Super User
ایران، ترکمنستان کے ساتھ تعاون کرنے کا خواہاں
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے ترکمنستان کے دارالحکومت عشق آباد میں ترکمنستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں ان تعلقات میں توسیع لانے کی راہوں کا جائزہ لیا۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر لاریجانی نے صدر قربان قلی بردی محمد اف سے کہا کہ ایران ترکمنستان کے ساتھ خاص طور سے بنیادی تنصیبات کی تعمیر جیسے سڑکوں، ریفائنریوں اور بجلی گھروں کی تعمیر نیز دیگر بڑے منصوبوں میں تعاون کرنے کا خواہاں ہے۔ ڈاکٹر لاریجانی نے علاقے میں امن و سکیورٹی کی برقراری کے بارے میں ایران و ترکمنستان کے مشترکہ مواقف کی طرف اشارہ کرتےہوئے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے تعاون میں مزید فروغ آتا رہے گا، اس ملاقات میں ترکمنستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف نے کہا کہ ان کاملک اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئےکار لاتے ہوئے ایران کے ساتھ تعلقات میں توسیع لانے کی کوشش کرے گا۔ اس ملاقات میں یہ اتفاق کیا گیا کہ ایران اور ترکمنستان کا مشترکہ اقتصادی کمیشن باہمی تعاون بالخصوص تیل اور گيس کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی غرض سے منصوبہ بندی کرے گا۔
امریکی ڈرون حملے، پاکستان کے قومی اقتدار کی خلاف ورزی
پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کی ڈرون جارحیت پر احتجاج کیا ہے۔ ڈان ویب سائٹ کے مطابق پاکستانی وزارت خارجہ نے آج ایک بیان میں قبائيلی علاقے شمالی وزیرستان پر امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حملوں کی مذمت کی۔ اس بیان میں امریکہ کی ڈرون جارحیت کو پاکستان کے قومی اقتدار کی خلاف ورزی قرادیتے ہوئے ان حملوں کے فوری روکے جانے پر تاکید کی گئي ہے۔ واضح رہے امریکی ڈرون طیاروں نے جمعرات کو شمالی وزیرستان کے علاقے پرحملے کئے تھے جن میں چھے افراد کے ہلاک اور تین کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ دوسری طرف ریڈیو تہران کی پشتو سروس نے رپورٹ دی ہے کہ امریکہ کے ڈرون حملے میں حقانی دہشتگرد گروہ کا ایک کمانڈر مارا گيا ہے۔
مسجد شہنشاہ - سرائيوو

مسجد شہنشاہ (Emperor's Mosque) (بوسنیائی: Careva Džamija، ترکی: Hünkâr Camii) سرائیوو، بوسنیا و ہرزیگوینا میں ایک اہم تاریخی مقام ہے۔ یہ بوسنیا کی عثمانی فتح کے بعد تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے جو 1457 میں تعمیر کی گئی۔
اسے عیسیکووچ ہرانوشک (Isaković-Hranušić) نے تعمیر کرایا اور اسے فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح سے منسوب کیا۔ اسے بلقان میں سلطنت عثمانیہ دور کی سب سے خوبصورت مساجد میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔
ہر صورت میں پورا ہوگا ایران - پاکستان گیس منصوبہ
پاکستان کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان - ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ہر صورت عمل ہو گا ۔
انہوں نے اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سردیوں میں گھریلو صارفین کو کھانے پکانے کے اوقات میں گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ پاکستان کے وزیر پٹرولیم نے بتایا کہ وہ اِسی ماہ ایران جائیں گے اور اپنے ایرانی ہم منصب سے گیس پائپ لائن منصوبے پر عملدرآمد اور گیس کی قیمت پر بات کریں گے۔
وزیر پٹرولیم نے بتایا کہ سردیوں میں گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی اولین ترجیح ہو گی ،گیس چوری کی روک تھام کیلئے بھاری سزاوٴں پر مبنی آرڈیننس جلد آجائے گا۔ ایک سوال پروزیر پٹرولیم نے کہا کہ عمران خان پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کی بجائے قابل عمل حل بتائیں ، اس پر عمل درآمد کرنے کو تیار ہیں، حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر حقیقت پسندانہ رویہ اپنایا ہے، ورنہ نئے نوٹ چھاپنا پڑتے جس سے مہنگائی بڑھتی۔
پاکستان اسلحے کی دوڑ میں شامل نہیں
پاکستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اسلحے کی دوڑ میں کمی اور ایٹمی عدم پھیلاوٴ کے اصول پر سختی سے کاربند ہے اور ایٹمی اثاثوں کی حفاظت اور کمانڈ اینڈ کنٹرول کا بہترین نظام وضع کررکھاہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ پر رد عمل میں جاری ایک بیان میں ترجمان اعزاز احمد چودھری نے کہا ہے کہ ایٹمی صلاحیت جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام قائم رکھنے کیلئے ہے۔ ایٹمی طاقت کی حیثیت سے پاکستان کی پالیسی ضبط اور ذمہ داری کی ہے۔
پاکستان کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں پر پابندی کے بین الاقوامی معاہدوں پر سختی سے کاربند ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی مواد کی برآمد روکنے کیلئے جامع اور موثر اقدامات کیے ہیں، جن کا معیار انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے معیار کے مطابق ہے۔
یوم شہادت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

روایات کے مطابق 25 شوال المکرم فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا یوم شہادت ہے۔ آپ نے اپنے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد اکتیس سال کی عمر میں ایک سو چودہ ہجری قمری کو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ سنبھالا اور منصب امامت پر فائز ہوئے آپ کا دور امامت چونتیس برسوں پر محیط ہے۔ سن ایک سو چودہ سے ایک سو بتیس ہجری قمری تک اموی دور حکومت تھا جبکہ ایک سو بتیس سے لے کر ایک سو اڑتالیس ہجری قمری یعنی آپ کی شہادت تک عباسی حکمراں برسراقتدار تھے۔
جب آپ منصب امامت پر فائز ہوئے تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی جس کی بناپر اموی حکمرانوں کی توجہ خاندان رسالت سے کسی حد تک ہٹ گئی اور خاندان رسالت کے افراد نے امویوں کے ظلم و ستم سے کسی حد تک سکون کا سانس لیا ۔ اسی دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لئے بے پناہ کوششیں انجام دیں اور مدینے میں مسجد نبوی اور کوفہ شہر میں مسجد کوفہ کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا جہاں انہوں نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی اور ایک عظیم علمی و فکری تحریک کی بنیاد ڈالی اس تحریک کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع ملے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ علوم و فنون کی توسیع اور دوسری ملتوں کے عقائد و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ اسلامی افکار و نظریات اور تہذیب و ثقافت کے تقابل اور علمی بحث و مناظرے کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ اسی زمانے میں ترجمے کے فن کو بڑی تیزی سے ترقی حاصل ہوئی اور عقائد و فلسفے دوسری زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ تاریخ اسلام کا حساس ترین دور کہا جاسکتاہے ۔ اس زمانے میں ایک طرف تو امویوں اور عباسیوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری تھی اور دوسری علویوں کی بھی مسلح تحریکیں جاری تھیں ۔ آپ نے ہمیشہ عوام کو حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط حرکتوں نیز غیراخلاقی و اسلامی سرگرمیوں سے آگاہ کیا ۔
آپ نے عوام کے عقائد و افکار کی اصلاح اور فکری شکوک و شبہات دور کرکے اسلام اور مسلمانوں کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کی اور اہل بیت علیہم السلام کی فقہ و دانش کو اس قدر فروغ دیا اور اسلامی احکام کو دنیا میں اتنا پھیلایا کہ آپ کی تعلیمات نے جعفری مذہب کے نام سے شہرت اختیار کرلی ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے جتنی احادیث راویوں نے نقل کی ہیں اتنی کسی اور امام سے نقل نہیں کیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسب فیض کرنے والے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں بیان کی جاتی ہے جن میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ آپ کے ممتاز شاگردوں میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم ، ابان بن تفلب ، ہشام بن سالم ، مفصل بن عمر اور جابربن حیان کا نام خاص طور سے لیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑا نام پیداکیا مثال کے طور پر ہشام بن حکم نے اکتیس کتابیں اور جابربن حیان نے دو سو زائد کتابیں مختلف علوم و فنون میں تحریر کی ہیں۔ جابربن حیان کو علم کیمیا میں بڑی شہرت حاصل ہوئی اور وہ بابائے علم کیمیا کے نام سے مشہور ہیں۔ اہل سنت کے درمیان مشہور چاروں مکاتب فکر کے امام بلاواسطہ یا بالواسطہ امام جعفر صادق علیہ السلام کےشاگردوں میں شمار ہوتے ہیں خاص طور پر امام ابوحنیفہ نے تقریبا" دوسال تک براہ راست آپ سے کسب فیض کیا۔ آپ کے علمی مقام کا اعتراف کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ نے کہاہے : " میں نے جعفر ابن محمد سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔" ایک اور مقام پر امام ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں گزارے ہوئے دو سالوں کے بارے میں کہا :
لولا السنتان ۔ لھک نعما
اگر یہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی سیرت اور اخلاقی کمالات کے بارے میں مورخین نے بہت کچھ لکھاہے ۔
آپ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور حاجت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی اپنی باتوں کی نصیحت کرتے تھے ۔ آپ فرماتے ہیں : اپنے رشتے داروں کے ساتھ احسان کرو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو چاہے وہ سلام کرنے یا خندہ پیشانی کے ساتھ سلام کا جواب دینے کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتاہے ۔ پہلا دور وہ ہے جو آپ نے اپنے دادا امام زین العابدین علیہ السلام اور والد امام محمد باقر علیہ السلام کے زیر سایہ گزارا یہ دور سن تراسی ہجری سے لے کر ایک سو چودہ ہجری قمری تک پھیلا ہوا ہے ۔ دوسرا دور ایک سو چودہ ہجری سے ایک سو چالیس ہجری قمری پر محیط ہے اس دور میں امام جعفر صادق علیہ السلام کو اسلامی علوم و معارف پھیلانے کا بھرپور موقع ملا جس سے آپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ اس دور میں آپ نے چارہزار سے زائد شاگردوں کی تربیت کی اور مکتب کو عروج پر پہنچایا ۔ تیسرا دور امام کی آخری آٹھ سال کی زندگی پر مشتمل ہے ۔ اس دور میں آپ پر عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کی حکومت کا سخت دباؤ تھا اور آپ کی ہر قسم کی نقل و حرکت پر مستقل نظر رکھی جاتی تھی ۔ عباسیوں نے چونکہ خاندان پیغمبر کی حمایت و طرفداری کے نعرے کی آڑ میں اقتدار حاصل کیا تھا شروع شروع میں عباسیوں نے امام پر دباؤ نہیں ڈالا لیکن آہستہ آہستہ اپنے قدم جمانے اور اقتدار مضبوط کرنے کے بعد انہوں نے بھی امویوں کی روش اپنالی اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور ان کے محبین اور ان پر ظلم و ستم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا اور اس میں وہ امویوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے۔
ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے بارے میں تبادلۂ خیال
پاکستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر راگھون نے اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز سے ملاقات کی۔اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں فریقین نے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر کشیدگی سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں پاکستان اور ہندوستان کے مذاکراتی عمل سے متعلق اہم امور پر بھی غور کیا گیا جبکہ نیویارک میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور لندوستان کے وزیر اعظم منموہن کے درمیان ممکنہ ملاقات سے متعلق بھی امور زیر غور آئے۔
قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد میں ہندوستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر راگھون اور پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کے درمیان یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں انجام پائی ہے کہ حایہ دنوں کے دوران دونوں ملکوں کے مابین کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا ہے اور دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے پر کنٹرول لائن پر فائر بندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔
فرعون کی زوجہ
فرعون اور اس کی زوجہ اپنے محل کے قریب دریائے نیل کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ان کی نگاہیں ایک سیاہ چیز پر پڑیں جو پانی کے اوپر تیر رہی تھی ۔ انہوں نے دور ہی سے یہ اندازہ کرلیا تھا کہ سطح آب پر بہنے والی شئے کوئی اور چیز نہیں بلکہ لکڑی کا صندوق ہے جو ان کی جانب رواں دواں ہے ۔صندوق دھیرے دھیرے ان کے قریب پہنچ گیا فرعون نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ صندوق کو پانی سے باہر نکال لو حکم ملتے ہی صندوق باہر نکالا گیا اور جب اسے کھولا گیا تو اس میں ایک خوبصورت بچہ نظر آیا ۔ وہ پیغمبر خدا حضرت موسی علیہ السلام تھے جنہیں ان کی والدہ ماجدہ نے پروردگار عالم کے حکم اور فرعونیوں سے محافظت کے لئے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا تھا تاکہ خداوندعالم خود ان کی محافظت کرے ۔فرعون نے کہا : یہ بچہ بنی اسرائیل میں سے ہے فورا اسے قتل کردو ، بچے کی جان خطرے میں تھی لیکن فرعون کی زوجہ آسیہ بچے کو دیکھ کر اس کی گرویدہ ہوگئیں اور کہنے لگیں " یہ بچہ تو تمہاری اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے لہذا اسے قتل نہ کروکہ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہم اسے اپنا فرزند بنالیں " آسیہ کی ذہانت ، انداز بیان اور کلام نے اپنا اثر دکھایا اور فرعون کو بچے کے قتل سے روک دیا اور وہ بھی موسی کی محبت کا گرویدہ ہوگیا۔
رامسس دوم فرعون مصر اور اس کا خوبصورت محل آسیہ کو فریقتہ نہ کر سکا۔ آسیہ کا پاکیزہ ضمیر بیدار تھا ۔ ان کےقلب پرایمان و توحید پروردگار کا پہرہ تھا جس کی بناء پر فرعون کے مادی اور تسلط پسند جذبات آسیہ پر ذرہ برابر بھی اثر نہ کرسکے ۔ وہ ایسی پاکیزہ خاتون تھیں جنہوں نے خدا پر مکمل و راسخ ایمان کے ساتھ فرعون کے گناہوں سے معمور محل کو لرزہ براندام کردیا ۔اور اپنی پاکیزہ فطرت کو فرعون کے کفر سے نجات بخشی ۔قرآن کریم نے جناب آسیہ کو لوگوں کے لئے نمونہ و اسوہ قراردیا ہے تاکہ لوگ غیر مناسب اور گناہ سے بھرپور حالات میں بھی اپنے ایمان کو نجات بخشیں اور اسے ضلالت و گمراہی کا بہانہ نہ بنا ئیں ۔
فرعون ایک بہت ہی ظالم و جابر بادشاہ تھا اس نے مصر کے شہروں کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا تھا تاکہ لوگ اس کے خلاف بغاوت و قیام نہ کرسکیں۔ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتا تھا اور انہیں ذلیل و خوار کرنے کی ہمیشہ کوشش کیا کرتا تھا اور غریب و محتاج اور بے نواؤں کی خواہشات و آرزؤں کو کچل کر اپنے غرور و تکبر کا محل کھڑا کررکھا تھا اور خود کو لوگوں کا خدا اور رازق کہتا تھا ۔لیکن کسی میں بھی اتنی جرآت نہ تھی کہ اس کے فرمان کی مخالفت کرتا ۔مگر فرعون کی پاکدامن بیوی آسیہ نے ان ظالمانہ و کافرانہ فرمان کو ہرگز قبول نہیں کیا اور ملکہ مصر کے عنوان سے اپنے شوہر کی مذمت کی۔
ایک رات فرعون نے خواب میں دیکھا کہ اس کا محل نابود ہوگیا ہے خوف و وحشت سے اس کا پورا وجود لرزنے لگا اس نے نجومیوں کو بلاکر ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی انہوں نے کہا کہ عنقریب بنی اسرائیل کا ایک بچہ تمہارے محل کو نابود کردے گا اس لئے فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جس کے یہاں بھی لڑکا پیدا ہو اسے فورا قتل کردو لیکن اگر لڑکی پیدا ہو تو اسے قتل نہ کرنا تاکہ ان کی نسل باقی رہے ۔
ایسے پر آشوب زمانے میں خدا کے پیغمبر حضرت موسی پیداہوئے جب کہ خدا وند عالم کا منشاء و ارادہ یہ تھا کہ حضرت موسی کی جان کی حفاظت کے لئے موسی فرعون کےمحل اور آسیہ کے پاس پرورش پائیں آسیہ نے موسی کو اپنا فرزند قبول کرکے درحقیت انہیں ان کی حتمی موت سے بچالیا اور قوم بنی اسرائیل کی نجات کا سامان فراہم کیا ۔
اس لئے قرآن کریم نے آسیہ جیسی عورتوں کے رائے ومشورے کو جن کا عقیدہ و کردار عقلی اور منطقی تھا ،مفید و مستحسن قرار دیا ہے ۔ اگر فرعون دوسرے امور میں بھی آسیہ کے عقلی اور معتبر نظریوں کی پیروی کرتا تو کبھی بھی بلا و مصیبت میں غرق نہ ہوتا اور خود کو ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ کا ایندھن نہ بناتا پس ایک آزاد اور صالح عورت، مردوں اور تمام معاشرے کی ترقی و کامیابی کے لئے بہترین مشاور و رہنما بن سکتی ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام کے عہدہ نبوت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے حضرت آسیہ ان پر اور خدا پر ایمان لائیں اور بہت دنوں تک اپنے ایمان کو چھپائے رکھا فرعون، کفر کے اس مرحلے میں پہنچ گیا تھا کہ خود کو خدا کہلانے لگا ۔ لیکن آسیہ کا دل خدائے وحدہ لاشریک کے عشق سے سرشار تھا اس لئے فرعون کی خدائی کو قبول نہیں کیا اور خود فرعون کی قدرت وطاقت اور اس کا کفر ان کے ایمان پرغالب نہ ہوسکا ۔
خداوندعالم قرآن کریم میں فرعون کی بیوی کی مثال دیتے ہوئےفرماتا ہے کہ آسیہ خدا پر صدق دل سے ایمان لائیں تو خدا نے انہیں نجات عطا کی اور جنت میں داخل کردیا اور فرعون جیسا کافرشوہر بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکا ۔
مردوں کی طرح عورتیں بھی صحیح و سالم معاشرے کی تعمیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور معاشرے میں رونما ہونے والے ہر طرح کے ظلم و فساد کا مقابلہ کرکے ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔ حضرت آسیہ بھی ایسی ہی عظیم و با استقامت خواتین میں سے تھیں جنہوں نے ایسا عظیم کردار ادا کیا اسی لئے خداوندعالم قرآن کریم میں حضرت آسیہ کی استقامت اور عظمت و ستائش بیان کرتے ہوئے سورہ تحریم کی گیارہویں آیت میں فرماتا ہے : خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ " پروردگار میرے لئے جنت میں ایک گھربنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلادےاور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کردے"
قرآن کریم کی نظر میں حضرت آسیہ حق کی شناخت و بصیرت سے آگاہ تھیں انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی شجاعت و بہادری کے ساتھ اپنے کافر شوہر کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنے عقیدہ و ثقافت میں بھی پوری آزاد تھیں اسی لئے قرآن کریم نے آسیہ کومومنین کے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیا ہے اور یہ اسوہ اور نمونہ عورتوں کے آزاد اور مستقل عقیدہ و ثقافت پر بہترین دلیل ہے ۔
آسیہ ایک شجاع و بہادر اور حق پرست خاتون تھیں اس خداپرست خاتون کے ایمان راسخ اور شجاعت و دلیری نے انہیں ایسی منزل پر فائز کردیا کہ بارگاہ الہی کے مخلص بندے جنت میں ان کا مقام و مرتبہ دیکھ کر افتخار و تعجب کریں گے ۔
جب فرعون کو آسیہ کے ایمان کے بارے میں خبر ملی تو اس نے بہت زیادہ کوششیں کی تاکہ کسی نہ کسی طرح انہیں راہ راست سے منحرف کردے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکا اور آسیہ نے بھی اس کی تمام کوششوں کو ناکام بنا کر صرف خدائے واحد کی عبادت میں مصروف رہیں حضرت آسیہ نے حضرت موسی علیہ السلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے فرعون سے بہت زيادہ بحث و مناظرہ کیا مگر فرعون آسیہ کے ایمان و عقیدے کو بدلنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔
قصر فرعون روز بروز پر آشوب ہوتا گیا اور آسیہ نے فرعون سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور حضرت موسی کا دفاع کرتی رہیں ۔حضرت موسی علیہ السلام کے چاہنے والے فرعون کے سپاہیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کی بھینٹ چڑھ رہے تھے اور انہیں بے دردی کے ساتھ قتل کیا جارہا تھا یہاں تک کہ فرعون نے حضرت موسی پر ایمان لانے والے ایک شخص کہ ، جسے قرآن کریم نے " مومن آل فرعون" کے نام سے یاد کیا ہے بڑی ہی بے دردی سے قتل کردیا جس کے بعد آسیہ کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا اور کھلم کھلا فرعون کی مخالفت کرنے لگیں فرعون میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی اور اس نے اپنی زوجہ آسیہ کو بہت ہی دردناک طریقے سے ایذائیں پہنچائیں ۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ فرعون نے حضرت آسیہ کو مصر کے تپتے سورج کے نیچے زمین پر لٹا کر چار کیلیں ٹھونک دیں اورسخت ایذائیں پہنچائی اور آخر میں اس سنگدل نے ان کے سینے پر ایک بڑا پتھرگرادیا اور اس طرح ایک پاک وپاکیزہ اور خدا پرست کنیز خاص راہ حق میں نہایت ہی بے دردی اور اذیتوں کا شکار ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوگئیں ۔
حضرت آسیہ کی استقامت ایک شجاع و بہادار اور پاک و پاکیزہ با ایمان عورت کی نشاندہی کرتی ہے کہ جس نے حق کا اعتراف اور باطل قوت کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا۔ تاریخ بشریت میں حضرت آسیہ کی استقامت ، تمام حق پرستوں اور منزل کمال کے متلاشیوں کے لئے بہت بڑا درس ہے۔ پیغمبر اسلام (ص)نے جناب آسیہ کو کائنات کی ان چار عظیم خواتین یعنی حضرت فاطمہ ، حضرت خدیجہ اور حضرت مریم سلام اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ شمار کیا ہے ۔
ابن عباس بیان کرتے ہيں کہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآله و سلم نے زمین پر چار لکیریں لگائيں اور فرمانے لگے:
کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآله و سلم) کوزيادہ علم ہے ، رسول خدا نے فرمایا :
جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ہیں۔ (1)
اس کے علاوہ حضرت آسیہ کی زندگی کا مطالعہ ، ایسی تمام خواتین کے لئے نمونہ عمل ہے جو اپنے گھر کے ماحول یا اپنے شوہر کے عمل کو دین کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ قرار دیتی ہیں کیونکہ عورتوں کے اندر اتنی طاقت و قدرت موجود ہے جو ہر طرح کے ظلم و فساد ، اخلاقی بے راہ روی اور پستی وبرائی کا خاتمہ کرسکتی ہیں اور اگر ان کا شوہر فرعون کی طرح سنگدل نہ ہو تو یہ اپنی عقل و تدبیراور نیک اخلاق وکردار سے اسے راہ حق و صداقت پر گامزن کرسکتی ہیں ۔
*******************************
1- مسنداحمد حديث نمبر ( 2663 ) علامہ البانی نے صحیح الجام (1135) میں اسے صحیح قراردیا ہے ۔
دشمن کے لئے جہنم تیار کر دیں گے
اسلامی جمہوریہ ا یران کے ایک سینئر کمانڈر نے دشمنوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی کسی بھی جارحیت کی صورت میں ہم اس کے لئے جہنم تیار کر دیں گے۔
خاتم الانبیاء ایئر ڈیفنس چھاونی کے کمانڈر بريگیڈیر جنرل فرزاد اسماعیل نے کہا کہ اگر ہمارے دشمنوں نے حملے کے بارے میں سوچا بھی تو ایرانی جوان ان کے لئے زمین، ہوا اور سمندر میں دہکتی جہنم تیار کر دیں گے۔
انہوں کہا کہ ایران کا دفاعی شعبہ پوری طرح سے خود کفیل ہے۔
کامیابی، ملت شام کا مقدر
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی کی امامت میں ادا کی گئي۔
خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے تسلیت و تعزیت پیش کی اور امام ھمام کو تمام علماء اور دانشوروں حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں کو علم کی روشنی سے فیضیات کرنے والا قراردیا۔خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ اگر امریکہ شام پر حملے کرتا ہے تو یہ علاقے اور دنیا کےلئے بڑی مصیبت ہوگي۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بہانے شام پر حملہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس جارحیت سے علاقے اور عالمی امن کو نقصان پہنچے گا۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی شام کے خلاف کامیاب نہیں ہوں گے بلکہ ساری اسلامی دنیا اور عالم انسانیت کی نفرت بھی مول لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کامیابی ملت شام کے مقدر میں ہے اور شام کی قوم ہر طرح کے دباؤ اور سازشوں کا مقابلہ کرکے کامیاب ہوجائے گي۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے مصر کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نہتے عوام کا قتل عام کسی بھی گروہ کی جانب سے ہو قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصر کا درد رکھنے والوں کو ایسی تدبیریں اختیار کرنی چاہیں کہ اس ملک میں خانہ جنگي کا سد باب ہوسکے کیونکہ داخلی جنگ نہ مصر کے فائدے میں ہے اور نہ ہی اسلامی دنیاکے حق میں۔ خطیب جمعہ تہران نے عراق کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ عراق میں قانونی حکومت برسر کار ہے لیکن ملک میں بدامنی جاری ہے۔ انہوں نے عراق میں جاری دہشتگردی کو سازش قراردیا۔ انہوں نے نماز کی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے اسے انسانوں کی ہمیشہ کی ضرورت قراردیا۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے ہفتہ حکومت کی مبارک باد پیش کر تے ہوئے سابق صدر شہید رجائي اور سابق وزیر شہید باہنر کو خراج عقیدت پیش کیا۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
