Super User
حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید محمدسعید حکیم مد ظلہ الشریف

بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید محمدسعید حکیم (دام ظلہ الشریف)
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
ہم آپ سے گذارش کرتے ہیں کہ ملا یین مسلمانوں کی خاص طور پر اِن دو اہم مو ضوعات میںرہنما ئی فرمائیں :
جو شخص زبا ن پر شہادتین جاری کرے ،قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھے اور آٹھ مذاہب (حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی ،جعفری،زیدی،اباضی اور ظاہری)میں سے کسی ایک مذہب کی پیروی کرے وہ مسلمان شمار کیا جاتا ہے ،اُس کا خون ،آبرو اور مال محترم ہے ؟
آپ کے دفتر سے جواب:
''صحابہ اور دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کرنا چا ہے وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں،شیعوں کے اعتقادات میں سے نہیں ہے ۔یہ امروحکم اسلام کی روح اور اُس کے ارکان پرمبتنی ہے ۔یہ مطلب شیعوں کے ائمہ (علیہم السلام)کی احادیث سے نقل ہواہے نیزاُن کے علماء کے فتوے اوراُن کے کلام سے سمجھا جاتا ہے ''۔
ایک اورکسی مومن نے آپ سے سوال کیا:
ہم سے بہت سے مسلمان اورغیر مسلمان اسلامی مذاہب کے درمیان رابطہ کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ہم آپ سے ان دونوں سوالوں کے جوابات دینے کا تقاضا کرتے ہیں:
١۔جو شخص اسلامی مذاہب (حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی ،جعفری،زیدی،اباضی اور ظاہری)میں سے کسی ایک مذہب کی پیروی کرے وہ مسلمان شمار کیا جاتا ہے؟
٢۔اسلام میں تکفیر کی کیا حد ہے ؟آیا کسی ایک مسلمان کادوسرے معروف اسلامی مذاہب (جن کا پہلے سوال میں تذکرہ ہو چکا ہے)میں سے کسی ایک مذہب کا اتباع کرنے والے یا اشعریہ مذہب یا معتزلہ مذہب کا اتباع کرنے والے کی تکفیر کرنا جا ئز ہے ؟ آیا صوفی مسلک کی پیروی کرنے والے کی تکفیر کرنا جا ئز ہے ؟
آپ کا جواب:
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ و لہ الحمد
١۔ شہادتین کا اقراراوردین کے فرائض اور واجبات جیسے نماز وغیرہ کا انجام دینا اس لئے کہ ہم انسان کو مسلمان سمجھیں ،کافی ہے۔ اس ترتیب سے دین اسلام کے احکام منجملہ خون ،مال وغیرہ کی حرمت اُس کے لئے صدق کرتی ہے ۔
٢۔ اس سے پہلے ہم جو کچھ بیان کرچکے ہیں اُس میں اِس سوال کا جواب گذر چکا ہے ۔
السید محمد سعید الحکیم
حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید یوسف مدنی تبریزی مد ظلہ الشریف

بسمہ تعالیٰ
اسلام ادیان ومذاہب خاص طورسے اسلامی میں سے کسی بھی ایک مذہب کے اعتقادات کی توہین کرناجائزنہیں جانتااوراسلامی امت کے درمیان اختلاف کا باعث اورمسلمانوں کاجانی اورمالی نقصان کا باعث ہونے والی ہرحرکت حرام اورشرع مقدس کے خلاف ہے ۔
مسلمانوں کے خلاف خود کش حملے اورمختلف ملکوں میں اُن کاکشت وکشتارصاحب شریعت اورہرآزاد انسان کے دل کو برمادیتا ہے،یہ رافت ورحمت والے دین کے ساتھ یہ کسی طرح بھی سازگارنہیں ہے اوردنیامیں اسلام کے چہرے کوملکوک کرتا ہے ۔
خداوند عالم مسلمانوں ظالموں اورمفسدوں کے شرسے محفوظ رکھے ۔
سید یوسف مدنی تبریزی
حضرت آیة اللہ العظمیٰ علوی گرگانی مد ظلہ الشریف

دفتر حضرت آیة اللہ العظمیٰ علوی گرگانی مد ظلہ العالی
بسمہ تعالیٰ
خدا وند عالم کا فرمان ہے :''یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْ ا اد خُلُوا فِي السّلْمِ کَافَّة وَ لَاتَتَّبِعُوا خُطُوَا تِ الشَّیْطَان اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوّ مُبِیْن''سورئہ بقرہ (٢)آیت ١٦٨۔
تمام ادوارمیں اسلام کا پیغام ہرطرح کی جسارت،تہمت اوربہتان سے پرہیزمنطق اورگفتگو پراعتماد کئے ہوئے تھا۔جہاں پراللہ فرماتا ہے :''اِدْفَعْ بِالَّتِ ھِیَ اَحْسَن'' اور یہ بھی فرماتا ہے :''وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اﷲِ فَیَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ'' اور موجودہ حالات میں اصل اسلام اور کلمہ ''اللہ ''کے دشمنوں نے تمام آسما نی ندا کے خاتمہ اوردنیامیں شیطانی حا کمیت کے لئے سازش رچی ہے،ان میں اختلافات اوردشمنی کی فضا ایجاد کرنے کی راہ میں نہیں چلناچاہئے کیونکہ اس کانفع صرف عالمی استکباراوربین الاقوامی صہیونزم کوہے جس طرح گذشتہ زمانہ میں مختلف اسلامی فرقے مخصوص افکاررکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ احترام اورمسالمت آمیز زندگی کرتے تھے اورصرف جلسوں میں بحث و گفتگو اورمنطقی مناظرے کیا کرتے تھے،آج بھی صلح کے ساتھ ایک ساتھ رہیں اور سب دشمنوں کے مقابلے میں متحد ہوں لیکن ہم اُن انکار کرنے والے گروہوں کے عمل کو محکوم کرتے ہیں جو طرح طرح کے بہانوں سے دوسرے فرقوں خاص طورسے شیعہ فرقہ کے ساتھ دشمنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں،نیزدنیا کے مختلف مقامات جیسے پا کستان ،افغانستان،عراق ،سوریہ ،انڈو نیشیا اور دوسرے بعض مقامات پرمسلمانوں کاکشت وکشتاراورانھیں قتل کر دیتے ہیں ،اُن کے اس کام سے صرف عالمی استکباروالے خوش ہوتے ہیں اوروہ اُن ہی کے راستہ پرگامزن ہیں اورقرآن کریم کے اس فرمان ''لَا تَتَّخِذُوا الکافرین اولیائ''کی صاف طورپرخلاف ورزی کرتے ہوئے اس عمل میں صہیونزم کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں اوراُن ہی کی ہم آہنگی سے شیعوں کے خلاف تلاش و کو شش کیاکرتے ہیں اورہم دعا کرتے ہیں کہ خدا وندعالم مسلمانوں کے معاشرے کو تفرقہ اوردشمنی سے دوررکھے ۔
محمد علی علوی
حضرت آیة اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی مد ظلہ الشریف

بِسْمِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
'' إِنَّ ہَذِہِ امَّتُکُمْ امَّةً وَاحِدَةً وَانَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِی''سورئہ انبیاء (٢١)آیت ٩٢۔
اتحاداوربھا ئی چارگی خداوندعالم کی بیش بہانعمتوں میں سے ہے،جس کی خداوندعالم نے یا دہانی فرمائی ہے ۔
''وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اﷲِ عَلَیْکُمْ اذْ کُنْتُمْ اعْدَائً فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ اخْوَانًا''سورئہ آل عمران (٣)آیت ١٠٣۔
پیغمبر رحمت کی اتباع کرنے والا،خود کو مسلمان ہونے کا نام دینے والاکس طرح دوسروں کی جان،عزت وآبرواورمال کو محترم شمارنہیں کرتا۔جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ خونریزی اورخشونت کے ذریعہ اسلام کا دفاع کرتے ہیں وہ ایسے دھوکہ کھا نے والے ہیں جواسلامی امت کے دشمنوں کے مطامع ولالچ کے وسا ئل ہوگئے ہیں آج دنیامیں مسلمانوں کے درمیان تفرقہ نہ صرف اُن کی شوکت وعظمت اورآرام کاخاتمہ کردے گا بلکہ وہ اہل دنیا کی نظرمیں اسلام کے وہن وسستی کا سرمایہ ہوگا،مذہب اہل بیت علیہم السلام کے پیرووں کو اس مہم پردوسرے مسلمان بھا ئیوں سے زیادہ توجہ کرناچا ہئے ۔ہم امام علی بن ابی طالب علیہ السلام کی پیروی کرنے پرافتخارکرتے ہیں ۔ تشیع کی حقیقت اُس راستہ پر گامزن ہوناہے جس کواہل ایمان کے پیشوا نے طے کیا ہے ، وہ امام دوسروں کی برائی اورتو ہین کوجائزنہیں جانتے تھے،نا سزا کہنے سے نہی فرماتے تھے،اُس سخی امام نے اسلام و مسلمانوں کے مفادات ،مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے راستہ ،تنازع دورکرنے اوراتحاد وبھا ئی چارگی کی دعوت دینے میں اعانت ومدد کی،اورخود ملامت برداشت کی ۔ہم امید کرتے ہیں کہ عام مسلمان مخصوصا مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیرو کار اِس پُرآشوب زمانہ میں امت کے مفادات کوفرقہ کے طورپرہونے والے لڑا ئی جھگڑوں پرمقدم رکھیں گے وحیانی تعلیمات اور رسول خدا کے ارشادات وفرامین کواپنے اعمال کا سرنامہ قراردیں گے ۔
خداوندعالم دشمنان اسلام کے کید ومکرکو خوداُن ہی کی طرف پلٹا ئے ۔
استفتائات دفترحضرت آیة اللہ العظمیٰ موسوی اردبیلی
حضرت آیة اللہ العظمیٰ حسین المظاہری مد ظلہ الشریف

استفتائات اورسوالات کے جوابات
سوال کرنے والے مشخصات : نام اور فیملی نام :حجة الاسلام و المسلمین سید علی قاضی عسگر ''دام عزہ''
مو ضوع :اعتقادات سوال نمبر :٢٠٠٢١
جواب کی تاریخ: 26/12/1391 ه .ش
جواب کا متن :
جو کچھ تحریرکیا گیاوہ تلخ حقیقت ہے جس پرپوری دنیا کے مسلمان خاص طورپراسلامی مذا ہب کے علماء نیزاسلامی ممالک کے رؤسا کوتوجہ اوراس کاعلاج کرنے کی چا رہ جوئی کرناچا ہئے،اب اسلامی دشمن اورعالمی استکبارمسلمانوں کی صفوں میں خاص طورسے مذہبی اورعقیدتی اختلاف ایجاد کرتے ہوئے آئے دن اپنے تسلط وقبضہ کووسیع اورمحکم ومضبوط کرتاجارہا ہے قرآن کریم ان اختلافات کواسلامی معاشرہ پرغالب آگ اورعذاب کے مثل جانتا ہے :'' قُلْ ہُوَالْقَادِرُ عَلَی انْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًامِنْ فَوْقِکُمْ اوْمِنْ تَحْتِ ارْجُلِکُمْ اوْیَلْبِسَکُمْ شِیَعًاوَیُذِیقَ بَعْضَکُمْ بَاس ''سورئہ انعام آیت ٦٥۔ جیسا کہ قرآن کریم صاف طورسے فرماتا ہے کہ استکباراورانسا نیت ومعنویت کے دشمن انسانوں پرمسلط ہوچکے ہیں اوریہ اسی اختلاف ایجاد کرنے کااثر ہے :'' اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھَاشِیَعَا''اس بڑے درد اورعظیم بلاومصیبت کاعلاج قرآنی دستور ''تَعَالَوْ ا اِلیٰ کَلِمَةٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ''پر عمل کئے بغیرممکن نہیں ہوگا ۔
اس بنا پرجیساکہ ہم متعدد مرتبہ یاد دہانی کراچکے ہیں کہ اختلاف ایجاد کرناچا ہے وہ فرداورگروہ کے ذریعہ ہونیزمذہبی احساسات کی تحریک کے ذریعہ ہو،خاص طورسے مسلمانوں کے مقدسات اوراعتقادات کی توہین ہواورپیغمبرعظیم الشان (ص)کا اتباع کرنے والوں کی صفوں کے درمیان تفرقہ ایجاد کرناعقلی اورشرعی طورپرجا ئزنہیں ہے،اسی طرح تکفیرومتحجّرگروہوں کے ذریعہ تباہ وبرباد کرنے والے اورخودکش حملوں کے اقدامات کرناجوبے گناہ مسلمانوں کے کشت وکشتارقتل وغارت کا باعث ہوتے ہیں یہ برے اورغیرانسانی عمل ہیں جوہرآزاد انسان کے دل کورنج وغم پہونچا تے ہیں اوریہ بات مسلّم ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن اس طرح کے تمام اقدامات ہی چا ہتے ہیں اورعالمی استکباراس چیزکی تلاش میں ہے کہ اس طرح کے اختلافات برپاکرنے اورتفرقہ انگیزاقدامات سے عملی طورپرمسلمان اُن کے ساتھ ہوجائیں اورظاہرہے کہ دشمن اورعالمی استکبار کا اتباع کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔خداوند عالم تمام مسلمانوں کو اختلاف اورتفرقہ ڈالنے کے شرسے محفوظ رکھے اورتمام افراد جومسلمانوں کے درمیان اتحاد کومحکم ومضبوط کرناچا ہتے منجملہ جناب عالی،خدا انھیں یہ توفیق عنایت فرما ئے ۔
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
حسین المظاہری
٤جمادی الاولیٰ ١٤٣٤ھ ق ١٢/٢٦ / ١٣٩١ ھ ش
حضرت آیة اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی مد ظلہ الشریف

دفترحضرت آیة اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی مد ظلہ الشریف
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
''وَ لَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ''
جو شخص خداوند متعال کی وحدانیت اورخاتم الانبیاء حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گوا ہی دے وہ مسلمان ہے،اُس کی جان آبرو اورمال محترم ہے اورکسی شخص کو بھی دینی مقدسات کی تو ہین کرنے کاحق نہیں ہے نیز خودکش حملے اورمسلمانوں کاخون بہانے کے اقدامات کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔
اسلام جورحمت،محبت اورمہربانی کادین ہے اس کی حقیقی صورت کی دنیاوالوں کے لئے نشاندہی کرانا مسلمانوں کافریضہ ہے ۔ سب کو پیارے اسلام کی ترقی اور پوری دنیا کے افراد کی ہدایت کے لئے ایک صف میں کھڑے ہوکرکو شش کرناچاہئے اور قرآن کریم میں خیانت کرنے والے دشمنوں کی سازشوں کو اتحاد کے ذریعہ درمیان سے ختم کرنااوراپنے اسلامی فریضہ پرعمل کرنا چاہئے ۔
''اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَا مَکُمْ''
والسلام علیکم و رحمة اللہ
لطف اللہ صافی گلپائگا نی
حضرت آیة اللہ العظمیٰ ناصرمکارم شیرازی مد ظلہ الشریف

بسمہ تعالیٰ
ہم متعدد مرتبہ یہ عرض کرچکے ہیں کہ اتحاد مسلمین اوراسلامی مذاہب کے درمیان مقارنت ہرزمانہ خاص طورپرموجودہ حالات میں اہم امورمیں سے ہے لہٰذا دوسروں کے مقدسات کی کسی بھی طرح سے توہین کرناشرعی طورپرجا ئزنہیں ہے شیعہ اوراہل سنت کے اہم مسلمانوں کواس چیز کی حفاظت کرناچاہئے کہ وہ دشمنان اسلام کے چنگل میں نہ پھنس جائیں،مذ ہبی فتنہ وفساد برپا نہ کریں،خودکش حملوں کے اقدامات اوربے گناہ افراد کاخون بہانا گناہ کبیرہ،مفسد فی الارض کا کھلم کھلامصداق اورہمیشہ جہنم میں رہنے کا باعث ہے،نیزآئین رحمت ورافت والے دین کوخشن اورقبول نہ کئے جانے والے دین میں بدل دیتے ہیں خداوندعالم اہل خطااور گمراہوں کی ہدایت فرما ئے ۔
والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
١٢/١٣ / ١٣٩١ ھ ش
ناصرمکارم شیرازی
امریکی ناقابل اعتماد اور غیر منطقی ہیں - رہبر انقلاب اسلامی

۲۰۱۳/۰۷/۲۱ – رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں ملک کے مختلف مسائل میں اقتدار اورانتظامی ذمہ داریوں کی منتقلی کے وقت کو حضرت امام خمینی (رہ) کے اہداف کے استمرار کے لئے مبارک وقت قراردیا اور ملک کے موجودہ اور تاریخی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہووئے فرمایا: اقتصاد اور علمی ترقیات و پیشرفت کا سلسلہ تمام حکام کی ترجیحات میں شامل رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کے مہینے کو ایک بار پھر درک کرنے اور اس کے فیوض و برکات سے استفادہ کرنے پر اللہ تعالی کا سپاس و شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: انسان کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ہر مدد و نصرت اور اس کے فضل و کرم کے بعد اللہ تعالی کے ساتھ توسل، تضرع و زاری اور عجز و انکساری میں اضافہ کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے لئے اللہ تعالی کی پیہم اور مسلسل نصرت اور مددکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے حالیہ صدارتی انتخابات میں سیاسی رزم و جہاد خلق کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالی کی مدد و نصرت کے آخری جلوے تھے اور اس عظیم سیاسی جہاد کے آثار بتدریج مختلف شعبوں میں نمایاں ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کی عظیم سیاسی حرکت اور رمضان المبارک کے باہمی ملاپ و تقارن کو اللہ تعالی کی توفیق قراردیتے ہوئے فرمایا: رمضان کا مہینہ اللہ تعالی کی رحمت، مغفرت ، توبہ اور انابہ کا مہینہ ہے اور تمام اعمال ، دعاؤں اور برکات کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں انسان کے زیادہ سے زیادہ تقرب اور تضرع و زاری کی راہ ہموار کرتا ہے اور سب کو اس عظیم اور استثنائی فرصت سے زیادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سخت اور آسان شرائط میں اللہ تعالی کی یاد کو انسان کی تکاملی حرکت کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: اس توجہ اور توسل کو عملی شکل میں تبدیل کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں مایوسی، پیچھے کی طرف برگشت اور پسماندگی باقی نہیں رہےگي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایسے عمل کے لئے صبر و توکل کو لازمی اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: صبر کے معنی پائداری ، استقامت اور ہدف کو فراموش نہ کرنے کے ہیں۔ اور توکل کے معنی بھی کام انجام دینے اور اس کے نتیجہ کو خدا سے طلب کرنے کے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذاتی اعمال اور ملک کے انتظامی امور میں صبر و توکل کے نقش و کردار اور ان سے استفادہ کے سلسلے میں بعض اصلی اور اساسی عناصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پہلا عنصر صحیح سمت کا انتخاب اور اس کی حفاظت پر مشتمل ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر سمت کا انتخاب غلط ہوجائے تو اس سے نہ صرف ہم مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے بلکہ مقصد سے دور ہوتے جائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی مدیریت میں صحیح سمت کےانتخاب کی تشریح کے سلسلے میں اس سال حضرت امام خمینی (رہ) کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس موقع پر میں نے تاکید کی تھی کہ حضرت امام خمینی (رہ) کے نظریات کی بنا پر تمام شعبوں میں ملک اور انقلاب کی صحیح سمتوں کا انتخاب مشخص ہے اور ان سمتوں میں دوباہ نظر ثانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کو ایک مضبوط ، عقلمند اور توانا فقیہی اور حکیم قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کے نظریات ان کے خطابات، تقاریر، تحریرات اور آثار منمجلہ ان کے وصیتنامہ میں مکمل طور پر واضح اور آشکار ہیں جو تمام حکام، ممتاز شخصیات ، ماہرین اور پوری قوم کے لئے حجت ، معیار او قابل قبول ہیں البتہ کبھی حضرت امام (رہ) کے نظریات کی غلط تفسیر پیش کی جاتی ہے جو خطرناک اور بہت ہی برا کام ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نے جن صحیح سمتوں کو مشخص کیا ہے ان کا نقش ملک کی مدیریت کی بلند مدت اور مختصر مدت پالیسیوں میں اساسی اورنمایاں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی مدیریت میں صبر و توکل میں شامل عناصر کے بارے میں تمام انسانی اور مادی وسائل اور ترجیحات پر توجہ دینے پر تاکید کی اور پھر ملک میں موجود حقائق کا جائزہ لیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاپنے خطاب کے اس حصہ کے مقدمہ میں اقتدار اور ذمہ داریوں کو منتقل کرنے کو مبارک موقع قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتدار کے منتقل کرنے کے سلسلے میں نئے افراد ، نظریات، خلاقیت اور نئے سلائق کا ورود بہت ہی مبارک موقع ہےاور اس سے اچھی طرح استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: الحمد للہ اسلامی جمہوری نظام میں اقتدار کی منتقلی میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور اقتدار آسانی اور خوش اسلوبی کے ساتھ منتقل ہوتا رہا ہے صرف سن 1388 ہجری شمسی میں بعض عناصر نے کچھ غلطیوں کا ارتکاب کیا ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے انتظامی امور میں جو نئے لوگ ، افراد اور گروہ وارد ہوتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ انجام شدہ کاموں سے استفادہ کرتے ہوئے ملک کی عمارت کو مزید اونچا کرنے میں اپنا نقش ایفا کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ حکومت میں انجام پانے والے نمایاں کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہر گروہ کو اپنے سے پہلے والے گروہ کے کاموں پر مثبت نظر رکھنی چاہیے اور کتنا اچھا ہے کہ آئندہ حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح یا اس سے بہتر انداز میں اپنی تلاش و کوشش جاری وساری رکھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے بلند مدت منصوبہ کے پیش نظر 7 حقائق پر توجہ مبذول کرنے پر تاکید کی۔
" ممتاز جغرافیائی پوزیشن" " قدیم و مضبوط تمدن اور قابل فخر تاریخ" " دولت و ثروت، قدرتی وسائل، انسانی صلاحیتیں، یہ پہلی تین حقیقتیں تھیں جن کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چوتھی حقیقت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ دو تین صدیوں میں اندرونی ڈکٹیٹر اور استبداد اور غیر ملکی سیاسی اور ثقافتی یلغار کی وجہ سے ایران کو سخت نقصان پہنچا ہے اور ہر قسم کے شرائط کا تجزیہ کرتے وقت اس مسئلہ پر توجہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مشروطیت، تیل کو قومی بنانے کی تحریک اور انقلاب اسلامی کی تحریک کو تین دیگر حقائق کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرمایا: مشروطیت کے دوران قومی قیام اور قومی تحریک شکست و ناکامی سے دوچار ہوگئی لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل غیر ملکی یلغار کا ٹھوس اور دنداں شکن جواب تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں ایران کے کامیاب تجربات کو چھٹی حقیقت قراردیا اور ملک کی بلند مدت پالیسی میں اس پر توجہ مبذول کرنےپر تاکید کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حیرت انگیز سائنسی ترقی اور اس کے علاقائي اور عالمی سطح پر اثرات، تعمیری شعبہ میں قابل توجہ ترقیات اور ثقافتی شعبہ میں طاغوتی دور کی نسبت 180 درجہ تبدیلی حالیہ تیس برسوں میں انقلاب اسلامی کی کامیاب حرکت کا مظہر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صحیح و سالم دینی عوامی اور جمہوری حکومت کو اندرونی سیاست کی عظیم کامیابیوں کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران میں قوہ مجریہ اور مقننہ میں اقتدار کی صحیح و سالم طور پر منتقلی قابل قدر اقدام ہے جبکہ مغربی ممالک میں یہ اقدام مکر و فریب اور فراڈ پر مبنی ہوتا ہے اور ایرانی قوم اور اسلامی نظام نے دنیا کے سامنے اسلامی جمہوریت کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی اندرونی سطح پر پیشرفت اور بانشاط جوانوں کو ائندہ کے لئے امید افزا قراردیتے ہوئے فرمایا: نسلی کنٹرول خطرناک مسئلہ ہے اور ماہرین اور دانشوروں کے مطابق اس مسئلہ کی وجہ سے ملک بوڑھے افراد سے دوچار ہوجائے گا جس کی وجہ سے بیشمار مشکلات کا سامنا کرنے پڑےگا اور اس مسئلہ کی روک تھام کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں پارلیمنٹ میں موجودہ منصوبہ پر پارلیمنٹ کے نمائندوں کی طرف سے زيادہ سے زيادہ توجہ مبذول کرنے کا مطالبہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں آخری حقیقت کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کے وسیع و عریض محاذ کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ارتجاع ، استکبار، بعض مغربی حکمراں ، علاقائی حکومتوں کے بعض کمزور حکام نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف وسیع محاذ کھول رکھا ہے جو اج تک کسی ملک کے خلاف نہیں کھولا گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بیان شدہ سات حقائق کو آئندہ کے لئے روڈ میپ قراردیتے ہوئے فرمایا: بیان شدہ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ عشرہ حقیقت میں پیشرفت اور عدالت کے عشرے میں تبدیل ہوسکتا ہے اور اس سلسلے میں اعلی حکام کی تلاش و کوشش اللہ تعالی کی بڑی نعمت ثابت ہوسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے بیان کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: ہمیں اپنے اعلی اہداف کی سمت ، پشرفت اور ترقی کے راستے پر گامزن رہتے ہوئے صبر و توکل کے ساتھ دشمن محاذ کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ہمیں اندرونی طاقت اور قوت کو مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی طاقت کی تشکیل کے عناصر کی تشریح کے سلسلے میں عوام اور حکام کے پختہ عزم اور مشکلات و عداوتوں کے مقابلے میں متزلزل نہ ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی حکام کو دشمن کی طرف سے اقتصادی ، سیاسی اور تبلیغاتی شعبوں میں دھمکیوں ، ترش روئی اور غیظ و غضب کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ ترجیحات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے اعلی حکام ، پالیسی سازوں اور ملک کے تمام حکام کو موجودہ شرائط میں دو ترجیحات سائنسی ترقیات اور اقتصادی مسئلہ پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی رزم و جہاد اس سال کے نعرے کا ایک حصہ تھا اور امید ہے کہ جسطرح حکام نے سیاسی رزم و جہاد کا شاندار مظاہرہ کیا اسی طرح وہ اقتصادی رزم و جہاد کو بھی ہمت و تلاش کے ساتھ عملی جامہ پہنائیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی رزم وجہاد مختصر مدت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا لیکن اس سلسلے میں کام شروع ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسری ترجیح یعنی سائنسی ترقیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ دس برسوں میں ملک کی سائنسی شعبہ میں ترقیات بہت ہی عمدہ رہی ہیں اور ترقی کی اس رفتار میں کمی نہیں آنی چاہیے کیونکہ مطلوبہ اہداف تک پہنچنے کے لئے ہمیں سائنسی ترقی کی اس سرعت کو برقرار رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر دنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نےدنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو کی ہمیشہ حمایت کی ہے لیکن دنیا کے ساتھ تعامل میں فریق مقابل کے اہداف اور مقاصد کی پہچان اور شناخت بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ہم فریق مقابل کو صحیح طور پر نہیں پہچانیں گے تو ہمیں نقصان ہوسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو میں دشمنوں کی عداوتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے حتی اگر کسی مصلحت کی بنا پر اظہار نہ بھی کرسکیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں امریکی حکام کے حالیہ اظہارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اس سال کے آغاز میں بھی کہا تھا کہ میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں خوش بیں نہیں ہوں اگر چہ میں نے عراق جیسے بعض خاص مسائل میں مذاکرات سے منع نہیں کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی غیر منطقی اورقابل اعتماد نہیں اور اپنی رفتار میں صادق بھی نہیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکام نے گذشتہ مہینوں میں اپنے اقدامات اور مؤقف سے واضح کردیا کہ ہمیں ان کے بارے میں خوش بین نہیں رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو میں اصلی ہنر یہ ہے کہ ہمیں اپنے راستے اور اپنے اہداف کی سمت گامزن رہنا چاہیے اور اگر دنیا کے ساتھ تعامل پس رفت کا باعث ہو تو یہ بہت بڑا نقصان ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی حالات کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: علاقائی حالات پر حکام کو توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر احمدی نژاد نے اپنے 8 سالہ دور حکومت میں انجام پانے والے اقدامات کے بارے میں مفصل رپورٹ پیش کی۔
لبنان اب لقمہ تر نہيں رہا
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سیدحسن نصراللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل آئندہ جنگ میں بیروت پرحملہ کرنے سے پہلے شمالی مقبوضہ فلسطین میں اپنےاڈوں کی فکر کرے۔
سیدحسن نصراللہ نے اسلامی استقامت کے وفود کی افطار پارٹی سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ جنگ میں صیہونی حکومت بیروت پر بمباری کرنے سے پہلے الجلیل کی فکرکرےگی۔
انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ کوئي بھی قیمت چکائےبغیر لبنان کےخلاف جارحیت نہيں کرسکتا۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے کہاکہ حزب اللہ، لبنانی عوام کی حمایت کےلئے میدان میں اتری ہے اور غاصب صیہونی حکومت جو لبنان میں حزب اللہ کی ہرجگہ موجودگی سے تشویش میں مبتلا ہے مختلف سازشوں سے اسےکمزور کرنے کےاقدامات کرتی رہی ہے لیکن وہ ناکام رہی ہے۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے لبنان میں حزب اللہ کی پوزیش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ، لبنان میں مضبوط ہے اور اسے عوامی حمایت حاصل ہے اورحزب اللہ ٹوٹنے والی نہيں ہے اور جوبھی اسے توڑنا چاہتے ہيں یا اسے تنہا کرناچاہتے ہيں وہ ناکام ہوں گے کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم نہيں بلکہ عوامی عزم کا نام ہے ۔
سیدحسن نصراللہ نے کہا کہ لبنان کادفاع صرف حزب اللہ پرمنحصر نہيں ہوناچاہئےبلکہ قوم کےہرطبقے کو ملکی اور غیرملکی دشمن کےسامنے اپنے ملک کےقومی اقتدار اعلی کی حمایت کرنی چاہئے ۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ حزب اللہ نے تینتیس روزہ جنگ میں امریکہ کے نئے مشرق وسطی کےمنصوبے کوخاک میں ملا دیا کہا کہ حزب اللہ ، انیس سوبیاسی میں اپنی تشکیل کے زمانے سے ہی تمام الزامات کےباوجود لبنان پرقبضےکےامریکہ واسرائیل کےمقاصد کوناکام بناتی رہی ہے۔
انھوں نے تاکید کےساتھ کہا کہ اسرائیل کومعلوم ہے کہ لبنان اب لقمہ ترنہيں رہا کیونکہ حزب اللہ نہایت مضبوط دفاعی پاور کی حامل ہے اور لبنان کےخلاف کسی بھی جارحیت کوپسپا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے لبنان میں داخلی اختلافات کےخاتمے اور ملک میں پائدار قیام امن کے بارے میں کہا کہ حزب اللہ تمام سیاسی گروہوں سے بات چیت کےلئے ہروقت تیار ہے۔
لبنان میں مختلف سیاسی ومذہبی شخصیتوں نے حزب اللہ کے استقامت و پائداری نیز اتحاد وجمہوریت سے سرشار جذبات وکردار کوسراہا ہے ۔
لبنان کے جمعیت قولناوالعمل کےسربراہ اورعالم اہلسنت احمدالقطان نے سیدحسن نصراللہ کے بیانات کاجائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ سیدحسن نصراللہ کے بیانات لبنان کی عظیم قوم کےمطالبات کےمطابق ہيں اور لبنان میں امن وسکون کاماحول قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہيں۔احمدالقطان نے لبنان کی مختلف پارٹیوں اورگروہوں سےمطالبہ کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کےسربراہ کی جانب سے دوسرے گروہوں کےساتھ تعاون کےرجحان کامثبت جواب دیں ۔
احمد القطان نے کہا کہ علاقے کےحالات کو دیکھتے ہوئےملت لبنان کو اس وقت ہمیشہ سےزيادہ امن واستحکام کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہاکہ مذاکرات اورصلاح ومشورہ بحران سےنکلنے کاواحد راستہ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے گروہ بھی سیدحسن نصراللہ کی نیک نیتی کامثبت جواب دیتے ہیں یا نہيں ۔
حزب اللہ کےتابناک ماضی وحال کےمدنظرسیدحسن نصراللہ کےبیانات پرمختلف ردعمل سامنےآیا ہے حتی مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت نے بھی سیدحسن نصراللہ کےانتباہ پر ردعمل ظاہرکیا ہے اسرائیل کےانسپیکٹرجنرل ژوزف شاپیرا سمیت مختلف صیہونی حکام نے حزب اللہ لبنان کےمقابلے میں اس حکومت کی عاجزی و ناتوانی کااعتراف کیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطی میں مسلمان ممالک کےخلاف سامراج اور صیہونی سازشوں کےمد نظر حزب اللہ لبنان کےسربراہ کا یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ لبنان اور صیہونی حکومت کےدرمیان تینتیس روزہ جنگ میں تل ابیب کی شکست کےبعد سامراج کا نیامشرق وسطی وجود میں لانے کا خواب شرمندہ تعبیررہ گیاجس کے بعد سامراج نے ایک طرف فلسطین کےہمسایہ ممالک شام اورمصر میں بحران کھڑا کرکے صیہونی حکومت کو فائدہ پہنچانے اوراس کےغاصبانہ قبضوں نیز صیہونی کالونیوں کی توسیع کا موقع فراہم کیا اور دوسری جانب لبنان میں داخلی سطح پر سیاسی ومذہبی اختلافات کوھوا دے کرعدم استحکام پیداکرناچاہ رہا ہے تاکہ غاصب صیہونی حکومت کواپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پرعمل کرنے کا پورا پورا موقع حاصل ہوجائے لیکن حزب اللہ لبنان کےسربراہ کےبیانات سےپتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت اپنےمذموم عزائم میں ہرگز کامیاب نہيں ہوگی ۔
اخلاق حسنہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلامی اخلاق اور اقدار کو معاشرے میں نافذ اور لوگوں کی روح، عقائد اور زندگی میں رائج کرنے کے لئے، زندگی کی فضا کو اسلامی اقدار سے مملو کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ پیغمبر اسلامۖ کی نرمی اور سختی قرآن کریم پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ملائمت اور لوگوں سے نرمی سے پیش آنے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ سخت نہیں ہیں۔ "فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک" یہی قرآن دوسری جگہ پر پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا ہے کہ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم" کفار اور منافقین سے سختی سے پیش آئیں۔ وہی "غلظ" (سختی) کا مادہ جو پہلے والی آیت میں تھا یہاں بھی ہے لیکن یہاں قانون کے نفاذ اور معاشرے کے امور چلانے اور نظم و ضبط قائم کرنے میں ہے۔ وہاں سختی بری ہے، یہاں سختی اچھی ہے۔ وہاں سختی سے کام لینا برا ہے اور یہاں سختی سے کام لینا اچھا ہے۔ پیغمبر اسلام ۖ کی امانتداری آپ کا امین ہونا اور امانتداری ایسی تھی کہ دور جاہلیت میں آپ کا نام ہی امین پڑ گیا تھا اور لوگ جس امانت کو بہت قیمتی سمجھتے تھے، اسے آپ کے پاس رکھواتے تھے اور مطمئن ہوتے تھے کہ یہ امانت صحیح و سالم انہیں واپس مل جائے گی۔ حتی دعوت اسلام شروع ہونے اور قریش کی دشمنی اور عداوت میں شدت آنے کے بعد بھی ، ان حالات میں بھی، وہی دشمن اگر کوئی چیز کہیں امانت رکھوانا چاہتے تھے تو آکے رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کرتے تھے۔ لہذا جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مدینے ہجرت فرمائی تو امیر المومنین (علیہ السلام) کو مکے میں چھوڑا تاکہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس لوٹا دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں۔ مسلمانوں کی امانتیں نہیں بلکہ کفار اور ان لوگوں کی امانتیں تھیں جو آپ سے دشمنی کرتے تھے۔
پیغمبر اسلامۖ کی بردباری آپ کے اندر تحمل اور بردباری اتنی زیادہ تھی کہ جن باتوں کو سن کے دوسرے بیتاب ہوجاتے تھے، ان باتوں سے آپ کے اندر بیتابی نہیں پیدا ہوتی تھی۔ بعض اوقات مکہ میں آپ کے دشمن آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ ان میں سے ایک کے بارے میں جب جناب ابوطالب نے سنا تو اتنا غصبناک ہوئے کہ تلوار لی اور اپنے ملازم کے ساتھ وہاں گئے جہاں رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گستاخی ہوئی تھی اور پھر جتنے لوگوں نے گستاخی کی تھی ان میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی کام کیا اور کہا کہ تم میں سے جو بھی اعتراض کرے گا اس کی گردن مار دوں گا، مگر پیغمبر نے وہی گستاخی بردباری کے ساتھ برداشت کی تھی۔ ایک بار ابوجہل سے آپ کی گفتگو ہوئی اور ابوجہل نے آپ کی بڑی توہین کی مگر آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بردباری سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ کسی نے جاکے جناب حمزہ کو اطلاع دے دی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ جناب حمزہ بیتاب ہو گئے۔ آپ گئے اور کمان سے ابوجہل کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ خون نکلنے لگا اور پھر اسی واقعے کے بعد آپ نے اسلام کا اعلان کیا۔ بعض اوقات کچھ لوگ مسجد میں آتے تھے، پیر پھیلا کے رسول سے کہتے تھے کہ میرے ناخن کاٹ دیجئے، اس لئے کہ ناخن کاٹنے میں آپ کو مہارت تھی، پیغمبر بھی پوری بردباری کے ساتھ اس گستاخی اور بے ادبی کو برداشت کرتے تھے۔ اچھے اخلاق کی دعوت لوگوں کو ہمیشہ اچھی باتوں یعنی، عفو و درگذر، چشم پوشی، مہربانی، ایک دوسرے سے محبت، کاموں میں پائیداری، صبر، حلم، غصہ پر قابو پانے، خیانت نہ کرنے، چوری نہ کرنے، بد کلامی نہ کرنے، کسی کا برا نہ چاہنے، اور دل میں کینہ نہ رکھنے وغیرہ کی نصیحت و تلقین کریں۔ لوگوں کو ان باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کوئی ایسا زمانہ فرض نہیں کیا جا سکتا جب ان اچھی باتوں کی ضرورت نہ رہے۔ لوگوں کو ہمیشہ ان اقدار کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اقدار نہ ہوں تو ترقی کی اوج پر ہونے کے باوجود معاشرہ برا اور ناقابل قبول ہوگا۔ پیغمبر اکرمۖ کی بردباری زمانہ جاہلیت میں مکہ والوں کے درمیان بہت سے معاہدے تھے۔ ان کے علاوہ ایک معاہدہ، "معاہدہ حلف الفضول" کے نام سے بھی تھا جس میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھے۔ کوئی اجنبی مکہ آیا اور اس نے اپنا سامان بیچا۔ جس نے اس کا سامان خریدا، اس کا نام " عاص بن وائل" تھا جو ایک بدمعاش تھا اور مکہ کے سرمایہ داروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے جو سامان خریدا اس کا پیسہ نہیں دیا۔ وہ اجنبی جس کے پاس بھی گیا، کوئی اس کی مدد نہ کر سکا۔ آخر کار وہ کوہ ابوقیس کے اوپر گیا اور وہاں سے فریاد کی: اے فہر کے بیٹو! میرے اوپر ظلم ہوا ہے۔" یہ فریاد رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے سنی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور اس شخص کے حق کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھے اورعاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس کے پیسے دو؛ وہ ڈر گیا اور مجبور ہوکے اس کے پیسے دے دیئے۔ یہ معاہدہ ان کے درمیان باقی رہا اور اس میں طے پایا تھا کہ جو اجنبی بھی مکہ میں داخل ہو اگر اہل مکہ اس پر ظلم کریں، عام طور پر اجنبیوں اور مکہ سے باہر والوں پر ظلم کرتے تھے، تو یہ لوگ اس کا دفاع کریں گے۔ اسلام آنے کے برسوں بعد بھی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ " میں اب بھی خود کو اس معاہدے کا پابند سمجھتا ہوں۔" بارہا آپ نے اپنے مغلوب دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا۔ آٹھویں ہجری میں جب پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو فرمایا" الیوم یوم المرحمۃ" آج عفو و درگذر سے کام لینے کا دن ہے لہذا انتقام نہ لو۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراخدلی تھی۔ رسول اسلامۖ کی راست بازی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے جناب خدیجہ کو آپ کا شیدائی بنایا۔ خود جناب خدیجہ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں۔ پیغمبر اسلام ۖ کی پاکیزگی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن سے ہی بہت نفاست پسند انسان تھے۔ مکہ اور عرب قبائل کے بچوں کے برخلاف، آپ ہمیشہ صاف ستھرے اور پاک و پاکیزہ رہتے تھے۔ نوجوانی سے پہلے کے زمانے میں بھی( نفاست کا خیال رکھتے تھے) بالوں میں کنگھا کرتے تھے اور نوجوانی میں بھی آپ کے بال کنگھا کئے ہوئے رہتے تھے۔ اسلام کے اعلان کے بعد اس دور میں جب نوجوانی کا دور گزر چکا تھا اور آپ سن رسیدہ ہو چکے تھے، پچاس سال اور ساٹھ سال کی عمر میں بھی آپ نفاست اور طہارت کا پورا خیال رکھتے تھے، آپ کی زلف مبارک ہمیشہ صاف، ریش مبارک ہمیشہ نفیس اور معطر رہتی تھی۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ بیت الشرف میں پانی کا ایک برتن تھا، جس میں آپ اپنا روئے مبارک دیکھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں آئینہ کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ "کان یسوّی عمامتہ ولحیتہ اذا اراد ان یخرج الی اصاحبہ" آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسلمانوں، دوستوں اور اصحاب کے پاس جانا چاہتے تھے تو عمامے اور سر کے بالوں اور ریش مبارک کو بہت ہی نفاست کے ساتھ ٹھیک کرتے تھے اس کے بعد گھر سے باہر آتے تھے۔ آپ ہمیشہ عطر اور خوشبو سے خود کو معطر فرماتے تھے۔ آپ، زاہدانہ زندگی کے باوجود، میں عرض کروں گا کہ پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی بڑی زاہدانہ تھی، سفر میں کنگھی اور عطر اور سرمے دانی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اس زمانے میں مرد آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے۔ آپ دن میں کئی بار مسواک کرتے تھے۔ دوسروں کو بھی صفائی، مسواک کرنے اور خود کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ پیغمبر کا لباس پرانا اور پیوند زدہ تھا؛ لیکن آپ کا لباس، سر اور روئے انور ہمیشہ صاف رہتا تھا۔ یہ باتیں، معاشرت میں، روئے میں اور ظاہری حالت اور حفظان صحت میں بہت موثر ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں، باطن میں بہت موثر ہیں۔ پیغمبر اسلامۖ کی عوام دوستی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ لوگوں کے درمیان ہمیشہ بشاش رہتے تھے۔ جب تنہا ہوتے تھے تو آپ کا حزن و ملال ظاہر ہوتا تھا۔ آپ اپنے حزن و ملال کو لوگوں کے سامنے اپنے روئے انور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر شادابی رہتی تھی۔ سب کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا تو چہرے پر آزردہ خاطر ہونے کے آثار ظاہر ہوتے تھے لیکن زبان پر حرف شکوہ نہیں آتا تھا۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے سامنے کسی کو گالیاں دی جائیں اور برا بھلا کہا جائے۔ بچوں سے محبت کرتے تھے، خواتین سے مہربانی سے پیش آتے تھے، کمزوروں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے، اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے تھے اور ان کے ساتھ گھوڑسواری کے مقابلے میں حصہ لیتے تھے۔ پیغمبر اسلامۖ کا کھانا اور لباس آپ کا بستر چٹائی کا تھا، تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ آپ کا کھانا زیادہ تر جو کی روٹی اور کھجور ہوتی تھی۔ لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی تین دن تک مسلسل گیہوں کی روٹی یا رنگا رنگ کھانے نوش نہیں فرمائے۔ ام المومنین (حضرت) عائشہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ایک مہینے تک ہمارے باورچی خانے سے دھواں نہیں اٹھتا تھا۔ ( یعنی چولھا نہیں جلتا تھا) آپ کی سواری بغیر زین اور پالان کے ہوتی تھی۔ جس زمانے میں لوگ قیمتی گھوڑوں پر (بہترین) زین اور پالان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر جگہوں پر گدھے پر بیٹھ کے جاتے تھے۔ انکسار سے کام لیتے تھے۔ نعلین مبارک خود سیتے تھے۔ پیغمبر اسلامۖ کی عبادت آپ کی عبادت ایسی تھی کہ محراب عبادت میں کھڑے رہنے کے سبب پائے مبارک میں ورم آ جاتا تھا۔ رات کا بڑا حصہ، شب بیداری، عبادت، گریہ و زاری، استغفار اور دعا میں گزارتے تھے۔ خداوند عالم سے راز و نیاز اور استغفار فرماتے تھے۔ رمضان کے علاوہ شعبان اور رجب میں بھی روزہ رکھتے تھے اور بقیہ ایام میں، اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، ایک دن چھوڑ کے روزہ رکھتے تھے۔ اصحاب آپ سے کہتے تھے : یا رسول اللہ آپ سے تو کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے" غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخّر " سورہ فتح میں بھی آیا ہے :"لیغفرلک اللہ ما تقدم ذنبک و ما تاخّر" تو اتنی دعا، عبادت اور استغفار کس لئے؟ فرماتے تھے: "افلا اکون عبدا شکورا" کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ رہوں جس نے مجھے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں؟ پیغمبر اسلامۖ کا سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عادل اور صاحب تدبیر تھے۔ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینے آنے کی تاریخ کا مطالعہ کرے، وہ قبائلی جنگیں، وہ حملے، وہ دشمن کو مکہ سے بیابان کے بیچ میں لانا، وہ مسلسل وار، وہ دشمن سے مقابلہ، اس تاریخ میں ایسی حکمت آمیز، ہمہ گیر اور محکم تدبیر کا مشاہدہ کرتا ہے جو حیرتناک ہے۔ آپ قانون و ضابطے کے پابند اور محافظ تھے۔ نہ خود قانون کے خلاف عمل کرتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو قانون شکنی کی اجازت دیتے تھے۔ خود بھی قوانین کی پابندی کرتے تھے۔ قرآن کی آیات بھی اس کی گواہی دیتی ہیں۔ جن قوانین کی پابندی لوگوں کے لئے ضروری ہوتی تھی، آنحضرت خود بھی سختی کے ساتھ ان پر عمل کرتے تھے اور سرمو قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
آپ کے دیگر عادات و اطوار میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ عہد کی پابندی کرتے تھے۔ کبھی عہد شکنی نہیں کی۔ قریش نے آپ کے ساتھ عہد شکنی کی مگر آپ نے نہیں کی۔ یہودیوں نے بارہا عہد شکنی کی لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کی۔
آپ اسی طرح رازدار بھی تھے۔ جب فتح مکہ کے لئے چل رہے تھے تو کوئی نہ سمجھ سکا کہ پیغمبر کہاں جانا چاہتے ہیں۔ پورے لشکر کو جمع کیا اور فرمایا باہر چلتے ہیں۔ کہا کہاں؟ فرمایا بعد میں معلوم ہوگا۔ کسی کو بھی یہ نہ سمجھنے دیا کہ مکہ کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ نے ایسی تدبیر سے کام لیا کہ آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے اور قریش کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ آ رہے ہیں۔
جب آپ مجمع میں بیٹھے ہوتے تھے تو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ پیغمبر اور اس بڑی جماعت کے کمانڈر ہیں۔ آپ کی سماجی اور فوجی انظامی صلاحیت اعلی درجے کی تھی اور ہر کام پر نظر رکھتے تھے۔ البتہ معاشرہ چھوٹا تھا، مدینہ اور اطراف مدینہ کے علاقے اس میں شامل تھے، بعد میں مکہ اور ایک دو دوسرے شہر اس میں شامل ہو گئے لیکن آپ منظم طور پر لوگوں کے امور کا خیال رکھتے تھے۔ اس ابتدائی معاشرے میں آپ نے نظم و نسق، حساب کتاب، حوصلہ افزائی اور پاداش کو لوگوں کے درمیان رائج کیا۔
دشمنان اسلام سے پیغمبر اسلامۖ کا برتاؤ
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے دشمنوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہ آپ کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ بعض دشمن ایسے تھے جن کی دشمنی گہری تھی؛ لیکن پیغمبر دیکھتے تھے کہ ان سے زیادہ خطرہ نہیں ہے تو پیغمبر ان سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے تھے اور ان سے زیادہ سختی سے نہیں پیش آتے تھے۔
بعض دشمن ایسے تھے جن کی طرف سے خطرہ تھا، پیغمبر ان کی طرف سے ہوشیار رہتے تھے اور ان پر نظر رکھتے تھے۔ جیسے عبداللہ بن ابی، ایک درجے کا منافق تھا اور رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کرتا رہتا تھا، لیکن پیغمبر صرف اس پر نظر رکھتے تھے اور اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ وہ پیغمبر کی زندگی کے اواخر تک زندہ تھا۔ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت سے تھوڑا پہلے اس دنیا سے گیا۔ پیغمبر اس کو برداشت کرتے تھے۔ یہ ایسے دشمن تھے جن کی طرف سے اسلامی نظام، اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کو کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں تھا۔ لیکن جن دشمنوں کی جانب سے خطرہ تھا پیغمبر ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔ اسی مہربان، رحمدل، چشم پوشی اور عفو و درگذر سے کام لینے والی ہستی نے حکم دیا اور بنی قریظہ کے خیانتکاروں کو جو کئی سو تھے، ایک دن میں قتل کر دیا گیا اور بنی نضیر اور بنی قینقاع کو باہر نکال دیا گیا اور خیبر کو فتح کیا گیا۔ اس لئے کہ یہ خطرناک دشمن تھے۔ مکے میں آنے کے بعد شروع میں پیغمبر نے ان کے ساتھ بہت زیادہ مہربانی سے کام لیا لیکن انہوں نے خیانت کی، پیٹھ میں خنجر گھونپا، سازش کی اور خطرہ پیدا کیا۔ پیغمبر نے عبداللہ بن ابی کو برداشت کیا، مدینے کے یہودیوں کو برداشت کیا۔ جو قریشی آپ کی پناہ میں آ گئے یا بے ضرر تھے انہیں برداشت کیا۔ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو چونکہ اب ان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لئے حتی ابوسفیان جیسوں اور بعض ديگر لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے؛ لیکن غدار، خطرناک اور نا قال اطمینان دشمنوں کو سختی کے ساتھ کچلا۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
