Super User
اسلامی تعاون تنظیم، میانمار کے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے پر آمادہ
اسلامی تعاون تنظیم نے دائمی طور پر میانمار کے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے پر آمادگي ظاہر کی ہے۔
کویت نیوز کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم نے آج اکمل الدین احسان اوغلو کے حوالے سے بیان جاری کیا ہے کہ یہ تنظیم فوری طور پر میانمار کے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے تیار ہے۔
اکمل الدین احسان اوغلو کہ جو اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل ہیں اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے ممالک میانمار کے ساتھ اقتصادی تعاون کریں گے۔ اس بیان میں آیا ہےکہ اسلامی تعاون تنظیم میانمار میں مذہبی رواداری قائم کرنے اور ادیان کے درمیان گفتگو کی غرض سے اپنے تجربات بھی فراہم کرے گي۔
اسلامی تعاون تنظیم نے میانمار کے صوبہ راخین کے حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ واضح رہے میانمار کے مسلمان سکوریٹی فورسز کی حمایت سے انتھا پسند بودھوں کے تشدد کاشکار ہیں۔
انتھا پسند بودھوں اور سکیورٹی فورسز کے تشدد میں سیکڑوں روہنگيا مسلمان جاں بحق ہوچکے جبکہ ان کے ہزاروں گھر نذر آتش کئےجاچکے ہیں۔ لاکھوں روہنگيا مسلمان ملک سےباہر پناہ لینے پر مجبور ہوچکےہیں۔
عرب ملکوں کی شام میں دہشتگردوں کی حمایت، حزب اللہ کی مذمت
حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے بعض عرب ملکوں کی جانب سے شام میں دہشتگردوں کی حمایت کی مذمت کی ہے۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے آج ایک بیان میں کہا کہ امریکہ اور اسرائيل علاقے کے بعض عرب ملکوں کی مدد سے شام میں دہشتگردوں کو فوجی اور مالی امداد فراہم کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور صیہونی حکومت نیز ان کے اتحادیوں کا ھدف علاقے میں صیہونی حکومت کے جاری مزاحمت کو نشانہ بنانا ہے اور امریکہ اور صیہونی حکومت شام کو ویرانے میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
حزب اللہ کے نائب سربراہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون شام میں دہشتگردوں کو ہتھیار فراہم کرنے والوں کےبجائے ان ملکوں کو ہدف تنقید بنارہے ہیں جو شام میں سیاسی راہ حل کے خواہاں ہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے لبنان کے جنوبی شہر صیدا میں انتھا پسند وہابی گروہ کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے بارے میں کہا کہ اگر المستقبل دھڑا ان انتھا پسندوں اور فتنہ انگيز عناصر کی حمایت نہ کرتا تو جھڑپيں نہ ہوتیں۔ ادھر حزب اللہ کی سیاسی کونسل کے رکن نے کہا ہےکہ لبنانی حکام کو ملک کو فتنوں سےنجات دلانے کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہیں۔ خضر نورالدین نے کہاکہ لبنانی عوام کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کیونکہ بعض حلقے ملک میں فتنہ پھیلاکر اور خونریزی شروع کرواکر صیہونی حکومت کے مفادات کی ضمانت کےلئے لبنان کو ویران کرناچاہتے ہیں۔ واضح رہے وہابی انتھا پسند عنصرشیخ احمدالاسیر جسے لبنان میں شخ الفتنہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھافوج کے ساتھ جھڑپوں میں دسیوں دہشتگردوں کے ہمراہ ہلاک ہوگيا ہے۔
چینلوں پر پابندی، امریکہ ایران سے مذاکرات پر آمادہ
ادھر امریکی حکام اور انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن سیٹیلائيٹ آرگنائزیشن نے ایران کے ساتھ چینلوں کی نشریات پر پابندی کے مسئلے پر ایران کے ساتھ گفتگو کرنے پر آمادگي ظاہر کی ہے۔
پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق آئي ٹی ایس او نے انٹل سیٹ سے ایرانی چینلوں کی نشریات جاری رکھنے کی سفارش کی تھی۔
قابل ذکرہے انٹل سیٹ نے کہا ہے کہ امریکی وزارت خزانہ کی ھدایت پر اس نے ایرانی چینلوں پر پابندی لگائي ہے۔
واضح رہے یوٹل سیٹ نے بھی صیہونی حکومت اور یورپی یونین کے ایما پر ایرانی چینلوں پرپابندی لگا رکھی ہے۔
رہبر معظم کا عدلیہ کے سربراہ ، اعلی ججوں اور اہلکاروں سے خطاب
![]()

۲۰۱۳/۰۶/۲۶ -
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے آج صبح عدلیہ کے سربراہ، اعلی ججوں، اہلکاروں اور حکام کےساتھ ملاقات میں 24 خرداد مطابق 14 جون کے صدارتی انتخابات میں ایرانی قوم کی حقیقی بصیرت اور ہوشیاری اور عدلیہ کے اقدامات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اہم قراردیا اور منتخب صدر کے ساتھ مدد اور تعاون پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں کے اہداف اور منصوبوں کی ہمہ گير شکست، اسلامی نظام ، انتخابات منعقد کرانے والے اہلکاروں اورانتخابات کے نگراں ادارے پر عوام کا مکمل اعتماد، آبادی اور پیشرفت کے سلسلے میں پائدار امن و سلامتی، منتخب صدر کے مقابلے میں دیگر امیدواروں کی طرف سے قانون پر عمل اور درست رفتار اور قومی مفادات کےدفاع کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کا اقتدار اور استحکام حالیہ انتخابات کے اہم نکات میں شامل ہیں۔
یہ ملاقات سات تیر 1360 ہجری شمسی کے ہولناک واقعہ کی مناسبت منعقد ہوئی جس میں انقلاب اسلامی کےشہید بہشتی سمیت 72 افراد شہید ہوگئے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید آیت اللہ بہشتی کی ممتاز اور نورانی شخصیت کی تعریف اور تجلیل کرتے ہوئے فرمایا: اس مجرمانہ واقعہ میں بہترین شخصیتیں، بزرگ علماء ، سچے اور خدمت گزار افراد شہید ہوگئے اور اس واقعہ کے بعد منافقین کا پلید اور منحوس چہرہ بھی عوام کے سامنے واضح ہوگیا اور یہ بہت بڑی کامیابی تھی جس کے بعد ملک میں منافقین کی حیات کا سلسلہ بالکل ختم ہوگيا اور یہ واقعہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لئےفیصلہ کن ثابت ہوا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاریجانی کے مفید اور مفکرانہ خطاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: عدلیہ کے خدمت گزار کارکنوں اور اہلکاروں کی تلاش و کوشش، ان کی خدمات اور اقدامات پر حقیقت میں شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے سالم اور مؤثر ہونے کے دو اہداف کو عدلیہ کے دائمی اور اسٹراٹیجک اہداف قراردیتے ہوئے فرمایا: عدلیہ کے تمام اقدامات اور منصوبوں میں ان دو اہداف پرمکمل طور پرتوجہ مبذول کرنی چاہیے تاکہ عدلیہ کا عظیم ادارہ مکمل طور پر مؤثر اور سالم ادارے میں تبدیل ہوجائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے مؤثر اور سالم ہونے کو عوام کے اندر امن و سلامتی کے احساس اور عوام کی خوشنودی اور رضایت کا موجب قراردیتے ہوئے فرمایا: عدلیہ کوچاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچائے جہاں اس کے پاس ہر مظلوم پہنچ سکے اورظلم کے مقابلے میں کھڑا ہوسکے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دائمی نگرانی اور مسلسل تلاش و کوشش کو عدلیہ کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا:نظارت اور ہوشیاری کے ساتھ موجودہ عدلیہ اور اسلام کی مطلوب عدلیہ کے درمیان فاصلہ کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ اس سخت و دشوار راستے کو طے کرنے کے لئے وقت کی ضرورت ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ سب کو مطلوب نتیجے تک پہنچنے اور اس خلاء کو پر کرنے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے ججوں اور اہلکاروں کی جانب سے موجودہ خلاء اور خامیوں کے بارے میں آگاہی کو مثبت امر قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام امور منظور شدہ قوانین کی بنیاد پر ہونے چاہییں تاکہ امید افزا تلاش و کوشش کے سائے میں عدلیہ میں موجود نقائص دور اور عدلیہ میں روز بروز طراوت پیدا ہوتی جائے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اپنے اہم خطاب میں 24 خرداد مطابق 14 جون کے انتخابات میں قوم کی بھر پور شرکت اور موقع شناسی کی تعریف اور شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: انتخابات کے اہم نکات اور نمایاں حقائق پر تجزيہ اور تحلیل کا سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے دشمنوں کی طرف سے ایک سالہ پیچيدہ اور چند شکلوں پر مشتمل منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں نے بہت تلاش و کوشش کی تاکہ انتخابات منعقد ہی نہ ہوں یا انتخابات میں عوام کی شرکت بہت کم اور غیرمقبول ہو۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمنوں کا انتخابات کے بعد بھی منصوبہ مرتب تھا اور وہ مختلف بہانوں کے ذریعہ اپنے شوم اہداف تک پہنچنے کی تلاش وکوشش میں تھے لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے عوام نے انتخابات کے دن اپنی عظمت اور مہارت کا بھر پور ثبوت دیا اور جوکچھ ہوا وہ دشمن کے مرضی کے 180 درجہ خلاف اور برعکس ہوا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں ایرانی عوام کی ولولہ انگیز شرکت کے بارے میں اغیار کے بے بنیاد اور غلط تجزیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کو مایوس کرنے کے سلسلے میں انتخابات کی شفافیت اور سلامتی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا دشمن کی پالیسی کا حصہ تھا، لیکن قوم نے اس طرح عمل کیا کہ انتخابات کے دن ہی عوام کی بھر پور اور وسیع شرکت کا سامراجی اور استکباری تبلیغاتی ادارے اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس سال انتخابات میں قوم کی عظیم شرکت کی رمز اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ عام محبت اور، اعتماد، انتخابات منعقد کرانے والے اور انتخابات پرنگرانی رکھنے والے اداروں پر اعتماد اور ایران کی برق رفتار پیشرفت کے سلسلے میں ایرانی قوم کی امید افزا حرکت تھی۔ اور یہ بہت ہی اہم اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں انتخابات سے چند دن قبل کے اپنے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اس دن کہا تھا کہ جن لوگوں کے دل اسلامی نظام کے بارے میں صاف نہیں لیکن وہ قومی مفادات اور ایران کی اہمیت کےقائل ہیں وہ بھی انتخابات میں شرکت کریں اور ووٹ ڈالنے والوں میں بعض ایسے افراد بھی تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس حقیقت سے پتہ چلتا ہے کہ حتی جو لوگ نظام کے حامی اور طرفدار نہیں ہیں انھیں بھی انتخابات اور نظام پر اعتماد ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں اسلامی جمہوری نظام شیر کی طرح تسلط پسند طاقتوں کی حرص و طمع کے مقابلے میں کھڑا اور قومی مفادات اور قومی عزت و وقار کا اچھی طرح دفاع کررہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے دوسرے ممتاز نکتہ " یعنی ملک بھر میں مکمل امن و اماں " کی تشریح میں ، صدارتی اور شہری و دیہی کونسلوں کے دو انتخابات کے ایک ساتھ منعقد کرانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شہری اور دیہی کونسلوں کے انتخابات میں ، قبائلی، علاقائی اور قومی پیچیدہ مسائل کی بنا پر اختلاف اور لڑائی کا امکان موجود رہتا ہے لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم ، قوم کی ہمراہی ، حکام اور متعلقہ اداروں کی تلاش وکوشش کے سائے میں حالیہ انتخابات میں کسی بھی قسم کی کوئی بدامنی رونما نہیں ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 24 خرداد مطابق 14 جون کے انتخابات کے اہم اور نمایاں نکات کی تشریح جاری رکھتے ہوئے انتخابات کے دوسرے امیدواروں کی طرف سے نجابت اور قانون پر عمل کو بہت ہی اہم اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں شکر و سپاس کا موجب قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: منتخب صدر کے ساتھ دوسرے صدارتی امیدواروں کی ملاقات، جیتنے پر مبارک باد اور مسرت کے اظہار کی وجہ سے عوام کے دل شاد اور خوشحال ہوگئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سن 1388 کے تلخ واقعات اور قانون پر عمل کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ انتخابات میں بھی بہانے تلاش کئےجاسکتے تھے، اختلاف اور لڑائی کے ذریعہ ، عوام کی انتخابات میں عظیم شرکت کو نظر انداز اور عوام کے شیریں ذائقہ کو تلخ بنایا جاسکتا تھا لیکن دوسرے امیدواروں نے نجابت اور قانون پر عمل کے ذریعہ عوام میں خوشی اور شادمانی کا ماحول پیدا کیا اور قانون پر عمل کو ہمیشہ کے لئے سرمشق قراردینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کو اللہ تعالی کی قدرت اور ہدایت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے اس لطف کے سائے میں انتخابات حقیقت میں رزم و جہاد کا آئینہ بن گئے اور نیک لوگوں کی خواہشات اور تمنائیں پوری ہوگئیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے منتحب صدر کے بھر پور تعاون پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کا انتظام اور انصرام حقیقت میں ایک مشکل اور سخت کام ہے اور تمام اداروں اور تمام افراد کو عوام کے منتخب صدر کی بھر پور مدد اور بھر پور تعاون کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کی پیشرفت و ترقی کے لئےتعمیری تنقید اور اعتراض یقینی طور پرمفید ہوتا ہے لیکن یہ بات سب کو ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ حاشیہ پر رہ کر تنقید اور اعتراض کرنا بہت آسان کام ہے۔ لیکن اجرائی اور انتظامی کام چلانا بہت ہی سخت اور دشوار ہوتا ہے لہذا سب کو منتخب صدر کی مدد اور نصرت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بے جا توقعات پیدا کرنے اور جلدبازی پر مبنی رفتار سے پرہیز کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: جلد بازی پر مبنی قضاوت کرنے اور فیصلے سنانے پرہیز کرناچاہیے بلکہ باہمی تعاون ، ہمراہی اور ہمدلی کے ساتھ ملک کی پیشرفت میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے دوران امیدواروں کی طرف سے اپنے تبلیغاتی پروگراموں میں پیش کی گئی بعض باتوں پر شکوے اور گلہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ حکومت کی بعض خامیوں کے ساتھ اس میں بیشمار قوی نقاط بھی موجود ہیں اور امیدواروں کو منصفانہ طور پرکمزور نقاط کی طرف اشارہ کرنےکے ساتھ موجودہ حکومت کے ترقیاتی ، تعمیری ، قوی اور شائستہ اقدامات کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہیے تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے ایٹمی معاملے کی طرف بھی اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ میں نےنئے سال کے آغاز میں کیا تھا کہ ایران کے چند مخالف اور دشمن ممالک ہیں جنھوں نے ایران کے خلاف محاذ قائم کررکھا ہے اور وہ خود کو عالمی برداری سے تعبیر کرتے ہیں اور عداوت و دشمنی کی بنا پر ایران کے ایٹمی معاملے کے حل ہونے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں اور اگروہ عداوت اور دشمنی سے ہاتھ کھینچ لیں تو ایران کے ایٹمی معاملے کا حل بہت ہی آسان اور سہل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کا ایٹمی معاملہ کئی بار حل کے قریب پہنچا گیا تھا لیکن امریکیوں نے نئے بہانے پیش کرکے اس میں رکاوٹ پیدا کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی دستخط شدہ مکتوب سند کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے اس سند میں اعتراف کیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں جو اشکالات اور شبہات تھے وہ سب برطرف ہوگئے ہیں لہذا ایران کی ایٹمی فائل کا معاملہ ختم ہونا چاہیے تھا لیکن امریکیوں نے بلا فاصلہ نئے مسائل پیدا کردیئے، کیونکہ امریکہ ایران کے ایٹمی معاملے کو ایران پر دباؤ کے لئے مناسب موضوع سمجھتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صہیونیوں کے تحرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی معاملے کے سلسلے میں صاف اور شفاف عمل کیا ہے اور ایران کے پاس مضبوط اور محکم منطقی دلائل ہیں، لیکن دشمنوں کا مقصد ایران پر مسلسل دباؤ قائم رکھ کر ایرانی قوم کو پریشان کرنا اور اسلامی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے دباؤ ڈالنا ہے لہذا وہ ایٹمی معاملے کو حل نہیں ہونے دیتے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ دشمن اپنی گفتگو اور اپنے خطوط میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اسلامی نظام کی تبدیلی کے خواہاں نہیں ہیں لیکن ان کا عمل ان کی گفتگو کے برعکس ہے اور ان کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان کے لئے ایٹمی معاملہ، انسانی حقوق، جمہوریت اور کسی بھی دوسری چیز کی کوئی قدر و اہمیت نہیں ہے وہ ایران کی ترقی و پیشرفت کو روکنا اور ایران پر دوبارہ تسلط پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ، اللہ تعالی پر توکل ، عوام پر اعتماد کرتے ہوئے اقتدار اور استقلال کے ساتھ میدان میں موجود ہے اور ایران کے مفادات کا دفاع کرتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تجربہ سے پتہ چلتا ہے کہ جو شخص حق کی راہ میں استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے اور بیشک ایرانی قوم اس سلسلے میں دشمن کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کرےگی۔
اس ملاقات کے آغاز میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاریجانی نےگذشتہ ایک سال میں عدالت کے اہم اقدامات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔ عدلیہ کے سربراہ نے عدلیہ کے توسعہ کے سلسلے میں پانچ سالہ منصوبے کے ابلاغ ، عدالتوں کے اداری سسٹم میں افرادی قوت کی کمی او کیفی لحاظ سے بہتری پر توجہ، ثقافتی پروگرام کی تقویت، تحقیق اور تعلیم پر اہتمام ، عدلیہ میں جدید ٹیکنالوجی منجملہ الیکٹرانک نیٹ ورک سے استفادہ،
جیل خانہ کے مسائل میں تحول و تبدیلی ، شرپسند افراد کے خلاف سخت کارروائی اور سزا ، خصوصی حریم توڑنے والوں کے خلاف کارروائی اور منشیات میں ملوث جرائم پیشہ افراد کے خلاف ٹھوس کارروائی کو عدلیہ کے اہم اقدامات میں شمار کیا اور ان پروگراموں اور منصوبوں کو عدلیہ کے فروغ اور توسعہ میں بہت ہی اہم قراردیا۔
دشمن انتھا پسندوں کو اسلام کا نمائندہ بناکرپیش کرتا ہے
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی کی امامت میں ادا کی گئي۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ ایران میں گيارھوں صدارتی انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت سے دشمن مایوس ہوگيا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گيارھویں صدارتی انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت سے دشمونوں کا یہ جھوٹ ثابت ہوگيا کہ ایرانی عوام کی اکثریت نے انتخابات میں شرکت نہیں کی ہے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہاکہ دشمن نے نہایت پیچیدہ سازشوں اور دوہزار نو کے صدارتی انتخابات کے بعد ہونے والے فتنوں میں ذرا سی کامیابی حاصل کرنے کےبعد یہ سوچ لیا تھا کہ وہ منفی پراپنگينڈے سے عوام کو انتخابات میں شرکت کرنے سےروکنے روک سکتا ہےلیکن انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت نے اس کی ساری سازشیں ناکام ہوگئيں اور خود دشمن کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا۔
آيت اللہ کاظم صدیقی نے شہید بہشتی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے واقعے کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ اس واقعے سے ملت اور حکومت کو نقصان پہنچا ہے۔ خطیب جمعہ تہران آيت اللہ صدیقی نے مصر میں انتھا پسند وہابیوں کے ہاتھوں شیعہ عالم دین اور ان کے تین ساتھیوں کی شہادت کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ یہ واقعہ بربریت اور جاہلیت کی نشانی اور عالم اسلام کے لئے انتباہ ہے۔ آيت اللہ صدیقی نے کہا کہ وہابی فرقہ سامراج کا پروردہ ہے اور سامراج اس انتھا پسند فرقے کو اسلام کا نمائندہ بناکرپیش کرتا ہے بنابریں انسانی حقوق تنظیموں اور اقوام متحدہ کو اس طرح کے جرائم پر خاموش نہیں بیٹھنا چاہیے۔
صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہدجاری رہے گی
حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت اور اسکے ایجنٹوں کے خلاف جدوجہدجاری رہے گي۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ جب تک ساری مقبوضہ زمینیں آزاد نہیں ہوجاتیں صیہونی حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رہے گي۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کی طاقت میں اضافہ ہورہا ہے اور حزب اللہ ہمیشہ صیہونی حکومت کی گھات میں بیٹھی ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے ان لوگوں سے مخاطب ہوکر کہ جو صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کے خاتمے کےخواہاں ہيں کہاکہ لبنان کو ہمہ وقت صیہونی حکومت کی جانب سے خطرے لاحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ سیاسی میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کی غرض سے کسی پارٹی کو سیاسی سین سے ہٹانا نہيں چاہتی بلکہ قومی مشارکت پر یقین رکھتی ہے اور اس ھدف کو پانے کےلئے بھر پورکوشش کرے گي۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کا تبادلہ
کشمیر کی کنٹرول لائن پر ہندوستان اور پاکستان کے فوجیوں کے مابین فائرنگ کے تبادلے کےنتیجے میں ایک شخص ہلاک اور تین دیگر زخمی ہوگئے۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر فریقین کے درمیان فائرنگ کا یہ تبادلہ بٹلہ کے علاقے ميں ہوا۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کاآغاز ہندوستانی فوجیوں نے کیا جس کے جواب میں پاکستانی فوجیوں نے فائرنگ کی۔
کچھ عرصے قبل بھی ہندوستان کے جنگی طیاروں نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔قابل ذکر ہے کہ مسئلۂ کشمیر پر ابتک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دو مرتبہ جنگ ہوچکی ہے۔
دوحہ میں طالبان کا دفتر، ہندوستان کا رد عمل
ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان گروہ کا دفتر کھولے جانے پر نئی دہلی کے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام، افغانستان میں امن کا عمل کمزور اور مخالف مسلح گروہوں کے جواز کا باعث نہیں بننا چاہیئے۔
ہندوستان کے ترجمان نے کہا کہ قطر میں طالبان کا دفتر اس بات کا باعث نہیں ہونا چاہیئے کہ افغانستان کی حکومت، جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے اور باغی گروہوں کو برابرسمجھ لیا جائے کیونکہ اس سے گذشتہ دہائيوں میں افغانستان میں جو سیاسی اقتصادی اور سماجی لحاظ سے جو ترقی ہوئي ہے وہ رک سکتی ہے۔
قابل ذکرہے ہندوستان دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ایسے عالم میں آرہا ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئي نے امریکہ کے ساتھ سکیوریٹی مذاکرات روک دئے تھے؟ حامد کرزئي کو طالبان کے دفتر کے نام اور جھنڈے پر اعتراض تھا۔ ہندوستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہندوستان کی حکومت نے ہمیشہ اس امن کے عمل کی حمایت کی ہے جس کی سربراہی حکومت افغانستان کرے اور یہ عمل افغانستان کے آئين کے تحت ہو نیز عالمی قوانین کے برخلاف بھی نہ ہو۔
انہوں نے کہاکہ ہندوستان نئي دھلی کابل اسٹراٹجیک معاہدے کے تحت ملت و حکومت افغانستان کی حمایت کرتا ہے۔ ہندوستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہندوستان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بابت خبردار کیا ہے اور کہا ہےکہ مذاکرات عالمی قوانین کے تحت انجام پانے چاہیں۔
امام خمینی (رہ) اور مولانا مودودی (رہ)
کسی نے روایت کی ہے کہ جناب خلیل حامدی مرحوم جو جماعت اسلامی کے بیرون ملک روابط کے انچارج تھے، بیان کرتے ہیں کہ حج کے موقع پر وہ مولانا مودودی کے ساتھ تھے۔ ایک دن وہ اپنی قیام گاہ سے اکیلے نکل کھڑے ہوئے، وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، مولانا ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے پھر ایک کمرہ میں چلے گئے۔ وہ کافی دیر باہر انتظار کرتے رہے۔ وہاں پر موجود دربان سے مولانا خلیل حامدی نے دریافت کیا کہ یہاں کون شخصیت ٹھہری ہوئی ہے تو اس نے بتایا کہ آیت اللہ خمینی (رہ) ہیں۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد مولانا مودودی (رہ) اس کمرے سے نکلے جس میں امام خمینی (رہ)ٹھہرے ہوئے تھے۔
ایک حوالہ اور ملتا ہے : نومبر 1963ء میں مولانا تیسری دفعہ رابط عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب گئے۔ یہ اجلاس یکم دسمبر سے 12 دسمبر تک منعقد ہوئے۔ مکہ میں قیام کے دوران آپ نے حرم شریف میں تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تقریریں’’خطبات حرم‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس طرح مکہ میں قیام کے دوران ایرانی نوجوانوں کے ایک وفد نے آیت اللہ خمینی (رہ) کی قیادت میں آپ سے ملاقات کی۔ (۱)
امام خمینی نے اپنی جدوجد کا آغاز 1963ء میں کیا جب ایران میں دس ہزار سے زائد مظاہرین شہید کر دیے گئے۔ مولانا نے اپنے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں نہ صرف اس ظلم کی مذمت کی بلکہ امام خمینی کے حق میں مضمون شائع کروایا۔ (2)
پاکستان میں چونکہ شہنشاہ ایران کا طوطی بولتا تھا تو اس جرأت رندانہ پر پرچہ ضبط کر لیا گیا اور تادیبی کارروائی بھی کی گئی۔ یہ شائد امام خمینی (رہ) کے حق میں اٹھنے والی پہلی پاکستانی آواز تھی۔ 20جنوری 1979ء کو امام خمینی (رہ) کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی (رہ) سے ملاقات کی۔ وہ امام کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں میں درج کر دیں۔ 18جنوری 1979ء کو مذکورہ وفد کی آمد کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے رفیق ڈوگر نے مولانا مودودی سے سوال کیا کہ امام خمینی (رہ) کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا: گذشتہ کئی سال سے ہمارے ان سے روابط ہیں۔ انہوں نے میری بعض کتب کا ترجمہ بھی کرایا ہے۔ وہ ان شیعوں جیسے نہیں۔ پوچھا کیا وہ بائیں بازو کے حامی ہیں؟ جواب دیا: نہیں وہ ان کے خلاف ہیں۔ مزید دریافت کیا کہ کیا وہ ایران کی سالمیت قائم رکھ سکیں گے؟ انہوں نے جواب دیا: انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے۔
20جنوری 1979ء کو امام خمینی کے دو نمائندوں ڈاکٹر کمال اور انجینئر محمد کی آمد سے قبل جماعت اسلامی کے اکابرین سے مولانا مودودی نے فرمایا: "آیت اللہ خمینی دیگر شیعہ علماء سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ انہوں نے شیعہ علماء کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ امام منتظر کے انتظار میں اسلامی احکام پر عمل معطل رکھنا چاہیئے۔ خمینی کا کہنا ہے کہ جب تک امام منتظر نہیں آتے ہم حالات و واقعات سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے طور پر حالات کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ فکری تبدیلی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ایران میں خمینی اقتدار میں آ جائیں۔"
رفیق ڈوگر نے وفد کے حوالہ سے لفظوں میں جو نقشہ کھینچا وہ مولانا مودودی کی دلی کیفیت کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اتنے میں مہمانوں کے لیے چائے آ گئی۔ مولانا نے انگریزی میں کہا ’’I am sorry میں بیمار ہوں، ادھر ڈرائنگ روم میں نہیں جا سکتا۔ یہیں چائے پیش کر رہا ہوں۔‘‘ مولانا کے کمرے میں بڑے بڑے لوگ آئے، علماء اور دنیا دار آج تک مولانا نے کبھی کسی سے اس قسم کے معذرت کے الفاظ نہیں کہے۔ آج جتنا تکلف کیا گیا پہلے کبھی وہ دیکھنے میں بھی نہیں آیا۔ اعلیٰ قسم کے برتن، چائے اور پھل بسکٹ وغیرہ۔ چائے کے دوران مولانا نے امام خمینی کی صحت کے بارے میں پوچھا تو انجینئر محمد نے اپنی دونوں انگلیاں اوپر کو اٹھاتے ہوئے انگریزی میں کہا ’’وہ اس طرح سیدھے چلتے ہیں ان کی صحت بہت اچھی ہے۔ انھیں ایک بہت اچھا ڈاکٹر ملا ہوا ہے، وہ سادہ غذا کھاتے ہیں۔ معمولی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور رات کو تین گھنٹے عبادت کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے کہا He is a man of god. مولانا مودودی نے وفد سے جو کلمات ادا کیے ا نکا تذکرہ کیے بغیر شاید یہ گفتگو مکمل نہ ہو، مولانا نے ملاقات کے دوران فرمایا: تحریک اسلامی ایران میں کامیاب ہو یا پاکستان میں، اس سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچے گا۔ مسلمان کہیں بھی ہوں وہ ایک ملت ہیں۔ پاکستان کے لوگ دل و جان سے خمینی کے ساتھ ہیں۔ آپ کی آمد پر مجھے بےحد خوشی ہوئی ہے۔ آیت اللہ خمینی تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔
مولانا نے پھر کہا: "مسلمان خواہ پاکستان میں ہوں، ترکی یا ایران میں وہ سب ایک ملت ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، ہم میں کوئی وجہ اختلاف نہیں۔ ہمارا خدا ایک ہے۔ قرآن ایک ہے اور رسول ایک ہے۔
جب ڈاکٹر کمال نے بتایا کہ ایران میں شیعہ سنی سب اس تحریک میں شامل ہیں تو مولانا مودودی نے انہیں مطلع کیا کہ پاکستان میں بھی اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بھی شیعہ سنی ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ایران میں بھی ایسا کیا جائے گا۔ انجینئر محمد نے کہا:
اگر دو آیت اللہ، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مودودی مل کر اعلان کریں تو عالم اسلام کا ایسا اتحاد عمل میں آ سکتا ہے جو مسلمان ممالک کی کایا پلٹ دے گا اور وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوں گے"۔
یوں یہ نشست دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی مگر امت کو کئی پیغامات دے گئی۔ مولانا مودودی کی امام خمینی سے اس قدر ہم آہنگی تھی کہ انہوں نے بارہا اس بات کی وضاحت کی کہ وہ ان شیعوں جیسے نہیں ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ لوگوں میں شیعوں کے بارے میں غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں اور نفرتوں کی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ اصل شیعہ کردار اور طرح کا ہے اور لوگ امام خمینی کو بھی یہاں کے شیعوں کے کردار پر تولتے ہیں۔ جس ملک میں بھی اسلامی انقلاب آئے گا ظاہر ہے وہ وہاں کی اکثریتی فقہ کی نمائندگی کرتا ہو گا۔ بہرحال وہ اسلامی انقلاب ہی ہو گا۔
اس نشست سے مولانا مودودی کی انقلاب اسلامی سے محبت کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اس ملک پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب آئے۔ انہوں نے بالصراحت کہا کہ شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ انقلاب اسلامی کے لیے متحد و متفق ہیں۔ انجینئر محمد نے جو بات کی اس پر آج بھی عمل کی ضرورت ہے کہ اگر شیعہ سنی، رہنما ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان سے بڑی طاقت اور کونسی ہو سکتی ہے اور آج کے مسائل کا حل اسی جذبے میں کار فرما ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ایسا مسلمان عالم دین جو کہ فقہ حنفیہ پر کاربند ہے نے دوسرے فقہی مسلک کے بارے میں کس قدر اچھے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آج ہم ان وسیع القلب اسلاف کے طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ واریت کا جن اپنی قوت کے ساتھ قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں دین کے نام پر قتل ہونا جہالت نہیں ہیں تو اور کیا ہے؟ یقیناً ہمارا مشترکہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کے لیے نفرتوں کے بیج بو رہا ہے۔ آج وہ شخص اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بارگاہ میں مقبول ہوگا جو فرقہ واریت و دہشت گردی کی آگ پر پانی ڈالے۔ بقول انجم رومانی
ع بیدار! اہل قافلہ سونے کے دن گئے
ہشیار! آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا
بشکریہ اسلام ٹائمز
حوالہ جات :
۱۔ افتخار احمدپروفیسر،عالمی تحریک اسلامی کے قائدین ( فیصل آبادالمیزان پبلیکیشنز،امین پورہ بازار، ۱۹۸۴)
2۔ ترجمان القرآن اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارہ میں ایک مضمون’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا جس کے بعد رسالے پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
امام حسین (ع) امت محمدیہ کا مشترک سرمایہ ہیں۔
مولانا سيد ابوالاعلي مودودی رحمه الله عليه نے اپنے دوست محمد علی زیدی ایڈووکیٹ مرحوم کی رہائش گاہ واقع ٹیمپل روڈ لاہور پر مجالس عزا سے خطاب کیا، جس کی دو تقریریں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ اس سے مولانا کے روابط اور ان کی مشترکہ محفلوں میں شرکت کا اظہار ہے۔ ان مجالس میں آپ نے انہی خیالات کا اظہار فرمایا جو آج بھی فہم و شعور رکھنے والے پاکستانی کی آواز ہے کہ مکتب امام حسین (ع) کو رسم و رواج سے نکال کر عمل اور کردار میں ڈھالنا چاہیئے۔ اسی لیے وہ مقصد شہادت حسین (ع) پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ہر سال کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی، امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروں میں بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کے لیے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی، بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا۔ کسی شخصیت کی مظلومانہ شہادت پر اس کے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج و غم ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے 1320 برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ رہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کے لیے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کا کوئی معنی نہیں ہے اور خود امام کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کے لیے کچھ نہ کریں بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کے لیے گریہ کرکے اور ان کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روز ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کرے گا۔ (1)
بشکریہ اسلام ٹائمز
حوالہ :
1۔ پمفلٹ بعنوان شہادت امام حسین ع شائع کردہ، جماعت اسلامی، علامہ اقبال ٹاؤن ،لاہور




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
