
Super User
امریکی ناقابل اعتماد اور غیر منطقی ہیں - رہبر انقلاب اسلامی
۲۰۱۳/۰۷/۲۱ – رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں ملک کے مختلف مسائل میں اقتدار اورانتظامی ذمہ داریوں کی منتقلی کے وقت کو حضرت امام خمینی (رہ) کے اہداف کے استمرار کے لئے مبارک وقت قراردیا اور ملک کے موجودہ اور تاریخی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہووئے فرمایا: اقتصاد اور علمی ترقیات و پیشرفت کا سلسلہ تمام حکام کی ترجیحات میں شامل رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کے مہینے کو ایک بار پھر درک کرنے اور اس کے فیوض و برکات سے استفادہ کرنے پر اللہ تعالی کا سپاس و شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: انسان کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ تعالی کی ہر مدد و نصرت اور اس کے فضل و کرم کے بعد اللہ تعالی کے ساتھ توسل، تضرع و زاری اور عجز و انکساری میں اضافہ کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے لئے اللہ تعالی کی پیہم اور مسلسل نصرت اور مددکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے حالیہ صدارتی انتخابات میں سیاسی رزم و جہاد خلق کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالی کی مدد و نصرت کے آخری جلوے تھے اور اس عظیم سیاسی جہاد کے آثار بتدریج مختلف شعبوں میں نمایاں ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کی عظیم سیاسی حرکت اور رمضان المبارک کے باہمی ملاپ و تقارن کو اللہ تعالی کی توفیق قراردیتے ہوئے فرمایا: رمضان کا مہینہ اللہ تعالی کی رحمت، مغفرت ، توبہ اور انابہ کا مہینہ ہے اور تمام اعمال ، دعاؤں اور برکات کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں انسان کے زیادہ سے زیادہ تقرب اور تضرع و زاری کی راہ ہموار کرتا ہے اور سب کو اس عظیم اور استثنائی فرصت سے زیادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سخت اور آسان شرائط میں اللہ تعالی کی یاد کو انسان کی تکاملی حرکت کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: اس توجہ اور توسل کو عملی شکل میں تبدیل کرنا چاہیے کیونکہ اس صورت میں مایوسی، پیچھے کی طرف برگشت اور پسماندگی باقی نہیں رہےگي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایسے عمل کے لئے صبر و توکل کو لازمی اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: صبر کے معنی پائداری ، استقامت اور ہدف کو فراموش نہ کرنے کے ہیں۔ اور توکل کے معنی بھی کام انجام دینے اور اس کے نتیجہ کو خدا سے طلب کرنے کے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذاتی اعمال اور ملک کے انتظامی امور میں صبر و توکل کے نقش و کردار اور ان سے استفادہ کے سلسلے میں بعض اصلی اور اساسی عناصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پہلا عنصر صحیح سمت کا انتخاب اور اس کی حفاظت پر مشتمل ہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر سمت کا انتخاب غلط ہوجائے تو اس سے نہ صرف ہم مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے بلکہ مقصد سے دور ہوتے جائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی مدیریت میں صحیح سمت کےانتخاب کی تشریح کے سلسلے میں اس سال حضرت امام خمینی (رہ) کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس موقع پر میں نے تاکید کی تھی کہ حضرت امام خمینی (رہ) کے نظریات کی بنا پر تمام شعبوں میں ملک اور انقلاب کی صحیح سمتوں کا انتخاب مشخص ہے اور ان سمتوں میں دوباہ نظر ثانی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام خمینی (رہ) کو ایک مضبوط ، عقلمند اور توانا فقیہی اور حکیم قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کے نظریات ان کے خطابات، تقاریر، تحریرات اور آثار منمجلہ ان کے وصیتنامہ میں مکمل طور پر واضح اور آشکار ہیں جو تمام حکام، ممتاز شخصیات ، ماہرین اور پوری قوم کے لئے حجت ، معیار او قابل قبول ہیں البتہ کبھی حضرت امام (رہ) کے نظریات کی غلط تفسیر پیش کی جاتی ہے جو خطرناک اور بہت ہی برا کام ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نے جن صحیح سمتوں کو مشخص کیا ہے ان کا نقش ملک کی مدیریت کی بلند مدت اور مختصر مدت پالیسیوں میں اساسی اورنمایاں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی مدیریت میں صبر و توکل میں شامل عناصر کے بارے میں تمام انسانی اور مادی وسائل اور ترجیحات پر توجہ دینے پر تاکید کی اور پھر ملک میں موجود حقائق کا جائزہ لیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاپنے خطاب کے اس حصہ کے مقدمہ میں اقتدار اور ذمہ داریوں کو منتقل کرنے کو مبارک موقع قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتدار کے منتقل کرنے کے سلسلے میں نئے افراد ، نظریات، خلاقیت اور نئے سلائق کا ورود بہت ہی مبارک موقع ہےاور اس سے اچھی طرح استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: الحمد للہ اسلامی جمہوری نظام میں اقتدار کی منتقلی میں کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور اقتدار آسانی اور خوش اسلوبی کے ساتھ منتقل ہوتا رہا ہے صرف سن 1388 ہجری شمسی میں بعض عناصر نے کچھ غلطیوں کا ارتکاب کیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے انتظامی امور میں جو نئے لوگ ، افراد اور گروہ وارد ہوتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ انجام شدہ کاموں سے استفادہ کرتے ہوئے ملک کی عمارت کو مزید اونچا کرنے میں اپنا نقش ایفا کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ حکومت میں انجام پانے والے نمایاں کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہر گروہ کو اپنے سے پہلے والے گروہ کے کاموں پر مثبت نظر رکھنی چاہیے اور کتنا اچھا ہے کہ آئندہ حکومت بھی موجودہ حکومت کی طرح یا اس سے بہتر انداز میں اپنی تلاش و کوشش جاری وساری رکھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے بلند مدت منصوبہ کے پیش نظر 7 حقائق پر توجہ مبذول کرنے پر تاکید کی۔
" ممتاز جغرافیائی پوزیشن" " قدیم و مضبوط تمدن اور قابل فخر تاریخ" " دولت و ثروت، قدرتی وسائل، انسانی صلاحیتیں، یہ پہلی تین حقیقتیں تھیں جن کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چوتھی حقیقت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ دو تین صدیوں میں اندرونی ڈکٹیٹر اور استبداد اور غیر ملکی سیاسی اور ثقافتی یلغار کی وجہ سے ایران کو سخت نقصان پہنچا ہے اور ہر قسم کے شرائط کا تجزیہ کرتے وقت اس مسئلہ پر توجہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مشروطیت، تیل کو قومی بنانے کی تحریک اور انقلاب اسلامی کی تحریک کو تین دیگر حقائق کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے فرمایا: مشروطیت کے دوران قومی قیام اور قومی تحریک شکست و ناکامی سے دوچار ہوگئی لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل غیر ملکی یلغار کا ٹھوس اور دنداں شکن جواب تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی شعبوں میں ایران کے کامیاب تجربات کو چھٹی حقیقت قراردیا اور ملک کی بلند مدت پالیسی میں اس پر توجہ مبذول کرنےپر تاکید کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حیرت انگیز سائنسی ترقی اور اس کے علاقائي اور عالمی سطح پر اثرات، تعمیری شعبہ میں قابل توجہ ترقیات اور ثقافتی شعبہ میں طاغوتی دور کی نسبت 180 درجہ تبدیلی حالیہ تیس برسوں میں انقلاب اسلامی کی کامیاب حرکت کا مظہر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صحیح و سالم دینی عوامی اور جمہوری حکومت کو اندرونی سیاست کی عظیم کامیابیوں کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران میں قوہ مجریہ اور مقننہ میں اقتدار کی صحیح و سالم طور پر منتقلی قابل قدر اقدام ہے جبکہ مغربی ممالک میں یہ اقدام مکر و فریب اور فراڈ پر مبنی ہوتا ہے اور ایرانی قوم اور اسلامی نظام نے دنیا کے سامنے اسلامی جمہوریت کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی اندرونی سطح پر پیشرفت اور بانشاط جوانوں کو ائندہ کے لئے امید افزا قراردیتے ہوئے فرمایا: نسلی کنٹرول خطرناک مسئلہ ہے اور ماہرین اور دانشوروں کے مطابق اس مسئلہ کی وجہ سے ملک بوڑھے افراد سے دوچار ہوجائے گا جس کی وجہ سے بیشمار مشکلات کا سامنا کرنے پڑےگا اور اس مسئلہ کی روک تھام کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں پارلیمنٹ میں موجودہ منصوبہ پر پارلیمنٹ کے نمائندوں کی طرف سے زيادہ سے زيادہ توجہ مبذول کرنے کا مطالبہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں آخری حقیقت کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کے وسیع و عریض محاذ کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ارتجاع ، استکبار، بعض مغربی حکمراں ، علاقائی حکومتوں کے بعض کمزور حکام نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف وسیع محاذ کھول رکھا ہے جو اج تک کسی ملک کے خلاف نہیں کھولا گیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بیان شدہ سات حقائق کو آئندہ کے لئے روڈ میپ قراردیتے ہوئے فرمایا: بیان شدہ حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ عشرہ حقیقت میں پیشرفت اور عدالت کے عشرے میں تبدیل ہوسکتا ہے اور اس سلسلے میں اعلی حکام کی تلاش و کوشش اللہ تعالی کی بڑی نعمت ثابت ہوسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے بیان کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: ہمیں اپنے اعلی اہداف کی سمت ، پشرفت اور ترقی کے راستے پر گامزن رہتے ہوئے صبر و توکل کے ساتھ دشمن محاذ کا مقابلہ کرنا چاہیے اور ہمیں اندرونی طاقت اور قوت کو مضبوط اور مستحکم بنانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی طاقت کی تشکیل کے عناصر کی تشریح کے سلسلے میں عوام اور حکام کے پختہ عزم اور مشکلات و عداوتوں کے مقابلے میں متزلزل نہ ہونے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی حکام کو دشمن کی طرف سے اقتصادی ، سیاسی اور تبلیغاتی شعبوں میں دھمکیوں ، ترش روئی اور غیظ و غضب کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ ترجیحات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے اعلی حکام ، پالیسی سازوں اور ملک کے تمام حکام کو موجودہ شرائط میں دو ترجیحات سائنسی ترقیات اور اقتصادی مسئلہ پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی رزم و جہاد اس سال کے نعرے کا ایک حصہ تھا اور امید ہے کہ جسطرح حکام نے سیاسی رزم و جہاد کا شاندار مظاہرہ کیا اسی طرح وہ اقتصادی رزم و جہاد کو بھی ہمت و تلاش کے ساتھ عملی جامہ پہنائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی رزم وجہاد مختصر مدت میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا لیکن اس سلسلے میں کام شروع ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسری ترجیح یعنی سائنسی ترقیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ دس برسوں میں ملک کی سائنسی شعبہ میں ترقیات بہت ہی عمدہ رہی ہیں اور ترقی کی اس رفتار میں کمی نہیں آنی چاہیے کیونکہ مطلوبہ اہداف تک پہنچنے کے لئے ہمیں سائنسی ترقی کی اس سرعت کو برقرار رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر دنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نےدنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو کی ہمیشہ حمایت کی ہے لیکن دنیا کے ساتھ تعامل میں فریق مقابل کے اہداف اور مقاصد کی پہچان اور شناخت بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ہم فریق مقابل کو صحیح طور پر نہیں پہچانیں گے تو ہمیں نقصان ہوسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو میں دشمنوں کی عداوتوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے حتی اگر کسی مصلحت کی بنا پر اظہار نہ بھی کرسکیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں امریکی حکام کے حالیہ اظہارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اس سال کے آغاز میں بھی کہا تھا کہ میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں خوش بیں نہیں ہوں اگر چہ میں نے عراق جیسے بعض خاص مسائل میں مذاکرات سے منع نہیں کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی غیر منطقی اورقابل اعتماد نہیں اور اپنی رفتار میں صادق بھی نہیں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکام نے گذشتہ مہینوں میں اپنے اقدامات اور مؤقف سے واضح کردیا کہ ہمیں ان کے بارے میں خوش بین نہیں رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دنیا کے ساتھ تعامل اور گفتگو میں اصلی ہنر یہ ہے کہ ہمیں اپنے راستے اور اپنے اہداف کی سمت گامزن رہنا چاہیے اور اگر دنیا کے ساتھ تعامل پس رفت کا باعث ہو تو یہ بہت بڑا نقصان ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی حالات کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: علاقائی حالات پر حکام کو توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر احمدی نژاد نے اپنے 8 سالہ دور حکومت میں انجام پانے والے اقدامات کے بارے میں مفصل رپورٹ پیش کی۔
لبنان اب لقمہ تر نہيں رہا
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سیدحسن نصراللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل آئندہ جنگ میں بیروت پرحملہ کرنے سے پہلے شمالی مقبوضہ فلسطین میں اپنےاڈوں کی فکر کرے۔
سیدحسن نصراللہ نے اسلامی استقامت کے وفود کی افطار پارٹی سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ جنگ میں صیہونی حکومت بیروت پر بمباری کرنے سے پہلے الجلیل کی فکرکرےگی۔
انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ کوئي بھی قیمت چکائےبغیر لبنان کےخلاف جارحیت نہيں کرسکتا۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے کہاکہ حزب اللہ، لبنانی عوام کی حمایت کےلئے میدان میں اتری ہے اور غاصب صیہونی حکومت جو لبنان میں حزب اللہ کی ہرجگہ موجودگی سے تشویش میں مبتلا ہے مختلف سازشوں سے اسےکمزور کرنے کےاقدامات کرتی رہی ہے لیکن وہ ناکام رہی ہے۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے لبنان میں حزب اللہ کی پوزیش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ، لبنان میں مضبوط ہے اور اسے عوامی حمایت حاصل ہے اورحزب اللہ ٹوٹنے والی نہيں ہے اور جوبھی اسے توڑنا چاہتے ہيں یا اسے تنہا کرناچاہتے ہيں وہ ناکام ہوں گے کیونکہ حزب اللہ ایک تنظیم نہيں بلکہ عوامی عزم کا نام ہے ۔
سیدحسن نصراللہ نے کہا کہ لبنان کادفاع صرف حزب اللہ پرمنحصر نہيں ہوناچاہئےبلکہ قوم کےہرطبقے کو ملکی اور غیرملکی دشمن کےسامنے اپنے ملک کےقومی اقتدار اعلی کی حمایت کرنی چاہئے ۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ حزب اللہ نے تینتیس روزہ جنگ میں امریکہ کے نئے مشرق وسطی کےمنصوبے کوخاک میں ملا دیا کہا کہ حزب اللہ ، انیس سوبیاسی میں اپنی تشکیل کے زمانے سے ہی تمام الزامات کےباوجود لبنان پرقبضےکےامریکہ واسرائیل کےمقاصد کوناکام بناتی رہی ہے۔
انھوں نے تاکید کےساتھ کہا کہ اسرائیل کومعلوم ہے کہ لبنان اب لقمہ ترنہيں رہا کیونکہ حزب اللہ نہایت مضبوط دفاعی پاور کی حامل ہے اور لبنان کےخلاف کسی بھی جارحیت کوپسپا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
حزب اللہ لبنان کےسربراہ نے لبنان میں داخلی اختلافات کےخاتمے اور ملک میں پائدار قیام امن کے بارے میں کہا کہ حزب اللہ تمام سیاسی گروہوں سے بات چیت کےلئے ہروقت تیار ہے۔
لبنان میں مختلف سیاسی ومذہبی شخصیتوں نے حزب اللہ کے استقامت و پائداری نیز اتحاد وجمہوریت سے سرشار جذبات وکردار کوسراہا ہے ۔
لبنان کے جمعیت قولناوالعمل کےسربراہ اورعالم اہلسنت احمدالقطان نے سیدحسن نصراللہ کے بیانات کاجائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ سیدحسن نصراللہ کے بیانات لبنان کی عظیم قوم کےمطالبات کےمطابق ہيں اور لبنان میں امن وسکون کاماحول قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہيں۔احمدالقطان نے لبنان کی مختلف پارٹیوں اورگروہوں سےمطالبہ کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کےسربراہ کی جانب سے دوسرے گروہوں کےساتھ تعاون کےرجحان کامثبت جواب دیں ۔
احمد القطان نے کہا کہ علاقے کےحالات کو دیکھتے ہوئےملت لبنان کو اس وقت ہمیشہ سےزيادہ امن واستحکام کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہاکہ مذاکرات اورصلاح ومشورہ بحران سےنکلنے کاواحد راستہ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے گروہ بھی سیدحسن نصراللہ کی نیک نیتی کامثبت جواب دیتے ہیں یا نہيں ۔
حزب اللہ کےتابناک ماضی وحال کےمدنظرسیدحسن نصراللہ کےبیانات پرمختلف ردعمل سامنےآیا ہے حتی مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت نے بھی سیدحسن نصراللہ کےانتباہ پر ردعمل ظاہرکیا ہے اسرائیل کےانسپیکٹرجنرل ژوزف شاپیرا سمیت مختلف صیہونی حکام نے حزب اللہ لبنان کےمقابلے میں اس حکومت کی عاجزی و ناتوانی کااعتراف کیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرق وسطی میں مسلمان ممالک کےخلاف سامراج اور صیہونی سازشوں کےمد نظر حزب اللہ لبنان کےسربراہ کا یہ بیان نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ لبنان اور صیہونی حکومت کےدرمیان تینتیس روزہ جنگ میں تل ابیب کی شکست کےبعد سامراج کا نیامشرق وسطی وجود میں لانے کا خواب شرمندہ تعبیررہ گیاجس کے بعد سامراج نے ایک طرف فلسطین کےہمسایہ ممالک شام اورمصر میں بحران کھڑا کرکے صیہونی حکومت کو فائدہ پہنچانے اوراس کےغاصبانہ قبضوں نیز صیہونی کالونیوں کی توسیع کا موقع فراہم کیا اور دوسری جانب لبنان میں داخلی سطح پر سیاسی ومذہبی اختلافات کوھوا دے کرعدم استحکام پیداکرناچاہ رہا ہے تاکہ غاصب صیہونی حکومت کواپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پرعمل کرنے کا پورا پورا موقع حاصل ہوجائے لیکن حزب اللہ لبنان کےسربراہ کےبیانات سےپتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت اپنےمذموم عزائم میں ہرگز کامیاب نہيں ہوگی ۔
اخلاق حسنہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اخلاق پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلامی اخلاق اور اقدار کو معاشرے میں نافذ اور لوگوں کی روح، عقائد اور زندگی میں رائج کرنے کے لئے، زندگی کی فضا کو اسلامی اقدار سے مملو کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ پیغمبر اسلامۖ کی نرمی اور سختی قرآن کریم پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ملائمت اور لوگوں سے نرمی سے پیش آنے کی تعریف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ سخت نہیں ہیں۔ "فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک" یہی قرآن دوسری جگہ پر پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتا ہے کہ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم" کفار اور منافقین سے سختی سے پیش آئیں۔ وہی "غلظ" (سختی) کا مادہ جو پہلے والی آیت میں تھا یہاں بھی ہے لیکن یہاں قانون کے نفاذ اور معاشرے کے امور چلانے اور نظم و ضبط قائم کرنے میں ہے۔ وہاں سختی بری ہے، یہاں سختی اچھی ہے۔ وہاں سختی سے کام لینا برا ہے اور یہاں سختی سے کام لینا اچھا ہے۔ پیغمبر اسلام ۖ کی امانتداری آپ کا امین ہونا اور امانتداری ایسی تھی کہ دور جاہلیت میں آپ کا نام ہی امین پڑ گیا تھا اور لوگ جس امانت کو بہت قیمتی سمجھتے تھے، اسے آپ کے پاس رکھواتے تھے اور مطمئن ہوتے تھے کہ یہ امانت صحیح و سالم انہیں واپس مل جائے گی۔ حتی دعوت اسلام شروع ہونے اور قریش کی دشمنی اور عداوت میں شدت آنے کے بعد بھی ، ان حالات میں بھی، وہی دشمن اگر کوئی چیز کہیں امانت رکھوانا چاہتے تھے تو آکے رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کرتے تھے۔ لہذا جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے مدینے ہجرت فرمائی تو امیر المومنین (علیہ السلام) کو مکے میں چھوڑا تاکہ لوگوں کی امانتیں انہیں واپس لوٹا دیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس لوگوں کی امانتیں تھیں۔ مسلمانوں کی امانتیں نہیں بلکہ کفار اور ان لوگوں کی امانتیں تھیں جو آپ سے دشمنی کرتے تھے۔
پیغمبر اسلامۖ کی بردباری آپ کے اندر تحمل اور بردباری اتنی زیادہ تھی کہ جن باتوں کو سن کے دوسرے بیتاب ہوجاتے تھے، ان باتوں سے آپ کے اندر بیتابی نہیں پیدا ہوتی تھی۔ بعض اوقات مکہ میں آپ کے دشمن آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے تھے کہ ان میں سے ایک کے بارے میں جب جناب ابوطالب نے سنا تو اتنا غصبناک ہوئے کہ تلوار لی اور اپنے ملازم کے ساتھ وہاں گئے جہاں رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گستاخی ہوئی تھی اور پھر جتنے لوگوں نے گستاخی کی تھی ان میں سے ہر ایک کے ساتھ وہی کام کیا اور کہا کہ تم میں سے جو بھی اعتراض کرے گا اس کی گردن مار دوں گا، مگر پیغمبر نے وہی گستاخی بردباری کے ساتھ برداشت کی تھی۔ ایک بار ابوجہل سے آپ کی گفتگو ہوئی اور ابوجہل نے آپ کی بڑی توہین کی مگر آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے بردباری سے کام لیا اور خاموشی اختیار کی۔ کسی نے جاکے جناب حمزہ کو اطلاع دے دی کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ جناب حمزہ بیتاب ہو گئے۔ آپ گئے اور کمان سے ابوجہل کے سر پر اتنی زور سے مارا کہ خون نکلنے لگا اور پھر اسی واقعے کے بعد آپ نے اسلام کا اعلان کیا۔ بعض اوقات کچھ لوگ مسجد میں آتے تھے، پیر پھیلا کے رسول سے کہتے تھے کہ میرے ناخن کاٹ دیجئے، اس لئے کہ ناخن کاٹنے میں آپ کو مہارت تھی، پیغمبر بھی پوری بردباری کے ساتھ اس گستاخی اور بے ادبی کو برداشت کرتے تھے۔ اچھے اخلاق کی دعوت لوگوں کو ہمیشہ اچھی باتوں یعنی، عفو و درگذر، چشم پوشی، مہربانی، ایک دوسرے سے محبت، کاموں میں پائیداری، صبر، حلم، غصہ پر قابو پانے، خیانت نہ کرنے، چوری نہ کرنے، بد کلامی نہ کرنے، کسی کا برا نہ چاہنے، اور دل میں کینہ نہ رکھنے وغیرہ کی نصیحت و تلقین کریں۔ لوگوں کو ان باتوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کوئی ایسا زمانہ فرض نہیں کیا جا سکتا جب ان اچھی باتوں کی ضرورت نہ رہے۔ لوگوں کو ہمیشہ ان اقدار کی ضرورت رہتی ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اقدار نہ ہوں تو ترقی کی اوج پر ہونے کے باوجود معاشرہ برا اور ناقابل قبول ہوگا۔ پیغمبر اکرمۖ کی بردباری زمانہ جاہلیت میں مکہ والوں کے درمیان بہت سے معاہدے تھے۔ ان کے علاوہ ایک معاہدہ، "معاہدہ حلف الفضول" کے نام سے بھی تھا جس میں پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک تھے۔ کوئی اجنبی مکہ آیا اور اس نے اپنا سامان بیچا۔ جس نے اس کا سامان خریدا، اس کا نام " عاص بن وائل" تھا جو ایک بدمعاش تھا اور مکہ کے سرمایہ داروں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے جو سامان خریدا اس کا پیسہ نہیں دیا۔ وہ اجنبی جس کے پاس بھی گیا، کوئی اس کی مدد نہ کر سکا۔ آخر کار وہ کوہ ابوقیس کے اوپر گیا اور وہاں سے فریاد کی: اے فہر کے بیٹو! میرے اوپر ظلم ہوا ہے۔" یہ فریاد رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب نے سنی۔ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور اس شخص کے حق کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹھے اورعاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ اس کے پیسے دو؛ وہ ڈر گیا اور مجبور ہوکے اس کے پیسے دے دیئے۔ یہ معاہدہ ان کے درمیان باقی رہا اور اس میں طے پایا تھا کہ جو اجنبی بھی مکہ میں داخل ہو اگر اہل مکہ اس پر ظلم کریں، عام طور پر اجنبیوں اور مکہ سے باہر والوں پر ظلم کرتے تھے، تو یہ لوگ اس کا دفاع کریں گے۔ اسلام آنے کے برسوں بعد بھی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ " میں اب بھی خود کو اس معاہدے کا پابند سمجھتا ہوں۔" بارہا آپ نے اپنے مغلوب دشمنوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو ان کے لئے قابل فہم نہیں تھا۔ آٹھویں ہجری میں جب پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتنی عظمت و شکوہ کے ساتھ مکہ کو فتح کیا تو فرمایا" الیوم یوم المرحمۃ" آج عفو و درگذر سے کام لینے کا دن ہے لہذا انتقام نہ لو۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراخدلی تھی۔ رسول اسلامۖ کی راست بازی رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) راست باز تھے۔ زمانہ جاہلیت میں، آپ تجارت کرتے تھے؛ شام اور یمن جاتےتھے۔ تجارتی کاروانوں میں شامل ہوتے تھے اور آپ کے تجارتی حلیف تھے۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کے تجارتی حلیفوں میں سے ایک بعد میں کہتا تھا کہ آپ بہترین حلیف تھے، نہ ضد کرتے تھے، نہ بحث کرتے تھے، نہ اپنا بوجھ حلیف کے کندھوں پر ڈالتے تھے، نہ خریدار کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے، نہ مہنگا بیچتے تھے اور نہ ہی جھوٹ بولتے تھے، راست باز تھے۔ یہ آنحضرت کی راست بازی ہی تھی کہ جس نے جناب خدیجہ کو آپ کا شیدائی بنایا۔ خود جناب خدیجہ مکہ کی خاتون اول ( ملیکۃ العرب) اور حسب و نسب اور دولت و ثروت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز شخصیت تھیں۔ پیغمبر اسلام ۖ کی پاکیزگی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن سے ہی بہت نفاست پسند انسان تھے۔ مکہ اور عرب قبائل کے بچوں کے برخلاف، آپ ہمیشہ صاف ستھرے اور پاک و پاکیزہ رہتے تھے۔ نوجوانی سے پہلے کے زمانے میں بھی( نفاست کا خیال رکھتے تھے) بالوں میں کنگھا کرتے تھے اور نوجوانی میں بھی آپ کے بال کنگھا کئے ہوئے رہتے تھے۔ اسلام کے اعلان کے بعد اس دور میں جب نوجوانی کا دور گزر چکا تھا اور آپ سن رسیدہ ہو چکے تھے، پچاس سال اور ساٹھ سال کی عمر میں بھی آپ نفاست اور طہارت کا پورا خیال رکھتے تھے، آپ کی زلف مبارک ہمیشہ صاف، ریش مبارک ہمیشہ نفیس اور معطر رہتی تھی۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ بیت الشرف میں پانی کا ایک برتن تھا، جس میں آپ اپنا روئے مبارک دیکھا کرتے تھے۔ اس زمانے میں آئینہ کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ "کان یسوّی عمامتہ ولحیتہ اذا اراد ان یخرج الی اصاحبہ" آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مسلمانوں، دوستوں اور اصحاب کے پاس جانا چاہتے تھے تو عمامے اور سر کے بالوں اور ریش مبارک کو بہت ہی نفاست کے ساتھ ٹھیک کرتے تھے اس کے بعد گھر سے باہر آتے تھے۔ آپ ہمیشہ عطر اور خوشبو سے خود کو معطر فرماتے تھے۔ آپ، زاہدانہ زندگی کے باوجود، میں عرض کروں گا کہ پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی بڑی زاہدانہ تھی، سفر میں کنگھی اور عطر اور سرمے دانی اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اس زمانے میں مرد آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے۔ آپ دن میں کئی بار مسواک کرتے تھے۔ دوسروں کو بھی صفائی، مسواک کرنے اور خود کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ پیغمبر کا لباس پرانا اور پیوند زدہ تھا؛ لیکن آپ کا لباس، سر اور روئے انور ہمیشہ صاف رہتا تھا۔ یہ باتیں، معاشرت میں، روئے میں اور ظاہری حالت اور حفظان صحت میں بہت موثر ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں، باطن میں بہت موثر ہیں۔ پیغمبر اسلامۖ کی عوام دوستی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ لوگوں کے درمیان ہمیشہ بشاش رہتے تھے۔ جب تنہا ہوتے تھے تو آپ کا حزن و ملال ظاہر ہوتا تھا۔ آپ اپنے حزن و ملال کو لوگوں کے سامنے اپنے روئے انور پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ چہرے پر شادابی رہتی تھی۔ سب کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا تو چہرے پر آزردہ خاطر ہونے کے آثار ظاہر ہوتے تھے لیکن زبان پر حرف شکوہ نہیں آتا تھا۔ آپ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے سامنے کسی کو گالیاں دی جائیں اور برا بھلا کہا جائے۔ بچوں سے محبت کرتے تھے، خواتین سے مہربانی سے پیش آتے تھے، کمزوروں سے بہت اچھا سلوک کرتے تھے، اپنے اصحاب کے ساتھ ہنسی مذاق فرماتے تھے اور ان کے ساتھ گھوڑسواری کے مقابلے میں حصہ لیتے تھے۔ پیغمبر اسلامۖ کا کھانا اور لباس آپ کا بستر چٹائی کا تھا، تکیہ چمڑے کا تھا جس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے۔ آپ کا کھانا زیادہ تر جو کی روٹی اور کھجور ہوتی تھی۔ لکھا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی تین دن تک مسلسل گیہوں کی روٹی یا رنگا رنگ کھانے نوش نہیں فرمائے۔ ام المومنین (حضرت) عائشہ کہتی ہیں کہ بعض اوقات ایک مہینے تک ہمارے باورچی خانے سے دھواں نہیں اٹھتا تھا۔ ( یعنی چولھا نہیں جلتا تھا) آپ کی سواری بغیر زین اور پالان کے ہوتی تھی۔ جس زمانے میں لوگ قیمتی گھوڑوں پر (بہترین) زین اور پالان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر جگہوں پر گدھے پر بیٹھ کے جاتے تھے۔ انکسار سے کام لیتے تھے۔ نعلین مبارک خود سیتے تھے۔ پیغمبر اسلامۖ کی عبادت آپ کی عبادت ایسی تھی کہ محراب عبادت میں کھڑے رہنے کے سبب پائے مبارک میں ورم آ جاتا تھا۔ رات کا بڑا حصہ، شب بیداری، عبادت، گریہ و زاری، استغفار اور دعا میں گزارتے تھے۔ خداوند عالم سے راز و نیاز اور استغفار فرماتے تھے۔ رمضان کے علاوہ شعبان اور رجب میں بھی روزہ رکھتے تھے اور بقیہ ایام میں، اور وہ بھی گرمی کے موسم میں، ایک دن چھوڑ کے روزہ رکھتے تھے۔ اصحاب آپ سے کہتے تھے : یا رسول اللہ آپ سے تو کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے" غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک وما تاخّر " سورہ فتح میں بھی آیا ہے :"لیغفرلک اللہ ما تقدم ذنبک و ما تاخّر" تو اتنی دعا، عبادت اور استغفار کس لئے؟ فرماتے تھے: "افلا اکون عبدا شکورا" کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ رہوں جس نے مجھے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں؟ پیغمبر اسلامۖ کا سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عادل اور صاحب تدبیر تھے۔ جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینے آنے کی تاریخ کا مطالعہ کرے، وہ قبائلی جنگیں، وہ حملے، وہ دشمن کو مکہ سے بیابان کے بیچ میں لانا، وہ مسلسل وار، وہ دشمن سے مقابلہ، اس تاریخ میں ایسی حکمت آمیز، ہمہ گیر اور محکم تدبیر کا مشاہدہ کرتا ہے جو حیرتناک ہے۔ آپ قانون و ضابطے کے پابند اور محافظ تھے۔ نہ خود قانون کے خلاف عمل کرتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو قانون شکنی کی اجازت دیتے تھے۔ خود بھی قوانین کی پابندی کرتے تھے۔ قرآن کی آیات بھی اس کی گواہی دیتی ہیں۔ جن قوانین کی پابندی لوگوں کے لئے ضروری ہوتی تھی، آنحضرت خود بھی سختی کے ساتھ ان پر عمل کرتے تھے اور سرمو قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
آپ کے دیگر عادات و اطوار میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ آپ عہد کی پابندی کرتے تھے۔ کبھی عہد شکنی نہیں کی۔ قریش نے آپ کے ساتھ عہد شکنی کی مگر آپ نے نہیں کی۔ یہودیوں نے بارہا عہد شکنی کی لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کی۔
آپ اسی طرح رازدار بھی تھے۔ جب فتح مکہ کے لئے چل رہے تھے تو کوئی نہ سمجھ سکا کہ پیغمبر کہاں جانا چاہتے ہیں۔ پورے لشکر کو جمع کیا اور فرمایا باہر چلتے ہیں۔ کہا کہاں؟ فرمایا بعد میں معلوم ہوگا۔ کسی کو بھی یہ نہ سمجھنے دیا کہ مکہ کی طرف جا رہے ہیں۔ آپ نے ایسی تدبیر سے کام لیا کہ آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے اور قریش کو یہ پتہ نہ چل سکا کہ رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ آ رہے ہیں۔
جب آپ مجمع میں بیٹھے ہوتے تھے تو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ پیغمبر اور اس بڑی جماعت کے کمانڈر ہیں۔ آپ کی سماجی اور فوجی انظامی صلاحیت اعلی درجے کی تھی اور ہر کام پر نظر رکھتے تھے۔ البتہ معاشرہ چھوٹا تھا، مدینہ اور اطراف مدینہ کے علاقے اس میں شامل تھے، بعد میں مکہ اور ایک دو دوسرے شہر اس میں شامل ہو گئے لیکن آپ منظم طور پر لوگوں کے امور کا خیال رکھتے تھے۔ اس ابتدائی معاشرے میں آپ نے نظم و نسق، حساب کتاب، حوصلہ افزائی اور پاداش کو لوگوں کے درمیان رائج کیا۔
دشمنان اسلام سے پیغمبر اسلامۖ کا برتاؤ
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے دشمنوں کو برابر نہیں سمجھتے تھے۔ یہ آپ کی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ بعض دشمن ایسے تھے جن کی دشمنی گہری تھی؛ لیکن پیغمبر دیکھتے تھے کہ ان سے زیادہ خطرہ نہیں ہے تو پیغمبر ان سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے تھے اور ان سے زیادہ سختی سے نہیں پیش آتے تھے۔
بعض دشمن ایسے تھے جن کی طرف سے خطرہ تھا، پیغمبر ان کی طرف سے ہوشیار رہتے تھے اور ان پر نظر رکھتے تھے۔ جیسے عبداللہ بن ابی، ایک درجے کا منافق تھا اور رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کرتا رہتا تھا، لیکن پیغمبر صرف اس پر نظر رکھتے تھے اور اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے۔ وہ پیغمبر کی زندگی کے اواخر تک زندہ تھا۔ رسول اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحلت سے تھوڑا پہلے اس دنیا سے گیا۔ پیغمبر اس کو برداشت کرتے تھے۔ یہ ایسے دشمن تھے جن کی طرف سے اسلامی نظام، اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرے کو کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں تھا۔ لیکن جن دشمنوں کی جانب سے خطرہ تھا پیغمبر ان کے ساتھ سختی سے پیش آتے تھے۔ اسی مہربان، رحمدل، چشم پوشی اور عفو و درگذر سے کام لینے والی ہستی نے حکم دیا اور بنی قریظہ کے خیانتکاروں کو جو کئی سو تھے، ایک دن میں قتل کر دیا گیا اور بنی نضیر اور بنی قینقاع کو باہر نکال دیا گیا اور خیبر کو فتح کیا گیا۔ اس لئے کہ یہ خطرناک دشمن تھے۔ مکے میں آنے کے بعد شروع میں پیغمبر نے ان کے ساتھ بہت زیادہ مہربانی سے کام لیا لیکن انہوں نے خیانت کی، پیٹھ میں خنجر گھونپا، سازش کی اور خطرہ پیدا کیا۔ پیغمبر نے عبداللہ بن ابی کو برداشت کیا، مدینے کے یہودیوں کو برداشت کیا۔ جو قریشی آپ کی پناہ میں آ گئے یا بے ضرر تھے انہیں برداشت کیا۔ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو چونکہ اب ان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لئے حتی ابوسفیان جیسوں اور بعض ديگر لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے؛ لیکن غدار، خطرناک اور نا قال اطمینان دشمنوں کو سختی کے ساتھ کچلا۔
شام میں حضرت زینب(س) کے روضہ پر حملے کے خلاف احتجاج
شام میں حضرت زینب(س) کے روضہ پر حملے کے خلاف احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان سے رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت المسلمین کی اپیل پر کل پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور تکفیری دھشتگردوں کے حملے کی مذمت کی گئی۔ اس موقع پر ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ایک سازش کے تحت شام کودھشتگردی کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے اور اب نواسی رسول خدا حضرت زینب(س) کے روضہ پرحملہ کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مقررین نے پاکستان کی حکومت پر بھی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے بھی دھشتگردوں کو شام بھیجا جا رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔
ادھرکراچی سے موصولہ رپورٹ کے مطابق نمائش چورنگی پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت المسلمین کے رہنماوں نے کہا کہ بی بی زینب کے روضہ مبارک پر دہشت گردوں کے حملے نے پورے عالم اسلام کے قلب مجروح کئے ہیں۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔
درایں اثنا حضرت زینب کے روضہ مبارک پر ہونے والے حملے کی پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب سے بھی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور اسی حوالے سے مسلم لیگ ن کے چیئرمین سینیٹر راجا ظفر الحق کا کہنا ہے کہ شام کی صورتحال بہت خطرناک ہے جو مسلم دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے، مسلم دنیا کے تمام تنازعات کے حل کیلئے او آئی سی کو موٴثر کردار ادا کرنا چاہئے۔
مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ عالم اسلام میں غیر جمہوری حکمران استعماری قوتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، حضرت زینب کے مزار پر حملہ ہوا اور سب خاموش ہیں جو افسوسناک ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ شام میں بی بی زینب کے مزار پر حملہ مسلمانوں کی وحدت پر حملہ ہے، جبکہ رابطہ کمیٹی نے بھی اس حملے پرافسوس کا اظہارکرتے ہوئے علماء سے اپیل کی کہ خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھیں اوراس سانحے کے خلاف میدان عمل میں نکل کر احتجاج کریں۔
ایران کی بری فوج نازعات میزائل سے لیس
اسلامی جمہوریہ ایران کی بری فوج کے سربراہ جنرل احمد رضا پوردستان نے کہا ہےکہ بری فوج کو نئی نسل کے میزائل نازعات سے لیس کردیا گيا ہے ۔ یہ میزائل ایرانی ماہرین نے بنائے ہیں۔
جنرل احمد رضا پوردستان نے تسنیم نیوز سے گفتگو میں کہا کہ نئي نسل کے میزائل نازعات کی رینج زیادہ ہے، ھدف کو نشانہ بنانے کی توانائی اور فائر پاور بھی نہایت اعلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ فوجی مشقوں میں اس میزائل کو استعمال کیا جاےگا۔
نازعات میزائل کی رینج ایک سو تیس کلومیٹر ہے جو جامد ایندھن سے کام کرتا ہے۔ ایرانی ماہرین نے اس کی رینج بڑھا کر ایک سو پچاس کلومیٹر کردی ہے۔ یہ میزائیل موبائل لانچر سے داغا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے یہ دیگر میزائلوں سے زیادہ کارآمد بن چکا ہے۔
افغانستان میں پر تشدد مظاہرے
افغانستان کے صوبے غور میں ہزاروں طالبعلموں نے امریکی جارحیت کے خلاف مظاہرے کئے ہیں۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کی افغانی حکومت امیرکہ کے ساتھ کی گئی سیکیورٹی ڈیل کو کالعدم قرار دے۔
مظاہرین نے امریکی پرچم اور امریکی صدر باراک اوباما کی تصاویر نذر آتش کیں۔
عینی شاہدین کے مطابق پر امن مظاہرے اس وقت پر تشدد مظاہروں میں بدل گئے جب مظاہرین نے اسپین کی فوجوں کی چھاونی کی جانب مارچ کرنا شروع کر دیا اور وہاں پر موجود کئی فوجی خیموں کو آگ لگا دی۔ ان پر تشدد واقعات میں ۳ مظاہرین پولیس کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہو گئے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ افغان حکومت کی سیکیورٹی ڈیل اس بات کا سبب بنے گی کہ غیر ملکی فوجی دستے اس ملک میں اپنے قیام کو مزید طول دیتے رہیں۔
سیدحسن نصراللہ، واشنگٹن اورتل ابیب کےمنصوبے ناکام
حزب اللہ لبنان کےسربراہ سیدحسن نصراللہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ نے واشنگٹن اورتل ابیب کےمنصوبوں کوناکام بنا دیا ہے۔
سیدحسن نصراللہ نے بیروت ميں لبنان کےمختلف گروہوں سےخطاب کرتےہوئے کہاکہ جب ایک دشمن آپ کےسامنے ہو اور آپ کی شرافت اور عوام کوللکار رہا ہو توآپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کےمقابلے میں اپنا دفاع کریں اور جب لبنان میں حزب اللہ فعال اور پرعزم ہے تو اسے نشانہ بنایا جانا فطری بات ہے۔
المیادین ٹی وی چینل کی رپورٹ کےمطابق حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے مزید کہاکہ ہمارا مد مقابل فریق قومی دفاعی حکمت عملی پربات کرنے کےلئے سنجیدہ نہيں ہے جبکہ لبنان کا دفاع تمام لبنانیوں کی ذمہ داری ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہاکہ کوئی بھی قیمت چکائے بغیر لبنان پرجارحیت نہيں کرسکتا اوراگرخدانخواستہ لبنانی فوج شکست کھاجائے یا بکھرجائے تو نہ امن ہوگا نہ استحکام ہوگا نہ ملک ہوگا نہ کوئی زمین باقی بچے گی ۔
سیدحسن نصراللہ نے کہاکہ حزب اللہ نے دشمن کےساتھ جنگ کےساتھ ہی الزامات کا بھی مقابلہ کیا ہے کیونکہ الزام لگانا دشمن کےپروگرام کاحصہ ہے اوراس کامقابلہ کرناچاہئے ۔
سیدحسن نصراللہ نےکہا کہ ان الزامات کی وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ نے لبنان پرجارحیت کےلئے امریکہ اورصیہونی حکومت کے مقصد کوناکام بنادیا ہے
ام المومنین حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کا یوم وفات
10 رمضان سنہ 10 بعثت کو رسول اکرم (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے مکّے میں وفات پائی ۔آپ قریش کی دولت مند اور نامور خاتون تھیں اور بعثت سے 15 سال قبل رسول اکرم (ص) کی زوجیت میں آئیں ۔حضرت خدیجہ(س) پہلی فرد تھیں جو رسول اکرم (ص) پر ایمان لائیں اور ایمان لانے کے بعد پوری قوت کے ساتھ دین اسلام کی ترویج میں لگ گئیں ۔آپ نے اپنی تمام دولت و ثروت دین الٰہی کی ترویج و اشاعت کے لئے رسول اکرم (ص) کے حوالے کردی اور ہمیشہ آپ (ص) کی مونس و مددگار رہیں ۔حضرت خدیجہ (س) کی ذات گرامی رسول اکرم (ص) کے لئے اتنی زيادہ اہم تھی کہ اس عظیم خاتون کی رحلت کو رسول اکرم (ص) نے بڑی مصیبت قراردیا ۔حضرت خدیجہ (س) کی رحلت پر رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ : خدا کی قسم خدیجہ (س) سے بہتر خدا نے مجھے کوئی چیز عطا نہیں کی ، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ کفر میں مبتلا تھے اس وقت میری آواز پر لبیک کہا جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اس وقت اپنے مال و ثروت میں برابر کا شریک قراردیا جب لوگوں نے مجھ سے رشتہ توڑ لیاتھا ۔واضح رہے کہ اسی سال رسول اکرم (ص) کے چچا حضرت ابوطالب کی بھی وفات ہوئی تھی اور ان دونوں کے شدید غم کے سبب رسول اکرم (ص) نے اس سال کو غم کا سال قراردیا تھا۔
محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اتنے شفیق مہربان اور معصوم تھے کہ ان کے چچا ابوطالب انہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ جب ان کی عمر مبارک چوبیس سال کی ہوئی تو اگر چہ جناب ابو طالب کے لئے اپنے بھتیجے کی مالی مدد کرنا ممکن نہیں تھا لیکن انہیں شب و روز انہی کی فکر لاحق تھی ۔ ایک دن انہوں نے سنا کہ مکہ کی تاجر خاتون خدیجہ کو ایک ایسے دیانتدار شخص کی تلاش ہےجسے وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ تجارتی سفر پر بھیج سکیں ۔ یہ بات سنتے ہی انہیں فورا´ اپنے بھتیجے کا خیال آگیا ۔ رات کو جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا: اے بھتیجے تم تو میری مالی حالت اچھی طرح جانتے ہو میں تمہاری مالی مدد کرنے سے قاصر ہوں ۔ کچھ دنوں کے بعد مکہ کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جانے والا ہے اور خدیجہ کو اپنے مال تجارت کی سرپرستی اور نگرانی کے لئے ایک ایسے دیانت دار شخص کی تلاش ہے جسے وہ اپنا مال تجارت سونپ سکیں اس کے بدلے میں وہ انہیں مناسب اجرت دیں گی اگر تم اس کے پاس جاؤ تو وہ یقینا´ تمہیں دوسروں پر ترجیح دیں گی ۔ کیونکہ تمہاری دیانت داری اور راست گوئی کی خبر مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح ان تک پہنچ چکی ہے ۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی جھکی ہوئی نظریں اٹھائیں اور اپنے چچا کو دیکھا چچانے اپنے بھتیجے کی آنکھوں میں عزت نفس اور بے نیازی کی روشنی دیکھی پھر اپنے بھتیجے کو یہ کہتے ہوئے سنا: کاش وہ کسی کو میرے پاس بھیج دیتیں ۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کہنے کے بعد دوبارہ نظریں جھکالیں اور خاموش ہو گئے۔ ابو طالب اپنے جوان بھتیجے کی بات سن کر گہری سوچ میں پڑ گئے ۔ جی ہاں محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ سے ایسے ہی تھے وہ ہر موقع پر محتاجوں کی مدد کرتے تھے لیکن اپنا دست نیاز کسی کے سامنے دراز نہیں کرتے تھے ۔ تاریخ نے اس بات کو واضح طور پر ذکر نہیں کیا ہے کہ خدیجہ کو کس طرح ابو طالب اور ان کے بھتیجے کے در میان ہونے والی اس گفتگو کی خبر ہوئی ؟ کیا ابوطالب کی زوجہ فاطمہ بنت اسد نےجو محمد کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتی تھیں ملیکۃ العرب کو اس کی خبر دی؟ بہر حال یہ بات مسلّم ہے کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچا سے جو بات کہی تھی وہ خدیجہ تک پہنچ گئی تھی ۔ انہوں نے دل ہی دل میں ان کی تعریف کی اور کہا : امین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میرے پاس آنے سے گریز کرے کیونکہ اس کی خود داری اور عزت نفس اسے اس بات کی اجازت نہیں دے رہی ۔ پھر فورا´ ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی ۔ خدیجہ کا دل گواہی دے رہاتھا کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم وہی امین او ر دیانتدار شخص ہے جن کی انہیں تلاش تھی ۔ خدیجہ ایک دولت مند اور پاک دامن خاتون تھیں ۔ جب کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں صادق اور امین کے نام سے مشہور تھے۔ خدیجہ بھی عفت و پاکدامنی کے حوالے سے مشہور تھیں اور اسی بنا پر انہیں طاہرہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ان کی تجارت کا یہ عالم تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہمیشہ سفر میں رہتے تھے ۔ ان باتوں کے باوجود انہیں مال و دولت جمع کرنے کی کوئی ہوس نہ تھی اور وہ ضرورت مندوں اور محتاجوں خاص طور پر یتیموں کی ہمیشہ مدد کرتی تھیں۔لاحاصل قبائلی جنگوں میں مرنے والوں کے یتیم بچوں کا آخری سہارا جناب خدیجہ کا گھرتھا جہاں ان کی بھوک مٹانے کا انتظام ہوتا تھا ۔ جناب خدیجہ یتیموں سے اس قدر مہر و محبت سے پیش آتی تھیں کہ بعض لوگ انہیں یتیموں کی ماں کے نام سے پکارتے تھے ۔ انہوں نے سچائی اور ایمان داری کے سلسلے میں پیغمبر کی شہرت سن رکھی تھی لہذا وہ اپنا مال تجارت ان کے حوالے کرنا چاہتی تھیں جب انہیں پتہ چلا کہ وہ ان کا تجارتی قافلہ لے جانے کے لئے تیار ہیں تو انہوں نے تاخیر کو جائز نہ سمجھا اور انہیں بلوا بھیجا۔ جب جناب خدیجہ نے محمد امین کو اپنے سامنے دیکھا کہ شرم سے ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہیں تو محسوس کیا کہ انہیں کسی بھی اور شخص سے زیادہ ان پر یقین ہے وہ مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح جانتی تھیں کہ محمد کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی دوسروں کے مال پر ان کی نظر ہوتی ہے لہذا جناب خدیجہ نےاپنا مال تجارت پیغمبر کےسپرد کر دیا اور اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ اس تجارتی سفر پر شام بھیج دیا۔ راستے میں میسرہ نے حضور کے اخلاق اور عادات و خصائل دیکھے تو آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ واپس آکر اس نے حضرت خدیجہ کو تفصیل کے ساتھ آپ کے بارے میں بتایا ۔ تجارت میں بھی حضور نہایت کامیاب رہے اور ماضی کی نسبت جناب خدیجہ کو زیادہ منافع حاصل ہوا۔ اس سفر میں بحیریٰ کی آپ سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور اس موقع پر اس نے کہا میں شہادت دیتاہوں کہ اللّہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللّہ کے رسول ہیں ۔ وہ نبی امی جن کی بشارت عیسی بن مریم نے دی تھی۔ اسی سفر کے دوران حضور بصریٰ میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرے جو نسطورا راہب کی خانقاہ کے پاس تھا۔ حضور کو دیکھ کر نسطورا باہر نکل آیا اور اس نے میسرہ غلام سے دریافت کیا کہ اس درخت کے نیچے کون کھڑا ہے؟ اس نے کہا قریش اہل حرم میں سے ایک شخص محمد ۔ اس پر نسطورا بولا کہ اس درخت کے نیچے عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آج تک یعنی تقریبا´ چھ سو برس تک نبی کے سوا کوئی نہیں ٹھہرا ۔ پھر نسطورا آپ کے پاس آیا آپ کا سر اور آپ کے قدم چومے اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللّہ کے رسول وہ نبی امّی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ نے دی تھی اور کہا تھا کہ میرے بعد اس درخت کے نیچے نبی امّی ہاشمی عربی مکی صاحب الحوض و الشفاعۃ و صاحب لواء الحمد کے سوا کوئی نہیں ٹھہرے گا۔ جناب خدیجہ کو پیغمبر اسلام کے تجارتی سفر سے ماضی کی نسبت کافی زیادہ منافع حاصل ہوا ۔جناب خدیجہ نے پیغمبر اکرم کو طے شدہ معاوضے سے زیادہ معاوضہ دینا چاہا لیکن پیغمبر نے صرف وہی چار اونٹ معاوضے کے طور پر وصول کئے جو انہوں نے طے کئے تھے ۔جناب خدیجہ کو ان کے غلام میسرہ نے بھی شام میں پیش آنے والے واقعات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ وہ پہلے ہی پیغمبر اکرم کے اخلاق اور رفتار و کردار سے بے حد متاثر تھیں یہ واقعات سننے کے بعد ان کی نظر میں پیغمبر کی قدر و منزلت اور بڑھ گئی ۔ اس وقت جناب خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی وہ اپنی عفت و پاک دامنی کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے معروف تھیں ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اللّہ تعالیٰ نے ان کو حسن و جمال کی دولت سے بھی نوازا تھا ۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اور دولت مند ان سے شادی کے خواہش مند تھے جن میں ابو سفیان، ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط و غیرہ شامل تھے۔ ان افراد نے کئی بار جناب خدیجہ کو شادی کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نےسب کو سختی سے انکار کردیا۔ ان کا ضمیر ہمیشہ انہیں گناہ اور انحراف سے روکتا تھا اور نیکی و اچھائی کی ترغیب دلاتا تھا۔ ان کے ضمیر نے انہیں اس بات کا یقین دلادیا تھا کہ ان بت پرست سود خوروں کے ساتھ شادی ان کی شان کے خلاف ہے۔ اب جب محمد کی خوبیوں ،اخلاق اور گفتار و کردار کے جوہر کھل کران کے سامنے آنے لگے تو وہ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئیں ۔ اسی رات جناب خدیجہ نےایک انتہائی عجیب خواب دیکھا، انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں کھڑی ہیں اور آسمان بالکل تاریک ہے اچانک ایک ستارہ چمکا اور خدیجہ کی توجہ اس کی طرف ہوگئی ۔ ستارےکی روشنی آہستہ آہستہ بڑھتی گئی یہاں تک کہ وہ مہر تاباں کی شکل اختیار کر گیا او پورا عالم اس کے نور سے روشن ہوگیا۔ پھر مہر تاباں نے نیچے کی طرف اترنا شروع کردیا اور نیچے آتے آتےمکہ کے بالکل اوپر پہنچ گیا پھر اس نے مکہ کے گرد ایک چکر لگایا اور جناب خدیجہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ وہ خورشید عالمتاب براہ راست ان کے گھر کی طرف آیا اور صحن میں اتر گیا اور اپنے نور سے ان کے گھر کو روشن و منور کردیا۔ اسی اثنا میں جناب خدیجہ کی آنکھ کھل گئی او ر اپنی ایسی حالت دیکھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ اس رات پھر وہ دوبارہ نہ ہو سکیں ۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو تعبیر خواب کےعلم سےآگاہی رکھتا تھا۔ اسے اپنے اس حیرت انگیز خواب سے آگاہ کیا اور اس کی تعبیر دریافت کی ورقہ بن نوفل نے غور سے سننے کے بعد کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں خدیجہ یہ خواب تمہارے لئے ایک عظیم بشارت ہے۔ عنقریب تمہاری شادی روئے زمین پر موجود شریف ترین اور برترین مرد سے ہوگی جس کی شہرت نہ صرف زمین پر ہوگی بلکہ آسمان میں بھی ان کاشہرہ ہوگا۔حضرت خدیجہ نے بخوبی جان لیا کہ روئے زمین پرشریف ترین اور برترین مرد کون ہے اور انہیں کس کے ساتھ شادی کی بشارت دی گئی ہے۔انہیں ایک عرصے سے اس بات کاعلم ہو چکا تھا کہ محمد کی شخصیت بے نظیر اور لاثانی ہے۔ لیکن وہ اپنی اور پیغمبر کی عمر کے فرق اور اپنے بہت زیادہ مال دار ہونے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شادی کے بارے میں پیغمبر سے اپنی خواہش کے اظہار کے بارے میں تذبذب کا شکار تھیں ۔ اپنی اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے مکہ کی ایک محترم خاتون نفیسہ بنت منیہ کو پیغمبرکے پاس بھیجا تا کہ وہ ان کی مرضی معلوم کر سکیں۔ نفیسہ بنت منیہ نے آنحضرت سے کہا کہ اے محمد آپ کی سچائی،امانت داری اور پاک دامنی کے ہر طرف چرچے ہیں مکہ میں ہر لڑکی آپ سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی ہے۔اب تو آپ پچیس برس کے ہو گئے ہیں آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ پیغمبر نے اپناسرجھکا لیا اور فرمایا میرے پاس کیا رکھا ہے کہ میں شادی کروں؟ نفیسہ نے کہا کہ اس کا انتظام ہوگیا ہے اور آپ کو ایک ایسی جگہ شادی کرنے کی دعوت دی جارہی ہے جہاں حسن و جمال بھی ہے اور مال بھی ،شرافت و پاک دامنی بھی ہے اور ثروت و قابلیت بھی ۔ کیا آپ اسے قبول کریں گے۔ فرمایا وہ کون ہے؟ نفیسہ نے کہا خدیجہ۔ آپ نے فرمایا کیا وہ اس شادی پر راضی ہوجائیں گی جبکہ میرے اور ان کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نفیسہ نے کہا اسے آپ میرے اوپر چھوڑ دیں میں انہیں راضی کرلوں گی اور ان سے بات چیت کرنے کے لئے آپ کو ان کے گھر لے جاؤں گی ۔ آپ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تومیں تیار ہوں نفیسہ یہ سنتے ہی خوشی سے نہال ہوگئیں اور خدیجہ کو یہ خوش خبری سنانے کےلئے جلدی سے ان کےگھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔ پیغمبر اسلام جناب خدیجہ کے اخلاق و کردار سے بخوبی واقف تھے ۔ دولت کی ہوس جہالت اور بت پرستی کے دور میں خدیجہ کی پاک دامنی، شرافت، عطا و بخشش اور یتیم نوازی زباں زد خاص و عام تھی۔ ایک ایسے شہر میں کہ جہاں تقریبا´ سب لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے پتھر اور لکڑی کے بتوں کے سامنے سر جھکاتے اور ماتھا ٹیکتے تھے، خدیجہ اور ان کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل اس کام کو باطل سمجھ رہے تھے اور حقیقت کی تلاش و جستجو میں تھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو بچپن سے ہی بت پرستی سے نفرت کرتے تھے کس طرح مکہ کی کسی ایسی لڑکی یا عورت سے شادی کر سکتے تھے جو بتوں پر گہرا اور پکا عقیدہ اور ایمان رکھتی تھی ۔ صرف خدیجہ ہی وہ خاتون تھیں کہ جنھیں خدا نے ظہور اسلام سے قبل اپنے آخری پیغمبر کےساتھ شادی کی اہلیت و قابلیت عطا فرمائی تھی۔ جب محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نفیسہ کے ساتھ خدیجہ کی دعوت پر ان کے گھر تشریف لے کر گئے اور ان کےسامنے پہنچے تو ہرچیز گواہی دے رہی تھی کہ یہ کوئی معمولی شادی نہیں ہوگی بلکہ آسمانی اور ملکوتی رشتہ قائم ہونے جا رہا ہے مکہ کی پاک دامن خاتون نے اپنی بات ایک جملے میں خلاصہ کردی پیغمبر سے کہا میں آپ کی سچائی ، امانت داری ، نیک فطرت ، بہترین اخلاق کہ جس کی ہر جگہ شہرت ہے اور آپ کی عظمت و برتری کہ جو تمام لوگوں میں بے مثال ہے کی بنا پر آپ سے شادی کی خواہش مند ہوں ۔ پیغمبر چونکہ ہمیشہ بزرگوں کا احترام کرتے تھے اس لئے خدیجہ کے جواب میں کہا۔ میں اس امر سے اپنے بزرگوں کو آگاہ اور ان سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جناب خدیجہ نے اس بات کو پسند اور قبول کیا اور طے پایا کہ دو نوں کے بزرگ مل بیٹھیں گے اور ان کی موجودگی میں یہ کام انجام پائے گا۔ پیغمبر نے اپنے چچاؤں سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ سے شادی کےلئے ہاں کہہ دی ۔ شادی کی تاریخ طے ہوگئی اور پھر شادی کے دن پیغمبر اسلام اپنے چچاؤں کے ساتھ حضرت خدیجہ کےگھر تشریف لے گئے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت کی گئی ۔ اس کے بعد پیغمبر کے چچا ابوطالب نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور خداوند متعال کی حمد و ثنا کرنے کے بعد اپنے بھتیجے کا تعارف کراتے ہوئے کہا میرے بھتیجے محمد عبداللّہ کا قریش کےکسی بھی مرد سے موازنہ کیا جائے تو بلاشبہ وہ اس پر برتری اور شرف رکھتا ہے۔ اگر چہ مالی لحاظ سے وہ تنگ دست ہے لیکن دولت آنے جانے والی چیز ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ نہیں رہتی جبکہ تقویٰ اور شرافت ایسی چیز ہے جو پائیدار اور باقی رہنے والی ہے اور کوئی بھی دولت اس کا مقابلہ اور برابری نہیں کر سکتی ۔ حضرت ابو طالب نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کا تعارف کرانے کے بعد اپنی بات ختم کی ۔ ان کے بعد حضرت خدیجہ کے چچا زاد ورقہ بن نوفل نے بات کرنا شروع کی ۔ وہ چونکہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتی خصوصیات اور حیرت انگیز مستقبل سے کسی حد تک واقف تھے اور انہوں نے حضرت خدیجہ کا خواب سننے کے بعد پیشین گوئی کی تھی کہ ان کی شادی دنیا کے باشرف ترین مرد سے ہوگی ۔ ورقہ بن نوفل نے کہا مکہ میں کوئی بھی آپ کے فضائل اور شرافت کا منکر نہیں ہے ۔ ہم بھی صمیم قلب سےآپ کے ساتھ رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں ۔ حضرت خدیجہ کامہر 400 درہم طے ہوا اور نکاح حضرت ابو طالب نے پڑھایا حضرت خدیجہ نے اپنا جھکا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا اورمحمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے خوبصورت اور پر کشش چہرے کو دیکھا اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کس طرح ان کی زندگی اس خورشید عالمتاب کے آنے سے روشن و منور ہوگئی ہے اوران کاحیرت انگیز خواب حقیقت کا روپ دھارگیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اورحضرت خدیجہ کی شادی کی تقریب خدیجہ کے گھر میں منعقد ہوئی۔ یہ گھر اس شادی سے قبل غریبوں اور محتاجوں کی جائے پناہ تھا اس شادی کے بعد وہ ان کے لئے مزید اہمیت اختیارکرگیا کیونکہ ان کی آنکھوں نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ با اخلاق اور مہربان کسی اور کو نہیں دیکھا تھا اور حضرت خدیجہ سے زیادہ عطا و بخشش کی حامل کوئی اور شخصیت نہیں دیکھی تھی اور اب وہ دیکھ رہے تھے کہ ان دو عظیم ہستیوں کی شادی ہو رہی ہے لہذا ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس مبارک موقع پر جناب خدیجہ کےگھر کے قریب جمع ہونے والے فقیروں ، غریبوں اور نادار افراد کی اونٹ کے گوشت سے تواضع کی جارہی تھی اور ان کی زبانیں شکر کے کلمات ادا کر رہی تھیں ۔ حضرت خدیجہ اپنے شوہر کے روحانی مقام و مرتبے اور حیرت انگیز مستقبل سے بخوبی واقف تھیں اوراسی بنا پر وہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم میں گہری دلچسپی لے رہی تھیں۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنی ساری دولت پیغمبر کے اختیار میں دے دی کہ وہ جہاں اور جیسے چاہیں خرچ کریں ۔پیغمبر اکرم نے شادی کے بعد اسی راستے کوجاری رکھا جو حضرت خدیجہ نے شادی سے قبل اختیار کیا تھا یعنی یتیموں ،غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے کاراستہ ۔ یہ بے مثال جوڑا دنیا کی تمام عورتوں اور مردوں کے لئے مکمل نمونۂ عمل ہے۔شادی کے بعد پیغمبر اسلام اپنے چچا ابو طالب کے گھر سے حضرت خدیجہ کے گھر منتقل ہوگئے اور حضرت خدیجہ نےاپنا گھر اور تمام دولت و ثروت پیغمبر اکرم کےاختیار میں دے دی۔ حضرت ابو طالب کے ہاں غریبانہ زندگی گزارنے کے بعد پیغمبر خدیجہ کے مال و دولت سے بھرے گھر میں منتقل ہوگئے لیکن پیغمبر کے طرز زندگی میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔ ان کی زندگی اسی طرح سادہ رہی۔انہوں نے غریبوں اور محتاجوں کی مدد نہ صرف جاری رکھی بلکہ اپنے پروردگار سے راز و نیاز کا سلسلہ بھی جاری رکھا اوراس کے لئے وہ بدستور شہر سے باہر پہاڑوں اور غاروں میں جاتے تھے۔
گروپ پانچ جمع ایک ایران کے ساتھ مذاکرات کے کیلئے تیار
روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گروپ پانچ جمع ایک مستقبل قریب میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے انعقاد میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گيا ہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کی سربراہی میں گروپ پانچ ایک رکن ممالک کے نمائندوں کا اجلاس منگل کے روز برسلز میں منعقد ہوا۔ جس میں ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے بیان کے پیش نظر قدم بہ قدم کی پالیسی کے مطابق ایران کے ایٹمی مسئلے کو حل کرنے کے لیے جامع سیاسی و سفارتی راہ حل تلاش کرنے کے عزم کا اظہار کیا گيا۔
بیان میں کہا گيا ہے کہ گروپ پانچ جمع ایک کے اجلاس میں شریک نمائندوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جونہی ایرانی فریق مذاکرات کے لیے تیار ہوا تو یہ مذاکرات شروع کر دیے جائیں گے۔
رهبر معظم کی رمضان المبارک کے پانچویں دن صدر اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات
۲۰۱۳/۰۷/۱۴- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رمضان المبارک کے پانچویں دن صدر جمہوریہ اور وزراء کے ساتھ ملاقات میں ملک کے اندرونی اور بیرونی سطح پر انقلاب اسلامی کے نعروں کو نمایاں کرنے اور دن رات تلاش و کوشش و جد وجہد کو حکومت کی قابل تعریف خصوصیات میں شمار کیا اور صدر احمدی نژاد اور انکے ساتھیوں کی مسلسل اور پیہم تلاش و کوشش اور زحمات پر شکریہ ادا کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس جلسہ میں پیش کی گئی رپورٹ کو انجام شدہ کاموں کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ان رپورٹوں کے بارے میں عوام کو بھی آگاہ کرنا ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مخالفین اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور بعض ملکی ذرائع کی جانب سے حکومتی کوششوں کو نظر انداز کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض لوگ تو حکومت کے نمایاں کاموں کا بھی جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ انجام شدہ زحمات اور کام ملک کی عمومی فضا میں نمایاں طور پر موجود اور مضبوط و مستحکم ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکومت کی دن رات کی تلاش و کوشش اور حکومت کے اچھے اور نمایاں کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ آٹھ برسوں میں ہر انسان نے محسوس کیا کہ صدر جمہوریہ اور ان کے ساتھی نےسختیوں کو برداشت کرکے گذشتہ حکومتوں کی نسبت نمایاں اور برق رفتاری کے ساتھ کام انجام دیئےہیں اور یہ ایک حقیقت اور قابل قدر اور قابل تعریف نکتہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " دیگر ممالک کے حکام " کے امتیازات سے عدم استفادہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امتیازات پر عدم توجہ اور مسلسل و پیہم کام اس حکومت کا بہت بڑا امتیاز ہے اور جو لوگ منصفانہ قضاوت کرنا چاہتے ہیں انھیں حکومت کے ان گرانقدر نکات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابی نعروں کے بیان اور ان کی تقویت کو اہم اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے مخالف محاذ نے انقلابی نعروں کو محو کرنے ان کی قدر و قیمت گھٹانے اور انھیں کم رنگ بنانے کے سلسلے میں کافی تلاش و کوشش کی لیکن انھیں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور اس کی سب سے بڑی وجہ حضرت امام (رہ) کی ہوشیاری اور نعروں کا بیان اور انھیں مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام (رہ) کے وصیتنامہ کو حضرت امام (رہ) کے مورد نظر اور پسندیدہ اقدار کا خلاصہ قراردیا اور حکام کو حضرت امام (رہ) کے وصیتنامہ کو مسلسل پڑھنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ ) کی تحریریں اور تقریریں انقلاب اسلامی کے محکمات اور بینات میں شامل ہیں جن میں تحریف اور تبدیلی ممکن نہیں متشابہات نہیں کہ جن میں تحریف اور تبدیلی ممکن ہوسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابی نعروں کو ملک کےاندر اور باہر مضبوط کرنے کے حکومتی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے اہداف اور مقاصد کو عالمی سطح پر بیان کرنے میں شرم محسوس نہ کرنا حکومت کے نمایاں اور بزرگ کاموں میں شامل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستقبل کی تمام سرگرمیوں میں انقلابی اہداف کو مد نظر رکھنے کے سلسلے میں حکومتی ارکان کو سفارش کرتے ہوئے فرمایا: آپ جیسے شائستہ اور لائق مدیروں کے لئے تلاش و کوشش جاری رکھنا ضروری ہے اور آپ کو اپنی تمام سرگرمیوں میں انقلابی جذبہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے اپنے فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام کے بارے میں وصیت کے بعض جملات پیش کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کے پر تلاطم ، طولانی اور سخت راستے سے قیامت کی جانب عبور کرنے کے لئے دو گرانقدر وصیتیں کی ہیں: 1) محاسبہ اور اس راہ کے لئے زاد راہ اور توشہ فراہم کرنا، 2) اور اس راہ میں اپنے بوجھ کو کم اور ہلکا کرنا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا سے قیامت کی جانب حرکت کرنے کے لئے کم سے کم توشہ واجبات پر عمل اور محرمات ترک کرنے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس کم سے کم توشہ کے ذریعہ انوار الہی کو جذب کرنے کی راہیں فراہم ہو جاتی ہیں ۔
صدر احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے وزراء کی یہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ آخری ملاقات تھی اس جلسہ کے اختتام پر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدر اور ان کی کابینہ کے ارکان کو قرآن مجید کا ایک ایک نسخہ بطور ہدیہ عطا کیا۔
اس جلسہ کے آغاز میں صدر احمدی نژاد نے نویں اور دسویں حکومت کے دوران رہبر معظم انقلاب اسلامی کی بھر پور حمایت ، ہدایت اور راہنمائی پر شکریہ ادا کیا اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہم تمام شرائط میں انقلاب اسلامی ، ملک اور حضرت عالی کی خدمت میں رہیں گے۔
صدر نے انقلاب اسلامی کے اقدار پر پابندی سے عمل، عوام کی بے لوث خدمت، اور تلاش و کوشش کو نویں اور دسویں حکومتوں کی ممتاز خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا: گذشتہ 8 برسوں سے متعہد، مؤمن اور با تجربہ مدیروں کی نئی نسل معاشرے میں خدمات انجام دے رہی ہے۔
صدر احمدی نژاد نے کہا : آٹھ برسوں میں ایسے مدیروں نے خدمات سرانجام دی ہیں جو مؤمن اور انقلابی تھےاور عوام کا احترام اور ان کے حقوق کی حفاظت ان کے فرائض میں شامل تھا۔
صدر احمدی نژاد نے کہا: نویں اور دسویں حکومت نے بھر پور انداز میں عوام کی خدمات کو سرانجام دیا اور بہت سے باقی ماندہ کاموں اور عوام کی آرزوؤں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اس جلسہ میں نائب صدر جناب رحیمی نے بھی بازار پر نگرانی، روزگار کی فراہمی، قومی پیداوار کی حمایت، سبسیڈی کو با مقصد بنانے، اقتصادی جرائم کا مقابلہ ، کرنسی اور اجناس کی اسمگلنگ کا مقابلہ اور اقتصادی پابندیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے اقدامات کے بارے میں مختصر رپورٹ پیش کی۔
اس جلسہ میں وزیر خزانہ جناب حسینی نے عالمی اقتصادی بحران کی طرف اشارہ کیا اور مستقبل میں ایران کے اقتصاد کو تابناک اور امید افزا قراردیا۔
وزیر خزانہ نے گذشتہ سال میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں اقدامات اور غیر ملکی کرنسی کو کنٹرول کرنے کے سلسلےمیں ارز مبادلہ مرکز قائم کرنے کو اپنی وزارت کےاہم اقدامات میں قراردیا۔
وزیر خزانہ نے کہا : کرنسی کے اضافہ سے زراعت، سیاحت ،برآمدات اور بیمہ کے شعبوں میں فائدہ ہوا جبکہ کرنسی سے وابستہ درآمدات میں شدید دباؤ کا سامنا رہا۔
وزیر خزانہ نے کہا: ملک کی ناخالص پیداوار ایک ہزار ارب تومان سے اوپر پہنچ چکی ہے اور دنیا میں ایران کا اقتصادی رتبہ سترہ تک پہنچ گیا ہے ایران کے غیر ملکی ذخائر بھی 100 ارب ڈالر سے اوپر پہنچ گئے ہیں۔
بجلی کے وزیر جناب نامجو نے بھی اپنی رپورٹ میں پانی اور بجلی کے بارے میں اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: نویں حکومت کے آغاز سے بجلی کی ظرفیت 38100 میگاواٹ تھی جو اب 69500 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔