
Super User
ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو فوری ختم کیا جائے
متحدہ عرب امارات کے نائب سربراہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو فوری ختم کیئے جانے پر تاکید کی ہے۔ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات کے نائب سربراہ شیخ "محمد بن راشد آل مکتوم" نے کہا ہے کہ عالمی برادری ، متحدہ عرب امارات کے روایتی و قدیمی اہم ترین شریک ، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عائد پابندیوں کو فوری ختم کرے۔ متحدہ عرب امارات کے نائب سربراہ نے "بی بی سی" کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران ، متحدہ عرب امارات کا ہمسایہ ہے اور ہمارے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے سے سب کو فائدہ ہوگا۔ اس وقت چار لاکھ سے زیادہ ایرانی متحدہ عرب امارات کے معاشرے کا حصہ ہیں اور ایرانیوں کی بڑی تعداد دبئی میں مقیم ہے اور متحدہ عرب امارات کے ایران کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات ہیں۔یادرہے کہ ایران و گروپ پانچ جمع ایک کے ماہرین کی سطح کے مذاکرات میں اختلافی موارد کے حل کے بعد ، 20 جنوری 2014 سے جنیوا سمجھوتے پر عمل درآمد کا آغاز ہوجائے گا۔
دعائے جوشن کبیر
تر جمہ : حضرت آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی دام ظلہ
اے معبود میں تجھ سے تیرے نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اے الله اے بخشنے والے اے مہربان اے کرم کرنے والے اے ٹھہرنے والے اے بڑائی والے اے سب سے پہلے اے علم والے اے بردبار اے حکمت والے ۔ تو پاک ہے اے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں فریاد سن فریاد سن ہمیں آگ سے نجات دے اے پروردگار |
|
﴿۱﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْئَلُکَ بِاسْمِکَ یَا اللهُ، یَا رَحْمنُ، یَا رَحِیمُ، یَا کَرِیمُ، یَا مُقِیمُ یَا عَظِیمُ یَا قَدِیمُ یَا عَلِیمُ یَا حَلِیمُ یَا حَکِیمُ سُبْحانَکَ یَا لاَ إِلہَ إِلاَّ أَنْتَ، الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النَّارِ یَا رَبِّ |
|
|
|
اے سرداروں کے سردار اے دعائیں قبول کرنے والے اے درجات بلند کرنے والے اے نیکیوں میں مدد دینے والے اے گناہوں کے بخشنے والے اے حاجات پوری کرنے والے اے توبہ قبول کرنے والے اے آوازوں کے سننے والے اے چھپی چیزوں کے جاننے والے اے بلائیں دور کرنے والے |
|
﴿۲﴾ یَا سَیِّدَ السَّاداتِ یَا مُجِیبَ الدَّعَواتِ، یَا رَافِعَ الدَّرَجَاتِ یَا وَ لِیَّ الْحَسَناتِ، یَا غَافِرَ الْخَطِیئاتِ، یَا مُعْطِیَ الْمَسْأَلاتِ، یَا قابِلَ التَّوْباتِ، یَا سَامِعَ الْاَصْواتِ، یَا عَالِمَ الْخَفِیِّاتِ،یَا دَافِعَ الْبَلِیِّاتِ |
|
|
|
اے بخشنے والوں میں بہتر اے فتح کرنے والوں میں بہتراے مدد کرنے والوں میں بہتر اے حاکموں میں بہتر اے رزق دینے والوں میں بہتر اے وارثوں میں بہتر اے تعریف کرنے والوں میں بہتر اے ذکر کرنے والوں میں بہتر اے میزبانوں میں بہتراے احسان کرنے والوں میں بہتر۔ |
|
﴿۳﴾ یَا خَیْرَ الْغافِرِینَ، یَا خَیْرَ الْفاتِحِینَ، یَا خَیْرَ النَّاصِرِینَ یَا خَیْرَ الْحَاکِمِینَ یَا خَیْرَ الرَّازِقِینَ یَا خَیْرَ الْوَارِثِینَ یَا خَیْرَ الْحَامِدِینَ، یَا خَیْرَ الذَّاکِرِینَ یَا خَیْرَ الْمُنْزِلِینَ، یَا خَیْرَ الْمُحْسِنِینَ، |
|
|
|
اے وہ جس کیلئے عزت اور جمال ہے اے وہ جس کے لیے قدرت اور کمال ہے اے وہ جسکے لیے ملک اور جلال ہے اے وہ جو بڑائی والا بلند تر ہے اے بھرے بادلوں کے پیدا کرنے والے اے وہ جو بہت زیادہ قوت والا ہے اے وہ جو تیز تر حساب کرنے والا ہے اے وہ جوسخت عذاب دینے والا ہے اے وہ جسکے ہاں بہترین ثواب ہے اے وہ جسکے پاس لوح محفوظ ہے۔ |
|
﴿۴﴾ یَا مَنْ لَہُ الْعِزَّةُ وَالْجَمالُ، یَا مَنْ لَہُ الْقُدْرَةُ وَالْکَمالُ، یَا مَنْ لَہُ الْمُلْکُ وَالْجَلالُ، یَا مَنْ ھُوَ الْکَبِیرُ الْمُتَعالِ، یَا مُنْشِیَ السَّحابِ الثِّقالِ، یَا مَنْ ھُوَ شَدِیدُ الْمِحالِ،یَامَنْ ھُوَ سَرِیعُ الْحِسابِ، یَا مَنْ ھُوَ شَدِیدُ الْعِقابِ، یَا مَنْ عِنْدَھُ حُسْنُ الثَّوابِ، یَا مَنْ عِنْدَھُ أُمُّ الْکِتابِ |
|
|
|
اے معبود! تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے محبت والے اے احسان کرنیوالے اے بدلہ دینے والے اے دلیل روشن اے صاحب سلطنت اے راضی ہونے والے اے بخشنے والے اے پاکیزگی والے اے مدد کرنے والے اے صاحب احسان وبیان۔ |
|
﴿۵﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ یَا حَنَّانُ، یَا مَنَّانُ، یَا دَیَّانُ، یَا بُرْہانُ، یَا سُلْطانُ،یَا رِضْوانُ،یَا غُفْرانُ، یَا سُبْحانُ،یَا مُسْتَعانُ،یَا ذَا الْمَنِّ وَالْبَیانِ |
|
|
|
اے وہ جس کی عظمت کے آگے سب چیزیں جھکی ہوئی ہیں اے وہ جسکی قدرت کے سامنے ہر شے سرنگوں ہے اے وہ جسکی بڑائی کے سامنے ہر چیز پست ہے اے وہ جسکے خوف سے ہر چیز دبی ہوئی ہے اے وہ جسکے ڈر سے ہر چیز فرمانبردار بنی ہوئی اے وہ جسکے خوف سے پہاڑ پھٹ جاتے ہیں اے وہ جسکے حکم سے آسمان کھڑے ہیں اے وہ جسکے اذن سے زمینیں ٹھہری ہوئی ہیں اے وہ کہ کڑکتی بجلی جسکی تسبیح خواں ہے اے وہ جو اپنے زیر حکومت لوگوں پر ظلم نہیں کرتا |
|
﴿۶﴾ یَا مَنْ تَواضَعَ کُلُّ شَیْءٍ لِعَظَمَتِہِ، یَا مَنِ اسْتَسْلَمَ کُلُّ شَیْءٍ لِقُدْرَتِہِ، یَا مَنْ ذَلَّ کُلُّ شَیْءٍ لِعِزَّتِہِ، یَا مَنْ خَضَعَ کُلُّ شَیْءٍ لِھَیْبَتِہِ، یَا مَنِ انْقادَ کُلُّ شَیْءٍ مِنْ خَشْیَتِہِ، یَا مَنْ تَشَقَّقَتِ الْجِبالُ مِنْ مَخافَتِہِ، یَا مَنْ قامَتِ السَّمَاوَاتُ بِأَمْرِھِ یَا مَنِ اسْتَقَرَّتِ الْاَرَضُونَ بِإِذْنِہِ، یَا مَنْ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِھِ، یَامَنْ لاَ یَعْتَدِی عَلی أَھْلِ مَمْلَکَتِہِ |
|
|
|
اے گناہوں کے بخشنے والے اے بلائیں دور کرنے والے اے امیدوں کے آخری مقام اے بہت عطاؤں والے اے تحفے عطا کرنے والے اے مخلوق کو رزق دینے والے اے تمنائیں پوری کرنے والے اے شکایتیں سننے والے اے مخلوق کو زندہ کرنے والے اے قیدیوں کو آزاد کرنے والے |
|
﴿۷﴾ یَا غافِرَ الْخَطایا یَا کاشِفَ الْبَلایا یَا مُنْتَھَی الرَّجایَا یَا مُجْزِلَ الْعَطایَا،یَا واھِبَ الْھَدایَا، یَا رازِقَ الْبَرایا، یَا قَاضِیَ الْمَنایا، یَا سَامِعَ الشَّکَایا،یَا بَاعِثَ الْبَرایا یَا مُطْلِقَ الَاُساری |
|
|
|
اے تعریف و ثناء کرنے والے اے فخر و خوبی والے اے بزرگی و بلندی والے اے عہد اور وفا والے اے معافی دینے والے اور راضی ہونے والے اے عطا و بخشش کرنے والے اے فیصلے اور انصاف والے اے عزت اور بقاء والے اے عطاء و سخاوت والے اے رحمتوں اور نعمتوں والے |
|
﴿۸﴾ یَا ذَا الْحَمْدِ وَالثَّناءِ، یَا ذَا الْفَخْرِ وَالْبَہاءِ، یَا ذَا الْمَجْدِ وَالسَّناءِ، یَا ذَا الْعَھْدِ وَالْوَفاءِ، یَا ذَا الْعَفْوِ وَالرِّضاءِ، یَا ذَا الْمَنِّ وَالْعَطَاءِ، یَا ذَا الْفَصْلِ وَالْقَضاءِ، یَا ذَا الْعِزِّ وَالْبَقاءِ، یَا ذَا الْجُودِ وَالسَّخاءِ، یَا ذَا الاَْلاَءِ وَالنَّعْمَاءِ |
|
|
|
اے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے روکنے والے اے ہٹانے والے اے بلندکرنے والے اے بنانے والے اے نفع والے اے سننے والے اے جمع کرنے والے اے شفاعت کرنے والے اے کشادگی والے اے وسعت دینے والے |
|
﴿۹﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا مانِعُ، یَا دافِعُ، یَا رافِعُ، یَا صانِعُ، یَا نافِعُ، یَا سامِعُ، یَا جامِعُ، یَا شافِعُ، یَا واسِعُ، یَا مُوسِعُ |
|
|
|
اے ہر مصنوع کے صانع اے ہر مخلوق کے خالق اے ہررزق پانے والے کے رازق اے ہر مملوک کے مالک اے ہر دکھی کا دکھ دور کرنے والے اے ہر پ اے ہر بے سہار کے مددگار اے ہربرائی پر پردہ ڈالنے والے اے ہر راندے گئے کی پناہ گاہ ۔اے سختی کے وقت میرے سرمایہریشان کی پریشانی مٹانے والے اے ہر رحم کیے گئے پر رحم کرنے والے اے مصیبت میں میری امید گاہ |
|
﴿۱۰﴾ یَا صانِعَ کُلِّ مَصْنُوعٍ، یَا خالِقَ کُلِّ مَخْلُوقٍ یَا رازِقَ کُلِّ مَرْزُوقٍ یَا مالِکَ کُلِّ مَمْلُوکٍ یَا کَاشِفَ کُلِّ مَکْرُوبٍ یَا فَارِجَ کُلِّ مَھْمُومٍ، یَا رَاحِمَ کُلِّ مَرْحُومٍ، یَا نَاصِرَ کُلِّ مَخْذُولٍ،یَا سَاتِرَ کُلِّ مَعْیُوبٍ، یَا مَلْجَأَ کُلِّ مَطْرُودٍ |
اے وحشت کے وقت میرے ہمدم اے میری تنہائی میں میرے ساتھی اے نعمت میں میری کفالت کرنے والے اے دکھ درد میں میرے مددگار اے حیرت کے وقت میرے رہنما اے محتاجی کے وقت میرے سرمایہ اے برقراری کے وقت میری پناہ گاہ اے فریاد کے وقت میرے مددگار ۔ |
|
﴿۱۱﴾ یَا عُدَّتِی عِنْدَ شِدَّتِی، یَا رَجَائِی عِنْدَ مُصِیبَتِی، یَا مُؤْ نِسِی عِنْدَ وَحْشَتِی، یَا صَاحِبِی عِنْدَ غُرْبَتِی، یَا وَ لِیِّی عِنْدَ نِعْمَتِی، یَا غِیاثِی عِنْد کُرْبَتِی، یَا دَلِیلِی عِنْدَ حَیْرَتِی، یَا غَنائِی عِنْدَ افْتِقارِی، یَا مَلْجَیِی عِنْدَ اضْطِرارِی، یَا مُعِینِی عِنْدَ مَفْزَعِی |
|
|
|
اے ہر غیب کے جاننے والے اے گناہوں کے بخشنے والے اے عیبوں کے چھپانے والے اے مصیبتیں دور کرنے والے اے دلوں کو پلٹنے والے اے دلوں کے معالج اے دلوں کے روشن کرنے والے اے دلوں کے ہمدم اے غموں کی گرہ کھولنے والے اے غموں کو دور کرنے والے۔ |
|
﴿۱۲﴾ یَا عَلاَّمَ الْغُیُوبِ یَا غَفَّارَ الذُّنُوبِ یَا سَتَّارَ الْعُیُوبِ یَا کَاشِفَ الْکُرُوبِ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ یَا طَبِیبَ الْقُلُوبِ یَا مُنَوِّرَ الْقُلُوبِ یَا أَنِیسَ الْقُلُوبِ، یَا مُفَرِّجَ الْھُمُومِ، یَا مُنَفِّسَ الْغُمُومِ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے اے جلال والے اے جمال والے اے کارساز اے سرپرست اے رہنما اے قبول کرنے والے اے رواں کرنے والے |
|
﴿۱۳﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا جَلِیلُ، یَا جَمِیلُ، یَا وَکِیلُ، یَا کَفِیلُ، یَا دَلِیلُ، یَا قَبِیلُ، یَا مُدِیلُ، یَا مُنِیلُ، یَا مُقِیلُ، یَا مُحِیلُ |
|
|
|
اے بخشنے والے اے معاف کرنے والے اے جگہ دینے والے اے سرگردانوں کے رہنما اے پکارنے والوں کی مدد کرنے والے اے فریادیوں کی فریاد کو پہنچنے والے اے پناہ طلب کرنے والوں کی پناہ اے ڈرنے والوں کی ڈھارس اے مومنوں کے مددگار اے بے چاروں پر رحم کرنے والے اے گنہگاروں کی پناہ اے خطاکاروں کے بخشنے والے اے بے قراروں کی دعا قبول کرنے والے |
|
﴿۱۴﴾ یَا دَلِیلَ الْمُتَحَیِّرِینَ، یَا غِیاثَ الْمُسْتَغِیثِینَ، یَا صَرِیخَ الْمُسْتَصْرِخِینَ، یَا جارَ الْمُسْتَجِیرِینَ، یَا أَمانَ الْخَائِفِینَ، یَا عَوْنَ الْمُؤْمِنِینَ، یَا رَاحِمَ الْمَساکِینَ، یَا مَلْجَأَ الْعَاصِینَ، یَا غافِرَ الْمُذْنِبِینَ یَا مُجِیبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّینَ |
|
|
|
اے صاحب جود و احسان اے صاحب فضل و منت اے صاحب امن و امان اے طہارت و پاکیزگی والے اے حکمت و بیان والے اے رحمت و رضا والے اے حجت اور روشن دلیل والے اے عظمت و سلطنت والے اے مہربانی کرنے اور مدد دینے والے اے معافی دینے اور بخشنے والے۔ |
|
﴿۱۵﴾ یَا ذَا الْجُودِ وَالْاِحْسانِ یَا ذَا الْفَضْلِ وَالْاِمْتِنانِ یَا ذَا الْاَمْنِ وَالْاَمانِ یَا ذَا الْقُدْسِ وَالسُّبْحانِ یَا ذَا الْحِکْمَةِ وَالْبَیانِ یَا ذَا الرَّحْمَةِ وَالرِّضْوانِ یَا ذَا الْحُجَّةِ وَالْبُرْہانِ یَا ذَا الْعَظَمَةِ وَالسُّلْطَانِ یَا ذَا الرَّأْفَةِ وَالْمُسْتَعانِ یَا ذَا الْعَفْوِ وَالْغُفْرانِ |
|
|
|
اے وہ جو ہر چیز کا پروردگار ہے اے وہ جو ہرشے کامعبود ہے اے وہ جو ہر چیز کا خالق ہے اے وہ جو ہرچیز کابنانے والا ہے اے وہ جو ہر شے سے پہلے تھا اے وہ جو ہر شے کے بعد رہے گا اے وہ جو ہر شے سے بلند ہے اے وہ جو ہر چیز کاجاننے والا ہے اے وہ جو ہر چیز پر قادر ہے اے وہ جو باقی رہے گا جب ہر چیز فنا ہو جائے گی۔ |
|
﴿۱۶﴾یَا مَنْ ھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ یَا مَنْ ھُوَ إِلہُ کُلِّ شَیْءٍ یَا مَنْ ھُوَ خالِقُ کُلِّ شَیْءٍ یَا مَنْ ھُوَ صَانِعُ کُلِّ شَیْءٍ، یَا مَنْ ھُوَ قَبْلَ کُلِّ شَیْءٍ ، یَا مَنْ ھُوَ بَعْدَ کُلِّ شَیْءٍ، یَا مَنْ ھُوَ فَوْقَ کُلِّ شَیْءٍ، یَا مَنْ ھُوَ عَالِمٌ بِکُلِّ شَیْءٍ یَا مَنْ ھُوَ قادِرٌ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ یَا مَنْ ھُوَ یَبْقی وَیَفْنی کُلُّ شَیْءٍ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے امن دینے والے اے نگہبان اے کائنات بنانے والے اے تلقین کرنے والے اے ظاہر کرنے والے اے آسان کرنے والے اے قدرت دینے والے اے زینت دینے والے اے اعلان کرنے والے اے باٹنے والے ۔ |
|
﴿۱۷﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا مُوْمِنُ، یَا مُھَیْمِنُ، یَا مُکَوِّنُ، یَا مُلَقِّنُ، یَا مُبَیِّنُ، یَا مُھَوِّنُ، یَا مُمَکِّنُ، یَا مُزَیِّنُ،یَا یَا مُعْلِنُ، یَا مُقَسِّمُ |
|
|
|
اے وہ جو اپنے اقتدار پر میں پائیدار ہے اے وہ جو اپنی سلطنت میں قدیم ہے اے وہ جو اپنی شان میں بلند تر ہے اے وہ جو اپنے بندوں پر مہربان ہے اے وہ جوہر چیز کا جاننے والا ہے اے وہ جو نافرمان سے نرمی کرنے والا ہے اے وہ جو امیدوارپر کرم کرنے والا ہے اے وہ جو اپنی صنعت میں حکمت والا ہے اے وہ جو اپنی حکمت میں باریک بین ہے اے وہ جس کا احسان قدیم ہے۔ |
|
﴿۱۸﴾ یَا مَنْ ھُوَ فِی مُلْکِہِ مُقِیمٌ،یَا مَنْ ھُوَ فِی سُلْطانِہِ قَدِیمٌ یَا مَنْ ھُو فِی جَلالِہِ عَظِیمٌ یَا مَنْ ھُوَ عَلَی عِبادِھِ رَحِیمٌ یَا مَنْ ھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ یَا مَنْ ھُوَ بِمَنْ عَصاھُ حَلِیمٌ یَا مَنْ ھُوَ بِمَنْ رَجاھُ کَرِیمٌ یَا مَنْ ھُوَ فِی صُنْعِہِ حَکِیمٌ، یَا مَنْ ھُوَ فِی حِکْمَتِہِ لَطِیفٌ، یَا مَنْ ھُوَ فِی لُطْفِہِ قَدِیمٌ |
|
|
|
اے وہ جس سے اس کے فضل کی امید کی جاتی ہے اے وہ جس کی بخشش کاسوال کیا جاتا ہے اے وہ جس سے بھلائی کی آس ہے اے وہ جسکے عدل سے خوف آتا ہے اے وہ جسکی حکومت ہمیشہ رہے گی اے وہ جسکی سلطنت کے سوا کوئی سلطنت نہیں اے وہ جسکی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اے وہ جسکی رحمت اسکے غضب سے آگے ہے اے وہ جسکا علم ہر چیز پر حاوی ہے اے وہ کہ جس جیسا کوئی نہیں ہے۔ |
|
﴿۱۹﴾ یَا مَنْ لاَ یُرْجی إِلاَّ فَضْلُہُ، یَا مَنْ لاَ یُسْأَلُ إِلاَّ عَفْوُھُ، یَا مَنْ لاَ یُنْظَرُ إِلاَّ بِرُّھُ،یَا مَنْ لاَ یُخافُ إِلاَّ عَدْلُہُ، یَا مَنْ لاَ یَدُومُ إِلاَّ مُلْکُہُ، یَا مَنْ لاَ سُلْطانَ إِلاَّ سُلْطانُہُ، یَا مَنْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ رَحْمَتُہُ،یَا مَنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہُ غَضَبَہُ یَا مَنْ أَحاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمُہُ، یَا مَنْ لَیْسَ أَحَدٌ مِثْلُہُ |
|
|
|
اے اندیشے ہٹا دینے والے اے غم دور کرنے والے اے گناہ معاف کرنے والے اے توبہ قبول کرنے والے اے مخلوقات کے خالق اے وعدے میں سچے اے عہد پورا کرنے والے اے راز کے جاننے والے اے دانے کو چیرنے والے اے لوگوں کے رازق۔ |
|
﴿۲۰﴾ یَا فارِجَ الْھَمِّ، یَا کَاشِفَ الْغَمِّ، یَا غَافِرَ الذَّنْبِ، یَا قَابِلَ التَّوْبِ، یَا خَالِقَ الْخَلْقِ، یَا صَادِقَ الْوَعْدِ یَا مُوفِیَ الْعَھْدِ، یَا عَالِمَ السِّرِّ، یَا فَالِقَ الْحَبِّ، یَا رَازِقَ الْاَنامِ ۔ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے تیرے نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اے بلند اے وفادار اے بے نیاز اے مہربان اے احسان کرے والے اے پسندیدہ اے پاکیزہ اے ابتدا کرنے والے اے قوت والے اے حاکم۔ |
|
﴿۲۱﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا عَلِیُّ یَا وَفِیُّ، یَا غَنِیُّ، یَا مَلِیُّ، یَا حَفِیُّ، یَا رَضِیُّ، یَا زَکِیُّ، یَا بَدِیُّ، یَا قَوِیُّ یَا وَ لِیُّ |
|
|
|
اے وہ جس نے نیکی کو ظاہر کیا اے وہ جس نے بدی کو ڈھانپا اے وہ جس نے جرم پر گرفت نہیں فرمائی اے وہ جس نے پردہ فاش نہیں کیا اے بہت معاف کرنے والے اے بہترین درگزر کرنے والے اے وسیع مغفرت والے اے دونوں ہاتھوں سے رحمت کرنے والے اے ہر سرگوشی کے مالک اے شکایت سننے والے۔ |
|
﴿۲۲﴾ یَا مَنْ أَظْھَرَ الْجَمِیلَ یَا مَنْ سَتَرَ الْقَبِیحَ یَا مَنْ لَمْ یُوَاخِذْ بِالْجَرِیرَةِ یَا مَنْ لَمْ یَھْتِکِ السِّتْرَ، یَا عَظِیمَ الْعَفْوِ، یَا حَسَنَ التَّجاوُزِ، یَا وَاسِعَ الْمَغْفِرَةِ، یَا بَاسِطَ الْیَدَیْنِ بِالرَّحْمَةِ یَا صَاحِبَ کُلِّ نَجْوی یَا مُنْتَہی کُلِّ شَکْوی |
|
|
|
اے کامل نعمت کے مالک اے وسیع رحمت والے اے احسان میں پہل کرنے والے اے بھرپور حکمت والے اے کامل قدرت والے اے قاطع دلیل والے اے کھلی سخاوت والے اے ہمیشہ کی عزت والے اے مضبوط قوت والے اے سب سے زیادہ عظمت والے۔ |
|
﴿۲۳﴾ یَا ذَا النِّعْمَةِ السَّابِغَةِ یَا ذَا الرَّحْمَةِ الْواسِعَةِ، یَا ذَا الْمِنَّةِ السَّابِقَةِ، یَا ذَا الْحِکْمَةِ الْبَالِغَةِ، یَا ذَا الْقُدْرَةِ الْکَامِلَةِ،یَا ذَا الْحُجَّةِ الْقَاطِعَةِ یَا ذَا الْکَرامَةِ الظَّاھِرَةِ یَا ذَا الْعِزَّةِ الدَّائِمَةِ، یَا ذَا الْقُوَّةِ الْمَتِینَةِ، یَا ذَا الْعَظَمَةِ الْمَنِیعَةِ |
|
|
|
اے آسمانوں کے بنانے والے اے تاریکیوں کو وجود میں لانے والے اے آنسوؤں پر رحم کرنے والے اے لغزشوں کےمعاف کرنے والے اے عیبوں کے چھپانے والے اے مردوں کو زندہ کرنے والے اے آیات کے نازل کرنے والے اے نیکیوں کو دوچند کرنے والے اے گناہوں کے مٹانے والے اے سخت بدلہ لینے والے۔ |
|
﴿۲۴﴾ یَا بَدِیعَ السَّمَاواتِ یَا جَاعِلَ الظُّلُماتِ یَا رَاحِمَ الْعَبَراتِ یَا مُقِیلَ الْعَثَراتِ، یَا سَاتِرَ الْعَوْراتِ، یَا مُحْیِیَ الْاَمْواتِ، یَا مُنْزِلَ الاَْیاتِ، یَا مُضَعِّفَ الْحَسَنَاتِ،یَا مَاحِیَ السَّیِّئاتِ، یَا شَدِیدَ النَّقِماتِ |
|
|
|
اے معبود! میں تجھ سے تیرے ہی نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اے صورت ساز اے تقدیر بنانے والے اے تدبیر کرنے والے اے پاک کرنے والے اے روشن کرنے والے اے آسان کرنے والے اے بشارت دینے والے اے سب سے پہلے اے سب سے آخری |
|
﴿۲۵﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ یَا مُصَوِّرُ،یَا مُقَدِّرُ یَا مُدَبِّرُ یَا مُطَہِّرُ یَا مُنَوِّرُ یَا مُیَسِّرُ، یَا مُبَشِّرُ، یَا مُنْذِرُ، یَا مُقَدِّمُ، یَا مُوََخِّرُ |
|
|
|
اے مقدس گھر کے رب اے مقدس مہینے کے رب اے مقدس شہر کے رب اے رکن و مقام کے رب اے معشر الحرام کے رب اے مسجد الحرام کے رب اے حلال و حرام کے رب اے روشنی و تاریکی کے رب اے درود و سلام کے رب اے لوگوں میں زیادہ توانائی پیدا کرنے والے۔ |
|
﴿۲۶﴾ یَا رَبَّ الْبَیْتِ الْحَرامِ یَا رَبَّ الشَّھْرِ الْحَرامِ یَا رَبَّ الْبَلَدِ الْحَرامِ، یَا رَبَّ الرُّکْنِ وَالْمَقامِ یَا رَبَّ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ یَا رَبَّ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ یَا رَبَّ الْحِلِّ وَالْحَرامِ یَا رَبَّ النُّورِ وَالظَّلامِ یَا رَبَّ التَّحِیَّةِ وَالسَّلامِ یَا رَبَّ الْقُدْرَةِ فِی الْاَنامِ۔ |
|
|
|
اے حاکموں میں بڑے حاکم اے عادلوں میںزیادہ عادل اے سچوں میں زیادہ سچے اے پاکوں میں پاک تر اے خالقوں میں بہترین خالق اے حساب کرنے والوں میں زیادہ تیز اے سننے والوں میں زیادہ سننے والے اے دیکھنے والوں میں زیادہ دیکھنے والے اے شفاعت کرنے والوں میں بڑے شفیع اے بزرگی والوں میں بڑے بزرگ۔ |
|
﴿۲۷﴾ یَا أَحْکَمَ الْحاکِمِینَ، یَا أَعْدَلَ الْعادِلِینَ یَا أَصْدَقَ الصَّادِقِینَ یَا أَطْھَرَ الطَّاھِرِینَ یَا أَحْسَنَ الْخالِقِینَ یَا أَسْرَعَ الْحاسِبِینَ یَا أَسْمَعَ السَّامِعِینَ، یَا أَبْصَرَ النَّاظِرِینَ، یَا أَشْفَعَ الشَّافِعِینَ، یَا أَکْرَمَ الْاَکْرَمِینَ ۔ |
|
|
|
اے اسکا آسراجسکا کوئی آسرا نہیں اے اسکے سہارے جسکا کوئی سہارا نہیں اے اسکے سرمایہ جسکا کوئی سرمایہ نہیں اے اسکی پناہ جسکی کوئی پناہ نہیں اے اسکے فریاد رس جسکا کوئی فریاد رس نہیں اے اسکی بڑائی جسکا کوئی فخرنہیں اے اسکی عزت جس کیلئے عزت نہیں اے اسکے مددگار جسکا کوئی مددگار نہیں اے اسکے ساتھی جسکا کوئی ساتھی نہیں اے اسکی پناہ جسکی کوئی پناہ نہیں ۔ اے معبود میں تجھ سے تیرے نام کیواسطے سے سوال کرتا ہوں اے |
|
﴿۲۸﴾ یَا عِمادَ مَنْ لاَ عِمادَ لَہُ، یَا سَنَدَ مَنْ لاَ سَنَدَ لَہُ، یَا ذُخْرَ مَنْ لاَ ذُخْرَ لَہُ، یَا حِرْزَ مَنْ لاَ حِرْزَ لَہُ، یَا غِیاثَ مَنْ لاَ غِیاثَ لَہُ، یَا فَخْرَ مَنْ لاَ فَخْرَ لَہُ، یَا عِزَّ مَنْ لاَ عِزَّ لَہُ، یَا مُعِینَ مَنْ لاَ مُعِینَ لَہُ یَا أَنِیسَ مَنْ لاَ أَنِیسَ لَہُ یَا أَمانَ مَنْ لاَ أَمانَ لَہُ |
|
|
|
پناہ دینے والے اے پائیدار اے ہمیشگی والے اے رحم کرنے والے اے بے عیب اے حکومت کے مالک اے علم والے اے تقسیم کرنے والے |
|
﴿۲۹﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ یَا عَاصِمُ، یَا قائِمُ، یَا دائِمُ، یَا راحِمُ، یَا سالِمُ، یَا حاکِمُ، یَا عالِمُ، یَا قاسِمُ، یَا قابِضُ، یَا باسِطُ ۔ |
|
|
|
اے بند کرنے والے اے کھولنے والے۔ اے اسکے نگہدار جو نگہداری چاہے اے اس پر رحم کرنے والے جو رحم کا طالب ہو اے اسکے بخشنے والے جو طالب ِبخشش ہو اے اسکی نصرت کرنے والے جو نصرت چاہے اے اسکی حفاظت کرنے والے جو حفاظت چاہے اے اسکو بڑائی دینے والے جو بڑائی طلب کرے اے اسکی رہنمائی کرنے والے جو رہنمائی چاہے اے اسکے داد رس جو دادرسی چاہے اے اسکے مددگار جو مددطلب کرے اے اسکے فریاد رس جو فریادکرے۔ |
|
﴿۳۰﴾ یَاعاصِمَ مَنِ اسْتَعْصَمَہُ، یَا راحِمَ مَنِ اسْتَرْحَمَہُ، یَا غافِرَ مَنِ اسْتَغْفَرَھُ، یَا ناصِرَ مَنِ اسْتَنْصَرَھُ، یَاحافِظَ مَنِ اسْتَحْفَظَہُ، یَا مُکْرِمَ مَنِ اسْتَکْرَمَہُ، یَا مُرْشِدَ مَنِ اسْتَرْشَدَھُ یَا صَرِیخَ مَنِ اسْتَصْرَخَہُ یَا مُعِینَ مَنِ اسْتَعانَہُ یَا مُغِیثَ مَنِ اسْتَغاثَہُ |
|
|
|
اے وہ غالب جو ظلم نہیں کرتا اے وہ باریک جو نظر انداز نہیں ہوتا اے وہ نگہبان جو سوتا نہیں اے وہ جاوداں جو مرتا نہیں اے وہ زندہ جسے موت نہیں اے وہ بادشاہ جسے زوال نہیں اے وہ باقی جو فانی نہیں اے وہ عالم جس میں جہل نہیں اے وہ بے نیاز جو کھاتا نہیں اے وہ قوی جسے ضعف نہیں۔ |
|
﴿۳۱﴾یَا عَزِیزاً لاَ یُضامُ، یَا لَطِیفاً لاَ یُرامُ، یَا قَیُّوماً لاَ یَنامُ، یَا دائِماً لاَ یَفُوتُ، یَا حَیّاً لاَ یَمُوتُ، یَا مَلِکاً لاَ یَزُولُ یَا باقِیاً لاَ یَفْنی یَا عالِماً لاَ یَجْھَلُ یَا صَمَداً لاَ یُطْعَمُ یَا قَوِیّاً لاَ یَضْعُفُ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے یکتا اے یگانہ اے حاضر اے بزرگوار اے تعریف والے اے رہنما اے اٹھانے والے اے وارث اے خسارہ دینے والے اے نفع دینے والے۔ |
|
﴿۳۲﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا أَحَدُ، یَا واحِدُ،یَا شاھِدُ، یَا ماجِدُ، یَا حامِدُ، یَا راشِدُ، یَا باعِثُ یَا وارِثُ یَا ضارُّ یَا نافِعُ |
|
|
|
اے سب بڑوں سے بڑے اے سب بزرگوں سے بزرگ تر اے سب مہربانوں سے مہربان اے ہر عالم سے بڑے عالم اے ہر حکیم سے بڑے حکیم اے ہر قدیم سے قدیم تر اے ہر بزرگ سے بزرگ تر اے ہر لطیف سے زیادہ لطیف اے ہر جلال والے سے زیادہ جلال والے اے ہرزبردست سے زیادہ زبردست۔ |
|
﴿۳۳﴾ یَا أَعْظَمَ مِنْ کُلِّ عَظِیمٍ یَا أَکْرَمَ مِنْ کُلِّ کَرِیمٍ یَا أَرْحَمَ مِنْ کُلِّ رَحِیمٍ یَا أَعْلَمَ مِنْ کُلِّ عَلِیمٍ یَا أَحْکَمَ مِنْ کُلِّ حَکِیمٍ یَا أَقْدَمَ مِنْ کُلِّ قَدِیمٍ یَا أَکْبَرَ مِنْ کُلِّ کَبِیرٍ یَا أَلْطَفَ مِنْ کُلِّ لَطِیفٍ یَا أَجَلَّ مِن کُلِّ جَلِیلٍ یَا أَعَزَّ مِنْ کُلِّ عَزِیزٍ |
|
||
اے بہتر درگزر کرنے والے اے بڑے احسان والے اے زیادہ خیروالے اے قدیم فضل والے اے ہمیشہ کے لطف والے اے خوبصورت صنعت والے اے سختی دور کرنے والے اے دکھ دور کرنے والے |
|
﴿۳۴﴾ یَا کَرِیمَ الصَّفْحِ یَا عَظِیمَ الْمَنِّ یَا کَثِیرَ الْخَیْرِ، یَا قَدِیمَ الْفَضْلِ،یَا دائِمَ اللُّطْفِ،یَا لَطِیفَ الصُّنْعِ یَا مُنَفِّسَ الْکَرْبِ یَاکاشِفَ الضُّرِّ،یَا مالِکَ الْمُلْکِ،یَا قاضِیَ الْحَقِّ |
|
|
|
اے ہر ملک کے مالک اے حق کا فیصلہ دینے والے۔اے وہ جو اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہے اے وہ جو اپنی وفا میں قوی ہے اے وہ جو اپنی قوت میں بلند ہے اے وہ جو اپنی بلندی میں قریب ہے اے وہ جو اپنے قرب میں مہربان ہے اے وہ جو اپنے لطف میں کریم ہے اے وہ جو اپنی کرم میں عزت دار ہے اے وہ جو اپنی عزت میں عظیم ہے اے وہ جو اپنی عظمت میں بلند مرتبہ ہے اے وہ جو اپنے مرتبے میں تعریف والا ہے |
|
﴿۳۵﴾یَا مَنْ ھُوَ فِی عَھْدِھِ وَفِیٌّ، یَا مَنْ ھُوَ فِی وَفائِہِ قَوِیٌّ، یَا مَنْ ھُوَ فِی قُوَّتِہِ عَلِیٌّ ، یَا مَنْ ھُوَ فِی عُلُوِّھِ قَرِیبٌ یَا مَنْ ھُوَ فِی قُرْبِہِ لَطِیفٌ یَا مَنْ ھُوَ فِی لُطْفِہِ شَرِیفٌ یَا مَنْ ھُوَ فِی شَرَفِہِ عَزِیزٌ یَا مَنْ ھُوَ فِی عِزِّھِ عَظِیمٌ یَا مَنْ ھُوَ فِی عَظَمَتِہِ مَجِیدٌ یَا مَنْ ھُوَ فِی مَجْدِھِ حَمِیدٌ |
|
|
|
اے معبود! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے کفایت کرنے والے اے شفادینے والے اے وفاداراے عافیت دینے والے ایہدایت دینے والے اے بلانے والے اے فیصلے کرنے والے اے خوشنودی والے اے بلندی والے اے باقی رہنے والے۔ |
|
﴿۳۶﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا کافِی، یَا شافِی، یَا وافِی، یَا مُعافِی، یَاہادِی،یَا داعِی، یَا قاضِی، یَا راضِی، یَا عالِی، یَا باقِی |
|
|
|
اے وہ جسکے آگے ہر چیز جھکی ہوئی ہے اے وہ جسکے آگے ہر چیز خوف زدہ ہے اے وہ جس سے ہر چیز کو وجود ملا ہے اے وہ جسکے ذریعے ہر چیز موجود ہوئی ہے اے وہ جسکی طرف ہر چیز کی بازگشت ہے اے وہ جس سے ہرچیز ڈرتی ہے اے وہ جسکے ذریعے ہر چیز باقی ہے اے وہ جسکی طرف ہر چیز لوٹتی ہے اے وہ کہ ہر چیز جسکی حمد میں مصروف ہے اے وہ کہ جسکے جلوے کے سوا ہر چیز ناپید ہو جائے گی۔ |
|
﴿۳۷﴾ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ خاضِعٌ لَہُ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ خاشِعٌ لَہُ، یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ کائِنٌ لَہُ، یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ مَوْجُودٌ بِہِ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ مُنِیبٌ إِلَیْہِ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ خائِفٌ مِنْہُ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ قائِمٌ بِہِ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ صائِرٌ إِلَیْہِ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ یُسَبِّحُ بِحَمْدِھِ یَا مَنْ کُلُّ شَیْءٍ ہالِکٌ إِلاَّ وَجْھَہُ |
|
|
|
اے وہ جسکے سوا کوئی جائے فرار نہیں ہے اے وہ جسکے سوا کوئی جائے پناہ نہیں اے وہ جسکے سوا کوئی منزلِ مقصود نہیں اے وہ جسکے علاوہ کوئی جائے نجات نہیں اے وہ جسکے بغیر کسی شئی میں رغبت نہیں ہو سکتی اے وہ کہ نہیں ہے طاقت و قوت مگر اسی سے اے وہ جسکے سوا کہیں سے مدد نہیں مل سکتی اے وہ جسکے سواکسی پر بھروسہ نہیں ہو سکتا اے وہ جسکے سوا کسی سے امید نہیں ہوسکتی اے وہ جسکے سوا کسی کی عبادت نہیں ہو سکتی۔ |
|
﴿۳۸﴾ یَا مَنْ لاَ مَفَرَّ إِلاَّ إِلَیْہِ یَا مَنْ لاَ مَفْزَعَ إِلاَّ إِلَیْہِ یَا مَنْ لاَ مَقْصَدَ إِلاَّ إِلَیْہِ یَا مَنْ لاَ مَنْجَیً مِنْہُ إِلاَّ إِلَیْہِ،یَا مَنْ لاَ یُرْغَبُ إِلاَّ إِلَیْہِ، یَا مَنْ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِہِ،یَا مَنْ لاَ یُسْتَعان إِلاَّ بِہِ،یَا مَنْ لاَ یُتَوَکَّلُ إِلاَّ عَلَیْہِ یَا مَنْ لاَ یُرْجی إِلاَّ ھُوَ یَا مَنْ لاَ یُعْبَدُ إِلاَّ ھُوَ |
|
|
|
اے بہترین ذات جس سے ڈرا جائے اے بہترین لبھانے والے اے بہترین طلب کیے جانے والے اے بہترین سوال کیے جانے والے اے بہترین قصد کیے جانے والے اے بہترین ذکر کیے جانے والے اے بہترین شکرکیے جانے والے اے بہترین محبت کیے جانے والے اے بہترین پکارے جانے والے اے بہترین مانوس کیے جانے والے۔ |
|
﴿۳۹﴾ یَا خَیْرَ الْمَرْھُوبِینَ یَا خَیْرَ الْمَرْغُوبِینَ، یَا خَیْرَ الْمَطْلُوبِینَ، یَا خَیْرَ الْمَسْؤُولِینَ،یَا خَیْرَ الْمَقْصُودِینَ یَا خَیْرَ الْمَذْکُورِینَ یَا خَیْرَ الْمَشْکُورِینَ یَا خَیْرَ الْمَحْبُوبِین یَا خَیْرَالْمَدْعُوِّینَ یَا خَیْرَالْمُسْتَأْنِسِینَ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام سے اے معاف کرنے والے اے چھپانے والے اے قدرت والے اے غلبے والے اے پیدا کرنیوالے اے توڑنے والے اے جوڑنے والے اے ذکر کرنیوالے اے دیکھنے والے اے مدد کرنے والے۔
|
|
﴿۴۰﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ یَا غافِرُ یَا ساتِرُ یَا قادِرُ یَا قاھِرُ یَا فاطِرُ یَا کاسِرُ یَا جابِرُ یَا ذاکِرُ، یَا ناظِرُ، یَا ناصِرُ |
|
|
|
اے وہ جس نے پیدا کیا پھر درست کیا اے وہ جس نے تقدیر بنائی پھرہدایت دی اے وہ جو بلائیں دور کرتا ہے اے وہ جو سرگوشیاں سنتا ہے اے وہ جو ڈوبنے والوں کو بچاتا ہے اے وہ جو ہلاکتوں سے نجات دیتا ہے اے وہ جو مریضوں کو شفا دیتا ہے اے وہ جو ہنساتا اور رلاتا ہے اے وہ جو مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے اے وہ جس نے نر اور مادہ جوڑے بنائے |
|
﴿۴۱﴾ یَا مَنْ خَلَقَ فَسَوَّی،یَا مَنْ قَدَّرَ فَھَدی، یَا مَنْ یَکْشِفُ الْبَلْوی ، یَا مَنْ یَسْمَعُ النَّجْوی، یَا مَنْ یُنْقِذُ الْغَرْقی،یَا مَنْ یُنْجِی الْھَلْکی یَا مَنْ یَشْفِی الْمَرْضی یَا مَنْ أَضْحَکَ وَأَبْکی، یَا مَنْ أَماتَ وَأَحْیی یَا مَنْ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثیٰ |
|
|
|
اے وہ جس نے خاک و آب میں راستے بنائے اے وہ جس نے فضا میں اپنی نشانیاں بنائیں اے وہ جسکی نشانیوں میں قوی دلیل ہے اے وہ کہ موت میں جسکی قدرت ظاہرہے اے وہ جس نے قبروں میں عبرت رکھی ہے اے وہ کہ قیامت میں جسکی بادشاہت ہے اے وہ کہ حساب میں جسکی ہیبت ہے اے وہ کہ میزان عمل میں جسکی منصفی ہے اے وہ کہ جس کیطرف سے ثوابِ جنت ہے اے وہ کہ جسکا عذاب دوزخ ہے |
|
﴿۴۲﴾ یَا مَنْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ سَبِیلُہُ یَا مَنْ فِی الْآفاقِ آیاتُہُ یَا مَنْ فِی الْاَیاتِ بُرْہانُہُ،یَا مَنْ فِی الْمَماتِ قُدْرَتُہُ،یَا مَنْ فِی الْقُبُورِعِبْرَتُہُ،یَا مَنْ فِی الْقِیامَةِ مُلْکُہُ، یَا مَنْ فِی الْحِسابِ ھَیْبَتُہُ، یَا مَنْ فِی الْمِیزانِ قَضاؤُہُ، یَا مَنْ فِی الْجَنَّةِ ثَوابُہُ یَا مَنْ فِی النَّارِ عِقابُہُ |
|
|
|
اے وہ کہ خوف زدہ جسکی طرف بھاگتے ہیں اے وہ کہ گنہگار جسکی پناہ لیتے ہیں اے وہ کہ توبہ کرنے والے جسکا قصد کرتے ہیں اے وہ کہ جسکی طرف پرہیز گار رغبت کرتے ہیں اے وہ کہ پریشان لوگ جسکی پناہ چاہتے ہیں اے وہ کہ ارادہ کرنے والے جس سے مانوس ہیں اے وہ کہ جس پر محبت کرنے والے فخر کرتے ہیں اے وہ کہ خطاکار جسکے عفو کی خواہش رکھتے ہیں اے وہ جسکے ہاں یقین والے سکون پاتے ہیں اے وہ کہ توکل کرنے والے جس پر توکل کرتے ہیں۔ |
|
﴿۴۳﴾یَا مَنْ إِلَیْہِ یَھْرَبُ الْخائِفُونَ، یَا مَنْ إِلَیْہِ یَفْزَعُ الْمُذْنِبُونَ یَا مَنْ إِلَیْہِ یَقْصِدُ الْمُنِیبُونَ یَا مَنْ إِلَیْہِ یَرْغَبُ الزَّاھِدُونَ یَا مَنْ إِلَیْہِ یَلْجَأُ الْمُتَحَیِّرُونَ یَا مَنْ بِہِ یَسْتَأْنِسُ الْمُرِیدُونَ یَا مَنْ بِہِ یَفْتَخِرُالْمُحِبُّونَ یَا مَنْ فِی عَفْوِہِ یَطْمَعُ الْخاطِئُونَ یَا مَنْ إِلَیْہِ یَسْکُنُ الْمُوقِنُونَ یَا مَنْ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُونَ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے محبوب اے چارہ گر اے نزدیک تر اے نگہدار اے حساب رکھنے والے اے ہیبت والے اے ثواب دینے والے اے دعا قبول کرنے والے اے با خبر اے بینا۔ |
|
﴿۴۴﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ یَا حَبِیبُ یَا طَبِیبُ یَا قَرِیبُ یَا رَقِیبُ یَا حَسِیبُ یَا مُھِیبُ یَا مُثِیبُ یَا مُجِیبُ یَا خَبِیرُ یَا بَصِیرُ |
اے ہر قریب سے زیادہ قریب اے ہر محب سے زیادہ محبت کرنے والے اے ہر دیکھنے والے سے زیادہ بینا اے ہر باخبر سے زیادہ خبر والے اے ہر بزرگ سے زیادہ بزرگ اے ہر بلند سے زیادہ بلند اے ہر توانا سے زیادہ توانا اے ہر باثروت سے زیادہ باثروت اے ہر داتا سے زیادہ دینے والے اے ہر مہربان سے زیادہ مہربان۔ |
|
﴿۴۵﴾یَا أَقْرَبَ مِنْ کُلِّ قَرِیبٍ یَا أَحَبَّ مِنْ کُلِّ حَبِیبٍ یَا أَبْصَرَ مِنْ کُلِّ بَصِیرٍ یَا أَخْبَرَ مِنْ کُلِّ خَبِیرٍ یَا أَشْرَفَ مِنْ کُلِّ شَرِیفٍ یَا أَرْفَعَ مِنْ کُلِّ رَفِیعٍ یَا أَقْوی مِنْ کُلِّ قَوِیٍّ یَا أَغْنی مِنْ کُلِّ غَنِیٍّ یَا أَجْوَدَ مِنْ کُلِّ جَوادٍ یَا أَرْأَفَ مِنْ کُلِّ رَؤُوفٍ |
|
|
|
اے وہ غالب جس پر کوئی غالب نہیں اے وہ صانع جسے کسی نے نہیں بنایا اے وہ خالق جو خلق نہیں ہوا اے وہ مالک جسکا کوئی مالک نہیں اے وہ زبردست جو کسی کے زیر نگیں نہیں اے وہ بلند جسے کسی نے بلند نہیں کیا اے وہ نگہبان جسکا کوئی نگہبان نہیں اے وہ مددگار جسکا کوئی مددگار نہیں اے وہ حاضر جو کہیں بھی غائب نہیں اے وہ قریب جو کبھی دور نہیں ہوا۔ |
|
﴿۴۶﴾ یَا غالِباً غَیْرَ مَغْلُوبٍ یَا صانِعاً غَیْرَ مَصْنُوعٍ یَا خالِقاً غَیْرَ مَخْلُوقٍ یَا مالِکاً غَیْرَ مَمْلُوکٍ یَا قاھِراً غَیْرَ مَقْھُورٍ، یَا رافِعاً غَیْرَ مَرْفُوعٍ، یَا حافِظاً غَیْرَ مَحْفُوظٍ، یَا ناصِراً غَیْرَ مَنْصُورٍ یَا شاھِداً غَیْرَ غائِبٍ یَا قَرِیباً غَیْرَ بَعِیدٍ |
|
|
|
اے نور کی روشنی اے نور روشن کرنے والے اے نور پیدا کرنے والے اے نور کا بندوبست کرنے والے اے نور کی اندازہ گیری کرنے والے اے نور کی روشنی اے ہر نور سے اولین نوراے ہر نور کے بعد روشن رہنے والے اے ہرنور سے بالاتر نور اے وہ نور جسکی مثل کوئی نور نہیں۔ |
|
﴿۴۷﴾ یَا نُورَ النُّورِ، یَا مُنَوِّرَ النُّورِ، یَا خالِقَ النُّورِ یَا مُدَبِّرَ النُّورِ، یَا مُقَدِّرَ النُّورِ، یَا نُورَ کُلِّ نُورٍ، یَا نُوراً قَبْلَ کُلِّ نُورٍ، یَا نُوراً بَعْدَ کُلِّ نُورٍ یَا نُوراً فَوْقَ کُلِّ نُورٍ یَا نُوراً لَیْسَ کَمِثْلِہِ نُورٌ |
|
|
|
اے وہ جسکی عطا بلند تر ہے اے وہ جسکا فعل باریک تر ہے اے وہ جسکا لطف پائندہ ہے اے وہ جسکا احسان قدیم ہے اے وہ جسکا قول حق ہے اے وہ جسکا وعدہ سچا ہے اے وہ جسکی عفو میں احسان ہے اے وہ جسکے عذاب میں عدل ہے اے وہ جسکا ذکر شیریں ہے اے وہ جسکا احسان عام ہے۔ |
|
﴿۴۸﴾ یَا مَنْ عَطَاؤُہُ شَرِیفٌ یَا مَنْ فِعْلُہُ لَطِیفٌ یَا مَنْ لُطْفُہُ مُقِیمٌ یَا مَنْ إِحْسانُہُ قَدِیمٌ یَا مَنْ قَوْلُہُ حَقٌّ یَا مَنْ وَعْدُہُ صِدْقٌ یَا مَنْ عَفْوُہُ فَضْلٌ، یَا مَنْ عَذابُہُ عَدْلٌ، یَا مَنْ ذِکْرُہُ حُلْوٌ، یَا مَنْ فَضْلُہُ عَمِیمٌ |
اے معبودمیں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے ہموار کرنے والے اے جدا کرنے والے اے تبدیل کرنے والے اے پست کرنیوالے اے اتارنے والے اے عطا کرنے والے اے نعمت دینے والے اے احسان کرنیوالے اے مہلت دینے والے اے نیکوکار۔ |
|
﴿۴۹﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا مُسَہِّلُ، یَا مُفَصِّلُ، یَا مُبَدِّلُ، یَا مُذَلِّلُ، یَا مُنَزِّلُ، یَا مُنَوِّلُ، یَا مُفْضِلُ،یَا مُجْزِلُ،یَا مُمْھِلُ،یَا مُجْمِلُ |
|
|
|
اے وہ جو دیکھتا ہے خود نظر نہیں آتا اے وہ جو خلق کرتا ہے اور خلق نہیں ہوا اے وہ جو ہدایت دیتا ہے اور ہدایت طلب نہیں کرتا اے وہ جو زندہ کرتا ہیاور زندہ نہیں کیا گیا اے وہ جومسئول ہے اور سائل نہیں اے وہ جو کھلاتا ہے اور کھاتا نہیں اے وہ جو پناہ دیتا ہے اور محتاجِ پناہ نہیں ہے اے وہ جو فیصلے کرتا ہے اور طالبِ فیصلہ نہیں ہے اے وہ جو حکم دیتا ہے اور اس پر کسی کا حکم نہیں اے وہ جسکا کوئی بیٹا نہیں نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کوئی اسکا ہمسر ہے۔ |
|
﴿۵۰﴾یَا مَنْ یَری وَلاَ یُری،یَا مَنْ یَخْلُقُ وَلاَ یُخْلَقُ،یَا مَنْ یَھْدِی وَلاَ یُھْدی، یَا مَنْ یُحْیِی وَلاَ یُحْیی، یَا مَنْ یَسْأَلُ وَلاَ یُسْأَلُ، یَا مَنْ یُطْعِمُ وَلاَ یُطْعَمُ،یَا مَنْ یُجِیرُ وَلاَ یُجارُ عَلَیْہِ، یَامَنْ یَقْضِی وَلاَ یُقْضی عَلَیْہِ، یَا مَنْ یَحْکُمُ وَلاَ یُحْکَمُ عَلَیْہِ،یَا مَنْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُواً أَحَدٌ۔ |
|
|
|
اے بہترین حساب کرنے والے اے بہترین چارہ گر اے بہترین نگہبان اے بہترین قریب اے بہترین دعا قبول کرنے والے اے وہ جو بہترین محبوب ہے اے وہ جو بہترین سرپرست ہے اے وہ جو بہترین کارساز ہے اے بہترین آقا اے بہترین یاور۔ |
|
﴿۵۱﴾ یَا نِعْمَ الْحَسِیبُ، یَا نِعْمَ الطَّبِیبُ،یَا نِعْمَ الرَّقِیبُ،یَا نِعْمَ الْقَرِیبُ یَا نِعْمَ الْمُجِیبُ، یَا نِعْمَ الْحَبِیبُ، یَا نِعْمَ الْکَفِیلُ، یَا نِعْمَ الْوَکِیلُ، یَا نِعْمَ الْمَوْلیٰ،یَا نِعْمَ النَّصِیرُ |
|
|
|
اے عارفوں کی شادمانی اے حب داروں کی تمنا اے ارادت مندوں کے ہمدم اے توبہ کرنے والوں کے محبوب اے بے مایہ لوگوں کے رازق اے گناہگاروں کی آس اے عبادت کرنے والوں کی آنکھوں کی ڈھنڈک اے دکھیاروں کے دکھ دور کرنے والے اے غمزدوں کا غم مٹانے والے اے اولین و آخرین کے معبود۔ |
|
﴿۵۲﴾ یَا سُرُورَ الْعارِفِینَ یَا مُنَی الْمُحِبِّینَ یَا أَنِیسَ الْمُرِیدِینَ، یَا حَبِیبَ التَّوَّابِینَ، یَا رازِقَ الْمُقِلِّینَ، یَا رَجاءَ الْمُذْنِبِینَ، یَا قُرَّ ةَ عَیْنِ الْعابِدِینَ ، یَا مُنَفِّساً عَنِ الْمَکْرُوبِینَ،یَا مُفَرِّجاً عَنِ الْمَغْمُومِینَ، یَا إِلہَ الْاَوَّلِینَ وَالاَْخِرِینَ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے ہی نام کے واسطے سے اے ہمارے رب اے ہمارے معبود اے ہمارے سردار اے ہمارے آقا اے ہمارے یاور اے ہمارے محافظ اے ہمارے رہنما اے ہمارے مددگار اے ہمارے محبوب اے ہمارے چارہ گر۔ |
|
﴿۵۳﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا رَبَّنا، یَا إِلھَنا،یَاسَیِّدَنا، یَا مَوْلانا، یَا ناصِرَنا، یَا حافِظَنا، یَا دَلِیلَنا، یَا مُعِینَنا، یَا حَبِیبَنا، یَا طَبِیبَنا |
|
|
|
اے انبیاء و صالحین کے پروردگار اے صدیقوں اورنیک لوگوں کے پروردگار اے جنت و دوزخ کے مالک اے چھوٹے بڑے کے رب اے دانہ و ثمرکے پروان چڑھانے والے اے دریاؤں اور درختوں کے مالک اے صحراؤں اوربستیوں کے مالک اے صحراؤں اور سمندروں کے مالک اے دن اور رات کے مالک اے کھلی اور چھپی باتوں کے مالک۔ |
|
﴿۵۴﴾ یَا رَبَّ النَّبِیِّینَ وَ الْاَبْرارِ، یَا رَبَّ الصِّدِّیقِینَ وَالْاَخْیارِ، یَا رَبَّ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، یَا رَبَّ الصِّغارِ وَالْکِبارِ،یَا رَبَّ الْحُبُوبِ وَالثِّمارِ، یَا رَبَّ الْاَ نْہارِ وَالْاَشْجارِ، یَا رَبَّ الصَّحارِی وَالْقِفارِ، یَا رَبَّ الْبَرارِی وَالْبِحارِ، یَا رَبَّ اللَّیْلِ وَالنَّہارِ، یَا رَبَّ الْاِعْلانِ وَالْاِسْرارِ |
|
|
|
اے وہ جسکا حکم ہر چیز پر نافذ ہے اے وہ جسکا علم ہر چیز پر حاوی ہے اے وہ جسکی قدرت ہر چیز تک پہنچی ہوئی ہے اے وہ جسکی نعمتوں کوبندے گن نہیں سکتے اے وہ کہ مخلوقات جسکاشکریہ ادا نہیں کر سکتیں اے وہ کہ جسکی جلالت سمجھ میں نہیں آسکتی اے وہ کہ جسکی حقیقت کو وہم پا نہیں سکتے اے وہ کہ بزرگی اور بڑائی جسکا لباس ہے اے وہ جسکی قضا کو بندے ٹال نہیں سکتے اے وہ جسکے سوا کسی کی حکومت نہیں اے وہ جسکی عطا کے سوا کوئی عطا نہیں۔ |
|
﴿۵۵﴾ یَا مَنْ نَفَذَ فِی کُلِّ شَیْءٍ أَمْرُھُ، یَا مَنْ لَحِقَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمُہُ، یَا مَنْ بَلَغَتْ إِلی کُلِّ شَیْءٍ قُدْرَتُہُ، یَا مَنْ لاَیُحْصِی الْعِبادُ نِعَمَہُ، یَا مَنْ لاَ تَبْلُغُ الْخَلائِقُ شُکْرَہُ، یَا مَنْ لاَتُدْرِکُ الْاَفْہامُ جَلالَہُ، یَا مَنْ لاَ تَنالُ الْاَوْہامُ کُنْھَہُ، یَا مَنِ الْعَظَمَةُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِداؤُہُ، یَا مَنْ لاَ یَرُدُّ الْعِبادُ قَضائَہُ، یَا مَنْ لاَ مُلْکَ إِلاَّ مُلْکُہُ،یَا مَنْ لاَ عَطاءَ إِلاَّ عَطاؤُہُ |
|
|
|
اے وہ جسکے لئے اعلٰی نمونہ ہے اے وہ جسکے لیے بلند صفات ہیں اے وہ دنیا و آخرت جسکی ملکیت ہیں اے وہ جو جنت الماویٰ کا مالک ہے اے وہ جسکی نشانیاں عظیم ہیں اے وہ جسکے نام پسندیدہ ہیں اے وہ جو حکم و فیصلے کا مالک ہے اے وہ کہ ہوا و فضا جسکی ملک ہیں اے وہ جو عرش وفرش کا مالک ہے اے وہ جو بلند آسمانوں کا مالک ہے۔
|
|
﴿۵۶﴾ یَا مَنْ لَہُ الْمَثَلُ الْاَعْلی، یَا مَنْ لَہُ الصِّفاتُ الْعُلْیا، یَا مَنْ لَہُ الاَْخِرةُ وَالْاُولی، یَا مَنْ لَہُ جَنَّةُ الْمَأْوی، یَا مَنْ لَہُ الاَْیاتُ الْکُبْری، یَا مَنْ لَہُ الْاَسْماءُ الْحُسْنی، یَا مَنْ لَہُ الْحُکْمُ وَالْقَضاءُ، یَا مَنْ لَہُ الْھَواءُ وَالْفَضاءُ، یَا مَنْ لَہُ الْعَرْشُ وَالثَّری، یَا مَنْ لَہُ السَّمَاوَاتُ الْعُلی |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے معافی دینے والے اے بخشنے والے اے بہت صبر والے اے بہت شکر والے اے مہربان اے نرم خو اے مسئول اے محبت والے اے پاک تر اے پاکیزہ۔ اے وہ کہ آسمان میں جسکی بڑائی ہے
|
|
﴿۵۷﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا عَفُوُّ، یَا غَفُورُ، یَا صَبُورُ، یَا شَکُورُ، یَا رَؤُوفُ، یَا عَطُوفُ، یَا مَسْؤُولُ، یَا وَدُودُ، یَا سُبُّوحُ، یَا قُدُّوسُ ۔ |
|
|
|
اے وہ کہ زمین میں جسکی نشانیاں ہیں اے وہ ہر چیز میں جسکی دلیلیں ہیں اے وہ کہ سمندروں میں جسکی انوکھی چیزیں ہیں اے وہ پہاڑوں میں جسکے خزانے ہیں اے وہ جس نے خلق کو ظاہر کیا پھر جاری رکھا اے وہ جسکی طرف ہر امر کی بازگشت ہے اے وہ جسکا لطف ہر چیز میں عیاں ہے اے وہ جس نے ہرچیز کو خوبی سے خلق کیا اے وہ جسکی قدرت مخلوقات میں اثراندازی کر رہی ہے۔
|
|
﴿۵۸﴾ یَا مَنْ فِی السَّماءِ عَظَمَتُہُ، یَا مَنْ فِی الْاَرْضِ آیاتُہُ، یَا مَنْ فِی کُلِّ شَیْءٍ دَلائِلُہُ، یَا مَنْ فِی الْبِحارِ عَجائِبُہُ، یَا مَنْ فِی الْجِبالِ خَزائِنُہُ، یَا مَنْ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ، یَا مَنْ إِلَیْہِ یَرْجِعُ الْاَمْرُ کُلُّہُ، یَا مَنْ أَظْھَرَ فِی کُلِّ شَیْءٍ لُطْفَہُ، یَا مَنْ أَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہُ، یَا مَنْ تَصَرَّفُ فِی الْخَلائِقِ قُدْرَتُہُ |
|
|
|
اے اسکے ساتھی جسکا کوئی ساتھی نہیں اے اسکے چارہ گر جسکا کوئیچارہ گر نہیں اے اسکی دعا قبول کرنے والے جسکی کوئی قبول کرنے والا نہیں اے اسکے مہربان جس پرکوئی مہربان نہیں اے اسکے ہمراہی جس کا کوئی ہمراہی نہیں اے اسکے فریاد رس جسکا کوئی فریاد رس نہیں اے اسکے رہنما جسکا کوئی رہنمانہیں اے اسکے ہمدم جسکا کوئی ہمدم نہیں اے اس پر رحم کرنے والے جس پر رحم کرنے والا کوئی نہیں اے اسکے ساتھی جسکاکوئی ساتھی نہیں۔
|
|
﴿۵۹﴾ یَا حَبِیبَ مَنْ لاَ حَبِیبَ لَہُ،یَا طَبِیبَ مَنْ لاَ طَبِیبَ لَہُ، یَا مُجِیبَ مَنْ لاَ مُجِیبَ لَہُ، یَا شَفِیقَ مَنْ لاَ شَفِیقَ لَہُ، یَا رَفِیقَ مَنْ لاَ رَفِیقَ لَہُ، یَا مُغِیثَ مَنْ لاَ مُغِیثَ لَہُ، یَا دَلِیلَ مَنْ لاَ دَلِیلَ لَہُ، یَا أَنِیسَ مَنْ لاَ أَنِیسَ لَہُ، یَا راحِمَ مَنْ لاَ راحِمَ لَہُ، یَا صاحِبَ مَنْ لاَ صاحِبَ لَہُ |
|
|
|
اے طالبِ کفایت کی کفایت کرنے والے اے ہدایت طلب کی ہدایت کرنے والے اے نگہبانی چاہنے والے کے نگہبان اے حفاظت چاہنے والے کی حفاظت کرنے والے اے شفا مانگنے والے کو شفادینے والے اے فیصلہ چاہنے والے کا فیصلہ کرنے والے اے ثروت خواہ کو ثروت دینے والے اے وفا طلب سے وفا کرنے والے اے قوتکے طالب کو قوت عطا کرنے والے اے طالب سرپرستی کی سرپرستی کرنے والے۔ |
|
﴿۶۰﴾ یَا کافِیَ مَنِ اسْتَکْفاہُ، یَا ہادِیَ مَنِ اسْتَھْداہُ، یَا کالِیََ مَنِ اسْتَکْلاہُ، یَا راعِیَ مَنِ اسْتَرْعاہُ، یَا شافِیَ مَنِ اسْتَشْفاہُ، یَا قاضِیَ مَنِ اسْتَقْضاہُ، یَا مُغْنِیَ مَنِ اسْتَغْناہُ، یَا مُوفِیَ مَنِ اسْتَوْفاہُ ،یَا مُقَوِّیَ مَنِ اسْتَقْواہُ، یَا وَ لِیَّ مَنِ اسْتَوْلاہُ |
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے ہی نام کے واسطے سے اے خلق کرنے والے اے رزق دینے والے اے بولنے والے اے صدق والے اے شگافتہ کرنے والے اے جداکرنے والے اے توڑنے والے اے جوڑنے والے اے سب سے پہلے اے بلندی والے ۔ |
|
﴿۶۱﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ یَا خالِقُ، یَا رازِقُ، یَا ناطِقُ، یَا صادِقُ، یَا فالِقُ، یَا فارِقُ، یَا فاتِقُ، یَا راتِقُ، یَا سابِقُ، یَا سامِقُ |
|
|
|
اے رات اور دن کو پلٹانے والے اے روشنیوں اور تاریکیوں کے پیدا کرنے والے اے وہ جس نے سایہ اور دھوپ کو پیدا کیا اے وہ جسنے سورج اور چاند کو پابند کیا اے وہ جس نے نیکی و بدی کا اندازہ ٹھہرایا اے وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا اے وہ جسکے ہاتھ میں خلق و امر ہے اے وہ جسکی نہ کوئی زوجہ اور نہ فرزند ہے اے وہ جسکی حکومت میں کوئی شریک نہیں اے وہ جوعاجز نہیں کہ اسکاکوئی مددگار ہو۔ |
|
﴿۶۲﴾ یَا مَنْ یُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہارَ، یَا مَنْ جَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالْاَ نْوارَ، یَا مَنْ خَلَقَ الظِّلَّ وَالْحَرُورَ، یَا مَنْ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ، یَا مَنْ قَدَّرَ الْخَیْرَ وَالشَّرَّ، یَا مَنْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیاةَ، یَا مَنْ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ، یَا مَنْ لَمْ یَتَّخِذْ صاحِبَةً وَلاَ وَلَداً، یَا مَنْ لَیْسَ لَہُ شَرِیکٌ فِی الْمُلْکِ، یَا مَنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ وَ لِیٌّ مِنَ الذُّلِّ |
|
|
|
اے وہ جو ارادہ کرنے والوں کی مراد کو جانتا ہے اے وہ جو خاموش لوگوں کے دل کی باتیں جانتا ہے اے وہ جوکمزوروں کی زاری کو سنتا ہے اے وہ جو ڈرنے والے لوگوںکا رونا دیکھ لیتا ہے اے وہ جو سائلین کی حاجتوں کا مالک ہے اے وہ جو توبہ کرنے والوں کا عذرقبول کرتا ہے اے وہ جو فسادیوں کے عمل کو اچھا نہیں سمجھتا اے وہ جو نیکوکاروں کے اجر کوضائع نہیں کرتا اے وہ جو عارفوں کے دلوں سے دور نہیں رہتا اے سب داتاؤں سے بڑے داتا |
|
﴿۶۳﴾یَا مَنْ یَعْلَمُ مُرادَ الْمُرِیدِینَ، یَا مَنْ یَعْلَمُ ضَمِیرَالصَّامِتِینَ، یَا مَنْ یَسْمَعُ أَنِینَ الْواھِنِینَ، یَا مَنْ یَری بُکاءَ الْخائِفِینَ، یَا مَنْ یَمْلِکُ حَوائِجَ السَّائِلِینَ، یَا مَنْ یَقْبَلُ عُذْرَ التَّائِبِینَ، یَا مَنْ لاَ یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ، یَا مَنْ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ، یَا مَنْ لاَ یَبْعُدُ عَنْ قُلُوبِ الْعارِفِینَ، یَا أَجْوَدَ الْاَجْوَدِینَ |
|
|
|
اے ہمیشہ باقی رہنے والے اے دعا کے سننے والے اے بہت زیادہ عطا کرنے والے اے خطا کے بخشنے والے اے آسمان کے بنانے والے اے بہترین آزمائش کرنے والے اے بھلی تعریف والے اے قدیمی بلندی والے اے بہت وفاداری کرنے والے اے بہترین جزادینے والے |
|
﴿۶۴﴾یَا دائِمَ الْبَقاءِ، یَا سامِعَ الدُّعاءِ، یَا واسِعَ الْعَطاءِ، یَا غافِرَ الْخَطاءِ، یَا بَدِیعَ السَّماءِ، یَا حَسَنَ الْبَلاءِ، یَا جَمِیلَ الثَّناءِ، یَا قَدِیمَ السَّناءِ، یَا کَثِیرَ الْوَفاءِ، یَا شَرِیفَ الْجَزاءِ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے پردہ پوش اے بخشنے والے غلبہ والے اے زور والے اے بہت صبروالے اے نیکی والے اے اختیار والے اے کھولنے والے اے نفع دینے والے اے شاداں۔ |
|
﴿۶۵﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا سَتَّارُ، یَا غَفَّارُ، یَا قَہَّارُ، یَا جَبَّارُ، یَا صَبَّارُ، یَا بارُّ، یَا مُخْتارُ،یَا فَتَّاحُ، یَا نَفَّاحُ، یَا مُرْتاحُ |
|
|
|
اے وہ جس نے مجھے پیدا کیا اور سنوارا اے وہ جس نے مجھے رزق دیا اور پالااے وہ جس نے مجھے طعام دیا اور سیراب کیا اے وہ جس نے مجھے قریب کیا اور قربت عطا کیاے وہ جس نے میری نگہداشت کی اور کفالت کی اے وہ جس نے میری حفاظت کی اور حمایت کی اے وہ جس نے مجھے عزت دیاور دولتمند بنایا اے وہ جس نے میری مدد کی اور ہدایت عطا کی اے وہ جس نے مجھ سے انس کیا اور پناہ دی اے وہ جس نے مجھے موت دی اور زندہ کیا۔ |
|
﴿۶۶﴾ یَا مَنْ خَلَقَنِی وَسَوَّانِی، یَا مَنْ رَزَقَنِی وَرَبَّانِی، یَا مَنْ أَطْعَمَنِی وَسَقانِی، یَا مَنْ قَرَّبَنِی وَأَدْنانِی ، یَا مَنْ عَصَمَنِی وَکَفانِی، یَا مَنْ حَفِظَنِی وَکَلانِی، یَا مَنْ أَعَزَّنِی وَأَغْنانِی، یَا مَنْ وَفَّقَنِی وَھَدانِی، یَا مَنْ آنَسَنِی وَآوانِی، یَا مَنْ أَماتَنِی وَأَحْیانِی ۔ |
|
|
|
اے وہ جو اپنے کلام سے حق کو ثابت کرتا ہے اے وہ جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اے وہ جو انسان اور اسکے دل کے درمیان حائل ہوتاہے اے وہ جسکے اذن کے بغیرشفاعت کچھ نفع نہیں پہنچاتی اے وہ جو راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو خوب جانتا ہے اے وہ جسکے حکم کو کوئی ہرگز نہیں ٹال سکتا اے وہ جسکے فیصلے کو کوئی پلٹا نہیں سکتا اے وہ جسکے امرکے آگے ہر چیز جھکی ہوئی ہے اے وہ جسکی قدرت سے آسمان باہم لپٹے ہوئے ہیں اے وہ جو اپنی رحمت سے ہواؤں کی خوشخبری دے کربھیجتاہے۔ |
|
﴿۶۷﴾ یَا مَنْ یُحِقُّ الْحَقَّ بِکَلِماتِہِ، یَا مَنْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِہِ، یَا مَنْ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہِ، یَا مَنْ لاَ تَنْفَعُ الشَّفاعَةُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ، یَا مَنْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِہِ، یَا مَنْ لاَ مُعَقِّبَ لِحُکْمِہِ، یَا مَنْ لاَ رَادَّ لِقَضائِہِ، یَا مَنِ انْقادَ کُلُّ شَیْءٍ لاََِمْرِہِ یَا مَنِ السَّمَاوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ، یَا مَنْ یُرْسِلُ الرِّیاحَ بُشْراً بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ |
|
|
|
اے وہ جس نے زمین کوفرش بنایا اے وہ جس نے پہاڑوں کو میخیں بنایااے وہ جس نے سورج کو چراغ بنایا اے وہ جس نے چاند کو روشن کیا اے وہ جس نے رات کو پردہ پوشی کے لیے بنایا اے وہ جس نے دن کو کام کاج کا وقت ٹھہرایا اے وہ جس نے نیند کو ذریعہ راحت بنایا اے وہ جس نے آسمان کا شامیانہ لگایا اے وہ جس نے چیزوں میں جوڑے مقرر کیے اے وہ جس نے آتش دوزخ کوکمین گاہ بنایا۔ |
|
﴿۶۸﴾ یَا مَنْ جَعَلَ الْاَرْضَ مِہاداً، یَا مَنْ جَعَلَ الْجِبالَ أَوْتاداً، یَا مَنْ جَعَلَ الشَّمْسَ سِراجاً، یَا مَنْ جَعَلَ الْقَمَرَ نُوراً، یَا مَنْ جَعَلَ اللَّیْلَ لِباساً، یَا مَنْ جَعَلَ النَّہارَ مَعَاشاً، یَا مَنْ جَعَلَ النَّوْمَ سُباتاً یَا مَنْ جَعَلَ السَّمَاءَ بِناءً، یَا مَنْ جَعَلَ الْأَشْیاءَ أَزْواجاً، یَا مَنْ جَعَلَ النَّارَ مِرْصاداً |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے سننے والے اے شفاعت والے اے بلندی والے اے محفوظ اے جلدی کرنے والے اے ابتداکرنے والے اے بڑائی والے اے قدرت والے اے خبر والے اے پناہ دینے والے۔ |
|
﴿۶۹﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ یَا سَمِیعُ، یَا شَفِیعُ، یَا رَفِیعُ، یَا مَنِیعُ، یَا سَرِیعُ، یَا بَدِیعُ، یَا کَبِیرُ، یَا قَدِیرُ، یَا خَبِیرُ، یَا مُجِیرُ |
|
|
|
اے ہرزندہ سے پہلے زندہ ہو اے ہرزندہ کے بعد زندہ اے وہ زندہ جسکی مثل کوئی اور زندہ نہیں اے وہ زندہ جسکا کوئی زندہ شریک نہیں اے وہ زندہ جو کسی زندہ کامحتاج نہیں اے وہ زندہ جو سب زندوں کو موت دیتا ہے اے وہ زندہ جو سب زندوں کو رزق دیتا ہے اے وہ زندہ جس نے کسی زندہ سے زندگی نہیں پائی اے وہ زندہ جو زندوں کو موت دیتا ہے اے وہ نگہبان جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ۔ |
|
﴿۷۰﴾ یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ، یَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ، یَا حَیُّ الَّذِی لَیْسَ کَمِثْلِہِ حَیٌّ، یَا حَیُّ الَّذِی لاَ یُشارِکُہُ حَیٌّ، یَا حَیُّ الَّذِی لاَ یَحْتاجُ إِلی حَیٍّ، یَا حَیُّ الَّذِی یُمِیتُ کُلَّ حَیٍّ، یَا حَیُّ الَّذِی یَرْزُقُ کُلَّ حَیٍّ، یَا حَیّاً لَمْ یَرِثِ الْحَیاةَ مِنْ حَیٍّ، یَا حَیُّ الَّذِی یُحْیِی الْمَوْتیٰ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ لاَ تَأْخُذُہُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ |
|
|
|
اے وہ جسکا ذکر بھلایا نہیں جا سکتااے وہ جسکے نور کو بجھایا نہیں جا سکتا اے وہ جسکی نعمتوں کوشمار نہیں کیا جا سکتا اے وہ جسکی بادشاہی ختم ہونے والی نہیں اے وہ جسکی تعریف کی کوئی حد نہیں اے وہ جسکے جلال کی کیفیت بے بیان ہے اے وہ جسکے کمال کو سمجھا نہیں جا سکتا اے وہ جسکا فیصلہ ٹالا نہیں جا سکتا اے وہ جسکی صفات میں تبدیلی نہیں آسکتی اے وہ جسکے وصفوں میں تبدیلی نہیں۔ |
|
﴿۷۱﴾ یَا مَنْ لَہُ ذِکْرٌ لاَ یُنْسی یَا مَنْ لَہُ نُورٌ لاَ یُطْفیٰ، یَا مَنْ لَہُ نِعَمٌ لاَ تُعَدُّ، یَا مَنْ لَہُ مُلْکٌ لاَ یَزُولُ، یَا مَنْ لَہُ ثَنَاءٌ لاَ یُحْصیٰ، یَا مَنْ لَہُ جَلالٌ لاَ یُکَیَّفُ، یَا مَنْ لَہُ کَمالٌ لاَ یُدْرَکُ، یَا مَنْ لَہُ قَضاءٌ لاَ یُرَدُّ، یَا مَنْ لَہُ صِفَاتٌ لاَ تُبَدَّلُ، یَا مَنْ لَہُ نُعُوتٌ لاَ تُغَیَّرُ |
|
|
|
اے عالمین کے پروردگار اے روز جزا کے مالک اے طالبوں کے مقصود اے پناہ لینے والوں کی پناہ گاہ اے بھاگنے والوں کو پالینے والے اے وہ جو صبر والوں کودوست رکھتا ہے اے وہ جو توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اے وہ جو پاکیزگی والوں کو پسندکرتا ہے اے وہ جونیکوکاروں کو پسند کرتا ہے اے وہ جو ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے۔ |
|
﴿۷۲﴾ یَا رَبَّ الْعالَمِینَ، یَا مالِکَ یَوْمِ الدِّینِ، یَا غایَةَ الطَّالِبِینَ، یَا ظَھْرَ اللاَّجِینَ، یَا مُدْرِکَ الْہارِبِینَ، یَا مَنْ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ، یَا مَنْ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ، یَا مَنْ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِینَ، یَا مَنْ یُحِبُّ الُْمحْسِنِینَ، یَا مَنْ ھُوَ أَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِینَ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے مہربان اے ہمدم اے نگہدار اے احاطہ کرنے والے اے رزق دینے والے اےفریاد رس اے عز ت دینے والے اے ذلت دینے والے اے پیدا کرنے والے اے لوٹانے والے ۔ |
|
﴿۷۳﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأِسْمِکَ یَا شَفِیقُ، یَا رَفِیقُ، یَا حَفِیظُ، یَا مُحِیطُ، یَا مُقِیتُ، یَا مُغِیثُ، یَا مُعِزُّ، یَا مُذِلُّ، یَا مُبْدِیٴُ، یَا مُعِیدُ ۔ |
|
|
|
اے وہ جو ایسا یگانہ ہے جس کا کوئی مقابل نہیں اے وہ جو ایسا یکتا ہے جسکا شریک نہیں اے وہ جو بے نیاز ہے جس میں کوئی عیب نہیں اے وہ جوایسا فرد ہیجس میں کوئی کیفیت نہیں اے وہ جسکا فیصلہ خلاف حق نہیں ہوتا اے وہ رب جسکا کوئی وزیرنہیں ہے اے وہ عزت دار جسے ذلت نہیں اے وہ ثروت مند جو محتاج نہیں اے وہ بادشاہ جسے ہٹایا نہیں جا سکتا اےایسے صفتوں والے جسکی کوئی مثال نہیں۔ |
|
﴿۷۴﴾ یَا مَنْ ھُوَ أَحَدٌ بِلا ضِدٍّ، یَا مَنْ ھُوَ فَرْدٌ بِلا نِدٍّ، یَا مَنْ ھُوَ صَمَدٌ بِلا عَیْبٍ، یَا مَنْ ھُوَ وِتْرٌ بِلا کَیْفٍ، یَا مَنْ ھُوَ قاضٍ بِلا حَیْفٍ، یَا مَنْ ھُوَ رَبٌّ بِلا وَزِیرٍ، یَا مَنْ ھُوَ عَزِیزٌ بِلا ذُلٍّ، یَا مَنْ ھُوَ غَنِیٌّ بِلا فَقْرٍ، یَا مَنْ ھُوَ مَلِکٌ بِلا عَزْلٍ، یَا مَنْ ھُوَ مَوْصُوفٌ بِلا شَبِیہٍ |
|
|
|
اے وہ جسکا ذکر ذاکروں کے لیے وجہ بزرگی ہے اے وہ جسکاشکر شاکروں کے لیے کامیابی ہے اے وہ جسکی حمد، حمدکرنے والوں کے لیے وجہ عزت ہے اے وہ جسکی فرمانبرداری فرمانبرداروں کے لیے وجہ نجات ہے اے وہ جسکا دروازہ طلبگاروں کے لیے کھلا رہتا ہے اے وہ جسکا راستہ توبہ کرنے والوں کیلئے ظاہر و واضح ہے اے وہ جسکی نشانیاں دیکھنے والوں کیلئے پختہ دلیل ہیں اے وہ جسکی کتاب پرہیزگاروںکے لیے نصیحت ہے اے وہ جسکا رزق فرمانبرداروں اور نافرمانوں کے لیے یکساں ہے اے وہ جسکی رحمت نیکوکاروں کے نزدیک تر ہے۔ |
|
﴿۷۵﴾ یَا مَنْ ذِکْرُھُ شَرَفٌ لِلذَّاکِرِینَ، یَا مَنْ شُکْرُہُ فَوْزٌ لِلشَّاکِرِینَ،یَا مَنْ حَمْدُہُ عِزٌّ لِلْحامِدِینَ، یَا مَنْ طَاعَتُہُ نَجاةٌ لِلْمُطِیعِینَ، یَا مَنْ بابُہُ مَفْتُوحٌ لِلطَّالِبِینَ، یَا مَنْ سَبِیلُہُ واضِحٌ لِلْمُنِیبِینَ، یَا مَنْ آیاتُہُ بُرْہانٌ لِلنَّاظِرِینَ، یَا مَنْ کِتابُہُ تَذْکِرَةٌ لِلْمُتَّقِینَ، یَا مَنْ رِزْقُہُ عُمُومٌ لِلطَّائِعِینَ وَالْعاصِینَ، یَا مَنْ رَحْمَتُہُ قَرِیبٌ مِنَ الُْمحْسِنِینَ |
|
|
|
اے وہ جسکا نام برکت والا ہے اے وہ جسکی شان بلند ہے اے وہ جسکے سوا کوئی معبود نہیں اے وہ جسکی تعریف روشن ہے اے وہ جسکے نام پاک وپاکیزہ ہیں اے وہ جسکی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے اے وہ کہ بزرگی جسکا جلوہ ہے اے وہ کہ بڑای جسکا لباس ہے اے وہ جسکی نعمتوں کی حد نہیں اے وہ جسکی نعمتوں کا شمار نہیں۔ |
|
﴿۷۶﴾ یَا مَنْ تَبارَکَ اسْمُہُ، یَا مَنْ تَعالی جَدُّہُ، یَا مَنْ لاَ إِلہَ غَیْرُہُ، یَا مَنْ جَلَّ ثَناؤُہُ، یَا مَنْ تَقَدَّسَتْ أَسْماؤُہُ، یَا مَنْ یَدُومُ بَقاؤُہُ، یَا مَنِ الْعَظَمَةُ بَہاؤُہُ، یَا مَنِ الْکِبْرِیاءُ رِداؤُہُ، یَا مَنْ لاَ تُحْصی آلاؤُہُ، یَا مَنْ لاَ تُعَدُّ نَعْماؤُہُ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے مددگار اے امانتدار اے آشکار اے سنجیدہ اے قدرت والے اے ہدایت والے اے تعریف والے اے بزرگی والے اے محکم اے گواہ۔ |
|
﴿۷۷﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا مُعِینُ، یَا أَمِینُ، یَا مُبِینُ، یَا مَتِینُ، یَا مَکِینُ، یَا رَشِیدُ، یَا حَمِیدُ، یَا مَجِیدُ، یَا شَدِیدُ، یَا شَھِیدُ |
|
|
|
اے عرش عظیم کے مالک اے سچے قول والے اے پختہ تر کام کرنے والے اے سخت گرفت کرنے والے اے وعدہ کرنے اور دھمکی دینے والے اے وہ جو قابل تعریف سرپرست ہے اے وہ جو چاہے کر گزرتا ہے اے وہ جو ایسا قریب ہے کہ دور نہیں ہوتا اے وہ جو ہر چیز کا دیکھنے والا ہے اے وہ جوبندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا۔ |
|
﴿۷۸﴾ یَا ذَا الْعَرْشِ الَْمجِیدِ، یَا ذَا الْقَوْلِ السَّدِیدِ، یَا ذَا الْفِعْلِ الرَّشِیدِ، یَا ذَا الْبَطْشِ الشَّدِیدِ، یَا ذَا الْوَعْدِ وَالْوَعِیدِ، یَا مَنْ ھُوَ الْوَ لِیُّ الْحَمِیدُ، یَا مَنْ ھُوَ فَعَّالٌ لِما یُرِیدُ، یَا مَنْ ھُوَ قَرِیبٌ غَیْرُ بَعِیدٍ، یَا مَنْ ھُوَ عَلی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیدٌ، یَا مَنْ ھُوَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ |
|
|
|
اے وہ جسکا نہ کوئی شریک ہے نہ وزیر اے وہ جسکی نہ کوئی مثل ہے نہ ثانی اے سورج اور روشن چاند کے خالق اے نادار و بے نوا کو ثروت دینے والے اے ننھے بچے کو رزق دینے والے اے بڑے بوڑھے پر رحم کرنے والے اے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے والے اے خوفزدہ کو پناہ دینے والے اے وہ جو خود اپنے بندوں کو جانتا اوردیکھتا ہے اے وہ جو ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔ |
|
﴿۷۹﴾ یَا مَنْ لاَ شَرِیکَ لَہُ وَلاَ وَزِیرَ، یَا مَنْ لاَ شَبِیہَ لَہُ وَلاَ نَظِیرَ، یَا خالِقَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِالْمُنِیرِ، یَا مُغْنِیَ الْبائِسِ الْفَقِیرِ، یَا رازِقَ الطِّفْلِ الصَّغِیرِ، یَا راحِمَ الشَّیْخِ الْکَبِیرِ، یَا جابِرَ الْعَظْمِ الْکَسِیرِ، یَا عِصْمَةَ الْخائِفِ الْمُسْتَجِیرِ، یَا مَنْ ھُوَ بِعِبادِھِ خَبِیرٌ بَصِیرٌ، یَا مَنْ ھُوَ عَلی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ |
|
|
|
اے نعمتوں والے سخی ایفضل و کرم کرنے والے اے لوح و قلم کے پیدا کرنے والے اے انسانوں اور حشرات کے خلق کرنے والے اے سخت گیر اور بدلہ لینے والے اے عرب و عجم کو الہام کرنے والے اے درد و غم کو دور کرنے والے اے راز و نیت کے جاننے والے اے کعبہ و حرم کے پروردگار اے وہ جس نے چیزوں کو عدم سے پیدا کیا |
|
﴿۸۰﴾ یَا ذَا الْجُودِ وَالنِّعَمِ ، یَا ذَا الْفَضْلِ وَالْکَرَمِ، یَا خالِقَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ، یَا بارِیٴَ الذَّرِّ وَالنَّسَمِ ، یَا ذَا الْبَأْسِ وَالنِّقَمِ، یَا مُلْھِمَ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ، یَا کَاشِفَ الضُّرِّ وَالْاَلَمِ، یَا عَالِمَ السِّرِّ وَالْھِمَمِ، یَا رَبَّ الْبَیْتِ وَالْحَرَمِ، یَا مَنْ خَلَقَ الْاَشْیاءَ مِنَ الْعَدَمِ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے کام کرنے والے اے بنانے والے اے قبول کرنے والیاے کامل اے جداکرنے والے اے ملانے والے اے عدل کرنے والے اے غلبہ والے اے طلب کرنے والے اے عطا کرنے والے |
|
﴿۸۱﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا فاعِلُ، یَا جاعِلُ، یَا قابِلُ، یَا کامِلُ، یَا فاصِلُ، یَا واصِلُ، یَا عادِلُ، یَا غالِبُ،یَا طالِبُ، یَا واھِبُ |
|
|
|
اے وہ جس نے اپنے فضل سے نعمت بخشی اے وہ جو سخاوت میں بلند ہے اے وہ جس نے مہربانی سے عطافرمایا اے وہ جس نے اپنی قدرت سے عزت دی اے وہ جس نے حکمت سے اندازہ ٹھہرایا اے وہ جس نے اپنی رائے سے حکم دیا اے وہ جس نے اپنے علم سے نظم قائم کیا اے وہ جو اپنی بردباری سے معاف کرتا ہے اے وہ جو بلند ہوتے ہوئے بھی قریب ہے اے وہ جو نزدیکی میں بھی بلند ہے۔ |
|
﴿۸۲﴾ یَا مَنْ أَ نْعَمَ بِطَوْ لِہِ، یَا مَنْ أَکْرَمَ بِجُودِہِ، یَا مَنْ جادَ بِلُطْفِہِ،یَا مَنْ تَعَزَّزَ بِقُدْرَتِہِ، یَا مَنْ قَدَّرَ بِحِکْمَتِہِ، یَا مَنْ حَکَمَ بِتَدْبِیرِہِ، یَا مَنْ دَ بَّرَ بِعِلْمِہِ، یَا مَنْ تَجاوَزَ بِحِلْمِہِ، یَا مَنْ دَنَا فِی عُلُّوِہِ، یَا مَنْ عَلا فِی دُ نُوِّہِ |
|
|
|
اے وہ کہ جو چاہے پیدا کرتا ہے اے وہ کہ جو چاہے کرگزرتاہے اے وہ کہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اے وہ کہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اے وہ کہ جسے چاہے عذابدیتا ہے اے وہ کہ جسے چاہے بخشتا ہے اے وہ کہ جسے چاہے عزت دیتا ہے اے وہ کہ جسے چاہیذلت دیتا ہے اے وہ کہ شکموں میں جیسی چاہے صورت بناتا ہے اے وہ کہ جسے چاہے اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے۔ |
|
﴿۸۳﴾ یَا مَنْ یَخْلُقُ ما یَشَاءُ، یَا مَنْ یَفْعَلُ ما یَشَاءُ، یَا مَنْ یَھْدِی مَنْ یَشَاءُ، یَا مَنْ یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ، یَا مَنْ یُعَذِّبُ مَنْ یَشَاءُ، یَا مَنْ یَغْفِرُ لِمَنْ یَشَاءُ، یَا مَنْ یُعِزُّ مَنْ یَشَاءُ، یَا مَنْ یُذِلُّ مَنْ یَشَاءُ، یَا مَنْ یُصَوِّرُ فِی الْاَرْحامِ مَا یَشَاءُ، یَا مَنْ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہِ مَنْ یَشَاءُ ۔ |
|
|
|
اے وہ جس نے نہ بیوی کی اور نہ اولاد والا ہوا اے وہ جس نے ہر چیز کاایک انداز ٹھہرایا اے وہ جس کی حکومت میں کوئی حصہ دار نہیں اے وہ جس نے فرشتوں کو قاصد قرار دیا اے وہ جس نے آسمان میں برج ترتیب دیے اے وہ جس نے زمین کو رہنے کی جگہ بنایا اے وہ جس نے انسان کو قطرہ آب سے پیدا کیا اے وہ جس نے ہر چیز کی مدت مقرر فرمائی اے وہ جسکا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اے وہ جس نے سب چیزوں کا شمار کر رکھا ہے۔ |
|
﴿۸۴﴾ یَا مَنْ لَمْ یَتَّخِذْ صاحِبَةً وَلاَ وَلَداً، یَا مَنْ جَعَلَ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْراً،یَا مَنْ لاَ یُشْرِکُ فِی حُکْمِہِ أَحَداً، یَا مَنْ جَعَلَ الْمَلائِکَةَ رُسُلاً، یَا مَنْ جَعَلَ فِی السَّماءِ بُرُوجاً،یَا مَنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَراراً، یَا مَنْ خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَراً، یَا مَنْ جَعَلَ لِکُلِّ شَیْءٍ أَمَداً، یَا مَنْ أَحاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْماً، یَا مَنْ أَحْصی کُلَّ شَیْءٍ عَدَداً |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے اول اے آخر اے ظاہر اے باطن اے نیک اے حق اے یکتا اے یگانہ اے بے نیاز اے دائم۔ |
|
﴿۸۵﴾اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا أَوَّلُ، یَا آخِرُ، یَا ظاھِرُ، یَا باطِنُ، یَا بَرُّ، یَا حَقُّ، یَا فَرْدُ، یَا وِتْرُ، یَا صَمَدُ، یَا سَرْمَدُ |
|
|
|
اے پہچانے ہوؤں میں بہترین پہچانے ہوئے اے بہترین معبود کہ جسکی عبادت کی جائے اے شکر کیے ہو ؤں میں بہترین شکر کیے گئے اے ذکر کئے ہوؤں میں بلندتر اے تعریف کیے ہوؤں میں بالاتر اے ہر موجود سے قدیم جو طلب کیا گیا اے ہر موصوف سیاعلٰی جس کی توصیف کی گئی اے ہرمقصود سے بلند کہ جسکا قصد کیا گیا اے ہر سوال شدہ سے باعزت جس سے سوال ہوا اے بہترین محبوب۔ |
|
﴿۸۶﴾ یَا خَیْرَ مَعْرُوفٍ عُرِفَ، یَا أَ فْضَلَ مَعْبُودٍ عُبِدَ، یَا أَجَلَّ مَشْکُورٍ شُکِرَ، یَا أَعَزَّ مَذْکُورٍ ذُکِرَ، یَا أَعْلی مَحْمُودٍ حُمِدَ، یَا أَقْدَمَ مَوْجُودٍ طُلِبَ، یَا أَرْفَعَ مَوْصُوفٍ وُصِفَ، یَا أَکْبَرَ مَقْصُودٍ قُصِدَ، یَا أَکْرَمَ مَسْؤُولٍ سُئِلَ، یَا أَشْرَفَ مَحْبُوبٍ عُلِمَ |
|
|
|
اے رونے والوں کے دوست اے توکل کرنے والوں کے سردار اےگمراہوں کو ہدایت دینے والے اے مومنوں کے سرپرست اے یادکرنے والوں کے ہمدم اے دل جلوں کی پناہ گاہ اے سچے لوگوں کو نجات دینے والے اے قدرت والوں میں بڑے باقدرت اے علم والوں سے زیادہ علم رکھنے والے اے ساری مخلوق کے معبود۔ |
|
﴿۸۷﴾یَا حَبِیبَ الْباکِینَ، یَا سَیِّدَ الْمُتَوَکِّلِینَ، یَا ہادِیَ الْمُضِلِّینَ، یَا وَ لِیَّ الْمُئْومِنِینَ، یَا أَنِیسَ الذَّاکِرِینَ، یَا مَفْزَعَ الْمَلھُوفِینَ، یَا مُنْجِیَ الصَّادِقِینَ، یَا أَقْدَرَ الْقادِرِینَ، یَا أَعْلَمَ الْعالِمِینَ، یَا إِلہَ الْخَلْقِ أَجْمَعِینَ |
|
|
|
اے وہ جو بلند اور مسلط اے وہ جو مالک و توانا ہے اے وہ جونہاں اور خبردار ہے ہے اے وہ جو معبود ہے تو شاکر بھی ہے اے وہ جسکی معصیت ہو تو بخش دیتا ہے اے وہ جسکو فکر پا نہیں سکتی اے وہ جسے آنکھ دیکھ نہیں سکتی اے وہ جس پر کوئی نشان مخفی نہیں ہے اے بشر کوروزی دینے والے اے ہر اندازے کے مقرر کرنے والے۔ |
|
﴿۸۸﴾ یَا مَنْ عَلا فَقَھَرَ،یَا مَنْ مَلَکَ فَقَدَرَ، یَا مَنْ بَطَنَ فَخَبَرَ، یَا مَنْ عُبِدَ فَشَکَرَ، یَا مَنْ عُصِیَ فَغَفَرَ، یَا مَنْ لاَ تَحْوِیہِ الْفِکَرُ، یَا مَنْ لاَ یُدْرِکُہُ بَصَرٌ، یَا مَنْ لاَ یَخْفی عَلَیْہِ أَثَرٌ یَا رازِقَ الْبَشَرِ، یَا مُقَدِّرَ کُلِّ قَدَرٍ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے نگہبان اے پیدا کرنے والے اے ظاہر کرنے والے اے بلندی والے اے کشائش دینے والے اے کھولنے والے اے نمایاں کرنے والے اے ذمہ دار اے حکم کرنے والے اے روکنے والے۔ |
|
﴿۸۹﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا حافِظُ، یَا بارِیٴُ، یَا ذارِیٴُ یَا باذِخُ، یَا فارِجُ، یَا فاتِحُ،یَا کاشِفُ، یَا ضامِنُ، یَا آمِرُ، یَا ناھِی |
|
|
|
اے وہ جسکے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا اے وہ جس کے سوا کوئی دکھ دور نہیں کرسکتا اے وہ جسکے سوا کوئی بھی خلق نہیں کر سکتااے وہ جسکے سواکوئی گناہ معاف نہیں کرتا اے وہ جسکے سوا کوئی نعمت تمام نہیں کرتا اے وہ جسکے سوا کوئی دلوں کونہیں پلٹاتا اے وہ جسکے سوا کوئی کام پورے نہیں کرتا اے وہ جسکے سوا کوئی بارش نہیں برساتا |
|
﴿۹۰﴾ یَا مَنْ لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یَصْرِفُ السُّوءَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یَخْلُقُ الْخَلْقَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یَغْفِرُ الذَّنْبَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یُتِمُّ النِّعْمَةَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یُقَلِّبُ الْقُلُوبَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ إِلاَّ ھُوَ، یَا مَنْ لاَ یُحْیِی الْمَوْتی إِلاَّ ھُوَ |
|
|
|
اے وہ جسکے سوا کوئی روزی نہیں بڑھاتا اے وہ جسکے سوا کوئی مردے زندہ نہیں کرتا۔اے کمزوروں کے مددگار اے مسافروں کے ہمدم اے دوستوں کی مدد کرنے والے اے دشمنوں پر غلبہ پانے والے اے آسمان کو بلند کرنے والے اے خواص کے ساتھی اے پرہیزگاروں کے دوست اے بے مایوں کے خزانے اے دولتمندوں کے معبود اے کریموں سے زیادہ کریم۔ |
|
﴿۹۱﴾ یَا مُعِینَ الْضُعَفاءِ، یَا صاحِبَ الْغُرَباءِ، یَا ناصِرَ الْاَوْ لِیاءِ، یَا قاھِرَ الْاَعْداءِ، یَا رافِعَ السَّماءِ، یَا أَنِیسَ الْاَصْفِیاءِ، یَا حَبِیبَ الْاَتْقِیاءِ، یَا کَنْزَ الْفُقَراءِ، یَا إِلہَ الْاَغْنِیاءِ، یَا أَکْرَمَ الْکُرَماءِ ۔ |
|
|
|
اے ہر چیز سے کفایت کرنے والے اے ہر چیز کی نگرانی کرنے والے اے وہ جسکی مثل کوئی چیز نہیں اے وہ جسکی حکومت میں کوئی چیز اضافہ نہیں کر سکتی اے وہ جس سے کوئی چیز مخفی نہیں اے وہ جسکے خزانوں میں کسی شئی سے کمی نہیں آتی اے وہ جسکی مثل کوئی چیز نہیں اے وہ جسکے علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اے وہ جو ہر چیز کی خبر رکھتا ہے اے وہ جسکی رحمت ہر چیز تک وسیع ہے۔ |
|
﴿۹۲﴾ یَا کافِیاً مِنْ کُلِّ شَیْءٍ، یَا قائِماً عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ، یَا مَنْ لاَ یُشْبِھُہُ شَیْءٌ، یَا مَنْ لاَ یَزِیدُ فِی مُلْکِہِ شَیْءٌ، یَا مَنْ لاَ یَخْفی عَلَیْہِ شَیْءٌ، یَا مَنْ لاَ یَنْقُصُ مِنْ خَزائِنِہِ شَیْءٌ، یَا مَنْ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ، یَا مَنْ لاَ یَعْزُبُ عَنْ عِلْمِہِ شَیْءٌ، یَا مَنْ ھُوَ خَبِیرٌ بِکُلِّ شَیْءٍ، یَا مَنْ وَسِعَتْ رَحْمَتُہُ کُلَّ شَیْءٍ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے عزت دینے والے اے کھانا دینے والے اے نعمت دینے والے اے عطا کرنے والے اے غنی بنانے والے اے ذخیرہ کرنے والے اے فنا کرنے والے اے زندہ کرنے والے اے بیماری دینے والے اے نجات دینے والے۔ |
|
﴿۹۳﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا مُکْرِمُ، یَا مُطْعِمُ، یَا مُنْعِمُ، یَا مُعْطِی، یَا مُغْنِی، یَا مُقْنِی، یَا مُفْنِی، یَا مُحْیِی، یَا مُرْضِی، یَا مُنْجِی |
|
|
|
اے ہر چیز سے پہلے اور اسکے بعد اے ہرچیز کے معبود اور اسکے مالک اے ہر چیز کے پروردگار اور اسے بنانے والے اے ہر چیز کے پیدا کرنے والے اوراندازہ ٹھہرانے والے اے ہرچیز کو بند کرنے اور کھولنے والے اے ہر چیزکا آغاز کرنے والے اور اسے لوٹانے والے اے ہر چیز کو بڑھانے اور اسکا اندازہ کرنے والے اے ہر چیز کو بنانے اور اسے تبدیل کرنے والے اے ہر چیز کو زندہ کرنے اور اسے موت دینے والے اے ہر چیز کے خالق و وارث۔ |
|
﴿۹۴﴾ یَا أَوَّلَ کُلِّ شَیْءٍ وَآخِرَہُ، یَا إِلہَ کُلِّ شَیْءٍ وَمَلِیکَہُ، یَا رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَصانِعَہُ، یَا بارِیٴَ کُلِّ شَیْءٍ وَخالِقَہُ، یَا قابِضَ کُلِّ شَیْءٍ وَباسِطَہُ، یَا مُبْدِیٴَ کُلِّ شَیْءٍ وَمُعِیدَہُ، یَا مُنْشِیٴَ کُلِّ شَیْءٍ وَمُقَدِّرَہُ، یَا مُکَوِّنَ کُلِّ شَیْءٍ وَمُحَوِّلَہُ، یَا مُحْیِیَ کُلِّ شَیْءٍ وَمُمِیتَہُ، یَا خالِقَ کُلِّ شَیْءٍ وَوارِثَہُ |
|
|
|
اے بہترین ذکر کرنے والے اور ذکر کیے ہوئے اے بہترین شکر کرنے والے اور شکرکیے ہوئے اے بہترین حمد کرنے والے اور حمد کیے ہوئے اے بہترین گواہ اور گواہی دیے ہوئے اے بہترین بلانے والے اور بلائے ہوئے اے بہترین جواب دینے والے اور جواب دیئے ہوئے اے بہترین انس کرنے والے اور انس کیے ہوئے اے بہترین رفیق اور ہم نشین اور بہترین قصد کیے ہوئے اور طلب کئے گئے اے بہترین دوست اوردوست رکھے ہوئے۔ |
|
﴿۹۵﴾ یَا خَیْرَ ذاکِرٍ وَمَذْکُورٍ، یَا خَیْرَ شاکِرٍ وَمَشْکُورٍ، یَا خَیْرَ حامِدٍ وَمَحْمُودٍ، یَا خَیْرَ شاھِدٍ وَمَشْھُودٍ، یَا خَیْرَ داعٍ وَمَدْعُوٍّ، یَا خَیْرَ مُجِیبٍ وَمُجابٍ، یَا خَیْرَ مُؤْنِسٍ وَأَنِیسٍ، یَا خَیْرَ صاحِبٍ وَجَلِیسٍ، یَا خَیْرَ مَقْصُودٍ وَمَطْلُوبٍ، یَا خَیْرَ حَبِیبٍ وَمَحْبُوبٍ |
|
|
|
اے وہ جسے پکارا جائے توجواب دیتا ہے اے وہ جسکی اطاعت کی جائے تومحبت کرتا ہے اے وہ جو محبت کرنے والے کے قریب ہوتا ہے اے وہ جو طالبِ حفاظت کا نگہبان ہے اے وہ جو امیدوار پر کرم کرتا ہے اے وہ جو نافرمان کے ساتھ نرمی کرتا ہے اے وہ جو اپنی بڑائی کے باوجود مہربان ہے اے وہ جو اپنی حکمت میں بلند ہے اے وہ جو قدیم احسان والا ہے اے وہ جو ارادہ رکھنے والے کو جانتا ہے۔ |
|
﴿۹۶﴾ یَا مَنْ ھُوَ لِمَنْ دَعاھُ مُجِیبٌ، یَا مَنْ ھُوَ لِمَنْ أَطاعَہُ حَبِیبٌ، یَا مَنْ ھُوَ إِلَی مَنْ أَحَبَّہُ قَرِیبٌ،یَا مَنْ ھُوَ بِمَنِ اسْتَحْفَظَہُ رَقِیبٌ، یَا مَنْ ھُوَ بِمَنْ رَجاہُ کَرِیمٌ، یَا مَنْ ہُوَ بِمَنْ عَصاہُ حَلِیمٌ،یَا مَنْ ھُوَ فِی عَظَمَتِہِ رَحِیمٌ، یَا مَنْ ھُوَ فِی حِکْمَتِہِ عَظِیمٌ، یَا مَنْ ھُوَ فِی إِحْسانِہِ قَدِیمٌ، یَا مَنْ ھُوَ بِمَنْ أَرادَہُ عَلِیمٌ |
|
|
|
اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے اے سبب بنانے والے اے شوق دلانے والے اے پلٹانے والے اے پیچھا کرنے والے اے تربیت کرنے والے اے خوف دلانے والے اے ڈرانے والے اے یادکرنے والے اے پابند کرنے والے اے بدلنے والے۔ |
|
﴿۹۷﴾ اَللّٰھُمَّ إِنِّی أَسْأَ لُکَ بِاسْمِکَ یَا مُسَبِّبُ، یَا مُرَغِّبُ، یَا مُقَلِّبُ، یَا مُعَقِّبُ، یَا مُرَتِّبُ، یَا مُخَوِّفُ، یَا مُحَذِّرُ، یَا مُذَکِّرُ، یَا مُسَخِّرُ، یَا مُغَیِّرُ |
|
|
|
اے وہ جسکا علم سبقت رکھتا ہے اے وہ جسکا وعدہ سچا ہے اے وہ جسکا لطف ظاہر ہے اے وہ جسکا حکم غالب ہے اے وہ جسکی کتاب محکم ہے اے وہ جسکا فیصلہ نافذ ہے اے وہ جسکا قرآن شان والا ہے اے وہ جسکی حکومت قدیمی ہے اے وہ جسکا فضل عام ہے اے وہ جسکا عرش عظیم ہے۔ |
|
﴿۹۸﴾ یَا مَنْ عِلْمُہُ سابِقٌ، یَا مَنْ وَعْدُہُ صادِقٌ، یَا مَنْ لُطْفُہُ ظاھِرٌ، یَا مَنْ أَمْرُہُ غالِبٌ، یَا مَنْ کِتابُہُ مُحْکَمٌ، یَا مَنْ قَضاؤُہُ کائِنٌ، یَا مَنْ قُرْآنُہُ مَجِیدٌ، یَا مَنْ مُلْکُہُ قَدِیمٌ، یَا مَنْ فَضْلُہُ عَمِیمٌ، یَا مَنْ عَرْشُہُ عَظِیمٌ |
|
|
|
اے وہ جسے ایک سماعت دوسری سماعت سے غافل نہیں کرتی اے وہ جس کیلئے ایک فعل دوسرے فعل سے مانع نہیں ہوتا اے وہ جس کیلئے ایک قول دوسرے قول میں خلل نہیں ڈالتا اے وہ جسے ایک سوال دوسرے سوال میں غلطی نہیں کراتا اے وہ جسکے لیے ایک چیز دوسری چیز کے آگے حائل نہیں ہوئی اے وہ جسے اصرار کرنے والوں کااصرار تنگ دل نہیں کرتا اے وہ جو ارادہ کرنے والوں کے ارادے کی انتہا ہے اے وہ جو عارفوں کی امنگوں کا نقطئہ آخر ہے اے وہ جو طلبگاروں کی طلب کی انتہا ہے اے وہ جسکے لیے سارے جہانوں میں سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں۔ |
|
﴿۹۹﴾ یَا مَنْ لاَ یَشْغَلُہُ سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ، یَا مَنْ لاَ یَمْنَعُہُ فِعْلٌ عَنْ فِعْلٍ، یَا مَنْ لاَ یُلْھِیہِ قَوْلٌ عَنْ قَوْلٍ، یَا مَنْ لاَ یُغَلِّطُہُ سُوَالٌ عَنْ سُوَالٍ، یَا مَنْ لاَ یَحْجُبُہُ شَیْءٌ عَنْ شَیْءٍ، یَا مَنْ لاَ یُبْرِمُہُ إِلْحاحُ الْمُلِحِّینَ، یَا مَنْ ھُوَ غایَةُ مُرادِ الْمُرِیدِینَ، یَا مَنْ ھُوَ مُنْتَہی ھِمَمِ الْعارِفِینَ، یَا مَنْ ھُوَ مُنْتَہی طَلَبِ الطَّالِبِینَ، یَا مَنْ لاَ یَخْفی عَلَیْہِ ذَرَّةٌ فِی الْعالَمِینَ |
|
|
|
اے وہ بردبار جو جلدی نہیں کرتا اے وہ داتا جو ہاتھ نہیں کھینچتا اے وہ صادق جو خلاف ورزی نہیں کرتا اے وہ دینے والا جو تھکتا نہیں اے زبردست جو مغلوب نہیں ہوتا اے بے بیان عظمت والے اے وہ عادل جو ظالم نہیں اے وہ دولت والے جو کسی کا محتاج نہیں اے وہ بڑا جو چھوٹا نہیں اے وہ نگہبان جو غافل نہیں تو پاک ہے اے وہ کہ سوائے تیرے کوئی معبود نہیں اے فریاد رس اے فریاد رس ہمیں آتش جہنم سے بچالے اے پالنے والے |
|
﴿۱۰۰﴾ یَا حَلِیماً لاَ یَعْجَلُ، یَا جَوَاداً یَا جَوَاداً لاَ یَبْخَلُ، یَا صادِقاً لاَ یُخْلِفُ، یَا وَہَّاباً لاَ یَمَلُّ، یَا قاھِراً لاَ یُغْلَبُ، یَا عَظِیماً لَا یُوصَفُ، یَا عَدْلاً لاَ یَحِیفُ، یَا غَنِیّاً لاَ یَفْتَقِرُ، یَا کَبِیراً لاَ یَصْغُرُ، یَا حافِظاً لاَ یَغْفُلُ، سُبْحانَکَ یَا لاَ إِلہَ إِلاَّ أَ نْتَ، الْغَوْثَ الْغَوْثَ خَلِّصْنا مِنَ النَّارِ یَا رَبِّ۔ |
حزب اللہ: میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی، پورا اسرائیل نشانے پر آگیا
لبنان کی عسکری ملیشیا حزب اللہ نے میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی کرتے ہوئے اسرائیل میں کسی بھی جگہ کو اپنے متعین اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔
خبر کے مطابق "حزب اللہ کی عسکری طاقت میں حالیہ برسوں کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اب حزب اللہ اس پوزیشن میں آگئی ہے کہ اسرائیل کے اندر جہاں چاہے کامیابی سے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے۔"
تاہم اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اس امر پر تشویش ظاہر کی ہے کہ حزب اللہ نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے اسرائیلی مراکز کو نشانہ بنانے کیلیے تیاری کر رکھی ہے۔
اس بارے میں امریکی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ حزب اللہ نے یہ میزائل شام سے حاصل کیے ہیں۔ حزب اللہ شام کے صدر بشارالاسد کی اتحادی ہے اور اس کے عسکریت پسند شامی دہشتگردوں کیخلاف شام میں لڑ رہے ہیں۔
مسجد ولایت - ملیشیا
ملیشیا کی بین الاقوامی نمائش گاہ کے علاقہ میں “ فیڈرل مسجد” واقع ہے جو مسجد ولایت کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کے ۲۲ گنبد ہیں اور یہ مشرق وسطی کی معماری کا نمونہ ہے۔
یہ مسجد ۴ﺍ١۳ ہیکٹر رقبہ زمین میں، ۳۷ ہزار مربع میٹر پر تعمیر کی گئی ہے اور ملیشیا کی آزادی کے بعد یہ چوالیسویں﴿۴۴﴾ مسجد ہے جسے ملیشیا کی حکمومت نے تعمیر کیا ہے ۔ یہ مسجد، ملیشیا کے دارالخلافہ کولالمپور کے سیاحت کی دلکش عمارتوں میں شمار ھوتی ہے۔
اس مسجد کی سنگ بنیاد ١۵ مارچ ١۹۹٦ء میں ڈالی گئی اور ۳۰ اگست ۲۰۰۰ء میں اس کا افتتاح کیا گیا۔
اس مسجد کے نقشہ اور پلان میں مشرق وسطی کی ثقافت، خاص کر ترکیہ کی مساجد سے الہام لینا مشہود ہے۔ یہ خصوصیت ۲۲ گنبدوں پر مشتمل ہے، اور یہ بائیس گنبد، اصلی گنبد سے منشعب ھوئے ہیں اس کے علاوہ اس میں چند نیم گنبد اور محراب نما سقف موجود ہیں۔
ان گنبدوں کو تعمیر کرنے میں ہلکے مواد اور مصنوعی ریشوں اور فائبر سے استفادہ کیا گیا ہے تاکہ سمیٹ کے گنبدوں کے برعکس، زیادہ مستحکم اور پائدار ھوں اور ان میں شگاف پیدا ھونا کم تر ممکن ھو۔ یہ گنبد الگ الگ تعمیر کئے گئے ہیں اور مسجد ہر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ نصب کئے گئے ہیں ۔
اس مسجد کی بلندی ۲۷ میٹر ہے اور سنگ تراشوں نے اسے بڑی ہنرمندی کے ساتھ حیرت انگیز اور دلکش انداز میں تعمیر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات کو محراب کے اطراف میں ایرانی ہنر مندوں نے قیمتی پتھروں سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ لکھا ہے، جس سے اس مسجد کے اندرونی حصہ اور شبستان کو چار چاند لگ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ اس مسجد میں ایک مدرسہ اسلامی بھی تاسیس کیا گیا ہے، جس میں پرائمری کلاس سے پہلے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے اس سے اس اسلامی مرکز کو اہمیت حاصل ھوئی ہے اس مدرسہ میں قرآن مجید، دینی فرائض اور اخلاقی اور اعتقادی دروس پڑھائے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس مسجد میں ایک بڑی اسلامی لائبریری، کانفرنس ہال، ازدواج کے مراسم کے لئے خاص ہال، اور ایک ریسٹورانٹ کے علاوہ دوسرے امکانات بھی موجود ہیں۔
فاطمہ بنت اسد ﴿س﴾
چاند کی درخشان:
جاہلیت کے زمانہ میں اور پیغمبر نور و رحمت ﴿ص﴾ کی بعثت سے پہلے جزیرة العرب کے لوگ شیطان کی غلامی اور بندگی کے نتیجہ میں قتل و غارت اور ظلم و ستم کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ زندہ دفن کرنے میں فخر و مباہات سمجھتے تھے اور مال کی زیادتی، نسل اور قبیلہ و خاندان کے افراد کی تعداد پر بھی فخر و مباہات کرتے تھے ۔ قبرستانوں میں جاکر اپنے مردوں کی قبروں کی تعداد کو گن کر ایک دوسرے کے منہ پر بات مارتے تھے اور اس طرح شیطان، ناشائستہ کام کو ان کے لئے زیبا و پسندیدہ صورت میں جلوہ نمائی کرتا تھا، اور انھیں فطرت سے دور کرکے ان کی پاکی و طہارت کو آلودہ بنا دیتا تھا۔ تاکہ الہی فطرت انھیں حقیقت کی طرف راہنمائی نہ کرسکے، بلکہ وہ خلافت الہی کے مقام سے غافل رہیں اور روزبروز تاریکی اور بدقسمتی کی گہرائیوں میں غرق ھوتے رہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جس کے بارے میں شہنشاہ کلام و بیان حضرت علی بن ابیطالب﴿ع﴾ نے یوں فرمایا ہے:“ اے گروہ عرب! تم بدترین دین پر تھے اور چٹانوں کے بیچ میں سرخ سانپوں کے درمیان زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے اور اپنے خویش و اقارب سے رابطہ توڑتے تھے۔ ۔ ۔”﴿١﴾
اسی تاریکی اور جہالت کے زمانہ میں ایسے لوگ بھی زندگی بسر کرتے تھے جو شرک و گمراہی کے مقابلے میں سیسہ پلائی ھوئی دیوار کے مانند مقاومت و مقابلہ کرتے تھے اور اپنی الہی فطرت اور یکتاپرستی کو لکڑی اور پتھر کے بنے ھوئے بتوں سے آلودہ نہیں کرتے تھے ان کے دلوں نے انھیں غیر خدا کی طرف کبھی دعوت نہیں کی۔ ان افراد پر آلودہ ماحول نے اثر نہیں ڈالا، کیونکہ وہ عام لوگوں کے ہمرنگ اور ہم فکر بننا نہیں چاہتے تھے۔ اس لحاظ سے ان کے دل خدا کی محبت سے سرشار اور ایمان سے آباد تھے۔
ان مختصر لیکن استوار اور حق پرست افراد کے درمیان، ایک جوان مرد تھا۔ یہ جوان اپنے اکثر اطرافیوں کے مانند نہ صرف بت پرست اور ظالم نہیں تھا، بلکہ دوسروں کو بھی وحدہ لاشریک کی پرستش کرنے کی دعوت دیتا تھا اور تنہائیوں میں خداوند متعال سے اپنی قوم کے لئے ہدایت کی دعا کرتا تھا۔ یہ نوجوان حضرت خلیل الرحمن﴿ع﴾ کی ذریت سےتھا اور اپنے جد امجد کی پیروی کرتا تھا اور رفتہ رفتہ اس پیغمبر عظیم الشان کے فکر و اندیشہ اور کردار کے نزدیک تر ھوتا جارہا تھا۔
اس جوان کا نام “ اسد” اور ان کے باپ کا نام “ ہاشم ” تھا۔ یہ جوان بخوبی جانتا تھا کہ ہر جوان کی روح و جسم کے اطمینان کے لئے اسے ایک شریک حیات کی ضرورت ہے، اس لئے اس نے اپنے والدین کو اس سلسلہ میں آگاہ کیا اور انھوں نے اس سے وعدہ کیا کہ اس کے لئے ایک مناسب شریک حیات کی تلاش کریں گے اور اس سلسلہ میں انھوں نے اقدام کیا تاکہ اپنے بیٹے کے لئے ایک اچھے خاندان کی ایک نجیب و پاک دامن لڑکی کو مناسب ہمسر کے عنوان سے منتخب کریں۔ انھوں نے “ فاطمہ” نام کی ایک پاک دامن لڑکی کو پالیا۔ یہ ایک خاندانی لڑکی تھی، جس کے والدین کے اجداد، پیغمبر اکرم﴿ص﴾ کے اجداد سے مشترک تھے اور دونوں کے جد بزرگوار “ فھر” تھے۔﴿۲﴾
منگنی:
اسد کے باپ نے “ فاطمہ” کے باپ سے ان کی بیٹی کے بارے میں خواستگاری کی اور جواب مثبت ملا۔ اسد کی شادی پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی ہجرت سے ساٹھ سال قبل انجام پائی، خداوند متعال نے اس پاک دامن بیوی سے اسد کے لئے ایک بیٹی عطا کی۔ باپ نے اپنی ماں کے نام پر اس بیٹی کا نام “ فاطمہ” رکھا۔ زمانہ جاہلیت کی رسم کے بر خلاف اسد اس بیٹی سے انتہائی محبت کرتے تھے اور اس کی پیدائش سے شاد و خوش تھے۔ اس معاشرہ کے دوسرے مردوں کے مانند بیٹی ھونے پر اسد ناخوش نہیں ھوئے۔ اور ان کے چہرے کا رنگ تبدیل نہیں ھوا اور شرم کے مارے گوشہ نشین نہیں ھوئے﴿۳﴾ اس زمانہ میں لڑکیوں کو زندہ زندہ دفن کیا جاتا تھا تاکہ وہ ان کے لئے ننگ و شرمندگی کا سبب نہ بنے۔
معاشرہ میں اس شرمناک عادت اور رسم کی بنیاد قبیلہ بنی تمیم نے ڈالی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن “نعمان بن منذر” نے قبیلہ بنی تمیم پر حملہ کیا اور ان کے اموال اور عورتوں کو غارت کرکے لے گیا۔ ایک مدت کے بعد بنی تمیم کے بزرگ افراد اس کے پاس گئے اور اس سے عورتوں کو آزاد کرنے کی درخواست کی، لیکن ان عورتوں میں سے بعض نے اسیری کے دوران ازدواج کی تھی اور انھوں نے اپنے شوہروں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی، ان عورتوں میں “ قبیلہ بنی تمیم قیس بن عاصم” کی بیٹی بھی تھی، وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر باپ کے پاس واپس لوٹی۔ لیکن اس کا باپ اپنی بیٹی کے اس انتخاب کو برداشت نہ کرسکا اور اس پر شاق گزرا۔ اس لئے اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ اس کے بعد اس کے ہاں جو بھی بیٹی پیدا ھوگی اسے زندہ زندہ دفن کر ے گا اور اس کے بعد اس نے ایسا ہی کیا اور دوسرے قبیلوں نے بھی اس کی پیروی کی اور اس طرح لڑکیوں کو زندہ زندہ دفن کرنے کی شرمناک رسم کی بنیاد پڑی۔﴿۴﴾
عورتیں ۔ اسلام سے پہلے:
ہم سب جانتے ہیں کہ اس زمانہ میں دوسری اشیاء کے مانند عورتیں بھی خرید و فروخت کی جاتی تھیں اور تمام عورتیں ،انسانی ، انفرادی اور اجتماعی حقوق، حتی وراثت سے بھی محروم تھیں۔ مرد، عورتوں سے یا حیوانوں کا سلوک کرتے تھے یا انھیں گھر کی دوسری اشیاء کے مانند جانتے تھے۔ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو طلاق دیتا تو اس عورت کو دوسری شادی کرنے کے لئے پہلے شوہر سے اجازت لینا ضروری تھا اور اکثر اس صورت میں اسے اجازت ملتی تھی کہ وہ عورت اپنا مہر بخش دے! اس سے بد تر یہ کہ مردوں کے دوسرے اموال کے مانند عورتوں کو بھی مترو کہ وراثت میں شمار کیا جاتا تھا۔
لیکن اسد نے ان تمام غلط رسموں اور سنتوں سے مقابلہ کیا اور اپنی بیٹی کی توحیدی عقائد پر مبنی تربیت کی، یہاں تک کہ فاطمہ ایک مکمل، عاقل اور مومن لڑکی بن گئیں۔ فاطمہ ایمان میں پیش رو تھیں، وہ ایک پاک سیرت، با ھوش، امور آخرت کے بارے میں بصیرت رکھنے والی والی، آگاہ اور پاک دامن خاتون تھیں۔ اس کا دین، “ دین حنیف” تھا، وہ اپنے جد بزرگوار حضرت ابراھیم﴿ع﴾ کی شریعت، یعنی حق اور یکتا پرستی پر تھیں۔ انھوں نے حتی اسلام سے قبل بھی کبھی بتوں کے سامنے سجدہ نہیں کیا تھا﴿۵﴾
جناب فاطمہ بنت اسد کی بزرگی اور عظمت کے سلسلہ میں اتناہی کافی ہے کہ ان کے بارے میں یوں کہا گیا ہے کہ:“ فاطمہ، بنی ہاشم کی سب سے بر تر خواتین میں سے تھیں، وہ اپنے زمانہ میں آفتاب کے مانند ظاہر ہوئیں ، شجرہ نسب کی شرافت، پسندیدہ اخلاق، عظمت، اندرونی آگاہی و بصیرت، نفس کی پاکی، باطنی خوبصورتی اور زینت اس عظمت والی خاتون کی برتر خصوصیات ہیں اور یہی وجہ ھوئی کہ قریش کے ایک سردار نے انھیں انتخاب کیا، اور زندگی بھر میں کسی کو ان کا جانشین قرار نہیں دیا۔﴿٦﴾
ایک آفاقی شریک حیات سے لافانی پیوند:
برسوں گزر گئے فاطمہ بنت اسد بالغ ھوئیں۔ مکہ کے موسم گرما کا ایک دن فاطمہ بنت اسد کے لئے نا قابل فراموش دن تھا ۔ یہ وہ لمحات تھے جو اس عمر میں ہر لڑکی کے لئے پیش آتے ہیں۔ “ ابو طالب” نام کے ایک خاندانی، با ایمان اور یکتا پرست جوان ان کی خواست گاری کے لئے آگئے۔ اس جوان کے باپ کا نام عبدالمطلب تھا۔ یہ نام مکہ کے تمام مرد وزن کے لئے آشنا تھا! کوئی ایسا نہیں تھا، جس نے یہ نام نہ سنا ھو اور ان کی عظمت اور مقام و منزلت سے آگاہ نہ ھو؟!
عقد کی تقریب منعقد ھوئی اور اسد نے لوگوں کو اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ جب سب جمع ھوئے ۔ ابوطالب اپنی جگہ سے اٹھے اور اسد سے مخاطب ھوکر کہا:“ حمد و ثنا پروردگار عالم کے لئے، عرش اعلی کے پروردگار کے لئے، سرزمین محشر و حطیم کے پروردگار کے لئے، جس نے ہمیں عظمت بخشی، جس نے ہمیں مخلص و عارف قرار دیا، ہر قسم کی خیانت اور شک و شبہہ سے پاک قرار دیا، درد و عیب سے نجات دیدی، ہمارے لئے نشانیاں قرار دیں اور ہمیں دوسری اقوام پر برتری عطا کی، ہمیں حضرت ابراھیم ﴿ع﴾ کے خاندان اور حضرت اسماعیل ﴿ع﴾ کی نسل سے قرار دیا۔ ۔ ۔ بیشک میں نے فاطمہ بنت اسد کو اپنے عقد میں قرار دیا اور مہر اداد کیا اور دستور کو جاری کیا، پس آپ پوچھئے اور گواہ رہئے۔”
اسد نے جواقب میں کہا:“ میں نے تجھے اپنے داماد کے عنوان سے قبول کیا اور میں نے اپنی بیٹی کوتیری ازدواج میں قرار دیا۔ اس کے بعد مہمانوں کی ولیمہ سے خاطر تواضع کی گئی۔ ﴿۷﴾
یہ خطبہ قابل غور ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی بعثت سے تقریبا ساٹھ سال پہلے پڑھا گیا ہے، اس سے اس خطبہ کو پڑھنے والے کی حکمت وایمان کا اندازہ ھوتا ہے اور معلوم ھوتا ہے کہ وہ یکتا پرست تھے اور انھوں نے اپنی قوم کی کسی بے بنیاد چیز پر فخر و مباہات کا اظہار نہیں کیا ہے اور اپنے مال و دولت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ وہ فاطمہ بنت اسد کے لئے ایک نئی نعمت تھے، کیونکہ وہ ایک عظیم مرد اور یکتا پرست کے گھر میں گئی تھیں۔ اس مبارک پیوند کا ایک عظیم اثر نکلنے والا ہے، جس سے عنقریب ہی دنیا والے بہرہ مند ھوں گے۔
حضرت ابوطالب ۔۔۔ فاطمہ بنت اسد کے شوہر محترم
حضرت ابو طالب ایک اونچی ذات والے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کا حسب و نسب اصلی، شریف اور مشہور تھا۔ اور وہ حضرت ابراھیم خلیل اللہ ﴿ع﴾ کے دین و شریعت کے پیروکار تھے۔ حضرت ابو طالب کے والد گرامی حضرت عبدالمطلب تھے اور وہ ایک ایسی معروف شخصیت تھے، جن کے سامنے قریش سرتسلیم خم ھوتے تھے اور ان کے بلند مقام و منزلت، عفو و بخشش اور بلند اخلاق کا اعتراف کرتے تھے۔ حضرت عبدالمطلب کے دس﴿١۰﴾ بیٹے تھے، ان میں ایک ہی ماں، یعنی فاطمہ بنت عمر بن عائد بن عمران بن مخزوم سے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے والد گرامی حضرت عبداللہ، اور امیرالمؤمنین حضرت علی ﴿ع﴾ کے باپ حضرت ابوطالب تھے۔﴿۸﴾ حضرت عبداللہ اپنے بیٹے حضرت محمد﴿ص﴾ کی پیدائش سے پہلے ہی اس دارفانی کو وداع کر گئے اور ان کے بیٹے کی سرپرستی دادا﴿ عبدالمطلب﴾ نے سنبھالی۔ جب حضرت عبدالمطلب کو محسوس ھونے لگا کہ اس دنیا سے رخصت ھونے والے ہیں، تو انھیں حضرت محمد ﴿ص﴾ کی سرپرستی کی فکر لاحق ھوئی کہ اس آٹھ سالہ بچے کو اپنے بیٹوں میں سے کن کے حوالہ کریں؟ لہذا، انھوں نے اپنے بیٹوں کی طرف مخاطب ھوکر کہا:“ آپ میں سے کون میرے بعد محمد ﴿ص﴾ کی سرپرستی کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ھو؟ انھوں نے جواب میں کہا: آپ خود اس سلسلہ میں ہم سے دانا تر ہیں، جس کو چاہیں منتخب کریں! عبدالمطلب نے محمد﴿ص﴾ سے مخاطب ھوکر کہا:“ اے محمد﴿ص﴾ تمھارا دادا عنقریب تم سے جدا ھونے ولا ہے، تم اپنے چچا یا چاچیوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا تاکہ وہ تمھاری کفالت اور پرورش کی ذمہ داری لےلے اور میرے بعد تمھارا حامی اور سرپرست بن جائے” بچے نے اپنے چچاؤں میں سے ہر ایک کے چہرے پر ایک نظر ڈالی اور اس کے بعد حضرت ابوطالب کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے بعد عبدالمطلب نے ابوطالب سے مخاطب ھوکر کہا:“ میں تمھاری دیانتداری اور امانتداری کی تائید کرتا ھوں، محمد﴿ص﴾ کی وپسی ہی کفالت کرنا جیسی میں کرتا تھا اور میرے ہی مانند اس کی حفاظت کرنا۔ جس دن حضرت عبدالمطلب اس دنیا سے رخصت ھوگئے، حضرت ابو طالب حضرت محمد﴿ص﴾ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ھوئے، اس کے بعد محمد﴿ص﴾ اپنے چچا کے لئے ایک عزیز بیٹے کے مانند تھے اور محمد ﴿ص﴾ نے بہترین پشت پناہی اور حمایت کا احساس کیا۔
حضرت عبدالمطلب کی رحلت کے بعد قوم کی سرداری اور ریاست کی باگ ڈ ور ان کے فرزند حضرت ابوطالب کو ملی اور وہ قریش کے سردار کے عنوان سے پہچانے گئےاور یہی ان کا بلند مقام ان کے بھتیجے کے لئے قوی دفاع اور حمایت کا سبب بنا۔ حضرت محمد﴿ص﴾ اب بچہ نہیں تھے بلکہ نوجوان ھوچکے تھے، ان کی ضرورتیں بڑھ چکی تھیں، لیکن پھر بھی ان کے چچا اپنے بھتیجے کی پرورش اور کفالت کے سلسلہ میں سیسہ پلائی ھوئی دیوار کے مانند کھڑے رہے۔ حضرت محمد﴿ص﴾ کو کام اور تجارت سکھانے میں یہی ان کے عمو پیش قدم ھوئے اور ان کی راھنمائی کی۔ ازدواج کے وقت حضرت محمد ﴿ص﴾ کے انتخاب کی حضرت ابوطالب نے حمایت اور پشت پناہی کی۔ جب حضرت محمد ﴿ص﴾ کی بعثت کا زمانہ پہنچا، تو یہ ان کے چچا حضرت ابوطالب تھے جنھوں نے ہر جہت سے ان کی حمایت کی اور جب تک حضرت محمد﴿ص﴾ کے یہ چچا زندہ تھے اپنے بھتیجے کا دفاع کرنا ان کا ایک مسلم اور نا قابل انکار امر بن چکا تھا۔ شعب ابیطالب میں تین سال تک محاصرہ اور تنگدستی کی زندگی برداشت کرنا، اس عظیم شخصیت کے اسلام اور بانی اسلام کا بے نظیر دفاع اور حمایت کی نا قابل انکار دلیل ہے۔ انھوں نے حضرت محمد ﴿ص﴾ کا ایسا دفاع کیا، یہاں تک کہ اپنے بیٹے علی﴿ع﴾ کو آپ ﴿ص﴾ کے لئے سپر قرار دیا۔ تاکہ نبی اکرم ﴿ص﴾ کو کوئی صدمہ نہ پہنچے۔ حضرت ابوطالب کی عظیم شخصیت کی پہچان کے لئے اتناہی کافی ہے کہ ان کی رحلت کے بعد آنحضرت ﴿ص﴾ پر جبرئیل امین﴿ع﴾ نازل ھوئے اور آپ ﴿ص﴾ کی خدمت میں خداوند متعال کی طرف سے مکہ چھوڑنے کا حکم پہنچا دیا، اور کہا:“ اے محمد﴿ص﴾ مکہ سے چلے جاؤ کہ ابوطالب کے بعد اس شہر میں آپ ﴿ص﴾ کا کوئی یار و یاور نہیں ھوگا۔﴿۹﴾
امام جعفر صادق بن محمد باقر ﴿ علیہما السلام﴾ نے نقل فرمایا ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے فرمایا:﴿لم تزل قریش کاعہ عنی حتی توفی ابوطالب﴾ “ ابو طالب کی رحلت تک قریش میرے خلاف کچھ نہ کرسکے۔﴿١۰﴾
افسوس ہے کہ تاریخ اسلام میں اس عظیم شخصیت کے خلاف ان کے بیٹے کے دشمنوں نے ظالمانہ حملے کئے ہیں، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نا عاقبت اندیش افراد نے یہ افواہ بھی پھیلائی ہے کہ:“ حضرت ابوطالب اس دنیا سے رحلت کرگئے لیکن پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ پر ایمان نہیں لائے! علی بن الحسین، زین العابدین﴿ع﴾ سے سوال کیا گیا: کہ کیا ابوطالب مؤمن تھے؟ امام نے جواب میں فرمایا:“ عجیب ہے کہ اس تہمت کے ذریعہ علی ﴿ع﴾ یا پیغمبر ﴿ص﴾ کی طعنہ زنی کرنا چاہتے ہیں! کیونکہ خداوند متعال نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو دستور فرمایا ہے کہ :“ مؤمن عورت کو کافر مرد کے ساتھ نہ رکھنا”﴿١١﴾ اور کسی کو اس سلسلہ میں شک و شبہہ نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد ایمان میں پیش رو تھیں اور ابوطالب کی رحلت تک ان کی شریک حیات تھیں۔﴿١۲﴾ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ابوطالب مسلمان نہ ھوں؟! کیا ممکن ہے کہ کافر کو شفاعت حاصل ھوگی؟ جبکہ ابوطالب خدا کی اجازت سے اس مقام و منزلت کے مالک ہیں! امیرالمؤمنین علی ﴿ع﴾ نے جو فرمایا ہے کہ: اگر میرے باپ روئے زمین پر ہر گناہگار کے حق میں شفاعت کریں گے تو خداوند متعال ان کی شفاعت کو قبول کرے گا۔﴿١۳﴾﴿ اس روایت کا قطعا یہ مراد ہے کہ شفاعت خاص شرائط کے مطابق اور ان کے بارے میں ھوتی ہے جو شفاعت کے زمرے میں شامل ھوں ﴾
نقل کیا گیا ہے کہ ایک سال مکہ میں خوشک سالی اور قحط پھیلا۔ لوگوں نے حضرت ابوطالب کے ہاں پناہ لے لی، اور ان سے طلب بارش﴿استسقاء﴾ کی درخواست کی اور انھوں نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ، جو ان دنوں جوان تھے، کی شفاعت قرار دے کر خداوند متعال سے توسل کیا، تو خداوند متعال نے ان کی دعا قبول فرمائی اور رحمت کی بارش نازل ھوئی۔﴿١۴﴾
پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے حق میں فاطمہ بنت اسد کی مہربانی اور توجہ:
حضرت محمد﴿ص﴾ نے فاطمہ بنت اسد کے گھر میں قدم رکھا اور یہ نیک خاتون ایک مہربان ماں کے عنوان سے آپ ﴿ص﴾ کی حفاظت و سرپرستی کرتی تھیں اور اپنی اولاد پر انھیں ترجیح دیتی تھیں، اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ بھی انھیں “ ماں” کہکر پکارتے تھے۔﴿١۵﴾ حضرت ابوطالب نے بھی حضرت محمد﴿ص﴾ کو ایک باپ کی محبت و شفقت کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، یہاں تک کہ اپنے بیٹے علی﴿ع﴾ کو پیغمبر ﴿ص﴾ کے بسترے میں سلایا اور اس طرح آپ ﴿ص﴾ کا دفاع کیا۔ حضرت ابوطالب کے توسط سے اپنے بھتیجے کے بارے میں اس قدر توجہ اور حفاظت، برسوں کے بعد دین محمد﴿ص﴾ کی حفاظت اور دفاع ثابت ھوئی، انھوں نے گونا گون سختیاں برداشت کیں تاکہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ، پیغام الہی پہنچانے میں کامیاب ھو جائیں اور اس طرح ان کا قول و عمل ان کے اعتقاد پر ثابت قدمی کی دلیل تھی۔﴿١٦﴾
کہا جاتا ہے کہ جب حضرت ابوطالب اپنے بھتیجے کو اپنے گھر لے آئے، تو اپنی شریک حیات سے کہا: یہ جان لو کہ یہ بچہ میرا بھتیجا ہے اور میرے لئے میری جان و مال سے عزیز تر ہے، ھوشیار رہنا کہ کوئی اسے صدمہ نہ پہنچائے۔ فاطمہ بنت اسد نے اپنے شوہر کے کلام کو سننے کے بعد مسکراہٹ سے کہا: کیا آپ مجھے میرے بیٹے محمد﴿ص﴾ کے بارے میں سفارش کرتے ہیں؟ جبکہ وہ میرے لئے میری جان اور اولاد سے بھی محترم و عزیز تر ہیں؟ ابوطالب نے جب یہ بات سنی تو مطمئن و شاد ھوگئے۔﴿١۷﴾
باوجودیکہ اس روایت میں صراحت سے بیان کیا گا ہے کہ اس زمانہ میں فاطمہ بنت اسد صاحب اولاد تھیں اور مورخین نے عقیل و جعفر کی پیدائش کو، عبدالمطلب کی رحلت سے قبل ذکر کیا ہے، لیکن بعض دوسری روایتوں سے معلوم ھوتا ہے کہ جب محمد ﴿ص﴾ نے احساس کیا کہ فاطمہ بنت اسد چاہتی ہیں کہ ان کا اپنا بھی کوئی بیٹا ھو، تو ان سے مخاطب ھوکر فرمایا: “امی! خدا کی راہ میں قربانی پیش کرنا اور کسی کو خدا کا شریک قرار نہ دینا، وہ آپ کی دعا کو قبول کرے گا اور آپ کی تمنا پوری ھوگی”۔ فاطمہ بنت اسد نے قربانی کی اور اس کے بعد دعا کی تاکہ خداوند متعال انھیں ایک بیٹا عطا کرے اور خداوند متعال نے بھی ان کی آرزو پوری کردی۔﴿١۸﴾
اگر چہ بظاہر مذکورہ دو روایتوں کے درمیان تعارض دکھائی دیتا ہے، لیکن ان کے درمیان جمع اس طرح ممکن ہے کہ، پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے جو بات حضرت فاطمہ بنت اسد سے کہی ہے، وہ حضرت ابوطالب کی کفالت سے پہلے ھو، اس کے علاوہ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ، علی ﴿ع﴾ سے عمر میں تیس سال بڑے تھے، یعنی وہ اپنے چچا کے بڑے بیٹے “ طالب” کے ہم عمر تھے۔ اور اس طرح عقیل اس زمانہ میں پیدا ھوئے ھوں گے، جب فاطمہ بنت اسد پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی کفالت و سرپرستی کر رہی تھیں۔ بہرحال اس عظیم خاتون نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی حفاظت اور پرورش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ہر جہت سے آپ ﴿ص﴾ کے ساتھ محبت و مہربانی سے پیش آتی تھیں اور لباس و خوراک کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو اپنے بچوں کی بہ نسبت ترجیح دیتی تھیں۔ امام جعفر صادق ﴿ع﴾ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:“ فاطمہ بنت اسد، پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی بہ نسبت تمام لوگوں میں سب سے نیک خاتون تھیں۔”﴿١۹﴾
فاطمہ بنت اسد پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کو نہاتی دھلاتی تھیں اور آپ ﴿ص﴾ کے سر کے بالوں پر تیل ملتی تھیں، اس لئے آنحضرت ﴿ص﴾ انھیں امی! کے علاوہ کسی اور نام سے خطاب نہیں کرتے تھے۔﴿۲۰﴾ اور اس لئے جب علی ﴿ع﴾ نے مضطرب حالت میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے پاس آکر کہا کہ میری ماں رحلت کر گئیں، تو پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے فرمایا: خدا کی قسم وہ میری بھی ماں تھیں، اور اس کے بعد روتے ھوئے فریاد بلند کی: افسوس! امی!﴿۲١﴾
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت محمد ﴿ص﴾ کے بچپن میں ہی آپ﴿ص﴾ میں پیغمبری کی نشانیاں دیکھی تھیں، اس لئے ان کے دل میں اس بچے کے بارے میں محبت میں روزبروز اضافہ ھوتا جارہا تھا اور انھیں عظیم سمجھتی تھیں ۔ ان نشانیوں اور کرامتوں کے علاوہ من جملہ وہ اتفاق بھی تھا، جسے انھوں نے اپنے مکان کے صحن میں مشاہدہ کرکے یوں نقل کیا ہے کہ:“ ہمارے گھر کے صحن میں چند خرما کے درخت تھے، ان میں تازہ پکے ھوئے خرما تھے۔ محمد ﴿ص﴾ کی عمر کے بچے ہر روز آکر زمین پر گرے ھوئے خرما کو اٹھا کر کھا لیتے تھے، لیکن میں نےکبھی نہیں دیکھا کہ محمد ﴿ص﴾ نے کسی بچے کے ہاتھ سے خرما چھین کر کھائے ھوں، کیونکہ وہ بچے اکثر محمد ﴿ص﴾ سے پہلے دوڑ کر گرے ھوئے خرما اٹھا لیتے تھے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں سے بھی خرما چھین لیتے تھے۔ میں اور میری کنیز ہر روز محمد﴿ص﴾ کے لئے کچھ خرما جمع کرکے انھیں دیتے تھے۔ ایک دن میں اور میری کنیز اتفاق سے محمد ﴿ص﴾ کے لئے خرما جمع کرنا بھول گئیں۔ میں نے شرم کے مارے اپنے چہرہ کو چھپالیا اور لیٹی، جیسا کہ سو رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ محمد ﴿ص﴾ صحن میں گئے اور وہاں پر درخت کے نیچے کوئی چیز نہیں پائی اور کمرے میں واپس آئے۔ میری کنیز نے ان سے کہا کہ ہم آج آپ کا حصہ جمع کرنا بھول گئے اور بچوں نے تمام خرما کھا لئے۔ یہ سن کر محمد ﴿ص﴾ دوبارہ صحن میں گئے اور خرما کے درختوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کیا اور کہا:“ اے درخت! مجھے بھوگ لگی ہے۔” کنیز کہتی ہے کہ میں نے دیکھا کہ خرما کا درخت جھگ گیا اور محمد﴿ص﴾ نے اس سے خرما توڑ کر کھا لئے اور اس کے بعد درخت دوبارہ اپنی حالت میں پلٹ گیا۔﴿۲۲﴾
بیشک تمام کائنات اور مخلوقات، انسان کامل کی خدمت میں ھوتی ہیں، کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے کہ :“ اے فرزند آدم! میں نے تمام چیزوں کو تمھارے لئے پیدا کیا ہے اور تجھے اپنے لئے پیدا کیا ہے!” فاطمہ بنت اسد بخوبی جانتی تھیں کہ محمد ﴿ص﴾ خدا کے خاص بندہ ہیں اور خدا کے دست پرورش کو واضح طور پر محسوس کرتی تھیں اور آپ ﴿ص﴾ کی عظمت کو بخوبی سمجھ گئی تھیں اور انھوں نے اپنے اس نیک کام کو لافانی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے درج کیا۔
سچا خواب:
حضرت عبداللہ کا یتیم، اپنے چچا ابوطالب کی سرپرستی اور کفالت میں قرار پانے اور فاطمہ بنت اسد کے گھر میں سکونت پذیر ھونے کے بعد فاطمہ بنت اسد نے ایک رات کو ایک عجیب اور سچا خواب دیکھا، اس خواب کے بارے میں فاطمہ بنت اسد یوں بیان کرتی ہیں:“ میں نے دیکھا کہ شام کے پہاڑ لوہے کی صورت میں وحشتناک شور محشر کے ساتھ مکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور مکہ کے پہاڑ بھی اسی خوفناک محشر کے ساتھ بلکہ اس سے خطرناک تر صورت میں بڑی تیزی کے ساتھ ان کی طرف رواں دواں ہیں اور ان کا جواب دے رہے ہیں اور ان سے آگ کے شعلے بڑھک رہے ہیں ۔ ابو قبیس نامی پہاڑ ایک تیز رفتار گھوڑے کے مانند دوڑ رہا ہے اور اس کے دائیں بائیں سے مسلسل ٹکڑے جدا ھو رہے ہیں اور لوگ ان جدا شدہ ٹکڑوں کو جمع کر رہے ہیں۔ میں نے بھی چار تلواریں اور لوہے کے طلائی رنگ کے ایک انڈے کو اٹھا لیا۔ جب میں شہر مکہ کے اندر داخل ھوئی تو میرے ہاتھوں سے ایک تلوار ایک کنویں میں گر کر نابود ھوئی، دوسری تلوار ھوا میں اڑ گئی اور تیسری تلوار زمین پر گر کر ٹوٹ گئی، لیکن چوتھی تلوار بدستور میرے ہاتھوں میں تھی، کہ اچانک ایک شیر کے بچہ میں تبدیل ھوئی اور اس کے فورا بعد شیر کا بچہ ایک خطرناک شیر میں تبدیل ھوا۔ اس کے بعد یہ شیر میرے ہاتھوں سے نکل گیا اور پہاڑوں کی طرف دوڑا اور پہاڑوں پر گرج رہا تھا، ایک طرف دوڑتا تھا اور دوسری طرف سے باہر آتا تھا۔﴿۲۳﴾ اور لوگ ڈر کے مارے بیہوش ھورہے تھے، کہ اسی اثناء میں محمد﴿ص﴾ آئے اور شیر کی گردن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، شیر ایک بلی کے مانند سر تسلیم خم ھوگیا۔ میں ترس و اضطراب کی حالت میں نیند سے بیدار ھوئی اور اپنے خواب کی تعبیر کرانا چاہتی تھی، کہ مجھے ایک کاہن ملا اور اس نے میرے خواب کی یوں تعبیر کی:“ تیرے ہاں چار بیٹے پیدا ھوں گے اور اس کے بعد خداوند متعال تجھے ایک بیٹی عطا کرے گا، آپ کا ایک بیٹا پانی میں ڈوب جائے گا۔﴿۲۴﴾اور دوسرا جنگ میں قتل ھوجائے گا۔﴿۲۵﴾ اور تیسرا بیٹا طولانی عمر گزارنے کے بعد کئی اولاد اور نواسے اور پوتے چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ھو جائے گا۔﴿۲٦﴾لیکن چوتھا بیٹا امت کا پیشوا اور رھبر بن جائے گا اور صاحب حق و شمشیر بن جائے گا۔﴿۲۷﴾ وہ عظمت اور فضیلت والا ہے اور پیغمبر آخر الزمان ﴿ص﴾ کی بخوبی اطاعت و فرمانبرداری کرے گا۔﴿۲۸﴾
بیشک اس مومنہ خاتون کا سچا خواب شرمندہ تعبیر ھوا اور ان کے شجرہ طیبہ نے پھل دئے اور خداوند متعال نے چار بیٹے عطا کئے جن کے نام طالب، عقیل، جعفر اور علی ﴿ع﴾ تھے۔ تاریخ میں فاطمہ بنت اسد کی دو بیٹیاں درج ھوئی ہیں جن کے نام فاختہ، ملقب بہ ام ہانی﴿۲۹﴾ اور “ جمانہ” تھے۔ ام ہانی، ابو وہب ہبیرہ بن عمرو بن عامر مخزومی کی بیوی تھیں اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ان کا کافی احترام کرتے تھے اس نے فتح مکہ کے دن لوگوں کے ایک گروہ کی پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی خدمت میں شفاعت کی اور آنحضرت ﴿ص﴾ نے ان کی شفاعت کو قبول فرمایا۔﴿۳۰﴾ لیکن “ جمانہ” یا بعض دوسرے مورخین کے بقول “ اسماء” یا “ ربطہ”، سفیان بن حارث بن عبدالمطلب کی بیوی تھیں۔﴿۳١﴾
فاطمہ بنت اسد کی اولاد:
یہاں پر ہم فاطمہ بنت اسد کی اولاد کا ایک سرسری تعارف پیش کرتے ہیں:
١۔ عقیل بن ابیطالب: عقیل، فاطمہ بنت اسد کے دوسرے فرزند تھے، جو ہجرت سے چالیس سال قبل پیدا ھوئے ہیں۔ پیغمبر نور و رحمت ﴿ص﴾ ان سے خاص محبت اور الفت رکھتے تھے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ان کے بھائی علی ﴿ع﴾ نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی خدمت میں عرض کی اے رسول خدا ﴿ص﴾ ! کیا آپ عقیل کو دوست رکھتے ہیں؟ جواب میں آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا: جی ہاں، خدا کی قسم میں دو لحاظ سے اسے دوست رکھتا ھوں، ایک خود ان کے لئے اور دوسرا ابوطالب کی محبت کی وجہ سے، بیشک ان کا بیٹا تمھارے بیٹے کی محبت و دوستی میں قتل کیا جائے گا اور مؤمنین کی آنکھیں ان کے لئے آنسوں بہائیں گی اور مقرب فرشتے ان پر درود بھیجیں گے ﴿ ان کے لئے استغفار کریں گے﴾ ۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے آنسوں بہائے جو ان کے سینہ مبارک پر جاری ھوئے، اس کے بعد فرمایا: جو کچھ میرے بعد میرے خاندان پر گزرے گی میں اس کا بارگاہ الہی میں شکوہ کروں گا۔﴿۳۲﴾
عقیل دنیا پرست اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے نہیں تھے اور دنیا کی زرق برق انھیں فریب نہیں دے سکی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ معاویہ ان کے لئے تحفہ و تحائف بھیج رہا تھا، لیکن انھوں نے تاریکی میں نور کی اصطلاحات سے استفادہ کرتے ھوئے اپنے ایمان کی پائداری اور اعتقاد کے استحکام کا ثبوت پیش کیا اور کمال تنگدستی اور محتاجی کے عالم میں معاویہ کے مقابلے میں استحکام و پائداری کے ساتھ مقابلہ کیا اور مضبوطی کے ساتھ اپنے الہی اعتقادات کو عملی جامہ پہنایا۔ ابن ابی الحدید یوں نقل کرتے ہیں: انھوں﴿عقیل﴾ نے امام علی ﴿ع﴾ کے دور حکومت میں “ ضحاک بن سالم” کے شبخون کے بعد حضرت ﴿ع﴾ کے نام ایک خط میں لکھا:“ بیشک یہ خبر ﴿ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ حملہ آور اور کارشکنی کرنے والے حملہ کے بعد صحیح و سالم لوٹے اور کوئی انھیں صدمہ نہیں پہنچا سکا﴾ مجھے پہنچی کہ آپ کے دوست و احباب نے آپ کو تنہا چھوڑا ہے۔ میری ماں کے بیٹے! مجھے لکھنا اور کہنا کہ آپ کا نقطہ نظر کیا ہے اور کیا حکم دے رہے ھو۔ اگر موت﴿ جنگ کی طرف کنایہ﴾ چاہتے ھو، میں آپ کے بھتیجوں بھائیوں کے ہمراہ حرکت کروں گا۔ ہم آپ ﴿ع﴾ کی وجہ سے زندہ ہیں اور آپ کے ساتھ مرنا چاہتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں آپ ﴿ع﴾ کے بعد ایک لمحہ بھی زندگی برداشت اور پسند نہیں کرتا ھوں خدا کی قسم، آپ ﴿ع﴾ کے بغیر ہماری زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے، خدا کے درود و سلام آپ پر ھو۔” ﴿۳۳﴾
تاریخ نے، فاطمہ بنت اسد کے اس بیٹے کے بارے میں ایک اور واقعہ درج کیا ہے کہ: امام علی ﴿ع﴾ کی شہادت اور امام حسن مجتبی ﴿ع﴾ کی صلح کے بعد ایک دن معاویہ نے حکم دیا کہ عقیل کے لئے ایک لاکھ درہم لائے جائیں اور ان سے کہا: میرے لشکر کے کیمپ اور اپنے بھائی کے لشکر کے کیمپ کے بارے میں اپنا نظریہ بیان کرنا، آپ نے ان دو لشکروں کو کیسے پایا؟ عقیل نے جواب میں کہا: خدا کی قسم میں اپنے بھائی کے کیمپ سے گزرا اور رات کو رسول خدا ﴿ص﴾ کی رات کے مانند اور دن کو رسول خدا ﴿ص﴾ کے ایام کے مانند پایا، صرف پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ان کے درمیان نہیں تھے۔ میں نے وہاں پر نماز گزاروں اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔ تیرے لشکر کے کیمپ سے بھی گزرا، اور وہاں پر منافقین کے ایک گروہ کو دیکھا، جنھوں نے “ لیلة العقبہ” میں پیغمبر ﴿ص﴾ کے اونٹ کو ھنکایا تھا۔﴿۳۴﴾ اس کے بعد معاویہ کے اصحاب کی طرف مخاطب ھوکر معاویہ اور اس کے ساتھیوں کی بعض خصوصیات اور شجرہ نسب بیان کرکے انھیں شرمسار کردیا۔
۲۔ جعفر بن ابیطالب:
جعفر کی پیدائش کے بعد، حضرت ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد نے اسے ان کے چچا جناب عباس کے حوالہ کیا تاکہ وہ اپنے بھتیجے کی سرپرستی انجام دیں۔ ابوطالب اقتصادی بحران سے دوچار ھوئے تھے، اس لئے جعفر کو ان کے چچا عباس کی کفالت میں قرار دیا۔
تاریخ میں جو اہم رول حضرت جعفر بن ابیطالب کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے، وہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی سرپرستی ہے۔ فاطمہ بنت اسد کے اس بیٹے نے شجاعت اور حق پرستی و حق گوئی اپنے اسلاف سے وراثت میں پائی تھی۔ انھوں نے اپنے باپ سے یکتا پرستی سیکھی تھی اور اپنی ماں سے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے لئے جاں نثاری اور فرمانبرداری سیکھی تھی۔
حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر بن ابیطالب نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی تعلیمات کو ایسے بیان کیا کہ نجاشی زبردست متاثر ھوا اور اس کے نتیجہ میں نجاشی نے حضرت جعفر بن ابیطالب اور ان کے ہمراہ آئے ھوئے تمام مھاجروں کی خاطر تواضع کی اور اس سرزمین پر امن و سلامتی کی ضمانت کا حکم دیا۔ اس طرح کفار مکہ کی مسلمانوں کے خلاف تمام ریشہ دوانیاں اور تہمتیں نجاشی کو مسلمانوں کی حمایت سے منصرف نہیں کرسکیں اور اس سلسلہ میں حضرت جعفر بن ابیطالب کا رول کلیدی اور بنیادی تھا۔
حضرت جعفر بن ابیطالب اور ان کے ساتھیوں نے حبشہ میں پندرہ سال گزارے اور اس کے بعد وطن لوٹنے کا وقت آیا۔ اس وقت مسلمان صاحب اقتدار اور شان و شوکت کے مالک بن چکے تھے اور کفار مکہ اس قدر ناتوان اور کمزور ھوچکے تھے کہ اب مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم کرنے کی جرآت نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ کو ان کی عدم موجودگی میں اپنے عقد میں قرار دے چکے تھے اور جعفر بن ابیطالب نے انھیں اپنے ساتھ مدینہ تک لایا۔ جب جعفر بن ابیطالب مدینہ پہنچے تو پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھے، جعفر کو اپنی آغوش میں لے کر فرمایا:“ خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ کس بات پر زیادہ خوش و شادھوں، تمھاری تشریف آوری پر یا جنگ خیبر میں تیرے بھائی کے حق میں خدا کی مدد پر”۔﴿۳۵﴾
بیشک فاطمہ بنت اسد نے اپنے بیٹوں کی ایسی تربیت کی تھی کہ ان میں سے ہر ایک پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے لئے شادی و خوشحالی کا سبب بن گیا تھا۔ جعفر بن ابیطالب کے قابل فخر کارناموں میں سے یہ ہے کہ وہ تیسرے شخص تھے جنھوں نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی دعوت پر ایمان لایا اور آنحضرت ﴿ص﴾ کی دعوت کی اطاعت و پیروی کی۔﴿۳٦﴾ جعفر بن ابیطالب نے رسول خدا ﴿ص﴾ سے ایک معنوی تحفہ حاصل کیا ہے جو نماز تسبیح یا نماز جعفر طیار کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت جعفر طیار کی دوسری خصوصیات میں سے اسلام کی راہ میں شجاعت، جاں نثاری اور یکتا پرستی ہے۔ ان کی شجاعت، بےباکی اور جوانمردی غزوہ“ موتہ” میں کمال تک پہنچی۔ یہ جنگ مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان واقع ھوئی اور مسلما نوں کے لشکر کے علمبردار حضرت جعفر طیار تھے۔ مورخین نے لکھا ہے کہ جعفر بن ابیطالب پرچم کو ہاتھ میں لئے ھوئے جنگ کر رہے تھے کہ ان کا دایاں بازو کاٹا گیا تو انھوں نے پرچم کو بائیں ہاتھ میں لے لیا اور اس کے بعد ان کے بائیں بازو کو بھی کاٹا گیا، اس کے بعد انھوں نے پرچم کو آغوش میں لے کر جنگ جاری رکھی یہاں تک کہ شہید ھوئے۔ حضرت جعفر طیار کی شجاعت کا یہ عالم تھا کہ ان کے بدن پر کثرت سے زخم لگے تھے، یہاں تک بعض مورخین نے ان زخموں کی تعداد کو ستر تک ذکر کیا ہے، لیکن قابل غور ہے کہ ان کی پشت پر ایک زخم بھی نہیں لگا تھا! یعنی انھوں نے ایک لمحہ بھی دشمن کی طرف پشت نہیں کی تھی بلکہ مسلسل دشمن کی طرف رخ کرکے لڑتے تھے۔﴿۳۷﴾
لیکن ان کے ظاہری اور باطنی کمالات کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:“ اشبھت خلقی و خلقی” “ تخلیق اور رفتار میں تم میرے شبیہ ھو۔”﴿۳۸﴾ وہ کیوں ایسا نہ ھوتے جبکہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے جعفر بن ابیطالب کے بہشت میں بلند مقام و منزلت کے بارے میں یوں خبر دی ہے کہ: جعفر کو میں نے بہشت میں دیکھا کہ دو پروں سے فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں۔﴿۳۹﴾ اور اس کے علاوہ فرمایا:“ ہم عبدالمطلب کی اولاد اہل بہشت کے سردار ہیں، میں، علی، حمزہ، حسن، حسین اور مھدی”۔﴿۴۰﴾
۳۔ علی بن ابیطالب ﴿ع﴾:
علی ﴿ع﴾ فاطمہ بنت اسد اور ابوطالب کی آخری اولاد ہیں، یہ وہ فرزند ہیں، جو مقام و منزلت، فضیلت اور انسانیت میں برترین شخص ہیں، البتہ بیشک خاتم الانبیاء و مرسلین﴿ص﴾ سے پائین تر ہیں۔ حضرت علی ﴿ع﴾ کی ان تمام فضیلتوں کا راز، رسول خدا ﴿ص﴾ کی بلا چون و چرا پیروی اور اطاعت میں مضمر ہے۔ علی ﴿ع﴾ کی بے مثال فضیلتوں میں بچپن میں اسلام قبول کرنا اور کسی بت کے سامنے کبھی نہ جھکنا ہے، اس لئے ان کے بارے میں کہا گیا ہے:“ کرم اللہ وجھہ” سات سال تک صرف علی ﴿ع﴾ اور پیغمبر ﴿ص﴾ نماز پڑھنے والے تھے، اس لئے نبی اکرم ﴿ص﴾ کے ساتھ نماز پڑھنے والے پہلے شخص علی ﴿ع﴾ تھے۔ کفار مکہ کی طرف سے رسول خدا ﴿ص﴾ کو قتل کرنے کی سازش کے سلسلہ میں حضرت علی ﴿ع﴾ پیغمبر اسلام کے بسترہ پر سوئے، تاکہ آنحضرت ﴿ص﴾ رات کی تاریکی میں مشرکین مکہ کے شر سے بچ کر نکل سکیں، پس پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے لئے جاں نثاری کا مظاہرہ کرنے والے اور آنحضرت ﴿ص﴾ کا دفاع کرنے والے پہلے شخص حضرت علی ﴿ع﴾ تھے۔ حضرت علی ﴿ع﴾ ہمیشہ اور ہر حالت میں فضیلتوں کی طرف دوڑتے تھے، یہاں تک کہ تمام انصاف پسند مسلمان کے اعتراف کے مطابق قرآن مجید کی متعدد آیات حضرت علی ﴿ع﴾ سے مخصوص ہیں۔﴿۴١﴾
پیغمبر خدا ﴿ص﴾ نے فرمایا ہے:“ اگر تمام درخت قلم بن جائیں، تمام سمندر سیاہی بن جائیں، تمام جنات حساب گر اور تمام انسان لکھنے والے بن جائیں، تو بھی علی بن ابیطالب کے تمام فضائل کو جمع نہیں کرسکیں گے”۔﴿۴۲﴾ آنحضرت ﴿ص﴾ نے ایک دوسری جگہ پر فرمایا ہے:“ علی ﴿ع﴾ کے چہرہ پر نگاہ کرنا عبادت ہے، اور ان کو یاد کرنا عبادت ہے۔ خداوند متعال کسی بندے کے ایمان کو قبول نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ وہ علی ﴿ع﴾ کی پیروی اور ان کے دشمنوں سے دوری اختیار کرے”۔﴿۴۳﴾
اس کے علاوہ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا ہے:“ جو شخص مجھ پر اعتقاد رکھتا ہے اور مجھ پر ایمان لایا ہے، میں سفارش کرتا ھوں کہ وہ علی ﴿ع﴾ کی ولایت کو قبول کرے، جو اس کی پیروی کرے گا اس نے میری پیروی کی ہے اور جس نے میری پیروی کی، اس نے خداوند متعال کی پیروی کی ہے”۔﴿۴۴﴾
امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ ﴿ع﴾ نے فرمایا ہے:“ جب فاطمہ بنت اسد اپنے شوہر ابو طالب کے پاس آئیں تاکہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی ولادت کی خوش خبری انھیں سنادے، ابوطالب نے ان سے کہا:“ سبتی” کے برابر صبر کرنا میں تجھے پیغمبری کے علاوہ ان﴿ص﴾ کے مانند ﴿ اولادکی﴾ خوش خبری دوں گا۔ اور کہا: تیس سال کو “سبت” کہتے ہیں اور حقیقت میں پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور علی﴿ع﴾ کی عمر کے درمیان تیس سال کا فاصلہ ہے۔
۴۔ ام ہانی:
ام ہانی ایک عظیم اور بلند مرتبہ خاتون ہیں۔ ایمان و تقوی اور راسخ العقیدہ ھونے اور تربیت و پاکدامنی میں وہ فاطمہ بنت اسد کی حقیقی بیٹی ہیں۔ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے اسی خاتون، یعنی ام ہانی کے گھر سے معراج کی ہے۔﴿۴۵﴾ اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی معراج کی ابتداء ان ہی کے گھر سے ھوئی ہے۔ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کے ہاں اس خاتون کی قدر و منزلت اس قدر بلند تھی کہ جب ایک گروہ نے ان کے ہاں پناہ لے لی، تو وہ آنحضرت ﴿ص﴾ کی خدمت میں حاضر حوئیں اور اس واقعہ کی خبر دیدی اور پیغمبر رحمت﴿ص﴾ نے فرمایا:“اجرت من اجرت” ﴿۴٦﴾
ایک دن پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے حسنین ﴿ع﴾ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں آپ کو ان بہترین لوگوں کا تعارف کراؤں جن کے بہترین چچا اور پھپھی ہیں؟ انہوں نے جواب میں کہا: جی ہاں، یا رسول اللہ﴿ص﴾، اس کے بعد رسول خدا ﴿ص﴾ نے فرمایا: وہ حسن﴿ع﴾ اور حسین﴿ع﴾ ہیں جن کے چچا جعفر اور پھپھی ام ہانی یعنی ابوطالب کی اولاد ہیں”۔﴿۴۷﴾
فاطمہ بنت اسد کی بیٹی نے اس سے آگے بڑھ کر اپنا نام راویان پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ میں درج کیا ہے۔ ام ہانی کی نقل کی گئی روایتوں میں سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، جو موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے حالات سے مطابقت رکھتی ہے۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا:“ لوگوں کے لئے ایسا زمانہ آئے گا کہ اگر آپ نے کسی کا نام سنا تو بہتر ہے کہ اسے دیکھ لوگے اور اگر اسے دیکھ لیا تو اسے امتحان کرنے سے بہتر ہے اور اگر اس کا امتحان کرو گے تو آپ کو معلوم ھوگا کہ ان کا دین و مذہب پیسے ہیں، ان کا ہم و غم ان کا شکم ہے اور ان کا قبلہ، ان کی بیویاں ہیں، روٹی کے لئے رکوع بجا لاتے ہیں اور درہم و دینار کے مقابلے میں سجدہ کرتے ہیں، وہ حیرت اور مستی کے عالم میں ہیں، نہ مسلمان ہیں اور نہ عیسائی”۔﴿۴۸﴾
فاطمہ بنت اسد کی اپنے بیٹے علی﴿ع﴾ اور بہو، فاطمہ ﴿ع﴾ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت:
حضرت محمد رسول اللہ ﴿ص﴾ کو خدا کا حکم ملا کہ مدینہ ﴿یثرب﴾ کی طرف ہجرت کریں تاکہ لوگوں کو دین توحید کی طرف دعوت کرنے میں وسعت پیدا ھوجائے، یثرب کے لوگوں کی بھی تربیت کی جائے اور امتحان دینے کے ضمن میں ان کی الہی تربیت بھی کی جائے تاکہ انھیں“ انصار” کا قابل فخر لقب مل جائے اور مھاجرین کے لئے پناہ گاہ بن جائیں۔ بیشک الہی قوانین کے تحت شہر یثرب ﴿مدینہ﴾ کو حکومت اسلامی کا دارالخلافہ اور مسلمانوں کے اقتدار کو تقویت بخشنے کا سبب بننا چاہئے تھا، اس لئے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کو مخفیانہ طور پر راتوں رات اس شہر کی طرف روانہ ھونا چاہئے تھا۔
پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ نے مدینہ پہنچنے کے بعد علی﴿ع﴾ کے نام ایک خط لکھا اس خط کو “ ابی و اقدالیثی” کے ذریعہ روانہ کیا اور اس میں حضرت علی ﴿ع﴾ کو حکم دیا تھا کہ مدینہ میں آپ﴿ص﴾ کے کے پاس آئیں۔ علی ﴿ع﴾ فاطمہ﴿س﴾ بنت رسول خدا ﴿ص﴾ ، اپنی ماں، فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کی طرف روانہ ھوئے۔ اس سفر میں رسول خدا ﴿ص﴾ کے غلام“ ایمن” اور پیغمبر اسلام﴿ص﴾ کے قاصد“ ابو واقد” بھی حضرت علی ﴿ع﴾ کے ہمراہ تھے۔ ابتداء میں ابو واقد راہنما تھے، اور کفار مکہ کے پیچھا کرنے کے خوف سے تیز چل رہے تھے کہ علی ﴿ع﴾ نے اس سے کہا کہ: خواتین کا خیال رکھنا اور اس قدر تیز نہ چلنا کیونکہ خواتین ناتوان اور ضعیف ہیں! ابو واقد نے قریش کی طرف سے اذیت و آزار کے بارے میں کہا۔ علی ﴿ع﴾ نے اس سے فرمایا: پریشان نہ ھوجاؤ کیونکہ رسول خدا ﴿ص﴾ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ: اے علی! اس کے بعد وہ تمھیں صدمہ نہیں پہنچا سکتے ہیں اور آپ کے لئے کوئی حادثہ رونما نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت علی ﴿ع﴾ کاروان کے سالار بن گئے اور آرام و سکون سے آگے بڑھتے ھوئے یہ شعر پڑھ رہے تھے:
لیس الا اللہ فارفع ظنکا یکفیک رب الناس ما اھمکا
﴿خدا کے سوا کوئی نہیں ہے، پس تیری امید بڑھنی چاہئے، لوگوں کے لئے پروردگار کافی ہے۔﴾
راستہ میں، علاقہ “ ضجنان” میں پہنچنے سے پہلے، قریش کے سات مسلح افراد ان مھاجرین کی راہ پر گھات لگا کر بیٹھے تھے اور ان کو واپس مکہ لوٹا دینا چاہتے تھے، اس گروہ کا آٹھواں فرد حارث بن امیہ کا غلام تھا، جس کا نام “ جناح” تھا۔ یہاں پر حضرت علی ﴿ع﴾ “ ایمن” اور “ ابی واقد” کی طرف بڑھے اور انھیں فرمایا اونٹوں کو روک لیں اور خواتین کو اونٹوں سے نیچے اتارا گیا، اس کے بعد علی ﴿ع﴾ ان آٹھ افراد کے گروہ کی طرف بڑھے، فاطمہ بنت اسد کے بیٹے نے ان کے ساتھ ایسی شجاعانہ جنگ کی جس کے نتیجہ میں وہ افراد اپنے منحوس ارادہ سے منصرف ھونے پر مجبور ھوئے، اور حضرت علی ﴿ع﴾ نے ان سے فرمایا: میں یثرب میں اپنے چچازاد بھائی کے پاس پہنچنا چاہتا ھوں، جو اپنا خون بہانا چاہتا ھو وہ ہمارا تعاقب کرے یا میرے نزدیک آئے، اس کے بعد اپنے دو ساتھیوں ۔۔۔ ایمن و ابی واقد ۔۔۔ کے پاس آگئے اور فرمایا: روانہ ھوجاؤ، اس کے بعد روانہ ھوئے، یہاں تک کہ علاقہ“ ضجنان” پہنچے اور وہاں پر ایک دن اور ایک رات ٹھرے۔ اس رات کو پوپھٹنے تک علی ﴿ع﴾ اور تین فاطمہ ﴿ ماں، ہمسر، اور چچازاد بہن﴾ نماز، ذکر و عبادت میں مشغول رہے اور صبح کی نماز علی ﴿ع﴾ کی امامت میں پڑھی، اور یہی واقعہ آیہ شریفہ:“ الذین یذکرون الله قیاماً و قعوداً و علی جنوبهم و یتفکرون فی خلق السّماوات و الأرض ربنا ما خلقت هذا باطلاً... فاستجاب لهم ربهم أنی لا أُضیع عمل عاملٍ منکم من ذکرٍ أو انثی بعضکم مِن بعض" کی شان نزول کا سبب بنا۔ اس آیہ شریفہ میں “ ذکر” سے مراد علی علیہ السلام و “ انثی” سے مراد فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں اور “ بعضکم من بعض” یعنی علی فاطمہ سے ہیں اور یا علی فواطم سے ہیں اور وہ ﴿ فواطمہ﴾ علی ﴿ع﴾ سے ہیں۔﴿۴۹﴾ اور یہی نورانی ہجرت، جس میں بظاہر پندرہ دن لگ گئے، اس خاتون کے افتخارات کی ایک اور سند ہے،﴿۵۰﴾ فاطمہ بنت اسد نے اس ہجرت میں ایک اور فضیلت حاصل کی، کیونکہ خداوند متعال نے انھیں ان افراد میں شامل کیا جن کی دعا خدا نے قبول کی ہے اور انھیں نیک اجر عطا کیا ہے۔
ابن اثیر کی تاریخ میں یوں آیا ہے کہ:“ علی ﴿ع﴾ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی طرف سے انھیں دی گئی ماموریت ۔۔۔۔ امانتوں کو صاحبان امانت کو لوٹا دینے ۔۔۔۔ سے فارغ ھونے کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ھوئے۔ رات کو چلتے تھے اور دن کو مخفی رہتے تھے، یہاں تک کہ مدینہ پہنچے، جبکہ ان کے پاؤں میں چھالے پڑےتھے۔ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھے اور انھیں اپنی آغوش میں لے لیا اور ان کے پاؤں کی حالت دیکھ کر روپڑے، اس کے بعد اپنے لعاب دہن کو اپنے ہاتھوں پر ڈالنے کے بعد علی ﴿ع﴾ کے پاؤں پر مل لیا اس کے بعد علی ﴿ع﴾ کے پاؤں کا درد دور ھوا”۔﴿۵١﴾
مدینہ کی طرف ہجرت، فاطمہ بنت اسد کے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی رسالت کے بارے میں عمیق اعتقاد کا ثبوت ہے کیا گھر بار اور وطن چھوڑنا گہرے ایمان کی نشانی نہیں ہے؟
بنت اسد کے دل میں ایک ایسا ایمان اور اعتقاد تھا، جس نے انھیں ایک عظیم اور قابل ستائش کام انجام دینے پر مجبور کیا، جس کام کی وجہ سے انھوں نے اپنے اوپر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے جد امجد حضرت رسول خدا ﴿ص﴾ سے نقل کرکے فرمایا ہے کہ: “ خداوند متعال نے اپنے پیغمبر ﴿ص﴾ پر وحی نازل کی:“ میں نے تجھے نازل کرنے والے صلب، تجھے حمل کرنے والے رحم، تیری کفالت کرنے والے دامن اور تجھے پناہ دینے والے خاندان پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیا ہے”۔ عبداللہ اس صلب کے مالک ہیں، آمنہ بنت وہب ان سے حاملہ ھوئیں اور ان کی کفالت اور پرورش کرنے والا دامن فاطمہ بنت اسد کا دامن ہے اور انھیں پناہ دینے والا خاندان ابوطالب کا خاندان ہے۔﴿۵۲﴾
بیشک وعدہ الہی یہ ہے کہ کسی کے اجر کے بارے میں خداوند متعال چشم پوشی نہیں کرتا ہے، اور فاطمہ بنت اسد بہترین لوگوں میں شائستہ بن گئیں اور رضائے الہی کی مالک بن گئیں۔ یہ وہ خاتوں ہیں، جنھوں نے کائنات کی بہترین مخلوق کو اپنی محبت بھری آغوش میں پرورش کی اور محمد ﴿ص﴾ کی حمایت و دفاع کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ فاطمہ بنت اسد حضرت محمد ﴿ص﴾ کو صرف ایک بچے اور رشتہ دار کی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھیں، کہ جسے محبت اور نگرانی کی ضرورت تھی، کیونکہ حضرت محمد ﴿ص﴾ کے بڑے اور بالغ ھونے کے بعد بھی فاطمہ بنت اسد ان کی حفاظت کرتی تھیں۔ لیکن اس مرحلہ میں وہ چوکس تھیں کہ ایسا نہ ھو کہ محمد ﴿ص﴾ کوئی چیز کہیں اور حکم دیدیں اور وہ اس کی طرف توجہ نہ کرے اور اس طرح پیغمبر خدا ﴿ص﴾ کو ناراحت کرے! ھوشیاری سے کام لیتی تھیں، کہیں ایسا نہ ھو کہ خداوند متعال کا پیغمبر ﴿ص﴾ اسے کسی کردار و گفتار کے بارے میں منع کریں اور وہ ان کی پیروی نہ کرے! فاطمہ، اسد نامی ایک یکتا پرست عظیم شخصیت کی بیٹی تھیں، اور حضرت محمد﴿ص﴾ جیسے منادی توحید اور بے مثال پیغمبر خدا ﴿ص﴾ کی پرورش کرنے والی خاتون اور علی ﴿ع﴾ جیسے مخلصانہ بندگی کے مظہر کی ماں تھیں۔
فاطمہ بنت اسد کا، آنحضرت ﴿ص﴾ کی رسالت پر ایمان لانا:
مورخین نے یوں نقل کیا ہے کہ۔“ پیغمبر آخرالزمان ﴿ص﴾ کی رسالت پر ایمان لانے والی دوسری خاتون فاطمہ بنت اسد تھیں اور اسی ایمان کی وجہ سے انھیں قریش کی عورتیں اور مرد سرزنش کرتے تھے۔ لیکن انھوں نے پائداری اور استقامت کے ساتھ ان تمام طعنہ زنیوں اور دھمکیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ زبیر بن عوام اس سلسلہ میں یوں نقل کرتے ہیں:“ میں نے سنا کہ رسول خدا﴿ص﴾ نے آیہ شریفہ:“ یا ایھا النبی اذا جاءک المؤمنات یبا یعنک” کے نازل ھونے کے وقت عورتوں سے اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی اور علی ﴿ع﴾ کی ماں فاطمہ بنت اسد پہلی خاتون تھیں جنھوں نے آپ ﴿ص﴾ کی بیعت کی اور “ السابقون” کی حقیقی مصداق نبی " و السابقونَ الأولون مِن المُهاجرینَ و الأنصارِ والذین اتبعوهم بإحسانِ رَضِیَ الله عنهم و رضوا عنه وأعدَّ لهم جناتٍ تجری من تحتها الأنهارُ خالدین فیها أبداً ذَلک الفوزُ العظیم ".
لیکن فاطمہ بنت اسد کے اسلام قبول کرنے کی دقیق تاریخ اور زمانہ کے بارے میں مورخین کے درمیان اتفاق نظر نہیں پایا جاتا ہے، البتہ اس سلسلہ میں کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ وہ دعوت الہی کو قبول کرنے والے پیشرؤں میں شامل تھیں ۔ بعض مورخین ان کو واضح طور پر اسلام قبول کرنے والی گیارہویں فرد کے عنوان سے جانتے ہیں۔﴿۵۳﴾ اور بعض دوسرے افراد کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت اسد کے بلند مقام و منزلت کے سلسلہ میں اتناہی کافی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے علی ﴿ع﴾ کو کعبہ کے اندر جنم دیا، جو ان کے دوسروں پر ایمان کی سبقت کی دلیل ہے، اور وہ گیارہویں مسلمان ہیں اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ ان کی قدر دانی فرماتے تھے اور انھیں ماں کہکر پکارتے تھے۔﴿۵۴﴾ یہ اس حالت میں ہے کہ بعض دوسرے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ گیارہویں فرد تھیں جس نے اسلام لانے کا اعلان کیا اور بعید جانتے ہیں کہ انھوں نے ابتداء میں ہی اور اعلان کرنے سے پہلے ایمان نہ لایا ھو!۔﴿۵۵﴾ یہ لوگ اپنے اس دعوی کی دلیل ان کے بیٹے علی ﴿ع﴾ کے وضع حمل کے وقت فاطمہ بنت اسد کی زبان سے جاری ھونے والے مناجات جانتے ہیں، جس کا ایک ایک بند توحیدی اعتقادات سے چھلکتا ہے، یہ ایک ایسے شخص کی زبان سے جاری ھونے والے مناجات ہیں جس کا سر کبھی بتوں کے سامنے نہیں جھکا ہے اور ہمیشہ پروردگار عالم اور وحدہ لاشریک پر ایمان رکھتی تھیں اور اسے تنہا معبود و معشوق عالم جانتی تھیں۔ بیشک فاطمہ بنت اسد نے تخلیق، ربوبیت، افعال اور عبودیت میں توحید والے پروردگار کو پایا تھا اور مشرکین اور بت پرستوں کے مانند صرف تخلیق کو خدا کا کام نہیں جانتی تھیں، وہ اپنے زمانہ کے مشرکین کے مانند دنیا کی مخلوقات کی پرورش کے لئے مختلف ارباب کا اعتقاد نہیں رکھتی تھیں۔
فاطمہ بنت اسد اور ان کے شوہر پر عہد رسالت میں ایمان نہ لانے اور احکام پر عمل نہ کرنے کا الزام!
پوری تاریخ میں ہمیشہ بافضیلت اور برتر افراد، دنیا پرستوں ، حسد و کینہ رکھنے والوں اور منافقوں کی طرف سے جارحیت کے شکار ھوتے رہے ہیں۔ اس کی پہلی مثال خود پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے صدر اسلام میں پائی جاتی ہے کہ کئی مومن افراد پر جھوٹ، افتراء اور جنون کا الزام لگایا گیا۔ حضرت ابوطالب اور ان کی شریک حیات فاطمہ بنت اسد بھی اس جارحیت اور الزام سے محفوظ نہ رہے اور ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اسلام نہیں لایا تھا، یہاں تک کہ امام علی بن الحسین ﴿زین العابدین﴾ ﴿ع﴾ سے سوال کیا گیا:“ کیا ابوطالب ایمان لائے تھے اور اس دنیا سے بعنوان مسلمان رخصت ھوئے ہیں؟” امام ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا:“ تعجب کی بات ہے کہ خداوند متعال نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو نہی فرمایا ہے کہ مسلمان عورت کو غیر مسلمان شوہر کے عقد میں قرار نہ دینا اور فاطمہ بنت اسد اسلام لانے میں پیشرو تھیں اور جناب ابوطالب کی زندگی کے آخری لمحات تک ان کی بیوی تھیں۔” امام ﴿ع﴾ نے اس فرمائش سے اس نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حضرت ابوطالب کے ایمان پر شک کرنا خود رسول اللہ ﴿ص﴾کے توسط سے احکام الہی کو نافذ کرنے میں شک کرنے کے مترادف ہے، اور اسی کے ساتھ ابوطالب کے مسلمان ھونے میں پیشرو ھونے کی تاکید ہے، کیونکہ بیشک فاطمہ بنت اسد، گروہ اول کے مسلمانوں میں شامل تھیں! فاطمہ بنت اسد حضرت علی ﴿ع﴾ کی ماں ہیں اور علی ﴿ع﴾ کو حمل کرنے والا رحم بیشک ایک پاک رحم ہے۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں:“ میں نے علی بن ابیطالب کی پیدائش کے بارے میں رسول خدا ﴿ص﴾ سے سوال کیا، آنحضرت ﴿ص﴾ نے جواب میں فرمایا: آہ ! آہ! تم نے میرے بعد برترین مولود کے بارے میں سوال کیا ہے، جو حضرت عیسی ﴿ع﴾ کی سنت پر پیدا ھوئے ہیں خداوند متعال نے مجھے اور علی ﴿ع﴾ کو کائنات کو پیدا کرنے سے پانچ سو سال پہلے ایک ہی نور سے پیدا کیا ہے اور ہم نے اس کی تسبیح و تقدیس کی ہے اور جب آدم ﴿ع﴾ کو پیدا کیا، توہمیں ان کے صلب میں قرار دیا، میں دائیں جانب قرار پایا اور علی بائیں جانب قرار پائے۔ اس کے بعد ہم دونوں مسلسل پاک صلبوں اور رحموں میں منتقل ھوتے رہے، یہاں تک خداوند متعال نے مجھے عبداللہ کی پاک پشت سے آمنہ کے بہترین اور پاک رحم میں منتقل کیا، اس کے بعد علی کو ابوطالب کی پاک پشت سے فاطمہ بنت اسد کے پاک رحم میں منتقل کیا۔﴿۵٦﴾ اس روایت کے پیش نظر، جس کے راوی خود رسول خدا ﴿ص﴾ ہیں، معلوم ھوتا ہے کہ حضرت ابوطالب اور ان کی شریک حیات فاطمہ بنت اسد ایمان کے بلند ترین مقام پر فائز تھے اور اس طرح حضرت ابو طالب جیسی عظیم شخصیت کے غیر مسلم ھونے کا دعوی کرنے والوں کی حقیقت کا پول کھل جانا ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض نا عاقبت اندیش اور بغض و کینہ رکھنے والے افراد نے حضرت علی ﴿ع﴾ کی عظمت اور فضیلت کو گھٹانے کے لئے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے والد بزرگوار جناب ابوطالب پر غیر مسلمان ھونے کا الزام لگائیں اور ان کی والدہ گرامی جناب فاطمہ بنت اسد پر یہ الزام لگائیں کہ انھوں نے تاخیر سے اسلام قبول کیا ہے، لیکن یہ ناعاقبت اندیش اور بغض و کینہ رکھنے والے افراد اس سے غافل رہے ہیں کہ: “ ان اللہ یدافع عن الذین آمنوا” “ خداوند متعال خود سچے مومنین کا دفاع کرنے والا ہے۔” اور انھوں نے اس نورانی چہرہ پر حسد کی گرد ڈالنا چاہی ہے، جبکہ خدا کے اس وعدہ کو بھول گئے ہیں کہ: " یریدون لیطفئوا نور الله بأفواههم والله متم نوره و لو کره الکافرون" بیشک، کیا نورالہی کو کافروں اور مشرکوں کے پھونکوں سے بجھایا جاسکتا ہے؟” کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایسی خاتون کا رحم علی ﴿ع﴾ کو حمل کرے جو خود بت پرست ھو؟! کیا یہ ممکن ہے کہ جس کے صلب میں علی ﴿ع﴾ ھو، وہ خدا کے لئے کسی کو شریک قرار دے؟! “ أشهدُ أَنَّکُم کُنتم نُوراً فی الأصلابِ الشَّامِخةِ و الأرحامِ المُطَهَّرةِ "
ایک دوسری روایت، جس میں ان دونوں میاں بیوی کے ایمان کی تائید کی گئی ہے، میں یوں آیا ہے کہ:“ فاطمہ بنت اسد کہتی ہیں کہ: میں نے دیکھا کہ محمد﴿ص﴾ ایک خشک خرما کے درخت سے خرما کھا رہے ہیں، یہ خرما کافی خوشبو رکھتے تھے، اس قدر خوشبو دار تھے کہ مشک عنبر سے بھی بہتر، میں چاہتی تھی کہ ان خرماؤں سے مجھے بھی دیدیں، لیکن انھوں نے کہا : میں یہ خرما کھانے کا حق نہیں رکھتی ھوں، مگر یہ کہ ان کے ساتھ شہادتین پڑھوں اور میں نے ان کی فرمائش کے مطابق شہادتین کو دہرایا، اور اس کے بعد انھوں نے مجھے بھی ایک عدد خرما دیدیا، جب میں نے اسے کھالیا، میری اشتہا بڑھ گئی اور میں نے اپنے شوہر ابوطالب کے لئے بھی ایک خرما مانگا، لیکن انھوں نے کہا کہ ان کو بھی یہ خرما تب تک نہ دینا جب تک نہ وہ بھی شہادتین پڑھیں اور دوسری ایک روایت میں آیا ہے کہ ابوطالب نے شہادتین پڑھیں اور اس کے بعد پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ نے انھیں بھی ایک خرما کھلایا، اور فاطمہ بنت اسد اس ماجرا کے بعد حاملہ ھوئیں۔
اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ فاطمہ بنت اسد اور ابوطالب یکتا پرست اور دین حنیف ابراھیم ﴿ع﴾ پر تھے اور خدا کی وحدانیت کی شہادت دیتے تھے اور اپنے زمانہ کے مانند بت پرست نہیں تھے، لیکن دوسری شہادت یعنی محمد مصطفی ﴿ص﴾ کی رسالت کی گواہی ان کی پاکی و مسلمانی کے مکمل ھونے کا لازمہ بنا۔﴿۵۷﴾
بے مثال ماں اور بیٹے کی طہارت کے سلسلہ میں خداوند قادر کی نشانی:
اس عظیم خاتون کی عظمت و بزرگی کے بارے میں تقدیر الہی کا یہ عالم تھا کہ وہ قدم قدم پر خود کو رحمت بیکران الہی میں محسوس کرتی تھیں۔ ارادہ الہی یہ تھا کہ فاطمہ بنت اسد اپنے بیٹے کو دنیا کی بہترین و مقدس ترین جگہ پر جنم دے۔ بہتر ہے کہ اس سلسلہ میں قدیم تاریخ کا مطالعہ کریں اور عینی شاہدوں سے یہ واقعہ سنیں:
یزید بن قعنب کہتا ہے:“ میں عباس بن عبدالمطلب اور چند بت پرستوں کے ہمراہ، بت “عزی” کے پاس خانہ کعبہ کے مقابلے میں بیٹھا تھا، کہ اچانک فاطمہ بنت اسد کو دیکھا اور اس وقت وہ حاملگی کا نواں مہینہ گزار رہی تھیں، کہ ان پر وضع حمل کے حالات رونما ھوئے، پس انھوں نے مناجات کے لئے زبان کھولی اور یوں کہنے لگیں:“ میرے پروردگار! میں تجھ پر ایمان رکھتی ھوں اور تیرے تمام فرشتوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتی ھوں، اور بیشک میں اپنے جد امجد ابراھیم ﴿ع﴾ کے کلام کی تصدیق کرتی ھوں کہ انھوں نے خانہ عتیق کی بنیاد ڈالی ہے۔ پس اس کے واسطے جس نے اس گھر کی تعمیر کی ہے اور میرے بطن میں موجود بیٹے کے واسطے میرے وضع حمل کو آسان فرما!” یزید بن قعنب کہتا ہے:“ میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ میں پیچھے سے شگاف ہوگیا اور فاطمہ بنت اسد اس کے اندر داخل ھوگئیں اور ہماری نظروں سے اوجھل ھوگئیں۔ دیوار پھر سے اپنی پہلی حالت میں آگئی اور ہم اسے کھول نہ سکے، لہذا ہمیں معلوم ھوا کہ یہ خداوند عز و جل کی طرف سے کوئی امر ہے، چوتھے دن فاطمہ بنت اسد اپنے بیٹے علی کو گود میں لئے ھوئے خانہ کعبہ سے باہر آئیں اور کہا : بیشک مجھے گزشتہ خواتین پر فضیلت عطا کی گئی ہے، کیونکہ آسیہ بنت مزاحم ایک گھر میں پوشیدہ عبادت کرتی تھیں، خدا کو پسند نہیں تھا، مگر یہ کہ مجبوری کی حالت میں وہاں عبادت کرتیں﴿ فرعون کے گھر میں﴾ اور مریم بنت عمران ایک سوکھے ہوئے درخت خرما کو ہلاتی تھیں اور اس سے تازہ خرما تناول کرتی تھیں اور میں بیت اللہ الحرام میں داخل ھوئی اور بہشت کے میوے اور رزق سے بہرہ مند ہوئی اوراسے تناول کیا، اور جب میں اس گھر سے باہر آنا چاہتی تھی، ہاتفی نے آواز بلند کی کہ اے فاطہ! اس کا نام علی رکھنا کہ وہ بلند مرتبہ ہے، اور خداوند علی اعلی فرماتا ہے: بیشک میں نے اس کا نام اپنے نام کا مشتق قرار دیا ہے اور اسے اپنے ادب سے تربیت کی ہے اور میں نے اس کواپنے علم غیب کے بارے میں آگاہی عطا کی ہے، وہ میرے گھر کے اندر بتوں کو توڑ دے گا اور میرے گھر کی چھت پر اذان پڑھے گا اور میری تقدیس و تمجید کرے گا، پس مبارک ھو اس پر جو اس کی اطاعت کرے گا اور افسوس ھو اس پر جو اس کی نا فرمانی کرے گا۔”﴿۵۸﴾
مسلمان مورخین نے اس عظیم واقعہ کو مکرر ذکر کیا ہے اور اس سلسلہ میں احادیث کی قابل توجہ تعداد نقل کی ہے۔ شیخ محمد اردوبادی نے اپنی کتاب“ علی مولود کعبہ” میں اس فضیلت کے بارے میں سو سے زائد اسناد اور منابع ذکر کئے ہیں! قابل بیان ہے کہ اس عظیم روداد کو نقل کرنا اور ولادت کے وقت اس کا صرف اس خاتون سے مخصوص ھونا کوئی ایسا امر نہیں ہے جس کا ایک حقیقت پسند اور با انصاف محقق انکار کرسکے۔ غیر شیعہ، مسلمان مورخین اس مطلب کے گواہ ہیں۔ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب “ المستدرک” میں، حافظ کنجی شافعی نے “ کفایہ” میں، آلوسی نے “قصیدہ عینیہ” کی شرح میں اور مسعودی نے “ مروج الذھب”۔ ۔ ۔ میں اس مطلب کو نقل کرکے تمام غیر جانبدار بے غرض محققین پر حجت تمام کی ہے۔
فاطمہ بنت اسد ۔۔۔۔۔۔۔ ایک راوی کی حیثیت سے:
صدر اسلام کا زمانہ، ان اہم زمانوں میں سے ہے کہ سنت نبوی کے راویوں نے اپنے مشاہدات اورسنی سنائی داستانوں کو تاریخ میں درج کیا ہے اور اس قسم کی اکثر روایتیں ایسے افراد سے ہمارے لئے یادگار کے طور پر باقی رہی ہیں، جو پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے ہم نشین، صحابی اور یار و یاور تھے۔ عصر صحابہ میں ان راویوں اور محدثین میں کچھ خواتین بھی تھیں جو حدیث کو حفظ اور نقل کرتی تھیں، ایسی خواتین کے بارے میں فاطمہ بنت اسد اور ان کی بیٹی ام ہانی کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ بعض مورخین نے فاطمہ بنت اسد سے نقل کی گئی روایتوں کی تعداد ۴٦ تک بتائی ہے، کہ ہم نے ان میں سے بعض روایتوں کی طرف مختلف مواقع پر ذکر کیا ہے۔ اس خاتون نے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی ۸سالہ عمر سے آپ ﴿ص﴾ کے قول و فعل کا عینی مشاہدہ کیا اور سنا ہے اور امت اسلامیہ کے لئے بیان کیا ہے کہ ان میں سے بعض میں نبوت کی نشانیوں کی طرف اشارے تھے اور بعض روایتیں آنحضرت ﴿ص﴾کے، حتی بچپن میں آپ ﴿ص﴾ کی مہربانیوں اور آداب و تہذیب سے متعلق ھیں۔ اس کے علاوہ فاطمہ بنت اسد نے ابوطالب کے توسط سے اپنے بھتیجے کی کفالت کی کیفیت تفصیل سے بیان کی ہے، جو قطب راوندی کی کتاب“ الخرائج و الجرائح” میں مفصل طور پر درج کی گئ ہے۔
بیشک یہ خاتون“ امراة صالحہ” کی واضح مصداق ہیں، اور صالحین کا مقام ایک بلند مقام ہے، مقام صالحین ایک وصف ہے کہ خداوند متعال نے اپنے انبیاء ﴿ع﴾ کی وجودی عظمت کو اس وصف سے یاد کیا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: "إن الله یبشرک بیحیی مُصدقا بکلمةٍ من الله و سیداً و حصوراً و نبیاً من الصالحین" (۵۹﴾
ایک دوسری جگہ پر حضرت ابراھیم ﴿ع﴾ کی توصیف میں ارشاد فرماتا ہے: “ انہ فی الآخرة من الصالحین” ﴿٦۰﴾ اور فاطمہ بنت اسد نے اپنے ایمان، اعتقاد پر استقامت و بردباری کا مظاہرہ اور ہجرت کی سختیاں برداشت کرتے ھوئے ثابت کیا کہ وہ ایک شائستہ اور مثال خاتون ہیں۔ بیشک کائنات کی سب سے برتر اور بلند شخصیت پیغمبر نور و رحمت﴿ص﴾ کا وجود مبارک ہے اور کسی مسلمان کو اس سلسلہ میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں ہے۔ حضرت سرور عالم ﴿ص﴾ میں پائے جانے والے کمالات بقول خود آنحضرت ﴿ص﴾ نہ کسی فرشتے میں پائے جاتے ہیں اور نہ انبیائے الہی ﴿ع﴾ میں سے کسی میں۔ لیکن یہی بے مثال پیغمبر ﴿ص﴾ کبھی بعض حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے اور بعض شخصیتوں کی عظمت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرانے کے لئے کہ شائد ہم ان کی طرف کم توجہ دیتے ھوں، حضرت علی بن ابیطالب ﴿ع﴾ سے منقول ایک حدیث میں فرماتے ہیں: “ اے علی!تم ایسی چیزوں کے مالک ھو کہ میں ان کے مانند نہیں رکھتا ھوں، آپ کی صلب سے دو ایسے بیٹے متولد ھوئے ہیں کہ ان کے مانند میرے صلب سے کوئی نہیں ہے، خدیجہ جیسی ساس رکھتے ھو کہ میری ساس ان کے مانند نہیں ہے، آپ مجھ جیسے خسر رکھتے ھو کہ میرا خسر میرے مانند نہیں ہے، فاطمہ بنت اسد ہاشمی جیسی مھاجر ماں رکھتے ھو کہ میری ماں ان کے مانند نہیں ہے”۔﴿٦١﴾ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کا یہ کلام حضرت علی ﴿ع﴾ کی آنحضرت ﴿ص﴾ پر برتری کی دلیل نہیں ہے لیکن حضرت علی ﴿ع﴾ سے نسبت رکھنے والی شخصیتوں کی عظمت کی دلیل ہے۔ حضرت علی ﴿ع﴾ کے لئے حضرت فاطمہ زہراء ﴿س﴾ کی ہمسری بے مثال ترین پیوند آسمانی ہے، حسنین﴿ع﴾ آپ ﴿ع﴾ کے لئے تاریخ کی انتہا تک نور کا جاری رہنا ہے، حضرت خدیجہ ﴿س﴾ اور پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کا داماد ھونا ملکوت اعلی تک پرواز کرنے کے دو پر کے مانند ہے اور فاطمہ بنت اسد کا بیٹا ھونے کا نتیجہ کعبہ کے اندر پیدا ھونا تھا۔ پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے اس کلام پر غور کرنے سے معلوم ھوتا ہے کہ آنحضرت ﴿ص﴾ نے ہاشمی اور مھاجر ھونے کی دو خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے! ہاشمی ھونا ایک نسبتی فخر اور ایک الہی عنایت ہے، اس لئے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ اس کے فورا بعد مھاجر ھونے کی یاد دہانی کراتے ہیں، کہ یہ مقام خدا پر ایمان اور اس پر ثابت قدم رہنے کے نتیجہ میں حاصل ھوتا ہے۔
ایک اور امتحان:
بیشک، پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی مصیبتوں میں سے ایک اور مصیبت جو آپ ﴿ص﴾ کے لئے برداشت کرنا سخت اور سنگین تھی، ام المؤمنین حضرت خدیجہ ﴿س﴾ اور آپ ﴿ص﴾ کی با وفا شریک حیات سے محروم ھونا تھا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے اس سال کا نام “ عام الحزن” ﴿ غم و اندوہ کا سال﴾ رکھا، جس سال آپ ﴿ص﴾ کی شریک حیات ﴿حضرت خدیجہ﴾ اور آپ ﴿ص﴾ کے چچا ﴿ حضرت ابوطالب﴾ نے رحلت کی۔ رسول خدا ﴿ص﴾،حضرت خدیجہ﴿س﴾ سے محروم ھونے کے نتیجہ میں مہرومحبت سے مالامال ایک دل سے محروم ھوئے، یہ وہ دل تھا، جو آنحضرت ﴿ع﴾ کے لئے غم و شادی میں آپ ﴿ص﴾ کا شریک تھا، بیشک آپ ﴿ص﴾ ایک ایسی رفیق و مہربان شریک حیات سے محروم ھوئے، جو آپ ﴿ص﴾ کے شانہ بشانہ رسالت کی سنگینی برداشت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتی تھیں۔ وہ ایک ایسی رفیق و شفیق شریک حیات تھیں، جس نے اپنا سب مال و متاع اسلام کی تعلیمات کی ترویج اور تبلیغ میں صرف کیا تھا، اس شریک حیات اور رفیق راہ سے یادگار کے طور پر ایک پانچ سالہ بچی باپ کے پاس رہ چکی تھیں، یہ بچی ماں کی مامتا اور امن و سلامتی کے لئے ایک پناہ گاہ کی محتاج تھیں تاکہ ماں کی محرومیت کے غم میں اس کے لئے تسلی کا سبب بنے اور ماں کی محبت کی تلافی کرے۔ اب فاطمہ بنت اسد کے روف و مہربان قلب کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ کل تک یہ قلب محمد﴿ص﴾ کے عشق و محبت میں دھڑکتا تھا آج یہ قلب ان کی بیٹی کے عشق میں دھڑکنے کا سزاوار تھا، ایسی بیٹی جو اپنے باپ﴿ص﴾ کے بقول ریحانہ تھیں اور آپ ﴿ص﴾ کے بدن کا ٹکڑا اور لخت جگر تھیں۔ اس طرح یہ خاتون ایک بار پھر امتحان سے دوچار ھوئیں اس امتحان میں بھی سربلندی کے ساتھ پاس ھوئیں یہ تمام عورتوں میں صرف فاطمہ بنت اسد کو دنیا کی عورتوں کی سردار خاتون کی سرپرستی اور پرورش کی ذمہ داری سنبھالنے کی سعادت حاصل ھوئی۔﴿٦۲﴾
نورانی الوداع کے ساتھ دنیائے فانی سے رخصت:
حضرت فاطمہ بنت اسد کی عظمت، ایثار اور ایمان سے لبریز زندگی ہجرت کے تیسرے یا چوتھے سال اختتام کو پہنچی اور انھوں نے ٦۵ سال کی عمر میں ندائے الہی کو لبیک کہکر اس دار فانی سے کوچ کیا۔
امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ایک حدیث کے ضمن میں آیا ہے کہ: “ فاطمہ بنت اسد کی رحلت کے دن، علی ﴿ع﴾ روتے ھوئے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کی خدمت میں حاضر ھوئے، آنحضرت ﴿ص﴾ نے سوال کیا کہ: کیوں رو رہے ھو؟ انھوں نے جواب میں کہا: میری ماں، فاطمہ نے رحلت کی! جب رسول خدا ﴿ص﴾ نے یہ خبر سنی تو فرمایا: خدا کی قسم! میری ماں! اس کے بعد فاطمہ بنت اسد کے جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے دوڑتے ھوئے روانہ ھوئے ۔ جب انھیں دیکھا تو روتے ھوئے خواتین کو حکم دیا کہ انھیں غسل دیں اور فرمایا: جب غسل مکمل ھوجائے، اس کے بعد کوئی کام انجام نہ دینا، مگر یہ کہ مجھے اطلاع دیں۔ جب فاطمہ بنت اسد کو غسل دیا گیا، رسول خدا ﴿ص﴾ کو اطلاع دیدی گئ اور آپ ﴿ص﴾ نے اپنے ایک پیراہن کو خواتین کے ہاتھ میں دیدیا جسے آپ ﴿ص﴾ پہنتے تھے اور فرمایا کہ انھیں اس سے کفن کرنا اور مسلمانوں کی طرف مخاطب ھوکر فرمایا: اگر آپ نے مجھے آج ایسا کوئی کام کرتے مشاہدہ کیا کہ اس سے پہلے کسی کے لئے نہ کیا ھو تو مجھ سے اس کی علت پوچھنا۔ جب خواتین نے فاطمہ بنت اسد کو غسل دے کر کفن پہنایا، پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ داخل ھوئے اور جنازہ کو اپنے شانوں پر اٹھالیا اور اسے قبرستان تک پہنچا دیا، اس کے بعد پہلے خود قبر میں اتر کر لحد میں لیٹے اس کے بعد اٹھے اور فاطمہ بنت اسد کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لحد میں رکھ دیا، اس کے بعد جھک کر کچھ کہا اور فرمایا: “ تمھارا بیٹا! تمھارا بیٹا!” اس کے بعد قبر سے باہر تشریف لائے اور لحد پر مٹی ڈال دی اور دوبارہ جھک کر کچھ پڑھنے لگے، لوگوں نے سنا کہ فرماتے تھے: لا الہ الا اللہ ، خداوندا! اسے میں نے تیرے حوالہ کیا۔ اس کے بعد رسول خدا ﴿ص﴾ واپس لوٹے، مسلمانوں نے کہا: ہم نے دیکھا کہ آج آپ ﴿ص﴾ نے ایسے غیر معمولی کام انجام دئے، کہ اس سے قبل ہم نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ آنحضرت ﴿ص﴾ نے فرمایا: آج میں ابوطالب کی نیکی سے محروم ھوگیا، وہ مجھے ہر چیز میں اپنی اولاد پر برتری دیتی تھیں، جب میں نے ان﴿فاطمہ بنت اسد﴾ سے کہا کہ قیامت کے دن سب عریان محشور ھوں گے، کہا: افسوس ھو میرے حال پر، میں نے ضمانت دیدی کہ خداوند متعال انھیں لباس کے ساتھ محشور فرمائے گا، جب میں نے فشار قبر کے بارے میں کہا، تو کیا: افسوس ھو میری ناتوانی اور کمزوری پر، اور میں نے ضمانت دیدی کہ خداوند متعال انھیں فشار قبر سے محفوظ رکھے گا، اس لئے میں نے انھیں اپنے پیراہن سے کفن کیا اور ان کی قبر میں اتر کر لیٹا! جب میں ان کی قبر پر جھگ گیا انھیں میں نے تلقین سنادی، ان سے پروردگار اور پیغمبر ﴿ص﴾ کے بارے میں پوچھا گیا انھوں نے صحیح جواب دیا لیکن جب ان سے ولی و امام کے بارے میں سوال کیا گیا، تو نہیں جانتی تھیں کہ جواب میں کہا کہے، پس میں نے ان سے کہا: “ تمھارا بیٹا! تمھارا بیٹا!” ﴿٦۳﴾
اس طرح امامت کی ماں اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی سرپرست حضرت فاطمہ بنت اسد کی زندگی کا سورج ڈوب گیا اور فاطمہ بنت اسد، پروردگار عالم کی بندگی اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی مخلصانہ فرمانبرداری سے سرمشار ایک عمر گزارنے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ پس تعجب نہیں ہے کہ ہم مشاہدہ کریں کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ ان کے فراق میں غمگین ھوں اور ان کے لئے دعا کریں اور دین کو مکمل کرنے والی ولایت انھیں تلقین کریں۔
“ علل الشرائع” میں ذکر کے مطابق اس عظیم خاتوں کا مدفن۔، قبرستان بقیع میں “ الروحاء” کی جگہ پر ابی قطیفہ کے حمام کے روبرو تھا۔ ﴿٦۴﴾ لیکن آج اس کے آثار باقی نہیں ہیں، صرف اس ماں اور ان کے بیٹوں، ائمہ اہل بیت﴿ع﴾ حسن مجتبی﴿ع﴾ علی بن الحسین، زین العابدین ﴿ع﴾ محمد بن علی باقر﴿ع﴾ اور جعفر بن محمد صادق ﴿ع﴾ کی قبروں کے نشانوں کے طور پر چند ٹکڑے پتھروں کے علاوہ کچھ نہیں ہے، جو ایک دوسرے کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ ﴿٦۵﴾
فاطمہ بنت اسد پر خداوند متعال کا درود و سلام ھو، جنھوں نے اپنی پوری زندگی پروردگار عالم کی بندگی میں گزاری اور پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی حمایت اور دفاع میں بے مثال کارنامے انجام دئے۔ خدا کا سلام ھو فاطمہ بنت اسد کی پیدائش، زندگی، موت اور دوبارہ مبعوث ھونے پر۔
منابع و ماخذ:
1ـ نهج البلاغة: الخطبة 21
2ـ فاطمة١بنت هرم بن رَواحة بن حِجر بن عبد بن معيص بن وهب بن تغلبة بن واثلة بن عمرو بن شيبان بن مُهارب بن فِهر. وأمّها فاطمة بنت أبي همهمة بن عامر بن عمرو بن وديعة بن الحارث بن فِهر. شرح نهج البلاغة، لابن أبي الحديد 6:1، وبحار الأنوار، للمجلسي 182:35. 3ـ النحل: 58 ـ 59
4ـ أُسد الغابة، لابن الأثير ـ ترجمة قيس بن عاصم
5ـ رياحين الشريعة ( بالفارسية ) 6:3
6ـ شيخ الأبطح، للسيّد محمد شرف الموسوي 111
7ـ الحجّة على الذاهب إلى عدم ايمان أبي طالب، للسيّد فخّار بن معد الموسوي 185، بحار الأنوار، للمجلسي 98:35
8ـ إعلام الورى، للطبرسي 282:1، ب 5، ف 2. الحجّة على الذاهب 158
9ـ بحار الأنوار 111:35 ـ 112
10ـ الحجّة على الذاهب 261
11ـ كقوله تعالى: « ولا تُمْسِكوا بِعِصَمِ الكوافِر »11
12ـ الحجّة على الذاهب 123 ـ 124
13ـ بحار الأنوار، للمجلسي 110:35
14ـ السيرة الحلبيّة، للحلبي 125:1. الحجّة على الذاهب 313 ـ 315
15ـ الخرائج والجرائح، للقطب الراوندي 138:1
16ـ من أشعار أبي طالب ( الحجّة على الذاهب 241 16
لِيَـعْلَم خيـارُ الناسِ أنّ مـحمّداً
نبيٌّ كموسى والمسيحِ ابنِ مريم
أتـانـا بهَدْيٍ مِثـلَ ما أَتَيا بهِ
فـكلٌ بـأمـرِ اللهِ يَهدي ويَعصِمِ
17ـ بحار الأنوار، للمجلسي 383:15 ( حديث کے ضمن میں﴾
18ـ بحار الأنوار 40:35، حديث 38 ـ الباب الأول ( حديث کے ضمن میں﴾
19ـ أصول الكافي، للكليني 453:1، حديث 2
20ـ بحار الأنوار 83:35، حديث 26
21ـ بحار الأنوار 81:35، حديث 23
22ـ الخرائج والجرائح، للراوندي 138:1 ـ 139، حديث 225. بحار الأنوار 83:35 ـ 84، حديث 26
23- مكان سُلاطح: عريض، ومنه قول الساجع: صُلاطح بُلاطح، بلاطح إتباعٌ. لسان العرب 387:7 « صلطح »
24ـ وهو طالب الذي توفّي صغيراً
25ـ وهو جعفر الطيّار الذي استُشهد في وقعة مُؤتة، وأخبر النبيُّ صلّى الله عليه وآله المسلمين بمنزلته، وأنّ الله تعالى عوّضه عن يديه اللتين قُطعتا في الحرب جناحَين يطير بهما في الجنّة مع الملائكة، فلُقِّب بجعفر الطيّار
26ـ وهو عقيل الذي عمّر وبقي له عَقِب
27ـ وهو أمير المؤمنين عليّ عليه السّلام
28ـ بحار الأنوار 41:35 ـ 42، حديث 38 ضمن حديث
29ـ رياحين الشريعة 3:3. بحار الأنوار 40:35
30ـ الخصائص الفاطميّة، للمولى محمد باقر واعظ الطهراني 216
31ـ الخصائص الفاطميّة، للمولى محمد باقر واعظ الطهراني 216
32ـ أمالي الشيخ الصدوق 111، المجلس 27. بحار الأنوار 287:44 ـ 288. ويقصد صلّى الله عليه وآله بولد عقيل المقتول في محبّة الحسين عليه السّلام: مُسلم بن عقيل سفير الإمام الحسين إلى الكوفة
33ـ شرح نهج البلاغة، لابن أبي الحديد 118:2 ـ 119
34ـ شرح نهج البلاغة 124:2 ـ 125
35ـ بحار الأنورا 23:21. المستدرك، للحاكم النيسابوري 233:3، حديث 539
36ـ شرح نهج البلاغة 224:13
37ـ السيرة النبويّة، لأحمد بن زيني دحلان 34:2
38ـ المستدرك، للحاكم 233:3، حديث 537
39ـ المستدرك، للحاكم 231:3، حديث 533
40ـ المستدرك 233:3، حديث 538
41ـ انظر مثلاً: الصواعق المحرقة، لابن حجر 76
42ـ المناقب، للخوارزمي 328، حديث 61. ينابيع المودّة، للقندوزي 246:1، حديث 28
43ـ المناقب، للخوارزمي 32 ـ 33، حديث 2. كفاية الطالب، للگنجي الشافعي 252. فرائد السمطين، للحمويّ 18:1
44ـ الفردوس، للديلمي 429:1، حديث 1751. مناقب عليّ بن أبي طالب، لابن المغازلي 230، حديث 277
45ـ بحار الأنوار 282:18
46 ـ بحار الأنوار 131:21. سفينة البحار، للقمّي 714:8 مادّة: « هنأ »46-
47ـ بحار الأنوار 302:43. المعجم الأوسط، للطبراني 237:7 ـ 238، حديث 6458. ذخائر العقبى، للمحبّ الطبري 130
48 -بحار الأنورا 166:74. سفينة البحار 494:3 مادة « زمن »
49ـ بحار الأنوار، للمجلسي 64:19 ـ 67
50ـ بحار الأنوار 106:19
51ـ الكامل في التاريخ، لابن الأثير 106:2
52ـ الحجّة على الذاهب 50. بحار الأنوار 109:35
53ـ شرح نهج البلاغة، لابن أبي الحديد 14:1
54ـ سفينة البحار، للمحدّث القمّي 122:7 مادّة: فطم
55ـ رياحين الشريعة، للمحلاّتي 3 /6 بالفارسیة
56- روضة الواعظين، للفتّال النيسابوري 76. بحار الأنوار 10:35، حديث 12
57ـ اشارة الی أن الذریة من ابراهیم الخلیل کانوا موحدین حتی وصولهم للنبی من جانب فهر
58ـ الأمالي، للصدوق 114 ـ المجلس 27
59ـ آل عمران: 39
60ـ البقرة: 130
61- انظر التفاصيل في70- 61 رياحين الشريعة 3:3
الرَّوَح: السَّعَة، والرَّوَح: انبساط في صدر القدم، وقُصعة روحاء: قريبة القعر، ويبدو أنّ اسم الروحاء يشير إلى فسحة في أرض
62- البقيع قريبة من المسجد النبويّ، حيث يقع قبر فاطمة بنت أسد
63- بحار الأنوار 298:48
64- مصباح الزائر، لابن طاووس 60
65- الکافی ج1 ص452-454،100.218. حدیث17
رسول خدا(ص) کے ایک سو بیس صفات
(1)آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب چلتے تھے تو تکبرانہ انداز میں نہ چلتے بلکہ آہستہ آہستہ اور باوقار انداز میں چلتے ۔
(2)جب کسی کو مخاطب کرتے تو اپنا پورا بدن اس شخص کی جانب پھیر لیتے ۔
(3)آپ کی نگاہیں ہمیشہ نیچی ہوتی تھیں ۔
(4)آپ ہمیشہ غور وفکر و تدبر میں رہتے ۔
(5)آپ غم و اندوہ میں غرق رہتے ۔
(6)ضرورت کے علاوہ بات نہ کرتے تھے ۔
(7)آپ کے کلام میں فصاحت و بلاغت تھی کہ الفاظ کم اور معنی زیادہ ہوتے تھے ۔
(8)آپ کے عادات و اطوارمیں سختی اور پست کلامی کا وجود نہ تھا ۔
(9) آپ کسی کو حقیر نہ سمجھتے تھے۔
(10)حق کو اجاگر کرنے والےتھے ۔
(11)آپ خوش اخلاقی اورنرمی سے پیش آتے تھے ۔
(12)آپ تھوڑی سی نعمت کو عظیم نعمت سمجھتے تھے۔
(13)آپ نے کسی نعمت کی مذمت نہیں فرمائي ۔
(14)کھانے پینے کی اشیاء میں جو اچھی لگتی کھالیتے اور جو پسند نہ کرتے بغیر اس کی مذمت کئے اس کو چھوڑدیتے ۔
(15)دنیوی امور میں گھاٹےپر افسوس نہ کرتے اور نہ غمگین ہوتے۔
(16)خدا کے لۓ اس طرح غضبناک ہوتے کہ کوئي آپ کو پہچان نہ سکتا تھا ۔
(17)اگر اشارہ کرنا ہوتاتو اپنی انگلی سے کرتے نہ کہ آنکھ یا ابروسے ۔
(18)جب خوش ہوتے تو بہت زیادہ اظہار مسرت نہ کرتے ۔
(19)آپ ہنستے وقت تبسم فرماتے اور شاذونادر ہنستے وقت آپ کی آوازسنائي دیتی ۔
(20)آپ باربار فرماتے کہ جو حاضرہے وہ میرا کلام غائب کو پہنچاے ۔
(21)آپ فرمایاکرتے تھے کہ ان لوگوں کی حاجات مجھے بتاوجو اپنی حاجات مجھ تک نہیں پہنچاسکتے ۔
(22)کسی کا اس کی لغزش اور خطا پر مواخذہ نہ فرماتے ۔
23 ۔اصحاب اور طالب علموں میں سے جو بھی آپ کی محفل میں داخل ہوتا علم وحکمت سے دامن بھر کرواپس آتا۔
24۔آپ لوگوں کے شرسےواقف تھے پھر بھی ان سے کنارہ کشی نہ کرتے تھے ۔
25۔آپ لوگوں سے خوش روئي اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔
26۔آپ ہمیشہ اصحاب سے رابطے میں رہتے ۔
27۔آپ لوگوں کے حالات سے واقف رہنے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔
28۔اچھی عادات کے مالک افراد کو اپنے ساتھ جگہ دیتے اورآپ کے نزدیک اچھی عادات کا حامل وہ شخص ہے جو مسلمانوں کا خیرخواہ ہو ۔
29۔ آپ کے نزدیک عظیم لوگ وہ تھے جو لوگوں کے ساتھ احسان مدد اور نصرت سے پیش آتے ۔
30۔عالم مصلح اور اخلاق حسنہ کےمالک افراد کی تکریم فرماتے تھے ۔
31۔ہر قوم کے شریف افراد کی تالیف قلب کرتے اور ان پر احسان فرماتے تھے ۔
32۔آپ کسی مجلس میں اٹھتے بیٹھتے تو ذکر خدا کے ساتھ ۔
33۔مجلس میں اپنے لئے کوئي مخصوص جگہ قرارنہ دیتے اور دوسروں کو بھی اس سے منع فرماتے ۔
34۔جب کسی مجلس میں داخل ہوتے تو جہاں کہیں بھی جگہ خالی ہوتی وہیں پر بیٹھ جاتے اگرچہ وہ جگہ آخر میں ہی کیوں نہ ہوتی لوگوں کوبھی اس کی نصیحت فرماتے ۔
35۔لوگوں میں اس طرح گھل مل جاتے کہ ہرآدمی سمجھتا کہ وہی آپ کی نگاہ میں سب سے مکرم ترین ہے ۔
36۔مجلس میں حاضر ہرفرد آپکے اکرام اور توجہ کا مرکزہوتا ۔
37۔جس نے بھی آپ سے کوئي حاجت طلب کی تو مقدورہونے کی صورت میں اسکی حاجت رواکرتے ورنہ حسن خلق سے اچھے وعدے کےساتھ راضی کرتے ۔
38۔آپ کی مجلس حیاء بردباری اور سچائی کا نمونہ ہوتی اس میں کسی کی برائي اور غیبت نہ ہوتی کسی کی غلطی کو وہاں ظاہرکرنا ممنوع تھا سب کو عدالت و تقوی و پرہیزگاری کی نصیحت فرماتے ۔بڑوں کا احترام کرتے اور چھوٹوں پر رحم فرماتے فقیروں اورمحتاجوں کا خیال رکھتے تھے ۔
39۔تمام لوگ آپ کی نگاہ میں مساوی اور برابرتھے ۔
40۔سب کو اپنی محفل میں جگہ دیتے اور انہیں کسی سے خوف و ضررکا احساس نہ ہوتا کشادہ دلی اور نرمی سے کلام کرتے ۔
41۔کسی وقت آپکی صدا بلند نہ ہوتی حتی کہ غیض وغضب کے وقت بھی ۔
42۔کسی سے بد کلامی نہ فرماتے ۔
43۔لوگوں کے عیوب نہ گنواتے اور نہ بہت زیادہ ان کی تعریف کرتے ۔
44۔کوئي بھی آپ سے ناامید نہ تھا ۔
45۔آپ کسی سے کبھی لڑتے جھگڑتے نہیں تھے ۔
46۔ زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے ۔
47۔کسی کی بات کو قطع نہ کرتے مگر یہ کہ وہ بات باطل ہو
48۔فائدہ سے خالی اشیاء کے درپیے نہ رہتے ۔
49۔کسی کی مذمت نہ کرتے ۔
50۔کسی کی سرزنش نہ کرتے
51۔لوگوں کے عیب اور لغزش تلاش نہ کرتے اورنہ اس کی جستجو کرتے ۔
52۔بے ادبوں کی بے ادبی پر صبر فرماتے تھے ۔
53۔جب آپ دنیا سے رخصت ہوۓ تو کوئي درہم و دینار غلام کنیزبھیڑبکری اور اونٹ چھوڑکرنہیں گۓ ۔
54۔جب آپ دارفانی سے چلے گۓ تو معلوم ہوا کہ آپ کی ایک زرہ مدینے کے ایک یہودی کے پاس گروی تھی جس کے بدلے میں آپ نے اس سے بیس صاع جواپنے اھل وعیال کے لئے لۓ تھے ۔
55۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین دنوں تک گندم کی روٹی سے سیر نہ ہوے تھے کہ معبود حقیقی سے جاملے ۔
56۔آپ خاک پر بیٹھتے ،زمین پر بیٹھ کرطعام تناول فرماتے ،زمین پر سوتے بھیڑاور اونٹ کا پاؤں خود باندھتے بھیڑوں کو خود دوہتے اور اپنے گھر کادروازہ خود کھولتے تھے ۔
57۔آپ کمال تواضع کے مالک تھے ۔
58۔آپ ہرروزبدن کی رگوں کی تعداد کے مطابق تین سوساٹھ مرتبہ الحمد للہ رب العالمین کثیرا علی کل حال کہتے تھے اور ستر مرتبہ استغفراللہ اور سترمرتبہ اتوب الی اللہ کا ذکر کرتے تھے ۔
59۔روایت میں ملتا ہےکہ ایک مرتبہ آپ کےسامنے دودھ کا پیالہ لایا گيا جسمیں شہد ملا ہواتھا آپ نے فرمایا یہ پینے کی دوچیزیں ہیں جن میں سے ایک پر اکتفاہوسکتا ہے ۔میں دونوں کو نہیں پیوں گا اوردونوں کو تم پر حرام بھی نہیں کرتاہوں میں خدا کے لۓ تواضع سے کام لونگا ۔جو بھی تکبرکرتا ہے خدا اسے پست کردیتا ہے ،جو اپنی روزی میں میانہ روی سے کام لے خدا اس کے رزق میں اضافہ فرماتاہے ،جو فضول خرچی اور اسراف کرتا ہےخدا اسے رزق سے محروم کردیتا ہے اور جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے ۔
60۔آپ ہرماہ کی پہلی جمعرات اورآخری جمعرات ،ماہ کے پہلے دس دنوں میں پہلے بدھ کو روزہ رکھتے تھے شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے ۔
61۔آپ سب لوگوں سے زیادہ حکیم ،دانا برردبار ،شجاع عادل اور مہربان تھے ۔
62۔آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے درہم و دینار گھر میں باقی نہ رکھتے ۔
63۔سال کے اخراجات کے علاوہ سب کچھ خدا کی راہ میں خرچ کردیتے تھے ۔
64۔معمولی طعام کوبھی استعمال کے لۓ محفوظ کرتے جیسے کھجور جو وغیرہ ۔
65۔جب خادم چکی کے گرد گھومتے گھومتے تھک جاتا تو اس کی مددکرتے ۔
66۔رات کو وضو کےلۓ پانی خود مھیا کرتے ۔
67۔لوگوں کی موجود گي میں کبھی تکیہ نہ لگاتے ۔
68۔محتاج کی مددخود کرتے تھے ۔
69۔کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹتے۔
70۔آپ کبھی ڈکار نہ لیتے تھے۔
71۔ھدیہ قبول فرماتے گرچہ دودھ کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہوتا۔
72۔آپ صدقہ نہیں کھاتے تھے ۔
73۔لوگوں کو ٹکٹکی باندھ کرنہیں دیکھتے تھے ۔
74۔اکثر بھوک سے کمر پر پتھر باندھ لیتے ۔
75۔جو کچھ بھی حاضرہوتا تناول فرمالیتے ۔
76۔کسی چیز کورد نہیں کرتے تھے ۔
77۔آپ اکثرسفید لباس زیب تن فرماتے اور سرپرعمامہ باندھتے تھے ۔
78۔جمعہ کے دن اچھا لباس پہنتے اور پرانا لباس فقیر کو دیدیتے تھے آپ کی ایک ہی عباتھی جہاں بھی جاتے اسی سے استفادہ فرماتے دائيں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں چاندی پہنتے تھے ۔
79۔بدبو سے کراھت کرتے تھے ۔
80۔ہروضو کے ساتھ مسواک کرتے تھے ۔
81۔اپنی سواری پر کبھی خود اور کبھی دوسرے کوپیـچھے بٹھاتے تھے ۔
82۔جو سواری ملتی اس پر سوار ہوجاتے کبھی گھوڑا کبھی خچر اور کبھی اونٹ ۔
83۔آپ فقرا اورمساکین کےساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ کھانا تناول فرماتے تھے ۔
84۔ہرایک کے ساتھ ادب سے پیش آتے ۔
85۔جب کوئي عذر کرتا تو اس کا عذر قبول کرلیتے ۔
86۔آپ کبھی بھی عورتوں اور خدمت گاروں پر غصہ نہ فرماتے اور نہ انہیں برابھلا کہتے ۔
87۔جب بھی کوئي آزاد غلام یا کنیز آپ سے مدد کے طالب ہوتے تو آپ اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ہمراہ چل پڑتے ۔
88۔آپ بدی کا نیکی سے جواب دیتے ۔
89۔جس سے ملتے سلام میں پہل کرتے مردوں سے مصافحہ کرتے اوربچوں وعورتوں کو سلام کرتے ۔
90۔جس مجلس میں بیٹھتے ذکر خدا کرتے اکثر روبہ قبلہ بیٹھتے ہرمجلس میں کم ازکم پچیس مرتبہ استغفار کرتے ۔
91۔جو بھی آپ کے پاس آتا آپ اس کا احترام کرتے ۔
92۔آپ کی رضا اور غضب حق کہنے سے مانع نہ ہوتے ۔
93۔آپ کو گوشت اور کدو پسند تھا شکار نہیں کرتے تھے لیکن شکار کا گوشت تناول فرماتے پنیر اوراسی طرح گھی بھی آپ کو پسند تھا ۔
94۔اپنے سامنے سے کھانا تناول فرماتے تھے لیکن خرمہ پہلے اطراف میں بیٹھے لوگوں کو پیش کرتے ۔
95۔کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے۔
96۔پانی پینے کے وقت بسم اللہ پڑھتے تھوڑا سے پیتے پھر لبوں سے ہٹا لیتے اور الحمد للہ کہتے ،تین وقفوں میں پانی پیتے ۔
97۔سراور داڑھی کو آب سدر ر(بیر کے پانی ) سے دھوتے ۔
98۔تیل کی مالش کرنا پسند کرتے تھے ۔
99۔اپنے سامنے کسی کو کھڑے رہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
100۔دوانگلیوں سے نہیں بلکہ تین الگلیوں سے کھانا کھاتے ۔
101۔کوئي عطر آپ کے پسینے سے زیادہ خوشبودار نہیں تھا ۔
102۔روایت میں ملتا ہےکہ آپ ایک سفر میں تھے اوراصحاب سے فرمایا کہ کھانے کے لۓ ایک بھڑذبح کریں ایک شخص نے کہا میں ذبح کروں گا دوسرا بولامیں کھال اتارونگا تیسرے نے کہا کہ میں پکاوں گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں لکڑیاں جمع کرونگا اصحاب نے کہا یارسول اللہ ہم ہیں آپ زحمت نہ فرمائیں آپ نے فرمایا مجھے پسند نہیں کہ خود کو تم پرترجیح دوں ،خدا اس بندے سے نفرت کرتا ہے جو اپنے ساتھیوں میں اپنے آپ کو ممتازسمجھے ۔
103۔انس کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی اور آپ نے اس مدت میں مجھے اف تک نہ کہا ۔
104۔آپ کے لعاب دھن میں برکت اور شفا تھی ۔
105۔آپ ہرزبان میں تکلم فرماسکتے تھے ۔
106۔لکھنے پڑھنے پر قادر تھے لیکن آپ نے کبھی تحریر نہیں فرمایا ۔
107۔جس حیوان پر سوارہوتے وہ کبھی بوڑھا نہ ہوتا ۔
108۔جب آپ کسی پتھر یا درخت کے قریب سے گزرتے تو سلام کرتے ۔
109۔مکھی مچھر اور ان جیسے جانور آنحضرت پر نہ بیٹھتے تھے ۔
110۔پرندکبھی بھی آپ کے سرمبارک پر سے پروازنہیں کرتے تھے ۔
111۔چلنے کے دوران قدم مبارک کے نشان نرم زمین پر نظرنہ آتے لیکن پتھر پرنشان نظر آتے تھے ۔
112۔تازہ کھیرے نمک کے ساتھ تناول فرماتے تازہ میووں میں خربوزہ اور انگورپسند تھے اکثر آپ کی غذا پانی کھجوریادودھ اور کھجور ہوتی تھی ۔
113۔کھانا سب سے پہلے شروع کرتے آخر تک کھانا کھاتے تاکہ کسی کو اکیلانہ کھاناپڑے۔
114۔آپ کی خدمت میں برتن لایا جاتا اور آپ تبرک کے طورپراس میں ہاتھ ڈالتے اور کراہت نہیں کرتے تھے ۔
115۔نومولود کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا کہ آپ اس کےلۓ دعا فرمائيں آپ بچے کو گود میں لیتے کبھی کبھار بچہ پیشاب کردیتا تو آپ ہرگزناراض نہ ہوتے بلکہ دامن کو دھولیتے تھے ۔
116۔آپ قیدیوں پر رحم کرتے تھے حاتم طائي کی بیٹی کے ساتھ آپ کا مہربانی سے پیش آنا اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
117۔آپ نے کسی عورت کی بے حرمتی نہیں کی ۔
118۔جب گھر میں داخل ہوتے تو تین مرتبہ اجازت طلب کرتے تھے ۔
119۔سرکے نامناسب بالوں سے کراہت کرتے تھے ۔
120۔یہ سارے اوصاف تواضع کی علامت ہیں ۔یہ ہیں رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مجموعہ کمالات کے بعض اعلی نمونے جنہیں قلم بند کرنے کی توفیق ہمیں ملی ہے ۔یاد رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ذات کبریائي کی ولایت کبری کے حامل تھے جو مستجمع جمیع صفات کمال و جلال وجمال ہے لھذا آپ کے صفات کا ان ہی ایک سوبیس صفات حسنہ میں احصاءکرنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے لیکن بقول شاعر
آب دریا را اگرنتوان کشید
ہم بقدرتشنگی باید چشید، کے مصداق ہماری ناقص عقل نے ان ہی صفات حسنہ کے احصاء پر اکتفا کیا ہے یہ ہمارے وجود کے نقص کا ثبوت ہے بھلا ذرےکو آفتاب کے نور کی تاب کہاں جتنا ہوسکا سو اپنی عقیدت کا اظہار کردیا اب اس دریاے فیض کا کرم ہے کہ ہمیں مزید کتنا نوازتا ہے عیب ہم میں ہے اس کی عطا میں نہیں ۔
ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار
کراچی: خوفناک بم دھماکہ، اعلیٰ پولیس افسر مارے گئے
چوہدری اسلم کے کانوائے کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ کراچی کے علاقے عیسیٰ نگری کے قبرستان کے پاس سے گذر رہے تھے۔ سی آئی ڈی کراچی کے ایڈیشنل آئی جی اقبال محمود نے بھی چوہدری اسلم کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق آج کراچی کے علاقے عیسیٰ نگری میں ایک خطرناک بم دھماکے کی خبر موصول ہوئی اور علاقے پر دھویں کے بادل چھا گئے۔ جس کے بعد پولیس اور مقامی اخبارات نے اس دھماکے میں لیاری آپریشن کے مرکزی کردار اور ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم کے مارے جانے کی اطلاع دی ہے۔ چوہدری اسلم آج صبح منگھوپیر کے علاقے میں دہشتگرد تحریک طالبان گروہ کے خلاف آپریشن کے بعد پریس کانفرنس سے واپس آ رہے تھے۔
واضح رہے کہ اس آپریشن میں تحریک طالبان پاکستان کے تین دہشتگرد مارے گئے اور پولیس نے اس آپریشن میں بھاری مقدار میں اسلحہ و بارود بر آمد کر لیا۔ چوہدری اسلم نے اپنی زندگی کی آخری پریس کانفرنس میں آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے میڈیا کو بتایا تھا کہ یہ دہشتگرد آٹھ محرم کے جلوس عزا پر حملوں کی تیاری کر رہے تھے۔
رہبر معظم کی 19 دی کی مناسبت سے قم کے عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قم کے علماء ، فضلاء اور عوام کے مختلف طبقات کے ہزاروں افراد کے ساتھ ملاقات میں سخت ترین شرائط میں بصیرت کے ہمراہ ،پختہ ایمان پر اعتماد کے ساتھ عمل و اقدام کو 19 دیماہ 1356 ہجری شمسی کے واقعہ کا اہم پہلو قراردیتے ہوئے فرمایا: قم کے 19 دی کے واقعہ کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ دشمن اور اس کی دشمنی کو فراموش نہ کرتے ہوئے پختہ ایمان کے ساتھ مشکلات سے عبور کرنا چاہیے اور قوم کی اندرونی خلاقیت اور جوانوں کی صلاحیتوں پر تکیہ کرتے ہوئےدوسروں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ یہ ملاقات قم کے عوام کےتاریخی قیام کی چھتیسویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقد ہوئی ، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں قرآن مجید کے سورہ روم میں اللہ تعالی کی طرف سے مؤمنین کی مدد و نصرت کو اپنے اوپر حق قراردینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس آیت میں اللہ تعالی کا حتمی وعدہ بعض شرائط سے متعلق ہے جب دشمن کے عظیم محاذ کے مقابلے میں مؤمنین کے پاس امید کی کوئی کرن نہ ہو اور جس دن قم کے عوام نے حضرت امام (رہ) کی حمایت اور دفاع کے سلسلے میں طاغوتی حکومت کے خلاف پرچم جہاد بلند کیا عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ان کا خون زمین پر جاری ہوگیا اس دن کسی کے وہم و گمان میں یہ نہیں تھا کہ یہ واقعہ اتنا عظیم ، مؤثر اور برکت والا بن جائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر عمل و اقدام، پختہ ایمان ،بصیرت، استقامت اور پائداری کے ہمراہ ہو جائے تو اللہ تعالی کی مدد و نصرت یقینی بن جائے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض موارد میں ایمان نہ ہونے یا ایمان کمزور ہونے یا ایمان کے بصیرت کے ہمراہ نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کی مدد و نصرت مؤمنین کے شامل حال نہیں ہوتی کیونکہ بصیرت کا نہ ہونا ایسا ہے جیسے آنکھ کا نہ ہونا اور جس انسان کے پاس آنکھ نہ ہو وہ راستہ کو پہچان نہیں سکتا ہے اور غلط راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: میری 9 دی کے حوادث میں بصیرت کے موضوع پر بہت زیادہ تاکید کا سبب بھی یہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض قوموں کی تحریکوں اور قیام کی عدم کامیابی کا سبب اللہ تعالی کی نصرت و مدد کے شرائط محقق نہ ہونے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نےپختہ ایمان، بصیرت، اقدام اورپائداری کے تمام شرائط کو مہیا کرلیا کیونکہ اسےحضرت امام خمینی (رہ) جیسے سچے اور ماہر قائد مل گئے جو عالمی مسائل سے آگاہ و با خبر تھے جو ذاتی اور مادی مسائل سے دور اور کتاب و سنت سے واقف اور آگاہ تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ماضی کے قوی اور کمزور نقاط سے درس حاصل کرنے اور ان کے بارے میں غور و فکر کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: کسی کو آج اس وہم و گمان میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ انقلاب اسلامی کے دشمنوں نے اپنی دشمنی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ممکن ہے کہ ہر دشمن عقب نشینی پر ممجبور ہوجائے لیکن دشمن اور دشمن محاذ سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور دشمن کی مسکراہٹ پر فریفتہ اور اس پر سنجیدہ نہیں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہدف کو فراموش نہ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کا ہدف اسلام کے اعلی اصولوں یعنی انسان کی مادی اور معنوی پیشرفت تک پہنچنا ہے اور پختہ ایمان، موجودہ مسائل میں بصیرت،اور دشمن کی شناخت کے بغیر اس اعلی ہدف تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے تابناک مستقبل کے بارے میں جو بار بار تاکید کی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے عوام کے پاس ایمان ، بصیرت اور دشمن کی پہچان ہے اور ان کے پاس کام اور خلاقیت کا جذبہ بھی موجود ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کونسا مسئلہ ایسا ہے جس کو ہمارے جوانوں نے حل کیا ہو اور وہ حل نہ ہوا ہو ، جہاں بھی بنیادی ڈھانچہ آمادہ ہوا ہے وہاں ہمارے جوانوں نے پیشرفت حاصل کی ہے اور یہ سب اس توانائی اور صلاحیت کی برکت کی بنا پر ہے جو اللہ تعالی نے ہماری قوم کو عطا کی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میری حکام کو ہمیشہ کی طرح یہ سفارش ہے کہ وہ ملکی مشکلات کو دور کرنے کے لئے اندرونی وسائل پر توجہ دیں اور بیرونی وسائل پر تکیہ کرنے سے پرہیز کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر خارجہ پالیسی میں ایران کے فعال کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہماری پوری امید اللہ تعالی کی مدد و پشتپناہی اور ملک و قوم کی طاقت پر استوار ہونی چاہیے اور یہی نظریہ ملک کو بیمہ کردے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کی غلط شناخت کے سلسلے میں دشمنوں کی دائمی غلطی اور اشتباہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے دشمن آج اس طرح گفتگو کرتے ہیں کہ گویا ایرانی قوم نے ہاتھ اوپر اٹھا لئے ہیں اور وہ ان کی اقتصادی پابندیوں اور دباؤ کے سامنے تسلیم ہوگئی ہے جبکہ وہ پھر اشتباہ کا ارتکاب کررہے ہیں کیونکہ ایرانی قوم ایسی قوم نہیں جو تسلیم ہونے کے لئے ہاتھ اوپر اٹھا لے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سے سخت ترین شرائط میں بھی ایرانی قوم کے تسلیم نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس کا واضح وآشکار اور ناقابل انکار نمونہ 8 سالہ دفاع مقدس ہے جس میں اس دور کی تمام عالمی اور مشرقی اور مغربی طاقتوں نے ایرانی عوام کے خلاف صدام مجرم کی بھر پور مدد اور حمایت کی ، لیکن اندرونی توانائیوں کو میدان میں لانے کے سلسلے میں ایرانی قوم کے ٹھوس فیصلہ اور پختہ عزم و ارادہ کی بدولت الہی بصیرت محقق ہوگئی اور گرہیں ایک ایک کرکے کھل گئیں اور صدام کی بعث حکومت اور اس کے بین الاقوامی حامی ذلت آمیز شکست کے بعد عقب نشینی کرنے پر مجبور ہوگئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: آج بھی اندرونی توانائیوں پر تکیہ، ایرانی قوم کی استقامت اور دشمنوں کی عداوتوں کا مقابلہ اور اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد کرتے ہوئے مشکلات کو دور کرنا ممکن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جب دشمن کا ایک قوی ، مضبوط اور پائدار قوم سے سامنا ہوتا ہے تو اس کے لئے عقب نشینی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہ جاتا اور یہ تصور غلط ہے کہ ایرانی قوم اقتصادی دباؤ کی وجہ سے مذاکرات کی میز پر حاضر ہوئی ہے بلکہ ایرانی قوم دشمنوں کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنادےگی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نے پہلے بھی اعلان کیا تھا کہ اسلامی جمہوری نظام خاص موضوعات میں جہاں مصلحت دیکھے گا وہاں اس شیطان اور اس کے شر کو دور اور مشکل کو حل کرنے کے لئے مذاکرات کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حالیہ مذاکرات کی بدولت ایران اور ایرانی قوم اور اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ امریکی حکام کی دشمنی مزید واضح ہوگئی ہے اور حالیہ ہفتوں میں امریکی حکام کے بیانات میں یہ بات روشن ہوگئی ہے جسے سب نے مشاہدہ کرلیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر امریکی حکام کسی معاملے میں اقدام نہیں کرتے تو اس کی وجہ عدم دشمنی نہیں بلکہ ان کی ناتوانی اور کمزوری ہے دشمنوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم کرسکتے تو ایران کے ایٹمی پروگرام کا تانا بانہ بکھیر کررکھ دیتے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ ہاں، وہ ایسا نہیں کرسکتے ، کیونکہ ایرانی قوم نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور اپنی توانائیوں کو میدان میں لانےکا پختہ ارادہ کرلیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حالیہ مذاکرات نے امریکیوں کی دشمنی اور ان کی ناتوانی دونوں کو ظاہر کردیا ہے۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے ایران اور ایرانی قوم کے خلاف امریکہ کی سیاسی شخصیات اور ذرائع ابلاغ کے معاندانہ بیانات و اظہارات بالخصوص انسانی حقوق کے بارے میں ان کے بے بنیاد دعوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انسانی حقوق کے بارے میں جو بھی بات کرتا ہے کرے لیکن امریکہ کو انسانی حقوق کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ امریکہ دنیا میں انسانی حقوق کا نقض کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی غاصب صہیوینی حکومت کی پیہم حمایت اور فلسطینی عوام پر مسلسل مظالم بالخصوص غزہ کے مظلوم عوام کے لئےغذائی اور طبی محاصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا یہ موارد ظلم اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی نہیں ہیں کیا ایسے شرائط میں انھیں شرم محسوس نہیں ہوتی کہ وہ انسانی حقوق کا نام زبان پر جاری کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی صدر کی طرف سے انتخابات کے دوران گوانتانامو جیل کو بند کرنے کے وعدے اور پھر پانچ سال سے اس وعدے پر عمل نہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پاکستان اور افغانستان کے عوام پر امریکی ڈرون حملے اور ہزاروں دوسرے جرائم اور اسی طرح دنیا میں امریکہ کے غیر شناختہ شدہ جرائم انسانی حقوق کے خلاف امریکہ کے اصلی چہرے کو نمایاں بنا دیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہمارا دعوی ہے کہ امریکہ اور بہت سی مغربی حکومتیں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کرتی ہیں اور ہم عالمی رائے عامہ کی عدالت میں ان کا گریبان پکڑتے ہیں اور ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم اللہ تعالی پر اعتماد کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں سے گزر جائے گی اور اپنے اعلی اہداف تک پہنچ جائے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مختلف ادوار بالخصوص حساس موارد میں قم کے عوام کے ممتاز اور نمایاں کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قم اسلام اور شیعہ علماء کے مرکز کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ ایران کی عظمت کی علامت ہے۔
اہلسنت لاوارث نہیں، ثروت اعجاز قادری
سربراہ پاکستان سنی تحریک محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا ہے کہ اہل سنت لاوارث نہیں ہیں، حکومت نام نہاد طالبان دہشت گردوں کو لگام دے، ہمیں مجبور نہ کیا جائے کہ ہم قانون ہاتھ میں لیں، گلشن معمار میں حضرت ایوب شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر خدمات انجام دینے والوں کا بیہمانہ قتل فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے ساتھ حکومت و انتظامیہ کی ناکامی ہے، اگرحکومت نام نہاد طالبان کو لگام نہیں دے سکتی تو مزارات کی حفاظت سروں پر کفن باندھ کر کریں گے، ہماری پرامن پالیسی اور حب الوطنی کو کمزوری نہ سمجھا جائے، اینٹ کا جواب پتھر سے دینا جانتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے حضرت ایوب شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار میں خدمت گاروں کے بے رحمانہ قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کیا۔
ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ مزارات پر حملے اور قتل و غارت گری کرنے والے بتائیں کہ وہ اسلام کی کونسی خدمت کر رہے ہیں، نام نہاد طالبان دہشتگرد اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کرنے کے درپے ہیں، حکومت دہشت گردوں کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کرے، آئین کے برخلاف دہشت گردوں سے مذاکرات کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ نام نہاد طالبان دہشت گرد اپنا بناوٹی مذہب طاقت کے بل بوتے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، پاکستان سنی تحریک دہشت گردوں اور اسلام مخالف قوتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت حضرت ایوب شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر خدمت گاروں کے بے رحمانہ قتل کا نوٹس لے اور قاتلوں کو گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے۔
.......
ایرانی مذاکرات کار، اسلامی انقلاب کے اقدار، کو اولین ترجیح دیں
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ موحدی کرمانی کی امامت میں ادا کی گئي۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں ایران کی مذاکرات کار ٹیم کو نصحیت کی کہ ہوشیاری اور ملت ایران کے مفادات کے دائرے میں قدم اٹھائے۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے جینوا میں جاری ایٹمی مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی مذاکرات کار ٹیم کو اسلامی انقلاب کے اقدار اور اسلامی عزت و سربلندی کو اولین ترجیح دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملت ایران ایٹمی مذاکرات میں مکمل شفافیت کی خواہاں ہے اور ایرانی ٹیم کو مد مقابل کی توسیع پسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہنا چاہیے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہاکہ امریکہ، شام کے بارے میں جینوا ٹو کانفرنس میں اعلی سطح پر ایران کی شرکت کی مخالفت کررہا ہے لھذا ایران جیسے بڑے اور بااثر ملک کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ جینوا ٹو جیسی عالمی کانفرنس میں حاشیے پر رہے۔ خطیب جمعہ تہران نے اسلامی ملکوں بالخصوص عراق و شام میں تکفیری دہشتگردوں کی بڑھتی ہوئي سرگرمیوں کے بارے میں کہا کہ عالم اسلام کے علماء اور دانشوروں اور آزاد ضمیر انسانوں کو چاہیے کہ وہ تکفیری مجرموں کی ماہیت سے اھل عام کو آگاہ کریں۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے کہا کہ بعض ملکوں میں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام شیعہ مسلمانوں کے خلاف سعودی حکام کے پروپگينڈوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ عصر حاضر میں یہ تکفیریوں کے جرائم میں نئے باب کا اضافہ ہے۔ آیت اللہ موحدی کرمانی نے شام میں دہشتگردوں کے خلاف فوج کی کامیابی اور بہت سے علاقوں کو تکفیری دہشتگردوں سے آزاد کرانے کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے عراق کے صوبہ االانبار میں قبائل کی جانب سے فوج کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا کہ عراق اور شام کی قوموں کی کوششوں سے علاقے میں امن قائم ہوجائے گا۔