
Super User
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بحیثیت زوجہ
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جب امیرالمومنین علی مرتضیٰ علیہ السلام کے بیت الشرف تشریف لے گئیں تو دوسرے روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹی اور داماد کی خیریت معلوم کرنے گئے ۔ آپ نے علی علیہ السلام سے سوال کیا یا علی تم نے فاطمہ کو کیسا پایا ؟ علی علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ، یا رسول اللہ میں نے فاطمہ کو عبادت پروردگار میں بہترین معین و مددگار پایا ۔
گویا علی علیہ السلام یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زوجہ قابل تعریف وہی ہے جو اطاعت شوہر کے ساتھ ساتھ مطیع پروردگار بھی ہو شاعر نے اس بات کو ایسے نظم کیا ۔
حسن سیرت کے لئے خوبی سیرت ہے ضرور
گل و ہی گل ہے جو خوشبو بھی دے رنگت کے سوا
چونکہ حسن، دائمی نہیں ہوتا بلکہ عمل دائمی ہوتا ہے آخرت میں دنیاوی حسن کام آنے والا نہیں بلکہ نیک اعمال ساتھ دینگے ۔پھر علی علیہ السلام سے جواب دریافت کرنے کے بعد رسول خدا (ص) حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف متوجہ ہوئے تو عجیب منظر نظر آیا ایک شب کی بیاہی بوسیدہ لباس پہنے بیٹھی ہے رسول خدانے سوال کیا بیٹی تمہارا لباس عروسی کیا ہوا بوسیدہ لباس کیوں پہن رکھا ہے ؟ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جواب دیا بابا میں نے آپ کے دہن مبارک سے یہ سنا ہے کہ راہ خدا میں عزیز ترین چیز قربان کرنی چاہئے بابا آج ایک سائل نے دروازہ پر آکر سوال کیا تھا مجھے سب سے زیادہ عزیز وہی لباس تھا میں نے وہ لباس راہ خدا میں دیدیا ۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنے چاہنے والوں کو درس دیا کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھنا چاہیئے اگر تمہارے پاس صرف دو لباس ہیں اور ان میں سے ایک زیادہ عزیز ہے تو اس لباس کو راہ خدا میں خیرات کر دو ۔
لاکھوں سلام ہو ہمارا اس شہزادی پر جس کا مہر ایک زرہ اور ایک کتان کا بنا ہوا معمولی ترین لباس اور ایک رنگی ہوئی گوسفند کی کھال تھا فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا یہ معمولی سا مہر خواتین عالم کو درس قناعت دے رہا ہے کہ جتنا بھی ملے اس پر شکر خدا کر کے راضی رہنا چاہئے یہی وجہ تھی کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا : میری امت کی بہترین خواتین وہ ہیں جن کا مہر کم ہو۔
فرزند رسول مصحف ناطق امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : کسی خاتون کا مہر زیادہ ہونا باعث فضیلت نہیں قابل مذمت ہے بلکہ مہر کا کم ہونا باعث عزت و شرافت ہے ۔
صحافیوں کی شہادت، بزدلانہ اقدام
اسلامی جمہوریۂ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے المنارٹی وی چینل کے تین صحافیوں کی شہادت کے بزدلانہ اقدام کی مذمت کی ۔ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے آج ، المنار ٹی وی چینل کے تین صحافیوں کو شام کے شہر معلولا میں، تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس بربریت نے ایک بار پھر ، تشدد اور انتہاپسندی سے پیدا ہونے والے ٹھوس خطرات کو نمایاں کردیا ہے ۔ ترجمان دفتر خارجہ ایران نے ، تشدد اور انتہاپسندی سے عاری دنیا پر مبنی اسلامی جمہوریۂ ایران کے صدر کے منصوبے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے افراد کا قتل ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام ملکوں اور متعلقہ اداروں کے درمیان باہمی تعاون کو ضروری بنا دیتا ہے ۔ المنار چینل نے اعلان کیا ہے کہ شہید حمزہ الحاج حسن کی نماز جنازہ آج بعلبک ميں ، مزاحمت کے حامیوں اور لبنان کے عوام کی ایک بڑی تعداد کی شرکت سے انجام پائے گي جبکہ حلیم علوہ کو کل شمال مشرقی لبنان کے شہر ھرمل ميں دفن کیا جائے گا ۔ واضح رہے کہ تکفیری دہشتگردوں نے شام کے مغربی شہر معلولا میں حزب اللہ کے حمایت یافتہ چینل کے تین صحافیوں کو گولی مارکر شہید کر دیا جبکہ دو زخمی بھی ہوئے ہيں ۔ المنار ٹی وی کا یہ گروپ ، مسلح عناصر کے قبضے سے معلولا کے علاقے کو ، شامی فوج کے توسط سے آزاد کرانے کی کارروائی کی کوریج کررہا تھا کہ چند مسلح عناصر نے انہیں گولی مارکر شہید کردیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی صفات کا واضح نمونہ تھیں جو دو سخا ، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ آپ اپنے شوہرنامدار حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کو سوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گذارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت ،گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گذرتا تھا ۔ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجودکے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔
حضرت فاطمہ زھرا زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الہی کو سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔آپ نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ آپ اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔لہذا آج کی خواتین کو بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت سے درس لے کر اپنی زندگی کو کامیاب وکامران بنانا چائیے ۔
ایران میں ٹارگٹ کلنگ سے 17 ہزار افراد شھید
اسلامی جمہوریہ ایران میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 17 ہزار افراد شھید ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایران کی شہید فاؤنڈیشن میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے کے معاون حجۃ الاسلام والمسلمین "سید حبیب اللہ حسنی" نے ایران کے مشرقی صوبے خراسان جنوبی کے گورنر کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ ایران میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل ہونے والوں 17 ہزار شہداء کے باوجود، افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ دنیا کے بعض ممالک، غیر منصفانہ طور پر اسلامی جمہوریہ ایران پر دھشتگردی کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں۔ حجۃ الاسلام والمسلمین "سید حبیب اللہ حسنی" نے مزید کہا کہ ایران کے مومن و غیور عوام اور شہداء کے اہل خانہ ، اسلامی جمہوری نظام سے دلی لگاؤ رکھتے ہیں اور وہ اپنا سب کچھ اسلامی انقلاب پر قربان کرنے کے لئے آمادہ ہیں۔ ایران کی شہید فاؤنڈیشن میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے کے معاون نے مزید کہا کہ ملت ایران نے گذشتہ تین دہائیوں میں اسلامی نظام کے خلاف دشمنوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔
آیت الله حسینی بوشهری: حوزات علمیہ اور مساجد پر خصوصی توجہ رہے
حوزات علمیہ ایران کے سربراہ آیت الله سید هاشم حسینی بوشهری نے صوبہ قم کی سپریم کونسل کے اراکین سے ملاقات میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ غدیر اور عاشور، انقلاب اسلامی ایران بنیادیں ہیں کہا: انقلاب اسلامی ایران نے دنیا کو عظیم سبق دیا ہے ، اور اسلامی جمھوریہ ایران کی جانب سے کون سا آئڈیل پیش کیا جارہا ہے یہ دنیا کے لئے اہمیت کا حامل ہے ۔
انہوں نے مذھبی حکومت کے ادارہ کرنے میں ائمہ اطهار(ع) کے طرز عمل کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت زهرا(س) نے اس سلسلہ میں فرمایا کہ اگر حضرت علی(ع) کو حکومت کا موقع دیا گیا ہوتا تو لوگ چین و سکون اورعیش و آرام کی زندگی بسر کرتے ۔
حوزات علمیہ ایران کے سربراہ نے مذھبی حکومت کی ذمہ داریوں اور اس کے وظائف میں آبادانی کی جانب اشارہ کیا اور کہا: حضرت علی(ع) نے مالک اشتر(رہ) کے نام خط میں تحریر کیا کہ اسلام میں آبادانی کو خاص اہمیت حاصل ہے جو انسان کی مادی اور معنوی حیات میں مددگار ہے ۔
مدرسین حوزہ علمیہ قم کونسل کے رکن نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ہماری روایات میں دنیا پر بھی توجہ کی گئی ہے کہا: انسان اپنی مادی حیات میں آخرت کے مسائل کو بھی ملحوظ نظر رکھے ۔
حوزات علمیہ ایران کے سربراہ نے حوزات علمیہ اور مساجد پر خصوصی توجہ کی تاکید کرتے ہوئے کہا: ابتدائے اسلام میں مسجدیں مسلمانوں کی مشکلات و مسائل کے حل کا مرکز تھیں اور آج بھی مسجدوں کو انہیں مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
انہوں نے آیات و روایات کے آئینہ میں عوام کی مشکلات کے حل کو ثواب و اجر آخرت کا باعث جانا اور کہا: صوبہ قم کی سپریم کونسل کے اراکین ، عوام کی خدمت کے حوالہ سے عطا کردہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور مکمل اخلاص کے ساتھ لوگوں کی خدمت کریں نیز ثقافت اهل بیت(ع) کی ترویج میں کوشاں رہیں ۔
آذربائیجان کی دفاعی ضروریات پوری کریں گے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع نے جمہوریہ آذربائیجان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تھران کی جانب سے آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ وزارت دفاع کے پریس نوٹ کے مطابق ایران کے وزیر دفاع جنرل "حسین دھقان" نے تھران میں جمہوریہ آذربائيجان کے وزیر دفاع "ذاکر حسن اف" کے ساتھ ملاقات میں ایران و جمہوریہ آذربائیجان کے درمیان دیرینہ تعلقات اور مشترکہ دینی و ثقافتی اقدار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اہم علاقائی و بین الاقوامی مسائل میں دونوں ملکوں کے مشترکہ مواقف اہمیت کے حامل ہیں۔ ایران کے وزیر دفاع نے ایران و آذربائیجان کی سرحدوں کو دوستی و بھائی چارے کی سرحدیں قرار دیا اور تاکید کی کہ دونوں ملکوں میں تعمیری صلاح مشورے اور باہمی رابطے، اس امر کا باعث بنیں گے کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں میں مکمل امن و امان اور سیکیورٹی کی برقراری قائم ہو۔ آذربائیجان کے وزیر دفاع نے بھی اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دورے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران علاقے کا ایک بڑا ملک ہے اور جمہوریہ آذربائیجان ، تھران کے ساتھ تعلقات کے فروغ کو اہمیت دیتا ہے۔ "ذاکرحسن اف" نے مزید کہا کہ ان کا ملک ایران کی پرامن جوہری سرگرمیوں کی حمایت کرتا ہے۔
داخلی جھڑپیں لبنان کے مفاد میں نہیں
لبنان کے مفتی اعظم نے اس ملک میں مسلحانہ جھڑپوں اور جنگ کے نتائج کے حوالے سے خبر دار کیا ہے۔ لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجینسی کی رپورٹ کے مطابق لبنان کے مفتی اعظم شیخ "محمد رشید قبانی" نے آج اس ملک میں داخلی جنگ کے وقوع پذیر ہونے کی 39 ویں برسی کی مناسبت سے اپنے ایک پیغام میں لبنان میں جاری مسلحانہ جھڑپوں اور داخلی جنگ کے نتائج کی بابت خبردار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ لبنانی گروہوں کے درمیان تعمیری صلاح مشورے کا جاری رہنا ، عوام کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے عمل کی تقویت کا باعث بن سکتا ہے۔ شیخ "محمد رشید قبانی" نے عوام میں وحدت کی تقویت ، باہمی و سیاسی اختلافات دور رہنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تاکید کی داخلی جھڑپیں ملک میں تباہی و بربادی اور لبنان کے عوام کے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں لاسکتیں۔ واضح رہے کہ آج لبنان میں داخلی جنگ کے آغاز کی 39 ویں برسی ہے اور لبنانی عوام نے 1975 سے لیکر1990 تک داخلی جنگ کے سبب سخت ترین حالات کا سامنا کیا ہے
امام علي (ع) مسجد اور مرکز اسلامی ہمبرگ
مسجد امام علی ﴿ع﴾ اور مرکز اسلامی ہمبرگ
{ إِنّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَ الْيَوْمِ اْلآخِرِ وَ أَقامَ الصّلاةَ وَ آتَى الزّكاةَ وَ لَمْ يَخْشَ إِلاّ اللّهَ فَعَسى أُولئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدينَ }
“ خدا کی مساجد کو وہ لوگ تعمیر کرتے ہیں، جنھوں نے خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ھو، نماز قائم کرتے ہیں، زکوة دیتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں۔ امید ہے یہ ہدایت پانے والوں میں سے ھوں”۔
مسجد، دین مقدس اسلام کا دفاعی مورچہ ہے، اور پوری تاریخ میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ ﴿ص﴾ کے با وفا صحابیوں نے اس کا دفاع کیا ہے۔ مسجد کے کافی رول ہیں ان میں سے اہم رول اس کا عبادت کا مرکز ھونا اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ بر قرار کرنے کی جگہ ہے۔ جس طرح ستارے آسمان کی زینت کا سبب ہیں، اسی طرح مساجد بھی زمین کی زینت ہیں اور مساجد میں مؤمنین کے دلوں میں خدا کا نور چمکتا ہے اور انھیں مستفید کرتا ہے۔ چنانچہ رسول خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:“ المساجد انوار اللہ”، “ مسجدیں خدا کا نور ہیں”۔
یورپ کی بڑی اور مشہور مساجدوں میں سے ایک مسجد امام علی علیہ السلام اور مرکز اسلامی ہمبرگ ہے، جس کو مرجع عالی قدر مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کی ہمت اور مؤمنین کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔
یہ باشکوہ مسجد اور اسلامی مرکز مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور قومون کی عبادت اور اسلام کی ترویج کی جگہ ہے۔ یہ اسلامی مرکز مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کی توجہ کا سبب بنا ہے اور مختلف ممالک سے آنے والے سیاح اس کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ یورپ کے بہت سے مسلمانوں، خاص کر جرمنی کے لوگوں کے لئے اسلامی مرکز ھمبرگ کا نام جانا پہچانا ہے اور شاید بعض افراد دور دراز علاقوں سے کئی بار آکر اس مسجد اور مرکز اسلامی کو دیکھنے میں کامیاب ھوئے ھوں گے۔
اس مسجد کا آلستر نامی خوبصورت جھیل کے کنارے پر واقع ھونا اور مشرقی معماری کی دلکش عمارت، اس امر کا سبب بنی ہے کہ شہر ھمبرگ میں تازہ داخل ھونے والے افراد اور مختلف ممالک کے سیاح، اس مرکز کو شہر کی دیکھنے کے قابل دینی عمارت کے عنوان سے دیکھنے کے لئے آئیں۔ سالہا سال سے جرمنی کے سیاحت سے متعلق موسسات کی طرف سے شائع کئے جانے والے بروشروں میں شہر ھمبرگ کی قابل دید تاریخی عمارتوں کے عنوان سے اس مسجد کا نام درج ھوتا ہے۔
مسجد اور مرکز کی تعمیر کی تاریخ:
یکم اکتوبر 1957ء میں پہلی بار اس مسجد کے لئے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا گیا اور اسے اندراج کیا گیا۔ جس کا رقبہ3744.4مربع میٹر تھا۔
فروری 1960 عیسوی میں اس مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں پہلی گینتی مارنے سے 1963ء کے اواخر تک کام میں کبھی کبھی وقفوں کے باوجود عمارت کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا۔ لیکن ان ہی دنوں حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی وفات پا گئے۔
1963عیسوی کے اواخر میں مسجد کی تعمیر کا کام کچھ مدت کے لئے رک گیا۔ عمارت تعمیر کرنے کی کمیٹی کو بجٹ ختم ھونے کی وجہ سے جرمنی کے بینکوں سے قرض لینا پڑا۔
1965عیسوی میں مراجع تقلید کی تائید سے شہید آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی، اس مسجد کے امام جماعت کے عنوان سے منصوب ھوئے۔ وہ ایک فعال عالم دین اور دانشور تھے۔ انھوں نے یہ عہدہ سنبھالتے ہی اس مسجد اور مرکز اسلامی کی بنیادی تعمیرات کو سرعت بخشی۔
1966ء اور 1967عیسوی کے سالوں کے دوران مسجد کا اندرونی ایک حصہ اور مسجد کی دیواروں پر باہر سے ٹائیل لگانے کا کام مکمل کیا گیا اور اس سلسلہ میں ایران اور جرمنی کے مسلمانوں نے مالی مدد کی۔
آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی کے دوسرے اہم کارناموں میں سے یہ تھا کہ انھوں نے مسجد کے ساتھ ایک اسلامی اور ثقافتی مؤسسہ کی بنیاد ڈالی تاکہ مختلف مذاہب اور فرقوں کے مسلمانوں کے لئے اسلامی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم ھوجائے۔ اس طرح شہید بہشتی کی کوششوں کے نتیجہ میں 8 فروری 1966عیسوی کو “ مرکز ھمبرگ” کا قانونی طور پر اندراج کیا گیا اور اس مرکز نے جرمنی اور دوسرے یورپی ممالک کی سطح پر اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔
1970عیسوی میں آیت اللہ بہشتی کے ایران لوٹنے کی مختصر مدت کے بعد ایران کی ظالم شاہی حکومت کے اشاروں پر جرمنی میں“ ملی بینک ” میں اس مسجد کی تعمیر کے بارے میں حساب کو بند کیا گیا اور اس طرح اس بینک نے مسجد اور مرکز کے کام کو جاری رکھنے کے لئے رقومات ادا کرنے سے انکار کیا۔ یہ اقدام اس مسجد اور مرکز کی سرگرمیوں کو مزید ضرر پہنچنے کا سبب بنا۔ لیکن بعض ہمدرد مسلمانوں کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں، اس مسجد کے مالی مشکلات کافی حد تک حل ھوگئے، اور1969عیسوی سے 1979عیسوی تک کی مدت کے دوران اس مسجد اور مرکز کے اہم کام من جملہ تقریروں کا ہال، مسجد کی بیرونی دیواروں کی زیبائی کا کام اور اس کا تہ خانہ مکمل کیا گیا۔
مسجد ھمبرگ کی عمارت:
مسجد ھمبرگ کی عمارت اس کے دو اہم حصوں پر مشتمل ہے: مسجد کا اصلی حصہ ایک دائرہ کی شکل میں ہے، کہ اس پر ایک بڑا گنبد قرار پایا ہے، جس کی بلندی 18میٹر اور قطر 13.5میٹر ہے۔ یہ گنبد سیمٹ کا بنا ھوا ہے اور اس پر تانبے کی تہ لگائی گئی ہے، اور اس کا رنگ سبز ہے اور اس نے مسجد کو ایک خاص زیبائی بخشی ہے۔
مسجد کی اندرونی دیواروں کو فیروزی رنگ کی ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ ان دیواروں پر خوشنما خط ثلث میں سورہ جمعہ اور سورہ اسراء کی چند ایات اور ان کا جرمنی زبان میں ترجمہ لکھا گیا ہے اس مسجد کے ٹائیل لگانے کا کام شہر مقدس مشہد کے ماہر استادوں نے انجام دیا ہے۔ مسجد کے قبلہ کی طرف ایک خوبصورت محراب ہے، جسے اینٹوں اور ٹائیلوں سے بنایا گیا ہے اور اس محراب کو بھی مشہد مقدس کے ماہر استادوں نے دوسال کی مدت میں تعمیر کیا ہے۔
محراب کے اوپر سورہ انعام کی آیت نمبر 162کی انتہائی خوبصورت انداز میں خطاطی کی گئی ہے۔ مسجد کے شبستان میں روزمرہ نماز جماعت، نماز جمعہ اور نماز عید الفطر اور نماز عیدقربان بجالائی جاتی ہے۔
گنبد کے دونوں اطراف میں دو مینار ہیں، جو رسول اللہ ﴿ص﴾ کے موذن، حضرت بلال ﴿رض﴾ کی اذان اور خدا کی وحدانیت کا اعلان کرنے کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں مینار بھی سیمٹ کے بنے ھوئے ہیں اور ان کو باہر سے چھوٹی چھوٹی ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ ان میناروں میں سے ہر ایک کا قطر2.20 میٹر ہے اور ان کی بلندی 18میٹرہے۔ مسجد کا صدر دروازہ مغرب کی طرف کھلتا ہے اور اس کا باہر کا حصہ خوبصورت ٹائیلوں سے سجایا گیا ہے۔ یہ صدر دروازہ مسجد کی اصلی سطح سے قدرے بلند تر ہے اور مسجد میں داخل ھونے کے لئے اس کے دونوں طرف دو سیڑھیاں لگی ھوئی ہیں۔ ان سیڑھیوں اور صدر دروازہ کے سامنے پانی کا ایک منظر دکھائی دیتا ہے، جو اس مسجد کے بیرونی منظر کو طراوت اور شادابی بخشتا ہے۔
مسجد کے اطراف میں ایک شبستان ہے، اس میں تقریروں کا بڑا ہال، کتابخانہ، اداری دفاتر، وضوخانہ، بیت الخلاء، کچن اور مرکز اسلامی کی سرگرمیوں کا دفتر ہے۔
تقریروں اور اجتماعات کا ہال مسجد کے شبستان کے کنارے پر واقع ہے اور اس میں200 کرسیاں بچھانے کی گنجائش ہے۔ اس ہال میں بر وقت ترجمہ کا سسٹم نصب کیا گیا ہے اور اس میں مذہبی اور علمی تقریریں کی جاتی ہیں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ تقریر کرنے کی جگہ کے پیچھے قرآن مجید کے سورہ نحل کی 125ویں آیت پر مشتمل ایک کتبہ نصب کیا گیا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّـهَ ذِكْرًا كَثِيرًا
یورپی پارلیمنٹ کی حالیہ قرارداد، مغرب کی دشمنانہ پالیسیوں کا تسلسل
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آج آیت اللہ امامی کاشانی کی امامت میں منعقد ہوئي۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ ایٹمی ٹکنالوجی میں ملت ایران کی کامیابیوں سے علاقائي اور عالمی سطح پر اس کے اعتبار میں اضافہ ہوا ہے۔
خطیب جمعہ تہران آیت اللہ امامی کاشانی نے نو اپریل کو ایٹمی ٹکنالوجی کے قومی دن قراردئیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کی سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایرانی ماہرین اور سائنسدانوں نے انتھک کوششیں کرکے ایٹمی شعبے میں ترقی کی۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی شعبے میں ایران کی ترقی دشمن کے لئے ناقابل یقین تھی اور وہ ایٹمی شعبے میں اتنی تیز ترقی کو برداشت نہیں کر پارہا تھا، اسی وجہ سے اس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن نہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے الزامات لگانا شروع کردیے۔ آیت اللہ امامی کاشانی نے کہا کہ پرامن ایٹمی ٹکنالوجی سے استفادہ کرنا ملت ایران کا حق ہے اور ملت ایران کو اس کے اس حق سے محروم کرنے کی دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوکر رہیں گي۔ خطیب جمعہ تہران نے ایران کے خلاف یورپی پارلیمنٹ کی حالیہ قرارداد کو بے وقعت اقدام سے تعبیر کیا اور کہا کہ یہ قرارداد ایرانی اور اسلامی ثقافت کے خلاف مغرب کی دشمنانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے۔