Super User

Super User

پیام حسینی، قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح، آیت اللہ کاظم صدیقیتہران کی عظیم الشان نماز جمعہ قائم مقام امام جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی کی امامت میں منعقد ہوئی۔ انہوں نے سب سے پہلے کربلا کے جانگداز واقعہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب با وفا کی شہادت کے موقع پر حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف اور تمام مسلمانان عالم اور محبان اہل بیت علیھم السلام کی خدمت میں تعزیت پیش کی۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے پہلے خطبے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے آفاقی انقلاب کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ سید الشہداء علیہ السلام نے قرآنی تعلیمات اور سیرت نبوی (ص) کے مطابق احیائے دین کے لیے انقلاب برپا کیا تھا، لہذا آپ کا پیغام قرآن و سنت کی تفسیر و تشریح ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نورانی ہستی قرآنی آیات میں متجلی ہے، آیات تطہیر، مودت اور مباہلہ وغیرہ، سورہ ہائے ہل اتی اور وہ آیات جن میں ایمان و تقوی، شہادت اور راہ خدا میں جہاد، ہجرت و ایثار وغیرہ اعلی اقدار کا ذکر ہوا ہے، ان میں حضرت سید الشہداء کی عرشی شخصیت کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح شیعہ و سنی مآخذ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں احادیث و روایت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جا بجا نقل ہوئي ہیں۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے انقلاب کربلا کے نمایاں پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا انقلاب ایک ہمہ گیر انقلاب تھا۔ آپ نے انسانیت کو حریت و آزادی، عزت و سربلندی، توحید و یکتا پرستی، عدل و انصاف، ایثار و قربانی، صبر و رضا اور دیگر اعلی اقدار سے روشناس کرایا۔ خطیب جمعہ تہران نے ظالم و جابر حکمران یزید کی بیعت سے انکار کو انقلاب حسینی کا ایک اہم پہلو قرار دیتے ہوئے کہا، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: مثلی لا یبایع مثلہ (میرے جیسا اس (یزید) جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا) اس قول کے ذریعے آپ نے ہمیں درس دیا کہ زمانے کی ظالم طاقتوں سے ساز باز نہ کریں اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔ خطیب جمعہ تہران نے یہ بھی کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی استعماری طاقتوں کا مقابلہ کیا۔ امام خمینی (رح) نے ثابت کیا کہ جب دین کی بنیادیں کمزور پڑ چکی ہوں اور اعلی اقدار پامال ہو رہے ہوں تو انقلاب حسینی کی پیروی کرتے ہوئے احیائے دین کی خاطر عوام کو اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انقلاب حسینی کا ایک اور نمایاں پہلو قرار دیتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے ابتدا سے ہی یزید کے خلاف اپنی تحریک کے محرکات بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ معاشرے میں برائیوں کو فروغ مل رہا ہے اور نیکیوں سے روکا جا رہا ہے لہذا اس صورت حال کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہونا ضروری ہے۔ آپ (ع) نے فرمایا: الا ترون ان الحق لایُعمل بہ و الباطل لا یُتناہیٰ عنہ۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں کیا جا رہا اور باطل سے روکا نہیں جا رہا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام ان حالات میں خاموشی کو جائز نہیں سمجھتے تھے، اسی لیے آپ نے یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ تہران کے خطیب جمعہ نے یہ بھی کہا کہ حضرت سید الشہداء کی تحریک کا ایک اہم مقصد اصلاح معاشرہ تھا۔ جب آپ نے دیکھا کہ معاشرے کے تمام شعبوں میں برائیاں پھیل رہی ہیں۔ فحاشی و فساد کو فروغ مل رہا ہے، عدل و انصاف قائم نہیں ہو رہا اور طبقاتی امتیاز نے اسلامی مساوات کی جگہ لے لی ہے تو آپ نے یزیدی حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے انقلاب حسینی کے ثمرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی پہلی نمایاں کامیابی اللہ تعالی کی طرف سے جو بڑی ذمہ داری آپ پر عائد کی گئي تھی، اس کا بنحو احسن انجام دینا ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے حکم کی بجا آوری کے لیے اپنے فرزند اور بیوی کو لق و دق صحرا میں چھوڑ دیا اور بیٹے کو بارگاہ الہی میں قربان کرنے کے لیے پیش کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں اپنے اصحاب و اعوان کے ساتھ شہید ہوئے اور اپنے اہل بیت (ع) کی قید و بند اور اسارت و یتیمی کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لیے آمادہ ہوئے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے ہمیں درس دیا ہے کہ سیاست و معیشت، اخلاقیات و معاملات اور زندگي کے تمام شعبوں کی بنیاد رضائے الہی ہونی چاہیے اور خدائی اصول کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں ہی اسلامی حکومت اور نظام ولی فقیہ کی کامیابی مضمر ہے۔ تہران کے خطیب جمعہ آیۃ اللہ کاظم صدیقی نے اپنے دوسرے خطبے میں سب سے پہلے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم شہادت کے موقع پر تعزیت پیش کرتے ہوئے انقلاب حسینی کے مقاصد کی تبلیغ میں آپ کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بنی امیہ کے تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجود اسیران اہل بیت (ع) اور حضرت امام زین العابدین (ع) نے ظلم و ستم کے درباروں کو ہلا کر رکھ دیا اور پیغام حسینی کو عام کیا۔ انہوں نے حضرت امام زین العابدین (ع) کی دعاؤں اور مناجات پر مشتمل کتاب صحیفۂ سجادیہ کو معاشرے کی نظریاتی بنیادوں کے استحکام اور لوگوں کی فکری نشو و نما کے لیے ایک قیمتی سرمایہ قرار دیا۔ خطیب نماز جمعہ نے گریہ و عزاداری کی ثقافت کے فروغ میں امام سجاد (ع) کے کردار کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام سجاد (ع) حسینیت کی پہچان ہیں۔

انہوں نے گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے مذاکرات اور دو ہزار تین اور دو ہزار چار میں ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگي کو روکنے کے سلسلے میں کہا کہ اس وقت یورینیم کی افزودگی کو ایک حکمت عملی کے تحت روک دیا گيا تھا اور جب ہم ان کے مقاصد سے آگاہ ہوئے تو ہم نے اپنا جوہری پروگرام جاری رکھا۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ مذاکرات ان طاقتوں کی طرف سے اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا اہم موقع ہے۔ لیکن انہوں نے ماضی کی طرح یہ افواہیں پھیلائیں کہ جنیوا مذاکرات میں ایران نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور ان کا یہ بیان کھلم کھلا جھوٹ پر مبنی ہے کہ ایران کے عدم تعاون کی وجہ سے جنیوا مذاکرات ناکام ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دینی و ثقافتی لحاظ سے اعتبار کا حامل ملک ہے اور ہمیشہ عالمی سطح پر مذاکرات اور مصالحتی عمل میں اپنا منطقی موقف رکھتا ہے اور گروپ پانچ جمع ایک کے ساتھ ایران کے مذاکرات بھی تعقل و تدبر اور احساس ذمہ داری و اتمام حجت کی بنیادوں پر انجام پاتے ہیں اور یہ مذاکرات ہمارے لیے مغربی طاقتوں کی صداقت و سچائي کو پرکھنے کی کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے لیے ہم اپنی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ آیت اللہ صدیقی نے کہا کہ اگرچہ گروپ پانچ جمع ایک نے اپنے گزشتہ موقف سے ہٹ کر عمل کیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم فراخدلی کا اظہار کرتے ہوئے امید رکھتے ہیں کہ مغربی طاقتیں اپنی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کریں گی اور اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گی۔ آیت اللہ صدیقی نے کہا کہ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ایران کی مذاکراتی ٹیم قابل اعتماد افراد پر مشتمل ہے اور اب تک کی ان کی کارکردگی، قومی عزت و وقار، حکمت و دانائی اور ملی مفادات کے مطابق تھی اور انہوں نے ہماری ریڈ لائن کو مدنظر رکھ کر مذاکرات کیے ہیں۔ انشاء اللہ امید ہے کہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے اور عوام بھی اپنے حکام پر اعتماد کا اظہار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوت ہمارے عوام اور حکومت کے درمیان اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہے اور مغربی جمہوریت، بادشاہت اور دوسرے نظاموں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا فرق یہ ہے کہ ہمارے نظام کی بنیادیں، مطلق العنانیت اور مغربی ڈیموکریسی کے اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی جمہوری اصول پر استوار ہیں۔ ہمارے نظام کی اساس اسلام کی زریں تعلیمات ہیں اور ہم اپنے قائد کے احکامات کے پیرو اور ایک ہی پرچم تلے متحد ہیں۔ ہمارے نظریات اسلامی اور انقلابی ہیں۔ تہران کے خطیب جمعہ نے یہ بھی کہا کہ ہماری حکومت، عوام اور تمام قوتیں قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی قیادت کے زیر سایہ نظام ولایت کی تابع ہیں اسی لیے ہم کبھی شکست سے دوچار نہیں ہو سکتے۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے آخر میں ایرانی قوم کو خراج تحسین پیش کیا جو حسینیت کے سرخ پرچم کو سربلند رکھنے میں پیش پیش ہوتی ہے چنانچہ عشرۂ محرم میں عوام نے نہایت عقیدہ و احترام کے ساتھ مجالس عزاداری قائم کیں اور جلوس ہائے عزا میں شرکت کر کے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں عزاداری شہدائے کربلا کی مجالس منعقد ہو رہی ہیں جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے آفاقی پیغام کو زندہ رکھنے میں اہمیت کی حامل ہیں۔

ایران نے تعاون کی راہ میں اہم قدم اٹھائے ہیں، یوکیا آمانوایٹمی انرجی کی عالمی ایجنسی آئي اے ای اے کے سربراہ یوکیا آمانو نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ایجنسی کےساتھ تعاون کی راہ میں نہایت اہم قدم اٹھائے ہیں۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق یوکیا آمانو نے جمعرات کی رات ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں نئي رپورٹ میں کہا ہےکہ ایران کے ساتھ تعاون کا نیا معاہدہ نہایت اہم قدم شمار ہوتا ہے۔ یوکیا آمانو کی اٹھارہ صفحوں پر مشتمل رپورٹ میں آیا ہے کہ ایران اور آئي اے ای اے نے معاہدہ کیا ہے کہ ایران ایجنسی کو معائنوں کی اجازت دے گا جن سے مسائل کے حل کی راہ کھلے گی اور ایران اگلے تین ماہ میں مزید عملی اقدامات انجام دے گا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئي اے ای اے ایران کی ان ایٹمی سرگرمیوں کو قانون کے مطابق سمجھتی ہے جو ایجنسی کی نگرانی میں جاری ہیں۔ اس رپورٹ میں یوکیا آمانو نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ آئي اے ای اے اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ یہ ضمانت دے سکے کہ ایران میں ایسا ایٹمی مواد نہیں ہوگا کہ جس کا اعلان حکومت نے نہیں کیا ہے اور یہ نتیجہ بھی نہیں اخذ کرسکتی کہ ایران میں سارے ایٹمی مواد پرامن سرگرمیوں کے لئے ہیں۔ اس رپورٹ میں آیا ہےکہ ایران نے گذشتہ تین مہینوں میں اپنی ایٹمی تنصیبات میں اضافہ نہیں کیا ہے اور ایجنسی اسے اعتماد سازی کی طرف ایک قدم سمجھتی ہے۔ آئي اے ای اے کے سربراہ بورڈ آف گورنرس کے اجلاس سے ایک ہفتے قبل نئي رپورٹ پیش کرتے ہیں۔

کربلا میں جحت حق کی جانب سے اتمام جحت

فرزندرسولخدا (ص) سیدالشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام نےلشکر حر اور اسی طرح روز عاشورا اپنے اعوان وانصار اور دشمن کی فوج کے سامنے جو خطبے دیئے اس کے بعض اقتباسات کا ذکر کریں گے ۔

لوگوں میں علم و آگہی پیدا کرنا اورغافل انسانوں پر حجت تمام کرنا ، امام حسین (ع) کا وہ شیوہ تھا جس پر آپ نے ہر جگہ اور ہر مناسب موقع پر استفادہ کیا ۔ چنانچہ امام (ع) جب حر کے لشکر میں شامل ہزاروں سپاہیوں کے محاصرے میں تھے اور جب خطرے کا نزدیک سے مشاہدہ کیا تو آپ نے ان کو موعظہ اور نصیحت کرنے کے لئے مناسب موقع جانا ۔ امام حسین (ع) کے فصیح و بلیغ خطبات، شکوک وشبہات رفع کرنے کا ایک موقع ہیں اور اگر دل اسے قبول کرنے پر آمادہ ہے تو اس سے ضرور اثر قبول کرے گا ۔ حضرت امام حسین (ع) اپنے خطبے کا آغاز، اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا (ص) کی ایک حدیث سے فرماتے ہیں ۔

اے لوگو پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا ہے ، ہر وہ مسلمان جو ایسے منھ زور سلطان یا بادشاہ کے بالمقابل قرار پاجائےجو حرام خدا کو حلال کرے اور عہد الہی کو توڑے اور قانون و سنت پیغمبر کی مخالفت کرے اور بندگان خدا کے درمیان معصیت کو رواج دے ، لیکن اس کے رویے اور طرز عمل کا مقابلہ نہ کرے تو خداوند عالم پر واجب ہےکہ اسے بھی اس طاغوتی بادشاہ کے ساتھ جہنم کے شعلوں میں ڈھکیل دے ۔ اے لوگوں آگاہ ہوجاؤ کہ بنی امیہ نے اطاعت پروردگار چھوڑکر اپنےاوپر شیطان کی پیروی واجب کر لی ہے انہوں نے فساد اور تباہی کو رواج دیا ہے اور حدود و قوانین الہی کو دگرگوں کیا ہے اور میں ان بد خواہوں اور دین کو نابود کرنے والوں کے مقابلے میں مسلمان معاشرے کی قیادت کا زیادہ حق رکھتا ہوں اس کے علاوہ تمہارے جو خطوط ہمیں موصول ہوئے وہ اس بات کے آئینہ دار ہیں کہ تم نے میری بیعت کی ہے اور مجھ سے عہدو پیمان کیا ہے کہ مجھے دشمن کے مقابلے میں تنھا نہیں چھوڑوگے ۔ اب اگر تم اپنے اس عہد پر قائم اور وفادار ہوتو تم رستگار وکامیاب ہو۔ میں حسین بن علی (ع) تمہارے رسول کی بیٹی فاطمہ زہرا کادلبند ہوں ۔ میرا وجود مسلمانوں کے وجود سے جڑا ہوا ہے اور تمہارے بچے اور اہل خانہ، ہمارے بچوں اور گھر کے افراد کی مانند ہیں ۔ میں تمہارا ہادی و پیشوا ہوں لیکن اگر تم ایسا نہ کرو اور اپنا عہدو پیمان توڑ دو اور اپنی بیعت پر قائم نہ رہو جیسا کہ تم ماضی میں بھی کرچکے ہو اور اس سے قبل تم نے ہمارے بابا ، بھائی اور چچازاد بھائی مسلم کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے ۔ ۔۔۔ تم وہ لوگ ہو جو نصیب کے مارے ہو اور خود کو تباہ کرلیا ہے اور تم میں سے جو کوئی بھی عہد شکنی کرے اس نے خود اپنا ہی نقصان کیا ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کردے گا ۔

امام حسین بن علی (ع) کا یہی وہ خطبہ تھا، جسے امام (ع) نے، حر اور ا سکے لشکر کے سپاہیوں کے سامنے ، کہ جس نے امام کا راستہ روک دیا تھا، اتمام حجت کے لئے اور ان کو حق کی جانب بلانے کے لئے ارشاد فرمایا تھا ۔اس خطبے کی چند خصوصیات قابل ذکر ہيں ۔اموی نظام حکومت کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے پیغمبر خدا (ص) کے اقوال کا ذکر، امام کی عظمت و منزلت کا بیان ،اپنے قیام اور تحریک کے علل واسباب کا ذکر اورمعاشرے کے افراد کے ساتھ امام کے رابطے کی نوعیت اور اس تحریک کے روشن افق کو بیان کرنا اس خطبے میں پیش کئے جانے والے موضوعات ہیں ۔

امام حسین (ع) کا قافلہ، ماہ محرم کی دوسری تاریخ کو کربلا میں وارد ہوتا ہے ۔ اس سرزمین پر امام (ع) اور ان کے خاندان اور اصحاب باوفا کے لئے حالات مزید سخت ودشوار ہوجاتے ہيں دشمن امام (‏ع) اور ان کے بچوں پر پانی بند کردیتے ہیں تاکہ شاید امام اور ان کے ہمراہ اصحاب ، اپنی استقامت کھو بیٹھیں اور ان کے سامنے تسلیم ہوجائیں لیکن ایسے حالات میں کربلا والوں نے ایثار وفداکاری کا ایسا اعلی ترین نمونہ پیش کیا جو رہتی دنیا تک کے لئے نمونۂ عمل بن گيا ۔

امام (‏ع) اچھی طرح جانتےتھے کہ میدان جنگ میں بڑے اور عظیم حادثوں کا متحمل ہونے کے لئے عظیم قوت برداشت کی ضرورت ہے ۔ اسی بناء پر ہر مقام پر اور ہر وقت اپنے ساتھیوں کو ایمان اور یقین کی بنیادیں مستحکم ہونے کی تلقین فرماتے تھے اورشب عاشور ، اصحاب و انصار نے خود کوامام پر قربان کرنے کے لئے آمادہ کرلیا تھا۔ شب عاشور ایسے اضطراب کی شب تھی جس کی مثال نہیں ملتی ۔ اس شب امام حسین (‏ع) نے اپنے اصحاب کوبلایا اور واضح طور پران سے کہا کہ ہماری شہادت کا وقت نزدیک ہے اورمیں تم پر سے اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں لہذا تم رات کی تاریکی سے استفادہ کرو اور تم میں سے جو بھی کل عاشور کے دن جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دے سکتا اس کے لئے اپنے گھر اور وطن لوٹ جانے کا راستہ کھلا ہوا ہے ۔ یہ تجویز درحقیقت امام حسین (ع) کی جانب سے آخری آزمائش تھی ۔ اور اس آزمائش کا نتیجہ، امام کے ساتھیوں میں جنگ میں شرکت کے لئے جوش وجذبے میں شدت اور حدت کا سبب بنا اور سب نے امام (ع) سے اپنی وفاداری کا اعلان کیا اور کہا کہ خون کے آخری قطرے تک وہ استقامت کریں گے اور آپ کے ساتھ رہیں گے، اوراس طرح سے اس آزمائش میں سرافراز و کامیاب ہوں گے۔

عاشور کی صبح آئی تو امام (ع) نے نماز صبح کے بعد اپنے اصحاب کے سامنے عظیم خطبہ دیا ایسا خطبہ جو ان کی استقامت اور صبر کا آئینہ دار تھا امام (ع) نے فرمایا اے بزرگ زادوں ، صابر اور پر عزم بنو ۔ موت انسان کے لئے ایک پل اور گذرگاہ سے زیادہ کچھ نہيں ہے کہ جو رنج و مصیبت سے انسان کورہائی دلاکرجنت کی جاوداں اور دائمی نعمتوں کی جانب لے جاتی ہے ۔ تم ميں سے کون یہ نہیں پسند کرے گا کہ جیل سے رہائی پاکر محل اور قصر میں پہنچ جائے جب کہ یہی موت تمہارے دشمن کے لئے قصر اور محل سے جہنم ميں جانے کا باعث بنے گی ۔ اس عقیدے کی جڑ خدا پر اعتماد اور یقین ہے اور یہ چیز صبر اور استقامت کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ۔ پھرامام (ع) نے اپنے لشکر کو ترتیب دیا اور پھر تیکھی نظروں سے دشمن کے بھاری لشکر کو دیکھا اور اپنا سر خدا سے رازو نیاز کے لئے اٹھایا اور فرمایا " خدایا مصائب و آلام اور سختیوں میں میرا ملجا اور پناہگاہ توہی ہے میں تجھ پر ہی اعتماد کرتا ہوں اور برے اور بدترین و سخت ترین حالات میں میری امید کا مرکز توہی ہے ۔ ان سخت و دشوار حالات میں صرف تجھ ہی سے شکوہ کرسکتا ہوں تو ہی میری مدد کر اور میرے غم کو زائل کردے اور آرام و سکون عطا کر ۔ صبح عاشور کی جانے امام (ع) کی اس دعا میں ، تمام تر صبر و استقامت کا محور خدا پر یقین و اعتمادہے بیشک خدا پر یقین اوراعتماد ، سختیوں کو آسان اور مصائب و آلام میں صبر و تحمل کی قوت عطا کرتا ہے ۔

حضرت امام حسین بن علی (ع) یہ دیکھ رہے تھے کہ دشمن پوری قوت سے جنگ کےلئے آمادہ ہے یہاں تک کہ بچوں تک پانی پہنچنے پر بھی روک لگارہا ہے اور اس بات کا منتظرہے کہ ایک ادنی سا اشارہ ملے تو حملے کا آ‏‏غاز کردے ۔ ایسے حالات میں امام (ع) نہ صرف جنگ کا آ‏غازکرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ چاہتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے دشمن کی سپاہ کو وعظ و نصیحت کریں تاکہ ایک طرف وہ حق و فضیلت کی راہ کو باطل سے تشخیص دے سکيں تو دوسری طرف کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے درمیان کوئی نادانستہ طورپر امام کا خون بہانے میں شریک ہوجائے اور حقیقت سے آگاہی اور توجہ کے بغیر تباہی اور بدبختی کا شکار ہوجائے ۔ اسی بناء پر امام حسین (ع) اپنے لشکرکو منظم کرنے کے بعد گھوڑے پر سوار ہوئے اور خیموں سے کچھ فاصلے پر چلے گئے اور انتہائی واضح الفاظ میں عمر سعد کے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ۔ اے لوگوں میری باتیں سنو اور جنگ و خون ریزی میں عجلت سے کام نہ لو تاکہ میں اپنی ذمہ داری کو یعنی تم کو وعظ ونصیحت کرسکوں اور اپنے کربلا آنے کا تمہیں سبب بتادوں اگر تم نے میری بات قبول نہيں کی اور میرے ساتھ انصاف کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تم سب ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنی باطل فکر اور فیصلے پر عمل کرو اور پھر مجھے کوئي مہلت نہ دو لیکن بہرحال تم پر حق مخفی نہ رہ جائے ۔ میرا حامی و محافظ وہی خدا ہے کہ جس نے قرآن کو نازل کیا اور وہی بہترین مددگار ہے ۔

یہ ہے ایک امام اور خدا کے نمائندے کی محبت و مہربانی کہ جواپنے خونخوار دشمن کے مقابلےمیں، حساس ترین حالات میں بھی انہیں دعوت حق دینے سے دستبردار نہیں ہوئے ۔ امام (ع) نے روزعاشورا باوجودیکہ موقع نہیں تھا تاہم لوگوں کو وعظ ونصیحت کی اور اپنے راہنما ارشادات سے لوگوں کو حق سے آگاہ فرماتے رہے اور یہ کام آپ پیہم انجام دے رہے تاکہ شاید دشمن راہ راست پر آجائیں ۔ امام (ع) اپنے خطبے میں لشکر عمر سعدکو یہ بتاتے ہیں کہ کوفے اور عمر سعد کے لشکر کے افراد یہ نہ سوچ لیں کہ میں ان خطبوں اور وعظ و نصیحت کے ذریعے کسی ساز باز یا سمجھوتے کی بات کررہا ہوں ۔ نہیں۔ میرا ہدف ومقصد ان خطبوں اور بیانات سے یہ ہےکہ میں تم پر حجت تمام کردوں اور کچھ ایسے حقائق اور مسائل ہیں کہ جنہیں امام کے لئے منصب امامت اور ہدایت و رہبری کے فرائض کے سبب لوگوں کو آگاہ کرنا اور انہیں ان سے باخبر کردینا ضروری تھا ۔

فلسطین: غزہ کے محاصرے پر تشویشفلسطینی و بین الاقوامی حکام نے غاصب صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ کے جاری محاصرے کے حوالے سے اس علاقے میں انسانی المیہ کے رونما ہونے کی بابت خبردار کیا ہے۔ فلسطین کی منتخب عوامی حکومت کی وزارت صحت کے ترجمان " اشرف القدرہ " نے غزہ کے محاصرہ شدہ علاقے میں دواؤں کی شدید قلت اور فلسطینی بیماروں کی تشویشناک صورت کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ فلسطین کی وزارت صحت کے ترجمان نے مصر و غزہ کی سرحدی پٹی میں واقع سرنگوں کے بند کیئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چار مہینوں سے غزہ کے محاصرہ شدہ علاقے میں کوئی دوا نہیں پہنچ سکی ہے اور میڈیکل اسٹوروں پر دواؤں خاصطور پر زندگی بچانے والی دواؤں کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے۔ فلسطینی ذرائع بتایا ہے کہ دواؤں کی قلت کے سبب 460 فلسطینی بیمار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور غزہ میں بنیادی صورت کی اشیاء خاصطور پر ایندھن کی ترسیل اس علاقے میں بند کردی گئی ہے۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کے شعبے کے ایک رکن نے غزہ کے علاقے میں بجلی کی بندش کو ایک بڑے بحران سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ بنیادی ضرورت کے عنوان سے بجلی کی بندش اس علاقے میں ایک بڑے انسانی المیہ کی خبر دے رہی ہے۔

سمندری طوفان ہیان فلپائن میں تباہی مچانےکے بعد ویتنام پہنچ گیافلپائن کو بری طرح متاثر کرنے کے بعد سمندری طوفان ہیان اب تباہی مچانے ویتنام پہنچ گیا ہے۔ تاہم اس کی شدت اب کم ہو گئی ہے۔ حکومت نے 6 لاکھ شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا ہے۔اب تک مختلف حادثات میں 6 افراد ہلاک ہو چکے۔ طوفان ہیان اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو نیست ونابود کرنے کے بعد آج صبح 100کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ویتنام کے شہرہیپونگ سے ٹکراگیا۔ فلپائن میں 10ہزار سے زائد لوگوں کو لقمہ اجل بنانے والا طوفان ہیان تیز ہواوٴں اور تیز بارش کے ساتھ نہ جانے اب ویتنام میں کتنی جانوں کی قربانی وصول کرے گا۔ طوفان کے خطرے کے پیش نظر حکومت نے پہلے ہی وارننگ جاری کر دی تھی۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تقریباً 6 لاکھ سے زائد شہریوں کو پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ تقریبا 4ہزار200 کشتیوں کو بھی محفوظ کیا جا چکا ہے۔ ویتنام کی حکومت کی جانب سے ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔تاہم لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 3دن تک کھانے پینے کی اشیا اپنے ساتھ رکھیں۔ سمندری علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ فوری طور پر کسی محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوجائیں

حزب اللہ لبنان، صرف راہ خدا میں قدمحزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ جبتک کسی راستے کے بارے میں خداوند متعال کی رضامندی کا یقین نہیں ہوجاتا حزب اللہ اس راستے پر قدم نہیں بڑھاتی۔ انھوں نے کل رات شب سات محرم کی مناسبت سے اپنی تقریر میں احمد قصیر کی شہادت پسندانہ کاروائی کو لبنان میں مزامت اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ سنہ انّیس سو بیاسی میں انجام پانے والی اس شہادت پسندانہ کاروائی سے غاصب صیہونی حکومت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا اور صیہونی فوج کے ایک سو بیس سے زائد فوجی و فوجی افسر ہلاک ہوئے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ احمد قصیر نے یہ شہادت پسندانہ کاروائی شہر صور میں صیہونی حکومت کے فوجی ہیڈکوارٹر میں انجام دی۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات بخوبی یاد ہے کہ اس کاروائی کے بعد ایریل شیرون نے، جو اس وقت مقبوضہ فلسطین کی غاصب صیہونی حکومت کے وزیر جنگ تھے، جائے واقعہ پہنچ کر گھبراتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا جبکہ ایریل شیرون ہی تھے جنھوں نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اب لبنان میں داخل ہوگیا ہے جہاں سے اس کا واپس جانا آسان نہیں ہوگا، مگر غاصب صیہونی حکومت کو لبنان چھوڑنا پڑا اور تحریک مزاحمت نے کامیابی حاصل کی اور یہ کامیابی شہادت پسندانہ کاروائیوں کی مرہون مّنت ہے۔

ترکی: عاشورہ لبیک یا زینبؑ کے نعروں کے ساتھ منائیں گےترکی کے رہنما نے کہا ہے کہ استنبول میں اس سال عاشورا کے دن ہزاروں عزادار حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے رہنما صلاح الدین اوزگوندوز نے کہا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی آواز پر لبیک کہنے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہم زینب سلام اللہ علیہا کے عباس ہیں ، عاشورا کے دن استنبول کے حالکالی کے علاقے میں ہزاروں عزادار جمع ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ برسوں کے بہ نسبت اس سال حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی خاطر ہمارے قلب زیادہ مغموم ہیں، اور یزیدی مشن پر چلنے والے دھشتگرد حضرت زینب کبری (س) کے حرم مطہر پر حملے کے لئے موقع کی تلاش میں ہیں، لیکن دوستداران حضرت زینب (س) ان دھشتگردوں کو یہ موقع نہیں دیں گے۔ ترکی کے شیعوں کے رہنما نے مزید کہ کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس سال عاشورا کو بھر پور طریقے اور جوش و ولولہ کے ساتھ منائیں۔ عاشورا کے دن ہم حضرت زینب (س) کی آواز پر لبیک کہیں گے تاکہ دشمن سمجھ جائیں کہ ہم کسی بھی قیمت پر بی بی زینب (س) کے حرم پر آنچ نہیں آنے دیں گے ، اور ہم عباس بن کر زنبیہ کا دفاع کرینگے۔

Sunday, 10 November 2013 09:11

جوان اور معنویت

جوان اور معنویت

جیسا کہ آپ جانتے ہیں، انسان بہت سے دوسرے موجودات عالم فطرت کی طرح ظہور ، ترقی و تنزل کے مراحل طے کرتا ہے ۔ انسان کی زندگی بچپن ، جوانی اور پیری تین مرحلوں پر محیط ہوتی ہے ۔سورہ روم کی آیت نمبر 54 میں ا ن تین مرحلوں کو یوں بیان کیا گیا ہے ، اللہ ہی وہ ہے جس نے تم سب کو کمزور پیدا کیا اس کے بعد تمہیں طاقت عطاکی اور پھر طاقت کے بعد تم میں کمزوری اور ضعیفی کو قرار دیا وہ جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے کہ وہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب قدرت بھی ہے ۔ زندگی کے ان تین مرحلوں میں انسان جوانی کے دور میں بہت سے کام انجام دے سکتا ہے ،اس لئے کہ یہ دور انسان کی طاقت اور صلاحیتوں کے عروج کا دور ہوتا ہے ،جوانی کام کاج ، سعی وکوشش اور امید ونشاط کا وقت ہے ، انسان کی زندگی میں بہت سی اہم تبدیلیاں اسی دوران رونما ہوتی ہیں اور اسی دوران فرد کی سرنوشت اور اس کے مختلف پہلو معین ہوتے ہیں ۔ اس نکتہ کے پیش نظر کہ انسان دنیا میں صرف ایک بار آتا ہے اور اس کی زندگی کا اہم ترین دور جوانی کا ہی دور ہوتا ہے اس لئے ہمیں چاہئیے کہ اس دور کی حساسیت کو درک کریں اوراس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں ۔ جوانی کا دور بہت ہی اہم دور ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اس دور میں مختلف انداز اور شکلوں میں پر ثمر اور بہتر طور پر استقادہ کرنے کی تاکید ہے ۔ زندگی میں جوانی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام جوانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انسان دو چیزوں کی قدروقیمت اور اس کی اہمیت کوانھیں کھودینے کے بعد ہی جانتا ہے ، ایک جوانی اور دوسری صحت وتندرستی ۔ جوانی کادور زندگی کا اہم ترین دور ہوتا ہے اگرچہ جوان کو پہلے مرحلے میں کسی قسم کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا اور وہ اپنی کھوئی ہوئی شخصیت کی تلاش میں رہتا ہے ،چنانچہ وہ اپنی اہم فطری صلاحیتوں پر توجہ کرے اور اپنے تشخص کو پالے اور اس سنہرے موقع سے استفادہ کرلےتو اس کی زندگی کی بنیادیں مضبوط ومستحکم ہوجائیں گي اور وہ منزل کمال تک پہونچ جائے گا ۔درحقیقت جوان کے اندر ذھنی طور پر یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کیونکہ وہ اس خالی اور زر خیز زمین کی طرح سے ہے جو بوئے جانے والے ہر بیج کو اگانے اور اس کی پروش کے لئے تیار ہے ۔

ایک جوان کواپنی اعلی ومضبوط جسمانی اور فکری طاقت اور توانائیوں کے ذریعہ روشن اور نامعلوم مستقبل کے لئے گراں بہا توشہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ صحیح وسالم منزل مقصود تک پہونچ سکے اور یہ توشہ وہی معنویت ہے جو خدا سے انس وقربت اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ معنویت کی پرورش اور معنی امور پر توجہ ایک جوان کو منزل سعادت وکمال تک پہونچاسکتی ہے ۔ معنویت کی طرف رجحان ایک ایسی صفت اور خصلت ہے جو نوجوانوں کو زیور زینت سے آراستہ کردیتی ہے اور نئی نسل ہر زمانے میں دنیا کی اصلاح اور عدل وانصاف کو پھیلانا چاہتی ہے ۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بھی جوانی میں خود سازی ،تربیت اور تہذیب نفس کی اہیمت کے بارے میں جوانوں کومخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ آپ لوگ ابھی سے جہاد اکبر ( خود سازی ) کے لئے کھڑے ہوجائیں اور اپنی جسمانی طاقت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اصلاح کے بارے میں اپنی جوانی کو بڑھاپے تک نہ پہونہچنے دیں ، انسان جب تک جوان ہے اور اس کے جسم میں طاقت اور اس کی روح لطیف ہے اوراس میں برائیوں کی جڑیں مضبوط نہیں ہوئی ہیں لہذا وہ اپنی اصلاح کرسکتا ہے ، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے جوانو:تم بہتر طریقہ سے اپنے نفس کو پاک کرسکتے ہو کیونکہ خدا سے زیادہ قریب ہو ۔

جوانی میں معنویت کا اثر یہ ہے کہ سماج میں اس کا احترام کیا جاتا ہے ۔ جوان معنویت اور پاکیزہ سیرت کے ذریعہ اپنے اعلی ونیک مزاج اور افکار کا اعلان کرتا ہے اور اپنے نیک اور اچھے اخلاق وکردار سے خدا سے انس وقربت حاصل کرنے میں دوسروں پر برتری حاصل کرتا ہے ،دوسرے بھی اس کا احترام کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خدا کی یاد اس سے قریب ہونے کی کوشش جوانوں کو دل وجان سے اپنی طرف مشغول کرلیتی ہے ، ایسا جوان جس نےمعنویت کی لذت کو چکھ لیا ہے وہ اس لذت کو دنیا کی فانی اور نقصان دہ لذتوں سے عوض نہیں کرتا ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام بھی اس بڑے معنوی اثر پر تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ { دین انسان کی حفاظت کرتا ہے }

نماز ،روزہ ، توسل اور قرآن کریم کی تلاوت سے انسان کو قلبی سکون ملتا ہے جو مادی امور سے ہرگزنہیں حاصل ہوسکتا ۔ دوسری طرف روحانی اور معنوی امور کی طرف توجہ دینے سے انسان کو ایسا سکون ملتا ہے کہ اسے کبھی بھی تنہائی اور ذلت و خواری کااحساس نہیں ہوتا ۔ سورہ مریم کی آیت نمبر 96 میں ارشاد ہے کہ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے عنقریب خدا لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا کردےگاجس کے مطابق جوان معنویت اور تہذیب نفس کے ذریعہ اپنے لئے سکون فراہم کرتا ہے اور اس کی محبت میں لوگوں کے دل اس کی طرف جھک جاتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اپنی زندگی کے باقی مراحل کے لئے سکون و اطمینان کے ساتھ قدم اٹھاتا ہے ۔ جوان جب معنوی امور کی طرف توجہ دیتا ہے تو اس کا ایک اثر یہ ہے کہ جوان شجاع ودلیر ہوجاتا ہے اور وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔ جو اپنی زندگی میں روحانی اور معنوی امور سے بہرہ مند ہوتا ہے وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والےتمام واقعات اور پیش آنے والے مسائل خدا کے ہاتھ میں ہیں اور اس نے دنیا کو انسان کی ترقی وکمال کے لئے پیدا کیا ہے لہذا وہ اپنے ہدف تک پہونچنے کے سلسلے میں نامساعد حالات اور مشکلات سے نہیں گھبراتا اور سعادت وکمال کے راستے میں اگر خطرناک دشمنوں کا سامنا بھی ہوتا ہے تو وہ پریشان نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس شجاعت وبہادری کے ساتھ تمام مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے ۔جوان لوگ معنوی امور پر توجہ اور اپنے اندر مذھبی حس پیدا کرکے مستقبل میں پیش آنے والی بہت سی مشکلات کو دورکر سکتے ہیں ۔جو شخص معنویت کو زیادہ اہمیت دیتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جس کی پشت پر کوئ طاقتور انسان ہو جو پر خم وپیچ راستوں میں اس کی مدد کررہا ہو ۔ بنا بر ایں اس طرح کے افراد ان لوگوں کے مقابلے میں یقینا کامیاب وکامران ہیں جو معنوی امور پر زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔

قرآن کریم فطری طور پر انسانی کمال و ترقی کے لئے ہدایت وتربیت کی بہترین کتاب ہے اس لئے اس کتاب مقدس سے بہرہ مند ہونے کے لئے بہترین زمانہ اور وقت جوانی کا دور ہے اور انسان کی فلاح ورستگاری کے لئے یہ عقلانی ترین روش ہے کہ انسان جوانی میں قرآن کریم سے مانوس ہو ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جوشخص جوانی میں قرآن سیکھتا یا مانوس ہوجاتا ہے تو قرآن اس کے خون اور گوشت میں اس طرح سے رچ بس جائےگا جس طرح سے خون انسان کی رگوں میں دوڑنے لگتاہے ۔ فطری بات ہے کہ اگر قرآن کریم انسان کے خون اور گوشت میں رچ بس جائےگا تو اسے قرآنی تربیت حاصل ہوگی اور اسےقرآن کریم کی پاک اور معنوی زندگی مل جائے گي اور وہ خودبھی فلاح و نجات پائے گا اور معاشرے کی فلاح ورستگاری کا بھی باعث بنے گا ایسا انسان حقیقی صالحین کا مصداق ہے جس کے فقدان سےانسانیت رنج ومصیبت میں مبتلا ہے ۔

جوانی کادور ہر انسان کے لئےشیرین اور زندگی کا بے مثال موسم شمار ہوتا ہے اگر چہ یہ دور طولانی نہیں ہے مگر اس کے یادگار اور طویل اثرات انسان کی زندگی میں ہمیشہ باقی رہتے ہیں ، اسی لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی زندگی کا فیصلہ کن دور جوانی کا دور ہوتا ہے ۔ ان نکات کے پیش نظر رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت العظمی خامنہ ای جوانوں سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ جوان طبقہ اپنے پاک اور نورانی دلوں ، نفس اور پاکیزہ زندگی کو خدا کی محبت اور یاد کے علاوہ دوسری چیزوں سے آلودہ کرے ، رہبر انقلاب اسلامی جوانوں سے خطاب میں فرماتے ہیں کہ تم لوگ دنیا کو صرف ایک وسیلہ قرار دو ، آپ ا س مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ۔ قرآن کریم نےہماری توجہ کواس بنیادی مس‍ئلےکی طرف مبذول کرایا ہے کہ خداکی سمت حرکت پاکیزہ زندگی ہے ۔سورہ انفال کی چوبسویں آیت میں خدا ارشاد فرماتا ہےکہ اے ایمان والوں اللہ ورسول کی آواز پو لبیک کہو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف دعوت دیں جس میں تمہاری زندگی ہے اور یاد رکھوکہ خداانسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور سب کواس کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا ، خدا ورسول نے اس آیت میں تمہیں پاکیزہ زندگی گذارنے کی دعوت دی ہے ۔ پاکیزہ زندگی یہ ہے کہ انسان کی زندگی خدا کی راہ میں اور اعلی اہداف تک پہونچنے کے لئے ہو ۔ اعلی ہدف یہ ہے کہ انسان کو خدا کی قربت حاصل ہو اور اس کی زندگی نیک اور اچھے اخلاق سے مزین ہو ۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ اعلی ہدف تک پہونچنے کے لئے مادی اور معنوی دونوں وسائل کی ضروت ہے تاکہ ان وسائل کے ذریعہ انسان میں تحرک پیدا ہو اور وہ خدا اور پاک وپاکیزہ زندگی کی طرف اپنا قدم بڑھائے ۔

انسان کے سقوط میں ریاکاری کاکردارمعاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جو صرف دوسروں کو خوش کرنے یا اپنے عمل کو ظاہر کرنے کی نیت سے کام کرتے ہیں اس طرح کے افراد اپنے کاموں میں خداکی مرضی کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ اپنے رفتار وکردار میں خدا کو نظر انداز اور حد سے زیادہ ظواہر پر توجہ کرنے سے ریا کاری پیدا ہوتی ہے اور اس طرح کے افراد کو ریاکار کہا جاتا ہے ۔

ریا ایک ناپسند خصلت ہے کہ انبیاء کرام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بڑی شدت کے ساتھ اس سے منع کیا ہے کیونکہ ریاکاری انسان کو شرک کی طرف ڈھکیل دیتی ہے اور انسانیت کے مرتبے سے اس کے سقوط کا باعث بنتی ہے ۔

ریا کے لغوی معنی تظاہر اور خود نمائی کے ہیں اور اصطلاح میں اس نیک اوراچھے کام کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کے لئے نہیں بلکہ تظاہر ،خود نمائی اور لوگوں کو دکھانے کے قصد سے انجام دیتا ہے یہ کام چاہے عبادی ہوں جیسے نماز چاہے غیر عبادی ہوں جیسے دوسروں کی مدد کرنا ۔ریاکار شخص دوسروں کی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے اس کے کام کو دیکھیں اور اس کی تعریف کریں حالانکہ خلوت اور تنہائی میں وہ اس کام کو انجام دینا نہیں چاہتا بلکہ اسے چھوڑ دیتا ہے ۔درحقیقت ریاکار دوسروں کو دکھانے کی غرض سے کام انجام دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ لوگ اس کی تعریف اور تمجید کریں اگر اس کی تعریف نہ کی جائے تو وہ دوبارہ اس عمل کو انجام نہیں دیتا ۔

ریا کاری سے انسان کا عمل نابود ہوجاتا ہے اوراس کےعمل کو اندر سے دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا عمل بے اثر اور بیکار ہوجاتا ہے۔ ریا کی نیت سے عبادت کرنے والی کی فکر یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی عبادت اور عمل کو پسند کریں اس کی توجہ اس طرف قطعانہیں ہوتی کہ خدا بھی اس کی عبادت یاعمل کو پسند کرتا ہے یا نہیں ! حالانکہ مؤمن کا عقیدہ ہے کہ خدااپنے بندوں کے اعمال کو دیکھتا ہے اور نیک کام کرنے والوں کو ضرور پاداش دے گا۔بنابر ایں اسے لوگوں کی طرف کسی چیز کی نہ تو توقع ہوتی ہے ناہی تعریف وتمجید کا خواہاں ہوتا ہے ۔

ممکن ہے کہ شروع میں انسان ریاکاری پر مبنی عمل اور اس عمل کے درمیان تشخیص نہ دے سکے جسے بغیر ریاکاری کے انجام دیا ہے ۔ ریاکاری کی پہلی اور روشن علامت احسان جتانا ہے ۔اگر انسان کوئی کام انجام دے کر لوگوں پر احسان جتائے تو اس کے عمل کا اجر اور ثواب ختم ہوجاتا ہے ۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر دوسو چونسٹھ میں ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! اپنے صدقات کو منت گذاری اور اذیت سے برباد نہ کرو اس شخص کی جو اپنے مال کو دنیا کو دکھانے کے لئے صرف کرتاہے اوراس کا امیان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس کی مثال اس صاف چٹان کی ہے جس پر گرد جم گئی ہوکہ تیز بارش کے آتے ہی بالکل صاف ہوجائے ،یہ لوگ اپرنی کمائی پوبھی اختیار نہیں رکھتے امو اللہ کافروں کی ہدایت نہيں کرتا ۔اس آیت میں منت گذاری ،اذیت اور ریاکاری کو ایک ہی ردیف میں شمار کیا گیا ہے اور انھیں اعمال وصدقات کی بربادی اور بطلان کا سبب قرار دیاگیا ہے حتی اس آیت کے مطابق ریاکار شخص خدا وآخرت پر ایمان نہیں رکھتا ۔

اسلام کی نظر میں ریاکاری ایک مذموم عمل ہے جو ریاکاری کرتا ہے وہ مؤمن نہیں ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ریاکاری مکمل شرک ہے ۔جو لوگوں کے لئے کام کرتا ہے اس اجرت لوگوں پر ہے اور جو خدا کے لئے کام کرتاہے اس کا اجر اور ثواب خدا کے ذمہ ہے ۔ عبادات میں سب سےا ہم مسئلہ نیت کا ہے ۔ نیت ہر عبادت کی روح شمار ہوتی ہے اور عبادت کی اہمیت اور قبولیت کا تعلق بھی نیت سے ہے ۔ اگر نیت میں اشکال ہو اور خدا کے لئے نہ ہو اگر چہ وہ عبادت کتنی ہی اہم اور بڑی کیوں نہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ہم اپنے روز مرہ کی عبادات اورمسائل میں بھی نیت کی اہمیت کے بہت زیادہ قائل ہیں اور خالص نیت سے انجام پانے والے کاموں کی قدر کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر تمہارا دوست ملاقات کے وقت تم سے خیریت پوچھتے وقت تم پر قربان اورفدا ہونے کے الفاظ استعمال کرے اور کہے کہ میں تمہیں بہت زیادہ چاہتا ہوں، تمہاری بہت زیادہ یاد آرہی تھی اگر تم یہ جان لو کہ اس نے یہ تمام باتیں محبت میں کہی ہیں تو اس کی یہ باتیں تمہارے لئے بہت ہی اہم اور قابل قدر ہوں گی جس کے نتیجے میں تم بھی اس سے زیادہ محبت کرنے لگو گے ۔لیکن اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ اس نے یہ باتیں تمہیں فریب دینے کے لئے کہی ہیں تاکہ تم سے فائدہ اٹھائے تو تم کبھی بھی اس کی باتوں پر توجہ نہیں دوگے اور ناہی اس کے احترام کے قائل ہوگے ۔ بلکہ وہ جتنا بھی ان باتوں کو دوہرائے گا اس سے نفرت بڑھتی جائے گی ۔ ظاہر میں دونوں کا عمل ایک جیسا ہوگاکیونکہ نیت سے عمل کا پتہ چل جاتاہے ۔بنابرایں یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ مؤمن اور ہوشیار افراد کام کی اہمیت کے بارے میں اس کے ظاہری آثار کو نہیں دیکھتے ہیں بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے کس نیت سے اس کام اور عمل کو انجام دیا ہے ۔

ریاکاری کے مقابلے میں اخلاص ہے ۔اخلاص یہ ہے کہ انسان کام کو صرف خدا کی مرضی اور اس کے فرمان کی انجام دھی کے قصد سے انجام دے اس کے علاوہ دوسرا کوئی قصد یا نیت نہ ہو ۔ ایسا شخص اپنے عمل کو کبھی بھی دوسروں کو دکھانے کے لئے انجام نہیں دے گا تاکہ لوگ اس کی تعریف کریں بلکہ صرف خدا کے لئے انجام دیتا ہے ۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کوئی دوسروں کے سامنے کوئی عمل انجام دے اور لوگ اس کی تعریف کریں لیکن اہم یہ ہے کہ اس نے کسی کو دکھانے کے لئے یہ عمل انجام نہیں دیا ہے بلکہ صرف خدا کے لئے انجام دیا ہے ۔البتہ قابل ذکر ہے کہ انسان خلوص نیت سے اور صرف خدا کے لئے عمل انجام دے ۔ بعض مواقع پر دوسروں کی موجود گی میں عبادت کرنا یاعمل انجام دینا ایک امر مستحب ہے ۔ سورہ ابراہیم کی اکتسیویں آیت میں انفاق کے بارے ارشاد ہوتاہے کہ آپ میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازیں قائم کریں اور ہمارے رزق میں سے خفیہ اور علانیہ ہماری راہ میں انفاق کریں ۔

کسی بھی عمل کو ریاکاری سے محفوظ رکھنا بہت بڑا کام ہے ،جو بھی خدا کے لئے کام کرے اور اپنے اعمال کو صرف خدا کی مرضی کے لئے انجام دے تو خدا کے نزدیک اس کا مقام بلند اور بالا ہے ۔ سورہ انسان پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت اطہار علیہم السلام یعنی حضرت علی علیہ السلام ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ،حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کے خالصانہ عمل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ اس گھرانے نے تین روز متواتر اپنے افطار کو مسکین ، یتمیم اور اسیر کودئیے اور اس عمل کو صرف خدا اور اس کی مرضی کے حصول کے لئے انجام دئیے لہذا خدا وند متعال نے ان کے خالصانہ عمل کو قبول کرلیا اور ان کے کام کی تمجید میں سورہ انسان کو نازل فرمایا تاکہ وہ سب کے لئے نمونہ عمل قرار پائیں ۔

بعض علماء اور عرفاء بیان کرتے ہیں اگر آپ ریا کاری سے بچنا چاہتے ہیں حتی آپ نے نیک عمل کرنے کا جو ارادہ کیا ہے وہ بھی آپ کے ذھن میں نہ آئے اور صرف یہ کہے کہ خدا کا لطف وکرم تھا اور اس عمل سے آپ لذت محسوس کریں اور بار بار اپنے ذھن میں اس عمل کو دہراتے رہیں تودر حقیقت آپ نے اپنے عمل کے خلوص میں کمی کی ہے ۔ پس اگر آپ نے کسی کی مدد کی ہے یا آپ نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے ، خدا کے لئے قلم چلایا ہے اور خدانے جو حکم دیا ان سب پر عمل کیا ہے تو انھیں بار بار اپنے ذھن میں لانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ریا مادہ رائ سے ہے جس کے معنی رویت اور دیکھنےکے ہیں ۔ عمل کی تکرار کے ساتھ انسان اپنے عمل کو جو انجام دیا ہے اسے بہت بڑا دیکھے گااسی لئےوہ اپنی تعریف وتمجید کی زيادہ سے زیادہ امید بھی رکھے گا ۔ریا کاری سے بچنے کا ایک راستہ اپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہے یعنی ہر شخص کو اپنے روزانہ کے عمل کا محاسبہ کرنا چاہئیے اور اپنے رفتار کردار اور اپنے تمام کاموں کا جائزہ لینا چاہئیے ۔اس عمل سے انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی نیت کے بارے زیادہ دقت کرے اور اپنے ظاہری اور باطنی تمام کاموں کے بارے میں اپنی نیت کو پہچانے اور اس سلسلے میں وہ سستی سے کام نہ لے ۔ کام کے بارے میں اس محاسبہ سے اسے ریاکاری کو پہچاننے میں مدد ملے گی ۔

کتاب چہل حدیث کے باب محاسبہ میں موجود بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحتوں پر ختم کررہے ہیں ۔ اے عزيز ! تم غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور کام کے بارے میں غور وفکر کرو اور اپنے نامہ اعمال پر نظر ڈالو اور ان اعمال سے ڈرو جن اعمال کو تم نے عمل صالح کی نیت سے انجام دیاہے ،جیسے نماز ،روزہ اور حج وغیرہ یہ اعمال کہیں عالم آخرت میں تمہارے لئے ذلت وگرفتاری کا سبب نہ بن جائیں ۔ تم دنیا میں اپنے اعمال کا حساب کتاب کرلو کیونکہ یہ بہترین موقع ہے اور اگرتم اس دنیا میں اپنا محاسبہ نہیں کیا اور اپنا حساب کتاب درست نہیں کیا تو قیامت کے دن جب تمہارے اعمال کا جائزہ لیا جائےگا تو تم بڑی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ گے ، حساب کتاب کے وقت خدا کے انصاف سے ڈرو اور غرور وتکبر سے پرہیز کرو اور نیک عمل کے سلسلے میں جد وجہد کرنے سے کبھی بھی دریغ نہ کرو۔

رہبر معظم کا مرحوم حبیب اللہ عسکر اولادی کے انتقال پر تعزیتی پیغامرہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے حضرت امام (رہ) کے وفادار،صادق، معتمد اور مجاہد دوست آقائ حاج حبیب اللہ عسگر اولادی کے انتقال پر تعزیتی پیغام ارسال کیاہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امام (رہ) کے وفادار،صادق، معتمد اور مجاہد دوست آقائ حاج حبیب اللہ عسگر اولادی کے انتقال کی دردناک خبـر انتہائی افسوس اور رنج و غم کے ساتھ موصول ہوئي ۔اس مجاہد اور مبارز انسان نے اپنی بابرکت عمر کو اسلام کی خدمت اور انقلاب اسلامی کےقیام کے سلسلے میں بسر کیا اور جوانی سے لیکر عمر کے آخری برسوں تک اس راہ میں اپنی مخلصانہ مجاہدت، تلاش و کوشش اور ہمت میں کوئي کوتاہی نہیں کی، طاغوت اور ستم شاہی کےدور میں مجاہدت اور جہاد کے ابتدائی ایام سے ہی قوم ، علماء اور حضرت امام (رہ) کے ساتھ پر خطر صفوف میں حاضر ہوئے اور کئی سال تک قید کی صعوبتوں پر بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور انقلاب اسلامی کی کامیابی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے بعد حساس اور مؤثر عہدوں پر مخلصانہ خدمات سرانجام دیتے رہے اور اپنی عمر کے آخری لمحات تک کام اور تلاش و کوشش میں مصروف رہے ۔ اللہ تعالی سے مرحوم کے لئے رحمت اور فضل طلب کرتا ہوں اور مرحوم کے پسماندگان اور دوستوں کو تعزيت اور تسلیت پیش کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای

14/آبان/ 1392