
Super User
مسجد کبود ایروان - ارمنستان
مسجد کبود ایروان یا مسجد جامع ایروان ،ارمنستان کے دارالخلافہ، ایروان شہر کے مرکز میں واقع ہے۔
قدیم ایروان ﴿ عظیم ایران کے زمانہ میں﴾ میں ۸ مسجدیں تھیں کہ اس وقت ان میں سے صرف مسجد جامع کبود ایروان باقی بچی ہے۔
ارمنستان پر کمیونسٹوں کی حکمرانی کے دوران ایک مدت تک اس مسجد سے ارمنستان کے تاریخی میوزیم کے عنوان سے استفادہ کیا گیا اور اسی وجہ سے یہ مسجد منہدم ھونے سے بچ گئی ہے۔ سویت یونین کے زوال کے بعد یہ مسجد پھر سے فعال ھوئی ہے۔
اس مسجد میں دینی فرائض انجام دینے کے علاوہ ثقافتی سرگرمیاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں، جن میں ارمنستان کے باشندوں میں فارسی زبان کے شائقین کو فارسی زبان سکھانا بھی شامل ہے۔
١۹۹٦سے ۲۰۰۰ء تک اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیاد مستضعفان و جانبازان نے ایرانی معماروں کے ذریعہ اس مسجد کی مرمت کی اور اسے ایک نئی صورت بخشی ہے۔
مدینہ منورہ کے پرنس محمد بن زید عبدالعزیز ایئرپورٹ پر طیارے کی ہنگامی لینڈنگ
مدینہ منورہ کے پرنس محمد بن زید عبدالعزیز ایئرپورٹ پر طیارے نے ہنگامی لینڈنگ کی ، جس سے طیارے کے پچھلے حصے کو نقصان پہنچا ہے۔طیارے میں سوار 29 مسافر زخمی ہوگئے ہیں ، ایوی ایشن حکام کے مطابق ایرانی شہر مشہد جانے والے سعودی طیارے میں 315 مسافر سوار تھے ۔
جنوبی سوڈان : بڑی تعداد یوگینڈا ہجرت کر گئی
جنوبی سوڈان میں پرتشدد جھڑپوں میں اضافے کے ساتھ ہی اس ملک کے دارالحکومت "جوبا" کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد یوگینڈا کی جانب ہجرت کرگئی ہے۔ فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق جنوبی سوڈان میں گذشتہ تین ہفتوں سے جاری جھڑپوں میں اضافے کے ساتھ ہی اس ملک کے دو لاکھ سے زیادہ باشندے یوگینڈا کی طرف ہجرت کرگئے ہیں۔ ہفتے کی رات بھی جنوبی سوڈان کے دارالحکومت کے اطراف میں فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ فوج اور مسلح افراد کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ اس قدر شدید تھا کہ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ رہائشی علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ جنوبی سوڈان کی فوج کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ فوج ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا قریب سے جائزہ لی رہی ہے۔ یادرہے کہ جنوبی سوڈان میں ہونے والی خانہ جنگی میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔
اگر دہشتگردوں کو سزا دی جائے تو قتل و غارتگری کا سلسلہ بند ہو جائے، صاحبزادہ ابوالخیر
جمعیت علماء پاکستان کے صدر اور ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے حیدرآباد پریس کلب آڈیٹوریم میں غازی ملت ملک ممتاز حسین قادری کو خراج تحسین پیش کرنے کے سلسلے میں منعقدہ عاشق مصطفٰی (ص) کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ایک بھی عاشق مصطفٰی (ص) موجود ہے، ممتاز حسین قادری کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا، وہ اللہ کے محبوب حضور (ص) کا محبوب ہے، ممتاز حسین قادری نے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کیا ہے، ملک توڑنے والوں کی سازشوں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جائے گا۔ جے یو پی کے عاشقان رسول (ص) پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کریں گے، اس ملک میں نظام مصطفٰی نافذ کر دیا جاتا تو آج چوری ڈاکے، قتل غارت گری، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی کسی کو جرأت نہ ہوتی، حکمرانوں کو سب معلوم ہے، وہ ان دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ اگر دہشت گردوں کو انصاف کے مطابق سزا دے دی جائے تو پاکستان میں قتل و غارتگری کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ کانفرنس سے ڈاکٹر محمد یونس دانش، عبدالروف الوانی، قاری عبدالرشید اعوان نے بھی خطاب کیا۔
مشرف کے خلاف فیصلہ عدالت کو کرنا ہے
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اس ملک کے سابق صدر مشرف کے خلاف مقدمے کی مدعی پاکستان کی ریاست اور آئین ہے۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ تین نومبر کو آئین ٹوٹا یا نہیں، پاکستان کی بطور ریاست توہین ہوئی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ تین نومبر آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ یہ مقدمہ فرد واحد کا مقدمہ نہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ تاریخ کے اس موڑ پر فیصلہ ہو جانا چاہئے کہ ہم آئین، قانون اور انصاف رکھنے والی ریاست ہیں یا نہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اگر قانون کی نظر میں سب برابر ہیں تو سب کو عدالت کے سامنے جواب دے ہونا چاہئے اور یہ کام عدالت کا ہے کہ کون شخص قصوروار ہے اور کون بے قصور۔
پاکستان- ایران خوشگوار تعلقات پر تاکید
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے آج اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اپنے پڑوسی ملکوں خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اچھے اور قریبی تعلقات قائم ہيں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے ملک کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں کے جاری رہنے سے دونوں ملکوں کےتعلقات مزید کشیدہ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان ان حملوں کی مخالف ہے اور ابھی تک اس کے اس موقف میں کوئی تبدیلی نہيں آئي ہے ۔ انہوں نے ان حملوں کو بین الاقوامی قوانین اور اپنے ملک کی ارضی سالمیت کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے ان حملوں کو فوری طور پر بند کئےجانے کا مطالبہ کیا ۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ 2014 کا سال افغانستان کے لئے امن واستحکام کا سال واقع ہوگا اور اس ملک ميں جنگ ختم ہوجائے گي ۔
" ام خلف "
کربلا کی عظیم و شجاع خواتین میں ایک " ام خلف " بھی ہیں وہ پہلی صدی ہجری کی دلیر و شجاع عورتوں میں سے ہیں آپ کی شادی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص صحابی اور امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھی مسلم بن عوسجہ سے ہوئی تھی آپ کو خداوندعالم نے ایک بیٹا "خلف" عطا فرمایاتھا جو اپنے بابا مسلم بن عوسجہ کے ہمراہ روز عاشورہ اپنے مولا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے ۔
ام خلف محبت اہل بیت علیہم السلام سے سرشار ایک مؤمنہ خاتون تھیں اور اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ کربلا کے راستے میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں شامل ہوئی تھیں کربلا کے میدان میں اپنے شوہر نامدار کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے فرزند خلف کو میدان جنگ میں بھیجا مگر امام حسین علیہ السلام نے خلف کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: کہ اگر تم میدان جنگ میں مارے گئے تو تمہاری ماں تنہا اور بے سہارا رہ جائے گی اور جنگ سے زیادہ تمہارے لئے اپنی ماں کی دیکھ بھال ضروری ہے ۔
لیکن ام خلف نے جو ہر چیز پر فرزند رسول کی نصرت ویاری کو مقدم سمجھتی تھیں، جب امام علیہ السلام کے فرمان کو سنا تو خلف سے کہا: میرے لال اپنی جان اور سلامتی پر فرزند رسول(ص) کی نصرت ویاری کو ترجیح دو اور اگر تم نے اپنی سلامتی کی فکر کی تو میں تجھ سے راضی نہ رہوں گی ۔
خلف شجاعت و بہادری کےساتھ میدان میں گئے ادھر ان کی مادر گرامی ان کی تشویق کرتے ہوئے کہہ رہیں تھیں " اے میرے لال تمہیں مبارک ہو کہ تم عنقریب آب کوثر سے سیراب ہوگے "
خلف دین اسلام اور اپنے امام وقت کا دفاع کرتے ہوئے شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے . کوفیوں نے ان کے سر کو بدن سے جدا کرکے ان کی مادر گرامی کی طرف پھینکا اس بہادر خاتون نے اپنے لال کے سر کو آغوش میں لے کر اس کا بوسہ لیا اور خوب گریہ کیا کہ اس دلخراش منظر کو دیکھنے والے بھی گریہ وزاری میں مصروف ہوگئے۔ اور دشمن کی ظاہری کامیابی پر مذمت کی ۔
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾
اسی نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں، (19) اُن دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے وہ (اپنی اپنی) حد سے تجاوز نہیں کرسکتے، (20) [الرحمن]
ربیع الاول کا مہینہ، محبتِ رسول اور اِصلاحِ اَعمال کا پیغام
کائنات ہست وبود میں خدا تعالیٰ نے بے حد وحساب عنایات واحسانات فرمائے ہیں۔ انسان پر لاتعداد انعامات و مہربانیاں فرمائی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ فرماتا رہے گا کیونکہ وہ رحیم وکریم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہزاروں نعمتیں دیں لیکن کبھی کسی پر احسان نہیں جتلایا، اس ذات رؤف الرحیم نے ہمیں پوری کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور احسنِ تقویم کے سانچے میں ڈھال کر رشکِ ملائک بنایا ۔ ہمیں ماں باپ، بہن بھائی اور بچوں جیسی نعمتوں سے نوازا۔ غرضیکہ ہزاروں ایسی عنایات جو ہمارے تصور سے ماورا ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں لیکن بطور خاص کسی نعمت اور احسان کا ذکر نہیں کیا اس لئے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ اسے کوئی مانے یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنے احسان کو نہیں جتلاتا۔
لیکن ایک نعمت عظمیٰ ایسی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جب حریم کبریائی سے اسے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور امت مسلمہ کو اس نعمت سے سرفراز کیا تو اس پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo (سورۃ آل عمران 3 : 164)
ترجمہ: ”بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہیں میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے“۔
درج بالا آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :
امت مسلمہ پر میرا یہ احسان، انعام اور لطف وکرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری ہی جانوں میں سے تمہارے لئے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدلنے، بگڑے ہوئے حالات سنوارنے اور شرف وتکریم سے نوازنے کیلئے تاکہ تمہیں ذلت وگمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عظمت وشرفِ انسانیت سے ہمکنار کر دیا جائے۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانہ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔ جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود میں لایا اور اس کو انواع واقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں ایسا نہ ہو کہ امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے بھی عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدرومنزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کرنے لگے۔
اب یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا فرض ہے کہ وہ ساری عمر اس نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرے اور خوشی منائے جیسا کہ اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے۔
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَo (يونس 10 : 58)
ترجمہ: ”آپ فرما دیں کہ اللہ کے فضل سے اس کی رحمت سے (جواُن پر نازل ہوئی) اس پر ان کو خوش ہونا چاہئے یہ تو ان چیزوں سے جو وہ جمع کر رہے ہیں کہیں بڑھ کر ہے“۔
جب ہم اپنی زندگی میں حاصل ہونے والی چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں تو وجود محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت عطا ہونے پر سب سے بڑھ کر خوشی منائی جائے اور اس خوشی کے اظہار کا بہترین موقع ماہ ربیع الاوّل ہے۔
ماہِ ربیع الاوّل کی تیاریاں
ماہِ ربیع الاوّل کو ایسے منایا جائے کہ دیکھنے والا ہمارے وجود اور کردار میں خوشی محسوس کرے۔ لہٰذا ماہِ صفر میں ہی استقبال ربیع الاوّل کے پروگرام اس نہج پر ترتیب دینا شروع کر دیں۔
* عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے چند روز قبل اپنے گھر کی صفائی کریں اور گھر کو خوب سجائیں۔
* گھروں میں چراغاں اور جھنڈیاں لگا کرخوشی کا اظہار کریں۔
* جس رات ربیع الاوّل کا چاند نظر آئے اس رات خوشی منائیں۔ اپنے دوستوں اور عزیزواقارب کو ماہِ ربیع الاوّل پر آمد پر مبارکباد دیں۔
* یکم ربیع الاوّل سے ہی شکرانے کے نوافل کا اہتمام کریں۔
٭ روز عید کیلئے خصوصی لباس بنوائیں جیسے آپ باقی دو عیدوں پر اس کا اہتمام کرتی ہیں۔
* اپنے بچوں کو بھی ماہ میلاد سے قبل ہی اس ماہ کی اہمیت بتائیں اور انہیں بھی نئے کپڑے بنوا کر دیں۔
* عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مہندی اور چوڑیوں کا اہتمام کریں۔
* آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خوشی میں بچوں میں شیرینی بانٹیں تاکہ شعوری طور پر بچوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی کا احساس پیدا ہو۔
* دوسری عیدوں کی طرح اس عید پر دوستوں اور رشتے داروں کوکارڈز بھیجیں۔
* ٹیلی فون اور SMS کے ذریعے دوسروں کو مبارک باد دیں۔
* ای میل کے ذریعے کارڈز کی ترسیل کی جائے۔
* ایک دوسرے کو تحائف دیں ۔
انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کو، شرک ، ناانصافی ، نسلی قومی و لسانی امتیازات ، جہالت اور برائیوں سے نجات و فلاح کا نقطۂ آغاز کہی جا سکتی ہے اور صحیح معنی میں خدا کے آخری نبی نے انبیائے ما سبق کی فراموش شدہ تعلیمات کواز سر نو زندہ و تابندہ کر کے عالم بشریت کو توحید، معنویت ، عدل و انصاف اورعزت و کرامت کی طرف آگے بڑھایا ہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دلنشین پیغامات کے ذریعے انسانوں کو مخاطب کیا کہ ”خبر دار ! خدا کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا اور کسی کواس کا شریک قرار نہ دینا تا کہ تم کو نجات و فلاح حاصل ہو سکے “۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس پر خلوص معنوی تبلیغ نے جہالت و خرافات کی دیواریں بڑی تیزی سے ڈھانا شروع کردیں اورلوگ جوق درجوق اسلام کے گرویدہ ہوتے چلے گئے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت در حقیقت انسانوں کی بیداری اورعلم و خرد کی شگوفائی کا دور ہے ۔ آج رسول اسلام کی بعثت کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن عصر حاضر کے ترقی یافتہ طاقتور انسانوں کو، پہلے سے بھی زیادہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرامین اور انسانیت آفریں تعلیمات کی ضرورت ہے ۔اس گفتگو میں ، ہم اسی موضوع کا جائزہ لیناچاہتے ہیں کہ بنیادی طور پر پیغمبر اسلام کی بعثت آج کے انسانوں کےلئے کن پیغامات کی حامل ہے۔اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے ختمی مآب محمد مصطفیٰ ، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انسانوں کو کس چیز کی دعوت دی ہے ؟ در اصل انسان کے یہاں بعض خواہشیں اور فطری میلانات موجود ہیں ، یہ فطری میلان خود انسان کے وجود میں ودیعت ہوئے ہیں اور ان کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔ مثال کے طور پر اچھائيوں کی طرف رغبت اور پسند ، تحقیق و جستجو کا جذبہ یا اولاد سے محبت وہ انسانی خصوصیات ہیں جن کو اس کی ذات سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ ظاہر ہے دنیا میں آنے والا ہر وہ انسان کہ جس نے فطرت کی آواز پر لبیک کہی ہو حقیقی اور جاوداں انسان بن جائےگا کیونکہ یہ وجود انسانی خواہشات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کرتا ہے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت ، انسان کی فطری ضروریات کی تکمیل کے لئے ہوئی ہے اوراس نے ایمان و معرفت ، آگہی و بیداری اور برادری و انسان دوستی کے چراغ روشن کئے ہیں ۔ لہذا رسول خدا کی بعثت کا دن انسانی زندگي میں ایک عظيم انقلاب اور تجدید حیات شمار ہوتا ہے وہ انقلاب جو انہوں نے بر پا کیا ہے انسان کوخود اپنے اوراپنے انجام دئے گئے برے اعمال کے خلاف جدو جہد پرآمادہ کرتا ہے اور جو بھی رسول خدا کے روشنی بخش پیغامات کو سنتا ہے اپنی اورکائنات کی حقیقی شناخت پیدا کرلیتا ہے اور پھر خود کو ہی عدل و انصاف کی عدالت میں کھڑا پا کر اپنے وجود میں ایک نئے انسان کی تعمیر پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ یہ خصوصیات صرف مذہب کے ساتھ وابستہ ہیں کہ وہ آدمی کو ایک خالص مادی اور دنیوی قالب سے نکال کر سچائی اورانصاف کی معنوی دنیا تک پہنچادیتا ہے اور ایک نفس پرست کوانصاف پسند نیکوکار انسان میں تبدیل کردیتا ہے ۔ مذہب انسان کی حیات کےلامتناہی چشمے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اوروحی دنیا کی باتیں اس کے دل و جان میں جگہ بنالیتی ہیں ۔ وحی کی باتیں انسان کو زندگي ، کیف و نشاط اور بیداری و آگہی عطا کرتی ہیں ، وحی کی باتیں ، معرفت کا چراغ ہیں جو انسان کو حقائق محض سےآشنا بنا دیتی ہیں ۔
ہر عہد اور ہر زمانے کا انسان اس جاوداں نور سے روشنی حاصل کر کے ، اپنے اندر معنویت کی نئی جوت جگاسکتا ہے اور پھر ترقی و کمال کی اعلیٰ معراج طے کر سکتا ہے ۔ قرآن کریم میں انبیاء(ع) کی بعثت کا فلسفہ ، انسان کی تعلیم و تربیت ، عدل و انصاف کی برقراری، تاریکیوں سے رہائی اور جبر و استبداد سے انسان کو آزادی دلانا بتایا گیا ہے ۔ سورۂ انفال کی 24 ویں آيت میں بھی بعثت کو زندگی اور حیات سے تعبیر کیا گيا ہے جو معاشروں کو ترقی عطا کر کے تقاضوں کی تکمیل کی راہ دکھاتی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے اے ایمان لانے والو ! خدا اور اس کے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہو وہ جب بھی تم کو اس پیغام کی طرف بلائیں جو تمہارے لئے سرچشمۂ حیات ہے ۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ جہالت ، تاریخ کے محض کسی خاص دور سے مخصوص ہے اور اس کو دور جہالت کا نام دیا گيا ہے اور عالم بشریت اس دورسے گزر چکاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ زمانہ جب انسان ، انسانیت کی حدوں سے دور ہوجاتا ہے اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگتا ہے جہالت کے دائرے میں پہنچ جاتاہے اور دنیااسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے چاہے وہ کوئی بھی دور اور زمانہ ہو اور کسی بھی نئی شکل میں کیوں نہ جلوہ گر ہوئی ہو ۔ اس وقت بھی ، دنیا جس بحران سے دوچار ہے اور افغانستان و عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جوالمیہ بر پا کیا ہے کیااس کو عصر حاضر کے انسان کی جہالت ، خود غرضي اور وحشت کے علاوہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ اور آيا وہ مظالم جو فلسطین کے مظلوم عوام اور بچوں پر جاری ہیں انسانی علم و تمدن کا ثمرہ کہے جا سکتے ہیں؟ یا اس کے جہل اور اقتدار طلبی کا نتیجہ ہیں !! بلاشبہ دنیا کو انسانیت و معرفت کے دائرے میں ایک نئے انقلاب اور تغییر کی ضرورت ہے ، وہ انقلاب جو چودہ سو سال قبل ، خدا کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شروع کیا تھا اور جس کے راہ نما پیغامات آج بھی اضطراب و بے چینی کے شکار انسان کو عدل و انصاف اوراخلاق کی راہ دکھا سکتے ہیں ۔
اس کے پیغامات میں ہمیشہ زندگي اور تازگي موجود رہی ہے ایک مسلمان عالم و دانشور کے بقول : جس طرح ایک درخت کے لئے پہلے انسان کسی مناسب زمین پر بیج ڈالتا ہے اور پھر پودا ٹہنیوں اور پتیوں میں تبدیل ہو کر جب بڑھتا ہے تو پھول اور پھل وجود میں آئے ہیں اور اس میں ویسے ہی دانے اگتے ہیں کہ جیسے بیج کی صورت میں انسان نے زمین کے حوالے کئے تھے ۔ اسی شکل میں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیغام کاایک دائرہ ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ہمیشہ اس سے پھول اور پھل شگوفہ آور ہوتے رہتے ہیں ۔ بہر حال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ بعثت ہر سال اس اہم حقیقت کی یاد دلاتی ہے کہ ہر انسان کا فریضہ ہے کہ اسی روز سے اپنے اندر ایک دوسرے انسان کی تعمیر شروع کردے اور عشق خدا و رسول کے ساتھ سچائی اور معنویت کی راہ پر قدم بڑھانے کے لئے تیار ہو جائے۔