
Super User
جناب سمانہ
فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شریکہ حیات اور حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی مادرگرامی جناب " سمانہ " عالمہ ، فاضلہ اور ایک متقی و عبادت گذار خاتون اور زہد و تقوی میں بے نظیر تھیں آپ کی کنیت ام الفضل مغربی ہے آپ ہمیشہ مستحبی روزہ رکھا کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ بزرگوں نے آپ کو صدیقین اور صالحین کی ماں قراردیا ہے جناب سمانہ پروردگار عالم کی مخلص کنیز تھیں فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں : میری مادر گرامی ہمارے حق سے آگاہ اور بہشتی عورتوں میں سے ہیں اور شیطان رجیم کبھی بھی ان کے قریب نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی آپ کو بہکا سکتا ہے کیونکہ خداوندعالم آپ کا محافظ و نگہبان ہے اور آپ کبھی بھی صدیقین اور صالحین کی ماؤں کے صف سے خارج نہیں ہوسکتیں ۔
جناب سمانہ ایک کنیز تھیں جنہیں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے خرید کر آزاد کیا تھا اور پھر کچھ دنوں بعد وہ آپ کی ہمسری میں آگئیں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے ان کی تربیت و تہذیب و اخلاق کی ذمہ داری خود ہی سنبھال رکھی تھی اور آپ کو اس گھر میں رکھاتھا جس گھر میں حضرت علی علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ اولادیں جو ایمان و عفت میں بے مثال تھیں موجود تھیں جناب سمانہ پر ان خواتین کے اخلاق و کردار کا کافی اثر پڑا اور وہ عابدہ و زاہدہ اور قاری قرآن بن گئیں۔
جناب سمانہ اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی مقدس شادی کے نتیجے میں ان کے یہاں آٹھ اولادیں ہوئیں جن کے نام یہ ہیں ابوالحسن حضرت علی نقی علیہ السلام ، ابو احمد موسی مبرقع علیہ السلام، ابو احمد حسین ، ابو موسی عمران ، فاطمہ ،خدیجہ ، ام کلثوم اور حکیمہ ۔
جناب سمانہ کا انتقال حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے بیت اقدس میں ہوا اور آپ کی قبر مبارک سامرہ میں آپ کے فرزند امام علی نقی علیہ السلام کے روضہ مبارکہ میں ہے اور مرجع خلائق بنی ہوئی ہے ۔
مغربی ممالک میں اسلام کا فروغ
خداوند عالم نے انسان کی سرشت وطبیعت کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے اطراف کے مسائل کے بار ےمیں حققیت کے حصول کا درپے رہتا ہے جب انسان پیدا ہوتا ہے اور جب تک موت کی ننید نہيں سوتا اس وقت تک حقیقت کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے ۔ البتہ یہ کوشش ، اس کے ماحول ، سن اور جسمی توانائی و فکری حالات کے تناسب سے ہوتی ہے ۔ بالفاظ دیگر خداوند عالم نےانسانوں کو کمال و سعات اور حقائق و معارف کو درک کرنے کے لئے کافی استعداد اورصلاحیتیں عطا کی ہیں تاکہ انہیں بروئے کار لاتے ہوۓ انسان اپنی خلقت کے ہدف و مقصد کو پاسکے ۔ اس سلسلے میں ایسے بہت سے افراد ہیں جنہوں نے تحقیق و جستجو کے ذریعے اپنی توانائیوں سے استفادہ کیا ہے اور انہوں نے راہ سعادت و کمال کو حاصل بھی کیا ہے ۔ ان ہی ميں سے ایک امریکی مسلمان خاتون محترمہ " سوزان ابری" ہیں ۔ آج ہم اس نومسلم خاتون کے افکار سے آشنا ہوں گے ۔
محترمہ سوزان ابری نے کیتھولیک اور مذہبی خاندان میں آنکھیں کھولیں ۔ ان کے والد اہل مطالعہ تھے ۔ اسی بناء پر انہيں عیسائیت کے اصولوں اور نظریات سے مکمل آشنائی تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ دین مسیحیت میں بہت زیادہ تحریفات انجام پائی ہیں ۔ وہ اپنے والد کے بارے میں کہتی ہیں ، میرے والد نے علم کلام میں پی ایچ ڈي کیا تھا اور ان کا شمار کلیسا کے پادریوں میں ہوتا تھا ۔وہ معتقد تھے کہ جو انجیل لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، اس انجیل سے مختلف ہے جو ویٹیکن میں موجود ہے ۔ انہوں نے ویٹیکن کی انجیل بھی پڑھی تھی اور کہتے تھے اس میں " احمد " کا، آخری پیمغبر کے عنوان سے ذکر کیا گيا ہے ۔ ان دنوں میں میں اپنے والد کی باتیں اچھی طرح سے نہیں سمجھتی تھی لیکن کلیسا میں ان کی باتیں اس بات کاباعث بنی تھیں کہ حکومت کے دباؤ میں رہتے تھے اور کئی بار اسی سبب سے وہ جیل بھی گئے " ۔
سوزان کے والد کی باتوں نے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اس آخری پیغمبر کےبارے میں تحقیق کریں کہ جس کا ذکر انجیل میں آیا ہے ۔ وہ جب آخری پیغمبر الہی کی شناخت ميں کوشاں ہوتی ہیں اور تحقیقات انجام دیتی ہيں تو آخرکار ، اسلام سے آشنا ہوجاتی ہیں اور اس بات کو سمجھ جاتی ہیں کہ جس دین کا پیغمبر ختمی مرتبت (ص) نے تعارف کرایا ہے وہ دین اسلام ہے ۔ وہ کہتی ہیں ميں نے اس سےقبل بعض مواقع پر اسلام کا نام سنا تھا ۔ اور اسے امریکہ میں تشدد پسند دین کا نام دیا جاتھا تھا ۔ لیکن ميں نے اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پروپگنڈوں کے باوجود یہ فیصلہ کیاکہ اصلی اور حقیقی منبع و مآخذ کے پیش نظر اسلام کے بارے میں اپنے مطالعے اور تحققیات کو شروع کروں اور میں نے ایسا ہی کیا چنانچہ مجھے میرے بہت سے سوالوں کے جواب مل گئے ۔ اسلام اور اس کی تعلیمات ، حقیقت میں ہمارے لئے بہت جاذب اور پرکشش تھیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلامی اور دینی بنیادوں پر نہ صرف ان نظریات کو ، جو دین کو معاشرے کی نابودی اور تباہی کا عامل قرار دیتے ہیں ، باطل قرار دیا ، بلکہ یہ انقلاب لوگوں میں شناخت پیدا کرنے اور فکرکی گہرائی کاسبب بنا۔ آج ، ایران کے اسلامی انقلاب کی برکت سے پوری دنیا بخوبی حریت پسند اور علم و آگہی سے سرشار دین سے آشنا ہوئی ہے اور اس انقلاب نے صدیاں گذرجانے کے بعد بھی ، اسلام کے حقیقی تشخص اور رنگ کو ، جو انقلاب سے قبل کی حکومتوں میں ماند پڑگياتھا، پھر سے ابھار دیا ۔فرانس کے مشہور فلاسفر " میشل فوکو" اسلامی انقلاب کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں ایران کے عوام نے اصلاح کے راستے کو اسلام میں پالیا ۔ اسلام ان کے لئے انفرادی اور اجتماعی مسائل و مشکلات کے لئے راہ حل تھا۔
محترمہ سوزان ابری " کا خیال ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے انہیں اسلام کی بہتر اور حقیقی شناخت میں مدد کی ۔ وہ کہتی ہیں "امام خمینی اور ایران کا اسلامی انقلاب مجھے اسلام سے آشنا ہونے کا اہم ترین عامل بنا" جب ميں نے ٹیلیویزن سے امام خمینی کاچہر دیکھا توان کے نورانی چہرے نے مجھے اپنی سمت جذب کرلیا اورمیں نے تو یہ تصور کرلیا گویا حضرت عیسی (ع) لوٹ آئے ہیں ۔ رفتہ رفتہ جب ميں امام خمینی اور ان کے افکار سے آشنا ہوئي تو یہ سمجھ گئی کہ اسلام، کس طرح سے ایک معاشرے کی ہدایت اور آزادی کا سبب قرار پا سکتا ہے ۔
آخرکار تحقیقات اورمطالعے کےبعد سوزان نے یہ فیصلہ کیا کہ اسلام کو اپنے دین کے طور پر انتخاب کریں اور انہوں نے اپنا نام " جمیلہ الفرقان " رکھ لیا ۔ لیکن ایک غیر اسلامی ملک میں اس آسمانی دین کو قبول کرنا ان کے لئے انتہائی سخت تھا اسی لئے وہ کہتی ہیں بہت سی چیزیں میرے لئے سخت تھیں ۔ میں عربی سے واقف نہیں تھی اور ابھی حال ہی میں اسے سیکھا ہے اس لئے تاکہ نماز پڑھ سکوں ۔ میں یہ محسوس کرتی تھی کہ جب تک کہ نماز میں استعمال ہونے والے الفاظ کے معانی کو بخوبی نہ سمجھ لوں ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ صرف اٹھا بیٹھی کروں ۔ میں بہت افسردہ رہتی تھی کیوں کہ ميں چاہتی تھی کہ جلد از جلد نماز پڑھنا شروع کردوں ۔ ایک دن شہر کی ایک دکان میں گئی وہاں ایک کتاب دیکھی جو انگریزی زبان میں تھی جس کا عنوان تھا " نماز کیسے پڑھوں " ۔ ميں بہت خوش ہوئی جب میں نے چاہا کہ کتاب خریدوں تو جو بک سیلر تھا وہ بھی مسلمان تھا اس نے مجھے وہ کتاب ہدیہ کردی ۔ پھر میں نے اس کتاب سے نماز یاد کی اور سیکھ لی ۔ نماز پڑھنے سے خالق ہستی کی عبودیت اور عبادت کا حسین تصور میرے سامنے آجاتا تھا اور میں اپنے انتخاب سے مطمئن ہوجاتی تھی ۔اوائل میں تو میرا حجاب کامل نہیں تھا صرف ایک اسکارف باندھتی تھی اور پھر بعد میں یہ حجاب مکمل ہوگيا ۔ ان دنوں ، میں ایک ہسپتال میں مڈ وائف تھی ۔وہاں مختلف افکار ونظریات کے لوگ پائے جاتےتھے مثلا وہاں ایک یونیورسٹی پروفیسر تھے جو میرے حجاب کی تعریف کیا کرتے تھے لیکن جو ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ تھی اسے میرے پردے پراعتراض تھا اس نے مجھ سے کہا تھا کہ ماہ رمضان کے بعد اس پردے کو تم اتار دینا کیوں کہ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ میں صرف اس مہینے میں ہی سر پر اسکارف باندھتی ہوں لیکن میں نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ حجاب میرے دین کا ایک جز ہے اورمیں ہرگز ایسا نہیں کروں گي ۔ نتیجے میں بہت زیادہ مشکلات مجھے پیش آئیں لیکن حقیقت میں پردے کی میری نظر میں بہت اہمیت اور عظمت تھی اور میں اس کے لئے تمام مشکلات اور سختیاں برداشت کرنے کے لئے تیار تھی ۔
آخرکار محترمہ جمیلہ الفرقان نے ، جو مذہب تشیع کی گرویدہ ہوچکی ہیں ، خداوند عالم پر توکل اور اہل بیت پیغمبر سے توسل اور ان سے امداد طلب کرنے کے ذریعے اپنی مشکلات پر قابو پالیا۔ اور اس وقت وہ ایک دیندار مسلمان کی حیثیت سے اپنے انفرادی اور اجتماعی کاموں کو بنحو احسن انجام دے رہی ہیں ۔
محترمہ سوزان کہتی ہیں گذشتہ دہائیوں میں خواتین سے متعلق مختلف مسائل منجملہ مذہب کے بارے میں بہت زيادہ تبدیلیوں کا میں نے مشاہدہ کیا لیکن جو مسئلہ میری نظر میں مغربی محققین کی جانب سے تشنہ رہ گیا ہے اور اس کاجواب نہیں دیا گيا ہے ، اسلام کی جانب ، مغربی خواتین کے روز افزون رجحان کا مسئلہ تھا ۔
بہت سے مغربی باشندوں کا خیال ہے کہ اسلام ایک محدود دین ہے اور یہ دین خواتین کو، خواہ وہ ان کی انفرادی زندگي میں ہو یا اجتماعی زندگی میں ، مردوں میں محصور اور ان کا مطیع بناد یتا ہے ۔ اس کے باوجود تعجب آور بات یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ بہت سی مغربی، خاص طور پر امریکی خواتین نے اسلام کو قبول کرلیاہے ۔ درحقیقت امریکیوں کی ایک تعداد نے ،کہ جس ميں روز بروز اضافہ ہورہا ہے ، دین اسلام کو ، ایک باضابطہ دین اور اپنی زندگي گذارنے کی روش کے طور پر انتخاب کیا ہے اور ان کے درمیان خواتین کی تعداد زیادہ ہے ۔ امریکہ میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد سے متعلق اعداد وشمار مختلف ہيں لیکن " حقائق " کیلنڈر ( the Alamance book of facts ) میں شائع ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق ، جو ایک معتبر کیلینڈر ہے ، صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ ميں سالانہ ایک لاکھ افراد دین اسلام قبول کررہے ہيں ۔ اور امریکہ اور پوری دنیا میں، اس تعداد میں روز افزوں اضافے کے پیش نظر ، دین اسلام اور اس کی حیات آفریں تعلیمات کی حقانیت کو درک کرنے کی ضرورت ہے۔
مسجد عماد الدولہ – کرمانشاہ، ایران
“ مسجد عماد الدولہ“ نام کی مسجد ایران کے شہر کرمانشاہ میں واقع ہے۔ یہ مسجد دورہ قاچاریہ کے آثار قدیمہ میں سے ہے۔ اس مسجد کی پہلی عمارت 1285 ہجری قمری میں، امام قلی میزا عماد الدولہ ﴿ والی غرب و سرحد دار عراقین﴾ نے تعمیر کی ہے۔ اس وقت اس عمارت سے علوم دینی کے مدرسہ کے عنوان سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے اخراجات پورے کرنے کے لئے قابل توجہ دوکانیں اور کاروان سرائے عماد الدولہ وقف کئے گئے ہیں۔
مسجد عماد الدولہ، چار ایوانوں کی صورت میں تعمیر کی گئی ہے اور یہ عمارت، صدر دروازہ، صحن، ایوان، ستون والے شبستان اور کئی کمروں پر مشتمل ہے۔
مسجد کے ایوان کی ٹائیلوں پر ایک کتبہ ہے، جس پر بادشاہ وقت، ناصرالدین شاہ، کا نام، مسجد کو تعمیر کرنے والے کا نام اور تاریخ 1285 ہجری قمری لکھی گئی ہے۔ مسجد کے صحن کے مشرقی ایوان کے اوپر لکڑی کا ایک کمرہ بنایا گیا ہے۔ اس مسجد میں داخل ھونے کا دروازہ اس کے مشرقی ایوان کی طرف ہے۔ یہ دروازہ لکڑی کا بنا ھوا ایک بڑا دروازہ ہے، جو کرمان شاہ کے زرگروں کے بازار کی طرف کھلتا ہے۔
اس مسجد کو تعمیر کرنے کے بعد، اس کے بانی نے، امام علی علیہ السلام کے حرم کے ایک دروازہ کو کرمانشاہ لاکر اس مسجد میں نصب کیا اور اس کے بدلے میں چاندی کا ایک دروازہ حرم امام علی ﴿ع﴾ کے لئے وقف کیا۔ آج یہ دروازہ زرگروں کے بازار کی طرف سے مسجد کا صدر دروازہ ہے، اور “ بقائے شاہ نجف” کے دروازہ کے نام سے مشہور ہے۔ لکڑی کا یہ دروازہ صفویوں کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مسجد کا دوسرا دروازہ اس کے جنوب مغربی ضلع میں واقع ہے، جو ایک ڈالان کے ذریعہ زرگروں کے بازار اور بازار حوری آباد کے تقاطع سے متصل ھوتا ہے۔ یہ تقاطع“ میدان” کے نام سے مشہور بازار کے سب سے بڑے گنبد کے نیچے واقع ہے۔
معروف عالم دین کی شدید تنقید
بین الاقوامی گروپ : لبنان سے تعلق رکھنے والے اہل سنت کے معروف عالم دین "شیخ ماھر حمود" نے مراکش میں عرب لیگ کے اجلاس کے دوران لبنانی وزیر داخلہ کے ایران مخالف بیان کی شدید مذمت کی ہے ۔
ایران کی قرآنی خبر رساں ایجنسی (ایکنا) نے اطلاع رساں ویب سائیٹ " العالم " کے حوالے سے نقل کرتے ہوئے کہاہے کہ لبنان کے معروف عالم دین "شیخ ماھر حمود" نے لبنانی وزیر داخلہ "نہاد مشنوق" کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس میں انہوں نے ۱۴ مارچ نامی سیاسی جماعت کا حوالہ دیتے ہوئے ایران پر لبنان کے داخلی امور میں دخل اندازی کا الزام لگایا ہے ۔
انہوں نے مغرب نواز " ۱۴ مارچ " سیاسی پارٹی سے اپنے موقف میں نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ ابھی تک انکو مزاحمتی تحریک کی شکست اور شامی حکومت کی سرنگونی جیسے اپنے شوم مقاصد میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرن پڑا ہے لہذا بہتر ہے کہ یہ پارٹی اپنے موقف اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرے ۔
صحابۂ رسول کی قبروں کی بے حرمتی کی ایران میں مذمت
اسلامی جمہوریہ ایران کے شمالی علاقے میں اسلامی مرکز اور علماء اھل سنت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابیوں کے مقبروں کی بے حرمتی کی مذمت کی ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق شمالی صوبے گلستان کے اسلامی مرکز اور علماء اھل سنت نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے مقبروں کی بےحرمتی کرنا دشمنان اسلام کی کمزوری کی علامت ہے اور عالمی اداروں کو اس سلسلے میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اس بیان میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ ان مقدس مقامات سے جڑی ہوئي ہے اور ہم عالمی اداروں سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ آزاردی عقیدہ و مذہب کو یقینی بنائيں اور مقدس مقامات کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ صوبہ گلستان کے علماء اھل سنت نے اس بیان میں کہا ہےکہ دین مبین اسلام میں ہر فرد کے حقوق پر تاکيد کی گئ ہے خواہ وہ زندہ ہویا مرچکا ہے۔ انہوں نے کہا ہےکہ جنازے اور مقبرے کی بے حرمتی کرنا اسلام میں مذموم ہے اور اسے جارحیت قراردیے کر اس کی مذمت کی گئي ہے۔ اس بیان میں کہا گيا ہےکہ صحابہ کرام کی قبروں کی بے حرمتی عالمی سامراج اور صیہونیت کی سازش ہے اور اس طرح سے امت مسلمہ کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ علماء اھل سنت نے اپنے اس بیان میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ متحد ہوکر اس سازش کو ناکام بنائیں۔
رہبر معظم نے نئے سال کو قومی عزم وجہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور اقتصاد کے نام سے موسوم کیا
۲۰۱۴/۰۳/۲۱ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نےاپنے پیغام میں نئے ہجری شمسی سال 1393 کے آغاز اور نوروز کی آمد کے موقع پر وطن عزیز اور دنیا بھر میں تمام ایرانیوں ،بالخصوص ایران و اسلام کےمجاہدین ، شہداء اور جانبازوں کے اہلخانہ کو مبارک باد پیش کی اور نئے سال کو قومی عزم وجہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور اقتصاد و معیشت کے نام سے موسوم کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلام کی عظیم اور بزرگ خاتون بی بی دو عالم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت کے ایام سے نئے سال کے تقارن کی طرف اشارہ کیا اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کے لئے یہ تقارن فاطمی برکات اور انوار الہی کی ہدایت کی بدولت دگنا اور مضاعف استفادہ کرنےکا باعث قرارپائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال میں " اقتصاد و معیشت اور ثقافت " کے دو مسئلوں کو تمام مسائل میں اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: نئے سال کے نعرے " قومی عزم وجہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور اقتصاد کے سال" کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عوام اور حکام کے درمیان مشترکہ تلاش و کوشش ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی تعمیر و ترقی میں عوام کی شرکت اور حضور کے بنیادی و اساسی اور ممتاز نقش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام کی شرکت اور حضور کے بغیر اقتصاد و معیشت اور ثقافت میں کوئي کام نہیں ہوپائےگا اور عوام کے مختلف گروہوں کو پختہ قومی عزم و ارادے کے ساتھ اس میدان میں اپنا نقش ایفا کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکام کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور عوام پر اعتماد رکھتے ہوئے معیشت اور ثقافت کے دونوں میدانوں میں مجاہدانہ طور پر وارد ہوجانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: نئے سال میں جو مسائل ہمیں درپیش ہیں ان میں ایک مسئلہ معیشت کا ہے جسے حکام اور عوام کے باہمی تعاون سے فروغ ملےگا اور دوسرا مسئلہ ثقافت کا ہے جس کےذریعہ حکام و عوام کے تعاون سے ملک و قوم کی عظیم حرکت کی سمت و سو معین ہوگی ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستقبل کے فیصلوں میں ماضی کے تجربات اور اسباق سے استفادہ کی ضرورت پر زوردیا اور " سیاسی و اقتصادی رزم و جہاد " کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے بارے میں تجزيہ کرتے ہوئے فرمایا: حکام اور عوام کی تلاش و کوشش کے نتیجے میں سال 92 ہجری شمسی میں سیاسی رزم و جہاد انتخابات، مختلف ریلیوں اور دیگر مناسبتوں میں اچھی طرح محقق ہوا ، اور آرام و سکون کے ساتھ اجرائی قدرت منتقل ہوئی اور ملک کی مدیریت کے طویل سلسلے میں ایک نیا حلقہ تشکیل پایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصاد اور معیشت کے مسئلہ کو ملک و قوم کے لئے بہت ہی اہم مسئلہ قراردیا اور اقتصادی رزم و جہاد کے سلسلے میں بعض اہم اور قابل قدر کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: البتہ گذشتہ سال جس طرح کے اقتصادی رزم و جہاد کی توقع تھی وہ پوری نہ ہوئی اور نئے سال میں اقتصادی رزم و جہاد کو عملی جامہ پہنانا بہت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " پائدار اقتصاد و معیشت" کی پالیسیوں کو اقتصادی رزم و جہاد کے محقق ہونے کے لئے فکری و نظری دستاویز قراردیتے ہوئے فرمایا: ان پالیسیوں کے سائے میں اب مضاعف و دگنی تلاش و کوشش کے لئے راہیں ہموار ہوگئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوروز کے پیغام میں ایران کی مایہ ناز سرزمین کےتمام جوانوں ، بچوں، مردوں اور عورتوں کی صحت و سلامتی ، محبت و الفت، ترقی و پیشرفت اور سعادت کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا فرمائی۔
رہبر معظم کا نئےہجری شمسی سال 1393 کے موقع پر مشہد مقدس میں عوام سے خطاب
۲۰۱۴/۰۳/۲۱ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بہار کی آمد اور نئے ہجری شمسی سال 1393 کے پہلے دن حضرت امام رضا علیہ السلام کے حرم مبارک میں لاکھوں زائرین اور مجاورین کے عظیم اجتماع میں نئے سال کی دوبارہ مبارکباد پیش کی اور نئے سال " یعنی قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت و معیشت کے سال" میں ملک کے طویل روڈ میپ کے مختلف پہلوؤں کی تشریح کی اور پائدار و مقاوم اقتصاد کے شرائط، ظرفیت اور حقیقت کی تشریح کے ساتھ ثقافت کے اہم شعبہ کے اوامر و نواہی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں خود کو اتنا قوی اور مضبوط بنانا چاہیے تاکہ عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتیں ایرانی قوم کے کسی حق کو پامال اور نظر انداز نہ کرسکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال میں اپنی اصلی بات یعنی قوم و ملک کے قوی و مضبوط ہونے کی ضرورت اور قومی اقتدار میں اضافہ کی وضاحت فرمائي اور کمزور قوموں کے حقوق کو عالمی منہ زور اور تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے ضائع کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عالمی سطح پر چلنے والے مادی نظام میں سامراجی اور تسلط پسند طاقتیں اپنی مرضی کو کمزورممالک پر مسلط کرتی ہیں لہذا ہمیں قوی اور مضبوط ہونا چاہیے اور ترقی و پیشرفت کی سمت آگے بڑھنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے نام " قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ اقتصاد و معیشت " کے انتخاب کو سن 1393 کا کلی روڈ میپ قراردیا اور ملک کی وسیع ظرفیتوں ،وسائل ، قوم کے کامیاب تجربات اور بلند گاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس نعرے پر قوم اور حکام کی توجہ مرکوز ہونے کے ساتھ قومی اقتدار کا مایہ ناز راستہ برق رفتار کے ساتھ طے ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک قوم کی قدرت و طاقت کے اصلی عناصر کی تشریح میں پیشرفتہ ہتھیاروں کے ہونے کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصاد ، ثقافت اور علم و دانش قومی اقتدار کے تین اصلی عناصر ہیں اور اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے حالیہ بارہ برسوں میں علم و دانش کے بارے میں ہمیں خاطرخواہ اور درخشاں پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قومی اقتدار کے دو باقی عناصر یعنی اقتصاد و ثقافت کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کو ضروری قراردیا اور اپنے خطاب کے پہلے مرحلے میں مسئلہ اقتصاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں ایران کے اقتصاد اور معیشت کو اتنا قوی بنانا چاہیے تاکہ دنیا کا کوئي اقتصادی بحران،اور امریکہ اور غیر امریکہ سمیت کوئی شخص ایک نشست و برخاست میں ملک کی معیشت اور اقتصاد پر اثر انداز نہ ہوسکے اور یہ وہی پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پائدار اقتصاد و معیشت کی پالیسیوں کے ابلاغ اور تینوں قوا اور دیگر حکام کی طرف سے ان کے استقبال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین اہم سوال پیش کئے اور پھر ان کے جوابات بھی دیئے۔
1: پائدار اور مقاومتی اقتصاد کی سلبی اور ایجابی خصوصیات کیا ہیں؟
2: کیا اس ہدف تک پہنچنا ممکن ہے یا آرزو اور خام خیالی ہے؟
3: اگر اس ہدف تک پہنچنا ممکن ہے تو اس کے شرائط و خصوصیات کیا ہیں؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال "یعنی پائدار اقتصاد کی خصوصیات " کے جواب میں فرمایا: پائدار اقتصاد ایک علمی نمونہ ہے جو ملک کی ضروریات کے متناسب ہے البتہ بہت سے دیگر ممالک بھی عالمی اقتصادی اور سماجی بحرانوں کے اثرات کم کرنے کے لئے اپنے خاص شرائط کے مطابق پائدار اقتصاد و معیشت پر عمل پیرا ہیں۔
بیرونی نگاہ کے ساتھ اندرونی پیداوار ، وسائل اور ظرفیتوں پر تکیہ اور دیگر ممالک کے اقتصاد کے ساتھ درست تعامل ،پائدار اقتصاد کی دوسری خصوصیت تھی جس کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ فرمایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: افسوس کے ساتھ بعض قلم اور زبانیں یہ شبہات پیدا کرنے کی تلاش کررہی ہیں کہ ایران کے اقتصاد کو محدود اور محصور بنا کر قوم و ملک کی سعادت اور پائدار اقتصاد کی راہ مسدود کی جارہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کے پائدار اور مقاوم اقتصاد کا عالمی اقتصاد کے ساتھ صحیح اور درست تعامل ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پائدار اور مقاومتی اقتصاد کی تیسری خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ اقتصاد حکومتی اقتصاد نہیں ہے بلکہ اس کا محور عوام ہیں۔ البتہ حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ شرائط ، ہدایت اور تعاون کی راہ ہموار کرکے عوام کی شراکت اور ان کی سرمایہ کاری کے لئے اسباب اور وسائل فراہم کریں ۔
صنعت و زراعت میں سرگرم افراد و ماہرین کے تجربات سے استفادہ کے ساتھ ساتھ اقتصاد کے علمی محور پر ہونے کی دوسری تعبیر تھی کہ جس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مقاومتی اقتصاد کی خصوصیات کے مزید عام فہم بنانے کے لئے استفادہ پر تاکید فرمائي۔
عالمی سطح پر رائج اقتصادی معیاروں جیسے قومی رشد، ناخالص پیداوار اور پابندیوں اور غیر پابندیوں کے تمام شرائط میں پائدار اقتصاد کے مؤثر ہونے کے ساتھ سماجی اور اقتصادی انصاف پر توجہ آخری خصوصیت تھی جسے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پہلے سوال کے جواب میں پائدار اقتصاد و معیشت کی سلبی و ایجابی خصوصیات کے طور پر بیان کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحرم رضوی کے زائرین اور مجاورین کے عظیم اجتماع سے خطاب میں ایک خاص سوال کے جواب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: کیا پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت ایک آرزو اور وہم و خیال نہیں ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ٹھوس حقائق اور اطلاعات کی روشنی میں اس سوال کا جواب نفی میں دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عظیم ظرفیتوں کے ساتھ جوانوں کی افرادی قوت، یونیورسٹیوں کے دس ملین طلباء، مدارس کے 4 ملین سے زائد طلباء اور کئی ملین صنعتی و غیر صنعتی دیگر ماہرین و تجربہ کار افراد ، بہت ہی گرانقدر اور فراواں قدرتی وسائل، بے مثال جغرافیائی پوزیشن اور انفراسٹرکچرز کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر اس بات کا مظہر ہیں کہ پائدار اور مقاومتی اقتصاد و معیشت یقینی طور پر قابل عمل اور قابل تحقق ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ممکن ہے کہ کوئی یہ بات کہے کہ اقتصادی پابندیاں ان ظرفیتوں اوروسائل سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہیں لیکن کیا ہم نے انہی شرائط میں سائنسی اور دفاعی شعبوں منجملہ نینو ٹیکنالوجی، سٹیم خلیات اور جوہری توانائی اور دفاعی صنعت اور میزائل سسٹم میں حیرت انگيز اورخيرہ کنندہ پیشرفت حاصل نہیں کی؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان حقائق کے پیش نظر اگر ہم اپنے عزم کو بالجزم کریں اور ایکدوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں اور دشمن کی طرف نہ دیکھیں کہ وہ کس وقت پابندیاں اٹھائے گا یا نہیں اٹھائے گا تو ہم دیگر شعبوں منجملہ اقتصاد کے شعبہ میں بھی یقینی طور پر قومی اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔
تیسرا سوال پائدار اقتصاد کے محقق ہونے کے شرائط پر مبنی تھا اس کی اہمیت کے پیش نظر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نئے سال کے پہلے دن اپنے خطاب میں اس کی طرف اشارہ فرمایا۔
اس سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا جواب 4 ضرورتوں پر مبنی تھا: 1۔ ملک کی پیشرفت کے بنیادی حلقہ کے عنوان سے قومی پیداوار پر حکام کی ہمہ گیر توجہ اور حمایت، 2۔ سرمایہ کاروں اور پیداوار میں مشغول افراد کی کارکردگی اور قومی پیداوار کو اہمیت دینا،3۔ سرمایہ کاروں کی غیر پیداواری شعبوں کے بجائے پیداواری شعبوں میں تشویق کرنا،4۔ قوم کی اندرونی اور داخلی پیداوار سے استفادہ پر تاکید۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 4 نکات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ہم یہ نہیں کہتے کہ غیر ملکی چیزیں خریدنا حرام ہیں لیکن ملک کی پیشرفت اور اقتصاد کو مضبوط اور مقاوم بنانے کے لئے داخلی اشیاء کا مصرف ایک اہم ضرورت ہے اور تمام مسائل منجملہ روزگار کی فراہمی اور داخلی پیداوار کی کیفیت کی افزائش میں اس کا اثر مثبت ہوگا البتہ اس سلسلے میں دوسروں کی نسبت اعلی حکام اور اعلی عہدیداروں کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے ملک کی معیشت اور اقتصاد کو مضبوط اور پائدار بنانے کے لئے حکام اور عوام کے درمیان تعاون پر تاکید کی اور ثقافت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت کا موضوع ، اقتصاد سے بھی کہيں زيادہ اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کی اہمیت کی علت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت ہوا کے مانند ہےچاہے ہم چاہییں یا نہ چاہییں ہمیں سانس لینے کی ضرورت ہے لہذا اگر ہوا صاف یا آلودہ ہو تو اس کے ملک اور معاشرے پر متفاوت اثرات مرتب ہوں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی نگاہ میں اندرونی پیداوار، قانون مداری، اور خاندانی مسائل کے سلسلے میں ثقافت کے بےمثال اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: عوام کی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی مسائل کے سلسلے میں روزمرہ کی تمام عادات و رفتار ان کی ثقافت کا مظہر ہیں، لہذا تمام مسائل اور دیگر شعبوں پر ثقافتی اعتقادات کا اثر ہوتا ہے جو سب سے اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافت کے بارے میں دشمنوں کی توجہ کو ثقافت کی اہمیت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ثقافتی امور سے متعلق حکام کو چاہیے کہ وہ دشمنوں کی ثقافتی خلاف ورزیوں کے بارے میں آگاہ اور ہوشیار رہیں اور اس سلسلے میں اپنی دفاعی اور ایجابی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کے سلسلے میں اندرونی خامیوں اور کوتاہیوں کے منفی اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ثقافت کے میدان میں تمام مشکلات کی ذمہ داری دشمن پر عائد نہیں ہوتی لیکن گذشتہ 35 برس میں اس سلسلے میں دشمن کی سرگرمیوں اور فعالیتوں کا انکار اور انھیں نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزادی کو اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کے بنیادی اور اساسی نعروں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: حکام کی انحرافات اور مفاسد کے بارے میں حساسیت کا آزادی کے ساتھ کوئی تضاد نہیں کیونکہ آزادی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے آزادی اور انحراف ، فساد اور غیر اخلاقی حرکتوں کے درمیان مکمل طور پر بہت بڑا فرق اور تفاوت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بغیر ضابطہ کے آزادی کو بے معنی قراردیا اورآزادی کے مدعی مغربی ممالک کی طرف سے قائم ریڈ لائنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یورپ میں کسی میں اتنی ہمت نہیں جو ہولوکاسٹ کے بارے میں شک و تردید ایجاد کرے جبکہ اس کی اصل حقیقت کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے اس کے باوجود وہ ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم انقلاب اسلامی اور اسلام کی ریڈ لائنوں کو مد نظر نہ رکھیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض موجودہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر کوئی شخص قومی استقلال کی روح کا مذاق اڑائے، ، وابستگی کا ںظریہ بیان کرے، معاشرے کے اسلامی اور اخلاقی اصولوں کی توہین کرے، انقلاب کے اصلی نعروں کو اپنی یلغار کا نشانہ بنائے، فارسی زبان اور قومی عادات کو حقیر قراردے اور غیر اخلاقی حرکتوں کی ترویج کرے، ایرانی جوانوں کی قومی عزت و غیرت کو نشانہ بنائے تو کیا ایسی تخریبی سرگرمیوں کے مد مقابل بے تفاوت اور خاموش رہنا چاہیے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حجاب جیسے مسائل کے بارے میں مغربی ممالک کے عدم تحمل اور بعض ممالک کے عوام کے بارے میں ان کے اندھے تعصب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک کے تحمل اور برداشت کے یہ شواہد اور علائم ہیں جبکہ بعض عناصر، ایران کی باثقافت اور نجیب قوم کو ان کی رغبت دلاتےہیں۔!
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت سےمتعلق مستقیم یا غیر مستقیم ثقافتی اور تبلیغاتی اداروں کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: غیر ملکی ذرائع ابلاغ یا اغیار کے ہمدرد ذرائع ابلاغ کے مکر و فریب سے ہرگز نہ گبھرائیں اور اپنی رفتار کو ان کی رفتار سے ملانے کی کوشش نہ کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی اداروں کے حکام کی سنگين ذمہ داریوں اور وظائف کی تشریح کے بعد فرمایا: ثقافت کے بارے میں میرا اہم نکتہ ان انقلابی اور مؤمن جوانوں سے خطاب ہے جو ملک بھر میں ذاتی جوش و ولولہ کے ساتھ ثقافتی سرگرمیوں میں مشغول ہیں اور انھوں نے اس سلسلے میں بہت اچھے اور نمایاں کام انجام دیئے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوانوں کو تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میرے عزیزو آپ اپنے کام کو سنجیدگی کے ساتھ جاری رکھیں کیونکہ آپ کی ثقافتی سرگرمیوں نے انقلاب کے آغاز سے ہی ملک کی پیشرفت اور استقامت میں اہم نقش ایفا کیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی مراجع منجملہ علماء ، اساتید، اسلامی مفکرین، اور متعہد ہنرمندوں کو ایک اہم سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ثقافتی حالات کے بارے میں اپنی تنقیدی نظر کو برقرار رکھیں اور واضح اور صریح بیان و منطق کے ساتھ حکام کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرتے رہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں الزام تراشی ، شور و غل اور تکفیر سے بالکل پرہیز کرنا چاہیے۔اور ملک کے انقلابی مجموعہ منجملہ انقلابی جوانوں اور ممتاز شخصیات کو اپنے محکم و مضبوط اور منطقی دلائل کے ساتھ حکام کے بارے میں تنقید کرنی چاہیے اور ثقافت کے سلسلے میں یہ وہی قومی عزم اور جہادی مدیریت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سال 92 کو سیاسی اور اقتصادی رزم و جہاد کے نام سے موسوم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عوام سے سیاسی رزم و جہاد کے سلسلے میں جو توقع تھی وہ انھوں نے پوری کی اور عوام نے دو موقعوں پر یعنی گیارہویں صدارتی انتخابات اور 22 بہمن کی عظیم ریلیوں میں سیاسی رزم کو عملی جامہ پہنایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گیارہویں صدارتی انتخابات اور 22 بہمن کی عظیم ریلیوں کے دو واقعات کو عالمی میڈیا کی یلغار کے مقابلے میں ایرانی قوم اور ملک کے حقائق کے سلسلے میں ہمہ گیر ذرائع ابلاغ قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام میں انتخابات کے سلسلے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ انقلاب کے آغاز سے لیکر اب تک متعدد اور مکرر انتخابات میں عوام کی شرکت کا حد نصاب کم نہیں ہوا اور گیارہویں صدارتی انتخابات میں بھی عوام کی شرکت کا حد نصاب 72 فیصد رہا ہے جو ایک ممتاز نصاب کے طور پر ثبت ہوگیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میدان میں عوام کی مسلسل و پیہم موجودگی کا مطلب ، اسلامی جمہوریہ ایران میں دینی عوام زندگی کا نظام ہے اور اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے لیکن افسوس کے بعض افراد نے 1388 کے انتخابات میں اس نعمت کی قدر و قیمت کو نہیں پہچانا اور اس عظیم نعمت پر شکر ادا نہیں کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد 22 بہمن سنہ 1392 ہجری شمسی کی عظیم ریلیوں میں عوام کی وسیع پیمانے پر شرکت کی طرف اشارہ کیا اور ایرانی عوام کے خلاف سامراجی طاقتوں کی پالیسیوں اور ایرانی قوم کے بارے میں امریکہ کے غیر مہذبانہ اور توہین آمیز رویہ کو عوام کی اس موجودگی کا اصلی سبب قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایک طرف ایٹمی مذاکرات جاری تھے اور دوسری طرف امریکی حکام نے غیر مہذبانہ ، غیر مؤدبانہ اور توہین آمیز لہجہ میں یہ ظاہر کرنے کی تلاش و کوشش کی کہ ایرانی عوام اپنے اہداف اور اصول سے منحرف ہوگئے ہیں لیکن ایرانی قوم نے مزید غیرت اور حساسیت کے ساتھ میدان میں حاضر ہو کر واضح کردیا کہ ایرانی قوم اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہے اور اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ اسلامی نظام اور اسلام کے پرچم کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام میں فلسطین، شام، عراق، افغانستان ، پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں امریکہ کی شکست اور ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عالمی حالات و حقائق امریکہ کے مرضی کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کے ساتھ بھی دشمنون کی عداوت و دشمنی کا سلسلہ 35 برس سے جاری ہے لیکن ایرانی عوام کی ہوشیاری اور میدان میں موجودکی کی وجہ سے دشمن کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکومت کے اہم و مؤثر افراد نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم نے ایرانی قوم کے خلاف پابندیاں اس لئے عائد کی ہیں تاکہ وہ اسلامی انقلاب کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں اور ہم انقلاب کی جڑیں اکھاڑ دیں گے لیکن عوام کی ہوشیاری اور آگاہانہ موجودگی نے دشمن کے شوم منصوبوں کو ایک بار پھر ناکام بنادیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا: اس سرزمین کا تابناک اور درخشاں مستقبل اس کے جوانوں سے متعلق ہے اور دشمنوں کو اسی طرح شکست و ناکامی نصیب ہوگی۔
اس ملاقات سے قبل صوبہ خراسان رضوی میں ولی فقیہ کے نمائندے اور حرم امام رضا (ع) کے متولی آیت اللہ واعظ طبسی نے قومی عزت اور استقلال کے راستے پر عوام کی حرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: عوام اور حکام کی ہمت اور تلاش و کوشش کی بدولت نئے سال کا نعرہ "قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ ثقافت اور معیشت " محقق ہوجائے گا ۔
رہبر معظم کا آبادان کا محاصرہ توڑنے والی فوجی کارروائیوں کے علاقہ میں راہیان نور قافلوں سے خطاب
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے کارون کے مشرق میں آبادان کا محاصرہ توڑنے والی فوجی کارروائیوں کے علاقہ میں راہیان نور کے ہزاروں زائرین کے اجتماع سے خطاب میں راہیان نور قافلوں کے مثبت و مفید اثرات اور دفاع مقدس کی مختلف کارروائيوں کےدوران ممتاز شخصیات، اعلی کمانڈروں اور دلیر سپاہیوں کی قربانیوں اور جانفشانیوں کی یاد ہمیشہ زندہ رکھنے پر دوبارہ تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کا سب سے بڑا درس یہ تھا کہ ایک قوم اتحاد، ایمان،اللہ تعالی پر حسن ظن اور اللہ تعالی کے سچے وعدوں پر اعتقاد کے سائے میں تمام مشکل گھاٹیوں سے عبور اور دشمن کے مد مقابل استقامت کے جوہر دکھا کر دشمن کو پیچھے ہٹنے اور شکست دینے پر مجبور کرسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نوروز کی چھٹیوں اور سال کے دیگر ایام میں دفاع مقدس کے جنگی علاقوں اور فوجی کارروائيوں کے علاقوں میں عوام کے مختلف طبقات کے حضور کو پسندیدہ ، صحیح اور عقلمندانہ اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کے تمام علاقہ منجملہ خوزستان، مجاہدت، فداکاری اور ایثار کےممتاز میدانوں میں سے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آبادان کے محاصرے کو توڑنے کے لئے حضرت امام (رہ) کے فرمان اور کارون کے مشرق میں مارد علاقہ میں سن1360 ہجری شمسی مہر ماہ میں ثامن الآئمہ فوجی کارروائیوں کے پروگرام اور منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام کے بہادر سپاہیوں کا یہ کامیاب آپریشن ، طریق القدس، فتح المبین اور الی بیت المقدس آپریشنز کا آغاز اور پیش خیمہ ثابت ہوا جو اسی سال مسلط کردہ جنگ کے خاتمہ کا سبب بن سکتا تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کے مخالف اور دشمن محاذ یعنی یہی یورپی ممالک اور امریکہ ، صدام کی بعثی حکومت کو پیشرفتہ ہتھیار اور جنگی وسائل فراہم کرکے اسے جنگ جاری رکھنے کی تشویق کرتےتھے اور یہی مسئلہ جنگ کے 8 سال تک طولانی ہونے کا باعث بن گیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کی جانب سے صدام کی بعثی حکومت کی مکمل حمایت اور اس کو کامیاب بنانے اور ایرانی قوم اور اسلامی نظام کو ضعیف اور کمزور کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھایا، اور الہی سنت نے اپنی آہنی مشت کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کے منہ توڑ دیئے اور ان کی ناک کو زمین پر رگڑ دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کیونکہ اسلامی نظام عوام کے احساسات ، جذبات اور ایمان پر استوار ہے اور آٹھ سالہ دفاع مقدس میں ایرانی قوم نے ثابت کردیا کہ دنیا کی مادی طاقتوں کے مقابلے میں اپنا دفاع کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح انھیں عجز و ناتوانی کا اظہار کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلط کردہ جنگ میں دشمن کے ایک ہدف کو دنیا کی مادی طاقتوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی عدم استقامت ظاہر کرنے کی کوشش قراردیتے ہوئے فرمایا: کسی قوم کی شکست اس وقت ہے جب اسے یقین ہوجائے کہ وہ کوئی کام انجام نہیں دےسکتی لیکن ایرانی قوم نے مسلط کردہ جنگ کے دوران اس برخلاف عالمی سطح پر یہ ثابت کردیا کہ وہ اپنا مکمل طور پر دفاع کرسکتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تاریخ میں اور اسی طرح قوموں کے درمیان کسی قوم کی سربلندی و عزت کا اصلی راز مختلف سماجی، علمی اور اقتصادی میدانوں میں تلاش و کوشش اور سب سے بڑھ کر قربانیوں کے لئے آمادہ رہنے پرمنحصر ہوتا ہے ۔
حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کا ایرانی قوم کے لئے سب سے بڑا درس یہ تھا کہ اعلی اہداف تک پہنچنے کے لئے ان اہداف کے سلسلے میں جد وجہد، تلاش و کوشش ، جانفشانی اور استقامت ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 8 سالہ دفاع مقدس اور مسلط کردہ پر رمز و راز جنگ کو ایرانی قوم اور ملک کے جوانوں کی استقامت اور سامراج اور کفر محاذ کے مقابلے میں ان کی پائداری کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کی یاد ہمیشہ زندہ رکھنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایرانی قوم کے معاندین اور اسی طرح بعض دیگر افراد اس تلاش میں ہیں کہ دفاع مقدس کی فداکاریوں اور اہم شخصیات کے فعال نقش کو فراموش کردیا جائے اور اسی وجہ سے ان کی تلاش و کوشش ہے کہ اس راہ کو فراموش کردیا جائے جسےدفاع مقدس کی قربانیوں اور جسے الہی حکیم و بصیر انسان حضرت امام خمینی (رہ )نے معین و مشحض کیا تھا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دفاع مقدس کا ہر لحظہ ایرانی قوم کے لئے ناقابل فراموش ہے اور ایرانی قوم کی اعلی اہداف کی سمت حرکت میں اس کے گہرے اور مؤثر اثرات ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر راہیان نور قافلون کا شکریہ ادا کیا جو دفاع مقدس کے دوران جنگی کارروائیوں کے علاقوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے لئے ان علاقوں میں حاضر ہوئے ہیں۔ اور اس امید کا اظہار کیا کہ اس معنوی سفر کا توشہ، الہی انوار و بصیرت اور سیکھنے کابہترین تجربہ قرارپائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی آبادان کا محاصرہ توڑنے والے آپریشنز کے علاقہ میں پہنچنے سے پہلے دفاع مقدس کے نوگمنام شہیدوں کے مزار پر حاضر ہوئے اور ان کے درجات کی بلندی کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی۔
رہبر معظم سے ادارہ راہیان نور کے اہلکاروں کی ملاقات
۲۰۱۴/۰۳/۱۷- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے راہیان نورکیمپ اور ادارے کے اعلی حکام اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں ملک کی جوان نسل اور عوام کو دفاع مقدس کے عظیم اور تاریخی واقعہ کے بارے میں آشنا بنانے کے اقدام کو ایک الہی ، انقلابی اور ممتاز اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: اس عظیم تاریخی واقعہ کی کمین میں فراموشی اور تحریف جیسے دو بڑے خطرے موجود ہیں اور دفاع مقدس کے میدان سے آشنا ممتاز ماہرین اور اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ اس عظیم ثقافتی خزانہ اور ذخیرہ کو پہچنوانے کے ساتھ تحریف اور فراموش جیسے خطرات سے اسے محفوظ رکھنے کی بھی تلاش و کوشش کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے سلسلے میں شائع ہونے والے تحریری اور ہنری آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس ایک ایساعظیم اور شاندار پینل ہے جسے دیکھنے والا جتنا اس کے قریب ہوتا جائے گا اتنا ہی اس کے اجزاء اور ترکیب کے بارے میں غور و فکر کرےگا اور اس کے جدید اور حیرت انگیز پہلوؤں تک پہنچ جائے گا۔
رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے شہیدوں کے وصیت ناموں کے مطالعہ پر حضرت امام خمینی (رہ) کی تاکید و سفارش کو اسی حقیقت کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: شہیدوں کا وصیت نامہ در حقیقت ایسے دلیر سپاہیوں کے معنوی حالات سمجھنے کا دریچہ ہے جنھوں نے نمایاں کارنامے اور شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور جن کے عظیم کارناموں کا دنیا کے فوجی اور مادی سسٹم سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے دنیا کے عظیم واقعات کو درپیش دو خطروں سے آگاہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فراموشی کو دنیا کے عظیم واقعات کو درپیش اہم خطرہ قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں مسئلہ فلسطین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج تسلط پسند سامراجی طاقتیں فلسطین کے مقامی لوگوں کو شہروں اور دیہاتوں سے جلاوطن کرنے کے عظیم واقعہ کو کمرنگ بنا پر پیش کرنے اور اسے فراموش کرنےکی تلاش و کوشش کررہی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ برسوں میں مسئلہ فلسطین کے زندہ رہنے اور مسئلہ فلسطین کو فراموش کرنے کے سلسلے میں استکباری طاقتوں کی سازشوں کی ناکامی کو ایران کے اسلامی انقلاب اور حضرت امام خمینی (رہ) کی مخلصانہ کوششوں اور نعروں کا مرہون منت قراردیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کے عظیم واقعہ کو بھی فراموش کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحریف اور تغییر کو دنیا کے بڑے واقعات اور حوادث کے لئے دوسرا بڑا خطرہ قراردیا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کو تحریف سے لاحق خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض ثقافتی اور ہنری آثار یا سمینارجو دفاع مقدس کے نام سے شائع اور منعقد ہوتے ہیں انھیں انقلاب اور دفاع مقدس کی حقیقت سے متضاد نہیں ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے راہیان نور کیمپوں اور جنگی علاقوں کے دورے کو تحریف اور فراموشی کے دو خطرات سے بچنے کے لئے بہترین سنت قراردیتے ہوئے فرمایا: ان کیمپوں میں کبھی ناگوار حوادث پیش آتے ہیں ان کی روک تھام کرنی چاہیے لیکن اس قسم کے واقعات کو اصل کام پر سوالیہ نشان لگآنے کے لئے بہانہ نہیں بنانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: راہیان نور کیمپوں میں سب سے اہم اور اصلی نکتہ ،معرفت کے ساتھ زیارت کی راہ ہموار کرنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معرفت کے ساتھ زیارت کی راہ فراہم کرنے کا ایک ذریعہ دفاع مقدس اور جنگی علاقوں کے شناسنامہ کے عنوان سے جزوات کی تیاری اور تحریر کو قرار دیتے ہوئے فرمایا: دفاع مقدس کے موضوع پر اچھی اور بہترین کتابیں تحریر کی گئی ہیں جن کو اچھی اور جذاب فلموں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اسی طرح تمام جنگی علاقوں اور دفاع مقدس کی ہر ایک کارروائی کے بارے میں بہترین اور فاخر اثار تیار کئے جاسکتے ہیں۔
عوامی مجموعات کو فعال رکھنے پر تاکید، گروہی سفر کو جاری رکھنے کی سفارش اور دفاع مقدس کے حساس اور فیصلہ کن ایام کو قریب سے درک کرنے والے راویوں کا انتخاب دیگر سفارشات تھیں جن کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے راہیان نور ادارے کے اہلکاروں کو آگاہ فرمایا۔
اس ملاقات کے آغازمیں ادارہ نور کے سربراہ جنرل کارگر نے اس ادارے کے اقدامات اور پروگراموں کےبارے میں رپورٹ پیش کی۔
تہران ؛ بائسویں بین الاقوامی قرآنی نمائش میں شرکت کے لیے دعوت عام
قرآنی سرگرمیوں کا گروپ : اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت مذہبی امور سے وابستہ قرآن و عترت مرکز کی جانب سے بائیسویں بین الاقوامی قرآنی نمائش میں شرکت کے لیے دعوت عام کا اعلان کیا گیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق نمائش کی آرگنائزنگ کمیٹی نے ڈیزائنرز اور صاحب نظر افراد کو دعوت دی ہے کہ اپنے مناسب پیٹرن اور آراء کے ذریعے اس عظیم نمائش کو کامیاب بنانے میں بھر پور کردار ادا کریں ۔
اسی طرح اعلان میں اس بات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم کے ساتھ عقیدت رکھنے والے ہنر مند اور مفکرین حضرات اپنے آثار اور متفاوت طرز فکر کے ذریعے اس نمائش میں عاشقان قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنائیں۔
خواہشمند حضرات نمائش میں حصہ لینے کے لیے مندجہ ذیل ایڈریس پر اپنے آثار ارسال کرسکتےہیں :
تہران ، خیابان ولی عصر (عج) ، بلاک ۱۵
یا پھر This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. پر میل کر یں ۔