Super User

Super User

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر قائد انقلاب اسلامی کا خطابحضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت بڑا عظیم دن ہے۔ الحاج میرزا جواد آقا تبریزی ملکی کے بقول تین شعبان کی عظمت کو حسین ابن علی کی عظمت کی ایک پرتو کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس دن ایسی ہستی کی ولادت ہوئی ہے جس کی ذات سے، جس کی تحریک سے، جس کے قیام سے، جس کے ایثار سے اور جس کے اخلاص سے اسلام کی تقدیر وابستہ تھی۔ تاریخ انسانیت کی اس عظیم ہستی نے ایک ایسی تاریخ رقم کر دی جس کی کوئی مثال ہے نہ نظیر۔ آپ نے بشریت کے سامنے ایسا کارنامہ پیش کیا جو کبھی فراموش کیا ہی نہیں جا سکتا ہے، یہ اسوہ حسنہ کے طور پر ہمیشہ باقی رہنے والا کارنامہ ہے۔ اللہ کی راہ میں اس عظیم پیمانے پر قربانی پیش کرنا، اس قربانی میں اپنی جان، اپنے اصحاب با وفا کی جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اہل حرم کی اسیری کو برداشت کرنا، اس مقصد کے تحت کہ اسلام کو بقا مل جائے، اس مقصد کے لئے کہ ظلم کے خلاف پیکار، تاریخ انسانیت میں پائیدار اور یادگار اصول کی حیثیت سے ثبت ہو جائے! یہ ایسی چیز ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ راہ خدا میں یوں تو بہت سے لوگ شہید ہوئے ہیں، پیغمبر اسلام کے ساتھ، حضرت امیر المومنین کے ساتھ انبیائے الہی کے ساتھ دفاع حق میں بہتوں نے جام شہادت نوش کیا ہے لیکن کوئی بھی واقعہ سانحہ کربلا جیسا نہیں ہے۔ ایک انسان دوستوں اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور تحسین و ستائش کے بیچ فتح و کامرانی کی امید کے ساتھ میدان کارزار میں اترے اور جنگ کرتے ہوئے شہید ہو جائے، بیشک اس کا بھی اجر بے پناہ ہے۔ لیکن اس شخص اور اس گروہ کے مابین زمین اور آسمان کا فرق ہے جو ایک تاریک و ظلمانی دور میں، ایسے وقت جب دنیائے اسلام کے تمام با اثر افراد اس کا ساتھ دینے سے انکاری ہو جائیں، اتنا ہی نہیں، اس کی ملامت اور سرزنش بھی کر رہے ہوں، اسے کسی سے مدد کی امید نہ ہو، عبد اللہ ابن عباس جیسی شخصیت روک رہی ہو، عبد اللہ بن جعفر جیسی شخصیت آگے بڑھنے سے منع کر رہی ہو، کوفہ میں رہنے والے محب و انصار ساتھ دینے کو تیار نہ ہوں، پھر بھی اس جماعت کا سردار اپنے معدودے چند اصحاب باوفا کے ساتھ، اپنے اہل خانہ، اپنی زوجہ، بہن، بھانجوں، بھتیجوں، نوجوانوں اور شش ماہے کے ساتھ میدان میں اتر پڑے۔ یہ بڑا عجیب واقعہ ہے۔ یہ بڑا حیرت انگیز اور پرشکوہ منظر ہے جو بشریت کی آنکھوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس دن کے لئے خود کو پہلے سے آمادہ کر رہے تھے۔

امام حسین علیہ السلام کی پوری زندگی سراپا درس ہے۔ آپ کا بچپن دروس کا سرچشمہ، آپ کی نوجوانی دروس کا سرچشمہ، آپ کا دور امامت دروس کا سرچشمہ، امام حسن علیہ السلام کی امامت کے دور میں آپ کی زندگی بھی دروس کا سرچشمہ ہے۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کا طرز عمل درس ہی درس ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے جو کارنامہ انجام دیا وہ چند دنوں کے اندر انجام پا جانے والا کوئی کام نہیں تھا۔ یہ بے حد عظیم واقعہ ہے اور خورشید کی مانند اس کی درخشش ایسی ہے کہ دیگر واقعات پر توجہ نہیں ہو پاتی ورنہ امام حسین علیہ السالم نے منی میں علماء، بزرگان، صحابہ اور تابعین سے جو خطاب کیا ہے اور جس کا ذکر احادیث کی کتب میں موجود ہے، وہ اپنی جگہ تاریخی سند کا درجہ رکھتا ہے۔ آپ نے اپنے زمانے کے علماء اور عمائدین مذہب کو جو خط تحریر فرمایا اور جس میں آپ نے لکھا ہے: «ثُمَّ انتُم ايَّتُها العِصابَة، عِصابَةٌ بِالعِلمِ مَشهورَة»(۱)، یہ حدیث کی کتابوں میں نقل کیا گيا ہے، یہ تاریخی سند ہے۔ آپ کا طرز عمل، معاویہ کے سلسلے میں آپ کی حکمت عملی، معاویہ کو آپ کا مکتوب، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مختصر دور خلافت میں حضرت کے قریب آپ کی موجودگی، یہ سب دروس کا سرچشمہ ہیں، لیکن عاشور کا واقعہ بالکل استثنائی حیثیت کا حامل ہے۔ آج کا دن حضرت کی ولادت کا دن ہے۔ اس دن ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم حسین ابن علی علیہما السلام سے سبق لیں۔ امت مسلمہ کے لئے حسین ابن علی علیہما السلام کا درس یہ ہے کہ حق کی خاطر، انصاف کی خاطر، قیام عدل کی خاطر، ظلم سے پیکار کی خاطر ہمیشہ تیار رہنا چاہئے اور اس لڑائی کے لئے اپنا سب کچھ، تمام متاع زندگی داؤں پر لگا دینا چاہئے۔ اس عظیم سطح پر جاکر یہ کام کرنا کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن ہمیں اپنی بضاعت اور حیثیت کے مطابق یہ درس حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

الحمد للہ ملت ایران نے امام حسین علیہ السلام سے یہ سبق سیکھا ہے۔ تیس سال سے زیادہ عرصے سے ملت ایران اسی راستے پر گامزن ہے، یقینا کچھ استثنائات اور شاذ و نادر واقعات بھی ہوئے ہیں لیکن ملت یران کی عمومی حرکت و پیش قدمی حضرت امام حسین علیہ السلام کی سمت میں ہو رہی ہے۔ حضرت کا انجام شہادت کی شکل میں سامنے آیا لیکن آپ نے صرف شہید ہو جانے کا سبق نہیں دیا۔ آپ کی تحریک بڑی بابرکت تحریک ہے۔ حضرت امام حسین جیسی تحریک کے نتیجے میں کبھی ممکن ہے کہ شہادت نصیب ہو لیکن دین خدا کو قائم کرنے کا جذبہ اور دین خدا کے قیام کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بے پناہ برکتیں، ان سب کی اپنی جگہ الگ افادیت ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ایرانی عوام میدان عمل میں اترے اور ایران میں انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی ظلم کی عمارت کو مسمار کر دیا، اس کی جگہ اسلامی عمارت کی تعمیر عمل میں آئی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بھی حسین ابن علی کے راستے پر چلے گا وہ ظاہری اعتبار سے اور دنیاوی اعتبار سے ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے درس کے طور پر یہ حقیقت پیش کر دی گئی ہے کہ اگر آپ کو دنیا چاہئے، اگر دنیوی وقار آپ کو مطلوب ہے تو وہ بھی اسی راستے پر چلنے سے حاصل ہوگا، آپ کو اسی راستے پر آگے بڑھنا ہوگا۔ ملت ایران اس کا کامیاب تجربہ کر چکی ہے۔ اس کی قدر و منزلت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی عوام حسینی اور عاشورائی جذبے کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور ایک عظیم انقلاب کو جسے گزشتہ صدیوں کا بے نظیر یا کم نظیر انقلاب کہا جانا چاہئے، کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ ملت ایران نے یہ روش اختیار کی اور لگاتار ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ البتہ دشمن اپنے پرچار میں اور اپنے تشہیراتی پروپیگنڈوں میں اس حقیقت کا اظہار اور اعتراف نہیں کرنا چاہتے لیکن بہرحال دنیا اندھی تو نہیں ہے، لوگ دیکھ رہے ہیں، طاغوتی شاہی دور کا ایران کہاں اور اسلامی جمہوریہ ایران کہاں؟! انیس سو اناسی کا ایران کہاں اور سنہ دو ہزآر تیرہ کا ایران کہاں ؟! علم و دانش کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، سلامتی اور سیکورٹی کے میدان میں، علاقائی تغیرات پراثرو نفوذ کے میدان میں، عالمی واقعات پر موثر کردار کے اعتبار سے، عزت و سعادت کا سفر طے کرنے کے عزم محکم کے اعتبار سے ہم کل کہاں تھے اور آج کہاں پہنچ چکے ہیں؟! آج ملت ایران برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انشاء اللہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا، اس کا میں یقین دلاتا ہوں، قرائن کی بنیاد پر یہ مسلمہ حقیقت ہے۔

اور اب ماہ شعبان کے سلسلے میں چند جملے۔ تین شعبان کی جو خصوصیات ہیں ان سے قطع نظر، ہم اس وقت ماہ شعبان میں وارد ہو چکے ہیں جو عبادت، توسل اور مناجات کا مہینہ ہے۔ وَ اسمَع دُعائى اِذا دَعَوتُك، وَ اسمَع نِدائى اِذا نادَيتُك؛(۲) یہ پروردگار سے راز و نیاز کرنے کا مہینہ ہے، دلوں کو عظمت و نورانیت کے سرچشمے سے جوڑ دینے کا مہینہ ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے۔ مناجات شعبانیہ ہمیں ملنے والا ایک عظیم تحفہ ہے۔ ہمارے پاس متعدد ماثورہ دعائیں ہیں جو بڑی رفعت و بلندی والے مضامین کی حامل ہیں تاہم بعض دعائیں خاص طور پر بہت نمایاں اور ممتاز ہیں۔ میں نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے سوال کیا کہ ائمہ علیہم السلام سے منقول دعاؤں میں آپ کس دعا سے خاص عقیدت رکھتے ہیں؟ امام خمینی نے جواب دیا کہ دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ، ان دونوں دعاؤں سے۔ امام خمینی تو بس ذات الہی میں غرق تھے۔ اللہ سے راز و نیاز کرتے، توسل کرتے، بارگاہ خداوندی میں ہمیشہ خاضع و خاشع رہتے، خالق ہستی سے آپ کو بڑا عمیق لگاؤ تھا۔ اس کے بعد آپ کہتے ہیں کہ دو دعاؤں دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ سے آپ کو خاص رغبت اور ربط ہے۔ آپ ان دونوں دعاؤں کے بارے میں غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ ان میں بڑی شباہتیں اور مماثلتیں ہیں۔ یہ خضوع و خشوع میں ڈوبے جذبات کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے؛ كَاَنّى بِنَفسى واقِفَةٌ بَينَ يَدَيك، وَ قَد اَظَلها حُسنُ تَوَكُّلى عَلَيك، فَقُلتَ ما اَنتَ اَهلُه، وَ تَغَمَّدتَنى بِعَفوِك؛(۳)، اللہ کی مغفرت و بخشش کی امید و آس، اللہ کی رحمت کی امید، عنایات خداوندی کی امید، اللہ سے بلند ہمتی کی التجا، اِلهى هَب لى كَمالَ الانقِطاعِ اِلَيك، و اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضياءِ نَظَرِها اِلَيك.(۴) ماہ شعبان ان عظمتوں کا حامل مہینہ ہے۔ پاکیزہ دلوں کو، ہمارے نوجوانوں کے قلوب کو، ان نورانی اذہان کو اس سنہری موقعے سے کما حقہ فیضیاب ہونا چاہئے، اللہ سے اپنا قلبی رشتہ مضبوط کرنا چاہئے۔

( قائد انقلاب اسلامی کا خطاب - 12-06-2013 )

ہم صحابہ کرام (رض)، امہات المومنین (رض) اور مقدسات اہلسنت کا احترام کرتے ہیں، علامہ مقصود ڈومکی

مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے دفتر میں منعقدہ دینی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان 95 فیصد مشترکات ہیں جبکہ اختلاف صرف 5 فیصد فروعی مسائل پر ہے۔ مختلف اسلامی مسالک صدیوں سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ جن کے درمیان اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی کا فتویٰ انتہائی واضح اور دشمن کی تمام تر سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے کافی ہے۔ ہم صحابہ کرام (رض) اور امہات المومنین (رض) اور مقدسات اہل سنت کا احترام کرتے ہیں اور ان کی توہین کو شرعاً حرام سمجھتے ہیں۔ یہ عالمی سطح پر مکتب تشیع کے جید علماء کرام اور حوزہ علمیہ نجف اشرف، عراق اور قم المقدسہ، ایران کا فیصلہ ہے کہ سنی و شیعہ کو وحدت کا درس دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد کسی مسلک کے نہیں بلکہ سامراج کے آلہ کار ہیں۔ مساجد میں نمازیوں پر بمباری کرنے والے کیسے مسلمان ہوسکتے ہیں۔

صیہونی سازشوں کو ناکام بنانے کے لۓ مسلمانوں کے مابین اتحاد وقت کی اہم ضرورت

جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما اور قومی اسمبلی کے سابق رکن حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ امریکی اور صیہونی سازشوں کو ناکام بنانے کے لۓ مسلمانوں کے مابین اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ریڈیو تہران سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ حسین احمد نے کہا کہ اگر مسلمانوں کے مابین اتحاد ہوتا تو صیہونی قبلۂ اول کو شہید کرنے کی سازش کبھی نہ کرتے۔ انھوں نے کہا کہ اگر مسلمان آپس میں متحد نہ ہوئے اور عالم اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے لۓ عملی طور پر کوششیں نہ کیں تو تاریخ انھیں معاف نہیں کرے گی۔ حافظ حسین احمد نے کہا کہ یہ امریکہ اور صیہونی حکومت ہی ہیں جو مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لۓ کوشاں ہیں۔ حافظ حسین احمد نے مزید کہاکہ امریکہ اور صیہونی حکومت مسلمان ممالک کو بھی ایک دوسرے کے خلاف لڑانے میں مصروف ہیں۔

مزاحمت شام کے خلاف سازشوں کی شکست کا اصلی عامللبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ سے وابستہ دھڑے کے سربراہ نے مزاحمت کی حمایت کو شام کے خلاف سازشوں کی شکست کا اصلی عامل قرار دیا ہے۔ لبنان کی نیوز ایجنسی العہد کی رپورٹ کے مطابق لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ دھڑے کے سربراہ محمد رعد نے حزب اللہ کے ایک شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے تقریب میں کہا کہ مزاحمت کے سلسلے کی حمایت کے ساتھ شام کے دشمنوں کی سازشیں ناکام ہوئی اور تمام سناریو شام کی موجودہ حکومت اور فوج کے فائدے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ محمد رعد نے مزید کہا کہ شامی حکومت کے مخالفین اور اس ملک میں سرگرم مسلح دھشتگرد عالمی طاقتوں کی مالی و لاجسٹک مدد کے باوجود شام میں اپنے اھداف و مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور شام میں مزاحمت نے اس ملک کی فوج کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

فلسطین کے حق میں امام خمینی کا کردار قابل تحسینفلسطین علماء کونسل کے سربراہ نے کہا ہے کہ فلسطین کے حق میں حضرت امام خمینی قدس سرہ کی حمایت قابل تحسین ہے۔ سالم سلامہ نے حضرت امام خمینی کی پچيسویں برسی کے موقع پر فارس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کی طرف توجہ مبذول کروانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے اور آپ اپنی تقریروں میں صیہونی حکومت کے سرطانی رسولی ہونے اور اس کی نابودی پر تاکید فرمایا کرتے تھے۔ فلسطین کی قانون ساز اسمبلی میں حماس کے نمائندے نے کہا کہ امام خمینی جو صیہونی حکومت کو فساد کی جڑ قراردیا کرتے تھے اس سے قدس کی غاصب حکومت لرزہ براندام ہوجایاکرتی تھی۔ سالم سلامہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے فلسطینی کاز کو دوبارہ زندہ کرنے اور اقوام متحدہ میں اسے مبصر رکن کی حیثیت دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امام خمینی کی برسی چودہ خرداد مطابق چار جون کو منائي جاتی ہے۔

سپاہ پاسداران کی تشکیل، امام خمینی کی دوراندیشی کا نتیجہاسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت دفاع نے تیسری شعبان نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے روز ولادت باسعادت کی مناسبت سے بیان جاری کرکے کہا ہےکہ سپاہ پاسداران کی تشکیل حضرت امام خمینی قدس سرہ کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے۔ تیسری شعبان کو ایران میں روز پاسدار منایا جاتا ہے۔ اس بیان میں آیا ہے کہ سپاہ پاسداران نے انقلاب عاشورا سے سبق لیتے اور تاریخی حقائق سے عبرت حاصل کرتے نیز ملک اور اسلامی انقلاب کے تقاضوں کو صحیح طرح سے درک کرتے ہوئے ہرمیدان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ سپاہ پاسداران اور دیگر مسلح افواج رہبر انقلاب اسلامی کی ہدایات پر عمل کرکے اور ملت ایران کی حمایت سے ملک کی ڈیٹیرینٹ طاقت اور دفاعی توانائيوں کو بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں اور اپنی قانونی اور انقلابی ذمہ داریوں سے ذرہ برابر غفلت نہیں کریں گي۔

امام خمینی، تاریخ کے عظیم قائدمجلس شورائے اسلامی میں آشوری عیسائيوں کے نمائندے نے کہا ہےکہ امام خمینی قدس سرہ تمام اقوام عالم سے متعلق ہیں۔ یوناتن بت کلیا نے جو آشوری عیسائيوں کی عالمی یونین کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں ارنا سے گفتگو میں کہا کہ امام خمینی نے ظالم شاہی حکومت کے دوران جب شدید گھٹن کا ماحول تھا اور ہر طرح کی آزادی سلب ہوچکی تھی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ بت کلیا نے کہا کہ بانی انقلاب اسلامی کی تحریک کا فلسفہ سامراج اور مشرق و مغرب کی بڑی طاقتوں کی غلامی سے انسانوں کی آزادی تھی۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی نے تاریخ کے ایک عظیم انقلاب کی قیادت کی۔ بت کلیا نے کہا کہ بڑے بڑے دانشور امام خمینی کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس طرح سے ایک مذہبی رہنما نے عوام کے دلوں کو مسخر کرکے ایسی حکومت کا تختہ الٹ دیا جسے سوپر طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ امام خمینی کے ا فکار و نظریات کا مطالعہ ایک ناگزیر ضرورت ہے نیز آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے جوانوں کو آگاہ کیاجانا بھی نہایت ضروری ہے۔

رہبر معظم سے عید بعثت کی مناسبت سے اعلی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی مناسبت سے ایرانی عوام کے مختلف طبقات، اعلی حکام ، قرآن مجید کے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنے والے مہمانوں اور اسلامی ممالک کے سفیروں کے ساتھ ملاقات میں فکر ،بصیرت،شعور، امت اسلامی کے دشمنوں کی حقیقی شناخت ، اسی طرح اتحاد اور قومی اور عقیدتی اختلافات سے پرہیز کو عالم اسلام کی اہم ضروریات قراردیتے ہوئے فرمایا: آج پرچم اسلام کی سرافرازی و سربلندی اور مسلمانوں کے درمیان اسلامی تشخص کا احساس پہلے کی نسبت بہت قوی اور مضبوط ہوگیا ہے اور ایرانی قوم بھی اللہ تعالی کی نصرت اور مدد کے وعدے پر اعتماد اور حسن ظن کے ساتھ پیشرفت اور ترقی کی جانب گامزن ہے اور مشکلات سے عبور کرنے اور ظلم و جہالت اور ناانصافی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے موچوں کو فتح کررہی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور پیغمبر اسلام(ص) اور دوسرے انبیاء کرام (ع) کی بعثت کا مقصد عقل و دانش، خرد اور شعور کی جانب انسانوں کی ہدایت قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر اسلامی معاشرے میں عقل و خرد اور شعور سے استفادہ متداول اور رائج ہوجائے تو عالم اسلام کی بہت سی مشکلات حل ہوجائیں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام اور قرآن سے غلط اور سطحی نظریات اخذ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی تعلیمات اور قرآنی مفاہیم کے بارے میں عدم معرفت اور غلط نظریہ اس بات کا باعث بن گيا ہے کہ آج بعض افراد اسلام کے نام پر مسلمانوں پر ظلم و ستم اور ان کو قتل کرتے ہیں اور حتی افریقی ممالک میں اسلام کے نام پر بے گناہ لڑکیوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے موجودہ شرائط میں فکر و شعور کی طاقت سے استفادہ نہ کرنے کے ایک اور نمونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آج دشمن آشکارا طور پر اسلام کا مقابلہ کررہے ہیں اور اس سلسلے میں وہ قومی اور عقیدتی اختلافات اور شیعہ اور سنی اختلافات کو وسیلہ بنا رہے ہیں لیکن اگر عقل و شعور کی طاقت سے استفادہ کیا جائے تو دشمن کے ہاتھ اور اس کے ناپاک عزائم کو دیکھا جاسکتا ہے اور اسلام دشمن عناصر کے اہداف کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اتحاد اور امت واحدہ کی تشکیل کو عالم اسلام کی ایک دوسری ضرورت قراردیا اور سامراجی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی حفاظت ، اپنی مشکلات کو پوشیدہ رکھنے، ایران اور شیعہ کو خوفناک اور خطرناک بنا کر پیش کرنے اور مسلمانوں کی صفوں میں اختلافات پیدا کرنے کو دشمنوں کے اہداف میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مسلمان قوموں بالخصوص ممتاز شخصیات اور دانشوروں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ تدبیر اور بصیرت کے ذریعہ امت اسلامی کے دشمن محاذ کی صحیح شناخت اور معرفت حاصل کریں اور ان واضح حقائق کے بارے میں اچھی طرح متوجہ ہوجائیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک کے سیاسی اداروں کو جاہلیت کا مروج قراردیا اور جاہلیت کے خاتمہ کو پیغبمر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا مقصد اور ہدف قراردیتے ہوئے فرمایا: نا انصافی ، تبعیض، انسانی کرامت و شرافت پر عدم توجہ ، جنسی مسائل ، عورتوں کے تبرج کے سلسلے میں وسیع تبلیغات، یہ تمام امور مغربی ممالک کے گمراہ سماج کے علائم اور مظاہر ہیں جس کی بازگشت جاہلیت کے دور کی طرف ہوتی ہے البتہ مغربی ممالک جاہلیت کو نئے اور ماڈرن طریقہ سے فروغ دے رہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کو کچلنے کے سلسلے میں وسیع کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر چہ بظاہر بعض جگہوں پر طاقت کے ذریعہ اسلامی بیداری کو کچل دیا گيا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بیداری کو کچلنا ناممکن ہے۔

رہبر معظم سے عید بعثت کی مناسبت سے اعلی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعثت کے پیغام، اندرونی اتحاد، دشمن کے مد مقابل شجاعت اور اللہ تعالی کی نصرت اور مدد کے وعدے پر امید کے احساس کے سائے میں ایرانی قوم کی ترقیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے لطف و کرم سے جدید حکومت اور تازہ نفس حکام، اسلام کی سربلند اور سرافرازی کے لئے مختلف اور گوناگوں شعبوں میں کام اور تلاش کے سلسلے میں مصروف اور مشغول ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انسانی زندگی کی راہ میں مشکلات اور چیلنجوں کو ایک قدرتی امر قراردیتے ہوئے فرمایا: عقل اور تدبیر کے حامل افراد مشکلات کو انسانی عزت و شرف تک پہنچنے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لئے برداشت کرتے ہیں لیکن جاہل اور نادان انسان اللہ تعالی کی ولایت قبول کرنے کے بجائے شیاطین کی ولایت سے تمسک کرتے ہیں اور شیاطین کے سامنے میں ذلیل و خوار ہو جاتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں ایک قرآنی فریم ورک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآنی آیات کی روشنی میں وہ لوگ جو عزت تک پہنچنے کے لئے اللہ تعالی کی ہدایت اور ولایت کے بجائے انسان اور اسلام کے دشمنوں اور شیاطین کی ولایت کا سہارا لیتے ہیں وہ سرانجام عزت تک نہیں پہنچ پائیں گے اور وہی شیاطین ان کا سپاس اور شکریہ بھی ادا نہں کریں گے۔

رہبر معظم نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: قرآن مجید کے اس فارمولہ سے درس حاصل کرنا چاہیے اور سعادت کے صحیح اور درست راستے کو پہچاننا چاہیے جو الہی اور قرآنی ہدایت پر استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور بین الاقوامی گوناگوں اور مختلف میدانوں میں اسلامی جمہوری نظام کی کامیابیوں کے راز و رمز کو اللہ تعالی کے وعدوں پر اعتماد اور اس پرحسن ظن قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کا راستہ یہی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر فرمایا: اللہ تعالی کی رحمتیں حضرت امام (رہ) پر نازل ہوں جنھوں نے یہ راستہ ہمیں دکھایا۔ اللہ تعالی کی رحمت ہو ان شہیدوں پر جنھوں نے اس راہ میں اپنی جان فدا کی، اللہ تعالی کی رحمت ایرانی قوم پر نازل ہو جس نے اس راہ کے تمام مراحل میں اپنی تیاری اور آمادگی کا ثبوت دیا اور اللہ تعالی کی رحمت ہمارے حکام اور حکومتی اہلکاروں پر نازل ہو جو اس راہ میں کام و تلاش اور فداکاری کے لئے آمادہ ہیں۔

رہبر معظم سے عید بعثت کی مناسبت سے اعلی حکام اور اسلامی ممالک کے سفیروں کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صدر محترم حجۃ الاسلام والمسلمین جناب حسن روحانی نے عید سعید بعثت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور بعثت کو عظيم تاریخي رستاخیز اور وحی الہی کی بنیاد پر عقل سے درست استفادہ کے لئے بہت بڑي اور تاریخی نعمت قراردیتے ہوئے کہا: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عظيم اخلاق اور مہربانی کے ساتھ دلوں کو اپنی طرف مجذوب کیا اور انسانیت کو علم و معنویت اور حریت کا تحفہ عطا کیا۔

صدر حسن روحانی نے کفر محاذ کی جانب سے عالم اسلام پر انتہا پسندی، شدت پسندی اختلاف اور ناانصافی جیسی مشکلات مسلط کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا: آج انقلاب اسلامی اتحاد ، ہمدلی اور کفر کے مقابلے میں امت اسلامی کے اختلافات کو دور کرنے کا علمبردار ہے۔

امام راحل کی برسی پر عظیم الشان مراسم کا انعقاد کیا جائےتہران کے خطیب نماز جمعہ نے بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی برسی کی مناسبت سے عظیم الشان مراسم کے انعقاد پر تاکید کی ہے ۔ تہران کے خطیب جمعہ آیۃ اللہ سید احمد خاتمی نے حضرت امام خمینی ( رح ) کی رحلت کی 25 ويں برسی کی آمد کی مناسبت سے کہا کہ ان پروگراموں کا شان و شوکت سے منایا جانا ، مکتب امام (رح) کے ساتھ بیعت اور آپ کے جانشین صالح ، حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کی بیعت کے پیغام کا حامل ہے ۔ تہران کے خطیب جمعہ نے، ظالم پہلوی حکومت کے خلاف تحریک کی شروعات کی تاریخ ، 15 خرداد مطابق پانچ جون کی آمد کی مناسبت سے بھی کہا کہ پانچ جون 1963 کا دن ، اسلامی انقلاب کا سرچشمہ شمار ہوتا ہے اور اسی دن ایران کےاسلامی انقلاب کا بیج بویا گیا جو گیارہ فروری 1979 کو بارآور ثابت ہوا ۔ تہران کے خطیب جمعہ نے مزید کہا کہ جب تک کہ اسلامی انقلاب اور ملت ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی اور شیطنت جاری رہے گي ملت ایران اسی طرح امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے رہے گي ۔ آیۃ اللہ خاتمی نے اسی طرح ایرانی شمسی سال 1393 کو، معیشت و ثقافت کے شعبے میں قومی عزم اور مجاہدانہ مدیریت سے موسوم کئے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی کے عزائم کو عملی جامہ پہنانے پر تاکید کی ہے۔تہران کے خطیب جمعہ نے تہران ميں قرآن کے بین الاقوامی مقابلوں کی جانب اشارہ کرتےہوئے کہا کہ یہ مقابلے دنیا ميں اپنی نوعیت کے سب سے بڑے مقابلے ہیں جو اسلامی انقلاب کی برکتوں کا نتیجہ ہیں ۔

وہ دعا جس کی آیت اللہ بہجت نے رہبر انقلاب کو وصیت فرمائی

عالم ربانی، عارف حقیقی حضرت آیت اللہ العظمیٰ محمد تقی بھجت قدس اللہ نفسہ الزکیہ کی وفات کی برسی کے موقع پر ہم یہاں آپ کی اس وصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو آپ نے رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کو فرمائی تھی۔

رہبر معظم انقلاب نے ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۰ کو حوزہ علمیہ قم کے طلاب اور اساتید کے مجمع میں ایک حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے آیت اللہ العظمیٰ بھجت کی وصیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

مرحوم آیت اللہ بھجت (رضوان اللہ تعالی علیہ) مجھ سے فرمایا کرتے تھے کہ اس دعا کو ہمیشہ پڑھا کرو: «یا الله یا رحمان یا رحیم یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک».اے اللہ اے رحمن اے رحیم اے دلوں کو بدلنے والے ہمارے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ ممکن تھا اس میں ایک اشکال پیدا ہو تو انہوں نے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے یوں فرمایا: ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ «ثبت قلبی علی دینک» کس لیے کہیں چونکہ ہمارا دین اور ایمان تو صحیح ہے منطقی ہے، مستحکم ہے، یہ دعا تو ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ایمان ابھی کمزور ہے۔ آپ فرماتے تھے: جس درجے پر انسان کا ایمان اور یقین پایا جاتا ہے اس درجے سے اس کا تنزل کرنا ممکن ہے۔ «ثبت قلبی علی دینک» کا مطلب یہ ہے کہ دین کو اسی درجہ پر ثابت کر دے جس درجے پر وہ ہے۔ اگر ایسا ہو تو زندگی شیریں ہو گی اور موت آسان۔ ہم لوگوں کی ایک بنیادی مشکل موت کی مشکل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: «امتنا مهتدین غیر ضالین، طائعین غیر مستکرهین غیر عاصین». ہمیں ایسے حال میں موت دینا کہ ہم ہدایت یافتہ ہوں گمراہ نہ ہوں، اطاعت گزار ہوں اطاعت سے انکار کرنے والے اور گناہگار نہ ہوں۔ امام تو پوری زندگی ہدایت کے راستے پر رہے ہیں تو پھر یہ دعا کیوں کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مرحلہ بہت دشوار مرحلہ ہے۔

حکم مستوری و مستی همه بر عاقبت است

کس ندانست که آخر به چه حالت برود»

ہوش اور مدہوشی کا حکم انسان کی عاقبت پر منحصر ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ آخر وہ کسی حال میں جائے گا۔