Super User
ایران میں بیکٹریالوجی کی چودھویں کانفرنس اٹھائيس اگست کو
ایران میں بیکٹریالوجی کی چودھویں کانفرنس بدھ اٹھائيس اگست کو تہران میں شہید بہشتی میڈیکل یونیورسٹی میں منعقد ہوگي۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق ایران بیکٹیریالوجی اسوسی ایشن کے سربراہ محمد مھدی فیض آبادی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس کانفرنس میں جرمنی، بلجیم، ہالینڈ، عراق اور پاکستان کے سائنس داں شرکت کریں گے۔ کانفرنس کے ایگزیکیٹوسیکریٹری سید فضل اللہ موسوی نے کہاکہ کانفرنس کے ایک ہزار تین سو سائنسی مقالے موصول ہوئے ہیں جن مین پچاس مقالے تقریر کے طور پر پیش کئے جائيں گے۔ انہوں نے کہا کہ غذا، صنعت، وٹرینیری مسائل کے تعلق سے مائيکر بایولوجی نیز ماحولیاتی مائيکروبایولوجی کے موضوعات پر بھی اس کانفرنس میں ماہرین تبادلہ خیال کریں گے۔
شیر خدا اور شیر رسول جناب حمزہ علیہ السلام
یوم شہادت حضرت حمزہ سيد الشهداء (ع) - 15 شوال
جناب حمزہ بن عبد المطلب(ع) پیغمبر اسلام (ص) کے چچا تھے آپ عرب کے شجاع ترین شخص اور صدر اسلام کے بہادر اور رشید مرد تھے آپ نے اپنے بھتیجے کے شانہ بشانہ اسلام کی نصرت کی اور سخت ترین مراحل میں پیغمبر اکرم (ص) اور دین اسلام کا دفاع کیا۔ قریش کے سردار اور عرب کے بڑے بڑے سورما آپ کی شجاعت اور ابہت کے سامنے خوف کھاتے تھے۔
آپ نے اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ مکہ کے نازک ترین ماحول میں پیغمبر اکرم (ص) کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔ ایک مرتبہ جب ابوجہل نے شان رسالت میں گستاخی کی تو آپ ابو جہل سے پیغمبر اسلام(ص) کا انتقام لینے کی غرض سے اس کا سر پھوڑ دیا تھا جبکہ کوئی اس کے سامنے آنے کی جرئت نہ کر سکا۔
جناب حمزہ جنگ بدر میں قریش کے سب سے بڑے پہلوان ’’ شیبہ‘‘ کے مقابلہ کے لیے گئے اور اسے زمین بھوس کر دیا اور اس کے بعد کئی ساروں کو واصل جہنم اور زخمی کیا۔
جناب حمزہ کا خاندان
جناب حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم کی والدہ سلمی عمرو بن زید بن لبید کی بیٹی تھیں۔ آپ کے بھائیوں میں سے عبد اللہ، ابو طالب، ابولہب، وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آپ کی بہنیں بھی عاتکہ، امیمہ، صفیہ، اور برّہ تھیں۔
پیغمبر کا رضاعی بھائی
ابو لہب کی کنیز ثوبیہ جس نے جناب حمزہ کو دودھ پلایا تھا اس نے کچھ دن رسول خدا (ص) کو بھی دودھ پلایا۔( امتاع الاسماع، ص6) اس وجہ سے جناب حمزہ(ع)، پیغمبر اسلام(ص) کے رضاعی بھائی بھی ہیں۔
دوسری طرف سے جناب حمزہ نے قبیلہ بنی سعد کی رہنے والی سعدیہ نامی خاتون کا دودھ بھی پیا تھا اور بعد میں وہ خاتون بھی رسول خدا(ص) کی دایہ بھی رہی ہیں یعنی رسول خدا(ص) کو بھی انہوں نے دودھ پلایا۔ لہذا جناب حمزہ دو اعتبار سے رسول خدا(ص) کے رضاعی بھائی ہوئے، ثوبیہ کی طرف سے بھی اور سعدیہ کی طرف سے بھی (سدالغابة، ج1، ص15)
پیغمبر کے لیے منگنی
جناب خدیجہ جو اس وقت کی سب سے بڑی تاجرہ تھی انہوں نے رسول خدا (ص) کو اپنے غلام میسرہ کے ساتھ تجارت کے لیے شام کی طرف بھیجا۔ میسرہ نے اس سفر میں رسول خدا (ص) سے کچھ کرامات کو مشاہدہ کیا جو اس نے واپس آ کر جناب خدیجہ کے لیے بیان کیا۔
جناب خدیجہ نے ایک شخص کو رسول خدا (ص) کی خدمت میں بھیجا اور آپ سے شادی کے لیے اپنی تمنا کا اظہار کیا۔ رسول خدا(ص) نے اپنے چچا سے مشورہ کیا۔ اس کے بعد جناب حمزہ، خویلد بن اسد بن عبد العزی کے پاس رشتہ کے لیے گئے اور رسول اسلام (ص) کے لیے جناب خدیجہ کی منگنی کی۔( سيرة النبي، ج 1، 205)
جناب حمزہ اور بیٹے کی کفالت
ایک سال قریش شدید قحط اور خشکسالی میں گرفتار ہوئے۔ جناب ابوطالب کا اہل و عیال کافی زیادہ تھا۔ اس وجہ سے رسول خدا(ص) نے اپنے چچا عباس جو اس زمانے میں بنی ہاشم میں سب سے زیادہ دولتمند تھے سے کہا: آئیے آپ کے بھائی ابوطالب کے پاس چلتے ہیں اور ان کی مدد کے لیے ان کی اولاد میں سے ایک کو کفالت کے لیے میں اپنے پاس لے جاتا ہوں اور ایک کو آپ لے جائیں۔
جناب عباس نے قبول کر لیا۔ جناب حمزہ کو خبر ملی تو آپ بھی اس کام کے لیے ان کے ساتھ ہو لئے۔ حضرت ابو طالب نے کہا: عقیل کو میرے پاس چھوڑ دو باقی والوں میں سے انتخاب کر لو۔ رسول خدا(ص) نے علی علیہ السلام کا انتخاب کر لیا۔ جناب عباس نے طالب، اور جناب حمزہ نے جعفر کا انتخاب کیا۔( سيرة النبي، ج 1، ۲۰۸)
جناب حمزہ کا اسلام لانا
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے بعد جناب حمزہ بھی خدا کی وحدانیت اور پیغمبر(ص) کی رسالت پر ایمان لائے اور اپنے بھتیجے کے دین کو قبول کیا۔ جناب حمزہ کے اسلام لانے کے بعد قریش کی پیشنہادیں یکے بعد دیگرے شروع ہو گئیں۔ اس لیے کہ انہوں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ شجاع شخص پیغمبر پر ایمان لے آیا ہے لہذا انہیں جناب حمزہ کی حمایت کی امید نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن پیغمبر اکرم(ص) نے قریش کی کوئی فرمائش قبول نہیں کی۔
اس کے بعد ابوجہل نے قریش کو پیغمبر اسلام (ص) کے قتل پر اکسانہ شروع کر دیا۔
ایک دن ابو جھل نے رسول خدا (ص)کو صفا کے مقام پر دیکھا تو انہیں گالیاں دیں۔ پیغمبر(ص) نے اس کے بکواس پر کوئی توجہ نہیں کی۔ عبد اللہ بن جدعان کی کنیز اس ماجرا کو دیکھ رہی تھی اس نے فورا اس بات کی خبر جناب حمزہ کو دی۔
جناب حمزہ کو بہت برا لگا انہوں نے ابو جہل سے انتقام کا ارادہ کر لیا لہذا فورا اٹھے اور ابو جہل کی تلاش میں نکلے، دیکھا کہ ابوجہل قریش کے ایک گروہ کے درمیان بیٹھا ہوا ہے۔ جناب حمزہ بغیر اس کے کہ کسی سے کوئی بات کریں سیدھے ابوجھل کی طرف بڑھے اور اپنی کمان کو اس کے سر پر دے مارا۔
ابو جھل کا سر پھٹ گیا۔ اس کے بعد جناب حمزہ نے کہا: تو پیغمبر کو گالیاں دیتا ہے؟ میں ان پر ایمان لایا ہوں جس راستے پر وہ چلیں گے اس پر میں چلوں گا۔ اگر تیرے اندر جرئت ہے تو تو میرے ساتھ مقابلہ کر۔ ابو جہل نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے محمد کے حق میں برا کیا۔ حمزہ کو حق ہے کہ ناراض ہو۔ (فرازهايي از تاريخ پيامبر اسلام، ص 114)
اسلام کی دن دگنی رات چگنی ترقی سے قریش کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور پیغمبر(ص) کو اذیت و آذار دینے کا سلسلہ مزید بڑھتا گیا۔ حتی کہ آپ (ص) کے چچا ابو لہب اور ان کی بیوی بھی آپ(ص) کو اذیت و آزار دینے سے باز نہیں آتے تھے خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ پیغمبر اکرم(ص) کے پڑوسی تھے اپنے گھر کا سارا کوڑا کرکٹ رسول خدا (ص) کے اوپر ڈالتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھیڑ کی اوجھڑی ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ البتہ جناب حمزہ نے ان سے بھی انتقام لے لیا۔
جناب حمزہ اسلام کی ابتدائی جنگوں میں
۱۲ ربیع الاول کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی، جناب حمزہ جس طرح سے مکہ میں رسول اسلام (ص) کے لیے ڈھال کے مانند تھے مدینہ میں بھی آپ نے رسول اسلام(ص) کی بھر پور حمایت کی۔ ہجرت کے دوسرے سال ۱۷ رمضان کو جب جنگ بدر وجود میں آئی تو جناب حمزہ نے نہایت بہادری کے ساتھ جنگ بدر میں شرکت کی اور دشمن کا مقابلہ کیا جنگ بدر میں آپ نے قریش کے پہلوان عتبہ کے مد مقابل جنگ کی اور اسے زمین بھوس کر دیا۔
جنگ بدر میں شکست خوردہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے بدلہ چکانے کے لیے جنگ احد بپا کی۔ جنگ احد میں ہندہ جگر خوارہ نے پہلے سے اپنے حبشی غلام کو جناب حمزہ کو قتل کرنے کے لیے تیار کر رکھا تھا تاکہ جنگ بدر میں جناب حمزہ کے ہاتھوں قتل ہوئے اپنے باپ عتبہ کا بدلہ لے۔ ھندہ کا حبشی غلام جنگ کے دوران مسلسل جناب حمزہ(ع) کی تاک میں رہا اور فرصت پاتے ہی اس نے جناب حمزہ(ع) کے سینے میں نیزہ کا وار کر دیا۔
جناب حمزہ کی شہادت
جیسا کہ اشارہ کیا جنگ احد میں ابو سفیان کی بیوی ھندہ نے اپنے حبشی غلام کو یہ لالچ دی تھی کہ اگر وہ جناب حمزہ کو شہید کر دے تو وہ اپنے زیورات اسے دے گی اور اسے آزاد کر دے گی۔ ہندہ کے غلام نے جنگ احد میں وہی کیا اور جناب حمزہ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اس کے بعد ہندہ نے جناب حمزہ کے کان و ناک کاٹ کر ان کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا اور جناب حمزہ کا جگر نکال کر چبا دیا اسی وجہ سے اسے ہندہ جگر خوار کہا جاتا ہے۔
رسول خدا (ص) کو جناب حمزہ(ع) کی شہادت کا صدمہ
جب پیغمبر اکرم (ص) کو جناب حمزہ کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو بھیجا تاکہ ان کے بارے میں خبر لائیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے جب جناب حمزہ کی لاش کو اس کیفیت میں دیکھا تو رسول خدا (ص) کے پاس واپس جانے کی ہمت نہ کر پائے۔
جب حضرت علی (ع) رسول اسلام(ص) کے پاس خبر لے کر واپس نہیں گئے تو رسول اسلام(ص) خود جناب حمزہ (ع) کی لاش پر تشریف لائے۔ جب آپ نے جناب حمزہ(ع) کو اس رقت بار حالت میں دیکھا تو فرمایا: مجھ پر ہرگز آپ سے زیادہ کسی کی مصیبت میں گراں نہیں گزرے گی، اس موقع سے زیادہ کوئی موقع میرے لیے سخت نہیں ہوگا۔ :"لن اصابَ بِمِثْلکَ ابَداً، ما وَقَفتُ مَوقِفاً قَطٌّ اَعنيَ...".[ تاريخ پيامبر اسلام، دکترآيتي، ص323)
اس کے بعد فرمایا: اگر خدا مجھے طاقت دے تو میں عمو حمزہ کے بدلے میں قریش کے ستر افراد کو قتل کر دوں اور ان کے بدن کے اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ اس ہنگام حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیت تلاوت کیا: : وَ إِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصّابِرينَ[نحل/ 126) اگر آپ ان کو سزا دینا چاہتے ہیں تو اپنی سزا میں اعتدال سے کام لیں اور اگر صبر سے کام لیں گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہتر ہے‘‘۔
رسول خدا(ص) نے پیغام الہی سننے کے بعد فرمایا: پس میں صبر کروں گا اور ان کا انتقام خدا پر چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے شانوں سے برد یمانی اتار کر جناب حمزہ کے اوپر ڈال دی اور فرمایا: اگر عبد المطلب کی مستورات ناراحت نہ ہوتی تو میں انہیں اسی حال میں چھوڑ دیتا تاکہ صحرا کے درندے اور ہوا کے پرندے ان کے گوشت کو کھا جاتے اور قیامت کے دن حمزہ ان کے پیٹ سے محشور ہوتے ۔ اس لیے کہ مصیبت جتنی زیادہ ہو گی اتنا زیادہ اس کا ثواب ہو گا۔( کليات منتهي الامال، ص77)
پیغمبر اکرم (ص) تھوڑی دیر تک جناب حمزہ کی لاش کے پاس کھڑے رہے اس کے بعد فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر لکھا ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب اللہ کے شیر اور اس کے رسول کے شیر ہیں( اسد اللہ و اسد رسولہ)‘‘۔ (تاريخ پيامبر اسلام، دکتر آيتي، ص323)
رسول خدا(ص) سے روایت ہوئی ہے: جو شخص میری زیارت کرے اور میرے چچا حمزہ کی زیارت نہ کرے اس نے میرے حق میں جفا کی ہے‘‘۔ (کليات مفاتيح الجنان، زيارت نامه حضرت حمزه)۔
جب جنگ احد تمام ہو گئی تو مسلمانوں نے اپنے شہیدوں کو دفنانا شروع کیا۔ رسول خدا(ص) نے جناب حمزہ اور دیگر شہدا کو بغیر غسل کے دفنانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا: انہیں اسی طرح خون میں لت پت دفنا دو میں ان پر گواہ ہوں‘‘۔
رسول خدا(ص) نے پہلے جناب حمزہ کے جنازے پر نماز جنازہ ادا کی اس کے بعد باقی شہدا کے جنازے بھی جناب حمزہ کے جنازہ کے پاس لا کر رکھے گئے رسول خدا(ص) نے ہر شہید پر نماز کے ساتھ جناب حمزہ پر بھی نماز پڑھی۔ چنانچہ ستر مرتبہ جناب حمزہ پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔ (طبقات محمد بن سعد کاتب واقدي.)
رسول خدا(ص) کے حکم کے مطابق جناب حمزہ کو عبد اللہ بن جحش کی لاش کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفنا دیا۔( کليات منتهي الامال ، ص 77.)
مزار حضرت حمزہ سيد الشهداء پہلے
مزار حضرت حمزه سيد الشهداء ابہي
وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ

اور تم لوگوں میں حج کا بلند آواز سے اعلان کرو وہ تمہارے پاس پیدل اور تمام دبلے اونٹوں پر (سوار) حاضر ہو جائیں گے جو دور دراز کے راستوں سے آتے ہیں [22:27]
قوموں کی تمام تر مشکلات کا ذمہ دار امریکہ ہے، حزب اللہ لبنان
لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ لبنان کے رکن نے کہا ہے کہ علاقے کی قوموں کی ساری مشکلات امریکہ اور صیہونی حکومت کی وجہ سے ہیں۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق حسین موسوی نے لبنان اور علاقے میں ہونے والے تشدد آمیز اور دہشتگردانہ واقعات کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ علاقے کی تمام مشکلات کا سبب امریکہ اور صیہونی حکومت ہیں اور حزب اللہ دشمنوں کی سازشوں سے پردہ اٹھاتی رہے گي۔ حسین موسوی نے کہا کہ حزب اللہ کو فخر ہے کہ وہ صیہونی حکومت کے ساتھ ساتھ تکفیری گروہوں کا بھی مقابلہ کررہی ہے۔ انہوں نے حزب اللہ کی ساکھ بگاڑنے کی دشمنوں کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی سازشیں ناکام ہوکر رہیں گي کیونکہ حزب اللہ لبنان قوم کی محافظ ہے اور سازشوں اور فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔
عالم اسلام کی صورتحال پر تشویش
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ امام کاشانی کی امامت میں ادا کی گئي۔
خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ یہ عالم اسلام کے دانشوروں اور علماء کا فریضہ ہے کہ وہ تکفیریوں، وہابیوں اور سلفیوں کی شدت پسندفکر سے لوگوں کوآگاہ کریں تا کہ عالم اسلام میں قتل عام کی روک تھام کی جاسکے۔ آيت اللہ امامی کاشانی نے مصر سمیت عالم اسلام میں سلفی اور وہابی فکر کے پھیلاؤ کی بابت انبتاہ دیتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کے علماء اور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کوآگاہ نیز مناسبب تدابیر اپنا کر انتھا پسندانہ اور خطرناک افکار کا سد باب کریں۔ خطیب جمعہ تہران نے شام اور مصر سمیت عالم اسلام کی افسوس ناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات سے عالم کفر کو پہچاننے اور اس حقیقت کو درک کرنے کی ضرورت ہے کہ عالم اسلام کے بہت سے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سلفیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں قتل عام کا آغاز اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا تھا اور اس کے بعد برطانوی سامراج نے اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے تحت اس انتھا پسندانہ فکر کو عالم اسلام میں پھیلانے کی کوشش کی۔ خطیب جعمہ تہران نے مصر میں فوج کے ہاتھوں صدر مرسی کی معزولی کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا یہ مشاہدہ کررہی ہے کہ کوئي فرعون آتا ہے ملت مصر سے خیانت کرتاہے اور اسے رہا بھی کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایران میں ولایت فقیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں اس وقت جو امن و چین اور استحکام ہے وہ رہبرانقلاب اسلامی کی رہنمائیوں کا مرھون منت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو اس اسلامی فکر سے استفادہ کرنا چاہیے اور ایران کو اپنا نمونہ عمل بنالینا چاہیے۔ آیت اللہ امامی کاشانی نے ایران میں نئي حکومت کے برسرکار آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا کہ یہ حکومت اقتصادی ، سیاسی اور ثقافتی نیز اخلاقی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوگي۔
افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کے اعدادو شمار
افغانستان میں 2001 کے اختتام پر شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کم سے کم 2 ہزار ایک سو26 امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں 2001 سے امریکی مداخلت کے بعد وہاں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد کم سے کم 2 ہزار ایک سو26 ہوگئی ہے۔ جبکہ ملٹری سروس کے ایک ہزار 763 اہلکاربھی اس جنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔اسی دوران افغانستان سے باہر آپریشن فریڈم میں 127 امریکی فوجی مارے گئے ہیں ان میں سے 11 مخالفانہ کارروائی کا نتیجہ تھے۔
امریکی محکمہ دفاع کا کہناہے کہ گزشتہ 12 برسوں کے دوران 19 ہزار 141 امریکی اہلکار مخالفانہ کارروائیوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
محترمہ والٹرور کی اسلام قبول کرنے کی ایمان افروز داستان
انسانی فطری طور پر اپنی سعادت اور خوش بختی کا متمنی ہے اور اس کے لیے کوشش و جستجو کرتا رہتا ہے۔ وہ سعادت تک پہنچنے کے خیال سے مسرت و شادمانی میں غرق رہتا ہے اور مخدوش مستقبل اور محرومی کے تصور سے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایمان ایک ایسی الہی نعمت ہے کہ جو دنیا کے بارے میں انسان کی سوچ تبدیل کر دیتی ہے اور وہ تخلیق اور خلقت کو بامقصد سمجھتا ہے اور یہ مقصد خیر اور کمال ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کائنات کے نظام اور اس کے قوانین کو مثبت نگاہ سے دیکھتا ہے اور زندگی کو معنی و مفہوم اور مقصد دیتا ہے۔ اسی احساس اور جذبے کو محترمہ والٹرور نے محسوس کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں اپنے ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ جس وقت میں نے خدا کی اطاعت شروع کی اسی وقت سے میری حقیقی زندگي کا آغاز ہوا۔
محترمہ والٹرور زندگی کے بہت سے تجربات حاصل کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ جب سے میں اسلام سے آشنا ہوئي ہوں اور میں نے اسلام قبول کیا ہے تو میری زندگی بامقصد ہو گئی ہے۔ کیونکہ اسلام نے مجھے ایمان کی نعمت سے نوازا ہے۔
کائنات میں ایک باایمان فرد کی حالت اس فرد جیسی ہے کہ جو ایک ایسے ملک میں زندگي بسر کرتا ہے کہ جس کے نظام اور قوانین کو وہ صحیح اور عادلانہ سمجھتا ہے اور اس نظام کو چلانے والوں کی نیک نیتی پر بھی وہ ایمان و یقین رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے اور تمام افراد کے لیے ترقی و پیشرفت کا راستہ ہموار دیکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جو چیز اس کی پسماندگي اور محرومی کا سبب بن سکتی ہے وہ اس کی اور اس جیسے افراد کی سستی اور ناتجربہ کاری ہے۔ لیکن کائنات میں ایک بےایمان فرد ایک ایسے فرد کی مانند ہے کہ جو ایک ایسے ملک میں رہتا ہے کہ جس کے نظام اور قوانین کو وہ غلط اور ظالمانہ سمجھتا ہے اور انہیں قبول کے سوا اس کے پاس کوئي چارہ نہیں ہے۔ ایسے شخص کے اندر ہمیشہ کینہ و عداوت چھپی ہوتی ہے۔ وہ کبھی بھی اپنی اصلاح کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ يہ خيال کرتا ہے کہ پوری کائنات اور ہستی ظلم و ستم اور ناانصافی سے بھری ہوئي ہے اور اس کے لیے زندگی کا کوئي معنی و مفہوم نہیں ہے۔
*****
محترمہ والٹرور جرمنی میں پیدا ہوئيں۔ انہوں نے اپنا بچپن غربت و تنگ دستی میں گزارا اور انہوں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ لیکن زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا کہ جب مادی لحاظ سے ان کی زندگي آسودہ تھی لیکن وہ محسوس کرتی تھیں کہ وہ اپنی زندگي سے راضی نہیں ہیں اور ان کی زندگي میں کسی چیز کی کمی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:
میرا بچپن بہت ہی غربت اور مشکلات میں گزرا۔ میرے بچپن کی تربیت میں مذہب کا کوئي کردار نہیں تھا۔ لیکن میں کم و بیش اپنی زندگی میں خدا کا وجود محسوس کرتی تھی۔ جب میں بڑی ہوئي تو میں نے ایک کمپنی میں سیکرٹری کی نوکری کر لی۔ آہستہ آہستہ میری مالی حالت اچھی ہونے لگی جس کی وجہ سے میری خواہشات میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ میں مہنگے کپڑے خریدنے لگي اور ایک آسودہ زندگی کے لیے زیادہ خرچ کرنے لگی۔ میرے پاس اگرچہ سب چیزیں موجود تھیں لیکن مجھے دلی سکون نہیں ملتا تھا۔ میری خواہشات اور تمناؤں کی کوئی انتہا نہیں تھی لیکن اس کے باوجود مجھے باطنی اور قلبی سکون میسر نہیں تھا اور مجھے اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ جب میں نے کئی دوسرے ملکوں کا سفر کیا تو میرے اندر تبدیلی کی خواہش جاگ اٹھی۔
محترمہ والٹرور کو ایک مسلمان ملک کے سفر کے دوران ایسے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی زندگي پر بہت ہی مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ گویا ان کو اپنے باطن میں کوئی گمشدہ چیز مل جاتی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:
جب میں پہلی بار ترکی گئي تو سحر کے وقت میں ایک خوبصورت اور دل انگیز آواز سے بیدار ہو گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر کوئي چيز زندہ ہو گئی ہے۔ بعد میں میں متوجہ ہوئي کہ وہ صبح کی آذان کی آواز ہے کہ جو مسلمانوں کو صبح کی نماز کی دعوت دیتی ہے اسے سن کر مسلمان صبح کی نماز ادا کرتے ہیں۔ آذان میں مسلمان خدا کی بڑائی اور بزرگی کا ذکر کرتے ہیں اور حضرت محمد (ص) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔ آذان کی آواز نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا۔ ترکی اور کئی دیگر اسلامی ملکوں کا سفر کرنے کے بعد میرے اقدار اور معیارات تبدیل ہو گئے اور اسلام میں میری دلچسپی بہت بڑھ گئی۔
اسلام دین فطرت ہے۔ اس کے حقائق اور معارف کچھ اس طرح ہیں کہ وہ اپنے مخاطب کو آسانی سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات چونکہ انسان کی باطنی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اس لیے تشنگان حقیقت کو سیراب کرتی ہیں۔ اسی بنا پر محترمہ والٹرور اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں:
میں اس حقیقت تک پہنچ گئی کہ میں جس باطنی اور قلبی آرام و سکون کی تلاش میں تھی وہ مجھے اپنے ملک میں نہیں ملا بلکہ وہ مجھے اسلام میں نظر آیا۔ اسلام سے آشنائی نے میرے اندر تبدیلی پیدا کر دی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے فارغ اوقات میں اسلامی ثقافت کے بارے میں مطالعہ کروں گی۔ میں اپنی چھٹیاں تیونس سمیت اسلامی ملکوں میں گزارنے لگی البتہ تفریحی مقامات پر نہیں بلکہ لوگوں کے درمیان خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں۔ میں نے مختلف طبقات اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے میل جول بڑھانے اور واقفیت پیدا کرنے اور بات چيت کرنے کی کوشش کی۔
*****
محترمہ والٹرور کی اس رفت و آمد اور سفر کا نتیجہ ان کے اسلام لانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عصر حاضر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ محترمہ والٹرور کو ایک اور حقیقت سے آشنا کراتا ہے۔ وہ زالٹس برگ یونیورسٹی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں ایک فلم دیکھتی ہیں۔ وہ خود اس کے بارے میں کہتی ہیں:
البتہ یہ تنقیدی فلم کمیونسٹوں نے دکھائی تھی۔ اس کے باوجود کہ ان کے مقاصد کچھ اور تھے، مجھ پر اس فلم کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ میری نظر میں ایران کا اسلامی انقلاب اس حقیقت کا ایک مصداق تھا کہ خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس سے مدد مانگنے سے بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے چونکہ اسلام اور دین سے رہنمائی حاصل کی اسی لیے محترمہ والٹرور پر اس کا بہت زیادہ اثر ہوا اور ان کے دل میں انقلاب کے بارے میں مزید جاننے کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ انقلاب کے بارے میں یہ فلم دیکھنے کے بعد ویانا میں ایران کے کلچر سینٹر سے رابطہ کرتی ہیں۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:
اس رابطے کے نتیجے میں مجھے مطالعہ کے لیے بہت اچھی کتابیں مل جاتی ہیں جن میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور مفکر اسلام استاد شہید مرتضی مطہری کی کتابیں شامل ہیں۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد میرے اندر بہت اچھی تبدیلیاں پیدا ہو گئيں۔ شہید مطہری کی ایک کتاب میں میں نے مذہبی ایمان کے بارے میں پڑھا جو میرے لیے بہت ہی دلچسپ اور پرکشش تھا۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ تمام اخلاقی اصولوں کی بنیاد مذہبی ایمان ہے۔ کرامت، تقوی، سچائی، فداکاری اور وہ تمام کام جن کو انسانی فضیلت کا نام دیا گيا ہے، ان کی بنیاد ایمان ہے۔ مذہبی ایمان انسان کے اندر استقامت و مزاحمت کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اسی بنا پر مذہبی افراد، جتنا ان کا ایمان قوی و مضبوط ہوتا ہے، اتنا ہی وہ باطنی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
محترمہ والٹرور اسلام پر ایمان لانے سے اپنے اندر ایک دلنشیں آرام و سکون محسوس کرتی ہیں۔ ایک ایسا آرام و سکون کہ جو حتی سخت ترین حالات میں بھی متاثر نہیں ہوتا۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنے لیے زینب نام منتخب کیا۔ وہ کہتی ہیں:
جب سے میں مسلمان ہوئی ہوں میں نے اپنی زندگی دوسرے انسانوں کے لیے وقف کرنے اور اسلامی نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ پردے اور حجاب کی وجہ سے مجھے اپنی پہلی ملازمت اور اچھی آمدنی سے محروم ہونا پڑا۔ لیکن یہ نقصان میرے لیے بہت ہی شیریں تھا کیونکہ میں نے ایک بڑے مقصد کی خاطر اسے برداشت کیا۔ البتہ خدا نے مجھ پر لطف و کرم کیا اور مجھے دوسری جگہ مناسب نوکری مل گئی۔ میرے خیال میں اگر انسان خدا کی راہ میں کام کرے تو وہ خود کو ہمیشہ سربلند و سرفراز سمجھتا ہے اور کبھی بھی مادی نقصان کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں جتنا خدا کے راستے میں قدم بڑھاتی ہوں تو اپنے اندر اتنا ہی زیادہ آرام و سکون محسوس کرتی ہوں۔ جب میں مغرب میں نوجوانوں کو بڑی تعداد میں اسلام کا گرویدہ ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے سورۂ نصر یاد آ جاتی ہے جس میں ارشاد خداوندی ہے:
جب خدا کی مدد اور فتح آ جائے اور آپ لوگوں کو دین خدا میں جوق در جوق داخل ہوتا دیکھیں تو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کریں اور اس سے استغفار کریں بے شک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
مصر کی موجودہ صورت حال
مصر میں اخوان المسلمین کے سربراہ محمد بدیع کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں دارالحکومت قاہرہ میں النصر کے علاقے میں واقع ایک فلیٹ سے کریک ڈاوٴن کے دوران گرفتار کیا گیا۔
ادھر امریکی صدربارک اوبامانے مصرمیں جاری پْرتشددواقعات میں ایک ہزارسے زائد شہریوں کی ہلاکت کے پیش نظر مصر کیلئے عسکری امدادختم کرنے کاعندیہ دیا ہے۔ میہ اہیسی حالت میں ہے کہ مصر کے پبلک پراسیکیوٹر نے معزول صدر محمد مرسی کو نئے الزام میں 15 روز کے لئے جیل ریمانڈ پر بھیج دیا۔
مصرکی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یورپی یونین کے28وزرائے خارجہ کی ہنگامی ملاقات بھی کل متوقع ہے جس میں مصرپرتجارتی پابندیاں لگائے جانے پربھی غورکیاجائیگا۔
دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر خارجہ شاہ سعودالفیصل نے کہا ہے کہ اگرمغربی ممالک نے مصرکی امداد روکی تو تمام عرب اوراسلامی ممالک، مصرکی بھرپورمددکریں گے۔دریں اثنامصر کے متعدد شہروں میں آ ج چھٹے دن بھی کرفیو نافذ رہاجس کی وجہ سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا رہا۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کا جاری تبادلہ
ہندوستان نے دعوی کیا ہے کہ پاكستاني فوجیوں نے کنٹرول لائن پر ایک مرتبہ پھر فائربندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں ہندوستانی ٹھکانوں پر فائرنگ کی ہے۔
ہندوستانی فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے بلا اشتعال پونچھ ضلع میں کنٹرول لائن سے ملحقہ میڈھر سیکٹر میں ہندوستانی ٹھکانوں پر فائرنگ کی جس کے جواب میں ہندوستانی فوجیوں نے بھی فائرنگ کی اور کنٹرول لائن پر دونوں ہی طرف سے آج صبح تک رک - رک کر فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔
قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نوبر 2003 میں دو طرفہ جنگ بندی معاہدہ ہوا ہے جو ان سالوں تک برقرار رہی ہے۔
آیت اللہ بشیر نجفی: عراق میں خونریزی کی ذمہ دار حکومت
نجف کے مرجع تقلید آیت اللہ بشیر نجفی نے عراق میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں اپنی گفتگو میں حکومت کو اس کا اصلی ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا: یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عراق میں اس خونریزی کا سلسلہ بن کرائے جو سالہا سال سے جاری ہے۔
انہوں نے اس بات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہ ملک میں دھشتگرانہ کاروائیوں میں کتنی عورتیں بیوہ، کتنے بچے یتیم اور کتنی ماوں کی گودیاں اجڑی ہیں کہا: آخر کب تک عراق کے عوام اس رنج و غم کے متحمل ہوں گے۔ عراق کی حکومت ان آلام و مصائب کی اصلی ذمہ دار ہے اسے جلد از جلد اس بارے میں قدم اٹھانا چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ کچھ روز قبل آیت اللہ سیستانی نے بھی عراقی حکام کے غیر جانبدارانہ رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: حکومتی عہدہ داران موجودہ صورت حال میں اپنا شانہ خالی کر رہے ہیں اور کوئی بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنے کئے کا نتیجہ بگتیں گے، حقائق لوگوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
