دین کی روشن تصویر اور امت اسلام کی رہبری میں ان کے کردار کو واضح کیا ہے۔ بصرہ انتظامی کونسل کے رکن احمد السلیطی نے کہا کہ امام خمینی مظلوموں کے حامی تھے اور آپ نے ظالموں اور سامراج کے مقابل قیام کرکے عدل و انصاف اور اسلا م کے اصولوں پر حکومت قائم کی۔ ہر سال چار جون کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی برسی منائي جاتی ہے۔

مکتب اہلیبیت ع سے آشنائی، امام خمینی کا کارنامہ

ترکی میں اھل بیت فاونڈیشن کے سربراہ فرمانی آلتون نے کہا ہے کہ حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اھل عالم کو مکتب اھل بیت علیھم السلام سے آشنا کراکر قوموں کوبیدار کیا ہے۔ فرمانی آلتون نے کہا کہ حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اھل عالم کو مکتب اھل بیت علیھم السلام سے آشنا کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے حقیقی اسلام محمدی کی بنیادوں پر اسلامی حکومت قائم کرنے میں امام خمینی کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب نے دنیا کے حالات میں اہم کردار ادا کیا ہے ا ور اسلامی بیداری میں اس کی نشانیاں دکھاي دے رہی ہیں۔ انہون نے کہا کہ حضرت امام خمینی کی ھدایات نے مسلمانوں کو سامراج کے تسلط سے نجات دلائي ہے۔ انہوں نے سامراج کے مقابل ملت اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ قران و اھل بیت کی پیروی مسلمانوں کو اس منزل تک پہنچاسکتی ہے۔ ادھر صربیہ یونیورسٹی کے پروفیسر رادہ بوژوویچ نے کہا ہےکہ امام خمینی کے افکار و نظریات نے مسلمانوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ صربیہ کی یونیورسٹی کے اس پروفیسر نے بانی انقلاب اسلامی کو خراج عقیدت پیش کرتےہوئے کہا کہ امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے ارینا کو علاقے کی بڑی طاقت میں تبدیل کردیا اور عالمی سطح پر دنیا میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بنا۔ صربیہ کے اس ماہر مشرقیات نے امام خمینی قدس سرہ کو بیسویں صدی کاعظیم ترین سیاسی چہرہ قراردیا۔

حزب اللہ کی جانب سے امریکی پالیسیوں کی مذمتحزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ شام میں بحران پیدا کرنے کا امریکی مقصد صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کو کمزور بنانا ہے۔ المنار ٹی وی کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے شام کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی مذمت کرتےہوئے کہا کہ امریکہ نے صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کو کمزور بنانے کے لئے شام کے خلاف سازشیں رچی ہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ شام اس وقت صیہونی حکومت کے خلاف جاری استقامت کی حمایت اور علاقے کو جنگ کی آگ سے بچانے کے لئے اپنی ساری توانائي سے صیہونی حکومت اور امریکہ کی سازشوں کا مقابلہ کررہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے کہا کہ امریکہ کو شام کے عوام کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شام کے سیاسی عمل میں تمام پارٹیاں اور دھڑے شامل ہوں اور امریکہ ملت شام کے خلاف اپنی سازشوں سے دستبردار ہوجائ۔ شیخ نعیم قاسم نے بیروت کے جنوبی علاقے پر میزائل حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کامقصد لبنان میں فتنہ بھڑکانا ہے اور حزب اللہ ان فتنوں کا بھرپور طرح سے مقابلہ کرے گي۔

انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر

اسلام میں انسانی حقوق توحیدی فکروسوچ پر استوار ہیں کہ جس نے اسلامی حقوق بشر کو مغربی حقوق بشر سے ممتاز کر دیا ہے۔ اسلام انسانی حقوق کو انسانی عزت و کرامت کا لازمہ سمجھتا ہے کیونکہ دینی نظریے کے مطابق انسان زمین میں خدا کا جانشین ہے اور اس لحاظ سے عزت و تکریم کا لائق و سزاوار ہے۔

خداوند متعال نے عالم ہستی کو بہترین انداز میں پیدا کیا ہے تاکہ انسان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو احسن انداز سے پورا کر سکے۔ اسی لیے جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اسے انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے اور اپنی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسان کا ہاتھ کھلا رکھا ہے۔ لیکن انسان اپنے وجود اور عالم ہستی کی حقیقت کی تفسیر میں تضاد اور شش و پنج کا شکار ہو گیا ہے اور آفرینش اور معقول زندگی کے راستے سے بھٹک کر حرص و لالچ اور جاہ طلبی میں پڑ گیا ہے اور اس نے اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسرے انسانوں کے حقوق کو پامال کرنا شروع کر دیا۔

دھمکی، امتیاز، بدامنی، فقر و غربت، بھوک اور جنگ و جدل انسانی معاشرے کی تاریخ کے تاریک پہلو ہیں کہ جن کے برے اثرات آج بھی انسانی معاشروں اور قوموں پر سایہ فگن دکھائی دیتے ہیں۔

انسانی حقوق قدیم یونان میں صرف معاشرے کے ممتاز اور خاص طبقے کے لیے تھے۔ دین مسیح کے پیروؤں کے ساتھ روم کی قدیم بادشاہتوں کا ظالمانہ رویہ انسانی معاشرے کے ساتھ ظلم و جارحیت کا ایک نمونہ ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کے حقوق سے بےاعتنائی آہستہ آہستہ ایک معمول کی چیز بن گئی۔ جنگ و خونریزی کے ایک دور کے بعد مختلف منشور اعلامیے اور دستاویزات تیار کی گئيں کہ جن کو تیار کرنے والوں نے انسانی معاشروں کے دکھوں کے مداوا کے لیے انسانی حقوق کی بات کی اور انہوں نے طے کیا کہ معاشرے کی زندگی کو ایک اصول کے تابع کیا جائے کہ جو فردی اور اجتماعی حقوق کا ضامن ہو۔

انسانی حقوق کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں میں سے ایک انیس سو اڑتالیس میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ تھا۔ یہ اعلامیہ جو اس سے پہلے کے منشوروں اور اعلامیوں سے کامل تر نظر آتا ہے، انسان کی فردی اور اجتماعی آزادیوں اور بہت سے بنیادی حقوق کا حامل ہے اور اس نے قوموں میں اس امید کو زندہ کیا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے پر عمل درآمد سے ان کے تمام حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔

انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ ان حکومتوں کی مشترکہ فکر و سوچ کا نتیجہ ہے کہ جو واضح طور پر مغربی لبرل ازم کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں۔ اگرچہ یہ اعلامیہ بہت سی قانونی تبدیلیوں کا باعث بنا لیکن اس میں پائے جانے والے نقائص، اس کی من پسند تشریح اور اس پر عمل درآمد کے طریقۂ کار نے بہت سے انسانوں کو اپنے حقوق تک پہنچنے کے سلسلے میں مشکل سے دوچار کر دیا۔

دوسری جانب اسلام ایک ایسا مکمل ضابطۂ حیات ہے کہ جس میں انسانی حقوق کے بارے میں مکمل معیارات اور قوانین موجود ہیں۔ حقوق بشر کے بین الاقوامی معیارات میں مقرر کیے گئے انسانی حقوق اور اسلامی انسانی حقوق میں بہت سے مشترکات پائے جاتے ہیں۔ جیسے زندگی کا حق، آزادی بیان کا حق، عقیدے کی آزادی، تعلیم کا حق، مکان اور عدم امتیاز وغیرہ۔ لیکن واضح سی بات ہے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھنے کے لیے پیش کی گئي اقدار اس وقت عالمی حمایت کی حامل ہو سکتی ہیں کہ جب تمام تہذیبیں اور ثقافتیں نہ صرف قول میں بلکہ فعل میں بھی اس میں شریک ہوں۔ انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ مرتب کرنے والوں کی جانب سے مغربی مکاتب کی پیروی اس اعلامیے میں اعلی دینی تعلیمات کو نظرانداز کرنے کا باعث بنی اور مذہب کو رنگ نسل اور زبان کے ساتھ امتیاز اور تفریق کے عامل کی حیثیت سے بیان کیا گيا۔

اسی بنا پر اسلامی ممالک ایک ٹھوس اعلامیہ کی شکل میں انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان کرنے پر مجبور ہوئے کہ جس کی بہت سی شقیں شکل اور مضمون کے لحاظ سے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے ساتھ ملتی جلتی ہیں لیکن انسان کی ذات پر نگاہ کے سلسلے میں بہت سے اختلاف اور امتیازات رکھتی ہیں۔

 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

اسلام میں انسانی حقوق کی بنیاد توحیدی فکر و سوچ پر استوار ہے جس کی وجہ سے اسلامی حقوق بشر مغربی حقوق بشر سے ممتاز ہو گئے ہیں۔ اسلام انسانی حقوق کو انسانی عزت و کرامت کا لازمہ سمجھتا ہے کیونکہ دینی نظریے کے مطابق انسان زمین میں خدا کا جانشین ہے اور اس لحاظ سے عزت و تکریم کا لائق و سزاوار ہے۔ خداوند عالم سورۂ اسراء میں فرماتا ہے کہ ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔

درحقیقت امتیاز و تفریق اور نسل پرستی کا خاتمہ انسانی حقوق کے اعلامیہ کا تازہ نتیجہ نہیں ہے۔ وہ اصول جو آج مغربی انسانی حقوق کے ارکان کو تشکیل دیتے ہیں، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ دین اسلام کا ظہور دنیا میں امتیاز اور تسلط کی نفی سے شروع ہوا اور خدا پیغمبروں نے انسانوں کے حقوق کو پورا کرنے اور معاشروں میں امن و انصاف قائم کرنے کے لیے کوششیں کیں۔ اسلام کا استدلال یہ ہے کہ تمام انسان رنگ نسل اور قومیت کے اختلاف کے باوجود ایک ہی جسم کا حصہ ہیں اور انہیں ایک جیسا پیدا کیا گیا ہے۔

اسلام کی نظر میں جب تک انسان کی معنوی اور باطنی زندگي کی اصلاح نہیں ہو گي اس وقت تک مادی عوامل اجتماعی امن و امان قائم کرنے میں مؤثر نقش ادا نہیں کر سکتے۔ اس بنا پر مکتب اسلام انسان کے اجتماعی تشخص کو اس کے اخلاق اور اعتقادات میں قرار دیتا ہے اور اسے انسانی زندگی کے مشترکات کی بنیاد سمجھتا ہے۔ وہ انسانوں کی برابری اور مساوات کے سلسلے میں انہیں ایک دوسرے کا بھائي قرار دیتا ہے۔

دوسرا اہم نکتہ یہ کہ عالمی اعلامیوں میں انسانی حقوق کے عنوان سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ مکمل طور پر انسانی زندگی کے مادی پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے لیکن انسان کے اخلاقی اور معنوی حقوق کی کوئي بات نہیں کی گئی ہے۔ آج کسی سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ دوسروں پر ظلم و جارحیت معاشروں میں اخلاقی قدروں کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ اسی سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی حکومتوں کی خود سری نے انسانی حقوق کے مسئلے کو بری طرح متاثر کیا ہے اور انسانی حقوق کی حقیقت مغربی حکومت کی پالیسیوں میں جگہ جگہ پامال ہو رہی ہے۔

مغربی حقوق بشر پر اسلامی حقوق بشر کے امتیازات کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران نے دو ہزار آٹھ میں یوگینڈا کے دارالحکومت کمپالا میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران " اسلامی حقوق بشر اور انسانی کرامت" کا دن معین کرنے کے لیے ایک قرارداد پیش کی جسے تمام اسلامی ملکوں نے اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ اس قرارداد کے مطابق پانچ اگست کو اسلامی حقوق بشر اور انسانی کرامت کے دن کے طور پر معین کیا گیا۔ اس طرح یہ اسلامی حقوق بشر کے شعبے میں اسلامی تعاون تنظیم کی اہم ترین دستاویز کے طور پر ثبت ہوئی۔ اس دن کو معین کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اور اسلامی ملک اسلام میں حقوق بشر کو دنیا والوں تک پہنچائيں اور موجودہ دنیا کو انسانی حقوق کے جو چیلنج درپیش ہیں ان کے بارے میں بحث و مباحثہ کریں۔

اسلامی حقوق بشر کا اعلامیہ پچیس شقوں پر مشتمل ہے جس میں اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان کے شرف اور عزت و کرامت کی بات کی گئي ہے۔ اس اعلامیہ میں اس بات کا ذکر بھی کیا گيا ہے کہ اگرچہ انسان نے مادی علوم میں ترقی و پیشرفت کے کئی مراحل طے کیے ہیں لیکن اپنے حقوق اور تمدن کی حمایت کے لیے اسے ایمان و معنویت کی شدید ضرورت ہے۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

۲۰۱۳/۰۵/۲۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے اسپیکر، سربراہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں سے ملاقات میں قوہ مقننہ کو تمام امور کا نگراں اور قوہ مجریہ کو میدان میں سنگين امور انجام دینے کا ذمہ دار قراردیااور حکومت اور پارلیمنٹ کے باہمی روابط میں انصاف، گفتگو، تعاون اور قانون کی رعایت کے سلسلے میں تاکید اور گیارہویں صدارتی انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سب کو تلاش و کوشش کرنی چاہیے تاکہ انتخابات عوام کی ولولہ انگیز ،وسیع اور بھر پور شراکت کے ذریعہ منعقد ہوں کیونکہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے لیکر آج تک اسلامی نظام کا استحکام اور اقتدار عوام کی میدان میں وسیع پیمانے پرموجودگی اور پشتپناہی پر استوار رہا ہے۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ولولہ انگیز انتخابات کے انعقاد کو ملک کی سلامتی، اقتدار،تحفظ اور دشمنوں کے خطرات کو دور کرنے کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوری نظام بڑا گہرا اور مضبوط نظام ہے کیونکہ اس کی جڑیں عوام کے اندر ہیں اور اسے عوامی پشتپناہی حاصل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی پشتپناہی کو اسلامی نظام ، ملک اور قوم کی عزت اور سربلندی کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: انتخابات عوام کی شرکت کا عظیم مظہر ہیں لہذا انتخابات میں عوام کی شرکت ولولہ انگیز اور نمایاں ہونی چاہیے۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے تمام مراحل میں موجود قوانین کو معقول، منطقی ، جامع اور بغیر کسی رکاوٹ کے قراردیتے ہوئے فرمایا: اب تک کے تمام مراحل بھی قانون کی روشنی میں انجام پذیر ہوئے ہیں اور امیدواروں نے بھی اپنے انٹرویوز میں قانون پر عمل کرنے کی تاکید کی اور صلاحیتوں کی تائيد کے بعد بھی انھوں نے قانون پر عمل کیا لہذا ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی صلاحیت کی تائید نہیں ہوئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس رفتار کو قانون کی اہمیت اور ترجیح کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے ہم قانون سے بھی راضی نہ ہوں لیکن قانون پر ہمارا عمل قانون کے فصل الخطاب ہونے کا سبب بنتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے دوسرے نکتہ میں صدارتی امیدواروں کی تشخیص اور انتخاب کے سلسلے میں عوام کی بصیرت اور ہوشیاری پر تاکید کی۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی عوام کی سیاسی مسائل میں آگاہی اور بصیرت ، عالمی متوسط سطح سے بہت بلند و بالا ہے اور اسی طرح ریڈيو اور ٹی وی کے پروگراموں کے ذریعہ بھی عوام صدارتی امیدواروں میں سے اچھے اور اصلح امیدوار کو تشخیص دیکر انتخاب کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے جس نتیجہ تک انسان پہنچے وہ صحیح یا غلط ہو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن مہم یہ ہے کہ آپ نے اپنی تشخیص ، بصیرت اور آگاہی کے ذریعہ انتخاب کیا اور یقینی طور پر اللہ تعالی اس پر ثواب عطا کرےگا۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدارتی امیدواروں کو بھی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے دوش پر سنگین ذمہ داری ہے اور انھیں ہوشیار رہنا چاہیے اور عوام کی توجہ مبذول کرنے کے لئے حقیقت اور صداقت کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کی گفتگو حقیقت ، صداقت اور صحیح و درست اطلاعات پر مبنی ہونی چاہیے۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کو عوام کے سامنے صرف حقائق کو پیش کرنا چاہیے انھیں ملک کے بارے میں بھی اور اپنے بارے میں بھی حقائق کو پیش کرنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر صداقت کے ساتھ عمل کیا جائے تو یقینی طور پر اللہ تعالی مدد و نصرت کرےگا اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت کبھی عوام کی خدمت اور مسؤلیت کی توفیق حاصل ہونے کے ذریعہ اور کبھی خدمت اور مسؤلیت کی توفیق سلب ہونے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے دوسرے امیدواروں کی تخریب اور اسی طرح معاشرے کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر انتخابات میں رہبری کی رائے کو بعض افراد کی طرف منسوب کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ باتیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں جو حقیقت سے بالکل عاری ہیں کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ رہبری کسے ووٹ دیں گے۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: رہبری کا بھی دوسرے افراد کی طرح ایک ہی ووٹ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں رہبری کے ووٹ اور رائے کے بارے میں غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں نے اپنے طے شدہ اہداف کے مطابق اس پروپیگنڈے کو اپنا دستور العمل بنا لیا ہےلیکن اسلامی نظام دشمنوں کے پروپیگنڈے پر توجہ کئے بغیر اپنے ہدف اور مقصد کی جانب تدبیر کے ساتھ گامزن رہےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں پارلیمنٹ (مجلس شورای اسلامی) کی نمائندگی کو اسلامی نظام میں خدمت کا غنیمت موقع اور اس کے ساتھ اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حساس اور عظیم امتحان قراردیتے ہوئے فرمایا: اس حساس موقع پر اپنی مراقبت کرنی چاہیے کیونکہ اگر ذمہ دار انسان اس خطرناک موڑ سے صحیح و سالم گزر گیا تو اس وقت وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مؤفق اور کامیاب قرار پائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دسویں پارلیمنٹ میں گوناگوں ماہرین کی موجودگی کو بلوں اور پروگراموں کا دقیق جائزہ لینے کی اعلی ظرفیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ سال میں پارلیمنٹ نے سیاسی لحاظ سے بہتر اور اچھا مؤقف اختیار کیا۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں نمائندوں کی رفتار و گفتار کو معاشرے پر اثرانداز ہونے کے لحاظ سے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر پارلیمنٹ میں عقل ، فکر، آرام و سکون ، ہمدردی اور محبت حکمفرما ہو تو ان خصوصیات کا اثر معاشرے پر بھی پڑے گا اور اگر پارلیمنٹ کے نمائندوں کی رفتار اس کے برعکس ہو تو عوام کی رفتار پربھی اس کا ویسا ہی اثر پڑےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر پارلیمنٹ میں تقوی، اخلاق ، ذمہ داری کا احساس اور شوق و نشاط پایا جائےگا تو اس سے عوام، نمائندوں کے قریب اور ان سے مانوس ہوجائیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یقینی طور پر معاشرے کی تربیت اور اقدار کی حمایت اور مخالفت میں نمائندوں کی رفتار بہت ہی اہم اورمؤثر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بلوں کی منظوری میں نمائندوں کے ماہرانہ اور دقیق کام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ مسئلہ نمائندوں کے دوش پر عوام کا حق ہے لہذا بلوں کی منظوری میں ممتنع رائے دینا قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اگر نمائندہ اس موضوع یا مسئلہ میں تخصص اور مہارت رکھتا ہے تو اسے اپنے اجتہاد پر عمل کرنا چاہیے اور اگر تخصص نہیں بھی رکھتا پھر بھی اسے ماہرین سے مشورہ لینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض جلسات میں نمائندوں کی عدم شرکت اور کرسیوں کے خالی رہنے پر شکوہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: نمائندوں کو پارلیمنٹ میں ، جسمانی، ذہنی اور قلبی لحاظ سے حاضر رہنا چاہیے اور بلوں اور لوائح کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےپارلیمنٹ کے نمائندوں کے لئے انصاف کی رعایت کو ایک اور اہم نکتہ قراردیتے ہوئے فرمایا: نمائندوں کو اپنے ساتھیوں، حکومت اور عدلیہ کے مقابلے میں عدل و انصاف کو مد ںظر رکھنا چاہیے کیونکہ انصاف کو مد نظر نہ رکھنے سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوہ مقننہ اور قوہ مجریہ کے باہمی تعامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قانون کی بنیاد پر قوہ مقننہ اور مجریہ دونوں کے حدود اور اختیارات مشخص ہیں اور انھیں اپنے حدود کی رعایت اور ایکدوسرے کے ساتھ تعامل برقرار رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان تعامل کا دو طرفہ راستہ ہے لہذا دونوں طرف توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان بعض اختلافی نظریات کی موجودگی کو قدرتی امر قراردیتے ہوئے فرمایا: طبیعی اور قدرتی اختلافی نظریات کو کدورت اور نفرت میں نہیں بدلنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ اور حکومت کو ایکدوسرے کا لحاظ رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کو سمجھنا چاہیے کہ حکومت کے دوش پرمیدان میں سنگین اجرائی ذمہ داریاں ہیں اور ملامتیں بھی حکومت کے سر آتی ہیں لہذا قوہ مجریہ کے حال کی رعایت کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت کو بھی قانون میں موجود پارلیمنٹ کے عظیم حق کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قانون کو تمام امور کی جڑ قراردیا اور پارلیمنٹ کو پٹری بچھانے اور حکومت کو اس پر حرکت کرنے سے تشبیہ کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کو اسی پٹری پر حرکت کرنی چاہیے جسے پارلیمنٹ نے بچھایا ہے لیکن پارلیمنٹ کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی پٹری بچھائے جس پر حکومت حرکت کرسکے اور خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے کسی گھاٹی میں گر نہ جائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے بارے میں ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یقینی طور پر پارلیمنٹ تمام امور کی نگراں ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہر نمائندہ تمام امور کا نگراں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم کام کو خلوص نیت ، سنجیدگی، مجاہدت اور ذمہ داری کے احساس سے انجام دیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں گذشتہ ایک سال میں پارلیمنٹ کے اسپیکر، پارلیمنٹ کی سربراہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔

اس ملاقات کے آغاز میں پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے پارلیمنٹ کی گذشتہ ایک سال میں کارکردگی کی رپورٹ پیش کی ، پارلیمنٹ کے اسپیکر نے نئے سال 1392 ہجری شمسی کے بجٹ کو صاف و شفاف بنانے کے سلسلے میں مختلف کمیشنوں کی کوششوں ، مہنگائی اور معیشتی مسائل حل کرنے، غیر ملکی کرنسی کو کنٹرول کرنے، قومی پیداوار اور مقاومتی اقتصاد کی حمایت کرنے، کسانوں اور ریٹائر ہونے والے افراد پر توجہ دینے، صحت و سلامت ،مالی انضباط میں گيس و تیل ، بجلی اور دفاع کے شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کو پارلیمنٹ کے اہم اقدامات میں شمار کیا۔

پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے مجموعی طور پر 300 بلوں میں سے 53 بلوں کی منظوری ، آڈٹ کورٹ کا نگرانی کے لئےنئی روشوں اور پیشرفتہ طریقوں سے استفادہ اور مختلف اداروں کے ڈائریکٹروں سے مسلسل رابطہ، پارلیمنٹ کے تحقیقاتی شعبہ کی جانب سے مشاورتی نظریات اور پارلیمنٹ کا ملک کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون کو گذشتہ ایک سال میں پارلیمنٹ کے دیگر اقدامات میں قراردیا۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر نے آئندہ 24 خرداد مطابق 14 جون کے صدارتی انتخابات کو علاقائی اور بین الاقوامی شرائط کی روشنی میں حساس اور اہم قراردیتے ہوئے کہا: صدارتی انتخابات میں عوام کی ولولہ انگیز اور وسیع پیمانے پرشرکت سے عظیم اور شاندار سیاسی رزم و جہاد کا مظاہرہ ہوگا۔

حزب اللہ لبنان استقامت کا مظہر، وزیر اعظم تمّام سلاملبنان کے منتخب وزیر اعظم تمّام سلام نے کہا ہے کہ حزب اللہ لبنان استقامت کا مظہر ہے اور شام میں اس کی موجودگي سے کوئي فرق نہیں پڑتا ہے۔

العالم ٹی وی چینل کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق تمّام سلام نے آج حزب اللہ لبنان کا نام دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کۓ جانے پر مبنی فرانس کے فیصلے کے بارے میں کہا کہ یورپی یونین اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے لیکن حزب اللہ لبنان ایک جہادی تنظیم ہے اور جب تک ملک کو صیہونی حکومت کے خطرات اور قبضے کا سامنا ہے اور یہ حکومت ہمیشہ لبنان کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کرتی رہے گی تب تک اس صورتحال میں کوئي فرق نہیں آئے گا۔

دریں اثناء لبنان کے وزیر خارجہ عدنان منصور نے بھی حزب اللہ کی حمایت پر تاکید کی ہے۔

عدنان منصور نے آج لبنان سے شائع ہونے والے اخبار السفیر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد قرار دیۓ جانے کے مخالف ہیں۔ عدنان منصور نے برسلز میں یورپی یونین سے وابستہ پنشمنٹ [Punishment ]کمیٹی کے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں حزب اللہ لبنان کانام دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کۓ جانے کی تجویز پیش کی جائے گی لیکن لبنان کی حکومت اس کی مخالف ہے اور وہ اس کو ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ لبنان کے وزیر خارجہ نے حزب اللہ کو لبنان کی قوم اور سیاست کا اٹوٹ حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ پارلیمنٹ اور حکومت میں بھرپور طرح سے موجود ہے اور اسے دہشتگرد قرار دینے کی ہر طرح کی کوشش کا مقصد لبنان میں سیاسی کشیدگي پیدا کرنا ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین کی پنشمنٹ کمیٹی چار جون کو برسلز میں اپنے ایک اجلاس میں حزب اللہ لبنان کا نام دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کۓ جانے کا جائزہ لے گی۔

ایران پاک گیس پروجیکٹ کی حمایتپاکستان میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایران پاکستان گيس پائپ لائن پروجیکٹ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہےکہ حکومت مقررہ وقت میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرے اور اس کے خلاف کسی بھی حکومت کے دباو میں نہ آئے۔

ادھر ہندوستان کے وزیرخارجہ سلمان خورشید نے حال ہی میں اس پروجیکٹ میں ہندوستان کی شمولیت کی خواہش ظاہر کی تھی اور کہا تھاکہ ہندوستان امن گيس پائپ لائين میں شریک ہونے کےلئے ایران سے دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ دراین اثنا ہندوستان کے وزیر پٹرولیم ویرپا موئيلی نے بھی امن گيس پائپ لائين کو اپنے ملک کے لئے منافع بخش قراردیتے ہوئےکہا ہے کہ اس گيس پائپ لائن سے فراہم کی جانے والی گيس اور اس کی سکیورٹی کے بارے مین ایران کے ساتھ مذاکرات مثبت رہے ہیں۔ ہندوستان نے گرچہ دوہزار سات میں سیاسی اور سکیورٹی مسائل نیز امریکہ کے دباؤ میں آکر اس پروجیکٹ سے کنارہ کشی اختیارکرلی تھی لیکن گذشتہ مارچ میں ایران و پاکستان کے حکام کے مذاکرات اور پاکستان میں اس پائپ لائن پر کام شروع ہونے کے بعد اس نے اپنے موقف پر نظر ثانی کی ہے۔ ایران پاکستان گيس پائپ لائین کا کام ایران میں مکمل ہوچکا ہے۔

انتخاب میں شرکت، نظام اسلامی کے دشمنوں کو منہ توڑ جوابتہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطیب حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے کہا ہے کہ ملت ایران گیارہویں صدارتی انتخابات میں بھر پور شرکت کے ذریعے انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف دشمنوں کی تمام سازشوں کی ناکام بنادے گی۔

ارنا کی رپورٹ کے مطابق تہران کی مرکزی نماز جمعہ حجۃالاسلام و المسلمین کاظم صدیقی کی امامت میں ادا کی گئی۔ خطیب نماز جمعہ نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے عوام ان انتخابات میں بھر پور شرکت کر کے ایک بار پھر عظیم کارنامہ انجام دیں گے اور ایران کے اسلامی نظام کے لۓ بے مثال عزت و وقار کا سبب بنیں گے۔

حجۃ الاسلام و المسلمین کاظم صدیقی نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ یہ انتخابات ظاہری سلامتی کے اعتبار سے اسلامی جمہوری نظام کے لۓ فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں کہا کہ ایران کے عوام نے تین عشروں سے زیادہ عرصے سے دشمنوں کے مقابلے میں شجاعت و مردانگی ، غیرت اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہےاور اب وہ چوبیس خرداد مطابق چودہ جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی شجاعت و مردانگی ، غیرت اور اتحاد کا جلوہ دنیا والوں کے سامنے پیش کریں گے۔

خطیب نماز جمعہ تہران نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح کی برسی کے دن چودہ خرداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی رح ایران کے بابصیرت عوام پر یقین رکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ اپنے دین اور اعتقادی مفادات کے خلاف ووٹ نہیں دیں گے اور وہ بدعنوان افراد کی حمایت نہیں کریں گے۔

خطیب نماز جمعہ تہران نے مزید کہا کہ امام خمینی رح نے سپر طاقتوں کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم توڑ دیا۔