
Super User
معرفت کی دنیا کے لئے مادی دنیا میں تبدیلی کی ضرورت
دنیا اس وقت انسان کو اہمیت دینا اورا یک دوسرے کو دوستانہ نگا ہ سے دیکھنا چاہتی ہے ۔ انسانیت و معرفت کی دنیا کے لئے مادی دنیا میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور وہ بھی ایسی تبدیلی جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے ۔ آج بھی آپ کا پیغام پریشان و سرگردان انسان کو اخلاق ، امن اور عدل وانصاف کی ترغیب دلارہا ہے در حقیقت دین کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو مادی دنیا سے نکال کر انصاف و صداقت پر مبنی معنوی دنیا میں داخل کر دیتا ہے اور اسے ایک انصاف پسند اور ممتاز انسان بنادیتا ہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو انقلاب لائے وہ ایسا انقلاب تھا کہ انسان حتی اپنے بھی غلط کاموں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا اور اپنے کاموں کی مذمت کرتاتھا ۔ جو شخص بھی پیغمبر اسلام کی رو ح پرورباتوں کو سنے گا اور ان پر عمل کر ےگا تو وہ خود کو اور دنیا کو پہچان لےگا اور اپنے کاموں کا محاسبہ کرےگا اور اس میں بنیادی طور پرتبدیلی آجائےگی پیغمبر اسلام نے اپنی روح افزا تعلیمات کے ذریعہ انسانی معاشرے کو گلستان میں تبدیل کردیا جو ہمیشہ سر سبز و شاداب اور معطر ہے۔
دین اسلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 23 سالہ کوششوں کا ثمرہ ہے ،اسلام ایک جامع اور کامل دین ہے جس نے کسی خاص قوم کو دعوت نہیں دی بلکہ پوری دنیا کو دعوت دی اور امت اسلامی کے اتحاد کو اپنے سیاسی اور سماجی پروگراموں میں سرے فہرست رکھا صدر اسلام میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خدا پر ایمان کے زیر سایہ وحدت و اخوت کا تحفہ لیکر آئے۔ رسول اکرم نے مدینہ میں داخل ہوتے ہی مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت و برادری کا کلمہ پڑھا اور اس طرح پہلی بار شہر مدینہ میں وحدت کی آواز پھیلی اور اتحاد وہمدلی کے زیر سایہ اسلا م وبرادری کی اعلی اقدار نے جاہلیت کی بے بنیاد اور کھوکھلی اقدار کی جگہ لے لی ۔پیغبر اسلام نے اسلامی معاشروں کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں خدا کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہنے کا حکم دیا اور عبودیت الہی کے زیر سایہ ہر قسم کے اختلاف اور تفرقہ سے پرہیز کرتے ہوئے امت واحدہ تشکیل دینے کی دعوت دی، مسلمانوں نےبھی اس دعوت پر عمل کرتے ہوئے اتحاد کے ذریعہ دشمنوں پر حملہ کیا اورتھوڑے ہی عرصے کے اندر اسلام دنیا میں پھیل گیا۔
عصر حاضر میں انقلاب اسلامی کے ظہور کے ساتھ مشام انسانی ایک بار پھر اتحاد وہمدلی کی خوشبو سے معطر ہوگیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کی طر ح انقلاب اسلامی کی کامیابی کا ایک اہم عنصر وحدت کلمہ تھا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ وحدت و اتحاد کے ایک بڑے اور کامیاب ترین منادی تھے اور دعوت وحدت ان کی زندگی اور عمل کا بنیادی پیغام تھا آپ نہ صرف سیاست میں بلکہ عرفان، فقہ اوردوسرے امور میں بھی اتحاد و ہمدلی پر ایمان رکھتے تھے ۔امام خمینی رحمت اللہ علیہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کو اتحاد وہمدلی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دنیاوالوں نے ملت ایران کے اتحاد کو دیکھ لیا اور یہ دیکھ لیا کہ ایران کے عوام نے ایمان کے بل بوتے پر خالی ہاتھ اور بغیر ہتھیارکے دوہزار پانچ سو سالہ شہنشاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑکر پیھنک دیا حالانکہ امریکہ جیسی طاقت اس کے ساتھ تھی لیکن وہ بھی کچھ نہ کرسکا ۔اگر ہم نے اتحاد کو باقی نہ رکھا تو ہمیں پھلی والی حالت کی طرف یا اس سے بھی بد تر حالت کی طرف پلٹا دیں گے۔
امام خمینی پیغمبر اسلام کی راہ پر چلنے والے اور ان کی روح پرورتعلیمات کے فریفتہ تھے او آپ اتحاد و ہودلی کی ضرورت پر بہت زیادہ زوردیتے تھے ۔آپ کا کہنا تھا کہ شیعہ اور سنی دو ایسے مذہب ہیں کہ جن کے ماننے والے بہت زیادہ ہیں اپنے اپنے عقائد کو ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک کرنا چاہیے اس لئے کہ مسلمانوں کی عزت وسر بلندی کے لئے یہ کام بہت اہم اور موثر ثابت ہوگا اور اپنے اتحاد کے ذریعہ دشمنوں کی سازشوں کو نقش بر آب کر د یں گے۔ چنانچہ امام خمینی نے بارہ ربیع الاول سے سترہ ربیع الاول کے ایا م کو دو مختلف ر وایات کی بنا پر ہفتہ وحدت قرار دیا اور شیعوں اور سنیون کے درمیان اتحاد قائم کرنے میں موئثر قدم اٹھایا ہے ۔ آپ کے صالح جانشین حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ہفتہ وحدت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مسلما نوں کے درمیان اس ہفتہ وحدت اور ہفتہ مشترک الا حترام کی قدر جانیے اور اس بات کی کوشش کریں کہ تمام مسلمانوں کی طاقت ایک محاذ پر اکھٹا ہوجائے اور مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا ہوجائے تو یہ عالمی طاقتوں کے سامنے مسلمانوں کی عزت و سر بلندی اور کامیابی کا راز ہوگا اسے غنیمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کو انقلاب اسلامی کامیابی کے بعد عالمی سامراج کی طرف سے مختلف سازشوں کا سامنا کرنا پڑا دشمنوں نے انقلاب کو کمزور کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے۔ جو مسلسل جاری ہیں دشمنوں کا ایک حربہ یہ تھا کہ مذہبی ، قومی اور سیاسی اختلاف پھیلایا جائے جسے رہبر انقلاب اسلامی کی درایت و ہوشیاری اور دور اندیشی اور لوگوں کے اتحاد اور پائداری نے نا کام بنا دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے منجملہ اہل تسنن کی نماز جماعت میں شرکت اور ان کے مقدسات کی توہین سے متعلق،منشور وحدت کی تدوین کے بارے میں حکم اور فتوی دے کر مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی ہےاور اس امر کو عالم اسلام کے لئے اہم اور بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں ۔رہبر انقلاب اسلامی مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو اسلام کی طاقت اور عالم اسلام میں موجود ذخائر اور مادی و معنوی امکانات سے سرشار صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عالم اسلام کو متحد رہنا چاہیئے اور آج اس چیز کی ضرورت ہے اور اسلامی معاشروں کی ضروریات بھی اسی چیز کو چاہتی ہیں کہ اسلامی معاشرے ایک دوسرے سے نزدیک ہوں اور ان کے درمیان اتحاد واتفاق پایا جائے۔ دشمنوں کو ان کی کمزریوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ آپ شیعہ و سنی کے درمیان اتحاد کے بارے میں ایک اہم موضوع کی طرف اشارہ کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ و حدت اسلامی سے ہماری مراد عقائد اور مذہب کے لحاذ سے ایک ہونا نہیں ہے بلکہ عالم اسلام میں ا تحاد سے ہماری مراد عدم تنازعہ ہے یعنی مسلمان آپس میں جھگڑا نہ کریں اور اختلاف سے پر ہیز کریں۔
در حقیقت اتحاد وہمدلی ہر معاشرے اور قوم کی عزت و طاقت کی موجب ہو تی ہے جس طرح اختلاف وتفرقہ ہر قوم اور معاشرے کی ذلت وخواری اور سقوط کا باعث ہوتا ہے۔ اسی لئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام گزشتہ امتوں کے حالات کو بیان کرکے لوگوں کو ان کے حالات سے عبرت حاصل کرنے اور ان کےسقوط و ترقی کےبارے میں غور وفکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس کےبعد مسلمانوں کو ایسے کام انجام دینے کی تر غیب دلاتے ہیں جو ان کی عزت و شان کے موجب بنتے ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ وہ امور جن کی وجہ سے گزشتہ امتوں کی عزت وشان میں اضافہ ہوا وہ ہے اختلاف تفرقہ سے دوری اور آپس میں ایک دوسرے کو اتحاد کی ترغیب دلاتے تھے اور ہمت سے کام لیتے تھے وہ ہر اس چیز سےدوری اختیار کر تے تھے جو امت اسلامی کی طاقت کو کمزور کرتی تھی۔
ہمیں امید ہے کہ مسلمانوں نے پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئےنیز اتحاد و ہمدلی، مکمل بصیرت اور اپنے دشمن کے اہداف کو پہچانتے ہوئے جس راستے کا انتخاب کیا ہے اس میں وہ کامیاب اور سر بلند رہیں گے۔
عدّہ کا فلسفہ کیا ہے؟
جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا : < وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنفُسِہِنَّ ثَلاَثَةَ قُرُوءٍ>(1) ”مطلقہ عورتیں تین حیض تک انتظار کر یں گی، (اور عدہ رکھیں گی)“۔
یہاں پر سوال یہ ہوتا ہے کہ اس اسلامی قانون کا فلسفہ کیا ہے؟
چونکہ طلاق کے ذریعہ معمولاً گھر اجڑنے لگتا ہے اور معاشرہ کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، اسی وجہ سے اسلام نے ایسا قانون پیش کیا ہے تاکہ آخری منزل تک طلاق سے روک تھام ہو سکے، ایک طرف تو ”اس کوجائز کاموں میں سب سے زیادہ قابل نفرت“ قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف شادی بیاہ کے مسائل میں اختلاف کی صورت میں طرفین میں صلح و مصالحت کے اسباب فراہم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ حتی الامکان اس کام سے روک تھام ہو سکے۔
انہی قوانین میں سے طلاق میں تاخیر اور خود طلاق کو متزلزل کرنا ہے یعنی طلاق کے بعد عدہ کو واجب کیا ہے جس کی مدت تین ”طہر“ یعنی عورت کا تین مرتبہ خون حیض سے پاک ہونا۔
”عدّہ“ یا صلح و مصالحت اور واپس پلٹنے کا وسیلہ کبھی کبھی بعض وجوہات کی بنا پر انسان میں ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک چھوٹے سے اختلاف یا معمولی تنازع سے انتقام کی آگ بھڑک جاتی ہے اورعقل وجدان پر غالب آجاتی ہے۔
معمولاً گھریلو اختلاف اسی وجہ سے پیش آتے ہیں، لیکن اس کشمکش کے کچھ ہی بعد میاں بیوی ہوش میں آتے ہیں اور پشیمان ہوجاتے ہیں، خصوصاً جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے پریشان ہیں تو مختلف پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔اس موقع پر مذکورہ آیت کہتی ہے: عورتیں ایک مدت عدّہ رکھیں تاکہ اس مدت میں غصہ کی جلد ختم ہوجانے والی لہریں گزر جائیں اور ان کی زندگی میں دشمنی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔
خصوصاً اسلام نے اس عدّہ کی مدت میں عورت کو حکم دیا ہے کہ گھر سے باہر نہ نکلے، جس کے پیش نظر اس عورت کوغور فکر کا مو قع ملتا ہے جو میاں بیوی میں تعلقات بہتر ہونے کے لئے ایک موثر قدم ہے۔لہٰذا سورہ طلاق کی پہلی آیت میں پڑھتے ہیں: < لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِن لَا تَدْرِی لَعَلَّ اللهَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ اٴَمْرًا> ”ان کو گھروں سے نہ نکالو تم کیا جانو شاید خداوندعالم کوئی ایسا راستہ نکال دے کہ جس سے آپس میں صلح و مصالحت ہوجائے“۔ اکثر اوقات طلاق سے پہلے کے خوشگوار لحظات ، محبت اور پیار کے گزرے ہوئے لمحات کو یاد کرلینا کافی ہوجاتا ہے اور پھیکی پڑجانے والی محبت میں نمک پڑ جاتا ہے۔
عدّہ؛ نسل کی حفاظت کا وسیلہ
عدّہ کا دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ عدہ کے ذریعہ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ طلاق شدہ عورت حاملہ ہے یا نہیں؟ یہ صحیح ہے کہ ایک دفعہ حیض دیکھنا حاملہ نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے، لیکن بسا اوقات دیکھا گیا ہے کہ عورت حاملہ ہونے کی صورت میں بھی شروع کے چند ماہ تک حیض دیکھتی ہے، لہٰذا اس موضوع کی مکمل رعایت کا حکم دیا گیا ہے کہ عورت تین دفعہ تک حیض دیکھے اور پاک ہوجائے، تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ اپنے گزشتہ شوہر سے حاملہ نہیں ہے، پھر اس کے بعد دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔(2)
________________________________________
(1)سورہٴ بقرہ ، آیت۲۲۸
(2) تفسیر نمونہ ، جلد دوم، صفحہ
جناب ام فروہ
تاریخ اسلام کی باعظمت خواتین میں سے ایک باشرف خاتون جناب فاطمہ بھی ہیں جو ام فروہ کے لقب سے مشہور اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی زوجہ اور فرزند رسول الله صلي الله عليه و آله وسلم ، امام جعفر صادق علیہ السلام کی مادر گرامی ہیں آپ نے ان دو امام ہمام سے بہت زيادہ علوم اور فضائل و کمالات حاصل کئے ۔
بغداد کے مشہور و معروف مورخ و دانشور علی بن حسین مسعودی سے روایت ہے کہ ام فروہ اپنے زمانے کی تمام عورتوں سے فضل و کمال اور تقوی و پرہیزگاری میں ممتاز تھیں ۔
اس عظیم المرتبت خاتون کی تاريخ ولادت اور امام محمد باقر علیہ السلام سے شادی کی تاريخ کا صحیح علم نہیں ہے لیکن اس مقدس شادی کے نتیجے میں دو عظیم فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور عبد اللہ پیدا ہوئے ۔
فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہمیشہ اپنی مادرگرامی کے حسن عمل اور تقوی و پرہیزگاری کا ذکر فرمایا کرتے تھے آپ اپنی والدہ ماجدہ کی عظمت ایمان اور کمال معنویت کے بارے میں فرماتے ہیں : میری والدہ ماجدہ صاحب ایمان خواتین میں سے ہیں جو تقوی و پرہیزگاری سے مملو ، بہترین روش و اسلوب سے آراستہ اور نیک خاتون تھیں اور خداوندمتعال بھی نیک لوگوں کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہے ۔
امام علیہ السلام نے اس مختصر مگر جامع قول کو سورہ نحل کی آیت ایک سو اٹھائیس سے اخذ کیا اور اپنی مادرگرامی کے نیک و پسندیدہ اوصاف کوبیان کیا ہے ۔
اس با فضیلت خاتون نے معرفت اور تقوی، انسانی و اخلاقی فضائل و کمالات کے بلند مقامات پر فائز ہونے کے علاوہ حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہم السلام سے بے شمار حدیثیں بھی نقل کی ہیں اور ان کا شمار راویان حدیث میں ہوتا ہے۔
جناب ام فروہ ایک عقلمند و بادرایت اور با وفا خاتون تھیں روایت میں ہے کہ نوے ہجری قمری میں مدینے میں خطرناک چیچک کی بیماری پھیل گئی اور بعض بچے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے اگر چہ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی عمر مبارک سات برس تھی اور سات برس سے دس برس تک کے بچوں کو چیچک کی بیماری بہت ہی کم ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود ام فروہ امام علیہ السلام سمیت اپنے تمام بچوں کو لے کر مدینے سے باہر چلی گئیں تاکہ چیچک جیسی مہلک بیماری آپ کے بچوں میں سرایت نہ کرجائے۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ زمانے میں اس مہلک بیماری سے بچنے کے لئے لوگ اپنے گھربار کو چھوڑ کر ہجرت کرلیا کرتے تھے تاکہ یہ بیماری انہیں اپنی لپیٹ میں نہ لےلے۔
جناب ام فروہ اپنے بچوں کو لے کر مدینے سے کچھ فاصلے پر طنفسہ نامی علاقے میں چلی گئیں لیکن کچھ ہی دنوں بعد انہیں احساس ہوا کہ خود وہ اس بیماری میں مبتلا ہوگئیں ہیں یہ عظیم خاتون بجائے اس کے کہ اپنی فکر کرتیں انہوں نے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے درخواست کی کہ بچوں کو طنفسہ سے ایسی جگہ لے جائیں جہاں یہ بیماری نہ ہو۔ لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام سمیت تمام بچوں کو وہاں سے ایک دیہات میں منتقل کردیا گیا ۔
ادھر مدینے میں امام محمد باقر علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ کی شریکہ حیات ام فروہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہیں چونکہ یہ خطرناک بیماری تھی اور اس زمانے میں اس کا علاج نہ تھا ۔امام محمد باقر علیہ السلام نے درس ختم کیا تاکہ اپنی شریکہ حیات کی عیادت کے لئے طنفسہ جائیں امام علیہ السلام نے طنفسہ جانے سے پہلے اپنے جد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر آئے اور ام فروہ کی شفا یابی کے لئے دعا فرمائی۔
جب ام فروہ نے اپنے شوہر نامدار کو دیکھا تو کہا کہ آپ یہاں کیوں تشریف لائے ہیں کیا آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ میں چیچک جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ چیچک جیسی مہلک بیماری میں مبتلا افراد کی عیادت کے لئے نہیں جایا کرتے کیونکہ ممکن ہے وہ بیماری عیادت کرنے والے میں بھی سرایت کر جائے ۔
المختصر یہ کہ فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے جناب ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر ان میں نہ رہا ان کی صحت یابی ایک نادر واقعہ تھا کیونکہ چیچک جیسی مہلک و خطرناک بیماری عمر رسیدہ کو بہت ہی کم ہوتی ہے اور اگر سرایت کرجائے تو مریض شفا یاب نہیں ہوتا ۔اور اس طرح سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی دعا سے کہ جو عظمت و فضیلت کے عظیم منارہ تھے ام فروہ کو شفا نصیب ہوئی ام فروہ صحت یابی کے بعد مدینے واپس آگئیں لیکن چونکہ چیچک کی وبا ابھی تک مدینے میں تھی اس لئے اپنے ساتھ بچوں کو مدینہ نہیں لائيں-
جناب ام فروہ کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن اس عظیم و بہادر خاتون کی قبر مدینے میں ہے ۔
دین و زندگی
ہر زندہ مخلوق منجملہ انسان کی یہ کو شش ہوتی ہےکہ اپنی بنیادی ضروریات زندگي کی ، شناخت ،عطوفت ومہربانی اور جسمانی پہلوؤں سے تکمیل کرے کیوں کہ ان ضروریات کی عدم تکمیل ، خواہ وہ مادی لحاظ سے ہو یا معنوی اوراخلاقی اعتبار سے، انسان کی زندگي ميں خلل واقع ہونے کا سبب بنتی ہیں ۔ ماہرین حیاتیات اور نفسیات کے توسط سے جو تحقیقات عمل ميں آئی ہيں ان سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ بعض ایسی جسمانی اور نفسیاتی ضروریات ہیں جو تمام افراد کے لئے ضروری اور بنیادی ہیں۔ اوران ضروریات کی تکمیل یا عدم تکمیل کے ، انسان کے جسم اور نفسیات پر بہت زیادہ اثر مرتب ہوتے ہيں ۔ البتہ یہ ضروریات ، بچپن اور بڑھاپے کے دور ، اسی طرح افراد کی فعالیت کے اعتبار سے ہر زمانے ميں مختلف ہوتی ہیں ۔ لیکن کہا جا سکتاہے کہ تمام افراد ان ضروریات کو ہر دور میں اپنے لئے ضروری سمجھتے ہیں اور ان کی تکمیل کے لئے وہ اپنی بھرپور کوشش بروئے کار لاتے ہیں ۔
انسان کے کمال کی راہ ميں ایک بنیادی راستہ، سماجی تعلقات ہیں ۔ اور ان ہی تعلقات کے ذریعے انسانوں کی بہت سی ضروریات کی تکمیل اور اس کی صلاحیتوں اوراستعدادوں کا رشدو نمو عمل میں آتاہے ۔ فرد کا اس نظام کے خالق ، رہبران الہی اور تمام انسانی معاشرے سے رابطہ ، انسان کی نفسیات کے صحت مند رہنے میں اہم کردار کا حامل ہے ۔ انسان کے بعض سماجی تعلقات ، دوستوں اور رشتہ داروں کی ملاقات سے مربوط ہیں ۔
اپنے اعزہ و اقارب اور رشتہ داروں سے رابطے کو، تمام آسمانی ادیان اور سماجی نظریات میں اہم بتایاگیا ہے اور اسلام میں اسے صلۂ رحم سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی ضرورت پر ، متعدد آيات و روایات میں تاکید کی گئی ہے ۔ پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں : میں اپنی امت کے حاضر اور غائب افراد کو اور وہ جو اپنے والد کی صلبوں اور ماؤں کے رحموں ميں قیامت تک آتے رہیں گے ان سب کو یہ تلقین کرتاہوں کہ وہ صلۂ رحم کریں اگرچہ ایک سال کا فاصلہ کیوں نہ ہو کیوں کہ صلۂ رحم دین کا جزء ہے ۔
اسلام محبت اور دوستی کا دین ہے اور قرآن اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی احادیث میں ، ایک دوسرے کے ساتھ نیکی کرنے خاص طور پر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ اپنے رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی کرنا ، ایک ضروری امر ہے البتہ اس کی بھی مختلف قسمیں ہیں اور صرف ان کے گھر جانا ہی نیکی نہیں ہے بلکہ ان کی مالی و فکری مدد یا جذباتی و ذہنی طور پر حمایت کرنے کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کے اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں عمر میں اضافے کے لئے صلۂ رحم سے بہتر کوئي اور چیز نہیں ہے ( کافی ، ج2 ص 152)
آج کا انسان ، مادیات میں غرق ہونے اور دنیا سے دل وابستہ کرنے کے سبب دن بدن تنہا ہوتا جارہا ہے اور اپنے آرام و سکون سے ہاتھ دھو رہا ہے ۔ اور نفسیاتی بیماریوں میں اضافے کی ایک وجہ بھی یہی ہے ۔ حققیت ميں جو چیز زندگي میں شادابی اور رونق لاتی ہے وہ ملاقات ہے چاہے وہ دوستوں سے ہو یا اپنے عزیز و اقارب سے ۔ خاص طور پر اگر ملاقاتوں میں دلنشيں گفتگو یا دلچسپ و شیریں یادگاری واقعات بیان کئے جائيں اور یا پھر مشکلات کے حل کی راہ میں کوئی ہم آہنگي یا تفاق رائے ہو جائے تو اس ملاقات کے بہت سے فوائد نکلتے ہیں ۔ اپنے دینی بھائيوں سے ملاقات پر اسلام ميں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے کیوں کہ اس سے کدورتیں اور کینے ختم ہوجاتے ہیں انسان میں فرحت و نشاط پیدا ہوتا ہے اور خدا بھی راضی ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کی متعدد آيات میں اپنے اعزہ و اقارب اور دینی برادران کے ساتھ رابطے قائم کرنے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور اس رابطے کی کیفیت کو بیان کیا گيا ہے مثال کےطور پر انفاق کی آيات ميں ، رشتہ داروں اور اقربا تک رسائی کو دوسروں پر مقدم کیا گیا ہے اور پھر یتیم و مسکین و فقیر اور غربت زدہ مسافروں کا نام لیا گيا ہے ۔ مثال کے طور پر سورۂ بقرہ کی آیت 177 کے ایک حصے میں خداوند عالم فرماتا ہے : نیکی اس شخص کا حصہ ہے جو اللہ ، آخرت ، ملائکہ ، کتاب اور انبیاء پر ایمان لائے اورمحبت خدا میں قرابتداروں ، یتیموں ، مسکینوں ، غربت زدہ مسافروں ، سوال کرنے والوں اور غلاموں کی آزادی کے لئے مال دے ۔
قرآن نے اسی طرح سورۂ بقرہ کی آیت 27 میں صلۂ رحم منقطع کرنے کے بارے میں فرمایاہے ، فاسق وہ ہیں جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں خسارے والے ہیں ۔ خداوند عالم اس آیت میں فاسقوں کی ایک علامت یہ بتاتا ہے کہ جو عہد خدا نے جوڑنے کا حکم دیاہے اسے توڑ دیتے ہیں ۔ اگرچہ بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت صلۂ رحم منقطع کرنے اور اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے سے مربوط ہے لیکن اس آیت کے مفہوم میں دقت اور غور کرنے سے یہ واضح ہوتاہےکہ اس کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے اور صلۂ رحم منقطع کرنا اس کا ایک مصداق ہے ۔ کیوں کہ اس آيت میں کہا گيا ہے کہ فاسق ایسے عہد کو جسے خدا نے برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے اسے توڑ دیتے ہیں ۔
صلۂ رحم کی اہمیت یہاں تک ہے کہ خداوند عالم نے قرآن میں قطع تعلق کرنے والوں کو مورد لعنت قرار دیا ہے ۔سورۂ محمد کی 22 ویں اور 23 ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے پس اگر تم نے احکام الہی سے روگردانی کرلی تو کیا تم سے اس کے سوا کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ تم زمین پر فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے ۔ پیغمبر اسلام ۖ بھی صلۂ رحم کی اہمیت کے بارے میں فرماتےہیں اپنے اعزہ و اقارب سے رابطہ اور تعلق قائم رکھنے سے شہر آباد ہوتے اور عمروں میں اضافہ ہوتا ہے اگرچہ اس کے انجام دینے والے نیک افراد نہ ہوں ۔
اہل پیغمبر کی احادیث میں صلۂ رحم پر تاکید کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر حضرت امام صادق علیہ السلام نےاپنے اصحاب سے سفارش کی کہ ایک دوسرے کی ملاقات کو جایا کرو اور ہمارے امر کو یاد کرو اور اسے زندہ رکھو ۔ صلۂ رحم کی اس حد تک اہمیت ہے کہ اس کا انجام دینے والا قیامت میں فرشتوں کے استقبال اور ان کے سلام اور عاقبت بخیر ہونے کا مصداق قرار پائیگا جب کہ صلۂ رحم منقطع کرنے والا لعنت ، برے انجام اور نجات پانے سے محروم رہیگا ۔ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں جو کوئی بھی صرف خدا کے لئے اپنے برادر مومن کی ملاقات کو جائے ، خداوند عالم اس کے گھر سے نکلنے کے وقت سے گھر واپسی تک ، ستر ہزار فرشتے معین کرتا ہے جو سب سب کے ندا دیتے ہیں کہ ہمیشہ پاکیزہ اور خوش رہو اوروہ جنت تمہیں مبارک ہو جس میں تمہیں جگہ ملی ہے ۔ اس فرمائش کے مطابق اہم ترین چیز جو سماجی رویوں خاص طور پر عزیزو اقارب سے ملاقات کرنے میں محوریت اور مرکزیت رکھتی ہے ، پروردگار کے احکام پر توجہ ہے ۔ یعنی اس کام کے عبادت ہونے پر توجہ ، کہ جس کی قرآن کریم اور کلام معصومین علیھم السلام میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔
رشتہ داروں سے ملاقات کے علاوہ کہ جس پر بہت توجہ دی گئی ہے ان کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کو بھی مد نظر قرار دیا جائے ۔ اگر اسلامی دستورات کے مطابق عمل ہو تو اس میں عزیز و اقارب کی آبرو کی حفاظت کے ساتھ ان کی معاشی مشکلات کے حل ہونے کے ساتھ دیگر عظیم معنوی فوائد ہیں ۔ عزیز واقارب کی مشکلات کا حل ، صلۂ رحم پر مومنین کی توجہ دینے میں ہے لیکن اگر اس کی مشکل حل نہ کرسکے تو اس کی دلجوئی اور اس کے ساتھ ہمدلی کو فراموش نہ کرے اس لئے خدا کے نظام میں اپنوں کے لئے رنجیدہ خاطر ہونے کی بھی بہت منزلت ہے ۔ پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا صلۂ رحم کرو اگر چہ پانی کاشربت ہی کیوں نہ ہو اور صلۂ رحم کا برترین مرحلہ اس کوآزارو اذیت دینے سے اجتناب کرنا ہے ۔ اسی طرح ایک اور مقام پر پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا دنیا میں صلۂرحم کرو اگرچہ ایک سلام سے ہی کیوں نہ ہو ( بحارالا نوار ج 74 ص 103 )
تاریخ میں صلۂ رحم کی اہمیت میں متعدد داستانیں ، پیغمبران الہی کی موجود ہیں ان میں سے ایک حضرت ابراہیم (ع) کی داستان ہے چنانچہ آپ کے بارے میں آيا ہےکہ آنحضرت مہمان نوازی ميں بے مثال تھے اس طرح سے کہ مہمان کا انتظار کرتے اور مہمان کے آنے سے قبل کھانا منھ کو نہيں لگاتے تھے یہاں تک کہ بسا اوقات ایک رات و دن گذر جاتے اور کوئی مہمان نہيں آتا تھا ۔گھر سے باہر جاتے تاکہ کوئي مہمان ڈھونڈھیں ایک دن آپ نے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو بت پرست تھا تو اپنے آپ سے کہنے لگے اگر مومن ہوتا تو اسے میں اپنا مہمان بنا لیتا ۔ بوڑھا شخص وہاں سے گذر گیا اس وقت جبرئيل امین نازل ہوئے اور کہا اے ابراہیم ، خدا آپ پر درودو سلام بھیجتاہے اور فرماتاہے یہ ستر سالہ بوڑھابت پرست تھا میں نے اسکا ایک دن کا رزق کم نہيں رکھا ہے لیکن ایک دن کا اس کا رزق آپ پر چھوڑ دیا تھا لیکن آپ نے اس پر بیگانہ کا الزام لگا کر اسے کھانا کھلانےسے باز رکھا ۔ ابراہیم (ع) اس بوڑھے شخص کے پیچھے گئے تاکہ اسے سب کچھ بتائیں ۔ بوڑھے شخص نے کہا ایسے خدا کی نافرمانی کرنا جوانمردی سے دور ہے اور اس نے آنحضرت کے دین کو قبول کرلیا ۔
خدا کی راہ میں انفاق
ایک اہم مشکل جو تاریخ کے طویل دور ميں تمام انسانی معاشروں کو درپیش رہی ہے اور اب بھی موجود ہے ، فقر و تنگدستی اور مال وثروت کی تقسیم ميں عدم مساوات ہے ۔ بہت سے دانشوروں اور عالمی اقتصاد دانوں نے اس عظیم سماجی مشکل کے حل کے لئے اپنے اپنے طور پر ایک تجویز پیش کی ہے ۔
لیکن دین اسلام نے فقر و تنگدستی کےخاتمے کے لئے مختلف راہ حل اور طریقے پیش کئے ہیں کہ جن پر عمل ، فقیر و غنی کے فرق کو ختم کرنے یا کم از کم طبقاتی فاصلوں کے کم ہونے کا سبب بن سکتا ہے ۔ جیسا کہ صدر اسلام اور پیغمبر اسلام (ص ) کے زمانے ميں الہی فرمان اور دینی دستورات پر عمل کرنے سے ایسا ہی ہوا ۔ اگر کوئی معاشرہ گہرائی کےساتھ اسلامی دستورات پر عمل پیرا ہو جائے تو دولت و ثروت کی غیر منصفانہ تقسیم اورفقیر و دولت مند کے درمیان موجود فاصلہ اور مجموعی طور پر معاشی عدم مساوات کا معاشرے سے خاتمہ ہوجائیگا ۔فقر وتنگدستی کم کرنے کے لئے اسلامی اقدار کے دستورات میں سے ایک انفاق ہے ۔ قرآن مجید نے انفاق کےمسئلے پر بہت تاکید کی ہے اوراس سلسلے میں آيات قرآن بھی زیادہ وارد ہوئي ہیں ۔
خداوند عالم سورۂ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد فرماتا ہے جو لوگ راہ خدا میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے عمل کی مثال اس دانے کی ہے جس سے سات سات بالیاں پیدا ہوں اور پھر ہربالی میں سوسو دانےہوں اور خدا جس کے لئے چاہتاہےاضافہ بھی کردیتاہے کہ وہ صاحب وسعت بھی ہےاور علیم ودانا بھی ۔ یعنی انفاق کا اجر وپاداش سات سو گنا ہے اور خداوند عالم جس کے لئے چاہتا ہے اس ميں کئی گنا اضافہ بھی کر دیتا ہے ۔
انفاق کے انسان کی جان ومال پر بہت عظیم اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہماری آج کی قرآنی مثال ، مال ميں برکت اور زیادتی میں انفاق کے اثرات سے متعلق ہے ۔ خدا کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف مال وثروت میں کمی کا باعث نہیں ہے بلکہ اس میں زیادتی کا بھی سبب ہے ۔ قرآن کی نظر میں خدا کی راہ میں خرچ ہونے والے مال کی مثال اس دانے کی طرح ہے جسے زمین ميں چھڑک دیا جاتا ہے اورایک مدت کے بعد اس میں سات بالیاں نکل آتی ہيں اور ہر بالی میں کم از کم سو یا اس سے کم دانے نکلتے ہیں ۔ شروع میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسان نے جو بیج زمین پر چھڑکے اس نے گویا ان بیجوں کو ضائع کر دیا ہے لیکن کچھ دن صبر اور انتظار کے بعد معلوم ہوجاتا ہےکہ ہر دانے سے تقریبا سات سو دانے نکل آئے ہیں ۔ راہ خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں بھی برکت اور اضافہ اسی طرح سے ہے ۔
پیغمبر اسلام (ص) نے راہ میں خدا میں خرچ ہونے والے اموال میں اضافے کے بارےمیں بہت خوبصورت اور گہر بار کلمات بیان کئے ہیں آپ فرماتے ہیں جو کوئی بھی صدقے ، انفاق اورمال حلال کے ذریعے مدد کرے تو خداوند رحمن اپنے داہنے ہاتھ سے اسے لیتا ہے اگرچہ وہ ایک دانہ خرما ہی ہو ، پھر وہ خرچ کیا ہوا مال خدا کے ہاتھ میں رشد و نمو کرتا ہے اور اس میں اتنا اضافہ کردیتا ہےکہ وہ مال ایک پہاڑ سے زیادہ ہو جاتا ہے ۔
راہ خدا میں مال کا انفاق کرنا انتہائی عظمت اور قدروقیمت کا حامل ہے ۔خاص طور پر اس وقت جب یہ عمل خالص نیت اور ایمان کے ساتھ ہو ۔ بعض مفسرین قرآن اس تعبیر اور قرآنی مثال کی اس طرح سے تفسیرکرتے ہيں کہ راہ خدا میں انفاق ، ان اعمال میں سے ہےجو معاشرے اور افراد پر متعدد آثار مرتب کرتے ہیں ۔ در حقیقت یہ عمل نہ صرف خرچ ہونےوالے مال میں اضافے کا باعث ہے بلکہ اس کے دیگر مثبت اثرات بھی ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت 261 میں ارشاد ہوتا ہےکہ ایک دانے سے سات سو دانے نکلتے ہیں اس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انفاق سے ، مال لینے والے فرد کی زندگی پر جس طرح معنوی و مادی اثر مرتب ہوتا ہے ، صدقہ دینے والے کی زندگی پر بھی اس کا اثر ظاہرہوتا ہے ۔ خدا کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال قبل اس کے کہ ضرورت مند کے لئے مادی فائدے کا حامل ہو معنوی فائدہ بھی کا بھی حامل ہے اور جتنا زیادہ یہ عمل اخلاص اور پاکیزگی کا حامل ہو اس کے مثبت آثار بھی اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہيں ۔
دنیا میں انفاق کرنے والوں کی جزا ، معنوی اور روحانی امن و سلامتی ہے ۔ جو بھی عشق وایمان اور اخلاص کےساتھ الہی وعدوں پر عمل کرتے ہوئے معاشرے کے فقیر اور محروم طبقے کے لئے تھوڑا سا مال خدا کی راہ میں دے دے تو اسے روحانی لذت اور امن و سکون حاصل ہوتا ہے ۔ انسان کو ایسا کرنے سےایسا قلبی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے جو نوع بشر کی مدد کرنے میں فطرت کےتقاضے کےمطابق ہے ۔ اور معاشرے کے ایک ضرورت مند کی مدد کرنے سے فرد کو ذھنی آرام و سکون حاصل ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں صدقے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور انفاق کرنے والوں کے لئے عظیم اور دائمی اجر و پاداش کا وعدہ کیا گیاہے ۔ انفاق ایک عمل صالح ہے جواگر قرآن کریم کے دستور کے مطابق انجام پاجائے تو اسلامی معاشرے میں انسانی تشخص کونمایاں کرتا ہے اورافراد میں اسلام کے معاشی اقدار اور ثقافت کے زیادہ سے زیادہ اجاگر ہونے کا سبب بنتاہے ۔اسی طرح اصل میں انفاق ایک دینی قدر ہے جسے قرآن ، خداوند متعال سے عشق اور تقرب کا زینہ قرار دیتا ہے ۔
خدا کی راہ ميں خرچ کرنے کی اہمیت اور قدروقیمت اس حد تک ہےکہ قرآن مجید میں (80 ) سے زیادہ آیات میں اس کا ذکر کیا گیا ہے ۔ قرآن جب پرہیزگاروں کے صفات بیان کرتا ہے تو ان کی ایک صفت انفاق کرنا بیان کرتا ہے اور قرآن کی ابتدائی آیات میں خداوند عالم نے انفاق کو متقین کی اہم صفت کے طور پر بیان کیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : صاحبان تقوی اور پرہیزگار وہ ہیں کہ جو کچہ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتےہیں ۔ ( بقرہ -3 )
پرہیزگار افراد ، انفاق کو مال ميں کمی نہيں سمجھتے بلکہ اسے غنیمت جانتے ہیں لیکن جو افراد قرآنی معارف سے بہرہ مند نہیں ہیں اور وہ دنیا سے بھی لو لگائے ہیں تو وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنےکو گھاٹا اور نقصان سمجھتےہیں ۔
ایک عابد تھا جو برسہا برس سے عبادت کیا کرتا تھا ایک دن خواب میں اسے خبر دی گئی کہ خداوند عالم نے تیرے لئے یہ مقدر فرمایا ہےکہ تو آدھی عمر غربت اورفقر میں اوربقیہ عمر خوشحالی اور مالداری میں گذارےگا اب یہ فیصلہ تجھے خود کرناہےکہ تو پہلے فقر کو اختیار کریگا یا دولت مند ہونے کو ۔ عابد نے کہا کہ میری زوجہ ایک مومنہ اور نیک عورت ہے پہلے اس سے صلاح مشورہ کرلوں ۔ عورت نے اسے صلاح دی کہ پہلے تم دولت کا انتخاب کرو ۔ وقت گذرنےکےساتھ ساتھ اس مرد عابد کی نعمت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ عورت نے کہا اے مرد ، خدا کا وعدہ حق ہے جس طرح خدا تمہیں نعمت دے رہاہے تم بھی اس کی راہ میں انفاق کرو ۔ اس عابد نے ویسا ہی کیا ، اس کی آدھی عمر گذر گئی اور وہ اس کا منتظر تھا کہ کب فقیر ہوتا ہے لیکن اس کی زندگي میں کوئی فرق نہیں آیا اور خدا کی نعمتوں کا سلسلہ اس پر بدستور جاری رہا۔ اسے خبر دی گئی کہ تونے انفاق کے ذریعے ہمارا شکریہ ادا کیا تو ہم نےبھی تیرے مال میں مزید اضافہ کردیا ۔ مال کا شکریہ انفاق ہے جس طرح سے کہ اس کا انکار عدم انفاق ہے ۔
فرزند رسول خدا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں " خداوند عالم نے ثروتمندوں کے مال میں فقراء اور نیازمندوں کے لئے ایک حق مقرر کیا ہے جو ان کے لئے کفایت کرتا ہے یعنی اگر ثروتمند افراد اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو ضرورت مند افراد بے نیاز ہوجائیں گے ۔ اور اگر وہ چیز جو صاحبان ثروتمند پر واجب کی گئی ہے ، وہ فقرا کی ضروریات برطرف کرنے میں ناکافی ہوتی تو خداوند عالم اس میں اور اضافہ کردیتا ۔ ضرورت مندوں کی احتیاج ، قانون الہی میں نقص نہیں ہے بلکہ ثروتمندوں کی جانب سے واجب حقوق کی عدم ادائیگی اس کا سبب ہے کیوں کہ اگر دولت مند اپنے واجب حقوق ادا کردیں تو نہ صرف معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوجائے بلکہ تمام لوگ آرام و سکون کے ساتھ زندگی گذارنے لگیں گے -
قرآنی تعلیمات کا فروغ دشمنوں کی سازش سے مقابلہ کا بہترین طریقہ ہے
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے جامعہ المصطفی العالمیہ کی طرف سے منعقدہ قرآنی مسابقہ میں اس سینٹر کے ذمہ داروں کی طرف سے پیش کی گئی قرآنی فعالیت کی رپورٹ پر اس سینٹر کے سربراہوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی اس کاوش کی قدردانی کی ہے ۔
انہوں نے اس تاکید کے ساتہ کہ قرآنی سرگرمیوں میں اضافہ ہونا چاہیئے بیان کیا : قرآنی سلسلہ میں مناسب مواقع و مناسب زمینہ فراہم ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ اس پر کام کیا جائے تاکہ گذشتہ کی کمی پوری کی جا سکے ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے دشمنوں کی طرف سے غلط تشہیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دشمنوں کی سازش سے مقابلہ کا بہترین راستہ قرآن کریم کی فعالیت کو فروغ دینا جانا ہے اور وضاحت کی : قرآنی میدان میں کام کرنا برکات اور بہت ساری کامیابیوں کا سبب ہے اور آپ لوگوں کو ایسا کام کرنا چاہیئے کہ آپ کے اسکالر خود اپنے ممالک میں ایسے سینٹر کھولیں اور اس میں قرآنی مباحث کی فعالیت کی جائے ۔
انہوں نے جامعۃ المصطفی العالمیہ کے قرآنی مسابقہ منعقد کرنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت کی : اس پروگرام کو مختلف زبانوں میں فروغ و شایع کیا جائے ۔
مرجع تقلید نے بیان کیا : خدا کا شکر ہے کہ موجودہ حالات ایسے ہیں کہ پوری دنیا میں قرآن کے فروغ کے لئے تمام مقدمات آمادہ ہے اس لئے اس موقع سے اچھی طرح فائدہ اٹھایا جائے ۔
انہوں نے اس بیان کے ساتہ کہ دنیا میں لوگ قرآنی تعلیمات کے عاشق ہیں وضاحت کی : یہ ایسا امتیاز ہے جو صرف اسلام کے پاس ہے اور دوسرے تمام ادیان کے پاس یہ گنج نہیں پایا جاتا ۔
او ٹی وی کو دیا گیا سید حسن نصر اللہ کا اہم انٹرویو
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے ایک عیسائی ٹی وی چینل OTV کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان جنیوا میں جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والا معاہدہ خطے سے جنگ کے بادل چھٹنے کا باعث بنا ہے۔ اسی طرح اس معاہدے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے دنیا پر یونی پولر عالمی نظام مسلط کئے جانے کی کوششیں غیرمعقول اور بے اثر ہیں اور آج کی دنیا یونی پولر ورلڈ آرڈر کو تسلیم نہیں کرتی۔
ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جنیوا معاہدہ درحقیقت خطے کی اقوام کی فتح ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے اس انٹرویو میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق حال ہی میں طے پانے والے جنیوا معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کا سب سے زیادہ فائدہ خطے کی اقوام کو پہنچے گا کیونکہ خطے میں موجود شیطانی قوتیں گذشتہ کئی سالوں سے خطے میں ایک نئی جنگ کے آغاز کی کوششوں میں مصروف تھیں اور وہ امریکہ کو ایران کے خلاف محاذ آرائی پر اکسا رہی تھیں۔ البتہ ایران کے خلاف فوجی کاروائی کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ایران ایک کمزور یا گوشہ گیر ملک نہیں اور اگر خدانخواستہ ایسی جنگ انجام پا جاتی تو خطے کیلئے اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوتے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا معاہدے کے انعقاد نے بعض جدید بین الاقوامی حقائق کی بنیاد رکھ دی ہے جن میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ دنیا پر ایک قطبی عالمی نظام کا نفاذ ممکن نہیں۔ اس معاہدے نے دنیا پر ایک ملک کی حکمرانی کا تصور باطل کر ڈالا ہے۔ جنیوا معاہدے کی برکت سے دنیا ملٹی پولر نظام کی طرف گامزن ہو چکی ہے جو دنیا کو عالمی آمریت سے بچانے میں پہلا قدم ہے اور یہ تیسری دنیا کے ممالک کیلئے ایک سنہری موقع ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے واضح کیا کہ اس معاہدے کی برکت سے خطے اور عالمی سطح پر امریکی پالیسیوں میں انتہائی بنیادی تبدیلیاں معرض وجود میں آئی ہیں۔ البتہ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان انجام پانے والا یہ معاہدہ مرحلہ وار ہے لیکن بعض افراد انتہائی جلدبازی سے کام لیتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ معاہدہ درحقیقت ولی فقیہ اور شیطان کے درمیان سمجھوتہ ہے۔
مغربی دنیا کیوں ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئی؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ بہت بری طرح شکست اور ناکامی کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہ اور اس کی پالیسیاں بند گلی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اسی طرح لبنان اور غزہ میں بھی نیو مڈل ایسٹ کا پراجیکٹ پوری طرح فلاپ ہو چکا ہے اور اب تو انہیں شام میں بھی مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ 30 سالوں کے دوران امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی جانب سے لگائی گئی ظالمانہ اقتصادی پابندیوں کے خلاف بے مثال ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے عالمی استعماری قوتیں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اسی طرح خود امریکہ اور یورپی ممالک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ امریکہ اب جنگوں سے بری طرح تھک چکا ہے اور کسی نئی جنگ کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لہذا یہ سب عوامل باعث بنے کہ امریکہ اور مغربی ممالک ایران کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا ایٹمی معاہدے کے انتہائی مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔ اس کا پہلا اثر یہ ہے کہ خطہ ایک نئی جنگ کے خطرے سے باہر نکل چکا ہے۔ ایران کے خلاف بھی امریکہ کی جانب سے کسی قسم کی فوجی کاروائی کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ البتہ میں پورے یقین سے نہیں کہ سکتا کہ اسرائیل امریکہ کو اعتماد میں لئے بغیر ایران کے خلاف کسی احمقانہ حرکت کا مرتکب نہیں ہو سکتا اور اس کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنا سکتا کیونکہ اسرائیلی حکام کسی منطق کے تابع نہیں اور بغیر سوچے سمجھے احمقانہ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ امریکی حکام ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے دوران بعض نئے موضوعات بھی زیربحث لانا چاہتے تھے لیکن ایران کا مطالبہ تھا کہ پہلے جوہری پروگرام سے متعلق مسائل حل ہونے چاہئیں۔ ایرانی حکام چاہتے ہیں کہ سمجھوتہ صرف ایران کے جوہری پروگرام تک محدود رہے۔
اسرائیل کے بارے میں ایران کا موقف اٹل اور ناقابل تغیر ہے:
سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ ایران نے ہمیشہ سے واضح طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے اختلافات اور مسائل کی نوعیت اسرائیل کے ساتھ مسائل سے مختلف ہے۔ اسرائیل کے مقابلے میں ایران کا موقف اٹل ہے اور کبھی بھی اس میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ لیکن امریکہ کے بارے میں ایران کا موقف یہ ہے کہ اگر امریکی حکام ہمارے حقوق کا احترام کرے اور خطے کی دوسری اقوام کے مسلمہ حقوق کو بھی تسلیم کر لے تا اس کے ساتھ مذاکرات انجام پا سکتے ہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی سیاست میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن ایران اپنی پرانی پالیسیوں پر ڈٹا ہوا ہے۔ البتہ ابھی ایران اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا کیونکہ ایران اور امریکہ کے درمیان بے شمار اختلافات اور مسائل موجود ہیں جن کے بارے میں گفتگو اور مذاکرات انجام پانے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کا وقت نزدیک آ چکا ہے۔
خطے پر سب سے زیادہ اثرورسوخ ایران کا ہے؟
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران خطے کا ایک بڑا ملک ہے اور آج خطے پر اس کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے۔ ایران ہم سے مشورے میں ہے اور یہ مشورہ صرف لبنان کے مسائل تک محدود نہیں۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کی کہ خطے میں اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کے خلاف جاری اسلامی مزاحمت کے بارے میں ایران کا موقف ہر گز تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ایران ہمیشہ اسلامی مزاحمت کی حمایت کرتا رہے گا۔ ایران کبھی بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنا اصولی موقف تبدیل نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کا پرامن حل ممکن نہیں اور اب تک انجام پانے والے مذاکرات اسرائیل سے فلسطینی قوم کا چھوٹے سے چھوٹا حق بھی تسلیم نہیں کروا سکے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اگر 14 مارچ گروپ کے سعودی عرب سے تعلقات ہمارے ایران سے تعلقات کی مانند ہوتے تو لبنان میں پائے جانے والے تمام مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ کیونکہ ایران کبھی بھی لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور ہمیں نہیں کہتا کہ کیا کرو اور کیا نہ کرو۔ ایران لبنان میں صرف ایک چیز کا خواہاں ہے اور وہ یہ کہ لبنانی عوام آپس میں متحد رہیں اور آپس میں مفاہمت اور تعاون جاری رکھیں اور کاش ہمارے مدمقابل گروپ کا بھی کوئی ولی فقیہ ہوتا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ کسی بھی صورت لبنان کے نقصان میں نہیں۔
شام میں حزب اللہ کی موجودگی لبنان کے دفاع کیلئے ہے:
سید حسن نصراللہ نے او ٹی وی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی درحقیقت لبنان کے دفاع کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر شام میں حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہ کامیاب ہو جائیں تو لبنان ایک عظیم خطرے کا شکار ہو جائے گا۔ اگر ہم القصیر اور القلمون میں اپنا فرض ادا نہ کرتے تو آج دسیوں یا شائد سینکڑوں کار بم لبنان میں داخل ہو چکے ہوتے۔ ہم نے شام میں اس لئے مداخلت کی ہے تاکہ اس خطرے کو روک سکیں۔ اب تک لبنان میں جتنے بھی خودکش دھماکے ہوئے ہیں ان میں استعمال ہونے والی گاڑیاں یبرود کے علاقے سے عرسال کے راستے لبنان میں لائی گئی ہیں۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دہشت گرد عناصر نہ صرف شام سے لبنان میں دہشت گردانہ بم حملے کروا رہے ہیں بلکہ عراق میں بھی خودکش دھماکوں میں استعمال ہونے والی گاڑیاں شام کے ان علاقوں سے بھیجی جاتی ہیں جہاں مسلح دہشت گرد گروہوں کا کنٹرول ہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعد حریری اور صقر جیسے افراد لبنان سے دہشت گرد بھرتی کر کے شام بھیجنے میں ملوث ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ دہشت گرد گروہ شام میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تمہارے پاس کیا ضمانت موجود ہے کہ وہ لبنان میں دہشت گردی نہیں کریں گے؟ ہم جو کچھ آج شام میں انجام دے رہے ہیں اسے لبنانی قوم کی حمایت حاصل ہے اور یہ حمایت 1982 سے لے کر 1990 تک انجام پانے والے ہمارے اقدامات سے بھی زیادہ ہے۔ انشاءاللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ شام میں مداخلت کرنے پر حزب اللہ کا شکریہ ادا کریں گے۔ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان نے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ شام میں جو افراد مسلح دہشت گرد گروہوں کے خلاف برسرپیکار ہیں وہ یا تو شامی فوج سے وابستہ ہیں یا عوامی فورس کا حصہ ہیں۔ حزب اللہ کے مجاہدین صرف دمشق کے نواحی علاقوں، حمص اور لبنانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں موجود ہیں جبکہ دوسرے علاقوں جیسے درعا، سویدا، قنیطرہ، دیرالزور اور شمالی حلب میں حزب اللہ کا ایک مجاہد بھی موجود نہیں۔ القلمون میں جاری آپریشن میں بھی صرف شامی فوج اور عوامی فورس کے افراد شامل ہیں۔
شام حکومت کی سرنگونی ناممکن ہے:
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ فوجی طریقے سے شام حکومت کو سرنگون کرنا بالکل ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے شام پر حملہ نہیں کیا اور دنیا والے آج سفارتی طریقے سے شام کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے بعض ممالک ابھی اس نتیجے پر نہ پہنچے ہوں کہ شام کے مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے لیکن بہت جلد وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب اب بھی شام میں مسلح دہشت گردی کو ہوا دینے پر مصر ہے اور کسی طور پر سیاسی راہ حل کو اختیار کرنے پر راضی نظر نہیں آتا۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ سعودی حکام کی پوری کوشش ہے کہ 22 جنوری کو برگزار ہونے والی جنیوا 2 کانفرنس سے پہلے پہلے شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی فوجی اور مالی امداد کے ذریعے زمینی حقائق کو ان کے حق میں تبدیل کریں۔ لیکن یہ کوششیں بھی مشرقی الغوطہ میں انجام پانے والی سازشوں کی طرح شکست سے دوچار ہوں گی۔ البتہ بعض ایسی قوتیں بھی ہیں جو حتی جنیوا 2 کانفرنس کا انعقاد بھی نہیں چاہتیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شام کے بعض حکومت مخالف گروہوں کے ساتھ بھی رابطہ قائم کر رکھا ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت مخالف گروہوں کو پہنچنے والا نقصان شام حکومت کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ شام حکومت صرف اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اب تک قائم ہے کیونکہ ایسا ممکن نہیں۔ شام حکومت مضبوط عوامی حمایت سے برخوردار ہے لہذا شام کے مسئلے کو صرف اور صرف سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سیاسی راہ حل بھی ایسا ہونا چاہئے جو خود شام کے شہریوں کی جانب سے وضع کیا گیا ہو اور باہر سے ان پر تھونپا نہ گیا ہو۔ اگر کوئی باہر سے شام کے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد کرنا بھی چاہتا ہے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی طرف سے شامی عوام پر کوئی راہ حل تھونپنے کی کوشش نہ کرے۔
افغانستان میں ہمیشہ باقی رہنے کی امریکی خواہش
افغانستان کے سیاسی مسائل کے ماہر وحید ظہوری حسینی نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی، دائمی طور پر باقی رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ افغانستان کے اس سیاسی ماہر نے اپنے ملک میں امریکہ کے ناجائز مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کابل – واشنگٹن سیکیورٹی معاہدے کو اگر لویہ جرگہ سے منظوری نہیں ملتی تو بھی امریکہ افغانستان سے واپس نہیں جاسکتا تھا۔ وحید ظہوری حسینی نے اس معاہدے کے حوالے سے حامد کرزئی کی پالیسی کو بھی ہدف تنقید قرار دیا اور کہا کہ حامد کرزئی نے اس معاہدے کے سلسلے میں اپنا موقف اختیار کرکے ایک طرف اس سمجھوتے کی ساری ذمہ داری افغان لویہ جرگہ پر ڈالنے اور دوسری طرف افغانستان کے صدارتی انتخابات میں اپنے منظور نظر نامزد امیدوار کیلئے امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
افغانستان کے سیاسی مسائل کے اس ماہر نے کابل واشنگٹن سیکیورٹی معاہدے کو افغانستان کے نقصان میں قرار دیا اور کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کو حاصل ہونے والا قانونی تحفظ، افغانستان کی آزادی کے منافی ہوگا جبکہ اس سمجھوتے کے تحت امریکہ، پورے افغانستان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کریگا۔ افغانستان کے سیاسی مسائل کے ماہر وحید ظہوری حسینی نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجی موجودگی سے نہ صرف کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ بدامنی میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا ہے۔
امام سجاد عليہ السلام كا جہاد شہيد باقر الصدر كے قلم سے
شہيد باقر الصدر ان نابغہ روزگار اور بلند ايہ اسلامي شخصيات ميں سے ہيں جنہوں نے اپنے بعد قيمتي قلمي و زباني آثار چهوڑے ہيں۔ جن ميں سے ايك صحيفہ سجاديہ پر ان كا گرانقدر مقدمہ ہے جس كا كچه حصہ قارئين كي خدمت ميں پيش كيا جارہا ہے۔ اس ميں شہيد صدر نے امام سجاد عليہ السلام كے جہاد سے متعلق كچه عمدہ باتيں لكهي ہيں:
قدرت كا فيصلہ يہ تها كہ اپنے والد ماجد كي شہادت كے بعد امام سجاد عليہ السلام امت اسلامي كي زمام ولايت و امامت اپنے ہاتهوں ميں ليں۔انہوں نے دوسري صدي ہجري كے نصف اول ميں امت مسلمہ كے ايك اہم اور حساس دور ميں باگ ڈور سنبهالي۔يہ امت مسلمہ كي پہلي فتوحات كے بعد كا زمانہ تها۔ان فتوحات نے اپني معنوي قدرت و حمشت اور فوجي جاہ و جلال كے ذريعہ قيصر و كسريٰ كے ايوانوں ميں لرزہ طاري كرديا تها اور بہت سي اقوام اور وسيع علاقے پر مشتمل كئي ممالك كو اپني حدود ميں لے ليا تها۔مسلمان تقريبا نصف صدي تك اپني خاص تمدن و تہذيب كے ذريعہ اس علاقہ پر حاكم رہے۔
ايك وسيع خطہ ارض پر حكومت نے اگرچہ مسلمانوں كو ايك بڑي سياسي و فوجي طاقت ميں بدل ديا تها ليكن اسلامي مملكت كے حدود سے باہر كي طرف سے دو بڑے خطرے انہيں درپيش تهے جن سے مقابلہ كرنا نہايت ضروري تها۔
پہلا خطرہ: مسلمانوں كا دوسري اقوام كے مسلمان ہونے كي وجہ سے ان كي تہذيب و ثقافت سے متاثر ہونا ان كے ساته ميل جول كا طريقہ تها۔
ايسے ميں علمي و فكري كام يہ ہونا چاہيے تها كہ مسلمانوں كو ذہني اور فكري طور پر آمادہ كيا جاتا كہ ان كا اصل عقيدہ وہي ہے جس كا سرچشمہ قرآن و سنت ہو۔اس كے لئے مجتہدانہ سعي و كوشش كي ضرورت تهي تاكہ مسلمان اتنا باشعور ہوجائے كہ وہ ايك بابصيرت مجتہد كي طرف كتاب و سنت كو سرچشمہ حيات قرار ديتے ہوئے زندگي گزار سكے۔
دوسرا خطرہ فتوحات كے نتيجے ميں حاصل ہونے والي آسائيشيں اور رفاہيات تهيں جس كي لپيٹ ميں پورا اسلامي معاشرہ آچكا تها۔آرام و آسائش كي بلا پر معاشرہ كو دنيوي لذتوں ميں غرق ہوجانے،اسراف،اس فاني دنيا كي كشش ميں مگن ہوجانے اور اخلاقي وجدان كي شمع كے بجه جانے كا سبب بنتي ہے۔
اس لئے ضرورت تهي كہ اس معاشرے ميں اسلامي شناخت كے درخت لگائے جاتے اور اجتہاد كي تخم پاشي كي جاتي۔ يہي وہ كام تها جسے امام علي الحسين عليہ السلام نے انجام ديا۔انہوں نے مسجد النبي (ص) ميں تحقيق و اجتہاد كرنے والا ايك گروہ تشكيل ديا اور لوگوں كے سامنے مختلف علوم من جملہ حديث و فقہ سے متعلق گفتگو كي۔ لوگوں كو اپنے اجداد كے طيب و طاہر علم سے آشنا كيا اور با استعداد افراد كو اجتہاد اور تفقہ كي مشق كروائي۔
بہت سے مسلمان فقہا يہيں سے نكلے ہيں۔يہي گروہ بعد ميں يعني امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) كے زمانے ميں مختلف فقہي مكاتب كے وجود ميں آنے كا سبب بنا۔
امام(ع) نے اس طرح قاريوں و حافظوں كي اكثريت كو اكٹها كيا۔ سعيد ابن مسيب اس بارے ميں كہتا ہے: ’’قاريان قرآن مكہ اسي وقت جاتے تهے جب علي ابن الحسين وہاں جاتے تهے۔ جب آپ نے مكہ جانے كا قصد كيا تو ہزار سوار افراد آپ كے ہمراہ ہولئے۔‘‘ (اختيار معفرۃ الرجال، ۱۱۷)
دوسرا خطرہ كو بهي امام سجاد عليہ السلام نے محسوس كيا اور اس كا علاج بهي شروع كيا۔اس كے لئے امام (ع) نے دعا كا نسخہ تجويز كيا۔صحيفہ سجاديہ امام (ع) كي اسي كاوش كا نتيجہ ہے۔ امام علي بن الحسين عليہ السلام نے بہت ہي مختصر اور جامع طريقہ سے الٰہي فكر كو دلكش مفاہيم اور بليغ معاني كے قالب ميں انسان كے خدا كے ساته رشتہ،خدا كے حضور ميں اطمينان و سكون،انسان كا مبدا اور معاد كے ساته تعلق،اخلاقي اقدار كو جامہ عمل پہنانے،رشتوں كي بنا پر انسان كي گردن پر عائد ہونے والے حقوق اور اس طرح كے اعليٰ روحاني پيغام كو معاشرہ كے سامنے پيش كيا۔تاكہ انسان ايك تو خدا كے ساته اپنا رابطہ مضبوط كرے اور دوسرا اس ماحول ميں خود كو بچا سكے جس ميں شيطاني وسوسوں كي ہوائيں چاروں طرف سے چل رہي تهيں۔ جب شيطاني وسوسے اسے پستي كي طرف ڈهكيليں تو وہ دعا كے ذريعہ خود كو روحاني معراج سے متصل كرسكے۔ اور وہ تونگري كے زمانے ميں بهي نيازمندي كے زمانے كي طرح خدا كے ساته اپنے عہد و پيمان پر كاربند رہے۔
امام كي سيرت ميں نقل كيا جاتا ہے كہ آپ ہر جمعہ كو لوگوں كے درميان خطبہ پڑهتے اور انہيں نصيحت كيا كرتے تهےاور انہيں دنيا كي آفتوں ميں گرفتار ہوجانے سے ہوشيار كيا كرتے تهے،انہيں اخروي امور كي طرف بڑهنے كي ترغيب دلاتے تهے اور دعا كے قالب ميں انہيں خدا كي بندگي اور اس كي حمد و ثنا كي تعليم ديتے تهے۔
صحيفہ سجاديہ ايك معاشرتي تحريك كا سمبل ہے ايك ايسي تحريك جو حالات كي بنا پر وجود ميں آئي ۔يہ گرانقدر صحيفہ ايك الہٰي ميراث بهي ہے جو صدياں گزرنے كے بعد بهي بخشش كا سرچشمہ،ہدايت كا چراغ اور اخلاق و تہذيب كا مدرسہ بن كر آج بهي باقي ہے اور بشريت كو ہميشہ اس محمدي اور علوي ميراث كي ضرورت ہے،اور يہ ضرورت اس وقت اور بهي بڑه جاتي ہے جب چاروں طرف شيطاني فريبكارياں اور دنيوي آزمائشيں نظر آتي ہيں۔
پابندیوں کی مشکلات قرآن و عترت کے برکت سے حل ہوجائے گا
حضرت آیت الله جوادی آملی نے ایران کے مقدس شہر قم کے مسجد اعظم میں علماء و طلاب کے درمیان اپنے درس خارج میں اخلاقی نکات بیان کرتے ہوئے بیان کیا : ہم لوگ کے اندر ایک نفس ہے کہ وہ ہماری وقار و عظمت ہے اور سوء کی طرف لے جاتا ہے اگر کوئی شخص اس کی اصلاح کر لیتا ہے تو یہی سوء کے بجائے اس کی فضیلت گاہ بن جاتا ہے اور حسن میں بدل جاتا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ صاحب تقوی حضرات کے پاس نفس امارہ نہیں ہوتا ، نفس امارہ خدا کے ولی کے پاس بھی ہوتا ہے اور منافقوں کے پاس بھی ہوتا ہے لیکن خدا کے ولی کا نفس حسن و حق و صدق کا ثبوت ہے اس کے برعکس برے لوگ ہیں ، اگر کوئی شخص اپنے نفس کی تربیت اس طرح کرتا ہے تو اس کا دل نیک کام کی طرف لے جاتا ہے ۔ پیغمبر نماز کے وقت بلال کو کہتے تھے «ارحنی یا بلال» اس وجہ سے ہے ۔
نفس مصورہ و نفس امارہ کا کام
انہوں نے وضاحت کی : اپنے اندر کے منافق اور اس امارہ سوء کو کنٹرول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نفس مصورہ کو کنٹرول کرے ، نفس مصورہ نفس امارہ کا نوکر ہے ، نفس مصورہ کا کام یہ ہے کہ ہنر نمائی کرتا ہے اور تمام برائی کو پردی کے پیچھے چھپا دیتا ہے اور اس پر اچھائی کی چمک دھمک لگا دیتا ہے «زین لهم سوء اعمالهم» اور اس کو خوبصورت جلوہ دیتا ہے جب انسان اس کو اچھا سمجھتا ہے تب یہ مرحلہ ہے «ان النفس لاماره بالسوء» ۔
قرآن کریم کے اس مفسر نے بیان کیا : اگر ہم لوگ چاہیں ثبوت اچھائی ہوں تو اچھائی کی تصویر اپنے پاس رکھیں اور ہر روز اس قوا کو اپنے اندرونی و باہری ادراکی راستہ کو عقل کامل کے سامنے پیش کریں تا کہ منافقانہ حالات ہمارے اندر راستہ پیدا نہ کر سکے ۔
انہوں نے بیان کیا : سید سجاد امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں علم کا قائد عقل ہے ۔ ہمارے اندر خداوند عالم نے عقل عنایت کی ہے کہ «عبد به الرحمان واکتسب به الجنان» ہے یہ عقل ہمارا قاعد امام و رہبر ہے ۔ دوسری طرف علم روح کا قائد ہے ۔ اگر اس طرح ہو تو ہمارے اندر منافق کا وجود نہیں ہوگا تو اس کی وجہ سے انسان آسانی سے نیک کام انجام دے گا ۔ موجودہ حالات میں پڑھائی واقعا بہت سخت ہے لیکن «مَنْ أَعْطی وَ اتَّقی وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنی فَسَنُیَسِّرُهُ لِلْیُسْری» یہ خدا کا وعدہ ہے کہ ہم بعض علماء و طلاب و مجتہدین کے راہ کو آسان کرے نگے ۔
ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے
حضرت آیت الله جوادی آملی نے بیان کیا : خداوند عالم نے دو مرتبہ فرمایا «ان مع العسر یسری» جہاں بھی مشکل ہے آسانی بھی ہے ۔ وہ آسانی دور بھی نہیں ہے بلکہ نزدیک ہے ۔ ہر مشکلات کے ساتہ آسانی بھی ہے ۔ اکثر ادیبوں نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے العسر دوم عسر اولی کی طرح ہے لیکن دوم یسر اور اول یسر میں فرق پایا جاتا ہے پھر تمام عسر کے ساتہ یسر پاہا جاتا ہے ۔
انہوں نے اس اشارہ کے ساتہ کہ ملک میں پابندی کی مشکلات قرآن و عترت کے برکت سے اچھی طرح حل ہو جائے گا بیان کیا : ہم لوگ حوزہ علمیہ میں ہیں ہم لوگوں کو آخوند خراسانی اور شیخ انصاری سے کمتر نہیں ہونا چاہیئے اور اگر ان سے کم ہوئے تو اپنے حال پر آنسو بہانا چاہیئے کیونکہ یہ لوگ میانہ درجہ کے علماء میں سے ہیں ۔ یہ کہ حوزہ علمیہ تربیت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ ان امور میں گرفتار ہے کہ جو ان کی اپنی ضرورت پوری کرے ۔