
Super User
آزاد خود مختار ملک پر حملے کا کوئی حق نہیں
جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے امریکہ کو یہ حق نہیں کہ خود ہی ہتھیار اٹھا کر شام پر چڑھائی کر دے ان کا کہنا تھا اقوام متحدہ امریکہ کو شام پر حملے کی اجازت دے یا نہ دے، کانگریس سے اجازت ملے یا نہ ملے اور امریکی صدر جو بھی اختیارات رکھتا ہو، اسے کسی بھی آزاد خود مختار ملک پر حملے کا کوئی حق نہیں۔
، جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ ہم امریکہ کے اس کردار کی مخالفت کرتے ہیں اور عالمی برداری سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس حوالے سے امریکہ کو کسی بھی قسم کی جارحیت کرنے کی اجازت نہ دے۔ “
ان کا کہنا تھا امریکہ دنیا کا گاڈ فادر نہیں، اسکی غلامی میں ساری دنیا نہیں آسکتی۔ امریکہ کے اس کردار سے عالمی امن تباہ ہوسکتا ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا میں انصاف پسند اور اقدار پر یقین رکھنے والی قوتوں کو شام کے خلاف حملے کے امریکی موقف کی مخالفت کرنی چاہیے۔ اس سے پہلے مصر میں شب خون مارا گیا، افغانستان اور عراق کو تہہ تیغ کیا گیا اور اب شام میں ایسا کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
لیاقت بلوچ نے یہ بات زور دے کر کہی کہامریکہ اس وقت بدمست ہاتھی بنا ہوا ہے، اس لیے تمام مظلوم ملکوں کو اب متحد ہونا ہوگا
اورہم عالمی برداری سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شام پر حملے کے حوالے سے امریکہ کو کسی بھی قسم کی جارحیت کرنے کی اجازت نہ دے۔ ۔
حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجده جناب " یوکابد" اور آپ کی بہن جناب کلثوم اور آپ كي بيوي جناب صفورا
جناب عمران کی زوجہ اور حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ " یوکابد" کے یہاں جب حضرت موسی کی ولادت ہوئی تو آپ بہت زیادہ مضطرب و پریشان ہوئیں کیونکہ فرعون نجومیوں کی بیان کردہ تعبیر کے مطابق اس خبر سے بے حد پریشان تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس کے قصر ظلم کو نیست و نابود کردے گا اسی بناء پر فرعون نے حکم دیدیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو بھی بچہ پیدا ہو اسے قتل کردیا جائے اور یوکابد کا بچہ بھی اسی برے زمرے میں شامل تھا لیکن ایسے گھٹن کے ماحول میں جو چیز ان کے سکون و اطمینان کا سہارا تھی وہ خداوندعالم پر ان کا ایمان تھا اور آپ اپنے بیٹے کی جان کی حفاظت کے لئے ہمیشہ اسی سے التجا و فریاد کرتی تھیں ۔ ایسے حساس ماحول میں پروردگار عالم نے یوکابد کے بچے کی حفاظت کے لئے ان کی طرف وحی کی جس کو قرآن کریم نے سورہ قصص کی ساتویں آیت میں بڑے ہی خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے ارشاد ہوتا ہے : اور ہم نے مادر موسی کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور بالکل ڈرو نہیں اور پریشان نہ ہو کہ ہم اسے تمہاری طرف پلٹا دینے والے اور اسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں ۔
حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کا ایمان اور خدا پراعتماد اس بات کا سبب بنا کہ انہوں نے الہام الہی کے بعد کسی بھی طرح کی کوئی استقامت و مخالفت ظاہرنہیں کی بلکہ ماں کی محبت و ممتا اور احساس و جذبات کے باوجود خداوندمتعال کے حکم کی اطاعت کی اور اپنے بیٹے کو لکڑی کے صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کی موجوں کے حوالے کردیا ۔
یوکابد ایک متقی و پرہیزگار خاتون تھیں اور ان کا دل ایمان الہی سے مملو تھا خداوندعالم کی ذات پر ان کا مکمل بھروسہ واعتماد اس بات کی علامت ہے کہ عورتوں میں احساس و جذبات کے ذریعے خدا سے قریب ہونے کا ذریعہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے ۔ جب یوکابد نے خدا پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنے نور نظر کو دریائے نیل کی موجوں کے حوالے کردیا تو دریا کی موجوں نے حضرت موسی کو قصر فرعون تک پہنچادیا پروردگار عالم نے یوکابد کے بیٹے پر اپنا لطف و کرم کیا اور فرعون نے بھی آسیہ کی نصیحتوں کی بناء پر نہ صرف یہ کہ موسی کو قتل نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے محل میں رہنے تک کی اجازت بھی دیدی ۔
حضرت موسی علیہ السلام بہت زیادہ بھوکے تھے اور دھیرے دھیرے ان کی بھوک میں شدت آرہی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت ہی بے چین و مضطرب ہوکر بار بار گریہ کررہے تھے ان کے رونے کی آواز فرعون کے محل میں گونجتی ہوئی ملکہ تک پہنچی جسے سن کر ملکہ لرز گئی ۔ فرعون کے سپاہیوں نے اس روتے ہوئے بچے کو سیراب کرنے کے لئے بہت سی دایہ کا انتظام کیا لیکن موسی نے کسی بھی دایہ کا دودھ نہیں پیا اگر چہ حضرت موسی کی والدہ نے خدا پر اعتماد و توکل کے ذریعے خود کو مطمئن کرلیا تھا لیکن حضرت موسی کے مستقبل کے حالات سے باخبر ہونا چاہتی تھیں اس لئے آپ نے موسی کی بہن کلثوم سے کہا کہ ان کے حالات پر نظر رکھیں اور انہوں نے ماں کے حکم کو بہترین طریقے سے نبھایا اور خود کو فرعون کے محل میں پہنچادیا تاکہ اپنے بھائی کے حالات معلوم کرسکیں ۔فرعون کے سپاہی کلثوم کو نہیں پہچانتے تھے فرعون کے مخصوص سپاہی بچے کو لے کر محل سے باہر آگئے تھے تاکہ ان کے لئے کوئی دایہ تلاش کریں عین اسی وقت موسی کی بہن کلثوم نے دور سے حضرت موسی کو دیکھا اور بہت ہی فراست وعقلمندی سے کہا کہ : " ميں ایک ایسی عورت کو پہچانتی ہوں جو اس بچے کو دودھ پلا سکتی ہے کیونکہ اس کا نومولود بچہ اس سے بچھڑ گیا ہے اور وہ آپ کے بچے کو دودھ پلانے کے لئے آمادہ ہے ۔ فرعون کے سپاہی بہت زیادہ خوش ہوگئے اور ان سے کہا کہ فورا اس عورت کو محل میں لے کر آؤ کلثوم کو جیسے ہی سپاہیوں نے اجازت دی وہ خوشی خوشی اپنی مادر گرامی کے پاس آئیں اور حضرت موسی کی سلامتی کی خبر دیتے ہوئے انہیں فرعون کے محل میں لے کر آگئیں ۔
یوکابد نے جب پروردگارعالم کے وعدے کو پورا ہوتے ہوئے دیکھا تو شکر الہی بجالاتے ہوئے خدا کے اولوالعزم پیغمبر کو آغوش میں لے لیا اور اپنے نورنظر کو دودھ پلاکر سیراب کردیا ۔ جی ہاں صرف یوکابد جیسی ماں ہی سزاوار تھیں جو خدا کے عظیم پیغمبر موسی کو دودھ پلاکر سیراب کریں کیونکہ خداوندعالم نہیں چاہتا تھا کہ موسی علیہ السلام حرام دودھ سے سیراب ہوں بلکہ وہ اپنے ماں کےطیب و طاہر اور پاکیزہ دودھ سے پروان چڑھیں تاکہ دشمنان خدا کے خلاف قیام کرسکيں اور مشرکوں اور ظالموں سے جنگ کریں اور اس طرح حضرت موسی علیہ السلام اپنی ماں کی آغوش عطوفت میں واپس پہنچ گئے ۔
فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ موسی کو ماں سے جدا ہوئے صرف ابھی تین ہی دن گذرے تھے کہ خدا نے بچے کو ماں سے ملا دیا ۔یوکابد نے دودھ بڑھائی کے بعد موسی کو آسیہ کے سپرد کردیا اور حضرت موسی فرعون کے محل میں آسیہ کے پاس پروان چڑھنے لگے ۔ یوکابد جیسی عظیم خاتون کی داستان زندگی ایمان ، یقین اور خدا پر کامل اعتماد سے پر تھی اور ہر زمانے و ہرنسل میں کمال و بلندی چاہنے والوں کے لئے لائق پیروی ہے ۔
حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی سنوارنے اورنکھارنے میں جن دوسری خواتین نے اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ان میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی اور آپ کی شریک حیات جناب صفورا تھیں حضرت موسی ابھی جوانی کی بہاریں ہی دیکھ رہے تھے کہ فرعون کی جانب سے دھمکیاں شروع ہوگئیں اور موسی نے مصر کو ترک کرکے خدا پر امید و اعتماد رکھتے ہوئے سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے مدین کی طرف روانہ ہوگئے وہ کئ دنوں تک برہنہ پا چلتے رہے اور جب اس سرزمین پر پہنچے تو وہاں دو لڑکیوں کو دیکھا جو کنویں کے پاس کھڑی تھیں اور اپنی بکریوں کے لئے پانی بھرنا چاہتی ہیں لیکن مردوں کی بھیڑ کی وجہ سے وہ کنویں تک نہیں پہنچ پارہی ہیں حضرت موسی نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ اس بیابان میں کیا کررہی ہو انہوں نے کہا کہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے ہم بکریاں چرانے نکلے ہیں کیونکہ میرے والد بہت ہی ضعیف ہیں اور ہمارے علاوہ ان کا کوئی نہیں ہے۔حضرت موسی نے لوگوں سے کہا تم لوگ کتنے خود غرض ہو کہ صرف اپنی ہی فکر میں مست و مگن ہو اور ذرہ برابر بھی ان عورتوں کی مدد نہیں کررہے ہو ؟ پھر حضرت موسی علیہ السلام ان کی مدد کے لئے گئے اور ان کی بکریوں کے لئے کنویں سے پانی نکالا ۔
لڑکیوں نے گھر آکر پورا ماجرا اپنے والد سے بیان کیا حضرت شعیب نے اپنی بیٹی صفورا سے کہا کہ جاؤ اور موسی کو گھر آنے کی دعوت دو صفورا کمال شرم و حیا کے ساتھ حضرت موسی کے پاس گئیں اور نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ پیغمبر خدا حضرت موسی کوگھر آنے کی دعوت دی ۔حضرت موسی کے دل میں امید کی ایک کرن جاگ اٹھی اور احساس کیا کہ ضرور کوئی اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے بلکہ ایک عظیم شخصیت کے سامنے حاضرہونا ہے ۔حضرت موسی علیہ السلام حضرت شعیب کے گھر آئے، پورا گھر نور نبوت سے منور تھا حضرت موسی نے حضرت شعیب سے اپنا پورا واقعہ بیان کیا ادھر صفورا نے ایک پاک و پاکیزہ ، فاضل واسوہ اور بہترین شناخت و معرفت کے عنوان سے اپنے کو پیش کیا اور حضرت موسی کی رفتار وگفتار اور ان کے شریفانہ طرز عمل کا مشاہدہ کرکے انہیں نیک اور امین قراردیا ۔قرآن کریم سورہ قصص کی چھبیسویں آیت میں اس واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ان دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ بابا آپ انہیں نوکر رکھ لیجئیے کہ آپ جسے بھی نوکر رکھنا چاہیں ان میں سب سے بہتر وہ ہوگا جو صاحب قوت بھی ہو اور امانتدار بھی ہو ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی بیٹی کے اس صحیح نظریہ کی تائید کی اور احساس کیا کہ صفورا ، حضرت موسی کو اپنے شوہر کے عنوان سے منتخب کرنا چاہتی ہیں لہذا آپ نے اس نیک امر کا استقبال کیا اور موسی سے کہا : کہ میں ان دونوں میں سے ایک بیٹی کا عقد آپ سے کرنا چاہتا ہوں بشرطیکہ آپ آٹھ سال تک میری خدمت کریں پھر اگر دس سال پورے کردیں تو یہ آپ کی طرف سے احسان ہوگا اور میں آپ کو کوئی زحمت نہیں دینا چاہتاہوں انشاء اللہ آپ مجھے نیک بندوں میں سے پائیں گے ۔
حضرت موسی نے بھی آپ کی درخواست قبول کرلی اور معنویت و نورانیت سے معطر ماحول میں بڑی ہی سادگی کے ساتھ حضرت شعیب کے داماد بن گئے اور نہ صرف یہ کہ انہیں ایک باوفا بیوی نصیب ہوئی بلکہ پیغمبر خدا شعیب کے پاس ہی رہنے لگے اور ان سے بہت سےعلوم و معارف بھی سیکھے ۔ جب موسی مصر واپس جانے لگے تو صفورا بھی ان کے ساتھ مصر گئیں اور سخت حالات میں بھی اپنے شوہر کی معاون و مدد گار رہیں اور ایک بہترین و اسوہ خاتون کے عنوان سے اپنا عظیم کردار تاریخ کے دامن میں ثبت کردیا ۔
فلسفہ اور اسرار حج کیا ہیں؟
حج کے یہ عظیم الشان مناسک در اصل چار پہلو رکھتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے سے اہم اور مفید تر ہے:
۱۔ حج کا اخلاقی پہلو: حج کا سب سے مہم ترین فلسفہ یہی اخلاقی انقلاب ہے جو حج کرنے والے میںرونما ہوتا ہے، جس وقت انسان ”احرام“ باندھتا ہے تو ظاہری امتیازات، رنگ برنگ کے لباس اور زر و زیور جیسی تمام مادیات سے باہر نکال دیتا ہے، لذائذ کا حرام ہونا اور اصلاح نفس میں مشغول ہونا (جو کہ مُحرِم کا ایک فریضہ ہے) انسان کو مادیات سے دور کردیتا ہے اور نور و پاکیزگی اور روحانیت کے عالم میں پہنچا دیتا ہے اور عام حالات میں خیالی امتیازات اور ظاہری افتخارات کے بوجھ کو اچانک ختم کردیتا ہے جس سے انسان کو راحت اور سکون حا صل ہوتاہے۔
اس کے بعد حج کے دوسرے اعمال یکے بعد دیگرے انجام پاتے ہیں، جن سے انسان ،خدا سے لمحہ بہ لمحہ نزدیک ہوتا جاتا ہے اور خدا سے رابطہ مستحکم تر ہوتا جاتا ہے، یہ اعمال انسان کوگزشتہ گناہوں کی تاریکی سے نکال کر نور وپاکیزگی کی وادی میں پہنچا دیتے ہیں۔
حج کے تمام اعمال میں قدم قدم پر بت شکن ابراہیم، اسماعیل ذبیح اللہ اور ان کی مادر گرامی جناب ہاجرہ کی یاد تازہ ہوتی ہے جس سے ان کا ایثار اور قربانی انسان کی آنکھوں کے سامنے مجسم ہوجاتی ہے ، اور اس بات پر بھی توجہ کہ رہے سرزمین مکہ عام طور پر اور مسجد الحرام و خانہ کعبہ خاص طور پر پیغمبر اسلام (ص) ،ائمہ علیہم السلام اور صدر اسلام کے مسلمانوں کے جہاد کی یاد تازہ کردیتے ہیں،چنانچہ یہ اخلاقی انقلاب عمیق تر ہوجاتا ہے گویا انسان مسجد الحرام اور سر زمین مکہ کے ہر طرف اپنے خیالات میں پیغمبر اکرم (ص) ،حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کے نورانی چہروں کی زیارت کرتا ہے اور ان کی دل نشین آواز کو سنتا ہے۔
جی ہاں! یہ تمام چیزیں مل کر انسان کے دل میں ایک روحی اور اخلاقی انقلاب پیدا کردیتی ہیں گویا انسانی زندگی کی ناگفتہ بہ حالت کے صفحہ کو بند کردیا جاتا ہے اور اس کی بہترین زندگی کا نیا صفحہ کھل جاتا ہے۔
یہ بات بلا وجہ اسلامی روایات میں بیان نہیں ہوا ہے کہ ”یُخْرِجُ مِنْ ذُنُوبِہِ کَھَیئَتہ یَوم وُلِدتُّہُ اٴُمُّہُ!“(1) ”حج کرنے والا اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے ابھی شکم مادر سے پیدا ہوا ہو“۔
جی ہاں! حج مسلمانوں کے لئے ایک نئی پیدائش ہے جس سے انسان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔
البتہ یہ تمام آثار و برکات ان لوگوں کے لئے نہیں ہیں جن کا حج صرف ظاہری پہلو رکھتا ہے جو حج کی حقیقت سے دور ہبں، اور نہ ہی ان لوگوں کے لئے جو حج کو ایک سیر و تفریح سمجھتے ہیں یا ریاکاری اور سامان کی خرید و فرو خت کے لئے جاتے ہیں ، اور جنھیں حج کی حقیقت کا علم نہیں ہے، ایسے لوگوں کا حج میں وہی حصہ ہے جو انھوں نے حاصل کرلیا ہے!
۲۔ حج کا سیاسی پہلو: ایک عظیم الشان فقیہ کے قول کے مطابق : حج در عین حال کہ خالص ترین اور عمیق ترین عبادت ہے، اس کے ساتھ اسلامی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترین وسیلہ ہے۔
روحِ عبادت ،خدا پر توجہ کرنا،روحِ سیاست یعنی خلق خدا پر توجہ کرنا ہے اور یہ دونوں چیزیں حج کے موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہیں!
حج مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کا بہترین سبب ہے۔
حج نسل پرستی اور علاقائی طبقات کے فرق کو ختم کرنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔
حج اسلامی ممالک میں فوجی ظلم و ستم کے خاتمہ کا وسیلہ ہے۔
حج اسلامی ممالک کی سیاسی خبروں کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کا وسیلہ ہے، خلاصہ یہ کہ حج؛ مسلمانوں پر ظلم و ستم اور استعمار کی زنجیروں کو کاٹنے اور مسلمانوں کو آزادی دلانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ حج کے موسم میں بنی امیہ اور بنی عباس جیسی ظالم و جابر حکومتیں اس موقع پر حجاج کی ملاقاتوں پر نظر رکھتی تھیں تاکہ آزادی کی تحریک کو وہیں کچل دیا جائے، کیونکہ حج کا موقع مسلمانوں کی آزادی کے لئے بہترین دریچہ تھا تاکہ مسلمان جمع ہوکر مختلف سیاسی مسائل کو حل کریں۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام جس وقت فرائض اور عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہیں تو حج کے بارے میں فرماتے ہیں: ”الحَجُّ تَقْوِیَةُ لِلدِّینِ“(2) (خداوندعالم نے حج کو آئین اسلام کی تقویت کے لئے واجب قرار دیا ہے)
بلا وجہ نہیں ہے کہ ایک غیر مسلم سیاست داں اپنی پُر معنی گفتگو میں کہتا ہے: ”وائے ہو مسلمانوں کے حال پر اگر حج کے معنی کو نہ سمجھیں اور وائے ہو اسلام کے دشمنوں پر کہ اگر حج کے معنی کوسمجھ لیں“!
یہاں تک اسلامی روایات میں حج کو ضعیف او رکمزور لوگوں کا جہاد قرار دیا گیا ہے اور ایک ایسا جہاد جس میں کمزور ضعیف مرد اور ضعیف عورتیں بھی حاضر ہوکر اسلامی شان و شوکت میں اضافہ کرسکتی ہیں، اور خانہ کعبہ میں نماز گزراوں میں شامل ہوکر تکبیر اور وحدت کے نعروں سے اسلامی دشمنوں کو خوف زدہ کرسکتے ہیں۔
۳۔ ثقافتی پہلو: مسلمانوں کا ایام حج میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے ثقافتیرابطہ اور فکر و نظر کے انتقال کے لئے بہترین اور موثر ترین عامل ہوسکتا ہے۔
خصوصاً اس چیز کے پیش نظر کہ حج کا عظیم الشان اجتماع دنیا بھر کے مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی ہے (کیونکہ حج کے لئے جانے والوں کے درمیان کوئی مصنوعی عامل موثر نہیں ہے، اور تمام قبائل، تمام زبانوں کے افراد حج کے لئے جمع ہوتے ہیں)
جیسا کہ اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حج کے فوائد میں سے ایک فائد ہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث اور اخبار ؛عالم اسلام میں نشر ہوں۔
”ہشام بن حکم“ حضرت امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں کہتے ہیں: میں نے امام علیہ السلام سے فلسفہٴ حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”خداوندعالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا ہے اور دین و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے، ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے لئے) آنے والے لوگوں کے لئے حج واجب قرار دیا تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حالات سے باخبر ہوں، ہر گروہ ایک شہر سے دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث و آثار کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کرلیں ان کو کبھی فراموش نہ کریں، (اور دوسروں تک پہونچائیں)(3)
اسی وجہ سے ظالم و جابر خلفاء اور سلاطین ؛مسلمانوں کو ان چیزوں کے نشر کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، وہ خود اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مشکلوں کو دور کرتے تھے اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور بزرگ علمائے دین سے ملاقات کرکے قوانین اسلامی اور سنت پیغمبر پر پردہ ڈالتے تھے۔
اس کے علا وہ حج ؛عالمی پیمانہ پر ایک عظیم الشان کانفرنس کا نام ہے جس میں دنیا بھر کے تمام مسلمان مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے افکار اورابتکارات کو دوسرے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اصولی طور پر ہماری سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی سرحدوں نے مسلمانوں کی ثقافت میں جدائی ڈال دی ہے، ہر ملک کا مسلمان صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے، جس سے اسلامی معاشرہ کی وحدت نیست و نابود ہوگئی ہے، لیکن حج کے ایام میں اس اتحاد اور اسلامی ثقافت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔
چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے (اسی ہشام بن حکم کی روایت کے ذیل میں): جن قوموں نے صرف اپنے ملک ،شہروں اور اپنے یہاں در پیش مسائل کی گفتگو کی تو وہ ساری قومیں نابود ہوجائیں گی اور ان کے ملک تباہ و برباد اور ان کے منافع ختم ہوجائیں گے اور ان کی حقیقی خبریں پشتِ پردہ رہ جائیں گی۔(4)
۴۔ حج کا اقتصادی پہلو: بعض لوگوں کے نظریہ کے برخلاف ؛ حج کا موسم اسلامی ممالک کی اقتصادی بنیاد کو مستحکم بنانے کے لئے نہ صرف ”حقیقتِ حج“ سے کوئی منافات نہیں رکھتا بلکہ اسلامی روایات کے مطابق؛ حج کا ایک فلسفہ ہے۔
اس میں کیا حرج ہے کہ اس عظیم الشان اجتماع میں اسلامی مشترک بازار کی بنیاد ڈالیں اور تجارتی اسباب و وسائل کے سلسلہ میں ایسا قدم اٹھائیں جس سے دشمن کی جیب میں پیسہ نہ جائے اور نہ ہی مسلمانوں کا اقتصاد دشمن کے ہاتھوں میں رہے، یہ دنیا پرستی نہیں ہے بلکہ عین عبادت اور جہاد ہے۔
ہشام بن حکم کی اسی روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے حج کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے صاف صاف اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی تجارت کو فروغ دینا اور اقتصادی تعلقات میں سہولت قائم کرنا ؛حج کے اغراض و مقاصدمیں سے ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے آیہٴ شریفہ <لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اٴَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ>(5) کے ذیل میں بیان ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: اس آیت سے مراد کسب روزی ہے، ”فاذااحل الرجل من احرامہ و قضی فلیشتر ولیبع فی الموسم“() ”جس وقت انسان احرام سے فارغ ہوجاتا ہے اور مناسکِ حج کو انجام دے لیتا ہے تو اسی موسم حج میں خرید و فروخت کرے (اور یہ چیز نہ صرف حرام نہیں ہے بلکہ اس میں ثواب بھی ہے)(6)
اور حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول فلسفہٴ حج کے بارے میں ایک تفصیلی حدیث کے ذیل میںیہی معنی بیان ہوئے ہیں جس کے آخر میں ارشاد ہوا ہے: ”لِیَشْھَدُوا مَنَافِعَ لَھُم“(7)
آیہٴ شریفہ”لیشھدوا منافع لھم“ معنوی منافع کو بھی شامل ہوتی ہے اور مادی منافع کو بھی، لیکن ایک لحاظ سے دونوں معنوی منافع ہیں۔
مختصر یہ کہ اگر اس عظیم الشان عبادت سے صحیح اور کامل طور پر استفادہ کیا جائے ، اور خانہ خدا کے زائرین ان دنوں میں جبکہ وہ اس مقدس سر زمین پر بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ حاضر ہیں اور ان کے دل آمادہ ہیں تو اسلامی معاشرہ کی مختلف مشکلات دور کرنے کے لئے سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی کانفرنس کے ذریعہ فا ئدہ اٹھائیں، یہ عبادت ہر پہلو سے مشکل کشا ہوسکتی ہے، اور شاید اسی وجہ سے حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”لایزال الدین قائما ما قامت الکعبة“(8) ”جب تک خانہٴ کعبہ باقی ہے اس وقت تک اسلام بھی باقی رہے گا“۔
اور اسی طرح حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: خانہ خدا کو نہ بھلاؤ کہ اگر تم نے اسے بھلا دیا تو ہلاک ہوجاؤ گے، ” الله الله فِی بَیتِ ربّکُم لاتَخْلُوہُ مَا بَقِیتُمْ فَإنّہُ إنْ َترَکَ لَم تَنَاظَرُوا“(42) (خدا کے لئے تمہیں خانہ خدا کے بارے میں تلقین کرتا ہوں اس کو خالی نہ چھوڑ نا، اور اگر تم نے چھوڑ دیا تو مہلت الٰہی تم سے اٹھالی جائے گی۔)
اور اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسلامی روایات میں ایک فصل اس عنوان سے بیان کی گئی کہ اگر ایک سال ایسا آجائے کہ مسلمان حج کے لئے نہ جا ئیں تو اسلامی حکومت پر واجب ہے کہ مسلمانوں کو مکہ معظمہ جانے پر مجبور کرے۔(9)(10)
”حج“ ایک اہم انسان ساز عبادت ہے
حج کا سفر در اصل بہت عظیم ہجرت ہے، ایک الٰہی سفر ہے اور اصلاح نیز جہاد اکبر کا وسیع میدان ہے۔
اعمال حج؛ حقیقت میں ایک ایسی عبادت ہے جس میں جناب ابراہیم اور ان کے بیٹے جناب اسماعیل اور ان کی زوجہ حضرت ہاجرہ کی قربانیوں اور مجاہدت کی یاد تازہ ہوتی ہے ، اور اگر ہم اسرار حج کے بارے میں اس نکتہ سے غافل ہوجائیں تو بہت سے اعمال ایک معمہ بن کر رہ جائیں گے ، جی ہاں! اس معمہ کو حل کرنے کی کنجی انھیں عمیق مطالب پر توجہ دینا ہے۔
جس وقت ہم سر زمین منیٰ کی قربانگاہ میں جاتے ہیں تو تعجب کرتے ہیں، یہ اس قدرقربانی کس لئے؟ کیا حیوانات کی قربانی عبادت ہوسکتی ہے؟!
لیکن جس وقت قربانی کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے نور نظر ،پارہ جگر اور اپنے ہر دل عزیز بیٹے کو راہ خدا میں قربان کردیا، جو ایک سنت ابراہیمی بن گیا اور منی میں اس یاد میں قربانی ہونے لگی تو اس کام کا فلسفہ سمجھ میں اجا تا ہے۔
قربانی کرنا خدا کی راہ میں تمام چیزوں سے گزرنے کا راز ہے، قربانی کرنا یعنی اس بات کا ظاہر کرنا ہے کہ اس کا دل غیر خدا سے خالی ہے،حج کے اعمال سے اسی وقت ضروری مقدار میں تربیتی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب ذبح اسماعیل اور قربانی کے وقت اس باپ کے احساسات کو مد نظر رکھا جائے، اور وہی احساسات ان کے اندر جلوہ گر ہوجائیں۔(1)
جس وقت ہم ”جمرات“ کی طرف جاتے ہیں ( یعنی وہ تین مخصوص پتھر جن پر حجاج کو کنکری مارنا ہوتی ہیں، اور ہر بار سات کنکر مارنا ہوتی ہیں) توہمارے سامنے یہ سوال پیش آتا ہے کہ اس مجسمہ
(1) افسوس کہ ہمارے زمانہ میں منی میں قربانی کا طریقہ کار رضایت بخش نہیں ہے لہٰذا علمائے اسلام کو اس سلسلہ میں توجہ دینا چاہئے
پر سنگ باری کا کیا مقصد ہے؟ اور اس سے کیا مشکل حل ہوسکتی ہے؟ لیکن جس وقت ہم یاد کرتے ہیں کہ یہ سب بت شکن قہر مان جناب ابراہیم علیہ السلام کی یاد ہے ، آپ کی راہ میں تین بار شیطان آیا تا کہ آپ کو اس عظیم ”جہاد اکبر“سے رو ک دے یا شک و شبہ میں مبتلا کردے لیکن ہر بار توحید کے علمبر دار نے شیطان کو پتھر مار کر دور بھگا دیا،لہٰذا اگر اس واقعہ کو یاد کریں تو پھر ”رمی جمرات“ کا مقصد سمجھ میں آجاتا ہے۔
رمی جمرات کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب جہاد اکبر کے موقع پر شیطانی وسوسوں سے روبرو ہوتے ہیں اور جب تک ان کو سنگسار نہ کریں گے اور اپنے سے دور نہ بھگائیں گے تواس پر غالب نہیں ہوسکتے۔
اگر تمہیں اس بات کی امید ہے کہ خداوندعالم نے جس طرح جناب ابراہیم علیہ السلام پر درود و سلام بھیجا اور ان کی یاد کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا ہے اگر تم بھی یہ چاہتے ہو کہ وہ تم پر نظر رحمت کرے تو پھر راہ ابراہیم پر قدم بڑھاؤ۔
یا جس وقت ”صفا“ اور ”مروہ“ پر جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حجاج گروہ در گروہ ایک چھوٹی پہاڑی سے دوسری چھوٹی پہاڑی پر جاتے ہیں، اور پھر وہاں سے اسی پہاڑی پر واپس آجاتے ہیں ، اور پھر اسی طرح اس عمل کی تکرار کرتے ہیں، کبھی آہستہ چلتے ہیں تو کبھی دوڑتے ہیں، واقعاً تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیا ہے؟! اور اس کا مقصد کیا ہے؟!
لیکن جب ایک نظر اس با ایمان خاتون حضرت ہاجرہ کے واقعہ پر ڈالتے ہیں جو اپنے شیر خوار فرزند اسماعیل کی جان کے لئے اس بے آب و گیاہ بیابان میں اس پہاڑی سے اس پہاڑی پر جاتی ہیں، اس واقعہ کو یاد کرتے ہیں کہ خداوندعالم نے حضرت ہاجرہ کی سعی و کوشش کو کس طرح منزل مقصود تک پہنچایا اور اور ان کے نو مولود بچہ کے پیروں کے نیچے چشمہٴ زمزم جاری کیا، تو اچانک زمانہ پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے اور پردے ہٹ جاتے ہیں اور ہم اپنے کو جناب ہاجرہ کے پاس دیکھتے ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ سعی و کوشش میں مشغول ہوجاتے ہیں کہ راہ خدا میں سعی و کوشش کے بغیر منزل نہیں مل سکتی!
(قارئین کرام!) ہماری مذکورہ گفتگوکے ذریعہ آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے کہ ”حج“ کو ان اسرار و رموز کے ذریعہ تعلیم دیا جائے اور جناب ابراہیم، ان کی زوجہ اور ان کے فرزند اسماعیل کی یاد کو قدم قدم پر مجسم بنایا جائے تاکہ اس کے فلسفہ کو سمجھ سکیں، اور حجاج کے دل و جان میں حج کی اخلاقی تاثیر جلوہ گر ہو ، کیونکہ ان آثار کے بغیر حج کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔(11)
________________________________________
(1) بحار الانوار ، جلد ۹۹، صفحہ ۲۶
(2) نہج البلاغہ، کلمات قصار ، نمبر ۲۵۲
(3) وسائل الشیعہ ، جلد ۸، صفحہ ۹ (4) وسائل الشیعہ ، جلد ۸، صفحہ ۹
(4) سورہٴ بقرہ ، آیت ۱۹۸ (ترجمہ آیت: ”تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنے پروردگار کے فضل وکرم کو تلاش کرو“)
(5) تفسیر عیاشی، تفسیر المیزان ، جلد ۲ ، صفحہ ۸۶ کی نقل کے مطابق
(6) بحار الاانوار ، جلد ۹۹، صفحہ ۳۲
(7) وسائل الشیعہ ، ، جلد ۸، صفحہ ۱۴
(8) نہج البلاغہ ،وصیت نامہ سے اقتباس۴۷
(9) وسائل الشیعہ ، جلد۸، صفحہ ۱۵”باب وجوب اجبار الوالی الناس علی الحج“
(10) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۴، صفحہ ۷۶
(11) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۹، صفحہ ۱۲۵
ہندوستان، بانی پاکستان کی تقاریر پاکستان کے سپرد
ہندستان نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی دو اہم تقریروں کی ریکارڈنگ پاکستانی حکام کے سپرد کر دی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ محمد علی جناح کی ان تقاریر میں سے ایک تقریر تقسیم سے دو ماہ قبل تین جون، 1947 سے متعلق ہے ۔ جس میں وہ شمال مغربی پاکستان میں پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ جانے کو لے کر ریفرنڈم کرائے جانے پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں۔دوسری تقریر 14 اگست، 1947 سے متعلق ہے اس تقریرمیں وہ پاکستان میں تمام کمیونٹیز کی فلاح کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ پاکستان ریڈیو کے ایک اعلی عہدیدار جاوید خان جدون نے کہا ہے کہ ہمیں دونوں تقریریں مل گئی ہیں۔ پاکستان بہت خوش ہے اور ہم آكاشواني کے شكرگزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ دونوں تقریر انٹرنیٹ کے ذریعے ملیں اور حکام نے انہیں ڈاؤن لوڈ کیا اور پھر ان کو محفوظ کرنے کے لئے سی ڈیز بنائی گئیں۔
شام میں بیرونی مداخلت کے اثرات پورے خطہ پر مرتب ہونگے
رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام سید ساجد نقوی نے شام کی حالیہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: دنیا بخوبی واقف ہوچکی ہے کہ سامرجی قوتوں کے سامنے اپنے مفادات ہوتے ہیں ۔
حجت الاسلام نقوی نے مسلمانوں کو اپنا نفع و نقصان خود پہچاننے کی تاکید کرتے ہوئے کہا: شام کا مسئلہ وہاں کی عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ جو فیصلہ کریں وہ سب کے لئے قابل قبول ہو کیونکہ وہ ہی اس ملک کے مالک اور مختار ہیں طاقت سے حکومت تبدیل کرنے سے پورا خطہ متاثر ہوگا ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ امریکہ حیلے اور بہانوں سے شام میں داخل ہونا چاہتا ہے جس کے نتائج سوائے تبائی کے کچھ نہیں ہیں کہا: اس مداخلت کا سارا نقصان عالم اسلام کو ہوگا اور اس سے خطے کے تمام ممالک متاثر ہوں گے ، دنیا جان چکی ہے کہ سامراجی طاقتوں کے سامنے اپنے مفادات ہوتے ہیں ، مسلمان اپنے نفع و نقصان کو پہنچاہیں، بین الاقوامی ادا رے ، جمہوریت کے چمپیئن اور انسانی حقوق کی تنظیمیں امریکہ کی دھمکیوں پر کیوں خاموش نہ رہیں ۔
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قائم مقام سربراہ نے جامعہ الازہر کے بیان کو سراہتے ہوئے کہا: اسلامی ممالک کو متحد ہوکر مشترکہ دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک سازش کے تحت پہلے شام کے حالات خراب کرنے اور تشدد کے ذریعے ایسے عناصر کو استعمال کیا جنہوں نے جاہلانہ تعصابات کی بنیاد پر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا فرقہ وارانہ فسادات کا رنگ دینے کی کوشش کی اور اس کے بعد اب وہ حیلے بہانوں سے شام میں داخل ہوکر تباہی پھیلانا چاہتا ہے کہا: یہ تباہی شام تک محددو نہیں رہے گی بلکہ دوسرے ممالک کا بھی اس لپیٹ میں آنے کے خطرات موجود ہیں۔
سرزمین پاکستان کے اس نامور عالم دین نے یہ کہتے ہوئے کہ عراق کے حوالے سے بھی امریکہ اور اس کے حواریوں نے یہ ہی ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ وہاں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ یہ صرف امریکہ کا ڈھونگ تھا کہا: امریکہ اپنی طاقت کے نشے میں اس قدر بدمست ہاتھی بن چکا ہے کہ وہ اب اقوام متحدہ جیسے ادارے کو بھی خاطر میں نہیں لاتا جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سابقہ کردار سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ امریکی لونڈی بن چکی ہے اور اسی کے اشاروں پر ناچ رہی ہے ۔
انہوں نے اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم (او آئی سی) ، عرب لیگ پر بھی زور دیتے ہوئے کہ وہ اتحاد امت کا شیرازہ بکھرنے سے بچائیں اور شام کے خلاف طاقت کے استعمال کے خلاف آواز بلند کرے کہا: مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل صرف اتحاد میں مضمر ہے اور دشمن وحدت کے شیرازے کو پارا پارا کرنا چاہتا ہے ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہنچاننا ہوگا ۔
شام کی صورتحال، امریکہ کی لبرل ڈیموکریسی کا شاخسانہ
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی کی امامت میں ادا کی گئي۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ شام کی صورتحال مغربی ملکوں اور سب سے زیادہ بڑھ کر امریکہ کی لبرل ڈیموکریسی کا شاخسانہ ہے ۔ آیت اللہ سید احمد خاتمی نے شام کے خلاف دشمن ملکوں بالخصوص امریکہ کی دھکمیوں اور شام میں جاری قتل و غارت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شام میں جو کچھ ہورہا ہے وہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کی شرمناک فکر کا نتیجہ ہے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ تقریبا تیس مہینوں سے شام، امریکہ، صیہونی حکومت سعودی عرب، ترکی اور قطر کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کی لگائي ہوئي آگ میں جل رہا ہے اور اس میں ہزاروں بے گناہ انسان جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں مارے جارہے ہیں۔ آیت اللہ سید احمد خاتمی نے امریکی وزیرخارجہ کے اس بیان کو بڑا سفید جھوٹ قراردیا کہ امریکہ اس وقت شام میں القاعدہ دہشتگرد گروہ کے ساتھ کوئي تعاون نہیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موثق اطلاعات و شواہد کے مطابق القاعدہ دہشتگرد گروہ کو امریکہ اور اس کے حامی بعض علاقائي ملکوں کی طرف سے مالی اور فوجی مدد مل رہی ہے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ القاعدہ شام میں امریکہ کی پالیسیوں پر عمل کررہی ہے اور آج امریکہ شام میں اپنے اھداف حاصل کرنے کے لئے القاعدہ کی حمایت کررہا ہے اور اسی امریکہ نے کچھ برسوں قبل القاعدہ کے خلاف جدوجہد کے بہانے افغانستان پرحملہ کیا تھا۔ آیت اللہ سید احمد خاتمی نے امریکی حکام کے اس دعوے کو مضحکہ قراردیا کہ شام کے صدر بشار اسد نے انسانیت کے خلاف تمام حدوں کو عبور کرلیا ہے اور کہا کہ گوانتانامو اور افغانستان و عراق میں امریکہ کی دیگر خفیہ جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک سے امریکہ دنیا میں انسانی حقوق پامال کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جاتا ہے۔ خطیب جمعہ تہران نے شام پر امریکہ کے خلاف امریکہ کے جارحانہ عزائم کے بارے میں کہا کہ امریکہ نے بشار اسد کی حکومت گرانے کے لئے اپنی سازشوں اور ہتھکنڈوں کی ناکامی کے بعد اب یہ یقین کرلیا ہے کہ شام میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے شام پرحملہ کرنے کےعلاوہ کوئي چارہ نہیں ہے۔ انہوں نےکہا کہ شام کو کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا ذمہ دار ٹھہرانا محض ایک بہانہ ہے کیونکہ جس فوج نے حالیہ مہینوں میں دہشتگردوں کےخلاف پے در پے کامیابیاں حاصل کی ہیں اسے کیمیاوی ہتھیار استمعال کرنے کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔
رہبر معظم سے خبرگان کونسل کے سربراہ اور ارکان کی ملاقات
۲۰۱۳/۰۹/۰۵ -
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز جمعرات ) خبرگان کونسل کے سربراہ اور ارکان کے ساتھ ملاقات میں اپنے اہم خطاب میں ملک کے اہم مسائل ، علاقائي اور عالمی امور کے بارے میں جامع اور بلند مدت نگاہ کے سلسلے میں اسلامی نظام کے مختلف عہدوں پر کام کرنے والے اور منصوبہ بنانے والے تمام حکام کو بصیرت اور فراست کے ساتھ مؤقف اختیار کرنے اور انفعال سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تمام حکام کو چاہیے کہ وہ اہداف ، کلی اور عمومی اسٹراٹیجک اور حقائق کے تین عناصر کے پیش نظر فیصلہ اور درست اور ٹھوس مؤقف اختیار کریں ،اور امید افزا مستقبل کے بارے میں عقلمندی اور خردمندی کے ہمراہ نظام کی اندرونی ساخت کو مضبوط بنانے، مشکلات حل کرنے اور اہداف کی سمت استقامت کے ساتھ آگے بڑھیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسائل اور حوادث کے بارے میں ہمہ گير، جامع اور بلند مدت نگاہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ان حوادث و واقعات میں ایک واقعہ اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کا واقعہ ہے، جو اسلام کے سہارے اس مادی دنیا میں تند و تیز طوفانوں کے باوجود رونما ہوا اور یہ عظیم واقعہ زیادہ تر معجزہ سے شباہت رکھتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز سے لیکر آج تک اسلامی نظام کے ساتھ عداوتوں اور دشمنیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان تمام عداوتوں کی اصلی وجہ بھی اسلام ہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے مقابلے میں موجود دھڑے بندیوں، علاقائي اور عالمی مسائل کے بارے میں صحیح تجزيہ و تحلیل کو بھی ہمہ گير، بلند مدت اور حقائق پر مبنی نگاہ پر مشتمل قراردیتے ہوئے فرمایا: مغربی ایشیا کا علاقہ کئی برسوں سے استکبار کے حملوں کی زد میں رہا ہے لیکن ایسے شرائط کے باوجود اسلامی بیداری رونما ہوگئي جو ان کی مرضی اور منشاء کےبالکل خلاف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی بیداری کے ختم ہونے کا تصور بالکل غلط تصور ہے کیونکہ اسلامی بیداری صرف کوئی سیاسی واقعہ نہیں تھا کہ جو بعض افراد کے آنے یا ان کے جانے سے ختم ہوجائے گا بلکہ اسلامی بیداری ، ہوشیاری ، تنبہ ، خود اعتمادی اور اسلام پر تکیہ واعتماد پر مشتمل ہےجسے اسلامی معاشرے میں کافی فروغ مل چکا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو کچھ آج ہم علاقہ میں مشاہدہ کررہے ہیں یہ در حقیقت اسلامی بیدار کے خلاف استکبار، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا رد عمل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے استکبار کی جانب سے اپنے مفادات کی بنا پر علاقہ کے مسائل کو حل کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علاقہ میں استکبار کی موجودگی جارحانہ ، تسلط پسندانہ ، منہ زوری اور اپنی موجودگی کے مقابلے میں ہر قسم کی استقامت کو ختم کرنے پر مشتمل ہے لیکن استکباری محاذ اس استقامت کو ختم نہین کرسکا ہے اور اس کے بعد بھی اسے ختم نہیں کرپائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صہیونی حکومت کے محور پر اس علاقہ پر تسلط کو استکبار کا اصلی ہدف قراردیتے ہوئے فرمایا: شام کے حالیہ واقعات میں کیمیائی ہتھیاروں کو بہانہ بنانے کا مقصد بھی یہی ہے لیکن امریکی حکام لفاظی اور بیان بازی کے ذریعہ اپنے جارحانہ عزائم کو ایک انسانی مقصد کے لئےقراردے رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو چیز امریکی سیاستدانوں کی نظر میں اہمیت نہیں رکھتی وہ انسانی مسائل ہی ہیں اور امریکیوں کا انسانی حمایت کا دعوی بالکل جھوٹا اور بے بنیاد ہے کیونکہ گوانتانامو، ابوغریب جیسی خوفناک جیلیں، صدام کی طرف سے حلبچہ اور ایرانی شہروں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکہ کی خاموشی، افغانستان، پاکستان اور عراق میں بےگناہ عوام کے قتل عام کے ہولناک واقعات امریکی حکام کی سیاہ فائل میں موجود ہیں۔
رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: پوری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ کو انسان اور انسانیت سے نہ کوئی دلچسپی تھی ، نہ ہے اور نہ ہی وہ اس کے پیچھے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ امریکہ شام میں بہت بڑی خطا کا مرتکب ہونے جارہا ہے اور اسی لئے وہ کاری ضرب کا احساس کررہا ہے اور وہ یقینی طور پر نقصان اٹھائے گا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےتاکید کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تیس سال کے عرصہ میں اسلامی نظام عداوتوں ، سازشوں اور دشمنیوں کے باوجود نہ صرف کمزور نہیں ہوا بلکہ اس کی قدرت، اقتدار اور استحکام میں نمایاں پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور علاقائی اور عالمی سطح پر اس کے اثر و رسوخ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےعلاقائی اور عالمی سطح پر تمام دھڑے بندیوں اور عداوتوں کے باوجود اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اور اس کے روز افزوں اقتدار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تمام حکام کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے اور مؤقف بیان کرنے میں تین عناصر پر اپنی خاص توجہ مبذول کریں ۔1) اہداف و اصول،2) کلی و عمومی اسٹراٹیجک ، 3) حقائق و واقعیات۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصولوں اور اہداف کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کا ہدف مادی اور معنوی لحاظ سے ترقی یافتہ اور پیشرفتہ اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان اہداف تک پہنچنے کے لئے اسٹراٹیجک بھی واضح اور مشخص ہیں جن میں اسلامیت پر تکیہ، گوناگوں باہمی روابط میں نہ ظالم ہونا نہ مظلوم واقع ہونا، عوام کی آراء پر اعتماد کی اسٹراٹیجک ، عام تلاش و کام کی اسٹراٹیجک، قومی اتحاد کی اسٹراٹیجک شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تیسرے عنصر کے عنوان سے حقائق اور واقعیات پر دقیق اور درست نگاہ کو بہت ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اصول و اہداف کے ہمراہ حقائق پر نگاہ بھی ضروری ہے اور حقائق پر نگاہ بھی صحیح، دقیق اور ہمہ گیر ہونی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے میں اچھے و برے اور شیریں و تلخ حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے مسائل پر نگاہ کرتے وقت صرف تلخ حقائق کو مد نظر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ معاشرے میں موجود ممتاز افکار، فعال اور خلاق جوانوں ، دین کی جانب عوام بالخصوص جوانوں کی رغبت ، اسلامی اور دینی نعروں کی بقا اور علاقائی اور عالمی سطح پر اسلامی نظام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور ان اچھے اور شیریں حقائق کی بنیاد پر معاشرے میں موجود تلخ حقائق کو کم کرنے یا ختم کرنے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض تلخ حقائق جو رکاوٹ کی شکل میں موجود ہیں انھیں ہدف کی جانب گامزن رہنے میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے بلکہ صحیح نگاہ کے ساتھ انھیں راستے سے ہٹانا چاہیے یا ان سے عبور کرجانا چاہیے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عشرہ اول میں حضرت امام خمینی (رہ) کی روش کو بھی اسی نہج پر قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ) نے حقائق پر کبھی اپنی آنکھیں بند نہیں کیں اور وہ کبھی ہدف اور اصول سے پیچھے نہیں ہٹے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امام خمینی (رہ) وہی شخص ہیں جنھوں نے غاصب صہیونی حکومت کو کینسر کا غدد قراردیا تھا اور انھوں نے کبھی بھی اسرائیل کے بارے میں تقیہ سے کام نہیں لیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نے کبھی امریکہ کی شرارتون کے مقابلے میں بھی تقیہ نہیں کیا اور اپنے معروف جملے میں فرمایا کہ " امریکہ بڑا شیطان ہے" ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ جملہ بھی حضرت امام خمینی (رہ) کا ہے جس میں انھوں نے فرمایا" امریکی سفارتخانہ پر قبضہ دوسرا انقلاب اور شاید پہلے انقلاب سے اہم انقلاب ہے"۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے پہلے عشرے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی رفتار اور بیان میں مسلط کردہ جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جس دور میں سب یہ نعرہ " جنگ جنگ تا کامیابی " لگاتے تھے ،حضرت امام خمینی (رہ) فرماتے تھے" جنگ تا رفع فتنہ"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: یہ حضرت امام خمینی (رہ) کی استقامت تھی جس نے اسلامی نظام کی بنیادوں کو مضبوط و مستحکم کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان افراد اور ان ممالک کی حالت زار ہمارے سامنے ہے جو سامراجی طاقتوں کا دل جیتنے کے لئے اپنے اصول و اہداف سے منحرف ہوگئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر مصر میں اسرائیل کے ساتھ مقابلہ کا نعرہ موجود ہوتا اور امریکی وعدوں کے مقابلے میں مصری پیچھے نہ ہٹتے یقینی طور پر مصر کی صورتحال ایسی نہ ہوتی کہ مصری عوام کو ذلیل کرنے والا ڈکٹیٹر جیل سے آزاد اور مصری عوام کا منتخب صدر جیل میں چلا جائے اور اس پر مقدمہ چلایا جائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر مصر میں اصول پر استقامت دکھائی جاتی تو وہ مظاہرین جو قوم کے منتخبین کے مقابلے میں صف آرا تھے وہ بھی انھیں کے ساتھ آجاتے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس حصہ میں ایک اہم نکتہ کی یاد دلاتے ہوئے فرمایا: دشمن علاقہ میں مذہبی اور گروہی اختلاف پیدا کرکے اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش میں ہے اور اختلاف ڈالنا دشمن کی اصلی اسٹراٹیجک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن تفرقہ کی اسٹراٹیجک پر عمل کرنے اور فتنہ کی آگ کو شعلہ ور کرنے کے لئے دو قسم کے مزدوروں اور غلاموں سے استفادہ کرتا ہے ایک تکفیری غلام اور مزدور ہیں جو اہلسنت کے پرچم کے سائے میں سرگرم عمل ہیں اور دوسرے شیعہ مزدور اور غلام ہیں جو شیعہ پرچم کے سائے میں کام کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن کی اس عظیم سازش میں آنے والے افراد اور حکومت یقینی طور پر اسلام کو چوٹ پپہنچاتے ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: شیعہ اور سنی بزرگ علماء کو ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ اسلامی گروہوں کے درمیان محاذ دشمن کی پالیسی کا حصہ ہے اور دشمن اس طرح اساسی مسئلہ سے توجہ منحرف کرنا چاہتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے کے حقائق اور مسائل پر جامع اور بلند مدت نگاہ اور ملک میں موجود بعض مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی مشکلات کو حل کرنے کا اصلی راستہ ، عقلمندی و خرد مندی کی بنیاد پر نظام کی اندرونی ساخت کو مضبوط بنانا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی شعبہ میں درست مدیریت اور علمی و سائنسی پیشرفت کے ذریعہ ملک کی اندرونی ساخت کو مضبوط بنانا ممکن ہے۔
ایران، ترکمنستان کے ساتھ تعاون کرنے کا خواہاں
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے ترکمنستان کے دارالحکومت عشق آباد میں ترکمنستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں ان تعلقات میں توسیع لانے کی راہوں کا جائزہ لیا۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر لاریجانی نے صدر قربان قلی بردی محمد اف سے کہا کہ ایران ترکمنستان کے ساتھ خاص طور سے بنیادی تنصیبات کی تعمیر جیسے سڑکوں، ریفائنریوں اور بجلی گھروں کی تعمیر نیز دیگر بڑے منصوبوں میں تعاون کرنے کا خواہاں ہے۔ ڈاکٹر لاریجانی نے علاقے میں امن و سکیورٹی کی برقراری کے بارے میں ایران و ترکمنستان کے مشترکہ مواقف کی طرف اشارہ کرتےہوئے امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے تعاون میں مزید فروغ آتا رہے گا، اس ملاقات میں ترکمنستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف نے کہا کہ ان کاملک اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئےکار لاتے ہوئے ایران کے ساتھ تعلقات میں توسیع لانے کی کوشش کرے گا۔ اس ملاقات میں یہ اتفاق کیا گیا کہ ایران اور ترکمنستان کا مشترکہ اقتصادی کمیشن باہمی تعاون بالخصوص تیل اور گيس کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کی غرض سے منصوبہ بندی کرے گا۔
امریکی ڈرون حملے، پاکستان کے قومی اقتدار کی خلاف ورزی
پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ کی ڈرون جارحیت پر احتجاج کیا ہے۔ ڈان ویب سائٹ کے مطابق پاکستانی وزارت خارجہ نے آج ایک بیان میں قبائيلی علاقے شمالی وزیرستان پر امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حملوں کی مذمت کی۔ اس بیان میں امریکہ کی ڈرون جارحیت کو پاکستان کے قومی اقتدار کی خلاف ورزی قرادیتے ہوئے ان حملوں کے فوری روکے جانے پر تاکید کی گئي ہے۔ واضح رہے امریکی ڈرون طیاروں نے جمعرات کو شمالی وزیرستان کے علاقے پرحملے کئے تھے جن میں چھے افراد کے ہلاک اور تین کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ دوسری طرف ریڈیو تہران کی پشتو سروس نے رپورٹ دی ہے کہ امریکہ کے ڈرون حملے میں حقانی دہشتگرد گروہ کا ایک کمانڈر مارا گيا ہے۔
مسجد شہنشاہ - سرائيوو
مسجد شہنشاہ (Emperor's Mosque) (بوسنیائی: Careva Džamija، ترکی: Hünkâr Camii) سرائیوو، بوسنیا و ہرزیگوینا میں ایک اہم تاریخی مقام ہے۔ یہ بوسنیا کی عثمانی فتح کے بعد تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے جو 1457 میں تعمیر کی گئی۔
اسے عیسیکووچ ہرانوشک (Isaković-Hranušić) نے تعمیر کرایا اور اسے فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح سے منسوب کیا۔ اسے بلقان میں سلطنت عثمانیہ دور کی سب سے خوبصورت مساجد میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔