
Super User
امام خمینی رح ایک تاریخ سازہستی
امام خمینی نے ایک ایسے دور میں جبکہ پوری دنیا کی نظروں میں صرف دو طاقتیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھی یہ واضح کردیا کہ دنیا کے اندر صرف دو طاقتیں ( مغربی دنیا اور کمیونسٹ ) ہی نہیں بلکہ تیسری ایک بہت بڑی طاقت بھی اسلام اور ایمان کی شکل میں موجود ہے
تحریر:ذاکر حسین جامعۃ النجف اسکردو پاکستان
تاریخ انسانیت ایسی عظیم شخصیتوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنی پاک سیرت، مہر و محبت اور انسان دوستی کی بناء پر لوگوں کے دلوں پر حکومت کی۔ انسان دوستی، نرم مزاجی، پاک کردار و گفتار اور مظلوم پروری وغیرہ ایسی صفات ہیں جو اپنے اندر ایک پر کشش مقناطیسی طاقت رکھتی ہیں۔ لھذا جس کے اندر یہ چیزیں موجود ہوں وہ ایسی مقبول شخصیت بن جاتی ہیں کہ بے اختیار انسانی توجہ ان پر مرکوز ہوتی ہے۔ خدا کے انہی پاک طینت اور پاکیزہ کردار بندوں میں سے ایک فرد صالح امام خمینی رح کی ذات ہے جنھوں نے اپنے کردار و گفتار کے ذریعے نہ صرف ایرانی قوم کے دلوں پر حکومت کی بلکہ پورے جہاں کے مظلوں کے دلوں کو اپنی طرف مبذول کیا۔ دنیا اس بات پر یقیناً حیرانگی کا مظاہرہ کرے گی کہ وہ انسان جس کے ہاتھ ہر قسم کے مادی وسائل سے خالے تھے، جس کے پاس نہ فوجی طاقت تھی نہ مادی وہ فرد واحد جو دنیا کی سپر پاور طاقتوں کا مقابلہ کر رہے تھے کس طاقت کے بل بوتے ایک قلیل عرصے کے اندر کڑوڑوں انسانوں کے دلوں پر چھا گئے یقیناً ان کے اندر یقین کامل، اعمال صالح اور الہی طاقت تھی جس کے سامنے دنیا کی مادی طاقتیں ٹک نہ سکی۔
تاریخ اسلام میں بہت سارے علمائے حق ایسے نظر آ ئیں گے جنھوں نے تہہ تیغ کلمہ حق کی آواز بلند کی انھوں نے کلمہ حق کی سر بلندی کیلئے کتنی زحمتیں برداشت کیں، کتنے مظالم کا مقابلہ کیا مگر یہ تاج کسی کے سر پہ نہیں رکھا گیا کہ وہ بے سر و سامانی کے باوجود ایک اسلامی انقلاب برپا کر سکیں۔ لیکن بیسویں صدی کے اس عظیم رہنما کو یہ منفرد مقام حاصل ہے کہ انھوں نے روئے زمین کے اندر الہی حکومت کا قیام عمل میں لاکر عالم اسلام کے اوپر یہ واضح کر دیا کہ اگر مسلمان اپنے یقین کامل، اعمال صالح اور علم آگہی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں تو دنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں جو مسلمانوں کو زیر کر سکے۔ امام خمینی نے ایک ایسے دور میں جبکہ پوری دنیا کی نظروں میں صرف دو طاقتیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھی یہ واضح کردیا کہ دنیا کے اندر صرف دو طاقتیں ( مغربی دنیا اور کمیونسٹ ) ہی نہیں بلکہ تیسری ایک بہت بڑی طاقت بھی اسلام اور ایمان کی شکل میں موجود ہے۔ وہ چند ایک خصوصیات جن کی بناء پر امام خمینی بیسویں صدی کے آخری عظیم رہنما کے طور ابھرے۔
* امام خمینی نے عالم اسلام کی نئی نسلوں کو اپنے انقلابی افکار و نظریات سے متاثر کیا۔
* ایک ایسے دور میں جبکہ مسلمانان عالم مایوسی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے امام خمینی نے اپنے کردار و عمل کے ذریعے مسلمانوں کو یہ بات سمجھا دی کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو اس دور کے تمام فتنوں، الجھنوں اور مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
* امام خمینی نے اپنے وقت کے سامراجی و استعماری طاقتوں کے خلاف ( بے سر و سامانی کے عالم میں ) بغاوت کا علم اٹھا کر مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ انہیں خدا، رسول اور قرآن کے علاوہ کسی قسم کا خوف نہیں۔
* امام خمینی کی شخصیت نے عالم اسلام کے فکری کردار کو اعتماد فراہم کیا۔
* امام امت کی شخصیت کے انقلابی اثرات عالم اسلام کے نوجوان نسل پر پڑے اور ان میں مجاہدانہ کردار ابھرے۔
* انقلاب اسلامی کے ظہور کے ساتھ امام امت نے اتحاد بین المسلمین کا نعرہ بلند کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات کا باعث بنے تو وہ نہ شیعہ ہے اور نہ سنی بلکہ استعمار کا ایجنٹ ہے۔
* دشمنوں کی طرف سے مختلف قسم کے مخالفانہ پروپیگنڈے کے باوجود امام خمینی نے اسلامی اصولوں کی پاسداری کرنے میں انحراف نہیں کیا۔
* امام خمینی نے عالم اسلام کے قلب میں جو لرزشیں پوشیدہ تھیں ان کو رفع کیا اور اپنی قیادت کے کرشمہ سے عالمی سیاسیات میں اسلام اور بلاد اسلام کو مرکزی اہمیت فراہم کی۔
* امام امت مستضعفین جہاں کی آواز بن کر ابھرے۔
* امام خمینی نے اپنی جدوجہد اور کاوشوں کے ذریعے عالم اسلام پر یہ واضح کردیا کہ خمینی ذاتی اقدار کا حصول نہیں چاہتے بلکہ ان کا مقصد دین محمدی کو لے کر پوری دنیا میں چھا جانا ہے۔
آج اگرچہ امام امت ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن امام کے افکار و نظریات آج بھی خواب غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو پکار پکار کر یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانو! تمہارے تمام مصائب و مشکلات کا حل اسلام اور قرآن کے اندر موجود ہے اگر تم آج بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست دینا چاہتے ہو تو قرآن کو عملی میدان میں لے آو۔ یقیناً آج مسلمان جس قدر مظلومانہ اور مایوسی کی زندگی گزار رہے ہیں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ایک طرف مسلمانوں کے اوپر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں دہشت گرد قرار دینے کی مذموم کو ششیں کر رہی ہیں۔
افغانستان، عراق اور فلسطین کی صورتحال سے کون ناواقف ہے، ایک خونخوار درندے کی شکل میں امریکہ ان ملکوں میں نمودار ہوا اور یہاں کے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں تک کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا لیکن کسی مسلمان کے اندر یہ جرات پیدا نہ ہو سکی کہ وہ آگے بڑھ کر کہے کہ اس دور میں سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے اور اس کا اپنا وجود انسانیت کی بقاء کے لئے خطرناک اور ضرر رساں ہے۔ امام خمینی تو وہ عظیم مرد مجاہد ہے جنھوں نے ان حالات کے پیدا ہونے سے پہلے ہی پیشن گوئی دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا شیطان امریکہ ہے اور اس کے وجود سے عالم اسلام کو خطرات لاحق ہیں۔ لیکن عقل کے کھوٹے مسلمانوں نے اس پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی جس کی سزا آج پوری امت مسلمہ بھگت رہی ہے۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
حضرت امام خمینی(رہ)کا مقصد اسلام کا غلبہ و سرفرازی
پاکستان کی جماعت اسلامی کے رہنما اسداللہ بھٹو نےکہا ہے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رہ) کامقصد امریکہ، اسرائیل اور دیگر استعماری و استکباری طاقتوں سے مقابلہ اوراسلام کا غلبہ و سرفرازی تھا۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت مسلسل جدوجہد کا نام ہے، تبدیلی کیلئے مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے، بعض اوقات کئی کئی دہائیاں بیت جاتی ہیں منزل تک پہنچنے کیلئےاور اس دوران کئی نسلیں گزر جاتی ہیں۔ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انقلاب کے اوائل میں محمد علی رجائی وزیراعظم تھے، پارلیمنٹ میں بم دھماکہ کیا جاتا ہے، وزیراعظم، اسپیکر سمیت درجنوں اراکین پارلیمنٹ شہید ہو جاتے ہیں، لیکن وہاں کسی قسم کی کوئی ایمرجنسی نافذ نہیں کی گئی۔ اس بات کا کریڈیٹ امام خمینی ﴿رہ﴾ کو جاتا ہے، ان کی وہاں اسلامی جمہوریت کیلئے کوششوں کو جاتا ہے۔ امام خمینی ﴿رہ﴾ نے وہاں کوئی عبوری حکومت قائم نہیں کی بلکہ فوری طور پر انتخابات کا اعلان کیا۔
جماعت اسلامی سندھ کے صدراسد اللہ بھٹوکا کہنا تھا کہ اس وقت واقعاً صورتحال انتہائی افسوسناک ہے مگر اس کے ساتھ ہی جو بات سب سے زیادہ خوش آئند ہے وہ ہے امت کے درمیان اتحاد۔ عوام چاہے مصر کی ہو یا تیونس کی، پاکستان کی ہو یا ایران کی، ترکی کی ہو یا انڈونیشیا کی، بلکہ یورپ، ایشیاء، افریقہ سمیت دنیا بھر کے مسلمان اس حوالے سے ایک طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانان عالم کے اندر فکری وحدت، فکری ہم آہنگی موجود ہے، وہ فرقہ واریت کے خلاف ہیں لیکن سوائے ایک آدھ اسلامی ملک کے، ہمارے تقریبا تمام مسلمان ممالک کے حکمران امریکا کے ایجنٹ اور پٹھو ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمیں یہ اختلاف نظر آتا ہے۔ ہمارے حکمران کے کچھ نہ کرنے کی اصل وجہ ان کا ہر معاملے میں امریکا سے ڈکٹیشن لینا ہے لیکن امت کے اندر اختلاف نہیں بلکہ اتحاد و وحدت موجود ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں درجنوں غیر ملکی سروے کئے جا چکے ہیں اور سب میں پاکستانی عوام کی اکثریت نے امریکا سے نفرت کا اظہار کیا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ امت جاگ رہی ہے۔ استعمار پاکستان میں شیعہ سنی جھگڑا کرانا چاہتا ہے۔ فرقہ واریت کو جنم دے کر وہ چاہتا ہے کہ جب ایران کے خلاف کوئی پابندیی لگائے، یا اسرائیل کی جانب سے ایرانی ایٹمی پروگرام پر جارحیت کی جائے تو سنی یہ کہے کہ ہمارا کیا واسطہ یہ تو شیعوں پر ہوا ہے۔ اسی طرح جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ پابندیاں لگائے یا حملہ کرے تو وہاں کے عوام یہ سوچے کہ ہم تو شیعہ ہیں، اگر پڑوس میں ہوا ہے تو ہم کیا کریں۔ مگر ہم ان تمام سازشوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وحدتِ امت کے ذریعے امریکا، اسرائیل سمیت تمام سامراجی، طاغوتی قوتوں کو ناکامی سے دوچار کرینگے۔
مجھے یاد ہے کہ جب ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہو رہا تھا تو پاکستان میں امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے دو نمائندے بھیجے تھے، جن میں سے ایک بعد میں ایران کے وزیر خارجہ بھی بنے۔ دونوں نمائندوں نے آ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کیلئے امام خمینی (رہ)شریف لا رہے ہیں۔ اس وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے نہ صرف ان کا استقبال کیا تھا بلکہ ان کی اسلامی حکومت کو پاکستان نے سب سے پہلے تسلیم بھی کیا تھا۔
ہم ایران کے اسلامی انقلاب کو شیعہ کے بجائے اسلامی انقلاب سمجھتے ہیں۔ یہ اسلامی انقلاب الحمد اللہ آج تک برقرار ہے، ہمیں خوشی ہے، اللہ اسے مزید قائم و دائم رکھے۔
اسلامی نظام حکومت اور سیاست و حکومت کو اسلام کے مطابق بنانے کیلئے امام حسین عالی مقام (ع) نے سب سے بڑی قربانی دی ہے کہ یہاں پر اسلامی نظام ہونا چاہئیے۔ امام حسین (ع) کے قیام کے وقت لوگ نمازیں بھی پڑھ رہے تھے، روزے بھی رکھ رہے تھے، حج بھی کر رہے تھے۔ لیکن اسلامی نظام نہیں تھا، اسلامی احکامات کو تبدیل کیا جا رہا تھا، اس لئے امام حسین (ع) نانا (ص) کے دین کی بقاء اور اسلامی نظام حکومت کیلئے کھڑے ہو گئے اور سب سے بڑی قربانی دی۔ اصل میں یہ استعمار، استکبار، طاغوت کا فلسفہ ہے کہ دین و سیاست جدا ہیں۔ اسی لئے ہم امام خمینی (رہ) کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عملی طور پر ایک کامیاب اسلامی نظام حکومت، اسلامی ریاست کا قائم کر کے دکھائی ہے۔
ہم اتحاد امت اور وحدت اسلامی کے ذریعے عالم اسلام اور مسلمین کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان سب کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی (رہ) نے فرمایاتھا کہ فقہ جعفری سے تعلق رکھنے والے شیعہ، حنفی، حنبلی، مالکی اور شافعی یہ پانچوں ایک مکے کی طرح ہیں، پانچ انگلیاں جب مل جائیں گی تو ایک مکا بنے گا اور انشاءاللہ یہ اتحاد امت کا مکا ہے جو سامراج اور طاغوت کے جبڑے کو توڑ دے گا۔
امام راحل کی 24 ویں برسی، تہران میں 30 ہزار پولیس اہلکار تعینات
اسلامی جمہوریہ ایران کے پولیس چیف نے کہا ہےکہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی چوبیسویں برسی کے پروگراموں کے موقع پر تہران میں تیس ہزار پولیس اھلکار تعینات رہیں گے۔ مھر نیوز کے مطابق جنرل اسماعیل احمدی مقدم نےآج تہران میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس سال امام خمینی رح کی برسی کے پروگراموں کے موقع پر تیس ہزار پولیس اھلکار تعینات رہیں گے جو ٹریفک کنٹرول اور سکیوریٹی فراہم کرنے کی ذمہ داریاں انجام دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس موقع پر چھے ہزار چھے سو موبائيل یونٹ بھی سرگرم رہیں گے اور ہیلی کاپٹروں سے بھی نظر رکھی جائے گي۔ جنرل احمدی مقدم نے کہا کہ امام خمینی کی برسی کےموقع پر بیس لاکھ سے زائد زائر ایران اور مختلف ملکوں سے آئيں گے اور تیس ہزار بسوں کو زائرین کی سہولت کے لئے پرمٹ دئے گئے ہیں۔ واضح رہے اسلامی جمہوریہ ایران میں چار جون کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی چوبیسویں برسی منائي جائے گي۔
شام، مقام حضرت ابراہیم علیہ السلام شہید
شام میں النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےعین العروس نامی علاقے میں جو شام کے شمال میں واقع ہے مسلمانوں کی اھم زیارتگاہ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کر دیا۔النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےاس گھناونے اقدام کے بعد انٹر نیٹ پر اس کی ویڈیو بھی نشر کی۔
شام میں مقام حضرت ابراھیم(ع) ایک تاریخی اور قدیم ترین آثار میں سے تھا۔واضح رہے کہ اس سے قبل بھی وہابیت کے ٹکڑوں پر پلنے والے النصرہ کے ایجنٹوں نے پیغمبر اسلام کے جلیل القدر صحابی حجر ابن عدی کے مرقد مطہر پر حملہ اور نبش قبر کرکے ان کی ضریح مبارک کو مسمارکردیا اور ان کے جسد اطہر کو جو چودہ سو برسوں کے بعد آج بھی تر وتازہ اور خون آلود تھا نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ۔ نبش قبر جیسے غیرانسانی فعل کی نسبت کسی بھی مسلمان کی طرف نہیں دی جاسکتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو سینکڑوں بے گناہ بچوں ،جوانوں اور بوڑھوں کا خون بہاتے ہیں صرف یہی نہیں بلکہ نوجوانوں کی گردنوں کو بڑی بے رحمی سے تلواروں سے اڑاکر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور پھر ان لاشوں کی تصاویر کو انٹرنیٹ اور سیٹیلائٹ پر نشر کرتے ہیں اور خود کو مسلمان ثابت کرکے اسلام کا بدترین چہرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ اقدام ان دہشت گرد عناصر نے کیا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اپنی دہشتگردی کو جہاد کا مقدس نام بھی دیتے ہیں۔ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کر کے اسکی مسماری ان دہشت گردوں کا پہلا گھناونا اقدام نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی ان دہشت گردوں نے اسلامی مقدسات اور تاریخ اسلام کی اہم شخصیات کے مزارات کو نشانہ بنایا ہے اور ان کے آقاؤں نے انہدام جنت البقیع جیسا فعل انجام دیا تھا۔ یہ وہی گروہ ہے جس نے رسول اکرم (ص) کی نواسی اور سیدالشہداء امام حسین کی ہمشیرہ گرامی حضرت زينب (س) کے مزار کو مارٹر گولوں سے تباہ کرنے کی بارہا کوشش کی ہے۔ یہ دہشت گرد صرف مزارات کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ شام کے نہتے شہری بھی انکی بربریت سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے اندر انتہاء پسندی کی بنیاد رکھنے میں سعودی عرب کا بنیادی ہاتھ ہے، البتہ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ سعودی عرب کے ہر اقدام کے پیچھے امریکی اور برطانوی استعمار کا ہاتھ ہوتا ہے، اور اب تو یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ سعودی عرب اور اسکے بعض عرب اتحادی سلفیت اور تکفیری گروہوں کے ذریعے شام سمیت کئی ملکوں میں امریکی ایجنڈے کو آگئے بڑھا رہے ہیں۔شام میں ہونے والی دہشت گردی میں قطر اور سعودی عرب کا ہاتھ بہت ہی واضح ہے اور وہ میڈیا کے ذریعے واضح طور پر اس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ قطر، سعودی عرب اور ترکی شام میں بہنے والے خون کے ہر قطرے اور اسلامی مقدسات کی توہین کے ذمہ دار ہیں اور عالمی برادری کو چاہیے کو وہ ان ممالک کو شامی دہشت گردوں کی حمایت کرنے اور انہیں ہتھیار فراہم کرنے سے روکے۔
شام میں موجودہ حوادث کے آغاز میں اپریل کے مہینے میں سعودی ولی عہد نائف بن عبدالعزیز نے سعودی جیلوں کا دورہ کیا تھااور القاعدہ کے گرفتار افراد کو شام میں کردار ادا کرنے کی شرط پر رہا کر دیا۔ الظواہری نے گزشتہ جون میں اپنے بیان میں شام کی موجودہ حکومت کے خاتمے کی حمایت کی تھی، علاوہ ازیں مختلف ذرائع کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان، عراق اور یمن سے القاعدہ کے سینکڑوں اراکین کو شام روانہ کیا گیا ہےلہزا شام میں القاعدہ اور النصرہ میں کوئی فرق نہیں
شام کے سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ کار ریاض الاخرس نے بھی القاعدہ اور امریکہ کے مابین شامی حکومت کے خاتمے کے لیے ہم آہنگی کا پردہ چاک کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں کا اتحاد دراصل وائٹ ہاﺅس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہے۔ انھوں نے کہا کہ نہ فقط شام کے ہمسایہ ممالک سے القاعدہ کے ارکان کو رہا کرکے شامی سرحدوں کے قریب بھجوایا گیا ہے، بلکہ برطانیہ سمیت بعض مغربی ممالک سے بھی القاعدہ کے اراکین کو آزاد کرکے اردن وغیرہ بھجوایا گیا ہے، تاکہ انھیں حسب ضرورت شام روانہ کیا جائے اور وہ شام میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں جیسی کارروائیاں کرسکیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کونسا بڑا ہدف ہے جس نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور القاعدہ وغیرہ کو یکسو کر دیا ہے۔ شام میں ان قوتوں کے اتحاد کا مقصد کیا ہے؟ کیا واقعاً یہ سب قوتیں عوام دوست اور جمہوریت پسند ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ”ہاں“ وہی کہے گا جو احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔ سعودی عرب، قطر اور اردن کی موجودہ خاندانی بادشاہتوں کے سرپرستوں کو جمہوریت کتنی عزیز ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں۔
القاعدہ کی ہر کارروائی آج تک امریکہ اور اس کے دوستوں کے مفاد میں تمام ہوئی اور اس کی ہر ضرب کا زخم ہمیشہ مسلمانوں کے بدن پر لگا ہے۔ آج اسرائیل، امریکہ اور القاعدہ شام میں پھر ایک ہوگئے ہیں تو اس کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے شام کی موجودہ حکومت کا طویل عرصے سے اسرائیل کے خلاف جرات مندانہ موقف۔
شام میں النصرہ سے وابستہ تکفیری سلفی دھشتگردوں نےعین العروس میں واقع مسلمانوں کی اھم زیارتگاہ مقام حضرت ابراھیم(ع) کو آگ لگانے کے بعد بلڈوزروں کے ذریعے شھید کیا ہے اور یہ وہی عمل ہے جسکا ارتکاب القاعدہ اور اسکے ہم فکر سلفی و وہابی گروہ اس سے پہلے کرتے رہے ہیں
عراقی صوبی بصرہ میں ہزاروں افراد کا امام خمینی کو خراج عقیدت
عراق کے جنوبی صوبے بصرہ میں حضرت امام خمینی قدس سرہ کی چوبیسویں برسی کی مناسبت سے پروگرام ہوئے ہیں۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق یہ پروگرام الرافدین ادارے نے کرائے ہیں اور ان میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ ان پروگراموں میں شریک افراد نے حضرت امام خمینی قدس سرہ کو خراج عقیدت پیش کرتےہوئے کہا کہ آپ نے ڈٹ کر سامراج کا مقابلہ کیاتھا۔ پروگرام میں شریک افراد نے آپ امت اسلام میں اتحاد قائم کرنے کی آپ کی نصحیتوں پرعمل کرنے کی ضرورت پرتاکید کی۔ الرافدین ادارے کے سربراہ نے اس موقع پر کہا کہ امام خمینی نے علماء دین کی روشن تصویر اور امت اسلام کی رہبری میں ان کے کردار کو واضح کیا ہے۔ بصرہ انتظامی کونسل کے رکن احمد السلیطی نے کہا کہ امام خمینی مظلوموں کے حامی تھے اور آپ نے ظالموں اور سامراج کے مقابل قیام کرکے عدل و انصاف اور اسلا م کے اصولوں پر حکومت قائم کی۔ ہر سال چار جون کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی قدس سرہ کی برسی منائي جاتی ہے۔
مکتب اہلیبیت ع سے آشنائی، امام خمینی کا کارنامہ
ترکی میں اھل بیت فاونڈیشن کے سربراہ فرمانی آلتون نے کہا ہے کہ حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اھل عالم کو مکتب اھل بیت علیھم السلام سے آشنا کراکر قوموں کوبیدار کیا ہے۔ فرمانی آلتون نے کہا کہ حضرت امام خمینی قدس سرہ نے اھل عالم کو مکتب اھل بیت علیھم السلام سے آشنا کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے حقیقی اسلام محمدی کی بنیادوں پر اسلامی حکومت قائم کرنے میں امام خمینی کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب نے دنیا کے حالات میں اہم کردار ادا کیا ہے ا ور اسلامی بیداری میں اس کی نشانیاں دکھاي دے رہی ہیں۔ انہون نے کہا کہ حضرت امام خمینی کی ھدایات نے مسلمانوں کو سامراج کے تسلط سے نجات دلائي ہے۔ انہوں نے سامراج کے مقابل ملت اسلام کے اتحاد کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ قران و اھل بیت کی پیروی مسلمانوں کو اس منزل تک پہنچاسکتی ہے۔ ادھر صربیہ یونیورسٹی کے پروفیسر رادہ بوژوویچ نے کہا ہےکہ امام خمینی کے افکار و نظریات نے مسلمانوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ صربیہ کی یونیورسٹی کے اس پروفیسر نے بانی انقلاب اسلامی کو خراج عقیدت پیش کرتےہوئے کہا کہ امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب نے ارینا کو علاقے کی بڑی طاقت میں تبدیل کردیا اور عالمی سطح پر دنیا میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بنا۔ صربیہ کے اس ماہر مشرقیات نے امام خمینی قدس سرہ کو بیسویں صدی کاعظیم ترین سیاسی چہرہ قراردیا۔
حزب اللہ کی جانب سے امریکی پالیسیوں کی مذمت
حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ شام میں بحران پیدا کرنے کا امریکی مقصد صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کو کمزور بنانا ہے۔ المنار ٹی وی کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے شام کے خلاف امریکہ کی سازشوں کی مذمت کرتےہوئے کہا کہ امریکہ نے صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کو کمزور بنانے کے لئے شام کے خلاف سازشیں رچی ہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ شام اس وقت صیہونی حکومت کے خلاف جاری استقامت کی حمایت اور علاقے کو جنگ کی آگ سے بچانے کے لئے اپنی ساری توانائي سے صیہونی حکومت اور امریکہ کی سازشوں کا مقابلہ کررہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ نے کہا کہ امریکہ کو شام کے عوام کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شام کے سیاسی عمل میں تمام پارٹیاں اور دھڑے شامل ہوں اور امریکہ ملت شام کے خلاف اپنی سازشوں سے دستبردار ہوجائ۔ شیخ نعیم قاسم نے بیروت کے جنوبی علاقے پر میزائل حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کامقصد لبنان میں فتنہ بھڑکانا ہے اور حزب اللہ ان فتنوں کا بھرپور طرح سے مقابلہ کرے گي۔
رہبر معظم سے پارلیمنٹ کے اسپیکر اور نمائندوں کی ملاقات
۲۰۱۳/۰۵/۲۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے اسپیکر، سربراہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں سے ملاقات میں قوہ مقننہ کو تمام امور کا نگراں اور قوہ مجریہ کو میدان میں سنگين امور انجام دینے کا ذمہ دار قراردیااور حکومت اور پارلیمنٹ کے باہمی روابط میں انصاف، گفتگو، تعاون اور قانون کی رعایت کے سلسلے میں تاکید اور گیارہویں صدارتی انتخابات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سب کو تلاش و کوشش کرنی چاہیے تاکہ انتخابات عوام کی ولولہ انگیز ،وسیع اور بھر پور شراکت کے ذریعہ منعقد ہوں کیونکہ انقلاب اسلامی کی کامیابی سے لیکر آج تک اسلامی نظام کا استحکام اور اقتدار عوام کی میدان میں وسیع پیمانے پرموجودگی اور پشتپناہی پر استوار رہا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ولولہ انگیز انتخابات کے انعقاد کو ملک کی سلامتی، اقتدار،تحفظ اور دشمنوں کے خطرات کو دور کرنے کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوری نظام بڑا گہرا اور مضبوط نظام ہے کیونکہ اس کی جڑیں عوام کے اندر ہیں اور اسے عوامی پشتپناہی حاصل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی پشتپناہی کو اسلامی نظام ، ملک اور قوم کی عزت اور سربلندی کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: انتخابات عوام کی شرکت کا عظیم مظہر ہیں لہذا انتخابات میں عوام کی شرکت ولولہ انگیز اور نمایاں ہونی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات کے تمام مراحل میں موجود قوانین کو معقول، منطقی ، جامع اور بغیر کسی رکاوٹ کے قراردیتے ہوئے فرمایا: اب تک کے تمام مراحل بھی قانون کی روشنی میں انجام پذیر ہوئے ہیں اور امیدواروں نے بھی اپنے انٹرویوز میں قانون پر عمل کرنے کی تاکید کی اور صلاحیتوں کی تائيد کے بعد بھی انھوں نے قانون پر عمل کیا لہذا ان تمام افراد کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جن کی صلاحیت کی تائید نہیں ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس رفتار کو قانون کی اہمیت اور ترجیح کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ممکن ہے ہم قانون سے بھی راضی نہ ہوں لیکن قانون پر ہمارا عمل قانون کے فصل الخطاب ہونے کا سبب بنتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے دوسرے نکتہ میں صدارتی امیدواروں کی تشخیص اور انتخاب کے سلسلے میں عوام کی بصیرت اور ہوشیاری پر تاکید کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی عوام کی سیاسی مسائل میں آگاہی اور بصیرت ، عالمی متوسط سطح سے بہت بلند و بالا ہے اور اسی طرح ریڈيو اور ٹی وی کے پروگراموں کے ذریعہ بھی عوام صدارتی امیدواروں میں سے اچھے اور اصلح امیدوار کو تشخیص دیکر انتخاب کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ممکن ہے جس نتیجہ تک انسان پہنچے وہ صحیح یا غلط ہو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن مہم یہ ہے کہ آپ نے اپنی تشخیص ، بصیرت اور آگاہی کے ذریعہ انتخاب کیا اور یقینی طور پر اللہ تعالی اس پر ثواب عطا کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدارتی امیدواروں کو بھی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے دوش پر سنگین ذمہ داری ہے اور انھیں ہوشیار رہنا چاہیے اور عوام کی توجہ مبذول کرنے کے لئے حقیقت اور صداقت کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کی گفتگو حقیقت ، صداقت اور صحیح و درست اطلاعات پر مبنی ہونی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: صدارتی امیدواروں کو عوام کے سامنے صرف حقائق کو پیش کرنا چاہیے انھیں ملک کے بارے میں بھی اور اپنے بارے میں بھی حقائق کو پیش کرنا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر صداقت کے ساتھ عمل کیا جائے تو یقینی طور پر اللہ تعالی مدد و نصرت کرےگا اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت کبھی عوام کی خدمت اور مسؤلیت کی توفیق حاصل ہونے کے ذریعہ اور کبھی خدمت اور مسؤلیت کی توفیق سلب ہونے کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے دوسرے امیدواروں کی تخریب اور اسی طرح معاشرے کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر انتخابات میں رہبری کی رائے کو بعض افراد کی طرف منسوب کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ باتیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں جو حقیقت سے بالکل عاری ہیں کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ رہبری کسے ووٹ دیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: رہبری کا بھی دوسرے افراد کی طرح ایک ہی ووٹ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انتخابات میں رہبری کے ووٹ اور رائے کے بارے میں غیر ملکی میڈیا کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں نے اپنے طے شدہ اہداف کے مطابق اس پروپیگنڈے کو اپنا دستور العمل بنا لیا ہےلیکن اسلامی نظام دشمنوں کے پروپیگنڈے پر توجہ کئے بغیر اپنے ہدف اور مقصد کی جانب تدبیر کے ساتھ گامزن رہےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں پارلیمنٹ (مجلس شورای اسلامی) کی نمائندگی کو اسلامی نظام میں خدمت کا غنیمت موقع اور اس کے ساتھ اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حساس اور عظیم امتحان قراردیتے ہوئے فرمایا: اس حساس موقع پر اپنی مراقبت کرنی چاہیے کیونکہ اگر ذمہ دار انسان اس خطرناک موڑ سے صحیح و سالم گزر گیا تو اس وقت وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مؤفق اور کامیاب قرار پائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دسویں پارلیمنٹ میں گوناگوں ماہرین کی موجودگی کو بلوں اور پروگراموں کا دقیق جائزہ لینے کی اعلی ظرفیت کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: گذشتہ سال میں پارلیمنٹ نے سیاسی لحاظ سے بہتر اور اچھا مؤقف اختیار کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں نمائندوں کی رفتار و گفتار کو معاشرے پر اثرانداز ہونے کے لحاظ سے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر پارلیمنٹ میں عقل ، فکر، آرام و سکون ، ہمدردی اور محبت حکمفرما ہو تو ان خصوصیات کا اثر معاشرے پر بھی پڑے گا اور اگر پارلیمنٹ کے نمائندوں کی رفتار اس کے برعکس ہو تو عوام کی رفتار پربھی اس کا ویسا ہی اثر پڑےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر پارلیمنٹ میں تقوی، اخلاق ، ذمہ داری کا احساس اور شوق و نشاط پایا جائےگا تو اس سے عوام، نمائندوں کے قریب اور ان سے مانوس ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یقینی طور پر معاشرے کی تربیت اور اقدار کی حمایت اور مخالفت میں نمائندوں کی رفتار بہت ہی اہم اورمؤثر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بلوں کی منظوری میں نمائندوں کے ماہرانہ اور دقیق کام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ مسئلہ نمائندوں کے دوش پر عوام کا حق ہے لہذا بلوں کی منظوری میں ممتنع رائے دینا قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اگر نمائندہ اس موضوع یا مسئلہ میں تخصص اور مہارت رکھتا ہے تو اسے اپنے اجتہاد پر عمل کرنا چاہیے اور اگر تخصص نہیں بھی رکھتا پھر بھی اسے ماہرین سے مشورہ لینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض جلسات میں نمائندوں کی عدم شرکت اور کرسیوں کے خالی رہنے پر شکوہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: نمائندوں کو پارلیمنٹ میں ، جسمانی، ذہنی اور قلبی لحاظ سے حاضر رہنا چاہیے اور بلوں اور لوائح کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےپارلیمنٹ کے نمائندوں کے لئے انصاف کی رعایت کو ایک اور اہم نکتہ قراردیتے ہوئے فرمایا: نمائندوں کو اپنے ساتھیوں، حکومت اور عدلیہ کے مقابلے میں عدل و انصاف کو مد ںظر رکھنا چاہیے کیونکہ انصاف کو مد نظر نہ رکھنے سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوہ مقننہ اور قوہ مجریہ کے باہمی تعامل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قانون کی بنیاد پر قوہ مقننہ اور مجریہ دونوں کے حدود اور اختیارات مشخص ہیں اور انھیں اپنے حدود کی رعایت اور ایکدوسرے کے ساتھ تعامل برقرار رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان تعامل کا دو طرفہ راستہ ہے لہذا دونوں طرف توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان بعض اختلافی نظریات کی موجودگی کو قدرتی امر قراردیتے ہوئے فرمایا: طبیعی اور قدرتی اختلافی نظریات کو کدورت اور نفرت میں نہیں بدلنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ اور حکومت کو ایکدوسرے کا لحاظ رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ کو سمجھنا چاہیے کہ حکومت کے دوش پرمیدان میں سنگین اجرائی ذمہ داریاں ہیں اور ملامتیں بھی حکومت کے سر آتی ہیں لہذا قوہ مجریہ کے حال کی رعایت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکومت کو بھی قانون میں موجود پارلیمنٹ کے عظیم حق کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قانون کو تمام امور کی جڑ قراردیا اور پارلیمنٹ کو پٹری بچھانے اور حکومت کو اس پر حرکت کرنے سے تشبیہ کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کو اسی پٹری پر حرکت کرنی چاہیے جسے پارلیمنٹ نے بچھایا ہے لیکن پارلیمنٹ کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی پٹری بچھائے جس پر حکومت حرکت کرسکے اور خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے کسی گھاٹی میں گر نہ جائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کے بارے میں ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یقینی طور پر پارلیمنٹ تمام امور کی نگراں ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہر نمائندہ تمام امور کا نگراں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم کام کو خلوص نیت ، سنجیدگی، مجاہدت اور ذمہ داری کے احساس سے انجام دیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں گذشتہ ایک سال میں پارلیمنٹ کے اسپیکر، پارلیمنٹ کی سربراہ کمیٹی اور پارلیمنٹ کے نمائندوں کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔
اس ملاقات کے آغاز میں پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے پارلیمنٹ کی گذشتہ ایک سال میں کارکردگی کی رپورٹ پیش کی ، پارلیمنٹ کے اسپیکر نے نئے سال 1392 ہجری شمسی کے بجٹ کو صاف و شفاف بنانے کے سلسلے میں مختلف کمیشنوں کی کوششوں ، مہنگائی اور معیشتی مسائل حل کرنے، غیر ملکی کرنسی کو کنٹرول کرنے، قومی پیداوار اور مقاومتی اقتصاد کی حمایت کرنے، کسانوں اور ریٹائر ہونے والے افراد پر توجہ دینے، صحت و سلامت ،مالی انضباط میں گيس و تیل ، بجلی اور دفاع کے شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کو پارلیمنٹ کے اہم اقدامات میں شمار کیا۔
پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے مجموعی طور پر 300 بلوں میں سے 53 بلوں کی منظوری ، آڈٹ کورٹ کا نگرانی کے لئےنئی روشوں اور پیشرفتہ طریقوں سے استفادہ اور مختلف اداروں کے ڈائریکٹروں سے مسلسل رابطہ، پارلیمنٹ کے تحقیقاتی شعبہ کی جانب سے مشاورتی نظریات اور پارلیمنٹ کا ملک کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ تعاون کو گذشتہ ایک سال میں پارلیمنٹ کے دیگر اقدامات میں قراردیا۔
پارلیمنٹ کے اسپیکر نے آئندہ 24 خرداد مطابق 14 جون کے صدارتی انتخابات کو علاقائی اور بین الاقوامی شرائط کی روشنی میں حساس اور اہم قراردیتے ہوئے کہا: صدارتی انتخابات میں عوام کی ولولہ انگیز اور وسیع پیمانے پرشرکت سے عظیم اور شاندار سیاسی رزم و جہاد کا مظاہرہ ہوگا۔
حزب اللہ لبنان استقامت کا مظہر، وزیر اعظم تمّام سلام
لبنان کے منتخب وزیر اعظم تمّام سلام نے کہا ہے کہ حزب اللہ لبنان استقامت کا مظہر ہے اور شام میں اس کی موجودگي سے کوئي فرق نہیں پڑتا ہے۔
العالم ٹی وی چینل کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق تمّام سلام نے آج حزب اللہ لبنان کا نام دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کۓ جانے پر مبنی فرانس کے فیصلے کے بارے میں کہا کہ یورپی یونین اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے لیکن حزب اللہ لبنان ایک جہادی تنظیم ہے اور جب تک ملک کو صیہونی حکومت کے خطرات اور قبضے کا سامنا ہے اور یہ حکومت ہمیشہ لبنان کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کرتی رہے گی تب تک اس صورتحال میں کوئي فرق نہیں آئے گا۔
دریں اثناء لبنان کے وزیر خارجہ عدنان منصور نے بھی حزب اللہ کی حمایت پر تاکید کی ہے۔
عدنان منصور نے آج لبنان سے شائع ہونے والے اخبار السفیر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ حزب اللہ لبنان کو دہشتگرد قرار دیۓ جانے کے مخالف ہیں۔ عدنان منصور نے برسلز میں یورپی یونین سے وابستہ پنشمنٹ [Punishment ]کمیٹی کے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں حزب اللہ لبنان کانام دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کۓ جانے کی تجویز پیش کی جائے گی لیکن لبنان کی حکومت اس کی مخالف ہے اور وہ اس کو ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ لبنان کے وزیر خارجہ نے حزب اللہ کو لبنان کی قوم اور سیاست کا اٹوٹ حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ پارلیمنٹ اور حکومت میں بھرپور طرح سے موجود ہے اور اسے دہشتگرد قرار دینے کی ہر طرح کی کوشش کا مقصد لبنان میں سیاسی کشیدگي پیدا کرنا ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین کی پنشمنٹ کمیٹی چار جون کو برسلز میں اپنے ایک اجلاس میں حزب اللہ لبنان کا نام دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کۓ جانے کا جائزہ لے گی۔
ایران پاک گیس پروجیکٹ کی حمایت
پاکستان میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایران پاکستان گيس پائپ لائن پروجیکٹ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہےکہ حکومت مقررہ وقت میں اس پروجیکٹ کو مکمل کرے اور اس کے خلاف کسی بھی حکومت کے دباو میں نہ آئے۔
ادھر ہندوستان کے وزیرخارجہ سلمان خورشید نے حال ہی میں اس پروجیکٹ میں ہندوستان کی شمولیت کی خواہش ظاہر کی تھی اور کہا تھاکہ ہندوستان امن گيس پائپ لائين میں شریک ہونے کےلئے ایران سے دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔ دراین اثنا ہندوستان کے وزیر پٹرولیم ویرپا موئيلی نے بھی امن گيس پائپ لائين کو اپنے ملک کے لئے منافع بخش قراردیتے ہوئےکہا ہے کہ اس گيس پائپ لائن سے فراہم کی جانے والی گيس اور اس کی سکیورٹی کے بارے مین ایران کے ساتھ مذاکرات مثبت رہے ہیں۔ ہندوستان نے گرچہ دوہزار سات میں سیاسی اور سکیورٹی مسائل نیز امریکہ کے دباؤ میں آکر اس پروجیکٹ سے کنارہ کشی اختیارکرلی تھی لیکن گذشتہ مارچ میں ایران و پاکستان کے حکام کے مذاکرات اور پاکستان میں اس پائپ لائن پر کام شروع ہونے کے بعد اس نے اپنے موقف پر نظر ثانی کی ہے۔ ایران پاکستان گيس پائپ لائین کا کام ایران میں مکمل ہوچکا ہے۔