Super User

Super User

عالمی یوم قدس ، صیہونیوں کے خلاف ملت اسلامیہ کے اتحاد کا مظہر

عالمی یوم القدس کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس دن مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ظالم صیہونی حکومت کے خلاف اپنی نفرت کا بھر پور انداز میں اظہار کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جس کی خبریں پاکستان ، ہندوستان ، افغانستان اور ترکی سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے موصول ہورہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی اسی تناظر میں ایک کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گيا جس سے اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اورخارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ علاء الدین بروجردی اور فلسطینی شخصیات نے تقریریں کیں۔ مقررین نے عالمی یوم القدس کی اہمیت اور مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کرنے کے سلسلے میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح کے کردار پر روشنی ڈالی۔

علاء الدین بروجردی نے کہا ہے کہ حضرت امام خمینی (رح) نے یوم قدس کو عالمی کرنے کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کی ترجیحات میں سے قرار دیا۔ ڈاکٹر علاء الدین بروجردی نے آج تھران میں علاقائی سیاست و سیکورٹی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پرتو میں عالمی یوم القدس کے حوالے سے منعقدہ خصوصی پریس کانفرنس میں عالمی یوم القدس کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی فکر کی علامت قرار دیا اور کہا کہ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو عرب قومیت کے دائرے سے نکال کر ملت اسلامیہ کے مسئلے میں تبدیل کردیا اور تین سو ملین عرب فوج کو مل اسلامیہ کی ڈیڑھ ارب فوج میں بدل دیا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے مزید کہا کہ اسلام میں قدس شریف اور اس کا اعلی و ارفع مقام سرحدوں سے بالاتر رہا ہے اور قدس کا تعلق ساری ملت اسلامیہ سے ہے۔ڈاکٹر بروجردی نے کہا کہ حضرت امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور مسئلہ فلسطین اور اس مسئلے کو علاقائی و عالمی سطح پر ہمیشہ باقی و زندہ رکھنے کے لئے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے عالم اسلام اور علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ تسلط پسند نظام اس کوشش میں ہے کہ سازشوں اور خطرناک منصوبوں پر عمل درآمد کے ساتھ اسلامی ملکوں میں خانہ جنگی شروع کروادے تاکہ ملت اسلامیہ کی توانائیوں اور صلاحیتوں پر ضرب لگا کر ان کو ماضی سے زیادہ کمزور کردے۔علاء الدین بروجردی نے مزید کہا کہ جب سے فلسطین کی سرزمین میں صیہونیوں کو لا کر بسایا جانا شروع کیا گيا ہے اسے زمانے سے ملت فلسطین مسلمانوں کے ان دشنموں کے خلاف برسرپیکار ہے۔

اس کانفرنس میں فلسطینی شخصیات نے بھی عالمی یوم القدس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی اور صیہونیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد کرنے کے سلسلے میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح)نے مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کرانے، عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے اورمسلمانوں کے خلاف صیہونیوں کی سازشوں کو طشت از بام کرنے کیلئے ماہ رمضان المبارک کے جمعتہ الوداع کو عالمی یوم القدس کا نام دیا ہے اوراس روز دنیا بھرکے حریت پسند اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ مردہ باد،اسرائیل مردہ باد اورعالمی صہیونیزم مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا کر قبلئہ اول کی آزادی کیلئے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔

یوم القدس کے دن تمام مسلمان گھروں سے باہر نکل آئیں گے اور ان کا نعرہ ایک ہوگا، انکی آواز ایک ہوگی، ان کا دشمن ایک ہوگا، اور انکا ہدف ایک ہوگا، اور یہ یوم القدس مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا پیکر بن کر سامنے آئے گا۔ یوم القدس منانے کے مقاصد میں سے ایک مقصد لوگوں کی توجہ مسلمانوں کے اتحاد اور بیت المقدس کی جانب مبذول کرانا ہے، الحمداللہ اب روز بہ روز یوم القدس اپنی بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اگر مسلمانان عالم کا یوم القدس منانے کا انداز اسی طرح اور اسی سطح پر بڑھتا رہا تو عنقریب ہم فلسطین اور قبلہ اول کو آزاد ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ انشاءاللہ

ممنون حسین پاکستان کے 12ویں صدر منتخب

پاکستان کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے 12ویں صدر منتخب ہو گئےہیں۔

اسلام آبادسے موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نئے صدر کے لئے مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار ممنون حسین اور تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمد کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔

ممنون حسین نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 277 سندھ اسمبلی سے 64 بلوچستان اسمبلی سے 55 جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی سے 41 ووٹ حاصل کئے۔ ان کے مدمقابل امیدوار جسٹس وجہیہ الدین نے ٹوٹل 109 ووٹ حاصل کئے۔

ممنون حسین کو ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ضیا، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور آزاد اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ جبکہ وجیہہ الدین کی حمایت جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے کی۔

صدارتی انتخاب کیلئے پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ قاف اور بی این پی عوامی نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔

غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین 437 ووٹ لے کر واضع برتری کے ساتھ آئندہ 5 سال کے لئے پاکستان کے 12ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس وجہیہ الدین 109 ووٹ حاصل کر سکے۔

نومنتخب صدر موجودہ صدرآصف زرداری کے عہدہ صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد حلف اٹھائیں گے۔

صدر زرداری کے عہدے کی میعاد 8 ستمبر کو ختم ہوگی۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

۲۰۱۳/۰۷/۲۸ -

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے آج سہ پہر کو یونیورسٹیوں اور اعلی تعلمی مراکز کے ایک ہزار طلباء نے صمیمی ماحول میں ملاقات کی اس ملاقات میں طلباء نے سیاسی، سماجی، علمی ، ثقافتی ، اقتصادی اور یونیورسٹیوں کے مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے نظریات کو پیش کیا۔

اس ملاقات کا آغاز سہ پہر 5 بجے سے ہوا اوراس کا سلسلہ نماز مغرب و عشا تک جاری رہا۔ طلباء کی مختلف انجمنوں کے 12 نمائندوں نے اپنے مسائل ، مطالبات اور مؤقف کو پیش کیا۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بیان شدہ مسائل کے متعلق جواب دیتے ہوئےبعض نکات بیان کئے، حقائق اور اہداف کی نسبت کی تشریح ، طلباء کی ذمہ داریوں ،وظائف اور یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کی راہوں پر روشنی ڈالی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء کے بانشاط ،صمیمی اور ولولہ انگیز اجتماع سے ملاقات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور اس ملاقات میں بیان شدہ موضوعات اور مطالب کو پختہ اور سنجیدہ قراردیتے ہوئے مختلف اداروں کو طلباء کی تجاویز کے محقق ہونے کی راہوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کی سفارش فرمائي۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے اعتدال کے معنی بیان کرنے کے سلسلے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: منتخب صدر محترم نے اس نعرے کو بیان کیا ہے اور یقینی طور پر وہ اپنے اس نعرے اور اعتدال کے معنی اور مفہوم کو بھی بیان کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے منتخب صدر کی حکومت کے ساتھ تعاون پر مبنی سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ تمام حکومتوں کے ساتھ تعاون جاری رہا ہے اس حکومت کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایسا کرےگی تو تعاون کریں گے ورنہ تنقید کریں گے، میں تنقید کے خلاف نہیں ہوں لیکن تنقید اور عیب جوئی میں بڑا فرق ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ پہلے کام کرنے ، تلاش و کوشش اور خدمت کا موقع دینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوہ مجریہ کے کام کو حقیقت میں سخت اور دشوار قراردیتے ہوئے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں کمزور نقطہ موجود نہ ہو، لہذا توقعات کو اتنا بلند و بالا نہیں لے جانا چاہیے جن پر پورا اترنا انسان کی توانائی سے خارج ہوجائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقائق اور مشکلات کو مد نظر رکھنےکی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تمام فعال سیاسی جماعتوں، اور یونیورسٹیوں کے افراد کو ایکدوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینا چاہیے تاکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے تمام اموردرست اور صحیح انجام پذیر ہوں۔

ایک اور طالب علم نےسیاسی اور سماجی تحلیل اور تجزيہ کی بنا پر طلباء کے درمیان کینہ ، عداوت اورکدورت پیدا ہونے کی طرف اشارہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسیاسی اور سماجی تحلیل اور تجزيہ کو دشمنی اور کدورت میں بدلنے سے اجتناب اور پرہیز کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مختلف سلیقوں کے حامی طلباء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی و سماجی تحلیل اور تجزيہ کو خصومت، دشمنی اور بغض و کینہ میں تبدیل ہونے کی اجازت نہ دیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: حضرت امام (رہ) کی سفارش کے مطابق دینی طلباء کی طرح رہیں جو مباحثہ کے وقت بہت ہی سنجیدہ ہوتے ہیں لیکن دوسرے اوقات میں آپس میں محبت ،دوستی اور الفت سے پیش آتے ہیں۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ کے بارے میں بعض طلباء کے مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس تلخ و ناگوار واقعہ میں کچھ لوگ قانون شکنی پر اترآئے اور وہ قانون کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے جس کی وجہ سے ایران کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ممکن ہے کہ ایک بڑے واقعہ کے ساتھ کچھ دوسرے واقعات بھی رونما ہوں جن میں ایک شخص ظالم یا مظلوم واقع ہوجائے لیکن ہر حال میں اس مسئلہ کی بنا پر دیگر مسائل کی راہ کو گم نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں بنیادی اور اساسی سوال بیان کرتے ہوئے فرمایا: سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں دھاندلی کے مدعی افراد نے قانون کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے سڑکوں کا راستہ کیوں اختیار کیا؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نےمتعدد بار اس سوال کو عام اجتماعات میں بیان کرنے کے بجائے جواب دینے کی شکل میں پیش کیا ہے پھر وہ کیوں جواب نہیں دیتے اور معذرت طلب نہیں کرتے ہیں؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: وہ خصوصی نشستوں میں انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں پھر انھوں نے کس بنا پر ملک کو اتنے بڑے نقصان اور خطرےسے دوچار کیا؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےبعض علاقائی ممالک میں بحران اور خونریز حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ جانتے ہیں کہ اگر سن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ میں اللہ تعالی کی مدد و نصرت شامل حال نہ ہوتی اور عوامی گروہ ایکدوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوجاتے تو ملک کو کن سخت اور ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا؟ البتہ اللہ تعالی نے حفاظت فرمائی اور قوم نے بھی بصیرت سے کام لیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے سختی سے پیش آنے پر مبنی سوال کے جواب میں منطقی بحث میں سختی کو سنجیدگی اور استقامت کے معنی میں قابل قبول امر قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر سختی کرنے سے مراد طاقت اور زور کے بل بوتے پر مخالفت ہو تو میں اس کے خلاف ہوں۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے تمام اداروں بالخصوص پارلیمنٹ ، عدلیہ اور ریڈیو ٹی وی پر نگرانی کے بارے میں سوال کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ اور عدلیہ پر نگرانی اور نظارت کیسے ہو یہ ایک اہم مطلب ہے اور فعال طلباء اس سلسلے میں کام کرسکتے ہیں اور اپنی تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں کچھ سوالات اور ان کے جوابات پیش کئے اور طلباء پر زوردیا کہ وہ یونیورسٹیوں میں ان موضوعات کے بارے میں بحث اور تبادلہ خیال کریں۔

پہلا سوال: انقلاب کے اہداف کے ساتھ انقلابی عنصر اور طالب علم کی نسبت کیا ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پرانقلاب کے اہداف کی تشریح اور معاشرتی حقائق کے ساتھ ان کے رابطہ کے بارے میں بحث کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اہم نکتہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوانوں کی ہمت، شجاعت، نشاط اور طاقت کے بغیر انقلاب کے اہداف تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جوانوں کے نقش و کردار پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ میرا اس بات پر اعتقاد ہے کہ جوانوں کے اندر گرہیں کھولنے کی طاقت اور توانائی موجود ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد انقلاب اسلامی کے اہداف اور اصولوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کئی اہداف اور اصولوں پر مشتمل ہے اور ان تمام اہداف تک پہنچنے کےسلسلے میں تلاش وکوشش کرنی چاہیے لیکن ان اہداف کے مختلف درجات اور مراحل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عادلانہ، پیشرفتہ اور معنوی معاشرے کو اسلامی نظام کے سر فہرست اہداف میں قراردیتے ہوئے فرمایا: عادلانہ معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں حکام کی رفتار منصفانہ اور عادلانہ ہوتی ہے اورعوام بھی ایکدوسرے کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ علمی سیاسی، اور ثقافتی سطح پر بھی پیشرفتہ اور معنوی لحاظ سے بھی سیراب ہوتا ہے۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایسے اہداف تک پہنچنے کو ممکن اور قابل عمل قراردیتے ہوئے فرمایا: اب تک اس سلسلے میں اہم اور اچھی پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور ایسا معاشرہ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصلی اہداف کے بعد اسلامی نظام کے بعض دیگر اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پائدار اور مزاحمتی اقتصاد ، معاشرے میں امن و سلامتی، پیشرفتہ صنعت و پیشرفتہ زراعت، بارونق و با نشاط تجارت، علمی پیشرفت ، عالمی سطح پر سیاسی اور ثقافتی نفوذ یہ سب کے سب اسلامی نظام کے اہداف ہیں جو محقق ہوسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرا سوال حقائق کے ساتھ اہداف کی نسبت کے بارے میں طلباء کے سامنے پیش کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مثال کے طور پراقتصادی پابندیاں ایک حقیقت ہیں اور دوسری طرف اقتصادی ترقی و پیشرفت انقلاب کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اقتصادی پیشرفت کیسے ممکن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حقائق کے ساتھ اہداف اور اصول کے موضوع میں ہمیں اصول و ہدف کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حقیقت پر توجہ کئے بغیر ہدف وہم اور خیالی تصور میں تبدیل ہوجائے گا ، البتہ اصلی حقائق میں اور حقائق کو بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں نمایاں فرق ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نفسیاتی جنگ میں غیر واقعی حقائق کو پیش کرنے کے طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بصیرت کا ایک اہم کام یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اس کو حقیقت کے طور پر دیکھے اور اس میں کسی غلطی اور اشتباہ سے دوچار نہ ہو۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض حقائق کو بڑا بنا کر پیش کرنے اور بعض دیگر حقائق کو نظر انداز کرنے کو نفسیاتی جنگ کی دوسری تکنیک قراردیتے ہوئے فرمایا: مثال کے طور پر ایک حقیقت یہ ہے کہ بعض ممتاز دانشور ملک سے باہر جارہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک اور حقیقت بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ ملک میں دانشور طلباء میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے لیکن دشمن کے پروپیگنڈے میں پہلی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور دوسری حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاس بحث کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: حقائق پر نظر رکھنے والے طلباء کامیابی اور ناکامی کسی بھی حالت میں مایوس اور منفعل نہیں ہوتے ہیں کیونکہ صحیح اصولوں پر گامزن رہنے میں ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عزیز طلباء سے میری توقع یہ ہے کہ وہ تمام شرائط میں حقیقی نگاہ کے ساتھ اہداف کی جانب گامزن رہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے تیسرے سوال کو اس طرح پیش کیا : " تکلیف و ذمہ داری اور نتیجے تک پہنچنے کا باہمی رابطہ کیا ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے معروف جملے" ہم ذمہ داری اور تکلیف انجام دینے کی تلاش میں ہیں " کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کئی سال تک ان تمام سختیوں اور زحمتوں کو برداشت کرنے کے باوجود نتیجے کی تلاش میں نہیں تھے؟ یقینی طور پر ایسا سوچنا غلط ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تکلیف اور ذمہ داری پر صحیح عمل یہ ہے کہ انسان مطلوب نتیجے تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور تکلیف پر عمل کرے اور غلط اور غیر ذمہ دارانہ کام کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرے۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اگر انسان نتیجہ تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور تکلیف کی بنیاد پر عمل کرےگا تو آگر وہ مطلوب نتیجے تک نہ بھی پہنچ پائے تواسے پشیمانی اور شرمندگی کا احساس نہیں ہوگا۔

تکلیف پرعمل اور نتیجےکی تلاش میں رہنے میں کوئی منافات نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط کے موضوع پر زوردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یونیورسٹیوں کے مختلف سیاسی، سماجی اور علمی شعبوں میں شوق و نشاط کی فضا کو نمایاں رہنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کو ملک کے بڑے اور مختلف سیاسی مسائل میں تحقیق و جستجو کا اہم مرکز قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں میں مختلف داخلی اور عالمی مسائل کے صحیح فہم اور تحلیل کا راستہ شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم راستہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصلی مسائل کی شناخت و پہچان اور انھیں فرعی اور جزوی مسائل سے جدا کرنے اور غیر ترجیحی مسائل میں سرگرم نہ ہونے کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا دوسرا راستہ قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یونیورسٹیوں کے طلباء بانشاط اور خلاق مباحث کے ذریعہ مسائل کی ترجیحی رتبہ بندی میں ملکی حکام کی مدد کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی رزم و جہاد کے موضوع کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم مصداق قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی رزم و جہاد ملک کے اہم مسائل میں ہے اور یونیورسٹی کے طلباء اس موضوع کے بارے میں تحقیق کرکے ملک کی پیشرفت میں بہت بڑی مدد پہنچا سکتے ہیں۔

پاکستان، امریکی ڈرون حملہ 7 افراد ہلاکپاکستان کے قبائلی علاقے پر امریکہ نے ایک اور ڈرون حملہ کیا ہے جس میں سات افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے ہیں۔

ریڈیو تہران کی پشتو سروس کی رپورٹ کے مطابق یہ حملہ شمالی وزیرستان کے علاقے شوال میں ایک گھر پر کیا گيا۔ اس حملے میں گھر پر دو میزائل فائر کیے گئے جس میں سات افراد ہلاک اور تین زخمی ہو گئے ہیں۔

ابھی تک مرنے والے افراد کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا تعلق کس گروہ سے ہے۔

دوسری جانب کوئٹہ شہر میں افغانستان کے قونصل خانے کا ایک ملازم محمد ہاشم پچیس جولائی سے لاپتہ ہے۔ اس ملازم کا تعلق افغان قونصل خانے کے ویزا سیکشن سے ہے

شب قدر اہم شخصیات کی نگاہ میں

شب قدر رہبر انقلاب آیۃ اللہ خامنہ ای کی نگاہ میں

مختلف مناسبتوں اور مواقع پر لیلة القدر کے بارے میں حضرت آیت‌اللہ العظمی خامنہ‌ای کی زبان مبارک پر نہایت دلنشین اور سبق آموز باتیں جاری ہوئی ہیں جن میں سے بعض نکتے اور اقتباسات درج ذیل ہیں:

ہمارا عقیدہ ہے (اور یہ اسلام ہی میں نہیں بلکہ تمام ادیان میں بدیہیات اور مسلمات میں سے ہے) کہ انسان محض خدا کے ساتھ اتصال اور ارتباط کی بدولت کمال و ارتقاء کی بلندیوں پر فائز ہوسکتا ہے. البتہ ماہ رمضان ایک غیر معمولی ۔ استثنائی اور ممتاز موقع ہے؛ یہ معمولی شیئے نہیں ہے کہ خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: "لیلة القدر خیر من الف شهر"؛ ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر اور ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت والی اور انسان کی پیشرفت میں زیادہ مؤثر، یہ رات ماہ مبارک رمضان میں ہے. یہ معمولی بات نہیں ہے کہ رسول اکرم (ص) اس مہینے کو اللہ کی ضیافت قرار دیتے ہیں؛ کیا ممکن ہے کہ انسان، کریم کے دسترخوان پر وارد ہوجائے اور اس دسترخوان سے محروم ہوکر اٹھے؟ ایسا تب ہی ممکن ہے کہ آپ اس دسترخوان پر وارد ہی نہ ہوں!

جو لوگ اس مبارک مہینے میں خدا کے غفران و رضوان اور خدا کی ضیافت میں وارد نہیں ہوتے یقینا انہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں مل سکے گا اور حفیقتاً یہ محرومیت حقیقی محرومیت ہے. "ان الشقی من حرم غفران‌الله فی هذا الشهر العظیم" (یقیناً بدبخت اور شفی وہی ہے جو اللہ کے عظیم مہینے میں خدا کی مغفرت سے محروم ہوجائے) حقیقی محروم وہی ہے جو جو ماہ رمضان میں غفران الہی کے حصول میں ناکام رہے.(1)

لیلۃ‌القدر، شب ولایت ہے. نزول قرآن کی شب بھی ہے اور امام زمانہ (عج) پر ملائکۃاللہ کے نزول کی رات بھی ہے؛ قرآن کی شب بھی ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی شب بھی.

جو شب قدر اس ماہ مبارک رمضان میں ہے اور قرآن مجید پوری صراحت کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ "لیلة‌القدر خیر من الف شهر" یہ ایک رات ایک ہزار بار تیس دنون اور تیس راتون یعنی ایک ہزار مہینون سے بہتر ہی؛ یہ بہت اہم بات ہی. اس ایک رات کو اتنی بری فضیلتیں کیون دی گئیں؟ کیونکہ اس رات کو نازل ہوئی خدا کی برکتیں بہت زیادہ ہیں؛ یہ شب "سلام" ہے "سلام هی حتی مطلع‌الفجر" اول شب سے آخر شب تک اس کی تمام لمحے سلام الہی ہیں "سلام قولاً من رب رحیم" اللہ کی رحمت اور اس کا فضل ہے جو بندوں پر نازل ہوتا ہے.

یہ شب، شب قرآن بھی ہے اور شب عترت بھی ہے. چنانچہ سورہ مبارکہ قدر بھی سورہ ولایت ہے. بہت ہی قابل قدر ہے. پورا ماہ رمضان اور اس کی راتیں اور اس کے دن سب بہت بڑی قدر و منزلت کے حامل ہیں. البتہ شب قدر ماہ رمضان کے دیگر ایام اور راتوں کی نسبت بہت زیادہ با وقار اور متین و وزین ہے اور اس کی قدر و قیمت اس مہینے کی دیگر راتون سے بھی بہت زیادہ ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ماہ رمضان کے ایام اور اس کی راتیں سال کے دیگر مہینوں کی راتوں اور دنوں سے بہت زبادہ عمدہ اور زیادہ اہم اور قابل قدر ہیں. ان دنوں اور راتوں کی قدر و قیمت جان لیں اور ان سے استفادہ کریں.

ان دنوں اور ان راتوں کو آپ سب انعام الہی کے دسترخوان پر حاضر ہیں؛ استفادہ کریں.(2)

ماہ مبارک رمضان میں... (تمام ایام اور تمام راتوں میں) جتنا ممکن ہو اپنے قلوب کو ذکر الہی سے زیادہ سے زیادہ نورانی کردیں تا کہ لیلة القدر کے مقدس حریم میں داخلے کے لئے تیار ہوجائیں؛ کہ "لیلة‌القدر خیر من الف شهر؛ تنزل الملائکة والروح فیها باذن ربهم من کل امر"، وہ رات جس میں ملائکة اللہ زمین کو آسمان سے متصل کردیتے ہیں؛ قلوب پر نور کی بارش برساتے ہیں اور زندگی کے ماحول کو اللہ کے فضل اور لطف سے منور کردیتے ہیں.

یہ سلام اور معنوی و روحانی سلامتی کی شب ہے (سلام هی حتی مطلع الفجر) دلوں اور جانوں کی سلامتی کی شب، اخلاقی بیماریوں سے شفاء اور صحتیابی حاصل کرنے کی شب، مادی، عمومی اور معاشرتی بیماریوں سے حصول شفاء کی شب ہے؛ اور یہ بیماریاں ایسی ہیں جو افسوس کے ساتھ دنیا کی بہت سے اقوام کا دامن پکڑی ہوئی ہیں اور بہت سی قومیں ـ منجملہ مسلم اقوام ـ ان بیماریوں میں مبتلا ہیں!

ان سب بیماریوں سے تندرستی اور شفاء شب قدر میں ممکن اور میسر ہے؛ بشرطیکہ آپ شفاء و تندرستی کے حصول کے لئے آمادہ ہوں.(3)

آج کی شب خدا نے آپ کو زاری و تضرع اور گریہ و بکاء، اس ذات باری کی طرف ہاتھ بڑھانے اور اس کے ساتھ محبت کے اظہار اور آنکھوں سے صفا و خلوص اور محبت کے آنسو جاری کرنے کی اجازت دی ہے؛ تو آپ بھی اس موقع کو غنیمت جانیں ورنہ ایسا دن بھی آنے والا ہے جب خداوند متعال مجرمین سے خطاب کرکے فرمائے گا کہ: «لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ» ”، چلے جاؤ اور آج بس تم گریہ و زاری مت کرو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے «انکم منا لاتنصرون». (آج کے دن تمہیں ہم سے کوئی مدد نہیں ملے گی) یہ موقع زندگی اور حیات کا موقع ہے جو خدا کی طرف بازگشت اور لوٹنے کے لئے مجھے اور آپ کو دیا گیا ہے؛ اور پورے سال میں کچھ خاص ایام بہترین مواقع ہیں اور ان ہی ایام میں سے ماہ رمضان کے ایام بھی ہیں اور ماہ رمضان کے ایام میں شب قدر ہے اور شب قدر بھی ان تین راتوں میں سے ایک ہے.

مرحوم محدث قمی کی روایت میں ہے کہ سوال ہوا کہ "ان تین راتوں (انیسویں، اکیسویں اور تئیسویں کی راتوں) میں کونسی رات شب قدر ہے؟

تو معصوم (ع) نے فرمایا: کس قدر آسان ہے کہ انسان دو راتوں (یا تین راتوں) کو شب قدر کا خیال رکھے؛ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ تم تین راتوں میں تردد کا شکار ہوجاؤ، اور پھر تین راتوں کا عرصہ کتنا دراز ہے؟، کتنے بزرگ تھے جو ابتدائے رمضان سے انتہائے رمضان تک کو شبہائے قدر فرض کرلیا کرتے تھے اور اور تمام راتوں کو شب قدر کے اعمال بجالایا کرتے تھے. (4)

ایک مختصر سا جملہ لیلة القدر کی اہمیت کے سلسلے میں عرض کرتا ہوں؛ علاوہ ازیں کہ قرآنی آیت «لیلة‌‌القدر خیر من الف شهر»سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ کی قدر پیمائی اور تقویم کی لحاظ سے یہ ایک رات ہزار مہینوں کے برابر ہے (بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے) ہم جو دعا ان ایام میں پڑھتے ہیں اس میں ماہ رمضان کے لئے چار خصوصیات ذکر ہوئی ہیں:

1. اس مہینے کے دنوں اور راتوں کی تفضیل و تعظیم ہے دوسرے مہینوں کے دنوں اور راتوں پر

2. اس مہینے میں روزے کا وجوب

3. اس مہینے میں قرآن کا نزول

4. اس مہینے میں لیلة القدر کا ہونا

یعنی اس دعائے مأثور میں ماہ رمضان کو فضیلت دینے میں لیلة القدر کے کردار کو نزول قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ شب قدر کی قدردانی کرنی چاہئے اور اس کی فضیلتوں سے استفادہ کرنا اور فیض اٹھانا چاہئے؛ اس کے لمحوں کو غنیمت سمجھنا چاہئے ...(5)

 

شب قدر علامہ طبا طبائی(رہ) کی نظر میں

شب قدر یعنی چہ؟

قدر سے مراد تقدیر (مقدر کرنا) اور تخمین(اندازہ لگانا) ہے۔ خداوند متعال شب قدر میں ایک سال کے امور جیسے موجودات کی زندگی، موت، رزق، روزی، سعادت اور شقاوت کو مقدر کرتا ہے۔

شب قدر کون سی رات ہے؟

قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت دکھائی نہیں دیتی جو واضح طور پر بیان کر رہی ہو کہ شب قدر کون سی رات ہے۔ لیکن چند آیتوں کو جمع کر کے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے۔ قرآن کریم سورہ دخان کی تیسری آیت میں ارشاد فرما رہا ہے: " انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ " اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے اور دوسری طرف سے فرماتا ہے: "شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن" (بقرہ،۱۸۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے۔ اور سورہ قدر میں ارشاد ہوا ہے: انا انزلناہ فی لیلۃ القدر۔(قدر،۱) ان تمام آیتوں کو جمع کر کے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک مبارک شب جسے شب قدر کہتے ہیں میں نازل ہوا ہے پس شب قدر ماہ رمضان میں ہے۔ لیکن یہ کہ ماہ رمضان کی کون سی رات، شب قدر ہے؟ قرآن کریم میں اس سلسلے میں کچھ نہیں ملتا۔ صرف روایات کے ذریعے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سی رات شب قدر ہے۔

آئمہ اطہار(ع) سے مروی بعض روایات کے اندر شب قدر کو ماہ رمضان کی انیسویں، اکیسویں اور تئیسویں شبوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ بعض دوسری روایات میں اکیسویں اور تئیسویں میں سے کسی ایک کو اور بعض نے شب تئیسویں کو معین کیا ہے۔ اور دقیق طور پر شب قدر کو معین نہ کرنے کی وجہ اس رات کی اہمیت اور عظمت ہے تا کہ لوگ اپنے گناہوں سے اس رات کی عظمت کو پامال نہ کریں۔

پس آئمہ معصومین (ع) کی روایات کی روشنی میں شب قدر ماہ مبارک کی راتوں میں سے ایک رات ہے چاہے وہ انیسویں ہو، یا اکیسویں یا تئیسویں۔ لیکن اہلسنت سے منقول روایات کے اندر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو قابل رفع نہیں ہے لیکن ان کے درمیان مشہور یہ ہے کہ شب قدر ماہ رمضان کی ستائیسویں رات ہے۔ اور اس رات قرآن نازل ہوا ہے۔

ہر سال شب قدر کی تکرار

شب قدر پیغمبر اسلام (ص) کے دور کی کسی رات اور سال سے مخصوص نہیں ہے جس میں قرآن نازل ہوا بلکہ سالوں کے تکرار ہونے کے ساتھ ساتھ شب قدر بھی تکرار ہوتی ہے یعنی ہر سال ماہ رمضان میں شب قدر ہوتی ہے کہ جس میں آئندہ سال کے تمام امور مقدر کئےجاتے ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ:

اولا: قرآن کریم کا یکجا طور پرچودہ سو سال پہلے شب قدر میں نازل ہونا ممکن ہے لیکن قیامت تک کے تمام امور کو ایک ہی رات میں مقدر کرنا معنی نہیں رکھتا۔

ثانیا: سورہ دخان کی چھٹی آیت " فیھا یفرق کل امر حکیم" میں کلمہ یفرق جو مضارع کا صیغہ ہے استمرار اور دوام پر دلالت کرتا ہے اور اسی طرح سورہ قدر کی چوتھی آیت " تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر" میں بھی کلمہ تنزل مضارع ہے اور استمرار اور اس کے ہر سال تکرار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

ثالثا: اس آیت" شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن" (بقرہ، ۱۸۵) سے بھی بظاہر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب تک ماہ رمضان تکرار ہوتا رہے گا شب قدر بھی تکرار ہوتی رہے گی۔ پس شب قدر ایک رات میں منحصر نہیں ہے بلکہ ہر سال تکرار ہوتی ہے۔

تفسیر برہان میں شیخ طوسی نے ابوذر سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابوذر نے کہا: میں نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ کیا شب قدر وہ شب ہے جو صرف انبیاء کے زمانے میں رہی ہے اور اس میں ان کے اوپر احکام نازل ہوتے رہے ہیں اور جب مر جاتے رہے ہیں تو شب قدر ختم ہو جاتی رہی ہے ؟ فرمایا: "نہ بلکہ شب قدر قیامت تک باقی رہے گی" ۔

شب قدر کی عظمت

سورہ قدر میں ہم پڑھتے ہیں" انا انزلناہ فی لیلۃ القدر و ما ادریک ما لیلۃ القدر ، لیلۃ القدر خیر من الف شھر" خداوند متعال ممکن تھا شب قدر کی عظمت کی خاطر یہ فرماتا وما ادریک ما ھی ۔ ھی خیر الف شھر۔ یعنی بجائے اس کے کہ دوسرے اور تیسرے مقام پر لیلۃ القدر کا کلمہ استعمال کرتا ضمیر کو لاتا جو اس رات کی عظمت پر دلالت کرتی۔ اور اس طریقے سے اس رات کی عظمت کو بیان کرتا کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ لیکن خدا نے ضمیر کا استعمال کرنا پسند نہیں کیا اور تینوں جگہ خود کلمہ لیلۃ القدر کا استعمال کر کے اس کی عظمت کو چار چاند لگا دئے۔ اور یہاں اس کے ہزار مہینوں نے بہتر ہونے سے مراد عبادت کے لحاظ سے بہتر ہونا ہے چونکہ قرآن کریم کی آیات سے بھی یہی چیز میل کھاتی ہے۔ چونکہ قرآن کریم کی تمام عنایات اس چیز کے لیے ہیں کہ لوگ خدا کے نزدیک ہوں ۔لہذا اس رات کی عبادت اور اس کو احیاء کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔

امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا: کیسے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ؟

فرمایا: شب قدر میں عبادت کرنا ہزار مہینوں میں عبادت کرنے سے بہتر ہے کہ جن مہینوں میں شب قدر نہ ہو۔(6)

 

شب قدر ڈاکٹر شریعتی کی نگاہ میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انا انزلناه في ليلة القدر * و ما ادريك ما ليلة القدر * ليلة القدر خير من الف شهر * تنزل الملائكه والروح* فيها باذن ربهم من كل امر * سلام هي حتي مطلع الفجر."

بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے اور آپ کیا جانیں شب قدر کیا ہے شب قدر ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور لے کر نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے۔

تاریخ ایسا طولانی اور تاریک، خاموش اور غمناک قبرستان ہے جس نے اپنی آغوش میں صدیوں کے حادثات و واقعات کو جگہ دی ہے جس نے نسل در نسل انسانوں کو جنم لینے کا موقع دیا ہے جس میں افکار اور آمال، تمدن اور ہنر نے عروج پایا ہے۔

تاریخ کی ان گزشتہ ظلمانی راتوں میں سے ایک رات ایسی آئی جس نے تمام ظلمتوں کے پردوں کو اٹھا دیا ،تاریکیوں کوچھٹ دیا، نیندوں کو بیداری میں تبدیل کر دیا اور انسانوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجوڑ دیا۔ اور ان کےدلوں کی گہرایوں میں انقلاب پیدا کر دیا۔

وہ رات جو ڈوبنے والوں کے لیے کشتی نجات، گمراہ ہونے والوں کے لیے چراغ ہدایت، خواب غفلت میں سونے والوں کے لیے بیداری کی گھنٹی، شقاوت اور بدبختی میں گرے افراد کے لیے سعادت اور خوشبختی کا سرمایہ، اور ہر جن و بشر کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ ظاہر ہے اس رات میں اللہ کے فرشتے روح القدس کے ہمراہ زمین کی سیر کرتے ہیں اور اس قبرستان میں مردہ افراد کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں۔

یہ شب، شب قدر ہے۔۔۔۔

تمام موجودات کی تاریخ یہ لگاتار گزر جانے والے مہینے ہیں یہ پے در پے آنے والے سال ہیں یہ صدیاں ہیں جو خاموشی سے گزر جاتی ہیں اور کوئی پیغام ان کے لب پر نہیں ہوتا۔ صرف گزر جاتی ہیں اور انسانوں کو بوڑھا کر دیتی ہیں اور بس۔ اس طولانی صف کے اندر صرف ایک رات ایسی آتی ہے جو تاریخ ساز ہوتی ہے جو نئے انسان پیدا کرتی ہے وہ رات جو خدائی فرشتوں کی بارش کراتی ہے۔ وہ رات جو بے روح پیکر میں روح پھونکتی ہے۔ وہ رات شب قدر ہے۔

وہ رات جو قسمت ساز ہے جو ایک انسان کی تقدیر کو بدل دیتی ہے اور ایسی صبح کا آغاز کرتی ہے کہ جو ایک نئی تاریخ کی بنیاد ہوتی ہے۔ یہ رات ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے یہ مشعر الحرام کی وہ رات ہے جس کی صبح عید ہوتی ہے جس کی صبح کو شیطان پر سنگباری کی جاتی ہے ۔

جس طریقے سے تئیس سالہ مرسل اعظم(ص)کا دور رسالت کئی تئیس صدیوں سے بہتر ہے اسی طرح یہ رات ہزاروں راتوں سے بہتر ہے۔ جس طرح ظہور اسلام نے انسانوں کے مردہ سماج اور تمدن میں زندگی کی نئی روح پھونکی اسی طرح یہ رات انسانوں کے مردہ باطن میں تازہ روح پھونکتی ہے۔

شب قدر

وہ رات جس میں باران رحمت ہوتی ہے جس رحمت کا ہر قطرہ ایک فرشتہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ وہ رحمت جو اس خشک شدہ کھیت میں سوکھے درختوں پر خراب شدہ پھل و پھول پر برستی ہے اور ہر چیز کو سر سبز و شاداب بنا دیتی ہے۔ کتنا بد نصیب ہے وہ شخص جو اس باران رحمت میں رہے اور اس کا ایک قطرہ بھی اپنے بدن پڑتے ہوئے احساس نہ کرے ۔ ہر انسان کی عمر ایک تاریخ ہے کہ جس میں پے در پے بے روح اور تکراری مہینے گذر جاتے ہیں لیکن کبھی کبھی شب قدر آتی ہے کہ جس میں انسان کے افق وجودی سے فرشتوں کی بارش ہوتی ہے اور اس رات روح القدس جبرئیل امین اللہ کا پیغام لے کر اس پر نازل ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک رسالت اور بعثت وجود پاتی ہے کہ جس کے ساتھ ساتھ اس کے لیے ابلاغ بھی ہے اور انذار بھی، جنگ و جہاد بھی ہے اور ہجرت اور ایثار بھی۔

ختمی مرتبت(ص) کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ لیکن ہر علم و آگاہی وارث پیغمبر ہے۔ اور ہر بیداری ایک نئی رسالت ہے جو اس شب قدر میں انسانوں کو حاصل ہوتی ہے۔

سلام ہواس شب قدر پر ، وہ شب قدر جو ہزار مہینوں سے ہزار سالوں اور ہزار صدیوں سے بہتر ہے سلام ہو اس پر درود ہو اس پر۔۔۔ اس لمحہ تک جب تک سورج اپنی آنکھ کھولتا۔ جب تک سورج اپنے سرخ پھول نچھاور کرتا۔ اس رات کی صبح تک سلام اور سلامتی۔(7)

حوالہ جات:

1. اسلامی جمہوریہ ایران کے کارگزاروں اور حکام سے خطاب _ عید سعید فطر 1410 ہجری - 27 اپریل 1990.

2. 19 دی (9 جنوری) کو شاہ کے خلاف قم کے علماء اور طلباء کی تحریک کے حوالے سے قم کے علماء، طلباء اور عوام سے خطاب.

3. ہفتۂ بسیج کی مناسب سے بسیجی رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب - نومبر 1997۔

4. خطبات جمعہ تہران. 16 جنوری 1998۔

5. خطبات جمعہ تہران 16 نومبر 2007.

6: مجموعہ آثار جلد ۲، دکتر علی شریعتی، خود سازی انقلابی

7: تفسیر المیزان

علی (ع) پیکر عدل و انسانیت

اس شب آسمان میں غمگيں ستارے بہم مل گئے تھے اور اس بلندی سے کوفے کے ایک گھر کا نظارہ کر رہے تھے ۔ کوفے کی زمین غم و اندوہ سے گریہ کناں تھی اور شہر کی دیواروں پر اضطراب چھایا ہوا تھا ۔ شب کی آرزو تھی کہ صبح نہ ہو اورسورج دوبارہ طلوع کرنے سے شرمسار تھا ۔ اس شب حضرت علی (ع) دیگر شبوں سے زیادہ مطمئن نظر آرہے تھے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی ام کلثوم کے گھر کچھ افطار تناول کیا اور پھر عبادت الہی میں مصروف ہوگئے ۔ کبھی آسمان کی جانب دیکھتے اور کہتے ، خدا کی قسم میں جھوٹ نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے یقینا آج کی شب وہی شب ہے کہ جس کا مجھ سے وعدہ کیا گيا ہے۔

حضرت علی (ع) انییسویں ماہ رمضان کو نماز صبح کی ادائیگی کے لئے مسجد کی جانب گئے جہاں اپنے وقت کاسب سے شقی ترین شخص ابن ملجم مرادی زہر میں بجھی تلوار لئے امام ( ع) کی آمد کا منتظر تھا تاکہ تاریخ انسانیت کے سب سے عظیم انسان کے فرق مبارک کو شگاف کرے ۔ چنانچہ ابن ملجم ملعون نے انیسویں کی شب میں آپ کے سر پر ضربت لگائی اور دو روز بعد اکیس ماہ رمضان سن چالیس ہجری قمری کو آپ اپنی دیرینہ آرزو یعنی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے ۔

حضرت علی (ع) خضوع و خشوع کے عالم میں نماز صبح کی ادائیگي میں مشغول تھے اور اپنے خدا سے رازو نیاز کر رہے تھے اور جیسے ہی آپ نے اپنا سر ، سجدۂ معبود میں جھکایا تو شقی ابن ملجم نے اپنی تلوار اٹھائی اور اس مرد مجاہد کے سر پر ضرب لگائی کہ جس کے ذوالفقار کی چمک سے دشمنان اسلام کے دل لرز اٹھتے تھے ۔ اچانک زمین و آسمان مین تلاطم برپا ہوا اور اس تلخ واقعے سے خدا کے مومن بندوں کے دل غم واندوہ سے لبریز ہو گئے ۔ جبرئیل امین نے زمین و آسمان کے درمیان ندا دی ۔ خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے ۔ آسمان کے ستارے تاریک ہوگئے اور پرہیزگاری کی نشانیوں کا خاتمہ ہوگيا ۔ خدا کی قسم ایمان و ہدایت کی مضبوط زنجیر ٹوٹ گئی ۔ محمد (ص) کے چچازاد بھائی اور ان کے وصی کی شہادت ہوگئی ۔ ہاں اب ستاروں کی بینائی ، علی کے عابدانہ آنسوؤں کا نظارہ نہیں کرسکیں گی اور آسمان کی سماعت ان کی عاشقانہ مناجات نہيں سن سکے گي ۔ تاریخ کے عظیم مرد مجاہد حضرت علی (ع) کی المناک شہادت کی مناسبت سے تمام حق پسندوں اور انصاف پسندوں کی خدمت میں دلی تعزیت پیش کرتے ہیں ۔

حضرت علی (ع) کادل ، عشق و محبت الہی سے سرشار تھا۔ اکثر دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور راتوں میں طولانی نمازیں پڑھتے اور اپنے خالق یکتا سے سے مناجات کرتے تھے ۔ منقول ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا جب سے میں نے پیغمبراکرم (ص) سے سنا ہے کہ نماز شب ، نور ہے میں نے نماز شب کو ترک نہیں کیا ۔ کسی نے آپ سے سوال کیا کہ حتی جنگ صفین کی شب میں بھی ؟ تو حضرت نے فرمایا ہاں حتی اس شب بھی میں نے نماز شب ترک نہیں کی ۔

مولود کعبہ حضرت علی (ع) کی تربیت ، دعا و مناجات کے ماحول میں ہوئی تھی ۔ وہ بچپن سے ہی غار حراء میں رسول خدا کی عارفانہ مناجاتیں سننے کے عادی تھے اور نوجوانی میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ مشرکین کے مجمع میں نماز ادا کرتے تھے ۔ رات کے نصف حصے میں مدینے کے اطراف کے نخلستانوں میں علی (ع) کے آہ و نالے سے معنوی فضا قائم ہوجاتی تھی اور اپنے معبود سے ان کے عاشقانہ راز و نیاز سے مسجد رسول خدا کی رونق دوبالا ہوجاتی ۔

حضرت علی (ع) کے نیک اخلاق زباں زد خاص وعام تھے ۔ تاریخی منابع و مآخذ نے مولا علی (ع) کے دور جوانی کے حالات کو انتہائی فرحت ونشاط ، شادابی اور فعالیت سے سرشار قرار دیا ہے ۔غور طلب بات تو یہ ہےکہ آپ کے دشمن جب آپ ميں کسی عیب کو ظاہر نہیں کرسکے تو ان کے خوش اخلاق ہونے اور متبسم ہونے کو ان کے لئے ایک عیب شمار کرنے لگے ۔ حضرت علی (ع) کے اصحاب و انصار آپ کے اخلاق حسنہ کے بارے مین کہتے ہیں وہ ہمارے درمیان ہم میں سے ہی ایک تھے اور انتہائی متواضع اور منکسرا لمزاج تھے ۔ ایک دن معاویہ نے حضرت علی (ع) کے ایک قریبی ساتھی قیس بن سعد سے کہا کہ خدا علی پر رحمت نازل کرے کہ وہ بہت خوش مزاج اور متبسم تھے ۔ قیس نے کہا یقینا بالکل ایسا ہی تھا اور رسول خدا بھی اپنے ساتھیوں اور اصحاب کے ساتھ خوش مزاجی سے پیش آتے تھے البتہ تو اے معاویہ بظاہر یہ بتانا چاہتا ہے کہ علی کی مدح کررہا ہے لیکن اس سے تو آنحضرت میں عیب نکالنا چاہتا ہے جبکہ اس تبسم اور خوش مزاجی کے بعد بھی امیرالمومنین (ع) کی ہیبت سب سے زیادہ تھی اور یہ ہیبت و جلال ، تقوی کے سبب تھا نہ کہ وہ ہیبت جو تو شام کے اراذل و اوباش اور کم ذات لوگوں کے دلوں ميں رکھتا ہے ۔

حضرت علی (ع) یتیموں اور غمزدہ افراد کے ساتھ بہت مہربانی اور محبت سے پیش آتے تھے ۔ ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور ان کا خیال رکھتے تھے آپ نے یتیموں کے سلسلے ميں انتہائی سنجیدہ نصیحت فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں تمہیں خدا کی قسم یتیموں کو فراموش نہ کرنا ، ان کے لبوں کو غذا کے انتظار میں نہ رکھنا ، خیال رہے کہ وہ بھوکے نہ رہ جائیں اور تمہاری موجودگي میں ان کے حقوق ضائع نہ ہوں ۔ ایک دن امام علی (ع) کا ایک دوست کچھ مقدار میں شہد اور انجیر حضرت کے لئے لایا ۔ حضرت علی (ع) نے حکم دیا کہ اسے یتیمون کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور پھر آپ بنفس نفیس ان کے پاس بیٹھ گئے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے شہد اور انجیر ان کےمنھ میں دیتے تھے ۔ لوگوں نے عرض کی کہ آپ کیوں یہ کام کر رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا " امام یتیمون کا باپ اور ان کا سرپرست ہوتاہے میں یہ کام اس لئے انجام دے رہا ہوں کہ تاکہ ان میں بے پدری کا احساس نہ ہونے پائے " ابو الطفیل کہتےہیں حضرت علی (ع) اپنے دور حکومت میں یتیم و مسکین پر خاص توجہ رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے ارد گرد بہت سے یتیم بچوں کو جمع کیا اور ان کے لئے ایک بہترین دسترخوان بچھایا اور اس پر انواع واقسام کے کھانے چن دیئے اور لذیذ لقمے ان کے منھ میں ڈالنے لگے ۔ یہ منظر اس حد تک متاثر کرنے والا اور پر کشش تھا کہ بعض اصحاب نے یہاں تک کہہ دیا کہ اے کا ش میں یتیم ہوتا اور اس طرح سے علی (ع) کے لطف وکرم میں شامل ہوجاتا ۔

بعض انسان اپنے دوستوں کے اجتماع میں خوش اخلاق اور بذلہ سنج ہیں جبکہ اہل خانہ کے درمیان ان کا رویہ اور اخلاق بالکل بدلا ہوا ہوتا ہے ۔ لیکن بلند و باعظمت افراد ، اپنے اعلی اخلاقی فضائل کی بنیاد پر ہمیشہ خداپسندانہ رویہ رکھتے ہیں ۔ متعدد روایات کے مطابق دو الہی انسانوں حضرت امیر (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ازدواجی زندگي تمام انسانوں کے لئے بہترین نمونۂ عمل ہے کیوں کہ ان میں سے دونوں کی ذات ، ایثار و فداکاری اور دوسروں کو معاف کرنے کے اعتبار سے بے مثال تھی ۔ اور اس سلسلے میں ہمارے مولا و آقا حضرت علی کا یہی قول کافی ہے کہ آپ نے فرمایا " خدا کی قسم ہرگز فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کبھی غصہ نہيں دلایا اور ان کو کبھی ایسا کام انجام دینے پر مجبور نہیں کیا جس کی جانب وہ مائل نہيں تھیں یہاں تک کہ اپنے معبود حقیقی سے جاملیں ۔ اور اسی طرح فاطمہ نےبھی مجھے کبھی غصہ نہیں دلایا اور میرے حکم کی مخالفت نہیں کی ۔ميں جب بھی انہں دیکھتا تو میرے سارے غم واندوہ برطرف ہوجاتے تھے ۔

حضرت علی (ع) شیر بیشۂ شجاعت اور میدان جنگ کے عظیم مجاہد تھے ۔ انہوں نے کبھی دشمن کا مقابلہ کرنے سے فرار نہیں کیا اور دل میں خوف کو کبھی جگہ نہیں دی ۔ جب مولا سے سوال کیا گیا کہ کیوں آپ کی پشت پر زرہ پر نہيں ہے ؟ تو فرمایا ميں ہرگز دشمن کو پیٹھ نہیں دکھاتا تاکہ دشمن میری پیٹھ پر ضرب لگا سکے ۔

جنگ احزاب یا جنگ خندق میں ایک بہت بڑے بہادر عمرو بن عبدود سے آپ کا سامنا ہوا اور اس نے پوری طاقت سے حضرت علی پر حملہ کیا ۔ حضرت علی (ع) نے مشرکوں کے اس پہلوان کو زمین پر دے مارا اور جب آپ نے چاہا کہ اسے ہلاک کردیں تو اس لعین نے مولا کے چہرے پر آب دھن پھینکا اور ان کا غصہ بھڑکا دیا لیکن علی (ع) دشمن کی اس حرکت کے بعد ، اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر چند قدم چلنےکے بعد دوبارہ لوٹے اور پھر اسےقتل کردیا ۔

در حقیقت علی (ع) فریضۂ الہی کی انجام دہی میں خدا کے سوا کسی کو نہيں پہچانتے تھے اور اسی بناء پر دشمن کی توہین آمیز حرکت کے بعد کچھ لمحوں کے لئے توقف کیا تاکہ عمرو بن عبدود کا قتل رضائے خدا کے لئے ہو ، اس میں ذاتی انتقام شامل نہ ہونے پائے ۔ " امام علی ، عدل انسانی کی آواز " نامی کتاب کے عیسائی مورخ جارج جرداق لکھتے ہیں اے دنیا تیرا کیا بگڑ جاتا اگر تو اپنی ساری طاقت اس میں صرف کرتی کہ ہر زمانے ميں عقل و قلب و زبان اور شمشیر کے اعتبار سے ، علی (ع) جیسی شخصیت معاشرے کے حوالے کرتی ۔

حضرت علی (ع) کی شخصیت اور آپ کا طرز زندگي تمام انسانیت کےلئے مشعل راہ ہے ۔ اس عظیم نوری مخلوق کی ممتاز صفات اور خصوصیات کی شناخت کے ساتھ ہی ہم خاکی بندوں کی زندگي میں ایک تعمیری تبدیلی رونماہوتی ہے اور کمال ، نیز قرب الہی کے حصول کا راستہ ہموار ہوتاہے ۔ رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای حضرت امام علی کی توصیف میں فرماتےہیں " امیرالمومنین حضرت علی (ع) سب کے لئے ایک مکمل نمونہ ہیں ۔ ان کی کارناموں سے بھری جوانی ، جوانوں کے لئے نمونۂ عمل ہے ۔ ان کی حکومت کا عدل و انصاف ، حکمرانوں کے لئے عملی نمونہ ہے ۔ ان کی سراپامجاہدانہ اور ذمہ دارانہ زندگي ، تمام مومنین کے لئے مشعل راہ ہے ۔ ان کے حکمت آمیز بیانات و کلمات اور ان کے یادگار دروس علما ، دانشوروں اور روشن خیال افراد کے لئے نمونۂ عمل ہیں ۔

مصر، بڑے پیمانے پرگرفتاریاںمصر میں معزول صدر مرسی کی حمایت میں نکالی جانے والی پر مصری فورسز کی فائرنگ سےجہاں ہلاک ہونے والوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے وہیں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ،اخوان المسلمین نے معزول صدر محمد مرسی کی حمایت میں ریلی نکالی۔ اخوان المسلمین کے ترجمان کے مطابق پولیس نے ریلی پر براہ راست فائرنگ کردی جس سے120سے زائد افراد ہلاک اور 4500 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے۔ صدر مرسی کے حامیوں اور فورسز کے درمیان ،ایئر پورٹ کے قریب جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کئے۔

فوج کی حمایت میں ملین مارچ کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں مفتیوں کی جنگ

مصر - اخوان المسلمین اور سلفیوں کے معنوی باپ یوسف قرضاوی جو متعدد بار مصر کے معزول صدر مرسی کے خلاف جنرل السیسی کے اقدام کو فوجی بغاوت کا نام دے کر حرام قرار دے چکے ہیں آج جمعہ کے دن جنرل السیسی کی طرف سے فوج کے حمایت میں عوام کے ملین مارچ کرنے کو حرام قرار دیتے ہوئے کہا: جنرل السیسی کےکہنے پر لوگوں کا سڑکوں پر نکلنا اور فوج کی حمایت کرنا حرام ہے۔

قرضاوی کہ جنہیں ان کے سابقہ کردار کی بنا پر ناٹو کا مفتی کہا جاتا ہے کئی سالوں سے قطر میں پناہ گزیں ہیں انہوں نے الجزیرہ ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے معزول صدر مرسی کے خلاف جنرل السیسی کے حکم کی تنقید کی اور لوگوں کا مصر کی سڑکوں میں فوج کی حمایت میں نکلنا حرام قرار دیا۔

ادھر مصر کی اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ احمد الطیب نے مصر کے سرکاری ٹی وی چینل سے بیان جاری کرتے ہوئے تاکید کی کہ الازھر مصر کے تمام عوام سے مطالبہ کرتی ہے کہ بغیر کسی تشدد کے فوج کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئیں۔

شیخ الازھر نے اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ فوج کے جنرل نے جمعہ کے دن عوام کو وحدت، یکپارچگی اور یکجہتی کے لیے دعوت دی ہے ہم بھی انکی دعوت کی تائید کرتے ہیں اور عوام کے سڑکوں پر نکلنے کو واجب سمجھتے ہیں۔

شیخ الطیب نےیہ بیان اس وقت جاری کیا جب خود الازھر کے اندر بعض بزرگ شیوخ نے احمد الطیب کی مخالفت کر کے جنرل السیسی کی حمایت میں مظاہرے کرنے کو حرام قرار دیا۔

شیخ حسن شافعی نے تاکید کی: فوج کی حمایت میں ملین مارچ ملک میں ایک نیا فتنہ کھڑا کرے گا اور یہ فتنہ و فساد صرف ان لوگوں کے حق میں بہتر ہو گا جو مصر کے خیر خواہ نہیں ہیں۔

مصر میں آج ہونے والے مظاہروں کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں بعض سعودی وہابی مفتیوں کے فتوے بھی سامنے آئے ہیں ۔شیخ محمد الغریفی نے مصر میں فوج کے خلاف جہاد کو واجب قرار دیا۔

عربی ممالک میں ملاوں کے یہی فتوے اس بات کا باعث بنے ہیں کہ ان ملکوں میں کئی بے گناہ عوام دھشتگردی کی بھینٹ چڑھ جائیں۔ شام میں حکومت کے خلاف شیخ قرضاوی اور دیگر ہمنوا مفتیوں کے فتووں نے کتنے مسلمانوں کا خون کیا اور اب مصر میں لوگوں کو اسی بات پر اکسایا جا رہا ہے۔

صہیونیوں کی تاریخ ظلم سے بھری ہوئی ہے :محمد مختار مفلح

افغانستان کی تحریک اسلامی کے رہنما نے فلسطین کے مظلوم عوام کے قتل عام میں صہیونی حکومت کے جرائم کے مقابلے میں خاموشی کو انسانیت کے خلاف بڑی خیانت قرار دیا۔ مولوی محمد مختار مفلح نے کابل میں ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا سے گفتگو میں فلسطین کے مظلوم عوام کے خلاف صہیونیوں کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صہیونیوں نے فلسطینیوں کی سرزمین میں اپنی غیر قانونی حکومت کے قیام سے لیکر اب تک فلسطینیوں کے خلاف کسی قسم کا ظلم و ستم کرنے سے دریغ نہیں کیا اور ان کی تاریخ ظلم و بربریت سے بھری ہوئی ہے۔

 

افغانستان کی تحریک اسلامی کے رہنما نے اسلام فوبیا کو صہیونیوں کی ایک اور شرم آور پالیسی قرار دیا اور کہا کہ صہیونیوں نے اسلامی آثارکو نابود کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کردیا ہے، اس لئے عالم اسلام اور حریت پسندوں کی ذمہ داری ہے کہ صہیونی سازشوں کے مقابلے میں متحد ہوجائیں اور صہیونیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئیں۔ مولوی مفلح نے مزید کہا کہ عالم اسلام کو مشرق وسطی کے علاقے میں اسرائیل جیسے کینسر کے مقابلے میں خاموش نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اس غیرقانونی حکومت کے حکمرانوں نے اسلام کو نابود کرنے کے لئے وسیع سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔

رہبر معظم سے ملک کے بعض شعراء اور فارسی ادب کے اساتذہ کی ملاقات ۲۰۱۳/۰۷/۲۳

کریم اہلبیت حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت العظمی امام خامنہ ای سے فارسی زبان و ادب کے اساتذہ، ہنر و ثقافت کے شعبوں سے متعلق افراد ، ملک کے ممتاز و جوان شعراء اور افغانستان، تاجیکستان اور ہندوستان کے بعض فارسی زبان کے شعراء نے ملاقات کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ملک میں شعر گوئی کے بارے میں ترقی اور آگے کی سمت شاندار حرکت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شعر ایک ممتاز اور نمایاں ہنر ہے اور ملک کے اصلی مسائل اور انقلاب اسلامی کی الہام بخش اور تاریخی حرکت کے سلسلے میں شعراء کے دوش پر سنگین ذمہ داری عائد ہے اور انھیں چاہیے کہ وہ اس عظیم اور مایہ ناز ہنر کو اپنی عظیم ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی راہ میں صرف کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شاعر کے" انسانی احساسات و جذبات" ،" پریشانیوں "، اور فکر و حکمت کو شعر کی تشکیل کی تین فصلیں قراردیتے ہوئے فرمایا: شاعرانہ اور عاشقانہ احساسات و جذبات کا بیان اور اسی طرح زندگی میں جاری پریشانیوں کا بیان شعر کے دو ایسے حصے ہیں جو باقاعدہ طور پر پہچانے جاتے ہیں لیکن ان دو حصوں میں افراط کے ذریعہ حکمت اور فکر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم سے ملک کے بعض شعراء اور فارسی ادب کے اساتذہ کی ملاقات ۲۰۱۳/۰۷/۲۳

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سعدی ، حافظ اور صائب جیسے فارسی زبان کے بزرگ شعراء کے اشعار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان بزرگ شاعروں کے اشعار میں احساسات و جذبات اور پریشانیوں کا ذکر موجود ہے لیکن ان کے اشعار میں حکمت و فکر بھی پوری طرح چھائی ہوئی ہے اور حقیقت میں فکر و حکمت پر مبنی شعر ہی شاعر کو بام عروج تک پہنچاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: شعر میں اسلامی معارف، اسلامی طرز زندگی، حکیمانہ فکر اور انسانوں کی تربیت کے ضروری مسائل پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم سے ملک کے بعض شعراء اور فارسی ادب کے اساتذہ کی ملاقات ۲۰۱۳/۰۷/۲۳

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے کے مسائل کے بارے میں شاعر کو ایک ذمہ دار فرد قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ایرانی قوم کی الہام بخش اسلامی تحریک دنیا اور عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل بن گئی ہے اور بین الاقوامی سامراجی اور منہ زور طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی استقامت و پائداری کے بارے میں شعراء اپنے اشعار کے ذریعہ اپنا اہم فرض ادا کریں۔

رہبر معظم سے ملک کے بعض شعراء اور فارسی ادب کے اساتذہ کی ملاقات ۲۰۱۳/۰۷/۲۳

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے آٹھ سالہ جہاد ، اسلامی معاشرے کی تعمیر کے لئے جہاد، اسلامی طرز زندگی کے سلسلے میں جہاد ، مسئلہ فلسطین، اسلامی بیداری اور قومی طاقت کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں جہاد کو دوسرے اہم موضوعات قراردیا اور انھیں شعر کے قالب میں بیان کرنے پر تاکید کی۔

رہبر معظم سے ملک کے بعض شعراء اور فارسی ادب کے اساتذہ کی ملاقات ۲۰۱۳/۰۷/۲۳

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے شعری مجموعہ کو بچوں اور جوانوں کے شعر پربھی توجہ مبذول کرنے کی سفارش کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بچوں کے شعرکا اسلامی حکمت اور سیاسی مفاہیم پر مشتمل ہونا بہت ضروری ہے اور جوانوں کی صلاحیتوں کی پرورش کے ساتھ فارسی اشعار میں اسلامی اور ایرانی حکمت کا بیان بھی بہت ضروری ہے۔

رہبر معظم سے ملک کے بعض شعراء اور فارسی ادب کے اساتذہ کی ملاقات ۲۰۱۳/۰۷/۲۳

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیان سے قبل بعض شعراء نے اخلاقی، اسلامی ، سیاسی ، انقلابی اور سماجی مضامین پر مشتمل شعر پیش کئے۔

اس ملاقات کے آغاز میں شعراء نے صمیمی فضا میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ قریب سے گفتگو کی۔

حاضرین نے نماز مغرب اور عشاء رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی امامت میں ادا کی اور اس کے بعد رہبر معظم کے ہمراہ روزہ افطار کیا۔