
Super User
مسجد نصیرالملک – شیراز ؛ ايران
مسجد نصیرالملک ، شیراز کی قدیم مساجد میں سے ایک مسجد ہے جو شہر شیراز کے “ گود عربان” نامی محلہ میں، خیابان لطف علی خان زند کے جنوب میں امام زادہ شاہ چراغ کے قریب واقع ہے۔
اس عمارت کو سلسلہ قاچار کے ایک نامور شخص، میرزا حسن علی المعروف نصیرالملک کے حکم سے تعمیر کیا گیا ہے اور اس کی معماری، محمد حسن معمار نامی ایک مشہور معمار نے انجام دی ہے۔ اس مسجد کو تعمیر کرنے میں ١۲۵۵ سے ١۲٦۷شمسی﴿ ١۸۷٦ء سے ١۸۸۸ء تک﴾، یعنی بارہ سال کا عرصہ لگ گیا ہے۔
مذکورہ مسجد کا ایک وسیع و عریض صحن ہے، جو مسجد کے شمال میں واقع ہے۔ اس مسجد کا صدر دروازہ ایک بڑا محراب نما ہے جس کی چھت رنگ برنگ ٹائیلوں سے مزین کی گئی ہے۔ اس مسجد میں داخل ھونے کے دو دروازے ہیں، جو لکڑی کے بنے ھوئے ہیں۔ ان دونوں دروازوں کے اوپر سنگ مرمر پر شوریدہ شیرازی کے چند اشعار لکھے گئے ہیں، جن میں مسجد کو تعمیر کرانے والے اور اسکی تعمیر مکمل ھونے کے سال کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے مشرقی شبستان اور مغربی شبستان کے نام سےدو شبستان ہیں۔
مغربی شبستان کی چھت اینٹوں کی بنی ھوئی ہے اور اس پر کافی تزین کاری کا کام ھوا ہے اور زیبا ہے، اس شبستان کا محراب پتھر کے ستونوں پر قرار پایا ہے، یہ ستون مخروطی شکل کے ہیں اور ان کی تعداد بارہ اماموں کی نیت سے بارہ ہے۔ اس شبستان کی سات دھلیزیں ہیں جو لکڑی کے بنے ھوئے سات دروازوں کے ذریعہ مسجد کے صحن سے ملتی ہیں اور ان دروازوں کر رنگ برنگ شیشوں سے مزین کیا گیا ہے۔ اس شبستان کی سنگ تراشی اور تزئین کاری، مسجد وکیل شیراز کے مانند ہے۔ اس شبستان کے محراب اور دیواریں خوبصورت ٹائیلوں سے مزین کی گئی ہیں۔ اور اس کے فرش پر فیروزی رنگ کی ٹائلیں بچھائی گئی ہیں اور اس کی چھت کو پھول، پودے اور قرآن مجید کی آیات نقش کرکے سجایا گیا ہے، حقیقت میں یہ شبستان، موسم گرما کا شبستان شمار ھوتا ہے۔
مشرقی شبستان، موسم سرما کا شبستان شمارھوتا ہے، اس کے بالکل سادہ سات ستون ہیں اور یہ ساتوں ستون ایک ہی لائن میں شبستان کے بیچ میں قرار پائے ہیں۔ مشرقی شبستان کے سامنے ایک ایوان ہے جو آٹھ محرابوں کے ذریعہ صحن سے جدا ھوا ہے۔ اس شبستان میں ایک ایسا دروازہ ہے، جو ایک کنویں کی طرف کھلتا ہے۔
اس کے علاوہ اس جگہ پر ایک چھوٹا حوض اور ایک ڈالان بھی ہے۔ عمارت کے لئے قبلہ کی سمت مشخص کرنے کے لئے دونوں شبستان معمول کے خلاف قبلہ کی امتداد میں قرار پائے ہیں۔ شمالی ڈالان پر ایک پتھر ہے، جس پر مندرجہ ذیل شعر منقش کیا گیا ہے:
غرض نقشی است کز ما بازماند کہ ھستی را نمی بینم بقایی
مگر صاحبدلی روزی بہ رحمت کند در حق استادان دعایی
اس مسجد کے دوایوان ہیں، جن کے نام شمالی ایوان اور جنوبی ایوان ہیں یہ دونوں ایوان ایک دوسرے کے مشابہ نہیں ہیں۔ شمالی ایوان، جنوبی ایوان کی بہ نسبت خوبصورت تر ہے۔ شمالی ایوان کے تین جانب تین نیم محراب ہیں اور چوتھی طرف صحن کی طرف دروازہ ہے، اسی طرح اس ایوان کے چار کمرے ہیں اور اس کی درمیانی سقف محراب نما اور زیبا ہے۔ جنوبی ایوان کے بھی دو گل دستے ہیں اور اس کے صحن میں بھی ایک مستطیل شکل کا حوض ہے اور اس کے درمیان پتھر کا بنا ہوا فوارہ ہے۔
مسجد کے شمال کی طرف ایک محراب ہے جس کا نام محراب مروارید ہے۔ اس کی پوری سقف کو اندر اور باہر سے رنگ برنگ ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے اور ان پر قرآن مجید کی آیات لکھی گئی ہیں اور اس محراب کے دونوں طرف دو چھوٹے محراب نما ہیں۔ اس کے جنوب میں بھی ایک محراب ہے، جو محراب مروارید سے قدر ے پست تر ہے۔
اس کی بیرونی اور اندرونی سطح پر ٹائیل نصب کئے گئے ہیں اور اس کی سقف کو بھی شمالی محراب کی سقف کے مانند چھوٹے چھوٹے محرابوں سے سجایا گیا ہے۔
جناب " ام وھب "
واقعہ کربلا میں شریک عظیم خواتین میں سے ایک جناب " ام وھب " بھی ہیں
وہ ایک بہادر خاتون تھیں جو اپنے شوہر عبد اللہ بن عمیر کلبی کے ہمراہ کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔ قابل ذکر ہے کہ کربلا کے دلخراش واقعے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں تین ایسی شجاع و بہادر خاتون تھیں جنہوں نے یزيدیوں سے مقابلہ کیا جن میں سے دو عورتیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے حکم سے میدان جنگ سے خارج ہوگئیں لیکن ام وھب کربلا کی جنگ میں موجود تھیں اور شہادت کے اعلی درجے پر فائز ہوئیں ۔
ام وھب کا شمار ان معدودے چند خواتین میں ہوتا ہے جو اپنے شوہر سے والہانہ عشق و محبت کے علاوہ امام وقت حضرت امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ عقیدت رکھتی تھیں اور ان کا شمار خالص شیعوں میں ہوتا تھا اس طرح کی عظیم خواتین کا وجود نہ صرف دنیا کی تاریخ بلکہ تاریخ اسلام میں بھی بہت ہی کم دیکھنے کو ملتا ہے
روایت میں ہے کہ جب عبداللہ میدان کارزار میں گئے تو ام وہب نے ایک لکڑی اٹھائی اور ان کے پیچھے پیچھے میدان جنگ کی طرف گئیں تاکہ اپنے شوہر کی مدد اور دشمنوں سے جنگ کریں جب عبد اللہ نے ام وہب کو میدان میں دیکھا تو ان کے قریب آئے اور کہا کہ تم فورا خیمے میں واپس چلی جاؤ اور جنگ کو مردوں کے لئے چھوڑدو لیکن ام وہب نے اپنے شوہر نامدار سے کہا : میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی یہاں تک کہ تمہارے ساتھ اپنی جان قربان کردوں۔ حضرت امام حسین علیہ السلام جو پیار و محبت کے اس حسین منظر کا مشاہدہ کررہے تھے عبد اللہ بن عمیر کلبی کی شریک حیات ام وھب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے ام وہب ، خدا تجھے اجر دے ، تم خیمے میں جاکر خواتین کے ساتھ بیٹھ جاؤ ، کیونکہ خواتین پر جہاد واجب نہیں ہے۔ ام وہب نے جب امام حسین علیہ السلام کے اس فرمان کو سنا تو حکم امام کی اطاعت کرتے ہوئے خیمے میں واپس چلی گئیں لیکن خیمہ گاہ سے اپنے شوہر کی شجاعت و بہادری کا نظارہ کرتی رہیں لیکن جب عبداللہ نے جام شہادت نوش کیا تو دوڑتے ہوئے اپنے شوہر کے سرہانے پہنچ گئیں اور کہا " اے میرے سرتاج تمہیں بہشت مبارک ہو ، میں اس خدا سے جس نے تمہیں جنت کی نعمت سے سرافراز کیا ہے التجا کرتی ہوں کہ مجھے بھی تمہارے ساتھ جنت میں ہم نشیں قرار دیدے"۔
ام وہب کی شجاعت و بہادری اور حضرت امام حسین علیہ السلام اور اپنے شوہر سے ان کی وفاداری کو دیکھ کر شمر حیران و پریشان ہوگیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابن زياد کے کچھ سپاہی لشکر حسینی میں شامل ہوجائیں اس لئے اس نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ فورا ام وہب کے سر پر ایسا گرز مارو کہ وہ ختم ہوجائیں۔ رستم نے بھی ایسا ہی کیا اور اس طرح عبد اللہ عمیر کلبی کی شجاع و بہادر شریک حیات ام وھب اپنے شوہر کی شہادت کے کچھ ہی لمحوں بعد وہ شہادت کے درجے پر فائز ہوگئیں اور اپنا مدعا حاصل کرلیا ۔
بنگلہ دیش: پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں
بنگلہ دیش میں احتجاجی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی سیکیورٹی فورسز نے ڈھاکہ میں احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ان پر واٹر کینن اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔ مظاہرین نے بھی پولیس کے خلاف دیسی ساختہ بم استعمال کئے ہیں۔ ان جھڑپوں میں اب تک ایک شخص کے ہلاک ہونے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ ڈھاکہ سے موصولہ رپورٹ کے مطابق پولیس کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا ہے مظاہرین سے نمٹنے کے لئے پولیس کے گیارہ ہزار اہلکار ڈھاکہ کے مختلف علاقوں میں تعینات کئے گئے ہیں۔ پولیس نے مظاہروں کو روکنے کے لئے ایک ہزار سے زائد افراد کو مظاہرے سے ایک دن پہلے گرفتار بھی کر لیا تھا۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں نے پانچ فروری کو ہونے والے انتخابات کو ملتوی کروانے کے لئے احتجاج کی کال دی تھی۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تمام اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ حضرت فاطمہ کبری معصومہ سلام اللہ علیہا بھی عظیم فضائل و کمالات اور اعلی و ارفع مقام پر فائز تھیں۔
فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت کو پچیس سال گذر چکے تھے کہ پہلی ذیقعدہ سن ایک سو ایکہتر ہجری قمری کو حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں آپ اپنے والدین حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اور جناب نجمہ خاتون کی پاکیزہ آغوش میں پروان چڑھیں ایسے گھر میں کہ جس کے تمام افراد علم و عمل سے مالامال اور تقوی و پرہیزگاری سے سرشار تھے آپ نے اپنے والد گرامی اور عظیم المرتبت بھائی کی ولایت و تربیت میں رہ کر الہی تعلیم حاصل کی اور رسول اسلام اور آپ کے اہلبیت کی احادیث پر تسلط حاصل کیا البتہ آپ کے بابا اپنی عمر کے اواخر میں ہمیشہ ہارون الرشید کے قید خانے میں رہے بالآخر قید خانے میں ہی کہ جس وقت حضرت معصومہ کی عمر دس برس تھی آپ کو شہید کردیا گیا اس کے بعد سے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی زیر تربیت رہیں ۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا عبادت و زہد میں شہرہ آفاق اور فضائل و کمالات میں بلندترین مقام پر فائز تھیں آپ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تمام اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بعد علمی و اخلاقی کمالات میں سب سے زيادہ اعلی و ارفع مرتبے پر فائز تھیں۔ یہ حقیقتیں حضرت معصومہ کے القاب اور آپ کے بارے میں علماء و دانشوروں کے بیان کردہ صفات سے بخوبی واضح ہوجاتی ہیں۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے بے شمار صفات و القاب جس کی وجہ سے آپ بہت معروف ہوئیں ہیں وہ ان کے اخلاق کریمانہ پر دلالت کرتے ہیں آپ کی زيارت میں آپ کے بہت سے القابات مثلا طاہرہ، حمیدہ ، مرضیہ ، محدثہ اور شفیعہ کا ذکر ہوا ہے لیکن امام علی رضا علیہ السلام کے فرمان کے مطابق آپ کا سب سے مشہور لقب " معصومہ " ہے ۔ان میں سے ہرایک القاب و صفات آپ کی عظمت و کرامت اور اعلی مقام کے عکاس ہیں ایسی شخصیت کہ جس کی تمام رفتار و گفتار پاکیزگی ، صداقت اور دین و عرفان کے سانچے میں ڈھلی تھی آپ کے اعلی صفات کو اجاگر کررہی تھی ۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے جو علوم و فضائل اپنے بابا اور اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کسب کیا تھا اس کے ذریعے معاشرے کی ہدایت و رہنمائی کرتی تھیں تاریخ میں منقول ہے کہ جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام مدینے میں تشریف نہیں رکھتے تھے تو حضرت معصومہ لوگوں کے سوالات کا جوابات دیا کرتی تھیں اور ان کے مشتبہ افکار کی اصلاح فرمایا کرتی تھیں ایک دن امام علیہ السلام کے کچھ چاہنے والے آپ سے ملاقات کے لئے مدینہ تشریف لائے تاکہ اپنے سوالات کا اطمینان بخش جواب حاصل کرسکیں مگر اس وقت امام کاظم علیہ السلام مدینے سے باہر سفر پر گئے ہوئے تھے ان لوگوں نے اپنے سوالات لکھ کر حضرت معصومہ کے پاس بھیجوایا اور قیام گاہ واپس چلے گئے پھر دوسرے دن بھی وہ لوگ امام علیہ السلام کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے لیکن امام علیہ السلام موجود نہ تھے امام کے چاہنے والوں نے اپنے سوالات واپس مانگے تاکہ پھرکبھی امام علیہ السلام سے آکر جواب معلوم کریں گے مگر ان لوگوں کو اس وقت بہت زيادہ حیرت ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے تمام سوالات کے جوابات لکھ کر ارسال کئے ہیں اور وہ جوابات بھی اتنے جامع تھے کہ وہ لوگ قانع ہوگئے جب امام علیہ السلام سفر سے واپس آئے اور اس واقعے سے باخبر ہوئے تو آپ نے باکمال افتخار فرمایا : فداھا ابوھا فداھا ابوھا تیرا باپ تجھ پر نثار ہو ،تیرا باپ تجھ پر نثار ہو۔
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا متقی و پرہیزگار ، عالمہ اور محدثہ خاتون تھیں یہی وجہ ہے کہ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی کتابوں میں آپ سے نقل کردہ روایتیں موجود ہیں آپ نقل احادیث کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی و ہدایت فرماتی تھیں۔ آپ اپنے والد ماجد اور بھائی سے جو بے شمار حدیثیں سنتی تھیں ان کو لوگوں کے سامنے بیان فرماتی تھیں اور انہی میں سے ایک وہ روایت ہے جسے آپ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علہا سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا: جو شخص محمد و آل محمد کی محبت پر مرجائے وہ شہید مرا ہے ۔
فقہاء کی نظر میں آپ کا معروف لقب " کریمہ اہل بیت " ہے اہلبیت علیہم السلام کی خواتین کے درمیان یہ لقب صرف اور صرف آپ ہی کی ذات اقدس سے مخصوص ہے ۔کریمہ کے معنی بہت ہی سخی و مہربان عورت کے ہیں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے قرآن کریم اور اسلام کی تعلیمات کی پیروی ميں بسر ہونے والی زندگی کو سعادتمند زندگی سے تعبیر فرمایا اور اپنی پوری زندگی ذکر خدا اور یاد خدا میں بسر کی یہی وجہ ہے کہ آپ دین اسلام کی مکمل پیروی اور راہ ہدایت پر چل کر کمال انسانی کے سب سے اعلی مرتبے پر فائز ہوئیں روایتوں میں آپ کے روضہ انور کی زيارت کی بہت زيادہ تاکید ہوئی ہے اور یہ بات خود آپ کی منزلت، شرف و فضیلت اورآپ کے علو درجات کو نمایاں کرتی ہے ائمہ معصومین علیہم السلام نے مسلمانوں کو آپ کی زيارت کی بہت زیادہ تشویق و ترغیب دلائی ہے ۔
فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : جو میری پھوپھی کی قم میں زيارت کرے گا اس پر جنت واجب ہے ۔آپ کی زیارت پر اتنا زیادہ اجر و ثواب ، جی ہاں کیونکہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی اولادوں میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بعد کسی کے بارے میں بھی اتنی فضیلت بیان نہیں ہوئی ہے ۔
مامون کی خلافت کے آغاز سے ہی اس مکار و عیاش عباسی خلیفہ نے اپنے ظالم وستمگر آباؤ و اجداد کی مانند اہل بیت و عصمت وطہارت علیہم السلام کی روز افزوں مقبولیت کے سبب نئی چالیں اور حربے استعمال کرنا شروع کردیئے اور امام علی رضا علیہ السلام کو اپنے دارالحکومت "مرو " بلا لیا امام علیہ السلام نے مجبورا اس کی دعوت قبول کی اور اپنے اہل بیت اور اعزہ و احباب کو لئے بغیر ہی تنہا مرو چلے گئے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مرو جانے کے ایک برس بعد سن دو سو ایک ہجری میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کی زيارت کے لئے اپنے چار بھائیوں اوربہت سے چاہنے والوں کے ہمراہ ایران کی جانب روانہ ہوئیں جب یہ مختصر سا قافلہ شہر ساوہ کے قریب پہنچا تو مامون عباسی کے حکم سے کچھ دشمنان اہل بیت نے آپ لوگوں کا راستہ روک لیا اور ان پر حملہ کرکے خاندان پیغمبر کے تقریبا تیئیس افراد کو شہید کردیا اس دلخراش واقعہ کا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا پر اتنا زيادہ اثر ہوا کہ آپ بیمار پڑ گئیں یا ایک روایت کی بنیاد پر آپ کو زہر دیا گیا حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے باقی بچے ہوئے افراد سے پوچھا یہاں سے قم کتنی دور ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا بہت ہی نزدیک ہے آپ نے فرمایا مجھے فورا قم لے چلو کیونکہ ہم نے اپنے بابا سے بارہا سنا ہے کہ قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے اور اس طرح مرو کی جانب جانے والا قافلہ قم کی طرف روانہ ہوگیا اور تیئیس ربیع الاول سن دو سو ایک ہجری کو قم پہنچ گیا قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی آمد کی خبر تمام لوگوں کے لئے بہت ہی مسرت بخش تھی بزرگان قم اور وہاں کے عوام حضرت کے استقبال کے لئے نکل پڑے انہوں نے محبت و عقیدت سے سرشار آپ کو اپنے جھرمٹ میں لے لیا استقبال کرنے والوں سے پہلے شہر قم کی معروف شخصیت موسی بن خزرج پہنچ گئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا سے خواہش ظاہر کی کہ اے معصومہ آپ ہمارے گھر میں قیام کیجئے آپ نے ان کی درخواست کو قبول کرلیا ۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا اپنے بھائی امام علی رضا علیہ السلام کے غم جدائی اور اپنے بھائیوں کی شہادت یا ایک قول کی بناء پر آپ کو جو زہر دیا گیا تھا اس کی وجہ سے بیمار پڑگئیں اور صرف سترہ دن زندہ رہیں اور دس ربیع الثانی دوسو ایک ہجری کو اپنے بھائی کے دیدار کی تمنا دل میں لئے ہوئے غربت کے عالم میں اٹھائیس برس کی عمر میں اس دارفانی سے بقائے جاودانی کی طرف رخصت ہوگئیں اور اپنے چاہنے والوں کو گریہ و زاری میں مبتلا کردیا اور قم کے جس گھر میں آپ نے سترہ دن قیام کے دوران عبادت پروردگار اور اپنے معبود حقیقی سے راز و نیاز کیا تھا آج وہ جگہ بیت النور کے نام سے معروف اور مسلمانوں کی زیارت گاہ بنا ہوا ہے ۔
آپ کی وفات کے بعد آپ کو نہایت ہی ادب و احترام سے غسل و کفن دیا گيا اور بڑی شان و شوکت سے آپ کا جنازہ اٹھا اور اسی مقام پر جہاں آج روضہ منور ہے سپرد خاک کردیاگیا-
ہمارا سلام ہو اس عظیم خاتون پر جس نے ثانی زہرا سلام اللہ علیہا کے نقش قدم پر چل کر دین اسلام کی آبیاری کی ۔
مسجد سئول - جنوبی کوریا
جنوبی کوریا کے شہر سئول کی مرکزی مسجد نے اس شہر کے “ایتائہ وون” علاقہ میں ١۹۷٦ء میں فعالیت شروع کی ہے۔ یہ مرکزی مسجد، شہر سئول کی واحد مسجد کے عنوان سے سیاحوں کو اپنی طرف جذب کرنے والی جگہ شمار ھوتی ہے، کہ کوریا کے بہت سے باشندے ہفتہ کے آخر پر اسلام کے بارے میں تقریر سننے کے لئے اس مسجد میں حاضر ھوتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس مسجد میں جمعہ کے دن نماز جمعہ قائم ھوتی ہے اور نماز جمعہ کے خطبے تین زبانوں، یعنی انگریزی، عربی اور کوریایی میں بیان کئے جاتے ہیں۔ تقریبا ۸۰۰ نماز گزار جمعہ کے دن ایک بجے ظہرکو نماز جمعہ میں شرکت کرنے کے لئے اس مسجد میں حاضر ھوتے ہیں، ان میں سے اکثر کوریا میں مقیم عرب، ھندستانی، پاکستانی اور ترکیہ کے باشندے ھوتے ہیں۔
سئول کی مرکزی مسجد، مسجد کے علاوہ اداری دفاتر، درس کے کلاسوں، کانفرنس ہال اور اجتماعات کے حال پر مشتمل ہے۔
اس مسجد کے طبقہ اول اور دوم میں کوریا میں غیر ملکی کام کرنے والے مسلمانوں کے لئے ہفتہ کے آخری دن عارضی سکونت کے لئے چند کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔
اس مسجد کے اسلامی مدرسہ کی عمارت کا نام “ شہزادہ سلطان” ہے اور یہ حصہ مسجد کی اصلی عمارت سے جدا ہے۔ اس مسجد کے دو خوبصورت میناروں نے جنوبی کوریا کے دارالخلافہ سئول کے جنوبی علاقہ کو رونق بخشی ہے۔
اس مسجد کے صدر دروازہ کو انتہایی ظرافت اور خوبصورتی کے ساتھ نیلے اور سفید ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔
یہ مسجد کوریا کے دارالخلافہ سئول کے “ ہان نام دونگ، یونگسان گو“ نامی محلہ میں واقع ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام ،خدا کے عظیم پیغمبر
آج اس پیغمبر کا یوم ولادت ہے جس نے حضرت مریم جیسی عظیم خاتون کی آغوش عصمت میں آنکھ کھولی وہ پیغمبر جو اقوام عالم کے لئے مہربانی اور عدالت وانصاف کی بشارت دینے والا اور پیغام رساں تھا
جس نے گہوارے میں گفتگو کی اور غفلت کے شکار لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا کا بندہ ہوں، خدانے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔ اور جہاں بھی رہوں بابرکت قرار دیاہے اور جب تک زندہ رہوں نماز و زکوٰٰۃ کی وصیت کی ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا بنایا ہے۔ اور ظالم وبد نصیب نہیں بنایاہے اور سلام ہے مجھ پر اس دن جب میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا۔
حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے دنیا کے عدل نوازوں اور انصاف پسندوں کی خدمت میں مبارک باد پیش کررہے ہیں۔
حضرت عیسی علیہ السلام خداوند عالم کے اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں اور قرآن نے بڑے احترام کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے ۔ آپ کی ولادت کی داستان بھی بڑی حیرت انگیز ہے اور قرآن کریم نے اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت حق نے بغیر باپ کے پیداکیا آپ کی والدۂ گرامی حضرت مریم(س) کو خدائے قادر وتوانا نے شادی اور شوہر کے بغیر ماں کے عظیم مرتبہ پر فائز کیا قرآن کریم میں مریم بنت عمران کے بارے میں خدا فرماتاہے کہ وہ بڑی پرہیز گار اور پاک دامن خاتون تھیں۔
بچپن سے ہی معرفت الہی اور عبودیت و تہذیب نفس کے اس مرتبے پر فائز تھیں کہ ان کے لئے آسمانی غذائیں اور نعمتیں آتی تھیں ایک روز حضرت مریم (س) اپنے معبود سے راز ونیاز میں مشغول تھیں کہ دفعتا سید الملائکہ جبریل نازل ہوئے اور آپ کو ایک پاکیزہ بچے کی پیدائش کی بشارت دی۔خدا وند کریم نے سورۂ مریم کی سولہ سے اکیس تک کی آیات میں اس داستان کو بیان فرمایاہے ۔قرآن کریم نے حضرت عیسی (ع) اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کی تصدیق کرتے ہوئے موجودہ مسیحیت میں رائج بعض اعتقادات کی نفی کی ہے جن میں تثلیث اور اس کے اصول و معیارات شامل ہیں۔
تثلیث کے معنی ، کسی چیز کو تین حصّوں میں تقسیم کیا جانا ہے۔موجودہ دین مسیحیت کے اعتقادات میں، تثلیث بنیادی عقیدہ ہے جو تین خداؤں یعنی باپ بیٹا اور روح القدس کی الوہیت کی بنیاد پر استوار ہے۔ نظریۂ تثلیث ، ایک سہ گانہ حقیقت کی حیثیت سے خدا کو درک کرنے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کی تبلیغ کرتاہے ۔اس عقیدہ کی بنیاد پر خدا کی ذات یگانہ ہے لیکن تین جداگانہ ہستیوں باپ ، بیٹا روح القدس سے ملکر ایک ہے ۔یہ تینوں جداگانہ تشخص کے باوجود ایک ذات ہے اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں تثلیث کے عقیدے میں عیسی وہی ذات الہی ہے جو پیکر بشر میں ظاہر ہوئی ہے ۔اور حضرت مریم کے بطن مبارک میں زیور جسم سے آراستہ ہوئی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ چاروں انجیلوں میں سے کسی میں بھی مسئلۂ تثلیث کی جانب اشارہ نہیں کیا گیاہے ۔اسی لئے مسیحی محققین کا کہناہے کہ انجیلوں میں عقیدۂ تثلیث کا سرچشمہ واضح نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض مورخین نے بھی لکھاہے کہ پہلے کے مسیحی تثلیث کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ۔عقیدۂ تثلیث تیسری صدی عیسوی کے بعد عیسائیوں کے درمیان رائج ہوا۔در حقیقت یہ بدعت، تھی جو حضرت عیسی کے بارے میں غلو اور اسی طرح مسیحیوں کے دیگر اقوام وملل میں شمولیت کے نتیجے میں مسیحیت میں شامل ہوگئی ۔خداوند کریم سورۂ مائدہ کی 77 ویں آیت میں ارشاد فرماتاہے کہ اے پیغمبر کہدو کہ اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو اور زیادہ روی سے کام نہ لو اور حق بات کے سوا کچھ نہ کہو اور ایسوں کی پیروی نہ کرو کہ جو خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔دین مسیحیت میں خدا کی یکتائی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے لیکن تثلیث کےعقیدے کے ساتھ خدا کا یگانہ و یکتا ہونا ، تضاد پائے جانے کے باعث درک وفہم میں شدید مشکلات کا باعث بناہے ۔یہ نظریہ، عقیدۂ تثلیث کو راز سربستہ اور عقل وفہم کی دسترس سے بالاتر سمجھتاہے۔غیر مسیحی دانشوروں کا کہنا ہے کہ صرف نظریۂ تثلیث قابل اثبات نہیں ہے بلکہ عہد جدید کی کتاب میں بھی ایسی باتیں ملتی ہیں جو عقیدۂ تثلیث کی بیخ کنی کرتی ہیں۔ ان دانشوروں کا کہنا ہے کہ انجیل میں ایسی عبارتیں موجود ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام سے ایسی باتیں منقول ہیں جو مکمل طور سے عقیدۂ تثلیث کے منافی ہیں۔مثال کے طور پر انجیل یوحنّا میں آیاہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا کہ حیات جاودانی یہ ہے کہ لوگ تجھے اس حیثیت سے کہ تو خدائے یکتاہے اور عیسی مسیح کو مبعوث کیا ہے ، پہچانیں اور معرفت حاصل کریں۔ اس بیان کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام معرفت خدائے واحد و یکتا اور خدا کے رسول کی حیثیت سے مسیح کی معرفت کے حصول کو حیات جاوید سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب کہ اس بات اور عقیدۂ تثلیث میں تضاد پایاجاتاہے۔اس لئے کہ حضرت مسیح نے یہ نہیں کہا ہے کہ تین وجہ تثلیث کی جداگانہ صورت میں معرفت حاصل کرنا حیات جاوید ہے یا یہ بھی نہیں فرمایاکہ عیسی پیکر بشری میں خدا کی ہی ذات ہے بلکہ وہ اپنےکو خدا کا رسول اور فرستادہ سمجھتے تھے۔
حضرت سکینہ
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب رباب سلام اللہ علیہا کی صاحبزادی تھیں تاريخ میں آپ کا تین نام امینہ ، امنیہ اور آمنہ اور لقب سکینہ یعنی وقار و سکون درج ہے آپ ایمان کے اعلی مرتبے پر فائز تھیں۔ امام حسین علیہ السلام آپ کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ سکینہ اپنے پورے وجود کے ساتھ جمال ازلی میں محو رہتی ہیں اور دن بھر عبادت پروردگار میں غرق ہوکر خداسے راز و نیاز کرتی ہیں ۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا اپنے کمال اخلاق اور حمیدہ صفات کی وجہ سے اپنے بابا کی نظر میں بہت زیادہ عزيز تھیں اور جب یہ درخشاں ستارہ آسمان خاندان پیغمبر پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا تو امام نے ، جو انسان کے ضمیروں اور اعمال سے آگاہ ہیں سکینہ کو عظیم و خوبصورت لقب " خیرۃ النساء " سے ملقب کیا اور ان کے مقام و منزلت کو لوگوں پر واضح و آشکار کردیا ۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا نے کربلا کے دلخراش مناظر کو نہایت ہی صبرو حوصلے سے برداشت کیا آپ واقعہ کربلا کی چشم دید گواہ تھیں آپ نے اپنے بابا کی آواز استغاثہ کو سنا اور پورے وجود کے ساتھ ماں ، بہن ، پھوپھیوں اور دیگر اسیر خواتین کے درد و الم کو بخوبی درک کیا یہی نہیں بلکہ اپنے سے چھوٹے بچوں کی سرپرستی اور دلجوئی کی، حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا جانتی تھیں کہ ان کے بابا امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نفاذ ، بدعت اور دینی انحرافات کے خاتمہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ کربلا کے خونین مناظر اور نیزہ پر اپنے بابا امام حسین علیہ السلام کا سربریدہ دیکھنے کے باوجود آپ کے ثبات و عزم میں ذرہ برابر بھی تزلزل پیدا نہ ہوا لیکن جب گیارہ محرم کو اہل بیت حرم کو قیدی بنا کر لے جایا جانے لگا اور نامحرموں کی نظریں خاندان عصمت و طہارت پر پڑیں تو آپ نےبہت سعی و کوشش کی کہ ان کی ناپاک نظروں سے اپنے کو بچا لیں لہذا فرمایا : میرے بابا کے سر کو قافلے کے آگے لے جاؤ تاکہ لوگ اس کو دیکھیں اور خواتین عصمت و طہارت پر ان کی نظریں نہ پڑیں۔
امام حسین علیہ السلام کی چہیتی بیٹی سکینہ نہایت ہی شجاع و بہادر تھیں انہوں نے ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی حقانیت کو ثابت کیا حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کی عظمت و منزلت اور کلام کی فصاحت و بلاغت نے کسی میں اتنی جرات پیدا نہ کی جو گستاخی و توہین کرتا بلکہ ہرایک اپنی اپنی جگہ مبہوت بیٹھا رہا بالکل اسی طرح جس طرح سے آپ کی پھوپھی حضرت زينب سلام اللہ علیہا نے جب دربار یزيد میں خطبہ دیا تو تمام اہل شام مبہوت وحیران رہ گئے تھے۔ چنانچہ حضرت سکینہ نے یزيد بن معاویہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : اے یزید ، میرے بابا کو قتل کرکے خوش نہ ہو کیونکہ وہ خدا و رسول کے مطیع وفرماں بردار تھے ، دعوت الہی کو قبول کرتے ہوئے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوکر "سید الشہداء" بن گئے لیکن اے یزيد جان لے کہ ایک دن ایسا آئےگا کہ تجھے عدالت الہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اس لئے اس دن کے جواب کی تیاری کر، لیکن تو کس طرح جواب دے سکے گا ؟
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا جب تک زندہ رہیں امام حسین علیہ السلام کے مشن کو عام کرتی رہیں اور ایک دن قیدخانہ شام میں اپنے بابا کو یاد کرتے کرتے خالق حقیقی سے جا ملیں اور غربت کے عالم میں بے کس و مظلوم بھائی امام سجاد علیہ السلام نے اسی زندان میں آپ کو دفن کردیا اور آج آپ کا روضہ مرجع خلائق بنا ہوا ہے ۔
جناب رباب
تاریخ اسلام کی ایک بہت ہی مشہور و معروف اور فضائل و کمالات ، وفا و صبر سے سرشار خاتون جناب رباب ہیں جو امرؤ القیس کی صاحبزادی ، حضرت امام حسین علیہ السلام کی شریک حیات اور جناب حضرت علی اصغر و جناب سکینہ کی مادر گرامی ہيں جن کا نام تاریخ کے اوراق پر سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے ۔
تاریخ اسلام کے مشہور مورخ ہشام کلبی نے جناب رباب کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کا شمار بہترین اور بافضیلت خواتین میں ہوتا تھا۔ امرؤ القیس نے جو ایک نہایت مشہور و معروف شخصیت کے حامل تھے خلیفہ دوم کے زمانے میں اسلام لائے اور مستقل طور پر مدینے میں سکونت اختیار کرلی جن کی تین لڑکیاں تھیں آپ نے خاندان اہل بیت عصمت و طہارت سے بے پناہ الفت و محبت کی وجہ سے اپنی تینوں لڑکیوں کی شادی اسی گھرانے یعنی ایک بیٹی کی شادی حضرت علی علیہ السلام ، دوسری بیٹی کی شادی حضرت امام حسن علیہ السلام اور تیسری بیٹی کی شادی جن کا نام رباب تھا امام حسین علیہ السلام سے کردی جناب رباب کی دو اولادیں ہوئیں ایک حضرت سکینہ اور دوسرے حضرت علی اصغر . حضرت علی اصغر میدان کربلا میں چھ مہنیے کی عمر میں اسلام اور اپنے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے باپ کے ہاتھوں پر شہید ہوگئے اور جناب سکینہ سلام اللہ علیہا بھی واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور کربلا سے کوفہ و شام پر رنج و الم راہوں میں یزيدیت کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہیں آپ کا شمار بھی عالم اسلام کی عظیم خواتین میں ہوتا ہے ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام اور جناب رباب سلام اللہ علیہا کی محبت و الفت کا تذکرہ ہر خاص و عام کی زبان پر ہے اور آپ کی سیرت دنیا میں موجود افراد کے لئے شریک حیات کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔اسی طرح شوہر کی خدمت و اطاعت میں جناب رباب کا کردار قیامت تک آنے والی عورتوں کے لئے بہترین اسوہ و نمونہ ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے جناب رباب سے اپنی الفت و محبت کا ذکر بہت سے اشعار میں کیا ہے آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں : تمہاری قسم میں اس گھر سے بہت محبت کرتا ہوں جس میں سکینہ و رباب ہوں ۔
جناب رباب بھی حضرت امام حسین علیہ السلام سے والہانہ محبت کرتی تھیں امام علیہ السلام کی شہادت کے بعد جناب رباب نے اپنی وفاداری و خلوص کا اظہار عملی کردار اور اشعار کی زبان میں کیا ہے۔ جب اسیروں کے ہمراہ آپ دربار ابن زياد میں داخل ہوئیں اور آپ کی نظريں امام حسین علیہ السلام کے سر بریدہ پر پڑی تو آپ اسیروں کے درمیان سے نکل کر سر مبارک کی طرف گئیں اور حاکم کوفہ ابن زیاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرمبارک کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور کہا: میں ہرگز امام حسین کو فراموش نہیں کرسکتی ، ہاں یہ حسین مظلوم جنہیں دشمنوں نے کربلا کے میدان میں تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا اور ان کے سر کو نیزہ پر بلند کیا۔
جناب رباب کربلا کے دلخراش مناظر اور راہ کوفہ و شام میں پڑنے والے مصائب و آلام کو برداشت کرتے ہوئے جب رہا ہوکر مدینے پہنچیں تو امام حسین علیہ السلام سے وفا و خلوص اور سچی محبت و الفت کی بناء پر کبھی بھی سایہ میں نہ بیٹھیں بلکہ جب تک زندہ رہیں سورج کے نیچے بیٹھی رہیں اور رات کی تاریکی میں کبھی بھی چراغ روشن نہیں کیا۔
آپ نے اپنے باوفا شوہر کے غم میں بہت سے اشعار کہے ہیں جن میں سے کچھ کا ترجمہ یہ ہے :
وہ نور جس سے لوگ بہرہ مند ہوتے تھے اسے دشمنوں نے کربلا کے میدان میں خاموش کردیا اور دفن کرنے کے بجائے ان کی لاش کو کربلا کے تپتے ہوئے صحرا میں چھوڑ دیا۔ پھر امام حسین علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتی ہیں اے میرے سید و سردار، آپ عظمت و شرافت کی عظیم چٹان تھے جس میں میں پناہ حاصل کرتی تھی اورآپ محبت و الفت اور دین مبین کے ساتھ میرے ہمراہ تھے آپ کی شہادت کے بعد اب کون ہے جو یتیموں اور اسیروں کی خبر گیری کرے گا ؟ خدا کی قسم آپ کے بعد میں ہرگز سائے میں نہیں بیٹھوں گی یہاں تک کہ قبر میں چلی جاؤں ،
جناب رباب امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک برس سے زيادہ زندہ نہ رہیں اور حضرت کے غم میں آنسو بہاتے بہاتے اس دنیا سے عالم جاوداں کی طرف رخصت ہوگئیں ۔
جناب ام کلثوم
تاریخ اسلام کی مثالی اور عظیم خواتین میں سے ایک جلیل القدر خاتون حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی زینب صغری سلام اللہ علیہا ہیں جنہیں ام کلثوم کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ حضرت امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمه زہرا سلام اللہ علیہا کی چوتھی اولاد اور دوسری بیٹی ہیں آپ حضرت امام حسن ، امام حسین اور حضرت زینب علیہم السلام کے بعد شہر مدینہ میں آٹھویں صدی ہجری میں پیداہوئیں۔
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے انہیں عظیم شخصیتوں کے دامن میں پرورش پائی اور ان کے فضائل و کمالات اور تعلیمات سے بہت زيادہ کسب فیض کیا حضرت ام کلثوم کی شادی جناب عون بن جعفر بن ابی طالب سے ہوئی لیکن چند ہی ماہ بعد جناب عون بن جعفر کا انتقال ہوگیا تو پھر آپ کی شادی محمد بن جعفر بن ابی طالب سے ہوئی ۔
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا ایک بہادر اور عقلمند خاتون تھیں جو کربلا کے دلگداز واقعے میں مدینے سے کربلا اور وہاں سے شام تک موجود تھیں درحقیقت حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا کی زندگی کے تمام اہم واقعات میں سے سب سے اہم واقعہ ، کربلا کا دلخراش واقعہ تھا جس میں آپ اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں موجود رہیں آپ واقعہ عاشورہ کے بعد اپنی بہن حضرت زينب سلام اللہ علیہا کے ہمراہ اسیران آل محمد کی قافلہ سالار تھیں واقعات کربلا پر مشتمل کتابوں میں آپ کے ان تمام خطبوں کا ذکر ہے جو کربلا کے دلخراش واقعے کے بعد آپ نے راہ کوفہ و شام ، بعلبک، سیبور اور نصیبین میں دیئے تھے آپ کے ان آتشیں خطبوں نے حکومت بنی امیہ کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں ۔
چودہویں صدی کے عظیم الشان مورخ و محدث علامہ شیخ عباس قمی تحریر کرتے ہیں : جس وقت اہل بیت علہیم السلام کے قافلے کو کوفہ میں داخل کیا گیا اس وقت کوفہ کے تمام لوگ ان قیدیوں کا تماشہ دیکھنے کے لئے گھروں سے باہر جمع تھے اور رحمدلی اور افسوس کے ساتھ بچوں کو روٹی اور خرما دے رہے تھے حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا نے ان چیزوں کو بچوں کے ہاتھوں سے لیا اور بلند آواز سے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے اہل کوفہ تم لوگ اس طرح کی چیزیں دینے سے پرہیز کرو کیونکہ ہم اہل بیت رسول ہیں اور صدقہ ہم پر حرام ہے اس وقت کوفہ کی ایک ضعیفہ اس منظر کودیکھ کر زار و قطار رونے لگی حضرت ام کلثوم نے محمل سے سر نکالا اور فرمایا : اے اہل کوفہ ، تمہارے مرد ہم پر ظلم و ستم کررہے ہیں اور تمہاری عورتیں ہم پر گریہ و زاری کررہی ہیں خداوندعالم قیامت کے دن ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا ،،
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا اپنی بہن زینب سلام اللہ علیہا کا بہت زیادہ احترام کرتی تھیں نہ کبھی ان کے آگے قدم بڑھاتیں تھیں اور نہ ہی ان سے پہلے کبھی کلام کرتی تھیں لیکن جہاں پر حضرت زينب سلام اللہ علیہا بیہوش ہوجاتی تھیں آپ ان کے کلام کو مکمل پایہ تکمیل تک پہنچاتی تھیں ۔
یہ عظيم و با فضیلت خاتون جس نے حضرت علی علیہ السلام اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دامن عصمت و طہارت میں پرورش پائی تھی اور شجاعت و بصیرت اور فصاحت و بلاغت کوان انوارطاہرین سے ورثے میں حاصل کیا تھا واقعہ کربلا کے چند برسوں بعد ہی اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئیں اور آپ کو مدینہ منورہ میں دفن کردیا گیا ۔
ہمارا راستہ شہادت و مزاحمت کا راستہ، سید حسن نصر اللہ
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے دشمنوں کے خلاف مزاحمت کی متعدد کامیابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزاحمت کی کامیابیوں نے سازشکارانہ منصوبوں کو علاقے میں ناکام بنادیا ہے اور نئی راہوں کو کھولا ہے۔ العالم کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل " سید حسن نصراللہ " نے جنوبی بیروت میں سیدالشھداء کمپلکس میں مزاحمت کے ایک اعلی کمانڈر شہید " حسان اللقیس " کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے منعقدہ مراسم میں مزاحمت کے شہداء و ان کے کارناموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ شہید " حسان اللقیس " مزاحمت کے ایک اعلی کمانڈر اور عاشق شہادت تھے اور مزاحمت کے درخشاں سپوت تھے۔ ان شہداء کی ذمہ داریوں کی ماہیت کس اس طرح کی تھی کہ ان کی معارفی کا امکان نہ تھا اور یہ لوگ شہادت سے قبل ہی ناآشنا باقی رہ گئے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل " سید حسن نصراللہ " نے مزاحمت کے اعلی کمانڈر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ مراسم میں شرکت پر لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور تمام حاضرین کو اس شہادت پر تسلیت پیش کی اور کہا کہ ان شہداء نے دن رات مزاحمت کے راستے میں خدمت کی تھی اور ان شہداء کے اہل خانہ نے بھی اس حوالے سے مزاحمت کے راستے میں جاں فشانی کی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہ مختلف ٹی وی چینلوں منجملہ العالم پر براہ راست نشر ہوا کہا کہ امید ہے کہ ایک دن ایسا آئے کہ کھل کر شہداء خاصطور پر مزاحمت کے کمانڈروں کے کارنامے اور ان کی شخصیت کے بارے میں بات کی جائے۔ " سید حسن نصراللہ " نے شہید " حسان اللقیس " کی شخصیت کے بارے میں کہا کہ وہ عاشق شہادت تھے اور مزاحمت کے عظیم سپوت تھے اور ان کی شہادت کے حوالے سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے مزید کہا کہ دشمن برسوں سے برین وار کی بات کررہا ہے اور مزاحمت کا ایک عظیم برین شہید " حسان اللقیس " تھے اور شہید " حسان " ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ دشمن کے ساتھ جنگ ختم نہیں ہوئی ہے اور شہید " حسان " سب کو دوست رکھتے تھے۔ " سید حسن نصراللہ " نے تاکید کی شہید " حسان اللقیس " کی دانشمندی ہی کی وجہ سے صہیونی دشمن نے انہیں نشانہ بنایا ہے اور صہیونی ذرائع ابلاغ و میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی رپورٹوں سے نشاندہی ہوتی ہے کہ دشمن نے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے کہا کہ ہم نے دشمن پر اپنی کامیابیوں ، مزاحمت کی ضرورت ، مزاحمت کے مقام و منزلت کی بقا اور دشمن کے ساتھ مقابلے کے لئے آمادگی کی قیمت ادا کی ہے اور کررہے ہیں اور مزاحمت کی کامیابیوں نے سازشی منصوبوں اور تسلیم ہونے کو جڑ سے ختم کردیا ہے اور نئی راہوں کو کھولا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے اس موقع پر کہا کہ حزب اللہ کی کوشش دشمن کے مقابلے میں ملک کا دفاع کرنا اور کرامت و اقدار کا تحفظ ہے اور ہمارے وہ کمانڈر کے جو قتل کردیئے گئے ہیں ، دشمن کے ساتھ ہونے والے معرکہ کے مرکزی کردار تھے۔ حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ مزاحمت کی کامیابیوں نے سازشی منصوبوں کی بیخ کنی کی ہے اور علاقے میں نئے روشن افق کھولے ہیں۔ " سید حسن نصراللہ " نے مزید کہا کہ شام میں ہمارے شہداء کی تعداد کے بارے میں شائع ہونے والے اعداد و شمار جھوٹ پر مبنی اور مزاحمت کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں اور اندرونی لحاظ سے بھی حزب اللہ لبنان کے خلاف جنگ کا ، لبنان کے سیاسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس بات کو ہوا دینا ، مزاحمت کو نقصان پہنچانے کے لئے ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ ہمارا راستہ شہادت و مزاحمت کا راستہ ہے اور ہم اس راہ میں مزید شہداء پیش کرنے کے لئے آمادہ ہیں اور مزاحمت میں کشیدگی کی فضاء دیکھا نے کے لئے دشمن کی کوشیشیں خام خیالی اور ایک خواب کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ " سید حسن نصراللہ " نے مزید کہا کہ ابھی عام رضاکار کو دعوت دینے کا وقت نہیں آیا ہے اور مستقبل میں بھی اس کی ضرورت کا احساس نہیں کیا جارہا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے تاکید کی کہ قاتلوں کو کیفرے کردار تک ضرور پہنچایا جائے گا اور شہداء کے خون کو رائیگاں جانے نہیں دینگے اور جن لوگوں نے ہمارے بھائیوں کو شہید کیا ہے وہ ہرگز امان میں نہیں رئینگے۔ " سید حسن نصراللہ " نے وضاحت کی کہ شہید " حسان اللقیس " کے خون کا انتقام دنیا کے ہر کونے میں ہو لیا جائے گا۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے لبنان کے سابق وزیر اعظم " سعد حریری " کی قیادت میں 14 مارچ گروہ کے بیان کو ایک خطرناک قرار دیا اور کہا کہ طرابلس میں جو بیان جاری ہوا ہے اس میں ہم کو تکفیری ، انحصار پسند ،دہماکوں کا عامل اور قاتل قرار دیا گیا ہے۔ " سید حسن نصراللہ " نے وضاحت کی کہ طرابلس کے بیانیہ کا مقصد و ہدف حزب اللہ کے خلاف اعلان جنگ کرنا ہے ، لیکن حزب اللہ کا مقابلہ اسرائیل کے ساتھ ہے نہ کہ اندرونی سیاسی دشمنوں کے ساتھ ، البتہ حزب اللہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گی کہ کوئی اس کے ساتھ کھیلے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ " سید حسن نصراللہ " نے لبنان کے مقابل سیاسی گروہوں سے مطالبہ کیا کہ دوستی کے لئے واپسی کے دروازے کھلے رکھیں۔ حزب اللہ کے سربراہ نے طرابلس و صیدا شہروں میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات اور لبنان فوجیوں پر حملے کے حوالے سے کہا کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ لبنانی فوج پر حملوں کے خطرے کو کم اہمیت ظاہر کرے اور ہم لبنانی فوج کی مکمل حمایت کرتے ہیں ، کیونکہ یہ وہ واحد ادارہ ہے کہ جو ابھی تک قومی اتفاق رائے اور احترام کا حامل ہے اور ہم نے ہمیشہ فوج کی حمایت کی ہے اور اس کو جاری رکھیں گے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے مزید کہا کہ ابھی بھی ہم ، متحدہ قومی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں اور غیر جانبدار حکومت کی دعوت دہوکہ دہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، کیونکہ لبنان میں غیرجانبداری کا کوئی وجود نہیں ہے۔ "سیدحسن نصراللہ" نے مزید کہا کہ اس خطرناک مرحلے میں لبنان کی تنہا راہ نجات " متحدہ قومی حکومت " ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ میری نظر میں کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اس ملک کی صدارت میں کوئی خلاء پیدا ہو۔ "سیدحسن نصراللہ" نے مزید کہا کہ حقیقی حاکمیت یہ ہے کہ صدر کو بغیر بیرونی دباؤ کے منتخب کریں اور ہم سیاسی خلاء کے اصولی طور پر مخالف ہیں اور ہماری تمام تر کوشش یہ رہے گی کہ صدر کا انتخاب اپنے معینہ وقت پر انجام پائے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے شام میں تکفیری سلسلوں کو نہ صرف اقلیتوں بلکہ تمام لوگوں کے لئے خطرہ قراردیا اور کہا کہ شام میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ، ملت شام ، لبنان ، علاقے اور مسئلہ فلسطین کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ " سید حسن نصراللہ " نے تاکید کی کہ شام میں حزب اللہ کی موجودگی کو تمام مشکلات سے ربط دینا غیر منطقی بات ہے اور دباؤ ، شام کے حوالے سے حزب اللہ کے موقف میں کسی قسم کی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ جنگ ، موجودیت کی جنگ ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے وضاحت کی ہمارا شہداء ہماری عزت و غیرت ہیں ، لہذا جس کسی نے بھی ان کی توہین کی گویا اس نے ہماری عزت و غیرت کی توہین کی ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل " سید حسن نصراللہ " نے کہا کہ شام میں ہماری موجودگی ، لبنان میں حکومت یا تشکیل حکومت کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ یہ موضوع اس سے کہی زیادہ گہرا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض عوامل غم غصہ ، کینہ و دشمنی اور شکست کی وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ ملک کو بارود کے ڈھیر کی طرف لے جائیں۔ اس درمیان خطرناک و نئے مسائل بھی موجود ہیں کہ ہم سب کو اس مرحلے میں نہایت ہی دقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔