Super User

Super User

راولپنڈی میں عاشور کے جلوس پر حملہ مسلمانوں کے اتحاد کے خلاف سازش ہے

کراچی پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ و سنی علمائے کرام بشمول ملی یکجہتی کونسل سندھ کے قائم مقام صدر اور جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی، مجلس وحدت مسلمین سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ صادق رضا تقوی، جمعیت علمائے پاکستان کے صوبائی صدر علامہ عقیل انجم، شیعہ علماء کونسل سندھ کے جنرل سیکریٹری علامہ ناظر عباس تقوی سمیت دیگر رہنماؤں نے کہا کہ عید میلاد النبی (ص) اور عزاداری شہدائے کربلا کے خلاف شر انگیزی کرنا دہشت گردوں کی سازش ہے تاکہ شیعہ و سنی کے درمیان افتراق کی فضاء کو پیدا کیا جاسکے لیکن پاکستان کے شیعہ و سنی مسلمان اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانتے ہیں اور ان کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ شہدائے کربلا اور خاص طور پر امام حسین علیہ السلام امت اسلامی کے درمیان اتحاد کا ایسا مرکز و محور ہیں کہ جو بھی اسلامی مقدسات کی اس ریڈ لائن کو عبور کرتا ہے وہ خود دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یزیدیت کی حمایت کرنے والے یہ جان لیں کہ ہم خون کے آخری قطرے تک پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کی ناکامی کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ہے، انتظامیہ کو جب حساسیت کا اندازہ تھا تو انہوں نے مذکورہ مسجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو کیوں کنٹرول نہیں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شیعہ و سنی اسلام کے دو بازو ہیں لیکن تکفیری گروہ مسلسل وطن عزیز میں دہشت گردی کے ذریعے شیعہ و سنی دونوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ یوم عاشور کے جلوس پر حملہ آور افراد کو اور مسجد کے خطیب کو توہین رسالت کے مقدمے میں گرفتار کرکے سخت سزا دی جائے کیونکہ امام حسین علیہ السلام جوانان جنت کے سردار، خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) کے پیارے نواسے اور پوری امت مسلمہ کے بلا تفریق قائد و رہبر ہیں اور یزید خبیث کے خلاف ان کا قیام حق پر مبنی تھا اور اسی لئے مولانا محمد علی جوہر، خواجہ معین الدین چشتی اور علامہ اقبال سمیت اس خطے کے تمام اولیائے کرام اور مفکرین امام حسین علیہ السلام کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا بانی قرار دیتے ہیں کہ جنہوں نے اسلام کو ایک نئی زندگی عطا کی اور ان کی قربانی کلمہ توحید لاالہ الاللہ کی بنیاد قرار پائی۔ ملک بھر میں محرم الحرام میں خوف و دہشت کی فضا ایجاد کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف فوری طور پر ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ پاکستان کی اسلامی ریاست کے باغی ہیں اور خلفائے راشدین کی سیرت بھی یہی ہے کہ باغیوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یزید کی حمایت میں کوئی بھی بات اور امام حسین علیہ السلام کے خلاف کوئی بھی لفظ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ملی یکجہتی کونسل کے قائم مقام صوبائی صدر قاضی احمد نورانی نے واضح کیا کہہ ملک میں شیعہ سنی اتحاد کی فضا قائم ہے، سنی شیعہ آج بھی مل جل کر رہتے ہیں اور یہی اتحاد دشمنان اسلام کو پسند نہیں ہے۔ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یوم عاشورا کو راولپنڈی میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائی میں ملوث عناصر کو فی الفور گرفتار کیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے۔

پنڈی میں فرقہ واریت کو مسجد ضرار سے ہوا ملی

تحریک اسلام کے صدر اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنما علامہ حیدر علوی نے کہا ہے کہ راجہ بازار راولپنڈی کی جس مسجد سے ’’ یزید ‘‘ کی حمایت اور تعریف کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوئی ہے، یہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ''مسجد ضرّار'' جیسا کردار ادا کرنے والی پہلی مسجد تھی، مولوع غلام اللہ فاضل دیوبند اس کے بانی تھے اور سپاہ صحابہ کے قیام سے پہلے اس مسجد سے جتنی فرقہ واریت، نفرت اور تشدد پھیلا، اور انبیاء کرام، صحابہ اور اولیاء اللہ کی جتنی تضحیک اور تذلیل کی گئی اور شعار اسلامی اور خصوصا عید میلادالنی اور یوم عاشور جیسے مقدس تہواروں کا مذاق اڑایا گیا اس کی مثال پاکستان کے کسی مدرسہ میں نہیں ملتی، سوشل میڈیا پر گذشتہ روز کے واقعہ تبصرہ کرتے علامہ حیدر علوی نے کہا کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک، دارالعلوم کورنگی کراچی، جامعہ بنوریہ گرومندر کراچی اور جامعہ اشرفیہ لاہور جیسے دیوبندی مکاتب فکر کے پرانے ادارے مجموعی طور پر بھی اتنی نفرت اور فرقہ واریت نہیں پھیلا سکے جو اس اکیلی ''مسجد ضرار'' روالپنڈی نے پھیلائی۔

تحریک اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حالیہ فسادات اور کشیدگی اسی پس منظر کی مرہون منت ہے۔ راجہ بازار میں انجمن تاجران کی بہت ساری تنظیمیں ہیں جو سب کی سب سنی ہیں، اسی مسجد کے نیچے کپڑے کی جو مارکیٹ ہے وہ بھی سنیوں کی ہے، اہل تشیع کے ساتھ یہ ساری مارکیٹ اور ملحقہ آبادی، فتنہ اور فساد پھیلانے والی اس اولیں مسجد ضرار سے تنگ ہے اور ان سے نفرت کا اظہار کرتی رہتی ہے، یہاں سنی اور شیعہ شیر و شکر کی طرح رہتے ہیں، باہمی رشتہ داریاں اور لین دین کے علاوہ اپنے اپنے عقاید پر بڑے پرامن طریقے سے عمل پیرا ہیں، مگر نجانے کیوں اس ’’ مسجد ضرار ،، کے درو دیوار سے یہ نفرت اور دہشت پھیلائی جاتی رہی ہے۔

علامہ سید ساجد علی نقوی: برداشت اور بھائی چارے کے ذریعے شرپسند عناصر کو کامیاب نہ ہونے دیں

شیعہ علماء کونسل کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ روز عاشور راولپنڈی کے مرکزی ماتمی جلوس کے دوران ہونے والے ناخوشگوار سانحے کے حقائق جاننے کے لئے فوری طور پر عدالتی کمیشن قائم کرکے جوڈیشل انکوائری (عدالتی تحقیقات) کرائی جائے اور تمام پہلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلٰی پیمانے پر تحقیقات کرا کے سانحہ کے ظاہری اور پس پردہ عوامل اور ذمہ داران کا تعین کرکے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے، ہمارے نزدیک تمام مذاہب، مسالک اور مکاتب کے مقدسات، مساجد، مدارس، امام بارگاہیں، جلوس ہائے عزاء امام حسین علیہ السلام، عوام کی جان و مال و املاک محترم ہیں۔ اُن کا احترام اور حفاظت ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی نے مزید کہا کہ ہم اشتعال انگیزی، سادہ عوام کے جذبات سے کھیلنے، جلاؤ، گھیراو اور فائرنگ کی شدید مذمت اور نفی کرتے ہیں۔ عوام سے بھرپور مطالبہ کرتے ہیں کہ باہمی اتحاد و اتفاق، رواداری، صبر، حوصلہ، تحمل و برداشت اور بھائی چارے کے ذریعہ شرپسند عناصر کے مذموم مقاصد کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ روز عاشور کا مرکزی ماتمی جلوس سال ہا سال سے جاری ہے اور اسی مقررہ راستہ پر گامزن رہتا ہے۔ اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء، تجار، عمائدین اور عوام شریک ہوتے ہیں اور اس جلوس کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس بازار کی تاجر برادری نواسہ رسول (ص) سے محبت اور باہمی رواداری کے اعلٰی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے اور عزاداران سیدالشہداء بھی سال ہا سال اسی بازار سے نواسہ رسول (ص) کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پُرامن انداز میں گذر جاتے ہیں۔ اس طویل ترین عرصہ کے دوران کئی بار عاشور جمعہ المبارک کے روز آیا اور پُرامن گذر گیا۔ روز عاشور کے حساس ماحول میں نہ اختلافی خطبہ دیا گیا۔ نہ پتھراو، نہ فائرنگ ہوئی نہ ہی جلاو گھیراو اور قتل و غارت گری کا کوئی واقعہ رونما ہوا۔ لیکن اس سال انتہائی سنگین سانحہ پیش آیا، جسمیں کئی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ کاروبار اور املاک کا بڑا نقصان ہوا،

شیعہ علماء کونسل کے سربراہ نے کہا کہ محسوس ایسے ہوتا ہے کہ یہ سانحہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی اور مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے کرایا گیا ہے۔ جو اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے۔ مثال کے طور پر کس کے ایماء پر اشتعال انگیزی ہوئی۔؟ پتھراو اور فائرنگ کس نے کی؟ اوپر سے پٹرول کس نے گرایا؟ آناً فاناً مارکیٹ میں آگ کیسے لگی؟ آگ لگانے کے وسائل کہاں سے آئے؟ مسجد اور مدرسہ روٹ سے تھوڑا ہٹ کر ہونے کے باوجود کیسے جلے؟ انسانی جانوں کا ضیاع کیسے ہوا؟ واقعہ کے بعد مسلح دستوں کو کیوں کنٹرول نہ کیا گیا؟ ان تمام حالات میں انتظامیہ، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کا کردار کیا رہا؟ اس کے علاوہ بہت سے سوالات ہیں جن کے صحیح جوابات عوام جاننا چاہتے ہیں۔

لگتا ایسا ہی ہے کہ یہ سانحہ عاشور کراچی کی طرح ایک پہلے سے طے شدہ سانحہ تھا۔ اس لئے اعلٰی عدالتی تحقیقات کے ذریعہ حقائق منظر عام پر لائے جائیں اور قانون کو حرکت میں لاکر امن کے قیام کو یقینی بنایا جائے، اسی طرح چشتیاں، بہاولنگر، ملتان، شہداد کوٹ اور دیگر مقامات پر ہونے والی اشتعال انگیزی، جلاؤ گھیراو کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لاتے ہوئے شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، تاکہ عوام کی بے چینی ختم ہوسکے۔

وھائٹ ہاؤس، ایران کے ساتھ سمجھوتے کے کافی قریب ہیںوھائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار بن روڈز نے ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ اگرچہ مذاکرات کا عمل بہت دشواری سے آگے بڑھ رہا ہے تاہم سمجھوتے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ بن روڈز نے سی این این سے گفتگو میں جنیوا کے آئندہ مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ ہم، نظریات قریب کرنے میں کامیاب رہے ہیں اسلئے سمجھوتے کا حصول اب مشکل نہیں رہا ہے۔ وھائٹ ہاؤس کے اس عہدیدار نے یہ کہا کہ سمجھوتے کے باوجود ایران کے تیل اور بینکوں کے خلاف امریکہ کی پابندیاں جاری رہیں گی۔ وھائٹ ہاؤس کے عہدیدار بن روڈز کا یہ بیان ایسی حالت میں سامنے آيا ہے کہ امریکہ میں دونوں جماعتوں کے انتہا پسند اراکین اور اسی طرح صیہونی لابی بدستور اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ جوہری مسئلے میں ایران کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ ہونے پائے۔

قابل ذکر ہے کہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک درمیان سات سے نو نومبر کے دوران جنیوا میں مذاکرات ہوئے تھے جن میں سمجھوتہ طے پانے کے حالات مکمل سازگار ہوگئے تھے مگر فرانس کے وزیر خارجہ کے غیر منطقی موقف کی بناء پر کوئی سمجھوتہ طے نہ پاسکا اور نتیجے میں فریقین نے آئندہ بیس نومبر کو جنیوا میں ہی دوبارہ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا۔

لیبیاء, قومی اتحاد کو مضبوط بنائے جانے پر ایران کی تاکیداسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے لیبیاء کے حالیہ واقعات پر،جن میں بھاری تعداد عام شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں، تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایران کے دفتر خارجہ کی ترجمان نے ایک بیان میں ان ہلاکتوں پر ایران کی حکومت اور قوم کی جانب سے تعزیت پیش کرتے ہوئے لیبیاء میں مسلح گروہوں کو نہتھا کئے جانے اور اس ملک میں قومی اتحاد کو مضبوط بنائے جانے کی ضرورت پر تاکید کی۔

جمعے کے روز لیبیاء میں ہونے والی جھڑپوں میں ستّر سے زائد افراد ہلاک اور پانچ سے سے زائد دیگر زخمی ہوگئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ لیبیاء میں اس ملک کے ڈکٹیٹر معمر قزافی کی حکومت کے زوال کے بعد ہونے والی جھڑپوں کا، یہ بدترین واقعہ ہے۔

شب عاشوراسیدحسن نصراللہ کاخطاب؛ کوئی چیز ہم اور حسین(ع) کے درمیان حائل نہيں ہوسکتی

رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے بدھ کی شب کو شب عاشورا کی مناسبت سے عزاداران حسینی سے خطاب کرتے ہوئے کہا: اچ اسرائیل عرب اور اسلامی ممالک کی صورت حال اور جنگوں اور فتنوں کی وجہ سے بہت خوش ہے اور ان جنگوں اور تناؤ کی صورت حال کی حمایت کرتا ہے۔

سید حسن نصر اللہ کے خطاب کے اہم نکات:

٭ آج صہیونی ریاست کا وزير اعظم نیتن یاہو اہل تشیع اور اہل سنت کے امور کا ماہر بنا ہوا ہے اور وہ ان کے اعتقادات کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے اور ان کے درمیان اختلافات کو اہمیت اور ہوا دیتا ہے۔

٭ اسرائیل کی ابدی اور دائمی پالیسی علاقے کے ممالک میں تقسیم اور تفرقے پر مبنی ہے اور وہ اپنی بقاء کی خاطر قوموں، قبائل اور فرقوں کی بنیاد پر ان ممالک کی تقسیم کے درپے ہے، تاکہ یہ غاصب ریاست واحد مستحکم قوت کے طور پر اس علاقے میں باقی رہے اور اپنی شرطوں کو خطے پر مسلط کردے۔

٭ صہیونی ریاست مستقبل سے خوفزدہ ہے اور اسی لئے خطے کو مسلسل جنگ میں دھکیل رہی ہے اور وہ کسی صورت میں بھی علاقے کے لئے صلح و امن اور سکون و سلامتی نہیں چاہتی۔

٭ گیارہ ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد اسرائیل اور امریکہ میں یہودی ـ صہیونی لابی نے امریکہ کے تمام تر وسائل اس علاقے پر جارحیت اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے استعمال کئے۔ اسرائیلیوں نے امریکہ کو اپنی قوت سے عراق پر حملہ کرنے پر مجبور کیا اور ان کا کردار اس سلسلے میں فیصلہ کن تھا۔ اس ریاست نے اپنا تمام تر اثر و رسوخ استعمال کرکے امریکہ کو شام پر حملہ کرنے کے لئے اکسایا لیکن ناکام ہوئی۔

٭ صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو جب ایران اور 1 + 5 گروپ کے درمیان مذاکرات کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مغربی ممالک اور ایران کے درمیان اختلافات سفارتکاری کے ذریعے حل ہونے کے آثار نمودار ہورہے ہیں تو وہ غصے سے آگ بگولا ہوجاتا ہے۔

٭ ہر قسم کی مفاہمت خطے میں جنگ کے راستے میں رکاوٹ ہے اور صہیونی ریاست اس مفاہمت کے خلاف ہے' اسرائیل ایک جنگ کے درپے ہے تاکہ اپنی سالمیت کی ضمانت حاصل کرے؛ یہ ریاست چاہتی ہے کہ امریکہ عراق پر قبضہ کرے، شام پر حملہ کرے اور ایران کے خلاف اقدام کرے اور اس کو نابود کرے تاکہ اسرائیل اپنی طاقت کا تحفظ کرسکے۔

٭ امریکہ نے کہا ہے کہ سیاسی راہ حل کا متبادل جنگ ہے لیکن امریکی عوام جنگ نہیں چاہتے۔

بعض عرب ممالک صہیونیوں کے مہلک منصوبوں کے حامی

٭ صہیونی ریاست علاقے میں جنگ، فتنہ انگیزي اور تقسیم و تباہی اور ویرانی چاہتی ہے اور افسوس کا مقام ہے کہ بعض عرب ممالک کے حکمران بھی اسی اسرائیلی منصوبے کی حمایت کررہے ہیں۔ اور اسی ریاست کی طرح وہ بھی شام میں سیاسی راہ حل کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور ایران اور دنیا کے ممالک کے درمیان مفاہمت کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔

٭ یہ ممالک مفاہمت کے خلاف ہیں لیکن مفاہمت کا متبادل کیا ہے؟

٭ خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں پر مسلط بیرونی ایجنٹو! بتاؤ ایران اور دنیا کے ممالک کے درمیان مفاہمت کا متبادل کیا ہے؟ جان لو کہ اس مفاہمت کا متبادل اس خطے میں جنگ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؛ لیکن کیا تم جانتے ہو کہ یہ جنگ کہاں تک پھیلے گی؟ اسرائیلی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جنگ شروع تو کرسکتے ہیں لیکن وہ کسی بھی جنگ کو اس خطے میں محدود رکھنے سے عاجز ہونگے۔

نیتن یاہو بعض عرب حکومتوں کا ترجمان!!!

٭ وہ اس علاقے کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اور افسوس ہے کہ نیتن یاہو بعض عرب حکومتوں کا ترجمان بنتا ہے اور افسوس ہے کہ زیپی لیونی کہتی ہے کہ اس کی حکومت کو بعض عرب ممالک نے خطوط اور مراسلے بھجوائے ہیں اور اسرائیل سے درخواست کی ہے کہ وہ ایران کے جوہری مسئلے میں اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے۔۔۔ کیا یہ بات شرمناک نہیں ہے؟

٭ ہمیں 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33 روزہ جنگ میں ایسی ہی باتیں سننے کو ملیں جب اسرائیلیوں نے کہا کہ انہیں بعض عرب ممالک نے رابطہ کرکے، کہا ہے کہ لبنان میں اپنی جنگ بند نہ کرو۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ساز باز کرنے والے یہ عرب حکمران حزب اللہ کی فتح کی صورت میں گھٹن، دباؤ اور مزاحمت کا شکار ہونگے۔

٭ ہمیں عرب حکمرانوں کی یہی منطق غزہ کی جنگ میں دیکھنے کو ملی کیونکہ وہ صہیونی ریاست کے مقابلے میں محاذ مزاحمت کی کامیابی نہیں چاہتے۔

اور یاد رکھو، امریکہ صرف اپنے مفاد کے درپے ہے

٭ امریکہ اسرائیل اور خطے میں اپنے دوسرے آلہ کاروں کے خاطر کچھ بھی نہيں کرتا؛ امریکہ صرف اپنے مفادات کے لئے کام کرتا ہے؛ اسرائیل بھی امریکہ کے لئے کام کرتا ہے اور ہم نے دیکھا کہ امریکہ نے اپنے مفادات اور اپنے مفادات کو درپیش خطرات کے پیش نظر شام پر حملہ نہيں کیا۔

٭ لبنانی عوام اور علاقے کی تمام قوموں کو جان لینا چاہئے کہ جو لوگ علاقے کو جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں وہ شکست کھائیں گے اور کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔

لبنان میں محاذ مزاحمت صہیونیوں کی جاسوسی کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار

٭ لبنانی عوام کو معاشی اور علاقائی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے متحد ہوجائیں؛ لبنانی حکومت صہیونی ریاست کی جاسوسی کا سد باب کرنے کی ذمہ دار ہے؛ پارلیمان کے سربراہ نبیہ بری نے اس سلسلے میں اقدام کیا اور اس سلسلے میں بعض اجلاس بھی منعقد ہورہے ہیں؛ ہم بھی محاذ مزاحمت کی حیثیت سے اس سلسلے میں یا کسی بھی مسئلے میں حکومت کی خواہشات کو عملی جامی پہنانے کے لئے تیار ہیں؛ حکومت کو اپنے فرائض منصبی کے مطابق عمل کرکے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاہم اگر حکومت کچھ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو تحریک مزاحمت اسرائیلی جاسوسی کا سد باب کرنے کے لئے بہت کچھ کرنے کے لئے تیار ہے؛ لیکن ہم لبنان کی موجودہ صورت حال کو ملحوظ رکھتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری قبول کرکے، لیکن اگر حکومت کچھ نہ کرسکی تو تحریک مزاحمت اس ذمہ داری سے پہلی تہی نہیں کرے گی۔

٭ حزب اللہ کا مواصلاتی نظام بہت اہم ہے۔۔۔ کیا ہم عوکر میں واقع امریکی سفارتخانے کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں جو تمام لبنانیوں کی جاسوسی کررہا ہے اور جاسوسی کا گھونسلا بنا ہوا ہے؟ ہمارا مواصلاتی نظام ملک کے اندر فعال نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اسرائیل کا مقابلہ کرنا ہے اور ہمارا مواصلاتی نظام مزاحمت تحریک کا ہتھیار ہے اور اسرئیل کی فنی ترقی کے پیش نظر ہمارے اس نیٹ ورک کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

لبنان کے بارے میں جان کیری کا موقف غیر اہم ہے

٭ جان کیری نے حال ہی سعودی عرب کے دورے میں کہا ہے کہ انھوں نے سعودی حکومت کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے مستقبل میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ کیری کے اس موقف نے لبنان میں بعض لوگوں کی خوشی کے اسباب فراہم کئے۔۔۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حزب اللہ اس رات سے اب تک چین کی نیند نہیں سو سکی ہوگی!! حالانکہ کیری کے موقف کی کوئی اہمیت نہيں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کیری کا یہ موقف ضمنی اعتراف ہے کہ ان کا حامی دھڑا لبنان میں سیاسی کردار ادا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

٭ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا دھڑا ـ جو لبنان کی اکثریت کی ترجمانی کررہا ہے ـ اس ملک کے مستقبل میں کوئی کردار ادا کرنے کا حق نہيں رکھتا!! ۔۔ کیری کے موقف کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے؛ ۔۔ سنہ 2006 میں پوری دنیا نے اسرائیل کی حمایت کی ۔۔۔ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کانڈولیزا رائس نے [مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی حکام کے ساتھ بیٹھ کر] کہا کہ "جدید مشرق وسطی کی پیدائش کا وقت آن پہنچا ہے"، وہ کون تھا جس نے اس "خبیث جنین (Embryo)" کو گرا دیا جس کو امریکہ اور اسرائیل اس خطے میں پیدا کرنے چاہتے تھے؟ کیا یہ تحریک مزاحمت، آپ لبنانی عوام اور لبنانی افواج کی کوششوں کا نتیجہ نہ تھا؟

لبنان میں کابینہ کی تشکیل کا شام کی صورت حال سے ناطہ نہیں ہونا چاہئے

٭ امریکی اور صہیونی اور بعض عرب ممالک کو لبنان کے معاملات پر اثر انداز ہونے کا حق نہيں پہنچتا، کسی کو بھی ایک دھڑے کو حذف کرنے کا حق نہيں ہے اور ہم بھی کسی کو حذف کرنے کے درپے نہیں ہیں؛ لبنان کا اصل ضابطہ یہ ہے کہ شراکت، تعاون اور رابطے کو تسلیم کیا جائے۔

٭ حقیقت یہ ہے کہ لبنان میں دو دھڑے پائے جاتے ہیں جن کے پاس، لبنان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے، باہمی تعاون کے بغیر کوئی اور متبادل نہيں ہے؛ کوئی بھی لبنان سے باہر، اس ملک کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔

٭ لبنان میں حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں تمام دھڑوں اور جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے؛ عبوری حکومت خلا کو پر کرتی ہے لیکن مشکلات کو حل نہیں کرتی؛ نئی حکومت برسراقتدار آنی چاہئے۔ اب چھ مہینوں کے بعد یا ایک سال یا دو سال کے بعد، جو منصوبہ سب کو مطمئن کرسکتا ہے وہ 9-9-6 کا منصوبہ ہے۔ لیکن اب تک تاخیر کا سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ 14 مارچ کے دھڑے کے لئے سعودی عرب کی طرف سے ایک علاقائی فیصلہ سنایا گیا ہے، اور فطری امر ہے کہ یہ دھڑا اور سعودی حکومت اس فیصلے کو حتمی شکل دینے کے درپے ہیں اور وہ فیصلہ یہ ہے کہ حکومت دوسرے دھڑے کے بغیر تشکیل دی جائے حالانکہ وہ ایسا کرنے سے عاجز ہیں۔

٭ بعض لوگ حکومت کی تشکیل میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ لبنان کے حالات میں تبدیلی کے منتظر ہیں؛ وہ انتظار کررہے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں میں شام کے اندر حلب، غوطہ غربی اور غوطہ شرقی وغیرہ میں میدان جنگ کی صورت حال بدل جائے گی؛ لیکن ہفتے گذرتے رہے اور حالات ان حضرات کی توقعات کے خلاف ہوئے اور اب بھی صورت حال ان کی توقعات کے خلاف جارہی ہے۔ لہذا اگر کوئی لبنان میں یا خطے میں، لبنان کی حکومت کی تشکیل کے لئے شام میں کامیابیوں کی توقع لئے بیٹھا ہے تو ہم اس سے کہتے ہیں: تم شام میں کامیاب نہیں ہوسکوگے۔

٭ اب ان سے کہا گیا ہے کہ دیکھو بھئی! ایران کے جوہری پروگرام کے سلسلے میں مذاکرات کئے جارہے ہیں اور ان مذاکرات کا نتیجہ یہ ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کا کام تمام کیا جائے چنانچہ حزب اللہ کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل نہ دو! کیا انہیں توقع ہے کہ ایران کے بین الاقوامی مذاکرات کا نتیجہ یہ ہو کہ ایران حزب اللہ سے کہہ دے کہ "مزاحمت ترک کرو"؟ یہ سب توہمات ہیں اور کبھی بھی ایسا نہيں ہوگا۔

٭ چاہے ایران کے جوہری مذاکرات کا نتیجہ مفاہمت ہو چاہے اختلاف ہو، اور حتی اگر خدا نخواستہ یہ اختلاف جنگ کی طرف چلے جائیں، سب کو اس مسئلے سے فکرمند ہونا چاہئے لیکن فریق مخالف کو ہم سے بھی زيادہ فکرمند ہونا چاہئے۔

حزب اللہ کو اپنے حلیفوں پر پورا اعتماد ہے

٭ بےشک اگر جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران اور دنیا کے ممالک کے درمیان مفاہمت حاصل ہوجائے تو ہماری ٹیم عالمی اور علاقائی سطح پر مزید مستحکم اور طاقتور ہو جائے گی۔

٭ ہم اپنے حلیفوں کی جانب سے بالکل فکرمند نہيں ہیں؛ ہمارے اس خطے میں دو بنیادی حلیف ہیں "ایران اور شام"، کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ ہم نے اپنے حلیفوں کو دوسروں کے ہاتھ بیچ دیں یا انہیں پشت سے خنجر ماریں؟

٭ ہم اپنے حلیفوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بالکل مطمئن ہیں؛ چاہو تو میں گن کر بتا دوں کہ تمہارے حلیفوں نے کتنی مرتبہ تمہیں تنہا چھوڑا؟ چنانچہ شام کی صورت حال اور ایران کے جوہری مسئلے کے حل کا انتظار نہ کرو؛ اب ہمیں اٹھ کر کچھ کرنا چاہئے کیونکہ ہر دن کی تاخیر لبنانی قوم کا ایک دن ضائع ہونے کے مترادف ہے۔

٭ لبنانی ذمہ داری قبول کریں اور علاقائی اور بین الاقوامی حالات کی تبدیلی کا انتظار نہ کریں، انہيں اپنا کام انجام دینا چاہئے۔

سید حسن نصر اللہ نے عاشورائے حسینی کے پرجوش انداز سے انعقاد پر زور دیتے ہوئے کہا کہ سرکاری سیکورٹی فورسز نیز تحریک مزاحمت کی فورسز عزاداروں کا تحفظ کریں گی اور اس سال عاشورائے حسینی کی عزاداری مختلف حالات میں بپا ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا: عاشورا کے دن کوئی بھی خطرہ، کوئی بھی دھماکہ اور کوئی بھی کار بم، ہمارے امور حسین(ع) کے درمیان جدائی نہيں ڈال سکے گا۔

انھوں نے کہا کہا کہ پورے لبنان میں ابا عبداللہ الحسین اور ابالفضل العباس علیہما السلام کی عزاداری کی مجالس اور جلوس عوام کی بھرپور شرکت سے منعقد ہونگے۔

علاقائی امن و سلامتی کی پالیسی سنجیدگي کے ساتھ جاری رہے گیاسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے کہا ہے کہ علاقائی امن و سلامتی کی تقویت اور ہمسايہ اور مسلمان ممالک کے ساتھ ہمہ گیر تعلقات میں توسیع اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی ہے۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق مرضیہ افخم نے آج کہا ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی علاقائی امن و سلامتی کی تقویت اور ہمسايہ اور مسلمان ممالک کے ساتھ ہمہ گیر تعلقات میں توسیع اور فروغ لانے پر استوار ہے اور یہ پالیسی سنجیدگي کے ساتھ جاری رہے گی۔ مرضیہ افخم نے ایران کے تین جزائر تنب بزرگ ، تنب کوچک اور ابوموسی کے بارے میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے بیانات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ جزائر ایران کے تھے اور ایران ہی کے رہیں گے۔ اور ان جزائر کا ایران کے ساتھ تاریخی تعلق ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیاجاسکتا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے مزید کہاکہ مشرق وسطی اور خلیج فارس کے علاقے کے حقائق کو نظر انداز کر کے دیۓ جانے والے کسی بھی طرح کے بیانات سے خطے کے ممالک کے باہمی تعلقات میں کی تقویت میں کئی مدد نہیں ملے گي۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زیاد آل نہیان نے بدھ کے دن جرمن وزیر خارجہ گيدو وسترولہ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ایک بار پھر دعوی کیا تھاکہ تنب بزرگ ، تنب کوچک اور ابوموسی متحدہ عرب امارات کے جزائر ہیں۔

رہبر معظم سے عالمی ووشو میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی ایرانی خاتون کھلاڑی کی ملاقات

۲۰۱۳/۱۱/۱۱ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ساتھ ملائشیا میں ووشو کے عالمی مقابلوں میں سونے کا تمغہ حاصل کرنے والی کرمانشاہ کی خاتون نے ملاقات کی اور اپنا سونے کا تمغہ رہبر معظم انقلاب کی خدمت میں پیش کیا۔

رہبر معظم سے عالمی ووشو میں گولڈ میڈل حاصل کرنے والی ایرانی خاتون کھلاڑی کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ووشو کھیلوں میں حصہ لینے والی اس ایرانی خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے ایران کی مسلمان خاتون کے تشخص اور شناخت کو عالمی سطح پر پیش کیا، اور آپ نے ثابت کردیا کہ ایک مسلمان خاتون اسلامی حجاب اور اسلامی قوانین کے رعایت کرتے ہوئے ورزش اور کھیل کے میدان میں بھی عزت بخش اور مقتدر طریقہ سے حاضر ہوسکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے آشکارا دفاع کو اس خاتون کھلاڑی کا دوسرا امتیاز قراردتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دشمنوں کی نفسیاتی جنگ کے مستقل منصوبوں میں سے ایک غلط اور نادرست منصوبہ یہ ہے کہ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ مختلف شعبوں کی ممتاز شخصیات کا اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھا رابطہ نہیں ہے اور آپ نے اپنے اس اقدام کے ذریعہ عالمی پلیٹ فارم سے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنی وابستگي اور رابطہ کا اعلان کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بین الاقوامی میدانوں اسلامی جمہوریہ ایران کے کھلاڑیوں کے حضور کو گرانقدر قراردیتے ہوئے فرمایا: میں آپ جیسے جوانوں کی ملک میں موجودگي پر اللہ تعالی کا شکر و سپاس ادا کرتا ہوں۔

رہبر معظم سے حج کے حکام اور اہلکاروں کی ملاقات

۲۰۱۳/۱۱/۱۱ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس سال کے حج کے اعلی حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں حج کو اللہ تعالی کا ایک ھدیہ اورعالم اسلام کی مشترکہ ضرورتوں میں تفاہم پیدا کرنے کے سلسلے میں تمام نہ ہونے والی عظیم ظرفیت قراردیتے ہوئے فرمایا: عالم اسلام کو آج مسلط کردہ ، عمدی اور امت مسلمہ کے درمیان مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو شعلہ ور کرنے جیسی بڑي مشکلات کا سامنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حج کی عظيم ظرفیت سے استفادہ کے لئے وقتی ضروریات اور حساسیتوں کو مد نظر رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: استعماری اور استکباری طاقتوں کو مذھبی اختلافات ڈالنے کا بہت زيادہ تجربہ ہے اور موجودہ شرائط میں سامراج کی اس سازش کے مقابلے میں حج کی عظیم ظرفیت کو فعال کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مذھبی فرقوں کا مقابلہ صرف شیعہ اور سنی تک محدود نہیں رہےگا اور اگر اسلام دشمن عناصر اس مقابلے کو ایجاد کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو پھر وہ شیعہ اور سنیوں کے اندرونی فرقوں کے جذبات کو بھی ایکدوسرے کےخلاف شعلہ ور بنانا شروع کردیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کی مشترکہ ضرورتوں اور مطالبات کے سلسلے میں تفاہم پیدا کرنے کی فرصت کو حج کی ایک بے مثال ظرفیت قراردیتے ہوئے فرمایا: حج کی بہت سی ظرفیتیں ابھی نامعلوم اور شناختہ شدہ نہیں ہیں اور ان جدید ظرفیتوں کی شناخت اور پہچان کے سلسلے میں اسلامی مفکرین اور دانشوروں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زائرین اور حجاج کرام کو منطقی اور صحیح خدمات پیش کرنے پر حج کے اہلکاروں اور حکام کا شکریہ ادا کیا اور امید کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: حج کی تمام نہ ہونی والی عظیم ظرفیت سے عالم اسلام کی زيادہ سے زیادہ خدمت کرنے کے لئے استفادہ کیا جائے۔

اس ملاقات کے آغاز میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کے سرپرست حجۃ الاسلام والمسلمین قاضی عسگر نے حج کےثقافتی ، معنوی اور بین الاقوامی شعبوں میں رہبر معظم کے بعثہ میں ہونے والے اقدامات کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔

اس کے بعد ادارہ حج اور زیارت کے سربراہ جناب اوحدی نے اس سال حج کے سلسلے میں انجام پانے والے اقدامات اور حج کے قافلوں کو خدمات بہم پہنچانے کے سلسلے میں رپورٹ پیش کی۔

روز عاشورا، سیدحسن نصراللہ کا خطاب: جب تک ضرورت ہوگی حزب اللہ شام میں موجود رہے گیرپورٹ کے مطابق سید حسن نصر اللہ نے عزاداران سید الشہداء علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا: آپ لوگ یوم عاشور کو یہاں آئے ہیں تاکہ اپنے حق کا دفاع کریں اور امام حسین علیہ السلام کو ـ جو ہمارا اسوہ اور ہمارے رہبر و امام ہیں ـ کو لبیک کہیں، میں بھی اعلان کرتا ہوں کہ ہم تاریخ میں زندہ جاوید رہنے والی ندا "ہل من ناصر ۔۔۔" کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہیں اور ایک بار پھر کہتے ہیں: لبیک یا حسین(ع)۔

حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب کے ضمن میں حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں چودہ مارچ نامی دھڑے کی طرف سے رکاوٹوں اور بہانوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: وہ آج ہم سے کہتے ہیں کہ حکومت کی تشکیل میں ہمارے ساتھ شراکت نہیں کرنا چاہتے اور حتی کہ وہ شرطوں کا تعین کرتے ہیں اور لبنان میں حکومت کی تشکیل کو شام میں جنگ کے خاتمے سے مشروط کرتے ہیں؛ لیکن میں اعلان کرتا ہوں کہ بہتر ہے کہ پیشگی شرطوں کو بھول جائیں اور ہمیں ملک کے مسائل حل کرنے دیں۔

انھوں نے کہا: میں آج یہاں اعلان کرتا ہوں کہ جب تک شام میں ہماری موجودگی کے اسباب باقی ہونگے ہم بھی شام میں موجود رہیں گے اور کسی اور گروپ یا جماعت کی ہمیں ضرورت نہيں ہے کہ شام میں ہماری موجودگی کے بارے میں اظہار خیال کرے۔ حزب اللہ مزاحمت سے دستبردار نہيں ہوگی اور شام میں ہماری موجودگی بھی لبنان اور فلسطین کے دفاع کی خاطر ہے۔

سید حسن نصر اللہ نے کہا: آج جیسے دن امام حسین علیہ السلام اپنے جدّ امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے دین کی اصلاح کی خاطر شہید ہوئے اور میں بھی امت کے امور کی اصلاح کے لئے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پر تاکید کرتا ہوں۔

انھوں نے کہا: تکفیری صرف تشع کے دشمن نہيں ہیں وہ سب کے لئے خطرہ ہیں۔ تکفیری تیونس، عراق، لیبیار شام اور دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کو خاک و خون میں تڑپا رہے ہیں اور ہم سب ـ شیعہ اور سنی سے لے کر عیسائیوں تک ـ کو کوشش کرنی چاہئے کہ تکفیریوں کا خاتمہ کیا جائے۔

اسلامی تحریک مزاحمت کے قائد نے کہا: آج ہم اختلافات کے باوجود لبنان کی قومی یکجہتی اور قومی سلامتی پر تا کید کرتے ہیں اور سب کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اختلافات کو ایک طرف رکھیں تا کہ اپنے قومی اہداف تک پہنچنے کے لئے قدم آگے بڑھاسکیں اور اپنے اور اپنی قوم کے لئے باوقار سماجی حیات کا انتظام کریں۔

انھوں نے ایک بار تمام لبنانی دھڑوں کو اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتے ہوئے عزاداران امام حسین(ع) سے مخاطب ہوکر کہا: میں آپ کی عزاداری کی قبولیت کی دعا کرتا ہوں؛ خداوندا روز قیامت ہمارے قدموں کو امام حسین(ع) اور اصحاب حسین(ع) کے سامنے استوار فرما۔ سلام ہو حسین پر اور اصحاب حسین پر۔

خطاب کا خلاصہ المیادین ٹی وی چینل کے حوالے سے:

٭ ہم اسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف مزاحمت کے اپنے بنیادی اصولوں کے پابند ہیں۔

٭ میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم کسی بھی اسلامی اور عرب ملک کی تقسیم کے سلسلے میں کسی بھی منصوبے کے خلاف ہیں۔

٭ اسلامی تحریک مزاحمت نے سنہ 2000 میں لبنان کو اسرائیل سے آزاد کرا دیا لیکن دشمن بدستور موجود ہیں۔

٭ شام اسلامی تحریک مزاحمت کے لئے ماں کا درجہ رکھتا ہے اور یہ ملک مزاحمت کا حامی ہے۔

٭ ہم اختلافات کے باوجود لبنان کی قومی یکجہتی پر سنجیدگی کے ساتھ، تاکید کرتے ہیں۔

٭ جو بھی لبنان میں حکومت کی تشکیل کو شام سے ہمارے انخلاء سے مشروط کرے گا اس نے ایک ناقابل عمل شرط کا سہارا لیا ہے۔ ہم پارلیمان کی چند نشستوں کے عوض لبنان، شام اور محاذ مزاحمت کا سودا ہرگز نہیں کریں گے۔

٭ تکفیری مسلمانوں کے دشمن ہیں اسی وجہ سے وہ پوری دنیا میں شیعہ اور سنی مسلمانوں پر حملے کررہے ہیں [اور یہود و نصاری ان کی موجودگی میں سکھ کا سانس لے رہے ہیں]۔

٭ لبنان میں ہماری موجودگی لبنان، شام اور تحریک مزاحمت کا تحفظ ہے اور تحریک مزاحمت اپنے سامنے آنے والے تمام خطرات کا مقابلہ کرتی ہے۔

٭ جب تک ضرورت ہوگی ہم لبنان میں رہيں گے، مسئلہ یہ ہے کہ لبنان میں بعض لوگ اس مسئلے کو ایک علت (Cause) میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

٭ جب اسٹراٹجک خطرات موجود ہیں جو خطے کی اقوام کا مستقبل خطرے سے دوچار کرسکتے ہیں، تو یہ مسئلہ اس سے کہاں زيادہ اہم ہے کہ اس پر سودے بازی کی تجویز دی جائے۔ ہم نے آپ [مخالف لبنانی دھڑوں اور ان کے بیرونی حامیوں] سے کبھی بھی مزآحمت کے لئے کسی پشت پناہی اور حمایت کا مطالبہ نہیں کیا ہے اور کبھی بھی آپ سے اس طرح کی کوئی درخواست نہيں کریں گے۔

٭ مزاحمت کے اصولوں کی پابندی ہمارے ملک اور ہمارے ملکی وسائل کے تحفظ کا بنیادی راستہ ہے۔

٭ بعض لوگ لبنان میں کہتے ہیں کہ فرانس نے جرمنی کے خلاف مزاحمت کی اور پھر فرانسیسیوں نے ہتھیار ڈال دیئے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ فرانسیسی مزاحمت دشمن کے خاتمے کے بعد ختم ہوئی جبکہ لبنان کا دشمن بدستور موجود ہے اور جاسوسی کررہا ہے اور جنگ کی تیاری کررہا ہے؛ کیا یہ درست ہے کہ ایسے حالات میں میدان دشمن کے لئے خالی چھوڑ دیا جائے؟ کیا ہم دشمن کے لئے میدان خالی کریں؟

٭ جب تک مزاحمت کی دلیل اور اس کے محرکات موجود رہیں گے، تحریک مزاحمت اسرائیل کے خطرات کا سامنا کرنے کے لئے باقی رہے گی۔

٭ میں عرب ممالک کی توجہ ایک بار پھر فلسطین کا بنیادی اور مرکزی مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور یہ کہ کسی کو بھی کسی حال میں بھی، اس مسئلے سے پہلو تہی نہیں کرنی چاہئے اور تمام مسلمانوں کو فلسطینی عوام کے شانہ بشانہ رہنا چاہئے؛ تاکہ وہ امت کی مدد سے اپنی سرزمین اور مسلمانان عالم کے قبلہ اول اور دوسرے مقدسات کو آزاد کرائیں۔