
Super User
امریکہ پر حامد کرزئی کی تنقید
صدر حامد کرزئی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغان عوام، امن کے خواہاں ہیں اور کابل واشنگٹن معاہدہ افغان عوام کیلئے امن و سکون کا باعث بننا چاہیئے۔ افغانستان کے صدر نے کہا کہ طالبان کے خلاف امریکہ کی مہم میں صداقت نہیں پائی جاتی اور افغانستان کے مختلف علاقوں پر امریکی حملے، کہ جن میں عام شہری مارے جارہے ہیں، اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ، افغانستان میں امن کا خواہاں نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کی برقراری کیلئے امریکہ کو اس ملک کے رہائشی علاقوں پر حملے فوری طور پر بند کرنا ہوں گے۔واضح رہے کہ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کابل واشنگٹن سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کو اپنے ملک میں امن و استحکام کی برقراری اور افغان عوام کے رہائشی مکانات پر امریکی حملے بند کئے جانے سے مشروط کیا ہے۔
امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں اتحاد
اسلامي فرقوں كے درميان سياسي اختلافات كي وجہ سے زيادہ گہرے ہوجانے والے نظرياتي اور عقائدي اختلافات كو مدنظر ركهتے ہوئے اتحاد كي راہ ميں دو طرح كے اقدام كئے گئے: بعض افراد نے تقريب مذاہب كا بيڑا اپنے سر اٹها ليا جس ميں شيعہ حوزہ ہائے علميہ اور الازهريونيورسٹي نے اپني علمي حيثيت و منزلت كے مطابق اتحاد كي راہ ميں قدم آگے بڑهائے۔ دوسرے بعض افراد نے بهي مذہبي اختلافات كے سلسلہ ميں گفتگو سے پرہيز كركے سياسي اتحاد برقرار كرنے كي كوشش كي اور مسلمانوں كي بےنظير طاقت كو مدنظر قرار ديا۔
• اتحاد؛ كاميابي كا ضامن
جن اسلامي دانشوروں نے معاشرے ميں اتحاد كے سلسلہ ميں گفتگو كي ہے ان ميں سے آيت اللہ بروجردي جيسي كاميابي كم ہي افراد كو ملي۔ افسوس كہ دونوں مذاہب ميں متعصب اور تفرقہ پسند افراد نيز مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كے لئے استعماري سازشوں كي وجہ سے بہت سي جگہوں پر اتحاد كے سلسلہ ميں كي جانے والي كوششيں ناكامياب رہيں۔ مسئلہ اتحاد بين المسلمين كا تعلق صرف اسلامي جمہوريہ كے قيام سے نہيں ہے بلكہ امام خميني(رہ) نے اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے اس كي جانب متوجہ كيا تها:
’’ہميں كاميابي كي اس كليد يعني اتحاد كلمہ اور قرآن مجيد پر اعتماد كي حفاظت كرني چاہئے اورہم سب لوگ شانہ بہ شانہ ہو كر قدم آگے بڑهائيں اور ايران ميں اسلامي جمہوريہ قائم كريں" (۱)
آپ نے اسلامي انقلاب كي كاميابي كے بعد بهي اس اہم مسئلہ كي جانب اشارہ فرمايا اور كہا:"اگر ہم اتحاد كلمہ اور اسلامي زندگي كي اس خصوصيت كہ جسميں تمام چيزِيں شامل ہيں، كا خيال ركهيں تو ہم آخر تك كامياب رہيں گے اور اگر خدانخواستہ وہ اس ميں خلل ڈاليں يا ہم سستي كا مظاہرہ كريں اور انكا مقابلہ نہ كريں يا اپنے طور پر يہ سوچ كر بيٹهے رہيں كہ ہم كامياب ہيں اور اس طرح سست ہوجائيں تو مجهے اس بات كا ڈر ہے كہ كہيں وہ انہي مسائل كو دوسرے نتائج كے ساته ہمارے سامنے نہ لے آئيں۔ اگر ہم استقامت كا مظاہرہ كريں اور اپنے پاس موجود افراد وطن كي صورت ميں موجود اس طاقت كي حفاظت كريں ، اتحاد كلمہ كي حفاظت كريں تو ہم سب كامياب رہيں گے"۔ (2)
امام خميني (رہ) اتحاد بين المسلمين كو اسلامي نظام كي علت وجود اور علت بقاء جانتے ہيں اور اسي عنصر كو مسلمانوں كي بقاء كا ضامن سمجهتے ہيں:"اگر مسلمان اس عزت و عظمت كو دوبارہ حاصل كرليں جو انہيں صدراسلام ميں حاصل تهي ، اسلام اور اتحاد كو مدنظر قرار ديں ، وہ اسلام كے سلسلہ ميں ہونے والا اتفاق نظر ہي تها كہ جسكي وجہ سے وہ غيرمعمولي طاقت و شجاعت كے مالك بن گئے تهے"۔ (3)
• اتحاد ايك شرعي فريضہ
امام (رہ) كے فرض شناس نظريہ كے مطابق سياسي اقدام بنيادي طور پر شرعي ذمہ داري ہے۔ اسي وجہ سے بہت سے سياسي مسائل ميں شركت مثلاً انتخابات ميں شركت يا مظاہروں اور اجلاس كے ذريعہ نظام كي حمايت جو سياسي دانشوروں كي نگاہ ميں لوگوں كے "حقوق" ميں سے ہيں، امام(رہ) كے نظريہ كے مطابق عوام كا فريضہ بهي ہے۔ آپ اتحاد پر توجہ نہ كرنے اور اسے ترك كرنے كو "گناہ كبيرہ" اور "عظيم جرم" شمار كرتے ہيں:"اگر كبهي ايسا اتفاق پيش آئے تو وہ بهي جرم ہے۔ آج اتحاد كو كمزور كرنا بہت بڑا جرم ہے"۔ (4)
يہي مسئلہ اس بات كا باعث بنا كہ امام اتحاد كي حفاظت اور اختلاف سے پرہيز كي خاطر (رہ) بہت سے مسائل يا امور كے سلسلہ ميں سكوت اختيار فرمائيں جو آپكے نظريہ كے موافق نہيں تهے ليكن عہديداران حكومت اور ذمہ دار افراد اس پر متفق تهے بلكہ آپ نے ايسے مواقع پر اتحاد كي فضا كو مزيد مستحكم كيا۔ آپ فرماتے ہيں:"ہم اپني خواہشات نفساني سے مكمل طور پر پرہيز نہيں كرسكتے ہيں ، ہمارے پاس ايسي طاقت نہيں ہے، ليكن اتني طاقت تو ہے كہ اسكا اظہار نہ كريں۔ ہم بات پر قادر نہيں ہيں كہ اگر كسي كے واقعاً مخالف ہيں تو دل ميں بهي مخالفت نہ ركهيں ليكن اس بات پر قادر ہيں كہ ميدان عمل ميں اسكا اظہار نہ كريں"۔ (5)
امام خميني(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد كي حدود
امام(رہ) كي نگاہ ميں اتحاد بہت وسيع حدود پر مشتمل ہے جس ميں داخلي قوتوں اور امت مسلمہ كا اتحاد شامل ہے۔ اسلامي انقلاب كي كاميابي سے پہلے داخلي عناصر كے سلسلہ ميں امام (رہ) كي نگاہ ميں سب سے اہم چيز ملك كے ديني اور ثقافتي عناصر كا آپسي اتحاد تها۔ آپ نے خداداد ذكاوت و ذہانت كي بنياد پر اس بات كي كوشش كي كہ داخلي گروہوں اور طاقتوں كے درميان اتحاد برقرار كريں كہ جنميں سے بعض كي جانب اشارہ كيا جارہا ہے:
• مدرسہ اور يونيورسٹي كا اتحاد
امام(رہ) كي شخصيت ايسي تهي كہ آپ كو مدرسہ اور يونيورسٹي كي زيادہ تر شخصيات مانتي تهيں اسي وجہ سے آپ ہميشہ ان دونوں طبقوں كے درميان اختلاف كے خطرہ كے سلسلہ ميں متوجہ كرتے تهے۔آپ فرماتے ہيں:"ہم نے متعدد سال كي زحمتوں كے بعد يونيورسٹيز كو علماء، ديني مدارس اور طلاب ديني سے نزديك كيا ہے۔ ان مختلف طبقوں كو ايك دوسرے كے نزديك كيا ہے اور ہميشہ اس بات كي تاكيد كي ہے كہ اپنے درميان اتحاد كلمہ برقرار ركهئے تاكہ آپ خدمات انجام دے سكيں"۔(6)
اسكے بعد آپ مدرسہ اور يونيورسٹي كي مہارت كے سلسلہ ميں اشارہ فرماتے ہيں اور بعض افراد كو اسلامي مسائل كا ماہر اور بعض كو ملكي امور اور سياسي مسائل كا ماہر بتاتے ہيں نيز اسي وجہ سے دونوں كو مستقبل كي كاميابي كے لئے ضروري جانتے ہيں۔ آپ انقلاب اسلامي كے سلسلہ ميں اپني ايك تجزياتي گفتگو كے درميان فرماتے ہيں:"اگر اس تحريك كا نتيجہ صرف علماء اور روشن خيال افراد كا اتحاد ہو تب بهي مناسب ہے"(7) آپكے مطابق مدرسہ اور يونيورسٹي كو اپني صلاحتيوں كے مطابق ايك دوسري كي تكميل كرني چاہئے اور انقلاب و نظام كے آخري ہدف كي راہ ميں قدم بڑهانا چاہئے۔ اسي وجہ سے آپ فرماتے ہيں:"ہم سب اس حقيقت سے واقف ہيں كہ يہ دو مركز درحقيقت ايك شجرہ طيبہ كي دو شاخيں ہيں اور ايك جسم كے دو ہاته ہيں كہ اگر يہ اصلاح كي كوشش كريں ،اپنے معنوي عہد و پيمان كي حفاظت كريں ، ايك دوسرے كے شانہ بہ شانہ خدمت خدا اور خلق خدا كے لئے قيام كريں تو قوم كو مادي اور معنوي دونوں اعتبار سے كمال كي منزلوں تك پہنچاديں گے اور ملك كي آزادي اور اسكے استقلال كي حفاظت كريں گے"۔ (8)
انقلاب كي كاميابي كے بعد داخلي عناصر ميں اختلافات كے حالات زيادہ فراہم ہوگئے اسي طرح جنگ كے دوران مليٹري، سپاہ اور كميٹي كے درميان اختلاف بهي بہت اہم تها۔ امام(رہ) ہميشہ عسكري طاقتوں كے اتحاد اور انكے "يدواحدہ" ہونے پر تاكيد كرتے تهے اور انكے اختلاف كو جنگ ميں شكست كے مترادف سمجهتے تهے۔ دوسري جانب اسلامي ملك ميں موجود مختلف قوميتوں اور لہجوں نے بهي قومي اور مذہبي اختلافات كي راہ ہموار كردي تهي۔ كردستان، سيستان، تركمن صحرا وغيرہ كا بحران؛ ان سب كا تعلق امت مسلمہ كو منتشر كرنے اور اسكے درميان مذہبي اختلافات كو ہوا دينے كي خاطر تها۔ امام خميني(رہ) نے اپني گفتگو كا ايك محور ان گروہوں ميں اتحاد اور ساري ايراني عوام كے مسلمان ہونے پر تاكيدكو قرار ديا۔
انقلاب كي كاميابي كے بعد حكومت اور عوام كا اتحاد، حكومت كے مختلف شعبوں كے درميان اتحاد، سياسي پارٹيوں كےدرميان اتحاد اور انہيں اسلام كے محورپر متحد كرنے كے سلسلہ ميں امام (رہ) نے خاص توجہ دي۔
بيروني معاملات ميں بهي مسلمانوں اور مستضعفوں كے درميان اتحاد آپكي ديرينہ آرزو تهي جسكے متعلق آپنے انقلاب سے پہلے اور اسكے بعد بہت زيادہ تاكيد فرمائي۔
اسرائيل كے مقابلہ ميں اتحادبين المسلمين
امام خميني(رہ) كے بيانات اور تحريروں كے درميان بہت سے ايسے موضوعات ملاحظہ كئے جاسكتے ہيں جنكے ذيل ميں آپ نے اسرائيل سے مقابلہ كرنے كے لئے مسلمانوں كے متحد ہونے كي تاكيد كي ہے اور مظلوم فلسطيني عوام پر اس غاصب حكومت كے مظالم بيان كئے ہيں ۔ قابل توجہ بات يہ ہے كہ آپ ان بيانات كا تعلق انقلاب اسلامي كي كاميابي كے صرف بعد كے دور سے نہيں ہے بلكہ اس سے پہلے بهي آپ ان مسائل كي جانب افراد كو متوجہ كرتے رہتےتهے۔ آج مظلوم فلسطيني قوم پر صہيونيوں كے مظالم اور اسلامي ممالك كي مجرمانہ خاموشي كو مدنظر ركهتے ہوئے آپ كے ان اقدامات كي اہميت دوچنداں ہوجاتي ہے۔
ايك ايسا وقت تها جب صہيوني گماشتے ايران ميں حكمراني كررہے تهے اور انتہائي مخفيانہ طور پر كام كرنے والي جاسوسي تنظيم "ساواك" صہيوني ماہروں كے زير تعليم و نگراني كام كررہي تهي۔ ايران ميں انكانفوذ بے مثال تها۔ اگرچہ آپ عراق ميں جلاوطني كي زندگي گزار رہے تهے ليكن وہاں سے آپ نے بہ كمال شجاعت يہ پيغام ديا:
"غيروں كا نشانہ قرآن اور علماء ہيں ․․․ ہم امريكا اور فلسطين كے يہوديوں كي خاطر ذلت برداشت كريں! قيد و بند كي صعوبتيں تحمل كريں اور سزائے موت كا سامنا كريں اور اس طرح غيروں كے مفادات كي قرباني بنتے رہيں!"(9) ميں اپني شرعي ذمہ داري ادا كرتے ہوئے ايراني عوام اور مسلمانان عالم كو متوجہ كرتا ہوں كہ قرآن اور اسلام خطرے ميں ہے، ملك كا استقلال اور اسكا اقتصاد صہيونيوں كے قبضہ ميں ہے"۔ آپ صہيونيوں كے جرائم طشت از بام كرنے كي توجہ سے جيل جاتے ہيں، جلاوطن ہوتے ہيں ليكن آپ اس سلسلہ ميں كوئي كوتاہي نہيں كرتے ہيں۔ ايك دوسري جگہ آپ فرماتے ہيں:
"ميں تقريباً بيس سال عالمي صہيونيت كے خطرات كي جانب متوجہ كررہا ہوں اور ميں آج بهي دنيا كے تمام آزادي طلب انقلابوں اور ايران كے انقلاب اسلامي كے لئے اسكے خطرہ كو پہلے سے كم نہيں سمجهتا ہوں۔ دنيا كو نگلنے كا ارادہ كرنے والي ان جونكوں نے مختلف حربے اپنا كر مستضعفين عالم كے خلاف اقدام اور قيام كيا ہے۔ دنيا كي آزاد قوموں كو ان خطرناك سازشوں كے مقابلہ ميں شجاعت و دليري كے ساته كهڑے ہوجانا چاہئے"۔ (10) دوسري جانب فلسطين كي مظلوم عوام كي حمايت ميں مسلمانوں كو بيدار كرنے كے لئے روز قدس (ماہ مبارك رمضان كا آخري جمعہ) كا اعلان آپ كے اہم كارناموں ميں ہے۔
اقسام اتحاد
مجموعي طور پر امت مسلمہ كے تين طرح كے اتحاد كا تصور كيا جاسكتا ہے:(11)
اتحاد مطلق
اتحاد مطلق سے مراد ہے عقايد ، احكام اور اسلامي تعليمات كے تمام اصول و فروع ميں متفق ہونا۔ (12)
خصوصيات اور كفيات ميں آزادي فكر و نظر نيز اسلام كے بنيادي اصولوں ميں استدلال كي اہميت كو مدنظر ركهتے ہوئے يہ اتحاد ناممكن ہے۔ بالخصوص مختلف سليقوں اور طرز فكر كے باعث دانشوروں ميں اختلاف نظر، اسلامي مآخذ كے سلسلہ ميں معلومات كي كمي و زيادتي اور استدلال و مسائل كو سمجهنے ميں موثر ذہانت و ذكات كے اختلاف كو مدنظر ركهتے ہوئےيہ اتحاد غيرعملي ہے۔
مصلحتي اور وقتي اتحاد
وقتي اتحاد ديني تعليمات سے قطع نظر بيروني عوامل كي وجہ سے وجود ميں آتا ہے۔ كبهي كبهي ايسا ہوتا ہے كہ ان عناصر سے اسلامي سماج كو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ عام طور پر سنگين حالات ميں فرقہ وارانہ اختلافات بالائے طاق ركه دئے جاتے ہيں اور لوگوں ميں ايك قسم كا اتحاد پيدا ہوجاتا ہے۔ چونكہ اس طرح كا اتحاد بيروني عوامل سے موثر ہوتا ہے اور ديني تعليمات سے اسكا تعلق نہيں ہوتا ہے اس لئے ان عوامل كے ختم ہوتے ہي يہ اتحاد بهي ختم ہوجاتا ہے۔ جس طرح اسلامي سماج كے دانشوروں اور عوام كے درميان "اتحاد مطلق" كا تصور غيرمعقول ہے اسي طرح مختلف مذاہب كے وقتي اور مصلحتي اتحاد كي بنياد پر دائمي اتحاد برقرار ہونے كي توقع بيجا ہے۔
عاقلانہ اتحاد
عاقلانہ اتحاد جزئي مسائل اور انتخاب دلائل ميں آزادي فكر و نظر كي بنياد پر وجود ميں آتا ہے جس سے مراد يہ ہے كہ سارے اسلامي معاشروں كے عقائد كي بنياد پر اسلام كي عمومي تعليمات كو برتري حاصل ہو اور فردي عقائد و نظريات، قومي رسومات اور فروعات ميں ہر گروہ اور فرد كے اجتہاد سے پرہيز كرنا۔
عاقلانہ اتحاد تك رسائي كے لئے سب سے پہلي چيز اسلامي دانشوروں اور مفكروں كي وسعت فكر و نظر اور فرقہ وارانہ تعصب كے تنگ و تاريك اور غيرمنطقي دائرے سے باہر نكلنا ہے۔ اسلام نے اپنے وسيع دامن ميں جس طرح "محمد بن طرخان فارابي" كو جگہ دي ہے اسي طرح "ابن سينا، رشد، ابن مسكويہ، ابوريحان بيروني، حسن بن هيثم، محمد بن زكريا، جلال الدين محمد مولوي، ميرداماد، صدرالمتالهين "اور انكے جيسے بہت سے افراد كو انكے مختلف افكار و نظريات كے ساته اپني آغوش ميں پروان چڑهايا ہے۔ (13)
اس سلسلہ ميں قابل توجہ بات يہ ہے كہ اسلام صرف شيعہ اور اہل سنت ميں تقسيم نہيں ہوتا ہے بلكہ يہ عظيم دين دسيوں مذاہب پر مشتمل ہے ․․․․اس كے علاوہ كبهي دانشوروں اور صاحبان فكر و نظر نے ايك دوسرے كي تكفير نہيں ہے۔ (14)
دوسري جانب بعض افراد نے اتحاد كو بعض دوسرے مفاہيم مثلاً "آئيڈيولوجكل اتحاد"(فكري اتحاد) "اسٹراٹيجك اتحاد"(اتحادبحيثيت پاليسي ) اور "ٹيكٹكل اتحاد"(اتحادن بحيثيت تدبير) ميں تقسيم كيا ہے۔ (15) "آئيڈيولوجكل اتحاد" سے مراد تمام مذاہب كے درميان يكساں عقائد كا ہونا ہے۔ اس طرح كا اتحاد ماركسسزم ميں پايا جاتا ہے اور كميونسٹي حكومتوں كے مدنظر بهي يہي اتحاد تها۔
اسٹراٹيجك اتحاد عقيدہ كي بنياد پر نہيں ہوتا ہے بلكہ اسكا تعلق عملي اتحاد سے ہے۔ اسي طرح ٹيكٹكل اتحاد محدود وقت كے لئے كسي خاص راہ حل اور تدبير كي صورت ميں برقرار ہوتا ہے۔ اجتماعي اور سماجي ميدان ميں ڈيالكٹك تضاد اتحاد كي اس قسم كے ساته هماهنگ ہے۔ (16)ميدان جنگ ميں لوگوں كے سامنے مشتركہ دشمن ہوتا ہے ايسے وقت ميں جب تك يہ مشتركہ دشمن ختم نہ ہوجائے اس طرح كا اتحاد كارآمد ہوتا ہے۔
اب ہميں يہ ديكهنا ہوگا كہ امام خميني(رہ) كے مدنظر اتحاد كي كون سي قسم ہے۔ آپ كے بيانات سے اس بات كو بخوبي درك كيا جاسكتا ہے كہ آپ كے نزديك نظرياتي اور سياسي اختلاف نظر قدرتي ہے :"فقہائے كرام كي كتابيں عسكري، ثقافتي ، سياسي ، اقتصادي اور عبادي ميدانوں ميں اختلاف نظر سے بهري ہوئي ہيں․․ اسلامي حكومت ميں اجتہاد كا دروازہ ہميشہ كهلا رہنا چاہئے اور انقلاب و نظام كا تقاضا يہ ہے كہ فقہي ميدانوںميں مختلف فقہي نظريات سامنے آئيں چاہے وہ ايك دوسرے كے بالكل متضاد ہوں اور كسي كو اس سے روكنے كا نہ حق ہے اور نہ طاقت۔ (17) لہذا آپ كے نطريہ كے مطابق اختلاف نظر نہ صرف يہ كہ قدرتي اور فطري ہے بلكہ مختلف عقائد سے روكنا جائز نہيں ہے۔
اسي طرح يہ بهي سمجها جاسكتا ہے كہ بعض موقعوں پر امام نے تدبيري اتحاد كي جو تجاويز دي ہيں يہ ہر جگہ آپ كے مدنظر نہيں ہے اور اسے آپكےحقيقي اور مكمل نظريہ كے طور پر نہيں ديكها جاسكتا ہے۔ لہذا ہميں كہنا ہوگا كہ امام(رہ) كے زيادہ تر مدنظر جو اتحاد ہے وہ "اسٹراٹيجك اتحاد"(اتحادبحيثيت پاليسي )اور عاقلانہ اتحاد ہے۔ مثال كے طور پر جب امام خميني(رہ) اہل سنت كے ساته اتحاد كي گفتگو كرتے ہيں تو اس سے انكي مراد عقائد ميں يكسانيت (اتحاد مطلق) نہيں ہے بلكہ مشتركہ عقائد كي بنياد پر ميدان عمل ميں اتحاد ہے۔ مثلاً آپ حج كے دنوں ميں اہل تشيع كو تاكيد كرتے تهے كہ وہ اہل سنت كے ساته نماز جماعت ميں شركت كريں۔ آپ ايك سوال كے جواب ميں فرماتے ہيں:"حكومت اور سماج كي شناخت اہم ہے جسكي بنياد پر اسلامي نظامسلمانوں كے حق ميں مفيد طريق كاراپنا سكتا ہے كہ اسلوب و عمل ميں اتحاد ضروري ہے"۔ (18)
بہ الفاظ ديگر آپ اختلافات كو "عقائدي" اور "سياسي" اختلاف نظر ميں تقسيم كرتے ہيں اور سياسي اختلاف نظر كو قبول كرتے ہيں۔ عقائد ميں اتحاد سے مراد اسلام كے عمومي اور مشتركہ اصولوں پر اتحاد ہے نہ كہ اسكي تفصيلات اور انكے طريق نفاذ پر كيونكہ ايسي جگہوںپر اختلاف نظر اسلامي نظام ميں خلل كا باعث نہيں بنتا ہے۔
آخري بات يہ ہے كہ امام خميني (رہ) كي نگاہ ميں نوعيت اتحاد (مختلف ميدانوں ميں اسكي وسعت كو مدنظر ركهتے ہوئے)كي خاص بنياديں ہيں اور ہميں آپكے زاويہ نظر كے مطابق ہي اتحاد كے سلسلہ ميں گفتگو كرنا چاہئے نہ يہ كہ جہاں جہاں آپ نے لفظ اتحاد استعمال كيا ہے انكے سلسلہ ميں عمومي حكم صادر كرديا جائے۔ يہ وہي اتحاد ہے جسے "عاقلانہ اتحاد" يا "اسٹراٹيجك اتحاد" كا نام ديا جاسكتا ہے۔
دوسري بات يہ ہے كہ اتحاد كے سلسلہ ميں امام خميني(رہ) كے بيانات كو صرف مصلحت كا تقاضا اور بلند خيالي نہيں سمجهنا چاہئےبلكہ آپكے يہ افكار حقيقت پسندي پر استوار ہيں۔ جيسا كہ ہم نے پہلے كہا ہے اتحاد ان مسائل ميں سے ہے جن پر انقلاب سے پہلے اور اسكے بعد بهي اسلامي نظام كي قيام كے دوران امام خميني(رہ) نے بہت زيادہ توجہ دي ہے اور تاكيد فرمائي ہے۔ آج ممالك كو درپيش مشكلات كے راہ حل كے طور پر دوسري تمام چيزوں سے زيادہ اندرون ملك ميں"قومي اتفاق" كے نام سے اور عالمي سطح پر ممالك كے درميان مشتركہ امور ميں "اسلامي ممالك كا آپسي ميلان" كے عنوان سے اتحاد پر توجہ دي جارہي ہے۔ واقعا جمہوريت پر مبني كوئي سياسي نظام نظرياتي اختلافات كے باوجود ملكي مفادات اور عمومي اصولوں كے سلسلہ ميں قومي اتحاد كے بغير قابل تصور ہے؟ اور كيا اسلامي ممالك بغير متحد ہوئے اسرائيل كا مقابلہ كرنے كي صلاحيت و طاقت ركهتے ہيں؟
مآخذ:
۱۔ امام خميني(رہ) ، صحيفۂ نور، جلد ۲۲، ص۲۰۱
2۔ ايضاً، جلد ۵، ص ۲۵۰
3۔ ايضاً، جلد۸، ص۲۳۵
4۔ ايضاً، جلد ۱۲، ص ۱۱۸
5۔ ايضاً، جلد۲۰، ص۷۴-۷۲
6۔ ايضاً،جلد ۴، ص۹۲
7۔ ايضاً،جلد ۱۹، ص۱۰۴
8۔ نوروز ۱۳۴۲ كي مناسبت سے امام خميني(رہ) كا پيغام، انديشہ ہاي امام خميني(رہ) سے ماخوذ، جلد اول، سازمان تبليغات اسلامي، سال ۱۳۶۸
9۔ صحيفۂ نور، جلد ۱۴، مذكورہ ماخذ
10۔ محمد تقي جعفري، مقدمہ كتاب "استراتژي وحدت در انديشہ سياسي اسلام، دكتر سيد احمد موثقي، جلد اول، مركز انتشارات دفتر تبليغات اسلامي، سال ۱۳۷۷
11۔ ايضاً، ص ۲۹
12۔ ايضاً، ص۳۱
13۔ ايضاً
14۔ كاظم قاضي زادہ، انديشہ فقہي سياسي امام خميني، مركز تحقيقات استراتژيك رياست جمہوري، طبع اول، سال ۱۳۷۷، ص۴۴۸
15۔ ايضاً
16۔ صحيفۂ نور، جلد ۲۱، ص۴۷-۶۶
17۔ ايضاً، جلد۲، ص۴۷
مآخذ: مجلہ حوزہ پگاہ حوزہ شمارہ ۱۷۴
بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے ؟ انکی تاریخ کیا ہے ؟
بوہری اور آغاخانی میں فرق جانے سے پہلے ان کی مختصر تاریخ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے درحقیقت دونوں کی اصل ایک ہے اور دونوں عقیدے کے لحاظ سے شش امامی ہیں پھر فرق کیا ہے اس بارے میں جانے کے لیے تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
امام جعفر صادق(ع) کے کئی بیٹے تھے جن میں سب سے بڑے حضرت اسماعیل تھے۔ امام صادق(ع) کے زمانے میں ہی کچھ لوگوں نے تصوّر کرنا شروع کر دیا تھا کہ امام صادق(ع) کے بعد اسماعیل ہی امام ہوں گے۔ لیکن حضرت اسماعیل کی وفات امام صادق(ع) کی زندگی میں ہی ہو گئی، امام صادق(ع) بعض لوگوں کے اس عقیدے کو جانتے تھے کہ اسماعیل کو ہی وہ امام سمجھتے ہیں، چنانچہ امام(ع) نے اسماعیل کی وفات کے بعد ان کا جنازہ لوگوں کو دکھایا اور لوگوں کی معیت میں ہی ان کی تجہیز و تکفین کی تاکہ کوئی اسماعیل کی وفات سے انکار نہ کر سکے۔ جب امام صادق(ع) کی شہادت ہوئی تو ان کی وصیّت کے مطابق اکثر شیعوں نے امام کاظم(ع) کو امام مان لیا، لیکن ایک جماعت نے کہا کہ اسماعیل بڑے بیٹے تھے، اب وہ نہیں تو ان کی اولاد میں امامت رہنی چاھئے، لہذا اس گروہ نے ان کے بیٹے کو امام مان لیا اسی وجہ سے یہ لوگ اسماعیلی کہلائے۔
کچھ لوگوں نے امام صادق(ع) کے ایک اور بیٹے عبداللہ افطح کو امام مانا، یہ لوگ فطحی کہلائے۔ جن لوگوں نے امام جعفر صادق(ع) کی شہادت کے بعد امامت کو حضرت اسماعیل کی نسل میں مان لیا تو آگے چل کر ایک وقت آیا جب ان اسماعیل کی اولاد میں سے ایک شخص مہدی کو مصر میں خلافت ملی جہاں اس نے خلافت فاطمی کی بنیاد رکھی۔
یہ خلفاء بہت شان و شوکت سے وہاں حکمرانی کرتے رہے، قاہرہ شہر اور جامعۃ الازھر کی بنیاد انہی اسماعیلی خلفاء نے رکھی۔ اور اس وقت تک یہ باعمل قسم کے شیعہ تھے لیکن اثنا عشری نہ تھے۔ ایک نسل میں ان کے ہاں خلافت پر جھگڑا ہوا، مستعلی اور نزار دو بھائی تھے، مستعلی کو خلافت ملی۔ لیکن لوگوں میں دو گروہ ہوئے، ایک نے مستعلی کو امام مان لیا اور ایک گروہ نے نزار کو مان لیا۔ مستعلی کو ماننے والوں کو مستعلیہ کہا جاتا ہے جو آج کل کے بوھرہ ہیں اور نزار کے ماننے والوں کو نزاریہ کہا جاتا ہے جو آجکل کے آغا خانی ہیں۔
لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تو نزاری فرار ہو کر ایران آئے اور وہاں قزوین نامی شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا جہاں کئی برس تک جاہ و حشم کے ساتھ انہوں نے حکمرانی کی۔ حسن بن صباح کے دور میں ان کو عروج حاصل ہوا اور ان کی فدائین کی تحریک بہت کامیاب ہوئی اور پوری سرزمین ایران میں اپنی دہشت بٹھا دی۔ بعد میں ان کا امام “حسن علی ذکرہ السّلام” آیا جس نے ظاہری شریعت ختم کردی اور صرف باطنی شریعت برقرار رکھی، کہا جاتا ہے کہ 19 یا 21 رمضان تھی جب اس امام نے ظاہری شریعت ہٹائی تھی، انہوں نے اپنے امام کے حکم پر اپنے روزے توڑے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے شراب سے افطار کیا۔
کیونکہ ان کے امام نے یہی حکم دیا تھا کہ ظاہر شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، اپنے باطن کی تربیت کرو یہی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغا خانیوں کو فرقۂ باطنیہ بھی کہا جاتا ہے۔ آغا خانی ایک طویل عرصے تک ایران میں مقیم رہے، ان کے امام کو “آغا خان” کا لقب بھی ایران کے قاجاری حکمران نے دیا تھا۔
شاہ ایران نے آغا خان کو کرمان کے قریب “محلاّت” نامی جگہ پر ایک وسیع جاگیر بھی عطا کر رکھی تھی جہاں آغاخان مکمّل داخلی خودمختاری کے ساتھ حکومت کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کے اس امام کو “آغا خان محلاّتی” بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن انگریزوں کی تحریک پر آغا خان اوّل نے ایرانی قاجاری سلطنت کے خلاف بغاوت کر دی لیکن جب اس کو شکست ہوئی تو بھاگ کر ہندوستان میں پہلے سندھ اور پھر بمبئی شفٹ ہوا۔ انگریزوں نے ان کو “سر” کا خطاب دیا اور بہت عزّت و تکریم کی۔ ان کی وفات ہندوستان میں ہی ہوئی اور ان کے بعد امامت ان کے بیٹے کو ملی جو تحریک پاکستان کے ابتدائی رہنماؤں میں سے رہی ہے۔
صدرالدّین آغا خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے کی موجودگی میں ہی انہوں نے اپنے پوتے “پرنس کریم” کو جانشین بنایا جن کی والدہ یورپی تھیں اور مغربی بودو باش رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اسماعیلیوں کی امامت کا مرکز “محلاّت، کرمان” سے نکل کر “بمبئی ہندوستان” آیا اور وہاں سے اب مغرب منتقل ہو گیا۔
دوسری طرف بوہریوں کی خلافت ایک طویل عرصے تک مصر میں رہی لیکن صلیبی جنگوں کے زمانے میں صلاح الدّین ایّوبی نے پے در پے حملوں کے بعد اس اسماعیلی حکومت کو ختم کر دیا۔
جب مصر میں بوہریوں کی امامت ختم ہوئی تو انہوں نے ہندوستان و یمن کو اپنا مرکز بنالیا البتہ یہ لوگ باعمل مسلمان ہیں اور پابندی سے نماز وغیرہ پڑھتے ہیں۔ ان کی امامت کا سلسلہ خلافت فاطمی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو چکا ہے، البتہ ان کے ہاں داعیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ موجودہ برھان الدّین ان کے داعی ہیں جن کا انتقال دنوں ہوا۔ آگے چل کر بوہریوں کے ہاں بھی دو فرقے ہوئے؛ 1) داؤدی بوہرہ اور 2) سلیمانی بوہرہ۔ ان کا اختلاف محض علاقائی ہے۔
داؤدی بوہروں کے داعی ہندوستانی ہوتے ہیں اور گجرات کے شہر سورت میں ان کا مرکز ہے جبکہ سلیمانی بوہروں کے داعی یمن میں ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی ہیں۔ البتہ پاکستان میں بھی سلیمانی بوہروں کی ایک قلیل تعداد ہے۔ داؤدی بوہرہ کے لوگ بہت آرام سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مرد مخصوص لباس پہنتے ہیں اور ان کی عورتیں ایک مخصوص حجاب کرتی ہیں، جبکہ سلیمانی بوہرہ پہچانے نہیں جاتے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص لباس نہیں ہے۔
جہاں تک ان کے اسلام کا تعلّق ہے تو بوہریوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شبہ نہیں جب تک کہ یہ کسی امام کو گالی نہ دیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے تک یہ امام موسی کاظم(ع) کو گالیاں دیتے تھے جو بقول ان کے امامت کو غصب کر بیٹھے (نعوذباللہ)۔ لیکن یہ روش انہوں نے چھوڑ دی تبھی آیت اللہ ابوالحسن اصفہانی کے دور میں ان کو نجف و کربلا زیارت کی اجازت دی گئی۔
وہاں موجود ضریحوں اور حرم کی تعمیر اور چاندی سونے میں بوہریوں نے کافی مدد کی۔ بوہری اب بھی جوق در جوق کربلا اور نجف زیارت کے لئے جاتے ہیں اور مسلمان مراکز کے دروازے بوہریوں کے لئے کھلے ہیں۔ دوسری طرف آغاخانیوں کا اسلام اس لئے مشکوک ہے کیونکہ یہ ضروریات دین میں سے کئی چیزوں کے منکر ہیں۔ نماز کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ نماز سے انکار نہیں کرتے لیکن نماز کا طریقہ الگ ہے۔ جو چیز ان کے اسلام کو مشکوک بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ “حلول” کے عقیدے کو مانتے ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا نور علی(ع) میں حلول کر گیا اور علی(ع) کا نور ان کے ہر امام میں آتا رہا، ان کے حساب سے پرنس کریم آغا خان اس وقت کا علی(ع) ہے، اور جب یہ لوگ “یاعلی مدد” کہتے ہیں تو ان کی مراد امام علی(ع) نہیں ہوتے بلکہ پرنس کریم آغا خان ہوتے ہیں۔
لیکن ہمارے لوگ خوش فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی سلام کے طور پر یاعلی مدد کہنا شروع کیا۔ آغاخانیوں میں ایک اور خرابی یہ ہے کہ وہ “معاد جسمانی” کے منکر ہیں یعنی ان کے نزدیک میدان حشر، پل صراط، جنّت و جہنّم کا کوئی ظاہری وجود نہیں بلکہ یہ کنایہ ہے۔ اور ان کا عقیدہ ہے کہ ہم اس جسم کے ساتھ حشر کے دن نہیں اٹھائے جائیں گے۔ “معاد جسمانی” ہماری ضروریات دین میں سے ہے اور جو اس کا قائل نہیں تو اس کے اسلام پر حرف آتا ہے۔
مسجد اعظم ؛ قم- ايران
مسجد اعظم قم، ایک قدیمی ترین، بزرگ ترین اور زیبا ترین مسجد ہے۔ اس تاریخی مسجد کو حضرت آیت اللہ العظمی الحاج سید حسین طباطبائی بروجردی نے تعمیر کرایا ہے۔ اس میں ہر روز زائرین کی ایک بڑی تعداد نماز پڑھتی ہے۔
بارگاہ ملکوتی حضرت معصومہ ﴿ع﴾ کے جوار میں ھونے، معماری کا بے مثال نمونہ ھونے اور مراجع عظام کے توسط سے اس میں دروس خارج قائم ھونے کی وجہ سے اس مسجد کو کافی اہمیت اور شہرت حاصل ھوئی ہے۔
اس عظیم مسجد کی مساحت بارہ ہزار مربع میٹر ہے۔ نماز جماعت پڑھنے، اعیاد کی تقریبات اور سوگواری کی مجلسیں منعقد کرنے کے لئے مناسب جگہ نہ ھونے کی وجہ سے حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی نے اس شاندار مسجد کی تعمیر کرائی ہے۔ اس عالیقدر مرجع تقلید کا اعتقاد تھا کہ بارگاہ حضرت امام رضا﴿ع﴾ کے جوار میں موجود مسجد گوہرشاد کے مانند معصومہ قم ﴿س﴾کے جوار میں بھی ایک شاندار مسجد ھونی چاہئے۔ لہذا مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی1954 عیسوی میں حرم کے اطراف میں موجود مکانوں اور دوکانوں کو خرید کر اس مسجد کے شبستان پر واقع گنبد نیچے موجود محراب کی جگہ پر اس مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں پہلی گینتی ماری۔
اس مسجد کی زمین ایک مثلث شکل کی ہے، جس کا جنوبی ضلع تقریبا ایک سو بیس میٹر ہے اور اس کا قاعدہ شاید دس میٹر بھی نہ ھو۔
اس زمانہ کے ایک مشہور معمار الحاج حسین لرزادہ نے اس مشکل کے باوجود باشکوہ عمارت کو ہنرمندی کے ساتھ تعمیر کیا ہے۔ اس مسجد کی عمارت1960عیسوی میں مکمل ھوئی ہے اور معماری اور ٹائیل لگانے کے لحاظ سے فن کاری کا ایک بے مثال نمونہ ہے۔
اس مسجد کا گنبد تقریبا 1460مربع میٹر کا ہے اور عالم اسلام کا ایک بڑا گنبد شمار ھوتا ہے۔ اس گنبد اور مھراب کی ٹائیلیں بچھانے کا کام ایران کی قدیم کاشی کاری کا نمونہ ہے اور ثقافتی میراث شمار ھوتا ہے۔
تعمیر شدہ گنبد اور ایوان کے نیچے دو گوشواروں کے مانند دوشبستان ہیں جو پوری مسجد پر مشتمل ہیں۔
شبستانوں کے باہر دو ایوان ہیں، جو مسجد کا حصہ ہیں۔مسجد کے مغرب میں کتابخانہ کے مخزن کی عمارت، مطالعہ کا ہال، ایک چھوٹا ایوان، وضوخانہ اور حوض ہے ﴿ کہ آج نئے منصوبہ کے تحت انھیں منہدم کرکے دوسری جگہ پر بنایا جارہا ہے﴾۔ مسجد کے جنوب میں نسبتا ایک بڑے شبستان کے علاوہ ایک راہ رو ہے کہ اس کے بعد ایک چھوٹے صحن سے گزر کر ایک بڑے ریسٹورنٹ میں داخل ھوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچن، چوکیدار کی جگہ، کنواں اور اس کنوے کے پاس ایک خوبصورت حوض ہے اور یہ سب مسجد کی عمارت میں شامل ھوتے ہیں۔
مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کا مرقد، ان کی وصیت کے مطابق مسجد اعظم کے مشرقی ضلع میں واقع ہے۔ مرحوم کے نواسے آیت اللہ علوی بروجردی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: “پہلے اس جگہ پر ایک چھوٹا سا گھر تھا، جس کی مساحت 60 مربع میٹر تھی جو آیت اللہ العظمی بروجردی نے ذاتی پیسوں سے خریدا تھا اور اپنے دفن کی جگہ کو مشخص کرنے کے بعد باقی زمین کو مسجد کے لئے وقف کیا، اور ہمیشہ فرماتے تھے:“ چونکہ یہ جگہ حرم میں داخل ھونے کا راستہ ہے، اس لئے مجھے اسی جگہ پر دفن کرنا تاکہ زائرین کے جوتوں کی خاک میری قبر ہر ھو”۔
اس عالم ربانی کی رحلت کے بعد خود حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی کی طرف سے مرتب شدہ وقف نامہ کے مطابق مرحوم کے بڑے بیٹے حجتہ الاسلام والمسلمین آقای محمد حسین طباطبائی بروجردی نے اس مسجد کے متولی کے عنوان سے ذمہ داری سنبھالی، اور نا تمام کام کو پائے تکمیل تک پہنچا دیا۔
مسجد کے مغربی ضلع میں ایک کتابخانہ کی تاسیس، مرحوم کی یادگار کے عنوان سے ہے۔ مرحوم کے زمانہ میں اس کتابخانہ کی مسؤلیت مرحوم حجتہ السلام والمسلمین حاج اقای ابوالقاسم دانش آشتیانی کو سونپی گئی تھی کہ اس زمانہ میں اس کتابخانہ میں دس ہزار کتابیں موجود تھیں۔ مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کی رحلت کے چالیس دن بعد محمد حسین علوی اور دوسرے نامور شاعروں کی مدیحہ سرائی سے اس کتابخانہ کا افتتاح کیا گیا۔
اج، یہ عظیم کتابخانہ، قلمی نسخوں کے لحاظ سے ایران کے معتبر ترین اور سب سے اہم کتاب خانوں میں شمار ھوتا ہے، جہاں پر شیعوں کی ثقافتی میراث محفوظ ہے۔
یہ کتابخانہ جزوات، نفیس اور نایاب قلمی نسخوں، طبع شدہ کتابوں اور قابل اعتبار مجلات پر مشتمل ہے۔ ان مجلات کو تہران کے ایک بڑے ناشر مرحوم رمضانی نے عطیہ کے طور پر دیا ہے۔ اس کے علاوہ آقائے محسن اراکی کے نواسے آیت اللہ فرید محسنی نے بھی گراں قیمت کتابوں کی ایک بڑی تعداد اس کتابخانہ کے اختیار میں قرار دی ہے۔
اس وقت اس کتابخانہ میں ایک لاکھ سے زائد مطبوعہ کتابیں اور سات ہزار سے زائد قلمی نسخے موجود ہیں۔
چونکہ اس کتابخانہ میں کتابوں کا مخزن اور مطالعات کا ہال نہیں ہے، اس لئے تمام خطی ﴿قلمی﴾ کتابوں کے فلم برداری کی گئی ہے اور cd کی صورت میں مراجعین کو دی جاتی ہیں تاکہ محقیقین منابع تک رسائی پیدا کرسکیں۔ اس کتابخانہ کا ایک حصہ کیسٹوں پر مشتمل ہے، جس میں ماضی اور حال کے بڑے اساتذہ کے حوزوی دروس پر مشتمل 45 ہزار گھنٹوں کی کیسٹیں موجود ہیں۔
اس کتابخانہ کے مستقبل کے پروگرام میں عام لوگوں کے لئے کئی عمومی مطالعاتی ہال اور محقیقین کے لئے کئی خصوصی مطالعاتی ہال تعمیر کرنا ہے۔
مرمت اور تعمیر نو:
اس مسجد کے گنبد کی ٹائلیں خراب اور ٹوٹ چکی تھیں، اس لئے ان کی مرمت اور تعمیر نو کی ذمہ داری مرحوم کے نواسے حضرت آیت اللہ علوی بروجردی پر ہے۔ اس وقت اس مسجد کے دو میناروں، کتبہ اور دو محرابوں کے ﴿کاشی﴾ ٹائیلوں کا کام مکمل ھوا ہے۔
حرم مطہر حضرت معصومہ ﴿س﴾ کو وسعت دینے کے منصوبہ کے مطابق، مسجد کے مغرب میں دریا پر ایک بڑا صحن تعمیر کیا گیا ہے۔
آیت اللہ علوی بروجردی امید وار ہیں کہ: ہم قلمی اور سنگی نسخوں اور اسناد و مدارک کو محفوظ رکھنے کے لئے مناسب اور نئی اور مجہز عمارت تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ کتابخانوں کی عمارت تعمیر کرنے کے لئے اس وقت 3800مربع میٹر زمین پر کام شروع کیا گیا ہے اور مسجد کے مشرقی حصہ کو بھی خوشنما بنایا جائے گا۔ مسجد کے صحن میں ٹائیل بچھانا، دریا کی طرف محراب کی کاشی﴿ ٹائیل﴾ کاری اور گنبد کے نیچے 300 مربع میٹر پر کاشی﴿ٹائیل﴾ کاری، حضرت معصومہ﴿س﴾ کے روضہ کی طرف داخل ھونے کے لئے دو دروازے تعمیر کرنا اس نئے منصوبہ کا حصہ ہے”۔
انھوں نے اس سلسلہ میں مزید فرمایا:“ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آیت اللہ العظمی بروجردی ﴿رہ﴾ کے مقبرہ اور اس کے سامنے والے راہ رو کو رواق کی صورت میں تبدیل کریں گے تاکہ زائرین اس سے استفادہ کرسکیں اور اس کام کے لئے دیواروں پر شیشہ نما سنگ کاری، آئینہ کاری اور ٹائیلوں ﴿کاشی﴾ کی مرمت کی ضرورت ہے”۔ اس کے علاوہ آیت اللہ علوی بروجردی نے شبستانوں کو خاص کر ان کی چھت اور نور افشانی کو مزین کرنا، زائرین وطلاب کی آسائش کے لئے مسجد کے اندر ائر کنڈشننگ کرنا، مسجد اعظم کے2400 مربع میٹر قالین کو بدلنا اور مسجد اعظم کی ایک مخصوص ویب سائٹ کھولنا اس مسجد کے مستقبل کے منصوبے میں شامل ہے۔
انھوں نے اضافہ کیا: حوزہ علمیہ سے متعلق” سمینار اور کانفرنسیں منعقد کرنے کے لئے ایک مناسب ہال اور ایک تھیٹر کو 500 مربع میٹر پر تعمیر کیا جائے گا۔
امام رضا علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
بسم الله الرحمن الرحيم
قال الامام علی بن موسی الرضا علیہ السلام
1۔ تین خصلتیں تین سنتیں
لا یكون المؤمن مؤمنا حتی تكون فیه ثلاث خصال ، سنة من ربه، وسنة من نبیه، وسنة من ولیه. فاما السنة من ربه فكتمان سره ، و اما السنة من نبیه فمداراة الناس ، و اما السنة من ولیه فالصبر فی البأساء و الضراء۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (339)۔
مؤمن، حقیقی مؤمن نہیں ہے مگر یہ کہ تین خصلتوں کا حامل ہے: ایک سنت اللہ کی، ایک سنت اپنے پیغمبر(ص) کی اور ایک سنت اپنے امام کی۔ خدا کی سنت اپنا راز چھپا کر رکھنا ہے، پیغمبر(ص) کی سنت لوگوں کے ساتھ رواداری اور نرم خوئی ہے اور اس کے امام کی سنت تنگدستی اور پریشانی کے وقت صبر ہے۔
2۔ چھپ کر نیکی کرنا
المستتر بالحسنة یعدل سبعین حسنة، والمذیع بالسیئة مخذول ، والمستتر بالسیئة مغفور له۔
اصول کافی ، ج 4 ، ص (160)۔
نیک کام چھپا کر کرنے والے کا ثواب 70 حسنات کے برابر ہے، اعلانیہ بدی کرنے والا شرمندہ اور تنہا ہے اور (دوسروں کے) برے کام کو چھپانے والا بخشا ہوا ہے۔
3۔ انبیاء کا اخلاق
من أخلاق الانبیاء التنظف۔
انبیاء کے اخلاقیات میں نظافت اور پاکیزگی شامل ہے۔
تحف العقول ، ص (466)۔
4۔ آدمی کا دوست اور دشمن
صدیق كل امرء عقله وعدوه جهله۔
تحف العقول ، ص (467)۔
آدمی کا دوست اس کی عقل اور اس کا دشمن اس کا جہل و نادانی ہے۔
5۔ عقل کامل کے لئے دس خصلتیں ضروری ہیں
لا یتم عقل امرء مسلم حتی تكون فیه عشر خصال ، الخیر منه مأمول ، و الشر منه مأمون ، یستكثر قلیل الخیر من غیره ، و یستقل كثیر الخیر من نفسه ، لا یسأم من طلب الحوائج الیه ، و لا یمل من طلب العلم طول دهره ، الفقر فی الله احب الیه من الغنی ، و الذل فی الله احب الیه من العز فی عدوه ، و الخمول أشهی الیه من الشهرة . ثم قال ( علیه السلام) : العاشرة و ما العاشرة ! قیل له : ما هی ؟ قال ( علیه السلام) : لا یری أحدا الا قال : هو خیر منی و أتقی۔
تحف العقول ، ص (467)
مسلمان شخص کی عقل کامل نہیں ہے مگر یہ کہ وہ دس خصلتوں کا مالک ہو: اس سے خیر و نیکی کی امید کی جاسکے، لوگ اس سے امن وامان میں ہوں، دوسروں کی مختصر نیکی کو بڑا سمجھے، اپنی خیر کثیر کو تھوڑا سمھجے، اس سے جتنی بھی حاجتیں مانگی جائیں وہ تھک نہ جائے، اپنی عمر میں طلب علم سے اکتا نہ جائے، خدا کی راہ میں غربت اس کے نزدیک مالداری سے بہتر ہو، خدا کی راہ میں ذلت اس کے نزدیک خدا کے دشمن کے ہاں عزت پانے سے زیادہ پسندیدہ ہو، گم نامی کو شہرت سے زیادہ پسند کرتا ہو، اور پھر فرمایا: اور دسویں خصلت کیا ہے اور کیا ہے دسویں خصلت؟ عرض کیا گیا: آپ فرمائیں وہ کیا ہے؟ فرمایا: جس کسی کو بھی دیکھے کہہ دے کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر اور زيادہ پرہیزگار ہے۔
6۔ یقین سب سے افضل
إن الایمان افضل من الاسلام بدرجة ، و التقوی افضل من الایمان بدرجة ، و لم یعط بنو آدم افضل من الیقین۔
تحف العقول ، ص (469)
ایمان اسلام سے ایک درجہ افضل ہے اور تقوی ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور فرزند آدم کو یقین سے افضل کوئی چیز عطا نہیں ہوئی۔
7۔ ایمان کیا ہے؟
والایمان أداء الفرائض واجتناب المحارم والایمان هومعرفة بالقلب وإقرار باللسان وعمل بالاركان۔
تحف العقول ، ص (444)۔
ایمان واجبات و فرائض پر عمل اور افعال حرام سے دوری ہے۔ ایمان دلی عقیدہ زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ساتھ عمل و کردار ہے۔
8۔ انبیاء کا اسلحہ اٹھاؤ
علیكم بسلاح الأنبیاء، فقیل: وما سلاح الأنبیاء ؟ قال: الدعاء۔
اصول کافی ، ج 4 ، ص (214)
امام ہمیشہ اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کا اسلحہ اٹھاؤ، کہا گیا: انبیاء کا اسلحہ کیا ہے؟ فرمایا: دعاء۔
9۔ صلہ رَحِم
صل رحمك و لو بشربة من ماء ، وافضل ما توصل به الرحم كف الأذی عنها۔
تحف العقول ، ص (469)
قرابتداری کا پیوند برقرار کرو حتی اگر وہ ایک گھونٹ پانی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، اور قرابتداری کا بہترین پیوند یہ ہے کہ قرابتداروں کو آزار و اذیت پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔
10۔ فہم دین کی نشانیاں
إن من علامات الفقه : الحلم و العلم ، و الصمت باب من ابواب الحكمة ، إن الصمت یكسب المحبة ، إنه دلیل علی كل خیر۔
تحف العقول ، ص (469)
فہم دین کی نشانیوں میں حلم اور علم شامل ہیں اور خاموشی حکمت کے دروازوں میں سے ایک ہے۔ خاموشی دوستی اور محبت کماتی ہے اور ہر نیکی کی طرف راہنمائی فراہم کرتی ہے۔
11۔ گوشہ نشینی اور خاموشی کا زمانہ
یأتی علی الناس زمان تكون العافیة فیه عشرة اجزاء : تسعة منها فی اعتزال الناس و واحد فی الصمت۔
تحف العقول ، ص (470)
وہ وقت لوگوں پر آئے گا جب عافیت کے دس اجزاء ہونگے: 9 اجزاء لوگوں سے دوری اور گوشہ نشینی میں ہونگے اور ایک جزء خاموشی میں۔
12۔ توکل کی تعریف
سئل الرضا ( علیه السلام ) عن حد التوكل ، فقال ( ع ) : أن لا تخاف احدا الا الله۔
تحف العقول ، ص (469)۔
امام رضا علیہ السلام سے توکل کی حقیقت اور اس کی تعریف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: توکل یہ ہے کہ خدا کے سے کسی نہ نہ ڈرو۔
13۔ چار افراد چار چیزوں سے محروم
لیس لبخیل راحة ، و لا لحسود لذة ، و لا لملوك وفاء ، و لا لكذوب مروة۔
تحف العقول ، ص (473)۔
بخیل اور کنجوس کے لئے چین اور آسائش نہيں ہے، حسد کرنے والے کے لئے کوئی لذت نہیں ہے، بادشاہوں میں وفا نہيں ہے اور جھوٹے شخص میں مروت اور جوانمردی نہيں پائی جاتی۔
14۔ حسن ظن، قناعت اور ۔۔۔
أحسن الظن بالله ، فإن من حسن ظنه بالله كان عند ظنه ، ومن رضی بالقلیل من الرزق قبل منه الیسیر من العمل ، ومن رضی بالیسیر من الحلال خفت مؤونته ونعم أهله و بصره الله داء الدنیا و دواءها واخرجه منها سالما الی دار السلام۔
تحف العقول ، ص (472)
خدا پر حسن ظن رکھو کیونکہ جو خدا پر حسن ظن رکھے خدا اس کے حسن ظن کے ساتھ ہے۔ اور جو بھی تھوڑے سے رزق پر راضی و خوشنود (اور قانع) ہو خدا اس کا مختصر سا عمل قبول فرماتا ہے، اور جو تھوڑے سے حلال رزق پر خوشنود ہو اس کے اخراجات کم ہونگے اور اس کا خاندان نعمتوں میں پلے گا اور خداوند متعال اس دنیا کے دکھوں اور دواؤں سے بصیرت عطا کرتا ہے اور اس دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کے دارالسلام میں منتقل کرتا ہے۔
15۔ ایمان کے چار ارکان
الایمان أربعة أركان: التوكل علی الله، والرضا بقضاء الله، و التسلیم لأمر الله، و التفویض الی الله۔
تحف العقول ، ص (469)
ایمان چار ارکان پر مشتمل ہے: خدا پر توکل، خدا کی قضا پر راضي ہونا، خدا کے امر کے سامنے تسلیم ہونا اور اپنے امور کو خدا کے سپرد کرنا۔
16۔ بہترین بندے
سئل (علیه السلام) عن خیار العباد، فقال: الذین اذا أحسنوا استبشروا، واذا اساءوا استغفروا، واذا أعطوا شكروا، و اذا ابتلوا صبروا، واذا غضبوا عفوا۔
تحف العقول ، ص (469)
امام رضا علیہ السلام سے بہترین بندوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ جب نیکی کرتے ہیں، خوش ہوجاتے ہیں، جب برا عمل کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، جب ان کو کچھ عطا کیا جاتا ہے، شکر کرتے ہیں، جب بلا اور مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں، درگذر کرتے ہیں۔
17۔ دنیاوی زندگانی
سئل الامام الرضا ( علیه السلام ) عن عیش الدنیا ، فقال: سعة المنزل وكثرة المحبین۔
بحار الانوار ، ج 76، ص (152)۔
امام رضا علیہ السلام سے دنیا کی خوشحال زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وسیع گھر اور دوستوں کی کثرت۔
18۔ قیامت کے دن فراخی چاہتے ہو تو۔۔۔
من فرج عن مؤمن فرج الله عن قلبه یوم القیامة۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (268)
جو شخص کسی مؤمن کا مسئلہ حل کرے اور اداسی کو اس سے دور کردے خداوند متعال روز قیامت غم و اندوہ کو اس کے قلب سے دور کردیتا ہے۔
19۔ مؤمن کے دل کو خوش کیا کرو
لیس شیء من الاعمال عند الله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔
اللہ عزوجل کے نزدیک فرائض کی انجام دہی کے بعد کوئی بھی عمل مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے افضل نہیں ہے۔
20۔ ایک دوسرے کے ساتھ دوست رہا کرو
تزاوَرُوا تحـابـوا و تصـافحُـوا۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)
ایک دوسرے کے ملنے جایا کرو، ایک دوسرے سے دوستی اور محبت کیا کرو۔ (متعدد روایات میں منقول ہے کہ: ہمارے امر کو زندہ رکھنے کے لئے، ایک دوسرے کو ہماری حدیث بیان کرنے کے لئے ملتے رہا کرو اور یہ کہ تمہارے میل جول میں ہمارے مکتب کی حیات ہے چنانچہ ملنا اگر لہو و لعب کے لئے ہو تو اس میں کوئی فضیلت نہيں ہے)۔
21۔ دین و دنیا کے امور مخفی رکھو
علیكم فی أموركم بالكتمان فی أمور الدین و الدنیا ، فإنه روی " أن الإذاعة كفر " و روی " المذیع و القاتل شریكان " و روی " ما تكتمه من عدوك فلا یقف علیه ولیك"۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)
تم پر لازم ہے کہ اپنے دین و دنیا کے امور میں رازدار رہو، روایت ہوئی ہے کہ "فاش کرنا کفر ہے"، اور روایت ہوئی ہے کہ "جو اسرار کو فاش کرتا ہے وہ قاتل کے ساتھ قتل میں شریک ہے"، اور روایت ہوئی ہے کہ "جس چیز کو تم دشمن سے خفیہ رکھتے ہو تمہارا دوست بھی اس سے واقف نہ ہونے پائے"۔ (حدیث کے متن سے ظاہر ہے کہ کن کن امور کو چھپانا چاہئے)۔
22۔ چار لوگوں کے ساتھ چار رویئے اختیار کرو
اصحاب السلطان بـالحَذر، وَ الصـّدّيق بـالتّـواضُع، وَ العدوّ بـالتّحرُز، وَ العامّة بالبشـر۔
بحارالانوار،ج 78، ص 356.
سلطان اور حاکم کے اصحاب اور حاشیہ برداروں سے دوری اختیار کرو؛
دوست کے ساتھ خاکسارانہ رویہ رکھو؛
دشمن کے ساتھ احتیاط اور اجتناب کا رویہ اختیار کرو؛ اور
لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرو۔
23۔ اس شخص سے امید مت رکھو
خمس من لم تكن فيه فلا ترجوه لشئ من الدنيا والاخرة: من لم تعرف الوثاقة في أرومته والكرم في طباعه، والرصانة في خلقه والنبل في نفسه، والمخافة لربه.
پانچ چیزیں اگر کسی میں نہ ہوں تو دنیا اور آخرت کے بارے میں اس سے امید وتوقع وابستہ نہ کرو: وہ جس کے وجود میں اعتماد نہ دیکھ سکو؛ وہ جس کی طینت میں کرم اور بزرگواری و جوانمردی نہ دیکھ سکو، وہ جس کے اخلاق اطوار میں استحکام و استواری نہ پاسکو، وہ جس کے نفس میں نجابت و شرافت نہ پاسکو اور وہ جس کے وجود میں خدا کا خوف نہ پاسکو۔
24۔ کس کا اجر مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے؟
ان الذی یطلب من فضل یكف به عیاله أعظم أجرا من المجاهد فی سبیل الله۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (339)۔
بے شک جو اپنے اہل و عیال کے لئے رزق و روزی وسیع کرنے کی کوشش کررہا ہے اس کا اجر و انعام خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے۔
25۔ حب آل محمد(ص) اور نیک اعمال ایک دوسرے کے بغیر نامکمل
لا تدعوا العمل الصالح و الاجتهاد فی العبادة اتكالا علی حب آل محمد ( علیهم السلام ) ، لا تدعوا حب آل محمد (علیهم السلام) و التسلیم لأمرهم اتكالا علی العبادة ، فإنه لا یقبل أحدهما دون الَاخر۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔
(خبردار) نیک اعمال اور عبادت میں کوشش کو آل محمد(ص) کی محبت کے سہارے ترک نہ کرنا، اور (خبردار) کہیں ایسا نہ ہو کہ آل محمد(ص) کی محبت اور ان کی فرمانبرداری کو عبادت کے سہارت ترک نہ کرنا، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔
26۔ تفکر عبادت ہے
لیس العبادة كثرة الصیام والصلاة، وانما العبادة كثرة التفكر فی أمر الله۔
تحف العقول ، ص (466)۔
عبادت زیادہ روزہ رکھنا اور زیادہ نماز پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ بے شک امر خدا میں زیادہ غور وتفکر کرنا ہے۔
27۔ ہماری صورت حال
قیل له: وكیف اصبحت؟ قال (ع ): اصبحت بأجل منقوص، وعمل محفوظ ، والموت فی رقابنا، والنار من ورائنا، ولا ندری ما یفعل بنا۔
تحف العقول ، ص (470)۔
عرض کیا گیا: یابن رسول اللہ(ص)! رات کیسے گذار دی؟ فرمایا: عمر کم ہوئی، کردار ثبت ہوا، اور موت ہماری گردن پر ہے اور دوزخ ہمارا پیچھا کررہا ہے اور ہم (یعنی انسان) نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا!۔
28۔ تین خصلتوں سے حقیقت ایمان تک پہنچ سکتے ہو
لا یستكمل عبد حقیقة الایمان حتی تكون فیه خصال ثلاث: التفقه فی الدین، وحسن التقدیر فی المعیشة ، والصبر علی الرزایا۔
تحف العقول ، ص (471)۔
کوئی بھی بندہ کمالِ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ تین خصلتوں کا مالک نہ ہو: دین میں سمجھ بوجھ، معیشت میں تدبیر اور اندازہ رکھنا، اور مصائب اور بلاؤں پر صبر۔
29۔ قرآن میں ہدایت تلاش کرو
قال الریان للرضا (ع): ما تقول فی القرآن؟ فقال: كلام الله لا تتجاوزوه، ولا تطلبوا الهدی فی غیره فتضلوا۔
بحار الانوار ، ج 92، ص (117)
ریان بن صلت نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: قرآن کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ امام(ع) نے فرمایا: قرآن خدا کا کلام ہے، اس سے تجاوز نہ کرو اور قرآن کے بغیر کسی اور سے ہدایت و راہنمائی مت مانگو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے۔
سوال: پھر ہم پر اہل بیت(ع) کی پیروی کیوں واجب ہے؟ جواب: وہ بھی قرآن ہی کا حکم ہے اور باعث ہدایت۔
30۔ اللہ رحم کرے اس پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے
قال عبدالسلام بن صالح الهروی: سمعت الرضا (ع) یقول: رحم الله عبدا احییٰ امرنا. قلت : وكیف یحیی امركم ؟ قال: یَتَعَلَّمُ علومَنا وَیُعَلِّمُها الناسَ۔
وسائل الشیعة ، ج 18، ص (102)۔
عبدالسلام الہروی کہتے ہیں: میں نے امام رضا(ع) کو فرماتے ہوئے سنا: خدا رحم کرے اس بندے پر جو ہمار امر (اور ہمارے مشن) کو زندہ رکھے۔ میں نے عرض کیا: وہ ایسا کیونکر کرسکتا ہے؟ فرمایا: ہمارے علوم کو سیکھ لے اور لوگوں کو سکھائے۔
31۔ خود احتسابی، عالم کون ہے؟
من حاسب نفسه ربح ، ومن غفل عنها خسر، ومن خاف أمن، ومن اعتبر أبصر، ومن أبصر فهم ، ومن فهم علم۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)۔
جو اپنے آپ کا احتساب کرے منافع اٹھائے گا، جو اپنے آپ سے غافل ہوجائے نقصان اٹھائے گا، جو اپنے مستقبل سے فکرمند ہوگا اور خوفزدہ ہوگا، محفوظ رہے گا اور جو دنیا کے حوادث اور واقعات سے عبرت لے، صاحب بصیرت بنے گا اور جو صاحب بصیرت ہوگا وہ مسائل کو سمجھ لےگا اور جو مسائل کو سممجھ لے وہ عالم ہے۔
32۔ عُجب کے کئی درجات ہیں
العجب درجات: منها ان یزین للعبد سوء عمله فیراه حسنا فیعجبه ویحسب انه یحسن صنعا، ومنها أن یؤمن العبد بربه فیمن علی الله ولله المنة علیه فیه۔
تحف العقول ، ص (468)۔
عُجب کے کئی درجات ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندے کا برا عمل اس کو خوبصورت نظر آئے اور سمجھے کہ اس نے اچھا کام کیا ہے، ایک یہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والا بندہ خدا پر احسان جتائے حالانکہ خدا نے اس سلسلے میں اس پر احسان کیا ہے۔
33۔ تین چیزوں کا تعلق تین چیزوں سے
إن الله عزوجل أمر بثلاثة مقرون بها ثلاثة اخری: امر بالصلاة و الزكاة، فمن صلیٰ ولم یزك لم یقبل منه صلاته ، وامر بالشكر له وللوالدین، فمن لم یشكر والدیه لم یشكر الله، وامر باتقاء الله و صلة الرحم، فمن لم یصل رحمه لم یتق الله عزوجل۔
عیون اخبار الرضا ، ج 1 ، ص (258)۔
خداوند متعال نے تین چیزوں کو تین چیزوں سے مربوط کردیا ہے (اور ایک دوسری کے بغیر ناقابل قبول ہے): نماز کو زکوٰۃ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے پس جو نماز ادا کرے اور زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہ ہوگی، نیز اس نے اپنے شکر کو والدین کے شکر کے ساتھ ذکر کیا ہے پس جو خدا کا شکر کرے اور والدین کا قدر دان نہ ہو اس نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا ہے۔ اور خدا نے تقوائے الہی اور اعزاء و اقارب کے ساتھ پیوند استوار رکھنے کا حکم دیا ہے پس جو اپنوں کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرے وہ متقی اور پرہیزگار شمار نہ ہوگا۔
34۔ حرص و حسد سے پرہیز کرو بخل ایمان کے خلاف ہے
ایاكم والحرص و الحسد، فإنها أهلكا الامم السالفة، وایاكم والبخل فإنها عاهة لا تكون فی حر ولا مؤمن، إنها خلاف الإیمان۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (346)
حرص و حسد سے پرہیز کرو کیونکہ ان دو نے سابقہ امتوں کو نیست و نابود کیا اور بخل و کنجوسی سے پرہیز کرو کیونکہ کوئی بھی مؤمن اور آزاد انسان بخل کی آفت میں مبتلا نہيں ہوتا۔ بخل ایمان سے متصادم ہے۔
35۔ صدقہ دیا کرو
تصدق بالشیء وإن قل، فان كل شیء یراد به الله، وإن قل بعد ان تصدق النیة فیه عظیم۔
وسائل الشیعة ، ج 1 ، ص (87)۔
صدقہ دیا کرو خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر چھوٹا کا جو خدا کی خاطر انجام دیا جائے، عظیم ہے۔
36۔ تائب بےگناہ ہے
التائب من الذنب كمن لا ذنب له۔
بحار الانوار ، ج 6 ، ص (21)
توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔
37۔ بہترین عقل وتفکر
افضل العقل معرفة الانسان نفسه۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)
بہترین تعقل و تفکر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے (اور معرفت نفس حاصل کرے)۔
38۔ خدا پر حسن ظن رکھو
أحسن الظن بالله، فإن الله عزوجل یقول: أنا عند ظن عبدی المؤمن بی، إن خیراً فخیراً وإن شراً فشراً۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (116).
اللہ پر حسن ظن رکھو اور خوش گمان رہو کیونکہ خداوند عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے مؤمن بندے کے حسن ظن کے ساتھ ہوں، اگر اس کا گمان اچھا ہے تو میرا سلوک بھی نیک ہوگا اور اگر اس کا خیال میرے بارے میں برا ہے تو میرا سلوک بھی اس کے اچھا نہ ہوگا۔
39۔ صلہ رحمی طول عمر کا سبب
یكون الرجل یصل رحمه، فیكون قد بقی من عمره ثلاث سنین فیصیرها الله ثلاثین سنة ویفعل الله ما یشاء۔
اصول کافی ، ج 3 ، ص (221)
کبھی، ایک شخص صلہ رحمی کرتا ہے (اور اپنوں سے پیوند برقرار کرتا ہے) جبکہ اس کی عمر میں سے صرف تین سال باقی رہ گئے ہیں پس خداوند متعال اس کی عمر 30 سال تک بڑھا دیتا ہے، اور خدا جو چاہے انجام دیتا ہے۔
40۔ لوگوں کی حاجت برآری کی اہمیت
احرصوا على قضاء حوائج المؤمنين وإدخال السرور علیهم ودفع المكروه عنهم، فإنه لیس شیءٌ من الاعمال عندالله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔
مؤمنین کی ضروریات پوری کرنے اور ان کو خوشنود کرنے اور مشکلات کو ان سے دور کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فرائض کی انجام دہی کے بعد خدا کے نزدیک کوئی بھی عمل مؤمن کو خوشنود کرنے سے افضل نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: مہدوی
غزہ پر صہیوني ریاست کا ہوائي حملہ
غاصب صہیوني ریاست کي جنگي طياروں نے جمعے کو غزہ کے شمالي علاقوں پر متعدد بار حملے کئے ۔ ان حملوں ميں ايک کمسن بچے سميت سات فلسطيني زخمي ہوگئے۔
دوسري جانب بيت المقدس کے مشرق ميں واقع ابوديس نامي علاقے ميں صہیوني فوجيوں کي فائرنگ ميں بھي دو فلسطيني نوجوان زخمي ہوگئے ہيں۔ صيہوني فوجيوں نے بدھ کو غرب اردن کے علاقےرام اللہ کے مغرب ميں ايک بائيس سالہ فلسطيني نوجوان کو گولي مارکے شہيد کرديا تھا۔
طالبان سے مذاکرات:وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کو مکمل اختیار دیدیا
وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں طالبان سے مذاکرات کے لئے حکومتی کمیٹی کا پہلا اجلاس وزیر اعظم ہاوس میں ہوا۔ ذرائع کے مطابق چودھری نثارنے کمیٹی ارکان کو حکومتی سطح پر کی جانے والی کوششوں سے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا۔ اجلاس میں طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل اور آئندہ کی حکمت عملی سمیت مذاکرات کے حامی طالبان گروپوں سے بات شروع کرنے کے طریقے پربھی غورکیا گیا۔وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کو طالبان سے مذاکرات کے لیے گائیڈلائن دی۔ اجلاس میں مذاکراتی کمیٹی کے اسکوپ اورمینڈیٹ پربھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بات چیت کے زریعے امن قائم کرنے کی کوششیں کامیاب بنانا چاہتے ہیں۔وزیر اعظم نے ہدایت کی کمیٹی مذاکرات پر آمادہ گروپوں کے ساتھ رابطوں کو یقینی بنائے۔ چوہدری نثار علی خان کمیٹی کو مطلوبہ وسائل اور خفیہ معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت ارکان کمیٹی کو مکمل سیکیورٹی اور سفری سہولیات فراہم کریں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ عرفان صدیقی کمیٹی کے کارڈینیٹر ہونگے، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کو براہ راست تمام پیش رفت سے آگاہ رکھیں گے۔اجلاس میں مذاکراتی کمیٹی کے چاروں اراکین عرفان صدیقی،رستم شاہ مہمند،رحیم اللہ یوسف زئی اور میجر ریٹائرڈ عامر سمیت وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی شریک تھے۔
رہبر معظم سے ترکی کے وزیر اعظم اردوغان اور اس کے ہمراہ وفد کی ملاقات
۲۰۱۴/۰۱/۲۹ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردوغان اور اس کے ہمراہ وفد کے ساتھ ملاقات میں حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اخوت، محبت اور دوستی کو بے مثال قراردیتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے باہمی روابط کو فروغ دینے کے لئے وسیع ظرفیتیں موجود ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جناب اردوغان کے دوروں کے دوران ہونے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں تہران اور انقرہ کے ٹھوس اور سنجیدہ اقدام کو لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: عملی اقدامات دونوں ممالک کے باہمی روابط میں زیادہ سے زیادہ استحکام اوربرق رفتار پیشرفت کا موجب بنیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دونوں قوموں کے قلبی تعلقات اور رجحانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ فرصتوں اور مواقع سے صحیح اور بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔
ترکی کے وزیر اعظم جناب رجب طیب اردوغان نےبھی اس ملاقات میں ترک صدر اور ترکی کے عوام کی طرف سے گرم اور صمیمی سلام رہبر معظم انقلاب اسلامی کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا: میں ایران کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا ہوں۔
ترکی کے وزیر اعظم نے آج ایران کے صدر اور دیگر اعلی ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات کو بہت ہی مفید اور مؤثر قراردیا اور کچھ معاہدوں پر دستخط کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: امید ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی روابط میں پیشرفت اور توسعہ عالمی اور علاقائی ممالک کے لئے بہترین نمونہ قرار پائےگآ۔
ترکی کے وزیر اعظم اردوغان نے ایران اور ترکی کے درمیان تعاون کی اعلی کونسل کی دستاویز پر دستخط کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے کہا: مسلسل باہمی اجلاس اور گفتگو کے ذریعہ باہمی روابط کو سنجیدگی کے ساتھ فروغ دیں گے اور ایسا محسوس ہوگا کہ گویا دونوں ممالک کے وزراء ایک مشترکہ کابینہ میں بیٹھ کر باہمی تعاون اور مذاکرات میں مشغول اور مصروف ہیں۔
ایڈورڈ اسنوڈن پر برطانوی وزیر اعظم کی تنقید ۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کل اس ملک کی پارلمانی کمیٹی کے اراکین کے درمیان تقریر ميں اخبارات کے چیف ایڈیٹروں سے ، جو اسنوڈن کی دستاویزات کے انکشاف کو شائع کرتے ہیں ، مطالبہ کیا کہ کسی بھی اقدام سے پہلے اس کے نتائج کے بارے میں غور کریں ۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ سکورٹی ميں کمی آنے سے ملک کو درپیش خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ کیمرون نے اس سے قبل دھمکی دی تھی کہ وہ اسنوڈن کی خفیہ دستاویزات کی اشاعت کے خلاف قانونی کاروائی کریں گے بعض دستاویزات کہ جن کا اسنوڈن نے انکشاف کیا ہے ،برطانیہ کی جاسوسی کی تنظیم " جی سی ایچ کیو" اور امریکہ کی سکورٹی ایجنسی کے ساتھ تعاون سے متعلق ہے ۔ اس ملک کے بیشتر پارلمانی نمائندوں کاخیال ہےکہ ان دستاویزات کے انکشاف نے برطانیہ کی قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے ۔
آیۃ اللہ خاتمي: امریکہ مردہ آباد ، ملت ایران کی عزت وعظمت ۔
تہران کے خطیب نماز جمعہ آیۃ اللہ سید محمد خاتمی نے کہا ہےکہ امریکہ مردہ باد کے نعرے سے ملت ایران، سرافراز و سربلند ہوئی۔
تہران کے خطیب نماز جمعہ آیۃ اللہ سید احمد خاتمی نے پورے ایران ميں عشرۂ فجر کی مناسبت سے وسیع پیمانے پر پروگراموں کے انعقاد پر تاکید کی ۔ آیۃ اللہ خاتمی نے چھتیسیویں عشرۂ مبارک فجر کے بارے میں کہا کہ حضرت امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی ، ملت ایران کے لئے استقلال و آزادی اور دینی حاکمیت کا پیغام لائی ۔ آیۃ اللہ خاتمی نے ملت ایران کی 35 سالہ عزت و سربلندی کو استقامت و پائیداری کا مرہون منت قرار دیا اور کہا کہ امریکہ مردہ باد کا نعرہ ملت ایران کے لئے عزت و عظمت کا حامل ہے ۔ آيۃ اللہ خاتمی نے اسی طرح ایران کے خلاف امریکی صدر اوباما اور وزیر خارجہ جان کیری کی دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھمکیاں اب بے اثر ہوچکی ہیں اور ملت ایران استقامت و پائیداری کی ثقافت اپنا کر ان دھمکیوں کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا فرمایا ہےکہ اسلامی جمہوریۂ ایران ایٹم بم بنانے کے درپے نہيں ہے کہا کہ وہ امریکہ ہے جس نے جاپان کےشہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر بم گراکر ہزاروں افراد کا قتل عالم کیا تھا۔ آیۃ اللہ خاتمی نے عالمی برادری کو لاحق تشویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی معاشرے کو اپنے مستقبل کے بارے میں خطرہ ، امریکہ اور صہیونی حکومت سے ہے ۔ انہوں نے امریکہ پر ، جو حزب اللہ لبنان کو ایک دہشت گرد گروہ سمجھتا ہے ، ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ لبنان کوئی دہشت گرد گروہ نہيں ہے کیوں کہ وہ غاصب اسرائیل کے مقابلے میں عزت و سربلندی سے صرف اپنی سرزمین کا دفاع کررہا ہے ۔ آیۃ اللہ خاتمی نے اسی طرح شام سے متعلق جنیوا دو کانفرنس کی ناکامی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے بحران کا حل امریکہ اور اس کے عرب اتحادیوں کے توسط سے شام میں دہشت گردوں کے لئے ہتھیاروں کی ترسیل کا بند ہونا ہے ۔ انہوں نے مصر کی موجودہ صورتحال کےبارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کے فوجیوں کی یہ کوشش ہے کہ وہ ایک بار پھر اس ملک ميں نامبارک کے دور کا مشاہدہ کریں اور وہ چاہتے ہیں کہ مصر کو ایک بار پھر اسرائیل کا کوریڈور بنادیں ۔