Super User

Super User

سلمان رشدی ملعون کے ارتداد کا تاریخی فتوی

سلمان رشدی کے خلاف امام خمینی کا تاریخی فتوی اور مغرب کے پروپگینڈے خاص کر آزادی بیاں کے نام پر اسلام کے خلاف جاری پرویگینڈا مہم اور اسکے مذموم مقاصد کا جائزہ

٭٭٭٭٭

1988 میں برطانیہ میں مقیم ایک ہندوستانی نژاد سلمان رشدی نے رسول اکرمۖ کی توہین پر مبنی ایک کتاب تحریر کی جس میں رسول اکرمۖ کے توہیں کے علاوہ یہ ہرزہ سرائی بھی کی گئی کہ قران مجید اللہ کیطرف سے حضرت محمدۖ پر نازل نہیں ہوا بلکہ یہ خود انکے اپنے افکاروخیالات کا مجموعہ ہے۔ سلمان رشدی کی اس کتاب کے سامنے آتے ہی تمام عالم اسلام میں شدید غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ۔مغرب نے اس بات کا احساس کئے بغیر کہ اس سے دنیا بھر میں موجود ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے اسلام کے خلاف پروپگینڈے کا بازار گرم کردیا۔مغربی حکومتوں بالخصوص امریکہ نے مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنے کی بجائے شیطانی آیات نامی اس کتاب کے مصنف پر انعامات کی بارش کردی اور برطانیہ کی ملکہ نے ملعون سلمان رشدی کو" سر" کا خطاب دے دیا۔مغربی ممالک کی طرف سے اس متنازعہ کتاب کی حمایت ایک عادی اور روزمرہ کی بات نہ تھی وہ اس حمایت کے ذریعے مسلمانوں کے تاثرات اور ردعمل کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اسلام کے مقدسات بالخصوص قران اور پیغامبر گرامی کے خلاف توہین کے مذموم منصوبے کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔امام خمینی رح نے ایک دور اندیش رھبر کی حیثیت سے مغرب کی اس سازش کو بھانپتے ہوئے 14 فروری 1988 کو قرآن وسنت کی روشنی میں سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کا تاریخی فتوی صادر کیا۔اس فتوی کو تمام عالم اسلام میں زبردست پزیرائی ملی۔ امام خمینی رح کی رحلت کے بعد رھبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے بھی اس فتوی پر تاکید کی اور اسے ناقابل واپسی قرار دیا۔

امام خمینی کے اس تاریخی فتوی پر مغربی ممالک کا ردعمل اس قدر شدید تھا کہ ایران میں تعینات گیارہ یورپی ملکوں نے تہران سے اپنے سفیر واپس بلا لئے اور ایرنی حکومت اور عوام کو شدید ترین سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیاں دیں۔ ایرانی قوم اور اور حکومت کی استقامت اور پامردی اس بات کا باعث بنی کہ بارہ کے بارہ یورپی ممالک کے سفیر بغیر کسی شور شرابے کے تہران واپس آگئے۔غاصب صیہونی حکومت اور برطانیہ ملعون سلمان رشدی کی حفاظت پر خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں لیکن اسکے باوجود سلمان رشدی اس فتوی پر عمل درآمد کے خوف سے سیکوریٹی کے انتہائی سخت انتظامات میں زندگی گزار رہا ہے۔

مغرب کیطرف سے اسلامی مقدسات کی توہین کا جاری سلسلہ اس بات کو ثابت کررہا ہے کہ امام خمینی کی دور اندیشی اس حوالے سے کسقدر صحیح اور حقیقی تھی۔ بحران میں گھرے مغربی تمدن کے پالیسی ساز اس بات کو اچھی طرح درک کر رہے تھے کہ اسلامی تمدن، بیداری اور عالمگیر ہونے کیطرف گامزن ہے اوریہ دین الہی اور آسمانی تعلیمات کا حامل ہونے کی وجہ سے مغرب کے مادیت پر مبنی نظریانی نظام کو تہس نہس کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے ہرطرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔مغرب اسلام و مسلمیں کے مقدسات کی توہیں کرکے مسلمانوں کی غیرت وحمیت کو ختم کرنا چاہتا ہے اور آذادی بیان کے نام پر اس توہین کا دفاع کرکے مسلمانوں کی مخالفت کو نظر انداز کرتا ہے۔گذشتہ سالوں میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ۖ اور قران مجید کی شدید ترین توہین کی گئی ۔ رسول اکرمۖ کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے ۔امریکی پادری کے ہاتھوں قران مجید کے نسخے جلائے گئے ۔صیہونی ادارے "شنکار" میں خواتین کے لباس پر قرانی آیات لکھ کر توہین کی گئی اسی طرح سویڈن کے اخبارات میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ۖکی توہین پر مبنی کارٹون شائع کئے گئے ۔مغرب کے مادہ پرستوں نے اس پر بس نہیں کی بلکہ اسلام اور اسلامی مقدسات کے خلاف فلمیں تک بنائیں۔ان فلموں میں "فتنہ" اور "برات ازمسلمیں" کا نام خصوصی طور پر لیا جاسکتا ہے۔اسلامی مقدسات کے خلاف اس شدید حملے کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ان توہین آمیز اقدامات کے ذریعے نہ صرف اسلامی تقدسات کی توہین کرتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو ان مقدسات کے حوالے سے بے حس اور غیرجانبدار کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اندر دینی غیرت اور حمیت ختم ہوجائے اور وہ اسلام مخالف سامراجی طاقتوں کے خلاف کسی قسم کا خطرہ نہ بن سکیں۔وہ ان اقدامات کےذریعے اسلام کی طرف غیر مسلموں کی بڑھتی ہوئی توجہ کو بھی کم کرنا چاہتے ہیں۔

مسلمانوں نے ان مذموم اور انسان دشمن اقدامات پر ہرگز خاموشی اختیار نہ کی اور مظاہروں۔تنقیدوں اور احتجاجوں کے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا۔ مسلمانوں نے دنیا کی مختلف عدالتوں میں ان جرائم کے خلاف مقدمات بھی دائر کئے لیکن ان عدالتوں نے آزادی اظہار کے نام پر ان مقدمات کو کسی طرح کی اہمیت دینے سے انکار کیا۔اور ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔امریکی وزیرخارجہ نے "برات از مسلمیں" نامی فلم پر مسلمانوں کے شدید اجتجاج پر یہاں تک کہا تھا کہ امریکہ مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے اپنے شہریوں کو اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں روک سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ آزادی اظہار کا عالمی کنونشن اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے بھی ازادی اظہار کے نام پر ادیان اور مذاہب کی توہین کو جائز نہیں سمجھتے۔ان اداروں کے معاہدوں کا اگر سرسری مطالعہ بھی کیا جائے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارے بھی آذادی بیان کے حق کو بےحدوحساب نہیں سمجھتے اور نہ ہی ان کو بہانہ بنا کر مذاہب اور ادیان کی توہین کو روا سمجھا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی ادارے کے آرٹیکل انیس کی تیسری شق میں آیا ہے کہ آذادی بیان کے حق کے نفاز کے لئے کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی عائد ہوتے ہیں اور ان ذمہ داریوں کی وجہ سے کـچھ پابندیوں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے جو کہ کچھ اسطرح ہیں۔

ا.دوسرے کے حقوق اور حیثیت کے احترام کے لئے

ب.قومی سلامتی کے تحفظ اور اجتماعی نظم وسلامتی کے لئے

پس آرٹیکل انیس کی تیسری شق کی روشنی میں آزادی اظہار کا حق اس وقت محدود ہو جاتا ہے جب اسکی وجہ سے کسی دوسرے کی حیثیت اور احترام متاثر ہو رہی ہو۔ شہری اور سیاسی حقوق کے عالمی ادارے کے اس چارٹر کی بیسویں شق کے مطابق کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت اور کینہ کی ترغیب ممنموع ہے۔ان شقوں کو امریکی اور یورپی انسانی حقوق کے معاہدوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔انسانی حقوق کے دیگر عالمی اداروں نے بھی آزادی بیان کی حق کومحدود کیا ہے خاص کرجب وہ کسی فرد یا گروہ کی حیثیت کو نقصان پہنچا رہا ہو۔ایک ایسے عالم میں جب مغرب اسلام کی توہین اور اسکے مقدسات کی اہانت کو آزادی بیان کے نام پر قبول کرتا ہے جبکہ دوسری طرف بعض مسائل منجملہ ہولوکاسٹ کے بارے میں کسی طرح کی علمی تحقیق کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ہولوکاسٹ ان موضوعات میں سے ہے جسکے بارے میں غاصب اسرائیل سمیت سولہ ملکوں میں سخت پابندیاں ہیں اور ان ملکوں میں اسکا انکار ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ 1988 میں فرانس کی ایک عدالت نے معروف فلسفی اور سیاستدان راجر گارودی کو صرف اس وجہ سے چالیس ہزار ڈالر کا جرمانہ کیا کیونکہ انہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں ایک علمی اور مدلل تنقید کی تھی۔مغرب کے اس رویے کو دیکھ کر بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ اہل مغرب آزادی بیان کے حوالے سے دوغلے رویوں اور دوہری پالیسیوں پر گامزن ہیں۔

٭٭٭٭٭

دنیا کے کسی بھی قانونی نظام میں ہر طرح کے عقیدے کے اظہار کی کھلی آزادی نہیں ہے ہرملک اپنی آئیڈیالوجی اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں آزادی اظہار کی اجازت دیتا ہے۔اور تمام عقلاے عالم کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر انسان اپنے تمام اعمال و کردار کے حوالے سے مکمل اور مطلقآ آزاد نہیں ہو سکتا۔

معروف برطانوی مفکر جان اسٹورٹ میل کے مطابق"کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ اعمال کوعقیدے کی طرح آزاد ہونا چاہیے خاص کر ایسے حالات میں جب عقیدے کا اظہار دوسروں کی مصلحت اور مفاد کے خلاف ہو۔ایسی صورت حال میں تو عقیدے کا اظہار بھی اپنی حیثیت کھو دیتا ہے"

اگرچہ آزادی اظہار انسانی اقدار میں سے ایک اہم قدر ہے لیکن آزادی اظہار کے نام پر انسانی عزت وکرامت کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔اسی طرح اس کائنات کے خالق اور اس کے پیامبران جوکہ انسانی سعادت کے لئے مشعل راہ ہیں کی عزت واحترام کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور آزادی اظہار کے نام پر ان اخلاقی حدود کو عبور نہیں کرناچاہیے۔لہذاآزادی اظہار کو افراد اور شخصیات کی توہین اور انکی شخصیت کشی کے برابر نہیں سمجھنا چاہیے۔

اسلام کے نقطہ نظر میں انسان کو آزاد خلق کیا گیا ہے اور آزادی خداوند عالم کی طرف سے ایک بہترین ھدیہ اور تحفہ ہے۔اسلام میں آزادی اظہار کو بھی آزادی کی ہی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔اسلام میں ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے توہین سے ہٹ کر اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اسلام کے خلاف اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے اور اسلام نے کبھی اس پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا ہے کیونکہ اسلام ایک مکمل اور قانع کنندہ دین ہے وہ اعتراض کرنے والوں کے سوالات کا منطقی اور مدلل جواب دیتاہے اور سب کو تعقل ،تفکر، غور وفکر اور بحث ومباحثہ کی دعوت دیتا ہے۔ البتہ اسلام میں بھی عقل سلیم کے تحت آزادی اظہار کے حوالے سے کچھ پابندیاں موجود ہیں۔یہ پابندیاں حقیقت میں آزادی کے تحفظ اور اخلاقی اور نفسیاتی شرائط کے لئے ضمانت کا کردار ادا کرتی ہیء کیونکہ کسی بھی معاشرے میں نظریانی اور فکری آزادی تک پہنچنے کے لئے ان پابندیوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

اسلامی مقدسات کی توہین اور اسلام کے چہرے کو مسخ کر کے پیش کرنا مغرب کا ایک ہتھکنڈہ اور وہ اس عمل کے ذریعے اسلام و فوبیا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے وہ ان اقدامات سے معاشرے کی اخلاقی اور نفسیاتی صورت حال کو درہم برہم کرنا چاہتا ہے کیونکہ ایسی صورت حال میں ایک عام انسان صحیح اور سالم راہ کا انتخاب آسانی سے نہیں کرسکتا اور یہی کیفیت مغرب کی مطلوبہ کیفیت ہے۔مغرب نے مشرق میں اسلامی بیداری اور مغرب میں اسلام پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے کے لئے اس روش کا انتخاب کیا ہے یہی وجہ ہے کہ مغرب ان عناصر کی بھرپور حمایت کر رہا ہے جو آزادی اظہار کے پردے میں اسلام و فوبیا کے ایجنڈے پر کارفرما ہیں۔

امام خمینی(رہ) اور اسلامی بیداری

امام خمینی(رہ) اور اسلامی بیداری

امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لہذا انہوں نے یہ فرمایا: '' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔''

(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تخلیق کائنات کا مقصد یہ ہے کہ پوری کائنات میں صرف خالق کائنات کانام و نمود ہو صرف اس کا تذکرہ ہو ، زمین پر آسمان کی طرح صرف اللہ کا سجدہ ہو غیر اللہ کی پرستش نہ کی جائے، صرف کلمة اللہ کا علَم بلند ہو کسی دوسرے نام کا علَم اللہ کی خلق کردہ فضا میں لہراتا ہوا نظر نہ آئے، اللہ کی پیدا کردہ مخلوق میں صرف قانون الہی نافذ ہو کوئی دوسرا قانون اس کے جایگزین ہونے کی کوشش نہ کرے اور روئے زمین پر صرف ایک ہی حکومت ہو اور وہ صرف اللہ کی حکومت ہو جس میں ذرہ برابر ظلم و ستم نام کی کوئی چیز نہ ہو جس میں نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ ہی ناحق کسی کو مارا جائے، جس میں انسان تو انسان جانور ایک دوسرے سے پیار و محبت کے ساتھ جیئیں، جس میں عدل و انصاف کی یہ حد ہو کہ فقیر و مسکین اور مظلوم و بے کس تلاش کرنے سے بھی نہ ملیں۔ ایسے نظام حکومت کے قیام کے لیے اللہ نے ارسال رسل اور نزول کتب کا سلسلہ قائم کیا ۔ اور آخری نبی حضرت محمد مصفطی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کا مقصد، خاص طور پر یہی بیان کیا :''ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون (توبہ،٣٣)کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی لیے بھیجا کہ وہ اسے دیگر تمام باطل ادیان پر غالب کرے ، دیگر ادیان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دین اسلام کو سر بلندی عطا کرے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ٦٣ سالہ حیات مبارکہ میں انتھک کوششیں اور زحمتیں اٹھا کر اس دین کی بنیاد ڈالی اور اپنے بعد دوازدہ خلفا ء برحق کا سلسلہ قائم کر کے اس کی بنیادوں کو مستحکم اور مضبوط بنایا۔ اس لیے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے مقصد کو حاصل کرنا عادی طور پر ناممکن ہے ۔ لہذا گزر ایام کے ساتھ ساتھ جب انسانوں کے شعور بیدار ہوتے رہیں گے تودنیا میں انقلابات رونما ہوتے رہیں گے اور خود بخود اس عالمی الہی حکومت کے لیے زمین ہموار ہوتی رہے گی تاکہ جب آخری فرزند و جانشین رسول ،پردہ غیب سے نکل کر آئے گا تو پوری دنیا ان کا استقبال کرے گی اور آپ مختصر وقت میں پوری دنیا میں الہی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

اگردنیا میں موجودہ حالات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو لامحالہ انسان اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ پوری دنیا ایک ہی سمت و سو حرکت کر رہی ہے۔ چاہے وہ مغرب سے اٹھنے والی آوازیں ہوں یا مشرق سے بلند ہونے والی صدائیں ،سب کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ انسان ، انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے ماتحت زندگی نہیں گزار سکتا ، انسان کو انسانی زندگی بسر کرنے کے لیے مافوق بشر طاقت کے بنائے ہوئے قانون کی ضرورت ہے ۔

تیس پینتیس سال پہلے ایرانی قوم کے اندر یہ شعور بیدار ہوا تو انہوں نے رہبر کبیر حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کی انوکھی رہبریت میں اپنے شعور کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اسلامی انقلاب قائم کر کے ایک نیا طرز زندگی اور جینے کا ڈھنگ دنیا والوں کو سکھایا، اسلام کو حیات مجدد عطا کی اور عالم اسلام کے لیے الہی حکومت کا ایک انمول اور بے نظیرعملی نمونہ پیش کیا۔

اسلامی بیداری میں اسلامی انقلاب کا کردار

اسلامی انقلاب کے وقوع پذیر ہونے کے ساتھ ایک بار پھر مستضعفین کو روئے زمین کی حکومت عطا کرنے والا اللہ کاسچا وعدہ عملی جامہ پہنتے ہوئے نظر آیا اور صاحبان ایمان کو ایک بار پھر زمین کے ایک خطہ میں الہی حکومت قائم کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ اوراسلام کا چمکتا ہوا سورج ایک بار پھر نئی روح و حیات لے کر سر زمین ایران کی افق سے نمودار ہوا اور دھیرے دھیرے پوری دنیا میں نور افشانی کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے اٹھنے والیں اسلامی تحریکیں اسی آقتاب عالمتاب کی روشنی میں اپنا راستہ ڈھونڈتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ جیسا کہ بین الاقوامی حوادث کے متعلق نظریہ پردازوں نے انقلاب اسلامی کے ذریعہ حیات مجدد حاصل کرنے والے اسلامی معاشروں کے سلسلے میں کہا:'' ایران میں امام خمینی کی حکومت کے آغاز کے ساتھ اسلام نے ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیا جس نے بہت مختصر وقت میں عالمی سطح پر اپنے ایسے سیاسی اور ثقافتی آثار و برکات نچھاور کئے جن کی ہر گز پیشنگوئی نہیں کی جا سکتی تھی''۔(ماہنامہ اسلام و غرب، شمارہ بہمن و اسفند٧٨ )

'' اسلامی انقلاب اور اس کے رہبر( امام خمینی) بے شک اسلام کو نئی زندگی دینے والی تحریک کے موجد ہیں جنہوں نے دوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی اپنی اسلامی ہویت اور شخصیت کو دوبارا حاصل کرنے کا سلیقہ سکھلا دیا۔ یہ تحریک قومیت سے بالاتر اثر و رسوخ کی حامل ہے''۔ ( پروفیسر کارسٹن کوپلر، شکل اسلام، ص٦٧)

'' امام خمینی نے اسلامی انقلاب کے ذریعہ نہ صرف ایرانیوں اور مشرقی وسطی کو بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو اپنا عاشق بنا دیا''۔ ( گراہام فولر امریکی، قبلہ عالم، جیوپولیٹیک ایران، ترجمہ عباس مخبر، ص١١١)

''جس طریقہ سے امام خمینی نے ایرانیوں کی زندگی کو معنی اور مفہوم دیا ہے اسی طریقہ سے کروڑوں مستضعف انسانوں کو زندگی کی امید دی ہے '' (فتحی شاقی، تحریک فلسطین کا رہبر، انتفاضہ و طرح اسلامی معاصر، ص٨٧)

''آج اسلامی انقلاب کے آثار و برکات ایرانی باڈر سے باہر نکل گئے ہیں اور مشرق وسطی میں سب سے بڑا سیاسی اور اسلامی تحریکوں کا محرک اسلامی انقلاب ہے''۔ ( ڈاکٹر ماروین زونیس، امریکہ یونیورسٹی کا استاد، رسالت نیوز اینجسنی کو انٹرویو دیتے ہوئے، ٧٩،١١،١٧)

'' انقلاب امام خمینی، مسلمان قوموں کو متحد کرنے کی غرض سے ان کے اندر اسلامی بیداری کی لہر پیدا کرنے میں سب سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے '' (شیخ عبد العزیز عودہ، )

'' آج شمال افریقہ سے لے کر ایشیا کے جنوب مشرق تک تمام اسلامی ممالک میں اسی انقلاب کی وجہ سے اسلامی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے اور ہر آئے دن اس کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا چلا جا ر ہا ہے''۔( پیتر۔ ال۔ برگر، معروف امریکی سوشیالیسٹ، افول سکولاریزم، ترجمہ افشار امیری، ص٢٣)

مسئلہ فلسطین پر انقلاب اسلامی کا اثر

خاص کر کے مسئلہ فلسطین جو فراموشیوں کے حوالہ ہو گیا تھا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس نے مسلمان قوموں کے اندر ایک نیا رخ اختیار کر لیا اور تمام مسلمانوں کی توجہات کا مرکز بن گیا۔ اور خود فلسطینی لوگوں کو اپنا حق حاصل کرنے اور فلسطین کو غاصب صہیونیسٹ سے آزادی دلانے کا ایک بہترین راستہ مل گیا اگر چہ ان کے درمیان امام خمینی (رہ)جیسے عظیم الشان رہبر کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں صحیح راہنمائی حاصل نہیں ہو سکی اور وہ آزادی حاصل نہیں کر پائے۔لیکن ابھی تک ان کے اندر جو اسرائیل کے خلاف مقاومت اور مقابلہ کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ صرف انقلاب اسلامی کی دین ہے جیسا کہ ایک اسکالر کا کہنا ہے:

'' ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے فلسطینی انقلاب اور عوام پر بہت گہرا اثر ڈالا'' ۔( شیخ عبد اللہ شامی، تحولات انقلابی در ایران، جمیلہ کدیور، پایان نامہ کارشناسی ارشد، ص١٤٢)

اور'' فلسطینی عوام نے یہ احساس کر لیا کہ اسرائیل کو شکست دینا ممکن ہے''۔( فتحی شقاقی، مذکورہ حوالہ)

اسلامی ثقافت کی تجدید حیات

تحریک امام خمینی (رہ) اور اسلامی انقلاب نے اسلامی معاشروں پر ایک اثر یہ بھی چھوڑا کہ اسلامی معاشروں میں شعائر اسلامی کی عظمت دوبارہ زندہ ہوئی، مسلمانوں کے اندر اپنے مقدسات کی حفاظت کا جذبہ بیدار ہوا اور ان کے تحفظ کی ہمت اور غیرت ان کے اندر پیدا ہوئی ، جوان نسل میں خاص کر اسلامی تفکر نے جگہ حاصل کی، ان کے نزدیک مذہب کا پاس و لحاظ رکھنے کا جذبہ اجاگر ہوا۔جوانوں نے جگہ جگہ اسلامی کانفرانسیں اور سمینار منعقد کروانے شروع کئے، مذہبی پروگراموں میں جوانوں کی شرکت میں اضافہ ہوا اور دینی امور میں نسل جوان پیش قدم نظر آنے لگی۔ اوراسلامی ممالک میں مخصوصا اسلامی ثقافت نے دوبارہ زندگی حاصل کی وہ اسلامی ثقافت جو ایک عرصہ سے استعماری طاقتوں کے ظلم و ستم اور انگریزوں کے کلچر کا نذرانہ بن چکی تھی، مسلمان اپنے تمدن کو چھوڑ کر انگریزی تمدن کو اپنانا اور ان کے جیسی زندگی بسر کرنا اپنا افتخار سمجھتے تھے لیکن انقلاب اسلامی ایران کے بعد وہی مسلمان اسلامی تمدن و ثقافت کو اپنانے میں نہ صرف کسی قسم کی شرم و عار محسوس نہیں کرتے بلکہ اسلامی نظام حکومت کو قائم کرنے کے لیے اپنی قربانیاں دیتے ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای مد ظلہ العالی جوانوں کے لیے امام خمینی (رہ)کے مسیحا ہونے اور ان کے اندر اسلامی اور مذہبی روح پھونکنے کے بارے میں فرماتے ہیں:

'' اس انقلاب کے بانی امام بزرگوار نے مسلمانوں کو نشاط بخشا، اسلام کو زندہ کیا اور آج اسلام، نسل جوان اور روشن فکروں کی آرزو اور امید ہے'' (سخنرانی معظم لہ دومین سالگرد رحلت امام(رہ) ١٤،٣،٧٠ش)

دنیا اسلام ناب محمدی (ص)کی پیاسی

آج کا انسان معنویت سے دور اور سراب مانند دنیا کے زرق و برق سے تھک چکا ہے وہ ایک ایسے سر چشمہ حقیقت کی تلاش میں ہے جو اس کی زندگی کو معنی اور مقصد عطا کرے ،وہ ایسے پر امن سفینہ کی تلاش میں ہے جو اسے طوفان دنیا سے بچا کر ساحل نجات تک پہنچا دے ،وہ ایسی روشن شمع کو ڈھونڈ رہا ہے جو اسے مادیت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر معنویت کی سحر سے ہمکنار کر دے۔ لہذا ایسے میں سوائے اسلامی و الہی تعلیمات کے کوئی اور روشنی اسے ظلمتوں سے نہیں نکال سکتی۔ اللہ ولی الذین آمنو یخرجھم من الظلمات الی النور( بقرہ،٢٥٧)

امام خمینی(رہ) پوری دنیا کے انسانوں کی دلی تڑپ کو بھانپ چکے تھے وہ یہ محسوس کر چکے تھے کہ آج کے انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ لہذا انہوں نے یہ فرمایا: ''امروز جھان تشنہ فرھنگ اسلام ناب محمدی است'' ۔ آج دنیا حقیقی اسلامی ثقافت کی پیاسی ہے۔(صحیفہ نور،ج ٢٠،ص٣٣)

انقلاب اسلامی ایران سے پہلے بہت سارے فلاسفر دین عیسائیت کی طرح اسلام کو بھی ایک پرانا اور فرسودہ دین سمجھتے تھے کہ جس کی مدت تمام ہو گئی ہو ، جس کا اعتبار ختم ہو گیا ہو، جیسا کہ جرمنی کے ایک فلاسفر ہیگل کا کہنا ہے: ''تاریخی اعتبار سے اسلام کا سماج میں اثرختم ہو چکا ہے''(نشریہ پرتو ٨،٢،٨٢ ش ص ١٧٦)۔ لیکن اس کا یہ فیصلہ محض ایک خطا تھی ۔ انقلاب اسلامی ایران نے اسلام کو ایک زندہ اور ماورائے تاریخ دین ثابت کر کے یہ بتا دیا کہ ہیگل اور اس کے جیسے دیگر فلاسفروں کے نظریات دین عیسائیت کے سلسلے میں تو سچے ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اسلام کے بارے میں تویہ صرف ایک وہم و خیال ہیں ۔اسلام ایسا زندہ و جاوید دین ہے جسے تاریخی اوراق فرسودہ نہیں کر سکتے۔ وہ ایک ایسی لایزال حقیقت ہے جو تاریخ کو وجود اور حیات دیتی ہے نہ کہ گزر تاریخ سے اس کے اعتبار پر کوئی فرق پڑتا ہے۔

ایران کا انقلاب قومی اور ملی انقلاب نہیں تھا جس نے صرف ایرانی قوم کو استعماری طاقتوں سے آزادی دلائی ہو بلکہ وہ ایک اسلامی انقلاب ہے۔ اس نے اسلام کواستعماری اذہان اور تفکرات کی زنجیروں سے آزادی دلائی، اسلام کو تاریخ کے بیابانوں میں پژمردہ اور فرسودہ ہونے سے بچا لیا اور اس تصور کو لوگوں کے ذہنوں سے پاک کر دیا کہ دین صرف نماز و روزہ کا نام ہے دین صرف مسجد و منبر تک محدود ہے سیاست اور حکومت سے اس کا کوئی رابط نہیں ہے ۔ بلکہ انقلاب اسلامی نے اس چیز کو ثابت کر دیا کہ دین در حقیقت اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگوں کے نظام زندگی کو منظم و مرتب کرے ، سماج میں عدل و انصاف کو قائم کرے اور انہیں دنیوی اور اخروی سعادت سے ہمکنار کرے۔ دین اور سیاست دو الگ مقولے نہیں ہیں بلکہ ایک سکہ کے دو رخ ہیں۔ دین عین سیاست ہے لیکن نہ وہ سیاست جس میں دھوکہ بازی اور جھوٹ و مکاری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔ دینی سیاست وہ سیاست ہے جس کی مثال امیر المومنین علی علیہ السلام کے چار سالہ دور خلافت میں نظر آئی یا پھر اس کی ایک جھلک آج اسلامی جمہوریہ ایران کی صورت میں دکھائی دے رہی ہے۔

تحریک امام(رہ) کا دیگر ممالک میں پھیلنا

آج جو اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کے عنوان سے ایک عظیم الشان لہر پھیلی ہے اس کی پیشنگوئی خود امام خمینی (رہ) کر چکے تھے جیسا کہ انہوں نے اپنی متعدد تقریروں میں فرمایا:'' آج آپ کی تحریک اور آپ کے انقلاب کی موج پوری دنیا میں جا چکی ہے ( صحیفہ نور، ج ١٧، ص٦٣)۔'' آ پ کا انقلاب الحمد للہ دنیا میں پھیل چکا ہے نہ کہ پھیلے گا''۔ ( وہی حوالہ، ج١٨،ص١٦٩)۔'' اسلام نے الحمد اللہ پوری دنیا میں جلوہ نمائی کی ہے ''۔(وہی، ج ١٨ص١٤٠)۔ ''آپ لوگ جان لیں کہ مرکز ایران سے اسلام کا سایہ پوری دنیا میں پھیلا ہے '' (وہی، ج ١٩ص١٩٥)۔'' ہمارا انقلاب پھیل چکا ہے اور ہر جگہ اسلام کا نام ہے اور مستضعین نے اسلام سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں''۔ ( وہی، ج ١٥،ص٢٠٠)

''پوری دنیا میں انقلاب اسلامی کے چاہنے والے ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ ۔۔میں اپنی شجاع قوم کی خدمت میں عرض کروں کہ خداوند عالم نے آپ کی معنویت کے آثار و برکات کو پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے''۔( وہی حوالہ، ج٢٠،ص٣٣)

امام خمینی رضوان اللہ علیہ سالہا قبل یہ واضح طور پر فرما چکے تھے کہ ہمارا انقلاب ایرانی حدود سے نکل چکا ہے ہمیں اس کے اکسپورٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگرچہ اس وقت بعض لوگوں کی عقلوں پر یہ بات گراں گزری تھی اور انہیں ہضم نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آج ان کی باتوں کی صداقت ہر آنکھ مشاہدہ کررہی ہے کہ کس قدر دوسری قوموں نے انقلاب اسلامی کی پیروی میںاور اس سے اثر قبول کرتے ہوئے انقلابات برپا کرنے کی کوششیں کیںاور کر رہے ہیں انشا اللہ ان کی یہ کوششیں مثمر ثمر واقع ہوں۔

خداوند عالم سے دعاگو ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمانوں بلکہ انسانوں کے ضمیر بیدار ہوں اور وہ دین الہی کی اہمیت کو سمجھیں اور اسے بلادستی اور سربلندی عطا کرنے کی کوشش کریں۔

 

بقلم: جعفری

Sunday, 16 March 2014 11:42

لندن کی مرکزی مسجد:

لندن کی مرکزی مسجد:

لندن کی مرکزی مسجد (London Central Mosque) برطانیہ کے شہر لندن میں ایک بڑی مسجد ہے اور یہ مسجد محلہ “ وستمینسٹر” میں واقع ہے۔ یہ مسجد مرکز اسلامی لندن س متصل ہے۔

لندن کی مرکزی مسجد:

۲۴ اکتوبر ١۹۴۰ء میں برطانیہ کی اس وقت کی حکومت نے مسلمانوں کے لئے اس مسجد کی تعمیر کا ابتدائی بجٹ معین کرنے کے ضمن میں ایک زمین کا رقبہ بھی عطا کیا۔

لندن کی مرکزی مسجد، سرکاری طور پر ١۹۴۴ء میں جارچ ششم کے ہاتھوں افتتاح ھوئی اور لندن کے مسلمانوں کو عطیہ کے طور پر دیدی گئی، لیکن جنگ اور دوسری وجوہات کی بناء پر اس کا باضابطہ افتتاح ۳۴ سال تک ملتوی کئے جانے کے بعد ١۹۷۸ء میں ھوا۔

لندن کی مرکزی مسجد:

اس مسجد کا نقشہ “ سرفرڈریک کییرڈ” نے بنایا ہے۔ اس مسجد کا دوسری مساجد کے مانند ایک خوبصورت گنبد ہے۔ اس گنبد کا بیرونی منظر طلائی رنگ کا ہے اور اس کی اندرونی چھت کو اسلامی آرٹ سے مزین کیا گیا ہے۔

لندن کی مرکزی مسجد:

مسجد کی اصلی عمارت میں نماز گزاروں کے لئے دوبڑے ہال ہیں۔ اس کا ایک حصہ تین طبقوں پر مشتمل ہے، جس میں کانفرنس ہال، کتابخانہ، ریڈنگ روم، دفتر اور مینار ہیں۔ اس مسجد کا اصلی ہال، لندن کے مسلمانوں کے لئے نماز پڑھنے اور ان کی معنوی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس میں بیک وقت ٦۰۰۰ سے زائد افراد نماز پڑھ سکتے ہیں ۔۔۔ اصلی ہال کے مشرقی ایوان پر خواتین کا نماز خانہ ہے۔

اس مسجد کے اصلی ہال میں ایک بڑا جار نصب کیا گیا ہے اور پورے ہال میں جانماز نما قالین بچھایا ھوا ہے ۔

اس مسجد سے ملحق ایک چھوٹی کتاب فروشی کی دوکان اور حلال گوشت والا قہوہ خانہ بھی ہے۔

لندن کی مرکزی مسجد:

مسجد کا صدر دروازہ

ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا دورۂ ایران

رپورٹ کے مطابق تحریک منہاج القرآن کے سربراہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دورۂ ایران کے دوران ایران کی ممتاز مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں آیت اللہ صافی گلپائیگانی، آیت اللہ محسن اراکی اور آیت اللہ حسین نوری ہمدانی شامل ہیں۔ اس دورہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہمراہ تحریک منہاج القرآن کی سپریم کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، داؤد حسین مشہدی اور آغا مرتضی پویابھی موجود ہیں۔

 

قم شہر پہنچے پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایران کے ممتاز مذہبی رہنما آیت اللہ صافی گلپائیگانی سے ملاقات کے دوران امت مسلمہ کے اتحاد کو وقت کی اہم ضرورت جبکہ خارجی فتنہ اور انتہاء پسندی کو مسلم امہ کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا، ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ دہشتگرد اور انتہاء پسند اس دور کے خوارج ہیں جن کی مسلح جدو جہد کا آغاز امیر المومنین علی (ع) کے دور میں ہوا اور انہیں طاقت کے ذریعے کچلا گیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے احادیث نبوی (ص) اوراہلِ بیت اطہار کی عظمت پر اپنی تصانیف بھی آیت اللہ صافی کو پیش کیں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے ایران کی مجلس خبرگان (اسمبلی آف ایکسپرسٹس) کے سابق ممبر اور ایران کے ممتاز سیاسی و مذہبی رہنماء آیت اللہ محسن الاراکی اور آیت اللہ حسین نوری ہمدانی سے بھی ملاقات کی ۔ڈاکٹر طاہرالقادری نے قم شہر میں واقع مکتبہ المرعشی نجفی کا دورہ بھی کیا جو کہ مسلم دنیا کی قدیم ترین لائبریریوں میں سے ہے جہاں عربی، فارسی، اردو اور ترکش زبان میں مختلف مذہبی موضوعات پر ہاتھ سے تحریر شدہ 40000 سے زائد کتب موجود ہیں۔

مسجد الاقصی میں نماز ادا کرنا دلی تمنا ہے۔ دیمبابا

برطانوی فٹبال کلب چلسی کے فارورڈ دیمبابا نے کہا کہ ان کی دیرینہ خواہش ہے کہ وہ مسجد الاقصی جائیں اور وہاں پر نماز ادا کریں۔ انہوں نے کہا غزہ کی پٹی میں افراد بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں لہذا اگر مشکلات نہ ہوں تو وہ وہاں جاکر لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔

دیمبابا نے کہا کہ مغربی ممالک میں اسلام کو صحیح طریقہ سے پیش نہیں کیا گیا ہے اسلام ایک ایسا جامع دین ہے جس میں زندگی کے تمام شعبہ جات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ سنگال سے تعلق رکھنے والے اس فٹبال اسٹار کا کہنا تھا کہ وہ نیوکاسل کی مسجد میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ نماز یومیہ کیلئے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ چلسی کے یہ فٹبالر گذشتہ سال مناسک حج کے سلسلہ میں مكه مكرمه اور مدينه منوره بھی گئے تھے۔

فلسطین کے لئے امریکی منصوبہ نا قابل قبول

حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے تاکید کی ہے کہ فلسطین کے لئے امریکی وزیر خارجہ کا منصوبہ قابل قبول نہیں ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل شیخ "نعیم قاسم" نے ایک اردنی وفد کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ جان کیری کے منصوبے میں فلسطینی سرزمینوں پر صہیونیوں کے غاصبانہ قبضے کو قانونی حیثیت دی گئی ہے اور ملت فلسطین کو پناہ گزین کیمپوں میں محدود کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے منصوبے کی بنیاد پر ، غاصب صہیونی حکومت اور فلسطین کی خود مختار انتظامیہ کے درمیان حتمی سمجھوتے کی صورت میں فلسطینی پناہ گزین ، اپنے آبائی وطن واپسی کے حق سے محروم ہوجائینگے اور صہیونی حکومت غرب اردن کے مشرقی علاقے "اغوار" کے فلسطینی علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لے گی اور اس علاقے پر اپنا قبضہ جما لے گی۔ اردنی وفد نے بھی اس ملاقات میں کہا کہ وہ فلسطین کے حوالے سے جان کیری کے منصوبے کے سامنے مزاحمت کرینگے۔

عمّار حکیم: دھشتگردانہ بم دہماکوں کی مذمت، عوام کا قتل عام ناقابل قبول

عراق کی مجلس اعلی اسلامی کے سربراہ "سید عمّار حکیم" نے اس ملک میں اپنے ایک خطاب میں عراق کے مختلف شہروں اور علاقے کے بعض ملکوں میں دھشتگردانہ دہماکوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرائم اس بات کی دستاویز ہے کہ دھشتگرد گروہ عام شہریوں کے قتل عام اور اسلامی ملکوں میں عوام کے امن و استحکام کو درہم برہم کرنے کے درپے ہیں۔ "سید عمّار حکیم" نے مزید کہا کہ دھشتگردی کے خلاف جنگ ، ہمہ جہتی اور طویل مدت کی جنگ ہے اور عراق کے عوام اپنے ملک میں امن و استحکام کی برقراری کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے آمادہ ہیں اور ان کی یہ جدوجہد دھشتگردی کی لعنت کے مکمل خاتمے تک جاری رہے گی۔ انہوں نے عراق کی سیکیورٹی فورسیز سے اپیل کی کہ عراق کے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لئے پہلے سے زیادہ کوشش کریں۔

 

شیخ الازہر کی نظر میں تکفیریت سب سے بڑا خطرہ

مصر کی اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ احمد الطیب نے کہا ہے کہ تکفیریوں کے فتوے ان آخری سالوں میں شدت اختیار کر گئے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کا خون بہانا آسانی سے حلال ہو گیا ہے۔

احمد الطیب نے مصر ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی گروہ دوسروں پر کفر کا فتویٰ لگانے کا حق نہیں رکھتا اسلام میں جب ایک شخص شہادتین کو زبان پر جاری کر دیتا ہے اور قبلہ رخ ہو کر نماز کی ادائگی کرتا ہے تو اس کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تکفیریت سماج کو کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہے اور اسلامی سماج کو کمزور بنانا عالمی صہیونیت کے مقاصد میں سے ایک ہے۔

احمد الطیب نے واضح کیا کہ ذمہ دار اور عقلمند افراد خاص طور پر علمائے دین تکفیریت کی بیماری کو سماج سے ختم کریں تاکہ اسلامی سماج اختلاف و انتشار سے دور ہو۔ تکفیریت کا موضوع اس قدر شدید ہو گیا ہے کہ اس سے بچ کر رہنے کی ضرورت ہے اور جو لوگ سماج میں اختلاف کا بیج بونے کے در پہ رہتے ہیں ان پر روک تھام لگائی جانی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے ہفتہ ماحولیات اور شجر کاری کی مناسبت سے زمین میں ایک پودا کاشت کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ملک کی سبز فضا کو توسیع اور فروغ دینے کے شعبہ میں سرگرم تمام افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: میں تمام حکام اور عوام سے سفارش کرتا ہوں کہ وہ سبز فضا کے مسئلہ پر خصوصی توجہ مبذول کریں، اور اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت سے ملک اور قوم کو محروم کرنے کی کسی کو اجازت نہ دیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےماحولیات کے مسئلہ کو بہت ہی اہم مسئلہ قراردیا اور ملک میں غبار اور چھوٹے ذرات کے وارد ہونے کے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس مشکل کو برطرف کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر حکومت کے تمام شعبوں کو ہم آہنگی کے ساتھ تعاون اور اقدام کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سبز فضا کی حفاظت کے سلسلے میں تمام شعبوں کے زیادہ سے زیادہ اہتمام کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: " ہر ایرانی ایک درخت " کا نعرہ اچھا نعرہ ہے۔ اور سبز فضاؤں کو تخریب کرنے والے ہاتھوں کو روکنا چاہیے اور اس عظیم سرمایہ کو لوہے اور سمنٹ میں تبدیل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور سؤ استفادہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔

اس موقع پر زراعت کے وزیر ، زراعت کے شعبہ میں ولی فقیہ کے نمائندے اور تہران کے میئر بھی موجود تھے۔

رہبر معظم کی فضائیہ کے اعلی کمانڈروں اور اہلکاروں سے ملاقات

۲۰۱۴/۰۲/۰۸ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے بعض اعلی کمانڈروں اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے اور ملکی استقلال کی حفاظت کو انقلاب اسلامی کے اصلی اصولوں میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکام کے گستاخانہ اور غیر مؤدبانہ اظہارات سب کے لئےسبق آموز اور عبرت کا باعث ہیں اور ایرانی قوم کو حالیہ مذاکرات اور امریکیوں کے گستاخانہ اظہارات کو زیر نظر رکھنا چاہیے۔رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی طرح ملک کے استقلال کی حفاظت کے سلسلے میں امریکہ کے بارے میں حضرت امام خمینی (رہ) کے خطوط اور انقلاب اسلامی کے گرانقدر اقدار اور اصولوں پر صریح اور واضح اعتماد اور توجہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے اقتدار، استحکام اور باقی رہنے کا اصلی راز یہ ہے کہ انقلاب اسلامی عوام کے ارادوں ، محبتوں اور ان کے ایمان پر استوار ہے اور ایرانی قوم اس سال 22 بہمن کی ریلیوں کے موقع پر انقلاب کے نعروں کو مضبوط اور مستحکم انداز میں لگائےگي اور ایک بار پھر دنیا کے سامنے قومی اقتدار اور استقامت کا شاندار مظاہرہ کرےگی۔

یہ ملاقات19 بہمن 1357 ہجری شمسی میں فضائیہ کے اہلکاروں کی طرف سے حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ تاریخی عہد کی مناسبت سے منعقد ہوئی ، رہبر معظم انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے اس تاریخی واقعہ کو مختلف پہلوؤں کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: انیس بہمن کے واقعہ کا ایک اہم پہلو فضائیہ اور پھر پوری فوج میں استقلال کا احساس پیدا کرنا تھا کیونکہ یہی جذبہ اندرونی صلاحیتوں پر اعتماد اور خود اعتمادی کے جذبہ میں تبدیل ہوگیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے استقلال کے مفہوم کی تشریح میں نئےاستعمار کے جدید طریقوں اور دیگر ممالک میں براہ راست مداخلت کے بجائے اپنے عناصر سے استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جدید استعمار کے ساتھ مقابلے کے لئے ڈکٹیٹر اور ظالم حکمرانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے علاوہ ان کے غیر ملکی اور بیرونی حامیوں کے ساتھ مقابلہ کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ ان کے بیرونی حامیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے بغیر آپ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پائيں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں بعض علاقائي انقلابات کی تقدیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: وہی انقلاب کامیاب ہوگا جو موجودہ ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے والی پس پردہ طاقت کو پہچان لےگا اور ڈکٹیٹر کی حمایت کرنے والی اس استعماری طاقت کے ساتھ سازشی مذاکرات کرنے کے بجائے اس کا مقابلہ کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسی بنیاد پر حضرت امام خمینی (رہ) نے جوانوں کے توسط تہران میں امریکہ کے سابق سفارتخانہ پر قبضہ کو پہلے انقلاب سے بڑا انقلاب قراردیا کیونکہ اس حرکت سے معلوم ہوگیا کہ ایرانی قوم نے شاہ ایران کی طاغوتی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شاہ کی حامی استعماری طاقت کو بھی پہچان کر اس کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تسلط پسند طاقتوں کی شناخت اور ان کے ساتھ مقابلہ در حقیقت واقعی اور حقیقی استقلال ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: غیر ملکی تسلط پسند طاقتیں ہر ملک کے استقلال سے خوفزدہ ہوتی ہیں لہذا دیگر قوموں اور دوسرے ممالک کے حکام سے استقلال کی حس کو کمزور اور سلب کرنے کی ان کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے استقلال کو پیشرفت کے منافی قراردینے کو استعماری طاقتوں کا دلچسپ فریب قراردیتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند اور استعماری طاقتوں کے اندرونی عوامل اور تبلیغاتی ادارے یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ قومی تشخص اور مفادات پر اعتماد پیشرفت کے منافی ہے لہذا اگر کوئي ملک پیشرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے استقلال کی طرف رغبت کم کردینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ بات بالکل غلط ہے اور ایسے لوگوں کی طرف سے بنا کر پیش کی گئی ہے جو دوسرے ممالک کے استقلال کے خلاف ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: استقلال کے معنی بداخلاقی اور دنیا سے ناراض اور الگ تھلگ ہونے کے نہیں ہیں بلکہ استقلال کے معنی ایسے ممالک کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں مضبوط و مستحکم اور سیسہ پلائي ہوئی دیوار قائم کرنا ہے جو اپنے مفادات کو دوسری قوموں کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کی حفاظت کے لئے انقلاب کے اقدار اور اصولوں پر صاف و شفاف اعتماد کو لازمی قراردیا اور نظریات و مواضع کے صریح اور واضح بیان کرنے میں حضرت امام خمینی(رہ) کی سیرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نےطاغوتی ، استبدادی ،ظالم اور سلطنتی حکومت کے بارے میں اپنا مؤقف بالکل واضح ، صاف و شفاف طور پر بیان کیا، اور حضرت امام (رہ) نےاسلام اور اسلامی اقدار پر مبنی نظام کے قیام اور نفاذ کے بارے میں بھی اپنے مؤقف کا صاف طور پراعلان کیا ، اسی طرح حضرت امام (رہ)نے خطرناک عالمی صہیونی نیٹ ورک اور اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کے بارے میں بھی اپنے مؤقف کو صاف و شفاف طریقہ سےبیان کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نے بغیر کسی پردہ پوشی کے اس بین الاقوامی تسلط پسند نظام کو رد کیا جس نے دنیا کو تسلط پسند اور تسلط پذير کے لحاظ سے تقسیم کررکھا ہے اور حضرت امام خمینی (رہ) نے تسلط پسند نظام یعنی امریکی حکومت کے مقابلے میں حقیقی معنی میں صاف اور شفاف مؤقف اختیار کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ موارد اسلامی انقلاب کی بنیادیں اور اصول ہیں اور 35 برس گزرنے کے بعد بھی ان اصولوں اور اہداف میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے اسلامی نظام اپنے اصولوں پر قائم رہ کر آگے کی سمت بڑھ رہا ہے اور اس نے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز ترقی اور پیشرفت بھی حاصل کی ہے اور اسلامی نظام کی بدولت آج ایران علاقہ کی ایک اہم طاقت اور بین الاقوامی سطح پر ایک مؤثر ملک بن گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب کے اہداف اور اصول پر ایرانی قوم کی مضبوط و مستحکم استقامت و پائداری اس بات کا موجب بن گئي ہے کہ حالیہ برسوں میں تسلط پسند طاقتوں اور ان کے تبلیغاتی اداروں کی جانب سے ایران سے خوفزدہ کرنے کی ان کی پالیسی ناکام ہوگئی ہے اب عالمی قومیں اور غیر جانبدار شخصیات ایرانی قوم کو دلیر، شجاع ، صداقت پسند، صبور، ذہین اور مضبوط قوم کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج ایرانی قوم کی عزت و عظمت میں نہ صرف کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ اس کے عز و وقار میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے مقابلے میں امریکہ سے عالمی اقوام مزید متنفر ہوگئی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کی بقا کا راز ، حضرت امام (رہ) کے اصلی خطوط پر حرکت اور مؤقف کے صریح بیان کو قراردیتے ہوئے فرمایا: دوستوں اور دشمنوں کے سامنے اپنے مؤقف کو صراحت اور شفافیت کے ساتھ بیان کرنے میں بالکل ہچکچانا نہیں چاہیے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے مؤقف کو صریح اور واضح طور پر بیان کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکمت عملی اور طریقہ کار کو تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن اصول اور ہدف کو مضبوط اور مستحکم طور پر باقی رہنا چاہیے اور یہی مسئلہ ملک کے استحکام اور پیشرفت کا اصلی راز ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے دوستوں اور دشمنوں کی دقیق شناخت کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: دنیا میں انقلاب اسلامی کے دشمن چند فاسد اور بے شرم ممالک ہیں لیکن تمام وہ قومیں انقلاب اسلامی کی دوست ہیں جنھوں نے انقلاب کے نعروں اور استقامت کے پیغام کے ساتھ ایرانی قوم کی مظلومیت کو درک کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے اقتدار اور استحکام کے راز کو عوام کی طرف سے اسلامی نظام کی حمایت اور نظام کے ساتھ ان کے گہرے لگاؤ کو قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں امریکی حکام یہ کہتے ہیں کہ ہم ایرانی حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش میں نہیں ہیں حالانکہ وہ جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ اگر ان میں ایسا کرنے کی ہمت ہوتی تو وہ اس میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہ کرتے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی نظام کو تبدیل نہ کرسکنے کی امریکہ میں عدم توانائی کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اسلامی نظام عوام کے ایمان ، محبتوں اور ان کے ارادوں پر استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دسیوں سال گزرنے کے بعد عوام کی میدان میں موجودگي، اور ان کی طرف سے انقلاب ، اس کے نعروں اور اس کےاقدار کی حمایت کو دنیا میں بے مثال قراردیتے ہوئے فرمایا: بائیس بہمن کے دن سبھی مشاہدہ کریں گے کہ ایرانی قوم ایک بار پھر قدرت اور قوت کے ساتھ میدان میں حاضر ہوگی اور دنیا کے سامنے اپنا قومی اقتدار نمایاں کرےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے ایرانی قوم کی کامیابی اور ترقیات کے راز کو استقامت اور قومی سلامتی کے راز کو قومی اقتدار کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: قومی اقتدار کے جلوؤں میں ایک جلوہ 22 بہمن کی ریلیوں جیسے عظیم عوامی اجتماعات اور اسی طرح گوناگوں انتخابات ہیں اور جب عوام قومی اقتدار کو دشمن کے رخ پر ملتے ہیں تو اس وقت دشمن بے بس اور ناتواں ہوجاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے حالیہ اظہارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکام کے بیانات اور اظہارات ہماری قوم کے لئے عبرت آموز اور سبق آموز ہیں اور ایرانی عوام کو حالیہ مذاکرات اور امریکی حکام کے غیر مؤدبانہ اظہارات کو زیر نظر رکھنا چاہیے تاکہ دشمن کو سبھی اچھی طرح پہچان لیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کی نظر میں امریکہ کی دشمنی تبدیل کرنے کے سلسلے میں بعض افراد کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکام کے انھیں اظہارات میں امریکہ کی دشمنی، عداوت اور اس کی دوگانہ اور متضاد پالیسی کو ملاحظہ کیجئے، امریکی حکام خصوصی جلسات میں ہمارے حکام کے ساتھ جو بات کرتے ہیں جلسہ سے خارج ہونے کے بعد اسے تبدیل کردیتے ہیں اور کسی دوسرے انداز میں اسے پیش کرتے ہیں یہ وہی دشمن کی دوگانہ ، منافقانہ اور بری نیت ہے اور ایرانی قوم کو ان موارد پر دقت کے ساتھ نظر رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: امریکی حکام کے اظہارات اور بیانات ، ملکی حکام کے لئے ہماری اس دائمی سفارش " یعنی اندرونی اقتدار کی حفاظت " کے درست ہونے کا مظہر ہیں اور خوش قسمتی سے اقتصادی حکام اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ مشکلات کو برطرف کرنے کا راستہ اندرونی ساخت کو مضبوط بنانے پر استوار ہے اور انھوں نے اس کام کے لئے ضروری مقدمات کا آغاز کردیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کا واحد راستہ ، اندرونی بیشمار ظرفیتوں پر توجہ مبذول کرنا ہے اور اس سلسلے میں اقتصادی پابندیاں اٹھانے اور غیر ملکی وسائل پر توجہ نہیں رکھنی چاہیے، دشمن کی طرف نظر نہیں رکھنی چاہیے اور دشمن سے توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کے ساتھ دوستی پر مبنی امریکی حکام کے بعض اظہارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی حکام اس سلسلے میں بھی جھوٹ بول رہے ہیں وہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ ہم ایرانی قوم کے دوست ہیں اور دوسری طرف ایرانی قوم کو دھمکیاں دیتے ہیں اور یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی دفاعی طاقت کو کم کردے اور یہ حقیقت میں ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

ایرانی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے فرمایا: مسلح افواج کے مختلف شعبوں میں ایرانی قوم اور حکام، اللہ تعالی کی توفیق سے روز بروز اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی افرادی قوت پر اعتماد کو ملک کی نجات اور مختلف اقتصادی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل کو حل کرنے کا بہترین راستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: پائدار و مزاحمتی اقتصادی پالیسیوں کو عنقریب ابلاغ کردیا جائےگا اور اس کے ساتھ پائدار اور مزاحمتی اقتصاد کے لئے ضروری اقدامات اور انتظامات کو عمل میں لایا جائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام اور حکام کو بعض سفارشات بھی کیں۔

پہلی سفارش ، قوم ، حکام اور اعلی شخصیات کے درمیان اتحاد کی حفاظت اور ضمنی مسائل کو اصلی مسائل سے دور رکھنے کی تاکیدپر مبنی تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: آج اندرونی اقتدار اور مخالف سمت سے آنے والے طوفانوں کے مقابلے میں استقامت ایرانی قوم کی اصلی حرکت اور اصلی مسئلہ ہے اور اللہ تعالی کے لطف و کرم سے ایرانی قوم گذشتہ 35 برس کی طرح ان طوفانوں کو بھی خنثی اور غیر مؤثر بنادےگی۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: ملک کے حکام اور مدیروں کو عوام پر اعتماد کے ذریعہ عوام اور حکام کے درمیان اتحاد کو فروغ دینا چاہیے اور اسی طرح حکام پر عوام کے اعتماد کو بھی بڑھانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کی دوسری سفارش حکومت پر تنقید کرنے والوں اور اسی طرح حکومتی اہلکاروں کے بارے میں تھی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت پر تنقید کرنے والوں کو انصاف اور سعہ صدر کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: حکومت نے چند ماہ پہلے ذمہ داری کو دوش پر لیا ہے اور حکام کو موقع فراہم کرنا چاہیےتاکہ وہ کام کو قدرت اور طاقت کے ساتھ آگے بڑھا سکیں، اور اس کے ساتھ ہی تنقید کرنے والوں کو وسیع القلب ہونا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کو بھی تنقید کرنے والوں کے ساتھ سعہ صدر سے پیش آنےکی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: سب کو ایکدوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک میں دشمن کے بعض عناصر کی موجودگي کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان عناصر کے بارے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی انھیں بعض کمزور نقاط سے استفادہ کرکےملک کی پیشرفت میں خلل ایجاد کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: سبھی کو ایکدوسرے کے تعاون کے ساتھ حضرت امام خمینی (رہ) اور ملک کی پیشرفت اور اقتدار کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے اور یہ قوم تمام امور کو بہترین شکل میں آگے بڑھانے میں کامیاب ہوجائےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم دشمنوں پر ایٹمی معاملے میں اور دیگر معاملات میں کامیاب و کامراں ہوجائےگی۔

اس ملاقات کے آغاز میں ایرانی فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل حسن شاہ صفی نے حضرت امام حسن عسکری (ع) کی ولادت باسعادت اور انیس بہمن کو حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ فضائيہ کے عہد کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور فضائیہ کی پیشرفت،ترقی و توانائي کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: ایرانی قوم اور ایرانی فضائيہ کے جوان کسی بھی نقطہ میں دشمن کی طاقت کو توڑنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایرانی فضائیہ کے سربراہ نے مغرب کے شکست خوردہ سیاستدانوں کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی آپشن کو میز پر رکھنے کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:آٹھ سالہ دفاع مقدس اور استقامت اور سامراجی نظام کی ذلت و حقارت ہماری اور ان کی مشترکہ تاریخ ہے اور ہم خالی ہاتھ رجز خوانوں کو اس کے مطالعہ کی دعوت کرتے ہیں اور یقینی طور پر ہمارا جواب مضبوط ، مستحکم ، غافلگير اور دنداں شکن ہوگا۔