
Super User
حضرت سارہ سلام اللہ علیہا
قرآنی علوم ومعارف سے سرشار عورت جس نے ایمان و تقوی اور فضائل و کمالات کے اعلی مراتب حاصل کئے ہیں اور اسی طرح انبیاء علیہم السلام کی تاریخ اور توحید کا پیغام نشرکرنے میں ایک عظیم مقام پر فائز ہے وہ جلیل القدر خاتون خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات حضرت سارہ ہیں آپ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کے تینتیس سو اکسٹھ سال بعد اور پیغمبر اسلام (ص) کی ہجرت سے اٹھائیس سو پچپن سال پہلے عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئیں آپ کے والد ماجد لاہج تھے اور والدہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خالہ تھیں ۔ آپ نے ابھی زندگی کی چھتیسویں بہار ہی میں قدم رکھا تھا کہ آپ کی شادی حضرت ابراہیم سے ہوگئی اور آپ عمر کے آخری لمحہ تک ان کی مطیع و قرمانبردار رہیں۔ جناب سارہ اپنے زمانے کی مالدار خاتون اور بہت سی زمینوں اور مویشی اور جانوروں کی مالک تھیں مگر شادی کے بعد آپ نے اپنی تمام دولت وثروت حضرت ابراہیم کی خدمت میں پیش کردی تاکہ وہ دین کی نشرو اشاعت میں صرف کریں ۔
حناب سارہ نے بچپن سے ہی یہ مشاہدہ کیاتھا کہ ان کے خالہ زاد بھائی ابراہیم ، اگر چہ جہالت و گمراہی سے پر اور بت پرست معاشرے میں پیدا ہوئے تھے اوران کے ولی و سرپرست آزر خود ایک بت پرست تھے لیکن انہوں نے سن شعور ہی سے باطل خداؤں سے منھ موڑ رکھا تھا اور قوی ومستحکم دلیلوں کے ذریعے سورج ، چاند ستاروں اور ہرطرح کے خداؤں کی خدائی کو باطل قرار دیدیا تھا اور اپنے چچا آزر سے بحث و مناظرہ کرکے انہیں بت پرستی سے منع کیا تھا اس شرک و کفر کے ماحول میں جس چیز نے جناب سارہ کو اپنی طرف جذب کیا وہ انسانی اور توحیدی فضائل و کمالات تھے لہذا آپ نے ہزاروں پریشانی و مشکلات کے باوجود اپنے بھائی لوط کے ہمراہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق اور ان کی پیروی کی ۔
جناب سارہ بے شمار معنوی اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حامل خاتون تھیں اور قضائے الہی پر صبر و تحمل کے ساتھ راضي رہنا ان کی اہم خصوصیت تھی اور خدا پر اعتماد وبھروسہ ، عبادت و ریاضت میں خلوص اس خداپرست خاتون کی دوسری صفتیں تھیں اگر چہ آپ شادی سے پہلے ایک بہت ہی مالدار خاتون تھیں لیکن حضرت ابراہیم سے شادی کے بعد بے پناہ مصائب و آلام برداشت کئے اور اس راہ میں نہایت صبر وتحمل اور خدا پر مکمل اعتماد کے ساتھ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کو سر کیا اور اخلاص کے ساتھ عبادت و بندگی میں منزل کمال پر فائز ہوئیں جناب سارہ کے اخلاقی صفات خصوصا مصائب وآلام میں صبر و تحمل ، اپنی تمام دولت و ثروت کو اپنے شوہر کی خدمت میں پیش کرنا پیغمبر اسلام (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کہ جو تمام مصیبت و آلام میں پیغمبر اسلام کے ہمراہ رہیں، کے ایثار و قربانی اور ان کے جذبہ خلوص کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔
بے شک خدا پر ایمان ، انسان کے قلب کو قوت وطاقت فراہم کرتا ہے تاکہ انسان مشکلات و پریشانی کے عالم میں حلیم و بردبار رہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نار نمرودی میں ڈالاگیا تو اس وقت جناب سارہ موجود تھیں اور آپ کی سلامتی کے لئے بارگاہ پروردگار میں دعائیں کی تھی اور آگ خدا کے حکم سے گلزار ہوگئ اور دشمنوں کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں اور اس واقعے کے بعد بت پرستوں نے حضرت ابراہیم ، سارہ اور لوط کو شہر سے باہر نکال دیا اور وہ لوگ شام کی جانب چلے گئے جناب سارہ نے دربدری اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کیا تا کہ ابراہیم کے ذریعے دین کا پیغام زیادہ عام ہوسکے اور مدتوں شام میں رہے اور اس دوران حضرت ابراہیم لوگوں کو خدا کے دین کی دعوت دیتے رہے۔
ایمان و اخلاق کی پیکر حضرت سارہ عفت و پاکدامنی میں بے نظیر تھیں آپ نہایت جمیل تھیں عام طور پر صاحبان حسن وجمال اپنے فانی حسن پر بہت زیادہ اتراتے ہیں لیکن جناب سارہ ایمان و تقوی کی دولت سے مالا مال ہونے کی بناء پر ہمیشہ پورے حجاب میں رہتی تھیں اور غیر افراد کے ساتھ کبھی بھی نشست و برخواست نہیں کرتی تھیں
جناب سارہ ایثار وقربانی کی پیکر اور عفو و درگذر کرنے والی خاتون تھیں شادی کے چند سال بعد جب انہیں یہ احساس ہوا کہ وہ ماں نہیں بن سکتیں اور حضرت ابراہیم کے یہاں ایک بچے کا وجود ضروری ہے تاکہ نسل رسالت کا سلسلہ جاری رہے توآپ نے اپنی کنیز خاص ہاجرہ کہ جو ایک متقی و پرہیزگار خاتون تھیں انہیں حضرت ابراہیم سے شادی کرنے کے لئے آمادہ کیا اور اس طرح پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل جیسا بیٹا عطافرمایا ۔
جناب سارہ بہترین شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ہر منزل پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاور و مددگار تھیں یہی وجہ ہے کہ خداوندعالم نے ان کے ایثار اور جذبہ قربانی ، صبر و اطمینان اور اعتماد کے نتیجے میں ایسی عمر میں کہ جس میں عورتوں میں بچہ جننے کی صلاحیت نہیں ہوتی جناب سارہ کو اسحاق جیسا فرزند عطا کیا اور یہ ایک معجزہ الہی تھا ورنہ علمی اعتبار سے بھی اسے کوئی قبول نہیں کرسکتا کہ ایک عورت نوے سال کی عمر میں ماں بن سکتی ہے ۔
حضرت ابراہیم اور جناب سارہ بہت زیادہ مہمان نواز تھے جناب سارہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی تھی کہ تمام نیک امور بالخصوص مہمان نوازی میں حضرت ابراہیم کے شانہ بشانہ رہیں۔ ایک دن حضرت ابراہیم اور سارہ کے یہاں مہمان آئے لیکن یہ عام مہمان نہیں بلکہ فرشتے تھے جو انسانی شکل میں حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم کے مہمان ہوئے تھے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فورا ہی مہمانوں کی خاطر و تواضع کے لئے اسباب فراہم کئے اور بہترین بھنا ہوا بچھڑے کا گوشت لائے سارہ نے بھی کھانا تیار کرنے میں اپنے شوہر نامدار کا ہاتھ بٹایا اور خوشی خوشی مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا لیکن مہمانوں کا ابراہیم کے گھر آنے کا مقصد ، انہیں بشارت و خوشخبری سنانا تھا ۔
وہ لوگ بڑھاپے کے عالم میں خداوند عالم کے فضل وکرم سے صاحب اولاد ہوئے ایسا فرزند جس کا سارہ مدتوں سے انتظار کررہی تھیں اور اس طرح فرشتوں نے جناب سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی خوشخبری سنائی سارہ نے جیسے ہی ماں بننے کی خبر سنی تو کہا : " اب میرے یہاں بچہ پیدا ہوگا جب کہ میں بوڑھی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہو چکے ہیں یہ تو بالکل عجیب سی بات ہے ۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا تمہیں حکم الہی میں تعجب ہورہا ہے اللہ کی رحمت اور برکت تمہارے گھر والوں پر ہے وہ قابل حمد اور صاحب مجد و کرامت ہے ۔
اور پھر پروردگار عالم نے حضرت سارہ کو ایک عظیم فرزند اسحاق کی شکل میں عطا فرمایا حضرت اسحاق جناب یعقوب علیہ السلام کے والد ماجد ہیں اور حضرت یعقوب علیہ السلام انبیاء بنی اسرائیل ، حضرت موسی ، داؤد ، سلیمان ، زکریا ، عیسی، یحیی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کے جد امجد ہیں ۔
دین اسلام نے جنسیت کو لوگوں کی عظمت و برتری شمار نہیں کیا ہے بلکہ عورتوں اور مردوں کے لئے خدا سے قربت کا بہترین ذریعہ تقوی اور پرہیزگاری کو قرار دیا ہے ۔ دین اسلام کی نظر میں مومن انسان اپنے نیک اعمال اور فضائل و کمالات کے ذریعے خدا سے قربت حاصل کرتاہے اسی لئے پروردگار عالم نے انسان کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورت ، روئے زمین پر اپنا جانشین وخلیفہ بنانے کا مستحق و سزاوار قراردیا ہے ۔
جناب سارہ نے بھی بے انتہا کوشش و محنت کرکے آرام و سائش سے دوری اور مادیت سے کنارہ کشی اختیار کی تھی اور خدا کی عبادت وبندگی میں اس درجہ کمال پر پہنچ چکی تھیں کہ پروردگارعالم نے ان کے عزت واحترام اور تعظیم کے لئے فرشتوں کو بھیجا اور ان سے خطاب کیا بالآخر عظمت و رفعت کی پیکراور توحید پروردگار کی حامی جناب سارہ اپنی بابرکت ودرخشاں زندگی اور حضرت ابراہیم کی رسالت وولایت کی حفاظت کرتے ہوئے ایک سو بیس سال کی عمر میں راہی ملک ارم ہوگئیں۔
سلام ہو اس حامی خدا اور خلیل خدا پر ۔
میانمار ، بدہوں نے 48 مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دی
میانمار میں فرقہ ورانہ فسادات میں متعدد مسلمانوں کے گھرجلا دئیے گئے۔ میانمار میں ایک مرتبہ پھرفرقہ ورانہ تشدد میں تیزی آرہی ہے۔ جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک گاوٴں میں بدھ مذہب کے ماننے والوں نے 48 گھروں کو آگ لگا دی جس سے 300 سے زائد مسلمان بے گھر ہوگئے۔
حکام کا کہنا تھا کہ12 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ گذشتہ سال فسادات میں ڈھائی سو لوگ جاں بحق 1 لاکھ 40 ہزار بے گھر ہوگئے تھے۔
میانمار کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مسلم حکمرانوں کی لاتعلقی کی بناپر اس وقت سخت کسمپرسی کے عالم میں جائے پناہ کی تلاش میں ہے۔
قائد اعظم کی تقاریر،ہندوستان میں حکومت کو اہم ہدایات
ہندوستان میں پاکستان کے بانی اور اس ملک کے قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کے بارے میں اہم ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
بعض ذرائع کے مطابق ہندوستان کے چیف انفارمیشن کمشنر نے حکومت کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ آزادی سے پہلی کی گئی بانی پاکستان محمدعلی جناح کی تمام تقاریر عام کرے۔ہندوستان کے رائٹ ٹو انفارمیشن محکمے کے چیف کمشنر نے یہ فیصلہ، ایک درخواست کی سماعت کے بعد سنایا۔چیف انفارمیشن کمشنر نے اپنے حکم میں کہا کہ کسی بھی سرکاری افسر کے لیے یہ کہہ دینا آسان ہے کہ پاکستان یا پاکستان چلے جانے والے رہنماوٴں سے متعلق کسی بھی معلومات کو خفیہ رکھے جانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہن تقاریر کے ایسے تمام ریکارڈز، عوام کو مفت فراہم کرے۔ ہندوستان میں پاکستان کے بانی اور اس ملک کے قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کے بارے میں یہ ہدایات اہم قرار دی جارہی ہیں۔
صاعقہ ، مغرب کی پابندیوں پر ایک طمانچہ
ہندوستان کے ایک معروف دانشور نے ایرانی ماہرین کے توسط سےصاعقہ جنگي طیارہ بنائے جانے پرمبارکباد پیش کرتے ہوئے ایران کی جدید ٹکنالوجی کو ، اس ملک کے خلاف مغرب کی غیر منصفانہ پابندیوں پر ایک کاری ضرب سے تعبیر کیا ہے ۔
نئی دہلی میں اندراگاندھی اوپن یونیورسٹی کے سابق چانسلر نے ارنا کے ساتھ گفتگو میں مغرب کی غیر منصفانہ پابندیوں کے باوجود اس کامیابی کے حصول کو ایران کی پیشرفت میں ایک اہم قدم بتایا ۔ انڈین مسلم یونین کے سربراہ نے کہا کہ مختلف شعبوں میں خودکفیل ہونے کی ایرانی دانشوروں اور ماہرین کی کوششیں ان ملکوں کے لئے نمونۂ عمل قرار پانی چاہیئے جو مغرب کی امداد سے وابستہ ہیں ۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ایران نے دشوار حالات میں بین الاقوامی پابندیوں کو ناکام بنادیا ہے اور ایرانی دانشوروں نے خود کو عالمی سطح پر پہنچا دیا ہے کہا کہ ایران کی علمی وسائنسی پیشرفت کا شمار دنیا کی تیزترین پیشرفت میں ہوتا ہے ۔
امریکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے
جماعت اہلسنّت پاکستان کے مرکزی ناظم اعلیٰ مولانا سیّد ریاض حسین شاہ نے کہا ہے کہ عالمی سازش کے تحت شیعہ سنی کو لڑایا جا رہا ہے، تمام مکاتبِ فکر کے سنجیدہ علماء فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اسلام نفرت اور قتل و غارت نہیں امن و سلامتی اور محبت کا درس دیتا ہے، حکومت بھارتی اشتعال انگیزیوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کرے، عالمی برادری شام پر امریکی حملے کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، فرقہ وارانہ قتل و غارت کے بڑھتے واقعات تشویشناک ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مختلف وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہاکہ امریکہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے۔ سیّد ریاض حسین شاہ نے مزید کہا کہ ملک نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے، پاکستان میں غیرملکی مذہبی مداخلت کا خاتمہ کر کے فرقہ وارانہ قتل و غارت کو روکا جا سکتا ہے، مصر اور شام جل رہے ہیں اور مسلم حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،فرقہ وارانہ جنگ کو روکنا مذہبی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکا نہ گیا تو گلی گلی میں لڑائی ہو گی۔
قربانی کا فلسفہ اور اس کی تاثیر
تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے.
حج اسلام کا ایک رکن ہے اسی وجہ سے عبادت اور معاشرہ میں اس کا کردار اوراس کی کارکردگی بہت زیادہ ہے ، اجتماعی اوردنیوی مسائل میں حج کا کردار اس قدر پر اہمیت اور تاثیر گذار ہے ، جس قدر خود سازی معنوی میں عبادت کا کردار بہت زیادہ موثر ہے ۔ مناسک حج کے بہت سے اعمال ہیں جن میں سے ایک قربانی ہے ، جیسا کہ قربانی کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ،خداوند عالم سے نزدیک اور تقرب حاصل کرنے کیلئے کی جاتی ہے ۔ اس مقالہ میں قربانی کے سلسلہ میں قرآن کریم کی تعلیمات کو بیان کیا گیا ہے تاکہ قربانی کے فلسفہ اور تاثیر کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا جاسکے ۔
عربی زبان میں قربانی کو ”اضیحہ“ کہتے ہیں (المعجم الفارسی الکبیر ، ج ۳، ص ۲۰۸۵، لفظ قربانی کے ذیل میں) لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس میں قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو عیدالاضحی (بقرعید کے روز) بارہویں یاتیرہویں ذی الحجہ تک مستحب یا واجب ہونے کے اعتبار سے ذبح یانحر کرتے ہیں (الحدائق الناضرة، ج ۱۷، ص ۱۹۹ ۔ جواہر الکلام ، ج ۱۹ ، ص ۲۱۹) ۔
اگر چہ بعض علماء نے قربانی کے معنی میں مستحب ہونے کی قید کو بھی ذکر کیا ہے ، تاکہ واجب قربانی کو شامل نہ ہوسکے(الموسوعة الفقہیة المیسرة ، ج ۳، ص ۴۲۰) ۔
قرآنی استعمال میں جب قربانی کی بات آتی ہے تواس کے معنی اس معنی سے بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں جو معنی ہم نے ذکر کئے ہیں ۔اور اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے ،اسی طرح حج کے زمانہ ، منی اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کیلئے جوجانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں ۔
قرآن کریم میں ان تمام معانی کو بدن، بھیمةالانعام، قلائد، منسک ، ھدی اور نحر وغیرہ جیسے الفاظ میں بیان ہوئے ہیں ۔
قربانی کی تاریخ
خداوند عالم نے آدم کے بیٹوں کے واقعہ میں قربانی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس واقعہ میں ہمیں بہت سے عبرت آموز ، فائدہ من سبق حاصل ہوتے ہیں ”اور پیغمبر علیہ السّلام آپ ان کو آدم علیہ السّلام کے دونوں فرزندوں کا سچا ّقصّہ پڑھ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے “ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۲۷) ۔ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اس واقعہ کو صحیح طور پر نقل کریں ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم کے بیٹوں نے خداوند عالم سے نزدیک ہونے کے لئے اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کی ۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حادثہ خارج میں واقع ہوا ہے اورحضرت آدم کے بیٹوں کی قربانی کوئی افسانہ نہیں ہے ۔
حضرت آدم کے بیٹوں کے قربانی کرنے کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے ، اس وجہ سے خداوند عالم نے اس آیت اور دوسری آیات میں اس کو بیان کیا ہے ، اس واقعہ میں بیان ہوا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد ان دونوں قربانیوں میں سے ایک قربانی قبول ہوئی اور دوسری قبول نہیں ہوئی ۔ اگر چہ ان دونوں کا نام بیان نہیں ہوا ہے لیکن تاریخی واقعات میں اس معنی کی بہت تاکید ہوئی ہے کہ جس کی قربانی قبول ہوئی وہ ہابیل تھے اور جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی وہ قابیل تھے (مجمع البیان ، طبرسی ، ج ۳ و ۴ ، ص ۲۸۳۔ روح المعانی ، ج ۴، جزء ۶ ، ص ۱۶۳) ۔
خداوند عالم نے قابیل کی قربانی کے قبول نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ قابیل بے تقوی تھے ، جیسا کہ ہابیل کی قربانی کے قبول کی وجہ ان کا تقوی تھا ۔
قربانی کے قبول ہونے اور مردود ہونے کے بعد عالم بشریت میں سب سے پہلی جنگ واقع ہوئی اور قابیل نے اپنے بھائی کو دھمکی دی کہ میں تمہیں قتل کردوں گا ، آخر کار اسی بے تقوائی اور نفسانی وسوسوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا ”پھر اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور وہ خسارہ والوں میں شامل ہوگیا“ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۳۰) ۔
اگر چہ قربانی کرنا حضرت آدم کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، کیونکہ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے ،مثال کے طور پر یہ آیات جن کو گذشتہ امتوں میں اعمال کے طور پر انجام دیا جاتا تھا ، قرآن کریم نے سورہ حج کی ۳۴ ویں اور ۶۷ ویں آیت میں ذکر کیا ہے”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت ۳۴) اور ” ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کررہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ بالکل سیدھی ہدایت کے راستہ پر ہیں “ (سورہ حج، آیت ۶۷) : جیسا کہ مفسرین نے کہا ہے کہ ان آیات میں”منسک“ سے مراد قربانی ہے (مجمع البیان ، ج ۷ و ۸ ، ص ۱۵۰ ۔ معالم التنزیل ، بغوی، ج ۳ ، ص ۳۵۰) ۔ ۳۴ ویں آیت بھی اسی معنی کو بیان کرتی ہے کہ جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رایج تھی اور حج میں قربانی کے شرایط میں شمار ہوتی تھی ۔
قرآن کریم کے بقول بعض قومیں اپنے بچوں کوذبح اور قربان کیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم (ع) اس عمل کو منسوخ کرنے کیلئے اپنے بیٹے اسماعیل (ع) کو ذبح کرنے کیلئے بڑھے اور پھر اسماعیل کے بجائے دنبہ کو ذبح کردیتے ہیں” پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ، پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا ، اور ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم (علیہ السّلام )، تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل والوں کو جزا دیتے ہیں ، بیشک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے ، اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے “ ۔ (سورہ صافات ، آیت ۱۰۲ تا ۱۰۷۔ تفسیر کبیر ، فخر رازی ، ج ۱۳ ، ص ۱۳۸) ۔ اگر چہ حضرت ابراہیم نے کامل طور سے اس عمل کو تبدیل کرنے کیلئے پہلے خداوند عالم سے حکم حاصل کیا تاکہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کریں (سورہ صافات ، آیت ۱۰۱ و ۱۰۲) اورحضرت اسماعیل بھی قربانی کے حکم میں تسلیم ہوگئے اور اپنی رضایت کا اعلان کیا (گذشتہ حوالہ) اور یہاں تک کہ حضرت اسماعیل نے قربان ہونے کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دیا (سورہ صافات ، آیت ۱۰۲ تا ۱۰۵ ) لہذا حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے ایمان وخلوص کے درجات کے آشکار ہونے کے بعد خداوند عالم نے حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ بھیج دیا (گذشتہ حوالہ) ۔
قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے بعد جاہلیت کے زمانہ میں بھی قربانی رائج تھی اور یہ لوگ اپنی قربانیوں کو بتوں کے سامنے پیش کیا کرتے تھے (سورہ حج ، آیت ۴۰ ۔ المیزان ، ج ۱۴ ، ص ۳۷۲) ۔ جب کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حج کے اعمال میں جو قربانی قائم کی تھی وہ خداوند عالم کے لئے تھی”اور اس وقت کو یاد دلائیں جب ہم نے ابراہیم علیه السّلام کے لئے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے ,قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنادو ، اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں گے ، تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کئے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ “ ۔ (سورہ حج ، آیت ۲۶ تا ۲۸) ۔
جاہلیت اور صدر اسلام میں قربانی کے جانور کے گلے میں ایک نشانی ڈالتے تھے جو اس زمانہ کی رسم تھی ”ایمان والو !خبردار خدا کی نشانیوں کی حرمت کو ضائع نہ کرنا اور نہ محترم مہینے. قربانی کے جانور اور جن جانوروں کے گلے میں پٹےّ باندھ دیئے گئے ہیں اور جو لوگ خانہ خدا کا ارادہ کرنے والے ہیں اور فرض پروردگار اور رضائے الٰہی کے طلبگار ہیں ان کی حرمت کی خلاف ورزی کرنا “ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۲ و ۸۷) ۔ اس طرح اپنی قربانی پر علامت لگاتے تھے تاکہ دوسروں کو معلوم ہوجائے ۔ ان کی اجتماعی زندگی میں اس عمل کا کردار اس حدتک زیادہ تھا کہ جس جانور کے گلے میں قربانی کی علامت ہوتی تھی اس کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اس جانور کی بے احترامی کریں (سورہ مائدہ ، آیت ۲) ۔
اور یہ سخت گیری اس حدتک تھی کہ جس جانور کے گلے میں قربانی کی نشانی ڈالدیتے تھے اس جانور سے اپنے فائدوں کے لئے استفادہ نہیں کرتے تھے”تمہارے لئے ان قربانی کے جانوروں میں ایک مقررہ مدّت تک فائدے ہی فائدے ہیں اس کے بعد ان کی جگہ خانہ کعبہ کے پاس ہے ، اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “۔ (سورہ حج ، آیت ۳۲ و ۳۳ ) اگر چہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ ممنوعیت ختم ہوگئی اور خداوند عالم نے قربانی کے لئے معین شدہ جانوروں سے ذبح کے وقت تک استفادہ کرنے کی اجازت دیدی (سورہ حج ، آیت ۲۷ تا ۳۲) ۔ اس بناء پر حاجیوں کو قربانی کے لئے معین شدہ جانوروں سے سامان اٹھانے، ان پر سوار ہونے اور ان کا دودھ استعمال کرنے کی اجازت مل گئی (گذشتہ حوالہ) ۔ البتہ ان سے فائدہ اٹھانے کے معنی یہ نہیں تھے کہ ان کی بے احترامی کی جائے بلکہ معین شدہ جانوروں کا احترام قربانی کے وقت تک کرنا ضروری تھا (سورہ حج، آیت ۳۲ تا ۳۶ ۔ سورہ مائدہ ، آیت ۲)جاہلیت کے زمانہ میں کچھ دوسرے باطل عقاید و افکار بھی تھے جیسے قربانی کا گوشت حج کرنے والے کے لئے حرام تھا جس کو خداوند عالم نے صرف جائز ہی قرار نہیں دیا بلکہ اس کو مستحب قرار دیا ہے کہ قربانی کے گوشت کے ایک حصہ کو اپنے سے مخصوص کرلیں اور کھائیں ۔
خداوند عالم نے کچھ آیتوں میں انصاب (سورہ مائدہ، آیت ۳ و ۹۰) ، اور بتوں (سورہ انعام، آیت ۱۳۷) کیلئے قربانی کو ذبح کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو نادرست اور ناجائز رفتار کے عنوان سے بیان کیا ہے ۔ یہ لوگ اس باطل اور ناجائز سنت کو انجام دینے کیلئے اس حدتک آگے بڑھ جاتے تھے کہ اپنے بچوں کو بتوں کے لئے قربان کردیتے تھے اور اس عمل کو بتوں سے قریب ہونا بتا تے تھے (المیزان، ج ۷ ، ص ۳۶۱) ۔
بنی اسرائیل کی قربانی کے اعمال میں یہ معنی بیان ہوئے ہیں کہ وہ خداوند عالم کی طرف سے قبول شدہ قربانی کی علامت ، قربانی میں آگ لگنا سمجھتے تھے ،اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کی قربانی میں ایسا واقع ہوتا تھا (سورہ آل عمران، آیت ۱۸۳) ۔ شاید اسی وجہ سے خیال کیا جاتا ہے کہ جس وقت ہابیل کی قربانی قبول ہوئی تو اس میں آگ لگ گئی تھی ،جیسا کہ بعض روایات میں اس معنی کی طرف اشارہ اور تاکید کی گئی ہے ۔
شاید آسمانی آگ سے قربانی کے جلنا بنی اسرائیل کے بعض انبیاء کے معجزہ ر ہا ہو (کشاف ، زمخشری، ج۱ ، ص ۴۴۸) ۔ اور مدعی رسالت کی قربانی کا آسمان کی آگ میں جلنا یہودیوں کی نظر میں ان کی حقیقت گوئی اور سچائی کی دلیل ہو ، اس بناء پر امت یہود میں ہر قربانی کے جلنے کو قبول نہیں کیا جاسکتا ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ جو آسمانی بجلی سے قربانی کے جلنے کو انبیاء کا معجزہ سمجھتے تھے وہی لوگ انبیاء کو قتل کردیتے تھے ، کیونکہ یہ لوگ زیادہ تر شیطانی وسوسوں اور نفسانی ہواوہوس کے شکار تھے اور انبیاء کے معجزات کو قبول نہیں کرتے تھے ، اسی وجہ سے جب انہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے آسمانی آگ کے ذریعہ قربانی کے جلنے کی درخواست کی تو خداوند عالم نے اس نکتہ پر تاکید کی کہ اگر تم ان کو یہ معجزہ دکھا بھی دو گے تو یہ ایمان نہیں لائیں گے (سورہ آل عمران،آیت ۱۸۳) ۔
شریعت میں قربانی کے جائز ہونے کا فلسفہ
جیسا کہ گذر گیا ہے کہ تمام امتوں کے لئے خداوند عالم کی طرف سے قربانی جائز کی گئی تھی”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “ (سورہ حج، آیت ۳۴ و ۶۷) ۔ اور تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خداوند عالم وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت،ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے جس کو سورہ حج کی ۳۴ ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے : ”اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں پھر تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو “ ۔
اسی آیت اور سورہ حج کی ۳۶ ویں آیت ” اور ہم نے قربانیوں کے اونٹ کو بھی اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اس میں تمہارے لئے خیر ہے لہذا اس پر کھڑے ہونے کی حالت ہی میں نام خدا کا ذکر کرو اور اس کے بعد جب اس کے تمام پہلو گر جائیں تو اس میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت کرنے والے اور مانگنے والے سب غریبوں کو کھلاؤ کہ ہم نے انہیں تمہارے لئے لَسّخر کردیا ہے تاکہ تم شکر گزار بندے بن جاؤ “ ،میں بیان کیا ہے کہ قربانی کو وضع کرنے کا ایک ہدف اللہ نام کو ذکر کرنا ہے ،کیونکہ اس طرح کے اعمال اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ آدمی کچھ لمحوں کے لئے خداوند عالم کی یاد میں گم ہوجائے ، جس نے قربانی کے حکم کو صادر کیا ہے ۔
انہی آیات میں اس معنی کی بھی تاکید کی گئی ہے کہ خداوند عالم کی طرف سے صرف ایک قربانی وضع کی گئی ہے اور وہ قربانی صرف خدائے وحدہ لاشریک کیلئے ہے ، جب کہ مشرکین کا دعوی تھا کہ دوسرے اعمال اور جانور بھی وضع ہوئے ہیں ،انہی میں سے ایک قربانی بتوں کیلئے ہے جو خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے انجام دی جاتی ہے ،خداوند عالم نے ان کے اس قول کا جواب سورہ حج کی ۳۴ ویں آیت میں دیا ہے (التحریر و التنویر ، ج ۸ ، جز ۱۷ ، ص ۲۵۹) ۔
ذبح کے احکام
قربانی کے ہدف اور فلسفہ کے واقع ہونے کے لئے خداوند عالم نے ذبح اور قربانی کے احکام بیان کئے ہیں ، ان میں سے کچھ احکام مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ ذبح یا نحرکرتے وقت خداوند عالم کے اسماء حسنی میں سے کوئی ایک نام لیا جائے ”لِیَشْہَدُوا مَنافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فی اٴَیَّامٍ مَعْلُوماتٍ عَلی ما رَزَقَہُمْ مِنْ بَہیمَةِ الْاٴَنْعامِ فَکُلُوا مِنْہا وَ اٴَطْعِمُوا الْبائِسَ الْفَقیرَ“ ۔تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین دنوں میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کئے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ ۔
۲۔ قربانی کرتے وقت ہر طرح کے شرک سے اجتناب کیا جائے ”وَ اٴَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاٴْتُوکَ رِجالاً وَ عَلی کُلِّ ضامِرٍ یَاٴْتینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمیقٍ ، لِیَشْہَدُوا مَنافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فی اٴَیَّامٍ مَعْلُوماتٍ عَلی ما رَزَقَہُمْ مِنْ بَہیمَةِ الْاٴَنْعامِ فَکُلُوا مِنْہا وَ اٴَطْعِمُوا الْبائِسَ الْفَقیرَ ، ثُمَّ لْیَقْضُوا تَفَثَہُمْ وَ لْیُوفُوا نُذُورَہُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوا بِالْبَیْتِ الْعَتیقِ ، ذلِکَ وَ مَنْ یُعَظِّمْ حُرُماتِ اللَّہِ فَہُوَ خَیْرٌ لَہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَ اٴُحِلَّتْ لَکُمُ الْاٴَنْعامُ إِلاَّ ما یُتْلی عَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاٴَوْثانِ وَ اجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ، حُنَفاء َ لِلَّہِ غَیْرَ مُشْرِکینَ بِہِ وَ مَنْ یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَکَاٴَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماء ِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اٴَوْ تَہْوی بِہِ الرِّیحُ فی مَکانٍ سَحیقٍ “ ۔
۳۔ قربانی کرتے وقت خداوندعالم کی تعظیم کیلئے اللہ اکبر کہنا ” لِتُکَبِّرُوا اللَّہَ عَلی ما ہَداکُم“۔
خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو۔
۴۔ شرک کے طریقہ پر جو جانور ذبح کئے گئے ہیں ان کے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔
قرآن کریم کی نظر میں صرف وہ قربانی قابل قبول ہے جو صرف خداوند عالم کے لئے کی گئی ہواور اس شخص نے صرف خداوند عالم سے تقرب حاصل کرنے کیلئے قربانی کی ہو (سورہ مائدہ ، آیت ۲۷ ۔ سورہ حج ، آیت ۳۶ و ۳۷) ۔
قربانی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہے ،ایک حصہ حج کرنے والے کیلئے ، دوسرا حصہ مومنین کے لئے اور تیسرا حصہ فقراء کو دیا جاتا ہے (سورہ حج ، آیت ۳۶) ۔ بہتر ہے کہ یہ قربانی کھانے کی صورت میں لوگوں کو دی جائے اور قربانی کرنے والا بھی اس میں سے کھائے (سورہ حج ، آیت ۳۶) ۔
گائے، بھیڑ و بکری اور اونٹ کی قربانی کی جاسکتی ہے ۔ اس بناء پر گائے اور بھیڑ، بکری کو ذبح کیا جاتا ہے اور اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے ، حج میں بھیڑ کی قربانی کو سب سے آسان اور سب سے کم شمار کیا گیا ہے” حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے تمام کرو اب اگر گرفتار ہوجاؤ توجو قربانی ممکن ہو وہ دے دو اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے. اب جو تم میں سے مریض ہے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہے تو وہ روزہ یاصدقہ یا قربانی دے دے پھر جب اطمینان ہوجائے تو جس نے عمرہ سے حج تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دے دے اور قربانی نہ مل سکے تو تین روزے حج کے دوران اور سات واپس آنے کے بعد رکھے کہ اس طرح دس پورے ہوجائیں. یہ حج تمتع اور قربانی ان لوگوں کے لئے ہے جن کے اہلِ مسجدالحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے اور اللہ سے ڈرتے رہو اوریہ یاد رکھو کہ خدا کا عذاب بہت سخت ہے “ ۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۹۶ ۔ عیون اخبار الرضا، ج ۳، ص ۱۲۰، ھدی یعنی وہی بھیڑ بکری بیان ہوئی ہے) ۔
قربانی اسلام میں ہر عمل کیلئے مستحب ہے جیسے بچوں کا عقیقہ، گھر کی خریداری اور سفر پر جانے کیلئے زیاده تاکید کی گئی ہے اور حج کے زمانہ میں مستحب ہے کہ اگر انسان قرض لے کر بھی قربانی کرسکتا ہو تو قربانی کرے ۔ ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے کلام میں ملتا ہے کہ اگر کسی کے پاس قربانی کرنے کیلئے پیسہ نہ ہو تو وہ قرض لے کر قربانی کرے اوراس سنت کو انجام دے ۔ امام علی (علیہ السلام) نے فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کتنے فوائد ہیں تو وہ قرض لے کر قربانی کرتے ۔ قربانی کا جو پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے اس پہلے قطرہ کی وجہ سے انسان کو بخش دیا جاتا ہے (وسائل الشیعہ، ج ۱۴ ، ص ۲۱۰ ) ۔
کتاب المراقبات میں عید قربان کے روز قربانی کی فضیلت کے بارے میںذکر ہوا ہے : اس دن کے بہترین اعمال میں سے ایک قربانی ہے جس کو انجام دینے میں بندگی کے قوانین اور ادب کی رعایت کرنا چاہئے ․․․ یاد رہے کہ اس دن قربانی نہ کرنا اورخدا کی راہ میں تھوڑا سے مال ایثار نہ کرنا خسارہ اورنقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
قربانی کی برکتیں
گذشتہ مطالب میں قربانی کے بعض آثار اور برکتیں بیان ہوئی ہیں لیکن یاد رہے کہ قربانی کی اور دوسری برکتیں بھی ہیں جس میں سے بعض برکتیں مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ خداوند عالم کی راحمت واسعہ : جس کو سورہ مائدہ کی ۹۶ ویں اور ۹۷ ویں آیت میں بیان کیا ہے”تمہارے لئے دریائی جانور کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے کہ تمہارے لئے اور قافلوں کے لئے فائدہ کا ذریعہ ہے اور تمہارے لئے خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے جب تک حالت احرام میں رہو اور اس خدا سے ڈرتے رہو جس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ، اللہ نے کعبہ کو جو بیت الحرام ہے اور محترم مہینے کو اور قربانی کے عام جانوروں کو اور جن جانوروں کے گلے میں پٹہ ڈال دیا گیا ہے سب کو لوگوں کے قیام و صلاح کا ذریعہ قرار دیا ہے تاکہ تمہیں یہ معلوم رہے کہ اللہ زمین و آسمان کی ہر شے سے باخبر ہے اور وہ کائنات کی ہر شے کا جاننے والا ہے“(سورہ مائدہ، آیت ۹۶ ۔ ۹۷) ۔
۲۔ نیک اور احسان کرنے والوں میں شامل ہونا : ”خدا کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اعلان کرو اور نیک عمل والوں کو بشارت دے دو “ ۔ (سورہ حج ، آیت ۳۷) ۔
۳۔ مغفرت الہی سے استفادہ کرنا : ” اٴُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعامُہُ مَتاعاً لَکُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ وَ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ ما دُمْتُمْ حُرُماً وَ اتَّقُوا اللَّہَ الَّذی إِلَیْہِ تُحْشَرُون“ ۔ (سورہ مائدہ ، آیت ۹۷) ۔
خداوند عالم نے قربانی کو معاشرہ کے اتحاداور اتفاق کے عنوان سے پیش کیا ہے تاکہ امتوں اور قوموں کے درمیان اتحاد و انسجام قائم ہوجائے اور معاشرہ کے افراد مختلف شکلوں میں ایک دوسرے سے متصل ہوجائیں ۔ خصوصا تمام افراد اس قربانی سے استفادہ کریں اور اس کا گوشت تناول فرمائیں اور اس کے ذریعہ امتوں اورقوموں میں مہر ومحبت زیادہ ہوجائے ۔
حج میں قربانی کرنے کا فلسفہ کیا ہے؟
چونکہ اسلامی احکام کا قانون ساز اور شارع، خداوند حکیم ہے، اس لئے اسلام کے تمام قوانین اور احکام { مخلوقات کےحق میں} کافی دقیق اورفائدہ بخش صورت میں وضع کئے گئے ہیں ، اگر چہ ممکن ہے کہ ہم ان کے بارے میں بہت سے اسباب اور حکمتوں سے آگاہ نہ ھوں- اسلام کے قوانین اور احکام میں سے یہ بھی ہے کہ جو افراد حج تمتع اور حج قران بجالاتے ہیں، ان پر واجب ہے کہ عید قربان کے دن سر زمین منی پر قربانی کریں-[1]
عالم اسلام کےعلماء نے آیات و روایات سے استفادہ کرکے حج کی قربانی کے متعدد فلسفے اور حکمتیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض کی طرفہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
۱-قربانی نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی علامت ہے:
حجاج کا عید قربان کے دن قربانی کرنا، حقیقت میں اپنی نفسانی خواہشات کی قربانی اور نفس امارہ کو ذبح کرنے کی علامت ہے- جس طرح حضرت ابراھیم {ع}کے لیے خداوند متعال کی طرف سے حضرت اسماعیل{ع} کو ذبح کرنے کا حکم اس لئے تھا کہ حضرت ابراھیم {ع} اس عمل کی روشنی میں اپنے نفسانی تعلقات کے انتہائی اہم ترین عامل ، یعنی بیٹے کی محبت کے ساتھ مبارزہ کر کے خدا کی اطاعت کریں اورنفسانی خواہشات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں- اس بنا پر جس طرح اس حکم کی اطاعت نے، حضرت ابراھیم{ع} اورحضرت اسماعیل {ع} کے نفس امارہ کے زندان سے رہا ئی پانے میں ایک اہم تربیتی رول ادا کیا اور ان کے مقام و منزلت کو خدا کے پاس عظمت و بلندی بخشی، اسی بنا پر حجاج کے لئے قربانی بھی حقیقت میں ، دنیوی تعلقات اور مادی وابستگی سے آزاد کرانے میں ایک قسم کا جہاد نفس ہے-[2]
۲-خداوند متعال کا تقرب اور تقوی حاصل کرنا-
اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ہے :" خدا تک نہ ان جانوروں کا گوشت جانے والا ہے اور نہ خون – اس کی بارگاہ میں صرف تمھارا تقوی جاتا ہے - - -"[3] بنیادی طور پر خداوند متعال قربانی کے گوشت کا محتاج نہیں ہے، کیونکہ وہ نہ جسم ہے اور نہ محتاج، بلکہ وہ ایک مکمل اور ہر جہت سے بے انتہا وجود ہے-
بہ الفاظ دیگر، قربانی کو واجب کرنے کا خداوند متعال کا مقصد یہ ہے کہ آپ تقوی کے مختلف منازل طے کر کے ایک انسان کامل کی راہ میں گامزن ھو جائیں اور روز بروز خداوند متعال کے قریب تر ھو جائیں، تمام عبادتیں، تربیت کے کلاس ہیں- قربانی انسان کو جاں نثاری ، فدا کاری ، عفو و بخشش اور راہ خدا میں شہادت پیش کرنے کے جذبے کا درس دیتی ہے اور اس کے علاوہ حاجتمندوں اور محتاجوں کی مدد کرنے کا سبق سکھاتی ہے-[4]
اگرہم حج کی قربانی کی صرف مذکورہ حکمتوں کو مد نظر رکھیں، اور قربانی کے گوشت سے کوئی استفادہ بھی نہ کیا جائے، پھر بھی یہ حکمتیں حاصل ھو سکتی ہیں-
۳-حاجتمندوں کی مدد { انھیں کھانا کھلانا}:
قرآن مجید کی آیات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ قربانی کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے گوشت سے صحیح استفادہ کیا جائے، قربانی کرنے والا بھی اس سےفائدہ اٹھانے اور فقیروں و محتاجوں تک بھی پہنچا یا جائے-[5]
اس قابل قدر مقصد کی بنا پر، مسلمانوں کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ قربانی کے گوشت کو منی میں زمین پر چھوڑ دیں اور یہ گوشت سڑ جائے یا اسے زمین میں دفن کیا جائے، بلکہ منی کی مقدس سر زمین پر قربانی کے گوشت کو پہلے درجہ میں اسی سر زمین کے حاجتمندوں تک پہنچانا چاہئیے اور اگر اس دن اس سر زمین پرکوئی حاجتمند اور فقیر نہ ملے تو اسے دوسرے علاقوں میں بھیج کر محتاجوں اور فقیروں تک پہنچانا چاہئیے، حتی کہ اس فلسفہ کی بنا پر اگر یہ گوشت بر وقت حاجتمندوں تک نہ پہنچنے کی وجہ سے سڑ بھی جائے، تو کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ پس قربانی کی ہی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کو کوشش کرنی چاہئیے کہ جدید علمی طریقوں کو بروئے کار لا کراور اس عظیم سرمایہ کو ضائع ھونے سے بچا کر جلد از جلد حاجتمندوں تک پہنچا دیں، بہ الفاظ دیگر یہ نہیں کہنا چاہئیےکہ، چونکہ قربانی کا گوشت حاجتمندوں تک نہیں پہنچ سکتا ہے، اس لئے قربانی نہیں کرنی چاہئیے، بلکہ کہنا یہ چاہئیے کہ قربانی کرنا واجب ہے اور اس کی حکمتوں میں سے صرف ایک حکمت اس کا گوشت حاجتمندوں تک پہنچا نا ہے اس لئے اس کے لئے ضروری وسائل فراہم کرنے چاہئیں -
خوش قسمتی سے حالیہ برسوں کے دوران، مکہ کے ذبح خانوں میں بہت سے اچھے امکانات فراہم کئے گئے ہیں اور گوشت کو منجمد کرکے حاجتمندوں تک پہنچا کر اسراف کی کافی حد تک روک تھام کی جاتی ہے-
اگر چہ اس سلسلہ میں ابھی سو فیصدی کامیابی حاصل نہیں ھوئی ہے، پھر بھی حاصل شدہ کامیا بیوں کے پیش نظر وہ دن دور نہیں ہے جب اس سلسلہ میں سو فیصدی کامیابی حاصل ھوگی-
حوالاجات
[1] مناسك حج (المحشى للإمام الخميني؛ ص: 100مناسك حج (للخامنئي)، ص: 16
[2] ماخوذاز سایت پرسمان قرآن
[3] حج،37:" لَنْ يَنالَ اللَّهَ لُحُومُها وَ لا دِماؤُها وَ لكِنْ يَنالُهُ التَّقْوى مِنْكُمْ"
[4] تفسير نمونه، ج14، ص: 107
[5] تفسير نمونه، ج14، ص: 83
جناب هاجره
گرم ہوا چل رہی تھی اور ہاجرہ کا معصوم فرزند اسماعیل پیاس کی شدت سے تڑپ رہا تھا ادھر ماں اطراف خانہ کعبہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑرہی تھی۔ صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان پانی کی تلاش میں سرگرداں و حیران ہاجرہ جب بھی دور سے بیایان کی طرف دیکھتیں تو انہیں پانی کا چشمہ نظر آتا تھا لیکن جب قریب پہنچتیں تو وہ سراب نکلتا ہاجرہ سات مرتبہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑیں مگر انہیں پانی میسر نہ ہوا لیکن پروردگارعالم نے ان کی سعی و کوشش کو ضائع نہیں کیا بلکہ اس کا اجر انہیں عظیم طریقے سے دیا ۔جب آپ تھک ہار کر اسماعیل کے قریب پہنچیں تاکہ انہیں بہلائیں تو اچانک ان کی نگاہ اس چشمے پر پڑی جو اسماعیل کے پیروں تلے جاری تھا آپ فورا سجدہ شکر بجا لائیں اور حضرت ابراہیم کی دعا کے بارے میں سوچنے لگیں کہ انہوں نے بیایان میں چھوڑ کر جاتے وقت انہیں اور اسماعیل کو خدا کے سپرد کیا تھا اور خداسے دعا کی تھی کہ خدایا لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف موڑ دے اور پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم کی دعا کو قبول کرلیا تھا اور پھر یہی چشمہ آب " زمزم " کے نام سے مشہور ہوگیا ۔
تاریخ انسانیت میں بہت سی ایسی خواتین گذری ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی صلاحیتوں ، تقوی و ایمان ، تہذیب نفس اور خود سازی کے ساتھ کامیاب زندگی بسر کی ہے۔انہیں عظیم و گرانقدر خواتین میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریک حیات اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مادر گرامی جناب ہاجرہ ہیں اگر چہ ابتدائی دور میں وہ قصر میں ایک کنیز کے عنوان سے زندگی بسر کررہی تھیں لیکن عیش و عشرت کی زندگی کی خواہشمند نہ تھیں کیونکہ ان کا دل معنوی اور الہی جلوؤں سے سرشار تھا اسی لئے آپ دنیاکی زرق و برق سے بیزار تھیں وہ دنیا کی فریبی اور فانی چمک دمک کو معنوی درجات کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتی تھیں گویا اس مادی زندگی سے نکلنے کے لئے لمحات شمار کررہی تھیں اور ایک دن ان کی امیدوں میں بہار آگئی اور ان کے نصیب جاگ اٹھے اور انہیں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے گھروالوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم ہوگیا اور پھر انہیں پیغمبر خدا حضرت ابراہیم کی شریک حیات بننے کا موقع بھی نصیب ہوا آپ اپنے شوہر نامدار کی پاکیزہ زندگي کی پیروی کرتے ہوئے ہدایت و کامرانی کی اعلی منزلوں پر فائز ہوئیں۔
جناب ہاجرہ ایک متقی و پرہیزگار ، سیاہ فام کنیز تھیں کہ جنہیں مصر کے ایک حاکم نے حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کو بطور تحفہ دیا تھا ۔ جناب سارہ جو بے اولاد اورحضرت ابراہیم کے وارث نہ ہونے کی بناء پر مضطرب و پریشان تھیں انہوں نے حضرت ابراہیم سے خواہش ظاہر کی کہ آپ اس متقی و پرہیزگار کنیز سے شادی کرلیں اور پھر اس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی بیوی سارہ کی خواہش کا احترام کرکے ہاجرہ سے عقد کرلیا اب ہاجرہ ایک کنیز نہ تھیں بلکہ وہ اللہ کے خلیل ابراہیم کی شریک حیات بن چکی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑھاپے کا سکون و سہارا بن گئیں۔ وقت گذرتا رہا ، ہاجرہ کے یہاں ایک معصوم بچہ پیدا ہوا حضرت ابراہیم نے اس کا نام اسماعیل رکھاایک دن جناب سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہاجرہ اور ان کے فرزند کو کسی دوسری جگہ منتقل کردیں ۔
خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو وحی فرمائی کہ اسماعیل اور ان کی ماں کو شام سے باہر لے جائیں حضرت ابراہیم نے کہا "خدایا میں انہیں کہاں لے جاؤں ؟" ارشاد ہوا اے ابراہیم انہیں امن و امان کی جگہ یعنی میرے حرم اور کرہ ارض کے پہلے مرکز پر لے جاؤ جسے میں نے خلق کیا ہے اور وہ مکہ ہے حضرت ابراہیم نے پیغام وحی الہی اور اس بے آب و گیاہ صحرا میں حضرت ہاجرہ نے اور اسماعیل کے محل سکونت کے بارے میں ہاجرہ کو خبر دی ہاجرہ جو اس سے پہلے سرسبز وشاداب اور بہترین آب وہوا سے سرشار سرزمین پر رہ چکی تھیں بغیر کسی چوں چرا کے مشیت الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور خدا پر مکمل یقین و اعتماد رکھتے ہوئے شدید مصیبت و آلام کی وادی میں قدم رکھنے پر راضی ہوگئیں جب حضرت ابراہیم نے ہاجرہ میں صبر واعتماد کا مشاہدہ کیا تو ان کے خلوص و اعتماد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے چنانچہ حضرت ابراہیم اپنے اہل وعیال کے ساتھ سرزمین مکہ پر پہنچے تو وہاں ایک درخت موجود تھا جناب ہاجرہ نے اپنی عبا اس درخت پر ڈال دی اور اپنے بچے کو اس کے سائے میں لے کر بیٹھ گئیں جب حضرت ابراہیم نےوہاں سے واپس جانے کا ارادہ کیا تو ہاجرہ نے کہا : اے ابراہیم آپ ہم لوگوں کو ایسی جگہ چھوڑ کر جارہے ہیں جہاں نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ ہی کو ئی مونس و ہمدم بلکہ یہ تو ایک بے آب وگیاہ صحرا ہے ؟ ابراہیم نے کہا " جس خدا نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو یہاں چھوڑ دوں وہی خدا تمہاری مشکلیں آسان کردے گا " ابراہیم نے اتنا کہہ کر دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور اپنی بیوی اور معصوم بچے کو مکہ کے بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑ کر شام واپس چلے گئے ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہ ذی طوی پر پہنچے تو انہوں نے بارگاہ خداوندی میں اس طرح دعا کی " پروردگارا میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ دیا ہے تا کہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف موڑ دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تا کہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں۔" ( ابراہیم :۳۷)
اب اس گرم تپتی ہوئی زمین پر صرف دو انسان موجود ہیں ایک عورت اور دوسرا چھوٹا سا بچہ، ماں اور بیٹے کو پیاس لگی۔ ماں صفا اور مروہ پہاڑوں کے درمیان پانی کی تلاش میں بھاگ دوڑ کر رہی ہیں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃ مِنْ شَعَائِرِ اللہ "بے شک صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔" (بقرہ :۱۵۸)
ہاجرہ اور اسماعیل سرزمین وحی پر رہنے لگے ہاجرہ معنویت و پاکیزگی میں اس درجے پر فائز تھیں کہ ایسے حالات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ذرہ برابر بھی خوفزدہ نہیں ہوئیں کیونکہ آپ جانتی تھیں کہ پروردگار عالم کا وعدہ بر حق ہے اور فرشتہ وحی نے جس چیز کی خبر دی ہے کہ نسل ابراہیمی میں اضافہ ہوگا تو وہ یقینا پورا ہوگا کسی طرح رات گذری اور صبح ہوگئی اسماعیل کو شدید پیاس لگی اور ہاجرہ پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑنے لگیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا ادھر پروردگار عالم نے اسماعیل کے قدموں تلے چشمہ جاری کردیا جو ہزاروں برس گذرنے کے باوجود آج بھی اسی طرح جاری اور رحمت الہی کی عظیم نشانی ہے اور پھر رفتہ رفتہ پرندے ، جانور اور مختلف قبیلوں کے لوگ اس کے اطراف میں رہنے لگے اور ہاجرہ اور اسماعیل سے مانوس ہو گئے جب حضرت ابراہیم ان سے ملنے کے لئے تشریف لائے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ وہاں آباد ہوگئے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
روایات کے مطابق جب حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو حضرت ابراہیم نے اللہ کے حکم اور ان کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ابراہیم ، کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے اور اسماعیل کوہ ذی طوی سے پتھر لاتے تھے اور جب ابراہیم و اسماعیل کعبہ کی تعمیر کرچکے تو جناب ہاجرہ نے اپنی عبا کعبہ کی دیوار پر آویزاں کردی "
جناب ہاجرہ فضائل و کمالات کے اعلی مقام پر فائز تھیں وہ حلیم و بردبار ، متقی و پرہیزگار، مادیات سے مبرہ اور صرف خالق کائنات سے لو لگائے تھیں اسی وجہ سے آپ نے وطن اور شوہر سے دوری اور ہر طرح کی سختی و آلام کو برداشت کیا اور اپنے معصوم بیٹے اسماعیل کے ساتھ برسہا برس زندگی بسر کی ۔ہاجرہ نے پرودگار عالم کے خاص بندے اور اس کے پیغمبر کی اپنے آغوش عطوفت میں پرورش کی اس دوران حضرت ابراہیم کبھی کبھی انہیں دیکھنے آیا کرتے تھے اس کے علاوہ ان کا کوئی مونس و ہمدم بھی نہ تھا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب ہاجرہ کی لیاقت و صلاحیت دیکھتے ہوئے جناب اسماعیل کی تربیت کی ذمہ داری کہ جو مشیت الہی تھی کہ انہی کی ذریت طاہرہ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا ہوں گے انہیں سپرد کردی جناب ہاجرہ نے اپنے فرزند کی تربیت و پرورش بڑے ہی اچھے طریقے سے کی ۔ حضرت اسماعیل ابھی جوانی کی تیرہویں بہار ہی میں تھے لیکن معرفت الہی میں اس قدر غرق تھے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کے بارے میں حکم پروردگار سنایا تو اسماعیل نے حکم الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا ۔خداوند عالم سورہ صافات کی آیت نمبر ایک سو دو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اسماعیل نے اپنے بابا کو مخاطب کرکے کہا: بابا آپ کو جو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے"
اگر اسماعیل نے امر الہی کو ہر چیز پر مقدم کیا تو یہ ان کی ماں جناب ہاجرہ کی صحیح تربیت کی بہترین دلیل ہے ۔
جناب ہاجرہ راہ خدا کی وہ عظیم مسافر ہیں جنہوں نے مصر سے فلسطین اور وہاں سے حجاز کی طرف ہجرت کی اور اس دوران بہت زیادہ اور ناقابل تحمل سختی و پریشانی سے دوچار ہوئیں یہاں تک کہ خدا پر ایمان و عقیدہ راسخ کے ساتھ اپنے بیٹے اسماعیل کے لئے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان ان کی سعی وکوشش ، شعائر الہی کا جزء اور واجبات حج کے اعمال کا ایک اہم حصہ قرارپائی اور وہ چشمہ جو ان کے فرزند اسماعیل کے پیروں کے نیچے جاری ہوا تھا وہ لوگوں کے قلوب کے لئے شفا اور نجات دہندہ قرار پایا ۔
خلاصہ یہ کہ پروردگار کی کنیز خاص ہاجرہ اس دار فانی سے ملک جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور انہیں جوار خانہ خدا میں دفن کردیا گیا جب کہ یہ امر بھی مشیت الہی سے انجام دیا گیا تھا تاکہ قیامت تک تمام خداپرست افراد اور طواف خانہ خدا کرنے والے اس عظیم کنیز کے ایثار و جذبے اور خدا پر توکل واطمینان کو ہمیشہ یاد رکھیں اور جان لیں کہ خدا کے نزدیک بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زيادہ متقی و پرہیزگار ہو چنانچہ پروردگارعالم سورہ حجرات کی تیرہویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے :" تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔"
رہبر معظم سے عمان کےبادشاہ سلطان قابوس اور اس کے ہمراہ وفد کی ملاقات
- ۲۰۱۳/۰۸/۲۶
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے عمان کے بادشاہ سلطان قابوس اور اس کے ہمراہ وفد سے ملاقات میں ایران اور عمان کے دوستانہ اور گہرے روابط اور ایرانی قوم کے ذہن میں عمان کی حکومت کےبارے میں اچھے ماضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں بالخصوص گیس کے شعبہ میں باہمی روابط کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے مواقع فراہم ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عمان کو اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے اچھا اور بہترین ہمسایہ ملک قراردیا اور علاقائی مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علاقہ میں اس وقت سنگین اور حساس شرائط موجود ہیں جن کی بنا پر دونوں ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہمآہنگی کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقہ کے شرائط کو بحرانی قراردیتے ہوئے فرمایا: علاقہ کی موجودہ صورتحال کی اصل وجہ غیر علاقائی طاقتوں کی گوناگوں مداخلت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے علاقائی ممالک کے سیاسی اختلافات میں مذہبی ، قومی اور دینی مسائل کی مداخلت کو علاقہ کے خطرناک مسائل میں قراردیتے ہوئے فرمایا: افسوس کا مقام ہے کہ علاقہ کے بعض ممالک کی حمایت سے ایک ایسا تکفیری گروہ تشکیل دیا گیا ہے جو تمام مسلمان گروہوں کے ساتھ لڑ رہا ہے لیکن اس گروہ کے حامیوں کو یہ جان لینا چاہیے یہ آگ ان کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لےلےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی مکمل اور ہمہ گيرحمایت یافتہ اسرائيلی حکومت کو بھی علاقہ کے لئے ایک دائمی خطرہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسرائیلی حکومت کے پاس عام تباہی پھیلانے والے خطرناک ہتھیاروں کے انبار موجود ہونے کی وجہ سے علاقہ کے لئے اس کا حقیقی اورسنجیدہ خطرہ موجود ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: علاقہ میں عام امن و اماں کی ضرورت ہے اور یہ اہم ہدف اسی وقت محقق ہوگا جب علاقہ سے عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے مکمل خاتمہ اورممنوع ہونے کا اعلان کیا جائے۔
اس ملاقات میں صدر حسن روحانی بھی موجود تھے عمان کے بادشاہ سلطان قابوس نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات پر بہت ہی خوشی و مسرت کا اظہارکیا اور ایران و عمان کے تعلقات کو ثقافتی اور تاریخی رشتوں کے پیش نظر بہت ہی خوب توصیف کرتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے ساتھ مذاکرات میں تجارت ، ٹرانزیٹ اور دیگرمختلف شعبوں بالخصوص گیس کے شعبہ میں تعلقات کو فروغ دینے کی راہوں کا جائزہ لیا گيا ہے۔
عمان کے بادشاہ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی علاقہ کے حساس اور سنگين شرائط اور اسرائیلی حکومت کے حقیقی خطرے کے بارے میں گفتگوکی تائیدکرتے ہوئے کہا: موجودہ شرائط سے باہر نکلنے کے لئے علاقائی ممالک کے درمیان تعاون اور علاقائی عوام کے مفادات کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
افغانستانی صدر، پاکستان کے دورے پر
افغانستان کے صدر حامد کرزئي نے آج اسلام آباد میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد دونوں رہنماوں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ افغاں صدر حامد کرزئي نےاس موقع پر کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تمام اہم امور پر بات چیت ہوئي ہے جس سے آئندہ اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔ افغان صدر نے کہا کہ ہم کسی بھی مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیں گے اور پاکستان سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ مشکل وقت میں ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ کابل اور اسلام آباد دہشتگردی سے نمٹنے کے مسائل پرتوجہ مرکوز کریں۔ انہوں نے کہاکہ اسلام آباد اور کابل کو دہشتگردی کے خلاف مشترکہ کاروائياں کرنا چاہیے۔ اس پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا افغانستان اور پاکستان کی سلامتی ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ افغان صدر حامد کرزئي آج ایک روزہ دورے پر اسلام آباد گئےہیں۔