Super User

Super User

رہبر معظم کا سپاہ کی فضائیہ کے فوجی وسائل کی نمائشگاہ کا مشاہدہ

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے ہیڈکوارٹر میں حاضر ہو کر 2 گھنٹے تک سپاہ کے تیار کردہ فوجی وسائل پر مبنی نمائشگاہ کا مشاہدہ کیا۔

اس نمائشگاہ میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے تیار کردہ فوجی وسائل ، ڈرون طیاروں کے ڈیزائن اور ساخت ، بحری جہاز شکن میزائل ، بیلسٹک میزائل سسٹم، میزائل شکن نظام ، فضائی دفاعی نظام ، مختلف قسم کے رڈار اور کمانڈ کنٹرول مراکز کے وسائل پیش کئے گئے تھے۔

مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے سب سے پہلے نمائشگاہ کے اس ہال کا مشاہدہ کیا جس میں سپاہ پاسداران کی فضائیہ کے ڈیزائن اور تیار کردہ ڈرون طیاروں کو پیش کیا گيا تھا نمائشگاہ کے اس حصہ میں ڈرون شاہد 129 ، شاہد 125، اور شاہد 121 اور ڈرون طیارے کو دور سے کنٹرول کرنے کا سسٹم پیش کیا گیا تھا جسے ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نے ملک کے اندر تیار کیا تھا۔

اس نمائشگاہ کے اہم حصہ میں رڈار پر نظر نہ آنے والے اور دشمن سے غنیمت میں لئے گئے ڈرون طیارہ آر کیو 170 اور اس کے ایرانی ماڈل کو بھی پیش کیا گيا تھا ۔ ایرانی سائنسدانوں اور ماہرین نے تقریبا دو سال کی مدت میں امریکہ کے پیشرفتہ ڈرون طیارے آر کیو 170 کی معکوس انجینئرنگ کرکے اس کا ایرانی ماڈل تیار کرلیا۔ ماہرین نے امریکی ڈرون طیارے کی اطلاعات حاصل کرنے کے مختلف مراحل ، اس کی تعمیر، اس کےاہم قطعات کی ترتیب و تنظیم ، سیٹلائٹ رابطوں کی شناخت ، ہدایت اور کنٹرول پر مبنی سافٹ ویئر کی تعمیر اور شناخت اور ڈرون طیارہ کے انجن کی تعمیر کے بارے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کو آگاہ کیا۔

رہبر معظم کا سپاہ کی فضائیہ کے فوجی وسائل کی نمائشگاہ کا مشاہدہ

اس کے بعد رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نمائشگاہ کے دوسرے ہال کا مشاہدہ کیا جس میں زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل کو پیش کیا گيا تھا نمائشگاہ کے اس حصہ میں بحری جہاز کو نشانہ بنانے والے میزائل نظام ، بیلسٹک میزائل ، زلزال میزائل ، خلیج فارس میزائل، زلزال بارشی، ہرمز 1، 2 ، کروز، فجر 5 ،رعد 301 اور سجیل میزائلوں کو پیش کیا گيا تھا ان تمام میزائلوں کو ایرانی ماہرین اور سائنسدانوں نے داخلی توانائیوں کو کام میں لاتے ہوئے ملک کے اندر تیار کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج سوم خرداد نامی دفاعی فضائی نظام کا بھی افتتاح کیا جسے ایرانی ماہرین نے ملک کے اندر ڈیزائن اور تیار کیا ہے اس فضائی دفاعی نظام کو تیار کرنے میں ڈیڑھ سال کا عرصہ صرف ہوا ہے یہ میزائل 50 کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور ایک وقت میں 4 اہداف کا پتہ لگا کر 8 میزائل فائر کرسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد نمائشگاہ میں طبس فضائی دفاعی کمانڈ کنٹرول سینٹر میں رعد 1، 2 اور مختلف قسم کے رڈار اور دیگر فوجی وسائل کا مشاہدہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کمانڈ کنٹرول سینٹر میں بشیر اور کاوش رڈار سمیت مختلف رڈاروں ، الیکٹرانک جنگ اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کی دیگر توانائیوں کا بھی مشاہدہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نمائشگاہ میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے فوجی وسائل کا مشاہدہ کرنے کے بعد سپاہ اور فوج کے اعلی کمانڈروں اور سپاہ کی فضائیہ کے بعض سائنسدانوں اور ماہرین کے اجتماع سے خطاب میں نمائشگاہ کے مشاہدہ کو بہت ہی عمدہ اور ناقابل فراموش مشاہدہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اس نمائشگاہ کا سب سے بڑا اور اہم درس ایرانی قوم کی اندرونی صلاحیتوں اور توانائیوں کا اثبات اور جدید اور دشوار میدانوں میں واردہونا ہے جن میں دشمن انھیں وارد ہونے سے ممنوع کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

رہبر معظم کا سپاہ کی فضائیہ کے فوجی وسائل کی نمائشگاہ کا مشاہدہ

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یہ نمائشگاہ ہم تمام حکام کو اندرونی توانائیوں اور اقتدار کا پیغام دے رہی ہے اور اعلان کررہی ہے کہ "ہم کرسکتے ہیں"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی توانائیوں اور اقتدار پر بعض حکام کی عدم توجہ پر شکوہ اور گلہ کرتے ہوئے فرمایا: افسوس ہے کہ ہمارے حکام بعض شعبوں میں اس پیغام کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صلاحیت، توانائی اور پختہ عزم کو اقتدرار کے اہم عوامل میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ برسوں میں جس شعبہ میں بھی ماہرین کی توجہ مبذول کی گئی اس شعبہ میں خاطر خواہ ترقی نصیب ہوئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں ہمیشہ خارجہ پالیسی میں خلاقیت اور مذاکرات کا حامی و طرفدار رہا ہوں اور آج بھی مذاکرات کا حامی ہوں اور حکام کو میری ہمیشہ یہی سفارش رہی ہے کہ وہ خارجہ پالیسی میں اپنی خلاقیت اور صلاحیت سے بھر پور استفادہ کریں لیکن مذاکرات کے ساتھ اقتصادی پابندیوں اور ملک کی دیگرضروریات کو منسلک نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حکام کو پابندیوں کے مسئلہ کو کسی دوسرے طریقہ سے حل کرنا چاہیے۔

پاکستان کے وزیر اعظم تہران پہنچ گئےپاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف دو روزہ دورے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے دارالحکومت تہران پہنچے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم کے تہران پہنچنے پر نائب صدر اسحاق جہانگیری نے ان کا استقبال کیا ۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی استقبالیہ کی تقریب میں ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری ، وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور وزیر خزانہ علی طیب موجود تھے ۔ پاکستانی وزیر اعظم اسلامی جمہوریۂ ایران کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات کے جائزے اور اقتصادی تعاون کی تقویت کے مقصد سے آج تہران پہنچے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم کے ہمراہ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار ، وفاقی وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی، مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی ہیں ۔ پاکستان کے وزیراعظم کے دورہ ایران کے موقع پر پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی تفصیلی بات کی جائے گی اور توقع ہے کہ نواز شریف اس منصوبے کے لئے ایران سے مالی معاونت اور دیگر رعایتوں پر بھی بات کریں گے۔

پاکستان کی معیشت کے اصلاحی پروگرام پر مناسب عملدر آمدعالمی مالیاتی فنڈ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے اصلاحی پروگرام پر مناسب عملدر آمد ہورہا ہے تاہم اس ملک میں مہنگائی میں بھی اضافے کی بابت بھی خبردار کیا ہے ۔ ہمارے نامہ نگار کی رپورٹ کےمطابق انٹر نیشنل مونیٹری فنڈ ، آئی ایم ایف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی اور سرمایہ کاری میں بہتری لائے جانے اور معاشی استحکام کی تقویت کی پالیسیوں پر عملدر آمد میں مناسب پیشرفت ہوئی ہے ۔ پاکستان نے گذشتہ سال معاشی اصلاحات خاص طور پر توانائی کے شعبے میں اصلاح کے مقصد سے چھ ارب ستر کروڑ ڈالر آئی ایم ایف سے دریافت کئے تھے ۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرضہ پروگرام کے تحت تیسرے جائزے میں معاشی پالیسیوں پر اسٹاف کی سطح پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔پاکستان نے آئندہ مالی سال میں مالی خسارہ میں مزید کمی کیلئے ریونیو اور اخراجات کے حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔

صدارتی انتخابات میں تاخیر کی کوششوں پر شدید تنقیدحزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے لبنان میں صدارتی انتخابات میں تاخیر کی کوششوں پر شدید تنقید کی ہے۔ المنار نیوز کے مطابق حزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے کہا ہے کہ لبنان میں صدارتی انتخابات میں تاخیر کی کوشش یا اس سلسلے میں مشورے دینے والے افراد ملکی مفادات کو کمزور کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدارتی انتخابات میں تسلط اور اجارہ داری قابل قبول نہیں ہے اور انتخابات کے مشخص امور کا ہر سیاسی جماعت اور سیاسی گروہوں کو پابند ہو نا چاہئے۔ شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ 14 مارچ نامی گروہ کہ جو پارلمانی نشست میں لبنان کے نئے صدر کے انتخاب میں کامیاب نہیں ہو سکا، اسے چاہئے کہ وہ وقت ضائع کرنے سے باز رہے اور لبنان کے سیاسی عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں نہ کرے۔ واضح رہے کہ لبنان میں نئے صدر کے چناو کے لئے سترہ اپریل کو پارلیمنٹ کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے منعقد نہیں ہو سکا تھا جس کے بعد 23 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں 14 مارچ نامی گروہ کی جانب سے نامزد صدارتی امیدوار سمیر جعجع پارلیمنٹ کے 128 حاضر نمائندوں میں سے صرف 48 نمائندوں کی جانب سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

Saturday, 10 May 2014 07:45

مسجد روم ، اٹلی

مسجد روم ، اٹلی

مسجد روم، اتلی کے دارالخلافہ کی تنہا مسجد اور حالیہ کئی دہائیوں کے دوران تعمیر کی گئی سب سے بڑی تاریخی عمارت ہے۔ دوسری جانب اس مسجد کی شہرت روم اور اٹلی سے باہر تک پھیلی ھوئی ہے۔ “ مسجد روم” اٹلی کے دارالخلافہ، روم میں 30 ہزار مربع میٹر رقبہ پر ہے، اس کو جدید معماری کے مطابق تعمیر کیا گیا ہے اور ایک معنوی فضا پائی جاتی ہے۔ یہ مسجد، یورپ کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک ہے، جس میں بیک وقت کئی ہزار نماز گزار، نماز پڑھ سکتے ہیں۔

یہ مسجد شہر روم کے شمال میں “ آکوا آستوسا” کے علاقہ میں “ پار پولی” نامی پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہ مسجد اٹلی کی اسلامی اور ثقافتی مرکز بھی شمار ھوتی ہے۔

شہر روم کی یہ بڑی مسجد مذہبی تقریبات منعقد کرنے کی جگہ ہے اور مسلمانوں کی بہت سے تقریبات، جیسے : ازدواج، سوگواری، دینی بیٹھکیں اور سمینار وغیرہ اسی مسجد میں منعقد کئے جاتے ہیں۔

اس مسجد کی معماری کے پروجیکٹ کو“ پالؤلو پورتوگسی”، “وتیوریوجییوتی” اور “سامی موسوی” نے عملی جامہ پہنایا ہے۔

اس مسجد کی تعمیر میں دس سال لگ گئے ہیں۔ شہر روم کی میونسپلٹی کی کونسل نے 1974 عیسوی میں اس زمین کے ٹکڑے کو مسجد بنانے کے لئے مسلمانوں کو عطیہ کے طور پر دیا ہے۔ لیکن دس سال بعد 1984عیسوی میں اس زمانہ کے اٹلی کے صدر جمہوریہ“ ساندروپریتنی” کے حضور میں اس کی سنگ بنیاد ڈالی گئی اور اس کا باضابطہ افتتاح 21جون 1995عیسوی میں کا گیا۔

مسجد روم ، اٹلی

اصلی شبستان کے علاوہ اس مسجد می150 نماز گزاروں کے نماز پڑھنے کی جگہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس مسجد میں تعلیم وتربیت کا بھی ایک شعبہ ہے، جس میں ایک کتابخانہ اور تدریس کا ہال 1400افراد کی ظرفیت کا ایک کانفرنس ہال، نمائش گاہ کی جگہ اور امام جماعت اور مہمانوں کے لئے رہائشی فلیٹ بھی ہیں۔ اس مسجد کے چاروں طرف سرسبز علاقہ ہے اور اس مسجد کی تعمیر میں جدید معماری سے کام لیا گیا ہے اور اس مسجد کا بیرونی حصہ زیبا، خوبصور اور دلکش ہے۔

اس مسجد کی معماری کی خصوصیات میں فضائے معنوی ایجاد کرنے کے لئے نور کا اتہام اور خوبصورت پتھروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔

اس مسجد کی عمارت دوحصوں پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا حصہ، اس کا اصلی شبستان ہے جو سطح زمین سے 8 میٹر بلند ہے اور 60میٹر چوڑا مستطیل شکل کا ہے جو قبلہ کی طرف واقع ہے اور اس شبستان کے اوپر ایک گنبد ہے جس کا قطر 20میٹر ہے۔ اس کے اطراف میں 16 چھوٹے چھوٹے گنبد ہیں، جن سے اس مسجد کی رونق بڑھ گئی ہے۔ اس کا دوسرا حصہH کی شکل میں ہے، جس نے مسجد کے تمام فضا کو اپنے اندر سمیٹا ہے۔ اس مسجد کا مینار اس کے جنوب مغربی حصہ پر واقع ہے۔

مسجد روم ، اٹلی

یہ مسجد33 اسلامی ممالک کے تعاون سے تعمیر کی گئی ہے۔

رہبر معظم کی ملک بھر کے ہزاروں اساتذہ و معلمین سے ملاقات

۲۰۱۴/۰۵/۰۷- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے محکمہ تعلیم کے ہزاروں اساتذہ ، معلمین اور مدرسین کے ساتھ ملاقات میں علم آموزی، فکری تعلیم اور اخلاقی رفتار و تعلیم کو اساتذہ کے تین اصلی عنصر قراردیا اور محکمہ تعلیم میں تحول کی سند کے نفاذ کے لئے دقیق منصوبہ بندی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس عظیم ادارے کی ہمہ گير حمایت ، قوم کے فرزندوں کے درخشاں مستقبل کے لئے مؤثر سرمایہ کاری اور ایران کی برق رفتار معنوی و مادی پیشرفت کے لئے بہت ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے ساتھ ملاقات کو اساتذہ کے ساتھ ہمدردی و محبت اور تعلیم و تربیت کی منزلت و مقام کا احترام قراردیتے ہوئے فرمایا: ہم سب پر اساتذہ کا احسان ہے لہذا معاشرے میں اساتذہ کا احترام اس طرح اساسی اور ہمہ گير ہونا چاہیے کہ سماج و معاشرے میں استادکا احترام و اسے سلام کرنا فخر کا باعث بن جائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بچوں اور شاگردوں کو اساتذہ و معلمین کےپاس قوم کی امانت قراردیا، اور علم کے اصلی پہلوؤں کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا: علم و دانش کی تعلیم بڑی اہم ذمہ داری ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بچوں، جوانوں اور شاگردوں کو فکری تعلیم دینا ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سطحی نظری اور سطحی تعلیم کو معاشرے و سماج کے زوال کا سبب قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر طالب علم اپنے استاد سے صحیح غور و فکر کرنے کا طریقہ سیکھ لے تو ملک کا مستقبل فکر اور منطق پر استوار ہوگا لہذا اس سلسلے میں اساتذہ کی ذمہ داری بڑی سنگين ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عملی رفتار و اخلاق کی تعلیم کو اساتذہ کی تیسری مایہ ناز مہارت قراردیتے ہوئے فرمایا: قوم کے بلند مدت اہداف اور اصولوں تک پہنچنے کے لئے صبور،عاقل،متدین،خلاق،مہربان، شجاع ، دلیر،پرہیزگار، مؤدب اور مجاہد انسانوں کی ضرورت ہے اور ایسے انسانوں کی تربیت میں استاد کا نقش بنیادی ، اساسی اور یادگار ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں اساتذہ کی توجہ ایک اہم نکتہ کی طرف مبذول کرتے ہوئے فرمایا: درس اخلاق اور زندگی کی روش صرف کتاب پڑھنے اور بیان کرنے سے منتقل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے صداقت پر مبنی رفتار کی بہت ضرورت ہے۔

رہبر معظم کی ملک بھر کے ہزاروں اساتذہ و معلمین سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مدیریت کےحوالے سے چد نکتے بیان کئے اور اس ادارے کے حکام کی تعلیم و تربیت کے شعبہ میں تحول کی سند کے بارے میں سنجیدہ توجہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس بنیادی اور اساسی سند کے نفاذ کے لئےروڈمیپ اور دقیق منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ اسے اعلی انقلابی ثقافتی کونسل کی نظر کے مطابق مھیا کیا جائے اور بتدریج اور گام بہ گام نافذ کیا جائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انسانی وسائل کے مسئلہ کو محکمہ تعلیم کے دوسرے اہم مسائل میں قرار دیتے ہوئے فرمایا: محکمہ تعلیم کا دسیوں ملین افراد سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ ہے لہذا اس ادارے کے اعلی سطح کے مدیروں کو خاص خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: جوان، انقلابی، متدین، بانشاط اور لگن کے ساتھ کام کرنے والے افراد کو ترجیحات میں قراردینا چاہیے اور محکمہ تعلیم کے اہداف پر سنجیدہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور یہ مسئلہ اس ادارے کے حکام اور مدیروں کا اصلی مسئلہ ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے محکمہ تعلیم کی طرف سے مؤمن و متدین افراد پر اعتماد کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: قوم اور حکام کا اصلی ہدف اور مقصد یہ ہے کہ اسلام اور قرآن کی برکت سے اس ملک میں مادی ، معنوی اور اخلاقی لحاظ سے پیشرفتہ اور نمونہ عمل معاشرہ تشکیل دیا جائے اور اس اہم ہدف کے حصول اور اس تک پہنچنے کے لئے محکمہ تعلیم میں مصمم، متفکر اور بالندہ نسل کی تربیت ضروری ہے اور اس ہدف تک متدین اور انقلابی افراد کے ذریعہ پہنچنا ممکن ہوجائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے محکمہ تعلیم پر سیاسی اور حزبی نگاہ کو اس ادارے کے لئے مہلک زہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ایک زمانے میں اس ادارے پر یہ نگاہ غالب آگئی تھی جس نے بہت زيادہ نقصان پہنچایا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے محکمہ تعلیم کی تمام اداروں کی طرف سے پشتپناہی بالخصوص حکومتی بجٹ کے ذریعہ اس ادارے کی حمایت و پشتپناہی کو بہت ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: وزارت تعلیم میں جتنی بھی سرمایہ کاری کی جائے تو اس کا نتیجہ دوسرے اداروں کی نسبت مضاعف اور دگنا ہوگا کیونکہ یہ ادارہ ملک کی موجودہ اور آئندہ ترقیات کا اصلی سرچمشہ ہے۔

رہبر معظم کی ملک بھر کے ہزاروں اساتذہ و معلمین سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےدرسی کتابوں کے متون اور ان کی حفاظت کو مہم قراردیتے ہوئے فرمایا: کتابوں کے مطالب متقن اور مستحکم ہونے چاہییں اور انھیں ہر قسم کی دینی ، یا سیاسی غلط ، منحرف اور سست باتوں سے دور رکھنا چاہیے لہذا کتابوں کی تدوین کے ذمہ دار حکام کو چاہیے کہ وہ درسی کتابوں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور امانت کا اچھی طرح خیال رکھیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر محکمہ تعلیم کے حکام کی توجہ دو نکتوں کی طرف مبذول کرتے ہوئے فرمایا: پہلا نکتہ یہ ہے کہ اساتذہ کی تربیتی یونیورسٹی پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے جو اساتذہ کی تربیت کی اہم جگہ ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وزارتی اور مدیریتی سطح پر تربیتی شعبہ پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ اس شعبہ کی بہت بڑي اہمیت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ماہ رجب کے فیوض و برکات سے استفادہ پر تاکید اور اسے خود سازی کا بہترین موقع قراردیا اور معلم شہید مرتضی مطہری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی عقیدہ و فکر کے اس عظيم معلم اور متفکر نے اپنی شہادت کے ذریعہ اللہ تعالی سے اپنی طویل جد وجہد اور مجاہدت کی قبولیت کی سند حاصل کرلی اور اللہ تعالی سے اپنے اخلاص کا صلہ پالیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہیدرجائي اور شہید باہنر کو دو مخلص و پرہیزگار استاد ، معلم اور مجاہد قراردیا جنھوں نے اپنی عمر تعلیم و تربیت میں صرف کی۔

اس ملاقات کے آغاز میں وزیر تعلیم نے ملک کے ایک ملین اساتذہ اور معلمین کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: ثقافتی میدان میں وزارت تعلیم ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے جس میں 12 ملین طالب علم زیر تعلیم ہیں۔

ڈاکٹر فانی نے تعلیم و تربیت کی کیفیت کے ارتقاء کو اس وزارت خانہ کی اہم اور اسٹراٹیجک پالیسی قراردیتے ہوئے کہا: دروس کو حافظہ محور ہونے سے خلاقیت کے محور میں بدلنا، مطالعہ کی تقویت، سوال پوچھنے کے جذبے کی تقویت، عفاف و حجاب کی ثقافت کو فروغ دینا، انس با قرآن و اہلبیت علیھم السلام اور اسلامی و ایرانی زندگی کی روش پر اہتمام کرنا اس وزارت خانہ کے اہم منصوبوں میں شامل ہیں۔

ملت ایران امریکہ پر اعتماد نہیں کرتی، آیۃ اللہ موحدی کرمانیتہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ موحدی کرمانی کی امامت میں ادا کی گئي۔ خطیب جعمہ تہران نے لاکھوں نماز یوں سے خطاب میں ایٹمی مذاکرات کار ٹیم سے مطالبہ کیا کہ مذاکرات میں ہمیشہ ہوشیار رہیں اور بھرپور طرح سے قوم کے مفادات کی راہ پر گامزن رہیں۔ آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی نے ایٹمی مذاکرات میں امریکہ کی خلاف ورزیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملت پر واجب ہے کہ وہ ایٹمی مذاکرات کار ٹیم کی حمایت کرے کیونکہ اسے کافی دشواریاں درپیش ہیں۔ خطیب جمعہ تہران نے امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران کو مذاکرات میں سخت فیصلے کرنے ہوں گے کہا کہ یہ امریکہ ہے جسے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے سخت فیصلے کرنے ہونگے اور اسے ملت ایران کے مقابل اپنی متکبرانہ اور تسلط پسندانہ روشوں سے دستبردار ہونا ہوگا۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ ملت ایران منطق و گفتگو اور قانون پر یقین رکھتی ہے لیکن امریکہ ہرگز ملت ایران کی دشمنی سے دستبردار نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے کرتوتوں کو دیکھتے ہوئے ملت ایران امریکہ پر اعتماد نہیں کرتی۔ خطیب جمعہ تہران نے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں امریکہ کے الزامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خود مغرب اس سلسلے میں دوہرے رویوں کاحامل ہے۔ انہوں نے کہاکہ عالمی حالات کے بارے میں ایران اور امریکہ کے نظریات میں بنیادی فرق ہے کیونکہ ایران دنیا میں مظلوموں کا حامی ہے جب کہ امریکہ کشت و کشتار اور جنگوں کی آگ بھڑکانے پر یقین رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا ایک نمونہ شام ہے۔

رہبر معظم کی اعتکاف کی مرکزي کمیٹی کے اراکین سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای اعتکاف کی مرکزی کمیٹی کے ساتھ ملاقات میں بیانات کو قم میں حضرت امام خمینی (رہ) کے اعلی تعلیمی مرکز میں منعقد اعتکاف کے سمینار میں پیش کیا گيا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اعتکاف کی مرکزی کمیٹی اور سمینار کے اراکین کے ساتھ ملاقات میں اعتکاف کی نیک سنت کے بارے میں عوام کے حیرت انگیر استقبال کو اللہ تعالی کی برکات اور فطرت و خصلت کی تعمیر میں انقلاب اسلامی کی قدرت کے مظاہر میں قراردیتے ہوئے فرمایا: پیغمبر اسلام (ص) کی اس نیک سنت پر عمل کرنے والوں کوذہانت اور ہوشیاری کے ساتھ خطرات اور مشکلات کو پہچانتے ہوئے اپنے دل و دماغ کو اللہ تعالی سے قریب تر کرنے اور روحی پاکیزگی حاصل کرنے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اعتکاف کی عبادت کو شوق و نشاط کے ہمراہ معنوی ترقی کے لئے بہترین ریاضت قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے بعد اعتکاف کے بارے میں جوانوں کی محبت و لگاؤ کی قدر و قیمت کو درک کرنا چاہیے اور آج ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور مساجد میں اعتکاف کے ساتھ جوانوں کی محبت اور لگاؤ کے جلوے نمایاں ہیں۔

رہبر معظم کی اعتکاف کی مرکزي کمیٹی کے اراکین سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اعتکاف میں زيادہ سے زيادہ توجہ عبادت اور اللہ تعالی کی ذات پر مرکوز رکھنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی معاشرتی تجربہ اور تعلیم ، معتکفین کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ رابطہ اور اسی طرح دینی معارف کو سیکھنا اور سکھانا اس نورانی مراسم کے گرانقدر مواقع ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذہانت کے ساتھ منصوبہ بندی اور روح کو لاحق خطرات کی پہچان اور اعتکاف کے معنی کی شناخت کو بہت ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: معتکف کو چاہیے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی میں ذہانت کے ساتھ اپنے دل و دماغ کو اللہ تعالی کے قریب تر کرنے کی کوشش کرے اور معاشرے و سماج میں جاری جنجال اور شور و غل سے دور رہنے کی تلاش و کوشش کرے۔

نوع دوستی اور بے کسوں کی دستگیری

1۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا دیکھتا ہے کہ آپ کا لباس پرانا ہو چکا ہے آپ کو بارہ درہم دیتا ہے کہ آپ اپنےلئے نیا لباس خریدیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ بارہ درہم حضرت علی علیہ السلام کو دیتے ہیں تاکہ وہ آپ کے لئے لباس خرید کر لائیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے بازار سے بارہ درہم کا ایک لباس خریدا اور رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ نے لباس دیکھ کر فرمایا ہے علی دوسرا لباس میری نظر میں بہتر ہے ، دیکھو کیا دوکاندار یہ لباس واپس لے گا۔ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم، آپ نے فرمایا جا کر معلوم کرو، میں دوکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ رسول خدا کو یہ لباس پسند نہیں آیا ہے انہیں دوسرا لباس چاہئے اسے واپس لے لو۔ دوکاندار نے لباس واپس لے لیا اور حضرت علی علیہ السلام کو بارہ درہم لوٹا دئے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں میں وہ بارہ درہم لیکر رسول اللہ کی خدمت میں گیا آپ میرے ساتھ لباس خریدنے کے لئے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں دیکھا کہ ایک کنیز بیٹھی رو رہی ہے۔ آنحضرت نے اس کنیز سے پوچھا کہ اس نے رونے کا کیا سبب ہے ، اس نے کہا یارسول اللہ میرے گھر والوں نے سودا خریدنے کے لئے چار درہم دیتے تھے۔ لیکن درہم گم ہوگئے اب مجھے خالی ہاتھ گھر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کنیز کو چار درہم دے دیئے اور فرمایا جاؤ اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ پھر آپ بازار کی طرف روانہ ہو گئے اور چار درہم کا لباس خریدا خدا کا شکر ادا کیا اور بازار سے روانہ ہو گئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک برہنہ شخص کہہ رہا ہے کہ جو مجھے کپڑے پہنائے خدا اسے جنت میں کپڑے پہنائے گا۔ رسول اللہ نے اپنی قمیص اتاری اور اس شخص کو پہنا دی۔ آپ دوبارہ بازار تشریف لے گئے اور باقی بچے چار درہموں سے ایک اور لباس خریدا اور بیت الشرف تشریف لے گئے۔ راستے میں دیکھتے ہیں وہی کنیز بیٹھی رو رہی آپ نے اس سے پوچھا تم اپنے گھرکیوں نہیں گئیں۔ کنیز نے کہا اے رسول خدا میں بہت دیرسے گھر سے باہر ہوں مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں گھر والے میرے پٹائی نہ کر دیں آپ نے فرمایا اٹھو ،میرے آگے آگے چلو اور اپنے گھر والوں کو مجھ سے ملواؤ، رسول خدا اس کنیز کے ساتھ اس کے گھر پہنچے آپ نے دروازے پر پہنچ کر فرمایا السلام علیکم یا اہل الدار کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا آپ نے دوبارہ سلام کیا کسی نے جواب نہیں دیا جب آپ نے تیسری مرتبہ سلام کیا تو گھر سے آواز آئی و علیک السلام یارسول اللہ و رحمۃ اللہ برکاتہ آپ نے فرمایا پہلی اور دوسری مرتبہ میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا گیا تو گھر والوں نے کہا کہ ہم نے دونوں مرتبہ آپ کی آواز مبارک سنی تھی اور آپ کی آواز بار بار سننا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا یہ کنیز دیرسے گھر لوٹ رہی ہے اس کی تنبیہ نہ کرنا گھر والوں نے کہا اے رسول خدا آپ کے قدم مبارک کے صدقے اس کنیز کو آزاد کیا آپ نے فرمایا الحمد اللہ ان بارہ درہموں سے بابرکت درہم نہیں دیکھے ان کی برکت سے دو برہنہ جسموں کولباس ملا اور ایک کنیز کو آزاد نصیب ہوئی۔


حمیری نے اپنی کتاب قرب الاسناد میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا آپ نے فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے تو قبیلہ بنی الحبلی کے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میرے پاس ہے آپ نے فرمایا اس سائل کو چار وسق خرما دے دو اس شخص نے سائل کو چار وسق خرما دے دیا اس کے بعد رسول اللہ سے اپنا ادھار واپس لینے کے لئے آپ کے پاس گیا آپ نے فرمایا انشاء اللہ تمہیں تمہاری امانت مل جائے گی، وہ شخص چار مرتبہ رسول خدا کے پاس گیا آپ نے اسے یہی جواب دیا اس نے کہا یا رسول اللہ آپ کب تک یہ فرماتے رہیں گے انشاء اللہ تمہارا ادھار ادا کر دیا جائے گا! آنحضرت مسکرائے اور فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے ، ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا میرے پاس ہے یارسول اللہ، آپ نے فرمایا تیرے پاس کتنا مال ہے ، اس شخص نے کہا آپ جتنا چاہیں ، آپ نے فرمایا اس شخص کو اٹھ وسق خرما دے دو۔ 
انصاری نے کہا میرا ادھار چار وسق ہے آپ نے فرمایا چار وسق اور لے لو۔


انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے نو سال آنحضرت کی خدمت کی اس دوران آپ نے کبھی بھی مجھ پر اعتراض نہیں کیا اور نہ میرے کام میں کوئی عیب نکالا۔ایک اور روایت کے مطابق انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت کی اس مدت میں آپ نے مجھ سے اف تک نہ کہا۔ 
انس بن مالک سے ایک اور روایت ہے کہ افطار اور سحر میں آپ یا تو دودھ تناول فرمایا کرتے تھے یا پھر کبھی کبھی دودھ میں روٹی چور کے نوش کیا کرتے تھے۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ ایک رات میں آپ کے لئے دودھ اور روٹی مہیا کی لیکن آپ دیرسے تشریف لائے میں نے یہ سوچا کہ افطار پر اصحاب نے آپکی دعوت کی ہے اور میں نے آپ کی غذا کھا لی،کچھ دیر بعد آپ تشریف لے آئے ،میں نے آپ کے ایک صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ نے افطار کیا ہے یا کسی نے افطار پر آپ کی دعوت کی تھی،صحابی نے نفی میں جواب میں دیا۔وہ رات میرے لئے بڑی کربناک رات تھی صرف خدا ہی میرے غم و غصے سے واقف تھا مجھے یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں آپ مجھ سے اپنی غذا نہ طلب فرما لیں اور میں آپ کے سامنے شرمندہ ہو جاؤں لیکن اس رات رسول اللہ نے افطار نہیں کیا اور آج تک اس غذا کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں فرمایا۔


حدیث میں ہے کہ ایک سفر میں آپ نے گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا میں گوسفند ذبح کر دونگا ،دوسرے نے کہا میں اس کا چمڑا اتار دوں گا،تیسرے نے کہا گوشت پکانا میری ذمہ داری ہے آپ نے فرمایا میں لکڑیاں لے آؤں گا۔اصحاب نے عرض کیا آپ زحمت نہ فرمائیں ہم آپ کا کام کر دیں گے۔ آپ نے فرمایا میں جانتا ہوں لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں سے ممتاز رہوں کیونکہ خدا کو بھی یہ پسند نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ لکڑیاں جمع کرنے کے لئے روانہ ہو گئے۔


جب آپ سے کوئی ملتا تھا تو آپ اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوتے تھے جب تک وہ شخص خود خدا حافظ کر کے آپ کے پاس سے نہ چلا جائے۔ جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تھے تو مصافحہ کرنے والے کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے تھے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے ،اور جب آپ کی مجلس میں بیٹھنے والا خود نہیں اٹھ جاتا تھا آپ نہیں اٹھتے تھے۔


آپ مریضوں کی عیادت کو جایا کرتے تھے ،جنازوں میں شرکت فرمایا کرتے تھے ،گدھے پر سواری کیا کرتے تھے ،آپ جنگ خیبر ،جنگ بنی قریظہ اور جنگ بنی نضیر میں گدھے پر سوارتھے۔


ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے اصحاب کے درمیان ایسے تشریف فرما ہوتے تھے کہ اجنبی یہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ رسول اللہ کون ہیں بلکہ اسے آپ کے بارے میں پوچھنا پڑتا تھا (یعنی آپ اپنے لئے کسی بھی طرح کا امتیاز روا نہیں سمجتےک تھے )


انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس میں کسی طرح کی اونچ نیچ نہیں ہوتی تھی سب ایک سطح پر بیٹھتے تھے۔

جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کے سوال کو رد نہیں کیا۔


ام المومنین جناب عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر میں جب تنان ہوتے تو کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے کہا اپنا لباس سیتے اور نعلین میں پیوند لگاتے۔


انس کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ اپنے کسی صحابی کو تین دن تک نہ دیکھتے تو اس کے بارے میں پوچھتے ،اگر وہ صحابی سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا فرماتے اور اگر شہر میں ہوتا تو اس سے ملنے جاتے اور اگر بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کرتے۔


حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ خمس لا ا دعھن حتی الممات الاکل علی الحضیض مع العبید،ورکوبی الحمار موکفا،و حلبی العنزبیدی ،ولبس الصوف ،و التسلیم علی الصبیان لتکون سنۃمی بعدی۔  پانچ چیزیں ہیں جنہیں میں موت تک ترک نہیں کرسکتاتاکہ میرے بعد سنت بن جائیں ، غلاموں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر غذا کھانا، ایسے گدھے پر سوار ہونا جس پر سادہ زین ہو، بکری کو اپنے ہاتھوں سے دوہنا، کھردرا کپڑا پہننا، اور بچوں کو سلام کرنا۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کبھی یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ سوار ہوں اور آپ کے ساتھ کوئی پیادہ چلے ، آپ اسے اپنی سواری پر سوار کر لیتے تھے ، اور اگر وہ نہیں مانتا تھا تو آپ فرماتے مجھ سے آگے نکل جاؤ اور جہان تمہیں جانا ہے وہاں مجھ سے ملاقات کرو۔


حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے دیکھتے ہیں فضل بن عباس وہاں موجود ہیں آپ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پیچ ہے سواری پر بٹھا دو، پھر آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے سہارا دیا یہاں تک کہ انہیں مقصد تک پہنچا دیا۔


آپ نے حجۃ الوداع میں اسامہ بن زید کو اپنی سواری پر بٹھایا اسی طرح عبداللہ بن مسعود اور فضل کو اپنے پاس اپنی سواری پر بٹھایا۔ میری نے کتاب حیات الحیوان میں حافظ بن مندہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تینتیس افراد کو اپنی سواری پر اپنے پاس بٹھایا ہے۔


سیرت نویسوں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ کان صلی اللہ علیہ و آلہ فی بیتہ فی مھنت اھلہ ،یقطع اللحم ویجلس علی الطعام محقرا۔۔۔ویرقع ثوبہ و یخصف نعلہ و یخدم نفسہ ویقیم البیت و یعقل البعیر ویعلف ناضحہ و یطحن مع الخادم و یعجن معھا،و یحمل بضاعتہ من السوق،ویضع طھورہ با ا لیل بیدہ ،ویجالس الفقراءو یواکل المساکین و یناولھم بیدہ و یاکل الشاۃ من النوی فی کفہ ویشرب الماءبعد ان سقی اصحابہ و قال ساقی القوم آخرھم شربا۔۔۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھرکے کاموں میں اپنے اہل خانہ کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے ،گوشت کاٹا کرتے تھے ،اور بڑے تواضع کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا کرتے تھے ،وضو کے لئے خود پانی لایا کرتے تھے ،فقیروں کے ساتھ بیٹھتے تھے ،مسکینوں کے ساتھ غذا تناول فرماتے تھے ،ان کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے ،گوسفند کو اپنے ہاتھ سے غذا دیتے تھے ،اپنے ساتھیوں اور اصحاب کو پانی پلانے کے بعد خود پانی نوش فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پانی پینا چاہیے۔


*******************
منابع و مآخذ :
1۔قرآن کریم 
2۔غررالحکم 
3۔تحف ا لعقول 
4۔علل الشرایع 
5۔صحیفہ سجادیہ 
6۔مجمع البیان 
7۔سفینۃ البحار 
8۔اصول کافی 
9۔بحارالانوار 
10۔فلسفہ اخلاق (مطہری ) 
11۔کنزالعمال۔

ماخوذ : رسول الله کے اخلاق حسنه كي كتاب

پیغمبر اکرم [ص] کے اخلاقی صفات

خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے :”انک لعلی خلق عظیم“۔ یقینا آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مکارم اخلاقی کو احیاء کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے ” انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے صفات کے درمیان سب سے اہم صفت ، آنحضرت (ص) کا اخلاق تھا ۔ یہ وہی صفت اور خصوصیت ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنے رسول کی تعریف کی ہے : ”انک لعلی خلق عظیم“۔ یقینا آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز ہیں۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے خود بھی ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مکارم اخلاقی کو احیاء کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا ہے ” انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“۔ اورنئے مسلمان جب بھی دوسروں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی صفت بیان کرتے تھے تو آپ کی دعوت کی اہم صفت اسی کو سمجھتے تھے : ”ویامر بمکارم الاخلاق“۔ مفروق نامی شخص جب مسلمان ہوگیا اوراس نے آپ کی دعوت کے مضمون سے آشنائی حاصل کرلی تو رسول اللہ سے مخاطب ہو کر کہا : اے قریشی بھائی ! آپ لوگوں کو ”مکارم الاخلاق“ اور” محاسن الاعمال“ کے ذریعہ دعوت دیتے ہو ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بھی اپنی تعلیمات میں اخلاق کے اوپر بہت زور دیتے تھے اور فرماتے تھے : خداوند عالم ، کریم ہے ، کرامت اور اخلاقی تعلیمات (معالی الاخلاق)کو پسند کرتا ہے ، حقیر اور برے کام انجام دینے کوپسند نہیں کرتا (مصنف عبدالرزاق ، ج ۱۱، ص ۱۴۳) ۔ دوسری جگہ فرمایا : قیامت کے روز مومن کی ترازو میں سب سے بھاری چیز ”حسن خلق“ ہوگی (مصنف ج ۱۱، ص ۱۴۶) ۔ نیز فرمایا : تمہارے درمیان میرا بہترین دوست وہ شخص ہے جو لوگوں سے زیادہ دوستی کرتا ہے (مصنف ۱۱، ص ۱۴۵) ۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اخلاق سے متعلق مختلف کتابوں میں بہت زیادہ مطالب بیان ہوے ہیں ، اس مقالہ میں ہم بعض اخلاق اور آنحضرت کے بعض تربیتی طریقے اوراس کے معانی کوبیان کریں گے ۔

 

خشک مقدسی سے مقابلہ

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تاریخ زندگی کا ایک اہم پہلویہ ہے کہ آپ قوانین الہی کی رعایت کرتے تھے ، پیغمبر اکرم ، قرآن کے تابع ہیں اور کبھی بھی قوانین کی خلاف ورز ی کو جائز نہیں سمجھتے تھے ،اس متعلق قرآن کریم کی طرح افراط و تفریط سے بیزار تھے اور کوشش کرتے تھے کہ جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اسی طرح مستقیم حرکت کرے ”واستقم کما امرت“ اور اسی طریقہ کو لوگوں کے درمیان رایج کرتے تھے ۔
آنحضرت (ص) کی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو احکام سکھائیں، دین کی حدود اور شرعی احکام کو معین کریں، اسی طرح آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ اپنے دین کو خدا اور رسول سے حاصل کریں، حلال و حرام کو قرآن کے ذریعہ پہچانیں۔ قرآ کریم میں یہودیوں متعدد جگہ یہودیوں کی برائی اس وجہ سے بھی بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے بغیر کسی دلیل کے حلال کو حرام کردیا تھا ۔
قرآن کریم، رسول خدا اور ائمہ جس قدر سستی اور لاپروائی سے متنفر تھے اسی قدر خشک مقدسی سے بھی نفرت کرتے تھے ایسی خشک مقدسی جو عقلی قوت کے ضعیف اور ظواہر سے تمسک کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ سفر میں روزہ نہ رکھیں،لیکن کچھ لوگوں نے خشک مقدسی کی وجہ سے روزہ رکھ لیا ۔ آنحضرت (ص) کو ان کی اس رفتار پر غصہ آگیا اور اسی وقت جب وہ اونٹوں پر سوار تھے آپ نے ان کے سامنے پانی بھجوایا اور فرمایا: اے غلطی کرنے والوں! افطار کرو؟ ”افطروا یا معشر العصاة“ ( تہذیب الاثار مسند ابن عباس، ج ۱ ، ص ۹۲) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) خداوندعالم کی اجازت کے بغیر کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کرتے تھے ، چاہے آپ کووہ چیز بری ہی کیوں نہ لگتی ہو۔ آنحضرت کو لہسن سے نفرت تھی ، آپ فرماتے تھے جو بھی لہسن کھاکر آئے وہ میرے پاس نہ بیٹھے لیکن اس کے باوجوداسی وقت فرماتے تھے : میں اس کو حرام نہیں کرتا، کیونکہ جس چیز کو خداوندعالم نے حلال کیا ہے اس کو حرام کرنے کی اجازت نہیں ہے ،لیکن مجھے یہ چیز بری لگتی ہے ۔ ” یا ایھا الناس انہ لیس بی تحریم ما احل اللہ ولکنھا شجرة اکرہ ریحھا“ (امتاع ، ۳۱۰) ۔
حلال و حرام الہی کی رعایت ان اصول کا جزء تھی جن کو آپ لوگوں کو سکھاتے تھے اوراس کی تاکید کرتے تھے ، قرآن کریم نے اس بات کو بارہا بیان فرمایا ہے کہ یہ حدود الہی ہیں، اور ان سے غفلت کرنا کسی کے لئے بھی جائز نہیں ہے ۔
سب سے اہم یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث کو درایت کے ذریعہ سمجھا جائے کیونکہ ظاہر پر عمل کرنا انسان کو کج فہمی میں مبتلا کردیتا ہے ، اس متعلق ایک روایت نقل کرنا مناسب ہے امام حسین (علیہ السلام) صفین کے مسائل کی وجہ سے عبداللہ بن عمرو عاص سے بات نہیں کرتے تھے ، ابوسعید خدری نے مدینہ میں دونوں کے درمیان صلح کرادی ، جس وقت امام علیہ السلام نے اس سے بات کی تو عبداللہ سے گلا کیا کہ تم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث کے مطابق مجھے آسمان والوں کے نزدیک زمین پر سب سے بہتر سمجھتے ہو ، پھر جنگ صفین میں تم کس طرح میرے والد کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوگئے جب کہ میرے والد مجھ سے بہتر تھے ۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اس کی دلیل میں کہا : میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زندگی کے دوران زاہد تھا اور میں نے اپنے اوپر زندگی کو سخت کررکھا تھا ، دن میں روزے رکھتا تھا اور رات کوعبادت کرتا تھا ، میرے والد نے میری افراط کی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے شکایت کی ، آنحضرت (ص) نے مجھ سے فرمایا: اپنے والد کی اطاعت کرو، جب میرے والد صفین گئے تو میں نے اس کی اطاعت کی ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ” لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“ جو شخص خدا کی معصیت کررہا ہو اس کی اطاعت کرنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے : ” و ان جاھداک ان تشرک بی فلا تطعھما“ اگر تمہارے والدین تمہیں شرک کی دعوت دیں توان کی اطاعت نہ کرنا ۔
اس طرح عبداللہ بن عمرو بن عاص نے یہ ظاہر کیا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اس کو والد کی اطاعت کرنے کا حکم دیاتھا ،اس نے اس جملہ سے کس قدر غلط مطلب نکالا اور اس کے ظاہر پر عمل کیا ۔

 

پاک صاف رہنا اور عطر لگان

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو معمول کے مطابق بلکہ اس سے بھی بہتر شکل میں بسر کرتے تھے ، سفید کپڑے پہنتے تھے، عطر لگاتے تھے، بالوں میں کنگھا کرتے تھے اور ہمیشہ دانتوں پر مسواک کرتے تھے ۔
ان مسائل میں عطر لگانا آنحضرت کے لئے ایک اصل کی طرح تھا ۔ ایک روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے گھر میں ایک جگہ تھی جہاں پر آپ عطر لگاتے تھے ، انس کہتے ہیں : ”کانت لرسول اللہ سکة یتطیب منھا“ (امتاع ۱۰۱) ،ایک دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) فرماتے تھے : میں اس دنیا میں عطر، عورت اور نماز کو بہت پسند کرتا ہوں ، البتہ نماز کے متعلق فرماتے تھے ”قرة عینی فی الصلاة“ میری آنکھوں کی روشنی نماز میں ہے(مصنف ، ج ۴، ص ۳۲۱) ۔
ایک شخص نے روایت کی ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں جاتا تھا ، آپ میرے سر پر ہاتھ رکھتے تھے ، جس وقت آپ میرے سر پر ہاتھ پھیرتے تھے تو مجھے ایسی خوشبو محسوس ہوتی تھی جس کو میں آج تک نہیں بھول سکا، اس کے بعد کہتا ہے : عطر کی خوشبو اس قدر ہوتی تھی جیسے عطر کی دکان کے پاس سے گذرر ہا ہوں(امتاع ۱۰۲) ۔ اگر کوئی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)عطر دیتا تھا تو آپ اس کو منع نہیں کرتے تھے ۔
نیز بیان ہوا ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو خوشبو کے ذریعہ پہچان لیتے تھے : ”کان رسول اللہ یعرف بریح الطیب (مصنف ، ج ۴، ص ۳۱۹) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ایسی چیزوں کو کھانے سے پرہیز کرتے تھے جن کی بو سے لوگوں کو اذیت ہوتی تھی،خاص طور سے لہسن کی خوشبو سے اور آپ اس طرح استدلال کرتے تھے : ” اکرھہ من اجل ریحہ“۔
بالوں پر خضا ب اور رنگ کرنے کو بہت اہمیت دیتے تھے ، عورتوں کو حکم دیتے تھے کہ اپنے بالوں پر خضاب کریں ، اگر شوہر دار ہیں تو اپنے شوہروں کے لئے اور اگر شوہر دار نہیں ہیں تو اس لئے کہ ان کے رشتہ زیادہ آئیں(مصنف ج ۴، ص ۳۱۹) ۔ جس عورت کے ہاتھوں پر خضاب یا مہندی نہیں ہوتی تھی آپ اس کی طرف دیکھنے سے کراہت کرتے تھے (مصنف ، ج۷،ص ۴۸۸) ۔
اس وقت عام تصورایسا تھا کہ اگر کوئی ثروتمند نہیں ہے تو اس کو اس طرح کے وسائل سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بہت سادہ زندگی بسر کرتے تھے جس چٹائی پر آپ رات کو نماز پڑھتے تھے ، اسی چٹائی پر دن میں بیٹھتے اور لوگوں سے باتیں کرتے تھے ،اپنے مہمانوں کو اسی چٹائی پر بٹھاتے تھے (امتاع ، ج۷، ص ۱۱۵) ۔ آپ کے کھانا کھانے کا طریقہ بھی معمول کی طرح تھا ، آپ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے : ”کان رسول اللہ یجلس علی الارض و یاکل علی الارض“ (امتاع ج۷، ص ۲۶۲) ۔

 

پیغمبر اکرم اور مزاح

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہایت ظریف انسان تھے ، کبھی بھی آپ میں غصہ اور عصبانیت نہیں دیکھی گئی ،ایک حدیث میں بیان ہوا ہے : ”کان بالنبی دعابة، یعنی مزاحا ۔ لیکن یہ تبسم ، قہقہ لگانے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ آپ فقط مسکراتے تھے : ”مارایت النبی ضاحکا ما کان الا یتبسم“۔
اس ظرافت کی وجہ سے آپ خود بھی خوشحال رہتے تھے اور دوسروں کو بھی خوشحال رکھتے تھے ، آپ دوسروں کو بھی مزاح کرنے کی اجازت دیتے تھے جیسا کہ ایک اعرابی نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو ایک ہدیہ دیا اور جب آپ نے اس کو استفادہ کرلیا تو اس نے کہا کہ میرے اس ہدیہ کے پیسہ دیجئے ، پیغمبر اس کی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور جب بھی آپ دل گیر ہوتے تھے تو فرماتے تھے کہ اس اعرابی کو بلا کر لاؤ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) بے وجہ مزاح کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے ،مزاح کرنے والوں میں سے ایک عبداللہ بن حذافہ تھے جن کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک سریہ (جس جنگ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)خود شرکت نہیں کرتے تھے اس کو سریہ کہتے تھے) کا سردار بنایا تھا ۔ عبداللہ بن حذافہ نے اپنے سپاہیوں سے آگ جلانے کے لئے کہا ، آگ جلنے کے بعد انہوں نے اپنے سپاہیوں سے کہا کہ اس آگ میں کود جاؤ ۔ انہوں نے کہا : ہم اس لئے ایمان لائے ہیں تاکہ آگ سے محفوظ رہیں( ایک دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ انہوں نے آگ میں کودنا چاہا تو عبداللہ بن حذافہ نے ان کو کودنے سے منع کردیا اور کہا کہ میں مزح کررہا تھا) جب یہ لوگ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس آئے اورپورا واقعہ سنایا تو آنحضرت (ص) نے ان کی بات کی تائید کی اور فرمایا : ” لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق“ (امتاع ، ج۱۰، ص ۶۳) ۔ جس کام میں خالق کی معصیت ہو اس میں مخلوق کی پیروی نہیں کرنا چاہئے ۔
جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جنگ بدر سے واپس تشریف لائے تو لوگ آپ کے استقبال کے لئے گئے ۔ سلمہ بن سلامہ نے ایک روز غلط مزاح کیا تھا جس کی وجہ سے آنحضرت (ص) اس سے ناراض تھے ، اس نے لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا : اس کام کی مبارک باد کی ضرورت نہیں ہے ہم نے تھوڑے سے بوڑھے اور گنجوں کو قتل کیا ہے ۔ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کی بات سن کر ہنسنے لگے اور فرمایا : یہ قریش کے وہ لوگ تھے جن کو دیکھ کر وحشت ہوتی تھی اور اگر ان کو حکم دیا جاتا تو بہت مشکل سے اطاعت کرتے ،اس وقت سلمہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ناراض ہونے کی علت معلوم کی ، آپ نے فرمایا جب ہم ہم ”روحاء“ میںتھے اور بدر کی طرف جارہے تھے تو ایک اعرابی میرے پاس آیا اور اس نے پوچھا : اگر تم پیغمبر ہو تو یہ بتاؤ کہ میری حاملہ اونٹنی کیا پیدا کرے گی؟ مجھ سے پہلے تم نے اس سے کہا ، تم نے اس سے جماع کیا ہے اور وہ تم سے حاملہ ہوئی ہے، تم نے اس کے ساتھ غلط رفتاری کی تھی! سلمہ نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے معذرت خواہی اور پیغمبر اکرم (ص) نے بھی اس کو معاف کردیا ۔

 

عبادت آنحضرت(ص)

آپ کی عبادت بھی سب سے جدا تھی ، نماز شب پیغمبر اکرم پر واجب تھی اور خداوندعالم نے ان سے کہا : ”نصفہ اوانقص منہ الا قلیلا“آدھی رات یا اس سے کم رات میں نماز اور قرآن پڑھو۔ خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے : ” ان ربک یعلم انک تقوم ادنی من ثلثی اللیل و نصفہ و ثلثہ و طائفة من الذین معک“(سورہ مزمل ، آیت ۲۰) ۔
ایک جنگ میں حضرت علی (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ سب لوگ سو رہے تھے لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) عبادت میں مشغول تھے : ” لقد رایتنا و ما فینا ثائم الا رسول اللہ (ص) تحت الشجرة یصلی و یبکی حتی اصبح“۔ ہمارے درمیان صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ایسے تھے جودرخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اورصبح تک گریہ کرتے رہے ۔
ابوذر جو کہ خود زہد اور عبادت میں اپنی آپ مثال تھے کہتے ہیں : ”صلیت مع النبی فی بعض اللیل فقام یصلی فقمت معہ حتی جعلت اضرب راسی الجدرات من طول صلاتہ“۔ ایک رات ہم نے آنحضرت (ص) کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ اس قدر کھڑے رہے اور نماز پڑھتے رہے کہ میں نے تھک کر اپنا سر دیوار پر رکھ لیا ۔
یہی نماز شب تھی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو مقام محمود یعنی شفاعت کے مقام تک پہنچایا اور یہ حق تعالی کی سفارش تھی : ”ومن اللیل فتھجد بہ نافلة لک عسی ان یبعثک مقاما محمودا“۔ نافلہ شب کو انجام دو شاید خداوندعالم تمہیں مقام محمود تک پہنچا دے ۔

 

پیغمبر رحمت

خدا وند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے : ”وما ارسلناک الا رحمة للعالمین“ ۔ پیغمبر رحمت کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت کبھی بھی لوگوں سے ناراض نہیں ہوتے تھے ، خاص طور سے ان امور میں جن میں لوگوں کو دین کی تعلیمات دیتے تھے ۔ روایت میں موجود ہے کہ ”فکان لا یبغضہ شئی و لا یستفزہ“۔ اور یہ بھی ہے کہ ” کان اوسع الناس صدرا“ اس کے علاوہ یہ بھی ملتا ہے کہ ”قد وسع الناس منہ بسطہ و خلقہ فصار لھم ابا“۔ ان تمام عبارتوں کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) لوگوں کی باتوں کوسننے کے لئے اپنے سینہ میں وسیع قلب رکھتے تھے اور بہت جلد ان کی ہدایت فرماتے تھے ۔
پیغمبر رحمت کے معنی یہ ہیں کہ آپ ان بت پرستوں کیلئے بھی نفرین نہیں کرتے تھے جو آپ کو ستاتے اور اذیت کرتے تھے بلکہ آپ ان کے متعلق فرماتے تھے : خدایا میری قوم کی ہدایت فرما ۔ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے کہا گیا کہ مشرکین کیلئے نفرین کرو تو آپ نے فرمایا: ” انی لم ابعث لعانا و انما بعثت رحمة“۔ ( جنة النعیم ، ج ۱، ص ۴۵۴) ۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تاثیر صرف مسلمانوں کے لئے نہیں تھی اور نہیں ہے بلکہ حضرت ختمی مرتبت کی بعثت تمام عالم کے لئے تھی اور یہ رحمت اسی طرح جاری و ساری ہے ۔

 

لوگوں کے ساتھ حسن سلوک

ہر سطح کے لوگوں کے لئے حسن سلوک کے ایک خاص معنی ہوتے ہیں ،ایک رہبر ،خطیب، امام جماعت یا تجارت کرنے والے کے لئے حسن سلوک کا مفہوم جدا ہوتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی خاص رفتار لوگوں کو اپنی طرف جذب کرسکتی ہے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نماز میں بھی لوگوں کی تھکاوٹ کا خیال رکھتے تھے ،کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نماز جماعت کو لمبی کرتے تھے ، البتہ اگر کوئی جلدی جلدی نماز پڑھتا تھاتو آپ ناراض ہوتے تھے اور آپ اس کو یاددہانی کراتے تھے ۔ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے متعلق ملتا ہے : ” یکثر الذکر ، یقل اللعن، یطیلا لصلاة یقصر الخطبة و کان لایانف و لا یستکبر، یمشی مع الارملة و المسکین فیقضی لہ حاجتہ“۔ خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے، لعنت وملامت کم کرتے، نماز کو آرام سے پڑھتے،نماز کے خطبوں کو بہت کم پڑھتے، تکبر نہیں کرتے ، فقیروں اور یتیموں کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے ۔
اسی طرح آپ اس بات کی توقع نہیں کرتے تھے کہ لوگ آپ کااحترام کریں، البتہ خدا لوگوں سے یہی چاہتا تھا کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا احترام کریں، لیکن خود پیغمبر اکرم احترام کے قائل نہیں تھے،اگر کوئی ان کے سامنے ان کے احترام میں کھڑا ہوتا تھا تو آپ ناراض ہوتے تھے ، اس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی بہت زیادہ محبت ہوگئی تھی ،ایک روایت میں ہے : ”انہ لم یکن شخص احب الیھم من رسول اللہ (ص) فکانوا اذا راوہ لم یقوموا الیہ لما یعرفون من کراھتہ لہ“۔عام لوگ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے زیادہ کسی کو دوست نہیں رکھتے تھے اس کے باوجود وہ جانتے تھے کہ پیغمبر اپنے سامنے کسی کے کھڑے ہونے سے ناراض ہوتے ہیں اس لئے وہ کھڑے نہیں ہوتے تھے ۔
مردم داری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ جب آپ نماز پڑھاتے تھے اور کسی بچہ کے رونے کی آواز آتی تھی تو آپ چھوٹا سورہ پڑھتے تھے تاکہ نماز جلدی ختم ہوجائے ، جب آپ سے اس کی علت معلوم کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں نماز کو طول دیتا تو اس کی ماں کا خیال نماز سے ہٹ جاتا : ”فخشیت ان یشق ذلک علی ابویہ ۔
یہاں تک کہ آپ ضعیف ترین انسانوں کے پاس بھی جاتے تھے ، مدینہ میں ایک حبشی خاتون رہتی تھی جو مسجد کے کام انجام دیتی تھی ،کچھ دنوں کے بعد پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس کو نہیں دیکھا تو لوگوں سے اس کے متعلق معلوم کیا ، سب نے کہا وہ مرگئی ہے ۔ آنحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے مجھے خبر نہ دے کر اذیت کی ہے ۔ اصل میں لوگ خیال کررہے تھے کہ اس عورت کی اتنی اہمیت نہیں ہے جو ہم پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے بتائیں ، آپ نے فرمایا اس کی قبرکہاں ہے ، آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس پر درود و سلام بھیجا اور فرمایا : یہ قبریں ظلمت و تاریکی میں گرفتار ہیں اور ہمارے درود و صلوات بھیجنے سے نورانی ہوجائیں گی ۔ ” ان امراة سوداء کانت تقم المسجد او شابا، فقدھا رسول اللہ (ص) فسال عنھا او عنہ، فقالوا ط مات ، قال : افلا کنتم آذنتمونی؟ فکانھم صغروا امرھا او امرہ۔ فقال : دلونی علی قبرہ۔ فدلوہ فصلی علیہ۔ ثم قال : ان ھذہ القبور مملوئة ظلمة علی اھلھا، وان اللہ تعالی ینورھا لھم بصلاتی علیھم (فتح الباری ، ج۳، ص ۱۳۳۷) ۔
لوگوں سے ارتباط برقرار کرتے ہوئے سوء ظن کو دور کرنا ایک اہم نکتہ ہے ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں لوگوں سے کہا کہ اگر کوئی خیال کرتا ہے کہ میں نے اس کا کوئی حق ضائع کیا ہے تو وہ اپنا حق مجھ سے لے لے ، یہ لوگوں سے سوء ظن کو دور کرنا ہے ۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ صفیہ کہتی ہیں کہ رسول خدا اسامہ بن زید کے حجرہ میں (ص) اعتکاف کررہے تھے،ایک رات میں آپ کے پاس گئی اور آپ سے بات کرنے کے بعد واپس آنا چاہا تو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مجھے پہنچانے کے لئے کھڑے ہوگئے ، راستہ میں انصار سے دوشخص ملے انہوں نے جب پیغمبر اکرم (ص) کو دیکھا تو اپنی رفتار کو بڑھا دیا ، پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ” علی رسلکما انھا صفیة بنت حیی، قالا : سبحان اللہ یا رسول اللہ ۔ فقال رسول اللہ : ان الشیطان یجری من الانسان مجری الدم۔ و انی خشیت ان یقذق فی قلوبکما شیئا“ (مصنف ، ج۴، ص ۳۶۰) ۔پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : یہ صفیہ بنت حیی بن اخطب میری بیوی ہے ، انہوں نے کہا سبحان اللہ۔ حضرت نے فرمایا :شیطان، انسان کے بدن میں ، رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے ، مجھے ڈر ہوا کہ تمہارے دلوں میں کوئی غلط چیز نہ آگئی ہو ۔

 

بادیہ نشیں افراد سے آپ کا سلوک

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بادیہ نشین معاشرہ سے سروکار تھا ، عربی معاشرہ نہیں ہے ، اس بناء پر بہت ہی نیچے کی سطح کی رفتار و سلوک کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تحمل کرتے تھے ۔ ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ ایک اعرابی مدینہ آیا اور اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ مسجد کیا ہے اور اس نے مسجد کے ایک گوشہ میں جاکر پیشاب کردیا ، اصحاب ناراض ہوگئے اور اس کو برا بھلا کہنا چاہتے تھے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا اس کو اذیت نہ دو ، پھر آپ نے اس کو بلاکر سمجھا یا کہ مسجد عبادت اور نماز کی جگہ ہے ،اس طرح کے کاموں کی جگہ نہیں ہے ۔
معاویہ بن حکم کہتا ہے : ہم نماز پڑھ رہے تھے کسی کو چھینک آئی تو میں نے ”یرحمک اللہ “کہا ، سب میری طرف متوجہ ہوگئے ،اس شخص کو دوبارہ چھینک آئی توپھر میں نے ”یرحمک اللہ“ کہا ، جب میں نے دیکھا کہ لوگ میری طرف دیکھ رہے ہیں تو میں نے ان سے کہا تمہاری ماں تمہارے سوگ میں بیٹھے ، میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو ، لوگوں نے اپنی ران پر ہاتھ مارا ، میں چپ ہوگیا ، جب نماز تمام ہوگئی توآنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مجھے بلایا ، اور مجھے تعلیم دی ،خدا کی قسم میں نے اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد ایسا معلم نہیں دیکھا جس نے اس طرح مجھے تعلیم دی ہو ، آپ نے نہ مجھے اذیت دی اور نہ میرے ساتھ غصہ سے پیش آئے ، صرف اتنا فرمایا : تم نے جو یہ نماز پڑھی ہے اس کے درمیان تم نے بات کی ہے لہذا اس نماز کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ نماز ، تسبیح ، تکبیر اور تلاوت قرآن کریم ہے ۔ ” فسکت فلما سلم رسول اللہ من صلاتہ، دعانی فبابی و امی ما رایت معلما قبلہ و لا بعدہ احسن تعلیما منہ ، واللہ ما ضربنی و لا نھرنی ولکن قال: ان صلاتک ھذہ لا یصلح فیھا شی من کلام الناس انما ھی التسبیح والتکبیر و تلاوة القرآن“ (سبل الھدی ، ج۷، ص۱۹) ۔
دین کی تعلیم دینے کا طریقہ ایک دوسری روایت میں اس طرح بیان ہوا ہے : ایک شخص نے سوال کیا : یا رسول اللہ ، اگر نماز کا وقت آجائے اور میں مجنب ہوں تو کیا کروں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا کبھی کبھی میرے ساتھ بھی ایسا مسئلہ پیش آتا ہے ، اس شخص نے کہا : آپ ہماری طرح نہیں ہیں، اور آپ کو بخش دیا گیا ہے ، آنحضرت (ص) نے فرمایا : خدا کی قسم میں بھی چاہتا ہوں کہ خاضع و خاشع رہوں اور تقوی کے مواردسے آگاہ تر رہوں ۔ ” یا رسول اللہ تدرکنی الصلواة و انا جنب افاصوم؟آپ نے فرمایا : و انا تدرکنی الصلاة و انا جنب فاصوم ۔ فقال : لست مثلنا یارسول اللہ! قد غفر اللہ لک ما تقدم من ذنبک و ما تاخر۔ فقال واللہ انی لا رجو ان اکون اخشاکم للہ و اعلمکم بما اتقی“۔ (صحیح مسلم ۱۱۱۰) ۔
جب معاذبن جبل اورابوموسی اشعری یمن جارہے تھے توپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : یسرا و لا تعسرا، بشرا ولا تنفرا (بخاری ۔ فتح الباری ۱۰۔ ۱۶۲۴) ۔نرمی سے کام لینا، سختی نہ کرنا ، بشارت دینا ، نفرت ایجاد نہ کرنا ۔
بہت سے لوگ مدینہ آئے اور سوال کیا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کس طرح عبادت کرتے ہیں ، جب انہوں نے آپ کی عبادت کے متعلق سنا تو احساس کیا کہ آنحضرت (ص) کی عبادت بہت کم ہے، سب نے کہا کہ وہ پیغمبر ہیں اور خداوند عالم نے ان سے سب چیزوں کو معاف کردیا ہے ،ان میں سے ایک نے کہا میں ہر رات کو صبح تک عبادت کرتا ہوں دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں ، تیسرے نے کہا میں اصلا شادی نہیں کروں گا ۔ پیغمبر اکرم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا : تم نے اس طرح کہا ہے ،لیکن میں خاشع ترین اور متقی ترین ہوں اور تم ہی میں سے ہوں ، روزہ رکھوں یا نہ رکھوں، میں نماز پڑھتاہوں ، شادی کرتا ہوں اور یہ میری سنت ہے اور جو بھی مجھ سے ہے وہ میری پیروی کرے: ” اما واللہ انی لاخشاکم للہ و اتقاکم لہ، لکنی اصوم و افطر و اصلی و ارقد و اتزوج من النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی (بخاری ، فتح الباری ،۹ ۔ ۵۰۶۳) ۔