
Super User
بی بی سیدہ زینب (س) کے روضہ کے تحفظ کیلئے خون کا آخری قطرہ تک نچھاور کر دینگے، ثروت اعجاز قادری
حضرت بی بی سیدہ زینب ﴿س﴾ کا روضہ مبارک ہماری عقیدتوں کا محور ہے ہم اس کے تحفظ کیلئے خون کا آخری قطرہ تک نچھاور کر دینگے۔ حضرت بی بی سیدہ زینب ﴿س﴾ کے مزار کو نشانہ بنانے والے جان لیں کہ یہ 13ویں صدی نہیں پندرویں صدی ہے وہ وقت گذر گیا جب جنت البقیع میں اہل بیت اطہار ﴿ع﴾ و صحابہ کرام ﴿رض﴾ کے مزارات کو بلڈوزر چلا کر شہید کر دیا تھا۔ عوام اہلسنت اہل بیت اطہار ﴿ع﴾ و صحابہ کرام ﴿رض﴾ کے مزارات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ ان مزارت کی طرف اٹھنے والی ہر ناپاک انگلی کاٹ دی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شام کے شہر دمشق میں حضرت بی بی سیدہ زینب ﴿س﴾ کے روضہ اقدس پر شامی باغی دہشت گردوں کے ہاتھوں راکٹ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کیا۔
ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ ملک بھر کی سنی عوام دشمنان اہل بیت ﴿ع﴾ کی ناپاک جسارت کے خلاف اپنے بھرپور جذبات کا اظہار کرکے یزیدی ٹولے کو یہ باور کرا دیں کہ میدان کربلا سے امام عالی مقام امام حسین (ع) کی اٹھنے والی آواز کے جواب میں کروڑوں مسلمان لبیک یاحسین ﴿ع﴾ کی صدائیں آج بھی بلند کر رہے ہیں۔ ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ یہود و ہنود کے ایجنٹ باطل قوتیں سن لیں غلامان مصطفٰے ﴿ص﴾ اہل بیت اطہار ﴿ع﴾ و صحابہ کرام ﴿رض﴾ کے مزارات کے تحفظ، اسلام کی سلامتی کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دینگے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت بی بی سیدہ زینب ﴿س﴾ کے روضہ اقدس پر راکٹ حملے سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ وزارت خارجہ اس افسوسناک واقعے پر احتجاج کرے۔ پاکستان سنی تحریک کے تحت حضرت بی بی سیدہ زینب ﴿س﴾ کے مزار پر حملے کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔
امریکہ اور صہیونی حکومت کی مشترکہ فوجی مشقیں
بحیرۂ روم میں صہیونی حکومت اور امریکہ کی مشترکہ فوجی مشقوں کا آغاز ہوا ہے ۔ یہ فوجی مشقیں جو اتوارسے شروع ہوئی ہیں یورپ ميں تعینات ، اسرائیل اور امریکہ کی فوجی شراکت سے دو ہفتے تک جاری رہیں گی ۔ صہیونی حکومت نے گذشتہ سال موسم خزاں میں بھی امریکہ کی 10 ہزار بحری فوج کے ساتھ ایک فوجی مشق انجام دی تھی جو ایک مہینے تک جاری رہی ۔ اس فوجی مشق کا انعقاد ایسی حالت میں انجام پا رہا ہے کہ آئندہ ہفتے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان نام نہاد مذاکرات ، امریکی حکام کی ثالثی ميں ہونا طے پایا ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل کے بحیرۂ روم میں فوجی اقدامات اس امر کے غماز ہیں کہ یہ تسلط پسند طاقتیں ، فوجی اقدامات اور دھمکیوں کے ذریعے عالمی برادری کو اپنے توسیع پسندانہ اہداف کو تسلیم کرانے اور سیاسی باج وصول کرنے کے مقصد سے جنگ کی فضا تیار کر رہی ہیں ۔ اسرائیل کی جنگ افروزی کی پالیسیوں کو ہری جھنڈی دکھانے کے امریکی اقدامات ایسی صورت میں انجام پارہے ہیں کہ امریکی حکام ، مشرق وسطی امن مذاکرات میں غیر جانبدارانہ ثالثی کے مدعی ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ وہ مشرق وسطی کے علاقے میں امن کی کوششیں انجام دے رہے ہیں ۔ بہر صورت صہیونی حکومت کے لئے امریکہ کی روز افزوں حمایتیں، اس غاصب حکومت کے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم کے جاری رہنے میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہیں اور اسی بناء پر رائے عامہ امریکی حکام کو، اسرائیل کے جارحانہ اقدامات میں شریک جرم قرار دے رہی ہیں ۔ امریکہ ، اسرائیل کو ایسی حالت میں وسیع پیمانے پر فوجی امداد دے رہا ہے کہ امریکہ کو اپنی مداخلت پسندانہ اور غاصبانہ پالیسیاں جاری رکھنے کے سبب دنیا کے دورترین علاقوں میں شدید اقتصادی بحران اور بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ ایسے حالات ميں امریکی عوام نےہمیشہ صہیونی حکومت کے لئے خطیر رقم صرف کرنے پر امریکی حکومت پر اعتراض کیا ہے ۔ امریکہ اسرائیل کو مختلف النوع ہتھیاروں کی مدد کرنے کے علاوہ ، سالانہ تین ارب ڈالر کی بلا عوض امدد بھی کرتا ہے کہ جو زیادہ تر فوجی مدد کی صورت میں ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی امریکہ سالانہ ، اسرائيل کو اربوں ڈالر دیتا ہے جسے وہ زیادہ تر مغربی حکومتوں سے ہتھیار خریدنے پر صرف کرتا ہے ۔ بہر صورت امریکی حکومت ، صہیونی حکومت کے ساتھ مشترکہ فوجی کاروائیاں کرکے اس شکست خوردہ حکومت کے حوصلے بلند کر رہی ہے ۔ لبنان اور فلسطین کے عوام کے خلاف حالیہ برسوں ميں صہیونی حکومت کو حاصل ہونے والی پے در پے ناکامیوں نے اس غاصب حکومت کے فوجیوں کے حوصلے بری طرح پست اور کمزور کردیئے ہیں اور اب اسرائیلی فوجی اپنی نوکریوں سے فرار کر رہے ہیں ۔ یہ ایسی حالت ميں ہےکہ صہیونی حکومت کو شدید سیاسی اور اقتصادی بحران کاسامنا ہے ۔ صہیونی حکومت کو اندرون و بیرون ملک متعدد مشکلات کا سامنا ہے اور یہ حکومت اپنے اصلی حامی کی حمایت کے زیر سایہ متعدد فوجی مشقیں انجام دے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے ذریعے علاقے کے ملکوں کو اپنی توسیع پسندانہ پالیسیاں منوانے کے درپے ہے ۔ لیکن امریکہ اور صہیونی حکومت کےمابین انجام پانے والی متعدد فوجی مشقوں کے تجربے سے ظاہر ہوتا ہےکہ اس طرح کے اقدامات بھی صہیونی حکومت کی کمزوریوں کی پردہ پوشی نہیں کر سکتے ہیں ۔اور ان کاروائیوں سے ان حکومتوں کی جنگ افروزی کی ماہیت ، رائے عامہ کے سامنے ماضی سے آشکارہ ہو گئی ہے
مفتی شیخ زعتری: امام خمینی (رح) نے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا
رپورٹ کے مطابق شام کی مذہبی مشاورت کے سیکریٹری جنرل شیخ زعتری نے کہا ہے کہ امام خمینی (رح) نے دنیا کے تمام لوگوں کے دماغ مسئلہ قدس کو زندہ رکھا ہے۔
زعتری نے کہا ہے کہ امام خمینی (رح) نے رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس نامزہ کرکے اس مسئلے کو زندہ رکھا اور موجودہ اسلامی بیداری کا آغاز اسی سے منسلک ہے۔
انہوں نے تمام مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ قدس اور مسجد اقصیٰ کی حمایت کرے جو اسلامی اتحاد کا محور ہے۔
حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید موسیٰ شبیری زنجانی مد ظلہ الشریف
باسمہ تعالیٰ
جو شخص (نواصب اور خوارج کے علاوہ)زبان پر شہادتین جاری کرے وہ مسلمان ہے اور اسلام کے احکام جیسے شادی کرنا اور ایک دوسرے کی میراث پانا اور جان و مال وغیرہ کا احترام کرنا ۔۔۔اس کے بارے میں جاری ہوں گے ،جو لوگ اسلام کی صفوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں اور اسلامی فرقوں کی تکفیر کرتے ہیں وہ حقیقت اسلام سے خارج و باہر ہیں نیز اگر وہ براہ راست استعمار کا عامل و سبب بھی نہ ہوں تو بھی وہ بیشک اہل استعمار کے برے اغراض و مقاصد کی خاطر اسلام کی بنیاد کو نیست و نابود کرنے ،پیغمبر اسلام ۖ کے دین کو اکھاڑ پھینکنے اور آنحضرت ۖ کے اسم مبارک کو فراموش کئے جانے کے لئے حرکت کرتے ہیں ۔ان گروہوں کے خود کش حملوں کے اقدامات صرف کافروں اور اسلام کے خلاف قسم کھانے والے دشمنوں کی خوشنودی کی خاطر ہوا کرتے ہیں ''الَّذِینَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُونَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعًا''سورئہ کہف (١٨)آیت ١٠٤۔''یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگا نی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں''
تمام مسلمان اسلام کے دشمنوں کے مکر و حیلے سے آگاہ و با خبر ہوتے ہوئے خاتم الانبیاء کے دین کی سر بلندی و عزت کی راہ میں پہلے سے زیادہ ثابت قدم اور کو شش کرنے والے رہیں گے ،انشاء اللہ ۔
سید موسیٰ شبیری زنجانی
٣رجب ١٤٣٤ھ ق
حضرت آیة اللہ العظمیٰ محمد ہاشم صالحی مد ظلہ الشریف
بسمہ تعالی
اسلام نے مسلمانوں کی وحدت واتحاد پر جتنا زیادہ زور دیا ہے اتنا خداوند عالم کے نفی شرک کے مسئلہ پر زورنہیں دیا ہے یہاں تک کہ کہا گیاہے:بنی الاسلام علی دعامتین کلمة التوحید ووحدت الکلمة
اسلام کی بنیاد دوستو نوں پر رکھی گئی ہے کلمہ توحید اور وحدت کلمہ
لہٰذا مسلمان کی جان ومال آبرو وعزت سے تجاوز کرنا سب سے بڑا گناہ اور دین اسلام کے محرمات میں سے ہے اور اسی طرح اسلام ادیان اور اسلامی مذاہب کے کسی فرقہ کے اعتقادات کی تو ہین کرنا جائز نہیں ہے۔
دوسری طرف سے مسلمانوں کے خلاف خودکش حملے اور مختلف ممالک میں ان کا کشت و کشتار، الٰہی محرمات،زمین پر فساد کا مصداق اور نہ بخشے جانا والا گناہ ہے نیز ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہنے کا باعث ہوگا ۔مسلمان چاہے وہ شیعہ ہوں یاسنی انہیں دشمنان اسلام کے توطئہ،تفرقہ ڈالنا اور تکفیر کرنے والے گروہوں سے مراقب رہنا چاہئے۔
تمام مسلمانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ دنیاوالوںکو اسلام کے حقیقی چہرہ کی نشاندہی کرائیں جو رحمت،محبت اور مہربانی کا دین ہے اور جادلھم بالتی ھی احسنا نظام ہے،نیز مسلمانوں پر برادری کی حفاظت کرتے ہوئے اسلام کی ترویج میں تعاون کرنا لازمی ہے۔
محمد ہاشم صالحی
٢١٢ ١٣٩٢ ھ ش
آیت اللہ صالحی مدرس۔افغانستان
حضرت آیة اللہ العظمیٰ آصف محسنی مد ظلہ الشریف
باسمہ تعالیٰ
١۔جو شخص خداوند عالم کی وحدانیت،حضرت محمد مصطفے کی رسالت و خاتمیت اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مسلمان ہے۔
٢۔تمام مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس کے ساتھ تجاوز کرنا حرام موکد ہے۔
٣۔مسلمان،مسلمان کا بھائی ہے اور اس کا اسلام کی ترویج کرنے میں ہم کاری و مدد کرتے ہوئے برادری کی حفاظت کرنا لازمی ہے اور وہ اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کو معذور رکھیں۔
٤۔اسلامی مذاہب کا اتباع کرنے والوں کے درمیان اختلاف ایجاد کرنا دین اسلام کے ساتھ خیانت کرنا ہے۔
آیت اللہ آصف محسنی
افغانستان10/2/1392
حضرت آیة اللہ العظمیٰ محمدرضا مہدوی کنی مد ظلہ الشریف
بسمہ تعالیٰ
سوال:ان ایام میں سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام کے احکام کن لو گوں پر منطبق ہوتے ہیں آیا وہ تمام لوگ جو اسلام سے وابستہ و منسوب ہیں سنی وشیعہ سب مسلمان ہیں اوران پر احکام اسلام نافذ کئے جاتے ہے؟
جواب:جو شخص شہادتین (خداکی وحدانیت اورخاتم الانیاء کی نبوت کی گواہی )اقرار کرے وہ مسلمان ہے مگر جو لوگ اہل بیت پیغمبرسے دشمنی اور عداوت رکھے اور اس کا اظہار کرے۔اہل بیت کے شیعہ تمام مسلمانوں کے ساتھ برادری وبھائی چارگی ، صفا اور صمیمیت کا کردار اداکرنے کے لئے مامور کئے گئے ہیں وہ مسلمانوں کی نماز جماعت میں شریک ہوں،ان کے جنازہ کی تشییع کریں،ان کے بیماروں کی عیادت کریں،ان کے دوستی اورمدد کا اہتمام کریں،مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور دشمنی کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اس چیز کو اسلام کے دشمن پسند کرتے ہیں۔ شیعوں پرتمام مذاہب کے مقدس مقامات کا احترام کرنا لازم ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن کے فتنہ سے خبردار ہیں کیونکہ اسلام کے دشمن اسلامی بیداری سے ڈرے ہوئے ہیں خداوند عالم فرماتا ہے :''وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اﷲِ عَلَیْکُمْ ِذْ کُنْتُمْ اعْدَائً فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہِ اخْوَانًا ''سورہ آل عمران آیت ١٠٣۔''اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کروکہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اُس کی نعمت سے بھا ئی بھائی بن گئے ''۔
اللہم انصرالاسلام واھلہ واخذل الکفر واھلہ۔
مسلمانوں کے ہرگروہ کی تکفیر کرنا ،انہیں قتل کرنا اور ان کے اموال لوٹنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے.''مَنْ قَتَلَ نَفْسًابِغَیْرِنَفْسٍ اوْفَسَادٍ فِی الْارْضِ فَکَانَّمَاقَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا''''جو شخص کسی نفس کو ۔کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کر ڈالے گااس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا''۔سورہ مائدہ آیت ٣٢۔
جامعہ روحانیت تہران ومجلس خبرگان رہبری
محمدررضامہدوی کنی
شورای عالی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم
باسمہ تعالیٰ
خدا وند عالم کا فرمان ہے :'' وَلاَتَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اﷲِ فَیَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذَلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ امَّةٍ عَمَلَہُمْ ثُمَّ الی رَبِّہِمْ مَرْجِعُہُمْ فَیُنَبِّئُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون''سورہ انعام آیت ١٠٨۔قرآن کریم بیراہے چلنے والوں کو برا بھلا کہنے ،نفرین و لعنت کرنے کی صاف طور پرنہی کر رہا ہے جن کی وہ اللہ کے سوا(خدا سمجھ کر)عبادت کرتے ہیں ،کیونکہ یہ کام بھی اُن کے خدا وند عالم کو بے سمجھے عداوت سے برا بھلا کہہ بیٹھنے کا باعث ہوتا ہے''
اگر ہم اس آیت کے متعلق غور و فکر کریں تو اس آیت میں ایک کلی معیار بیان ہوا ہے جو کام دوسروں سے دشمنی کرنے پر ابھارے اور انھیں حرام کام انجام دینے پر تحریک کرے اس کی نہی ہوئی ہے ۔اس بنا پر اُن لوگوں پر لعنت و نفرین کرنااور انھیں برا بھلا کہنا درست کام نہیں ہے جن کا معاشرہ احترام کرتا ہے خاص طور پر اگر وہ اجتماع اور وہ لوگ الٰہی اور آسمانی دین کے رنگ میں رنگے ہوں اور اگریہ کام براہ راست یا کسی واسطہ کے ذریعہ دوسروں کا قتل ،کشت و کشتار اور اُن کی جان و مال اور عزت و آبرو کے ضا ئع و برباد ہونے کا باعث ہوتا ہو تو ظاہر و روشن ہے کہ یہ کام حرام اور شرع بیّن کے خلاف ہے اور اس کو دنیا و آخرت میں جواب دہ ہونا چا ہئے ۔اب یہ کام برا بھلا کہنا اور لعنت و نفرین تقریر کی صورت میں یا اشعار و مدح سرا ئی کے ذریعہ یا حتی غم و تعزیہ داری کے ذریعہ ہو یا تھیٹر اور حقیقی یا مجازی فضا و ما حول میں فلم میں کسی ایکشن کے ذریعہ ہو ۔اس کی ما ہیت میں کو ئی فرق نہیں ہے کہ اس کا سبب و عامل دوسروں کے قتل ،کشت و کشتار ،جان و مال اور عزت و آبرو کی توہین کا باعث ہو ۔
اس کلی مقدمہ پر تو جہ دیتے ہوئے کہ اس دنیا میں کو ئی بھی چیز مخفی نہیں رہتی ،او پر سے ڈشیں اور زمین پر امنیتی اور جا سوسی فوج ماڈرن اور سریع اجتماعی رابطے کے وسا ئل انٹرنٹ،ریڈیو ،ٹیلیویزن ،مو با ئل اور دوسرے گذارش دینے والے وسا ئل کے پیش آنے والے واقعات کو نشر کر تے ہیں ،آسما نی مذاہب کے بزرگان (بزرگوں)خاص طور پر الٰہی انبیاء ،اُن کے خلفاء اور جا نشین ، خاص طور پر اسلام کی برجستہ شخصیتیں ،ایک جملہ میں صدر اسلام کے خلفاء اور پیغمبر اسلام ۖ کی ازواج اور ان کی اولاد پرلعنت و نفرین کرنا جا ئز نہیں ہے چا ہے اس کام کا براہ راست اثر اسلامی امت میں تفرقہ اور پراکندہ ہونے کے علاوہ اسلامی ملکوں کے مختلف مقامات پر طرح طرح کے لڑا ئی جھگڑوں کا باعث ہوتا ہو اور ظاہر و واضح ہے کہ یہ کام حرام ہے ۔ائمہ ہدیٰ کی عملی سنت اور اُن کا رفتار و کردار اور خاص طور پر امیر المو منین علیہ السلام کی ذات والا صفات اس مدعا کی شا ہد ہیں ۔
کلی طورپر نعمت ونفرین اور برا بھلا کہنا کبھی بھی کسی زمانہ میں اور کسی بھی حق مطلب کو بیان کرنے کے لئے ہرگز اللہ کی تبیین کا اثر وکردار نہیں رکھتی تھی اور نہ ہی رکھتی ہے۔
اس نکتہ کو بھی نظر سے دور نہیں رکھنا چاہئے کہ ایک حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے تحقیق کا کام علما و دانشمندان (محققین)اور نخبہ افراد کے ذریعہ انفرادی یا اجتماعی مشکل میں علمی مدارس،یونیورسیٹیاں میں علمی آموزشی اور تحقیقی ماحول میں سیاست طلبی،گروہ بندی اور تعصب کے بغیر انجام دیاگیا انسانی علوم کے تمام موضوعات ،دینی مسائل اور عقائد میں علمی ترقیاں یادوسرے علمی موضوعات یااس ماحول کام کے مرہون منت کام کو اپنی دوستی اور دشمنی سے دور رکھا اور رکھیں گے۔
ہم امیدکرتے ہیں کہ اسلامی امت کے تمام مختلف طبقے آج کی دنیا کے زمانہ اور حالات کی معرفت رکھتے ہوئے ان مسائل پرزیادہ توجہ دیں اصول،معقول اور منطقی طورپر حرکت کریں تاکہ خداوند عالم ہماری حمایت کرے۔
محمدیزدی
رئیس شورای عالی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم 14 /2/١٣٩٢ ھ ش
حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید محمد شاہرودی مد ظلہ الشریف
جس شخص نے کلمہ( لا الہ الا اللہ و محمد رسول اللہ) کی گواہی دی وہ مسلمان ہے اس کی جان اور مال محفوظ ہے اس کا قتل کرنا اور اس کا مال لوٹنا جایز نہیں ہے۔مسلمانوں کا قتل کرنا ان کی تکفیر کرنا اور ان کے در میان تفرقہ اور فتنہ ایجاد کرنا جایز نہیں ہے ۔ اسلامی مقدسات کی حفاظت کرنا واجب ہے ۔ مسلمانوں کے مقدس امور پہ تجاوز کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ مئومنین کی آبروریزی اور ان کی اہانت کرنا جایز نہیں ہے ۔
سید محمد شاہرودی
حضرت آیة اللہ العظمیٰ سيد علي خامنہ ای مد ظلہ الشریف
مو جودہ حالات میں مسلمانوں کے اتحاد پر مو جود قاطع دلا ئل ہونے کی توجہ کے ساتھ حضرت عالی کی نظر میں اسلامی مذاہب کا اتباع کرنے والوں کے لئے ''امت اسلامی ''نام سے استفادہ کرنا کیسا ہے ،جبکہ مذاہب اسلامی جیسے اہل سنت کے چاروں فرقے ،اسی طرح زیدیہ ،ظاہریہ ،اباضیہ وغیرہ جو دین مبین اسلام کے اصول پر ایمان رکھتے ہیں ۔آیا مندرجہ بالا ذکر شدہ فرقوں کی تکفیر کرنا جا ئز ہے یا نہیں ؟تکفیر کی حداور موجودہ زمانہ میں اُس کا کیا معیار ہے ؟
ہم خدا وند سبحان سے حضرت عالی کے لئے آئے دن اسلام اور مسلمانوں خاص طور سے شیعوں کی خدمت کرنے کے لئے زیادہ توفیق کے خواہاں ہیں ۔
مقام معظم رہبری کے اہل دفتر کا جواب:
تمام اسلامی فرقے اسلامی امت کا ایک حصہ شمار کئے جاتے ہیں اور سب اسلامی امتیازات کے حامل ہیں ۔اسلامی مذاہب کے درمیان تفرقہ ڈالنا قرآن کریم کی تعلیمات اور پیغمبر مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی سنت کے خلاف ہے ۔مزید یہ کہ یہ چیز مسلمانوں کے کمزور ہونے اور اسلام کے دشمنوں کو بہانہ کرنے کا باعث ہو گی۔اس بنا پر مذکورہ تمام فرقو ں کی تکفیر کرنا کسی بھی وجہ سے جا ئز نہیں ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای (مد ظلہ العالی)کی کردستان کے شیعہ اورسنی علماء اور طلاب سے ملاقات
ہم میں سے بعض افرادجب صلح کی بات کرتے ہیں تو ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم دشمن سے صلح کرنا چا ہتے ہیں !ہم میں سے بعض افراداِس چیز سے غفلت کر تے ہیں کہ ہم کو خود اپنے میں مشغول کرنے کے لئے مذہبی اختلاف ایجاد کرنادشمن کا کھینچا ہوا نقشہ اور سازش ہے ،ایک شیعہ اپنی پوری طاقت ایک سنی کو زیر کرنے میں لگا دیتا ہے اور اسی طرح ایک سنی اپنی پوری طاقت ایک شیعہ کو زیر کرنے میں صَرف کر دیتا ہے یہ بڑے افسوس کی بات ہے اور دشمن یہی چا ہتا بھی ہے ۔
فلسطین کی حمایت کرنے کے مسئلہ میں کو ئی بھی ملک جمہوری اسلامی ایران کی خاک پا تک بھی نہیں پہونچ سکتا ۔اس کی پوری دنیا تصدیق کی ہے ۔یہاں تک کہ بعض عربی ممالک نے ناراض ہو کر داد و فریاد کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگے ایران یہاں پر اپنے اغراض و مقاصد کی تلاش و جستجو کر رہا ہے !البتہ اہل فلسطین نے اِ ن باتوں کی کو ئی پروا نہیں کی ۔منجملہ غزہ اور ٢٢ دن تک ہونے والی جنگ کے مو قع پر جمہوری اسلامی ایران کے ہر سطح کے فرد نے رہبر سے لے کر رئیس جمہور اور مسئولین نیز لوگوں نے مظاہرے کئے ،مدد کے لئے رقم وغیرہ بھیجی ،سب نے مل کر مظلوم اور مسلمان فلسطینی بھائیوں کی خدمت کی ۔ان مسائل کے درمیان ہم نے یہ مشا ہدہ کیا کہ ایک وا ئرس ہے جو بالکل اسی کے مانند کاپی کر رہا ہے ، کچھ افراد بعض بزرگان ، بعض علماء اور بعض محترم افراد کے پاس جا کر اُن سے کہتے ہیں کہ جناب آپ کس کی مدد کر رہے ہیں ،اہل غزہ ناصبی ہیں !ناصبی یعنی اہل بیت (ع)کا دشمن ۔چند افراد نے یقین بھی کر لیا اور وہ پیغام لے کر آئے کہ جناب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ناصبی ہیں ۔ہم نے کہا :ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ،شیطان رجیم و خبیث پر خدا کی لعنت ۔غزہ میں امام امیر المو منین علی بن ابی طالب (ع)کی مسجد ہے امام حسین (ع)کی بھی مسجد ہے تو یہ لوگ کیسے ناصبی ہیں ؟ہاں ، سنی ہیں ،لیکن ناصبی نہیں ہیں ،انھوں نے اس طرح کی باتیں کیں،اس طرح کا اقدام کیا اور اس طرح کام کیا ۔اس بالمقابل ایک نقطہ ہے :ایک گروہ شہر قم جا ئے وہاں پر شیعوں کی کتابیں پڑھے اور یہ کہے کہ جنا ب یہ شیعوں کی کتاب ہے ۔یا ایک نا سمجھ ،غافل یا بد خواہ اعلان کرنے والا منبر پر جا کر اہل سنت کی مقدسات کی نسبت مہمل اور بری باتیں کہے انھیں کیسٹ میں بھر لے ،سی ڈی میں بھر کر یہاں اور وہاں نشر کر دے اور لوگ یہ کہیں کہ یہ شیعہ ہے ۔اِس کو اُس سے برا کر دیتے ہیں اور اُس کو اِس سے برا بنا دیتے ہیں ،اس کا کیا مطلب ہے ؟ ''و تذھب ریحکم ''یعنی جب اختلاف پیدا ہو گیا ،جب تفرقہ پیدا ہو گیا ،جب ایک دوسرے کی نسبت سوء ظن ہو گیا ،جب ہم ایک دوسرے کو خا ئن سمجھنے لگے تو ظا ہر سی بات ہے کہ ہم ایک دوسرے کا تعاون نہیں کر یں گے ،اگر ہمکاری بھی کریں گے تو ایک دوسرے کے صمیمی نہیں ہو ں گے ۔یہ وہی چیز ہے جس کی تلاش میں دشمن ہے ۔ہم سب شیعہ اور سنی علماء کو یہ سمجھنااور درک کرنا چا ہئے ۔یہ طبیعی ہے کہ دو مذہب بعض اصول اور بعض فروع میں ایک دوسرے سے اختلاف پایا جاتا ہے ،لیکن اختلاف کا مطلب دشمنی نہیں ہے ۔بعض مقامات پر شیعوں کے فتوے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔اہل سنت علماء کے فتووں بہت سے مقامات پراختلاف پایا جاتا ہے ،لیکن اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ جب ان کے درمیان اختلاف ہو جا ئے تو انسان ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے ۔اچھا !اُس کا مذہب یہ ہے ، اِس کا بھی مذہب یہ ہے ،۔۔۔کسی شخص کو بھی یہ خیال نہیں کرنا چا ہئے کہ اہل بیت پیغمبر شیعوں سے مخصوص ہیں وہ پوری دنیائے اسلام کے ہیں ۔کو ن شخص ہے جو فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا)کو نہ ما نتا ہو ؟کو ن شخص ہے جو حسنین( علیہما السلام )سیدا شباب اہل الجنة کو قبول نہیں کرتا ؟ اب ایک انھیں وا جب الاطاعة اور مفروض الطاعة امام مانتا ہے ایک نہیں ما نتا لیکن انھیں قبول کرتا ہے ۔یہ حقا ئق ہیں اِن کو سمجھنا چا ہئے ،ان کو نہا دینہ کرنا چا ہئے ۔البتہ بعض ان کو نہیں سمجھتے دشمن کو ابھار دیتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صحیح کام انجام دے رہے ہیں ۔''قل ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا''،''الذین ضلّ سعیھم فی الحیاة الدنیا و ھم یحسبون انھم یحسنون صنعا''''وہ خیال کرتے ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں وہ اس سے غافل ہیں کہ دشمن کے لئے کام کر رہے ہیں ۔یہ ہمارے زمانہ کی خصوصیت ہے ۔
حضرت آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا صوبہ کردستان کے سنندج کے میدان آزادی پر مجمع سے خطاب 22/2/1388
چند سال پہلے کردستان کے علاقہ میں ایک روشن فکر عالم نے نمازمیں تقریر کرتے ہوئے کہا :خدا کی قسم !جو لوگ شیعہ کے پاس جا کراس کے دل میں سنی کے خلاف بغض و کینہ بھرتے ہیں اورسنی کے پاس جا کر اُس کے دل میں شیعہ کے خلاف بغض و کینہ بھرتے ہیں یہ لوگ نہ شیعہ ہیں اور نہ سنی ،نہ شیعہ کوچا ہتے ہیں اور نہ ہی سنی کوچا ہتے ہیں یہ اسلام کے دشمن ہیں ۔البتہ وہ نہیں جانتے اور اُن میں سے بہت زیادہ ان چیزوں کو نہیں سمجھتے ہیں افسوس کی بات یہی ہے کہ یہ کیوں نہیں سمجھتے ۔
آج وہابی جماعت شیعوں کو کافر جا نتی ہے ،سنی اہل بیت سے محبت کرنے والے کوبھی کافر جانتا ہے ،سنی عرفانی اورقادری طریقوں کی اتباع کرنے والے کو بھی کافرجانتاہے !اس غلط فکر کا سرچشمہ کہاں سے ہے ؟ پوری دنیامیں تمام شیعہ ،افریقا شمالی میں سنی شافعی ،یا مرکزی افریقا کے تمام ملکوں میں مالکی سب اہل بیت (ع)سے محبت کرنے والے ہیں یہ سب کافر ہیں ،کیوں؟ چونکہ قاہرہ میں حسین بن علی کے مرقد کا احترام کرتے ہیں ،رأس الحسین مسجد کو مقدس سمجھتے ہیں،اسی وجہ سے کافرہیں !شیعہ کافرہیں کیا سنی سقزی،سنندجی ،اورمریوانی بھی اگر قادری یا نقش بندی کے طریقوں سے رابطہ رکھتے ہوں تو وہ بھی کافر ہیں !یہ کیسی اور کونسی فکر ہے ؟اس غلط اورمذموم فکر سے مسلمان بھا ئیوں کے درمیان کیوں اختلاف ایجاد ہو ؟ بہت سے شیعہ بھی نادانی وغفلت یا کسی اپنی غرض کی وجہ سے اختلاف ایجاد کرنے کے لئے اہل سنت کے مقدسات کی تو ہین کرتے ہیں،ہم اس سلسلہ میں عرض کرتے ہیں :دونوں گروہوں کایہ برتائو شرعی طور پرحرام اورقانون کے خلاف ہے ۔