Super User

Super User

5 سالہ اقتدار، ڈرون حملوں میں 2000 سے زائد افراد ہلاک ہوئےتازہ ترین رپورٹوں سے نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کے 5 سالہ دور اقتدار میں دنیا کے مختلف علاقوں میں امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حملوں میں دو ہزار چار سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں موجود صحافیوں کے ایک تحقیقاتی دفتر نے اعلان کیا ہے کہ اوباما حکومت نے 2009 سے لیکر اب تک پاکستان ، یمن اور سومالیہ میں 390 ڈرون حملے کیئے ہیں اور یہ تعداد امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیوبش کے دور حکومت کے مقابلے میں آٹھ فیصد زیادہ ہیں۔ اس رپورٹ میں آیا ہے کہ صرف پاکستان میں 2009 سے لیکر اب تک ڈرون طیاروں کے حملوں 951 عام شہری منجملہ 200 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اوباما دور حکومت میں یمن میں امریکہ کے ڈرون طیاروں نے 58 حملے کیئے جس کے نتیجے میں 281 افراد ہلاک ہوئے۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2013 میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم اور ایمینسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حملوں پر شدید تنقید کی تھی۔

آذربائیجان کے شہر باکو میں مسجد تازہ پیر

مسجد تازہ پیر:﴿ آذر بائیجانی ترکی زبان میں: Təzəpir məscidi) آذربائیجان کے شہر باکو کی قدیمی ترین مسجد ہے۔

سوویت یونین کے کمیونزم کی حکمرانی میں، اسلام مخالف پالیسی کے تحت یہ مسجد عجائب گھر ﴿میوزیم﴾ میں تبدیل ھوچکی تھی۔

۲۰۰۵ عیسوی میں آذربائیجان اور قفقاز کے ادارہ روحانیت کے زیر نگرانی اس مسجد کی مرمت کا کام مکمل ھوا اور اس کا باضابطہ طورپرافتتاح کیا گیا۔

یہ مسجد خیابان شایق عبداللہ میں “ ادارہ روحانیت آذربائیجان و قفقاز” کے پاس واقع ہے۔

آذربائیجان کے شہر باکو میں مسجد تازہ پیر

پیامبر رحمت(ص) کی عملی زندگی کے چند نمونے

مومن سے ملاقات کے وقت

ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دولت خانہ پر ایک شخص آیا اور آنحضرت سے ملاقات کی درخواست کی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص سے ملاقات کے لیے تیار ہوئے تو آپ نے پانی کا ایک برتن سامنے رکھا اپنے بالوں کو مرتب کیا اس کے بعد اس سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔

جناب عائشہ نے آپ کے اس عمل سے تعجب کیا اور واپس آتے ہی آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ ! ملاقات سے پہلے کیوں آپ پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوئے اور بالوں اور چہرے کو مرتب کیا؟

فرمایا: اے عائشہ! خداوند عالم دوست رکھتا ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملنے جائے تو اپنے آپ کو مرتب اور مزین کرے۔[1]

 

کھانا کھاتے وقت

منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تواضع اور انکساری کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھتے تھے، اپنا وزن اپنے بائیں پہلو پر ڈالتے تھے اور کھانا کھاتے وقت کسی چیز سے ٹیک نہیں لگاتے تھے، اللہ کے نام سے شروع کرتے اور لقموں کے درمیان بھی اللہ کو یاد کرتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے تھے۔

آپ کا یہ عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ نعمتیں عطا کرنے والے کی یاد میں رہنا چاہیے۔

آپ کھانا کھانے میں زیادہ روی نہیں کرتے تھے، جب کسی کھانے کو ہاتھ لگاتے تھے تو فرماتے تھے: "بسم اللہ، پروردگارا! اس میں برکت عطا فرما"۔ آپ کسی بھی کھانے کو خراب نہیں کہتے تھے اگر دل چاہتا تھا تو کھاتے تھے ورنہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ آپ کبھی بھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے آپ چاہتے تھے کہ دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔ دسترخوان پر آپ سب سے پہلے شروع کرتے تھےاور سب سے آخر میں ہاتھ کھینچتے تھے تاکہ دوسروں کو کھانا کھانے سے شرم محسوس نہ ہو اور بھوکے دسترخوان سے نہ اٹھ جائیں۔ آپ ہمیشہ کھانا اپنے سامنے سے کھاتے تھے اور گرم کھانا نہیں کھاتے تھے، آپ کا کھانا نہایت سادہ ہوتا تھا جیسے جو کی روٹی اور نمک۔ آپ نے کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی۔ آپ کھانے میں خرما زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔[۲]

 

بیٹھتے وقت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھنے کے لیے کسی مخصوص جگہ کا انتخاب نہیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی وہاں بیٹھ جاتے چاہے دروازے کے پاس ہی جگہ مل جائے۔ آپ نہیں چاہتے تھے کہ اٹھتے یا بیٹھتے وقت کوئی آپ کے احترام کے لیے اٹھے۔ آپ اس بارے میں فرماتے تھے: "جو شخص یہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے احترام میں کھڑے ہوں اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔"[۳]

 

جنگ پر لشکر بھیجتے وقت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جنگ کے لیے لشکر بھیجنے کا ارادہ کرتے تھے تو لشکر کو اپنے پاس بلاتے تھے اور ان سے فرماتے تھے: اللہ کے نام سے اس کی راہ میں اور اس کے پیغمبر کے بتائے ہوئے راستے سے جنگ پر جانا۔ اپنے دشمنوں کے ساتھ خیانت نہ کرنا، انہیں مثلہ(ناک،کان کاٹنا) نہ کرنا، ان کے ساتھ مکاری اور دغہ بازی نہ کرنا۔ بوڑھے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ مت کرنا۔ درختوں کو مت کاٹنا مگر یہ کہ جہاں مجبوری ہو۔ مسلمانوں میں سے ہر کوئی چھوٹا بڑا مشرکین کو پناہ دینے کا حق رکھتا ہے اگر کوئی کسی کو پناہ دے تو وہ اس کی پناہ میں رہے گا تاکہ پیغام اسلام کو سن سکے اور اگر اس نے اسلام قبول کر لیا تو تم مسلمان بھائیوں میں سے ہو جائے گا اور اگر اس نے انکار کر دیا تو اس کو اس کے گھر تک پہنچا دینا اور خدا سے مدد چاہنا۔ [۴]

 

برے پڑوسی کے ساتھ سلوک

ایک آدمی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ سے اپنے ہمسایہ کی طرف سے پہنچنے والی اذیت و آزار کی شکایت کی۔ رسول خدا [ص] نے فرمایا: (اگر وہ اذیت کرتا ہے تو) تم صبر کرو۔ دوسرے دن پھر آیا اور دوبارہ اس کی شکایت کی۔ آپ نے پھر صبر کرنے کی تلقین کی۔ تیسری بار پھر وہ شخص اپنے ہمسایہ کی شکایت لے کر آن پہنچا۔ آنحضرت نے اس سے فرمایا: جمعہ کے دن جب لوگ نماز جمعہ کے لیے مسجد کی طرف جا رہے ہوں تو اپنے گھر کا سامان نکال کر گلی میں رکھ دینا اور جب لوگ تم سے وجہ معلوم کریں تو سارا قصہ ان سے بتانا۔ اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔ کچھ ہی دیر ہوئی کہ وہ اذیت دینے والا پڑوسی دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا: سامان کو واپس گھر میں رکھ دو میں خدا کے ساتھ عہد کرتا ہوں کہ اس کے بعد تمہیں اذیت نہیں کروں گا۔[۵]

 

علم و دانش کی اہمیت

انصار کا ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ایک طرف جنازہ رکھا ہو اور دوسری طرف علماء کی مجلس ہو تو میں کس کو ترجیح دوں اور کس میں شرکت کروں؟ [ یعنی نماز جنازہ میں شرکت کروں یا علماء کی بزم میں بیٹھوں؟] رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اگر جنازے کو کفن و دفن کرنے والے اتنے لوگ ہوں کہ تمہاری گردن سے تکلیف ساقط ہو جائے تو علماء کی بزم میں شرکت کرنا ہزار جنازوں کی تشییع کرنے، ہزار مریضوں کی عیادت کرنے، ہزار شب و روز نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے، ہزار فقیروں کو صدقہ دینے، ہزار مستحبی حج بجا لانے اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے ہزار جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ یہ سب چیزیں ایک عالم کے حضور میں شرفیاب ہونے کی فضیلت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ کیا نہیں سنا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور بندگی علم اور معرفت سے وابستہ ہے؟ دنیا اور آخرت کی خیر و خوبی علم کی مرہون منت ہے؟ اور دنیا اور آخرت کی بدبختی جہالت کی وجہ سے ہے؟[۶]

 

دوسروں کا احترام کرنا

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بھی کسی کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے تو جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرلے آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے پیچھے نہیں کھینچتے تھے۔ کوئی بھی اگرکوئی کام آپ کے سپرد کرتا تھا تو آپ اس کو فورا انجام دیتے تھے مگر یہ کہ وہ خود اس سے منصرف ہو جائے۔ جب آپ کسی سے گفتگو کرتے تھے تو جب تک سامنے والا خود خاموش نہ ہو جائے آپ سے محو گفتگو رہتے تھے اور کبھی بھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ آپ کسی دوسرے کے پاس پاوں پھیلا کر بیٹھے ہوں۔[۷]

 

بچوں کا احترام

ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف فرما تھے کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام وارد خانہ ہوئے۔ آنحضرت ان کے استقبال کے لیے اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور ان کا انتظار کرنے لگے چونکہ بچے دھیرے دھیرے چل رہے تھے کچھ لمحوں کے بعد پیغمبر اکرم خود ان کی طرف بڑھے اور دونوں کو اپنے کاندھے پر بٹھایا اور لے کر چل پڑے اور فرما رہے تھے: میرے عزیز بچو! تمہاری سواری کتنی اچھی ہے اور تم سوار بھی کتنے اچھے ہو۔ [۸]

 

والدین کا احترام

ایک آدمی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ ! میں نے قسم کھائی ہے کہ جنت کے دروزے اور حور العین کی پیشانی کا بوسہ لوں۔ لہذا کیا کروں؟

آنحضرت نے فرمایا: اپنی ماں کے پیروں اور باپ کی پیشانی کا بوسہ لو۔[یعنی اگر ایسا کرو گے تو اپنی مراد کو پہنچ جاو گے]

اس نے کہا: اگر والدین مر چکے ہوں تو کیا کروں؟

آپ نے فرمایا: ان کی قبروں کا بوسہ لو۔ [۸]

 

مومن کا احترام

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خانہ کعبہ کی طرف نگاہ کر کے فرمایا:

خوش نصیب ہے تو اے گھر! جسے عظیم سمجھا جاتا ہے اور جس کا احترام کیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم مومن اللہ کے نزدیک تجھ سے زیادہ محترم ہے اس لیے کہ خداوند عالم نے تیرے لیے ایک چیز کو حرام کیا ہے وہ یہ کہ تیرے پاس قتل و غارت حرام ہے۔ لیکن مومن کے لیے تین چیزوں کو حرام کیا ہے مومن کی جان، اس کا مال، اور اس کی نسبت برا گمان کرنا حرام قرار دیا ہے۔[۹]

 

کام کی اہمیت

ابن عباس کہتے ہیں: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی شخص سے ملاقات کرتے تھے تو سب سے پہلے اس سے اس کے مشغلے اور کام کے بارے میں سوال کرتے تھے، اگر وہ کہتا تھا کہ بیکار ہوں تو آپ فرماتے تھے: میری نظروں سے گر گئےہو۔ اور جب اس کی وجہ معلوم کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: جب مومن بیکار ہو جاتا ہے تو مجبورا اپنے دین کا اپنے معاش سے سودا کرتا ہے۔[۱۰]

 

اصول کی پابندی

عبد اللہ بن ابی، منافقین کا سردار جس نے بظاہر کلمہ شہادت پڑھ کر امان حاصل کر رکھی تھی لیکن باطنی طور پر وہ رسول خدا کی مدینہ ہجرت اور اپنی حکومت کی بساط سمٹنے سے سخت رنجیدہ تھا اور اپنے دل میں رسول خدا اور اسلام کی نسبت عداوت پال رہا تھا۔ اور اسلام کے دشمن یہودیوں کے ساتھ مل کر، اسلام کے خلاف سازشوں اور پروپیگنڈوں میں بھرپور حصہ لیتا تھا۔ آنحضرت نہ صرف اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کے اصحاب اسے اس کے عمل کی سزا دیں بلکہ مکمل احترام کے ساتھ اس کے ساتھ برتاو رکھتے تھے اور بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنے جاتے تھے۔

غزوہ تبوک سے پلٹتے وقت بعض منافقین نے آنحضرت کی جان لینے کی سازش کی اس طرح سے ایک گھاٹی سے گزرتے وقت آپ کی سواری کو گرایا جائے۔ اس کے باوجود کہ سب منافقین نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے پیغمبر اکرم(ص) نے سب کو پہچان لیا لیکن اپنے اصحاب کے درمیان ان کا راز فاش نہیں کیا اور انہیں کسی قسم کی سزا دینے سے صرف نظر کرلیا۔ [۱۱]

 

سماج کے لیے نمونہ عمل

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا لباس خود سیتے تھے، اپنے کپڑوں کو خود ٹانکتے تھے، اپنی گوسفند کو خود دوتے تھے غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، زمین پر بیٹھتے تھے اور گدھے پر سوار ہوتے تھے۔ اور بازار جانے سے شرم نہیں کرتے تھے خود گھر میں ضرورت بھر کی چیزوں کو خرید کر لاتے تھے۔ ہر کسی کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے اور جب تک سامنے والا اپنا ہاتھ پیچھے نہ کرے آپ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے۔ سب کو سلام کرتے تھے اور جب کوئی آپ کو دعوت کرتا تھا چاہے خرما پر ہی کیوں نہ ہوتو آپ اس کی دعوت کو کبھی ٹھکراتے نہیں تھے۔ آپ اسراف اور فضول خرچی سے شدید پرہیز کرتے تھے اور ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ آپ کا چہرہ خشاش بشاش ہوتا تھا اور آپ کا رنج و غم غصہ کے ساتھ آمیختہ نہیں تھا۔ تواضع و انکساری میں ذلت و رسوائی نہیں تھی، آپ بخشش کرنے والے اور مہربان دل انسان تھے، سب مسلمانوں کے ساتھ مہربانی کرتے تھے۔ کبھی بھی دسترخوان سے سیر ہو کر نہیں اٹھتے تھے اور کسی چیز کی طرف طمع کا ہاتھ نہیں بڑھاتے تھے۔ [۱۲]

 

امتیاز کا قائل نہ ہونا

نقل ہوا ہے کہ ایک دن رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ ایک سفر پر تھے کھانے کے لیے آپ نے ایک گوسفند کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! گوسفند کو ذبح کرنا میرے ذمہ ہے۔ دوسرے شخص نے کہا: اس کی کھال اتارنا میری ذمہ داری ہے۔ تیسرے نے کہا: اس کو پکانا میرا کام ہے۔ آنحضرت [ص] نے ان کے ساتھ حصہ لیتے ہوئے فرمایا: لکڑیاں جمع کر کے لانا میرا کام ہے۔ اصحاب نے کہا: رسول اللہ ! ہم ہیں نا، لکڑیاں خود اکھٹا کریں گے۔ آپ زحمت نہیں اٹھائیں۔ فرمایا: مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے آپ کو تمہارے درمیان ممتاز سمجھوں۔ یقینا خداوند عالم کو بھی اس بات سے نفرت آتی ہے کہ اس کا بندہ اپنے دوستوں کے درمیان خود کو ممتاز سمجھنے لگے۔[۱۳]

 

انصاف

جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک سات سال تھی تو ایک دن آپ نے اپنی دائی حلیمہ سعدیہ سے پوچھا : میرے بھائی کہاں ہیں [ چونکہ آپ جناب حلیمہ کے گھر میں رہتے تھے اور جناب حلیمہ کے بیٹوں کو اپنا بھائی سمجھتے تھے ] حلیمہ نے جواب دیا: بیٹا! وہ ان بھیڑ بکریوں کو لے کر چراگاہ گئے ہیں جنہیں خدا وند عالم نے آپ کے وجود کی برکت سے ہمیں عطا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: مادر گرامی! آپ نے میرے سلسلے میں انصاف سے کام نہیں لیا ۔ ماں نے پوچھا : کیوں؟ فرمایا: کیا مناسب ہے کہ میں گھر کی چھت کے سائے میں رہوں اور دودھ پیوں جبکہ میرے بھائی جنگلوں اور صحراوں کی تپتی دھوپ میں جائیں؟[۱۴]۔

 

زندگی کے ابتدائی سال

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب مکہ کے اطراف میں سرزمین " اجیاد" میں چوپانی کرتے تھے تو خلوت اور تنہائی سے مانوس ہو جاتے تھے، صحراوں کے سناٹوں میں گھنٹوں محو تفکر رہتے تھے اور اپنے وجود اور زندگی کے بارے میں سوچتے تھے۔ آپ اپنے قوم و قبیلہ کی دنیا سے ہٹ کر ایک دوسری دنیا میں جیتے تھے، کبھی بھی ان کے لہو ولعب کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے اور ان پروگراموں میں جو بتوں کی مناسبتوں سے منعقد ہوتے تھے کبھی حصہ نہیں لیتے تھے۔ اور اس قربانی کے گوشت کو چکھتے تک نہیں تھے جسے بتوں کے لیے قربانی کیا جاتا تھا[۱۵]۔ آپ کے طائر تفکر کی سیر توحید حق کی فضا میں ہوتی اور اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی پر تمام ہوتی۔ آپ بتوں سے متنفر رہتے تھے اور فرماتے تھے:" کسی چیز سے میں اتنی دشمنی نہیں رکھتا جتنی ان بتوں سے رکھتا ہوں۔" [۱۶]۔

 

بچوں کو اہمیت دینا

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ مسلمانوں کے ساتھ نماز ظہر جماعت سے پڑھ رہے تھے، لیکن معمول کے برخلاف آنحضرت نے آخری دو رکعتوں کو بہت جلدی تمام کر دیا۔ نماز کے بعد لوگوں نے آپ سے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا ہوا ؟ کوئی حادثہ پیش آیا ہے کہ اتنا جلدی نماز تمام کر دی؟ آپ نے فرمایا: " ما سمعتم صراخ الصبی" تم نے بچے کے رونے کی آواز نہیں سنی تھی؟[۱۷]

 

کنجوسی کی مخالفت

ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کعبے کے طواف میں مشغول تھے کہ اتنے میں ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کعبے کا پردہ پکڑ کر کہہ رہا ہے: خدایا! تجھے اس گھر کی حرمت کی قسم مجھے بخش دے۔

آپ نے اس سے پوچھا: کیا گناہ کیا ہے؟

کہا: میں ایک مالدار آدمی ہوں۔ جب کوئی فقیر میری طرف آتا ہے اور مجھ سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میرے بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔

آپ نے اس سے فرمایا: مجھ سے دور ہو جا، مجھے اپنی آگ میں مت جلا۔

اس کے بعد فرمایا: اگر تم رکن اور مقام کے درمیان دو ہزار رکعتیں نماز پڑھو اور اتنا گریہ کرو کہ اشکوں سے نہریں جاری ہو جائیں لیکن کنجوسی کی خصلت کے ساتھ مر جاو تو اہل جہنم کے ساتھ محشورہو گے۔[۱۸]

 

قرض کی ادائیگی

ایک دن ایک شخص کا جنازہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور میں لایا گیا تاکہ آپ اس پر نماز جنازہ ادا کریں ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: تم لوگ اس پر نماز پڑھو میں نہیں پڑھوں گا۔

اصحاب نے کہا: یا رسول اللہ ! آپ کیوں نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے؟

فرمایا: اس لیے کہ یہ آدمی لوگوں کا مقروض ہے۔

ابو قتادہ نے آگے بڑھ کر کہا: میں اس کے قرض کا ضامن ہوں ۔

فرمایا: تم اس کا سارا قرض ادا کرو گے؟

ابو قتادہ نے کہا: جی ہاں یا رسول اللہ! میں اس کا پورا قرض ادا کروں گا۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) نے اس شخص کی میت پر نماز جنازہ ادا کی۔

ابو قتادہ کا کہنا ہے: اس شخص کا قرض سترہ یا اٹھارہ درہم تھا۔[۱۹]

 

اولاد کے ساتھ مساوی سلوک

ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے دیکھا کہ ایک آدمی نے اپنے ایک بیٹے کا بوسہ لیا اور دوسرے کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔

پیغمبر اکرم (ص)نے ناراضگی کی حالت میں اس سے فرمایا: کیوں تم نے دونوں بیٹوں کے درمیان امتیازی سلوک کیا اور دونوں کے ساتھ ایک جیسا برتاو نہیں کیا؟[۲۰]

 

گالیوں کے مقابلے میں خاموشی

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن میں کا ایک شخص بہت بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت اور بہادری کے جوہر دکھلا رہا تھا اور لوگ اس کے اطراف میں جمع ہو کراس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت نے ان سے فرمایا: یہاں کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا: یہ آدمی بھاری پتھر اٹھا کر اپنی شجاعت دکھلا رہا ہے۔ فرمایا: کیا تم لوگ چاہتے ہو میں تمہیں ایک شخص کی خبر دوں جو اس سے زیادہ شجاع ہے۔ عرض کیا: جی ہاں یا رسول اللہ! فرمایا: وہ شخص جس کو سامنے والا گالیاں دے رہا ہو اور وہ خاموشی سے سنتا رہے، اسے برداشت کرے اور اپنے نفس اور شیطان پر قابو پا لے وہ اس سے زیادہ شجاع ہے [۲۱]

 

مومن کے احترام کے لیے کھڑا ہونا

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی وارد ہوا۔ آنحضرت اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے ۔ اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ ! جگہ کافی ہے آپ کیوں کھڑے ہوئے ہیں؟ فرمایا: ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ جب وہ اس کے پاس بیٹھنے کے لیے آئے تووہ اپنی جگہ اس کو دے دے۔ [۲۲]

 

مزدورں کے ہاتھ کا بوسہ دینا

جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ جنگ تبوک سے واپس لوٹ رہے تھے تو سعد انصاری آپ کے استقبال کے لیے گئے، نبی اکرم(ص) نے انکے ساتھ مصافحہ کیا اور جب اپنا ہاتھ انکے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: تمہارے ہاتھ اتنے کھردھرے کیوں ہیں؟ کہا : یا رسول اللہ ! میں کلہاڑی اور بیلچے سے کام کرتا ہوں اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی مہیا کرتا ہوں۔ رسول خدا(ص) نے سعد کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور فرمایا: یہ وہ ہاتھ ہے جس تک آتش جہنم کی حرارت نہیں پہنچے گی۔ [۲۳]

 

دنیا کی نسبت بی رغبتی

سہل بن سعد ساعدی کا کہنا ہے: ایک آدمی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہو کرعرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیجئے جب میں اسے انجام دوں تو خدا اور اس کی مخلوق کا محبوب قرار پاوں۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت ہو جاو تاکہ خدا تمہیں دوست رکھے اور جو کچھ مال دنیا تمہارے پاس ہے اسے لوگوں کے درمیان تقسیم کر دو تاکہ لوگ تم سے راضی ہو جائیں۔[۲۴]

 

عورتوں کا جہاد

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ایک دن جہاد اور مجاہدین کے ثواب کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ایک عورت نے کھڑے ہو کر پوچھا :یا رسول اللہ(ص)! کیا عورتوں کے لیے بھی یہ فضیلتیں ہیں ؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہاں، اس دن سے لے کر جب عورتیں حاملہ ہوتی ہیں اس دن تک جب تک بچہ دودھ پیتا رہتا ہے عورتوں کو خداوند عالم مجاہدین کا ثواب عنایت کرتا ہے اور اگر اس درمیان ان کو موت آ جائے تو ان کا مقام شہید کے مقام جیسا ہے۔[۲۵]

 

مومن کی نماز کا ثواب

ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف نگاہ کر رہے تھے ایک آدمی نے اس کی وجہ پوچھی۔ آنحضرت نے جواب میں فرمایا: میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی، دیکھا کہ دو فرشتے زمین کی طرف آ رہے ہیں، تاکہ ایک اللہ کے مومن بندے کی دن و رات کی نمازوں اور عبادتوں کو لکھیں۔ لیکن اس کو نماز کی جگہ نہیں پایا، بلکہ اسے بیماری کے بستر پر پایا، وہ آسمان کی طرف واپس چلے گئے اور بارگاہ خدا وندی میں عرض کیا: ہم معمول کے مطابق اس بندہ مومن کی عبادتگاہ میں اس کی عبادتوں کا ثواب لکھنے گئے لیکن اسے وہاں نہیں پایا بلکہ وہ بستر بیماری پر آرام کر رہا تھا۔ خداوند عالم نے ان فرشتوں سے فرمایا: جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے اس کے لیے وہی ثواب لکھو جواس کے لیے اس وقت لکھتے تھے جب وہ صحت کے عالم میں اپنی عبادتگاہ میں نمازیں پڑھتا تھا اور مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کے نیک اعمال کا ثواب اس وقت تک لکھتا رہوں جب تک وہ بیماری کے بستر پر ہے۔ [۲۶]

 

مشرک ماں کے ساتھ صلہ رحم

اسماء بنت ابو بکر کہتی ہیں: میری ماں میرے پاس آئی، میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے پوچھا : میری ماں مشرک عورت ہے اور میرے پاس آتی رہتی ہے کیا میں اس کے ساتھ رابطہ اور صلہ رحم باقی رکھوں۔ فرمایا: کیوں نہیں۔ [۲۷]

 

نماز کی تاثیر

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ نماز کی انتظار میں مسجد میں پیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! میں نے ایک گناہ کیا ہے اس کی مغفرت کے لیے کیا کروں؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے رخ موڑ لیا۔ جب نماز تمام ہو گئی تو وہ آدمی دوبارہ اٹھا اور اس نے اپنا سوال تکرار کیا۔ رسول خدا (ص) نے اس کے جواب میں فرمایا: کیا تم نے ابھی نماز ادا نہیں کی، کیا اس کے لیے اچھے طریقے سے وضو نہیں کیا؟ عرض کیا: کیوں نہیں یا رسول اللہ! فرمایا: یہی نماز، تمہارے گناہوں کا کفارہ اور ان کی بخشش کا سبب ہے۔[۲۸]

 

تحفہ

ابن عباس ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور مہاجرین اور انصار کا ایک گروہ بھی مجلس میں حاضر تھا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو شخص بازار جائے اور اپنے اہل و عیال کے لیے تحفہ و تحائف خریدے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے محتاجوں کو صدقہ دیا ہے۔ اور نیز فرمایا: کھانا، پھل، اور دیگر تحائف تقسیم کرتے وقت سب سے پہلے لڑکیوں کو دو اس کے بعد لڑکوں کو۔ یقینا جو شخص اپنی لڑکی کو خوش رکھے گا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے بنی اسماعیل میں سے ایک غلام کو آزاد کیا ہو اور جو شخص اپنے بیٹے کو رونے سے چپ کروائے اور اسے کچھ دے کر خوش کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے خدا کے خوف سے گریہ کیا ہے اور جوشخص خوف خدا کی وجہ سے گریہ کرے خداوند عالم اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے۔ [۲۹]

 

تعلیم اور تعلم

ایک دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔ آپ کی نگاہ دو گرہوں پر پڑی جن میں سے ایک گروہ عبادت میں مشغول تھا اور دوسرا علمی مباحثہ کر رہا تھا آنحضرت دونوں گروہوں کو دیکھ کر مسرور ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے فرمایا: یہ دونوں گروہ نیک کام کر رہے ہیں اور خیر اور سعادت پر ہیں۔ لیکن میں لوگوں کو علم سکھانے کے لیے مبعوث ہوا ہوں ۔ یہ بات کہہ کر آپ اس گروہ میں شامل ہو گئے جو علمی گفتگو میں مشغول تھا ۔[۳۰]

 

جسمانی تنبیہ

ابو مسعود انصاری کہتے ہیں: میرا ایک غلام تھا جس کی میں پٹائی کرتا تھا ایک دن میں نے پیٹھ کے پیچھے سے ایک آواز سنی کہ کوئی کہہ رہا تھا: ابو مسعود ! خدا نے تمہیں اس پر قدرت دی ہے ( اور اسے تمہار غلام بنایا ہے) ۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ ہیں۔ میں نے رسول خدا (ص) سے عرض کیا: میں نے اسے راہ خدا میں آزاد کر دیا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تم اس کام کو انجام نہ دیتے تو آگ کا شعلہ تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا۔[۳۱]

 

دوسروں کی طرف توجہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی طرف رخ کرتے تھے تو پورے بدن کے ساتھ اس کی طرف مڑتے تھے، اور کسی پر ظلم و جفا نہیں کرتے تھے اور سامنے والے کی معذرت خواہی کو فورا قبول کرتے تھے۔[۳۲]

 

کام کا ثواب

ایک سفر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے بعض اصحاب روزہ سے تھے شدید گرمی کی وجہ سے بے حال ہو کر ایک جگہ کونے میں پڑے ہوئے تھے اور باقی والے خیمہ لگانے، جانوروں کوسیراب کرنے اور دیگر کاموں میں مشغول تھے ۔ آنحضرت نے فرمایا: تمام ثواب ان لوگوں کا ہے جو ان کاموں میں مشغول ہیں۔[۳۳]

 

سلام کا جواب

ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کو ’’ السلام علیکم‘‘ کہا، آپ نے جواب میں ’’علیکم السلام و رحمۃ اللہ ‘‘کہا۔ دوسرا شخص آیا اس نے ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ ‘‘کہا آپ نے اس کے جواب میں ’’علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہا۔ تیسرا شخص آیا اس نے سلام میں ’’ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘کہا آنحضرت نے جواب میں صرف’ علیک‘‘ کہا۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ نے میرا جواب اتنا کم دیا ہے مگر اللہ کا فرمان نہیں ہے کہ جو تمہیں سلام کرے اسے بہتر طریقہ سے جواب دو؟۔آنحضرت نے فرمایا: تم نے میرے لیے اس سے بہتر جواب کے لیے کوئی چیز باقی نہیں چھوڑی۔ لہذا مجھے تمہارے ہی سلام کو واپس لوٹانا پڑا۔[۳۴]

 

جوانوں کی قدر کرنا

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ثقافتی، سماجی اور لشکری ذمہ داریوں میں سے سخت ترین ذمہ داریاں ہمیشہ جوانوں کو سونپا کرتے تھے۔ پیغمبر اسلام (ص) کے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے آپ نے مصعب بن عمیر کو جو ایک نوجوان تھا ثقافتی اور تبلیغی فعالیتوں کی انجام دہی کے لیے مدینہ بھیجا اور یہی نوجوان جنگ بدر میں لشکر اسلام کا علمبردار اور سپہ سالار بھی رہا کہ جنگ احد میں شجاعانہ جنگ کے بعد شہید ہو گیا۔[۳۵]

 

علی علیہ السلام کی محبت

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: شب معراج جب مجھے آسمان پر لے جارہے تھے تو جس مقام پر بھی پہنچتا تھا فرشتوں کا ایک ایک گروہ خوشی اور مسرت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کے لیےآتا تھا، یہاں تک کہ جبرائیل بھی کچھ ملائکہ کے ساتھ میرا استقبال کرنے آئے اس دن جبرائیل نے نہایت اچھی بات کہی۔ کہا: اگر آپ کی امت علی کی محبت پر جمع ہو جاتی تو خدا وند عالم جہنم کو خلق ہی نہ کرتا۔[۳۶]

 

حسن معاشرت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے لباس اور جوتوں کو خود سیتے تھے اپنی گوسفندوں کا دودھ خود نکالتے تھے غلاموں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے زمین پر بیٹھتے تھے بغیر کسی شرم و حیا کے اپنے گھر کی چیزوں کو بازار سے خرید کر لاتے تھے اور مصافحہ کے وقت اپنا ہاتھ پہلے نہیں کھینچتے تھے ہر کسی کو سلام کرتے تھے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا فقیر ہو یا امیر۔ اگر کوئی دعوت کرتا تھا تو اسکی دعوت کو قبول کرتے تھے اور اسے ہلکا شمار نہیں کرتے تھے چاہے چند خرما پر ہی دعوت کیوں نہ ہو۔

آپ کی زندگی کا خرچ بہت کم تھا آپ کے اندر سادہ زیستی اور میانہ روی پائی جاتی تھی، آپ خوش مزاج اور خشاش بشاش چہرے کے مالک تھے، کبھی ٹھاٹھیں مار کر نہیں ہنستے تھے لیکن ہمیشہ مسکراہٹ آپ کے چہرے پر رہتی تھی، کبھی غصہ نہیں ہوتے تھے البتہ معمولی سا غم ان کے چہرہ پر نظر آتا تھا۔ منکسر المزاجی آپ کی طبیعت میں تھی۔ اسراف سے پرہیز کرتے تھے لیکن سخی تھے تمام مسلمانوں کے ساتھ مہربان رہتے تھے۔[۳۷]

 

حضرت خدیجہ

جیسا کہ تاریخ میں منقول ہے حضرت خدیجہ(س) پندرہ سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑی تھیں ان کی وفات کے بعد جب بھی کوئی ان کا تذکرہ ہوتا تھا تو پیغمبر اکرم ایک خاص تعظیم کے ساتھ انہیں یاد کرتے تھے اور کبھی کبھی ان کی یاد سے آپ کی آنکھوں سے اشک بھی جاری ہو جاتے تھے کہ جس کی وجہ سے عائشہ ناراض ہو جاتی تھی۔ ایک جگہ پیغمبر اکرم(ص) جناب خدیجہ(س) کے بارے میں فرماتے ہیں : بیشک میں خدیجہ کو اپنی امت کی خواتین پر برتری دیتا ہوں جس طریقے سے مریم کو خواتین عالم پر برتری دی گئی ہے۔ خدا کی قسم خدیجہ کے بعد کسی نے ان کی جگہ نہیں لی۔[۳۸]

 

پیدل چلنے والے کا حق

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب خود سوار ہوتے تھے تو اپنے ساتھ چلنےوالے کو پیدل چلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے یا اسے اپنے ساتھ سوار کر لیتے تھے اور اگر وہ قبول نہیں کرتا تھا تو اسے آگے بھیج دیتے تھے تاکہ وہ آگے جا کر کچھ دیر آرام کر لے۔[۳۹]

 

بیٹے کا حق

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ سے پو چھا: بیٹے کا حق کیا ہے؟

آنحضرت نے فرمایا: اس کا اچھا نام انتخاب کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو اور اس کے بعد اس کے لیے اچھا اور مناسب کام تلاش کرو۔[۴۰]

 

حرام و حلال

ایک عرب رسول خدا(ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کیا:

یا رسول اللہ ! خدا سے دعا کیجیے کہ ہماری دعا قبول کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو تو حلال راستے سے روزی کماو، اپنےمال کو پاک کرو اور حرام کو پیٹ میں مت بھرو۔[۴۱]

 

بردباری

انس بن مالک کہتے ہیں: میں دس سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں تھا۔ کبھی آپ نے یہ نہیں فرمایا:ایسا کیوں کیا ویسا کیوں نہیں کیا؟ نیز انس سے منقول ہے کہ: میں نے کئی سال رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت کی ہے کبھی انہوں نے مجھے برا بھلا نہیں کہا۔ کبھی مجھے مارا پیٹا نہیں۔ کبھی مجھے خود سے دور نہیں کیا۔ اور کبھی مجھے ڈانٹا جھپٹا نہیں اور کبھی مجھے کسی کام کی نسبت میری سستی اور کاہلی کی بنا پر اونچی آواز سے پکارا نہیں۔ اور اگر ان کے خاندان میں سے کوئی مجھ پر غصہ کرتا تھا تو آنحضرت فرماتے تھے: رہنے دو، جو مقدّر میں ہوگا ملے گا۔[۴۲]

 

حمد و ثنا

جب کبھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خوشی کی خبر دیتا تھا تو آپ فرماتے تھے: ’’ الحمد للہ علی کل نعمۃ‘‘۔ اور جب غم و اندوہ کی خبر ملتی تھی تو فرماتے تھے:’’ الحمد للہ علی کل حال‘‘ خلاصہ یہ کہ آپ ہر حال میں اپنے پروردگار کی حمد و ثنا کرتے تھے۔ [۴۳]

 

غصہ

ایک دن ایک شخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:کچھ مجھے تعلیم کریں تاکہ خدا مجھے بخش دے اور مختصر بتائیں تاکہ میں حفظ کر سکوں ۔ فرمایا: غصہ مت کرو۔ عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ چیز مجھے تعلیم دیں جو میرے لیے فائدہ مند ہو اور جتنا وہ اپنی بات کی تکرار کرتا گیا آنحضرت اس کو جواب میں یہی کلمہ فرماتے رہے : غصہ مت کرو۔ [۴۴]

 

سونا

حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیند سے اٹھنے کے بعد سجدہ کرتے تھے اور اس دعا کو پڑھتے تھے : ’’الحمد للہ بعثنی من مرقدی ھذا و لو شاء لجعلہ الی یوم القیمۃ‘‘۔ شکر اس خدا کا جس نے مجھے میرے بستر سے اٹھایا، اگر وہ چاہتا تو قیامت تک مجھے میرے بستر پر لٹائے رکھتا‘‘۔ نیز آپ سونے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد مسواک کرتے تھے۔[۴۵]

 

خود بینی

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے پاس ایک شخص کی بہت تعریف کی گئی، ایک دن وہ آدمی خود پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ وہ شخص ہے جس کی اس دن تعریف کی گئی تھی۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا: میں تو اس کے چہرے میں شیطان کی سیاہی دیکھ رہا ہوں ۔ وہ نزدیک آیا اوراس نے پیغمبر کو سلام کیا۔

پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: تجھے قسم ہے خدا کی کیا تو نے خود سے نہیں کہا کہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں ہے؟

اس نے جواب دیا: جی ہاں، ایسا ہی کہا تھا جیسا آپ نے فرمایا ہے۔ [۴۶]

 

کھانا کھانا

عمر بن ابی سلمہ، زوجہ رسول ام سلمہ کے بیٹے کا کہنا ہے: ایک دن میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا میں تھالی کے اطراف سے لقمہ اٹھا رہا تھا رسول اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے سامنے سے لقمہ اٹھاو ۔ [۴۷]

 

دار النصرۃ

عبد اللہ بن جزعان کہ جو ایک فقیر اور بوڑھا آدمی تھا گھر بنا رہا تھا، پیغمبر اسلام (ص) کا سن مبارک اس وقت سات سال تھا آپ نے بچوں کو اکٹھا کیا اور عبد اللہ کی مدد کی تاکہ اس کا گھر بن جائے۔ اس کے بعد اس گھر کا آپ نے دار النصرۃ نام رکھا اور کچھ لوگوں کو مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے معین کیا۔[۴۸]

 

حوالہ جات :

[1] حمید رضا کفاش،۱۲۰ درس زندگی از سیرہ پیغمبر [ص]، ص۱۶۔

[۲] بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۳۶ سے ۲۴۶ تک۔

[۳] بحار الانوار، ج۱۶،ص۱۵۲۔

[۴] وسائل الشیعہ، ج ۱۱، ص۴۲۴

[۵] سفینۃ البحار، مادہ جور، ص ۱۹۰ با نقل از امام محمد باقر علیہ السلام۔

[۶] بحار الانوار،ج۱،ص۲۰۴۔

[۷] ۱۲۰ درس زندگی، حمید رضا کفاش،ص۲۰

[۸] بحار الانوار، ۲۸۵/۴۳ح۵۱، مناقب اب شھر آشوب،۳۸۸/۳۔

[۸] بیست و پنج اصل از اصول اخلاقی امامان،ص۷۹۔

[۹] سفینۃ البحار، مادہ امن۔

[۱۰] بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۹۔

[۱۱] صحیح بخاری، ج۵،ص۱۵۲۔

[۱۲] صحیح بخاری، ج۵، ص ۳۳۰۔

[۱۳] منتھی الامال، ج۱، ص۲۳۔

[۱۴] بحار الانوار، ۳۷۶/۱۵۔

[۱۵] سیرہ احمد زینی۔ص۹۵۔

[۱۶] سیرہ حلبی، ج۱،ص۲۷۰۔

[۱۷] فروغ کافی، ج ۶، ص۴۸۔

[۱۸] جامع السعادات، علامہ نراقی،ج ۲،ص۱۵۴۔

[۱۹] مستدرک الوسائل: ج۱۳، ص۴۰۴۔

[۲۰] بحار الانوار، ج۱۰۴،ص۹۷ ح۶۱

[۲۱] مجموعہ ورام،ص ۳۴۰۔

[۲۲] بحار الانوار،ج ۱۶،ص۲۴۰۔

[۲۳] اسد الغابہ؛ ج ۲،ص۲۶۹۔

[۲۴] سنن ابن ماجہ، ج۲، ص ۱۳۷۴۔

[۲۵] من لا یحضر الفقیہ، ج۳،ص۵۶۱۔

[۲۶] فروع کافی، ج۱، ص۳۱۔

[۲۷] محجۃ البیضاء، ج۳،ص۴۲۹

[۲۸] بحار الانوار، ج ۷۲، ص۳۱۹۔

[۲۹] تحفۃ الواعظین، ج ۶ص ۱۰۹، نقل از وسائل الشیعہ، ج۷، ص۲۲۷۔

[۳۱] بحار الانوار،۱۴۲ْ۷۴،ح۱۲۔

[۳۲] بحار الانوار،ج۱۶،ص۲۲۸۔

[۳۳] صحیح مسلم،ج۳،ص۱۴۴۔

[۳۴] تفسیر المیزان،ج۵،ص۲۳بہ نقل از تفسیر صافی۔

[۳۵] بحار الانوار،ج۶، ص ۴۰۵۔

[۳۶] بحار الانوار، ج۴۰، ص۳۵۔

[۳۷] سنن النبی، ص۴۱،ھ ۵۲،

[۳۸] الزوائد، ج۹،ص۲۱۳۔

[۳۹] سنن النبی، ص۵۰،ح ۶۸ از مکارم الاخلاق ، ج۱، ص۲۲۔

[۴۰] وسائل الشیعہ، ج۱۵ص۱۹۸،ح۱۔

[۴۱] سینۃ البحار، ج۱، ص۴۴۸۔

[۴۲] حمید رضا کفاش، ۱۲۰ درس زندگی پیامبر اکرم۔ص۴۶۔

[۴۳] اصول کافی، ج۱، ص ۴۹۰۔۵۰۳ ۔

[۴۴] سنن بیہقی، ج ۱۰، ص۱۰۵۔

[۴۵] بحار الانوار،ج ۷۳،ص ۲۰۲۔

[۴۶] محجۃ البیضاء، ج۶، ص۲۴۰۔

[۴۷] صحیح بخاری، ج۷،ص۸۸۔

[۴۸] حیاۃ القلوب،ج۲،ص۶۷۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بقلم: جعفری

نواز شریف کی طرف سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریش کا حکم

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں فوج کو تیاری کا حکم دے دیا ہے۔ اسلام آباد سے موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی جس کے بعد اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، اجلاس میں پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور آرمی چیف سمیت اعلیٰ ترین عسکری قیادت نے شرکت کی، اجلاس کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی جانب سے شرکا کو ملک کی داخلی صورت حال، ملکی سلامتی اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے دوران دہشتگردی کے خلاف واقعات روکنے کے لئے انٹیلی جنس نظام کو مزید مربوط بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس موقع پر نواز شریف نے ہدایت کی کہ سرحدی علاقوں کی سیکیورٹی موثر بنانےکے لئے صوبوں کے ساتھ بھی انٹیلی جنس تعاون بڑھایا جائے، اس کے علاوہ داخلی سیکیورٹی کو موثر بنانے کے لئے پولیس کو کوئیک رسپانس فورس کی طرح تربیت دی جائے۔ اجلاس کے دوران ریاست کے خلاف سرگرم تمام گروپوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیا گیا، اس سلسلے میں وزیراعظم نے عسکری قیادت کو مکمل آپریشنل پلان تشکیل دینے کی ہدایت کی، ذرائع کے مطابق پاک فوج کی جانب سے آپریشنل پلان پیش کئے جانے کے بعد وزیراعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس یا قوم سے خطاب میں آپریشن کا باضابطہ اعلان کریں گے۔

روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام اور عالمی برادری کی خاموشی

انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے میانمار کے سکیورٹی اہلکاروں پر 40 روہنگيا مسلمانوں کے قتل کا الزام عائد کیا ہے۔ اس تنظیم کے حکام نے بتایا کہ انہیں اس علاقے میں قتل عام کے ثبوت ملے ہیں . اکتوبر 2012 میں جب سے میانمار میں مسلمانوں کے خلاف تشدد شروع ہوا ہے تب سے اب تک کا یہ سب سے بڑا قتل عام ہے .

انسانی حقوق کی اس تنظیم نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد شاید اس سے زیادہ ہے لیکن میانمار کی حکومت نے جو محدویت کھڑی کر رکھی ہے اس وجہ سے ان علاقوں تک رسائی بہت مشکل ہو گئی ہے . واضح رہے کہ تقریبا دس لاکھ سے زیادہ روہنگيا مسلمان میانمار کے مغرب میں واقع راخين صوبے میں رہتے ہیں۔

خواتین کا عزم دیدنی،سخت سردی میں بچوں کیساتھ موجود

خواتین کا عزم دیدنی،سخت سردی میں بچوں کیساتھ موجود

خواتین کا عزم دیدنی،سخت سردی میں بچوں کیساتھ موجود

خواتین کا عزم دیدنی،سخت سردی میں بچوں کیساتھ موجود

لاہور میں گورنر ہاوس کے باہر جاری دھرنے میں جہاں آئی ایس او کے جوان اور ديگر کارکنوں موجود ہیں، وہاں خواتین کی بھی کثیر تعداد دھرنے میں شریک ہے، خواتین نے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ رکھا ہوا ہے اور کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کر رہی ہیں۔ اس موقع پر خواتین نے اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کیخلاف ہم بھی کردار زینبی کی ادائیگی کے لئے میدان عمل میں ہیں اور انشاء اللہ ہم اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ رہیں گے۔ خواتین کا عزم دیدنی تھا، جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ سخت سردی میں معصوم بچوں کے ساتھ یہاں بیٹھی ہیں تو کیا حکومت آپ کے مطالبات پورے کر دے گی تو خواتین کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت ہمارے مطالبات پورے نہیں کرتی اور کوئٹہ کے مومنین شہداء کی تدفین نہیں کرتے، ہم یہاں بیٹھی رہیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہر بار ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے، ہر بار ہمیں دلاسے دے کر ٹائم پاس کر لیا جاتا ہے، لیکن اس بار ایسا نہیں ہوگا، اگر حکومت نے ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے تو ہم حکومت کا تختہ الٹنے کا مطالبہ بھی کرسکتی ہیں اور فوج سے مطالبہ کریں گے کہ وہ آکر اقتدار سنبھالے کیونکہ دہشت گردانہ جمہوریت سے آمریت بہتر ہے۔ ایک ننھی بچی فاطمہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم شہدائے کوئٹہ کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور دہشتگردوں سے اظہار براءت کیلئے یہاں جمع ہیں اور جب تک حکومت دہشتگردوں کو گرفتار نہیں کرتی، ہم احتجاجی مظاہرے میں شریک رہیں گی۔

حماس کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف حملوں کے خاتمہ کا مطالبہ

تحریک حماس نے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے حملوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطین پریس سینٹر کے مطابق حماس کے سینئر رکن عزت رشق نے فلسطین کی قانون ساز اسمبلی کے اراکین بالخصوص یاسر منصور کے خلاف تشدد آمیز اقدامات کی بابت خبردار کیا ہے۔ عزت رشق نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت پر عالمی سطح پر دباؤ ڈالے جانے کی ضرورت ہے تا کہ فلسطینیوں کےخلاف اسکی تشدد آمیز کاروائيوں پر روک لگائي جاسکے۔ فلسطین کی قانون ساز اسمبلی کے رکن یاسر منصور نے اپنی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سترہ جنوری سے بھوک ہڑتال شروع کررکھی ہے۔ صیہونی حکومت نے اس فلسطینی رہنما کو اس سے پہلے چھے مرتبہ گرفتار کیا تھا اور انہوں نے صیہونی جیلوں میں دس برس کاٹے ہیں۔ ادھر غزہ میں فلسطینیوں نے احتجاجی مظاہرہ کرکے صیہونی حکومت کے ساتھ ساز باز مذاکرات کی مذمت کی ہے۔ فلسطین کی قانون ساز اسمبلی کے نائب سربراہ احمد بحر نے کہا ہے کہ محمود عباس، خودسرانہ طور پر صیہونی دشمن سے مذاکرات کررہے ہیں اور انہوں نے اس طرح فلسطینیوں کے اتفاق کو ٹھیس پہنچائي ہے۔

ایران کا دعوت نامہ واپس لیا جانا بڑی غلطیروس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جنیوا ٹو عالمی اجلاس میں شرکت کے لئے ایران کا دعوت نامہ واپس لئے جانے کو بڑی غلطی قرار دیا ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق ماسکو ميں سالانہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسي وزير خارجہ سرگئي لاورف نے کہا کہ جنيوا دو کانفرنس ميں اقوام متحدہ کي جانب سے ايران کو ديئے جانے والے دعوت نامے پر امريکہ کا منفي رويہ انتہائي حيرت انگيز ہے- انہوں نے کہا کہ امريکي وزير خارجہ اعلانيہ اور غير اعلانيہ طور پر اس اجلاس ميں ايران کي اہمیت کا اعتراف کرچکے تھے- انہوں نے کہا کہ جينوا دو اجلاس ميں ايسے تمام غير ملکی فريقوں کو شريک کيا جانا چاہيے جو اس معاملے ميں اثرانداز ہو سکتے ہيں- روسي وزير خارجہ نے کہا کہ کانفرنس کو نتيجہ خيز بنانے کے لئے خطے کے تمام ملکوں کو دعوت دي گئي تھي ليکن ايران سے دعوت نامہ واپس ليا جانا انتہائي شرمناک ہے- سرگئي لاو روف نے مزيد کہا کہ شام کے بحران سے متعلق تمام معاملات کو حکومت اور مخالفين کےدرميان اتفاق رائے سے حل کيا جانا چاہيے- انہوں نے يہ بات زور ديکر کہي کہ اقوام متحدہ کے سيکريٹري جنرل کا يہ کہنا صرف ايک بہانہ ہے کہ ايران جنيوا ايک کے فيصلے قبول کرنے پر تيار نہيں ہے- سرگئي لاوروف نے واضح کيا کہ جينوا ايک اجلاس کے بيان ميں صرف قومي ڈائلاگ شروع کرنے کي بات کي گئي تھي ليکن بعض ممالک شامي حکومت کو تبديل کرنے کي کوشش کر رہے ہيں تو پھر جينوا دو اجلاس ميں کسي بھي ملک کو بلانے کي ضرورت نہيں ہے-

اعلی حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب

اعلی حکام اور وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں سے خطاب؛

وحدت اسلامی آج کی اہم ترین ضرورت

دشمنان اسلام تفرقہ ڈال کر فلسطین کر امت کے ایجنڈے سےا مسئلہ فراموش کروانا چاہتے ہیں

رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوری نظام کے اعلی حکام اور عالمی وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور امام جعفر بن محمد الصادق علیہما السلام کی ولادت باسعادت کے موقع پر سے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی الخامنہ (حفظہ اللہ تعالی) سے ملاقات کی اور رہبر انقلاب نے اس موقع پر حاضرین سے خطاب فرمایا۔

 

امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے خطاب کا متن:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

ہدیۂ تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں، پیامبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے میلاد مبارک اور آپ(ص) کے فرزند ارجمند امام صادق (علیہ الصلوۃ والسلام) کی پربرکت ولادت کے موقع پر اس اجتماع میں تشریف فرما، آپ حاضرین محترم، ہفتہ وحدت کے عزیز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفراء اور تمام ذمہ داران اور بزرگوار سرکاری حکام ـ جنہوں نے ملک کی بھاری ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں ـ کو؛ نیز مبارکباد عرض کرتا ہوں ملت ایران کو اور تمام مسلمانان عالم کو، بلکہ تمام عالمی حریت پسندوں کو۔

یہ مبارک میلاد ایسی برکتوں کا سرچشمہ ہے جو صدیوں کے دوران بنی نوع انسان کے ہر فرد پر نازل ہوتی رہی ہیں؛ اور ملتوں کو، انسانوں کو اور انسانیت کو اعلی ترین انسانی، فکری اور روحانی عوالم اور شاندار تہذیب اور شاندار زندگی کے لئے روشن پیش منظر پیش کرتی رہی ہیں۔ جو کچھ اس ولادت مبارکہ کی سالگرہ کے موقع پر عالم اسلام اور مسلم امہ کے لئے اہم ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے سلسلے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی توقعات کو مد نظر رکھیں، اور کوشش کریں اور مجاہدت و جدوجہد کریں تاکہ یہ توقات پوری ہوجائيں؛ دنیائے اسلام کی سعادت اسی میں ہے اور بس۔ اسلام بنی نوع انسان کی آزادی کے لئے آیا، استبدادی اور ظالم مشینریوں کی قید و بند اور دباؤ سے انسان کے مختلف طبقوں کی آزادی اور انسانوں کے لئے حکومت عدل کے قیام کے لئے بھی اور انسان کی زندگی پر مسلط اور انسانی زندگی کو اس کی مصلحتوں کے برعکس سمت کھولنے والے افکار، اوہام (و خرافات) اور تصورات سے آزادی کے لئے بھی۔

امیر المؤمنین علیہ الصلاۃ والسلام نے ظہور اسلام کے دور میں عوام کی زندگی کو "فتنے کا ماحول" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے: "فى فِتَنٍ داسَتهُم بِاَخفافِها وَ وَطِئَتهُم بِاَظلافِها" (1) فتنے سے مراد وہ غبار آلود ماحول ہے جس میں انسان کی آنکھیں کچھ دیکھنے سے عاجز ہیں؛ انسان راستہ نہيں دیکھتا، مصلحت کی تشخیص سے عاجز ہے، یہ ان لوگوں کی صورت حال تھی جو اس مصائب بھرے اور پرملال خطے میں زندگی بسر کررہے تھے۔

بڑے ممالک میں، اس زمانے کی تہذیبوں میں بھی ـ جن کے پاس حکومتیں تھیں ـ یہی صورت حال مختلف شکل میں پائی جاتی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ظہور اسلام کے ایام میں جزیرۃالعرب کے عوام بدبخت اور بیچارے تھے اور دوسرے خوشبخت تھے؛ نہیں، ستمگر اور ظالم حکومتیں، انسان اور انسانیت کی شان و منزلت کو نظر انداز کرنے، طاقتوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لئے تباہ کن جنگوں کی آگ بھڑکائے جانے، نے لوگوں کی زندگی تباہ کردی تھی۔

تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن کی دو معروف تہذیبیں ـ یعنی ساسانی ایران کی تہذیب اور سلطنت روم کی تہذیب ـ کی صورت حال کچھ اس طرح سے تھی کہ ان معاشروں میں زندگی بسر کرنے والے عوام اور مختلف طبقات کے حال پر انسان کا دل ترس جاتا ہے؛ ان کی زندگی کی صورت حال نہایت افسوسناک ہمدردی کے قابل تھی، وہ اسیری کی زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ اسلام نے آکر انسان کو آزاد کردیا؛ یہ آزادی، سب سے پہلے انسان کے دل اور اس کی روح کے اندر معرض وجود میں آتی ہے؛ اور جب انسان آزادی کو محسوس کرتا ہے، جب وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کی قوتیں اس احساس کے زیر اثر آتی ہیں اور اگر وہ ہمت کرے اور اٹھ کر حرکت کرے، اس کے لئے آزادی کی عملی صورت معرض وجود میں آتی ہے؛ اسلام نے انسانوں کے لئے یہ کام سرانجام دیا؛ آج بھی وہی پیغام موجود ہے پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں۔

بنی نوع انسان کی آزادی کے دشمن انسانوں کے اندر آزادی کی سوچ کو مار ڈالتے ہیں اور ختم کردیتے ہیں؛ جب آزادی کی فکر نہ ہوگی؛ آزادی کی طرف پیشرفت بھی سست ہوجائے گی یا مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اسلام کے مد نظر آزادی تک پہنچنے کی کوشش کریں؛ مسلم اقوام کا استقلال و خودمختاری، پوری اسلامی دنیا میں عوامی حکومتوں کا قیام، قومی و ملکی فیصلوں اور اپنی قسمت کے فیصلوں میں عوام کے فرد فرد کی شراکت داری اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر آگے کی جانب حرکت، وہی چیز ہے جو ملتوں اور قوموں کو نجات دلائے گی۔

البتہ آج مسلم قومیں محسوس کرتی ہیں کہ انہیں اس اقدام کی ضرورت ہے اور پوری اسلامی دنیا میں یہ احساس پایا جاتا ہے اور بالآخر یہ احساس نتیجہ خيز ثابت ہوگا، بلا شک۔

اگر قوموں کے ممتاز افراد ـ خواہ وہ علمی و سائنسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں چاہے دینی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ـ اپنے فرائص کو بحسن و خوبی نبھائیں، تو عالم اسلام کا مستقبل مطلوبہ مستقبل ہوگا؛ اس مستقبل کے سلسلے میں امیدیں موجود ہیں۔ اسی مقام پر دشمنان اسلام ـ جو اسلامی بیداری کے دشمن ہیں، اقوام عالم کی آزادی و استقلال کے مخالف ہیں ـ میدان میں اتر آتے ہیں؛ اسلامی معاشروں کو معطل رکھنے کی قسماقسم کوششیں عمل میں لائی جاتی ہیں اور ان میں سب سے زيادہ اہم اختلاف و انتشار پھیلانا ہے۔ استکباری دنیا 65 برسوں سے ـ اپنی پوری قوت کو بروئے کار لاکر ـ صہیونی ریاست کی موجودگی کو مسلم اقوام پر ٹھونسنے اور انہیں اس واقعیت (Reality) کو تسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہی ہے اور وہ ناکام رہی ہے۔ ہمیں (صرف) بعض ممالک اور حکومتوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جو اپنے اجنبی دوستوں کے مفاد کے لئے اپنے قومی مفادات کو پامال کرنے یا اسلامی مفادات کو بھلا دینے کے لئے بھی تیار ہیں جبکہ یہ اجنبی دوست اسلام کے دشمن ہیں؛ اقوام صہیونیوں کی (علاقے میں) موجودگی کے خلاف ہیں۔ 65 برسوں سے فلسطین کو یادوں سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ چند سالوں کے دوران ـ لبنان کی 33 روزہ جنگ میں اور غزہ کی 22 روزہ جنگ میں اور دوسری مرتبہ آٹھ روزہ جنگ میں ـ مسلم ملت اور اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ زندہ ہے، اور امریکہ اور دوسری مغربی قوتوں کی وسیع سرمایہ کاری کے باوجود اپنے وجود اور اپنے تشخص کو محفوظ رکھنے اور مسلط کردہ جعلی صہیونی نظام کو طمانچہ مارنے میں کامیاب ہوئی ہے؛ اور ظالم صہیونیوں کے آقاؤں، دوستوں اور حلیفوں کو ـ جو اس عرصے کے دوران اس مسلط کردہ ظالم اور جرائم پیشہ نظام کو تحفظ دینے کے لئے کوشاں رہے ہیں ـ ناکامی کا منہ دکھا چکی ہے؛ اسلامی امہ نے ثابت کرکے دکھایا کہ اس نے فلسطین کو نہیں بھلایا؛ یہ بہت اہم مسئلہ ہے؛ ان ہی حالات میں دشمن کی تمام تر توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کی جاتی ہے کہ اسلامی امت کو فلسطین کی یاد سے غافل کردے؛ لیکن وہ کیونکر؟ اختلاف و انتشار پھیلانے کے ذریعے، خانہ جنگیوں کے ذریعے، اسلام اور دین و شریعت کے نام پر منحرف انتہا پسندی کی ترویج کے ذریعے؛ وہ یوں کہ کچھ لوگ عام مسلمانوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی تکفیر کا اہتمام کریں۔

ان تکفیری گروپوں کا وجود ـ جو عالم اسلام میں نمودار ہوئے ہیں ـ استکبار کے لئے اور عالم اسلام کے دشمنوں کے لئے ایک بشارت اور ایک خوشخبری ہے۔ یہی گروپ ہیں جو صہیونی ریاست کی خبیث واقعیت کو توجہ دینے کے بجائے، مسلمانوں کی توجہ کو دوسری سمت مبذول کرا دیتے ہیں۔ اور یہ وہی نقطہ ہے جو اسلام کے مطمع نظر کے بالکل برعکس ہے؛ اسلام نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ "اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّارِ رُحَماءُ بَينَهُم"(۲) [رہیں]؛ مسلمانوں کو دین کے دشمنوں کے مقابلے میں میں سخت ہونا چاہئے اور ان کے زیر تسلط نہیں آنا چاہئے؛ "اَشِدّاءُ عَلَى الكُفّار" عینا قرآن کی آیت کریمہ ہے۔ آپس میں مہربان اور ترس والے ہوں، ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، یہ اسلام کا حکم ہے؛ اسی اثناء میں ایک تفکر اور ایک جماعت معرض وجود میں آئے جو مسلمانوں کو تقسیم کرے مسلم اور کافر میں! بعض مسلمانوں کو کافر کی حیثیت سے نشانہ بنائے، مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا دے! کون اس حقیقت میں شک کرسکتا ہے کہ ان گروپوں کو وجود میں لانے، ان کی حمایت و پشت پناہی، انہیں مالی امداد دینا اور ان کو ہتھیاروں سے لیس کرنا اسکبار کا کام ہے اور استکباری حکومتوں کی خبیث خفیہ ایجنسیوں کا کام ہے؟ وہ بیٹھ کر اسی کام کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ عالم اسلام کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے؛ یہ ایک عظیم خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ بعض اسلامی حکومتیں، حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے ان اختلافات کو ہوا دیتی ہیں؛ وہ سمجھتے نہیں ہیں کہ ان اختلافات کو ہوا دینے کے نتیجے میں ایسی آگ بھڑک اٹھے گی جو سب کا دامن پکڑ لے گی؛ یہ استکبار کی خواہش ہے: مسلمانوں کے ایک گروپ کی جنگ دوسرے گروپ کے خلاف۔ اس جنگ کا سبب و عامل بھی وہی لوگ ہیں جو مستکبر قوتوں کے کٹھ پتلی حکمرانوں کی دولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں؛ کہ آکر اس ملک میں اور اُس ملک میں لوگوں کے درمیان جھگڑا کھڑا کردیں؛ اور استکبار کی طرف سے اس اقدام میں حالیہ تین چار برسوں کے دوران ـ جب سے بعض اسلامی اور عرب ممالک یں اسلام بیداری کی لہریں اٹھی ہیں ـ بہت زیادہ شدت آئی ہے؛ تاکہ اسلامی بیداری کو دیوار سے لگادیں؛ اور ساتھ ہی دشمن کی تشہیری مشینریوں کے ذریعے تنکے کو پھاڑ بناتے ہوئے اسلام کو دنیا کی رائے عامہ کے سامنے بدصورت ظاہر کریں؛ جب ٹیلی ویژن چینل ایک شخص کو دکھاتے ہیں جو اسلام کے نام سے ایک انسان کا جگر چباتا ہے اور کھتا ہے؛ تو لوگ اسلام کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ دشمنان اسلام نے منصوبہ بندی کی ہے؛ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جو یکایک معرض وجود میں آئی ہوں بلکہ ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے عرصے سے منصوبہ بندی ہوئی ہے۔ ان اقدامات کے پس پردہ پالیسی سازی ہے؛ ان کی پشت پر پیسہ ہے؛ ایسے اقدامات کے پس پردہ جاسوسی ادارے ہیں۔

مسلمانوں کو ہر اس عنصر کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے جو وحدت کا مخالف ہو اور وحدت کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے بہت بھاری فریضہ ہے؛ شیعہ کو بھی یہ فریضہ قبول کرنا پڑے گا اور مختلف شعبوں کو بھی یہ فریضہ سنبھالنا پڑے گا جو اہل تشیع اور اہل سنت کے اندر پائے جاتے ہیں۔

وحدت سے مراد مشترکات کا سہارا لینا ہے، ہمارے پاس بہت سے مشترکات ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان اشتراکات اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ ہیں؛ انہیں اشتراکات کا سہارا لینا چاہئے۔ اہم فریضہ اس حوالے سے ممتاز افراد و شخصیات پر عائد ہوتا ہے؛ خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، خواہ علمی ہوں یا دینی ہوں۔ علمائے اسلام لوگوں کو فرقہ وارانہ اور مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور شدت بخشنے سے باز رکھیں۔ جامعات کے اساتذہ طلبہ کو آگاہ کریں اور انہیں سمجھا دیں کہ آج عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ وحدت کا مسئلہ ہے۔ اتجاد اہداف کے حصول کے لئے؛ سیاسی استقلال و خودمختاری کا ہدف، اسلامی جمہوریت کے قیام کا ہدف، اسلامی معاشروں میں اللہ کے احکام کے نفاذ کا ہدف؛ وہ اسلام جو آزادی اور حریت کا درس دیتا ہے، اسلام جو انسانوں کو عزت و شرف کی دعوت دیتا ہے؛ یہ آج فریضہ ہے۔

سیاسی شعبے کے ممتاز افراد بھی جان لیں کہ ان کی عزت اور ان کا شرف قوموں کے فرد فرد کے سہارے قابل حصول ہے، نہ کہ بیگانہ اور اجنبی قوتوں کے سہارے، نہ کہ ان افراد کے سہارے جو پوری طرح اسلام کے دشمن ہیں۔

کسی وقت ان علاقوں میں استکباری قوت حکومت کرتی تھی؛ امریکی پالیسی اور قبل ازاں برطانیہ یا بعض دوسرے یورپی ممالک کی پالیسیاں حکم فرما تھیں؛ اقوام نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو ان کی بلا واسطہ تسلط سے چھڑا لیا؛ وہ (استکباری طاقتیں) بالواسطہ تسلط کو ـ سیاسی تسلط کو، معاشی تسلط کو، ثقافتی تسلط کو ـ استعمار کے زمانے کے براہ راست تسلط کے متبادل کے طور پر، جمانا چاہتی ہیں؛ گوکہ وہ دنیا کے بعض خطوں میں براہ راست تسلط جمانے کے لئے بھی میدان میں آرہے ہیں؛ افریقہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض یورپی ممالک وہی پرانی بساط دوبارہ بچھانے کی کوشش کررہے ہیں؛ راہ حل، "اسلامی بیداری" ہے؛ راہ حل اسلامی ملتوں کی شان و منزلت کی پہچان ہے؛ اسلامی ملتوں کے پاس وسیع وسائل ہیں، حساس جغرافیایی محل وقع کی حامل ہیں، بہت زیادہ قابل قدر و وقعت اسلامی ورثے کی حامل ہیں، بےمثل معاشی وسائل سے سرشار ہیں؛ اگر ملتیں آگاہ ہوجائيں، اپنے آپ کو پا لیں، اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں، ایک دوسرے کو دوستی کا ہاتھ دیں، یہ علاقہ ایک نمایاں اور درخشاں علاقہ بن جائے گا، اور عالم اسلام عزت و کرامت و آقائی کا دور دیکھے گا؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو مسقبل میں انشاء اللہ واقع ہونگی؛ ان کی نشانیاں اس وقت بھی دیکھی جاسکتی ہیں: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس حساس علاقے میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام، اسلامی جمہوری نظام کا استحکام۔

امریکہ سمیت استکاری قوتوں نے گذشتہ 35 برسوں سے اسلامی جمہوری نظام اور ملت ایران کے خلاف ہر وہ حربہ آزما لیا ہے جو وہ آزما سکتی تھیں؛ ان کی سازشوں کے برعکس، ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام روز بروز زیادہ طاقتور، زیادہ مستحکم، پہلے سے کہیں زيادہ صاحب قوت ہوچکا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ اور رسوخ حاصل کرچکا ہے، اور انشاء اللہ اس استحکام، اس استقرار اور اس قوت میں اضافہ ہوگا؛ عالم اسلام میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ آج نسلوں کی آگہی، اسلام اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے نوجوانوں کی آگہی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ہے اور بعض حوالوں سے ماضی کی نسبت ان کی آگہی بہت زیادہ ہے۔ البتہ دشمن اپنی کوششیں بروئے کر لاتا رہتا ہے لیکن ہم اگر زیادہ توجہ اور بصیرت سے کام لیں تو دیکھ لیں گے کہ اسلامی تحریک کی یہ لہر ان شاء اللہ رو بہ ترقی ہے۔

اللہ کی رحمت ہو ہمارے امام بزرگوار پر، جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھول دیا؛ انھوں نے ہمیں سکھایا کہ خدا پر توکل کرنا چاہئے، خدا سے مدد مانگنی چاہئے، مستقبل کے بارے میں پرامید ہونا چاہئے اور ہم اسی راہ پر آگے بڑھے اور ان شاءاللہ اس کے بعد بھی یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی فتح و کامیابی کی امید کے ساتھ، اور اس روشن راستے میں شہید ہونے والوں کے لئے رحمت و مغفرت کے ساتھ۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱) نهج البلاغه، خطبه‌ى دوّم‌۔ ترجمہ: لوگ فتنوں سے دوچار تھے جن میں دین کی رسی پھٹ گئی تھی اور یقین کے دستے سست ہوگئے تھے۔ (دستہ، قبضہ، موٹھ Handle)

۲) سورہ فتح، آیت 29: مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً۔ ترجمہ: محمد اللہ کے پیغمبر ہیں اور وہ جو ان کے ساتھی ہیں، کافروں کے مقابلے میں سخت ، آپس میں بڑے ترس والے ہیں، تم انہیں دیکھو گے رکوع اور سجود میں مصروف کہ وہ طلبگار ہیں اللہ کی طرف کے فضل وکرم اور خوشنودی کے۔ ان کی شان ان کے چہروں میں نمایاں ہے سجدے کے نشان سے۔ یہی ان کی توصیف ہے تو ریت میں اور ان کی توصیف انجیل میں اس کھیتی کی طرح ہے جس کے ادھر ادھر کونپلیں پھوٹیں۔ اس کے بعد وہ پھیلی اور اپنے قدوقامت پر کھڑی ہوئی، کہ کاشت کرنے والوں کے لئے خوش آئند ہے تا کہ غم وغصہ میں مبتلا کرے اس سے کافروں کو،اللہ کا وعدہ ہے ان سے کہ جو ان میں سے باایمان اور نیک اعمال رکھنے والے ہوں بخشش اور بڑے اجر و ثواب کا۔

حامد کرزئی، امریکہ ڈرون حملے بند کرےافغانستان کے صدر حامد کرزئی نے ایکبار پھر مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ ان کے ملک پر ڈرون حملے بند کرے۔ انھوں نے کابل میں ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں رہائشی علاقوں کے خلاف فوجی کاروائی روکتے ہوئے طالبان گروہ کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے چاہیئیں۔افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے یہ مطالبہ، صوبے پروان پر امریکی حملے کے بعد اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد کیا ہے جس میں صراحت کے ساتھ اعلان کیا گيا ہے کہ افغانستان کے صوبے پروان پر ہونے والے امریکی حملے میں عام شہری مارے گئے ہیں۔ صوبے پروان کے علاقے غور پر ہونے والے اس امریکی حملے میں کم از کم تیرہ عام شہری ہلاک ہوئے تھے جن میں بیشتر عورتیں اور بچّے شامل ہیں۔قابل ذکر ہے کہ افغانستان کے رہائشی علاقوں پر ہونے والے امریکی حملوں پر افغان حکام اور عوام نے ہمیشہ اپنی شدید مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے ان حملوں کے فوری خاتمے اور اسی طرح سے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کابل واشنگٹن سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کی ایک شرط افغانستان کے رہائشی علاقوں پر امریکی حملے فوری طور پر بند کئے جانا عائد کی ہے۔