Super User
حجاب، رہبر معظم انقلاب اسلامي آيت الله العظمي سيد علي خامنه اي کی نگاہ میں
1- فطری انسانی نظام
حجاب انسان کی فطرت سے ہم آہنگ اقدار کا جز ہے۔ دونوں صنف مخالف کا حد سے زیادہ آمیزش کی سمت بڑھنا، بے پردگی اور ایک دوسرے کے سامنے عریانیت فطرت انسانی اور مزاج انسانی کے خلاف عمل ہے۔ اللہ تعالی نے مرد و زن کی زندگی کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے اور فوائد کی بنیاد پر ایک فطری نظام قائم کیا ہے تاکہ وہ دونوں مل کر دنیا کا نظم و نسق چلائیں۔ کچھ فرائض عورتوں اور کچھ مردوں کے دوش پر رکھ دئے ہیں اور ساتھ ہی مرد و زن کے لئے کچ حقوق کا تعین کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر عورت کے حجاب کے سلسلے میں مرد کے لباس سے زیادہ سخت گیری کی گئی ہے۔ یوں تو مرد کو بھی بعض اعضا کو چھپانے کا حکم دیا گيا ہے لیکن عورت کا حجاب زیادہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عورت کے مزاج، خصوصیات اور نزاکت کو قدرت کی خوبصورتی و ظرافت کا مظہر قرار دیا گيا ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ کشیدگی، آلودگی اور انحراف سے محفوظ رہے اور اس میں گمراہی نہ پھیلے تو اس صنف (نازک) کو حجاب میں رکھنا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے مرد پوری طرح عورت کی مانند نہیں ہے اور اسے تھوڑی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس کی وجہ دونوں کی فطری ساخت اور اللہ تعالی کی نظر میں نظام حیات چلانے کے تقاضے ہیں۔
دوسرا باب: مغربی تہذیب میں حجاب
اسلام اور مغربی تہذیب میں حجاب کا چیلنج
میں نے بارہا کہا ہے کہ یہ ہماری مجبوری نہیں ہے کہ ہم اپنے موقف کا دفاع کریں۔ دفاع تو مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت کو کرنا چاہئے۔ عورتوں کے سامنے جو بات ہم پیش کرتے ہیں اس کا کوئی بھی با شعور اور منصف مزاج انسان منکر نہیں ہو سکتا۔ ہم عورت کو عفت، پاکیزگی، حجاب، مرد و زن کی حد سے زیادہ آمیزش سے اجتناب، انسانی وقار کی حفاظت، غیر مردوں کے سامنے سجنے سنورنے سے اجتناب کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا یہ بری چیز ہے؟ یہ تو مسلمان عورت کے وقار کی ضمانت ہے، یہ عورت کے عز و شرف کی بات ہے۔ جو لوگ عورت کو اس انداز کے میک اپ کی ترغیب دلاتے ہیں کہ گلی کوچے کے لوگ اسے ہوسناک نظروں سے دیکھیں، انہیں اپنے اس نظرئے کا دفاع کرنا چاہئے کہ انہوں نے عورت کو اتنا کیوں گرا دیا ہے اور اس کی اس انداز سے تذلیل کیوں کر رہے ہیں؟! ان کو اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہماری ثقافت تو ایسی ثقافت ہے جسے مغرب میں بھی با شعور افراد اور اچھے انسان پسند کرتے ہیں اور اسی انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہاں بھی با عفت و متانت خواتین اور وہ عورتیں جو اپنی شخصیت کو اہمیت دیتی ہیں کبھی بھی غیروں کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کا ذریعہ بننا پسند نہیں کرتیں۔ مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت میں ایسی مثالیں بہت ہیں۔
یورپ میں حجاب کی قدر و قیمت کی نفی
مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں جواب دے جس نے گزشتہ ادوار سے موجودہ دور تک عورتوں کی اتنی توہین کی اور انہیں اتنا گرا دیا! آپ دیکھئے کہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتوں کو مالیاتی اختیارات حاصل نہیں تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجدو اور عجیب و غریب انداز کی بے پردگی کے باوجود جو مغرب میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس بے لگام جنسی اختلاط اور آمیزش کے باوجود جسے وہ عورت کے احترام اور قدر و قیمت کی علامت قرار دیتے ہیں، ان ساری چیزوں کے باوجود عورت کو یہ حق نہیں تھا کہ اس ثروت کو بھی جو اس کی اپنی ہوتی تھی، اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے! شوہر کے سامنے وہ اپنے مال و متاع کی بھی مالک نہیں ہوتی تھی۔ یعنی جو عورت شادی کرتی تھی اس کی ساری دولت اس کے شوہر کی ہو جاتی تھی۔ اسے یہ حق نہیں ہوتا تھا کہ خود اسے استعمال کرے۔ پھر رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل میں عورت کو مالکانہ حقوق ملے اور کام کی آزادی دی گئی۔ یعنی اس چیز سے بھی عورت کو محروم رکھا تھا جو بنیادی ترین انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہے۔ ان کا سارا زور اقدار کا درجہ رکھنے والے امور کے منافی چیزوں پر تھا۔ حجاب کے سلسلے میں ہم جو اتنی تاکید کرتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔
عورت کی عریانیت اور الکحل ازم، یورپی روایت
اس وقت دنیا میں کچھ مخصوص چیزوں کے سلسلے میں بڑی حساسیت دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کسی شخصیت، کسی فلسفی، کسی سیاستداں نے عورت کی عریانیت کی مخالفت کر دی تو اس پر دنیا میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے! بہت سی بری عادتوں اور حرکتوں کے سلسلے میں یہ حساسیت نہیں ہے! اگر کوئی ملک پالیسی کے تحت شراب کی مخالفت کرنے لگے تو ایک شور شرابا مچ جاتا ہے اور تمسخرانہ مسکراہٹیں نظر آنے لگتی ہیں، اسے رجعت پسند کہا جانے لگتا ہے! یہ بھی کوئی ثقافت ہوئی؟ ثقافت کے جز کے طور پر عورت کی عریانیت اور نشے کو عمومی رواج کے طور پر متعارف کرانا کس کا کام ہے؟ اس کا تعلق یورپ سے ہے اور یہ چیز ان ممالک کی قدیمی تہذیب سے نکلی ہے۔ یہی چیزیں اب دنیا کے دیگر علاقوں میں مسلمہ رواج کا درجہ حاصل کر چکی ہیں اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو گویا اس سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ہو۔
مغرب کی متضاد باتیں
یورپی ممالک میں جو خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور اپنے پروپیگنڈوں میں ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی حقوق اور انسانوں کی آزادی کا موضوع ان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے یعنی انہی برطانیہ اور فرانس نے چند عورتوں یا لڑکیوں کو اتنی بھی اجازت نہیں دی کہ وہ اسلامی حجاب کے ساتھ آمد و رفت کر سکیں اور اسکولوں میں جائیں! اس مرحلے میں تو اکراہ و اجبار سب کچھ ان کے لئے جائز ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں رہ جاتا! لیکن اسلامی جمہوریہ پر اس وجہ سے کہ وہ معاشرے میں حجاب کو لازمی سمجھتا ہے ان حلقوں نے شدید اعتراض کیا ہے! اگر عورتوں کو کسی وضع قطع یا کسی لباس میں رہنے پر مجبور کرنا برا ہے تو یہ برائی حجاب کو ضروری قرار دئے جانے کی برائی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ (حجاب) سلامتی و تحفظ سے زیادہ نزدیک ہے۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ دونوں کی باتوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے لیکن مغرب کا نظریہ یہ نہیں ہے۔
مغربی ثقافت میں عورت کی تذلیل و تحقیر
عورتوں کے مسئلے میں ہمارا موقف دفاعی نہیں، جارحانہ ہے۔ مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہیں، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گيا ہے۔ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ عورتوں کے قضیئے میں ان کی مشکل اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گيا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ یہ جو سفارت کاری کے امور میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں اس سے اس کاری ضرب کی تلافی نہیں ہو سکتی جو مغرب نے عورت پر لگائی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں ہے۔ اسے چاہئے کہ سجے سنورے تاکہ مردوں کو اچھی لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔
حجاب، اسلامی ثقافت کی کنجی
کسی ملک پر دائمی قبضے اور تسلط کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی ثقافت بدل دی جائے۔ یعنی اس ملک کو قابض ملک کی ثقافت میں ڈھال دیا جائے تاکہ وہ پوری طرح ہتھیار ڈال دے۔ مغرب والوں نے ماضی میں مشرقی خطوں میں یہ کام کیا لیکن انہیں بہت کامیابی نہیں ملی۔ اس وقت وہ افغانستان میں یہی کام کرنا چاہتے ہیں اور یقینا ان کا ایک ہدف یہ ہے کہ شخصیت اور تشخص ساز بنیادوں کو ختم کر دیں۔ بات اسلام سے شروع کرتے ہیں۔ حجاب کی مخالفت کرتے ہیں، لوگوں کی دینداری اور مذہبی علامتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان اقدار کی حفاظت کرنا چاہئے انہیں تقویت پہنچانا چاہئے۔
مغرب اسلامی جمہوریہ کو، جہاں عورتوں کی پوشاک کی ایک لازمی شکل معین ہے، تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن ان ملکوں کے سلسلے میں اس کی تیوریوں پر کبھی بل نہیں پڑتے جنہوں نے عریانیت اور عورت اور مرد کے ما بین بے پردگی کو جبرا لازمی قرار دے دیا ہے! اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ (حجاب) مغرب کی عام ثقافت کے برخلاف ہے۔ یہ (مغرب والے) اس سلسلے میں بہت حساس ہیں۔
یورپ میں حجاب پر پابندی
ان حالیہ چند برسوں میں یورپ میں، فرانس، جرمنی اور کچھ دیگر ممالک میں حجاب کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے۔ کچھ لڑکیاں اسکارف کے ساتھ اسکول جا رہی تھیں، انہیں صاف منع کر دیا گيا کہ "بالکل ہو ہی نہیں سکتا" اس کی مخالفت کی گئی! دوسری طرف آپ یہ دیکھیں گے کہ عالمی معیاروں کی بات کی جا رہی ہے۔ جب وہ اسلامی جمہوریہ کو کچھ فرائض کی انجام دہی کی تلقین کرنا چاہتے ہیں تو جس چیز پر ان کی سب سے زیادہ تاکید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ " ایران کو خود کو عالمی معیارات سے ہم آہنگ کر لینا چاہئے" معیارات سے مراد یہی چیزیں ہیں! یعنی وہ چیزیں جو مغربی ثقافت سے میل کھاتی ہوں۔ تو مغرب کی جانب سے یہ سخت گیر رویہ اور یہ دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، جب بھی کوئی ثقافت بالخصوص یہ اسلامی ثقافت، جو اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتی ہے اور کمزور اور دفاعی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، آگے آنا چاہتی ہے تو اسے تذلیل، توہین اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تیسرا باب: ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں حجاب
حجاب کا اثر و نفوذ
آپ دیکھ رہے ہیں کہ عورتیں مختلف ممالک میں، خواہ وہ ایسے اسلامی ممالک ہوں جہاں حجاب کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور جو مغربی ثقافت میں غرق ہیں یا خود یورپی ممالک، حجاب میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ البتہ یہ میلان پہلے مسلمانوں کے یہاں نظر آیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم نے دیکھا کہ دور دراز کے ممالک نے بھی جو مغربی و یورپی تہذیب کے دلدادہ یا زیر اثر تھے، ایرانی خواتین کے حجاب کو اختیار کیا اور اس میں دلچسپی دکھائی۔ آج بھی مغربی دنیا اسلامی حجاب کی سمت بڑھ رہی ہے۔ میں نے شمالی افریقا کے مسلمان نشین علاقے کے ایک ملک میں دیکھا کہ عورتیں اور لڑکیاں ایرانی عورتوں کے حجاب کی طرز پر حجاب استعمال کر رہی ہیں۔ آج مغربی دنیا بھی رفتہ رفتہ اسلامی حجاب کی جانب راغب ہو رہی ہے۔
عالم اسلام کے مشرقی علاقے میں، جہاں تک اطلاعات حاصل ہو رہی ہیں، حقیقی و خالص و انقلابی اسلام کی عملی تصویر، ملت ایران کی اس عظیم تحریک کے اثرات لوگوں کے دلوں پر پڑے ہیں۔
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض مغربی ممالک میں، غیر اسلامی حکومتوں والے مسلم ممالک میں حجاب دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، یہ عورتوں میں حجاب کی گہری رغبت کی علامت ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں جہاں پردے پر توجہ نہیں دی جاتی تھی، اسلامی ممالک میں جہاں میں نے خود نزدیک سے مشاہدہ کیا کہ پردے اور حجاب کا نام لینا گوارا نہیں کیا جاتا تھا انقلاب کے بعد عورتیں بالخصوص روشن خیال خواتین اور خصوصا طالبات میں حجاب کی شدید رغبت نظر آنے لگی۔ انہوں نے حجاب کو اپنایا اور اس کی حفاظت کی۔
مغربی ثقافت کی جبری ترویج
جس نے مغربی تہذیب یعنی در حقیقت ایران پر مغرب کے تسلط کے حق میں اور برطانیہ کے سامراجی قبضے کے مفاد میں اس زمانے میں سب سے بڑا قدم اٹھایا وہ (سابق شاہ ایران) رضا خان تھا۔ موجودہ حالات میں یہ اقدامات کتنے شرمناک سمجھے جاتے ہیں کہ کوئی بادشاہ یکبارگی ملک کے قومی لباس کو بدل دے! ہندوستان اور دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں قوموں کے پاس اپنی پوشاک اور اپنا لباس ہے اور وہ اس پر فخر بھی کرتی ہیں، کسی طرح کی خفت محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن ان (ایران کے شاہی دربار سے متعلق) لوگوں نے یکبارگی اعلان کر دیا کہ یہ (قومی) لباس ممنوع ہے! کیوں؟ کیونکہ اس لباس کے ساتھ صاحب علم نہیں ہوا جا سکتا! واہ بھئی واہ! ایران کے عظیم ترین سائنسداں جن کی کتابیں اب بھی یورپ میں پڑھائی جاتی ہیں اسی ثقافت اور اسی ماحول میں پلے بڑھے۔ اس لباس کا (ان پر) کیا (منفی) اثر پڑا؟ یہ کیا بات ہوئی؟! اس طرح کی مسخرے پن کی باتیں کی گئيں۔ ایک قوم کا لباس ہی بدل دیا گيا۔ عورتوں کی چادر کو ممنوع کر دیا گيا۔ اعلان کر دیا گيا " چادر میں رہ کر عورت دانشور اور سائنسداں نہیں بن سکتی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی" میں سوال کرتا ہوں کہ ایران میں چادر پر پابندی لگا دینے کے بعد عورتوں نے سماجی سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیا؟ کیا رضا خان کے دور حکومت میں یا رضا خان کے بیٹے کے دور میں عورتوں کو سماجی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دی گئی؟! نہ مردوں کو اس کی اجازت دی جاتی تھی اور نہ عورتوں کو اس کا موقع ملتا تھا۔ جس وقت ایرانی خواتین سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اتریں اور انہوں نے ملک کو اپنے مقتدر ہاتھوں پر بلند کیا اور ملک کے مردوں کو بھی جد و جہد کے میدان میں کھینچا اس وقت وہ چادر پہنے ہوئے میدان میں آئی تھیں۔ چادر کے کیا منفی اثرات ہیں؟! کسی مرد یا کسی عورت کی سرگرمیوں میں لباس کب رکاوٹ بنتا ہے؟! یہ نادان، ان پڑھ غنڈہ رضاخان دشمن کے ہاتھوں میں پڑ گیا اور اس نے اچانک ہی ملک کا لباس بدل دیا۔ اس لئے کہ مغربی عورتوں کے ہاں سر برہنہ باہر نکلنے کا رواج تھا! مغرب سے یہ چیزیں لائی گئی تھیں۔ قوم کو جن چیزوں کی اشد ضرورت تھی وہ نہیں لائی گئیں۔ علم و دانش لانے کی کوشش نہیں کی گئی، تجربات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، سعی و کوشش اور محنت کی عادت کی پیروی نہیں کی گئی، مہم جوئی (کے جذبے) کو لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہر قوم میں کچھ اچھی صفات و خصائص ہوتے ہیں، ان صفات کو اپنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جو چیزیں لائی گئیں انہیں آنکھ بند کرکے قبول کر لیا گيا۔ جو افکار و نظریات لائے گئے وہ بغیر غور و فکر کے من و عن قبول کر لئے گئے۔ کہا گیا کہ چونکہ یہ مغربی (افکار و نظریات) ہیں اس لئے انہیں قبول کر لینا بہتر ہے۔ لباس، غذا، انداز گفتگو اور چلنے کی روش چونکہ مغربی ہے اس لئے اسے اپنا لینا چاہئے! اس میں کسی پس و پیش کی گنجائش نہیں ہے! کسی بھی ملک کے لئے یہ صورت حال مہلک زہر کی مانند ہوتی ہے۔ یہ قطعا درست نہیں ہے۔
مسلمان عورت پر مظالم
بے ضمیر اور پست سلطنتی نظام میں عورت حقیقت میں ہر لحاظ سے مظلوم تھی۔ اگر وہ علمی میدان میں وارد ہونا چاہتی تو اسے دین و تقوا و عفت و پاکیزگی سے کنارہ کشی کرنی پڑتی تھی۔ یہ کہاں ممکن تھا کہ مسلمان خاتون یونیورسٹی، تعلیمی مراکز، علمی و ثقافتی اداروں میں آسانی سے اپنے حجاب، متانت اور وقار کو برقرار رکھتی؟ یہ کہاں ممکن تھا کہ تہران اور بعض دیگر شہروں کی سڑکوں پر مسلمان خاتون اسلامی متانت و وقار کے ساتھ یا حتی آدھے ادھورے حجاب کے ساتھ آسانی سے گزر جائے اور اسے مغربی فحاشی و فساد کے دلدادہ افراد کے رکیک جملوں کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ نوبت یہ آ گئی تھی کہ اس ملک میں عورتوں کے لئے حصول علم تقریبا نا ممکن ہو گیا تھا۔ البتہ اس میں کچھ استثنا بھی ہے لیکن اکثر و بیشتر عورتوں کے لئے علمی میدان میں وارد ہونا ممکن نہیں ہو پاتا تھا۔ اس کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ حجاب ترک کر دیں اور تقوی و اسلامی وقار سے خود کو الگ کر لیں۔
ایران میں حجاب اور عورتوں کی سماجی ترقی
اسلام، انقلاب اور امام (خمینی رہ) نے اس ملک میں آکر عورت کو سیاسی سرگرمیوں کے محور و مرکز میں پہنچا دیا اور انقلاب کا پرچم خواتین کے سپرد کر دیا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ عورتوں نے اپنے حجاب و وقار و اسلامی متانت، دین و تقوا اور عفت و پاکدامنی سے بھی خود کو آراستہ رکھا۔ آج مسلمان ایرانی عورت کی گردن پر کوئی حق باقی نہیں رہ گيا ہے جو ادا نہ ہوا ہے۔
آپ غور کیجئے! جب ایک مسلمان عورت اپنی فطرت اور حقیقت کی سمت لوٹتی ہے تو کیسے کیسے شاہکار تخلیق کرتی ہے! بحمد اللہ ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام میں اس کا مشاہدہ کیا گيا اور آج بھی یہ چیز ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے کب عورتوں کی یہ قدرت و عظمت دیکھی تھی جو آج مادران شہدا کے ہاں دیکھ رہے ہیں؟! ہم نے نوجوان لڑکیوں کا یہ ایثار کہاں دیکھا تھا کہ وہ اپنے عزیز شوہروں کو محاذ جنگ پر بھیجیں اور یہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ ان میدانوں میں سرگرم عمل رہیں؟ یہ عظمت اسلام ہے جو انقلاب کے ایام میں اور آج بھی ہماری انقلابی خواتین کے چہروں سے ہویدا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ نہیں کیا جانا چاہئے کہ حجاب اور عفت کی حفاظت کے ساتھ، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کے ساتھ انسان علمی میدانوں میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ آج ہم اپنے سماج میں بحمد اللہ کتنی خاتون سائنسدانوں اور مختلف میدانوں کی ماہر عورتوں کو دیکھ رہے ہیں! محنتی، با صلاحیت اور با ارزش طالبات سے لیکر فارغ التحصیل خواتین اور ممتاز و صف اول کی ڈاکٹروں تک! اس وقت اسلامی جمہوریہ میں مختلف علمی شعبے خواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان عورتوں کے ہاتھوں میں جنہوں نے اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کی ہے، حجاب کی بھی مکمل پابندی کی ہے، اسلامی روش کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش بھی کی ہے، جو اسلام کا حکم ہے اسی انداز سے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض بھی انجام دئے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ علمی اور سیاسی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں۔ اسلامی ماحول میں، اسلامی مزاج کے ساتھ خاتون حقیقی کمال تک پہنچ سکتی ہے۔ آرائشی سامان اور استعمال کی چیز بنے بغیر۔
ایران کی مسلمان خواتین کا پیغام
ایرانی خواتین بالخصوص وہ عورتیں جو مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں، اسلام اور اسلامی احکامات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر حجاب کی پابندی کے ساتھ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہیں، وہ اپنے عمل سے دنیا کی عورتوں، لڑکیوں اور طالبات کو یہ دکھائیں کہ نہ تو تعلیم کے معنی بے راہروی کے ہیں اور نہ ہی تحصیل علم کا لازمہ مرد اور عورت کے ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے متعلق اخلاقی اصول و ضوابط سے بے اعتنائی ہے۔ ان ضوابط اور اقدار کی مکمل پابندی کرتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا بھی جا سکتا ہے اور ساتھ ہی مسلمان خاتون کے وجود کو اسلام کے عالمی پیغام کے ایک نمونے کے طور پر پیش بھی کیا جا سکتا ہے۔
شام کے خلاف امریکہ کا حملہ ، اسرائیل کی نابودی
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ موحدی کرمانی کی امامت میں ادا کی گئي۔
آیت اللہ موحدی کرمانی نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں شام کے حالات اور اس ملک کے خلاف امریکہ کی فوجی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام پرحملوں کے خطرناک نتائج سے صرف شام ہی نہیں بلکہ جارح ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اسرائيل نابود ہوجائے گا۔ خطیب جمعہ تہران نے امید کا اظہار کیا کہ امریکہ شام کے تعلق سے دانشمندی سے عمل کرے گا اور ایک اور جنگ شروع کرکے علاقے میں عدم استحکام کا سبب نہیں بنے گا۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے مصر کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مصر جیسا متمدن اور علماء و دانشوروں کا ملک ایسی صورتحال سے دوچار ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں جاری تشدد امریکی سامراج اور صیہونیت کی سازشوں کا نتیجہ ہے جو اسلامی ملکوں کو کمزور کرنے کے لئے رچی گئي ہیں۔ آيت اللہ موحدی کرمانی نے مصری عوام سے کہا کہ متحد ہوکر ایک دوسرے کے مقابلے سے پرہیز کریں اور دشمنوں کے مقابل صف آرا ہوجائيں۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ زور زبردستی، قتل وغارت اور تشدد سے قوموں کے مفادات اور ذخائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کا قیام اور پٹھو حکومتوں کو برسر اقتدار لانے کا مقصد سامراج و صیہونیت کے مفادات اور اسلام کو کمزور کرنے کے ھدف سے انجام پارہا ہے۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے کہاکہ حضرت امام خمینی قدس سرہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے سامراجی طاقتیں بوکھلا اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ایرانی فوج نے دفاع مقدس کے دوران اپنی بہادری اور قربانیوں اور استقامت سے کافروں اور اسلام و ایران کے دشمنوں کو شکست دی اور ان کی سازشیں ناکام بنادیں۔ خطیب جمعہ تہران نے انسانیت کی مدد کرنے کے لئے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے دعوؤں کو سفید جھوٹ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ ادارے عالمی سامراج کے ہاتھوں میں کھلونہ ہیں اور انہیں اپنے اھداف کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے مختلف قوموں کےخلاف امریکہ کے جرائم منجملہ ہیرو شیما، ناگاساکی پر ایٹمی بمباری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج قومیں بیدار ہوچکی ہیں اور بیرونی تسلط سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کررہی ہیں ۔
رہبر معظم کی حج کے کارکنوں اور اہلکاروں سے ملاقات
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے حج کے کارکنوں اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں حج کو اسلامی معاشرے کے سیاسی، ثقافتی اور معنوی اقتدار کا مظہر قراردیا اور عالم اسلام ، علاقہ کے موجودہ شرائط اور بد طینت دشمنوں کی طرف سے علاقہ میں جنگ افروزی، مسلمانوں میں مذہبی اور علاقائي اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شام کے بارے میں امریکہ کا نیا مؤقف فریب سے دور اور سنجیدگی پر مبنی ہونا چاہیے اور حالیہ ہفتوں میں امریکہ کی یکطرفہ منہ زوری کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حج کےعظیم فریضہ کے دوران مسلمانوں کے درمیان باہمی برادرانہ رفتار کو حج کے حقیقی شرائط میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: قران کریم میں حج کے دوران جدال سے دوری پر تاکید کی گئي ہے اور جدال سے دوری کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں اور دینی بھائیوں کو آپس میں لفظی ، زبانی اور قلبی نفرت سے پرہیز کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: افسوس کا مقام ہے کہ بعض افراد منحرف سوچ کی بنا پر حج کے ایام میں جدال کی غلط تفسیر اس لئے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مشرکین سے برائت کی تقریب منعقد کرنے پر سوالیہ نشان لگادیں جبکہ کفر و شرک کے ساتھ جدال، اسلام کے بنیادی دستورات میں شامل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کو دشمنوں کی طرف سے اختلافات و تفرقہ ڈالنے کی سازشوں کے بارے میں ہوشیار رہنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: دشمن اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوگئے ہیں کہ اسلامی مذاہب کے درمیان اختلافات غاصب صہیونی حکومت کے مفاد میں ہے اور اسی لئے وہ ایک طرف تکفیری گروہوں کی بھر پور حمایت اور دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پروپیگنڈے اور کبھی اسلامی میڈیا حتی شیعہ میڈيا کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) اور دیگر بزرگ علماء نے ہمیشہ اسلامی اتحاد کی حفاظت پر تاکید کی ہے لہذا وہ شیعیت جس کی تبلیغ لندن اور امریکہ کے میڈیا کے ذریعہ اختلافات ڈالنے کی غرض سےکی جارہی ہو وہ حقیقی شیعیت نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے درمیان حج کے دوران خالص اسلامی ثقافت کے تبادلے کو حج کے دیگر قوی نقاط اور اسلامی معاشرے کے فروغ اور ترقیات کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے مخالف میڈيا کی بڑی اور وسیع تعداد کے پیش نظر ، ایرانی حجاج کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسلام اور تشیع کے حقیقی چہرے کو عالم اسلام کے سامنے اپنے عمل اور زبان کے ذریعہ پیش کریں اور اسلامی نظام کی ترقیات اور حقائق کو ان کے سامنے بیان کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمعنویت کی تقویت کو حج کےاصلی اور اہم امور میں قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی پر توکل، مضبوط ایمان، اور اللہ تعالی کے وعدوں پر حسن ظن ، دشوار مراحل سے عبور کرنے اور دشمن کی طاقت کے مقابلے میں خوفزدہ نہ ہونے کے لئے ضروری ہے اور یہ اہم امور حج کے ایام میں حاصل ہوتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ کے دشمنون کی طرف سے پاکستان، افغانستان ،عراق، بحرین اور شام میں شیعہ و سنی کے بہانے جنگ افروزی اور سیکڑوں بےگناہ افراد کے قتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند طاقتیں بالخصوص امریکہ کو اپنے ناجائز مفادات تک پہنچنے کے لئے دوسرے ممالک میں تباہیو ویرانی پھیلانے اور بے گناہ افراد کے قتل کرنے پر کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے حالات اور حالیہ ہفتوں میں علاقہ میں امریکہ کی طرف سے جنگ افروزی کے سلسلے میں دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ بظاہر اپنے قومی مفادات اور درحقیقت صہیونی حکومت اور بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کے لئے دوسرے ممالک اور دوسری قوموں کے حقوق پائمال کرنے کے لئے جنگ افروزی کے لئے تیاررہتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے بارے میں امریکہ کے نئےمؤقف کو مکر و فریب اور سیاسی بازی سے دور اور سنجیدگی پر مشتمل ہونے کی امید و توقع ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: اگر ایسا ہو تو گویا امریکہ اپنے چند ہفتوں کے غلط، منہ زور اور یکطرفہ مؤقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران ، دقت اور ہوشیاری کے ساتھ علاقہ کے حالات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس حساس علاقہ میں ہم ایک عظیم قوم ہیں اور ہمیں اپنے اعلی انسانی اور اسلامی اہداف کو اسلام کی بنیاد پر دوسروں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور دنیا کو اسلام کے اعلی انسانی اصولوں کی طرف راغب ہونے کی دعوت دینی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلام کے نتائج کی بنیاد پر حرکت کے لئے قوم کے اندرونی اقتدار کی ضرورت ہے جو پختہ ایمان، عوام کے باہمی اتحاد، حکام کی صحیح کارکردگی، عوام اور حکام کے درمیان ہمدلی و ہمدردی اور اللہ تعالی پر توکل و بھروسہ کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عقل، معنویت، توکل، حرکت اور عمل کو اندرونی اقتدار کی ساخت کے لئے پانچ بنیادی عناصر قراردیتے ہوئے فرمایا: اس راہ پر اسلامی نظام کی حرکت اس کے روزافزوں اقتدار کا باعث اور علاقہ کے حالات پر اس کے یقینی طور پر اثر انداز ہونے کا سبب بنےگی جیسا کہ اب تک ہوا ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کے سرپرست حجۃ الاسلام والمسلمین قاضی عسکر نے ہفتہ حج اور عشرہ کرامت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور حج کی اسٹراٹیجک دستاویز کی تدوین، قرآن مجید پر زیادہ سے زیادہ توجہ پر اہتمام ، حج پر جانے سے پہلے زائرین کے اندر روحی تغیر و تحول پیدا کرنے کی تلاش و کوشش، زائرین کے حقوق کا دفاع، حج سے منسلک موضوعات کے سلسلے میں تحقیق ، تخصصی سمینار کا انعقاد، حج قافلوں کے علماء کی علمی سطح کے ارتقاء ، عربی زبان کی کلاسوں کے انعقاد،اورگذشتہ پروگراموں کی آسیب شناسی اور تجربات کی تدوین کو بعثہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اہم سرگرمیوں میں قراردیا۔
اسلامی ثقافت و ارشاد کے وزیر جناب جنتی نے بھی اپنی رپورٹ میں حج سے منسلک اداروں کی کارکردگی، تلاش و کوشش، اجراء ، باہمی تعاون اور زائرین کو خدمت باہم پہنچانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حج ایرانی اسلامی ثقافت کو دیگر قوموں تک پہنچانے اورفروغ دینے کا بہترین موقع ہے۔
انھوں نے حج کے معارف، اسرار اور فلفسہ کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئےکہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی دینی و علمی شخصیات اور عالم اسلام کی دیگرشخصیات کے درمیان رابطہ، امت اسلامی کے درمیان اتحاد و انسجام کے لئے زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت کرےگا۔
حج ادارے کے سربراہ جناب اوحدی نے بھی کہا کہ اس سال 64000 ایرانی حجاج 500 قافلوں میں حج کے لئے ملک بھر کے 15 ایئرپورٹوں سے روانہ ہورہے ہیں اور بیرون ملک سے بھی 2000 ایرانی حجاج حج سے مشرف ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی حجاج کی سہولت کے لئے مکہ و مدینہ میں دو اسپتال دن رات کام کریں گے اور ایرانی حجاج کی خدمت رسانی کے دوسرے امور بھی مکمل کرلئے گئے ہیں۔
بحران شام، امریکہ و روس کے وزراء خارجہ کے مذاکرات شروع
بحران شام کے بارے میں امریکہ اور روس کے وزراء خارجہ کے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔
یہ مذاکرات سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں ہورہے ہیں۔ فارس نیوز نے رشیا ٹوڈے کےحوالے سے رپورٹ دی ہےکہ ان مذاکرت میں شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اخضر ابراہیمی بھی شریک ہیں۔ اخضر ابراہیمی کے ترجمان نے کہا تھا کہ یہ ملاقاتیں الگ الک انجام پائيں گي۔ دنیا نیوز کے مطابق شام کے تعلق سے امریکہ اور روس کے وزراء خارجہ کی پریس کانفرس میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر فوجی آپشن کی بات کی جب کہ روس کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ فوجی آپشن کو بھول جائيں اور شام کے مسئلےکا حل مفاہمت آمیز طریقے سے تلاش کریں۔ روسی وزیر خارجہ نے جینوا روانہ ہوتے وقت کہا تھا کہ روس اور امریکہ کے ماہرین کیمیاوی ہتھیاروں کے مسئلےکا جائزہ لیں گے۔
ہندوستان کے شہر مظفرنگر کی کشیدہ صورت حال
ہندوستان کے شہر مظفرنگر میں اگرچہ حالات میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم صورت حال بدستور کشیدہ ہے جبکہ ریاست اتر پردیش کی حکومت نے مظفرنگر میں بھڑکے فرقہ وارانہ فسادات کے تمام واقعات کی تحقیقات کے لئے ایک رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاہے جو دو ماہ میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کریگا۔
محکمہ داخلہ کے سیکریٹری کمل سکسینہ نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مظفرنگر میں فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کے لیے سابق جج وشنو سہائے کی صدارت میں ایک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کمیشن گزشتہ 27 اگست کو مظفرنگر کے كوال گاؤں میں تین افراد کے قتل سے لے کر نو ستمبر کے تمام واقعات کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کریگا۔ کمیشن خاص طور پر اس بات کی جانچ کرے گا کہ انتظامیہ نے کہاں - کہاں نرم روّیہ اختیار کیا یا اس سے چوک ہوئی۔
سکسینہ نے کہا کہ کمیشن کو اپنی رپورٹ سونپنے کے لئے دو ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔
فسادات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن ایسی حالت میں تشکیل دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا ہے کہ مظفرنگر کے حالات سے متعلق ریاست اترپردیش کی اکھلیش حکومت کو پہلے ہی باخبر کردیا گیا تھا۔ ادھر اکھلیش یادو نے الزام عائد کیا ہے کہ مظفرنگر میں دنگے و فسادات ان کی حکومت کو ناکام بنائے جانے کی ایک سازش ہے تاہم انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ شرپسند عناصر سے سختی نمٹا جائیگا۔اسی اثنا میں ہندوستان کی جماعت اسلامی نے ہندوستان کی ریاست اترپردیش کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ فسادات کی روک تھام کرنے میں ناکام رہی ہے۔
مغربی کی خصلت جھوٹ اور تظاہر, رہبر انقلاب اسلامی
![]()
رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ حکومت، حکام، سیاسی رہنماوں، سفارتکاروں، اور عوام کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندانہ نگاہ سے انسانی حقوق کےبارے میں امریکہ اور مغرب کے پیچیدہ اور ظاہری رویوں کا تجزیہ کریں۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ملک بھر کے ائمہ جمعہ سے خطاب میں اس بات کی وضاحت فرمائي کہ ایران اور دنیاکے مسائل کو حقیقت پسندانہ نظروں سے دیکھنے کی کیوں ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مغرب نے اپنے استعماری دور میں مشرقی ملکوں منجملہ اسلامی ملکوں پر اپنا اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تسلط پھیلایا اور سائنسی اور ٹکنالوجیکل ترقی کی بنا پر یہ ظاہر کیا کہ ساری چیزوں کے لئے نمونہ عمل اور مرکز مغربی دنیا ہی ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ انہوں نے حتی کہ جعرافیائي امور کو بھی مغرب کی برتری ظاہر کرنے کے لئے بدل دیا اور مشرق قریب ، مشرق وسطی اور مشرق بعید جیسی غلط اصطلاحات رائج کیں۔ آپ نے استعماری دور میں مغرب کی مطلق العنانی اور تسلط پسندانہ حکمرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حالات میں علاقے میں ایران سمیت تمام ممالک مغرب اور مادی دنیا کے زیر تسلط تھے ایسے عالم میں ایران کا اسلامی انقلاب مطلق خود مختاری اور اسلام کی پانبدی اور قرآنی تعلیمات کی اساس پر کامیاب ہوا اور اس نے مغرب کی تاریخی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ رہبرانقلاب اسلامی نے علاقے اور عالم اسلام پر ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات اور اس انقلاب نے قوموں کو جو اسلامی اور دینی تشخص عطا کیا ہے اس کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے اسلامی تشخص اور اس کی فکر کے تدریجی پھیلاو نے مغرب کو بری طرح پریشان کردیا اور اسلامی فکر کے گہرے پھیلاو کے ساتھ ساتھ انہیں پیچیدہ اور گہری منصوبہ بندی کرنے پر مجبور کردیا۔ آپ نے فرمایا آج علاقے اور عالم اسلام کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ مغربی ممالک یہ سمجھتےہیں کہ وہ اسلامی انقلاب کا مقابلہ کرنے میں پیچھے رہ گئے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی اس پسماندگي کو دورکرنے کےلئے اپنی تمام تر توانائیوں سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا ایسے عالم میں علاقے میں اسلامی بیداری کی تحریک بھی شروع ہوگئي اور مغربی ممالک نے جو خود کو اسلایم انقلاب کی ترقی سے پچھڑا ہوا دیکھ رہے تھے سراسیمگي میں اسلامی بیداری اور سیاسی اسلام سے مقابلہ کرنا شروع کردیا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اسلام اور مادی دنیا کے پیکار میں اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح الفتوح سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ یہ فتح الفتوح بدستور بھر پور توانائیوں اور استحکام کے ساتھ موجود ہے اور ملک کا داخلی اتحاد اور بیشتر سرکاری اداروں کے اصول و اقدار پر پابند رہنے سے یہ اقتدار اور فتح الفتوح پہلے سے کہیں زیادہ خطروں سے محفوظ رہے گا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے تاکید فرمائي کہ مغربی دنیا کے سامنے طاقت سے ڈٹا رہنا چاہیے کیونکہ مغرب نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی پر رحم نہیں کرتا اور انسانی حقوق اور دکھاوے کے برخلاف لاکھوں انسانوں کے مارے جانے سے بھی اس کا ضمیر متاثر نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی سیاست دانوں کی خصلت جھوٹ بولنا اور تظاہر ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ مغربی ممالک ہیروشیما کے قتل عام، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں لاکھوں انسانوں کے مارے جانے، پاکستان ، افغانستان اور عراق کے بے گناہ عوام کے قتل عام سے دکھ درد کا احساس نہیں کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی جہاں کہیں ان کے مفادات کا تقاضہ ہوگا انسانوں کے قتل عام سے نہیں گھبرائيں گےلھذا ہمیں سیاسی، حکومتی، معیشتی اور عوامی میدانوں میں اپنی طاقت کا تحفظ کرنا چاہیے۔
ہر مشکل کا راہ حل ’’دعا‘‘
![]()
انسان اگر اپنے وجود میں تھوڑی سی دقت کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس عالم بیکراں کے اندر تن تنہا اُس صفر کے مانند ہے جسکا تعلق کسی ہندسہ سے نہ ہو۔ صفر اگر تنہا ہو تو اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہوتی ۔ صفر کا وجودمحض احتیاج ہے۔ صفر اپنی حیثیت بنانے اور اپنے وجود کو ظاہر کرنے میں ہندسہ کا محتاج ہے۔ اگر ہندسہ سے اپنا تعلق برقرار رکھے تو یہ صفر نہیں رہے گا بلکہ دس اور بیس کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یہی حال ہے انسان کا۔ انسان بذات خود فقر محض اور احتیاج محض ہے انسان فقیر الی اللہ ہے''یا ایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ھو الغنی''(سورہ فاطر،١٥)بذات خود اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ۔اس لیے کہ اس کے پاس اپنا کچھ نہیں ۔سب کچھ اس کے مالک کا دیا ہوا ہے اگر اپنے مالک سے تعلق اور رابطہ برقرار رکھے گا تو اس کی قیمت یہ ہو گی کہ وہ کائنات کی ہر شے سے اشرف اور برتر ہو گا اور اگر اپنے اس رابطہ کو منقطع کر دیا تو ''بل ھم اضل'' اور '' اسفل السافلین '' کی منزل میں آجائے گا اور اس کی کوئی ارزش و قیمت نہیں رہے گی۔
اپنے خالق اور پالنے والے سے رابطہ اور تعلق برقرار رکھنے کے ذرایع میں سے ایک عمدہ ذریعہ ''دعا'' ہے۔ دعا کو ''کلام صاعد''کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ دعا بندہ کا وہ کلام ہوتا ہے جو خدا کی طرف صعود کرتا ہے۔ دعا خدا سے ہم کلام ہونے اور اس سے راز و نیاز کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
دعا انسان کا فطری تقاضا ہے۔دعا یعنی مانگنا،طلب کرنا ۔ایک بچہ دنیا میں قدم رکھتے ہی رو کر ماں سے دودھ مانگتا ہے اور اپنی محتاجی کا اعلان کرتا ہے۔ اور مرتے دم تک دوسروں کا محتاج بنا رہتا ہے۔ اس دنیوی زندگی میں انسان کے پاس اورکوئی چارہ بھی نہیں ہے اگر کوئی باغیرت انسان پیدا ہو جائے جو یہ چاہے کہ بغیر کسی کی محتاجی اور کسی سے کچھ مانگے اس دنیا میں زندگی گذار لے تو شاید پیدا ہونے کے بعد ایک بھی دن زندہ نہ رہ سکے۔ اس لئے کہ کم سے کم زندہ رہنے کے لئے ماں کا محتاج ہونا پڑے گا۔غرض یہ کہ انسان ایسے عالم میں زندگی گذار رہا ہے جہاں ہر کام اسباب اور وسائل کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ رزق مختلف ذرایع اور اسباب کے واسطے انسان تک پہنچتا ہے مریض ہوتا ہے تو ڈاکٹر اور دوا کے ذریعے شفا ملتی ہے۔ پیاس لگتی ہے تو پانی کے ذریعے بجھتی ہے۔لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اسباب اور وسائل اصل نہیں ہیں ۔ان اسباب کو سببیت دینے والا اور اسباب فراہم کرنے والا کوئی اور ہے۔ رزق اور دوا کے اندر تاثیر پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔ وہ نہ چاہے تو کھیت کے اندر بوئے ہوئے دانے کو دنیا کی کوئی طاقت اگا نہیں سکتی ۔وہ ہمیں سیر کرنا نہ چاہے تو ہم کتنا کھاتے رہیں سیر نہیں ہو سکتے ۔پانی پیتے رہیں کبھی پیاس نہیں بجھ سکتی ۔دوا ڈاکٹر نے دی مگر شفا دینے والا کوئی اور ہے۔ وہ شفا نہ دینا چاہے تو دوا کوئی اثر نہیں کر سکتی۔نازک مسئلہ یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب اور وسائل میں کھو جاتا ہے اور ان کے حقیقی مؤثر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جبکہ ’’لا موثر فی الوجود الا اللہ‘‘۔کمال تو یہ ہے کہ انسان ڈاکٹر سے دوا لے لیکن شفا خدا سے طلب کرے۔کھیت میں کام کرے لیکن رزق خدا سے طلب کرے۔ہر چیز کا مطالبہ اس سے کرے۔ اسے اچھا نہیں لگتا کہ اس کا بندہ اس کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ خداوند عالم نے جناب موسیٰ (ع) سے کہا:
''یا موسیٰ سلنی کل ما تحتاج الیہ حتی علف شاتک و ملح عجینک''۔(بحار،٩٣،٣٠٣)اے موسیٰ اپنی ہر چیز حتی بکری کے لیے چارا اور اپنے کھانے کا نمک بھی مجھ سے مانگو۔
رسول خدا (ص) فرماتے ہیں : '' لیسأل احدکم ربہ حاجتہ کلھا حتی یسألہ شسع نعلہ اذا انقطع''(بحار ،٩٣،٢٩٥) تم میں سے ہر کوئی اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرے حتی اگر جوتے کے تسمے ٹوٹ جائیں تو وہ بھی خدا سے مانگے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب سب کچھ دینے والا وہی ہے تو انسان کیوں نہ ہر چیز اس سے مانگے ۔ اس سے مانگنے میں نہ کوئی عار ہے اور نہ کوئی ننگ۔ بلکہ انسان کے لئے باعث کمال اور فضیلت ہے کہ انسان ہمیشہ اپنا رابطہ اس سے برقرار رکھے اور اس کی بارگاہ میں دعا کرے۔ اور وہ سننے والا بھی ایسا ہے جو سب سے زیادہ انسان کے قریب ہے۔''اذا سألک عبادی عنی فانی قریب''( بقرہ،١٨٦) وہ انسان کی رگ گردن سے زیادہ اس کے قریب ہے۔''نحن اقرب الیہ من حبل الورید''(ق،١٦) وہ انسان اور اس کے قلب کے بیچ حائل ہو جاتا ہے''انّ اللہ یحول بین المرء وقلبہ''(انفال ٢٤) اس نے وعدہ دیا ہے کہ تم مجھے پکارو میں جواب دوں گا '' ادعونی استجب لکم'' (مومن۔٦٠) ،اجیب دعوت الداع اذا دعان (بقرہ،١٨٦)۔ جب اس نے استجابت دعا کا وعدہ دیا ہے تو ہم کیوں نہ اس سے دعا مانگیں کیوں نہ ہر حال میں اسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں اور رسول اسلام(ص) سے منقول ہے کہ ''دعا مغز عبادت ہے''(بحار ،ج٩٣ ص ٣٠٢) دعا کے بغیر عبادت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔دعا نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے ہمیں خدا سے مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ چیز عین کفر و استکبار ہے۔
دعا کی فضیلت
پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں ''الدعاء افضل من قرائة القرآن''(المیزان ٢ ،٣٤)دعا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔قرآن کی تلاوت کا مطلب یہ ہے کہ خداہم سے ہم کلام ہو رہا ہے اس لئے کہ قرآن اس کا کلام ہے۔ لیکن دعا کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے اپنا رابطہ برقرار کرنا چاہتے ہیں ہم خدا سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں اور یقینا یہ عمل فضیلت کا حامل ہے۔ دوسری روایت میں آنجناب ۖسے منقول ہے ''الدعاء سلاح المومن وعمود الدین ونور السموات والارض''(کافی،٢،٤٦٨)دعا مومن کا اسلحہ ہے، دین کا ستون ہے اور زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔امیر المومنین فرماتے ہیں:'' نعم السلاح الدعاء''(غرر الحکم)سب سے بہترین اسلحہ دعا ہے۔
آج کے اس پیشرفتہ دور میں جہاں ایٹمی اسلحہ موجود ہو دعا کو ایک اسلحہ کے طور پر باور کرانا بہت سخت بات ہے اس لئے کہ اس اسلحے سے نہ شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہزاروں جانیں لی جاسکتی ہیں ۔(مگر یہ کہ بدعا کا سہارا لیا جائے جس کی مثالیں طوفان نوح ،عذاب بنی اسرائیل وغیرہ) آج کے دور میں بہترین اسلحہ اسی کو کہا جاتا ہے جو ایک دفعہ کے وار سے ہزاروں جانیں اپنی لپیٹ میں لے اور دسیوں بستیاں اجاڑ دے۔ مگر آج دنیا والوں کو یہ حقیقت باور کر لینا چاہیے کہ ایک مومن اور خدا پرست انسان کے لئے سب سے بہترین اسلحہ ''دعا'' ہے۔جسکا مشاھدہ چند سال پہلے لبنان میں ہو چکا ہے۔ لبنان کی مقاوت اگر ایٹمی اسلحوں کے زور پر ہوتی تو اسرائیل ایٹمی اسلحے کے اعتبار سے دنیا میں چوتھا ملک ہے۔ لبنان تو اس کے مقابلے میں مٹھی بھر بھی نہیں تھا۔ مگر لبنان نے ایک عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو کر اسرائیل کو یہ دکھلا دیا کہ جنگ صرف ایٹمی اسلحوں کے زور پر نہیں جیتی جا سکتی،ہمارے پاس وہ اسلحہ موجود ہے جسکے سامنے تمہارے بڑے بڑے ایٹمی اسلحہ ماند پڑ جاتے ہیں،جسے ہمارے عظیم الشان پیغمبر(ص) نے ہمیں ہدیہ کے طور پر دیا ہے اور وہ ہے ''دعا''۔
دعا کے مستجاب ہونے کے شرائط
آیات کی نگاہ میں
الف:دعا خوف اور رجاء کے ساتھ کی جائے۔
''وادعوہ خوفا وطمعا انّ رحمة اللہ قریب من المحسنین''(شوریٰ،٢٦)
انسان کو ہمیشہ خوف اور رجا کے بیچ میں رہنا چاہیے نہ خدا سے صرف خوفزدہ اچھی چیز ہے اور نہ فقط رجاء اور امید رکھنا اور اس کے عذاب سے نہ ڈرنا۔ دعا کرتے وقت بھی انسان کو ان دو حالتوں کے بیچ کی حالت اختیار کرنا چاہیے۔
ب:دعا تضرع اور گریہ کی حالت میں اور تنھائی میں ہونا چاہیے۔
''ادعوا ربکم تضرعا و خفیة''(اعراف ،٥٥)
اپنے پروردگار کو پکارو تضرع کے ساتھ اور تنہائی میں۔
ج: دعا کے ساتھ ساتھ ایمان اور عمل صالح بھی ضروری ہے۔
''و یستجیب الذین آمنوا وعملوا الصالحات ویزید ھم من فضلہ''(شوریٰ ،٢٦)
وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ان کی درخواست (خدا) قبول کرتا ہے اور ان پر اپنا فضل اضافہ کرتا ہے۔
د: اخلاص
''فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین''(مومن،١٤)
خدا کو پکارو اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر کے۔
اخلاص قبولیت اعمال کی شرط ہے وہ عمل جسمیں اخلاص اور للٰہیّت نہ ہو خدا اس کو پسند نہیں کرتا ۔
روایات کی نگاہ میں
الف:معرفت خداوند
قال قوم للصادق ''ندعوا فلا یستجاب لنا؟'' ''قال لانکم تدعون من لا تعرفونہ''(بحار ٩٣،٣٧٦)
ایک گروہ نے امام صادق(ع) سے کہا : ہم دعا کرتے ہیں قبول نہیں ہوتی؟ امام نے فرمایا:تم اسے پکارتے ہو جس کی نسبت تمہیں معرفت نہیں ہے۔
انسان کے پاس خدا کی معرفت جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا اسے اپنا فقیر ہونا اورخدا کا محتاج ہونا زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کی بنا پر زیادہ خدا سے متوسل ہوتا ہے اور دعا مانگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور آئمہ معصومین (ع) زیادہ خدا سے دعا مانگتے رہے ہیں۔ انہیں جتنی خدا کی معرفت ہوتی ہے اتنا اس سے اپنا رابطہ اور رشتہ محکم کرتے ہیں ۔اور جب وہ ہمیشہ خدا سے اپنا رشتہ جوڑے رکھتے ہیں تو خدا بھی ان کی باتوں کو سنتا ہے اور ان کی دعاوں کو مستجاب کرتا ہے۔
ب:عمل صالح
قال رسول اللہ ۖ:''یکفی من الدعا ء مع البرّ ما یکفی الطعام من الملح''(بحار٩٣،٣٧٦)
پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں:دعا نیک عمل کے ساتھ ایسے ہے جیسے کھانے میں نمک ہو۔
ج:حلال رزق
قال رسول اللہ(ص) لمن قال لہ احب ان یستجاب دعائی''طھر مأکلک و لا تدخل فی بطنک الحرام''(وہی)
پیغمبر اکرم ۖ نے اس شخص کو جو یہ کہہ رہا تھا میں چاہتا ہوں کہ میری دعا قبول ہو،ارشاد فرمایا:اپنی غذا کو پاک کرو اور اپنے پیٹ میں حرام کو داخل مت کرو۔
لقمہ حرام انسان کی زبان کو بے تاثیر بنا دیتا ہے ایک اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ حرام کھانے سے چالیس دن تک انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اگر انسان زندگی بھر مال حرام کھاتا رہے تو ایسے شخص کی دعا تو بالکل قبول نہیں ہو سکتی ۔وہ افراد جو سالانہ خمس نہیں نکالتے سہم امام اور سہم سادات کو اپنے مال سے الگ نہیں کرتے اور ان کے غاصب بنے رہتے ہیں وہ لقمہ حرام اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں ایسے افراد کو کبھی بھی قبولیت دعا کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔
د:حضور قلب
''ان اللہ لا یستجیب دعاء بظھر قلب ساہ فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن بالاجابہ''(کافی ٢،٣٧٣)
اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی جس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہ ہو جب بھی خدا کو پکارو تو حضور قلب سے پکارو پھر یقین کر لو کہ دعا قبول ہو گی۔
چار طرح کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی
امام صادق فرماتے ہیں : چار گروہ ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی:
پہلا گروہ وہ لوگ ہیں جو گھر میں بیٹھے ہوں اور دعا کریں خدایا ہمیں رزق عطا کر۔ خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے تمہیں کام کرنے کا حکم نہیں دیا؟۔
دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جن کی بیویاں صالح نہ ہوں اور وہ ان کو برا بھلاکہتے اور مار پیٹ کرتے ہوں ۔خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے تمہیں ایسے موقع پر طلاق کا حکم نہیں دیا؟۔
تیسرا گروہ وہ افراد ہیں جو مال وثروت رکھتے ہیں لیکن اس کو اسراف اور حرام کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر دعا کرتے ہیں خدایا ہمیں رزق عطا کر۔خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے قناعت سے کام لینے کو نہیں کہا تھا؟۔
اور چوتھا گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنا مال بغیر گواہ کے قرض دیتے ہیں (اور جب واپس نہیں ملتا تو پریشان ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں)خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے گواہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا ؟۔
کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا نے شام پر حملے کی مخالفت کی
پوپ فرانسس نے ہفتے کے روز امريکي منصوبے کي مخالفت کرتے ہوئے دنيا کے ممالک سے مطالبہ کيا کہ بشريت کو غم و اندوہ اور قتل و غارت سے نجات دلائيں ـ انہوں نے کہا کہ جنگ ہميشہ بشريت کي شکست شمار ہوتي ہےـ شہر ويٹيکن کے سينٹ پيٹر اسکوائر پر ايک لاکھ افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ تشدد اور جنگ کا خاتمہ موت پر ہوتا ہےـ
انہوں نے کہا کہ جنگ امن و چين کي شکست ہےـ پوپ فرانسس نے کہا کہ اسلحے فروغ پا رہے ہيں، ضمير سوئے ہوئے ہيں اور نابودي و رنج و موت کے منصوبوں کي توجيہ کي جا رہي ہےـ کيتھوليک پيشوا کي درخواست پر ويٹيکن اور دنيا کے مختلف ملکوں ميں بحران شام کے حل کے لئے دعائيہ تقريبيں منعقد ہوئيں ـ ياد رہے کہ امريکا شام پر حملے کے لئے عالمي اتحاد قائم کرنے کي کوشش کر رہا ہے۔
نبیل العربی: شام پر امریکہ کے ممکنہ حملے سے پورے خطے میں آگ لگ جائےگی
عرب لیگ کے جنرل سکریٹری نبیل العربی نے مصر کے اخبار الاہرام کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام پر امریکہ کے ممکنہ فوجی حملے سے پورے خطے میں آگ لگ جائے گی ۔ نبیل العربی نے دہشت گردوں کے ہولناک جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ شامی حکومت کے اشتباہات زيادہ ہیں لیکن اس کے باوجود شام پر فوجی کارروائی سے پورے خطے میں جنگ کے شعلے بلند ہوجائیں گے۔ نبیل العربی نے عرب ليگ کی طرف سے امریکہ کی ہمنوائی کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا اور عرب ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں عرب لیگ کی ناکامی کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا عرب ذرائع کے مطابق عرب لیگ کا وجود عملی طور پر ختم ہوگیا ہے کہ یہ عربی تنظیم عملی طور پر امریکہ کی حامی تنظيم میں تبدیل ہوگئی ہے۔
آیت اللہ طاہری خرم آبادی کی تدفین، رہبر معظم کی تعزیت
رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آیت اللہ سید حسن طاہری خرم آبادی کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے۔ مرحوم آیت اللہ سید حسن طاہری ایران کے مغربی صوبے لرستان سے فقہاء کی کونسل یعنی مجلس خبرگان کے رکن تھے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا ہے کہ تقوا، اخلاص اور ہوشیاری و متانت اس مجاہد عالم دین کی اہم خصوصیات تھیں۔ آپ نے اپنے اس تعزیتی پیغام میں حضرت امام خمینی قدس سرہ کی تحریک میں آیت اللہ سید حسن طاہری خرم آبادی کے کردار اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب کے ساتھ ان کی وفاداری کی قدر دانی کی۔ آیت اللہ سید حسن خرم آبادی کچھ مہینوں تک علیل رہنے کے بعد سنیچر سات ستمبر کو قم کے شہید بہشتی اسپتال میں انتقال کرگئے۔ آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی کو آج قم مقدسہ میں حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیھا کے روضہ اقدس میں سپرد خاک کیا گيا۔ آیت اللہ شبیر زنجانی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائي، مرحوم آیت اللہ طاہری خرم آبادی کی نماز جنازہ میں رہبرانقلاب اسلامی کے دفتر کے سربراہ محمدی گلپائيگانی، آیت اللہ جنتی، سید حسن خمینی، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سیکریٹری محسن رضائي، مراجع عظام کے نمائندوں، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے نمائندوں، اور دیگر سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
