Super User
تصویری رپورٹ: نئی دہلی میں یوم القدس کی ریلی
تصویری رپورٹ: بحرین میں یوم القدس
عالمی یوم قدس خمینی کبیر کی یاد گار
ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو ساری دنیا میں مسلمان اور آزاد ضمیر انسان یوم القدس کے زیر عنوان ملت فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ارض فلسطین پر صیہونی حکومت کے قبضے کے خاتمے پر تاکید کرتے ہیں۔ آج ساری دنیا میں یہاں تک کہ صیہونی حکومت کے سب سے بڑے حامیوں امریکہ اور برطانیہ کے بڑے برے شہروں اور دارالحکومت میں بھی مظاہرے کئےگئے جن میں لوگوں نے صیہونی حکومت کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے ملت فلسطین کےخلاف اسکے مظالم اور اسلام و مسلمین کے خلاف اسکی سازشوں کی مذمت کی۔ عالمی یوم قدس اس بزرگ ہستی کی یاد گار ہے جسے زمانہ خمینی کبیر کے نام سے جانتا ہے۔ خمینی کبیر کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے گرچہ ارض فلسطین پر صیہونیت کے قبضے کو تیس برس گذرچکے تھے اور سامراج یہ بھرپور کوشش کررہا تھا کہ اس مسئلے کو بھلادیا جائے اور اس نے اپنی اس سازش کو کامیاب بنانے کے لئے مسلمان ملکوں کومسئلہ فلسطین سے لاتعلق اور عرب ملکوں کو اپنا ذہنی غلام بنالیاتھا لیکن جیسے ہی اسلامی انقلاب کامیاب ہوتا ہے ساری دنیامیں ایک بار پھر مسئلہ فلسطین زندہ ہوجاتا ہے۔ ہر مسلمان کے قلب و ذہن میں ملت فلسطین اور مسئلہ فلسطین کی تصویر جاگ جاتی ہے، عالم اسلام کاشعور جاگ جاتا ہےکہ اس کا ایک مسئلہ، مسئلہ فلسطین بھی ہے اور امت اسلامی کا ایک حصہ جو ارض مقدس پر رہتا ہے ہرروز صیہونیوں کے ہاتھوں ظلم وستم اور بربریت کا شکار ہورہا ہے۔
ارض فلسطین پر صیہونیوں کے قبصے کو پینسٹھ برس ہورہے ہیں، یعنی چھے دہائیوں سے زائد عرصہ گذر رہا ہےکہ عالم کفر و شرک کا نمائندہ اور سرمایہ داری کا خاص الخاص نمائندہ یا بالفاظ دیگر دنیائے کفر والحاد، وفسق و فجور و فحشاء کا بے تاج بادشاہ صیہونیزم ارض فلسطین پر قابض ہے اور ملت مظلوم فلسطین کو ہر طرح سے ظلم و بربریت کا نشانہ بنارہا ہے۔ اب یہاں ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہےکہ آخر کن وجوہات کی بنا پر عالم اسلام بالخصوص عرب ممالک ارض فلسطین کو آزاد کرانے میں ناکام رہے ہیں اورآج بھی ناکام ہیں اور سب زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اب انہوں نے اس مسئلے کو بھلادیا ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کسی طرح سے لین دین کے ذریعے حل ہوجائے۔ اس سوال کا جواب کافی طویل اور تفصیلی ہے کیونکہ اس میں متعدد وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ تاریخ پر نظر رکھنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ سرزمین حجاز پر حکمراں خاندان کے سرغنے سعود نے بوڑھے سامراج کو یہ لکھ کردیے دیا تھا کہ فلسطین سے ہم دستبردار ہوتے ہیں اور یہ قطعہ ارض تمہیں بخشتے ہیں گویا یہ ان کی ملکیت تھی جسے وہ اپنے سامراجی آقاؤں کو بخش رہے تھے جنہوں نے انہیں ارض وحی پر مسلط ہونے میں مدد دی تھی۔ ملت فلسطین کی بدبختی اور نکبت بار زندگي میں تاریخ کے اس گوشے سے غفلت جائز نہیں ہے اسے نظر میں رکھنا چاہیے۔ سب سے اہم بات جو ہمارے جواب کی بنیاد ہے یہ ہے کہ خاندان عثمانی کی بے راہ روی کے نتیجے میں اس مملکت کا شیرازہ بکھرنا، اس کے نتیجے میں عرب و عجم اختلافات، جس کے سہارے عالم کفر و الحاد نے مسلمانون کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ان کی طاقت کو صفر بنادیا اس کےعلاوہ بعض سامراجی آئيڈیالوجیوں کا ظہور بالخصوص وہابیت کا ظہور جس نے مسلمانوں کو حقیقی اسلام کی تعلیمات سے محروم کرکے انتھا پسندی کے نشے میں غفلت کی وادیون میں بھٹکادیا نیز مسلمانوں کے مسلکی اختلافات نے انہيں قرآن و سنت سے ایسا دور کردیا کہ وہ کسی کام کے نہ رہے ، جب ان کے نزدیک دین و قرآن کے احکام کی آبرو نہ رہی توبھلا وہ کس طرح سے اپنے ایک حصے اور ارض فلسطین کو اہمیت دیتے۔ جیسے جیسے مسلمان دنیا میں نو ظہور مکاتب فکر کے جالوں میں پھنستا گيا اسی رفتار سے وہ دین و قرآن سے دور ہوتا گيا جس کے نتیجے میں اس پر وہ ساری افتادیں پڑنے لگيں جن سے سرور کائنات اور ان کے جانشین برحق نے خبردار کیا تھا۔ انیس سو نواسی میں اسلامی انقلاب کا کامیاب ہونا اسلام اور مسلمانوں کےلئے نشاۃ ثانیہ ثابت ہوا اور اس انقلاب نے مسلمانوں کے شعور اور ضمیر کو جھنجھوڑ کر جگایا۔ اسلامی انقلاب کے طفیل مسلمان بیدار ہوگيا اور اس نے کلمہ توحید اور پرچم عدل و وعدہ الھی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کی کوشش شروع کردی لیکن جس طرح سے تمام انبیاء کرام کی تحریکوں کو طاغوتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے وارث انبیاء کی اس تحریک کو بھی کرنا پڑا، یہاں پر نہ صرف سامراج بلکہ اپنے ہمساے اور نام نہاد مسلمان ممالک جن میں نہایت ہی شرمناک طریقے سے خادم الحرمین شریفین کا لقب دھارنے والے حکمران بھی شامل بھی تھے جنہوں نے اپنی تیل کی کمائي سے نہ صرف اسلامی انقلاب کی مخالفت کی بلکہ دیگر ملکوں اور قوموں کو بھی جو ان کی تیل کی دولت کی غلامی میں آچکے تھے اسلام ناب کے انقلاب کی مخالفت کرنے پرمجبور کیا۔ آل سعود اور اس کے چیلوں کی جانب سے اسلامی انقلاب کی مخالفت اور ہروہ بات جو ملت فلسطین کے حق میں اور اسکے مفادات کے حق میں تھی اس کی مخالفت فلسطین کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کرانے میں ناکامی کی ایک بڑی دلیل ہے۔ آل سعود نے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرکے نیز اسکے خلاف عالمی سطح پر سازشیں رچ کر ملت فلسطین کو آزادی اور قدس شریف کی مسلمانوں کی آغوش میں واپسی سے محروم کرنے کے لئے عالم کفر وشرک و الحاد کی نیابت میں وہ سارے کام کئے ہیں جن کی انجام دہی امریکہ اور صیہونی حکومت کے لئے اربوں کے بجٹ اور عظیم فردی اور مادی سرمائے کے خرچ کرنے کا سبب بنتی۔ صنادید کفر و شرک کی خوشنودی کے لئے آل سعود نے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرکے نہ صرف لاکھوں افراد کو لقمہ اجل بنایا ہے بلکہ قدس شریف پر صیہونیوں کے قبضے کو مستحکم بنادیا ہے۔ کیا آج سامراج اور صیہونیت کی عید نہیں ہے کیا وہ پھولے نہیں سمارہے ہیں کہ شام میں مسلمانوں کی ساری طاقت ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے میں صرف ہورہی ہے، کیا سامراج کی اس عید کا سب سےبڑا مسبب آل سعود نہیں ہے؟ کیا اسلامی انقلاب نے ارض فلسطین کی آزادی کا نعرہ لگاکر مسلمانوں کے دل کی بات نہیں کہی تھی، لیکن حرمین شریفین پرمسلط آل سعود نے اس کی مخالفت کیوں کی؟ اس وجہ سے کی کہ اگر قبلہ اول آزاد ہوجاتا تو قبلہ دوم کیونکر نہ آزاد ہوتا؟ ان دنیا پرستوں کو اپنے تخت و تاج کی فکر تھی اس لئے انہوں نے اپنی چند روزہ حکومت کے لئے قبلہ اول پر صیہونیت اور کفر و شرک کے قبضے کوترجیح دی اس کے باوجود ضیوف الرحمان اور حرمین شریفین کی خدمت گذاری کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ آل سعود اور اسکے ایجنٹوں اور اسکے آقاوں کی سازشوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہےکہ کفروشرک کی دنیا توخیر ہماری دشمن ہے ہی اسکے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے لیکن جب خود اپنے ہی کفر وشرک کے ساتھ مل کر وہ سارے کام کرنے لگيں جن میں امت اسلامی کا نقصان اور کفر وشرک کا فائدہ ہے تو اس صورت میں کیا کیا جائے گا؟ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ تمام اقدامات جو ملت فلسطین کے حق میں قوموں نے انجام دینے کا اعلان کیاتھا انہیں آل سعود نے سبوتاژ کیا ہے۔ ان اقدامات میں آج اسلامی بیداری کی تحریکیں ہیں جنہیں آل سعود منحرف کرنے اور ان پرقبضہ کرنے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہارہی ہے۔ حج کے دوران حاجیوں کو کفر وشرک کے خلاف اظہار برائت سے روکنا آل سعود ہی کا شرمناک اقدام جس کے ذریعے اس نے اپنے کرم فرماؤں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کےخلاف مسلمانوں کی صدائے احتجاج کو خاموش کردیا ورنہ قران تو یہ کہتا ہےکہ مسلمانوں کو حج کے دوران قیام کرنا چاہیے۔ آل سعود نے حج کے دوران کفروشرک کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج کو روک کر صیہونی حکومت کی بقا کی ضمانت فراہم کی ہے ورنہ اگر مسلمان ہرسال حج کے موقع پر امریکہ اور صیہونی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے رہتے تو آج امت اسلامی کب کا قدس شریف کو آزاد کراچکی ہوتی لیکن آل سعود تو ٹہری امریکہ اور صیہونیت کی خدمت گذار وہ ایسا کیوں کرنے دیتی۔ امر واقعہ یہ ہےکہ کفر وشرک کے سرغنوں نے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرنے میں آل سعود کو اپنا ایسا آلہ کار بنایا تھا جس کا ایک تیر بھی خطا نہیں ہوا اور اس نے اپنے آقاوں کی تمام آرزوں کوپورا کیا اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہےکہ جب تک آل سعود کی حکومت قائم ہے صیہونی حکومت باقی رہے گي اور اسے کسی طرح کاخطرہ لاحق نہیں ہوسکتا۔ افسوس تو اسی بات ہے کہ سامراج مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان کا گلہ کٹوارہا ہے۔ ان تمام امور کے پیش نظر یہ سمجھ میں آتا ہےکہ منجملہ مختلف وجوہات کے امریکہ اور صیہونیت کی خوش خدمتی کے لئے آل سعود کی جانب سے اسلامی انقلاب کی مخالفت کرنا بھی ایک وجہ ہے جس کی بنا پر آج ارض فلسطین اور قدس شریف بدستور صیہونیوں کے قبضے میں ہے۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس قراردے کر یہ واضح کردیا ہےکہ قدس کو آزاد کرانا ہر مسلمان کا دینی اور انسانی فریضہ ہے۔
ملت فلسطین کے حقوق کی بازیابی کا واحد راستہ اسرائيل کے خلاف مزاحمت ہے
تہران کے خطیب نماز جمعہ نے کہا کہ ملت فلسطین کے حقوق کی بازیابی اور ان کی مشکلات کے حل کا واحد راستہ اسرائيل کے خلاف مزاحمت ہے ۔
تہران کے خطیب جمعہ آیت اللہ سید خاتمی نے عالمی یوم قدس کے مظاہروں میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا کہ فلسطین کے مسئلے کا واحد راہ حل اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھنا ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور روش ملت فلسطین کے لئے بے فائدہ ہے ۔ تہران کے خطیب جمعہ نے صہیونی حکومت کی جارحیتوں کے مقابلے میں فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی قوم نے آج عالمی یوم قدس کی ریلیوں ميں وسیع پیمانے پر شرکت کی اورایک بار پھر امریکہ مردہ باد اوراسرائيل مردہ باد کے فلک شگاف نعروں کے ذریعے ملت فلسطین کے لئے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔ آیۃ اللہ خاتمی نے فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل کے درمیان ساز باز مذاکرات کو بھی صہیونی حکومت کےاہداف کے دائرے ميں قرار دیا اور کہا کہ ان مذاکرات کی ، اسرائیل کی جعلی حکومت کو قانونی حیثیت دینے کے لئے منصوبہ بندی کی گئ ہے ۔ تہران کے خطیب جمعہ نے عالم اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی امریکی سازش سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور صہیونی حکومت ، شام اور عراق میں نادان تکفیری دہشت گرد گروہوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کے ذریعے لوگوں کاقتل عام کرکے علاقےمین اپنے اہداف حاصل کرنے کے درپے ہیں ۔
پاکستان میں سیلاب سے تباہی
پاکستان میں ہونے والی موسلادھار بارش کے بعد اس ملک کے کئی علاقوں میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگئی جبکہ خیبرپختونخوا میں برساتی نالے میں طغیانی سے پشاور کے کئی علاقے زیر آب آ گئے، ورسک روڈ اور چارسد روڈ پر بڈھنی نالے کے قریب سینکڑوں گھروں میں سیلابی پانی داخل ہوگیااور5 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
سیلاب اورطغیانی کے باعث پشاوراور چارسدہ کا زمینی راستہ منقطع ہوگیا۔
ضلعی انتظامیہ اور فوج کے اہلکاروں نے ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے کشتیوں کے ذریعے پانی میں پھنسے ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد کو محفوظ مقامات پرمنتقل کردیا۔
عسکری حکام کے مطابق صوبائی حکومت کی درخواست پرامدادی کارروائیوں کے لیے موٹر بوٹس فراہم کر دی گئی ہیں جبکہ سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کور ہیڈ کوارٹر پشاور میں مانٹیرنگ روم بھی قائم کر دیا گیا ہے۔
ادھر اس ملک کے صوبے بلوچستان میں بھی سیلاب نے تباہی مچا دی کئی علاقے زیر آب آ گئے اورکئی علاقوں میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے۔
ایران سمیت پوری دنیا میں عظیم الشان القدس ریلیاں
آج دنیا بھر میں قبلہ اول کی آزادی اورفلسطینی مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یوم القدس منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پراسلامی جمہوریہ ایران،پاکستان، ہندوستان، لبنان، عراق، بحرین اور فلسطین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں القدس ریلیاں نکالی گئیں جبکہ کئی مما لک میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران سمیت پورے ایران میں آج عظیم الشان القدس ریلیاں نکالی گئیں جن میں کروڑوں افراد نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء امریکہ، اسرائیل اورعالمی استکبار کے خلاف فلگ شگاف نعرے لگا رہے تھے۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد،لاھور، کراچی، پشاور، کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت کئی شہروں میں القدس ریلی نکالی گئی جبکہ کراچی میں مرکزی القدس ریلی اپنے راستے پر رواں دواں ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں روزہ دار شریک ہیں اس موقع پر سکیورپٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ جبکہ کوئٹہ میں نکالی جانے والی القدس ریلی کے موقع پر3سال قبل القدس ریلی پرہونے والے خودکش حملے میں شھید ہونے والے70روزہ دار مسلمانوں کوخراج تحسین پیش کیا گیا۔
ہندوستان کے داراحکومت دھلی، کشمیر، لکھنوحیدرآباد اوربمبئی سمیت کئی شہروں میں القدس ریلیاں نکالی گئیں جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔
مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کے ان بنیادی مسائل میں سے ہے جس نے گزشتہ کئی عشروں سے امت مسلمہ کو بے چین کررکھا ہے اور اسی بات کے پیش نظربانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کا نام دیا جس کے بعد سے ہرسال اس
جس کے بعد سے ہرسال اس روز دنیا بھر میں القدس ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔
اسلامی ملکوں سے حسن نصراللہ کی درخواست
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل حسن نصراللہ نے فلسطینی اہداف کو درپیش خطرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مسلم اور عرب ملکوں سے اپیل کی کہ فلسطین کی آزادی کو وہ اپنی پہلی ترجیح قرار دیں ہمارے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق سید حسن نصراللہ نے عالمی یوم قدس کی مناسبت سے اپنی تقریر میں جنوبی بیروت میں واقع سیدالشھداء کمپلکس میں کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے چند مہینوں کے بعد سات اگست 1979 کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے ایک بیان میں مستضعف قوموں خاص طور پر مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعے کو عالمی یوم قدس منائيں ۔
رھبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای بھی امام خمینی(رح) کی رحلت کے بعد اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی نے اسرائيل کی حقیقی ماہیت کوآشکارہ کیا اور اس حکومت کو کینسر کے پھوڑے سے تعبیر کیا اس لئے اسرائيل کا وجود ایک ناسور ہے اور اس ناسور کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اسرائیل نہ صرف فلسطین کے لئے خطرہ ہے بلکہ علاقے کے ملکوں کے لئے ایک عظیم خطرہ ہے ۔ بعض لوگ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اسرائیل صرف فلسطین کے لئےخطرہ ہے اور اس سے لبنان ، شام ، اردن ، مصر ، عراق اور خلیج فارس اور شمالی افریقہ کے اسلامی ملکوں کو خطرہ نہیں ہے جبکہ یہ لوگوں کے ذہنوں کو منحرف کرنے کی ایک چال ہے ۔
عالمی یوم قدس ، صیہونیوں کے خلاف ملت اسلامیہ کے اتحاد کا مظہر
عالمی یوم القدس کی آمد آمد ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس دن مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ظالم صیہونی حکومت کے خلاف اپنی نفرت کا بھر پور انداز میں اظہار کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جس کی خبریں پاکستان ، ہندوستان ، افغانستان اور ترکی سمیت دنیا کے مختلف ممالک سے موصول ہورہی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی اسی تناظر میں ایک کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گيا جس سے اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اورخارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ علاء الدین بروجردی اور فلسطینی شخصیات نے تقریریں کیں۔ مقررین نے عالمی یوم القدس کی اہمیت اور مسئلہ فلسطین کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کرنے کے سلسلے میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح کے کردار پر روشنی ڈالی۔
علاء الدین بروجردی نے کہا ہے کہ حضرت امام خمینی (رح) نے یوم قدس کو عالمی کرنے کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کی ترجیحات میں سے قرار دیا۔ ڈاکٹر علاء الدین بروجردی نے آج تھران میں علاقائی سیاست و سیکورٹی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے پرتو میں عالمی یوم القدس کے حوالے سے منعقدہ خصوصی پریس کانفرنس میں عالمی یوم القدس کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی فکر کی علامت قرار دیا اور کہا کہ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو عرب قومیت کے دائرے سے نکال کر ملت اسلامیہ کے مسئلے میں تبدیل کردیا اور تین سو ملین عرب فوج کو مل اسلامیہ کی ڈیڑھ ارب فوج میں بدل دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے مزید کہا کہ اسلام میں قدس شریف اور اس کا اعلی و ارفع مقام سرحدوں سے بالاتر رہا ہے اور قدس کا تعلق ساری ملت اسلامیہ سے ہے۔ڈاکٹر بروجردی نے کہا کہ حضرت امام خمینی (رح) نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اور مسئلہ فلسطین اور اس مسئلے کو علاقائی و عالمی سطح پر ہمیشہ باقی و زندہ رکھنے کے لئے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے عالم اسلام اور علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ تسلط پسند نظام اس کوشش میں ہے کہ سازشوں اور خطرناک منصوبوں پر عمل درآمد کے ساتھ اسلامی ملکوں میں خانہ جنگی شروع کروادے تاکہ ملت اسلامیہ کی توانائیوں اور صلاحیتوں پر ضرب لگا کر ان کو ماضی سے زیادہ کمزور کردے۔علاء الدین بروجردی نے مزید کہا کہ جب سے فلسطین کی سرزمین میں صیہونیوں کو لا کر بسایا جانا شروع کیا گيا ہے اسے زمانے سے ملت فلسطین مسلمانوں کے ان دشنموں کے خلاف برسرپیکار ہے۔
اس کانفرنس میں فلسطینی شخصیات نے بھی عالمی یوم القدس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی اور صیہونیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد کرنے کے سلسلے میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رح کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح)نے مسلمانوں کے قبلۂ اول بیت المقدس کو صیہونیوں کے چنگل سے آزاد کرانے، عالمی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کرنے اورمسلمانوں کے خلاف صیہونیوں کی سازشوں کو طشت از بام کرنے کیلئے ماہ رمضان المبارک کے جمعتہ الوداع کو عالمی یوم القدس کا نام دیا ہے اوراس روز دنیا بھرکے حریت پسند اس فرمان پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ مردہ باد،اسرائیل مردہ باد اورعالمی صہیونیزم مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا کر قبلئہ اول کی آزادی کیلئے گھروں سے باہر نکلتے ہیں۔
یوم القدس کے دن تمام مسلمان گھروں سے باہر نکل آئیں گے اور ان کا نعرہ ایک ہوگا، انکی آواز ایک ہوگی، ان کا دشمن ایک ہوگا، اور انکا ہدف ایک ہوگا، اور یہ یوم القدس مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کا پیکر بن کر سامنے آئے گا۔ یوم القدس منانے کے مقاصد میں سے ایک مقصد لوگوں کی توجہ مسلمانوں کے اتحاد اور بیت المقدس کی جانب مبذول کرانا ہے، الحمداللہ اب روز بہ روز یوم القدس اپنی بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اگر مسلمانان عالم کا یوم القدس منانے کا انداز اسی طرح اور اسی سطح پر بڑھتا رہا تو عنقریب ہم فلسطین اور قبلہ اول کو آزاد ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ انشاءاللہ
ممنون حسین پاکستان کے 12ویں صدر منتخب

پاکستان کی حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے 12ویں صدر منتخب ہو گئےہیں۔
اسلام آبادسے موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نئے صدر کے لئے مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار ممنون حسین اور تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمد کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔
ممنون حسین نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 277 سندھ اسمبلی سے 64 بلوچستان اسمبلی سے 55 جبکہ خیبر پختونخوا اسمبلی سے 41 ووٹ حاصل کئے۔ ان کے مدمقابل امیدوار جسٹس وجہیہ الدین نے ٹوٹل 109 ووٹ حاصل کئے۔
ممنون حسین کو ایم کیو ایم، جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ ضیا، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، مجلس وحدت المسلمین اور آزاد اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ جبکہ وجیہہ الدین کی حمایت جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ نے کی۔
صدارتی انتخاب کیلئے پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ قاف اور بی این پی عوامی نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔
غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممنون حسین 437 ووٹ لے کر واضع برتری کے ساتھ آئندہ 5 سال کے لئے پاکستان کے 12ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس وجہیہ الدین 109 ووٹ حاصل کر سکے۔
نومنتخب صدر موجودہ صدرآصف زرداری کے عہدہ صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد حلف اٹھائیں گے۔
صدر زرداری کے عہدے کی میعاد 8 ستمبر کو ختم ہوگی۔
رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے طلباء کی ملاقات

۲۰۱۳/۰۷/۲۸ -
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے آج سہ پہر کو یونیورسٹیوں اور اعلی تعلمی مراکز کے ایک ہزار طلباء نے صمیمی ماحول میں ملاقات کی اس ملاقات میں طلباء نے سیاسی، سماجی، علمی ، ثقافتی ، اقتصادی اور یونیورسٹیوں کے مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے نظریات کو پیش کیا۔
اس ملاقات کا آغاز سہ پہر 5 بجے سے ہوا اوراس کا سلسلہ نماز مغرب و عشا تک جاری رہا۔ طلباء کی مختلف انجمنوں کے 12 نمائندوں نے اپنے مسائل ، مطالبات اور مؤقف کو پیش کیا۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بیان شدہ مسائل کے متعلق جواب دیتے ہوئےبعض نکات بیان کئے، حقائق اور اہداف کی نسبت کی تشریح ، طلباء کی ذمہ داریوں ،وظائف اور یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کی راہوں پر روشنی ڈالی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء کے بانشاط ،صمیمی اور ولولہ انگیز اجتماع سے ملاقات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور اس ملاقات میں بیان شدہ موضوعات اور مطالب کو پختہ اور سنجیدہ قراردیتے ہوئے مختلف اداروں کو طلباء کی تجاویز کے محقق ہونے کی راہوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کی سفارش فرمائي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے اعتدال کے معنی بیان کرنے کے سلسلے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: منتخب صدر محترم نے اس نعرے کو بیان کیا ہے اور یقینی طور پر وہ اپنے اس نعرے اور اعتدال کے معنی اور مفہوم کو بھی بیان کریں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے منتخب صدر کی حکومت کے ساتھ تعاون پر مبنی سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ تمام حکومتوں کے ساتھ تعاون جاری رہا ہے اس حکومت کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایسا کرےگی تو تعاون کریں گے ورنہ تنقید کریں گے، میں تنقید کے خلاف نہیں ہوں لیکن تنقید اور عیب جوئی میں بڑا فرق ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ پہلے کام کرنے ، تلاش و کوشش اور خدمت کا موقع دینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوہ مجریہ کے کام کو حقیقت میں سخت اور دشوار قراردیتے ہوئے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں کمزور نقطہ موجود نہ ہو، لہذا توقعات کو اتنا بلند و بالا نہیں لے جانا چاہیے جن پر پورا اترنا انسان کی توانائی سے خارج ہوجائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقائق اور مشکلات کو مد نظر رکھنےکی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تمام فعال سیاسی جماعتوں، اور یونیورسٹیوں کے افراد کو ایکدوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینا چاہیے تاکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے تمام اموردرست اور صحیح انجام پذیر ہوں۔
ایک اور طالب علم نےسیاسی اور سماجی تحلیل اور تجزيہ کی بنا پر طلباء کے درمیان کینہ ، عداوت اورکدورت پیدا ہونے کی طرف اشارہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسیاسی اور سماجی تحلیل اور تجزيہ کو دشمنی اور کدورت میں بدلنے سے اجتناب اور پرہیز کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مختلف سلیقوں کے حامی طلباء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی و سماجی تحلیل اور تجزيہ کو خصومت، دشمنی اور بغض و کینہ میں تبدیل ہونے کی اجازت نہ دیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: حضرت امام (رہ) کی سفارش کے مطابق دینی طلباء کی طرح رہیں جو مباحثہ کے وقت بہت ہی سنجیدہ ہوتے ہیں لیکن دوسرے اوقات میں آپس میں محبت ،دوستی اور الفت سے پیش آتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ کے بارے میں بعض طلباء کے مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس تلخ و ناگوار واقعہ میں کچھ لوگ قانون شکنی پر اترآئے اور وہ قانون کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے جس کی وجہ سے ایران کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ممکن ہے کہ ایک بڑے واقعہ کے ساتھ کچھ دوسرے واقعات بھی رونما ہوں جن میں ایک شخص ظالم یا مظلوم واقع ہوجائے لیکن ہر حال میں اس مسئلہ کی بنا پر دیگر مسائل کی راہ کو گم نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں بنیادی اور اساسی سوال بیان کرتے ہوئے فرمایا: سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں دھاندلی کے مدعی افراد نے قانون کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے سڑکوں کا راستہ کیوں اختیار کیا؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نےمتعدد بار اس سوال کو عام اجتماعات میں بیان کرنے کے بجائے جواب دینے کی شکل میں پیش کیا ہے پھر وہ کیوں جواب نہیں دیتے اور معذرت طلب نہیں کرتے ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: وہ خصوصی نشستوں میں انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں پھر انھوں نے کس بنا پر ملک کو اتنے بڑے نقصان اور خطرےسے دوچار کیا؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےبعض علاقائی ممالک میں بحران اور خونریز حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ جانتے ہیں کہ اگر سن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ میں اللہ تعالی کی مدد و نصرت شامل حال نہ ہوتی اور عوامی گروہ ایکدوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوجاتے تو ملک کو کن سخت اور ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا؟ البتہ اللہ تعالی نے حفاظت فرمائی اور قوم نے بھی بصیرت سے کام لیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے سختی سے پیش آنے پر مبنی سوال کے جواب میں منطقی بحث میں سختی کو سنجیدگی اور استقامت کے معنی میں قابل قبول امر قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر سختی کرنے سے مراد طاقت اور زور کے بل بوتے پر مخالفت ہو تو میں اس کے خلاف ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے تمام اداروں بالخصوص پارلیمنٹ ، عدلیہ اور ریڈیو ٹی وی پر نگرانی کے بارے میں سوال کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ اور عدلیہ پر نگرانی اور نظارت کیسے ہو یہ ایک اہم مطلب ہے اور فعال طلباء اس سلسلے میں کام کرسکتے ہیں اور اپنی تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں کچھ سوالات اور ان کے جوابات پیش کئے اور طلباء پر زوردیا کہ وہ یونیورسٹیوں میں ان موضوعات کے بارے میں بحث اور تبادلہ خیال کریں۔
پہلا سوال: انقلاب کے اہداف کے ساتھ انقلابی عنصر اور طالب علم کی نسبت کیا ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پرانقلاب کے اہداف کی تشریح اور معاشرتی حقائق کے ساتھ ان کے رابطہ کے بارے میں بحث کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اہم نکتہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوانوں کی ہمت، شجاعت، نشاط اور طاقت کے بغیر انقلاب کے اہداف تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جوانوں کے نقش و کردار پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ میرا اس بات پر اعتقاد ہے کہ جوانوں کے اندر گرہیں کھولنے کی طاقت اور توانائی موجود ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد انقلاب اسلامی کے اہداف اور اصولوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کئی اہداف اور اصولوں پر مشتمل ہے اور ان تمام اہداف تک پہنچنے کےسلسلے میں تلاش وکوشش کرنی چاہیے لیکن ان اہداف کے مختلف درجات اور مراحل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عادلانہ، پیشرفتہ اور معنوی معاشرے کو اسلامی نظام کے سر فہرست اہداف میں قراردیتے ہوئے فرمایا: عادلانہ معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں حکام کی رفتار منصفانہ اور عادلانہ ہوتی ہے اورعوام بھی ایکدوسرے کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ علمی سیاسی، اور ثقافتی سطح پر بھی پیشرفتہ اور معنوی لحاظ سے بھی سیراب ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایسے اہداف تک پہنچنے کو ممکن اور قابل عمل قراردیتے ہوئے فرمایا: اب تک اس سلسلے میں اہم اور اچھی پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور ایسا معاشرہ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصلی اہداف کے بعد اسلامی نظام کے بعض دیگر اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پائدار اور مزاحمتی اقتصاد ، معاشرے میں امن و سلامتی، پیشرفتہ صنعت و پیشرفتہ زراعت، بارونق و با نشاط تجارت، علمی پیشرفت ، عالمی سطح پر سیاسی اور ثقافتی نفوذ یہ سب کے سب اسلامی نظام کے اہداف ہیں جو محقق ہوسکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرا سوال حقائق کے ساتھ اہداف کی نسبت کے بارے میں طلباء کے سامنے پیش کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مثال کے طور پراقتصادی پابندیاں ایک حقیقت ہیں اور دوسری طرف اقتصادی ترقی و پیشرفت انقلاب کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اقتصادی پیشرفت کیسے ممکن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حقائق کے ساتھ اہداف اور اصول کے موضوع میں ہمیں اصول و ہدف کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حقیقت پر توجہ کئے بغیر ہدف وہم اور خیالی تصور میں تبدیل ہوجائے گا ، البتہ اصلی حقائق میں اور حقائق کو بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں نمایاں فرق ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نفسیاتی جنگ میں غیر واقعی حقائق کو پیش کرنے کے طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بصیرت کا ایک اہم کام یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اس کو حقیقت کے طور پر دیکھے اور اس میں کسی غلطی اور اشتباہ سے دوچار نہ ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض حقائق کو بڑا بنا کر پیش کرنے اور بعض دیگر حقائق کو نظر انداز کرنے کو نفسیاتی جنگ کی دوسری تکنیک قراردیتے ہوئے فرمایا: مثال کے طور پر ایک حقیقت یہ ہے کہ بعض ممتاز دانشور ملک سے باہر جارہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک اور حقیقت بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ ملک میں دانشور طلباء میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے لیکن دشمن کے پروپیگنڈے میں پہلی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور دوسری حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاس بحث کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: حقائق پر نظر رکھنے والے طلباء کامیابی اور ناکامی کسی بھی حالت میں مایوس اور منفعل نہیں ہوتے ہیں کیونکہ صحیح اصولوں پر گامزن رہنے میں ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عزیز طلباء سے میری توقع یہ ہے کہ وہ تمام شرائط میں حقیقی نگاہ کے ساتھ اہداف کی جانب گامزن رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے تیسرے سوال کو اس طرح پیش کیا : " تکلیف و ذمہ داری اور نتیجے تک پہنچنے کا باہمی رابطہ کیا ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے معروف جملے" ہم ذمہ داری اور تکلیف انجام دینے کی تلاش میں ہیں " کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کئی سال تک ان تمام سختیوں اور زحمتوں کو برداشت کرنے کے باوجود نتیجے کی تلاش میں نہیں تھے؟ یقینی طور پر ایسا سوچنا غلط ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تکلیف اور ذمہ داری پر صحیح عمل یہ ہے کہ انسان مطلوب نتیجے تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور تکلیف پر عمل کرے اور غلط اور غیر ذمہ دارانہ کام کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اگر انسان نتیجہ تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور تکلیف کی بنیاد پر عمل کرےگا تو آگر وہ مطلوب نتیجے تک نہ بھی پہنچ پائے تواسے پشیمانی اور شرمندگی کا احساس نہیں ہوگا۔
تکلیف پرعمل اور نتیجےکی تلاش میں رہنے میں کوئی منافات نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط کے موضوع پر زوردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یونیورسٹیوں کے مختلف سیاسی، سماجی اور علمی شعبوں میں شوق و نشاط کی فضا کو نمایاں رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کو ملک کے بڑے اور مختلف سیاسی مسائل میں تحقیق و جستجو کا اہم مرکز قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں میں مختلف داخلی اور عالمی مسائل کے صحیح فہم اور تحلیل کا راستہ شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم راستہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصلی مسائل کی شناخت و پہچان اور انھیں فرعی اور جزوی مسائل سے جدا کرنے اور غیر ترجیحی مسائل میں سرگرم نہ ہونے کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا دوسرا راستہ قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یونیورسٹیوں کے طلباء بانشاط اور خلاق مباحث کے ذریعہ مسائل کی ترجیحی رتبہ بندی میں ملکی حکام کی مدد کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی رزم و جہاد کے موضوع کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم مصداق قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی رزم و جہاد ملک کے اہم مسائل میں ہے اور یونیورسٹی کے طلباء اس موضوع کے بارے میں تحقیق کرکے ملک کی پیشرفت میں بہت بڑی مدد پہنچا سکتے ہیں۔







































![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
