
Super User
دوحہ میں طالبان کا دفتر، ہندوستان کا رد عمل
ہندوستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان گروہ کا دفتر کھولے جانے پر نئی دہلی کے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام، افغانستان میں امن کا عمل کمزور اور مخالف مسلح گروہوں کے جواز کا باعث نہیں بننا چاہیئے۔
ہندوستان کے ترجمان نے کہا کہ قطر میں طالبان کا دفتر اس بات کا باعث نہیں ہونا چاہیئے کہ افغانستان کی حکومت، جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے اور باغی گروہوں کو برابرسمجھ لیا جائے کیونکہ اس سے گذشتہ دہائيوں میں افغانستان میں جو سیاسی اقتصادی اور سماجی لحاظ سے جو ترقی ہوئي ہے وہ رک سکتی ہے۔
قابل ذکرہے ہندوستان دفتر خارجہ کے ترجمان کا یہ بیان ایسے عالم میں آرہا ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئي نے امریکہ کے ساتھ سکیوریٹی مذاکرات روک دئے تھے؟ حامد کرزئي کو طالبان کے دفتر کے نام اور جھنڈے پر اعتراض تھا۔ ہندوستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہندوستان کی حکومت نے ہمیشہ اس امن کے عمل کی حمایت کی ہے جس کی سربراہی حکومت افغانستان کرے اور یہ عمل افغانستان کے آئين کے تحت ہو نیز عالمی قوانین کے برخلاف بھی نہ ہو۔
انہوں نے کہاکہ ہندوستان نئي دھلی کابل اسٹراٹجیک معاہدے کے تحت ملت و حکومت افغانستان کی حمایت کرتا ہے۔ ہندوستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہندوستان نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بابت خبردار کیا ہے اور کہا ہےکہ مذاکرات عالمی قوانین کے تحت انجام پانے چاہیں۔
امام خمینی (رہ) اور مولانا مودودی (رہ)
کسی نے روایت کی ہے کہ جناب خلیل حامدی مرحوم جو جماعت اسلامی کے بیرون ملک روابط کے انچارج تھے، بیان کرتے ہیں کہ حج کے موقع پر وہ مولانا مودودی کے ساتھ تھے۔ ایک دن وہ اپنی قیام گاہ سے اکیلے نکل کھڑے ہوئے، وہ ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے، مولانا ایک بلڈنگ میں داخل ہوئے پھر ایک کمرہ میں چلے گئے۔ وہ کافی دیر باہر انتظار کرتے رہے۔ وہاں پر موجود دربان سے مولانا خلیل حامدی نے دریافت کیا کہ یہاں کون شخصیت ٹھہری ہوئی ہے تو اس نے بتایا کہ آیت اللہ خمینی (رہ) ہیں۔ کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد مولانا مودودی (رہ) اس کمرے سے نکلے جس میں امام خمینی (رہ)ٹھہرے ہوئے تھے۔
ایک حوالہ اور ملتا ہے : نومبر 1963ء میں مولانا تیسری دفعہ رابط عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب گئے۔ یہ اجلاس یکم دسمبر سے 12 دسمبر تک منعقد ہوئے۔ مکہ میں قیام کے دوران آپ نے حرم شریف میں تقاریر کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ تقریریں’’خطبات حرم‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔ اس طرح مکہ میں قیام کے دوران ایرانی نوجوانوں کے ایک وفد نے آیت اللہ خمینی (رہ) کی قیادت میں آپ سے ملاقات کی۔ (۱)
امام خمینی نے اپنی جدوجد کا آغاز 1963ء میں کیا جب ایران میں دس ہزار سے زائد مظاہرین شہید کر دیے گئے۔ مولانا نے اپنے ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں نہ صرف اس ظلم کی مذمت کی بلکہ امام خمینی کے حق میں مضمون شائع کروایا۔ (2)
پاکستان میں چونکہ شہنشاہ ایران کا طوطی بولتا تھا تو اس جرأت رندانہ پر پرچہ ضبط کر لیا گیا اور تادیبی کارروائی بھی کی گئی۔ یہ شائد امام خمینی (رہ) کے حق میں اٹھنے والی پہلی پاکستانی آواز تھی۔ 20جنوری 1979ء کو امام خمینی (رہ) کے دو نمائندوں نے مولانا مودودی (رہ) سے ملاقات کی۔ وہ امام کا خصوصی خط لے کر آئے تھے۔ جناب رفیق ڈوگر (صحافی) نے ملاقات سے پہلے اور ملاقات کی تمام تر تفصیلات اپنی کتاب ’’مولانا مودودی سے ملاقاتیں میں درج کر دیں۔ 18جنوری 1979ء کو مذکورہ وفد کی آمد کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے رفیق ڈوگر نے مولانا مودودی سے سوال کیا کہ امام خمینی (رہ) کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا: گذشتہ کئی سال سے ہمارے ان سے روابط ہیں۔ انہوں نے میری بعض کتب کا ترجمہ بھی کرایا ہے۔ وہ ان شیعوں جیسے نہیں۔ پوچھا کیا وہ بائیں بازو کے حامی ہیں؟ جواب دیا: نہیں وہ ان کے خلاف ہیں۔ مزید دریافت کیا کہ کیا وہ ایران کی سالمیت قائم رکھ سکیں گے؟ انہوں نے جواب دیا: انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے۔
20جنوری 1979ء کو امام خمینی کے دو نمائندوں ڈاکٹر کمال اور انجینئر محمد کی آمد سے قبل جماعت اسلامی کے اکابرین سے مولانا مودودی نے فرمایا: "آیت اللہ خمینی دیگر شیعہ علماء سے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ انہوں نے شیعہ علماء کے اس موقف سے اختلاف کیا ہے کہ امام منتظر کے انتظار میں اسلامی احکام پر عمل معطل رکھنا چاہیئے۔ خمینی کا کہنا ہے کہ جب تک امام منتظر نہیں آتے ہم حالات و واقعات سے بےنیاز نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے طور پر حالات کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ فکری تبدیلی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ ایران میں خمینی اقتدار میں آ جائیں۔"
رفیق ڈوگر نے وفد کے حوالہ سے لفظوں میں جو نقشہ کھینچا وہ مولانا مودودی کی دلی کیفیت کی خوب ترجمانی کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اتنے میں مہمانوں کے لیے چائے آ گئی۔ مولانا نے انگریزی میں کہا ’’I am sorry میں بیمار ہوں، ادھر ڈرائنگ روم میں نہیں جا سکتا۔ یہیں چائے پیش کر رہا ہوں۔‘‘ مولانا کے کمرے میں بڑے بڑے لوگ آئے، علماء اور دنیا دار آج تک مولانا نے کبھی کسی سے اس قسم کے معذرت کے الفاظ نہیں کہے۔ آج جتنا تکلف کیا گیا پہلے کبھی وہ دیکھنے میں بھی نہیں آیا۔ اعلیٰ قسم کے برتن، چائے اور پھل بسکٹ وغیرہ۔ چائے کے دوران مولانا نے امام خمینی کی صحت کے بارے میں پوچھا تو انجینئر محمد نے اپنی دونوں انگلیاں اوپر کو اٹھاتے ہوئے انگریزی میں کہا ’’وہ اس طرح سیدھے چلتے ہیں ان کی صحت بہت اچھی ہے۔ انھیں ایک بہت اچھا ڈاکٹر ملا ہوا ہے، وہ سادہ غذا کھاتے ہیں۔ معمولی جھونپڑی میں رہتے ہیں اور رات کو تین گھنٹے عبادت کرتے ہیں۔ مولانا مودودی نے کہا He is a man of god. مولانا مودودی نے وفد سے جو کلمات ادا کیے ا نکا تذکرہ کیے بغیر شاید یہ گفتگو مکمل نہ ہو، مولانا نے ملاقات کے دوران فرمایا: تحریک اسلامی ایران میں کامیاب ہو یا پاکستان میں، اس سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچے گا۔ مسلمان کہیں بھی ہوں وہ ایک ملت ہیں۔ پاکستان کے لوگ دل و جان سے خمینی کے ساتھ ہیں۔ آپ کی آمد پر مجھے بےحد خوشی ہوئی ہے۔ آیت اللہ خمینی تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔
مولانا نے پھر کہا: "مسلمان خواہ پاکستان میں ہوں، ترکی یا ایران میں وہ سب ایک ملت ہیں ان میں کوئی فرق نہیں، ہم میں کوئی وجہ اختلاف نہیں۔ ہمارا خدا ایک ہے۔ قرآن ایک ہے اور رسول ایک ہے۔
جب ڈاکٹر کمال نے بتایا کہ ایران میں شیعہ سنی سب اس تحریک میں شامل ہیں تو مولانا مودودی نے انہیں مطلع کیا کہ پاکستان میں بھی اس فرق کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہاں بھی شیعہ سنی ہر شعبہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ایران میں بھی ایسا کیا جائے گا۔ انجینئر محمد نے کہا:
اگر دو آیت اللہ، آیت اللہ خمینی اور آیت اللہ مودودی مل کر اعلان کریں تو عالم اسلام کا ایسا اتحاد عمل میں آ سکتا ہے جو مسلمان ممالک کی کایا پلٹ دے گا اور وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت ثابت ہوں گے"۔
یوں یہ نشست دعاؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی مگر امت کو کئی پیغامات دے گئی۔ مولانا مودودی کی امام خمینی سے اس قدر ہم آہنگی تھی کہ انہوں نے بارہا اس بات کی وضاحت کی کہ وہ ان شیعوں جیسے نہیں ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ لوگوں میں شیعوں کے بارے میں غلط فہمیاں جنم لے چکی ہیں اور نفرتوں کی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ اصل شیعہ کردار اور طرح کا ہے اور لوگ امام خمینی کو بھی یہاں کے شیعوں کے کردار پر تولتے ہیں۔ جس ملک میں بھی اسلامی انقلاب آئے گا ظاہر ہے وہ وہاں کی اکثریتی فقہ کی نمائندگی کرتا ہو گا۔ بہرحال وہ اسلامی انقلاب ہی ہو گا۔
اس نشست سے مولانا مودودی کی انقلاب اسلامی سے محبت کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ ان کی دلی تمنا تھی کہ اس ملک پاکستان میں بھی اسلامی انقلاب آئے۔ انہوں نے بالصراحت کہا کہ شیعہ و سنی میں کوئی فرق نہیں ہے اور وہ انقلاب اسلامی کے لیے متحد و متفق ہیں۔ انجینئر محمد نے جو بات کی اس پر آج بھی عمل کی ضرورت ہے کہ اگر شیعہ سنی، رہنما ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھ کھڑے ہوں تو ان سے بڑی طاقت اور کونسی ہو سکتی ہے اور آج کے مسائل کا حل اسی جذبے میں کار فرما ہے۔ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ایسا مسلمان عالم دین جو کہ فقہ حنفیہ پر کاربند ہے نے دوسرے فقہی مسلک کے بارے میں کس قدر اچھے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ہے۔ آج ہم ان وسیع القلب اسلاف کے طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ واریت کا جن اپنی قوت کے ساتھ قتل و غارت گری میں مصروف ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے ہاتھوں دین کے نام پر قتل ہونا جہالت نہیں ہیں تو اور کیا ہے؟ یقیناً ہمارا مشترکہ دشمن اپنے مذموم مقاصد کے لیے نفرتوں کے بیج بو رہا ہے۔ آج وہ شخص اللہ اور اس کے رسول (ص) کی بارگاہ میں مقبول ہوگا جو فرقہ واریت و دہشت گردی کی آگ پر پانی ڈالے۔ بقول انجم رومانی
ع بیدار! اہل قافلہ سونے کے دن گئے
ہشیار! آگ میں ہے یہ جنگل گھرا ہوا
بشکریہ اسلام ٹائمز
حوالہ جات :
۱۔ افتخار احمدپروفیسر،عالمی تحریک اسلامی کے قائدین ( فیصل آبادالمیزان پبلیکیشنز،امین پورہ بازار، ۱۹۸۴)
2۔ ترجمان القرآن اکتوبر ۱۹۶۳ء کے شمارہ میں ایک مضمون’’ایران میں دین اور لادینی کشمکش‘‘ شائع ہوا جس کے بعد رسالے پر چھ ماہ کے لیے پابندی لگا دی گئی۔
ہندوستان میں سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد 556 ہوگئی
ہندوستانی ذرائع کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ہندوستان کے شمالی علاقوں میں گذشتہ ہفتے ہونے والی شدید بارشوں اور سیلاب میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 556 ہوگئی ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی اور غذائی اشیا کی قلت کی اطلاعات ہیں۔ریاست اترا کھنڈ کے وزیراعلیٰ وجے بہوگنانے مقامی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بارش اور سیلاب سے اب تک 556 لاشوں کی نشاندہی ہوئی ہے۔ جمعہ کو صرف ہری دوار میں 40 سے زیادہ لاشیں ملی ہیں اور پانی کی سطح کم ہونے سے صورت حال مزید واضح ہوگی۔ہندوستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے محکمے کے مطابق اب تک مختلف مقامات پر پھنسے ہوئے تقریباً 35 ہزار افراد کو نکالا جا چکا ہے لیکن تقریباً 60 ہزار افراد اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی ریاست اترا کھنڈ کے علاقوں کیدار ناتھ اور گوري كنڈ میں ہوئی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق تمام علاقوں میں پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور لوگ اس بات کی شکایت کر رہے ہیں کہ وہ غذائی اشیاء اور پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
حماس، ایران اور حزب اللہ لبنان کے ساتھ بہترین تعلقات
فلسطینی عوام کے منتخب وزیر اعظم کے مشیر باسم نعیم نے کہا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ لبنان کے ساتھ تحریک حماس کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔
فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے مشیر باسم نعیم نے آج لبنانی ویب سائٹ النشرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی استقامتی تحریک حماس، ان سب کے ساتھ تعاون کرتی ہے جو استقامت کی خدمت کرتے ہیں۔ اور ایران اور حزب اللہ لبنان کے ساتھ اس کے اچھے تعلقات ہیں۔
باسم نعیم نے مزید کہا کہ تحریک حماس دشمنوں کو اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ لبنان کے ساتھ اس کے تعلقات خراب اور استقامت کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دے گی ۔
پشاور، مسجد میں خود کش حملہ، 15 شہادتیں
پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے دارالحکومت پشاور میں جی ٹی روڈ پر واقع مدرسہ شھید عارف الحسینی میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 15افرادشھید اور30 زخمی ہوگئے ہیں۔
پشاور سے ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق دھماکہ پشاور کے مدرسہ شھید عارف الحسینی میں نمازِ جمعہ کے وقت ہوا۔
دھماکے کے وقت 200 سے زائد نمازی موجود تھے۔ حملہ آوروں نے پہلے گیٹ پر کھڑے محافظ کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد مسجد کے اندر گھس کر ایک خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جبکہ دو دہشتگرد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دھماکے سے مسجد شہید ہو گئی۔
زخمیوں کو کہ جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
رہبر معظم کا قومی فٹبال ٹیم کی کامیابی پر مبارکباد کا پیغام
۲۰۱۳/۰۶/۱۸ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اپنے ایک پیغام میں ایران کی قومی فٹبال ٹیم کی کامیابی اور عالمی فٹبال مقابلوں میں پہنچنے پر مبارکباد پیش کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے۔
بسمہ تعالی
قومی فٹبال ٹیم نے کامیابی حاصل کرکے قوم بالخصوص ملک کے کھیل اور ورزش دوست افراد کے دلوں کو شاد اور خوشحال کیا ،جن عزیزوں نے اس خوشی اور مسرت کا سامان فراہم کیا میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور انھیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
28 خرداد ماہ 1392
شام نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا، عالمی ریڈ کراس
عالمی ریڈ کراس کمیٹی نے اعلان کیا ہےکہ ایسے موثق ثبوت موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہےکہ حکومت شام نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق ریڈ کراس کمیٹی نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ شامکی حکومت کی جانب سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال پر مبنی کوئي ثبوت موجود نہیں ہے اور امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا یہ الزام بے بنیاد ہے۔ ریڈکراس کمیٹی کے آپریشنل چیف رابرٹ ماردینی نے کہا کہ ان کے کارکنوں نے شام کے تمام علاقوں کا دورہ کیا ہے اور انہیں کوئي ایسا ثبوت نہيں ملا ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شام کی حکومت نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔
اسلامي سوسائٹي ميں تربيت کي بنياد
امام جعفر صادقٴ کي نظر ميں
خاندان انساني سوسائٹي کا ايک چھوٹا يونٹ ہے اور اس کے اندر موجود اچھے يا برے روابط کا اثر سوسائٹي ميں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ کئي عظيم مردوں نے باشعور ماوں کے دامن اور ہمدرد باپ کي شفقت کے زيرِ سايہ پرورش پائي ہے۔ اگر گھر کے اندر مہر و محبت اور عقل و شعور کي حکمراني ہو تو شوہر اور بيوي دونوں آرام و سکون سے رہتے ہيں اور اس عظيم اور سايہ دار درخت کے سائے ميں سمجھدار مرد و عورت اور لائق بچے تربيت پاتے ہيں۔ ليکن بے سکون اور کشمکش کے شکار خاندان کے بچوں کي رشد و تربيت کي بنياديں کمزور ہوتي ہیں اور وہ ناکارہ بچے سوسائٹي کے حوالے کرتے ہيں۔
مکتبِ اہلبيتٴ کے عظيم علمبردار، حضرت امام جعفر صادقٴ نے اپنے کلمات اور مفيد و کارآمد ہدايات ميں زندگي کا درست انداز سکھايا ہے اور خاندان کے اندر باہمي تعاون کے راستے مسلمانوں کو بتائے ہيں۔ ان رہنما اصولوں ميں مياں اور بيوي ايک دوسرے کے رقيب يا بزنس پارٹنر نہيں بلکہ ايک دوسرے کے مونس و غمخوار اور باہمي ترقي و کمال کا باعث ہيں اور آپس کي ہمدلي اور درست تعاون کے زيرِ سايہ ايک الہي خاندان تشکيل پاتا ہے۔
مکتبِ امام صادقٴ ميں انساني زندگي کے تار و پود کا ملاپ انساني جذبات او رعشق و ايثار کے ذريعے ہوتا ہے اور زوجين کے درميان عشق و محبت کا دوطرفہ تعلق نہ ہو تو کوئي انساني قانون اور معاشرتي يا حکومتي امر و نہي کے اندر يہ طاقت نہيں ہے کہ وہ گھر کے اندر سکون پيدا کرسکے۔
شوہر اور بيوي کے ايک دوسرے کے باہمي دو طرفہ حقوق ہوتے ہيں جن کا درست طور پر خيال رکھا جائے تو ايک محبت بھرا، بانشاط اور ترقي کرتا ہوا خاندان تشکيل پاتا ہے اور اس کے اندر اپني اور بچوں کي ترقي و کمال کے لئے فضا سازگار ہو جاتي ہے۔ اگر دونوں ميں سے کوئي بھي اپني حدود کي خلاف ورزي کرے تو اس بنيادي يونٹ (خاندان) کي ترقي نہ صرف يہ کہ تعطل کا شکار ہوجاتي ہے بلکہ آرام و سکون کي جگہ لڑائي جھگڑے کي نوبت آجاتي ہے۔
امام صادقٴ نے خاندان ميں کاميابي کے لئے شوہر اور بيوي کو چند نکات کا خيال رکھنے کي جانب توجہ دلائي ہے:
’’لاغنيٰ بالزوج عن ثلٰثۃ اشيائ فيما بينہ و بين زوجتہ، و ہي الموافقۃ ليجتلب بھا موافقتھا و محبتھا ھواھا و حسن خلقہ معھا و استمالۃ قلبھا بالھيئۃ الحسنۃ في عينھا و توسعتہ عليھا۔
و لا غنيٰ بالزوجۃ فيما بينھا و بين زوجھا الموافق لھا عن ثلاث خصال و ھنّ: صيانۃ نفسھا عن کل دنس حتيٰ يطمئنّ قلبہ الي الثقۃ بھا في حال المحبوب و المکروہ، حياطتہ ليکون ذلک عاطفاً عليہا عند زلّۃ تکون منھا، و اظہار العشق لہ بالخلابۃ و الھيئۃ الحسنۃ لھا في عينہ۔‘‘ (تحف العقول)
امام صادقٴ نے اس روايت ميں خاندان کي کاميابي کے لئے پہلے مرد کي ذمہ دارياں بيان کي ہيں:
الف: شوہر کے لئے ہدايات
لاغني بالزوج عن ثلاثۃ فيما بينہ و بين زوجتہ۔
جو معاملات شوہر اور اس کي زوجہ کے درميان ہوتے ہیں ان ميں مرد تين باتوں سے بے نياز نہيں ہے:
١۔ بيوي کے ساتھ موافقت:
امام جعفر صادقٴ نے شريکِ حيات کے ساتھ بہتر روابط کي برقراري ميں مرد کے لئے سب سے پہلي بنياد بيوي کے ساتھ موافقت اور ہم آہنگي کو قرار ديا ہے اور اس کے انتہائي مثبت نتائج بيان کئے ہيں۔
و ھي الموافقۃ ليجتلب بھا موافقتھا و محبتھا و ھواھا۔
اس کے ساتھ موافقت (کرے) تاکہ اس کي موافقت، محبت اور دلبستگي حاصل ہو۔
موافقت، وفق سے نکلا ہے جس کے معني ہمراہي، اچھي طرح سے پيش آنا، نرم روي اور مصالحت کے ہيں يعني سختي اور شدتِ عمل کے مقابلے ميں۔
مطلب يہ ہے کہ شوہر اپني بيوي کي خاطر بعض معاملات ميں اپني خواہشات سے صرفِ نظر اور اپنے حقوق سے دستبردار ہو جائے۔ کيونکہ مياںبيوي زندگي کے ہر معاملے ميں دن رات ايک دوسرے کے شريک اور ہمدم ہوتے ہيں، کبھي مشترکہ زندگي ميں ان کے درميان سليقہ ميں اختلاف رائے بھي پيدا ہو جاتا ہے۔ لہذا رائے اور خواہشات کا يہ اختلاف زندگي کي بنيادوں کو نہ ہلا سکے، اس کے لئے مناسب ہے کہ مياں بيوي اپني ذاتي خواہشات اور مطالبات سے دوسرے کي خاطر دستبردار ہو جائیں۔
جيسا کہ مرد کو زندگي ميں سرپرست کي حيثيت حاصل ہوتي ہے اور اس کے اندر اپني خواہشات کو قبول کروانے کي زيادہ طاقت ہوتي ہے اس لئے بيوي کي کسي معمولي خواہش کے مقابلے ميں اقتدار کے باوجود شوہر کي نرمي (البتہ عزت کے ساتھ) بيوي کے حق ميں ايک قسم کا احترام سمجھا جائے گا اور اس کي محبت ميں مزيد اضافے کا باعث بنے گا۔ شوہر کے عفو و درگذر سے کام لينے اور بيوي کے ساتھ مسالمت آميز رويہ رکھنے سے بيوي اس کے عشق ميں ڈوب جائے گي اور وہ اپني تمام محبتوں کا مرکز و محور اپنے شوہر کو قرار دے دے گي۔
امام صادقٴ نے اس روايت ميں بيوي کي موافقت کے حصول کے نتائج کے بارے ميں فرمايا ہے:
٭ بيوي کے ساتھ مصالحت آميز رويہ رکھنے سے وہ بھي اپنے شوہر کے خواہشات پر سر تسليم خم کردے گي۔
٭ بيوي اپني تمام محبتوں اور اخلاص کو شوہر کے قدموں ميں نچھاور کر دے گي۔
شوہر جب بيوي کے ساتھ مسالمت آميز رويہ رکھتا ہے تو بيوي کے دل ميں اس کے ساتھ عشق کے لئے زمين ہموار ہو جاتي ہے اور اپنے شوہر کے ساتھ اس کا تعلق مزيد بڑھ جاتا ہے۔
امام صادقٴ نے ايک اور روايت ميں شوہر کے لئے حسنِ معاشرت کو ايک ضرورت شمار کيا ہے اور تاکيد فرمائي ہے کہ شوہر کو تکليف اٹھا کر اور کوشش کر کے بھي اپنے اندر يہ صلاحيت پيدا کرني چاہئے۔
المرئ يحتاج في منزلہ و عيالہ الي ثلاث خصال يتکلفھا و ان لم يکن في طبعہ ذلک: معاشرۃ جميلۃ و سعۃ بتقدير و غيرۃ بتحصن۔
بے شک مرد کو اپنا خاندان اور گھر چلا نے کے لئے تين خصلتوں کي ضرورت ہوتي ہے، اگرچہ يہ خوبياں اس کي سرشت ميں موجود نہ ہوں: خوش رفتاري، مناسب حد تک آسائش کي فراہمي اور بردباري کے ساتھ غيرت۔
ہمراہي اور مصالحت حسنِ معاشرت کا ايک مصداق ہے۔ اسي ہمدلي کے سائے ميں گھر ميں سکون و اطمينان کي فضا قائم ہوتي ہے، زوجين اس زندگي سے لطف اندوز ہوتے ہيں، بچے پُرسکون ماحول ميں پرورش پاتے ہيں اور رزق و روزي کے دروازے ان پر کھل جاتے ہيں۔ ايک روايت ميں خاندان کے اندر ہمدلي اور مصالحت و مسالمت کو رزقِ حلالِ کي فراواني اور رحمت و برکتِ خدا کے دروازے کھولنے کا سبب قرار ديا گيا ہے۔
ايما اہلبيت اعطوا حظھم من الرفق فقد وسع اللّٰہ عليہم من الرزق۔
٢۔ حسنِ اخلاق:
خاندان کے اندر ايک مرد کي ذمہ داري اور آدابِ معاشرت کا ايک پہلو حسنِ اخلاق بھي ہے۔
حسنِ خلق يعني اچھي اور پسنديدہ عادت جس کے مقابلے ميں بري عادات اور خراب رويہ ہے۔
يہ مکارمِ اخلاق کي ايک شاخ ہے جيسے عفو، بخشش، صبر، شکر غيرت، شجاعت اور وفا جيسي دوسري نيک انساني خصلتيں ۔
نبي اکرم ۰ نے فرمايا: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔ ميں اخلاق کي تکميل کے لئے خدا کي جانب سے مبعوث ہوا ہوں۔
حسنِ اخلاق يعني نرم روي، چہرے کي بشاشت، اچھا رويہ رکھنا۔ امام صادقٴ ايک روايت ميں اس کي حدود بيان فرماتے ہيں۔ چنانچہ حسن بن محبوب نے بعض اصحاب سے روايت کي ہے کہ:قلت لابي عبد اللّٰہ: ما حد حسن الخلق؟ قال: تلين جانبک و تطيب کلامک و تلقي اخاک ببشر حسن۔
ميں نے امام صادقٴ سے پوچھا کہ حسن اخلاق کي حد کيا ہے؟ فرمايا:لوگوں کے ساتھ نرمي اور گرمجوشي کے ساتھ ملو، بات چيت کو پاکيزہ (باادب) رکھو اور اپنے بھائيوں کے ساتھ کشادہ رو اور تبسم کے ساتھ ملاقات کرو۔
بنابريں، اچھي عادات جيسے سلام کرنے ميں سبقت لينا، مصافحہ کرنا، صاف ستھرا لباس پہننا، خوشبو لگانا، بيماروں کي عيادت کرنا، جنازوں ميں شرکت کرنا، غمزدہ لوگوں کو تسلي دينا، آنے والوں کا استقبال اور جانے والوں کو الوداع کہنا وغيرہ يہ سب حسنِ اخلاق ميں شامل ہيں اور اللہ کے رسول۰ کي ذمہ داريوں ميں سے ايک ذمہ داري اچھے آداب کو لوگوں کے درميان رائج کرنا ہے۔
امام جعفر صادقٴ نے تاکيد فرمائي ہے کہ مرد کو چاہئے کہ اپنے گھر ميں مہر و محبت کي حرارت پيدا کرنے کے لئے حسنِ اخلاق سے کام لے۔
و حسن خلقہ معہا و استعمالہ استمالۃ قلبھا بالھيئۃ الحسنۃ في عينھا۔اور اس (زوجہ) کے ساتھ حسنِ اخلاق سے پيش آئے اور اس کا دل جيتنے کے لئے ايسے ذرائع استعمال کرے جو اس کي نگاہوں کو بھلے لگیں۔
امامٴ کي اس تاکيد کے مطابق، خوش اخلاقي کا تقاضا يہ ہے کہ مرد کو بردبار اور متحمل مزاج ہونا چاہئے۔ نہ صرف يہ کہ وہ اپنے غضب پر قابو پائے بلکہ اپنے غم و اندوہ کو بھي دل ميں چھپا لے اور زبان پر نہ لائے اور اپني زوجہ کے لئے مستحکم ستون بن جائے تاکہ اس کا ساتھي (زوجہ) اپنے روزانہ کے دکھ درد اس کو اپنا مونس و غم خوار اور مضبوط پناہ گاہ سمجھتے ہوئے بتا سکے اور مرد کي ہمدردي حاصل کر کے کچھ سکون پائے۔ اسے خوش اخلاق ہونے کے علاوہ خوش گفتار بھي ہونا چاہئے اور خوبصورت و حسين اور اميد افزا الفاظ زبان پر لائے اور ملال آور اور دردانگيز کلمات کے استعمال سے پرہيز کرے۔
علمائے اخلاق نے تاکيد کي ہے کہ: مرد گھر ميں داخل ہوتے وقت سلام کرے، اپني زوجہ کي دلجوئي کرے اور بچوں کي نگہداشت اور گھر گرہستي ميں جو زحمت وہ اٹھاتي ہے اس کي قدرداني کرے اور اپني تمام کاميابيوں کو اس کي زحمتوں کا مرہونِ منت گردانے۔ اپني بيوي کے رشتہ داروں کي احوال پرسي کرے اور اپنے آپ کو ان کے لئے فکرمند ظاہر کرے۔ يہ باتيں عورت کي محبت کے حصول کے لئے کيميا کي حيثيت رکھتي ہيں۔ امام باقرٴ نے محبت کے اثرات کے بارے ميں فرمايا ہے:البشر الحسن و طلاقۃ الوجہ مکسبۃ للمحبۃ و قربۃ من اللّٰہ و عبوس الوجہ و سوئ البشر مکسبۃ للمقت و بعد¾ من اللّٰہ۔
خوش و خرم اور بشاش چہرہ محبت کے حصول کا ذريعہ اور اللہ سے قربت کا وسيلہ ہے اور ترش روئي اور چہرے کي سختي دشمني کا سبب اور اللہ سے دوري کا موجب ہے۔
خاندان کا سربراہ اپنے احترام کا خيال رکھے:امام جعفر صادقٴ خوش اخلاقي کي تاکيد کرتے ہوئے اضافہ کرتے ہيں کہ مرد کو خوش خلقي کے علاوہ اپني گفتار و رفتار ميں بھي نزاکتوں کا خيال رکھنا چاہئے۔ وہ حلال و حرام خدا کا احترام کرے اور اپنے خاندان اور بچوں کے درميان عدالت سے پيش آئے اور اس کے ہاتھ اور نگاہيں گناہوں سے دور رہيں تاکہ بيوي کو اطمينان رہے اور زوجہ اس کو عزت کي نگاہوں سے ديکھے اور اپنے شوہر پر فخر کرے؛ کيونکہ گناہ کرنے اور خدائي حدود کي پامالي سے مرد اپني زوجہ کي نگاہوں ميں گر جاتا ہے اور نافرماني کے لئے اس کے دل ميں فضا سازگار ہو جاتي ہے۔
جملہ استعمالہ استمالۃ قلبھا بالہيئۃ الحسنۃ في عينھا سے استفادہ ہوتا ہے کہ مرد کو باوقار، حاکمانہ طبيعت اور مستحکم ہونا چاہئے تاکہ بيوي کي نظريں اس پر جم جائيں اور اس قدر نرم خو، خوفزدہ اور احمق نہ ہو کہ بيوي کي نظر ميں بے اہميت ہو جائے۔ کيونکہ جو چيز مرد و عورت کو ايک دوسرے کے ساتھ دلچسپي لينے پر مجبور کرتي ہے وہ دونوں کي طبيعت ميں موجود فطري اختلاف ہے۔ کيونکہ عورت جذبات، نرمي، صلح جوئي کا مظہر اور سکون اور ممتا کے احساسات کي مالک ہوتي ہے اور مرد منطق، سختي، مردانگي، اقتدار اور مديريت کا مرقع۔
جس قدر يہ خوبياں مرد کے اندر زيادہ ہوں گي اتنا ہي عورت کي نگاہوں ميں اس کي عزت زيادہ ہوگي۔ اور اگر مرد زنانہ صفات کا مالک ہو تو بيوي کي نظر ميں ہيرو نہيں بن سکتا اور نہ وہ اس کو اپنا آئيڈيل بنا سکتي ہے۔
ذاتي آرائش و زيبائي:
مرد کا اپني ذاتي آرائش و زيبائي پر توجہ دينا اس کي زوجہ کي نگاہوں ميں عزت احترام کا ايک سبب ہے۔ کيونکہ ظاہري شکل و صورت کا بناو سنگھار انسان کو محبوب بناتا ہے اور خوبصورتي کي جانب انسان کا رجحان ايک طبيعي امر ہے۔ لوگوں کو اچھا لباس اور آرائش اچھي لگتي ہے اور اس کو نظم و ضبط اور تہذيب و شعور کي علامت سمجھا جاتا ہے۔ لہذا قرآن و سنت ميں مسلمانوں کو آرائش اور زينت کي جانب تشويق کيا گيا ہے۔ امام صادقٴ نے فرمايا :ان اللّٰہ يحب الجمال و التجمل۔بے شک اللہ خوبصورتي اور آرائش کو پسند کرتا ہے۔
چھٹے امامٴ اپنے جد، عليٴ سے نقل کرتے ہيں:خدا خود حسين ہے اور حسن کو پسند کرتا ہے اور وہ يہ بھي پسند کرتا ہے کہ بندوں ميں اپني نعمتوں کے آثار ديکھے۔
نبي اکرم ۰ مومنين سے ملاقات کے لئے اپني آرائش کيا کرتے تھے اور بے ترتيب بالوں سے پرہيز کرتے تھے۔ جب کسي مومن کے ساتھ مختصر وقت کي ملاقات کے لئے آراستگي کي اہميت ہے تو دائمي مونس و ہمدم کا حق يقينا اس سے بڑھ کر ہے۔ طبرسي۲ نے اس بارے ميں لکھا ہے: نبي اکرم ۰ خاندان تو دور کي بات ہے اصحاب کے ساتھ ملاقات کے لئے آرائش کيا کرتے تھے ۔
شوہر کا حسنِ اخلاق، نرمي، خوش کلامي اور زينت و آرائش بيوي کو وجد ميں لے آتي ہے۔ اس کي افسردگي دور ہو جاتي ہے جس کے نتيجے ميں عورت بھي خوش اخلاق اور خندہ رو ہوکر مرد کے سامنے آتي ہے۔ خوش اخلاق بيوي کو ديکھ کر مرد کي تھکن دو رہو جاتي ہے ۔
مرد کو عورت کے صبر کي ضرورت ہوتي ہے۔ اس کي توقع ہوتي ہے کہ دن بھر تلاشِ معاش کے بعد جب وہ تھک ہار کر گھر پہنچے تو بيوي بچوں کي صحبت اسے ہلکا پھلکا کردے اور گھر کے اندر وہ ہنستے مسکراتے چہرے ديکھے۔ ترش اور سخت چہرے اس کي توقع کو پورا نہيں کرسکتے۔
روحاني آثار کے علاوہ حسنِ اخلاق کے اثرات ميں رونق و برکت اور زندگي کا آباد ہونا بھي ہے۔ کيونکہ ہم آہنگي، تعاون اور نشاط و توانائي کام کي صلاحيت کو بڑھاتي ہے اور زندگي ميں برکت کا باعث بنتي ہے۔ امام صادقٴ کے بقول:البر و حسن الخلق يعمران الديار و يزيدان في الاعمار۔نيکي او رخوش اخلاقي زمينوں کو آباد اور عمروں کو طويل کرتي ہے۔
٣۔ رزق ميں وسعت:
بيوي بچے مرد کے عيال اور اس کے محتاج ہوتے ہيں اور ہميشہ اس کے لئے چشم براہ۔
امت مسلمہ کے رہبر نے تاکيد کي ہے: ايک پرسکون گھر اور باسعادت زندگي کي تعمير کے لئے مرد کو بخل سے پرہيز کرنا چاہئے اور جو روزي اللہ نے اسے عطا کي ہے اس کے ذريعے اپنے اہل و عيال کے لئے آسانياں اور آسائشيں فراہم کرے اور ان کو خوراک، لباس، سواري اور رہائش ميں سہولتيں دے۔ خود اسي سے گھروالوں کے نزديک مرد کي عزت و شوکت ميں اضافہ ہوگا۔
امام صادقٴ نے فرمايا:کفي بالمرئ اثما ان يضيع من يعول فيہ۔مرد کے گناہ کے لئے يہي کافي ہے کہ وہ اپنے (اہل و) عيال کو ضائع کردے۔
عيال ميں وہ سب لوگ شامل ہيں جن کے اخراجات کسي مرد کے ذمہ ہوں۔
خاندانوں ميں ہونے والي طلاقيں اور چپقلشوں ميں سے بعض کا تعلق اسي غفلت سے ہے جو مرد گھريلو اخراجات کے معاملے ميں کرتا ہے۔ چنانچہ مرد کنجوسي، نشہ کي عادت يا جہالت کي وجہ سے اپني آمدن کو گھريلو اخراجات ميں خرچ نہيں کرتا اور گھر کے افراد کو تنگدستي ميں رکھتا ہے جس کے اثرات طويل مدت ميں ايک دھماکے کي صورت ميں مرتب ہوتے ہيں۔
امام صادقٴ نے بخيلوں کو خبردار کرتے ہوئے ايک روايت ميں فرمايا ہے:
ان عيال الرجل اسراوہ فمن انعم عليہ اللّٰہ فليوسع علي اسرائہ، فان لم يفعل يوشک ان تزول تلک النعمۃ عنہ۔
بے شک انسان کے اہل و عيال اس کے قيدي ہيں۔ تو جس شخص پر اللہ نے نعمتيں نازل کي ہوں، اسے چاہئے کہ اپنے قيديوں کو سہولتيں فراہم کرے۔ بصورتِ ديگر ممکن ہے کہ يہ نعمتيں زائل ہو جائيں۔
امام صادقٴ نے آبادکاري او رخاندان کي آسائشوں کے لئے سعي و کوشش اور جدوجہد کو مادي اور معنوي سعادت کے حصول کے لئے ايک موثر عامل قرار ديا ہے اور اپنے ماننے والوں کو تاکيد کي ہے کہ: سستي اور کاہلي سے پرہيز کريں۔ امامٴ نے مزدوروں کي محنت کو مجاہدين اسلام کي اسلامي سرحدوں کے لئے دي جانے والي قربانيوں کے برابر قرار ديا ہے ۔ علاوہ ازيں، ائمہ طاہرينٴ خود کام کيا کرتے تھے اور اپنے عمل کے ذريعے لوگوں کو محنت اور جدوجہد کي دعوت ديا کرتے تھے:
عن ابي عبد اللّٰہ: الکادّ علي عيالہ کالمجاہد في سبيل اللّٰہ۔
امام صادقٴ نے فرمايا: جو شخص اپنے خاندان کي روزي کے لئے محنت کرتا ہے وہ راہِ خدا ميں جہاد کرنے والے کي طرح ہے۔
عن ابي عمرو الشيباني قال: رآيت ابا عبد اللّٰہ و بيدہ مسحاۃ و عليہ ازار غليظ يعمل في حائط لہ و العرق يتصاب عن ظہرہ۔ فقلت جعلت فداک اعطني اکفک۔
فقال لي: اني احب ان يتآذيٰ الرجل بحرّ الشمس في طلب المعيشۃ۔
ابوعمرو شيباني کہتا ہے: ميں نے امام صادقٴ کو ديکھا کہ ان کے ہاتھ ميں بيلچہ اور بدن پر کھردرا لباس ہے اور اپني زمين (باغ) ميں محنت کر رہے ہيں اور ان کي کمر سے پسينہ بہہ رہا ہے۔ ميں نے عرض کيا: بيلچہ مجھے دے ديجئے تاکہ آپ کا کام انجام دے دوں۔فرمايا: ميں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ انسان حصولِ معاش کے لئے سورج کي تمازت کو برداشت کرے۔
صادقِ آلِ محمدٴ ايک اور مقام پر تاکيد فرماتے ہيں: اپنے لئے، اپنے بيوي بچوں کے لئے، صلہ رحم، صدقے اور حج و عمرے کے اخراجات کے لئے کوشش کرنا دنيا طلبي نہيں ہے۔
خاندان ميں عورت کي ذمہ دارياں
عورت مرد کي وزير ہوتي ہے اور خاندان کے اندر مرد کي معاون اور مشير بھي۔ لہذا مرد کي نسبت اس کي بھي کچھ ذمہ دارياں ہيں۔ اگر وہ انہيں درست طور پر انجام ديدے، تو مرد بھي اپني ذمہ داريوں کي ادائيگي ميں کامياب رہے گا اور دونوں زندگي کا لطف اٹھائيں گے اور گہري جڑوں والے اس مضبوط درخت سے ميٹھے پھل سوسائٹي ميں پہنچيں گے۔
امام صادقٴ اس روايت ميں فرماتے ہيں:و لاغنيٰ للزوجۃ فيما بينھا و بين زوجھا عن ثلاث خصال۔بيوي اپنے شوہر کے ساتھ معاملات ميں تين خصلتوں سے بے نيز نہيں ہے۔
١۔ طہارت و پاکيزگي:
صيانۃ نفسھا من کل دنس حتيٰ يطمئن قلبہ الي الثقۃ في حال المحبوب و المکروہ۔
اپنے آپ کو ہر قسم کي غلاظت سے پاک رکھے تاکہ اس کا شوہر پسنديدہ اور ناپسنديدہ ہر حال ميں اس سے مطمئن رہے۔
عفت، عورت کي زينت ہے۔ ايک عورت کو چاہئے کہ اپنے جسم و روح کو ہر قسم کے گناہ اور لغزش سے محفوظ رکھے اور خاندان کي حرمت کو نامحرموں کي نگاہوں اور ہاتھوں سے بچائے۔ مناسب ہے کہ ايک عورت نامحرموں سے گفتگو ميں حدود کي پابندي کرے اور لباس پہننے اور چال ڈھال ميں خودنمائي سے پرہيز کرے اور اپنے حسن و جمال اور مال و دولت کے دکھاوے سے دور رہے کيونکہ اس کي وجہ سے جہاں غريبوں اور ناداروں کو تکليف ہوتي ہے وہاں ايسے لوگ جن کي روح بيمار ہوتي ہے ان کے لئے گھر ميں داخل ہونے کے دروازے کھل جاتے ہيں اور نامحرموں کو بري نظر ڈالنے اور ہاتھ بڑھانے کي جرآت ہونے لگتي ہے۔
اپني عفت و حجاب کي حفاظت کر کے بيوي اپنے تئيں شوہر کے نزديک عظمت حاصل کرليتي ہے اور مرد اس سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اس سے مل کر خوش ہوتا ہے اور اپنے آپ کو بہشت بريں ميں محسوس کرتا ہے نيز کبھي بھي بدگماني کو راہ نہيں ديتا۔
(شيخ سعدي کے اشعار کا ترجمہ)
نيک اور فرمانبردار بيوي اپنے غريب شوہر کو بادشاہ بنا ديتي ہے۔
اگر وہ تمہارے لئے اچھي دوست ہو تو روزانہ پانچ بار اس کے پاس جاو۔
اگر دن بھر تم پريشان ہوتے ہو تو بھي غم نہ کرو، کہ رات کو ايک غمگسار تمہارے ساتھ ہے۔
جس کي باحيا بيوي خوبصورت بھي ہو، وہ اس کے ديدار سے جنت کي خوشبو پاتا ہے۔
اس شخص نے دنيا سے اپنا حصہ وصول کيا جس کا آرامِ دل اس کے ساتھ ہو۔
اگر بيوي نيک اور خوش کلام ہو تو اس کي خوبصورتي اور بدصورتي کو ديکھنے کي ضرورت نہيں۔
اچھي عادات کي مالک بيوي دل ميں گھر کر ليتي ہے اور وہ عيوب پر پردہ ڈالتي ہے۔
جو عورت احمق، کم عقل اور بري عادات کي مالک ہو اور مشکوک ميل جول سے پرہيز نہ کرتي ہو يا بري محفلوں ميں آمد و رفت رکھتي ہو يا ممکن ہے کہ سادہ لوحي يا اخلاقيات کو نظرانداز کرتے ہوئے مذاق کو خوش اخلاقي کي علامت سمجھتي ہو يا اس نے دوسروں کي نقالي ميں مغرب زدہ ہوکر مادر پدر آزادي اپنا لي ہو، ايسي عورت پر سے مرد کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ شک کے کانٹے شوہر کے دل ميں خراشيں ڈالتے ہيں اور پھر محبت کي جگہ کدورت لے ليتي ہے اور مياں بيوي کے درميان ہونے والي معمولي سي تلخ کلامي سے مرد کے دل ميں بدگماني کا شعلہ بھڑک اٹھتا ہے اور يہي خاندان کي بربادي کا پہلا قدم ثابت ہوتا ہے۔
اسي وجہ سے ائمہ طاہرينٴ نے ہميں ايسے مقامات پر آنے جانے سے روکا ہے جہاں سے تہمت لگنے کا انديشہ ہو۔ امام عليٴ نے فرمايا:اياک و مواطن التہمۃ۔ايسي جگہ سے پرہيز کرو جو تہمت کا مقام ہو۔
٢۔ خانداني ملکيت کي حفاظت:
و حياطتہ لتکون ذلک عاطفھا عليہا عند زلۃ۔امورِ خانہ ميں عورت کا احتياط کرنا تاکہ غلطي ہو جائے تو مرد کي محبت اسے اپنے سائے ميں لے لے۔
حياطت، احاطہ سے ہے اور اس کے معني نظارت اور احتياط کے ہيں۔ ليکن اپنے قسيم کے اعتبار سے اس کے اندر ذاتي عفت اور حرمت سے زيادہ وسيع مفہوم پوشيدہ ہے اور ممکن ہے کہ مقصود يہ ہو کہ عورت کا کردار وزير کا ہے جو گھر کے تمام امور اور شوہر کي ملکيت اور عزت و آبرو کي نگراني کرے اور اس کو خطرات سے محفوظ رکھے اور فضول خرچي، لاابالي پن اور خاندان کے اخراجات ميں اسراف سے بچے اور گھر کے سکون اور رونق ميں اضافے کے لئے اپني کوششيں اور اہتمام کرے۔ گھر اور شوہر کے لئے عورت کي ہمدردي، شوہر کو بيوي پر مہربان کر ديتي ہے اور وہ اس سے مطمئن ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر کبھي وہ اپنے اختيارات ميں غلطي کر بيٹھے اور گھر کو کوئي نقصان پہنچ جائے تو نہ صرف يہ کہ مرد اسے الزام نہيں دے گا بلکہ اس کي حمايت کرے گا اور اس کي غلطي کومعاف کر دے گا۔
حضرت عليٴ عورت کے بخل کو اس کي خوبي اور مرد کے لئے مفيد شمار کرتے ہيں اور فرماتے ہيں: و اذا کانت بخيلۃ حفظت مالھا و مال بعلھا۔ يعني جب وہ بخيل ہوگي تو وہ اپنے اور اپنے شوہر کے مال کي حفاظت کرے گي۔
٣۔ شوہر کے ساتھ اظہارِ عشق:
زوجين کا ايک دوسرے کے ساتھ اظہارِ عشق کرنا دونوں کے درميان محبت پيدا کرنے کے لئے کيميا کا حکم رکھتا ہے۔ نبي اکرم ۰ اس بارے ميں فرماتے ہيں کہ شوہر کا کوئي جملہ اس سے بڑھ کر بيوي کے دل ميں جگہ نہيں بناتا کہ ’’ميں تم سے محبت کرتا ہوں‘‘۔
عورت باحيا ہوتي ہے، وہ مرد کے لئے دل ميں موجود جذبات کو ہميشہ چھپا کر رکھتي ہے اور اس کي حيا اسے شوہر کے ساتھ اظہارِ محبت سے روکتي ہے۔ يہ بھي ممکن ہے کہ کسي خطے ميں اپنے شوہر کے ساتھ اظہارِ محبت کو بھي برا سمجھا جاتا ہو۔ ليکن اسلامي تہذيب اس سے مختلف ہے اور عورتوں کو اپنے شوہر کے ساتھ اظہارِ عشق کرنا چاہئے تاکہ باہمي تعلق ميں اضافہ ہو۔ اس روايت ميں امام صادقٴ عورتوں کو زندگي کے تعلقات ميں بہتري کے لئے تاکيد کرتے ہيں کہ و اظہار العشق لہ بالخلابۃ يعني عورت زبان سے شوہر کے ساتھ اپنے عشق کو بيان کرے۔
خلابہ کا لفظ بتا رہا ہے کہ کسي تکلف اور ريا کے بغير اظہارِ عشق سے معاملہ کہيں بڑھ کر ہے۔ يہ لفظ رہنمائي کر رہا ہے کہ عورت کي محبت دل نثار کرنے، مہر و محبت سے پيش آنے اور دلفريبي کے ساتھ ہو تاکہ شوہر کا دل اپني مٹھي ميں لے لے اور اپني محبت و وفا و خلوص کے جال ميں جکڑ لے۔
کيونکہ جس طرح ايک عورت پھول کي طرح مہر و محبت کي محتاج ہوتي ہے اسي طرح مرد بھي روحاني سہارے اور عورت کي مہر و محبت کا نيازمند ہوتا ہے۔ اور عورت کي جانب سے اظہارِ محبت اسے حوصلہ دلاتي ہے۔
جناب فاطمہ زہراٴ کو حضرت عليٴ سے شديد محبت اور مودت تھي اور وہ اظہارِ عقيدت بھي کيا کرتي تھيں۔ ممکن ہے کہ امامٴ کي کاميابيوں کي وجوہات ميں سے ايک وجہ يہ بھي رہي ہو۔ چنانچہ آپٴ کے جملوں ميں سے ايک جملہ يادگار کے طور پر محفوظ ہے:روحي لروحک الفدائ و نفسي لنفسک الوقائ۔ميري روح آپ کي روح پر فدا اور ميري جان آپ کي جان کے لئے محافظ بن جائے۔
مرد کے لئے عورت کي آرائش:
امامٴ نے عورت کي جانب سے اظہارِ محبت کي تاکيد کرنے کے بعد اضافہ فرمايا کہ مرد کے لئے عورت کي آرائش خاندان کے استحکام کا سبب ہے۔ و الہيئۃ الحسنۃ لھا في عينہ۔ کيونکہ عورت پھول ہے اور اسے چاہئے کہ ہميشہ اپنے شوہر کے سامنے آرائش کے ساتھ آئے اور معطر و خوش کلام رہے۔ بعض عورتيں گھر سے باہر ہونے والي دعوتوں کے لئے آرائش کرتي ہيں ليکن گھر کے اندر ہميشہ معمولي اور سادے کپڑوں ميں رہتي ہيں۔ يہ عورتيں اس بات سے غافل ہوتي ہيں کہ وہ گھر کي ملازمہ ہونے سے پہلے، شوہر کے لئے مونس اور ساتھي ہیں اور اسے مرد کے سکون و اطمينان اور خوشي و مسرت کے لئے ہر کام کرنا چاہئے جس ميں ظاہري حسن و آرائش بھي شامل ہے۔ البتہ عورت کي اندروني خوشي اور رضامندي بھي اس کے چہرے کي رونق اور خوبصورتي ميں اضافے کا باعث بنتي ہے۔ لباس کي آراستگي اور چہرے کي رونق کے سبب سے خدا کا ديا ہوا حسن مزيد نکھر جاتا ہے اور شوہر کي نظر ميں عورت زيادہ حسين معلوم ہوتي ہے جس سے وہ گھر ميں زيادہ دلچسپي لينے لگتا ہے۔
پيامبر اکرم ۰ نے فرمايا: تم لوگوں ميں بہترين عورت وہ ہے جو ماں بننے والي اور مہربان ہو اور اپنے آپ کو چھپائے اور پاکدامن رہے۔۔ اپنے شوہر کے سامنے زينت کرے اور اجنبي مردوں سے اپني حفاظت کرے۔
جناب فاطمہ زہراٴ اپنے آپ کو اور گھر کو ہميشہ معطر رکھا کرتي تھيں اور ہميشہ اپنے پاس عطر رکھا کرتي تھيں۔
ام سلمہ کہتي ہيں: ميں نے فاطمہٴ سے عطر مانگا اور کہا: کيا آپ کے پاس کوئي ايسا عطر ہے جسے آپ نے اپنے لئے رکھا ہوا ہو۔ وہ لے کر آئيں اور ميرے ہاتھ پر تھوڑا سا رکھ ديا۔ اس سے ايسي خوشبو اٹھي جو ميں نے کبھي نہيں سونگھي تھي۔
اسمائ بنت عميس کہتي ہيں: فاطمہ نے اپني زندگي کے آخري لمحات ميں مجھ سے کہا: ميرا وہ عطر جو ميں ہميشہ لگايا کرتي تھي، لے آو۔
ملک سے فتنہ پروروں کا قلع قمع کرنا ہم سب کی اخلاقی و شرعی ذمہ داری ہے
علامہ ساجد نقوی :
ملک سے فتنہ پروروں کا قلع قمع کرنا ہم سب کی اخلاقی و شرعی ذمہ داری ہے
انجمن امامیہ بلتستان کے زیراہتمام "اتحاد ملت کانفرنس" کا انعقاد ہوا، جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دیگر لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک عزیز میں دہشت گردی کرنے والے لوگ نہ سنی ہیں اور نہ ہی شیعہ اور نہ ان کا کوئی دین و ایمان ہے، یہ لوگ کرائے کے قاتل ہیں۔ اس موقع پر اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے صدر سے لے کر وزیراعظم اور جنرل کیانی تک یہ بات پہنچا دی ہے کہ ملک عزیز کے خلاف سازش ہو رہی ہے، اس کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ علامہ سید ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ملک عزیز میں فتنہ پیدا کرنے والوں کا قلعہ قمع کرنا ہم سب کی شرعی اور ملی ذمہ داری ہے اور ہم سب کو مل کر دہشتگردی کے خلاف یکجا ہوکر حکمت عملی پر کام کرنا ہوگا، ملک میں شیعہ کشی ہو رہی ہے جسے ہم کسی بھی صورت میں برداشت نہیں گریں گے۔ اس موقع پر علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے اور معاشرے کو سدھارنے میں خواص کا اہم کردار ہے، خواص علماء ہیں جو معاشرے کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں، اگر خواص صحیح ہوں تو پورا معاشرہ صحیح ہوجائے گا اور اگر خواص خراب ہوں گے تو پورا معاشرہ امن و امان سے خالی نظر آئے گا۔
ترکی، مظاہروں میں شدت، جھڑپیں اور ہڑتالیں
ترکی میں حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں اور آج صبح بھی ہزاروں افراد نے انقرہ کی سڑکوں پر نکل اردوغان کی حکومت کی پالیسیوں کی مذمت کی۔ گذشتہ شب بھی ہزاروں افراد نے انقرہ میں امریکہ کے سفارتخانے کے پاس مظاہرہ کیا تھا۔ دراین اثنا رجب طیب اردوغان کے حامیوں نے بھی مظاہرہ کیا ہے۔ اردوغان نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہےکہ مظاہرین میں دہشتگرد بھی شامل ہیں۔ ادھر آج ترکی میں ٹریڈ یونینیوں کی عام ہڑتال ہے۔ بعض میڈیا ذرائع کا کہنا ہےکہ ترک پولیس نے واٹر کینن میں کیمیاوی مادے ملاکر عوام پر پانی کا چھڑکاو کیا تھا۔ ترک چينلوں نے ایسی تصویرین نشر کی ہیں جن میں پولیس کو پانی میں جینکس نامی کیمیاوی مادہ ملاتے دکھایا گيا ہے۔
ادھر اطلاعات ہيں کہ ترک پولیس نے پانج سو مظاہرین کو گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس نے استنبول اور انقرہ میں مظاہرین پر حملے کرکے انہیں گرفتار کرلیا۔ قابل ذکر ہے دوہفتےقبل ترکی میں قزی نامی پارک میں پیڑوں کے کاٹے جانے پر عوام نے احتجاج شروع کیا تھا جو آج سارے ملک میں پھیل کر حکومت مخالف مظاہروں کی صورت اختیار کرگيا ہے۔ دیگر ملکوں میں بھی ترک عوام نے مظاہرین کے حق میں احتجاج کیا ہے۔
در ایں اثنا ترکی کے وزیر داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں جاری مظاہروں کو کچلنے کے لئے بارڈر سیکیورٹی فورس کا استعمال کیا جائے گا۔