Super User

Super User

عالم اسلام کی صورتحال پر تشویشتہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ امام کاشانی کی امامت میں ادا کی گئي۔

خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ یہ عالم اسلام کے دانشوروں اور علماء کا فریضہ ہے کہ وہ تکفیریوں، وہابیوں اور سلفیوں کی شدت پسندفکر سے لوگوں کوآگاہ کریں تا کہ عالم اسلام میں قتل عام کی روک تھام کی جاسکے۔ آيت اللہ امامی کاشانی نے مصر سمیت عالم اسلام میں سلفی اور وہابی فکر کے پھیلا‏ؤ کی بابت انبتاہ دیتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کے علماء اور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کوآگاہ نیز مناسبب تدابیر اپنا کر انتھا پسندانہ اور خطرناک افکار کا سد باب کریں۔ خطیب جمعہ تہران نے شام اور مصر سمیت عالم اسلام کی افسوس ناک صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ واقعات سے عالم کفر کو پہچاننے اور اس حقیقت کو درک کرنے کی ضرورت ہے کہ عالم اسلام کے بہت سے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سلفیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں قتل عام کا آغاز اٹھارہویں صدی میں شروع ہوا تھا اور اس کے بعد برطانوی سامراج نے اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے تحت اس انتھا پسندانہ فکر کو عالم اسلام میں پھیلانے کی کوشش کی۔ خطیب جعمہ تہران نے مصر میں فوج کے ہاتھوں صدر مرسی کی معزولی کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا یہ مشاہدہ کررہی ہے کہ کوئي فرعون آتا ہے ملت مصر سے خیانت کرتاہے اور اسے رہا بھی کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایران میں ولایت فقیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں اس وقت جو امن و چین اور استحکام ہے وہ رہبرانقلاب اسلامی کی رہنمائیوں کا مرھون منت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام کو اس اسلامی فکر سے استفادہ کرنا چاہیے اور ایران کو اپنا نمونہ عمل بنالینا چاہیے۔ آیت اللہ امامی کاشانی نے ایران میں نئي حکومت کے برسرکار آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا کہ یہ حکومت اقتصادی ، سیاسی اور ثقافتی نیز اخلاقی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوگي۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کے اعدادو شمار

افغانستان میں 2001 کے اختتام پر شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کم سے کم 2 ہزار ایک سو26 امریکی فوجی مارے جا چکے ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں 2001 سے امریکی مداخلت کے بعد وہاں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد کم سے کم 2 ہزار ایک سو26 ہوگئی ہے۔ جبکہ ملٹری سروس کے ایک ہزار 763 اہلکاربھی اس جنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔اسی دوران افغانستان سے باہر آپریشن فریڈم میں 127 امریکی فوجی مارے گئے ہیں ان میں سے 11 مخالفانہ کارروائی کا نتیجہ تھے۔

امریکی محکمہ دفاع کا کہناہے کہ گزشتہ 12 برسوں کے دوران 19 ہزار 141 امریکی اہلکار مخالفانہ کارروائیوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔

محترمہ والٹرور کی اسلام قبول کرنے کی ایمان افروز داستان

انسانی فطری طور پر اپنی سعادت اور خوش بختی کا متمنی ہے اور اس کے لیے کوشش و جستجو کرتا رہتا ہے۔ وہ سعادت تک پہنچنے کے خیال سے مسرت و شادمانی میں غرق رہتا ہے اور مخدوش مستقبل اور محرومی کے تصور سے ہی اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایمان ایک ایسی الہی نعمت ہے کہ جو دنیا کے بارے میں انسان کی سوچ تبدیل کر دیتی ہے اور وہ تخلیق اور خلقت کو بامقصد سمجھتا ہے اور یہ مقصد خیر اور کمال ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کائنات کے نظام اور اس کے قوانین کو مثبت نگاہ سے دیکھتا ہے اور زندگی کو معنی و مفہوم اور مقصد دیتا ہے۔ اسی احساس اور جذبے کو محترمہ والٹرور نے محسوس کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب میں اپنے ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ جس وقت میں نے خدا کی اطاعت شروع کی اسی وقت سے میری حقیقی زندگي کا آغاز ہوا۔

محترمہ والٹرور زندگی کے بہت سے تجربات حاصل کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ جب سے میں اسلام سے آشنا ہوئي ہوں اور میں نے اسلام قبول کیا ہے تو میری زندگی بامقصد ہو گئی ہے۔ کیونکہ اسلام نے مجھے ایمان کی نعمت سے نوازا ہے۔

کائنات میں ایک باایمان فرد کی حالت اس فرد جیسی ہے کہ جو ایک ایسے ملک میں زندگي بسر کرتا ہے کہ جس کے نظام اور قوانین کو وہ صحیح اور عادلانہ سمجھتا ہے اور اس نظام کو چلانے والوں کی نیک نیتی پر بھی وہ ایمان و یقین رکھتا ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے اور تمام افراد کے لیے ترقی و پیشرفت کا راستہ ہموار دیکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ جو چیز اس کی پسماندگي اور محرومی کا سبب بن سکتی ہے وہ اس کی اور اس جیسے افراد کی سستی اور ناتجربہ کاری ہے۔ لیکن کائنات میں ایک بےایمان فرد ایک ایسے فرد کی مانند ہے کہ جو ایک ایسے ملک میں رہتا ہے کہ جس کے نظام اور قوانین کو وہ غلط اور ظالمانہ سمجھتا ہے اور انہیں قبول کے سوا اس کے پاس کوئي چارہ نہیں ہے۔ ایسے شخص کے اندر ہمیشہ کینہ و عداوت چھپی ہوتی ہے۔ وہ کبھی بھی اپنی اصلاح کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ يہ خيال کرتا ہے کہ پوری کائنات اور ہستی ظلم و ستم اور ناانصافی سے بھری ہوئي ہے اور اس کے لیے زندگی کا کوئي معنی و مفہوم نہیں ہے۔

*****

محترمہ والٹرور جرمنی میں پیدا ہوئيں۔ انہوں نے اپنا بچپن غربت و تنگ دستی میں گزارا اور انہوں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ لیکن زندگی میں ایک ایسا دور بھی آیا کہ جب مادی لحاظ سے ان کی زندگي آسودہ تھی لیکن وہ محسوس کرتی تھیں کہ وہ اپنی زندگي سے راضی نہیں ہیں اور ان کی زندگي میں کسی چیز کی کمی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:

میرا بچپن بہت ہی غربت اور مشکلات میں گزرا۔ میرے بچپن کی تربیت میں مذہب کا کوئي کردار نہیں تھا۔ لیکن میں کم و بیش اپنی زندگی میں خدا کا وجود محسوس کرتی تھی۔ جب میں بڑی ہوئي تو میں نے ایک کمپنی میں سیکرٹری کی نوکری کر لی۔ آہستہ آہستہ میری مالی حالت اچھی ہونے لگی جس کی وجہ سے میری خواہشات میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ میں مہنگے کپڑے خریدنے لگي اور ایک آسودہ زندگی کے لیے زیادہ خرچ کرنے لگی۔ میرے پاس اگرچہ سب چیزیں موجود تھیں لیکن مجھے دلی سکون نہیں ملتا تھا۔ میری خواہشات اور تمناؤں کی کوئی انتہا نہیں تھی لیکن اس کے باوجود مجھے باطنی اور قلبی سکون میسر نہیں تھا اور مجھے اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ جب میں نے کئی دوسرے ملکوں کا سفر کیا تو میرے اندر تبدیلی کی خواہش جاگ اٹھی۔

محترمہ والٹرور کو ایک مسلمان ملک کے سفر کے دوران ایسے حالات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی زندگي پر بہت ہی مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ گویا ان کو اپنے باطن میں کوئی گمشدہ چیز مل جاتی ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:

جب میں پہلی بار ترکی گئي تو سحر کے وقت میں ایک خوبصورت اور دل انگیز آواز سے بیدار ہو گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر کوئي چيز زندہ ہو گئی ہے۔ بعد میں میں متوجہ ہوئي کہ وہ صبح کی آذان کی آواز ہے کہ جو مسلمانوں کو صبح کی نماز کی دعوت دیتی ہے اسے سن کر مسلمان صبح کی نماز ادا کرتے ہیں۔ آذان میں مسلمان خدا کی بڑائی اور بزرگی کا ذکر کرتے ہیں اور حضرت محمد (ص) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں۔ آذان کی آواز نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا۔ ترکی اور کئی دیگر اسلامی ملکوں کا سفر کرنے کے بعد میرے اقدار اور معیارات تبدیل ہو گئے اور اسلام میں میری دلچسپی بہت بڑھ گئی۔

اسلام دین فطرت ہے۔ اس کے حقائق اور معارف کچھ اس طرح ہیں کہ وہ اپنے مخاطب کو آسانی سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ نماز، روزہ، حج اور دیگر عبادات چونکہ انسان کی باطنی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اس لیے تشنگان حقیقت کو سیراب کرتی ہیں۔ اسی بنا پر محترمہ والٹرور اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں:

میں اس حقیقت تک پہنچ گئی کہ میں جس باطنی اور قلبی آرام و سکون کی تلاش میں تھی وہ مجھے اپنے ملک میں نہیں ملا بلکہ وہ مجھے اسلام میں نظر آیا۔ اسلام سے آشنائی نے میرے اندر تبدیلی پیدا کر دی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے فارغ اوقات میں اسلامی ثقافت کے بارے میں مطالعہ کروں گی۔ میں اپنی چھٹیاں تیونس سمیت اسلامی ملکوں میں گزارنے لگی البتہ تفریحی مقامات پر نہیں بلکہ لوگوں کے درمیان خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں۔ میں نے مختلف طبقات اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے میل جول بڑھانے اور واقفیت پیدا کرنے اور بات چيت کرنے کی کوشش کی۔

*****

محترمہ والٹرور کی اس رفت و آمد اور سفر کا نتیجہ ان کے اسلام لانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ عصر حاضر کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ محترمہ والٹرور کو ایک اور حقیقت سے آشنا کراتا ہے۔ وہ زالٹس برگ یونیورسٹی میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں ایک فلم دیکھتی ہیں۔ وہ خود اس کے بارے میں کہتی ہیں:

البتہ یہ تنقیدی فلم کمیونسٹوں نے دکھائی تھی۔ اس کے باوجود کہ ان کے مقاصد کچھ اور تھے، مجھ پر اس فلم کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ میری نظر میں ایران کا اسلامی انقلاب اس حقیقت کا ایک مصداق تھا کہ خدا کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس سے مدد مانگنے سے بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ایران کے اسلامی انقلاب نے چونکہ اسلام اور دین سے رہنمائی حاصل کی اسی لیے محترمہ والٹرور پر اس کا بہت زیادہ اثر ہوا اور ان کے دل میں انقلاب کے بارے میں مزید جاننے کا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ انقلاب کے بارے میں یہ فلم دیکھنے کے بعد ویانا میں ایران کے کلچر سینٹر سے رابطہ کرتی ہیں۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں:

اس رابطے کے نتیجے میں مجھے مطالعہ کے لیے بہت اچھی کتابیں مل جاتی ہیں جن میں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور مفکر اسلام استاد شہید مرتضی مطہری کی کتابیں شامل ہیں۔ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد میرے اندر بہت اچھی تبدیلیاں پیدا ہو گئيں۔ شہید مطہری کی ایک کتاب میں میں نے مذہبی ایمان کے بارے میں پڑھا جو میرے لیے بہت ہی دلچسپ اور پرکشش تھا۔ وہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ تمام اخلاقی اصولوں کی بنیاد مذہبی ایمان ہے۔ کرامت، تقوی، سچائی، فداکاری اور وہ تمام کام جن کو انسانی فضیلت کا نام دیا گيا ہے، ان کی بنیاد ایمان ہے۔ مذہبی ایمان انسان کے اندر استقامت و مزاحمت کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اسی بنا پر مذہبی افراد، جتنا ان کا ایمان قوی و مضبوط ہوتا ہے، اتنا ہی وہ باطنی اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

محترمہ والٹرور اسلام پر ایمان لانے سے اپنے اندر ایک دلنشیں آرام و سکون محسوس کرتی ہیں۔ ایک ایسا آرام و سکون کہ جو حتی سخت ترین حالات میں بھی متاثر نہیں ہوتا۔ انہوں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنے لیے زینب نام منتخب کیا۔ وہ کہتی ہیں:

جب سے میں مسلمان ہوئی ہوں میں نے اپنی زندگی دوسرے انسانوں کے لیے وقف کرنے اور اسلامی نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ پردے اور حجاب کی وجہ سے مجھے اپنی پہلی ملازمت اور اچھی آمدنی سے محروم ہونا پڑا۔ لیکن یہ نقصان میرے لیے بہت ہی شیریں تھا کیونکہ میں نے ایک بڑے مقصد کی خاطر اسے برداشت کیا۔ البتہ خدا نے مجھ پر لطف و کرم کیا اور مجھے دوسری جگہ مناسب نوکری مل گئی۔ میرے خیال میں اگر انسان خدا کی راہ میں کام کرے تو وہ خود کو ہمیشہ سربلند و سرفراز سمجھتا ہے اور کبھی بھی مادی نقصان کی پرواہ نہیں کرتا۔ میں جتنا خدا کے راستے میں قدم بڑھاتی ہوں تو اپنے اندر اتنا ہی زیادہ آرام و سکون محسوس کرتی ہوں۔ جب میں مغرب میں نوجوانوں کو بڑی تعداد میں اسلام کا گرویدہ ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے سورۂ نصر یاد آ جاتی ہے جس میں ارشاد خداوندی ہے:

جب خدا کی مدد اور فتح آ جائے اور آپ لوگوں کو دین خدا میں جوق در جوق داخل ہوتا دیکھیں تو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کریں اور اس سے استغفار کریں بے شک وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

Wednesday, 21 August 2013 06:24

مصر کی موجودہ صورت حال

مصر کی موجودہ صورت حالمصر میں اخوان المسلمین کے سربراہ محمد بدیع کو گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں دارالحکومت قاہرہ میں النصر کے علاقے میں واقع ایک فلیٹ سے کریک ڈاوٴن کے دوران گرفتار کیا گیا۔

ادھر امریکی صدربارک اوبامانے مصرمیں جاری پْرتشددواقعات میں ایک ہزارسے زائد شہریوں کی ہلاکت کے پیش نظر مصر کیلئے عسکری امدادختم کرنے کاعندیہ دیا ہے۔ میہ اہیسی حالت میں ہے کہ مصر کے پبلک پراسیکیوٹر نے معزول صدر محمد مرسی کو نئے الزام میں 15 روز کے لئے جیل ریمانڈ پر بھیج دیا۔

مصرکی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یورپی یونین کے28وزرائے خارجہ کی ہنگامی ملاقات بھی کل متوقع ہے جس میں مصرپرتجارتی پابندیاں لگائے جانے پربھی غورکیاجائیگا۔

دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر خارجہ شاہ سعودالفیصل نے کہا ہے کہ اگرمغربی ممالک نے مصرکی امداد روکی تو تمام عرب اوراسلامی ممالک، مصرکی بھرپورمددکریں گے۔دریں اثنامصر کے متعدد شہروں میں آ ج چھٹے دن بھی کرفیو نافذ رہاجس کی وجہ سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا رہا۔

کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کا جاری تبادلہہندوستان نے دعوی کیا ہے کہ پاكستاني فوجیوں نے کنٹرول لائن پر ایک مرتبہ پھر فائربندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں ہندوستانی ٹھکانوں پر فائرنگ کی ہے۔

ہندوستانی فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں دعوی کیا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے بلا اشتعال پونچھ ضلع میں کنٹرول لائن سے ملحقہ میڈھر سیکٹر میں ہندوستانی ٹھکانوں پر فائرنگ کی جس کے جواب میں ہندوستانی فوجیوں نے بھی فائرنگ کی اور کنٹرول لائن پر دونوں ہی طرف سے آج صبح تک رک - رک کر فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔

قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان نوبر 2003 میں دو طرفہ جنگ بندی معاہدہ ہوا ہے جو ان سالوں تک برقرار رہی ہے۔

آیت اللہ بشیر نجفی: عراق میں خونریزی کی ذمہ دار حکومت

نجف کے مرجع تقلید آیت اللہ بشیر نجفی نے عراق میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں اپنی گفتگو میں حکومت کو اس کا اصلی ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا: یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عراق میں اس خونریزی کا سلسلہ بن کرائے جو سالہا سال سے جاری ہے۔

انہوں نے اس بات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہ ملک میں دھشتگرانہ کاروائیوں میں کتنی عورتیں بیوہ، کتنے بچے یتیم اور کتنی ماوں کی گودیاں اجڑی ہیں کہا: آخر کب تک عراق کے عوام اس رنج و غم کے متحمل ہوں گے۔ عراق کی حکومت ان آلام و مصائب کی اصلی ذمہ دار ہے اسے جلد از جلد اس بارے میں قدم اٹھانا چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ کچھ روز قبل آیت اللہ سیستانی نے بھی عراقی حکام کے غیر جانبدارانہ رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا: حکومتی عہدہ داران موجودہ صورت حال میں اپنا شانہ خالی کر رہے ہیں اور کوئی بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنے کئے کا نتیجہ بگتیں گے، حقائق لوگوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

Wednesday, 21 August 2013 06:20

پرویز مشرف پر فردجرم عائد

پرویز مشرف پر فردجرم عائدپاکستان میں بینظیربھٹوقتل کیس میں اس ملک کے سابق صدر پرویز مشرف سمیت 7 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی گئی۔ جبکہ پرویز مشرف نے اقبال جرم سے انکار کیا ہے۔ پرویز مشرف کو سخت سیکورٹی میں چک شہزاد سب جیل سے انسداد دہشت گردی کی عدالت راولپنڈی میں پیش کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت جج چودھری حبیب الرحمان نے کی۔سماعت کے دوران سابق صدر پرویز مشرف کو چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی، تاہم پرویز مشرف نے صحت جرم سے انکار کیا۔عدالت نے پرویز مشرف کی جانب سے صحت جرم سے انکار کے بعد استغاثہ کی شہادتیں طلب کرلیں اور کیس کی سماعت 27 اگست تک کیلئے ملتوی کردی۔فرد جرم 8 صفحات پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف پانچ برس ملک سے باہر رہنے کے بعد گزشتہ مارچ کے مہینے میں ملک واپس لوٹے تھے اور تب سے ان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ پارلیمانی انتخابات میں شرکت کے ذریعے پاکستان کی سیاست میں بھر پور کردار ادا کرنے کے خواب کے ساتھ پاکستان واپس لوٹے تھے۔ لیکن وہ نہ صرف انتخابات میں حصہ نہ لے سکے بلکہ ان کو مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑ گيا۔ ان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لۓ نا اہل قرار دے دیا گیا اور ان کے گھر کے اندر نظر بند کردیا گيا۔ پرویز مشرف کو بگٹی قبیلے کے سربراہ اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمے کا بھی سامنا ہے۔ اکبر بگٹی کے قتل کا واقعہ سنہ دو ہزار پانچ میں پیش آیا اور اس واقعے میں پاکستان کے صوبۂ بلوچستان میں اکبر بگٹی اور ان کے پینتیس ساتھی ہلاک ہوگۓ تھے۔ اکبر بگٹی کے اہل خانہ نے اس وقت کے صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم شوکت عزیز پر اس قتل کا الزام عائد کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شائد پرویز مشرف کی اپنی زندگي میں سب سے بڑی غلطی ان کا پاکستان واپس لوٹنا ہی ہے۔ کیونکہ انٹرپول پولیس نے پاکستان کی سابق حکومت کی جانب سے کی جانے والی پرویز مشرف کی گرفتاری کی درخواست مستر کردی تھی۔ پرویز مشرف پر جو مقدمات چل رہے ہیں ان میں سے بے نظیر قتل کیس نے بین الاقوامی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

سنہ دو ہزار آٹھ کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کرنے اور اپنی حکومت تشکیل دینے کے بعد اقوام متحدہ سے بے نظیر کے قتل کے بارے میں ایک خصوصی تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں خصوصی کمیشن تشکیل دیا جس نے اپریل سنہ دو ہزار دس کو اپنی رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی کے لۓ ضروری اقدامات نہ کرنے کی بناء پر پرویز مشرف پر بے نظیر بھٹو کے قتل میں شرکت کا الزام عائد کیا گيا۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی روک تھام ممکن تھی لیکن پاکستانی حکام نے اس سلسلے میں شعوری طور پر غفلت سے کام لیا۔

واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو کو دسمبر سنہ دو ہزار سات میں راولپنڈی شہر میں انتخابی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا تھا۔ اور اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ پرویز مشرف کو بے نظیر قتل کیس کے مقدمے میں طویل عرصے تک قید کی سزا سنا دی جائے۔

انسانیت کے احترام کو ہر معاشرے کیلئے لازمی قرار دیا جائے : ڈاکٹر طاہر القادری

عالمی یوم انسانیت کے موقع پر غیر مسلموں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے بانی سر پرست ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا ہے کہ آج انسانیت میں محبت بانٹنے کی ضرورت ہے، نفرت اور انتہا پسندی کی خار دار جھاڑیوں کو چُن چُن کر ختم کرنا ہو گا اور اسکی جگہ محبت،امن اور احترام کے پھول کھلانا ہوں گے، دین اسلام نے انسانیت کو ایسا احترام دیا ہے جو کرہ ارض پر موجود ہر فرد کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی طور پر مختلف معاشروں کو فرائض کی ادائیگی کا پابند بناتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانیت کے احترام کو ہر معاشرے کیلئے لازمی قرار دے کر اسلام نے بچوں سے لے کر بوڑھوں حتیٰ کہ اس دار فانی سے کوچ کر جانے والوں کے حقوق کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا ہے،ظلم،استحصال اور جبر کا صدیوں تک شکار رہنے والی عورت کے حقوق کو تحفظ اور احترام دے کر اسلام نے اسے معاشرے کا ایسا فرد قرار دیا جسکے حقوق مردوں کے برابر ہیں۔اس لئے یہ کہنے میں کسی مسلمان کو تامل نہیں ہونا چاہیے کہ دین اسلام کی اقدار انسانیت کے احترام کے گرد گھومتی ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ دین اسلام نے انسانیت کے احترام کو زندگی کے ہر گوشے میں اولیت دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مذہبی طبقے کو قول و فعل کے تضاد کو ختم کردینا چاہیے،انکے کردار سے انسانیت کیلئے خیر اور محبت پھوٹنی چاہیے،تحریک منہاج القرآن نے انسانیت کے احترام کو اپنی دعوت کی اساس قرار دے رکھا ہے اور اس سے وابستہ ہر شخص کی تربیت اس انداز سے کی گئی ہے کہ اس کے قول اور فعل سے کسی کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کوئی اذیت نہ پہنچے۔

انہوں نے کہاکہ تحریک منہاج القرآن کو دنیا کے گلوب پر پذیرائی اس لئے ملی ہے کہ اس نے انسانیت کو محبت اور امن دینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔

وفاقی وزیر داخلہ کراچی میں دہشتگردوں کی عدم گرفتاری کا نوٹس لیں، ثروت اعجاز قادری

سربراہ پاکستان سنی تحریک محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا ہے کہ موت کے سوداگر آزادی کے ساتھ دہشتگردی کر رہے ہیں، بے گناہ افراد کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، ٹارگٹ کلرز کی عدم گرفتاری کی وجہ سے کراچی مقتل گاہ بنا ہوا ہے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں، وفاقی وزیر داخلہ کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردوں کی عدم گرفتاری کا نوٹس لیں، پورا ملک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے، دہشتگردوں کو اب بھی لگام نہ دی گئی تو ملک کو اندرونی و بیرونی طور پر خطرات ہوسکتے ہیں، پوری قوم دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنا چاہتی ہے، اب حکومت دہشتگردی کے خلاف نہ صرف اپنی پالیسی وضع کرے بلکہ دہشتگردوں کا صفایا کرنے کیلئے عملی طور پر اقدامات کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکز اہلسنت پر علماء کرام کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ پاکستان علماء و عوام اہلسنت کی طویل جدوجہد کے بعد معرض وجود میں آیا، ہمارے اکابرین نے پاکستان کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے دئیے اور آج ہم انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کی بقاء و سلامتی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، حکومت دہشتگرد اور محب وطن میں فرق محسوس کرے اور دہشتگردوں کے مکروہ چہروں کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے گذشتہ 15 سالوں سے دہشتگردی سے نمٹنے اور دہشتگردوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام امن، محبت، بھائی چارگی کے پیغام کو فروغ دیں، دہشتگردی کے خلاف نہ صرف آواز بلند کریں بلکہ عوام میں شعور اجاگر کریں، پاکستان سنی تحریک حکومت کی مثبت پالیسیوں کو سراہے گی، حکومت ملک و قوم کے مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے دہشتگردوں کے گرد قانون کے شکنجے کو سخت کرے۔

پریس ٹی وی کے خلاف صیہونی ادارے کی سازشیوٹیوب نے ایک صیہونی ادارے کی ہدایات پر ایران کے پریس ٹی وی کا اکاؤنٹ بند کردیا۔

پریس ٹی وی کے مطابق یوٹیوب کی جانب سے یہ اقدام، اینٹی انسلٹ لیگ نامی ایک صیہونی ادارے کی ہدایات پر عمل میں آیا ہے اسلئے کہ یہ صیہونی ادارہ، امریکا و اسرائیل کے بارے میں پریس ٹی وی کی حقیقت پسندانہ خبروں کو ان کی توہین قرار دیتا ہے۔

اس سے قبل ایسا ہی اقدام گوگل کی طرف سے عمل میں تھا جبکہ گوگل یا یوٹیوب نے اپنے اس قسم کے اقدام کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے اور یہ اقدام صرف اینٹی انسلٹ لیگ نامی ایک صیہونی ادارے کی ہدایات پر عمل میں آیا ہے۔

درحقیقت اس صیہونی ادارے نے یوٹیوب پر یہ الزام لگایا ہے کہ اس نے پریس ٹی وی سرگرمیاں جاری رکھ کر ایران کے خلاف مغرب کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ایران کے نشریاتی اداروں پر گذشتہ سال سے ہی مغرب کا شدید دباؤ ہے اور مختلف سٹیلائٹس سے ایرانی ٹی وی چینلوں کی نشریات پر پابندیاں لگائی جاتی رہی ہیں۔