Super User
سید عمار حکیم: قومی دشمن عراق کو ناامن کرنے پر مصمم

عراق کی مجلس اعلی کے سربراہ حجت الاسلام سید عمار حکیم نے ایک اجتماعی وب سائٹ کے اپنی خصوصی پیج پر عراق کے حالیہ سلسلہ وار ہونے والے بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے لکھا : بعض تباہکاروں اور بد خواہوں نے عراق کو نا امن بنانے پر کمر کَس رکھی ہے ۔
انہوں نے مزید لکھا: ملت عراق بدون شک دھشت گرادنہ اقدامات اور تکفیری سازشوں کو ناکارہ بناکر رہے گی اور مختلف فتنوں کے مقابل اتحاد و یکجہتی کی مثال قائم کرے گی ۔
حجت الاسلام حکیم نے ملت عراق کے بدخواہوں کی کھلم کھلا اور پوشیدہ سازشوں کی جانب اشارہ کیا اور کہا: بعض افراد نے عراق میں بے ثباتی اور بحرانی فضا قائم کرنے میں اپنی تمام توانائی صرف کردی ہے ۔
واضح رہے کہ اس ہفتہ عراق میں ہونے والے بم دھماکوں میں 60 افراد جاں بحق اور 200 سے زیادہ زخمی ہو گئے ہیں۔
رہبر معظم سے یونیورسٹیوں کے اساتید کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے سیکڑوں اساتید اور علمی انجمنوں کے اراکین نے ملاقات میں یونیورسٹیوں کے مختلف علمی موضوعات کے بارے میں اپنے اپنے نظریات بیان کئے۔
اس ملاقات کے آغاز میں 9 اساتید نے ایک گھنٹہ تیس منٹ تک اپنی تجاویز اور اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ملک کی برق رفتار علمی پیشرفت کے سلسلے میں پیہم اور مسلسل تلاش و کوشش اور جد وجہد پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: علمی پیشرفت و ترقی کے ذریعہ سیاسی اور اقتصادی اقتدار کی راہ ہموارہوتی ہے اور یہ امر عالمی سطح پر ایرانیوں کی عزت و عظمت کا باعث بھی ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے یونیورسٹیوں میں سائنسی اور علمی گفتگو، سائنسی ترقی اور پیشرفت کے بارے میں گفتگو ، ملک کی عمومی پیشرفت کے بارے میں گفتگو کی حفاظت اور تقویت بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اساتید کے ساتھ اس قسم کے جلسات کے انعقاد کو سب سے پہلے یونیورسٹیوں کے اساتید اور علم کے مقام کے احترام کے سلسلے میں علامتی اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: ان جلسات کے انعقاد کا دوسرا مقصد ملک اور یونیورسٹیوں کے مختلف اور گوناگوں مسائل کے بارے میں اساتید محترم کے نظریات کا سننا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اساتید کے درمیان مختلف نظریات کی موجودگی کو سبق آموز اور قابل توجہ قراردیا اور ملک میں علمی و سائنسی ترقی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تقریبا گذشتہ 12 سال سےملک میں علم کی پیداوار اورسائنسی ترقی اور پیشرفت کے سلسلے میں تلاش و کوشش اور جد وجہد کا آغاز ہوا ہے اور یہ حرکت متوقف نہیں ہوئي بلکہ مزید سرعت کے ساتھ آگے کی جانب رواں دواں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس علمی اور سائنسی حرکت کو اسلامی جمہوری نظام اور ملک کے لئے بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: دنیا کے معتبر علمی مراکز نے بھی بعض منفی نظریات کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کی اس علمی اور سائنسی پیشرفت کا اعتراف کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا کے علمی مراکز کے بعض اعداد و شمار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ بارہ سال میں ایران کے علمی رتبہ میں اس سے پہلے کی نسبت 16 برابر اضافہ ہوا اور ایران میں علمی و سائنسی ترقی متوسط طور پر عالمی پیشرفت کے 13 برابرہوگئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عالمی علمی و سائنسی مراکز کی اطلاعات کے مطابق اگر ایران کی علمی و سائنسی ترقی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے تو پانچ سال کے کے بعد دنیا میں ایران کا علمی رتبہ چوتھے نمبرپر پہنچ جائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر اس برق رفتارعلمی حرکت کے ساتھ ملک میں یونیورسٹیوں کے فروغ اور اسی طرح یونیورسٹیوں کے اساتید اور طلباء پر توجہ مبذول کی جائے تو ہمیں انقلاب اسلامی کے بعد یونیورسٹیوں سے زیادہ سے زیادہ اورگرانقدر علمی نتائج حاصل ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی محققین اور ماہرین کے علمی اور سائنسی مقالات میں قابل توجہ اضافہ اور اسے ملک میں علمی ترقی و پیشرفت اور مجاہدت کا ایک شاندار مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ تمام موارد ملک میں شاندار اور گرانقدر علمی و سائنسی ترقی کا مظہر ہیں اور اس علمی رشد و نمو کی تقویت اور حفاظت بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اساتید ، طلباء اور ماہرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی علمی اور سائنسی پیشرفت و ترقی کو روکنے کی کسی کو اجازت نہ دیں اور کسی بھی قیمت پر ملک کی علمی ترقی کو متوقف نہ ہونے دیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام میں علم کی ذاتی قدر و منزلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علمی پیشرفت کےسلسلے میں میری باربار تاکید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں علم و عالم کےاحترام اورمقام کے سلسلے میں بہت زيادہ تاکید کی گئي ہے بلکہ اس کی اصل دلیل یہ ہے کہ علم، اقتدار اور قدرت عطا کرتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی و سائنسی ترقی کو عالمی سطح پر ایرانیوں کی عزت و عظمت اور سیاسی و اقتصادی اقتدار کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ان تمام حقائق اور دلائل سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کی علمی پیشرفت کسی بھی صورت میں سست اور متوقف نہیں ہونی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا میں مختلف سیاسی گروپ بندیوں کے بارے میں ایک استاد کے نظریہ کی تائيد کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عداوت اور دشمنی پر مبنی محاذ چند مغربی ممالک نے تشکیل دے رکھا ہے اور انھوں نے ایران کی علمی پیشرفت و ترقی کو روکنے کے لئے ہر قسم کی تلاش و کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اورچند مغربی ممالک ایرانی قوم اور اسلامی محاذ کے مقابلے میں صف آرا ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےعلمی اور یونیورسٹی ڈپلومیسی سے استفادہ کے سلسلے میں یونیورسٹی کے ایک اور استاد کے بیان کو درست اور صحیح قراردیتے ہوئے فرمایا: بہر حال اس بات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ مد مقابل فریق نے بھی اپنے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں علمی ڈپلومیسی پر سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے علمی اقتدار کو داخلی اور اندرونی اقتدار قراردیتے ہوئے فرمایا: اس بات میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے کہ بعض پابندیاں ایران کی علمی پیشرفت کو روکنے کے لئے عائد کی گئی ہیں تاکہ ایران علمی اقتدار کی بلندی تک نہ پہنچ پائے لہذا ہمیں ہر لحاظ سے اپنی علمی اور سائنسی ترقی و پیشرفت کو جاری رکھناچاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی و سائنسی پیشرفت کے سلسلے میں یونیورسٹیوں میں موجود علمی فضا کو مؤثر قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں میں علمی گفتگو، ترقی اور پیشرفت پر مشتمل گفتگو اور ملک کی عمومی پیشرفت کے بارے میں گفتگو کو فروغ دینا چاہیےتاکہ یونیورسٹیوں کے اہلکاروں کا جذبہ ملک کی عمومی پیشرفت میں مزید مضبوط ہوجائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملکی پیشرفت کی ضروریات کو پورا کرنے میں یونیورسٹیوں میں علمی خلاقیت اور نوآوری پرتاکید کرتے ہوئے فرمایا: قدرتی طور پر وسائل اور ظرفیتیں محدود ہیں لہذا علمی اقدامات اور منصوبہ بندی میں ملک کی ضروریات پر اصلی ملاک اور معیار کے عنوان سے بھر پور توجہ دینی چاہیے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے تجارت اور صنعت کے ساتھ یونیورسٹیوں کی تحقیق کے پیوند کو مزید مضبوط بنانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: علمی خلاقیت اور نوآوری کے سلسلے میں یونیورسٹیوں ، اعلی تعلیمی مراکز ، اساتید اور یونیورسٹیوں کے محققین اور ماہرین کے درمیان تعمیری مقابلہ ہونا چاہیے اور کامیاب یونیورسٹیوں اور کامیاب افراد کو انعامات عطا کرنے چاہییں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے تمام اساتید،اہلکاروں اور مؤثرافراد سے درخواست کی کہ وہ یونیورسٹیوں میں کم اہم اور غیر ضروری مسائل کے فروغ کی اجازت نہ دیں بلکہ طلباء اور ماہرین کی توجہ ملک کے اساسی اور بنیادی مسائل کی طرف مبذول کرتے رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمارے دشمن یونیورسٹیوں کے ذاتی اور یونینی مسائل کو بھی ملک کے سیاسی مسائل سے جوڑکربحران پیدا کرناچاہتے ہیں اور یونیورسٹیوں کو سیاسی احزاب اور معمولی مسائل سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اسلام اورانقلاب اسلامی کو ملک کی پیشرفت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کا اصلی عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر انقلاب اسلامی کی کامیابی نہ ہوتی تو یقینی طور پر تسلط پسند اور سامراجی طاقتیں ایران کو خود اعتمادی اورعلمی پیشرفت کے اس درخشاں مقام تک نہ پہنچنے دیتیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں اسلامی اور انقلابی اقدار اور اصولوں کی پاسداری اور حفاظت کا عہد کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے کیفی ارتقاء کو بہت اہم ، ضروری اور مستقل موضوع قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں میں کمی فروغ عمدہ اور مؤثر ہے لیکن یونیورسٹیوں کے کیفی ارتقاء پر زیادہ سے زیادہ توجہ مبذول کرنی چاہیے اور کیفی فروغ پر توجہ کے ساتھ کمی فروغ پربھی توجہ دینی چاہیے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹی اساتید اوراہلکاروں کے اجتماع سے خطاب میں اپنے آخری نکتہ میں فارسی زبان کے بارے میں خاص توجہ اور حساسیت دکھانے کی ضرورت پر زوردیا۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے مختلف علوم کے سلسلے میں فارسی زبان کے استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دنیا میں فارسی زبان کو فروغ دینے کے سلسلے میں ملک کی علمی پیشرفت سے استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحقیقات اور ریسرچ میں فارسی زبان سے استفادہ، علمی مفاہیم کے لئے اصطلاحات اور کلمات سازی کو فارسی زبان کے فروغ میں مؤثر روش قراردیتے ہوئے فرمایا: اس طرح عمل کرنا چاہیے کہ اگر کوئي آئندہ ایران کی علمی کاوشوں سے استفادہ کرنا چاہیے تو اسے فارسی سیکھنے کی ضرورت پڑے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے کی مختلف سطحوں پر غیر ملکی کلمات کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب سے پہلے کی بہت سے غلط روشیں اور رسمیں ختم ہوگئی ہیں لیکن غیرملکی کلمات سے استفادہ کرنے کی غلط رسم ابھی بھی باقی ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر علمی و سائنسی پیشرفت کے بارے میں جامع اور بلند مدت نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پیشرفت اور ترقی سے مراد ، اسلامی – ایرانی پیشرفت کے نمونہ پر مبنی پیشرفت ہے کیونکہ مغربی پیشرفت جس کی بنیاد استثمار اور استعمار پر استوار ہے وہ اخلاقی بنیادوں پر منصفانہ معاشرے کی تشکیل اور معاشرے سے تبعیض اور برائیاں ختم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کو یقینی طور پر پیشرفت کے اسلامی ، ایرانی نمونے کا پیچھا کرنا چاہیے یعنی ایسا نمونہ جو اسلامی ہدایات پر مشتمل ہو اور اس میں ایرانی سنتوں اور روشوں سے بھراستفادہ کیا جائے۔
اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل یونیورسٹیوں کے 9 اساتید اور دانشوروں نے یونیورسٹیوں کے مختلف علمی مسائل کے بارے میں اپنے اپنے خیالات پیش کئے۔
حضرات و خواتین:
٭ ڈاکٹر علی حائری- فارماکولوجی میں پی ایچ ڈی، اور شہید بہشتی میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر
٭ ڈاکٹر کریم مظاہری- ایرو اسپیس انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی، صنعتی شریف یونیورسٹی کے پروفیسر۔
٭ ڈاکٹر محمود گلابچی- فن تعمیر میں پی ایچ ڈی، تہران یونیورسٹی کے پروفیسر
٭ حجۃ الاسلام والمسلمین عبد الحسین خسروپناہ – اسلامی کلام میں پی ایچ ڈی، حوزہ اور یونیورسٹی کے پروفیسر
٭ ڈاکٹر فواد ایزدی- رابطہ عامہ میں پی ایچ ڈی، تہران یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر
٭ ڈاکٹر حسن قناعتی - ریڈیو لاجی میں پی ایچ ڈی، تہران میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر
٭ ڈاکٹر عبد الرضا مظاہری- اسلامی عرفان میں پی ایچ ڈی، آزاد اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر
٭ محترمہ ڈاکٹر بہناز بخشندہ- جیو ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی، پردیس یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر
٭ محترمہ ڈاکٹر معصومہ اسماعیلی- مشاورت میں پی ایچ ڈی، علامہ طباطبائی یونیورسٹی میں پروفیسر
مذکورہ افراد نےمندرجہ ذیل اہم نکات پیش کئے:
٭ صحت اور بیمہ کے اعتبارات میں اضافہ پر تاکید
٭ میڈيکل یونیورسٹیوں کی مدیریت میں ثبات اور سیاسی رجحانات سے دوری پر تاکید
٭ غیر ایرانی ماہرین کے ایران کے سفر میں سہولت فراہم کرنے کے لئے منسجم منصوبہ کی تدوین پر تاکید
٭ فنی اور انجینئنرنگ کے شعبہ میں قابل توجہ رشد و نمو اور اسے جاری رکھنے پر تاکید
٭ یونیورسٹیوں کے استقلال پر تاکید، اساتید اور طلباء کے داخلہ کے سلسلے میں غیر ضروری مداخلت سے پرہیز پر تاکید
٭ ممتاز شخصیات کے انتقادات پر متعلقہ حکام کی توجہ پر تاکید
٭ اعلی تعلیم میں عدالت کے مفہوم کے سلسلے میں ملک کی اعلی اور مرجع یونیورسٹیوں کے لئے چیلنج ایجاد کرنے پر تنقید
٭ ملک کی علمی ترقیات کے بارے میں حقائق پر توجہ پر تاکید اور غیر حقیقی توقعات ایجاد کرنے سے پرہیز پر تاکید
٭ نئے اور اسٹراٹیجک علوم پر تاکید
٭ بایڈٹیک اور اس کے متعلقہ شعبوں میں نئی سرمایہ کاری پر تاکید
٭ ملک کے جامع نقشہ کی روشنی میں ایرانی، اسلامی معماری کی تدوین کرنے پر تاکید
٭ ملک میں ہنر کی جامع تعلیم و تربیت پر تاکید
٭ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی ہدایات کی روشنی میں ملکی ریسرچ کے شعبہ میں قابل قدر اضافہ ، قومی منصوبوں کے اجرا میں جوانوں کی بھر پور شرکت
٭ ملک کے تعلیمی نظام کو تحقیقی محور پر لانے کے سلسلے میں تاکید
٭ نئی نسل کی یونیورسٹیوں کی تاسیس پر تاکید
٭ علوم انسانی میں تحول اور انقلاب لانے پر تاکید
٭ سماجی روابط میں تدریجی تبدیلیوں پر خصوصی توجہ
٭ ایران کے بارے میں مغربی ممالک کے علمی حلقہ اور سیاسی حلقہ میں اختلاف نظر، اختلاف کی شناخت پر تاکید
٭موجودہ مغرب کے بارے میں ریسرچ سینٹر کی تاسیس اور تحقیق پر تاکید
٭ عالمی اور علاقائي سطح پر ڈپلومیسی کے سلسلے میں غیر سرکاری ظرفیتوں سے استفادہ کے سلسلے میں اعلی کونسل کی تشکیل پر تاکید
٭ انشورنس سسٹم میں اصلاحات پر تاکید
٭ شعبہ صحت میں حکام کی جلد تبدیلی کے نقصانات پر توجہ
٭ شعبہ صحت سے متعلق چيلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے زندگی کی روش میں اصلاحات پر تاکید
٭ یونیورسٹیوں میں دوبارہ سیاسی فضا کے مکدر ہونے پر تشویش
٭ یونیورسٹیوں میں علوم انسانی کے سلسلے میں فکری آزادی پر تاکید
٭ علوم انسانی کے اساتید سے حد اکثر استفادہ نہ کرنے پر تنقید
٭ آزاد اسلامی یونیورسٹی کے حکام کے نظریہ میں اصلاح پر تاکید
رہبر معظم سے عید فطر کے موقع پر اعلی حکام اور اسلامی ممالک کے سفراء کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید سعید فطر کی مناسبت سے ملک کے اعلی حکام،اسلامی ممالک کے سفراء اور عوام کے بعض مختلف طبقات کے ساتھ ملاقات میں بعض اسلامی ممالک میں اغیار کی جناب سے پیدا کردہ اختلاف ، بحران ، حوادث کی طرف اشارہ کیا اور دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ایمان اور اتحاد کو دو اہم عوامل قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم ، ایرانی عوام کے باہمی اتحاد اورجذبہ ایمان کی بدولت دشمن کی طرف سے اختلافات کے زہرآلودہ تیروں کا ایرانی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا اور ایرانی قوم اللہ تعالی کے وعدوں پر اعتماد اور حسن ظن کے ساتھ ترقیات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور ترقیات ایرانی قوم کی تحریک کا حصہ بن گئی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عید سعید فطر کی مناسبت سے قوم کے ہر فرد کو مبارکباد پیش کی اور ایک ماہ تک روزہ داری ، عوام کے مختلف طبقات کی طرف سے عبادی اعمال کی انجام دہی، اور ملک میں ذکر و توسل کے وجود کو اللہ تعالی کی رحمت اور برکت کے نازل ہونے کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ضروری ہے کہ محترم حکام اور تازہ نفس حکام ملک کی ذمہ داری کو اپنے دوش پر لیکر استقامت اور پائداری کے ساتھ اہداف کو آگے بڑھائیں گے اور وہ اپنی سنگين ذمہ داری کے دوران اللہ تعالی پر اعتماد ، ذکر اور توسل کے سلاح سے بھر پور استفادہ کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک کے اعلی حکام ، اہم ذمہ داریوں، سنگين امور اور عوام کے عمومی حقوق کو اللہ تعالی کی مدد اور نصرت کے ذریعہ اچھی طرح انجام دے سکتے ہیں اور کوئي ایسی مشکل باقی نہیں رہ سکتی جو قابل حل نہ ہو۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اللہ تعالی کے لطف و کرم اور ہدایت کے حصول نیز اللہ تعالی کی مدد کے حصول کے لئے اپنی تمام کوششوں اور توانائيوں کو میدان میں لانے کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: سستی ، کاہلی، غفلت اور کام نہ کرنے سے اللہ تعالی کی رحمت اور مدد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس سلسلے میں ملک کے تمام انسانی اور مادی وسائل ، جسمانی طاقت و توانائي اور فکر و تدبیر سے استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد کچھ سالوں میں اللہ تعالی کے وعدوں پر بعض افراد کے عدم اعتماد اور مایوسی سے دوچار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انہی سالوں میں متعدد بار اللہ تعالی کی نصرت ایرانی قوم کے شامل حال رہی ، اور آج بھی ملک و قوم ماضی کے تمام ادوار کی نسبت فرنٹ لائن پر کھڑے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران روز بروز ترقی کی جانب گامزن ہیں اور ترقی ایرانی قوم کی حرکت کا حصہ بن گئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں مغربی ایشیا اور شمال افریقہ کے علاقوں میں بعض اسلامی ممالک کو درپیش بڑی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ مشکلات اکثر باہر سے اور اغیار کی جانب سے مسلط کردہ مشکلات ہیں اور اس بحران سے نجات پانے اور چھٹکارا حاصل کرنے کا علاج یہ ہے کہ خود قومیں اپنے علماء، دانشوروں اور عقلاء کی حکمت عملی کے مطابق فیصلہ کریں اور عوام میں بے چینی ، بحران اور اختلاف پھیلانے والے اغیار کی مداخلت اور کوششوں کا سد باب کیا جائے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےدشمن کی طرف سے ایرانی قوم میں اختلاف ڈالنے کے زہر آلودہ تیروں کے غیر مؤثر واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران میں مختلف مذہبی، اور سیاسی گروہ، گوناگوں اقوام اتحاد، یکجہتی ، ہمدردی اور ہمدلی کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں اور ایرانی قوم کے اتحاد و اتفاق اور ایمان کے سامنے مذہبی اور سیاسی اختلاف ڈالنے کے سلسلے میں دشمن کی تمام سازشیں اور کوششیں ناکام اور غیر مؤثر واقع ہوگئی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے زہر آلودہ تیروں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالی پر ایمان اور اتحاد کو قوموں کی استقامت اور پائداری کے دو اہم عوامل قراردیا اور اعلی حکام ، سیاستدانوں اور دینی ماہرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:آپ اللہ تعالی پر ایمان اور اتحاد کو جتنا ممکن ہوسکے اتنا ہی مضبوط و مستحکم بنانے کی تلاش و کوشش کریں اے کاش مشکلات میں گرفتار اسلامی ممالک کے سیاسی اور ثقافتی حکام بھی اگر اس نکتہ پر دگنی توجہ کرتے تو انھیں دردناک حوادث کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حسن روحانی نے عید سعید فطر کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور عید فطر کو استقامت و پائداری اور تہذيب نفس کی عید قراردیا اور اس مہینے کی حرمت کی پاسداری کرنے پر پوری قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: رمضان اتحاد کا مہینہ ہے جس میں تمام مسلمانوں کا ایک ہی مناسک کے ساتھ بڑا گہرا اور مضبوط رابطہ ہے۔

صدر حسن روحانی نےاس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کو غیر علاقائي ممالک کی جانب سے جو مشکلات درپیش ہیں اور جن کی وجہ سے مسلمان رنج و غم میں ڈوبے ہوئے ہیں یہ عید سعید ان مشکلات سے نجات حاصل کرنے اور آزاد ہونے کا باعث قرار پائے۔
ڈاکٹر روحانی نے رمضان المبارک کے مہینہ کو اللہ تعالی کی بڑی مغفرت اور رحمت واسعہ کا مہینہ قراردیتے ہوئےکہا: ہمیں اس مہینہ کی برکت سے دلوں کو پاک کرنا چاہیے اور محبتوں کو فروغ دینا چاہیے۔
صدر حسن روحانی نےقومی طاقت و قدرت کے اضافہ کی ضرورت اور قانون پر عمل کو قومی اتحاد و انسجام کے لئے اہم قراردیا اوراس امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ جلد حاصل کرکے گیارہویں حکومت، ایرانی قوم کی خدمت کا جلد آغاز کردےگی۔
رہبر معظم کی امامت میں نماز عید سعید فطر کا انعقاد

ایران کی مؤمن ، موحد اور متحد قوم نے ایک ماہ کی روزہ داری اور عبادت پر اللہ تعالی کا شکر و سپاس ادا کرتے ہوئے ملک بھر میں پورے مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ نماز عید سعید فطر ادا کی۔
اس عظيم معنوی موقع پر تہران کے مؤمن ، خداپرست اور اللہ دوست عوام نے بھی آج صبح تہران یونیورسٹی اور اس کے اطراف میں کئي کلو میٹر تک سڑکوں پر نماز عید سعید فطر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای کی امامت میں ادا کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نماز عید فطر کے خطبوں میں ایران کے غیور عوام اور تمام مسلمانوں کو عید سعید فطر کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور رمضان المبارک کے گرم اور طولانی دنوں میں روزہ داری اور عبادت کو اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کا موجب اور عوام میں معنوی خوشی اور مسرت پیدا کرنے کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی رمضان المباک کی مجاہدانہ کوششوں کے نتائج کی حفاظت کرنے پوری قوم کو توفیق عطا فرمائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی یوم القد س کے موقع پر ریلیوں میں عوام کی بھر پور شرکت کو رمضان المبارک کے مہینہ میں قوم کی مجاہدانہ کوششوں میں قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نےملک بھر میں یوم القدس کی ریلیوں میں بھر پور شرکت کرکے عالم اسلام اور تاریخ اسلام کے ایک اہم مسئلہ کو زندہ رکھنے اور اس کے بارے میں قومی استقامت کا شاندار ثبوت پیش کیا اور کسی زبان کے ذریعہ اس عظيم الشان حرکت کی اہمیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مساجد، امام بارگاہوں اور سڑکوں پر سادہ افطار کرانے کی اچھی سنت کے اہتمام کو رمضان المبارک کے مہینے میں دیگر اہم اور شائستہ کاموں میں قراردیا اور بعض افراد کی طرف سے افطار پارٹیوں میں اسراف پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: ان افراد کے لئے مساجد اور عمومی جگہوں پر افطاری دینے کے سلسلے میں اہتمام پر توجہ دینا شائستہ ہے جو رمضان المبارک میں بذل و بخشش، سخآوت اور نیک کام کی نیت رکھتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرے خطبہ میں رفتار و گفتار میں سب کو پرہیزگاری اور اقتصادی ،سماجی اور سیاسی موارد میں تقوی اختیار کرنےکی سب کودعوت دیتے ہوئے ایران اور اسلامی ممالک کے حوادث اور واقعات کے بارے میں تشریح کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران میں نئی قوہ مجریہ کی تشکیل کو اہم واقعہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل وکرم ، ہمہ گیر تلاش و ہمت کے ذریعہ یہ قانونی امر اور قومی سنت احسن طریقہ سے انجام پذير ہوئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے صدر محترم کی توفیق کی تمنا کا اظہارکرتے ہوئے فرمایا: انشاء اللہ عنقریب پارلیمنٹ کی طرف سےصالح وزراء کے انتخاب کے بعد نئي حکومت تشکیل پا جائے گي اور عوام کے تعاون اور ہمراہی کے ساتھ بڑے اور مشکل کام بحسن وخوبی حل ہوجائیں گے جو بڑے مفادات کے حامل بھی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور شمال افریقہ اور مغربی ایشیا کے واقعات کا ایک طرح کا موازنہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے مسرت بخش حالات کے برخلاف اسلامی علاقہ کے حالات تشویشناک ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی عوام پر اسرائيل کے ظلم و ستم کے استمرار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج دنیا کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کے جھوٹے مدعی غاصب صہیونی حکومت کی آشکارا حمایت کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطینی حکومت اور اسرائیلی حکومت کے درمیان سازشی مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ماضی کے سازشی مذاکرات کی طرح ان مذاکرات میں بھی فلسطینی عوام کے حقوق پائمال ہونے اور اسرائیلی حکومت کے بھیانک جرائم کی حوصلہ افزائی کے علاوہ کوئی اور نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سازشی مذاکرات میں امریکہ کی ثالثی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ آشکارا اسرائيل کی حمایت کررہا ہے اور امریکہ کی پکائی ہوئی کھچڑی یقینی طور پر فلسطینیوں کے نقصان اور ضررمیں ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسرائيل اور اس کے بین الاقوامی حامی بھیڑیوں کے سنگین اور بھیانک جرائم کے مقابلے میں مسلمانوں کو ہوشیار رہنے اور ان کے اقدامات کی مذمت کرنے پر تاکید کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: مصر میں اندرونی جنگ چھڑنے کا خطرہ بڑھ گیا جو المناک صورتحال اخۃیار کرسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر کے علماء، دانشوروں، سیاسی گروہوں اور سیاستمداروں کو مصر کے خطرناک حالات کے بارے میں غور و فکر کی دعوت کرتے ہوئے فرمایا: کیا شام کے ناگوارحالات، داخلی جنگ ، مغربی اور اسرائیلی ایجنٹوں اور عالم اسلام کے مخۃلف علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی مصریوں کے لئے عبرت کا باعث اور قابل درک نہیں ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصری شہریوں کی ہلاکت کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا: مصری گروہوں کی ایکدوسرے کے خلاف منہ زوری اورصف آرائی سے کوئي فائدہ نہیں ہوگا اور اگر داخلی جنگ شروع ہوگئی تو اس سے اسرائيل اور امریکہ کو بہت بڑا فائدہ پہنچے گا اور مصری قوم پر بہت بڑی مصیبت نازل ہو جائے گي۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جمہوریت اور ڈیموکریسی پر توجہ مبذول کرنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مصری سیاستمداروں، دانشوروں ، علماء اور ماہرین کو متحد ہوکر مصرمیں جاری بحران کو حل کرنا چاہیے اور اغیار کو مداخلت کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق کے حالات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: عراق میں برسر اقتدار حکومت عوامی آراء سے تشکیل پائی ہے لیکن سامراجی طاقتیں اور علاقہ کی رجعت پسند عرب طاقتیں اس سے ناراض ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: عراق میں دہشت گردانہ کارروائیوں ، عراقی عوام کے قتل و غارت میں یقینی طور پر بعض علاقائي ممالک اور حکومتوں کا ہاتھ ہے اوران کی طرف سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا سلسلہ جاری ہے تاکہ عراقی عوام آرام و سکون حاصل نہ کرسکیں اور ان کے حلق سے آرام کے ساتھ پانی نیچے نہ اترسکےاور عراق شاد و آباد نہ ہوسکے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر، عراق اور دیگر اسلامی ممالک میں دہشت گردی کےفروغ ، اختلاف اور بحران پر اسرائيل کی خوشی اور مسرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عراق کے سنی، شیعہ، کرد و عرب اور مختلف قبائل کو داخلی اختلافات کے خطرناک نتائج پر توجہ رکھنی چاہیے کیونکہ داخلی جنگ سے ملک کا مستقبل تباہ و برباد ہوجائے گا
ایران اور گروپ 1+5 کے مذاکرات
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کٹرین اشٹون نے کہا ہے کہ تہران کے ساتھ جوہری معاملے پر معنی خیز مذاکرات کے لئے گروپ 5 +1 تیار ہے۔
منگل کو ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے نام خط میں کٹرین اشٹون نے انہیں مبارک باد دینے کے ساتھ ہی اس بات کا ذکر کیا کہ نئے ایرانی صدر نے ملک کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں خدشات تیزی سے دور کرنےکے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مذاکرات اور تعاون میں سے متعلق مضبوط مینڈیٹ حاصل کیا ہے۔
کٹرین اشٹون نے کہاکہ انھیں امید ہے کہ ایران کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ جتنی جلدی عملی ہوا بامعنی مذاکرات کا وقت طے ہوجائیگا۔ کٹرین اشٹون کا یہ خط منگل کو ایسے وقت آیا جب اسی دن ایرانی صدر نے گروپ 5 +1 کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لئے ایران کی آمادگی کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی، ایران پر پرامن ایٹمی پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کا الزام لگاتے ہیں اور اسی الزام کے بہانے امریکہ اور یورپی یونین نے ایران پر یطرفہ پابندیاں لگارکھی ہیں جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ اس کی تمام جوہری سرگرمیاں، پرامن ہیں جو آئی اے ای اے کی نگرانی میں جاری ہیں اور وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کے رکن ملک کے ناطے پرامن مقصد کے لئے جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے بنیادی حقوق پر زور دیتا ہے۔
آئی اے ای اے نے بھی ایران کی ایٹمی تنصیبات کا متعدد بار معائنہ کیا ہے اور اسے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے مغربی ممالک کے الزامات کی تصدیق ہوتی ہو۔22قابل ذکر ہے کہ فروری 2012 میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای نے ایٹمی ہتھیار بنائے جانے کے حرام ہونے کا فتوی جاری فرمایا ہے۔
مصر: سینا میں غاصب صہیونی ڈرون حملہ
غاصب اسرائیل کی جانب سے مصر کے علاقے سینا پر ڈرون حملہ کیا گیا ہے۔ اس حملے میں ۵ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ زرائع کے مطابق اسرائیلی ڈرون طیارے نے سینا کے علاقے میں ایک راکٹ لانچ پیڈ کو نشانہ بنایا ہے جس میں شدت پسند اسلامی گروپ سے تعلق رکھنے والے ۵ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ دھماکے سے راکٹ لانچ پیڈ مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور دھماکے کی آواز سے پورا علاقے گونج اٹھا۔ علاقہ مکین کا کہنا ہے کہ جمعہ کو اچانک ایک زور دار علاقے سے علاقے گونج اٹھا، اور یہ آواز اسرائیل کی جانب سے غصب شدہ علاقوں کی جانب سے سنی گئی۔
بعض زرائع کا کہنا ہے کہ یہ حملے اسرائیل نے موجود مصری حکومت سے موافقت کے بعد کئے ہیں۔ خود صہیونی میڈیا کے مطابق بغیر پائیلٹ طیاروں نے مصر کی سرحدوں میں گھس کر سینا کے علاقے میں بمباری کی ہے جس کی مصری حکام سے اجازت لی گئی تھی۔
جبکہ مصر کی مسلح افواج کے ترجمان نے اسرائیلی میڈیا کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی ہم آہنگی نہیں کی گئی ہے اور مصر کی سرحدی حدود کے اندر اسرائیل کی جانب سے حملے کئے جانا بے اساس اور نا قابل قبول ہے۔
مصر کے علاقے سینا میں موجود شدت پسند اسلامی گروہوں کے خلاف فوج کی جانب سے کاروائیاں جاری ہیں۔ ان گروہوں نے معزول صدر مرسی کا تختہ الٹنے کے بعد اپنی مزاحمت میں اضافہ کر دیا ہے اور عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کی جگہ پر شدت پسند گروہ کے چند افراد راکٹ لانچ پیڈ کا رخ اسرائیل کی جانب کر کے راکٹ فائر کرنے والے تھے کہ دھماکے سے وہ جگہ تباہ ہو گئی اور یہ پانچوں افراد مارے گئے۔
مختار ثقفی
جناب مختار ١٠ ہجری میں شہر طائف کے ایک محترم گھرانہ میں پیدا ہوئے ۔
باپ ابو عبید اور ماں دومہ بنت وہب ابن عمر ابن مُعَتِّب تھیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد خدا کے دین کے فروغ و استحکام میں اپنی گراں قدر خدمات کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان اہم مقام حاصل کیا۔
ولادت سے قبل ماں نے خواب دیکھا تھا: ''تمہارا بچہ قبل اس کے کہ سن بالا کو پہنچے حوادث کی آغوش میں پل کر شجاع اور بے خوف ہو جائے گا اور بہت سے لوگ اس کی ہمراہی کریں گے''۔ ماں کی زبانی یہ مژدہ سن کر پورا گھر سرور و شادمانی میں ڈوب گیا۔
جناب مختار کا قبیلہ'' ثقیف'' شہر طائف کے سرداروں میں دولت و ثروت ، شجاعت و جواں مردی اور عزت و وقار میں شہرت رکھتا تھا اور ایک خاص احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور عربوں کے درمیان مکہ کے قریش کے بعد طائف کے قبیلہ ثقیف کو دوسرے نمبر پر رکھا جاتا تھا۔
قبیلہ ثقیف میں سب سے پہلے اسلام لانے والے عروہ ابن مسعود ہیں جو جناب مختار ثقفی کے چچا تھے آپ جنگ حنین کے بعد جب لشکر اسلام نے طائف کا محاصرہ ترک کر دیا تو خود سے نبی اکرمۖ کی خدمت میں آکر اسلام لائے اور کچھ عرصے بعد مدینہ سے طائف واپس آکر اسلام کی تبلیغ شروع کی
جناب مختار کے والد ابو عبید نے اپنی بھائی عروہ کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا لیکن خلافت کے دوسرے دور میں طائف سے مدینہ آئے اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ (بلاذری ''انساب الاشراف'' ج ٥ ص ٢١٤ ، مسعودی ''مروج الذہب'' ج ٢ ص ٣١٥)
جناب مختار کی ماں دومہ بنت وہب جو صاحب ''اعلام النساء'' عمر رضا کحالہ کے بقول: تاریخ اسلام کی ایک ممتاز شخصیت ، اچھی خطیب اور تدبر و دانائی کی مالکہ تھیں اور حسن کردار کی بنا پر ''دومۃ الحسناء'' کے لقب سے معروف تھیں۔
ایسے بہادر باپ اور دلیر ماں کے فرزند مختار ثقفی کے حالات زندگی مسلمانوں کی بے توجہی کا شکار رہے ہیں ، بچپن سے متعلق تاریخ خاموش ہے پھر بھی تاریخی اوراق میں چند واقعات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
بحارالانوار کے حوالے سے کتاب "مختار ثقفی" میں ملتا ہے کہ ایک دن باپ کے ہمراہ علی ابن ابی طالب کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو علی علیہ السلام نے ان کو اپنے زانو پر بٹھایا اور سر پر دست شفقت پھیرتے ہوئے فرمایا: ''یا کیس یا کیس''
یعنی اے ذہین و ہوشیار ! بعض نے ''کیّس'' تشدید کے ساتھ لکھا ہے جو بہت زیادہ ذہین کے معنی میں ہے ۔بہر حال یہ خطاب مستقبل میں جناب مختار کی ذہانت و فراست کی علامت ہے۔
بچپن میں جناب مختار حسنین علیہما السلام خصوصاً جناب مسلم ابن عقیل سے بہت زیادہ مانوس تھے۔
تیرہ یا چودہ سال کی عمر میں باپ کے ساتھ ایران کے خلاف جنگی مورچے پر بھی موجود تھے۔
ایران کے خلاف جنگ کے بعد مختار اپنے وطن طائف واپس نہیں گئے ، مدینہ منورہ میں جوار قبر پیغمبرۖ میں رہنا پسند کیا اور بنی ہاشم سے انسیت پیدا ہو گئی ، چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں باریاب ہوکر قرآن کریم ، نبی اکرمۖ کی احادیث اور تعلیمات اہلبیت سے بھرپور استفادہ کیا ۔
جس وقت مغیرہ ابن شعبہ کو کوفہ کی گورنری سونپی گئی جناب مختار معارف اہلبیت سے آشنائی کے لئے مدینہ گئے اور خاندان پیغمبرۖ خصوصاً محمد حنفیہ سے بہت قریب رہے اور اہلبیت کے فضائل میں بہت سی حدیثیں سنیں اور یاد کیں اور جب کوفہ واپس ہوئے تو فضائل اہلبیت خصوصاً امام حسین کی حقانیت کی باتیں کرنے لگے وہ کہا کرتے تھے کہ:
جناب مختار امام حسین کی شہادت کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت پر یقین و اعتبار رکھتے تھے ، آیۃ اللہ محمد تقی مدرسی کے بقول: مختار نے امام سجاد(ع) کے دور امامت میں انقلاب برپا کیا ، تاریخی شواہد کی بنیاد پر مختار امام زین العابدین علیہ السلام سے گہرا ارتباط رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ امام علیہ السلام کی جزئیات زندگی سے آگاہ تھے۔
جناب مختار کے یہاں خود اعتمادی اپنے پورے وجود کے ساتھ جلوہ گیر تھی ، جو کام کرتے سوچ سمجھ کر کرتے اور ہر مسئلے کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر فیصلے کیا کرتے تھے اسی لئے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے اور اپنے زمانے کے تمام گروہوں اور جماعتوں میں چاہے وہ شیعہ ہوں یا خوارج توابین ہوں یا مجاہدین بڑی حد تک مقبول و موثر قرار پائے۔
''حیات الامام الحسین'' کے مؤلف باقر شریف قرشی نے جناب مختار کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
''مختار تاریخ اسلام میں عرب کی ممتاز ترین و مشہور ترین شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں، اپنے زمانے کے سیاسی اور معاشرتی حوادث میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے"
وہ عقل و درایت اور تدبر و فراست سے مالامال کسی ماہر سیاست داں کی طرح معاشرہ شناس اور دور اندیش تھے اور اپنے تبلیغی اور تشہیراتی وسائل سے کام لے کر پورے معاشرے میں تحرک و بیداری ایجاد کر دینے کے فن سے اچھی طرح واقف تھے۔
علاوہ ازیں طبری کے حوالے سے ڈاکٹر کربوتلی نے لکھا ہے: مختار ایک مرد متقی و پرہیزگار اپنے دینی آداب کے پابند تھے اور خود ان کی بیوی کے بقول: دنوں میں روزہ دار اور شبوں میں بیدار رہتے تھے۔
مسعودی نے مروج الذہب میں بھی اس کی تائید کی ہے اور لکھا ہے کہ جس وقت مصعب ابن زبیر کو عراق پر قبضہ حاصل ہوا انہوں نے جناب مختار کی دونوں بیویوں کو اسیر کر لیا اور مختار پر لعن و نفرین کرنے کا حکم دیا تو بیویوں نے مصعب کو جواب دیا : ہم کیسے مختار پر لعن اور بیزاری کا اظہار کر سکتے ہیں جب کہ انہوں نے ہمیشہ خدا پر بھروسہ کیا ، دن میں روزہ رکھتے اور رات میں عبادت اور نماز و دعا اور پروردگار سے مناجات کیا کرتے تھے اور اپنی جان راہ رسولۖ میں ان کے اہلبیت سے وفاداری اور خون کا انتقام لینے میں قربان کی ہے
مختار نے جب امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں سے انتقام لے لیا اور ان کے شرمناک کاموں کی سزا دے کر انہیں ان کے انجام تک پہنچا دیا تو اکثر دنوں میں شکرانہ کا روزہ رکھتے تھے ، چنانچہ جس وقت مختار نے حضرت علی اصغر کے سنگ دل قاتل حرملہ کو اس کے اعمال کی سزا دے دی تو گھوڑے سے اترے اور دو رکعت نماز ادا کی اور ایک طولانی سجدہ شکر کیا۔
پارسائی و بندگی کے علاوہ جناب مختار کی کامیابی کی ایک وجہ مورخین نے ان کا سخی و بردبار ہونا بھی نقل کیا ہے ، وہ اپنے ساتھیوں کی مدد میں ہمیشہ پیش قدم رہے وہ دیگر حکام وقت کے برخلاف بیت المال اپنے عزیز و اقارب میں تقسیم کرنے کے مخالف تھے حتی اپنے لئے یا اپنے اہل و عیال کے لئے بھی بیت المال میں ہاتھ نہیں لگاتے تھے، اس سے مستحقین کی مدد کرتے ، فوجی امور میں یا سپاہیوں پر خرچ کرتے تھے ، علاوہ ازیں خاندان رسولۖ کی خبرگیری جناب مختار اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے ۔
مختار کی ایک اور خصوصیات یہ تھی کہ اپنے مولا ؤ آقا علی ابن ابی طالب کی تاسی میں ، عرب کے مالدار شرفاء کے برخلاف شخصی کام خود کرتے اور روزی روٹی کے لئے کھیتی اور آب یاری میں مشغول رہتے تھے ان کے کھیت کوفہ کے قریب محلہ خُطَرنیہ میں تھے جو ان کے چچا سعد ابن مسعود نے خریدے تھے ، سعد کو حضرت علی نے مدائن کا گورنر بنایا تھا امام حسن علیہ السلام کے زمانہ میں بھی وہ اسی عہدے پر فائز رہے جب امام حسن پر لوگوں نے ہجوم کیا تو امیر شام سے صلح کے بعد امام حسن سعد کے گھر مہمان رہے اور معالجہ ہوا ، اسی جرم میں امیر شام نے مدائن کی گورنری سے معزول کر دیا اور سعد نے کوفہ کے قریب زمین خرید کر وہیں رہائش اختیار کر لی تھی ، چنانچہ جناب مختار والد کی شہادت کے بعد چچا کے ہمراہ رہتے اور ان ہی کے کھیت میں کھیتی کرتے تھے البتہ کچھ موالی بھی کھیتی میں جناب مختار کی مدد کرتے تھے۔ (مختار ثقفی ص ٢٧)
جناب مختار کو اللہ نے فصاحت و بلاغت میں بھی ممتاز قرار دیا تھا ، چنانچہ جوش و جذبے سے معمور تقریروں سے وہ لوگوں کو منقلب کر دیا کرتے تھے ان کے خطابات دوستوں کو جوش و ولولہ عطا کرتے تو دشمنوں کے حوصلے پست کر دیا کرتے تھے ان کے تیز و تند لب و لہجے سے بنی امیہ کے درمیان خوف و ہراس پھیل جاتا تھا۔
مؤرخین نے لکھا ہے:
عبدالملک ابن مروان کا گورنر حجاج جب مختار کا ذکر آتا تو اپنی تمام تر دشمنی کے باوجود فصاحت و بلاغت کی تعریف کرتا تھا اور مختار سے سنے ہوئے خوبصورت جملے نقل کیا کرتا تھا۔ (انساب الاشراف ج ٥ ص ٢١٦ ، ماہیت قیام مختار ص ٥٨ و ٥٩)
لڑکیوں کی تربیت
جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، لڑكیوں كی پرورش و تربیت كی اہمیت كے سلسلہ میں فرماتے ہیں: (من كان لہ انبۃ فادبھا واحسن ادبھا، وغذاھا فاحسن غذائھا، واسبغ علیھا من النعم التی اسبغ اللہ علیہ، كانت لہ میمنۃ ومیسرۃ من النار الی الجنۃ) 1
جس كے پاس بیٹی ہو اگر وہ اس كے تربیت كرے اور اس كو اچھے عمل كی تعلیم دے اسے كھلائے اور اس كی خوراك میں بہتر ی كو مد نظر ركھے اور جن نعمتوں كو خدا نے اس كے حوالے كیا ھے اسے لڑكی كے اوپر خرچ كرنے میں دریغ نہ كرے تو ایسا شخص آتش جہنم سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے بتچا ہوا وارد بہشت ہوجائے گا۔
ایك حكیمانہ ضرب المثل ہے كہ معاشرہ، ماؤں كی محنتوں كا نتیجہ ہے لہٰذا ماں خاندان كا ركن، اور خاندان پورے معاشرے كا ركن ہے۔ اور جب تك آج كی لڑكی كل كی تاریخ ساز ماں ہے پھر یہ كیسے ہو سكتاھے كہ اس گروہ كو نظر انداز كر دیا جائے اور اس كی تعلیم و تربیت اور پرورش كے لئے كوئی اقدام نہ كیا جائے۔ اسی لئےپیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: (خیر اولادكم البنات)2 تمہاری بہترین اولاد لڑكیاں ہیں ۔
حقیقت و واقعیت سے دور كی بات نہیں كہہ رہے ہیں كیونكہ ہمارا اعتقاد ہے كہ معاشرتی زندگی میں ترقی گھریلو زندگی میں ترقی سے ہی ممكن ہے اور سماج اور معاشرہ بھی پریوار سے ہی تشكیل پاتا ہے اس لئے كہ پریوار سب سے چھوٹا انسانی معاشرہ ہے لہٰذا پریوار معاشرہ، كی بنیاد ھے اور چونكہ ماں پریوار كا ركن ہوتی ھے اور اس كی معلومات سے خاندانی زندگی كے لیول كو اونچا كرنے میں قابل توجہ اثر ركھتی ہے لہٰذا پہلے مرحلہ میں اسے چاہئے كہ پریوار اور گھریلو امور كو نظم و ضبط دے اور بچوں كی تربیت اور ماحول كو پر سكون اور آرام دہ بنایا اس كی عظیم ذمہ داری ہے۔
اور چونكہ لڑكیوں كی تعداد كائنات میں لڑكوں سے زیادہ ھے اگر ان كی تربیت میں سہل انگاری سے كام لیا گیا تو معاشرہ اپنی آدھی سے زیادہ قوت و طاقت میں نقصان اٹھائے گا، عورت تخلیق كو ثمر بخش بنانے میں اہم كردار ركھتی ہے ۔ زندگی میں كچھ ایسے اعمال ہیں كہ جن كو مرد صحیح طریقہ سے انجام نہیں دے سكتے جیسے بچوں كی تربیت نونہالوں كی تعلیم، درد مندوں سے ہمدردی بیماروں كی دیكھ ریكھ اور اسی جیسے بہت سے سماجی اور گھریلو كام كہ جنھیں عورتیں ہی بڑے حوصلہ اور صبر شكیبائی كے ساتھ انجام دینے كی قدرت ركھتی ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے كہ مربی لوگ لڑكیوں كے طبیعی حق كو ملحوظ ركھتے ہوئے ان كی خداداد استعداد اور ان كی شخصیت كو ترقی دینے كی كوشش كریں۔ اور اگر ہم چاہتے ہیں كہ ایك باعظمت معاشرہ، تابناك مستقبل كا حامل معاشرہ كی بنیاد ركھیں تو پھر ہمیں ان كی تعلیم و تربیت پر كافی اہتمام كرنا ہوگا اور ان كی تربیت میں عورت ذات كی خاص صفات اور ان كے طبیعی رجحانات كو بھی مد نظر ركھتے ہوئے مناسب روش اپنانی ہوگی۔
لڑكی، آئندہ میں ہونے زوجہ خاندان كی پرورش كرنے والے ہے
ازدواج، مرد اور عورت كے درمیان اتفاق واتحاد پیدا كرنے كے ایك مقدس ربد كا نام ہے جوكہ ایك نئی عمارت معاشرہ كے اندر كھڑی كرنا ھے اور اس میں عورت كا كردار بہت اھم ہے كہ جسے اللہ نے اس كے لئے مقرر كیا ھے اور وہ اہم كردار اور الٰہی ذمہ داری، بچوں كی ریكھ ریكھ اور ان كی تربیت و پرورش ہے یہ زمہ داری خدائی سنت ہے اور تاریخی واقعات نیز قانون طبیعت بھی اس ذمہ داری كو عورت كے اوپر لازم سمجھتا ہے اور چونكہ ازدواج ایك قسم كا عورت ومرد كے درمیان روحی و مادی اشتراك ہے لہٰذا مرد و عورت كی نزدگی میں خوشی وخوشبختی بھی، محبت، تفاھم اور ایك دوسرے كا احترام و عزت كے بغیر پائیہ كمال كو نہی پہنچ سكتی۔ اور سعادتمندی خانوادگی زندگی كے تمام امور كو صحیح تدبیر سے چلانے كے بغیر حاصل نہیں ہو سكتی لہٰذا اس اہم امر كی ذمہ داری پہلے مرحلے میں گھر كی پرورز كرنے والی عورت كے كاندھوں پر ھے۔
اور چونكہ آج كی لڑكی كل كی ہونے والی بیوی ہے لہٰذا معاشرہ اورماں باپ كی ذمہ داریوں می سے ایك یہ ہے كہ اپنی لڑكیون كو میاں بیوی كی زندگی كے معنیٰ و مفہوم سے آگاہ كریں اور اس كی اہمیت كو گوشزد كریں تاكہ وہ آئندہ میں گھریلو زندگی كے تحفظ كے لئے كوشش كرے۔اور لڑكیوں كی ذمہ داریوں میں سے ایك یہ ہے كہ گھریلو مشكلات كو جانتی رہیں ۔ جو مدارس لڑكیوں كی تربیت كرتےہیں ضروری ہے كہ ان مدارس میں میل جول كا پر سكون ماحول قائم ہو اور وہاں پر یہ سكھا یاجائے كہ كس طرح دوسروں كی خدمت كی جاتی ہے كسی طرح فداكاری اور دوسروں كی مدد كی جاتی ہے۔ اس طرح كی تمرینات كا ثر یہ ہوگا كہ لڑكیاں كل كی شائستہ بیویاں بنیں گی اور اپنے شوہروں كے ساتھ سكون وچین كی زندگی بسر كریں گیاور ہر وقت چاہے خوشی كا موقع ہو یا تكلیف دہ حالات ہوں سب میں شوہر كی بہترین مدد گار ثابت ہوں گی ۔
لڑكی آئندہ میں گھر كی پرورش كرنے والی ہے ۔ اس لئے كہ گھر چلانا آج كی دنیا میں ایك قابل توجہ فن كی حیثیت ركھتا ہے كہ جس نے مربیوں كے لئے ضروری بنا دیا ہے كہ لڑكیوں كی تعلیم كے طریقون می تبدیلی لائیں اور ان كی درسیات میں جدید درسی سبجیكٹ اور علمی معارف كا اضافہ كریں تاكہ لڑكیوں كو آمادہ كریں تاكہ وہ آئندہ میں، گھر كے لئے ایك شائستہ پرورش كرنے والی بن سكیں۔
انھیں درسی سبجیكٹ میں سے ایك، حفظان صحت اور تندرستی سے متعلق علوم ہیں ۔ بیماری سے روك تھام اور ان كا مناسب علاج ہے ۔ اسی طرح غذا تیار كر نے اور انھیں مختلف اشتہا دلانے والی جذاب شكل و صورت دینا اور مرغوب بنا نے سے متعلق فنون ہیں ۔ خیاطی (سلائی) كپڑوں كے مختلف قسموں كو پہچاننا اور لباس كے محفوط ركھنے كے ظریقے گھر كے مالی امور كی تدبیر اور اس طرح كے دیگر فنون و معارف بھی ان میں شامل ہونا چاہئے یہ بھی بہت مناسب ہے كہ ان تمام چیزوں كے ساتھ ساتھ كچ ہنر و فن سے متعلق دوروس كو جو كہ گھر كے لئے مختص ہیں انھیں بھی وہ سیكھیں مثال كے طور پر گھر كے لئے كن اسباب و سائل كو انتخاب كیا جائے پھولوں كو كس طرح سجایا جائے وغیرہ جو كہ سلیم وصحت مند ذوق كی عكاسی كرتے ہیں۔
لڑكیوں كے اندر جو مہم ترین جذبہ، مدرسہ پیداسكتا ہے وہ لڑكی ہونے پر فخر كا جذبہ ہے اور ایسے ہم اعمال پر فخر ومباھات كرنا ہے كہ جو گھر كے مربی كو ضرور انجام دینا چاہئے اسی طرح كی تعلیمات سے لڑكیاں گھریلو امور سے آئندہ ذوق و شوق پید كر لیں گی جس كا نتیجہ یہ ہوگا كہ لڑكیاں گھریلو كاموں كو ایك اہم ھنر تصور كریں گی اور ان كے دل كی گہرائیوں می یہ احساس پیدا ہو جائے گا كہ ان كے وجود كا اصلی اور آخری مقصد ۔۔۔وہ خود چاہے جتنی لڑھی لكھی كیوں نہ ہوں۔۔۔ ایك بہترین اور نمونہ كہے جانے كے قابل گھر كو بنانا اور ایك آئیڈیل پریوار كی بنیاد ركھنا ہے اور بالاخر ان كا یہ جذبہ ایك ترقی یافتہ معاشرہ تیار كرنے میں بڑا موثر ہوگا۔
ایك بہت بڑی غلطی یہ ہے كہ كوءی تصور كرلے كہ ماں كی ذمہ داری صرف فرزند پیدا كرنا ہے درحالیكہ جو ماں باپ صاحب فرزند ہو جانے كے بعد ان كی تربیت پر توجہ نہ دیں انھوں نے خود اور معاشرہ دونوں كو بہت سخت نقصان پہنچایا ہے ۔ بچوں كی تربیت میں پہلا دور بڑی اہمیت كا حامل ہے جس كے بارے میں ماہرین نفسیات دانشمندوں اور مربیوں نے بہت سے مقال لكھ ڈلے ہیں كیونكہ اس پہلے دور میں تہذیب وادب اور بچے كہ شخصیت سنوانے والے اسباب و علل كی بنیاد پڑتی ہے واضح سی بات ہے كہ ماں ہی مدرسہ كی تعلیم تربیت سے پہلے كے مرحلہ میں پہلی مربی ہے لہٰذا لازم ہے كہ كل كی ماں بننے كے لئے لڑكیوں كی اچھی طرح تربیت كی جائے اور ماؤں كو چاہئے كہ اپنی لڑكیوں كو بچوں كی زندگی میں آنے والے مختلف ادوار كی تعلیم دیں اور انھیں تربیت كے جملہ امور سے آگاہ كریں۔
رُسو كہتا ہے: بچہ ماں كی چاہت كے حساب سے تربیت پاتا ہے اگر تم چاہتے ہو كہ تمھارا بچہ شرف و فضیلت كا مفہوم درك كرلے تو تمہیں چاہئے كہ بچہ كی ماں كی تربیت كرو۔
شاید سب سے پہلا امر جس پر عنایت و توجہ لازم ہے وہ بچہ كی سلامتی ہو۔اور اس پر توجہ حتیٰ ولادت سے پہلے لے كر ولادت كے بعد بھی جاری رہتی ہے لہٰذا لڑكی كو یہ سكھانے كہ سخت ضرورت ہے كہ حامل ہونے كا مطلب كیا ہے؟ حاملہ ہونے كی صحیح صورت كیا ہے؟ اور جنین (بچہ) پر توجہ كس طرح سے ركھنی چاہئے اسے حفظان صحت كے تمام اصولوں كی حتی الامكان سیكھانا چاہئے اور اسی طرح اپنی اور بچے كی جسمانی ورزش، پاك و پاكیزہ اور كھلی فضا، سورج كی اہمیت اور خوراك و صاف صفائی كے اصولون كو سكھانا چاہئے اسی طرح مناسب لباس كی قسمیں بچے كو بیماریوں سے بچانے كے طریقے اور اگر بیمار ہو جائے تو اس كے علاج معالجہ سے وابستہ امور كی جانكاری ركھنا چاہئے ۔اور ہر گز ان مہم امور كی تعلیم خرافات اور انسانوں كی مدد سے نہیں ہونا چاہئے ۔
واضح ہے كہ لڑكی، اس طرح كے امور كو صرف كتابوں سے اوركلام استاد سے نہیں سیكھتی، بلكہ مدرسہ اور گھر میں اپنے مشاہدات اور تجربات سے بھی سیكھتی ہے ۔ اسی بنا پر لڑكیوں كی مربیوں كو چاہئے كہ اپنی نصیحتین اور مشوروں كو اپنے شاگردوں كے تجربات كے ساتھ ہم آھنگ كر لیں۔ یعنی اگر ممكن ہو تو كچھ عملی كلاسیں لڑكیوں كے لئے ركھیں، خاص طور سے بچے كی صفائی اور نہلانے دھلانے جیسے امور ہیں۔
اس كے علاوہ كی ماں كی توجہ بچے كی جسمی حوائج كی طرف ہونی چاہئے، اخلاقی اور عقلی جہات كی طرف بھی اھتمام ہونا چاہئے ۔لیكن اس میں بچے كے مراحل زندگی اور پرورش كو بھی ملحوظ نظر ركھنا چاہئے۔ لہٰذا لڑكی كو سیكھنا چاہئے كہ كس بچہ كو بُری عادتوں سے روكا جا سكتا ہے اور كس طرح اطاعت، فرمانبرداری، خود اعتمادی اور دوسروں كے حقوق كا احترام اور اس جیسی اچھی عادتوں كو اس كے اندر پیدا كیا جائے ۔اور جان لے كہ كس طریقے سے كسی مسئلے كو حل كرنا اور اس كا واب ڈھونڈھنے كے احساس كو بچہ كے اندر جگائے اور اس كے اندر تفكر اور استنباط كی طاقت كو ابھارے۔ آئندہ میں ماں بننے كے لئے ایك لڑكی كی تربیت میں بہتر ہے كہ اس جیسی علمی تعلیمات كو عملی طریقوں كے ساتھ مطابقت دی جائے ۔یعنی اسے ذمہ داری دیا جائے كہ گھروں میں اور ٹہلنے كی جگہوں پر بچوں كی دیكھ ریكھ كرے۔ اور بچوں كے سن كی مناسبت سے جو كھیل ہیں انھیں سیكھے تاكہ عملی طور پر بچہ كی حاجتوں كو سمجھ سكے ۔آخر میں اس بات كا ذكر ضروری ہے كہ ماں كی زندگی كا سب سے اہم كردار اور مظاہرہ، وہ پاكیزہ اور پاك محبت ہے كہ جس كے ساتھ اسے اپنے فرزند سے پیش آنا چاہئے ۔
لڑكی، ایك ارزشمند انسان ہے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے بہترین حق كو لڑكیوں كے لئے قرار دیا، اور ایك ایسے زمانے میں جب كہ لڑكیاں، انسانی حقوق اور حیات كے حقوق سے بھی محروم تھیں؛ انھیں زندگی كے تمام حقوق دیئے ۔قرآن مجید، لڑكیوں كی دردناك اور تأسف بار حالت كو عصر جاھلیت میں اس طرح تصویر كشی كرتا ہے: (واذا بشر احدھم بالانثی ظل وجھہ مسوداً وھو كظیم یتواری من القوم من سوء ما بشر بہ ایمسكہ علی ھون ام یدسہ فی التراب؟ الا ساء ما یعملون) 3
اور جب خود ان میں سے كسی كو لڑكی كی بشارت دی جاتی ہے تو اس كا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ خون كے گھونٹ پینے لگتا ہے ۔قوم سے منھ چھپاتا ہے كہ بہت بُری خبر سنائی گئی ہے اب اس كو ذلت سمیت زندہ ركھے یا خاك میں ملادے یقیناً یہ لوگ بہت بُرا فیصلہ كررہے ہیں۔
اب جب كہ صدیاں گذر چكی ہیں بشریت كی دنیا متوجہ ہوگئی ہے كہ لڑكی بھی لڑكے كی طرح ایك انسان ہے كہ جسے بھی حقوق زندگی سے بہرہ مند ہو نا چاہئے ۔ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(من كان لہ انبۃ فادبھاواحسن ادبھا، وغذاھا فاحسن غذائھا، واسبغ علیھا من النعم التی اسبغ اللہ علیہ، كانت لہ میمنۃ ومیسرۃ من النار الی الجنۃ) 4
جس كے پاس بیٹی ہو اگر وہ اس كے تربیت كرے اور اس كو اچھے عمل كی تعلیم دے اسے كھلائے اور اس كی خوراك میں بہتر ی كو مد نظر ركھے اور جن نعمتوں كو خدا نے اس كے حوالے كیا ھے اسے لڑكی كے اوپر خرچ كرنے میں دریغ نہ كرے تو ایسا شخص آتش جہنم سے دائیں اور بائیں دونوں جانب سے بتچا ہوا وارد بہشت ہوجائے گا۔
ابی عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
(البنون نعیم والبنات حسنات یسئل اللہ عن النعیم و یثیب علی الحسنات) 5
لڑكے نعمت، اور لڑكیاں حسنات ہیں۔
ہاں تك كہ بعض روایات میں آیا ہے كہ عورتیں، مردوں سے زیادہ خدا ان پر رأفت اور مہربانی كرتا ہے:
(عن ابی الحسن الرضا(ع) قال:قال رسول اللہ (ص)، ان اللہ تبارك تعالیٰ علی النساء اراف منہ علی ازكور) 6
امام علی رضا علیہ السلام س روایت ہے كہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خدا عورتوں پر مردوں سے زیادہ مہربان ہے۔
اس زمانے میں جب كہ لڑكیوں كو گری ہوئی نظر وں سے دیكھا جاتا تھا جنا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس كی حفاظت اور تربیت كے لئے حكم فرمایا:ایك عاقلانہ تدبیر كے ذریعہ، لوگوں كو اس كی انسانی حیثیت كی طرف متوجہ فرمایا:
حمزۃ بن عمران سے مروی ہے كہ ایك آدمی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی خدمت میں آیا پیغمبر(ص) كے پاس ایك دوسرا شخص بھی تھا۔ آنے والے آدمی نے اسے بچہ پیدا ہونے كی خوشخبری سنا۴ی اس شخص كا رنگ بدل گیا۔ رسول (ص) نے فرمایا:كیا پیدا؟ اس نے عرض كیا: خٰیر ہے ۔ فرمایا: كہو۔عرض كیا: میں گھر سےنكلاتھا جب كہ میری عورت پیدائش كے درد میں مبتلا تھی مجھے خبر مل كہ اس نے ایك لڑكی كو جنم دیا ہے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا: زمین اس كی دیكھ بھال كرے گی اور آسمان اس پر سایہ كرے گا اور خدا اسے روزی پہنچاءے گا ۔ اس كے بعد اصحاب كی طرف رخ كیا اور فرمایا: جس كے پاس ایك لڑكی ہے اس كا بوجھ وزنی ہے، اور جس كے پاس دو لڑكیاں ہیں اس كی مدد كرنے چاہئے ۔ اور اگر تین لڑكیاں ہوں تو جنگ كا وجوب اس پر سے ہٹا دیا جاتا ہے، اور جس كے پاس چار لڑكیاں ہوں اے خدا بندے! اسے قرضہ دو، اور اے خدا بندے! اس پر ترحم كرو۔7
امام جعفر صاد ق علیہ السلام نے فرمایا: جب كوئی اپنی لڑكیوں كی موت كی آرزو كرے تو وہ انكی خدمت كے اجرو ثواب سے محروم ہوتا ہے اور گنہ گابن كر خدا كی ملاقات كرے گا۔ 8
لڑكیوں كے حقوق كی تائید و تثبیت كے لئے اور ان كی دیكھ بھال كے لئے لوگوں كو ترغیب دلانے كے لئے، جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(من قال ثلث بنات اوثلث اخوات وجبت لہ الجنۃ، فیل: یا رسول اللہ واثنین؟ قال: اثنین۔ قیل یا رسول اللہ وواحدۃ ؟ قال: وواحدۃ) 9
اگر كوئی شخص تین لڑكیاں یا تین بہنوں كے زندگی كا خرچ چلائے تو جنت اس پر واجب ہو جاتی ہے ۔ عرض كیا گیا: كیا دو لڑكیاں اور دو بہنیں بھی؟ فرمایا: ہاں۔عرض ہوا: كیا ایك لڑكی اور بہن بھی؟ فرمایا: ایك لڑكی اور ایك بہن بھی۔
لڑكیوں كے لئے اونچی پڑھائی
اسلام میں لڑكیوں اور عورتوں كے لئے علم میں آگے بڑھنے كے لئے، كوئی حد نہیں قرا ر دی گئی ہے۔ اور علوم كو ھر انسان چاہے مر د یا عورت كے لئے جہاں تك ممكن ہو اور استعداد بھی ہو اسلام سے مطلوب اور ضروری سمجھتا ہے ۔ اور عورت كو بھی اس جہت سے كبھی بھی محدود نہیں كیا ہے۔
تاریخ اسلام میں ایسی مشہور و نامور عورتیں گذری ہیں جو كہ درجہ عالیۂ اجتہاد اور بعض علوم میں تخصص كے درجہ پر پہنچ چكی ہیں۔۱۰
بچوں كی تربیت كے لئے عورت كی مستعدی زیادہ ہے
باہر كی ہر مشقت كا موں میں عورتوں كی مردوں كے ساتھ شركت، ایك ایسا موضوع ہے كہ جسے فطرت بشر اور آج كے علوم تمام طور پر اسے تقبیح كرتے ہیں۔ اس لئے كہ عورت طبیعتاً تولید نسل اور تربیت فرزند كے لئے خلق كی گئی ہے ۔ وہ ہر مشقت معاشرتی ذمہ داریوں كو اپنے عہدہ پر نہیں لے سكتی اور مردوں كے ساتھ ان كے طاقت فرساكاموں میں نہیں شریك ہو سكتی ہے ۔ جس كا نتیجہ یہ ہوگا كہ اپنے گھر كو چھوڑ دے اور ان كے بچے ۔ جو كہ ماں كی محبت اور حمایت كے سخت محتاج ہیں گلیوں اور سڑكوں پر رہا ہو جائیں۔
عورت كی زندگی كا مرفہ ہونا ایك فطری بات ہے، اسی لئے كے لوگوں نے درك كر لیا ہے كہ عورتیں كو حتی الامكان اور زیادہ تر گھر كے داخلی كاموں میں مصروف ہونا چاہئے، لیكن بعض جگہوں پر وحشی قوم كے لوگ، افریقا اور آسٹریلیا كے جنگلوں میں دوسری طرح زندگی گذارتے ہیں، یعنی مرد تو گھر پر بیكار بیٹھتے ہیں، اور عورتیں گھر سے باہر، بڑی سختی كے ساتھ ہر مشقت كام كر كے اپنے پریوار كے لئے وسائل زندگی فراہم كرتی ہیں اور شوہر كے لئے كھانا پینا لاتی ہیں۔
علم نے اس باتے میں اپنے آخری بیان اور كلام كو اظہار كیا ہے اور ہم یہاں پر، فرانس كے فلسفہ دان اگوست كنت كی كتاب برنامہ سیاسی میں سے ایك خلاصہ لاتے ہیں۔
شائستہ یہ ہے كہ عورتوں كی زندگی سكون وآرام كے ساتھ ہو۔اور مردوں كے كاموں كی ذمہ رادی ا پر نہ ہو۔ اس لئے كہ یہ اعمال انھیں اپنی طبیعی ذمہ داریوں كے راستے سے ہٹا دیتے اور ان كے فطری مواھب كو تباہ كر دیتے ہیں۔ اسی بنا پر عورت كی زندگی كا خرچہ مرد دیتا ہے بغیر اس كے كہ كوئی مادی نفع والا كام اس سے كرانا چاہئے ۔ جیسا كہ مؤلفین فلاسفہ، شاعر پیشہہ لوگ اور تمام دنشمندوں كو اپنے ذوق اور علم سے فائدہ اٹھانے كے لئے سكون اور آرام اور فراغت كی گھڑیاں چاہئے ہیں۔ اسی طرح عورتیں بھی اپنی انسانی اور سماجی ذمہ داریاں جیسے حمل اور پیدائش، بچوں كی تربیت، گھر داری كے لئے، اسی طرح كے اوقات فراغت كا ہونا ضروری ہے۔
ہ پیروا گراف اس فرانسی فلسفہ دان كے نظریوں كا نچوڑ ھے۔
لیكن بعض محققین نے، عورتوں كے لئے اپنی طبیعی فطرت سے كارج ہونا تجویز كیا ہے اور حقائق علمی سے ۔ تجدید حیات اجتماعی كے دعوے سے اور اپنے نوشتوں كو رواج دینے كے لئے۔ چشم پوشی اختیار كیا ہے ۔
اس جیسی باتوں نے چاہے مشرق اور چاہے مغرب میں اپنا اثر دكھا یا ہے، اس لئے كہ لوگ سطحی كتابیں اور قصے۔ جو كہ ان كی شہوت اور جنسی تمایلات سے موافق ہو۔ پڑھنے كی طرف زیادہ رغبت دكھاتے ہیں ۔ اور نتیجتاً ایك عمومی اتفاق اس نظرے كی اصالت پر حاصل ہو گیا ہے ۔ اور اس كے نتیجے میں، آج كے انسانی معاشرے كو جنون سے دو چار كر دیا ہے اور عورتیں گھروں كو چھوڑ كر باہر كے پر مشقت كاموں كا استقبال كرتی ہیں۔ اور مرد وعورت كے ملاپ كا اثر سماجی زندگی میِ ایسی عادتوں كا رواج ہے جو كہ صحیح زندگی سے موافقت نہیں ركھتی ہیں ۔ لڑكیوں كی عزویت رائج ہو گئی اور جریدوں نے بھی لوگوں كے اس شہرت یافتہ نظرے كی تائید میں مددكیا ہے ۔ اور والدین اپنے لڑكیوں كے لئے ایسے جرائد كو پڑھنے كے لئے فراہم كرتے ہیں ۔ وہ بھی اپنے قیمتی اوقات كو ایسے بے ثمر امور میں ضائع كرتے ہیں۔ اسی طرح سے بچے آئندہ میں ہر كام كے علوم ھنر وسے محروم ہیں ۔ البتہ اس طرح كے نوشتوں كے مطالب بچوں كے مزاج پر بہت بڑا اثر ركھتے ہیں۔
لیكن جب انسان میں كسی چیز كی عادت پو جاتی ہے، وہ عادت ہمیشہ ترقی كرتی رہے گی یہاں تك كہ اپنے منہا درجہ اور سب سے آخری حالت پر پہنچ جائے۔ یہاں تك كہ عورتوں كا نیم برہینہ ہونا، تھیٹر كے اسٹیج پر تقریباً پوری برھنگی میں بدل گئی اور زندگی كے عام مرحلوں میں بھی ایسا ہوا اور اس عادت كا اثر دریاؤں كے كنارے اور فاحشہ خانوں میں عملی طور پر دیكھا جاتا ہے۔
كیا انسان كی ترقی، یہیں پر رك جاتی ہے؟ گر یہ كہ غیر قابل توقع حوادث پیش آئیں:
(ظھر الفساد فی البر والبحر بما كسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون) 10
لوگوں كے اعمال كے ذریعہ خشكی اور تری میں فساد تباھی ظاہر ہوگئی تاكہ انھیں اپے اعمال كے بعض نیتجے تك پہنچادے، شاید (ان كے بدلے عمل كے نتائج) انھیں اپنے اعمال سے لوٹنے پر مجبور كرے۔
اگر كوئی دنیاوی امور میں مطالعہ كرے اور آج كل كے مختلف معاشروں كے علل اور عوامل میں دقت علمی سے چھان بین كرے، تو سمجھ لے گا كہ عوام كی اكثر شكایتیں اور پیچھے رہنا اور معاشرتی مشكلات اور مالی اور اقتصادی گھبراہٹیں ان كی بنیاد، عورتوں كی بے حدو بی پردگی بیحائی اور تھتك ہے۔
ہاں عورتوں كے عادات اور فطرتوں میں سے ایك، اپنی حفاظت اور حیاء ہے ۔ لیكن مرد ہمیشہ انھیں بہكانے اور اغواكرنے كے چكر میں رہتے ہیں اور رہیں گے ۔ اور چاہتے ہیں كہ اس فطری بات كو ان كے اندر مارڈالیں ۔ اور انھیں بی پردگی اور بیحائی كے میدان میں ڈھكیل دیں۔ اور اس بہكانے میں كامیاب بھی ہوچكے ہیں۔
اور قطعی طور پر، اس بہكانے والی آزادی كے مقابلے میں تسلیم ہونے كی وجہ سے عورتیں اپنے تمام حقوق كھو چكی ہیں اور اس كے عوض میں كطبھ بھی حاصل نہیں كیا ہے ۔
عورت، عفت اور صحیح پردے كے سایہ میں، عزت دار تھی، لیكن اب مبتذل اور بے مقدار ہوگئی ہے ۔ اور عورت كی بے پردگی اور بیحائی حقیقت میں اپنا بدن دكھانے میں مبالغہ ہے اور ہر كھلے طور پر دكھائی جانے والی چیز، دھیرے دھیرے مبتذل اور كم مقدار ہوتی جاتی ہے ۔اور جوانوں كی شادی سے روگردانی عورتوں كی مفرط بے پردگی كے آثار میں سے ہے تو عورت اپنے جسم كو دكھانے كی وجہ سے، اپنی عزت كھو بیٹھی ہے ۔
عورت كا وجود گھر كے اندر روحی ضرورتوں میں سے ایك ضرورت ہے ۔ مردا س كے ذریعہ سے اپنے سكون كو بر قرار ركھتا ہے:
(ومن آیاتہ ان خلق لكم من انفسكم ازواجا لتسكنوا الیھا، وجعل بینكم مودۃ ورحمۃ ان فی ذلك لآیات لقوم یتفكرون) 11
اس كی آیتوں میں سے ایك آیت یہ ہے كہ اس نے تمہارے لئے تم سے ہی زوج قرار دیئے تاكہ اس كے ذریعہ آرام پاسكو، اور تمہارے درمیان محبت اور دوستی كو قرار دیا ۔ اس بات میں كچھ علامتیں ہیں سوچنے والے لوگوں كے لئے۔
عورت، دنیا میں سب سے اونچی اور اہم ذمہ داری نبھانے كے لئے سب سے اہم سرمایہ ہے، اور وہ زمہ داری؛ بچوں اور نونہالوں كی تربیت ہے اسے چاہئے كہ بچوں كو اخلاق اور ادب كے اصول ومبادی اور فضیلت و انسانیت كو سكھائے ۔ فلسفہ دانوں اور مربیوں نے گھر كی اہمیت اور خاندان كے ماحول كے اثر كے بارے میں بہت باتیں كہی ہیں۔ لیكن عورت آج كل كی دنیا میں غلط اور فاسد تعلیم كی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے بہت بہت دور ہو چكی ہے ۔ اور ایسی ذمہ داریاں اس پر آئیں كہ جس كے دباؤ كے نیچے اس نے اپنے نسوانی عزت واحترام كو كھو دیا ہے اور یہ آج كی ذمہ داریاں، فاحشہ خانوں میں آناجانا اپنے آپ كو دكانوں، سینما ہال، اور ٹی وی پر دكھانا ہے ۔ اور شہرت پرستوں نے ھنر كی حمایت كرنے كی آڑ میں عورتوں كی زندگی میں خطرناك حالات كو ایجاد كیا ہے كہ جس كے مفاسد بشریت كتنے كتنے سالوں تك برداشت كرتی رہے گی۔
آج تمام لووں كے لئے، معاشروں كے اخلاقی فسادات، تماماً قابل دید ہے كہ تاریخ بشریت میں ایسا فساد كبھی نہیں دیكھا گیا ہے ۔ اگر انسان كی حیات اور ترقی، شہوت كے دلدل میں پھسنا ہی ہے؛ تو ایك ایسی طرز حیات منتخب كرنا چاہئے جو كہ تمام بڑے انسانی فطریات جیسے ناموس كے بارے میں غیرت ركھنا اور شرف و عفت و پاكدامنی كو دوست ركھنا، ان سب كو ختم كر دینا چاہئے۔
اگر انسان كی خلقت جانوروں كی طرح اور ان جیسی شرائط كے ساتھ ہوتی تو ظاہر سی بات ہے كہ جانوروں كی طرح زندگی گذارتا لیكن انسان، انسان خلق ہوا ہے ۔ وہ اس كے باوجود كہ شہوت كو اپنے اندر محسوس كتا ہے ۔ لیكن اس كے ساتھ ساتھ كچھ معنوی بر تریاں اپنے ادر دیكھتا ہے كہ قطعاً جن سے جانور محروم ہے ۔ جو لوگ بیحیائی كو مباح تصور كرتے ہیں بہكانے والے بہانوں كے ذریعے چاہتے ہیں كہ حقیقتوں كو پردہ كے نیچے چھپائے ركھیں اور تصور كرتے ہیں كہ عورتون كی عفت كا مطلب ان كا محدود كرنا ہے ۔ كہنا چاہئے:كیا عورتوں كا اپنی طبیعت كی مناسبت سے ظریف ذمہ دار ریوں میں مشغول ہونا، ان كا محدود كرنا ؟ تو اس صورت میں چاہئے كہ جو بھی اپنی ذمہ داریاں پر عمل كرتا ہے، محدود ہے اور تنگنی میں ہے۔
لیكن عورت كے استقلال كا مسئلہ ۔ ایك طرح سے۔ اس بات كے خلاف ہے كہ وہ ایك مرد كی زوجہ ہو، اس لئے كہ مراد اور عورت كے درمیان كچھ ایسے التزام اور پابندیاں متقابلاً موجود ہیں جو كہ ان كے استقلال كی مخالفت كرتے ہیں۔ لیكن چونكہ لكھنے والے اور قصہ گو افراد محبت اور عشق كے علاوہ اور مرد اور عورت كی خیانت كے قصوں كے علاوہ كوئی اور بیان ان كے پاس نہیں ہے، اس استقلال كی عورتوں كو لالچ دیتے ہیں تاكہ اس كو میاں بیوی اور زوجیت كے مابین التزامات اور تعہدات سے كارج كردیں ۔
بعض لوگ كہتے ہیں كہ عورتوں كو مادی فعالیت اور سائل زندگی كے حصول سے محروم نہیں ہو نا چاہئے ۔ اگر چہ ہم یہ جانتے ہیں كہ اسلام نے عورت كو مالی استقلال دیا ہے لیكن ان لوگوں كے جواب میں كہہ سكتے ہیں كہ عورت، شادی كے زریعہ متعلق اسلام میں ۔اپنی زندگی كے خرچ كو شوہر كے وسیلہ سے چلا سكتی ہے اور چونكہ خدا نے عورتوں كی تعداد كو ۔ تھوڑے سے فرق كے ساتھ۔ مردوں كی تعداد كے برابر قرار دیا ہے، تو عورت اگر ھد سے زیادہ آزد ہو اور مردوں سے معاشرت كرتی رہے، تو وہ زندگی اور دانہ پانی سے محروم ہو جائے گی، اس لئے كہ یہ عمل، غیر مستقیم طریقے سے، عزوبت كو رواج دیتی ہے، اور عزوبت كا رواج معاشرے میں عورتوں كا ایك گروہ وجود میں لائے گا كہ جن كے پاس زندگی كا خرچ نہیں ہے ۔ لہٰذ وہ مبور ہو جا۴یں گی كہ مردوں كے ساتھ سادی امور میں تعاون كریں۔ اور ان كا مردون كے ساتھ ساتھ رہنا متعاكساً عزوبت كو ایجاد كرنے كے عوامل میں سے ہے، اور یہ نكتہ كسی سے چھپا ہو انہیں ہے ۔ ایسی صورت میں عورت طاقت گھٹانے والے كام كو انجام دیتے ہوءے اپنے ظرافت اور عورت كی عزت كو كھو دے گی اس لئے كہ عورت دكان چلا نے اور سامان اٹھانے اور ڈڑائیور بننے كے لئے پیدا نہیں كی گئی ہے ۔ بلكہ پیدا كی گئی ہے تاكہ اپنے شور كے لئے ایك اچھی بیوی اور گھر میں بچوں كی تربیت دینے والے ماں بنے ۔ اور گھر اگر ایك ناچیز چھونپڑی بھی ہو تو عورت كے لئے ایك وسیع محل كی حیثیت ركھتی ہے ۔ وہ گھر كے اندر بہتر اپنے امتیازات كی حفاظت كرسكتی نہ كہ تب جب وہ سامان اٹھانے والی ہو یا گاڑی ڈرائیور ہو۔
تو عورت اپنی مناسبت سے جو وظائف ہیں جیسے كہ بچوں كی پرورش اور داخل حوائج كو پورا كرنا اور ایسے معاشرتی مسائل میں شركت كرنا جسے اسلام نے تجویز كیا ہے ۔ ان كے انجام دیكر بہتر اپنی حثیت كی حفاظت كرسكتی ہے ۔
ہمیں بلند آواز سے كہنا چاہئے كہ انسانی فطرت ایك عجیب و غریب مھلكہ می پڑچكی ہے اس لئے كہ حدود و نوامیس الٰہی سے كوسوں دور ہو چكی ہے ۔ اور جلد ہی و تمدن جو كہ بہت زمانہ بیتنے كے بعد بشر كی انتھك كوششوں سے بنا ہے، متلاشی ہو جائے گا۔ (من یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ)
جو حدود خداوندی سے گذر جاے، اس نے اپنے آپ پر ظلم كیا ہے ۔
-------
1. محجۃ البیضاء، ج۲، ص۶۴۔
2. بحار الانوار، ج۲۳، ص۱۱۳۔
3. سورہ نحل آیت، ۵۸۔۵۹۔
4. محجۃ البیضاء، ج۲، ص۶۴۔
5. وہی كتاب اور وہی صفحہ'
6. مكارم الاخلاق، ص۱۳۳۔سورہ روم آیت، ۲۰۔
7. بحار الانوارج ۲۳، ص۱۱۴۔
8. وہی كتاب اور وہی صفحہ۔
9. سورہ روم، آیت ۴۰۔
10. سورہ روم، آیت۲۰۔
11. سورہ معارج، آیت ۱۔
ڈاکٹراحمدی نژاد تشخیص مصلحت نظام کونسل کے رکن معین
رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سابق صدر ڈاکٹراحمدی نژاد کو تشخیص مصلحت نظام کونسل کا رکن معین فرمایا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی کے حکم نامے میں سابق صدر کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ گذشتہ آٹھ برسوں صدر مملکت کی حیثیت سے آپ کی گرانقدر خدمات اور تجربوں کے پیش نظر آپ کو تشخیص مصلحت نظام کونسل کا رکن معین کیا جاتا ہے۔
تشخیص مصلحت نظام کونسل، ملک میں قانونی سازی کے سلسلے میں پیش آنے والے اختلافات کو حل کرنے والا ادارہ ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی اور حامد کرزئی کے درمیان ملاقات
ڈاکٹر حسن روحانی نے، حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے آئے افغان صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور افغانستان کی بہت زیادہ تاریخی مماثلت ہے اور دونوں ممالک کو چاہیئے کہ وہ موجودہ امکانات کا فائدہ، زیادہ سے زیادہ تعلقات کی توسیع میں اٹھائیں۔
ایران کے نئے صدر نے کہا کہ دوسرے موقع پر دونوں ممالک کے حکام کے درمیان ملاقات کی جائے گی جس میں تعاون کے راستوں کے جائزے پر تفصیل سے گفتگو ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ فارسي بولنے والے ملک ایران، افغانستان اور تاجکستان، ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں اپنے تعلقات کو وسیع کر سکتے ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے بھی اس ملاقات میں ڈاکٹر حسن روحانی کو ایران کا صدر بننے پر مبارک باد دی اور امید ظاہر کی کہ ایران کی نئی حکومت سے ترقی اور ترقی کی زیادہ سے زیادہ زمین ہموار ہوگی۔
انہوں نے اسی طرح افغان حکومت اور عوام کے فی ایران کے حمایت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی عوام اور حکومت نے ہمیشہ افغانستان کے مسائل کو سمجھ کر لاکھوں افغاني شہریوں کو اپنے یہاں پناہ دی۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
