Super User

Super User

آیۃ اللہ موحدی : دشمنوں کے مقابلے میں ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت

تہران کے خطیب جمعہ آیۃ اللہ موحدی کرمانی نے عالمی استکبار کے خلاف جدو جہد کے قومی دن چار نومبر کو ہونے والی عظیم ریلیوں اور مظاہروں میں عوام کی شرکت اور ان مظاہروں میں امریکہ مردہ آباد کے فلک شگاف نعروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کے نظام کے سخت دشمنوں کے مقابلے میں غافل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ان سے غفلت کے نتیجے میں شدید نقصان اٹھانے پڑسکتے ہیں ۔

تہران کے خطیب جمعہ نے ملت ایران کے خلاف امریکہ کے جارحانہ رویوں اور اسی طرح امریکہ اور تسلط پسند نظام کے خلاف اسلامی جمہوریۂ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رح ) کی جدوجہد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ملت ایران کے خلاف امریکہ اور تسلط پسند نظام کی تمام سازشوں کے مقابلے میں ہوشیار اور ان کے خلاف ٹھوس موقف اختیار کرتے تھے ۔

آيۃ اللہ موحدی کرمانی نے اسی طرح سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کے ایام عزا پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین نے اپنی تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو بہت عظیم درس دیئے اور ان میں سے ایک ، دشمن سے خوف نہ کھانا ہے ۔ تہران کے خطیب جمعہ نے کہا کہ مومنین کو دشمنوں کے مقابلے میں مطمئن ہونا چاہیئے اور یہی اطمینان انہيں کامیابی سے ہمکنار کرےگا ۔

مصر: صحرائے سینا میں سیکیورٹی فورسز پر حملہمصر کے علاقے سینا میں مسلح افراد نے ایک بار پھر سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا ہے۔ تسنیم نیوز کے مطابق جرمن نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ مصر کے سیکیورٹی زرائع نے اعلان کیا ہے کہ نا معلوم مسلھ افراد نے سینا کے علاقے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ایک چوکی پر حملہ کیا ہے۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق العریش کے علاقے میں کوسٹل گارڈز پر ہونے والے اس حملے میں سرحدی پولیس کے اہلکاروں کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچا ہے۔ ادھر جمعرات کے دن السبخہ کے علاقے میں مصر کے سیکیورٹی اہلکاروں اور تکفیری دہشتگردوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں آٹھ تکفیری دہشتگرد مارے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ سینا کے علاقے میں کافی دنوں سے فوج کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔

پاکستان، نیٹو کے کنٹینرز تباہطالبان نےنیٹو کے کنٹینرز پر حملہ کر کے دو کنٹینروں کو تباہ کر دیاہے۔

پریس ٹیوی کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے کل صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے جمرود میں حملہ کرکے نیٹو کے دو کنٹینروں کو تباہ کر دیا۔اس حملے میں کنٹینروں کے ڈرائیور زخمی ہوئے۔

گذشتہ کئی برسوں سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں نیٹو کے کنٹینروں کو طالبان نے اپنے حملوں کا نشانہ بنا کرسینکڑوں کنٹینروں کو تباہ کر دیا۔

مرگ بر امریکہ یعنی مسلمانوں کی نابودی کے منصوبے بنانے والے مردہ باد

رپورٹ کے مطابق 4 نومبر کو "استکبار کے خلاف جدوجہد کا قومی دن" [یا یوم مردہ باد امریکہ] اسلامی جمہوریہ ایران میں نہایت شاندار طریقے سے منایا گیا اور یہ دن اس بار پہلے سے کہیں زيادہ شاندار تھا کیونکہ بعض سیاستدانوں نے اس سے پہلے مرگ بر امریکہ کے نعرے کی مخالفت کی تھی۔ دارالحکومت تہران میں ریلیوں کا آخری ٹھکانہ امریکی جاسوسی گھونسلا یعنی سابق امریکی سفارتخانہ تھا، جہاں پر مختلف سڑکوں سے آنے والی ریلیوں نے ایک عظیم اجتماع کی شکل اختیار کی۔

اس موقع پر امریکی جاسوسی کے گھونسلے کے سامنے، اعلی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ اور اس کونسل میں رہبر انقلاب کے نمائندے اور مجمع تشخیص مصلحت کے رکن اور حالیہ صدارتی انتخابات کے نامزد امیدوار ڈاکٹر سعید جلیلی نے مظاہرین سے خطاب کیا۔ ڈاکٹر جلیلی کے خطاب کے اہم نکتے درج ذیل ہیں:

٭ ہم ایک بڑے واقعے کی یاد منا رہے ہیں جس کو ـ موجودہ دور میں ـ مکتب امام حسین(ع) کو احیاء کرنے والے امام خمینی(رح) نے پہلے انقلاب سے بڑا انقلاب قرار دیا۔

٭ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ امام خمینی(رح) کی منطق کیا تھی اور کیوں انھوں نے اس واقعے کو پہلے انقلاب سے بڑا انقلاب قرار دیا؟ پہلا انقلاب اور انقلاب کی کامیابی وہ کامیابی تھی جس نے اس ملک کی خودمختاری، استقلال اور اقدار کی راہ میں رکاوٹ بننے والے استبدادی نظام کو برطرف کردیا، لیکن امام(رح) کے اہداف اس سے بالاتر تھے۔

رہبر معظم کا 13 آبان کی مناسبت سے طلباء کے ایک عظيم اجتماع سے خطاب

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سامراجی طاقتوں سے مقابلہ کے قومی دن کی آمد کے موقع پر اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلباء کے اجتماع سے خطاب میں مذاکراتی ٹیم کے حکام اور مذاکرات کی محکم اور مضبوط حمایت کی اور ایرانی قوم کے ساتھ سامراجی طاقتوں کی دشمنی اور عداوت کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کے گذشتہ اور ماضی کے اعمال و رفتار سے بخوبی پتہ چلتا ہے ایٹمی معاملہ ایران کے ساتھ دشمنی جاری رکھنے کے لئے صرف ایک بہانہ ہے۔ کسی کو دشمن کی فریبکارانہ مسکراہٹ پر غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، اگر مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں بہت خوب، ورنہ مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اندرونی وسائل پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 13 آبان کے تین تاریخی واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کو 1343 ہجری شمسی میں امریکی فوجیوں اور اہلکاروں کو ایران میں عدالتی استثنی کے معاہدے کے خلاف تقریر کرنے کی وجہ سے ملک بدر کردیا گيا، سن 1357 ہجری شمسی میں امریکہ کی حامی حکومت کے اہلکاروں کے ہاتھوں تہران میں طلباء کا وحشیانہ قتل عام ، اور سن 1358 میں طلباء کے دلیرانہ اقدام کے ذریعہ امریکی سفارتخانہ پر قبضہ ، یہ تینوں واقعات کسی نہ کسی زاویہ سے امریکی حکومت سے متعلق ہیں اور اسی وجہ سے 13 آبان کے دن کو سامراجی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ کے دن سے موسوم کیا گيا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن مجید میں استکبار کے لفظ کی تشریح سے پہلے ایک نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے مؤمن اور شجاع جوانوں نے 1358 ہجری شمسی میں امریکی سفارتخانہ پر قبضہ کرکے اس کی حقیقت اور اصلی تصویر کو برملا کردیا جو حقیقت میں جاسوسی کا مرکز تھا، ایرانی جوانوں نے تیس سال پہلے امریکہ کی جاسوسی کا انکشاف کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس دن ہمارے جوانوں نے امریکی سفارتخانہ کو جاسوسی کے اڈے اور مرکز سے موسوم کیا اور آج تیس سال بعد امریکہ کے اتحادی یورپی ممالک امریکی سفارتخانوں کو جاسوسی کے اڈے اور جاسوسی کےمراکز سے موسوم کر رہے ہیں۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے جوان تیس سال پہلےدنیا کے کلینڈر سے کہیں آگے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس نکتہ کے اظہار کے بعد استکباری لفظ کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: استکبار کا اطلاق ایسے انسانوں اور حکومتوں پر ہوتا ہے جو دوسری قوموں اور دوسرے افراد کے معاملات میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور کسی کے سامنے جوبدہ بھی نہیں ہیں۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: استکبار کے مد مقابل وہ انسان اور قومیں ہیں جو استکباری طاقتوں کی مداخلت اور منہ زوری کو نہ صرف برداشت نہیں کرتیں بلکہ اس کا مقابلہ بھی کرتی ہیں اور ایرانی قوم ایک ایسی ہی قوم ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی حکومت کو استکباری حکومت قراردیا اور اس کی طرف سے دوسروں کے امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم اپنے اسلامی انقلاب کے ذریعہ امریکہ کی منہ زوری اور اس کی تسلط پسندی کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس نے اپنے ملک سے استکبار کی جڑیں بالکل کاٹ دیں ، اور بعض ممالک کی طرح ایرانی قوم نے اس کام کو نامکمل نہیں چھوڑا بلکہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کسی بھی قوم اور ملک کے لئے مستکبر کے ساتھ صلح و مذاکرات کو بے فائدہ قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام قومیں امریکہ کی استکباری خصلت ک وجہ سے اس سے متنفر اور اس کے بارے میں عدم اعتماد کا شکار ہیں اور تجربہ سےیہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جو قوم اور حکومت، امریکہ پر اعتماد کرےگی وہ ضرور چوٹ کھائے گی، حتی اگر امریکہ کے دوست ہی کیوں نہ ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں کچھ تاریخی نمونے پیش کئے جن میں ڈاکٹر مصدق کا امریکیوں پر اعتماد اور امریکیوں کا جواب میں 28 مرداد میں مصدق کے خلاف کودتا،اور اسی طرح ایران سے محمد رضا پہلوی کے فرار کے بعد امریکیوں کی اس کے ساتھ بے وفائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج قوموں میں سب سے زیادہ نفرت، امریکی حکومت کے بارے میں پائی جاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر آج دنیا میں ایک سالم اور منصفانہ سروے کروایا جائے تو پوری دنیا میں عوام کی رائے امریکی حکومت کے بارے میں سب سے زيادہ منفی ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: عالمی استکبار کے ساتھ قومی مقابلہ کا دن ایک اساسی اور بنیادی مسئلہ ہے جو درست تجزيہ اور تحلیل پر استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تمام طلباء کو استکبار کے ساتھ مقابلے کے مسئلہ کے بارے میں صحیح اور دقیق تجزيہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے اوائل کے جوانوں کو امریکہ کے بارے میں تجزيہ اور تحلیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ انھوں نے بے رحم طاغوتی حکومت کی حمایت اور امریکہ کے ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا تھا لیکن آج کے جوان کو درست تحقیق اور تجزيہ کے ساتھ اس مطلب تک پنہچنا چاہیے کہ ایرانی قوم امریکہ کی استکباری خصلت کے کیوں خلاف ہے اور ایرانی قوم کی امریکہ سے بیزاری کی اصلی وجہ اور دلیل کیا ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد امریکہ کے ساتھ جاری مسائل کے بارے میں کچھ اہم اور بنیادی نکات پیش کئے اور گروپ 1+5 کے ساتھ ایرانی مذاکراتی ٹیم اور حکام کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی ٹیم انقلاب کے فرزندوں اور اسلامی جمہوریہ کے حکام پر مشتمل ہے جو اپنی تمام کوششوں کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو انجام دے رہے ہیں اور کسی کو "انھیں کمزور کرنے ، ان کی توہین کرنے یا انھیں سازشی قراردینے کا حق نہیں ہے" ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: گروپ 1+5 میں امریکہ بھی شامل ہے اور اس گروپ کے ساتھ ایران کے مذاکرات صرف ایٹمی معاملے تک محدود ہیں اور ہمیں ان مذاکرات سے کوئي ضرر یا نقصان نہیں ہوگا بلکہ ہمارے تجربہ میں مزید اضافہ ہی ہوگا اور سن 1382 اور 1383 ہجری شمسی کے تجربہ کی طرح عوام کی تجزيہ اور تحلیل کی طاقت میں مزيد استحکام ہوگا جس میں عارضی طور پر یورینیم کی افزودگي کو متوقف کیا گيا تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس قومی تجربے کے مزید نتائج کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ایک عشرہ قبل یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں عقب نشینی کرتے ہوئے ہم نے ایک قسم کی مسلط کردہ تعلیق کو قبول کرلیا لیکن دو سال تک کام معطل، معلق اور متوقف کرنے کے بعد سبھی سمجھ گئے کہ حتی اس قسم کے اقدام کے ذریعہ بھی مغربی ممالک کا تعاون حاصل نہیں کرسکیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو ممکن تھا بعض لوگ یہ دعوی کرتے کہ اگر ایک بار عقب نشینی کرلیتے تو ایٹمی فائل کے بارے میں تمام مشکلات حل ہوجاتیں ، لیکن عارضی تعلیق کے تجربہ سے سبھی نے درک کرلیا کہ فریق مقابل دوسرے اہداف کے پیچھے ہیں لہذا ہم نے کام اور پیشرفت کا دوبارہ آغاز کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کی موجودہ ایٹمی صورتحال کو ایک عشرہ پہلے کی صورتحال سے بالکل متفاوت اور اس میں زمین و آسمان کا فرق قراردیا اور امریکہ کے ساتھ جاری مسائل میں متعلقہ حکام کی مضبوط اور سنجیدہ حمایت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: میں جاری مذاکرات سے مطمئن اور پرامید نہیں ہوں کیونکہ ان مذاکرات سے قوم کو جن نتائج کی توقع اور امید ہے شاید وہ حاصل نہ ہوں لیکن اس بات پر اعتقاد ہے کہ یہ تجربہ کرنے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہےبشرطیکہ قوم بیدار رہے اور جان لے کہ کیا ہونے والا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غلط پروپیگنڈہ کرنے والےبعض مفادپرست اور سادہ لوح عناصر پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: بعض عناصر غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا سہارا لیکر رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر ایٹمی معاملے میں ہم تسلیم ہوجائیں تو تمام اقتصادی اور غیر اقتصادی مشکلات حل ہوجائیں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس تبلیغاتی چال کے باطل ہونے کے ثبوت میں ، ایران کے ایٹمی معاملے سے پہلے ایران کے خلاف امریکہ کے گھناؤنےمنصوبوں اور سازشوں کا حوالہ دیا، اور پوری قوم ،بالخصوص جوانوں اور طلباء سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں غور و فکر اور دقیق مطالعہ کریں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کچھ سوال پیش کرتے ہوئے فرمایا: کیا انقلاب کے اوائل میں جب امریکہ نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کیں اور ان پابندیوں کو جاری رکھا، کیا اس وقت ایران کا ایٹمی معاملہ موجود تھا؟ جب امریکہ نے ایران کے مسافر طیارے کو نشانہ بنایا اور 290 مسافروں کا قتل عام کیا، کیا اسوقت ایٹمی بہانہ یا ایٹمی مسئلہ موجود تھا؟ انقلاب کے اوائل میں جب امریکہ نے شہید نوژہ بیس میں کودتا کا منصوبہ بنایا، کیا اس وقت ایٹمی بہانہ موجود تھا؟ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امریکہ کی طرف سے انقلاب مخالف عناصر کی سیاسی اور فوجی حمایت کی اصل وجہ کیا ایران کا ایٹمی پروگرام تھا؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان سوالوں کے منفی جواب کی طرف اشارہ کرتےہوئے فرمایا: لہذا ایٹمی مسئلہ صرف ایک بہانہ ہے، فرض کرلیتے ہیں کہ اگر ایٹمی معاملہ ہماری عقب نیشینی کی بنا پر حل بھی ہوجائے تو پھر بھی وہ ایران کے ساتھ دشمنی اور عداوت جاری رکھنے کے لئے دسیوں دوسرے بہانے تلاش کرلیں گے جن میں میزائلوں کی پیشرفت، ایرانی قوم کی اسرائيل کے ساتھ مخالفت اور ایرانی قوم کی لبنان اور فلسطین میں اسلامی مقاومت کی حمایت جیسے بہانے شامل ہوسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان حقائق کا حوالہ دینے کے بعد فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ امریکیوں کی دشمنی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کا ان کے تمام مطالبات کو رد کرنے کے ساتھ اس بات پر یقین ہے کہ امریکہ ایران کے خلاف کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکہ ، اسلامی جمہوریہ ایران کے وجود، ایرانی قوم کے منتخب و مقتدر نظام اور علاقہ میں اس کے اثر و رسوخ کے بالکل خلاف ہےجیسا کہ حال ہی میں امریکہ کے ایک سیاستداں اور فکری عنصر نےواضح طور پر اعلان کیا کہ ایران چاہے ایٹمی ہو یا نہ ہو وہ خطرناک ہے کیونکہ وہ علاقہ میں بااثر اور صاحب اقتدار ہے اور خود ان کے بقول علاقہ پر ایران کی قیادت حکمفرما ہوگئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: ایران کا ایٹمی معاملہ صرف بہانہ ہے اور امریکی اسوقت دشمنی سے ہاتھ کھینچ لیں گے جب ایرانی قوم ایک الگ تھلگ ، غیر معتبر اور غیر محترم قوم بن جائے گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ مشکلات اور مسائل کا حقیقی حل اندرونی وسائل اور اندرونی طاقت پر توجہ مبذول کرنے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی قوم اپنی قدرت اور توانائیوں پر قائم رہے تو وہ دشمن کی ناراضگی اور پابندیوں سے متلاطم نہیں ہوگي اور ہمیں اس ہدف تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ماضی اور حال کے تمام حکام سے ہماری یہی سفارش رہی ہے کہ ترقی و پیشرفت کے سلسلے میں اور مسائل و مشکلات کے حل کے لئے ایران کی وسیع جغرافیائی، قدرتی وسائل اور انسانی ظرفیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں سفارتی کوششوں کو بھی بہت ہی ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اندرونی ظرفیتوں سے استفادہ کا مطلب سفارتی کوششوں کی مخالفت نہیں ہے۔ لیکن توجہ رکھنی چاہیے کہ سفارتی کوششیں کام کا صرف ایک حصہ ہیں اور اصلی کام اندرونی توانائیوں پر استوار ہے جو مذاکرات کی میز پر بھی معتبر اور مقتدر ثابت ہوسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوم اور حکام کی توجہ اس اہم نکتہ کی طرف مبذول کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے لیکر اب تک ایران دشمنوں کے مقابلے میں کبھی بھی مایوسی سے دوچار نہیں ہوا اور اس کے بعد بھی نہیں ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے پاس انقلاب کے پہلے عشرے میں بہت سے مادی وسائل منجملہ پیسہ، ہتھیار ، تجربہ اور کارآزمودہ فوج نہیں تھی جبکہ مخالف محاذ یعنی صدام معدوم اور اس کے حامی مغربی اور مشرقی طاقتیں طاقت و توانائی کے اوج پر تھیں لیکن وہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اب ایران اور اس کے مخالف محاذ کے شرائط پہلے سے کہیں زيادہ متفاوت ہیں، کیونکہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ، علم و ٹیکنالوجی ، عالمی وقار و اعتبار،ہتھیار اور کئی ملین آمادہ جوان موجود ہیں جبکہ اس کے مخالف محاذ یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی آج مختلف قسم کی سیاسی ، اقتصادی اور دوسرے بہت سے اختلافات سے دوچار ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےامریکہ میں سیاسی اختلافات، امریکی حکومت کی 16 دن تک تعطیل ،بڑی اقتصادی مشکلات، بجٹ میں کئی ہزار ارب ڈالر کا خسارہ اور گوناگوں مسائل منجملہ شام پر حملہ کے مسئلہ میں یورپ اور امریکہ کے درمیان شدید اختلافات کو ایران کے مخالف محاذ کی موجودہ مشکل صورتحال قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ایرانی قوم پہلے سے کہیں زيادہ پیشرفت کی مالک ، آگاہ اور صاحب اقتدار بن چکی ہے اور اس کا 20 یا 30 سال پہلے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ وہ پھر بھی دباؤ قائم رکھیں گے لیکن ہمیں اپنی اندرونی توانائیوں پر اعتماد کرتے ہوئے دباؤ کو برداشت اور اس سے عبور کرجانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات اور سفارتکاری کے میدان میں حکومت اور متعلقہ حکام کی کوششوں اور اقدامات کی ایک بار پھر حمایت کرتے ہوئے فرمایا: یہ اقدام ایک تجربہ اور ممکنہ طور پر ایک مفید کام ہے اگر اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہوا تو بہت بہتر، لیکن اگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: میں اپنی پہلی سفارش کو ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ دشمن کی مسکراہٹ پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مذاکراتی ٹیم اور سفارتی حکام کومیری یہ ہدایت ہے کہ وہ ہوشیار رہیں اور دشمن کی فریبکارانہ مسکراہٹ سے کہیں غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی حکام کو فریق مقابل کے اظہارات اور اقدامات پر ضروری توجہ رکھنی چاہیے کیونکہ وہ ایک طرف مسکرا کر مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور پھر دوسری طرف بلا فاصلہ یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ ایران کے خلاف تمام آپشن میز پر موجود ہیں، مثال کے طور پر اب وہ کیا غلطی کرنا چاہتے ہیں معلوم نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران پر ایٹمی حملہ کرنے کا مطالبہ کرنے والے ایک امریکی سیاستداں کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر امریکی سچ کہتے ہیں اور مذاکرات میں سچے اور سنجیدہ ہیں تو انھیں اس بیہودہ شخص کا منہ توڑدینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: وہ حکومت جو عالمی اور ایٹمی مسائل کے بارے میں ذمہ داری کا دعوی کرتی ہے وہ دوسروں کو ایٹمی دھمکی دیکر غلط بات کرتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج امریکی حکومت اور امریکی کانگریس پر صہیونی کمپنیوں اور صہیونی سرمایہ داروں کا تسلط قائم ہے جس کی وجہ سے وہ صہیونیوں کا لحاظ رکھنے پر مجبور ہیں لیکن ہم صہیونیوں کا لحاظ رکھنے پر مجبور نہیں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نے پہلے دن کہا، آج بھی کہہ رہے ہیں اور آئندہ بھی کہیں گے کہ ہم صہیونی حکومت کو جعلی، ناجائز اور حرامزادہ حکومت جانتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوم اور حکام کی ہوشیاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم حکام کے ہر اس اقدام کی حمایت کریں گے جو ملک کی مصلحت میں ہوگا۔ اور حکام ، قوم اور بالخصوص جوانوں کو پھر سفارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی آنکھوں کو مکمل طور پر کھول لیں کیونکہ قوم کے اہداف تک پہنچنے کا واحد راستہ آگاہی اور ہوشیاری پر مبنی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام میں فرمایا: امیدوار ہیں کہ جوان اپنے شاداب جذبہ کے ساتھ ملک کو اپنی تحویل میں لیں اور اپنی خلاقیت کے ذریعہ اسے ترقی کے بام عروج تک پہنچادیں۔

بسم الله الرحمن الرحيم

والحمدلله رب العالمين و الصلوة والسلام علي سيدالانبياء و المرسلين و علي آله الطيبين و صحبه المنتجبين

موسم حج کی آمد کو امت اسلامیہ کی عظیم عید سمجھنا چاہئے۔ ہر سال یہ گراں قدر ایام دنیا بھر کے مسلمانوں کو جو سنہری موقعہ فراہم کرتے ہیں وہ ایسا کرشماتی کیمیا ہے کہ اگر اس کی قدر و قیمت کو سمجھ لیا جائے اور اس سے کما حقہ استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کے بہت سے مسائل اور کمزوریوں کا علاج ہو سکتا ہے۔

حج فیضان الہی کا چشمہ خروشاں ہے۔ آپ خوش قسمت حاجیوں میں ہر ایک کو اس وقت یہ خوش قسمتی حاصل ہوئی ہے کہ نورانیت و روحانیت سے معمور ان مناسک و اعمال کے دوران دل و جان کی طہارت کرکے اس رحمت و عزت و قدرت کے سرچشمے سے اپنی پوری زندگی کے لئے سرمایہ حاصل کریں۔ خدائے رحیم کے سامنے خشوع اور خود سپردگی، مسلمانوں کے دوش پر ڈالے جانے والے فرائض کی پابندی، دین و دنیا کے امور میں نشاط و عمل و اقدام، بھائیوں کے سلسلے میں رحمدلی و درگزر، سخت حوادث کا سامنا ہونے پر جرائت و خود اعتمادی، ہر جگہ ہر شئے کے سلسلے میں نصرت خداوندی کی امید، مختصر یہ کہ تعلیم و تربیت کے اس ملکوتی میدان میں مسلمان کہلانے کے لایق انسان کی تعمیر و نگارش کو آپ اپنے لئے بھی مہیا کر سکتے ہیں اوراپنے وجود کو ان زیوروں سے آراستہ اور ان ذخیروں سے مالامال کرکے اپنے وطن اور اپنی قوم کے لئے اور سرانجام امت اسلامیہ کے لئے بطور سوغات لے جا سکتے ہیں۔

آج امت اسلامیہ کو سب سے بڑھ کر ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو ایمان و پاکیزگی و اخلاص کے ساتھ ساتھ فکر و عمل اور روحانی و معنوی خود سازی کے ساتھ ساتھ کینہ توز دشمنوں کے مقابل جذبہ استقامت سے آراستہ ہو۔ یہ مسلمانوں کے اس عظیم معاشرے کی ان مصیبتوں سے رہائی کا واحد راستہ ہے جن میں وہ آشکارا طور پر دشمنوں کے ہاتھوں یا قدیم ادوار سے قوت ارادی، ایمان اور بصیرت کی کمزوری کے نتیجے میں گرفتار ہے۔

بیشک موجودہ دور مسلمانوں کی بیداری اور تشخص کی بازیابی کا دور ہے۔ اس حقیقت کو ان مسائل کے ذریعے بھی واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے جن سے مسلمان ممالک آج دوچار ہیں۔ ایسے ہی حالات میں ایمان و توکل علی اللہ، بصیرت اور تدبیر پر استوار عزم و ارادہ مسلم اقوام کو ان مسائل سے کامیابی اور سرخروئی کے ساتھ نکال سکتا ہے اور ان کے مستقبل کو عزت و وقار سے آراستہ کر سکتا ہے۔ مد مقابل محاذ جو کسی صورت میں بھی مسلمانوں کی بیداری کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ہے، اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں اتر پڑا ہے اور مسلمانوں کو کچلنے، پسپا کرنے اور آپس میں الجھا دینے کے لئے تمام نفسیاتی، عسکری، اقتصادی، تشہیراتی اور سیکورٹی کے شعبے سے مربوط حربوں کو استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے لیکر شام، عراق، فلسطین اور خلیج فارس کے ملکوں تک مغربی ایشیا کی تمام ریاستوں، نیز شمالی افریقا میں لیبیا، مصر اور تیونس سے لیکر سوڈان اور بعض دیگر ممالک تک تمام ملکوں پر ایک نگاہ ڈالنے سے بہت سے حقائق واضح ہو جاتے ہیں۔ خانہ جنگی، اندھا دینی و مسلکی تعصب، سیاسی عدم استحکام، بے رحمانہ دہشت گردی کی ترویج، ایسے گروہوں اور حلقوں کا ظہور جو تاریخ کی وحشی قوموں کے انداز میں انسانوں کے سینے چاک کرتے ہیں، ان کا دل نکال کر دانتوں سے بھنھوڑتے ہیں، وہ مسلح عناصر جو بچوں اور خواتین کو قتل کرتے ہیں، مردوں کے سر قلم کرتے ہیں اور ان کی ناموس کی آبروریزی کرتے ہیں، ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بعض مواقع پر یہ شرمناک اور نفرت انگیز جرائم دین کے نام پر اور پرچم دین کے تلے انجام دیتے ہیں، یہ سب کچھ اغیار کی خفیہ ایجنسیوں اور علاقے میں ان کے ہمنوا حکومتی عناصر کی شیطانی اور سامراجی سازشوں کا نتیجہ ہے جو ملکوں کے اندر موافق مقامات پر وقوع پذیر ہونے کا امکان حاصل کر لیتی ہیں اور قوموں کا مقدر تاریک اور ان کی زندگی کو تلخ کر دیتی ہیں۔ یقینا ان حالات میں یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ مسلمان ممالک روحانی و مادی خلا کو پر کریں گے اور امن و سلامتی، رفاہ آسائش، علمی ترقی اور عالمی ساکھ کو جو بیداری اور تشخص کی بازیابی کا ثمرہ ہے حاصل کر سکیں گے۔ یہ پرمحن حالات اسلامی بیداری کو ناکام اور عالم اسلام میں ذہنی اور نفسیاتی سطح پر پیدا ہونے والی آمادگی کو ضائع کر سکتے ہیں اور ایک بار پھر برسوں کے لئے مسلم اقوام کو جمود و تنہائی اور انحطاط کی جانب دھکیل کر ان کے کلیدی مسائل جیسے امریکا اور صیہونزم کی مداخلتوں اور جارحیتوں سے فلسطین اور مسلم اقوام کی نجات کے موضوع کو فراموش کروا سکتے ہیں۔

اس کے بنیادی اور اساسی حل کو دو کلیدی جملوں میں بیان کیا جا سکتا ہے اور یہ دونوں ہی حج کے نمایاں ترین درس ہیں:۔

اول: پرچم توحید کے نیچے تمام مسلمانوں کا اتحاد اور اخوت

دوم: دشمن کی شناخت اور اس کی چالوں اور سازشوں کا مقابلہ

اخوت و ہمدلی کے جذبے کی تقویت حج کا عظیم درس ہے۔ یہاں دوسروں کے ساتھ بحث و تکرار اور تلخ کلامی بھی ممنوع ہے۔ یہاں یکساں پوشاک، یکساں اعمال، یکساں حرکات و سکنات اور محبت آمیز برتاؤ ان تمام لوگوں کی برادری و مساوات کے معنی میں ہے جو اس مرکز توحید پر عقیدہ رکھتے ہیں اور قلبی طور پر اس سے وابستہ ہیں۔ یہ ہر اس فکر و عقیدے اور پیغام پر اسلام کا دو ٹوک جواب ہے جس میں مسلمانوں اور کعبہ و توحید پر عقیدہ رکھنے والوں کے کسی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جاتا ہے۔ تکفیری عناصر جو آج عیار صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کی سیاست کا کھلونا بن کر ہولناک جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور مسلمانوں اور بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں اور دینداری کے دعوے کرنے والے اور علماء کا لباس پہننے والے وہ افراد جو شیعہ و سنی تنازعے یا دیگر اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، یا بات جان لیں کہ خود مناسک حج ان کے دعوے پر خط بطلان کھینچتے ہیں۔

بہت سے علمائے اسلام اور امت اسلامیہ کا درد رکھنے والے افراد کی طرح میں بھی ایک بار پھر یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہر وہ قول و فعل جو مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے شعلہ ور ہو جانے کا باعث بنے، نیز مسلمانوں کے کسی بھی فرقے کے مقدسات کی توہین یا کسی بھی اسلامی مسلک کو کافر قرار دینا کفر و شرک کے محاذ کی خدمت، اسلام سے خیانت اور شرعا حرام ہے۔

دشمن اور اس کی روش کی شناخت دوسرا اہم نکتہ ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کینہ پرور دشمن کے وجود کو کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے اور حج میں چند بار انجام پانے والا رمی جمرات کا عمل اس دائمی توجہ کا علامتی عمل ہے۔ دوسرے یہ کہ اصلی دشمن کی شناخت میں جو آج عالمی استکبار اور جرائم پیشہ صیہونی نیٹ ورک کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، کبھی غلطی نہیں کرنا چاہئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس کٹر دشمن کی چالوں کو جو مسلمانوں کے درمیان تفرقہ انگیزی، سیاسی و اخلاقی بدعنوانی کی ترویج، دانشوروں کو رجھانے اور ڈرانے، قوموں پر اقتصادی دباؤ اور اسلامی عقائد کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے عبارت ہیں بخوبی پہچاننا چاہئے اور اسی طریقے سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کے مہروں میں تبدیل ہو جانے والے عناصر کی بھی نشاندہی کر لینا چاہئے۔

استکباری حکومتیں اور ان میں سر فہرست امریکا وسیع و پیشرفتہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنے اصلی چہرے کو چھپا لیتے ہیں اور انسانی حقوق اور جمہوریت کی پاسبانی کے دعوؤں سے قوموں کی رائے عامہ کے سامنے فریب دینے والا برتاؤ کرتے ہیں۔ وہ ایسے عالم میں اقوام کے حقوق کا دم بھرتے ہیں کہ جب مسلم اقوام ہر دن اپنے جسم و جان سے ان کے فتنوں کی آگ کی تمازت کا پہلے سے زیادہ احساس کرتی ہیں۔ مظلوم فلسطینی قوم پر ایک نظر جو دسیوں سال سے روزانہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے جرائم کے زخم کھا رہی ہے۔ یا افغانستان، پاکستان و عراق جیسے ممالک پر ایک نظر جہاں استکبار اور اس کے علاقائی ہمنواؤں کی پالیسیوں کی پیدا کردہ دہشت گردی سے زندگی تلخ ہوکر رہ گئی ہے۔ یا شام پر ایک نظر جو صیہونیت مخالف مزاحمتی تحریک کی پشت پناہی کے جرم میں بین الاقوامی تسلط پسندوں اور ان کے علاقائی خدمت گزاروں کے کینہ پرستانہ حملوں کی آماجگاہ بنا ہے اور خونریز خانہ جنگی میں گرفتار ہے، یا بحرین یا میانمار پر ایک نظر جہاں الگ الگ انداز سے مصیبتوں میں گرفتار بے اعتنائی کا شکار ہیں اور ان کے دشمنوں کی حمایت کی جا رہی ہے۔ یا یا دیگر اقوام پر ایک نظر جنہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے پے در پے فوجی حملوں، یا اقتصادی پابندیوں، یا سیکورٹی کے شعبے سے متعلق تخریبی کارروائیوں کے خطرات لاحق ہیں، تسلط پسندانہ نظام کے عمائدین کے اصلی چہرے سے سب کو روشناس کرا سکتی ہے۔

عالم اسلام میں ہر جگہ سیاسی، ثقافتی اور دینی شخصیات کو چاہئے کہ ان حقائق کے افشاء کی ذمہ داری کا احساس کریں۔ یہ ہم سب کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے ۔شمالی افریقا کے ممالک جو بد قسمتی سے ان دنوں گہرے داخلی اختلافات کی لپیٹ میں ہیں، دوسروں سے زیادہ اپنی عظیم ذمہ داری یعنی دشمن، اس کی روش اور اس کے حربوں کی شناخت پر توجہ دیں۔ قومی جماعتوں اور دھڑوں کے درمیان اختلافات کا جاری رہنا اور ان ملکوں میں خانہ جنگی کے اندیشے غفلت ایسا بڑا خطرہ ہے کہ اس سے امت اسلامیہ کو پہنچنے والے نقصانات کا جلدی تدارک نہیں ہو پائے گا۔

البتہ ہم کو اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس علاقے کی انقلابی قومیں جہاں اسلامی بیداری مجسم ہو چکی ہے، اذن پروردگار سے یہ موقعہ نہیں دیں گی کہ وقت کی سوئی برعکس سمت میں گھومے اور بدعنوان، پٹھو اور ڈکٹیٹر حکمرانوں کا دور واپس آئے، لیکن فتنہ انگیزی اور تباہ کن مداخلتوں میں استکباری طاقتوں کی کردار کی جانب سے غفلت ان کی مہم کو دشوار بنا دے گی اور عزت و سلامتی اور رفاہ و آسائش کے دور کو برسوں پیچھے دھکیل دے گی۔ ہم قوموں کی توانائی اور اس طاقت پر جو خدائے حکیم نے عوام الناس کے عزم و ایمان اور بصیرت میں قرار دی ہے، دل کی گہرائیوں سے یقین رکھتے ہیں اور اسے ہم نے تین عشرے سے زیادہ کے عرصے کے دوران اسلامی جمہوریہ کے اندر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے پورے وجود سے اس کا تجربہ کیا ہے۔ ہمارا عزم تمام مسلم اقوام کو اس سربلند اور کبھی نہ تھکنے والے ملک میں آباد ان کے بھائیوں کے تجربے سے استفادہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

اللہ تعالی سے مسلمانوں کی بھلائی اور دشمنوں کے مکر و حیلے سے حفاظت کا طلبگار ہوں اور بیت اللہ کے آپ تمام حاجیوں کے لئے حج مقبول، جسم و جان کی سلامتی اور روحانیت سے سرشار خزانے کی دعا کرتا ہوں۔

والسلام عليكم و رحمة الله

سيّد علي خامنه‌اي

پنجم ذي‌الحجه 1434 (ہجری قمری) مطابق 19 مهرماه 1392 (ہجری شمسی برابر 12 اکتوبر 2013 عیسوی)

شام کے اقدام کا خیر مقدم لیکن صہیونی اقدام پر تشویشاسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان محترمہ مرضیہ افخم نے آج ہفتہ وار پریس کانفرنس میں شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کی رپورٹ کے بارے میں کہا ہےکہ اس رپورٹ میں یہ تو کہا گيا ہے کہ شام میں کیمیاری ہتھیار استعمال کئے گئے ہیں لیکن یہ نہیں کہا گیا ہےکہ کس نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ اسی بناپر ایسی قیاس آرائیاں نہیں ہونی چاہیں جو پروپگينڈوں کا سبب بنیں۔ مرضیہ افخم نے کہا کہ شام کا کیمیاوی ہتھیاروں پر پابندی کے کنونشن میں شامل ہونا ایک مثبت قدم ہے لیکن صیہونی حکومت کے اس کنونشن میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے اب بھی تشویش باقی ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری نے شام کے بارے میں روس کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے، اور عالمی برادری کو چاہیے کہ روس کی تجویز اور جینوا سمجھوتوں کو جنگ سے دوری کے اقدامات کے طورپر تسلیم کرنا چاہیے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے کہا کہ اعتدال کی روشیں ہر طرح کے انتھا پسندانہ اقدامات کی جگہ لیے لیں گي جن سے امن عالم کو شدید خطرے لاحق ہیں۔ مرضیہ افخم نے اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکی صدر کے درمیاں خطوط کے تبادلے کے بارے میں کہا کہ امریکی صدر نے ڈاکٹر حسن روحانی کو مبارک باد کا خط بھیجا تھا جس کےجواب میں ڈاکٹر روحانی نے مختلف مسائل پر روشنی ڈالی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس کے موقع پر امریکی حکام سے ملاقات کا کوئي پروگرام نہيں ہے اور اگر کسی ملاقات کی ضرورت پیش آئي تو پانچ جمع ایک گروپ کے دائرہ کار میں یہ ملاقات ہوسکتی ہے۔انہوں نے آئي اے ای اے کے سربراہ کے اس الزام کو مسترد کیا کہ ایران ایجنسی کے ساتھ بھرپور تعاون نہیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے جس طرح سے آئي اے ای اے کےساھت تعاون کیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی اور آئي اے ای اے کے انسپکٹروں کو ایرانی سائٹوں کا معائنہ کرنے کا بھی پورا پورا موقع دیا گیا ہے۔

رہبر معظم سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ اور اعلی کمانڈروں کی ملاقات

۲۰۱۳/۰۹/۱۷

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے اعلی کمانڈروں اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں سپاہ کے تابناک اور درخشاں کارنامہ کو ایک قوم کے کامیاب تجربات، شخصیت اور تشخص کا گہرا مظہر قراردیا اور انقلاب اسلامی کی عمومی پاسداری کے مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کا اصلی اور پسندیدہ پیغام ظلم و ستم سے اجتناب اور مظلوم واقع نہ ہونے پر استوار ہے اور اس پیغام کے ساتھ تسلط پسند نطام کے بنیادی چیلنج کے دائرے میں تمام مسائل منجملہ تسلط پسند طاقتوں کی رفتار و گفتار کی تحلیل اور تفسیر کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم آل محمد حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے فرمایا: آئمہ معصومین علیھم السلام کے معنوی درجات ومقامات زبانی تعریف و توصیف اور عقلانی ادراک سے ماوراء ہیں لیکن ان بزرگ ہستیوں کی زندگی ہمارے لئے عملی ، دائمی اورہمیشگی درس ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آٹھویں امام (ع) کی 55 سالہ عمر اور تقریبا بیس سالہ دور امامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے ہارون کے تاریک اور خوفناک دور میں اسی مختصر مدت میں بلند مدت نگاہ کے ساتھ حقیقت اسلام، تفکر ولایت اور مکتب اہلبیت پیغمبر (ص) کو اس طرح فروغ بخشا کہ اس دور کا ڈکٹیٹر و خونخوار نظام بھی اس کا مقابلہ کرنے سے عاجزرہ گیا اورامام علیہ السلام کو شہید کرنے کے اپنے ابتدائی منصوبے کے خلاف عمل کرنے پرمجبورہوگیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مشہد مقدس میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی تدفین کو اللہ تعالی کی حکمت و تدبیر قراردیتے ہوئے فرمایا: بلند مدت کاموں کے سلسلے میں آٹھویں امام (ع) کی نگاہ اور ان کےجذبہ کی طرح عمل اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے درخشاں کارنامہ کی تعریف و تجلیل کرتے ہوئے فرمایا: سپاہ گہرےایمان اور اعتقادکے ساتھ مجاہدت اور مقاومت کے میدان میں وارد ہوئی اور اس نے اعلی ، ذہین اور لائق فوجی کمانڈروں اور فوجی نظریہ پردازوں کی تربیت کے ساتھ غیر فوجی میدانوں کےلئےبھی بہترین اور با تجربہ مدیرتربیت کرکے حکومتی اداروں کے حوالے کئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے "انقلابی جینے اور انقلابی و ثابت قدم رہنے " کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے شاندار اور خوبصورت جلوے قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ مضوبط ادارہ عالمی اور داخلی تبدیلیوں کے بہانے کبھی بھی اپنے اصلی اور صحیح راستے سے منحرف نہیں ہوا۔

رہبر معظم سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ اور اعلی کمانڈروں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ندامت و پشیمانی کے جواز کے سلسلے میں بعض افراد کے بہانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلی کودرست طے شدہ راستے اور اہداف و اصولوں سے تبدیلی کے لئے بہانہ نہیں بنایا جاسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کی حفاظت کے لئے سپاہ کو چاہیےکہ وہ مختلف میدانوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں کامل اور کافی معلومات حاصل کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں سیاسی موضوعات کے بارے میں مغالطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سپاہ کو سیاسی میدان میں فعالیت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن انقلاب کی حفاظت اور پاسداری کےلئے حقائق کی شناخت ضروری ہے لہذا وہ مجموعہ جو انقلاب کا نگراں اور محافظ مجموعہ ہے وہ مختلف وگوناگوں منحرف ،غیر منحرف یا دیگر سیاسی گروہوں کے بارے میں اپنی آنکھ بند نہیں کرسکتا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے انقلاب اسلامی کے مفہوم کی تشریح اور انقلاب اسلامی کے بنیادی اور اصلی چیلنجز کے بارےمیں وضاحت کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصلی چیلنجوں کو فردی، حزبی اور گروہی مقابلوں میں تبدیل کرنے سے اجتناب پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کا اصلی مقابلہ تسلط پسند نظام کے ساتھ ہے کیونکہ انقلاب کا شوق آفریں پیغام ظلم سے اجتناب اور مظلوم واقع نہ ہونے پر مشتمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاسلامی نظام کی طرف سے بشریت کو نیا نظم پیش کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند نظام نے دنیا کو ظالم اور مظلوم کے دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے لیکن انقلاب اسلامی اپنے ہمراہ ظلم کرنے سے اجتناب اور ظلم کا مقابلہ کرنے کا درس لیکر آیا ہے اور اس درس کی وجہ سے انقلاب اسلامی کا پیغام ایرانی سرحدوں سے باہر نکل گیا ہے جس کا تمام قوموں نے استقبال اور خیرمقدم کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ظالم و جابر حکومتوں، تسلط پسند نظام سے وابستہ حکومتوں اوربین الاقوامی ڈاکوؤں اور لٹیروں کو انقلاب اسلامی کےپیغام کا مخالف قراردیتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند نظام اور اس سے وابستہ حکومتیں جنگ افروزی اور فقر و فساد کی تین پالیسیوں پر گامزن ہیں جبکہ اسلام ان تینوں پالیسیوں کے خلاف ہے اوریہ مخالفت ہی انقلاب اسلامی کےساتھ بنیادی دشمنی اور چیلنج ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ 34 برسوں میں دشمنوں کی تمام سازشوں کو اسی بنیادی چیلنج کے دائر میں تجزيہ اور تحلیل کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی معاملے کا بھی اسی زاویہ نگاہ سے جائزہ لینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم اپنے دینی اور مذہبی اعتقادات کی بنا پر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ہیں اور اس کا امریکہ اور غیر امریکہ سے کوئی ربط نہیں ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کسی کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونے چاہییں تو یقینی طور پر ہم خود بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پیچھے نہیں ہیں لیکن اس سلسلے میں ایران کے مخالفین کا اصلی ہدف کچھ اور ہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ چند ممالک ایٹمی انرجی کےانحصار کو توڑنا نہیں چاہتے لیکن وہ اس سلسلے میں کوئی شور شرابہ نہیں کرنا چاہتے لہذا ایران کے ایٹمی معاملے کے سلسلے میں امریکہ اور اس سے وابستہ اور دلبستہ حکومتوں کے شورو غل کو تسلط پسند نظام اوراسلامی نظام کےدرمیان گہرے چیلنج کے دائرے میں تجزيہ وتحلیل کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستکبرین کی اسلامی انقلاب کے ساتھ گہری عداوت و دشمنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) کی عظمت کچھ ایسی تھی کہ دشمن بھی ان کے احترام کے قائل تھے لیکن دشمن اندرونی طورپر اس آفتاب درخشاں کے بارے میں سخت غضبناک تھے کیونکہ حضرت امام (رہ) کامل بصیرت کے ساتھ ان کے معاندانہ اہداف کو پہچانتے تھے اور ان کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم دیوار کی طرح استقامت کا مظاہرہ کرتے تھے۔

رہبر معظم سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ اور اعلی کمانڈروں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج بھی ایسا ہی ہے جو شخص انقلاب اسلامی کے اصولوں پر زیادہ پابند ہے اور دشمنوں کی رفتار وگفتار کو اسلامی نظام کے ساتھ تسلط پسند نظام کے چیلنجزکے دائرے میں تجزیہ و تحلیل کرہا ہے وہ دشمنوں کے نزدیک دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ مورد غضب قرار پاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سفارتی دنیا کی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سفارتی میدان مسکراہٹ اور مذاکرات کی درخواست ومذاکرات کا میدان ہے لیکن اصلی چیلنج کے دائرے میں ان تمام امورکو درک کرنےکی کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی اور بیرونی سطح پر صحیح اور درست پالیسیوں کی موافقت کرتے ہوئے فرمایا: کئی برس پہلے جس مسئلہ کو بہادرانہ ورزش قراردیا تھا اس کے موافق ہوں کیونکہ یہ حرکت ایک شرط کے ساتھ بعض جگہ بہت ضروری اور لازم ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بہادرانہ ورزش کی حکمت عملی سے استفادہ کے سلسلے میں فریق مقابل کی حقیقت اور اس کےہدف کے صحیح ادراک کو اصلی شرط قراردیتےہوئے فرمایا: تکنیکی پہلوان بھی بعض اوقات تکنیک کی وجہ سے ورزش کا مظاہرہ کرتاہے اور اسے معلوم ہے کہ اس کا حریف کون ہے اور اس کا اصلی مقصد کیا ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں سپاہ کی ذمہ داریوں کے بارے میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر کی باتوں کی تائيد کرتے ہوئے فرمایا: ان ذمہ داریوں کو پاسداری کے صحیح ادراک کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو معنویات پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: معنویات کے ساتھ کام کے مادی اصول میں صحیح طور پر مشغول ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتامی حصے میں انقلاب اسلامی کے درخشاں مستقبل پر تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے درخشاں مستقبل کو ایک ٹھوس حقیقت قراردیتے ہوئے دو استدلال پیش کئے جن میں پہلا استدلال تجربہ تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سائنسی، نظامی ، اقتصادی اور دیگر میدانوں میں ملک کی موجودہ صورتحال کو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے اوائل سے متفاوت قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن کے تمام دباؤ اور پابندیوں کے باوجود یہ تمام ترقیات حاصل ہوئی ہیں۔اوریہ گرانقدرتجربہ اس بات کا مظہر ہے کہ کوئی بھی ایران کی منسجم ، متحد اور مؤمن قوم کی پیشرفت میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: علاقائی سطح پر عالم اسلام کو حالیہ حوادث میں اس لئے نقصان پہنچاہے کہ وہ راستہ نہیں جانتے تھے لیکن حالات ایسے نہیں رہیں گے اوراسلامی بیداری کا سلسلہ جاری رہےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے درخشاں مستقبل کے سلسلے میں علمی محاسبہ اور منطق کو دوسرے استدلال کے عنوان سے پیش کیا ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم علمی اور منطقی محاسبہ کےساتھ آگے بڑھ رہی ہے جبکہ دشمن عقب نشنی پر مجبور ہورہا ہے اگر چہ وہ اندرونی تضاد کی بناپراس بات کو زبان پر نہیں لارہا ہے اور یقینی طور پر اس مقابلہ میں درخشاں مستقبل اس فریق کا ہوگا جو دقیق محاسبہ اور منطق کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاس ملاقات کے آخر میں نظام کے اندرونی ڈھانچے کےاستحکام ، سائنسی ترقی کے دوام ، اندرونی پیداوار اور داخلی استعداد اور صلاحیتوں سے استفادہ پر تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کا درخشاں مستقبل ایک حقیقت ہے جس کاجلد یا دیر سے محقق ہونا عوام اورحکام کی محنت اور کارکردگی پر منحصر ہے اگر ہم متحد ، منسجم اور مصمم طورپر عمل کریں گے تو یہ درخشاں مستقبل جلد محقق ہوجائے گا۔ اور اگر ہم نے سستی، غفلت اور عدم توجہ سے کام لیا تو یہ مستقبل کی درخشندگی دیر سے ہمیں حاصل ہوگی۔

رہبر معظم سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ اور اعلی کمانڈروں کی ملاقات

اس ملاقات کے آغاز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ الاسلام والمسلمین سعیدی نے سپاہ میں نمائندگی ولی فقیہ کی اہم ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کیا۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل جعفری نے فوجی اور ثقافتی شعبوں میں سپاہ کے گرانقدر نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: انقلاب اسلامی کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے آج سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی تمام چیلنجوں کامقابلہ کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے اور عزت وسرافرازی کے ساتھ انقلاب اسلامی کی راہ پر گامزن رہےگی۔

میجرجنرل جعفری نے انقلاب اسلامی کے اصولوں اور امام و شہداء کی راہ کے سلسلے میں ہمہ گیر دفاع کرنے پر تاکید کرتے ہوئے کہا: سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی دفاعی صلاحیتوں اور ہمہ گير یلغار کے ذریعہ ملک و قوم کا دفاع کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔

جب تک دہشتگردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا امن کا قیام ممکن نہیں، علامہ ساجد نقویملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قائم مقام سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے سانحہ اپر دیر کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے عام شہری سے لے کر اعلٰی افسران تک کوئی بھی محفوظ نہیں، جب تک عوام کو حقائق سے آگاہ اور دہشتگردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا، اس وقت تک ملک میں امن و استحکام ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپر دیر میں فوجی افسران و جوانوں کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہیں آرہی اور آئے روز دہشت گردی کی وارداتوں سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ دہشت گرد ملک میں امن کے دشمن ہیں۔

سربراہ شیعہ علماء کونسل علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ ملک میں عام شہریوں سے لے کر ججز، فوجی افسران، علماء، بے یارو مددگار مسافر، صحافیوں سمیت کسی کی بھی جان محفوظ نہیں، عبادت گاہوں سے لیکر اقلیتی برادری تک تمام طبقات دہشت گردی کا شکار ہیں۔ پورا ملک بدامنی کی تصویر بنا ہوا ہے، اس لئے اب وقت ہے کہ عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کیا جائے، کیونکہ جب تک دہشت گردوں کے سرپرستوں کو بے نقاب کرکے انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا، اس وقت تک ملک میں امن و استحکام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس موقع پر انہوں نے اپر دیر سانحہ میں جاں بحق ہونیوالے فوجی افسران و جوانوں کیلئے دعائے مغفرت اور لواحقین کیلئے صبر جمیل کی دعا کی اور کہا کہ فوجی افسران و جوانوں کی ملکی دفاع کیلئے قربانیاں لائق تحسین ہیں۔

آیت الله شیخ بشیر نجفی نے عالمی صلح و سلامتی کونسل کے رکن هیثم ابو سعید سے ملاقات

مراجع تقلید نجف اشرف میں سے آیت الله شیخ بشیر نجفی نے عالمی صلح و سلامتی کونسل کے رکن هیثم ابو سعید سے ملاقات میں اسلامی ممالک کے خلاف سامراجی ممالک کے اقدامات کا مقصد اسلام کو نقصان پہونچا جانا اور کہا: اسلام کے دشمنوں نے اپنی تمام توانائی اسلام کو نقصان پہونچانے اور اسلامی ممالک کو کمزور کرنے میں صرف کردی ہے تاکہ یہ ممالک عالمی میدان میں اپنے اثرات نہ چھوڑ سکیں ۔

انہوں نے مزید کہا: ان ممالک نے دھشت گرد تکفیروں کی کھلم کھلا حمایت کرکے اسلامی ممالک میں بہت بڑی جنایت انجام دی و نیز عام معاشر کے ذھنوں میں اسلام کی بری تصویر کھینچ دی ہے ۔

آیت الله بشیر نجفی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ مغرب اسلامی کی ترویج اور اسلامی بنیادوں کے استحکام سے ہراساں ہے کہا: اھلبیت علیھم السلام کا راستہ اسلام کا سچا اور صحیح راستہ ہے اور مغرب مختلف طریقہ سے ان افکار کی ترویج کے راستہ میں روڑے اٹکا رہا ہے ۔

انہوں نے تاکید کی : اهل بیت (ع) کے نظریات ہر قسم کی شدت پسندی کے مخالف اور تمام افراد کے نظریات کو محترم شمار کرتے ہیں ۔

آیت الله بشیر نجفی نے ظهور امام زمانہ (عج) کو پوری دنیا کے لئے خوش ائند جانا اور کہا : منجی کا ظھور ایک ایسا امر ہے جس پر بہت سارے ادیان کو اتفاق نظر ہے ، خدا کی عنایتوں سے حضرت کے ظھور کے بعد معاشرہ سے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا ، بدحالی دور ہوگی اور ہر طرف عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا ۔