Super User

Super User

ایران کی قرآنی خبر رساں ایجنسی (ایکنا) اطلاع رساں ویب سائیٹ کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے کہاہے کہ ویٹیکن میں مصر کے جامعہ الازہر اور برطانوی کلیسا کے نمائندوں سمیت "انڈرو فارسٹ" نامی معروف آسٹریلین تاجر کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں ۔

واضح رہے کہ ۲۰۲۰ تک فعالیت کرنے والی اس انجمن کا اصلی ہدف دنیا میں پروان چڑھتی ہوئی دور جدید کی غلامی اور مختلف ممالک میں جاری جبری مشقت جیسے مسائل کا مقابلہ کرنا ہے ۔

آسٹریلین تاجر انڈرو فارسٹ نے کہا : پہلے مرحلے میں اسلام اور مسیحیت سے تعلق رکھنے والے تقریبا تین ارب لوگ اس انجمن کا حصہ بنیں گے لیکن دیگر ادیان کے پیروکار بھی اس عظیم منصوبے میں شامل ہو سکتے ہیں ۔

عقل کے مقابلے میں جہالت، معاشرے کی سب سے بڑی مصیبت ہے

حضرت فاطمہ زہرا(ع) کے وجود مبارک سے بہت سی دعائیں نقل ہوئی ہیں جنھیں صحیفۂ فاطمیہ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔

کے وجود مبارک سے یہ فقرے ملتے ہیں:"اللہم انی اسئلک الہدی و التقی و العفاف و الغنی و العمل بما تحب و ترضی" پروردگارا ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور بے نیازی طلب کرتی ہوں اور جس چیز کو تو پسند کرتا ہے اس پر عمل کرنے کی توفیق چاہتی ہوں۔

 

آیۃ اللہ جوادی آملي نے بی بی سے منسوب، دعا کی مختصر سی شرح بیان کرتے ہوۓ فرمایا: صحیفۂ فاطمیہ میں حضرت فاطمہ زہرا

خداۓ سبحان نے ابتدائی ہدایت ہر انسان کو عطا کی ہے، کیونکہ سورہ مبارکہ بقرہ میں ارشاد ہورہا ہے:" شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ" لیکن جس ہدایت کا تقاضا خداوند سے حضرت فاطمہ زہرا(ع) کر رہی ہیں، وہ ہدایت جزائی اور انعامی ہے یعنی خدایا ! تو ہمیں خاص جذبہ اورتوفیق مرحمت فرما تاکہ ہم تیری ارشادات سے عملی اور علمی طور پر استفادہ کرسکیں اور ہمیں تقوی نصیب کر تاکہ کسی مشکل سے دوچار نہ ہوں۔

مختلف دینی و دنیاوی کتابوں میں اس معرفتی راستے کی نشاندہی کی گئی ہے کہ " من فقد حسا، فقد فقد علما" یعنی اگر کوئی شخص کسی ایک قوت حسّی کھو بیٹھے تو وہ اس راہ سے حاصل ہونے والے تمام علوم سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ لیکن دین اس بات کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ، باب معرفت میں ایک دوسری نکتہ بھی بیان کرتا ہے کہ "من فقد تقوی فقد فقد علما" اگر کسی سے تقوی کا کوئی خاص پہلو چھوٹ گیا تو وہ اس راستے سے حاصل ہونے والے تمام معارف اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے کیونکہ تقوی ایک باطنی حس کا نام ہے اور اس کی وساطت سے انسان بہت سی اشیاء کا ادراک کرتا ہے۔

ہمارے دینی معارف میں اگر آیا ہے " ان تتق اللہ یجعل لکم فرقانا" یا اس سے بڑھ کر فرمایا: " اتقوا اللہ و یعلمکم اللہ" تو اس کا مطلب ہے کہ تقوی، طہارت روح اور آئینہ دل کی گرد صاف کرنے کا ذریعہ ہے اور اگر ہم نے اس آئینہ سے گرد صاف کر دی تو کائنات کے بہت سے اسرار و رموز اس پہ تاباں ہوں گے اور انسان عالم وآگاہ ہو جائیگا۔

اگر کوئی با تقوی ہوگا، تواپنے کسی بھی ذمہ دارانہ کام میں کبھی بھی مشکل سے دچار نہ ہوگا۔

معاشرے کی مشکلات کی ایک وجہ، عفت و پاکدامنی کا فقدان ہے، اسی لئے بی بی حضرت فاطمہ زہرا(ع) خدا سے عفت و پاکدامنی کی دعا کر رہی ہیں۔

حضرت فاطمہ زہرا(ع) سے منقول دعا میں لفظ " بے نیازی" کی تشریح کرتے ہوۓ بے نیازی دو طرح کی ہوتی ہے؛ ایک وقت انسان کسی بھی چیز کی کثرت اور بہتات کی وجہ سے بے نیاز ہوتا ہے، اس طرح کی بے نیازی محض خیالی ہے اور ایک وقت انسان کوثر کی وجہ سے بے نیاز ہوتا ہے کہ یہ واقعا بے نیازی ہے۔ آپ نے بتایا کہ بے نیازی کا مطلب، تونگری اورکثرت مال نہیں ہے۔ اور پھر اسی کےمتعلق امیر المؤمین (ع) کی روایت کی طرف کرتے ہوئے فرمایا: انسان دو طرح سے بے نیاز ہوتا ہے؛ کبھی مال سے بے نیاز ہوتا ہے اور کبھی مال کے ذریعے۔ اگر وہ تونگری کے لئے اس لئےکوشش کرے کہ وہ مال سے بے نیاز ہو سکے تو بہت سے مقامات تک پہنچ سکتا ہے لیکن اگر بے نیازی کے لئے مال کا سہارا لے تو وہ فراواں مشکلات سے دوچار ہوجائیگا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر علماء کا تعلق پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں سے ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ مال و دولت سے بے نیاز ہونا، خدا والوں کا شیوہ ہے کیونکہ مال جہاں بہت بڑی نعمت ہے وہاں بہت بڑی مصیبت بھی ہے اور جو کوئی بھی کسی رفیع مقام تک پہنچا ہے وہ سادہ زیستی اور قناعت کی وجہ سے پہنچا ہے۔

حضرت علی(ع) کا ارشاد گرامی ہے: مال سے بے نیاز ہونا اس سے بہتر ہے کہ مال کے ذریعے بے نیاز ہوا جاۓ" قرآن کریم کے مفسر کبیر نے حضرت فاطمہ زہرا(ع)سے منقول دعا کی شرح کرتے ہوۓ بی بی کے اس جملے کو نقل کیا:" اللہم انی اسئلک من قوتک لضعفنا، و من غناک لفقرنا وفاقتنا، و من حلمک و علمک لجھلنا"۔ خدایا ! ہمیں اتنی قدرت عطا فرما کہ ہم اپنے ضعف کو تیری قدرت، اپنے فقر و فاقے اور اپنی نیازمندی کو تیری بے نیازی، اور اپنے جہل کو تیرے حلم و علم سے برطرف کر سکیں۔

موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ علم کے مقابلے میں جہالت چندان مشکل ساز نہیں ہے لیکن عقل کے مقابلے میں جہالت، معاشرے کی سب سے بڑی مصیبت ہے کہ جسے اخلاق کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔

" اللھم صل علی محمد و آل محمد، و اعنّا علی شکرک و ذکرک، و طاعتک و عبادتک، برحمتک یا أرحم الراحمین"

 

نہج البلاغہ سے امیر المؤمین(ع) کے مکتوب نمبر۲۴ کی مختصر سی شرح

امیر المؤمین(ع)کا یہ خط در حقیقت وقف نامہ ہے جس میں آپ نے اپنے اموال کے متعلق وصیت کی تھی۔

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ اس زمانے میں بعض صحابہ کے پاس بالکل مال نہیں تھا لیکن امیر المؤمین(ع)کے پاس بہت سی دولت تھی۔ توجواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت(ع) نے ۲۵ سال کی خانہ نشینی میں زراعت اور کسب رزق و معاش میں بہت محنت کی تھی جبکہ بالمقابل بعض صحابہ کسب معاش سے بے بہرہ تھے، ان افراد کی بے بضاعتی اور ناداری کی وجہ، خود ان کی سستی اور کاہلی ہے۔

امیر المؤمین(ع) نے اس وصیت میں فرمایا: میرا بڑا بیٹا حسن اس وقف نامے کا متولی ہے اور اگر خود اسے ضرورت ہو تو وہ ان اموال سے دیگر نیازمندوں کی طرح استفادہ کر سکتا ہے۔ اگر وہ رحلت کر جاۓ اور حسین زندہ رہے تو وہ اس وقف نامے کا نگران کار ہے اور میری وصیت پر اپنے بھائی کی طرح عمل کرے۔ فاطمہ(ع) کے بچے میرے دوسرے بچوں کی طرح اس صدقے میں حصے دار ہیں۔ اگر میں نے فاطمہ(ع) کے بچوںکو متولی بنایاہے تو وہ صرف خدا کی خشنودی اور رسولخدا(ص) کے تقرب کے لئے ہے۔

امیر المؤمین (ع) نے اپنے اموال کی حفاظت کےبارے میں فرمایا: اصل مال کو اسی طرح رہنے دیا جاۓ اور اس کے منافع سے استفادہ کیا جاۓ اور جب تک پورا باغ درختوں سے پر نہ ہو جاۓ اور درخت سرسبز اور ثمرآور نہ ہو جائیں، پودوں کو بیچنے سے گریز کیا جاۓ۔

خود شناسی ، خدا شناسی کا مقدمہ

بہت سے لوگ فطرت کی رعنائیوں سے آشنائی کے لئے کوہ پیمائی اور مسافرت میں پر جاتے ہیں اور کبھی خود کو بہت زیادہ زحمت میں ڈالتے ہیں ۔ لیکن ان گردشوں اور سیرو سیاحت سے زيادہ اہم ، اپنے باطن کی سیر اور اپنے وجود کے اسرار و رموز سے آشنا ہونا ہے کہ جسے دنیا کے رازوں سے آشنائي کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔ چنانچہ خدا وند عالم سورۂ ذاریات کی آيات 20 اور 21 ارشاد فرماتا ہے ۔ اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پائي جاتی ہیں ۔ اورخود تمہارے اندر بھی ، کیا تم نہيں دیکھ رہے ہو ؟ اس بناء پر دنیا کی معرفت کےساتھ ہی ایک اہم ترین معرفت ، اپنی معرفت ، یا وہی خود شناسی ہے ۔

خودشناسی ، خداشناسی کامقدمہ ہے ۔ جیسا کہ حضرت امام علی (ع) فرماتے ہیں "حیرت ہے اس شخص پر، جو خود کو نہیں پہچانتا، بھلا وہ اپنے پروردگار کو کیسے پہچانے گا ۔ اس اعتبار سے کہ انسان کی فطرت خدا کی معرفت سے وابستہ ہے ، خود شناسی کی دعوت بھی درحقیقت خدا شناسی اور خدا سے مربوط ہے ۔ چنانچہ امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) اس سلسلے میں فرماتے ہیں "خدایا تونے ہی ہمارے دلوں کو اپنی محبت سے ، اور عقلوں کو اپنی معرفت سے آراستہ کیا ہے " درحقیقت خود شناسی ، خدا کی شناخت اور محبت کا باعث ہے کیوں کہ انسان کا وجود خدا کے وجود سے وابستہ ہے اور ایسی مخلوق اپنی ہی خلقت کا سبب نہیں بن سکتی ۔ اس بناء پر جب انسان میں خود شناسی پیدا ہوجاتی ہے تو اس وقت اسے خدا سے اپنی وابستگي کااحساس ہونے لگتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورۂ فاطر کی آیت 15 ميں ارشاد ہوتا ہے " اے لوگوں تم خدا کے محتاج ہو اور خدا بے نیاز اور منزہ ہے ۔"

اگر آدمی ہرچیز سے قبل خود کو پہچان لے تو بہتر طور پر اپنے وجود کے سرمائے سے استفادہ کرسکتا ہے اور ان ميں نشو و نما پیدا ہوسکتی ہے کیوں کہ خود شناسی کا نقطۂ آغاز ، انسان کے وجود کے سرمائے سے آگاہی ہے ۔ انسان شناخت و معرفت کے ذریعے نور اور روشنی کے دریچوں کو اپنے لئے وا کرتا ہے اور خودشناسی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو برطرف کرکے عظیم ترین نجات کے راستے کو حاصل کرلیتا ہے ۔ اسی بناء پر حضرت علی (ع) فرماتے ہیں جس شخص نے اپنے نفس کے خلاف جہاد کیا اس نے اپنے نفس کی شناخت حاصل کرلی اور جس نے شناخت حاصل نہ کی اس نے خود کو اپنے ہی حال پر چھوڑ دیا ۔اس بناء پر جو خود کو نہ پہچانے، وہ اپنی پوزیشن اور وہ چیز جو کمال یا اس کی تباہی کا سبب قرار پاتی ہے ، اس کی تشخيص نہیں دے سکے گا اور ایسا انسان فطری طور پر خود کو رفتہ رفتہ شیطان اور نفسانی خواہشات کا غلام بنا لیتا ہے اور شیطانی لذتیں ، عقلی و منطقی لذتوں کی جگہ لے لیتی ہیں اور عملی طور پر وہ غیر خدا کی پرستش کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے ۔ اسی سلسلے میں بہت زیادہ تعداد میں حضرت علی (ع) کے حکیمانہ ارشادات ملتے ہیں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں عارف وہ شخص ہے جو خود کو پہچانے اور اپنے آپ کو شیطانی وسوسوں اور بندشوں سے رہائي دلائے اور وہ چیز جو اسے خدا سے دور کردے اور اس کی ہلاکت کا سبب بنے اس سے خود کو منزہ بنائے ۔

انسان خود شناسی کے ذریعے کرامت نفس اور اس عظیم خلقت الہی کے بارے میں ادراک حاصل کرتا ہے اور اس بات کو درک کرلیتا ہے کہ اس گوہر گرانبہا کو آسانی سے نہیں کھوناچاہئے ۔ خود شناسی کے بارے میں اسلام کی تاکید یہ ہے کہ انسان جیسا کہ ہے خود کو پہچان لے اور اپنے مقام ومنزلت کو عالم وجود میں درک کرے ۔ اس شناخت کا مقصد یہ ہےکہ انسان خود کو اس اعلی مقام تک پہنچائے کہ جو اس کے لئے شائستہ ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) بہت سے حکیمانہ ارشاد میں فرماتے ہيں " جو شخص اپنی عزت نفس کا صحیح ادراک کرلے تو اسی قدر خودکو اس ميں مصروف کردیتا ہے اور تمام دنیوی اور مادی لذتیں اس کی نظر ميں بے اہمیت ہوجاتی ہیں " ایسا شخص اس بات پر تیار نہیں ہوتا کہ اپنے وجود اور اپنے وجود کے اقدار کا، دنیا کے معمولی مقام و منصب اور مال ومنال سے سودا کرے ۔ صرف وہی افراد خود کو اخلاقی برائیوں میں آلودہ کرتے اور اپنی پاکیزہ روح کو تباہی سے دوچار کرتے ہيں کہ جو اس کی عظمت سے بے خبر ہوتے ہيں ۔

اسلام انسان کو ایسی مخلوق قرار دیتا ہے جو جسم اور مادی بدن کے علاوہ ، غیر مادی روح کا بھی حامل ہے ۔ درحقیقت انسان کی اصل اور بنیاد اس کی روح ہے اور بدن ، صرف انسان کی ترقی وکمال کے لئے ، وسیلے کے طور پر روح کو عطا کیا گيا ہے کبھی انسان ، غفلت کی بناء پر اپنی حققیت سے ، جو روح ہے توجہ موڑکر ، جسم اور اس کی ضروریات اور خواہشات کی طرف کھینچا چلا جاتاہے اور یہی غفلت انسان کے حقیقی کمال تک رسائی میں مانع ہوتی ہے کیوں کہ انسان جب تک خواب غفلت میں رہتا ہے وہ کمال کی جانب قدم نہيں بڑھا سکتا ۔ حضرت علی (‏ع) ایک روایت میں اس مسئلے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے نفس اور اپنی ذات سے جاہل اور لاعلم مت رہو اس لئے کہ جو اپنے نفس سے جاہل ہے وہ درحقیقت تمام چیزوں سے جاہل ہے ۔ حضرت علی(ع) خود شناسی کی توصیف میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں

رحم اللہ امرء علم من این؟ وفی این؟ والی این؟

”خدا اس پر رحمت کرے جو یہ جان لے کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کہاں ہے؟ اور کہاں جا رہا ہے؟“

اس طرح کی ”خود شناسی“ انسان میں ایک لطیف ترین اور باعظمت ترین درد پیدا کرتی ہے‘ جو اس کائنات کی دوسری ذی روح چیزوں میں نہیں پایا جاتا اور وہ درد ہے ”حقیقت رکھنے“ کا درد اور یہی وہ خود شناسی ہے جو ان کو حقیقت کا پیاسا اور یقین کا متلاشی بناتی ہے‘ شک و تردد کی آگ اس کی روح میں روشن کرتی اور اس کو ادھر سے ادھر کھینچتی ہے ۔

Sunday, 16 March 2014 12:38

جنّت کا آسان راستہ

جنّت کا آسان راستہ

صبر کہتے ہیں جو کام مرضی کے خلاف ہوں، ان پر ناجائزعمل سے خود کو روک لینا۔ جس طرح صبح سے شام تک بے شمار کام ہماری مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، اسی طرح بہت سے کام مرضی کے خلاف بھی ہوتے ہیں، مثلاً بس اسٹاپ پر پہنچے اور بس نکل گئی۔ غرض مرضی کے خلاف چھوٹا واقعہ ہو یا بڑا، اس میں اللہ پر نظر رکھیں اور خود کو آپے سے باہر نہ ہونے دیں، یہ صبر ہے اور اس میں قلب کا بہت اہم عمل ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کی قوت ایمانی کی آزمائش ہوتی ہے۔

زندگی میں روزانہ، دن رات نہ جانے کتنی باتیں ایسی ہوتی رہتی ہیں جو ہمیں ناگوار اور نفس پریشانی یا موت کا صدمہ لاحق ہوتاہے یا مال یا منصب کے نقصان کا رنج ہوتا ہے، غرض ہر ایسی بات جو قلبی سکون وعافیت کو درہم برہم کرنے والی ہو صبر آزما ہوتی ہے، لیکن چوں کہ غیر اختیاری ہوتی ہے، لہٰذا اس کے منجانب اللہ ہونے کا عقیدہ رکھنا واجب ہے، کیوں کہ اس میں بہت سی حکمتیں اور رحمتیں شامل ہوتی ہیں ، ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ نے خود اپنے فضل وکرم سے اطمینان قلب کے لیے بڑا مفید و موثر علاج یہ تلقین فرمایا: {انا للہ وانا الیہ راجعون} پڑھا جائے، اس سے سکون اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے، غرض کوئی کام بھی جو مرضی کے خلاف پیش آجائے، کوئی بڑا صدمہ ہو یا معمولی ناگواری اس پر {انا للہ وانا الیہ راجعون} پڑھنے سے اسی قدر ثواب ملتا ہے، جتنا کہ واقعے کے وقت ہے۔ "انا للہ" صرف انتقال کے ساتھ نہیں ہمارے معاشرے میں یہ تصور رائج ہے کہ "انا للہ" کا کلمہ صرف اسی وقت پڑھاجاتاہے جب کسی کا انتقال ہوجائے، اس کلمے کو صرف انتقال کے ساتھ خاص کرلینا درست نہیں۔ روایات میں آتاہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلى الله عليه و سلم کے سامنے ایک چراغ جلتے جلتے بجھ گیا تو آپ صلى الله عليه و سلم نے "اناللہ وانا الیہ راجعون" پڑھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنها نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلى الله عليه و سلم! کیا یہ بھی مصیبت ہے؟ فرمایا: ہاں! جس چیز سے مسلمان کو تکلیف ہو وہ مصیبت ہے اور اس پر ثواب کا وعدہ ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ: مسلمان کو جو ایک کانٹا چبھتا ہے، اس سے بھی اس کا ثواب ملتاہے۔ ایک اور حدیث میں ہے: مومن ہر حالت میں کامیاب ہے، اس لیے کہ کوئی خوشی ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو صابر وشاکر بندہ بہت پسندہے۔

ملانصرالدین کی ایک بات یاد آگئی ، یہ وہی ہیں جن کے لطائف بہت مشہور ہیں۔ ملاجی کے بارے میں آتا ہے کہ بہت خوب صورت تھے اور بیوی بہت بدصورت۔ ایک مرتبہ اپنی بیوی سے کہنے لگے: بیگم! تم بھی جنتی ہو اور میں بھی جنتی۔ بیوی نے پوچھا، وہ کیسے؟ ملاجی نے جواب دیا: اس لیے کہ جب تم مجھے دیکتھی ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتی ہو کہ کتنا خوب صورت شوہر ملا میں تمہیں دیکھتاہوں تو صبر کرتاہوں اور صابر و شاکر دونوں جنتی ہیں۔

*صابر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ غرض ہر چھوٹی بڑی ناگوار چیز پر صبر کرنا چاہیے اور "اناللہ وانا الیہ راجعون" کہنا چاہیے، کیونکہ صبر سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ یقینا ًاللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ البقرہ) اور جسے اللہ کی معیت نصیب ہوجائے پھر کون اس کا بال بیکا کرسکتا ہے؟ جولوگ مصیبت یا تکلیف وناگواری کے موقع پر "اناللہ" پڑھتے ہیں تو قرآن کہتا ہے: ایسے لوگوں پر ان کے رب کی عام رحمتیں بھی اترتی ہیں اور خاص رحمت بھی انہیں ملتی ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔(سورۃ البقرہ)

خلاصہ یہ کہ صبر کے موقع پر یہ کلمہ پڑھنے سے واضح طور پر محسوس ہوگا کہ رحمت خداوندی شامل حال ہے، بندہ ان چار اعمال کی عادت ڈال لے تو چند دنوں میں محسوس ہوگا کہ کسی نے رحمت کا ہاتھ اس کے دل پر رکھا ہوا ہے اور کوئی پشت پناہی کررہاہے جس سے تنہائی دور ہوگی اور زندگی میں لطف آنے لگے گا۔ اس عمل سے زندگی میں استقامت اور ضبط وتحمل کا وقار پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہنے کی توفیق ہوجاتی ہے، جو بندگی کا بہت اعلیٰ مقام ہے۔ صبر کرنے والوں میں کسی سے اپنی ذات کے لیے غصے اور انتقام کے جذبات پیدا نہیں ہوتے یا پیدا ہوں تو جلد ختم ہوجاتے ہیں، ان جذبات پر عمل کرنے سے آدمی بچار ہتاہے۔

*توبہ واستغفار: تیسرا عمل استغفار ہے اور اس میں بھی جان ومال یا دقت کچھ خرچ نہیں ہوتا، جب بھی کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ سرزد ہوجائے تو نادم ہوکر کہہ دیا "استغفراللہ" یعنی اے اللہ! میں معافی مانگتا ہوں۔

جب حضرت آدم عليه السلام کو دنیا میں بھیجا جانے لگا تو ان کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی شیطان یہ چیلنج کرکے آیاتھا کہ یااللہ ! میں تیرے بندون کو گمراہ کردوں گا اور جہنم تک پہنچا کر چھوڑوں گا (کیونکہ انسان میرا حریف ہے، جس کی وجہ سے میں اونچے مقام سے معزول ہوا ہوں) حضرت آدم عليه السلام نے عرض کیا: "اے اللہ آپ نے میرے دشمن شیطان کو اتنی طاقت دے کر بھیجا ہے کہ جتنی طاقت میرے اور میری اولاد کے پاس بھی نہیں ہے، یہ مختلف شکلیں اختیار کرسکتا ہے اور یہ ایسے طریقے سے آسکتاہے کہ ہم اسے نہ دیکھ سکیں گے، مگر یہ ہمیں دیکھ سکتا ہے، یہ جن ہے، ہم انسان ہیں، ہماری اور اس کی خاصیتوں میں فرق ہے یہ تو ہمیں جہنم تک دھکیل دے گا۔" اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم عليه السلام! بے شک ہم نے اسے بے پناہ قوتیں دے رکھی ہیں، لیکن اس کی قوتوں سے مقابلہ کرنے کا ایک ہتھیار تمہیں دیتے ہیں، جب تک اس ہتھیار کو استعمال کرتے رہوگے تو شیطان کو کوئی حملہ کارگر نہیں ہوگا اور اس ہتھیار کا نام "استغفار" ہے۔ جب کبھی گناہ ہوجایا کرے تو دل سے استغفراللہ کہہ دیا کرو۔

استغفار سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جو لوگ استغفار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نہیں بھیجتا، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ لوگوں کو عذاب نہیں دیتا جب کہ وہ استغفار کرتے ہوں۔(سورۃ الانفال)

اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلون میں گناہ کے جذبات بھی رکھے ہیں اور گناہ میں لذتیں بھی رکھی ہیں، گناہ سے بچنا آسان نہیں، آدمی بے اختیار ان کی طرف لپکتاہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت واسعہ سے ایسے کشادہ دروازے کھول رکھے ہیں کہ اگر ہم سے گناہ سرزد ہوجائے تو بس ندامت کے ساتھ سچے دل سے توبہ استغفار کرلیں معاف ہوجائے گا۔

حضور اکرم صلى الله عليه و سلم کا ارشاد ہے: "توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔" (ابن ماجہ)

گناہ پر ہر مرتبہ توبہ کرلیں، اگر ایک مرتبہ گناہ ہوگیا، توبہ کرلی، پھر دوبارہ وہی گناہ ہوگیا تو پھر دوبارہ وہی گناہ ہوگیا تو پھر توبہ کرلیں، اللہ تعالیٰ پھر معاف فرما دیں گے، یہاں تک کہ اگر ایک ہی گناہ ستر مرتبہ بھی کیا جائے اور ہر مرتبہ توبہ کرلی جائے تو وہ ہر بار معاف ہوجائے گا، کیوں کہ توبہ کے دوازے کھلے ہوئے ہیں، لہٰذا اگر ہزار مرتبہ بھی توبہ ٹوٹ جائے تو پھر جوڑلو، وہ رحیم و کریم ہزار مرتبہ بھی معاف فرما دے گا۔

توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہرگناہ معاف ہوجاتاہے، البتہ بندوں کے حقوق صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے، جب تک کہ حق دار معاف نہ کرے یا اس کا حق ادانہ کردیا جائے۔

استغفار کے بہت سے فائدے ہیں، استغفار عبادت بھی ہے، گناہوں سے معافی کا ذریعہ بھی اور قرب خداوندی کا ذریعہ بھی۔ جب بار بار استغفار ہوگی، رفتہ رفتہ گناہ کرتے ہوئے شرم آنے لگے گی اور رحمت خداوندی کی وسعت کا اندازہ ہوگا کہ میں کتنے گناہ کررہاہوں اور وہ پروردگار کس قدر نواز رہا ہے، جس کے دل میں ہر وقت اپنی غلطیوں کا احساس اور جرائم پر ندامت ہو اس کے دل میں کبھی بھی کبر اور بڑائی پیدا نہیں ہوگی اور نہ ہی تقویٰ کا غرور پیدا ہوگا، کیوں کہ جتنی عبادات کی ہوں گی اس سے زیادہ اپنے گناہ یاد آئیں گے۔

علمی اور ثقافتی شعبوں میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے درس اخلاق میں بیان فرمایا :

اخلاقی بحثوں میں ہم اس حصے تک پہنچے کہ اخلاق اس شخص کا وسطی اوردرمیانی مرحلہ ہے کہ جو سیر الی اللہ کا خواہاں ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم سب خواہ نخواہ ذات اقدس الٰہی کی طرف لوٹ کر جائیں گے «یا أَیهَا الْإِنسَانُ إِنَّک کادِحٌ إِلَی رَبِّک کدْحاً فَمُلاَقِیهِ» یہ پہلی اصل تھی ۔

دوسری اصل یہ ہے کہ ہم اگر اس راہ پر نہ بھی چلیں تب بھی ہمیں لے جایا جائے گا ۔ اگر اس راہ پر گامزن ہوں تو ہمیں روح و ریحان نصیب ہو گی اور اگر ہمیں لے جایا گیا تو «خُذُوهُ فَغُلُّوهُ» کا سامنا کرنا پڑے گا ؛ کتنا بہتر ہے کہ اس راہ پر ہم خود چلیں۔ تیسری اصل یہ ہے کہ آخر کار ہر راہ کے لیے زادہ راہ ، رفیق اور ہمراہ کی ضرورت ہے ۔ اس طولانی اور ابدی راہ کو ان وسائل کے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا ۔ زادہ راہ قرآن نے مقرر کر دیا ہے ؛ رفقاء کی تعیین بھی قرآن کریم نے فرما دی ہے ؛ لیکن مرکب اور سواری اہل بیت ( علیھم السلام ) نے مشخص فرمائی ہے ۔ زادہ راہ کے بارے ذات اقدس الٰہی نے فرمایا : «تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقْوَی» رفقاء کے باب میں سورہ مبارکہ نساء میں مشخص فرمایا : «وَ مَن یطِعِ اللّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولئِک مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَیهِم مِنَ النَّبِیینَ وَ الصِّدِّیقِینَ وَ الشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِینَ وَ حَسُنَ أُولئِک رَفِیقاً.» اگر کوئی خدا اور پیغمبر (ص) کا مطیع ہو ، تو اس کے اعتقادی ، اخلاقی اور عملی حوالے سے اچھے رفقاء ہوں گے ، ایسا شخص انبیاء ، صدیقین ، صلحاء اور شہداء کے ہمراہ ہو گا ۔ یہ لوگ ہمارے ہمراہ ہیں اور ان کی اچھی رفاقت یہ ہے کہ یہ راستے میں نہیں ٹھہرنے دیں گے ۔ اگر ہمارا زاد راہ کم ہو ، تو پورا کریں گے ؛ ہماری سواری کے فقدان کا ازالہ کریں گے اور اگر ہم تھک گئے اور پیچھے رہ گئے تو یہ ہماری مدد کریں گے۔ یہ لوگ اچھے رفقاء ہیں۔ ایک شخص کو گھر فروخت کرنے کی ضرورت پڑ گئی ، ڈیلرز نے اس کے مکان کی ایک قیمت مقرر کی لیکن اس نے دوگنی سے زیادہ قیمت کہی ۔ اسے کہا گیا : یہ گھر اتنے کا نہیں ہے ! ، اس نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ گھر کی قیمت یہ نہیں ہے اور ڈیلرز نے فلاں قیمت معین کی ہے لیکن اس گھر کو ایک ترجیح حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ میں امام کاظم سلام اللہ علیہ کا ہمسایہ ہوں ؛ اس بنا پر اس گھر کی قدر و قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ غرضیکہ وہ اپنے ساتھیوں کا دھیان رکھنے والے ہیں ۔ اگر انبیاء ، صلحاء ، صدّیقین اور شہداء ہمارے ہمراہ ہوں تو ہم راستے ہی میں سرگرداں نہیں رہیں گے اورپھر کوئی بھٹکا ہوا مسافرنہیں ہوگا۔ پس زاد راہ مشخص ، راہ مشخص ، ہمراہ اور سواری بھی مشخص ہے ۔

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے نماز شب کے بارے گیارہویں امام (ع) کی حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

گزشتہ ہفتے وجود مبارک امام عسکری (ع) کے پربرکت میلاد کی مناسبت سے اس نورانی حدیث کو نقل کیا گیا کہ فرمایا : «إنّ الوصولَ إلی الله عزّ و جلّ سفرٌ لایدرک الاّ بِامْتطاءِ اللیل» یعنی اس طولانی راستے کو سواری اور مرکب کے بغیر طے کرنا دشوار ہے ؛ اس راہ کی سب سے اہم سواری نماز شب ہے ۔ "امتطاء"، کا معنی أخذ المطیة یعنی سواری اخذ کرنا ہے ؛ "امتَطَأ" یعنی "أَخَذَ المطیة" اس نے سواری اخذ کی ، فرمایا : جو لوگ اہل تہجّد نہیں ہیں ، وہ پیدل راستہ طے کریں گے لیکن مشقت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچیں گے لیکن اگر سوار ہو کر جائیں تو زیادہ آسانی سے منزل تک پہنچیں گے اور یہ سوار ہو کر جانا نماز شب کے ہمراہ ہونے کی صورت میں ہے «إنّ الوصولَ إلی الله عزّ و جلّ سفرٌ لایدرک الاّ بِامْتطاءِ اللیل.» راہ مشخص ہے ، ہمراہی ، زاد راہ اور سواری بھی مشخص ہے ۔ یہ باتیں بہت سی کتابوں میں ہیں ۔ اخلاقی کتب کی طرف رجوع کریں تو بیشتر کتابوں میں یہی باتیں مذکور ہیں ؛ لیکن جو مطلب ہمارے بعض اساتذہ(رضوان اللہ علیھم ) نے فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی تقاریر اور گفتگو میں باتقویٰ رہنے کی کوشش کریں ، لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دیں ۔ یہ باتقوٰی رہنا اور لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دینے کا مطلب زاد راہ مہیا کرنے کے لیے سرگرم رہنا ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ امر ہمیں اصل چیز سے روک دے ۔

اگر آپ مشہد جانا چاہیں تو کس قدر زادہ راہ مہیا کریں گے ؟ خوراک کا ایک کارٹن آپ کے لیے اور آپ کے بال بچوں کے لیے کافی ہو گا ؛ آپ ایک ٹرک بھر خواراک تو نہیں لے جائیں گے ، اگر ٹرک بھر لے جائیں تو کچھ آپ خود کھائیں گے اور کچھ دوسرے زائرین کو دے کر ثواب حاصل کریں گے ۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر تقویٰ کی فکر میں رہے یعنی واجبات کو انجام دے اور محرمات کو ترک کرے ، نوافل ادا کرے ، نیک کام اور مستحبات انجام دے ، صدقہ دے ، تو وہ صرف زاد راہ جمع کرنے میں مشغول ہے ۔ اس ہفتہ جشن نیکو کاری ہے اگر کوئی ان تقریبات میں اس طرح کے کاموں میں شریک ہو ، فقیروں کا دھیان رکھے تو وہ تقویٰ میں مشغول ہے ۔ یہ تمام چیزیں تقویٰ ہیں ۔ لیکن یہ کام اگر ایک بزرگ اخلاقی عالم کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ کہے گا اس شخص نے اپنی عمر زاد راہ مہیّا کرنے میں خرچ کر دی ہے لیکن خدا کون ہے ؟ خدا جو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ، ہم اسے کیوں نہیں دیکھ پاتے ؟ یہ ہدف ہے ؛ نہ وہ زاد راہ کہ جو ہم جمع کر رہے ہیں ۔ آپ متواتر زاد راہ مہیا کرتے رہیں ؛ تو آپ کو بہشت عطا کر دی جائے گی ۔ آپ اور دوسروں کے درمیان فرق یہ ہو گا کہ اگر دوسروں کو دس سجے سجائے کمرے عطا ہوں گے تو آپ کو سو مل جائیں گے ، دوسروں کو دس نہریں ملیں تو آپ کو سو نہریں مل جائیں گی ؛ یہاں تک آپ«فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ» کا مصداق ٹھہرے ہیں لیکن آپ کو «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ»کا مقام نصیب نہیں ہو گا ۔ چونکہ آپ نے زاد راہ کے حوالے سے کام کیا ہے لیکن منزل اور ہدف کی شناخت حاصل نہیں کی ۔ خدا کا ایک مفہوم ہم سب کے ذہنوں میں ہے ۔ یہ کیسی ذات ہے کہ جو ہم سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ؟ حتی کہ ہماری ذات سے بھی زیادہ ہمارے نزدیک ہے ؟ ہمیں اس امر کی خبر نہیں ہے ! ہم نہیں دیکھ رہے ؛ کیوں ؟ چونکہ ہماری باطنی نگاہ نہیں ہے کہ اسے دیکھ سکیں ۔ یہی وہ بات ہے جو ہم سے کہی گئی ہے کہ دیکھیں ! سورہ حج میں فرمایا : «لاَتَعْمَی الأبْصَار وَ لکن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُور» قرآن کریم کا یہ نورانی بیان اسی مطلب سے مربوط ہے ۔ یعنی ہم میں سے بعض کی باطنی آنکھیں بند ہیں ۔ ان باطنی نابیناؤں کو دس کمرے اور باغ تو عطا کر دئیے جائیں گے اور وہ لذّت بھی حاصل کرے گا ۔ سورہ مبارکہ قمر کے اس آخری حصے میں فرمایا : «إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ» یہ آیت جسمانی لذتوں سے متعلّق ہے ؛ ہمارا جسم اور بدن اپنی لذّتیں حاصل کر لے گا؛ لیکن «فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» سے دور رہیں گے اور قرب الہی کے مقام سے بہرہ مند نہیں ہوں گے ۔ آپ اس آیہ مبارکہ «عَلی سُرُرٍ مُتَقَابِلِینَ» میں یہ پیغام حاصل کرتے ہیں کہ تمام بہشتی کرسیوں پر جلوہ فگن ہیں ان کے سامنے میز سجے ہوئے ہیں ، یہ سب کے سب ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ؛ یہ کس طرح ممکن ہے کہ کروڑوں انسان ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں ؟ چونکہ (اتنی زیادہ بھیڑ میں ) آخر کار ایک صف کی شکل بن جاتی ہے کہ جس میں بمشکل ہر دو ، تین افراد ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو سکتے ہیں ؛ ورنہ وہ آخری ، داہنے ہاتھ والے اور باہنے ہاتھ والے تو ایک دوسرے کے روبرو نہیں ہیں ۔ یہ کہاں ملے گا کہ سب کے سب ایک دوسرے کے روبرو ہوں ؟ فرماتے ہیں جب «عِندَ مَلِیک مُقْتَدِرٍ» کے مقام پر فائز ہو جائیں تو وہاں غیبت ، غیاب اور سِتر نہیں ہے ؛ سب کے سب ایک دوسرے کے روبرو ہیں اور سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں ۔ ان نکات کے نہ مفہوم کا پتہ ہے اور نہ ہی مصداق کا ۔

اخلاق کا ہدف یہ ہے کہ انسان توشہ آخرت مہیا کرے اس نکتہ کوبیان کرتےہوئے حضرت استاد نے فرمایا :

اخلاق اس لیے ہے کہ ہم زاد راہ مہیا کریں ؛ لیکن اخلاق سے بالاتر امور بھی ہیں ۔ اخلاق ایک دوسری چیز کے لیے ہے ۔ اخلاق اس لیے ہے کہ «لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» کی بنیاد پر ابھی اور اسی جگہ بیٹھے بیٹھے جہنم کو دیکھا جائے ۔ ہم اس وقت گپ شپ میں مشغول ہیں ؛ جو بہشت یا جہنم پر عقلی یا نقلی دلیل قائم کرتا ہے اس کا سخن حق ہے ؛ "مما لا ریب فیہ"( اس میں کوئی شک نہیں) ہے ؛ لیکن جو منزل تک پہنچ چکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ تم لوگ گپیں ہانک رہے ہو ، مولوی کے بقول :

 

خود هنر دان دیدن آتش عیان ٭٭٭ نی گپ دلّ علی النار الدخان

 

ہنر یہ ہے کہ انسان خود آگ کو دیکھے۔ فرمایا : «کلاَّ لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» اس سےمراد موت کے بعد دیکھنا نہیں ہے ؛ موت کے بعد تو کافر بھی دیکھ لیں گے اور کہیں گے «رَبَّنَا ابْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا» اللہ تعالیٰ انہیں جہنم دکھلائے گا اور فرمائے گا : «أَفَسِحْرٌ هذَا أَمْ أَنتُمْ لاَتُبْصِرُونَ» اور وہ عرض کریں گے : «رَبَّنَا ابْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا» اگر ایسا ہے کہ فرمایا : «لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْیقِینِ ٭ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیمَ» یعنی ابھی جہنم کو دیکھ رہے ہو ۔ یہ ہنر ہے اور «خود هنر دان دیدن آتش عیان» اگر تم چاہو تو دوسروں کے لیے عقلی یا نقلی دیل قائم کرو کہ جہنم ہے ۔ جی ہاں ! ہے ؛ یہ "ممّا لاریبَ فیه" بھی ہے ؛ لیکن یہ گپ ہے ۔ یہ اس طرح ہے کہ کوئی شخص دور سے دھواں دیکھ کر کہے کہ دھواں ہے لہٰذا آگ بھی ہے ۔ جو شخص آگ نہیں دیکھتا ، دھواں دیکھتا ہے اور دھویں سے آگ کا اندازہ لگاتاہے وہ گپ مار رہا ہے ، دھواں دیکھ رہا ہے اور دھویں سے آگ کا پتہ چلا رہا ہے ؛ وہ گپ مار رہا ہے «نی گپ دلّ علی النار دخان». حضرت امیر (ع) کا خطبہ ھمام میں نورانی بیان یہ ہے کہ فرمایا : «فَهُمْ وَ الْجَنَّةُ کمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُنَعَّمُونَ وَ هُمْ وَ النَّارُ کمَنْ قَدْ رَآهَا فَهُمْ فِیهَا مُعَذَّبُونَ» یہ گویا ابھی جہنّم کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ وجود مبارک امام رضا ( سلام اللہ علیہ) نے فرمایا : «لا هم منّا» کہ وہ شخص ہم سے نہیں ہے کہ جو یہ یقین نہ رکھے کہ بہشت اور جہنم ابھی موجود ہیں ؛ ایسا نہیں ہے کہ یہ بعد میں پیدا کیے جائیں گے ۔ وجود مبارک پیغمبر (علیہ و علی آلہ آلاف التحیۃ و الثناء) نے معراج کے موقع پر بہشت اور جہنم کو نزدیک سے دیکھا ۔ یہ ہنر ہے اور اخلاق اس امر کا مقدمہ ہے کہ انسان اس مقام پر فائز ہو ۔

اخلاق راہ کا اختتام نہیں ہے بلکہ میان اور وسط ہے ۔ اسی رو سے آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ منازل السائرین میں تحریر ہے (خواہ خواجہ عبد اللہ انصاری ہوں اور خواہ وہ لوگ ہوں کہ جنہوں نے سابق سے یا لاحق سے اس کی شرح کی ہے ) کہ اخلاق ایک صد درجے کے میدان میں وسطی اور میانی مراتب کا حامل ہے ۔ اس کے بعد اصول کی نوبت آتی ہے اور اس کے بعد احوال کی ۔ اسی احوال کے مرحلے میں انسان ایسا حال پیدا کرتا ہے کہ ساری صورتحال کا ابھی مشاہدہ کر رہا ہوتا ہے ۔ اس وقت وہ مطمئن ہو جاتا ہے بہت سے لوگ"کأنّ" (گویا) کے مقام پر فائز ہوئے لیکن وجود مبارک اھل بیت (علیھم السلام ) "أنّ" (عینیت) کے مقام پر پہنچے ہیں یہ جو فرمایا : «ما کنتُ أعبدُ ربّاً لم أرَهُ» یہ مبدأ کے لیے ہے ، یہ جو فرمایا : «لو کشِفَ الغطاءُ ما ازددتُ یقینا» یہ معاد کے لیے ہے ۔ ایسا شخص مفہوم کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا (ایک) "کأنّ" کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا ( دو) "أنّ" اور "إنّ" (خارجی حقیقت ) کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے (تین) ہر چیز دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتے تو کم از کم "کأنّ" کے مقام پر ضرور فائز ہوں ۔

فریقین نے احسان کی تفسیر میں وجود مبارک پیغمبر (علیه و علی آله آلاف التحیة و الثناء) سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ فرمایا : «الإحسان أن تَعبد الله کأنّک تراه فإن لم تَکن تراه فإنّه یراک» آپ کہتے ہیں : «إِیاک نَعْبُدُ»؛مفہوم کو خطاب کر رہے ہیں یا مصداق کو ؟ مفہوم کو کہہ رہے ہیں : «إِیاک»؟! اگر مصداق کو خطاب کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اسے دیکھ رہے ہوں ۔ فقط جانتے ہیں کہ یہ مفہوم ایک مصداق رکھتا ہے ۔ اس کی مثال اس شخص کی مانند ہے کہ جو مشہد جا رہا ہے اور غذا کا ایک ٹرک بھر کر لے جا رہا ہے ۔ اس کے پاس صرف زاد راہ ہے اور زاد راہ ! فرماتے ہیں کہ کچھ مقدار عقل بھی ہمراہ لو ، کچھ معرفت بھی حاصل کرو ۔ ائمہ (ع) نے ابوذر رضوان اللہ علیہ کے بارے فرمایا ہے : «کان أکثر عبادة أبی ذر التفکر» یہ کیسی ذات ہے کہ جو میرے ساتھ ہے اور میں اسے نہیں دیکھ رہا ؟ روح و ریحان ایسے آدمی کو نصیب ہوتی ہے پھر اسے کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا جب وجود مبارک پیغمبر علیہ و علی آلہ آلاف التحیۃ و الثناء سے کہا گیا کہ وہ آ رہے ہیں ! تو آپ (ص) نے غار کے دہانے پر فرمایا : «لاَتَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا» خدا ہمارے ساتھ ہے «هُوَ مَعَکمْ أَینَ مَا کنتُمْ» پس ہم اس سے کیوں خوفزدہ ہیں ! پس کیوں فقر ، مرض اور بیرونی حملے سے خوف کھاتے ہیں ! وہ تو ہمارے ساتھ ہے اور ہر کام اس کے ہاتھ میں ہے ،«جُنُودُ السَّماوَاتِ و الْأَرْضِ»اس کے لیے ہیں ، پس اسے کیوں نہیں دیکھ پاتے ؟! اگر دیکھ لیں تو پھر ہمیں کوئی خوف نہیں ہو گا ۔ وجود مبارک موسیٰ کلیم (ع) نے دو خطروں کے درمیان کیا فرمایا ؟ سامنے غرق ہونے کا خطرہ تھا اور پیچھے فرعون کا انتہائی عظیم لشکر تھا ۔ جب قوم کے آدمیوں نے حضرت موسیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ سامنے دریا ہے اور پیٹھ پیچھے فرعون کا لشکر پہنچنے والا ہے ؛ یہ آپ نے ہمیں کہاں پھنسا دیا ہے ؟ فرمایا : «کلّا إِنَّ مَعِی رَبِّی» یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟! خدا کرے یہ سخن ہم سب کے شامل حال ہو جائے اور ہم صرف اسی اخلاق کو حاصل کرنے کے درپے ہیں وہ بھی اگر انشاء اللہ حاصل ہو جائے !

یہ بھی پیغمبر اکرم (صلّی الله علیه و آله و سلّم) کے نورانی بیانات میں سے ہے کہ فرمایا : «إنّ الله سبحانه و تعالی یحبّ مَعالی الامور و یکره سَفسافها» اللہ تعالیٰ بلند ہمتوں اور افکار کو پسند کرتا ہے ۔ علوم اس قدر فراوان ہیں کہ انسان کبھی بھی منہ شگافی کرتے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں فارغ التحصیل ہو چکا ہوں ! جب تک ہماری سانسوں میں سانس ہے ہمیں کتاب کے ساتھ رہنا چاہیے ، یا درس کہیں یا درس پڑھیں ؛ کیا ممکن ہے کہ ایک اہل حوزہ یا اہل دانشگاہ کتاب ایک طرف رکھ دے ؟! ہمیں بتایا گیا ہے : «إنّ الله سبحانه و تعالی یحبّ مَعالی الامور و یکره سَفسافها» پست فکر و ہمت اور جاہلانہ طور طریقے خدا کو پسند نہیں ہیں علوم اس قدر فراوان ہیں کہ انسان ہر لحظے ان سے استفادہ کر سکتا ہے ۔

اس بنا پر اخلاقی مسائل اس امر کا پیش خیمہ ہیں کہ انسان اس سے بالاتر مراتب پر فائز ہو ۔ اخلاق کا کم سے کم اثر یہ ہے کہ یہ معاشرے کو نورانی اور معطّر کرتا ہے ؛ ایک معاشرے کو آئیڈیل معاشرہ بناتا ہے ۔ اب کسی کو یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ صاحب ! گمراہی کے راستے پر نہ چلیں ، کسی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہ کرو ! یہ ان لوگوں کے لیے ہے کہ جو اہل بیت ( ع) سے آشنا نہیں ہیں ۔ ان سب نورانی روایات ( کلامکم نور) کے باوجود ہم سے یہ کہا جائے : فلاں معصیت اور گناہ مت کرو ؟! یہ گزشتہ مطالب کا ایک خلاصہ تھا اور ہمیں امید ہے کہ خدائے سبحان ہم سب کو ان معارف کے حصول کی توفیق مرحمت فرمائے !

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے اپنی گرانقدر فرمائشات کے دوسرے حصے میں امیر المومنین (ع) کے امام حسن (ع) کے نام خط کے اختتامی حصے میں فرمایا :

وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) کا خط ایک مفصل نامہ ہے اور سید رضی ( رضوان اللہ علیہ ) نے اس نامے کی کانٹ چھانٹ نہیں کی ہے ۔ وہ نامہ جو وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اپنے فرزند بزرگوار کے لیے تحریر کیا ہے اور معروف یہی ہے کہ یہ نامہ امام مجتبی ( ع ) کے لیے مرقوم فرمایا ، بعض نے کہا ہے کہ کسی اور فرزند کے نام ہے ۔ یہ نامہ انتہائی مفصل ہے اور اس کے متعدد حصے ہیں ۔ ہم اس خط کے آخری اقتباس تک پہنچ گئے ہیں کہ فرمایا : «إِیاک أَنْ تَذْکرَ مِنَ الْکلاَمِ مَا یکونُ مُضْحِکاً وَ إِنْ حَکیتَ ذلِک عَنْ غَیرِک»؛ فرمایا : مبادا اپنی محفلوں میں ایسی بات کہو کہ دوسرے ہنسیں اگرچہ اپنے غیر سے ہی کیوں نہ نقل کرو ! کیا تم لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا ہو کہ تم لب کھولو اور بات کرو کہ جس پر کچھ لوگ ہنسیں ! کیا یہ چیز تمہاری قدروقیمت نہیں گھٹاتی؟! اچھا ! یہ خاندانی تربیت ہے ۔ فرمایا : مبادا ! تم ایسا کام کرو کہ جگت بازی کرو اور دوسرے ہنسیں ۔ آخر تم انسان ہو اور تمہاری ایک قدر و قیمت ہے ۔ خود کو اس طرح رائیگاں ہنسی مذاق کا مورد بناتے ہو ؟ فرمایا : «إِیاک أَنْ تَذْکرَ مِنَ الْکلاَمِ مَا یکونُ مُضْحِکاً وَ إِنْ حَکیتَ ذلِک عَنْ غَیرِک»؛ اس کے بعد اس اقتباس تک پہنچے تھے کہ «إِیاک وَ مُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّ رَأیهُنَّ إِلَی أَفَنِ» ؛ "آفن" ہمزہ کے ساتھ ضعف کے معنی میں ہے اور یہ عفن (عین کے ساتھ) کا غیر ہے کہ جس کا معنی عفونت(بدبواورگندگی) ہے ۔ . «وَ عَزْمَهُنَّ إِلَی وَهْنِ وَ اکفُفْ عَلَیهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِک إِیاهُنَّ» گزشتہ ہفتے عورتوں سے مشورے کے بارے تفصیلی گفتگو کی گئی تھی ۔ اس میں اشارہ کیا گیا کہ ہر ملک منجملہ ہمارے ملک میں آدھی آبادی مردوں اور آدھی عورتوں پر مشتمل ہے ( یہ پہلی اصل) ؛ مردوں کو تعلیم و تزکیے اور انتظامی کاموں کی ضرورت ہے ، خواتین بھی اسی طرح ہیں ( یہ دوسری اصل ) جس طرح مردوں کو حج و عمرے کے لیے فوٹو گرافی اور ہسپتالوں میں سارے بدن کے ایکسرے کی ضرورت ہوتی ہے ، خواتین کو بھی یہ ضروریات درپیش ہیں( تیسری اصل ) جہاں تک ممکن ہو سکے انسان خود کو اضطرار سے دوچار نہ کرے ؛ اگر آپ مراجع کا فتویٰ ملاحظہ کرتے ہیں کہ اضطرار کی صورت میں مرد، خواتین کی فوٹو بنا سکتے ہیں ۔ ہم کیوں مضطرّ (مجبور) ہوں معاشرے کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے ، کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تمام ضروریات برطرف کریں تاکہ عورتوں کے لیے مرد اساتذہ ، ڈاکٹرز اور عہدیداروں کی احتیاج ہی پیدا نہ ہونے پائے ۔ ضروری ہے کہ یہ کثیر آبادی خود اپنی ضروریات پوری کر سکے تاکہ عورتوں کے لیے مرد اساتذہ ، ڈاکٹرز اور مرد عہدیدار کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو ، اس عظیم آبادی کو اپنا نظام چلانے کے لیے حوزوی اور دانشگاہی نظام کی ضرورت ہے ، انہیں اداری نظام کی بھی ضرورت ہے سوائے ضروری موارد کے کہ جب محتاج ہو جائیں اور نامحرم ان کی مشکلات برطرف کریں ۔

انہوں نے نتیجے کے طور پر فرمایا :

اس بنا پر خواتین کو بھی حوزوی اور یونیورسٹی کے نظام کی ضرورت ہے ؛ انہیں تدریس اور تعلیم کی ضرورت ہے ۔ تمام امور جو مردوں کے لیے ہیں ، خواتین کے لیے بھی ضروری ہیں تاکہ اپنی مشکلات خود حل کریں ۔ البتّہ انتظامی کاموں کے حوالے سے مرد بعض کاموں میں زیادہ قوی ہیں اور بعض کاموں کے لیے عورت ؛ علمی اور ثقافتی شعبہ جات میں زن و مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کہ مرد اس قدر علم حاصل کرے اور عورت اتنی مقدار بلکہ اس کا تعلق استعداد اور صلاحیت کے ساتھ ہے ، اخلاقی حوالے سے بھی کوئی فرق نہیں ہے ۔ اخلاق کے اعلیٰ ترین مدارج کہ جو عرفانی شہود سے متعلّق ہیں، میں بھی عورت اور مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے ۔ البتہ بعض انتظامی کاموں میں جیسا کہ اشارہ کیا گیا کہ مرد انتظامی کاموں کو بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے اور ضروری ہے کہ وہ انجام دے ۔ اس طرح کے امور کو عورت انجام نہیں دے سکتی اور اسے انجام دینے بھی نہیں چاہییں ۔ نبوت ، رسالت اور امامت اسی قبیل سے ہے ۔ محاذ جنگ اور جنگ کی سپہ سالاری بھی ایسے ہی ہے ، یہ انتظامی کام ہیں لیکن ان تمام کاموں کی اساس اور بنیاد ولایت کا بلند و بالا مقام ہےاور ولایت، زن و مرد کے لیے یکساں ہے ۔ نبوت ، رسالت ، امامت اور خلافت انتظامی کام ہیں کہ جن کا تعلق لوگوں اور معاشرے سے ہے ؛ مرجعیت اور جمعہ و جماعت کی امامت ، انتظامی کام ہیں ؛ لیکن فقاہت سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا فقاہت اور اجتہاد میں مرد ہونے کی شرط ہے ؟ نہیں ! آیا ولایت میں مرد ہونا شرط ہے ؟ نہیں ۔ کیا نبوت ، رسالت اور امامت کی تمام قدر و قیمت ولایت کی بدولت نہیں ہے ؟ جی ہاں ! چونکہ وہ شخص ولی اللہ ہے ، نبوت ، رسالت یا امامت کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے ۔ ان کی بنیاد یہی ہے ۔ وہاں آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ صدّیقۀ کبرٰی (سلام الله علیها) اور مریم (سلام الله علیها) پوری آب و تاب سے حاضر ہیں ۔

ممکن ہے کہ فتوٰی یہ ہو کہ عورت قاضی نہیں بن سکتی ؛ لیکن عورت لاء کالج کی استاد بن سکتی ہے کہ اس کے شاگرد قاضی ہوں ۔ قاضی بننا کمال نہیں ہے بلکہ کمال اس مجتہد کا ہے کہ جو قاضیوں کی تربیت کر سکے ۔ اس کمال میں عورت اور مرد یکساں ہیں ۔ ممکن ہے کہ مرد کے ہاتھ میں محاذ جنگ اور جنگ کے انتظامی معاملات ہوں لیکن عورت جنگی قوانین کی اچھی طرح تعلیم حاصل کرے، ان کا گہرائی سے جائزہ لے کر دوسروں کو تعلیم دے اور اس کے شاگرد ایک لشکر کے امیر بن جائیں ۔ جہاں کمال ہے ، عورت ہے ۔ جہاں انتظامی کام ہیں ، وہاں مرد اور اس طرح سے کاموں کی تقسیم کر دی گئی ہے ۔

لیکن عورت کا پاک ترین ، طیب ترین اور اصلی ترین فریضہ ماں بننا ہے ۔ یہ امر کسی کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ اب آپ یہاں تشریف فرما ہیں تو آپ کی بہت قدر و قیمت ہے لیکن آپ لوگوں نے ماں کے مکتب میں پرورش پائی ہے ۔ اگر عورت اس فرض کو چھوٹا سمجھے تو اس نے اپنے آپ اور معاشرے پر جفا کی ہے ۔ مبادا یہ کہے : کیا ہمیں اولاد کی پرورش کے لیے پیدا کیا گیا ہے ؟ ہرگز ایسا مت کہیں ، اصل یہ ہے کہ تم ماں بن سکو ، ایک تعلیم یافتہ ماں تعلیم یافتہ بچے کی تربیت کرتی ہے ۔ وہ چھ ، سات سال کہ جب یہ بچہ ماں کے ہاتھوں میں ہے ، کالج ، یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ کے ہر کورس سے قوی تر ہیں، وہ تمام خصوصیات کہ جو شیر خوارگی کے زمانے میں اور مادری محبت کے ساتھ اس بچے کو تلقین اور تعلیم دی جاتی ہیں ۔ ہرگز کسی دوسری جگہ پر اس بچے کو نصیب نہیں ہوں گی ۔ اس بنا پر ایک عورت کا اہم ترین ، اصلی ترین فریضہ ماں بننا ہے ؛ لیکن اسے تعلیم حاصل کرنا چاہئیے اور اس اعلی تعلیم کی روشنی میں بچے کی تربیت اور دیکھ بھال کرے ۔

حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : مبادا ایسا ہو کہ بہت زیادہ سماجی مصروفیات وغیرہ اس امر کا باعث بنیں کہ انسان بچے کو ڈے کئیر سنٹر کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور پھر کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ۔ آپ کیوں ملاحظہ کرتے ہیں کہ جن شہروں میں عاطفہ ، لطف اور محبت ہے ، وہاں اولڈ ہاؤسز کا نام و نشان نہیں ہے ۔ گزشتہ ہفتے بھی ہم نے نقل کیا کہ ایک بزرگ سید نے ایک علاقے میں بہت زیادہ خدمات انجام دیں ؛ مسجد ، حمام اور امامبارگاہ کی تعمیر کی ، اس کے بعد ایک مرتبہ میرے پاس گلہ کر رہے تھے کہ میں نے ان لوگوں کو بہت تشویق دلائی ہے کہ ایک اولڈ ہاؤس بھی تعمیر کریں ، لیکن انہوں نے اس معاملے میں میری کوئی مدد نہیں کی ، میں نے ان سے کہا : ان مردوں کا شکریہ ادا کرو کہ انہوں نے آپ کو پیسے نہیں دیے ، کوئی شخص آمادہ نہیں ہے کہ اپنے ماں باپ کو اولڈ ہاؤس کے حوالے کر دے لہٰذا ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے ۔

وہ بچے کہ جنہیں ڈے کئیر سنٹر کے حوالے کیا جاتا ہے وہ محبت وپیار کا ادراک نہیں کر پاتے اور جوں ہی ان کے ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں ، وہ انہیں اولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں ، بوڑھوں کو اولڈ ہاؤس کے حوالے کرنے کا مطلب ماں باپ کی تدریجی موت ہے ۔

قرآن کریم نے فرمایا : «وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ»؛ فرمایا : اپنے پر پھیلاؤ اور انہیں ان پروں کی آغوش میں لو ! یہ بات کون قبول کرتا ہے ؟ وہی جس نے بچپن کے سات سال ماں کے دودھ اور محبت کے سائے میں گزارے ہوں لیکن ڈے کئیر میں پلنے والا بچہ جونہی بڑا ہوتا ہے ، ماں باپ کو اولڈ ہاؤس روانہ کر دیتا ہے ۔ اس نے پیارومحبت کو درک نہیں کیا اور محبت کا درس نہیں لیا ۔ اس بنا پر اگر قرآن ہے ، دینی احکام ہیں ، تو تحصیل اور علم اپنی جگہ پر محفوظ ہیں ، معاشرے کی آدھی آبادی جو خواتین پر مشتمل ہے وہ اپنے تمام امور خود انجام دیں تاکہ ضرورت ہی نہ رہے کہ کوئی نامحرم ان کے کام میں مداخلت کرے اور یاد رہے کہ ان کا اصلی ترین کام ماں بننا ہے ۔ اس امر کا بالکل امکان نہیں ہے کہ معاشرے کو ڈے کئیر سنٹر کے رحم و کرم پر چلایا جا سکے ۔ معاشرے کو ماں اور پاکیزہ دودھ چلا سکتا ہے ۔ جب وہ نماز ادا کرتی ہے تو بچے کو اپنے جائے نماز کے پاس بٹھا دیتی ہے ؛ یہی کہ جو ان چھ یا سات سالوں میں اس کی تسبیح اور سجدہ گاہ سے کھیلتا ہے ، تسبیح اور سجدہ گاہ سے آشنا ہوتا ہے ، وہ خود ذکر کرتی ہے اور بچے کو بھی ذکر سکھاتی ہے ۔ یہ جو فرمایا کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو اس لیے ہے کہ یہ اسلام میں نووارد ہیں ۔ خدا رحمت نازل کرے ہمارے عظیم استاد علامہ طباطبائی پر وہ نورانی حدیث جو مرحوم صدوق کی کتاب "توحید" میںموجود ہے اور انہوں نے اس حدیث کو نقل کر کے اس کی اتنہائی خوبصورت تشریح اور عقلی تحلیل فرمائی ہے ۔ اصل حدیث یہ ہے کہ بچہ جب روتا ہے تو اس کو مت مارا جائے چونکہ پہلے چار ماہ اس کا گریہ خدائے سبحان کی وحدانیت کی شہادت ہے ، دوسرے چار ماہ کا گریہ وجود مبارک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت ہے ، تیسرے چار ماہ کا گریہ ماں اور باپ کے لیے دعا ہے ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟ کیا بچہ توحید کے بغیر پیدا ہوتا ہے ؟! کیا خدائے سبحان نے بچے کو بغیر سرمائے کے خلق کیا ہے ؟! فرمایا : «وَ نَفْسٍ وَ مَا سَوَّاهَا ٭ فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقْوَاهَا» میں نے اسے بہت کچھ سکھایا ہے ، «فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِی» خدا نے سورہ روم اور سورہ شمس میں فرمایا ہے: بچہ علمی سرمائے کے ساتھ دنیا میں آتا ہے ۔ جی ہاں ! حوزہ اور یونیورسٹی کا علم اسے نصیب نہیں ہے ؛ اس مطلب کو سورہ نحل میں فرمایا ہے : «وَ اللَّهُ أَخْرَجَکم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِکمْ لاَتَعْلَمُونَ شَیئاً.» یہ تمام چیزیں جو ہم حوزہ اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں ، ہمیں بھول جاتی ہیں ، بہت سے علماء بڑھاپے میں ایک سادہ توضیح المسائل کا ایک صفحہ جو انہوں نے خود تحریر کیا ہے ، نہیں پڑھ سکتے ۔ سعدی کے بقول :

من هر چه خوانده ام همه از یاد من برفت ٭٭٭ الاّ حدیث دوست که تکرار می کنم

 

فقط ایک حدیث دوست باقی رہتی ہے ، ان حوزوی اور یونیورسٹی کے دروس پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ الٰہی سرمایہ ساتھ رہتا ہے ۔ فرمایا : میں نے اسے سرمائے کے ساتھ خلق کیا ہے اور اس کے پاس یہ سرمایہ موجود ہے کہ جس سے وہ استفادہ کر رہا ہے : پہلے چار ماہ کے دوران خدا اور مخلوق میں سے خدا کی وحدانیت کی ستائش کرتا ہے ، دوسرے چار ماہ میں پیغمبر (ص) اور اپنی ذات میں سے پیغمبر (ص) کی عظمت کا اقرار کرتا ہے اور تیسرے چار ماہ میں ماں باپ کی تعریف کرتا ہے ۔ یہ جو فرمایا : «إِن مِن شَی‏ءٍ إِلَّا یسَبِّحُ بِحَمْدِهِ» اس کا مطلب یہی ہے ۔ فرمایا : بچہ جس قدر گریہ کرے ، یہ صادقانہ ہے یہ فضول گریہ نہیں کرتا ۔ اگر مسکراتا ہے تو یہ بھی صادقانہ ہے مگر یہ کہ کوئی راستے سے ہٹا دے ۔ فرمایا : ہم نے اسے پاک و پاکیزہ تمہارے حوالے کیاہے ۔ یہ اسلام میں نووارد ہے «کلُّ مولودٍ یولَدُ علی الفطرة» ، یہ الٰہی امانت ہے ۔ اس امر کی مائیں حفاظت کرتی ہیں ۔ اس بنا پر ملکی معاملات میں صلاح و مشورہ ایک مطلب ہے ؛ مردوں کے انتظامی مسائل میں مشورہ دوسرا مطلب اور خود خواتین سے ان کے اپنے کاموں میں مشورہ ایک علیٰحدہ چیز ہے ۔

پھر فرمایا : حجاب و پاکدامنی میں ان کی عظمت ہے ۔ کیوں مرد کا کافر عورت کی جانب نگاہ کرنا (البتہ شائبے کے بغیر) جائز ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی حرمت نہیں ہے ۔ چند مرد ایک گھر میں رہ رہے ہیں ؛ باوجود اس کے کہ نامحرم نہیں ہیں لیکن ان کے کمروں میں جھانکنا جائز نہیں ہے ؛ کیوں ؟ کیا نگاہ کے احکام صرف نامحرم کے لیے ہیں ؟! انسان کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کی پرائیویٹ زندگی میں دخل اندازی کرے ۔ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ وہ کمرہ طلبہ کا ہے اور وہ مرد ہیں لہٰذا میں چھپ کر کھڑکی سے جھانک لوں کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ، دوسرے لوگ کیا کر رہے ہیں ؟! عورت کی جانب نگاہ خصوصی حریم شکنی کے مترادف ہے اگرچہ نامحرم نہ ہو ، عورت کے بدن اور بالوں کی جانب نگاہ نہیں کی جا سکتی اگرچہ لذت کے ارادے سے نہ ہو ، لذّت کا قصد تمام جگہوں پر اشکال رکھتا ہے ، چونکہ یہ حرام کے ساتھ مخلوط ہے ۔ آپ یہی نگاہ کافر عورت پر ڈالتے ہیں؛ کیوں ؟ اس لیے کہ اس کی نہ حرمت ہے اور نہ احترام ۔ اس نے اپنا احترام ختم کر دیا ہے ۔ اس بنا پر عورت کی طرف نگاہ کرنا اس کی کرامت اور خصوصی حریم میں ورود کے مترادف ہے اور اس کا حجاب سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عورت پر خود کو ڈھانپنا واجب ہے ، مبادا اس پر کوئی غیر ارادی نگاہ پڑ جائے ، یہ عورت کی عظمت اور جلال ہے کہ وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اس نامے میں فرمایا : ان کے حجاب کا خیال رکھو «وَ إِنِ اسْتَطَعْتَ أَلاَّ یعْرِفْنَ غَیرَک فَافْعَلْ»؛ جو کام تم خود انجام دے سکتے ہو وہ اپنی زوجہ پر کیوں موقوف کرتے ہو ، «وَ لاَتُمَلِّک الْمَرْأَةَ مِنْ أَمْرِهَا مَا جَاوَزَ نَفْسَهَا» وہ اپنے کام انجام دے سکتی ہے ، وہ گرلز کالج چلا سکتی ہے ؛ جامعہ زہراء کا انتظام سنبھال سکتی ہے ۔ زنانہ کلاسیں منعقد کر سکتی ہے ، وہ استاد بن سکتی ہے ، تدریس ، تالیف اور تقریر کر سکتی ہے ۔ آدھا ملک ان کے زیر اختیار ہے ، ان کا نظم و انتظام سنبھالنا معمولی کام نہیں ہے ۔ «فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَیحَانَةٌ وَ لَیسَتْ بِقَهْرَمَانَةٍ وَ لاَتَعْدُ بِکرَامَتِهَا نَفْسَهَا» مبادا اسے کام کا ذریعہ قرار دو ، اگر کسی کو اداری کام ہو تو وہ تمہاری بیوی کے ذریعے تمہیں کہے ۔ یہ کام مت کرو ! «وَ لاَتُطْمِعْهَا فِی أَنْ تَشْفَعَ لِغَیرِهَا» اسے کہو کہ ٹیلیفون کرے یا فلاں ٹیلیفون کا جواب دے ، اسے کہو کہ فلاں کیس کا مطالعہ کرو اور وہ دخل اندازی کرے ؛ یہ کام مت کرو! چونکہ خدائے سبحان نے انہیں عاطفہ کے ساتھ خلق کیا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مناجات کی تاثیر خواتین میں مردوں سے زیادہ ہے ۔ موطأ مالک کا مطالعہ کیجیے ؛ یہ کتاب قدیم ترین اسلامی کتاب ہے ؛ یہ مطلب مالک نے موطّا میں نقل کیا ہے کہ صدر اسلام میں ابھی بہت سے مرد ہاتھوں میں تلواریں لیے اسلام کے خلاف لڑ رہے تھے لیکن ان کی عورتیں مسلمان ہو چکی تھیں ۔ الٰہی مواعظ سے خواتین کی تاثیر پذیری اگر مردوں سے زیادہ نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہے۔ ابھی شوہر اسلام کے خلاف جنگ کر رہا تھا لیکن بیوی مسلمان ہو چکی تھی اور پیغمبر (ص) کی پیروکار تھی ۔ «وَ إِیاک وَ التَّغَایرَ فِی غَیرِ مَوْضِعِ غَیرَةٍ» ہم نے گزشتہ بحثوں میں ذکر کیا کہ غیرت نمایاں ترین اخلاقی فضیلت ہے ۔ غیرت کے تین بنیادی عنصر ہیں : ماہیت اورحقیقت شناسی ( ایک ) غیر کے حریم میں داخل نہ ہونا ( دو) غیر کو اپنی حریم میںداخل ہونے کی اجازت نہ دینا ( تین ) اسے کہا جاتا ہے غیرت ۔ غیرت یعنی غیر کو دفع کرنا اور یہ کہ انسان نہ غیر کی حریم میں داخل ہو اور نہ ہی غیر کو اپنی حریم میں داخل ہونے کی اجازت دے ؛ چونکہ دیاثت بے غیرتی (عورت کی بدکاری پر چشم پوشی) کی بازگشت بھی غیرت کے ترک کی طرف ہوتی ہے ۔ حضرت امیر (ع) کا یہ نورانی بیان جو پہلے پڑھا گیا کہ فرمایا : «ما زَنیٰ غیورٌ قطُّ» ہر گز ایک غیرت مند، نامحرم کے ساتھ تعلقات نہیں بناتا ۔ کوئی بھی غیرت مند انسان یہ کام نہیں کرتا ہے اور جس نے بھی ایسا کیا وہ بے غیرت ہے ، کیوں ؟ اس لیے کہ غیرت کا معنی یہ ہے کہ غیر کو اپنی حریم میں داخلے کی اجازت نہ دے ( ایک) اور دوسرے کی حریم میں داخل نہ ہو ( دو) یہ دو عنصر کہ جو دفعِ غیر ہیں خود شناسی کی فرع ہے ، انسان جب تک خود کو نہ پہچانے اس وقت تک ان دو طرفوں کو ترک نہیں کر سکتا ۔ فرمایا : «فَإِنَّ ذلِک یدْعُو الصَّحِیحَةَ إِلَی السَّقَمِ وَ الْبَرِیئَةَ إِلَی الرِّیبِ» ان پر زیادتی اور بدگمانی بد ہے ، افراط و تفریط بد ہیں ؛ یہ اقتباس خواتین اور خاندان سے مربوط تھا ۔

پھر فرمایا : «وَ اجْعَلْ لِکلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِک عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ» وجود مبارک امام مجتبی (ع) کہ جن کے پاس کوئی ظاہری منصب نہیں ہے ؛ فرمایا : اگر آپ عہدیدار اور مدیر بن گئے تو ضروری ہے کہ ہر ہر فرد کے لیے کسی ذمہ داری کا تعین کرو اور منصوبہ بندی کے ساتھ چلو ( ایک) ذمہ داری طلب کرو ( دو ) اسے کام کی تلقین کرو ( تین ) تم کنٹرول اور نگرانی کرو ( چار ) اس سے جواب طلبی کرو (پانچ) ایسا نہ ہو کہ نظام مملکت کو اسی طرح چھوڑ دو یا اپنے تحت کام کرنے والے عملے کو اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ «وَ اجْعَلْ لِکلِّ إِنْسَانٍ مِنْ خَدَمِک عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ فَإِنَّهُ أَحْرَی أَنْ لاَیتَوَاکلُوا فِی خِدْمَتِک» جب حساب کتاب سے کام نہ لیا جائے تو ہر شخص اپنا کام دوسرے پر چھوڑ دیتا ہے ، یہ تواکل ہے ، متقابل تواکل یعنی یہ اسے وکیل قرار دیتا ہے اور وہ اسے وکیل قرار دیتا ہے ، اس صورت میں تمام کام بکھر اور ضائع ہو جاتے ہیں ۔

«وَ أَکرِمْ عَشِیرَتَک» قوم ، قبیلے اور اپنے اہل خانہ کا احترام کرو چونکہ تم خالی ہاتھ کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ خدا نے تجھے اس خاندان کے ساتھ قرار دیا ہے ۔ انہیں اذیت دینے کی کیا وجہ ہے !«وَ أَکرِمْ عَشِیرَتَک فَاِنَّهُمْ جَنَاحُک الَّذِی بِهِ تَطِیرُ» تم اگر پرواز کرنا چاہو تو اپنی فیملی اور قوم کے سہارے پرواز کر سکتے ہو ۔ «وَ أَصْلُک الَّذِی إِلَیهِ تَصِیرُ» آخرکار تم اگر کبھی پلٹنا چاہو تو اسی اصل ، قبیلے اور خاندان کی طرف ہی پلٹو گے ۔ «وَ یدُک الّتِی بِهَا تَصُولُ» اگر کبھی دشمن تم پر حملہ کرے اور تم اپنی شجاعت اور ہیبت دکھانا چاہو تو وہ اپنے قبیلے کے ذریعے ہی کر سکو گے ۔

اس خط کے آخر میں فرماتے ہیں : : «اسْتَوْدِعِ اللَّهَ دِینَک وَ دُنْیاک وَ اسْأَلْهُ خَیرَ الْقَضَاءِ لَک فِی الْعَاجِلَةِ وَ الْآجِلَةِ وَ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةِ» فرمایا : تمہارا دین اور دنیا ان سب کو خدا کے حوالے کرتا ہوں ۔ خدائے سبحان سے دنیا و آخرت کی خیر کا سوال کرتے ہیں ، اسے وجود مبارک حضرت امیر ( سلام اللہ علیہ ) نے اپنے نامے کے آخر میں تحریر فرمایا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ حضرت کی یہ اختتامی دعا تمام حوزوی ، دانشگاہی اور بسیجی خواتین و حضرات کے شامل حال ہو ؛ ذات اقدس الٰہی ہم سب کو یہ توفیق مرحمت فرمائے کہ ہم ان معارف کو سمجھیں ، ان پر یقین رکھیں، ان پر عمل پیرا ہوں اور ان کی اشاعت کریں ۔

رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں کردار زینبی(س)

جناب زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت غم و اندوہ اور تیمار داری میں ہی خلاصہ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک مسلمان خاتون کا مکمل نمونہ تھیں ۔ یعنی وہ آئیڈیل جسے اسلام نے خواتین کی تربیت کے لئے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے ۔ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی شخصیت ، ایک ہمہ گیر شخصیت ہے ۔ عالم و دانا ، صاحب معرفت اور ایک نمایاں انسان کہ جب بھی کوئی ان کے سامنےکھڑا ہوتا ہے ان کی علمی و معنوی عظمت اور معرفت کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ۔

ایک مسلم خاتون جس پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتی ہے یہی ہے یعنی اسلام کو اپنے وجود میں بسانا ۔

ایمان کی برکت اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردینے سے ایک مسلمان عورت کا دل اس قدر گشادہ ہو جاتا ہے اور وہ اتنی مضبوط ہوجاتی ہے کہ بڑے بڑے حادثات اس کے آگےگھٹنے ٹیک دیتے ہیں ۔

زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ عاشورا جیسا عظیم واقعہ زینب(س) کو جھکا نہیں سکا ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے ظالم و ستمگر افراد کی ظاہری حشمت اور جاہ و جلال زینب(س) کو نہ للکار سکے ۔ زینب(س) نےہمیشہ اور ہر جگہ اپنے آپ کو ثابت قدم رکھا ۔ ان کا وطن مدینہ ہو یا سخت امتحان و آزمائش کی آماجگاہ، کربلا یا پھر یزید و ابن زیاد کا دربار ہ،ر جگہ زینب(س) ثابت قدم اور سر بلند رہی اور باقی سب ان کے آگے سرنگوں ہوگئے ۔ یزید اور ابن زیاد جیسے مغرور اور ستمگر افراد اس دست بستہ اسیر کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئے ۔

زینب کبریٰ(س) کی شخصیت میں ایک طرف صنف نسواں کی عطوفت و مہربانی ہے اور دوسری طرف ایک مومن انسان کے دل میں پائی جانے والی متانت، عظمت اور سکون و پایداری، ایک مجاہد راہ خدا کی صاف اور گویا زبان ۔ ایک پاک و خالص معرفت ،جو ان کی زبان و دل سے نکلتی اور سننے والوں کو مبہوت کردیتی ہے ۔

ان کی نسوانی عظمت، جھوٹے بزرگوں کو حقیر و پست بنا دیتی ہے اسے کہتے ہیں نسوانی عظمت! حماسہ اور عطوفت سے مرکب وہ عظمت جو کسی فرد میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔

وہ ہستی جو اپنی متین شخصیت اور پایدار روح کے ذریعہ تمام ناگوار حوادث کو سر کر جائے اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کو شجاعت و بہادری سے اپنے پیروں تلے روند ڈالے ۔ لوگوں کو درس دے اور انہیں بیدار کرے ۔ ساتھ ہی اپنے زمانے کے امام کو ایک مہربان ماں کی طرح تسلی و تشفی دے ۔ اور ان نازک حالات اور طوفان حوادث میں یتیم بچوں کی حفاظت اور ان کی تسلی و تسکین کے لئے ایک محکم دیوار بن جائے ۔

اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا ایک ہمہ گیر شخصیت تھیں ۔ اسلام ایک عورت کو اسی طرف لے جانا چاہتا ہے ۔ ( 1 )

 

ہنر مندانہ گفتگو

میری نظر میں جناب زینب(س) کو ادبیات و ہنر کے ذریعہ عظیم واقعات وحوادث کی حفاظت کرنے اور انہیں بچانے کا بانی کہا جاسکتا ہے ۔

اگر جناب زینب(س) نہ ہوتیں اور ان کے بعد دوسرے اہل حرم جیسے امام سجاد علیہ السلام نہ ہوتے تو تاریخ میں واقعہ کربلا کا نام نہ ہوتا ۔

سنت الٰہی یہی ہے کہ اس طرح کے واقعات تاریخ میں باقی رہیں ۔ البتہ سنت الٰہی کایہ ایک شیوہ اور طریقہ ہے ۔ تاریخ میں ان واقعات کی بقا کا طریقہ یہ ہے کہ صاحبان اسرار ، اہل درد اور وہ افراد جو ان حقائق سے مطلع ہیں وہ دوسرے کو ان سے آگاہ کریں ۔ اس لئے اپنی یاد داشت کو بیان کرنا ، انہیں مدون کرنا اور حقائق کو دوسرے تک منتقل کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے ۔ ہنرمندانہ بیان اور گفتگو اس کی ایک بنیادی شرط ہے جیسے کوفہ و شام میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کے خطبات حسن بیان اور جذابیت کے اعتبار سے ایک ہنر مندانہ گفتگو تھی ۔ ایک ایسی گفتگو کہ کوئی بھی اسے نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ جب ایک مخالف اس گفتگو کو سنتا ہے تو وہ ایک تیز تلوار کی اس پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ ہنر کا اثر اپنے مخاطب سے وابستہ نہیں ہوتا ۔ وہ چاہے یا نہ چاہے ہنر اپنا کام کر دکھاتا ہے شام میں جناب زینب(س) اور امام سجاد(ع) نے اپنے فصیح و بلیغ اور ہنر مندانہ گفتگو کے ذریعہ یہی کام کیا ۔ ( 2 )

 

1.ایک عوامی مجمع سے خطاب ۱۵/۶/۲۰۰۵

2.دفتر ادبیات ہنر و مقاومت کے ایک گروہ سے خطاب ۲۲/۹/۲۰۰۵

حقوق نسواں کے دفاع کيلئے بنيادي نکات

١۔معنوي اوراخلاقي امور کي طرف توجہ

پہلا نکتہ:

سب سے پہلي بات تو يہ کہ معنوي اوراخلاقي لحاظ سے خواتين کے فکري ارتقا اور رشد کا نکتہ خود خواتين کے درميان توجہ کا مرکز قرارپائے اور خود خواتين سب سے زيادہ اس مسئلے کے بارے ميں غوروفکر کريں۔ انہيں چاہيے کہ اسلامي معارف، تعليمات ، مطالعہ اورزندگي کے بنيادي مسائل کي طرف توجہ ديں۔ مغرب کي غلط تربيت اس بات کا باعث بني ہے کہ اس ملک ميں طاغوتي حکومت کے زمانے ميں خواتين کو بيہودہ قسم کي عياشي، عيش پرستي، خودنمائي اور ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد زينت و آرائش اوراپنے وجود اورجسم کو ہر ذريعے سے نامحرم مردوں کيلئے قابل توجہ بنانے کا موقع ملا کہ يہ سب معاشر ے پر مردانہ حاکميت کي نشانياں ہيں۔ مغرب ميں مردانہ حاکميت کي ايک نشاني يہ بھي ہے کہ عورت کو صرف مرد کيلئے استعمال کيا جاتاہے، اسي ليے کہتے ہيں کہ عورت زينت و آرائش کرے تاکہ مرد اُس کے وجود ميں لذت حاصل کرے ! يہ مردانہ حاکميت کي واضح دليل ہے۔ يہ عورت کي آزادي نہيں درحقيقت مرد کي آزادي ہے ۔ يہ لوگ چاہتے ہيں کہ مرد آزاد رہے خواہ وہ آنکھوں کے ذريعے سے ہي لذت حاصل کيوں نہ کرے۔يہي وجہ ہے کہ عورت کو مرد کے سامنے بے پردگي ، بے حجابي، زينت و آرائش اورہر و سيلے کے ذريعے اپنے وجود و بدن کو نماياں اورقابل توجہ بنانے کيلئے شوق ورغبت دلاتے ہيں ۔ البتہ مرد کي يہ خود خواہي صرف مذہبي معاشروں ہي سے مخصوص نہيں ہے بلکہ قديم ايام ميں بہت سے مرد اس خود خواہي ميں مبتلا تھے اور آج بھي ہيں جبکہ مغربي افراد اس (غير انساني اور) جاہلانہ فکر کا اعلي ترين مظہر ہيں۔ لہٰذا عورت کے علم ومعرفت و آگاہي وشعور، کسب معلومات واسلامي تعليمات کے حصول کيلئے اقدام کرنے کا مسئلہ خود خواتين کے درميان نہايت سنجيدگي کے ساتھ زير غور آنا چاہيے اورلازمي ہے کہ اُسے اہميت دي جائے۔

 

دوسرا نکتہ:

دوسري بات يہ کہ کچھ قوانين کي اصلاح کي ضرورت ہے ۔ مرد يا عورت سے سلوک و برتاو اورمعاملے کے بعض قوا نين کي اصلاح کي جاني چاہيے ۔ لہٰذا اس شعبے کے ماہرين کو چاہيے کہ مطالعہ کريں، تحقيق کريں اور قوانين کي اصلاح کريں۔

٢۔ حقوق نسواں کے بارے ميں اسلام کي نظر پر توجہ

ايک اور مسئلہ جو اہم ترين امورسے تعلق رکھتا ہے ،يہ ہے کہ مرد وخواتين کے حقوق کے بارے ميں اسلام کي نظر کي مکمل وضاحت ہوني چاہيے۔خودخواتين اس ميدان ميں کام کريں ليکن سب سے زيادہ وہ افراد اقدامات کريں جو اسلامي تعليمات کے ماہرين ہيں تاکہ يہ لوگ ان مقامات کي کہ جہاں مرد و عورت کے حقوق ايک دوسرے سے مختلف ہيں، صحيح طورپر نشاندہي اوراُن کي وضاحت کرسکيں تاکہ نتيجے ميں ہر کوئي اِس بات کي تصديق کرے کہ يہ سب احکامات مرد وعورت کي اپني اپني خاص بشري طبيعت وفطرت کي بنياد اور معاشرے کي مصلحت کے عين مطابق ہیں۔ البتہ اس ميدان ميں بہت اچھے اقدامات بھي کيے گئے ہيں ليکن موجودہ زمانے کے تقاضوں اورفہم و ادراک کے مطابق بھي کام ہونا چاہيے ۔حالانکہ ماضي ميں بھي اچھے اقدامات کيے گئے تھے لہٰذا اگر کوئي اُن کا مطالعہ کرے اوران پر توجہ دے تو اِسي حقيقت اورتصديق تک پہنچے گا۔

٣۔انحرافي بحث وگفتگو سے اجتناب

تيسرا نکتہ يہ ہے کہ اس سلسلے ميں انحرافي بحث ومباحثے اورگفتگو سے اجتناب کرناچاہے۔ بعض افراداس فکروخيال سے کہ وہ خواتين کے دفاع کيلئے گفتگو کررہے ہيں،انحرافي بحثوں کي طرف کھنچتے چلے جاتے ہيں اور ديت (وميراث) وغيرہ کے مسائل کوبيان کرنا شروع کر ديتے ہيں حالانکہ يہ سب حقوقِ نسواں کے دفاع کے سلسلے ميں انحرافي بحثيں ہيں (اور ان کا حقوق نسواں کے دفاع سے کوئي خاطرخواہ تعلق نہيں ہے اور يہ بحثيں مقصد سے قريب کرنے کے بجائے دوراورذہن کو الجھا ديتي ہيں)۔ مرد اورعورت کے بارے ميں اسلام کي نظر بہت واضح اورروشن ہے جيسا کہ بيان کيا گيا ہے کہ گھرانے اور خاندان کے بارے ميں بھي اسلام کي نظر بہت واضح ہے۔ اگر کوئي اس طرح (ديت،ميراث وغيرہ کے)ان مسائل کو (حقوق نسواں کے دفاع کے ذيل ميں) بيان کرے تو وہ اذہان کو مقصد سے دور کرنے اور انہيں حقيقت سے منحرف کرنے کے سوا کوئي اور کام انجام نہيں دے گا اورنہ ہي يہ کام صحيح اور منطقي ہے۔ انحرافي بحث و گفتگو کو کسي بھي صورت ميں ذکر نہيں کرنا چاہيے کيونکہ ايسي بحث وگفتگو حقوق زن کے دفاع کے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے کيلئے صحيح طريقہ کار کے منافي ہے۔

٤۔ قانوني دفاع

ايک اور نکتے کي طرف توجہ دينے کي اشد ضرورت ہے اور وہ تمام شعبہ ہائے حيات خصوصاً خاندان و گھرانے ميں عورت کا اخلاقي اور قانوني دفاع ہے۔ قانوني دفاع کو موجودہ رائج قوانين کي اصلاح اور اُنہيں مزيد لازمي وضروري قوانين کو وضع کرنے کے ذريعے پايہ تکميل تک پہنچايا جاسکتا ہے۔ اسي طرح عورت کے اخلاقي دفاع کے اس مسئلے کو اچھي طرح بيان کرنے کے ذريعے سے انجام ديا جائے۔ ساتھ ہي عورت کے اخلاقي دفاع کے سلسلے ميں ان افراد کي فکر سے سنجيدگي اورقدرت کے ساتھ مقابلہ کيا جائے جو ان تمام امور کو اچھي طرح سمجھنے سے قاصر ہيںاور عورت کو گھر کي ملازمہ سمجھتے ہيں، اسے مرد کے ظلم وستم کا نشانہ بناتے ہيں اورعورت کے وجود کو خودسازي اور معنوي امور سے بے بہرہ خيال کرتے ہيں اوراسي طرح عمل بھي کرتے ہيں۔ ليکن ان افراد کے افکار سے مقابلہ مکمل طور پرعقلي ومنطقي ہونا چاہيے۔

٥۔خواتين کي عفت کي رعايت

اس کے بعد کا مسئلہ ،خواتين کي عفت وحيا کو اہميت دينے کا مسئلہ ہے۔ خواتين کے دفاع ميں انجام ديے جانے والے ہر اقدام اورتحريک ميں خواتين کي عفت و حيا کو اصلي رکن کي حيثيت دي جائے۔ جيسا کہ ميںنے آپ کي خدمت ميں عرض کيا کہ صرف اس نکتے کو اہميت نہ دينے اور خواتين کي عفت و حيا سے بے اعتنائي برتنے کي وجہ سے مغرب ميں بے حيائي اور ہر قيد و شرط سے آزاد زندگي گزارنے اور عزت و ناموس کو پارہ کرنے کا بازار گرم ہوگيا ہے۔ آپ اس بات کي ہرگزاجازت نہيں ديں کہ معاشرے ميں صنف نازک کي شخصيت کا اہم ترين عنصر ''عفت وحيا‘‘ بے اعتنائي کا نشانہ بنے۔ عورت کي عفت دراصل اُس کي شخصيت کے ارتقا اور دوسروں حتي شہوت پرست اورآوارہ مردوں کي نگاہوں ميں اُس کي عزت و تکريم کاوسيلہ ہے ۔ ايک عورت کي شخصيت، عظمت اور اُس کا احترام اس کي عفت وپاکدامني سے وابستہ ہے۔ حجاب ،محرم ونامحرم ،نگاہ ڈالنے اور نہ ڈالنے کہ يہ تمام مسائل (مباح،حرام اورمکروہ کے قالب ميں) اسي ليے بيان کيے گئے ہيں کہ انساني معاشرے ميں عفت وپاکدامني کا اہم ترين انساني عنصر سالم ومحفوظ رہے۔اسلام نے خواتين کي عفت کو بہت زيادہ اہميت دي ہے البتہ مردوںکي پاکيزگي اورعفت بھي اہم اور بنيادي امور سے تعلق رکھتي ہے۔ عفت اورپاکدامني صرف صنف ِنازک سے ہي مخصوص نہيں ہے،مردوں کوبھي عفيف وپاکدامن ہونا چاہيے۔ ليکن چونکہ مردمعاشرے ميں اپنے مضبوط جسم اورجسماني طاقت کي وجہ سے عورت کو اپنے ظلم کو نشانہ بناتا ہے اورعورت کے ميل و رغبت کے برخلاف عمل کرتا ہے اسي ليے عورت کي عفت و پاکدامني کي حفاظت کيلئے زيادہ تاکيد اوراحتياط برتي گئي ہے۔

امريکي اعدادوشمار

آج آپ دنيا پر ايک نگاہ ڈاليئے تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ مغربي دنيا خصوصاً امريکا ميں خواتين کي مشکلات ميں سے ايک مشکل يہ ہے کہ مرد حضرات اپني طاقت وزورکے بل بوتے عورت کي عفت کي دھجياں اڑاتے ہيں ، اُن کي آبروريزي کرتے ہيں اوراُن کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہيں۔ خود امريکي حکومت کي طرف سے ديئے گئے اعداد و شمار ميں ،ميں نے خود يکھا ہے کہ جن ميں سے ايک امريکي عدالت اوردوسرا کسي اورمحکمے سے شائع ہوئے تھے۔اُن کے اعداد و شمار واقعاً بہت وحشت ناک ہيں،امريکہ ميں ہر چھٹے سيکنڈ ايک عزت و ناموس پر حملہ کيا جاتا ہے ! توجہ کيجئے کہ عفت کا مسئلہ کتنا سنگين اور اہم مسئلہ ہے کہ ہر چھٹے لمحے ايک ظلم و ستم کي نئي داستان رقم ہوتي ہے! عورت کي طبيعت ومزاج کے برخلاف، ظالم ،آوارہ، ہر قيد و شرط سے آزاد زندگي گزارنے کا خواہاں بے عفت مرد، عورت کي شخصيت و عفت کو تارتار کرتا ہے اور اُسے اپنے ظلم وتعدّي کانشانہ بناتا ہے۔ اسلام ان تمام مسائل و مشکلات کو مدنظر رکھتا ہے۔اس حجاب کے مسئلے کو ہي ليے کہ جس پر اسلام نے اتني توجہ اورتاکيد کي ہے،اسي وجہ سے ہے ۔ پس عفت و پاکدامني کي حفاظت اور حجاب وعفت کو اہميت دينا بہت اہم ترين مسائل ہيں۔

٦۔ خواتين کي تعليم وتربيت کو اہميت دينا

ايک اورمسئلہ خواتين کي تعليم و تربيت کو اہميت دينا ہے ۔ميں نے بارہا اس مسئلے پر بہت تاکيد کي ہے ۔ خوشي کي بات يہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے ميں خواتين کي تعليم وتربيت ايک بہت عام اور رائج مسئلہ ہے۔ ليکن ان سب کے باوجود آج بھي بہت سے گھرانے ايسے ہيں جو تعليم نسواں کے خلاف ہيں اور اپني لڑکيوں کو تحصيل علم سے منع کرتے ہيں۔ ايک زمانہ وہ تھا کہ جب تعليمي ماحول وفضا غير محفوظ اور خراب تھي ليکن آج الحمد للہ اسلامي حکومت کا دور دورہ ہے ،آج کا معاشرہ ويسا نہيں ہے۔ لہٰذا ان گھرانوں کو چاہيے کہ وہ اپني لڑکيوں کوتحصيل علم کي اجازت ديں تاکہ وہ درس حاصل کريں، مطالعہ کريں،کتاب پڑھيں، ديني اور انساني معارف اورلازمي تعليمات سے آشنا ہوں ، ان کي فکري صلاحيتيں پروان چڑھيں اور اُن کے ذہن قدرت حاصل کریں۔ يہ کام بہت لازمي ہے اور اسے ہر صورت ميں انجام پاناچاہيے۔

٧۔ حقوقِ نسواں سے تجاوز کرنے والوں سے قانوني کاروائي

حقوق ِ نسواں کے دفاع کا آخري نکتہ يہ ہے کہ معاشرہ قانوني اوراخلاقي دونوں لحاظ سے خواتين پر تجاوز اور ظلم کرنے کو اپنا حق سمجھنے والے (مردوں اور عورتوں ) کي سخت گرفت کرے، اُن کے خلاف قانوني کاروائي کرے اور قانون بھي اس سلسلے ميں سخت قسم کي سزاوں کو معين کرے۔

ايک بار پھر آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ مغربي ممالک اپنے ان تمام بلند وبانگ نعروں کے باوجود اپنے معاشرے کي عورت کو ابھي تک محفوظ نہيں بناسکے ہيں۔يعني ابھي تک بہت سي ايسي خواتين ہيں جو اپنے گھروں ميںاپنے شوہروں سے زدوکوب کا نشانہ بنتي ہيں اور بہت سي لڑکياں اپنے باپ کے ہاتھوں زخمي ہوتي ہيں۔ اس بارے ميں اعدادو شمارکمرشکن اور وحشت ناک ہيں۔ اس کے علاوہ وہاں ايک اورچيز موجود ہے اور وہ ہے ''قتل نفس‘‘ وہ لوگ بہت آساني سے قتل کرتے اور خون بہاتے ہيں ۔ قتل کرنے کي وہ قباحت وبرائي جو اسلامي ماحول ومعاشرے ميں موجود ہے، اُن کے ماحول و معاشروں ميں کہ جہاں انہيں معرفت الٰہي کي خوشبو بھي نصيب نہيں ہوئي ہے، موجود نہيں ہے۔ خواتين کا قتل و غارت اُن بہت ہي قبيح اور نفرت انگيز برائيوں سے تعلق رکھتا ہے کہ جو آج مغربي ممالک بالخصوص بعض ممالک مثلاً امريکا ميں رائج ہے۔ خوشبختي سے يہ تمام چيزيں ہمارے ملک ميںاُس شدت اور آب وتاب سے موجود نہيں ہيں اور استثنائي مواقع کے سوا يہ کہيں اور نظر نہيں آتي ہيں۔ بہرحال خواتين کي نسبت ہر ظلم و ستم اور جسماني تعرض وتجاوز کے خلاف سخت قانوني کاروائي کي جاني چاہیے تاکہ اسلامي معاشرہ اُس مطلوبہ درجے تک پہنچ سکے کہ جسے اسلام چاہتا ہے۔

اگر کوئي ملک اپنے معاشرے کي خواتين کو اسلامي تعليمات کے سائے ميں اسلامي معارف سے آشنا کرے تو مجھے اس ميں کوئي شک و ترديد نہيں ہے کہ ملکي ترقي و پيشرفت ، دُگني اورچند برابرہوجائے گي۔ اگر خواتين اپنے وظائف و ذمے داريوں کي سنگيني کا احساس کرتے ہوئے زندگي کے کسي شعبے اور ميدان ميں قدم رکھيں تو خود اُس شعبے کي ترقي چند برابر ہوجائے گي۔ مختلف شعبہ ہائے حيات ميں خواتين کي موجودگي اور اُن کے حاضر ہونے کي خصوصيت يہ ہے کہ جب بھي ايک عورت ميدان ميں قدم رکھتي ہے تو اس کا شوہر اوراسکے بچے بھي اس کے ساتھ اسي ميدان ميں قدم رکھتے ہيں ۔ليکن مرد کا کسي ميدان عمل ميں حاضر ہونا يہ معني نہيں رکھتا بخلاف عورت کے۔ عورت جو گھر کي جان اورگھر کي روح رواں ہے، جب بھي ايک ميدان ميں قدم رکھتي ہے تو درحقيقت اپنے پورے گھر کو اُس ميدان ميں لے آتي ہے ۔اسي ليے مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں خواتين کا فعال وجود بہت اہميت کا حامل ہے۔

 

ايک اہم نکتہ!

وہ اہم نکتہ کہ جسے ميں آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں يہ ہے کہ خواتين کي مشکلات نے دراصل تاريخي اور قديمي ظلم وستم سے جنم لياہے۔اگر آج ايک مرد اپني بيوي سے بہت نزاکت،اخلاق اورتوجہ سے پيش آئے توممکن ہے کہ وہ اپني زندگي اور گھر کي فضا ميں اپني بيوي کے ساتھ معاشرت ميں اُس پر ظلم نہ کرے ليکن اگر مرد اس سلسلے ميں اخلاق، توجہ ، سنجيدگي اورتقويٰ کي رعايت نہ کرے تو اِس کا لازمي نتيجہ بيوي پر ظلم کي صورت ميں نکلے گا۔ مثلاًايک عالم وفاضل اورتعليم يافتہ عورت کا شوہر اَن پڑھ ہو تو يہ اَن پڑھ شوہر اپني عالمہ و فاضلہ بيوي پر ظلم کرے گا۔ بہت سي ايسي مثاليں ہيں کہ جہاں بيوي نے ڈاکٹريٹ کيا ہوا ہے اور ايک پڑھي لکھي خاتون ہے اور اُس کاشوہر اَن پڑھ ہے(يا کم تعليم يافتہ ہے) اور وہ گھر ميں اپني بيوي پرظلم کرتا ہے۔ ميري نظر ميں اس مسئلے کي طرف بہت زيادہ توجہ دينے کي ضرورت ہے واِلّا بہت سے اجتماعي مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہيں۔ ليکن ميں يہ بھي نہيں کہتا ہوں کہ ان مسائل کے حل کيلئے اقدامات نہيں کرنے چاہئيں اور انہيں اُن کے حال پر چھوڑ ديا جائے کہ يہ خود بخود حل ہوجائيں، ہرگز نہيں۔ ميري مراد يہ ہے کہ مسائل پر توجہ دينے اور انہيں حل کرنے کي رفتار اورطريقہ کار کو روزبروز بہتري کي طرف گامزن ہوناچاہيے۔ جيسا کہ آپ ديکھ رہے ہيں کہ آج کل قضاوت اورقاضي بننے کے سلسلے ميں حوزہ ہائے علميہ ميں سنجيدہ بحث جاري ہے اور مختلف حضرات اس ميں شريک ہيں۔

آپ کي رپورٹ ميں ميں نے ديکھا ہے کہ آپ نے ملکي قانون ميں بہت سے مقامات کي نشاندہي کي ہے، ميں ان مقامات کو ذکر کرنا نہيں چاہتا ہوں کہ کون سا درست ہے اور کون سا غلط ؟آپ نے رپورٹ ميں بہت سے اعتراضات ، عيوب اور نقائص کو بيان کياہے کہ جن ميں سے بعض بجا اور درست ہيں۔ ليکن ميں نے ديکھا کہ آپ کي طرف سے پيش کيے گئے يہ اعتراضات اس طرح نہيں ہيں کہ جو ہر صورت ميں ہماري موجودہ اور رائج فقہ سے تعارض رکھتے ہوں، ايسي کوئي بات نہيں۔ ليکن ميں نے جن اعتراضات و نکات کا مطالعہ کيا ہے اور اگر انہيں حقوقي نظر سے اچھي طرح منظم کيا جائے تو ہماري ملکي قانون ميں بغير اس کے کہ وہ ہماري رائج فقہ سے ٹکرائے،تبديلي کي جاسکتي ہے۔ ميري نظر ميں يہ کام بہت مثبت اورمفيد ہے اور اس سلسلے ميں آپ خواتين کو کام کرنے کي ضرورت ہے اور يہ دوسرے بقيہ امور سے زيادہ اہميت کا حامل ہے۔

 

خواتين کي نسبت مغربي نگاہ کے جال ميں پھنسنے سے پرہيز

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ميں کبھي کبھي يہ ديکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو اپني زبان سے خواتين کے حقوق کي دفاع کي بات توکرتے ہيں ليکن عملاً ايسي فاش غلطيوں کا ارتکاب کرتے ہيں کہ جو کسي بھي صورت ميں خواتين کے حق ميں نہيں ہيں! يعني يہ افراد(مسلمان عورت کيلئے آئيڈيل تراشنے کيلئے) مغربي عورت کو ديکھنے لگ جاتے ہيں کہ وہ کيسي ہے اور کيا کرتي ہے تاکہ اُسے آئيڈيل کے طور پر پيش کرسکيں۔ جبکہ حقيقت يہ ہے کہ اُن کا يہ طرزفکر، اسلامي انداز فکر سے بہت مختلف ہے جبکہ اسلامي فکر و نگاہ ان کي فکر ونگاہ سے بہت زيادہ عميق ، ترقي يافتہ، ناقابل مقايسہ اور خواتين کيلئے ہر حال ميں سودمند ہے۔ ہميں مغربي عورت سے کچھ حاصل کرنے کي ضرورت نہيں ہے۔

بعض افراد ہيں جو حقوق نسواں کے دفاع کے بارے ميں دفاعي حالت اختيار کرتے ہيں۔ جب اہل مغرب ويورپ يہ کہتے ہيں کہ (يہاںمسلمان معاشروں ميں) عورت پر ظلم ہوتا ہے تو يہ لوگ يہ ثابت کرنے کيلئے کہ يہاں ہمارے ملک ميں عورت پر ظلم نہيں ہوتا، اپنے دفاع ميں بہت سے باتيں بيان کرنا اورمختلف قسم کے کام کرنا شروع کرديتے ہيں اوربہت سے ايسے امور کا تظاہر کرتے ہيں کہ جن کا خواتين پر ظلم ہونے سے کوئي تعلق نہيں ہوتا ہے۔ فرض کيجئے کہ خواتين کي روزش سے متعلق بعض خلاف ورزياں کہ جنہيں ميں نے خودسنا ہے، بعض مقامات پر ظاہر ہوتي ہيں۔ صحيح ہے کہ يہ خلاف ورزياں اور غلطياں ہيں ليکن اِس کا اس بات سے کوئي تعلق نہيں ہے کہ ہم يہ کہيں کہ اس کے ذريعے خواتين پر ظلم کيا جارہا ہے۔

وہ لوگ يہ نہيں کہتے ہيں کہ اجتماعي ميدان ميں عورت ظلم کا شکار ہے ۔خواتين پر سب سے زيادہ ظلم اُس کے اپنے گھر ميں خود اُس کے شوہر کے ہاتھوں انجام پاتا ہے اورشايد نوے فيصد سے زيادہ يہ ظلم اُس کے شوہر کي طرف سے ہوتا ہے لہٰذا اس اجتماعي مسئلے پر توجہ ديني اوراس کي اصلاح کرني چاہيے۔بھائي ،بہن اور باپ وغيرہ کي طرف سے ہونے والا ظلم اتنا نہيں ہے اور يہ صورتحال بہت نادر ہے۔ ہاں کچھ واقعات ہيں کہ ممکن ہے کہ بھائي،بھائي پر ظلم کرے يا اُسي طرح بھائي بہن آپ ميں اختلاف کے نتيجے ميں ايک دوسرے پر ظلم کريں اور مناسب و غير مناسب اورظالمانہ يا عادلانہ رويہ اختيار کريں۔ليکن جو چيز سب سے زيادہ اہم ہے کہ جس کي اچھي صورت بھي کبھي کبھي خراب ہوجاتي ہے ، وہ گھر کے اندر آپس کے تعلقات اور رويہ ہے۔ حتي کبھي کبھار يہ ديکھنے ميں بھي آتا ہے کہ ان تعلقات اوررويے کي قابل ملاحظہ صورتحال اوراچھي حالت بھي بري ،نامناسب اور ظالمانہ ہوتي ہے۔

تھوڑا سا انصاف کيجئے!

آپ پيار و محبت سے اپني نورچشم بيٹي کوپروان چڑھاتے ہيں اور پندرہ يا سولہ سال بعد اُسے اس کے شوہر کے گھر بھيج ديتے ہيں۔ شوہر کے گھر ميں آپ کي بيٹي سے اُن کي بيٹي جيسا برتاو نہيں کيا جاتا ہے۔ آپ جانتي ہيں کہ (ساس، بہو اورنندو بھابھي کا مسئلہ) ہمارے معاشرے کا ايک عام سا مسئلہ ہے ١ ۔ يعني آپ دوسرے کي بيٹي کو اپنے بيٹے کيلئے بيوي (اوراپني بہو بناکر لاتي ہيں توکيا آپ اپني بہوسے اپني بيٹي جيسا برتاو کرتي ہيں؟)اوروہ گھرانہ جو اپنے بيٹے کيلئے آپ کي بيٹي کو دلہن بناکر بہو کے عنوان سے اپنے گھر لے جاتا ہے ،کيا وہ بھي آپ کي بيٹي سے يہي برتاو کرتا ہے جو آپ اپني بہو سے کرتي ہيں؟ (ذرا انصاف کيجئے!) ان تمام معاشرتي مسائل کا علاج کرنا چاہيے اور يہ مرد وعورت کے آپس ميں تعلقات سے مربوط ہے۔ اگر مياں بيوي کے تعلقات و روابط مکمل طور پر عادلانہ ،اسلامي، صحيح اورمحبت آميز ہوں تو ظلم و ناانصافي کرنے والے ايسے گھرانوں کے عمل اور برتاو کي کوئي تاثير باقي نہيں رہے گي يعني لڑکي کيلئے سسرال والوں کي طرف سے سختي اورمختلف باتوں کے تھونپے جانے کي جرآت اورموقع باقي نہيں رہے گا۔ ان سب کي بازگشت مياں بيوي کے درمياني تعلقات کي طرف ہوتي ہے جو عورت پر ظلم کي راہيں کھولتے ہيں۔ يہ وہ نکتہ ہے کہ جسے ميں آپ خواتين کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا تھا۔

١ ساس بہو اوربھابھي نند کے درميان گھريلو اختلافات ہمارے يہاں ايک عام مسئلہ ہے ۔ يہ فطري سي بات ہے کہ والدين اپني اولاد اوربيٹيوں کو بہت چاہتے ہيں اور بڑے پيار و محبت سے ان کي تربيت کرکے رشتہ ازدواج ميں انہيں منسلک کرتے ہيں۔ اُن کي خواہش ہوتي ہے کہ اُن کي نورچشمي اپنے سسرال ميں بھي ويسا ہي سکھ پائے جيسا اپنے ميکے ميں پاتي تھي ۔ ليکن بہت سے گھرانے ايسے ہيں کہ جب وہ دوسرے کي بيٹي اپنے گھر ميں بہوبناکر لاتے ہيں تو وہ يہ بھول جاتے ہيں کہ يہ بہوبھي کسي گھر کا نور اورکسي ماں کے دل کا چين ہے اورخود اُن کي اپني بيٹي کسي کے گھر ميں بياہي گئي ہے۔ چنانچہ يہ افراداس بہو سے بعض غيروں والا سلوک کرتے ہيں حتي يہ بھي بھول جاتے ہيں کہ يہ بھي ايک انسان ہے اور دھڑکتے دل اوراحساسات کي مالک ہے۔

طعنے ،جھڑکياں او ر چبھنے والي باتيں روزانہ بہو کي خدمت ميں پيش کي جاتي ہيں اوربالفرض اگر بہو سيدھي سادي اور شريف ہو تو پلٹ کر ساس اور نندوں کو کچھ نہيں کہے گي، ساس کا پھولا منہ، بگڑاچہرہ، نندوں کي باتيں،طعنے اور گھور گھور کر ديکھنے والي آنکھيں سب نشتر کے تيروں کي طرح بہو کے دل کو زخمي کرديتے ہيں۔ليکن يہ لوگ بھول جاتے ہيں کہ ان کي اپني بيٹي بھي کسي کي بہو ہے!

حديث ميں ہے کہ ''اپنے اور لوگوں کے درميان انسان خود انصاف کرے،جو اپنے ليے پسند کرے وہي دوسروں کيلئے، جسے اپنے ليے ناپسند قرار دے اُسے دوسروںکيلئے بھي ناپسنديدہ قرار دے۔‘‘

نہ جانے بہو پر ظلم کرنے والے يہ حديث کيوں فراموش کرديتے ہيں؟ کيا ان کي خواہش نہيں ہے کہ ان کي اپني بيٹي دوسرے کے گھر ميں بہو کے عنوان سے سدا سکھي رہے؟ تو يہ اپنے گھر کي بہو کو بھي سکھي رکھيں!جب يہ لوگ چاہتے ہيں کہ ان کي اپني بيٹي سے اُس کے سسرال ميں پيار ومحبت کا سلوک کيا جائے توانہيں چاہيے کہ پرائے کي بيٹي سے بھي پيار و محبت کا سلوک کريں۔

لہٰذا ہم سب کو ذرا سے انصاف کے ذريعے اپنے ماحول اورگھر کي فضا کو بہتر بنانے کي کوشش کرني چاہيے۔ اس ساس بہو اوربھابھي نند کے جھگڑے ميں سب سے اہم کردار شوہر کا ہے۔ دن بھر کي جنگ کي رپورٹ بيوي اپنے شوہر کو دن کے اختتام پر پيش کرتي ہے۔شوہر کي ذمہ داري ہے کہ وہ اپني بيوي کي صحيح حمايت کرے اور اُس کي ڈھارس باندھے کيونکہ يہ اُس کي بيوي ہے جو اپنا سب کچھ ، گھربار، ماں باپ ، ماضي اور خواب و خيالات سب کچھ چھوڑ کر شوہر کے پاس آئي ہے اور اس کي محبت و چاہت کي طلبگار ہے۔ اب يہاں اگرشوہر بيوي کي جائز حمايت نہ کرے تو بيوي کا دل ٹوٹ جائے گا۔ لہٰذا شوہر اپنے صحيح طريقے اور اسلامي روش واحکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کو سلجھائے۔ والدين اوربہن بھائيوں کا احترام بھي محفوظ رہے اور بيوي بھي خوش رہے۔ لہٰذا اس ضمن ميں شوہر کي ذمہ داري بہت سنگين ہے۔

Sunday, 16 March 2014 12:24

جناب نرجس خاتون

جناب نرجس خاتون

تاریخ اسلام کی ایک اور نامور خاتون حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات اور فرزند رسول حضرت امام مھدی آخرالزماں عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مادر گرامی جناب نرجس خاتون ہیں۔ آپ کا اصلی نام " ملیکہ" ہے جو مشرقی روم کے بادشاہ کے بیٹے یشوعا کی صاحبزادی ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواری جناب شمعون کی اولاد میں سے ہیں۔جب جناب نرجس خاتون تیرہ برس کی ہوئیں تو قیصر روم نے ارادہ کیا کہ آپ کی شادی اپنے بھتیجے سے کردیں پھر انہوں نے دینی رہنما‏ؤں اور حکومت کے اعلی عھدہ داروں کی موجودگی میں ایک عظیم الشان جشن کا اہتمام کیا مگر جیسے ہی انجیل کھولا گیا تاکہ صیغہ نکاح جاری کیا جائے عین اسی وقت تخت ٹوٹ کر بکھر گیا اور دولہا بیہوش ہوگیا ۔قیصر روم نے حکم دیا کہ اس کے بھائی کو لایا جا‏ئے تاکہ ان کی پوتی کا نکاح اس کے ساتھ پڑھا جائے لیکن جیسے ہی عقد نکاح کرنا چاہا پھر وہی حادثہ پیش آیا اور دولہا پھر بیہوش ہوگیا یہ واقعہ دیکھ کر قیصرروم بہت ہی حیران و پریشان ہوگیا ۔

جناب نرجس خاتون اس بارے میں فرماتی ہیں : کہ میں نے اسی رات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ انہوں نے اپنے فرزند سے میرا عقد پڑھ دیا پھر میری آنکھ کھل گئی اس کے بعد میں بہت سخت بیمار پڑ گئی ، میں نے اپنے خواب کی بناء پر اپنے دادا سے درخواست کی کہ تمام مسلمان قیدیوں کو آزاد کردیں اور انہوں نے میری بات مان لی ۔

جناب نرجس خاتون نے کہتی ہیں کہ اسی طرح میں نے ایک رات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو خواب میں دیکھا جو مجھ سے فرمارہی تھیں کہ تم پروردگار عالم کی وحدانیت اور پیغمبر اسلام ص کی رسالت کی گواہی دو تو میں نے گواہی دی پھر حضرت فاطمہ زہرا نے مجھ سے فرمایا : تم انتظار کرو میرا بیٹا حسن تم سے بہت جلد ملاقات کے لئے آئے گا ۔

دوسری رات نرجس خاتون نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور خوابوں کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہا یہاں تک کہ ایک رات خواب میں امام علیہ السلام نے نرجس خاتون سے فرمایا : تمہارے دادا عنقریب ہی مسلمانوں سے جنگ کے لئے ایک لشکر بھیجنے والے ہیں تم بغیر کسی کو بتائے ہوئے ایک خادمہ کی حیثیت سے اس لشکر کے ساتھ روانہ ہوجانا جناب نرجس بے صبری سے اس دن کا انتظار کرنے لگیں اور جب لشکر چلنے کے لئے آمادہ ہونے لگا تو نرجس خاتون نے جن کے دل میں حق کی معرفت و شناخت ، اسلام اور امام علیہ السلام سے والہانہ عقیدت کا چراغ روشن ہوچکا تھا فورا ہی خادمہ کا لباس زيب تن کیا اور لشکر کے ساتھ روانہ ہوگئیں اور بالآخر مسلمانوں کی قید میں آگئیں ۔

دوسری جانب حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور آپ کے فرزند حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کےصحابی " بشر بن سلیمان " جو سامرا میں امام علیہ السلام کے پڑوس میں رہتے تھے اس واقعے کے بارے میں دلچسپ باتیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " ایک رات کی بات ہے میں اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں نے ایک آواز سنی میں دوڑتا ہوا دروازے پر پہنچا وہاں میں نے امام علی نقی علیہ السلام کے خادم کو دیکھا اس نے کہا کہ امام علیہ السلام نے تمہیں فورا بلایا ہے میں نے لباس زيب تن کیا اور فورا ہی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوگیا میں نے مشاہدہ کیا کہ امام علیہ السلام اپنے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام اور اپنی بہن حکیمہ خاتون سے محو گفتگو ہیں جو پردے کے پیچھے تشریف فرما ہیں ۔امام علیہ السلام نے فرمایا : اے بشر تم انصار کے بزرگوں میں سے ہو اور تمہارے پورے خاندان کو اعتماد و اطمینان کی وجہ سے خاندان رسالت نے امامت و ولایت کی خدمت کے لئے قبول کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ تمہیں ایک اہم راز سے باخبر کروں اور ایک کنیزکی خریداری کی ذمہ داری سونپ دوں ۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے رومی زبان میں ایک خط لکھا اس پر مہر ثبت کی اور کنیز کے پتہ کے ساتھ میرے حوالے کیا میں بغداد کی جانب چل دیا میں نے وہاں کچھ قیدیوں کو دیکھا جنہیں عمر ابن یزيد بیچنے کے لئے بازار میں لایا تھا انہیں افراد میں میں نے ایک کنیز کو دیکھا جس نے اپنے کو نامحرموں کی بدبین نگاہوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلامی حجاب کر رکھا تھا اور کسی کو بھی اپنا بدن چھونے نہیں دے رہی تھی حالانکہ ان کے خریدار بہت زيادہ تھے لیکن جیسے لگ رہا تھا کہ وہ حقیقی خریدار کی منتظر ہو ۔

میں امام علی نقی علیہ السلام کے حکم کے مطابق ان کے قریب گیا اور خط ان کے حوالے کیا وہ خط پڑھ کر بہت زيادہ روئیں اور اپنے مالک سے کہا کہ مجھے اس کے ہاتھ فروخت کر دے پھر میں نے ان کی قیمت اس کے حوالے کی اور کنیز کے ہمراہ واپس آکیا میں نے انہیں ایک مکان میں ٹھہرایا تا کہ بعد میں امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں میں نے دیکھا کہ انہوں نے وہ خط نکال کر اپنے چہرے اور سر سے مس کیا ، میں نے کہا: جس شخص کو تم نہیں پہچانتی کس طرح سے اس کے خط کو اتنا زيادہ اہمیت دے رہی ہو؟ انہوں نے کہا: اگر تم پیغمبر اور ان کے جانشینوں کی معرفت و شناخت رکھتے تو کبھی بھی ایسی بات نہ کہتے ؟ پھر انہوں نے اپنی زندگی کے گذشتہ حالات و واقعات کو مجھ سے بیان کیا ۔

اسیری سے رہائی کے بعد ملیکہ نے اپنا نام بدل کر نرجس رکھ لیا تھا اور اس کے بعد انہیں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا امام علیہ السلام نے نرجس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تمہارے احترام میں دو چیزیں پیش کررہا ہوں پہلے یہ کہ تمہیں دس ہزار دینار عطاکردوں یا یہ کہ تمہیں ابدی شرافت عطا کروں ، نرجس خاتون نے عرض کیا اے مولا میں ابدی شرافت چاہتی ہوں پھر امام علیہ السلام نے ان کو ایک ایسے فرزند کی بشارت دی جو پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔

امام علیہ السلام نے نرجس کو اپنی بہن حکیمہ کو سپرد کرتے ہوئے فرمایا : اے حکیمہ یہ وہی خاتون ہے جس کے بارے میں میں نے تمہیں خبر دی تھی یہ سنتے ہی حکیمہ اور نرجس گلے ملیں اور کافی دیر تک آپس میں گفتگو کرتی رہیں۔ پھر امام علیہ السلام نے حکیمہ خاتون سے کہا کہ نرجس کو اپنے گھر لے جائیں اور انہیں احکام اسلامی کی تعلیم دیں کیونکہ آنے والے زمانے میں وہ میرے بیٹے حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات اور امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ماں بننے والی ہیں ۔

فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور نرجس خاتون کی شادی کا وقت قریب آگیا جناب حکیمہ خاتون نے اس سنت حسنہ کا تمام سامان فراہم کیا اور اس طرح جناب نرجس خاتون فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات بن گئیں۔ کچھ دنوں بعد جناب نرجس حاملہ ہوئیں مگر حمل کے آثار نمایاں نہ ہوئے اور یہ بھی قدرت کا انتظام تھا تاکہ دشمن امام مھدی علیہ السلام کی دنیا میں آمد سے باخبر نہ ہوسکیں ۔

شعبان دو سو پچپن ہجری قمری کی پندرہویں تاریخ کی صبح نمودار ہونے والی تھی نرجس خاتون کودرد زہ محسوس ہوا اور اچانک ایک نور نے نرجس کو اپنے حصار میں لے لیا اور جیسے ہی نور کا ہالہ ختم ہوا ایک نورانی پیکر بچہ سامنے نظر آیا۔

جی ہاں دوسو پچپن ہجری تھی پندرہویں شعبان کی سپیدی سحر میں زمین پر حجت خدا کا نزول ہوا اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف تشریف دنیا میں لائے اور نرجس خاتون کے بطن مبارک سے ایسا بچہ پیدا ہوا جس نے پیدائش کے بعد اپنے پدر گرامی سے گفتگو کی اور پروردگارعالم ، پیغمبر اسلام ص اور آپ کے اوصیاء کی گواہی دی ۔

جناب نرجس خاتون کے نور نظر کی پیدائش کو چند روز گذر چکے تھے اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی شریکہ حیات اور امام زمانہ علیہ السلام کی مادر گرامی اپنے شوہر عزیز کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کررہی تھیں ۔

روایت میں ہے کہ ایک دن امام حسن عسکری علیہ السلام نے نرجس خاتون سے خاص گفتگو کی اور آئندہ آنے والی تمام مشکلات و پریشانی ، امام زمانہ عج کی غیبت اور اہل بیت اور شیعیان اہل بیت پر ہونے والی مصیبت کو بیان کیا اور آخر میں اپنی شہادت کی خبر بھی دی ۔

جناب نرجس یہ باتیں سن کر بہت زيادہ غمگین ہوئیں اور امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کریں کہ آپ کی شہادت سے پہلے انہیں موت دیدے اور بالآخر امام علیہ السلام کی شہادت سے پہلے ہی سن دوسو اکسٹھ ہجری قمری کو جناب نرجس خاتون معبود حقیقی سے جاملیں آپ کے جسد اطہر کو سامرا میں فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے حرم مطہر میں دفن کردیاگیا اور پھر اسی سرزمین مقدس پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور جناب حکیمہ خاتون کو بھی سپرد خاک کیا گیا اس وقت یہ مقدس مقام مرجع خلائق بنا ہوا ہے اور لوگ دور و دراز کا سفر اور صعوبتیں برداشت کرکے اس سرزمین نور پر آتے ہیں اور ان انوار الہیہ کے آستانے پر ادب و احترام سے اپنی جبین نیاز خم کرتے ہیں۔

قرآن و عترت پر اجماع اتحاد کا واحد راستہ

الازھر یونیورسٹی کے استاد کی موجودگی میں تکفیری خطرات کی شناخت سے متعلق پہلی نشست قم میں منعقد ہوئی۔

الازھر یونیورسٹی کے ایک بزرگ استاد ڈاکٹر شیخ تاج الدین الہلالی نے اس نشست میں تکفیری خطرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج تکفیری خدا کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مسلمان کا گلہ کاٹتے ہیں اور اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر گلے پر چاقو چلاتے ہیں۔

انہوں نے تکفیری افکار کو بے بنیاد اور انحرافی افکار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اہلسنت کے مذہب میں صحاح ستہ کے اندر تمام موجود احادیث صحیح ہیں جبکہ مکتب تشیع میں ائمہ اطہار کے حکم کے مطابق حدیثی کتابوں کو قرآن کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور جو احادیث قرآن کے ساتھ تناقض رکھتی ہوں انہیں نامعتبر قرار دیا جاتا ہے۔ در حقیقت علمائے شیعہ احادیث کو نقد کے قابل سمجھتے ہیں لیکن علمائے وہابی ضعیف احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں اور یہ چیز اس طرح کے تشدد کا سبب بنتی ہے۔

ڈاکٹر الہلالی نے تکفیریوں کے پاس عقلی اور منطقی دلیل نام کی کوئی چیز نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم کیسے ایک دوسرے کو کافر کہہ سکتے ہیں جبکہ تمام مسلمان توحید، نبوت اور معاد پر متفق ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہم کیسے شیعوں اور مکتب اہلبیت(ع) کے ماننے والوں کو کافر ٹھہرا سکتے ہیں جبکہ وہ بھی اسلام کے تمام بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتے ہیں لاالہ الا اللہ پر ایمان رکھتے ہیں جو حدیث سلسلۃ الذھب کے مطابق الہی قلعے میں داخل ہونے کی شرط ہے۔

انہوں نے تاکید کی کہ حدیث سلسلۃ الذھب جو امام رضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے کہ جس میں آپ نے فرمایا "کلمة لا إله إلا الله حصني، فمن قالها دخل حصني، ومن دخل حصني أمن عذابي‘‘ یہ حدیث شیعہ منابع کے علاوہ اہلسنت کی اہم کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔

شیخ الہلالی نے اس باریک نکتے کو ان سے پوچھا کہ اگر تم اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کو کافر جانتے ہو تو تمہاری صحاح ستہ کی بہت ساری حدیثیں بے کار ہو جائیں گی اس لیے کہ ان کے راویوں میں سے تقریبا ۱۴۰ راوی ایسے ہیں جن کا تعلق شیعہ مذہب سے ہے۔

انہوں نے مزید کہا: افسوس سے نہ صرف بعض بے بنیاد اور من گھڑت الزامات شیعوں پر لگائے جاتے ہیں بلکہ بعض ایسی چیزوں کی شیعوں کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے جیسے شیعوں کے درمیان کسی دوسرے قرآن کے رائج ہونے کا الزام۔

انہوں نے تکفیریوں کی طرف سے مسلمانوں کے قتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس گروہ کے یہ اعمال صد در صد سنت رسول(ص) کے خلاف ہیں چونکہ آپ نے فرمایا: "من قتل مسلماً فاعتبط بقتله لم یکن له یوم القیامة صرفاً و لا عدلاً".

ڈاکٹر الہلالی نے مزید کہا: تکفیری بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال مسلمانوں کے خلاف کر رہے ہیں جن سے پورے عالم اسلام کو خطرہ لاحق ہے جبکہ ان ہتھیاروں کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف استعمال ہونا چاہیے تھا لیکن افسوس سے تکفیری انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے تاکید کی: یہ ہتھیار در حقیقت اسرائیل کا مقصد پورا کر رہے کہ جو اسرائیل کا نیل سے فرات کا خواب ہے اسی وجہ سے تکفیری عراق، شام اور مصر میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔

شیخ تاج الدین الہلالی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کے راستوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمیں چاہیے کہ اپنے ان مشترکہ اصول اور عقاید کو پہچنوائیں جو دونوں فرقوں کے درمیان وحدت ایجاد کر سکتے ہیں ۔

انہوں نے تاکید کی کہ ہمیں خیر اور نیکی کی طرف دعوت دینا چاہیے اور مرکز نور یعنی قرآن و عترت پر اجماع کر لینا چاہیے یہی وحدت کا سب سے بڑا راستہ ہے۔

ایران کے سنی نشین علاقوں کو مسلکی روا داری کا نمونہ بنانے کے لیے قم میں ورکشاپ کا انعقاد

ایران کے سنی نشین صوبے سیستان و بلوچستان کو مسلکی رواداری کا نمونہ بنانے کے پیش نظر" فرق و مذاہب کے ساتھ آشنائی" کے عنوان سے معلمین اور مبلغین کی ۲۱ویں ورکشاپ ، اسلامی مسالک کے درمیان رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے "مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی" کی کوششوں سے سیستان و بلوچستان کے کثیر تعداد میں شیعہ اور سنی ثقافتی کام کرنے والوں کی موجودگی میں شہر قم میں منعقد ہوئی ۔

اسلامی مسالک کے درمیان رواداری کی ثقافت کو فروغ دینے والے عالمی ادارے "مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی" کے سربراہ آیت اللہ محسن اراکی نے اس تربیتی ورکشاپ کے افتتاحیہ میں معلمین اور مربیین کا استقبال کرتے ہوئے اسلام کے معنی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا: قرآن میں مسلمانوں کے اتحاد پر اصرار موجود ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمان اسلام کے راستے سے منحرف ہو گئے ہیں جب کہ آیت ’’ان الدین عند اللہ الاسلام ‘‘ میں اسی موضوع کو چھیڑا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدل کے راستے سے نکل جانا دین میں اختلاف کا باعث بنتا ہے جس دین کو خدا نے ہمارے لیے نازل کیا ہے یہ وہی دین ہے کہ جو ابراہیم ، موسی ، اور محمد مصطفیٰ (ص) پر نازل ہوا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے ؛اپنے چہرے کو دین کے لیے استوار رکھو اور مشرک نہ بنو۔دوسرے لفظوں میں مشخص ہو جاتا ہے کہ دین کا راستہ مسلمانوں کا اتحاد ہے اور اگر ہمارے دین کا نتیجہ اتحاد کی صورت میں سامنے نہ آیا تو معلوم ہے کہ ہم راہ سے بھٹک چکے ہیں ۔

تقریب مذاہب کی اعلی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری نے اسلام کی خصوصیات کی وضاحت کرتے ہوئے تصریح کی؛ اسلام کی تعریف کی چند خصوصیات ہیں؛اسلام کا سب سے پہلا ستون محض خدا کی اطاعت ہے۔جس طرح کہ حضرت ابراہیم پر وحی ہوئی کہ اپنے بچے اور بیوی کو صحرا میں چھوڑ دو کہ خدا ان کا نگہبان ہے اور ابراہیم نے ایسا ہی کیااور قرآن نے اس امتحان کو بلائے مبین سے یاد کیا۔یہاں پر قرآن یہ بتا رہا ہے کہ ابراہیم اور اسماعیل اسلام تک پہونچے اور انسان کی نیکی کی سب سے بڑی جزا اسلام حقیقی تک پہونچ جانا ہے ۔

آیۃ اللہ اراکی نے مزید کہا:قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ اے مومنو صبح و شام خدا کو یاد کرو یعنی تمام امور کی ابتدا اور انتہا خدا کے نام سے ہو ۔ ہمارا قول فعل اور ہمارا ذکر سب کچھ خدا کی خاطر ہونا چاہیے۔

انہوں نے محمد وآل محمد پر صلوات کی تفسیر میں کہا : محمد و آل محمد پر صلوات کامطلب لمحہ بہ لمحہ رحمت ہے او ہر لحظہ پیغمبر کا مرتبہ بلند ہوتا ہے جس کا نتیجہ مسلمانوں پر رحمت کا نزول اور اسی طرح تاریکیوں سے دوری ہے۔

آیۃ اللہ اراکی نے اسلامی امتوں کے بارے میں بولتے ہوئے دو تقسیم بندیوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا:قرآن کریم میں امتوں اور سماجوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ؛ایک امت متخاصم اور متجاوز ہےکہ یہ امت الہی نہیں ہےاور یہ اہل جہنم کی علامت ہے ۔دوسر ی قسم،اہل ایمان اور امت مومن ہے جو اہل بہشت ہیں ۔

انہوں نے آخر میں ایمان واقعی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: جو کچھ بھی انبیاء پر نازل ہوا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے ،کہ اگر ایسا ہو جائے تو تفرقہ پیدا نہیں ہو گا ۔ جب مومن کا دل نور کا منشاء بن جائے تو ہماری روح و جان ذات خدا سے وابستہ ہو جاتی ہے اور اس وقت تسلیم محض متحقق ہوتی ہے ۔ در حقیقت ہم میں فرق ایک دوسرے پر سبقت لی جانے کے سلسلے میں ہونا چاہیے ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ تمام مسلمان حقیقی اسلام تک پہونچ جائیں ۔