
Super User
گیارہ ذیقعدہ،حضرت امام علي رضا عليه السلام كي ولادت با سعادت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ولادت باسعادت کے بارے میں علماء ومورخین کابیان ہے کہ آپ بتاریخ گیارہ ذی قعدہ ایک سو ترپن ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیدا ہوئے۔ اس موقع پر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اور ارشادفرمایاکہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو، پھرمیں نے مولود مسعود کوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعد آپ نے ارشادفرمایاکہ اسے لے لویہ زمین پرخداکی حجت ہے اورمیرے بعد حجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے۔
**************
آپ آل محمد کے تیسرے ”علی“ ہیں ۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اورآپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے اورمشہور ترین لقب رضا تھا۔ آپ کی نشوونمااورتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپنااورجوانی کی متعددمنزلیں طے ہوئیں اور ۳۰ برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چندسال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم اعراق میں قیدظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگراس سے پہلے ۲۴ یا ۲۵ برس آپ کوبرابراپنے پدربزرگوارکے ساتھ رہنے کاموقع ملا۔ آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کومعلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گی اورایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آب کی عمرکے آخری حصہ میں اوردنیاکوچھوڑنے کے موقع پردوستان اہلبیت کاآپ سے ملنا یابعدکے لیے راہنما کا دریافت کرنا غیرممکن ہوجائے گااس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروان اہلبیت کواپنے بعدہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جوممتازحیثیت رکھتے تھے انہیں جمع کرکےحضرت امام علی رضاعلیہ السلام کی جانشینی کااعلان فرمادیا۔ ۱۸۳ ھ میں حضرت اما م موسی کاظم علیہ السلام نے قیدخانہ ہارون رشیدمیں اپنی عمرکاایک بہت بڑاحصہ گذارکردرجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضاعلیہ السلام کی عمر تیس برس تھی والدبزرگوارکی شہادت کے بعدامامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغدادمیں ہارون رشیدتخت خلافت پرمتمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے زندگی تنگ تھی۔
**************
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد دس برس ہارون رشیدکادوررہایقینا وہ امام رضاعلیہ السلام کے وجودکوبھی دنیامیں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتاتھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والدماجدکارہنااس نے گوارانہیں کیامگریاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداورظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندرآپ دنیاسے رخصت ہوگئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اوریاواقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیرکی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلاامام رضاکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہ السلام کوستانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہارون رشیدکااہلبیت رسول سے شدیداختلاف اورسادات کے ساتھ جوبرتاؤاب تک رہاتھا اس کی بناء پرعام طورسے عمال حکومت یاعام افرادبھی جنہیں حکومت کوراضی رکھنے کی خواہش تھی اہلبیت کے ساتھ کوئی اچھارویہ رکھنے پرتیارنہیں ہوسکتے تھے اورنہ امام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ آسکتے تھے۔ہارون کاآخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں،امین اورمامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا،امین پہلی بیوی سے تھا جوخاندان شاہی سے منصوردوانقی کی پوتی تھی اوراس لیے عرب سردارسب اس کے طرف دارتھے اورمامون ایک عجمی کنیز سے تھااس لیے دربارکاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتاتھا، دونوں کی آپس کی رسہ کشی ہارون کے لیے سوہان روح بنی ہوئی تھی اس نے اپنے خیال میں اس کاتصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کردیاکہ دارالسلطنت بغداداوراس کے چاروں طرف کے عربی حصہ جسے شام،مصرحجاز،یمن، وغیرہ محمدامین کے نام کئے اورمشرقی ممالک جیسے ایران،خراسان، ترکستان، وغیرہ مامون کے لیے مقررکئے لیکن جونہی ہارون کی آنکھ بندہوئی خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے آخرچاربرس کی مسلسل کشمکش اورطویل خونریزی کے بعدمامون کوکامیابی حاصل ہوئی اوراس کابھائی امین محرم ۱۹۸ ھ میں موت گھاٹ اتاردیاگیا اس کا سر مامون کے سامنے پیش کیا گیا اور یوں مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پرقائم ہوگئی۔
**************
مامون الرشید نے اپنے بھائی امین کوقتل تو کردیا لیکن اسے ہر آن یہ دھڑکا لگا رہا کہ کہیں اس کے حامی بغاوت نہ کردیں دوسری طرف اسے اپنے باپ کی طرح بنی فاطمہ اور آل رسول کی جانب سے بھی خدشات لاحق تھے چنانچہ اس نے نہایت مکاری کے ساتھ خلافت کو فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا حق قرار دے کر امام علیہ السلام کو مدینے سے طوس آنے کی دعوت دی جسے امام علیہ السلام نے سختی سے مسترد کردیا کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ جس شخص نے ہوس اقتدار کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کرکے اس کا سر دربار میں لاکر رکھا ہو وہ اتنی آسانی سے بھلا کیسے مسند خلافت سے دستبردار ہوسکتا ہے اور وہ بھی آل رسول کے حق میں۔ مامون دراصل اپنے اس اقدام سے آل رسول اور ان کے طرفداروں کی مخالفت کو ختم کرنا چاهتا تھا۔ چنانچہ جب آپ نے خلافت کے قبول کرنے سے انکارفرمایا، تواس نے ولیعہدی کی پیشکش کی۔ آپ اس کے بھی انجام سے واقف تھے۔بخوشی جابرحکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا چنانچہ آپ نے اس سے بھی انکارفرمایا مگراس پرمامون کااصرار جبرکی حدتک پہنچ گیا تو امام نے فرمایا، میں قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں بالکل دخل نہ دوں گا ہاں اگرکسی بات میں مجھ سے مشورہ لیاجائے تونیک مشورہ ضروردوں گا۔
**************
محول شیبانی کا بیان ہے کہ جب وہ ناگواروقت پہنچ گیا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کے روضہ اقدس سے ہمیشہ کے لئے وداع ہوئے تو میں نے دیکھا کہ آپ بےتابی کے ساتھ اندر جاتے ہیں اور بانالہ وآہ باہر آتے ہیں اور پھر اندر واپس چلے جاتے ہیں آپ نے چندبارایساہی کیااورمجھ سے نہ رہاگیااورمیں نے حاضرہوکرعرض کی مولااضطراب کی کیاوجہ ہے ؟ فرمایا اے محول! میں اپنے نانا کے روضہ سے جبرا جدا کیا جارہا ہوں مجھے اس کے بعداب یہاں آنانصیب نہ ہوگا میں اسی مسافرت اورغریب الوطنی میں شہید کردیا جاؤں گا۔
رجب ۲۰۰ ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اورمتعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اورقم کی سیدھی راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظراختیارکیاگیاکہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضرہوکرآپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہرہوئے توتمام خورد وبزرگ شوق زیارت میں امنڈپڑے،مرکب عالی جب شہر کے مرکز میں پہنچاتو خلائق سے زمین پرتل رکھنے کی جگہ نہ تھی۔اس موقع پرامام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اورمحمدن بن اسلم طوسی آگے بڑھے، اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضرخدمت ہوئی اور اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکیزگی ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ میں اپنے دیدارکاموقع دیجئے اورکوئی حدیث اپنے جدنامدارکی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،یحی بن یحی اوراسحاق بن راہویہ نے آپ کے خاطرکی باگ تھام لی۔ان کی استدعا سن کرآپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا د ئیے جائیں فوراتعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی اپنے پیارے رسول کے جگرگوشہ کا نورانی چہرہ دیکھا سینوں میں دل بیتاب ہوگئے دوزلفیں چہرہ انور پر مانندگیسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹی ہوئی تھیں کسی کویارائے ضبط باقی نہ رہا سب کے سب بے اختیار دھاڑیں مارکر رونے لگے۔ بعض آپ کی سواری کے گرد گھومنے لگےاور جھک کر مرکب اقدس اورعماری کابوسہ دینے لگے غرضکہ عجیب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال کودیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انورکی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہر ہوگئی اوران کے موجودہ اشتیاق وتمنا کے اظہار میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوں ذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے لیے آزارنہ بنو، ان کی استدعاپرقدرے شوروغل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
میرے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم نے مجھ سے بیان فرمایااوران سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اوران سے امام محمدباقرنے اوران سے امام زین العابدین نے اوران سے امام حسین نے اوران سے حضرت علی مرتضی نے اوران سے حضرت رسول کریم جناب محمدمصطفی صلعم نے اوران سے جناب جبرئیل امین نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرمایاکہ ”لاالہ الااللہ “ میراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائےگا اورجومیرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔ یہ کہہ کرآپ نے پردہ کھینچوادیا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمایا بشرطہاوشروطہاوانامن شروطہا کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گالیکن اس کے کہنے اورنجات پانے میں چندشرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں۔
**************
روایات کے مطابق جب آپ نیشاپور سے شہرطوس پہنچے تووہاں دیکھا کہ لوگ ایک پہاڑسے لوگ پتھرتراش کرہانڈی وغیرہ بناتے ہیں آپ اس پہاڑی سے سے ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے اورآپ نے اس کے نرم ہونے کی دعاکی وہاں کے باشندوں کا کہناہے کہ اس پہاڑ کا پتھر بالکل نرم ہوگیا اور بڑی آسانی سے برتن بننے لگے۔
کہتے ہیں کہ جب آپ مروپہنچے جسے سکندر ذوالقرنین نے بروایت معجم البلدان آباد کیا تھا اورجواس وقت دارالسلنطت تھا تومامون نے چند روز ضیافت تکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد یکم رمضان ۲۰۱ ھجری بروز پنجشنبہ جلسہ ولیعہدی منعقدہوا، بڑی شان وشوکت اورتزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کواشارہ کیااوراس نے بیعت کی، پھراورلوگ بیعت سے شرفیاب ہوئے سونے اورچاندی کے سکے سرمبارک پرنثار ہوئے اورتمام ارکان سلطنت اورملازمین کوانعامات تقسیم ہوئے مامون نے حکم دیاکہ امام کے نام کاسکہ جاری کیاجائے، چنانچہ درہم ودینار پرحضرت امام علی رضا علیہ السلام کے نام کانقش ہوا، اورتمام قلمرومیں وہ سکہ چلایاگیاجمعہ کے خطبہ میں حضرت کانام نامی داخل کیاگیا۔ یہ ظاہرہے کہ حضرت کے نام مبارک کاسکہ عقیدت مندوں کے لیے تبرک اورضمانت کی حیثیت رکھتاتھا اس سکہ کوسفروحضرمیں حرزجان کے لیے ساتھ رکھنا یقینی امرتھا صاحب جنات الخلودنے بحروبرکے سفرمیں تحفظ کے لیے آپ کے توسل کاذکرکیاہے اسی کی یادگارمیں بطورضمانت بعقیدہ تحفظ ہم اب بھی بعض عقیدت مند سفر میں بازوپرامام ضامن ثامن کاپیسہ باندھتے ہیں۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ ۳۳ ہزارعباسی مردوزن وغیرہ کی موجودگی میں آپ کوولیعہد بنادیاگیا اس کے بعداس نے تمام حاضرین سے حضرت امام علی رضاکے لیے بیعت لی اوردربار کالباس بجائے سیاہ کے سبزقراردیاگیا جوسادات کاامتیازی لباس تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جشن ولی عہدی کوابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ عیدکاموقع آگیامامون نے حضرت سے کہلابھیجاکہ آپ سواری پرجاکرلوگوں کونمازعیدپڑھائیں حضرت نے فرمایاکہ میں نے پہلے ہی تم سے شرط کرلی ہے کہ بادشاہت اورحکومت کے کسی کام میں حصہ نہیں لوں گااورنہ اس کے قریب جاؤں گا اس وجہ سے تم مجھ کو اس نمازعیدسے بھی معاف کردوتوبہترہے ورنہ میں نمازعیدکے لے اسی طرح جاؤں گا جس طرح میرے جدامجدحضرت محمد رسول اللہ صلعم تشریف لے جایاکرتے تھے مامون نے کہاکہ آپ کواختیارہے جس طرح چاہیں جائیں اس کے بعداس نے سواروں اورپیادوں کوحکم دیاکہ حضرت کے دروازے پہ حاضرہوں۔ جب یہ خبرشہرمیں مشہورہوئی تولوگ عیدکے روزسڑکوں اورچھتوں پرحضرت کی سواری کی شان دیکھنے کوجمع ہوگئے، ایک بھیڑلگ گئی سب کوآرزو تھی کہ امام کی زیارت کریں۔ طلوع آفتاب کے بعد امام نے سفیدعمامہ سرپرباندھا،عطرلگایااورعصاہاتھ میں لے کرننگے پاؤں عیدگاہ جانے پرآمادہ ہوگئے ہوگئے اوردوتین قدم چل کرکھڑے ہوگئے اورسرکو آسمان کی طرف بلند کرکے کہا اللہ اکبراللہ اکبر، حضرت کے ساتھ نوکروں، غلاموں اورفوج کے سپاہیوں نے بھی تکبرکہی راوی کابیان ہے کہ جب امام رضاعلیہ السلام تکبرکہتے تھے توہم لوگوں کومعلوم ہوتاتھا کہ درودیواراورزمین آسمان سے آپ کی تکبیرکاجواب سنائی دیتاہے اس ہیبت کودیکھ کریہ حالت ہوئی کہ سب لوگ اورخود لشکروالے اپنی سواریوں سے زمین پر کود پڑے سب کی حالت بدل گئی لوگوں نے جلدی جلدی سنگینوں سے اپنی جوتیوں کے تسمے کاٹ دئیے ننگے پاؤں ہوگئے ۔ لوگوں پر فرط جزبات سے گریہ طاری ہوگیا۔اس کی خبرمامون کوبھی ہوگئی اس کے وزیرفضل بن سہل نے اس سے کہاکہ اگرامام رضااسی حالت سے عیدگاہ تک پہنچ جائیں گے تو ہنگامہ ہوجائیگا اور سب لوگ ان کی طرف ہوجائیں گے اورہم نہیں جانتے کہ ہم لوگ کیسے بچیں گے۔ فضل بن سہل اس انتباہ پر مامون نے فورا ایک شخص یہ پیغام دے کر امام کی خدمت میں روانہ کیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی جوآپ سے عیدگاہ جانے کے لیے کہا اس سے آپ کوزحمت ہورہی ہے اورمیں آپ کی مشقت کو پسندنہیں کرتا بہتر ہے کہ آپ واپس چلے آئیں اورعیدگاہ جانے کی زحمت نہ فرمائیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام واپس اپنی قیامگاہ تشریف لے لائے۔ اگرچہ اس روز عیدکی نماز نہ پڑھاسکے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں پر مامامون کی حقیقت مزید کھل کر سامنے آگئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مامون رشیدکے عہدمیں نصاری کاایک بہت بڑاعالم ومناظرشہرت عامہ رکھتا تھا جس کانام ”جاثلیق“ تھااس کی عادت تھی کہ متکلمین سے کہا کرتا تھا کہ ہم نبوت عیسی اوران کی کتاب پرمتفق ہیں اوراس بات پربھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پرزندہ ہیں اختلاف ہے توصرف نبوت محمد مصطفی صلعم میں ہے تم ان کی نبوت کااعتقادرکھتے ہو اورہمیں انکارہے پھرہم تم ان کی وفات پرمتفق ہوگئے ہیں اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے جوہمارے لیے حجت قرارپائے یہ کلام سن کراکثرمناظرخاموش ہوجایاکرتے تھے۔
مامون رشیدکے اشارے پرایک دن وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بھی ہم کلام ہواموقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دھراتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اوران کی کتاب دونوں پرآپ کاایمان واعتقادہے یانہیں آپ نے ارشادفرمایا، میں اس عیسی کی نبوت کایقینا اعتقادرکھتاہوں جس نے ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلعم کی نبوت کی اپنے حوارین کوبشارت دی ہے اوراس کتاب کی تصدیق کرتاہوں جس میں یہ بشارت درج ہے جوعیسائی اس کے معترف نہیں اورجوکتاب اس کی شارح اورمصدق نہیں اس پرمیراایمان نہیں ہے یہ جواب سن کرجاثلیق خاموش ہوگیا۔پھرآپ نے ارشادفرمایاکہ اے جاثلیق ہم اس عیسی کوجس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی، نبی برحق جانتے ہیں مگرتم ان کی تنقیص کرتے ہو، اورکہتے ہو کہ وہ نمازروزہ کے پابندنہ تھے جاثلیق نے کہا کہ ہم تویہ نہیں کہتے وہ توہمیشہ قائم اللیل اورصائم النہار رہا کرتے تھے آپ نے فرمایا عیسی توبنابراعتقاد نصاری خود معاذاللہ خدا تھے تویہ روزہ اورنمازکس کے لیے کرتے تھے یہ سن کرجاثلیق مبہوت ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا۔ البتہ یہ کہنے لگاکہ جومردوں کوزندہ کرے جذامی کوشفادے نابیناکوبیناکردے اورپانی پرچلے کیاوہ اس کاسزاوارنہیں کہ اس کی پرستش کی جائے اوراسے معبود سمجھاجائے آپ نے فرمایاالیسع بھی پانی پرچلتے تھے اندھے کوڑی کوشفادیتے تھے اسی طرح حزقیل پیغمبرنے ۳۵ ہزارانسانوں کوساٹھ برس کے بعدزندہ کیا تھا قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھرچھوڑکرباہرچلے گئے تھے حق تعالی نے ایک ساعت میں سب کوماردیا بہت دنوں کے بعدایک نبی استخوان ہائے بوسیدہ پرگزرے توخداوندتعالی نے ان پروحی نازل کی کہ انہیں آوازدوانہوں نے کہاکہ ائے استخوان بالیہ”استخوان مردہ اٹھ کھڑے ہو وہ سب بحکم خدااٹھ کھڑے ہوئے اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اورحضرت موسی کے کوہ طور پرلے جانے اوررسول خداکے احیاء اموات فرمانے کاحوالہ دے کر فرمایاکہ ان چیزوں پرتورات انجیل اورقرآن مجیدکی شہادت موجودہے اگرمردوں کوزندہ کرنے سے انسان خداہوسکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خداہونے کے مستحق ہیں یہ سن کروہ چپ ہوگیااوراس نے اسلام قبول کرنے کے سوااورکوئی چارہ نہ دیکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
راس الجالوت ایک یہودی عالم تھا جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا وہ کسی کو بھی اپنی نظر میں نہ لاتا تھا ایک دن اس کا مناظرہ اور مباحثہ فرزند رسول حضرت امام رضاعلیہ السلام سے ہوگیا آپ سے گفتگو کے بعد اس نے اپنے علم کی حقیقت جانی اور سمجھا کہ میں خود فریبی میں مبتلا ہوں۔
امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد اس نے اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے جن کے تسلی بخش اوراطمینان آفرین جوابات سے بہرہ ورہوا جب وہ سوالات کرچکاتو امام علیہ السلام نے فرمایاکہ اے راس الجالوت ! تم تورات کی اس عبارت کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ ”آیانورسینا سے روشن ہوا جبل ساعیرسے اور ظاہر ہوا کوہ فاران سے“ اس نے کہاکہ اسے ہم نے پڑھا ضرور ہے لیکن اس کی تشریح سے واقف نہیں ہوں۔ آپ نے فرمایاکہ نورسے وحی مرادہے طورسیناسے وہ پہاڑمراد ہے جس پرحضرت موسی خداسے کلام کرتے تھے جبل ساعیر سے محل و مقام عیسی علیہ السلام مراد ہے کوہ فاران سے جبل مکہ مرادہے جوشہرسے ایک منزل کے فاصلے پرواقع ہے پھرفرمایاتم نے حضرت موسی کی یہ وصیت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا اس کی بات ماننااوراس کے قول کی تصدیق کرنااس نے کہا ہاں دیکھی ہے آپ نے پوچھاکہ بنی اخوان سے کون مرادہے اس نے کہا معلوم نہیں، آپ نے فرمایاکہ وہ اولاداسماعیل ہیں، کیوں کہ وہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے ہیں اوربنی اسرائیل کے مورث اعلی حضرت اسحاق بن ابراہیم کے بھائی ہیں اور انہیں سے حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعدجبل فاران والی بشارت کی تشریح فرما کر کہا کہ شعیانبی کاقول توریت میں مذکورہے کہ میں نے دوسوار دیکھے کہ جن کے پرتوسے دنیاروشن ہوگئی، ان میں ایک گدھے پرسوار تھا اور ایک اونٹ پر، اے راس الجالوت تم بتلاسکتے ہوکہ اس سے کون مراد ہیں؟ اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا کہ راکب الحمار سے حضرت عیسی اور راکب الجمل سے مرادحضرت محمدمصطفی صلعم ہیں۔
پھرآپ نے فرمایاکہ تم حضرت حبقوق نبی کے اس قول سے واقف ہو کہ خدااپنابیان جبل فاران سے لایااورتمام آسمان حمدالہی کی (آوازوں) سے بھرگئے اسکی امت اوراس کے لشکرکے سوارخشکی اورتری میں جنگ کرینگے ان پرایک کتاب آئے گی اورسب کچھ بیت المقدس کی تباہی کے بعد ہوگا اس کے بعدارشاد فرمایاکہ یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ ان سے وہ امورظاہرہوئے ،جوان سے پہلے کے انبیاء پرنہیں ہوئے تھے مثلادریائے نیل کا شگافتہ ہونا، عصاکاسانپ بن جانا، ایک پتھرسے بارہ چشمہ جاری ہوجانااوریدبیضاوغیرہ، آپ نے فرمایاکہ جو بھی اس قسم کے معجزات کوظاہرکرے اورنبوت کامدعی ہو،اس کی تصدیق کرنی چاہیے اس نے کہانہیں آپ نے فرمایاکیوں؟ کہااس لیے کہ موسی کوجوقربت یامنزلت حق تعالی کے نزدیک تھی وہ کسی کونہیں ہوئی لہذاہم پرواجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات وکرامات نہ دکھلائے ہم اس کی نبوت کااقرارنہ کریں ،ارشادفرمایاکہ تم موسی سے پہلے انبیاء مرسلین کی نبوت کاکس طرح اقرارکرتے ہو حالانکہ انہوں نے نہ کوئی دریاشگافتہ کیا، نہ کسی پتھرسے چشمے نکالے نہ ان کاہاتھ روشن ہوا،ا ورنہ ان کاعصااژدھابنا،راس الجالوت نے کہاکہ جب ایسے اموروعلامات خاص طورسے ان سے ظاہرہوں جن کے اظہارسے عموماتمام خلائق عاجزہو، تووہ اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یانہ ہوں ان کی تصدیق ہم پرواجب ہوجائے گی۔ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے فرمایاکہ حضرت عیسی بھی مردوں کوزندہ کرتے تھے کورمادرزادکو بینا بناتے تھے مبروص کوشفادیتے تھے مٹی کی چڑیابناکرہوامیں اڑاتے تھے وہ یہ امورہیں جن سے عام لوگ عاجز ہیں پھرتم ان کوپیغمبر کیوں نہیں مانتے؟
راس الجالوت نے کہا کہ لوگ ایساکہتے ہیں، مگرہم نے ان کوایساکرتے دیکھانہیں ہے فرمایاتوکیا آیات و معجزات موسی کوتم نے بچشم خوددیکھا ہے آخروہ بھی تو معتبرلوگوں کی زبانی سناہی ہوگاویساہی اگرعیسی کے معجزات ثقہ اورمعتبرلوگوں سے سنو،توتم کوان کی نبوت پرایمان لاناچاہئے اوربالکل اسی طرح حضرت محمدمصطفی کی نبوت ورسالت کااقرارآیات ومعجزات کی روشنی میں کرناچاہیئے سنو ان کاعظیم معجزہ قرآن مجیدہے جس کی فصاحت وبلاغت کاجواب قیامت تک نہیں دیاجاسکےگا یہ سن کروہ خاموش ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک مشہور مجوسی عالم ہربذ اکبر حضرت امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعلمی گفتگوکرنے لگاآپ نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنایت فرمائے اس کے بعداس سے سوال کیاکہ تمہارے پاس زرتشت کی نبوت کی کیادلیل ہے اس نے کہاکہ انہوں نے ہماری ایسی چیزوں کی طرف ہدایت فرمائی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے رہنمائی نہیں کی تھی ہمارے اسلاف کہاکرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے لیے وہ ا مورمباح کئے ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے نہیں کئے تھے آپ نے فرمایاکہ تم کو اس امرمیں کیاعذر ہوسکتاہے کہ کوئی شخص کسی نبی اوررسول کے فضائل وکمالات تم پرروشن کرے اورتم اس کے ماننے میں پس وپیش کرو، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم نے معتبرلوگوں سے سن کرزرتشت کی نبوت مان لی اسی طرح معتبرلوگوں سے سن کرانبیاء اوررسل کی نبوت کے ماننے میں تمہیں کیاعذر ہوسکتاہے؟
من موہن سنگھ فساد زدہ علاقوں کے دورے پر
ہندوستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے آج صوبہ اترپردیش کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ وزیر اعظم ہند نےحالیہ فرقہ وارانہ فسادات سے متاثر افراد سے ملاقات میں وعدہ کیا کہ ان لوگوں کو کڑی سزائيں دی جائيں گي جو حالیہ فسادات میں ملوث ہیں۔ ہندوستانی وزیر اعظم نے کانگریس کی سربراہ سونیا گاندھی اور اس پارٹ کے نائب صدر راہل گاندھی کے ساتھ مظفر نگر کے فسادات زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ واضح رہے ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیوں نے وزیر اعظم کے دورہ مظفر نگر پر کڑی نکتہ چینی کی اور اسے ڈرامہ قراردیا ہے۔ واضح رہے ہندوستان کی مرکزی اور صوبائي حکومتوں پر انتھا پسند ہندو تنظیموں کو کافی اثرو رسوخ حاصل ہے جس کی بنا پر سکوریٹی فورسز بھی بحرانی حالات میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں اور نتیجے میں مسلمان دونون طرف سے پستے ہیں۔ ہندوستان میں انتھا پسند ہندو پارٹیوں کے ہاتھوں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب جیسے عیسائيت کے پیروکار بھی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
امن عمل کے حامی، لیکن دہشتگردوں کو اس سے فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے
پاکستان آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے طالبان کی جانب سے مذکرات کے لئے شرائط پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج امن عمل کی حمایت کرتی ہے لیکن دہشت گردوں کو اس کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے میجر جنرل ثنا اللہ سمیت تین فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے بیان میں واضح موقف اپناتے ہوئے کہا کہ امن حاصل کرنے کے لیے سیاسی کوششوں کو ایک موقع ملنا چاہیے لیکن کوئی اس خام خیالی میں نہ رہے کہ ‘دہشت گرد ہمیں اپنی شرائط منوانے کے لیے مجبور کر سکیں گے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ فوج دہشت گردوں سے لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ کیانی نے کہا کہ پاکستانی فوج قوم کی امیدوں کے مطابق ہر قیمت پر دہشت گردی کی لعنت سے بے خوف ہو کر نبر آزما ہونے کے لیے پرعزم ہے۔ بیان میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ فوجیوں پر حملے جیسے بزدلانہ فعل میں ملوث دہشت گردوں کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
صبر، کامیابی اور نجات کا راستہ
صبر و بردباری انسان کی شخصیت کی ایک ایسی صفت ہے جو اس کے کردار کی نوعیت میں اہم کردار کی حامل ہے۔ تمام آسمانی ادیان میں صبر کو ایک پسندیدہ صفت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام کے نزدیک صبر کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت امام علی علیہ السلام نے اسے ایمان کا سب سے اہم رکن بتایا ہے۔ اور فرمایا ہےکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت حاصل ہے جو سر کی بدن کے ساتھ ہوتی ہے۔ علم اخلاق کی بہت سے کتابوں میں بھی صبر کو ایک ممتاز اخلاقی فضیلت قرار دیا گیا ہےاور علمائے اخلاق نے صبر کی متعدد تعریفیں کی ہیں۔ مثلا عظیم ایرانی دانشور خواجہ نصیر الدین طوسی کے نزدیک صبر ناخوشگوار واقعات کے سامنے کے وقت نفس کا بے قرار نہ ہونا ہے۔ امام خمینی رح نے بھی اس کی تاثیرکے بارے میں فرمایا ہے کہ " صبر انسان کےکمال کا موجب اور تقوی کے ارتقاء ، خدا تعالی سے مانوس اور خدا کا انسان سے خوشنودی کا سبب ہے۔ "
قرآن کریم کے متعدد مقامات پر انسان کو صبرکی تلقین کی گئي ہے۔ جس پر عمل انسان کے بہتر انفرادی اور اجتماعی کردار کی ضمانت بن سکتا ہے۔ سامعین ہم اس پروگرام میں صبر کے بارے میں قرآن کریم کے بعض احکام بیان کریں گے۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم نے جن مقامات پر صبر سےکام لینے کاحکم دیا ہے ان میں سے ایک فیصلے کا مقام ہے۔ سورۂ یونس کی آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے " آپ صرف اس بات کا اتباع کریں جس کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور صبر کرتے رہیں یہاں تک کہ خدا کوئي فیصلہ کر دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ "
اس آیت میں اللہ تعالی نے پیغمبر اکرم ص اور مسلمانون سے فرمایا ہےکہ جس چیز کی ان پر وحی کی گئي ہے اس کا اتباع کریں اور فیصلہ کرتے ہوئے صبرسے کام لیں۔
سورۂ ص کی اکیس سے چوبیس تک کی آیات میں بھی قرآن کریم نے حضرت داوود علیہ السلام کے ایک فیصلے کا واقعہ بیان کیا ہے ۔ حضرت داوود علیہ السلام نے عجلت پسندی میں ایک فیصلہ کیا لیکن بعد میں اس کی جانب متوجہ ہوگۓ۔ عموما ہوتا یہ ہے کہ عجلت پسندی میں فیصلہ کرنے سے انسان غلطی کر بیٹھتا ہے۔ فیصلے کے دوران بہت سے غلط رویوں اور غیر سنجیدہ باتوں کی وجہ عجلت پسندی ہی ہوتی ہے۔ دوسری جانب عجلت میں کیا گيافیصلہ غلط ہوتا ہے جس کے نتیجےمیں انسان کو ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ کوئي بھی نتیجہ اخذ کرنے سے قبل غور و فکر کرنا اس بات کا موجب بنتا ہےکہ انسان اپنے اعمال اور فیصلوں کے منفی نتائج کو مدنظر رکھے۔ در حقیقت صحیح فیصلہ انسان کی ساکھ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اور یہ کامیابی اور سعادت سے ہمکنار ہونے کا ایک راستہ ہے۔
سورۂ والعصر میں اللہ تعالی نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ جو صبر سے کام نہیں لیتے وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے۔
" قسم ہے عصر کی ۔ بے شک انسان خسارے میں ہے سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کۓ اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی وصیت و نصحیت کی۔ "
اگر ہم اس سورے کی نورانی آیات میں غور و فکر کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ قرآن کریم نے شروع میں وقت اور زمانے کی جانب اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد صابرین کو سراہا ہے۔ مطلب یہ کہ وقت اور صبر کرنے والوں کے درمیان قریبی تعلق پایا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وقت کے صحیح استعمال کے لۓ صبر کی صفت کا پایا جانا بہت ضروری ہے۔ ماہرین نفسیات نے مختلف افراد پر تحقیق کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پریشان اور مضطرب انسانوں کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وقت بہت سست رفتاری سے گزر رہا ہے اور وہ اس بات کے لۓ بے تاب ہوتے ہیں کہ وقت جلد گزر جائے۔ افسردگی میں مبتلا افراد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے وقت ٹھہر گیا ہو اور گزرنے کا نام ہی نہ لیتا ہو۔ اور جھگڑالو افراد کا وقت گزرنے کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب ہو گزر چکا ہوتا ہے۔ جبکہ دوراندیش افراد قلیل المیعاد اور طویل المیعاد مقاصد اپنے مدنظر رکھتے ہیں۔ اور کامیابی کے حصول کے لۓ صبر سے کام لیتے ہیں۔ بنابریں صبر کا فقدان انسان کی عمر ضائع ہونا کا سبب بنتا ہے۔
قرآن کریم نے جزا کے حصول کے سلسلے میں بھی صبر سےکام لینے کی تلقین فرمائی ہے۔ سورہ ہود کی آیت نمبر ایک سو پندرہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ " اے پیغمبر آپ صبر سے کام لیں کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ "
عموما لوگ پاداش حصول کے لۓ کام انجام دیتے ہیں۔ بعض جزائیں کام کے فورا بعد انسان کو مل جاتی ہے اور بعض جزائيں دیر سے ملتی ہیں۔ عموما بڑی پاداش دیر سے ملتی ہے۔ اور اس کے حصول کے لۓ صبر و شکیبائي بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالی کی جانب سے ملنی والی پاداش وہ گرانقدر پاداش ہے جو انسان کو اخروی زندگي اور بہشت میں حاصل ہوگي۔ اس لۓ صبر سے تہی داماں انسان نیک اعمال اور عبادات سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ابدی جنّت اور حقیقی کامیابی پر دنیوی امور کو ترجیح دیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
قرآن کریم نے انسانوں کے لۓ صبر کا ایک اور نمونہ بیان کیا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان الفت و محبت میں اضافہ ہو۔ اور وہ سعادت سے لبریز زندگی گزاریں۔اس سے مراد انتقام لینے کے موقع پر صبر کرنا ہے۔
قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ " اور اگر تم ان سے بدلہ لینا چاہو تو صرف اسی قدر بدلہ لو جس قدر انھوں نے تم پر زیادتی کی ہے اور اگر تم صبر کرو تو بہرحال صبر کرنے والوں کے لۓ بہترین ہے۔"
اس آیت میں انتقام کے موقع پر صبر کرنے اور جوابی کارروائی سے اجتناب کرنے کو انتقام لینے سے بہتر قرار دیا ہے۔ انتقام لینے کے بجائے صبر کرنا انسان کی عزت و وقار کی علامت ہے۔ اوریہ بھی صفات خداوندی سے متصف ہونے کا ایک مرحلہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی انسانوں کے ناپسندیدہ اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن وہ فورا انتقام نہیں لیتا ہے۔ بلکہ وہ اپنے بندوں کو توبہ کاموقع فراہم کرتا ہے۔ اگرچہ انسانی سماج ، خاندانی نظام اور انسانوں کے تعلقات میں یہ پسندیدہ خلق حکمفرما ہوجائے تو لوگوں کی بہت سی مشکلات میں کمی واقع ہوجائے گی۔ طلاق کی شرح کم ہوجائے گی اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل نہیں ہوں گی۔ دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنا انسان کو ایک لذت بخش زندگی اور سکون سے ہمکنار کرتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا ہے۔ " معاف کرنے میں جو لذت ہے وہ انتقام لینے میں نہیں ہے۔ "
اللہ تعالی نے انسان کو نہ صرف صبر کی دعوت دی ہے بلکہ ان کو حکم دیا ہےکہ وہ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں۔ سورۂ آل عمران کی آخری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
" اے ایمان والوں صبر کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی رغبت دلاؤ"
صبر کرنا اور صبر کے سلسلے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے سے صحتمند سماجی تعلقات کاراستہ ہموار ہوتا ہے۔ اوریہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ صبر سے انسان کے تقوی اور پرہیزگاری کو بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ اس سے انسان کے اندر خدا تعالی کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
پس صبر کا انفرادی پہلو بھی ہوتا ہے اور اجتماعی پہلو بھی۔ صبر کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ انسان عارضی خواہشات نفسانی ، غصے اور مشکلات سے اجتناب کرنے نیز پروردگار کی اطاعت اور عبادت کی انجام دہی کی طاقت و قوت حاصل کرلیتا ہے۔ اور اس کا سماجی پہلو یہ ہے کہ صبر دوسروں کے غلط رویۓ کے مقابل سب لوگوں کی ترقی و پیشرفت میں مدد کرتا ہے۔ اور انفرادی اور اجتماعی صبر کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں دوستی اورمحبت والفت کا ماحول قائم ہوجاتا ہے۔
جب سماجی تعلقات کی بنیاد صبر پر استوار ہو تو لوگوں کی نفسیاتی سلامتی کی ضمانت فراہم ہوتی ہے۔ جس کے باعث انسانوں کی سعادت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن جس معاشرے میں انسان صبر سے کام نہ لیتے ہوں اس میں لڑائی جھگڑے ، کشیدگی ، ایک دوسرے کے خلاف سازش ، غیبت ، جھوٹ اور الزامات لگانے کا بازارگرم ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ صبر کا فقدان انسان کے اندر خدا تعالی کی اطاعت کا جذبہ کم کردیتا ہے اور انسان بہتر طور پر مشکلات کا مقابلہ نہیں کرپاتا ہے۔
یورپی ماہرین نفسیات کی کتابوں میں بھی صبر پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ البتہ ان ماہرین نفسیات نے صبر کے معنی شدت اور سخت کوشی کے بیان کۓ ہیں۔ اور ان کا خیال ہے کہ انسان کی شخصیت کی ایک اہم خصوصیت مشکلات میں اس کا ڈٹ جانا ہے۔ ان کہنا ہے کہ صابر اور سخت کوش انسان زندگی کے سلسلے میں احساس ذمےداری رکھتے ہیں اسی لۓ وہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر غلبہ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ ماہرین نفسیات صبر اور سخت کوشی کو ایک ایسا ذریعہ جانتے ہیں جو مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے میں انسان کی مدد کرتا ہے ۔
بنابریں سعادت و کامیابی کے حصول کے سلسلے میں صبر کے کردار پر نہ صرف ادیان الہی میں توجہ دی گئي ہے بلکہ ماہرین اور سماجی مفکرین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔
مصر، فوج سے اخوان المسلمین کی اپیل
اخوان المسلمین نے فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ اپنے بیرکوں میں واپس چلی جائے اور ملک میں فوج کی وجہ سے جو فساد برپا ہوا ہے ان پر مصری قوم سے معافی مانگے۔ اخوان المسلمین کے بیان میں آیا ہے کہ مصری قوم اپنی تاریخ میں فوج اور پولیس کے ہاتھوں اپنے فیصلے کی پامالی اور ہولناک ترین قتل عام کی شاہد ہے۔ اس بیان میں کہا گيا ہے کہ فوج غنڈوں کی بھی سرپرستی کررہی ہے۔ اخوان المسلمین نے وزیر اعظم حازم بیلاوی پر دوہرا رّویہ اپنانے کا الزام لگایا۔ اخوان المسلمین نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں جمہوری ادارے تباہ ہورہے ہیں اور اگر یہ عمل جاری رہا تو مصر نابود ہوجائےگا۔
60سال سے صہیونیت کے لئے امریکہ، تمام ملکوں کے حکام کی جاسوسی کرتا ہے
وائينہ میڈسن نے پریس ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ دنیا میں کوئي بھی اعلی سرکاری عھدیدار جو الکٹرانیک مواصلاتی ذرائع سے استفادہ کرتا ہے امریکی جاسوسی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے تمام ملکوں کے حکام کی جاسوسی کرنے کا پلان بنارکھا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے برازیل اور میکسیکو کے سربراہوں کی جاسوسی کی ہے جس پر ان ملکوں کی حکومتوں نے امریکہ سے وضاحت طلب کرلی ہے اور شدید ناراضگي کا اظہار کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکی سی آئي اے کے سابق افسر ایڈورڈ اسنوڈن نے ہزاروں دستاویزات کا انکشاف کیا ہےجن سے امریکہ کے عالمی جاسوسی پروگرام کی قلعی کھل گئي ہے۔
ایران کی جوھری سرگرمیاں؛ پائیدار ترقی کی پالیسی
جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے نے آئی اے ای اے کے بورڈ اف گورنرز کے اجلاس میں کہا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے ہر قسم کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لئے آئی اے ای اے کے ساتھہ وسیع تعاون کے لئے تیار ہے ؛ لیکن آئی اے ای اے میں ایران کے نمائندے نے وضاحت کی کہ تھران جوہری انرجی کے پر امن استعمال پر مبنی اپنے مسلمہ حق سے دستبردار نہیں ہو گا ۔
رضا نجفی نے ویانا میں جمعرات کی شام ہونے والے بورڈ اف گورنرز کے موسم گرما کے آخری اجلاس میں این پی ٹی کے رکن ممالک اور ایجنسی کی توقعات و ذمہ داریوں پر تاکید کے ساتھہ جوہری انرجی کے استعمال کے شعبہ میں ایران کے اہداف و مقاصد کی وضاحت کی ۔ لیکن ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کے دائرے میں کن اہداف کے درپے ہے ؟ ایران کا پہلا ہدف و مقصد جوہری ٹیکنالوجی سے آلودگی سے پاک انرجی یعنی بجلی کی پیداوار ہے۔ اسی دائرے میں ایک ہزار میگاواٹ بجلی تیار کرنے کی صلاحیت کا حامل ایران کا پہلا ایٹمی بجلی گھر ایران کے جنوب میں واقع بوشہر میں بنایا گیا ہے کہ جو اپنے تمام تر آخری تجربات اور ٹیکنیکل کنٹرول سسٹم سے گزرنے کے بعد اپنے مقررہ وقت یعنی چوبیس ستمبر کو ایرانی کونٹیکٹرز کے حوالے کردیا جائے گا۔ لیکن اس شعبے میں ایران کی ایٹمی انرجی ایجنسی کا دوسرا مقصد و ہدف جوہری ایندھن کی ری سائیکلنگ کے تحفظ کے ساتھہ بجلی گھر اور تھران کے ری ایکٹر کی ضرورت کے لئے ایندھن کی پیداوار ہے۔
واضح ہے کہ یورینیئم کی افزودگی این پی ٹی معاہدے اور آئی اے ای اے کے قوانین کے منافی نہیں ہے اور ایران کو توقع ہے کہ تھران کے لئے آئی اے ای اے کی جانب سے اس حق کو باقاعدہ طور پرتسلیم کیا جائے۔ مغربی اور جوہری ایندھن رکھنے والے ممالک نے کہ جو ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے شعبے میں معاندانہ اہداف سے کام لے رہے ہیں ، تقریبا گذشتہ دو برسوں سے تھران ری ایکٹر کے لئے ایندھن کی فراہمی بند کررکھی ہے۔ لیکن ایسے میں جبکہ بعض کا یہ خیال تھا کہ ایندھن کی تیاری میں ڈھائی سال کا عرصہ لگتا ہے ، ایرانی سائنسدانوں نے ڈیڑہ سال کی کم مدت میں یہ کام پورا کرلیا۔ ایران کی ایٹمی انرجی تنظیم نے اس سائنسی ہدف کو عملی جامہ پنہانے کے لئے پہلے مرحلے میں ایران کے ایٹمی ایندھن کی ری سائیکلنگ کے عظیم منصوبے کو ایک قومی منصوبے کے عنوان سے شروع کیا اور اس سلسلے میں اصفہان کے یو سی اف کے کارخانے اور اراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کے منصوبے کا افتتاح کیا اور گذشتہ سال بھی قم میں فوردوتنصیبات میں یورینیئم کی افزودگی کے کام کا افتتاح ہوا اور یہ سب منصوبے جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کی نگرانی میں کام کررہے ہیں اور کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔
اس وقت تھران کا تحقیقاتی ری ایکٹر ایرانی سائنسدانوں کی جانب سے تیار کیئے جانے والے ایندھن سے ہی کام کررہا ہے۔ آئی اے ای اے کے بورڈ اف گورنرز کے اجلاس میں آمانو کی نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات میں ایران کے اندر تیار کردہ نئی نسل کے سینٹی فیوجز نصب کئے گئے ہیں۔ اس وقت ایران میں پندہ قسم کی ریڈیوایکٹو میڈیسن تیار کی جاتی ہیں اور تقریبا دس لاکھہ کینسر کی بیماری میں مبتلا مریض ان میڈیسنز کو استعمال کررہے ہیں اور اس قسم کی دواؤں کا نوے سے پچانوے فیصد ایران میں ہی تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایران کو ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے لئے بیس ایٹمی بجلی گھروں کی ضرورت ہے تاکہ ترقی و پیشرفت کے لئے اس سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی تیار کی جاسکے اور ایران کے روشن افق کی دستاویز میں اس کو شامل کیا گیا ہے اور اس کام کے لئے ایران کو تیس ہزار ٹن ایٹمی ایندھن کی ضرورت ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک پابندیوں ، سیاسی دباؤ اور فوجی دہمکیوں اور حتی ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے قتل اور کمپیوٹر وائرس سے بحران کھڑا کرنے کے ساتھ اس کوشش میں ہیں کہ ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کریں۔ مغرب کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ، ایٹمی ٹیکنالوجی آج ملت ایران کے اہم سائنسی کارناموں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس بات میں کسی بھی قسم کا کوئی شک شبہ نہیں کہ ایران کا یورینیئم کی افزودگی کا حصول کہ جو آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی مکمل نگرانی میں انجام پارہا ہے، این پی ٹی معاہدے کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ یہ کامیابیاں سائنسی ترقی و پیشرفت کے علاوہ انرجی کی ضرورت کو پورا کرنے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی دور اندیشی کی علامت بھی ہے اور ان اہداف کے ساتھہ ایران اپنے جوہری حقوق سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لئے پختہ عزم و ارادہ رکھتا ہے اور تھران کی یہ تاکید ہے کہ اس حوالے سے اعتماد کی فضا قائم ہو۔
ایران، ملک کے بھرپور دفاع کے لئے آمادہ
اسلامی جمہوریہ ایران کی بری فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ مسلح افواج زمین اور فضا میں ملک کا بھرپور دفاع کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ جنرل احمد رضا پوردستان نے آج صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بری فوج فضا اور زمین پر ہرطرح کے خطرے کا دفاع کرنے کےلئے آمادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بری فوج نے علاقے میں تمام اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے ہفتہ دفاع مقدس کی آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ہفتے بری فوج کی کامیابیوں کی رونمائي کی جائے گي۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جنگوں میں بنیادی کردار انسان کا ہوگا اور وہی ممالک ان جنگوں میں کامیاب رہیں گے جن کی فوجیں مومن ہوں گي۔ انہوں نے بری فوج کے وارگیمز کے بارے میں کہا کہ بری فوج کی مشقیں رواں برس نومبر کے مہینے میں جنوبی ایران میں کی جائيں گي۔
حجاب، رہبر معظم انقلاب اسلامي آيت الله العظمي سيد علي خامنه اي کی نگاہ میں
1- فطری انسانی نظام
حجاب انسان کی فطرت سے ہم آہنگ اقدار کا جز ہے۔ دونوں صنف مخالف کا حد سے زیادہ آمیزش کی سمت بڑھنا، بے پردگی اور ایک دوسرے کے سامنے عریانیت فطرت انسانی اور مزاج انسانی کے خلاف عمل ہے۔ اللہ تعالی نے مرد و زن کی زندگی کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے اور فوائد کی بنیاد پر ایک فطری نظام قائم کیا ہے تاکہ وہ دونوں مل کر دنیا کا نظم و نسق چلائیں۔ کچھ فرائض عورتوں اور کچھ مردوں کے دوش پر رکھ دئے ہیں اور ساتھ ہی مرد و زن کے لئے کچ حقوق کا تعین کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر عورت کے حجاب کے سلسلے میں مرد کے لباس سے زیادہ سخت گیری کی گئی ہے۔ یوں تو مرد کو بھی بعض اعضا کو چھپانے کا حکم دیا گيا ہے لیکن عورت کا حجاب زیادہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عورت کے مزاج، خصوصیات اور نزاکت کو قدرت کی خوبصورتی و ظرافت کا مظہر قرار دیا گيا ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ کشیدگی، آلودگی اور انحراف سے محفوظ رہے اور اس میں گمراہی نہ پھیلے تو اس صنف (نازک) کو حجاب میں رکھنا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے مرد پوری طرح عورت کی مانند نہیں ہے اور اسے تھوڑی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ اس کی وجہ دونوں کی فطری ساخت اور اللہ تعالی کی نظر میں نظام حیات چلانے کے تقاضے ہیں۔
دوسرا باب: مغربی تہذیب میں حجاب
اسلام اور مغربی تہذیب میں حجاب کا چیلنج
میں نے بارہا کہا ہے کہ یہ ہماری مجبوری نہیں ہے کہ ہم اپنے موقف کا دفاع کریں۔ دفاع تو مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت کو کرنا چاہئے۔ عورتوں کے سامنے جو بات ہم پیش کرتے ہیں اس کا کوئی بھی با شعور اور منصف مزاج انسان منکر نہیں ہو سکتا۔ ہم عورت کو عفت، پاکیزگی، حجاب، مرد و زن کی حد سے زیادہ آمیزش سے اجتناب، انسانی وقار کی حفاظت، غیر مردوں کے سامنے سجنے سنورنے سے اجتناب کی دعوت دیتے ہیں۔ کیا یہ بری چیز ہے؟ یہ تو مسلمان عورت کے وقار کی ضمانت ہے، یہ عورت کے عز و شرف کی بات ہے۔ جو لوگ عورت کو اس انداز کے میک اپ کی ترغیب دلاتے ہیں کہ گلی کوچے کے لوگ اسے ہوسناک نظروں سے دیکھیں، انہیں اپنے اس نظرئے کا دفاع کرنا چاہئے کہ انہوں نے عورت کو اتنا کیوں گرا دیا ہے اور اس کی اس انداز سے تذلیل کیوں کر رہے ہیں؟! ان کو اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہماری ثقافت تو ایسی ثقافت ہے جسے مغرب میں بھی با شعور افراد اور اچھے انسان پسند کرتے ہیں اور اسی انداز سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہاں بھی با عفت و متانت خواتین اور وہ عورتیں جو اپنی شخصیت کو اہمیت دیتی ہیں کبھی بھی غیروں کی ہوسناک نگاہوں کی تسکین کا ذریعہ بننا پسند نہیں کرتیں۔ مغرب کی انحطاط پذیر ثقافت میں ایسی مثالیں بہت ہیں۔
یورپ میں حجاب کی قدر و قیمت کی نفی
مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں جواب دے جس نے گزشتہ ادوار سے موجودہ دور تک عورتوں کی اتنی توہین کی اور انہیں اتنا گرا دیا! آپ دیکھئے کہ یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتوں کو مالیاتی اختیارات حاصل نہیں تھے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجدو اور عجیب و غریب انداز کی بے پردگی کے باوجود جو مغرب میں روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس بے لگام جنسی اختلاط اور آمیزش کے باوجود جسے وہ عورت کے احترام اور قدر و قیمت کی علامت قرار دیتے ہیں، ان ساری چیزوں کے باوجود عورت کو یہ حق نہیں تھا کہ اس ثروت کو بھی جو اس کی اپنی ہوتی تھی، اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے! شوہر کے سامنے وہ اپنے مال و متاع کی بھی مالک نہیں ہوتی تھی۔ یعنی جو عورت شادی کرتی تھی اس کی ساری دولت اس کے شوہر کی ہو جاتی تھی۔ اسے یہ حق نہیں ہوتا تھا کہ خود اسے استعمال کرے۔ پھر رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل میں عورت کو مالکانہ حقوق ملے اور کام کی آزادی دی گئی۔ یعنی اس چیز سے بھی عورت کو محروم رکھا تھا جو بنیادی ترین انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہے۔ ان کا سارا زور اقدار کا درجہ رکھنے والے امور کے منافی چیزوں پر تھا۔ حجاب کے سلسلے میں ہم جو اتنی تاکید کرتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔
عورت کی عریانیت اور الکحل ازم، یورپی روایت
اس وقت دنیا میں کچھ مخصوص چیزوں کے سلسلے میں بڑی حساسیت دیکھنے میں آتی ہے۔ اگر کسی شخصیت، کسی فلسفی، کسی سیاستداں نے عورت کی عریانیت کی مخالفت کر دی تو اس پر دنیا میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے! بہت سی بری عادتوں اور حرکتوں کے سلسلے میں یہ حساسیت نہیں ہے! اگر کوئی ملک پالیسی کے تحت شراب کی مخالفت کرنے لگے تو ایک شور شرابا مچ جاتا ہے اور تمسخرانہ مسکراہٹیں نظر آنے لگتی ہیں، اسے رجعت پسند کہا جانے لگتا ہے! یہ بھی کوئی ثقافت ہوئی؟ ثقافت کے جز کے طور پر عورت کی عریانیت اور نشے کو عمومی رواج کے طور پر متعارف کرانا کس کا کام ہے؟ اس کا تعلق یورپ سے ہے اور یہ چیز ان ممالک کی قدیمی تہذیب سے نکلی ہے۔ یہی چیزیں اب دنیا کے دیگر علاقوں میں مسلمہ رواج کا درجہ حاصل کر چکی ہیں اور اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو گویا اس سے گناہ کبیرہ سرزد ہو گیا ہو۔
مغرب کی متضاد باتیں
یورپی ممالک میں جو خود کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور اپنے پروپیگنڈوں میں ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی حقوق اور انسانوں کی آزادی کا موضوع ان کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے یعنی انہی برطانیہ اور فرانس نے چند عورتوں یا لڑکیوں کو اتنی بھی اجازت نہیں دی کہ وہ اسلامی حجاب کے ساتھ آمد و رفت کر سکیں اور اسکولوں میں جائیں! اس مرحلے میں تو اکراہ و اجبار سب کچھ ان کے لئے جائز ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں رہ جاتا! لیکن اسلامی جمہوریہ پر اس وجہ سے کہ وہ معاشرے میں حجاب کو لازمی سمجھتا ہے ان حلقوں نے شدید اعتراض کیا ہے! اگر عورتوں کو کسی وضع قطع یا کسی لباس میں رہنے پر مجبور کرنا برا ہے تو یہ برائی حجاب کو ضروری قرار دئے جانے کی برائی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ یہ (حجاب) سلامتی و تحفظ سے زیادہ نزدیک ہے۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ دونوں کی باتوں کو ایک نظر سے دیکھا جائے لیکن مغرب کا نظریہ یہ نہیں ہے۔
مغربی ثقافت میں عورت کی تذلیل و تحقیر
عورتوں کے مسئلے میں ہمارا موقف دفاعی نہیں، جارحانہ ہے۔ مغرب والوں کا ہم پر اعتراض ہے کہ آپ کی عورتیں حجاب میں کیوں رہتی ہیں، کیوں حجاب کو لازمی کر دیا گيا ہے۔ جبکہ ان لوگوں نے بے حجابی و بے پردگی کو لازمی کر رکھا ہے۔ عورتوں کے قضیئے میں ان کی مشکل اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ مغربی دنیا میں عورت کو رسوا کرکے رکھ دیا گيا ہے، اس کی تحقیر و توہین کی گئی ہے۔ یہ جو سفارت کاری کے امور میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں اس سے اس کاری ضرب کی تلافی نہیں ہو سکتی جو مغرب نے عورت پر لگائی ہے۔ انہوں نے عورت کو لذت و شہوت کے سامان کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ میک اپ کے بغیر عورت کی کوئی ارزش و قیمت نہیں ہے۔ اسے چاہئے کہ سجے سنورے تاکہ مردوں کو اچھی لگے۔ یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے۔
حجاب، اسلامی ثقافت کی کنجی
کسی ملک پر دائمی قبضے اور تسلط کے لئے ضروری ہے کہ اس ملک کی ثقافت بدل دی جائے۔ یعنی اس ملک کو قابض ملک کی ثقافت میں ڈھال دیا جائے تاکہ وہ پوری طرح ہتھیار ڈال دے۔ مغرب والوں نے ماضی میں مشرقی خطوں میں یہ کام کیا لیکن انہیں بہت کامیابی نہیں ملی۔ اس وقت وہ افغانستان میں یہی کام کرنا چاہتے ہیں اور یقینا ان کا ایک ہدف یہ ہے کہ شخصیت اور تشخص ساز بنیادوں کو ختم کر دیں۔ بات اسلام سے شروع کرتے ہیں۔ حجاب کی مخالفت کرتے ہیں، لوگوں کی دینداری اور مذہبی علامتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان اقدار کی حفاظت کرنا چاہئے انہیں تقویت پہنچانا چاہئے۔
مغرب اسلامی جمہوریہ کو، جہاں عورتوں کی پوشاک کی ایک لازمی شکل معین ہے، تنقید کا نشانہ بناتا ہے لیکن ان ملکوں کے سلسلے میں اس کی تیوریوں پر کبھی بل نہیں پڑتے جنہوں نے عریانیت اور عورت اور مرد کے ما بین بے پردگی کو جبرا لازمی قرار دے دیا ہے! اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ (حجاب) مغرب کی عام ثقافت کے برخلاف ہے۔ یہ (مغرب والے) اس سلسلے میں بہت حساس ہیں۔
یورپ میں حجاب پر پابندی
ان حالیہ چند برسوں میں یورپ میں، فرانس، جرمنی اور کچھ دیگر ممالک میں حجاب کے خلاف اقدامات اٹھائے گئے۔ کچھ لڑکیاں اسکارف کے ساتھ اسکول جا رہی تھیں، انہیں صاف منع کر دیا گيا کہ "بالکل ہو ہی نہیں سکتا" اس کی مخالفت کی گئی! دوسری طرف آپ یہ دیکھیں گے کہ عالمی معیاروں کی بات کی جا رہی ہے۔ جب وہ اسلامی جمہوریہ کو کچھ فرائض کی انجام دہی کی تلقین کرنا چاہتے ہیں تو جس چیز پر ان کی سب سے زیادہ تاکید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ " ایران کو خود کو عالمی معیارات سے ہم آہنگ کر لینا چاہئے" معیارات سے مراد یہی چیزیں ہیں! یعنی وہ چیزیں جو مغربی ثقافت سے میل کھاتی ہوں۔ تو مغرب کی جانب سے یہ سخت گیر رویہ اور یہ دباؤ ہمیشہ رہتا ہے، جب بھی کوئی ثقافت بالخصوص یہ اسلامی ثقافت، جو اپنا ایک مقام و مرتبہ رکھتی ہے اور کمزور اور دفاعی پوزیشن میں بھی نہیں ہے، آگے آنا چاہتی ہے تو اسے تذلیل، توہین اور شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تیسرا باب: ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں حجاب
حجاب کا اثر و نفوذ
آپ دیکھ رہے ہیں کہ عورتیں مختلف ممالک میں، خواہ وہ ایسے اسلامی ممالک ہوں جہاں حجاب کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور جو مغربی ثقافت میں غرق ہیں یا خود یورپی ممالک، حجاب میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ البتہ یہ میلان پہلے مسلمانوں کے یہاں نظر آیا اور انقلاب کی کامیابی کے بعد ہم نے دیکھا کہ دور دراز کے ممالک نے بھی جو مغربی و یورپی تہذیب کے دلدادہ یا زیر اثر تھے، ایرانی خواتین کے حجاب کو اختیار کیا اور اس میں دلچسپی دکھائی۔ آج بھی مغربی دنیا اسلامی حجاب کی سمت بڑھ رہی ہے۔ میں نے شمالی افریقا کے مسلمان نشین علاقے کے ایک ملک میں دیکھا کہ عورتیں اور لڑکیاں ایرانی عورتوں کے حجاب کی طرز پر حجاب استعمال کر رہی ہیں۔ آج مغربی دنیا بھی رفتہ رفتہ اسلامی حجاب کی جانب راغب ہو رہی ہے۔
عالم اسلام کے مشرقی علاقے میں، جہاں تک اطلاعات حاصل ہو رہی ہیں، حقیقی و خالص و انقلابی اسلام کی عملی تصویر، ملت ایران کی اس عظیم تحریک کے اثرات لوگوں کے دلوں پر پڑے ہیں۔
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض مغربی ممالک میں، غیر اسلامی حکومتوں والے مسلم ممالک میں حجاب دشمنوں کے حملوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، یہ عورتوں میں حجاب کی گہری رغبت کی علامت ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں جہاں پردے پر توجہ نہیں دی جاتی تھی، اسلامی ممالک میں جہاں میں نے خود نزدیک سے مشاہدہ کیا کہ پردے اور حجاب کا نام لینا گوارا نہیں کیا جاتا تھا انقلاب کے بعد عورتیں بالخصوص روشن خیال خواتین اور خصوصا طالبات میں حجاب کی شدید رغبت نظر آنے لگی۔ انہوں نے حجاب کو اپنایا اور اس کی حفاظت کی۔
مغربی ثقافت کی جبری ترویج
جس نے مغربی تہذیب یعنی در حقیقت ایران پر مغرب کے تسلط کے حق میں اور برطانیہ کے سامراجی قبضے کے مفاد میں اس زمانے میں سب سے بڑا قدم اٹھایا وہ (سابق شاہ ایران) رضا خان تھا۔ موجودہ حالات میں یہ اقدامات کتنے شرمناک سمجھے جاتے ہیں کہ کوئی بادشاہ یکبارگی ملک کے قومی لباس کو بدل دے! ہندوستان اور دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں قوموں کے پاس اپنی پوشاک اور اپنا لباس ہے اور وہ اس پر فخر بھی کرتی ہیں، کسی طرح کی خفت محسوس نہیں کرتیں۔ لیکن ان (ایران کے شاہی دربار سے متعلق) لوگوں نے یکبارگی اعلان کر دیا کہ یہ (قومی) لباس ممنوع ہے! کیوں؟ کیونکہ اس لباس کے ساتھ صاحب علم نہیں ہوا جا سکتا! واہ بھئی واہ! ایران کے عظیم ترین سائنسداں جن کی کتابیں اب بھی یورپ میں پڑھائی جاتی ہیں اسی ثقافت اور اسی ماحول میں پلے بڑھے۔ اس لباس کا (ان پر) کیا (منفی) اثر پڑا؟ یہ کیا بات ہوئی؟! اس طرح کی مسخرے پن کی باتیں کی گئيں۔ ایک قوم کا لباس ہی بدل دیا گيا۔ عورتوں کی چادر کو ممنوع کر دیا گيا۔ اعلان کر دیا گيا " چادر میں رہ کر عورت دانشور اور سائنسداں نہیں بن سکتی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتی" میں سوال کرتا ہوں کہ ایران میں چادر پر پابندی لگا دینے کے بعد عورتوں نے سماجی سرگرمیوں میں کتنا حصہ لیا؟ کیا رضا خان کے دور حکومت میں یا رضا خان کے بیٹے کے دور میں عورتوں کو سماجی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت دی گئی؟! نہ مردوں کو اس کی اجازت دی جاتی تھی اور نہ عورتوں کو اس کا موقع ملتا تھا۔ جس وقت ایرانی خواتین سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اتریں اور انہوں نے ملک کو اپنے مقتدر ہاتھوں پر بلند کیا اور ملک کے مردوں کو بھی جد و جہد کے میدان میں کھینچا اس وقت وہ چادر پہنے ہوئے میدان میں آئی تھیں۔ چادر کے کیا منفی اثرات ہیں؟! کسی مرد یا کسی عورت کی سرگرمیوں میں لباس کب رکاوٹ بنتا ہے؟! یہ نادان، ان پڑھ غنڈہ رضاخان دشمن کے ہاتھوں میں پڑ گیا اور اس نے اچانک ہی ملک کا لباس بدل دیا۔ اس لئے کہ مغربی عورتوں کے ہاں سر برہنہ باہر نکلنے کا رواج تھا! مغرب سے یہ چیزیں لائی گئی تھیں۔ قوم کو جن چیزوں کی اشد ضرورت تھی وہ نہیں لائی گئیں۔ علم و دانش لانے کی کوشش نہیں کی گئی، تجربات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، سعی و کوشش اور محنت کی عادت کی پیروی نہیں کی گئی، مہم جوئی (کے جذبے) کو لانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہر قوم میں کچھ اچھی صفات و خصائص ہوتے ہیں، ان صفات کو اپنانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جو چیزیں لائی گئیں انہیں آنکھ بند کرکے قبول کر لیا گيا۔ جو افکار و نظریات لائے گئے وہ بغیر غور و فکر کے من و عن قبول کر لئے گئے۔ کہا گیا کہ چونکہ یہ مغربی (افکار و نظریات) ہیں اس لئے انہیں قبول کر لینا بہتر ہے۔ لباس، غذا، انداز گفتگو اور چلنے کی روش چونکہ مغربی ہے اس لئے اسے اپنا لینا چاہئے! اس میں کسی پس و پیش کی گنجائش نہیں ہے! کسی بھی ملک کے لئے یہ صورت حال مہلک زہر کی مانند ہوتی ہے۔ یہ قطعا درست نہیں ہے۔
مسلمان عورت پر مظالم
بے ضمیر اور پست سلطنتی نظام میں عورت حقیقت میں ہر لحاظ سے مظلوم تھی۔ اگر وہ علمی میدان میں وارد ہونا چاہتی تو اسے دین و تقوا و عفت و پاکیزگی سے کنارہ کشی کرنی پڑتی تھی۔ یہ کہاں ممکن تھا کہ مسلمان خاتون یونیورسٹی، تعلیمی مراکز، علمی و ثقافتی اداروں میں آسانی سے اپنے حجاب، متانت اور وقار کو برقرار رکھتی؟ یہ کہاں ممکن تھا کہ تہران اور بعض دیگر شہروں کی سڑکوں پر مسلمان خاتون اسلامی متانت و وقار کے ساتھ یا حتی آدھے ادھورے حجاب کے ساتھ آسانی سے گزر جائے اور اسے مغربی فحاشی و فساد کے دلدادہ افراد کے رکیک جملوں کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ نوبت یہ آ گئی تھی کہ اس ملک میں عورتوں کے لئے حصول علم تقریبا نا ممکن ہو گیا تھا۔ البتہ اس میں کچھ استثنا بھی ہے لیکن اکثر و بیشتر عورتوں کے لئے علمی میدان میں وارد ہونا ممکن نہیں ہو پاتا تھا۔ اس کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ حجاب ترک کر دیں اور تقوی و اسلامی وقار سے خود کو الگ کر لیں۔
ایران میں حجاب اور عورتوں کی سماجی ترقی
اسلام، انقلاب اور امام (خمینی رہ) نے اس ملک میں آکر عورت کو سیاسی سرگرمیوں کے محور و مرکز میں پہنچا دیا اور انقلاب کا پرچم خواتین کے سپرد کر دیا۔ اس سب کے ساتھ ساتھ عورتوں نے اپنے حجاب و وقار و اسلامی متانت، دین و تقوا اور عفت و پاکدامنی سے بھی خود کو آراستہ رکھا۔ آج مسلمان ایرانی عورت کی گردن پر کوئی حق باقی نہیں رہ گيا ہے جو ادا نہ ہوا ہے۔
آپ غور کیجئے! جب ایک مسلمان عورت اپنی فطرت اور حقیقت کی سمت لوٹتی ہے تو کیسے کیسے شاہکار تخلیق کرتی ہے! بحمد اللہ ہمارے انقلاب اور اسلامی نظام میں اس کا مشاہدہ کیا گيا اور آج بھی یہ چیز ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے کب عورتوں کی یہ قدرت و عظمت دیکھی تھی جو آج مادران شہدا کے ہاں دیکھ رہے ہیں؟! ہم نے نوجوان لڑکیوں کا یہ ایثار کہاں دیکھا تھا کہ وہ اپنے عزیز شوہروں کو محاذ جنگ پر بھیجیں اور یہ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ ان میدانوں میں سرگرم عمل رہیں؟ یہ عظمت اسلام ہے جو انقلاب کے ایام میں اور آج بھی ہماری انقلابی خواتین کے چہروں سے ہویدا ہے۔ یہ پروپیگنڈہ نہیں کیا جانا چاہئے کہ حجاب اور عفت کی حفاظت کے ساتھ، گھر کی دیکھ بھال اور بچوں کی پرورش کے ساتھ انسان علمی میدانوں میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ آج ہم اپنے سماج میں بحمد اللہ کتنی خاتون سائنسدانوں اور مختلف میدانوں کی ماہر عورتوں کو دیکھ رہے ہیں! محنتی، با صلاحیت اور با ارزش طالبات سے لیکر فارغ التحصیل خواتین اور ممتاز و صف اول کی ڈاکٹروں تک! اس وقت اسلامی جمہوریہ میں مختلف علمی شعبے خواتین کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان عورتوں کے ہاتھوں میں جنہوں نے اپنی عفت و پاکیزگی کی حفاظت کی ہے، حجاب کی بھی مکمل پابندی کی ہے، اسلامی روش کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش بھی کی ہے، جو اسلام کا حکم ہے اسی انداز سے شوہر کے تعلق سے اپنے فرائض بھی انجام دئے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ علمی اور سیاسی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں۔ اسلامی ماحول میں، اسلامی مزاج کے ساتھ خاتون حقیقی کمال تک پہنچ سکتی ہے۔ آرائشی سامان اور استعمال کی چیز بنے بغیر۔
ایران کی مسلمان خواتین کا پیغام
ایرانی خواتین بالخصوص وہ عورتیں جو مختلف علمی و سائنسی شعبوں میں، اسلام اور اسلامی احکامات کے دائرے میں رہتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر حجاب کی پابندی کے ساتھ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئی ہیں، وہ اپنے عمل سے دنیا کی عورتوں، لڑکیوں اور طالبات کو یہ دکھائیں کہ نہ تو تعلیم کے معنی بے راہروی کے ہیں اور نہ ہی تحصیل علم کا لازمہ مرد اور عورت کے ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے متعلق اخلاقی اصول و ضوابط سے بے اعتنائی ہے۔ ان ضوابط اور اقدار کی مکمل پابندی کرتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا بھی جا سکتا ہے اور ساتھ ہی مسلمان خاتون کے وجود کو اسلام کے عالمی پیغام کے ایک نمونے کے طور پر پیش بھی کیا جا سکتا ہے۔
شام کے خلاف امریکہ کا حملہ ، اسرائیل کی نابودی
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ موحدی کرمانی کی امامت میں ادا کی گئي۔
آیت اللہ موحدی کرمانی نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں شام کے حالات اور اس ملک کے خلاف امریکہ کی فوجی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام پرحملوں کے خطرناک نتائج سے صرف شام ہی نہیں بلکہ جارح ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اسرائيل نابود ہوجائے گا۔ خطیب جمعہ تہران نے امید کا اظہار کیا کہ امریکہ شام کے تعلق سے دانشمندی سے عمل کرے گا اور ایک اور جنگ شروع کرکے علاقے میں عدم استحکام کا سبب نہیں بنے گا۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے مصر کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مصر جیسا متمدن اور علماء و دانشوروں کا ملک ایسی صورتحال سے دوچار ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ مصر میں جاری تشدد امریکی سامراج اور صیہونیت کی سازشوں کا نتیجہ ہے جو اسلامی ملکوں کو کمزور کرنے کے لئے رچی گئي ہیں۔ آيت اللہ موحدی کرمانی نے مصری عوام سے کہا کہ متحد ہوکر ایک دوسرے کے مقابلے سے پرہیز کریں اور دشمنوں کے مقابل صف آرا ہوجائيں۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ سامراجی طاقتوں نے ہمیشہ زور زبردستی، قتل وغارت اور تشدد سے قوموں کے مفادات اور ذخائر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کا قیام اور پٹھو حکومتوں کو برسر اقتدار لانے کا مقصد سامراج و صیہونیت کے مفادات اور اسلام کو کمزور کرنے کے ھدف سے انجام پارہا ہے۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے کہاکہ حضرت امام خمینی قدس سرہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے سامراجی طاقتیں بوکھلا اٹھیں، انہوں نے کہا کہ ایرانی فوج نے دفاع مقدس کے دوران اپنی بہادری اور قربانیوں اور استقامت سے کافروں اور اسلام و ایران کے دشمنوں کو شکست دی اور ان کی سازشیں ناکام بنادیں۔ خطیب جمعہ تہران نے انسانیت کی مدد کرنے کے لئے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے دعوؤں کو سفید جھوٹ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ ادارے عالمی سامراج کے ہاتھوں میں کھلونہ ہیں اور انہیں اپنے اھداف کے حصول کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے مختلف قوموں کےخلاف امریکہ کے جرائم منجملہ ہیرو شیما، ناگاساکی پر ایٹمی بمباری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج قومیں بیدار ہوچکی ہیں اور بیرونی تسلط سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کررہی ہیں ۔