
Super User
رہبر معظم کی موجودگی میں رمضان المبارک کے پہلے دن محفل انس با قرآن کا انعقاد
رمضان المبارک اللہ تعالی کی رحمت اور ضیافت اور قرآن مجید کی بہار کا مہینہ ہے رمضان المبارک کے پہلے دن حسینیہ امام خمینی (رہ) میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں محفل انس باقرآن منعقد ہوئی ، جس میں قرآن مجید کے ممتاز قاریوں اور حافظوں نے قرآن مجید کی نورانی آیات کی تلاوت کا شرف حاصل کیا اورقرآنی مجموعہ نے گروہی طور پر بھی قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کو پیش کیا اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا بجا لائے۔
اس نورانی محفل میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسلامی معاشرے کو قرآن مجید کے ساتھ انس و فہم پیدا کرنےکے سلسلے میں قرآنی موضوعات میں سرگرم افراد کے کام کو بہت ہی گرانقدر، اہم اور اسٹراٹیجک قراردیتے ہوئے فرمایا: پروگرام اس طریقہ سے مرتب کرنا چاہیے تاکہ تمام افراد قرآن مجید کے معانی اور مفاہیم سے آگاہ اور مانوس ہوسکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: قرآن کے ساتھ روز افزوں انس کی بنا پر اسلامی معاشرے کے اندر استحکام پیدا ہوتا ہے اور یہی اندرونی استحکام ہے جو معاشرے و سماج کو چلینجوں سے عبور کرنے کی طاقت اور قدرت عطا کرتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایمان کی مضبوطی، اللہ تعالی پر توکل،اللہ تعالی کے وعدوں پر اعتماد اور مادی مشکلات سےخوفزدہ نہ ہونے کو انس با قرآن کے برکات اور فوائد قراردیتے ہوئے فرمایا: قرآن مجید میں غور و تدبر، اسلامی معاشرے کو گمراہی اور خرافات کی ظلمتوں ووہم و خوف کی تاریکیوں سے نجات دلاتا اور اللہ تعالی کی معرفت و شناخت کی طرف ہدایت کرتا ہے اور آج یہ عالم اسلام کے لئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے سلسلے میں ایک بنیادی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امت اسلامی کی بصیرت کے اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنان اسلام اسی حقیقت سے خوفزدہ ہیں اور اسی لئے وہ اسلام کے نام پر اور اسلام کے سائے میں اسلام کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خالص محمدی (ص) اسلام اور امریکی اسلام کے بارے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی حکیمانہ تعبیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکی اسلام کا نام بھی بظاہر اسلام ہے لیکن امریکی اسلام کی صہیونزم اور طاغوتی طاقتوں کے ساتھ ساز باز ہے وہ طاغوتی اور مستکبر طاقتوں کی ولایت قبول کرتا ہے اور مکمل طور پر امریکہ اور طاغوت کے اہداف اورمفادات کی خدمت میں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض اسلامی ممالک منجملہ عراق میں جاری بحران اور کشیدگی کے پیچھے دشمن کے جاسوس اداروں کے آشکارا نقش و کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انس باقرآن اور تعلیمات قرآنی سے آشنائي امت اسلامی کو اس قسم کے حوادث کی روک تھام میں مدد بہم پہنچائے گی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر قرآنی سرگرم افراد کو دینی قوانین اور اصولوں پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے مایہ ناز قرآنی معاشرے کو جوانوں کے لئے عملی نمونہ ہونا چاہیے۔
پاکستان میں فوج کی زمینی کارروائیوں کا آغاز
پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں زمینی کاروائياں شروع کردی ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے فوجی کے شعبہ تعلقات عامہ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ شہری آبادی محفوظ مقامات پر پہنچانے کے بعد میرانشاہ شہر میں فوجی کاروائي شروع کی گئي اورگھروں کی تلاشی لینے کا سلسلہ شروع کیا گيا۔ اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ پندرہ روز میں دہشتگردوں کے دسیون ٹھکانے تباہ کئے گئے ہیں۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق آپریشن ضرب عضب میں اب تک فوج کے سترہ جوان جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ تین سو چہتر دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پیشاور اور ٹانک میں متاثرین کو امداد پہنچائي جارہی ہے۔ واضح رہے شمالی وزیرستان میں فوج کے آپریشن کے خوف سے ہزاروں افراد نقل مکانی کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں اور افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔بعض رپورٹوں سے یہ بھی پتہ چلا ہےکہ امریکہ اس فوجی کاروائي کا بجٹ فراہم کیا ہے۔
برطانیہ میں اسلاموفوبیا عروج پر
برطانیہ میں مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ٹیسائید یونیورسٹی (Teesside University )کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق فروری سے مئی تک کے مہینوں کے دوران روزانہ اوسطا مسلمانوں پر دو حملے کۓ گۓ جن میں سے سات سو سینتیس کی رپورٹ درج کرائی گئی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب دو ہزار تیرہ میں اسی مدت کے دوران مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کی نسبت رواں برس فروری سے مئی تک مہینوں میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں کو تفتیش کے سلسلے میں برطانیہ کی پولیس پر اعتماد نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ حملوں کےمتعلق پولیس کے ہاں رپورٹ ہی درج نہیں کراتے ہیں۔
افغانستان ميں جنگ، امريکہ اور مغرب کي سازش کا نتيجہ
افغانستان کے صدر حامد کرزئي نےکہا ہے امريکہ اور مغرب نے افغانستان ميں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کي خاطر افغانستان کو جنگ کي آگ ميں جھونکا ہے-
ذرائع کے مطابق افغانستان کے صدر حامد کرزئي نے ايک انٹرويو ميں کہا ہے کہ افغانستان ميں جنگ امريکہ اور مغرب کي سازش کا نتيجہ ہے -انہوں نے کہا کہ امريکہ اور مغرب کي سازش کے نتيجے ميں وجود ميں آنے والي جنگ سےافغان عوام کو سب سے زيادہ نفصان اٹھانا پڑا ہے -حامد کرزئي نے کہا کہ اپنے تيرہ سالہ دور حکومت ميں انہوں نے ملک اور عوام کے خلاف ہونے والي سازشوں کو ناکام بنانے کي بھرپور کوشش کي ہے-انہوں نے کہا کہ امريکہ اور مغرب کي سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا،افغانستان کےساتھ امريکہ اور نيٹو کے اختلافات کا باعث بنا ہے- انہوں نے مزید کہا کہ افغان عوام کا قتل عام، اس ملک پر سابق سويت يونين کي جارحيت کے زمانے سے شروع ہوا تھا جو آج بھي جاري ہے - انہوں نے کہا کہ ہم عيدالفطر کے موقع پر حکومت کي تمام ذمہ دارياں نئے صدر کے حوالے کردیں گے ۔
رہبر معظم سے شہدائے ہفتم تیر اور بعض دیگر شہداء اور جانبازوں کے خاندانوں کی ملاقات
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے ہفتم تیر کے محترم شہیدوں کے اہل خانہ اور تہران کےبعض دیگر شہیدوں اور جانبازوں کے خاندانوں کے ساتھ ملاقات میں شہیدوں کے پیغام کے ادراک کے سلسلے میں ملک اور معاشرے کی ضرورت پر تاکید کی اور شہیدوں کے نورانی اور شاداب راستے پر قوم کی وفاداری کو تسلط پسند طاقتوں کی سازشوں کی مسلسل شکست کا مظہر قراردیا اور علاقائي واقعات منجملہ عراق کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عراق میں جاری جنگ در حقیقت مغربی ممالک طرفداروں ، دہشت گردوں کے حامیوں اور قوموں کے استقلال کے طرفداروں و دہشت گردوں کے مخالفین کے درمیان ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں رمضان المبارک کی آمد کی طرف اشارہ کیا اور اس عظیم مہینے کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں توجہ ، اخلاص اور صفا و پاکیزگی کا مہینہ قراردیا اور تمام لوگوں کو سفارش کی کہ وہ اس مہینے کو غنیمت سمجھیں اور اس میں اللہ تعالی کی رحمت اور بخشش طلب کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے 7 تیر سن 1360 ہجری شمسی کو تاریخی اور ناقابل فراموش دن قراردیتے ہوئے فرمایا: شہیدوں کو ہماری ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ان کے پیغام کو سننے ، ان کے اہداف کو پہچاننےاور ان کے سعادت بخش راستے پر گامزن رہنے کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےقرآن مجید کی آیات کی روشنی میں خوف ، حزن اور اندوہ سے دوری کو اسلامی معاشرے کے لئے شہیدوں کا بشارت پر مبنی پیغام قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمیں شہیدوں کے اس نورانی پیغام کے ادراک کے ساتھ انقلاب کے اعلی اور نورانی اہداف کی سمت مزید شوق و نشاط کے ساتھ گامزن رہناچاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہیدوں اور جانبازوں کے معظم خاندانوں کے صبر، ہمراہی اور سرافرازی کی تعریف و تجلیل کی اور ہفتم تیر کے واقعہ اور اس میں حضرت امام خمینی(رہ) اور انقلاب کےحامی درجنوں افراد منجملہ آیت اللہ بہشتی جیسے عظیم و بزرگ ،سیاسی، علمی اور فکری انسان کی شہادت کو ایرانی قوم کی رفتار اور اس کے دشمنوں کی رفتار کو پہچاننے اور مطالعہ کا اہم معیار قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: ہفتم تیر کے بھیانک اور خوفناک واقعہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی ظالم و جابر ادارے ایرانی قوم کی منطق ، ثقافت اور فکر کے سامنے شکست و ناکامی اور کمزوری کا احساس کرتے تھے اور اس وحشیانہ جرم و جنایت کے علاوہ اس سرزمین کے 17 ہزار عوام اور حکام کے قتل میں ملوث دہشت گردوں کی حمایت بھی کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہفتم تیر کو انسانی حقوق کے دعویداروں کی مکمل رسوائی قراردیتے ہوئے فرمایا: ہزاروں بے گناہ ایرانیوں کے قتل میں ملوث افراد اس دور سے لیکر آج تک مغربی ممالک کی آغوش میں ہیں اور اب بھی مغربی پارلیمانوں اور امریکی مراکز میں ان کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایک طرف انسانی حقوق کےمغربی دعویدار ایرانی قوم کے قاتلوں کے لئے اپنی آغوش پھیلائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشت گردی کا الزام عائد کرتے ہیں جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران خود دہشت گردی کا شکار ہے اور مغرب ممالک کے دعوؤں کو پہچاننے اور پرکھنے کے لئےیہ بہت ہی اچھا معیار ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سن 1366 ہجری شمسی میں تیر مہینے کی آٹھویں تاریخ کو سردشت شہر کے عوام پر صدام معدوم کی جانب سے کیمیاوی بمباری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سردشت اور اس سے قبل حلبچہ کے عوام پر کیمیاوی بمباری کے باوجود امریکہ اور یورپی ممالک صدام معدوم کی تائید اور اس کی حمایت کرتے رہے جب تک ان کے لئے صدام معدوم سے استفادہ کا امکان فراہم تھا اس وقت تک وہ صدام کے کسی قعل پر اعتراض نہیں کرتے تھے اور مغربی ممالک کے دعوؤں کی حقیقت کو پہچاننے کا یہ دوسرا معیار و ملاک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمنوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی استقامت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے استقامت اور پائداری کے ساتھ اپنی منطق کودشمن کے سامنے کامیاب بنایا ہے اور آج ہر منصف مزاج انسان اسلامی جمہوریہ ایران اورایرانی قوم کو مظلوم سمجھنے کے ساتھ مقتدر ، عزیز ، مستقل اور ترقی یافتہ سمجھتا ہے اللہ تعالی کے فضل و کرم اور شہیدوں کی راہ پر ایرانی عوام کی وفاداری کی برکت سے اس راہ پر حرکت مزید برق رفتاری کے ساتھ جاری رہےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی حالیہ تین عشروں میں ہونے والی ناکامیوں کو ایرانی قوم کی نسبت ان کے عناد اور دشمنی کے مزید اضافہ کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: سامراجی اور استعماری طاقتیں جو حضرت امام (رہ) ، انقلاب اور ایرانی قوم سے متنفر ہیں وہ ایرانی قوم کے خلاف اپنی سازشوں سے دستبردار ہونے والی نہیں ہیں اسی وجہ سے ایرانی قوم اور حکام کو بہت زيادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی واقعات و حوادث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمنوں نے آج قوموں کے درمیان داخلی جنگیں شروع کرنے پر سرمایہ کاری کی ہے تاکہ وہ قوموں کو علاقائی اور مذہبی عناوین کے تحت ایکدوسرے کے ساتھ لڑا سکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق کے حوادث اور بعض دیگر ممالک کے واقعات کے بارے میں سامراجی طاقتوں کے پروپیگنڈے کو شیعوں اور سنیوں کے درمیان جنگ چھیڑنے کی کوشش کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: عراق میں صدام معدوم کے باقی ماندہ منفور عناصر کے ساتھ مٹھی بھر جاہل، نادان ،بے شعور اور متعصب افراد بھیانک جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں اور دشمن اس کو شیعہ اور سنی جنگ قراردے رہے ہیں لیکن یہ ان کی صرف ایک آرزو ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عراق میں شیعہ اور سنی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ جنگ دہشت گردوں اور ان کے مخالفین کے درمیان ہے عراق میں جنگ در حقیقت امریکہ اور مغربی ممالک کے حامی دہشت گردوں اور قوموں کے استقلال کے طرفداروں کے درمیان جنگ ہے عراقی کی جنگ انسانیت کے طرفداروں اور مغرب کے وحشی اور جرائم پیشہ افراد کے درمیان ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عراق کے واقعات کی دوسرے اسلامی ممالک میں تکرار کے سلسلے میں دشمنوں کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: علاقائي قوموں کو چاہیے کہ وہ دشمنوں کی ان حرکتوں کو زیر نظر رکھیں اور مسلمان قوموں کو جان لینا چاہیے کہ دشمن ان کے استقلال ،عزت اور عظمت کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری اور اسلامی تحریک کی لہر سے نجات پانے کو دشمن کی طرف سے شیعہ و سنی جنگ چھیڑنے کا اصلی مقصد قراردیا اور دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کی بنیادی راہوں کی تشریح کے سلسلے میں اسلامی جمہوری نظام کو شفا بخش اور بے نظیر نسخہ قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران کی دلیر، عزیز اور شجاع قوم نے دشمنوں کی اب تک کی تمام سازشوں کو اتحاد ، بصیرت اور ہوشیاری کے ساتھ ناکام بنادیا ہے اور بیشک آئندہ بھی وہ دشمن کی تمام سازشوں اور حملوں کو ناکام بنا دےگی اور سرانجام اسلامی بیداری کے مقابلے میں دشمن محاذ کی شکست یقینی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے اختتام میں ملک کے عوام، دانشوروں، حکام، ہنرمندوں، مصنفین اور طلباء کو انقلاب اسلامی کے گرانقدر شہیدوں کی میراث کی حفاظت کے سلسلے میں تاکید کی اور شہیدوں کی عظمت کے سامنے ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سفارش کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل شہید اور جانباز فاؤنڈیشن میں ولی فقیہ کے نمائندے اور سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین شہیدی محلاتی نے اسلامی انقلاب کی مضبوطی اور پائداری کا اصلی رکن ایثار، جہاد اور شہادت کو قراردیا اور شہید و جانباز فاؤنڈیشن میں ثقافتی ترجیحات کے پروگراموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایثار و شہادت ثقافت کی ترویج کے لئے اعلی کونسل کی تشکیل، سپاس منصوبہ کے عنوان سے جانبازوں کی توانائیوں اور صلاحیتوں کی قدردانی اور ملک کے دوسرے اجرئی اداروں کے ساتھ تعاون اور گفتگو شہید و جانباز فاؤنڈیشن کے اہم پروگراموں میں شامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں موجود جانبازوں کے ساتھ نوازش اور محبت کا اظہار کیا۔
پاکستان کی فوج ملک کے دفاع کے تیار
پاکستانی فوج کے کمانڈر نے اعلان کیا ہے کہ فوج ملک کو درپیش کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے, ڈاؤن نیوز سائٹ کے مطابق پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے ملک کے دفاع کے لئے تیار ہے انہوں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے وطن کی حفاظت کے لئے جانفشانی کرنے کو تیار ہے۔
جنرل راحیل شریف نے فوج سے کہا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کونہایت ہی دقت کے ساتھ انجام دیں انھوں نے سخت مشکلات میں فوج کی کوششوں کی قدردانی کی ۔
روزہ کا فلسفہ کیا ہے؟
روزہ کے مختلف پہلو ہیں اور انسان کے اندر مادی و معنوی لحاظ سے بہت زیادہ تاثیر رکھتا ہے، جن میں سے سب سے اہم ”اخلاقی پہلو“ اور ”تربیتی فلسفہ“ ہے۔
روزہ کاسب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ روزہ کے ذریعہ انسان کی روح ”لطیف“،اور اس کی ”قوّت ارادی“ مضبوط ہوتی ہے اور خواہشات میں ”اعتدال“ پیدا ہوتا ہے۔
روزہ دار کو چاہئے کہ روزہ کے عالم میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے ہوئے جنسی لذت سے بھی چشم پوشی کرے، اور عملی طور پر یہ ثابت کر دکھائے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کا اسیر نہیںہے، سرکش نفس کی لگام اس کے ہاتھ میں ہے اور ہوا وہوس اور شہوت و خواہشات اس کے کنٹرول میں ہے۔
در اصل روزہ کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے، جس انسان کے پاس کھانے پینے کی مختلف چیزیں موجود ہو ں جب اوراس کو بھوک یا پیاس لگتی ہے تو وہ فوراً کھاپی لےتا ہے، بالکل ان درختوں کے مانند جو کسی نہر کے قریب ہوتے ہیں اور ہر وقت پانی سے سیراب ہوتے رہتے ہیں وہ نازپرور ہوتے ہیں یہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کرتے ہیں ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اگر انھیں چند دن تک پانی نہ ملے تو پژمردہ ہوکر خشک ہوجاتے ہیں۔
لیکن جنگل،بیابان اورپہاڑوں میں اگنے والے درخت ہمیشہ سخت طوفان، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردیوں کا مقابلہ کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور طرح طرح کی محرومیوں سے دست و گریباں رہتے ہیں، لہٰذا ایسے درخت بادوام اور مستحکم ہوتے ہیں!!
روزہ بھی انسان کی روح و جان کے ساتھ یہی سلوک کرتا ہے، یہ وقتی پابندیوں کے ذریعہ انسان میں قوت ِدفاع اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلہ میں طاقت عطا کرتا ہے، چونکہ روزہ سرکش خواہشات اور انسانی جذبات پر کنٹرول کرتا ہے لہٰذا اس کے ذریعہ انسان کے دل پر نور و ضیا کی بارش ہوتی ہے، خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں لے جاکر کھڑا کردیتا ہے، <لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ>(1)، (شاید تم پرہیزگار بن جاؤ) اس آیہٴ شر یفہ میںروزہ کے واجب ہونے کا فلسفہ بیان ہوا ہے۔
اس مشہور و معروف حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: ”الصُّومُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ“(2) (روزہ جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ایک ڈھال ہے)۔
ایک اور حدیث حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا گیا کہ ہم کون سا کام کریں جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:روزہ؛ شیطان کا منہ کالا کردیتا ہے، راہ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے خدا کے لئے محبت و دوستی نیز عملِ صالح کی پابندی سے اس کی دم کٹ جاتی ہے اور توبہ و استغفار سے اس کے دل کی بھی رگ کٹ جاتی ہے۔(3)
نہج البلاغہ میں عبادت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت امیر المومنین علیہ السلام روزہ کے بارے میں فرماتے ہیں: ”وَالصِّیَامُ إبْتَلاَءُ لإخْلاَصِ الْخَلْقِ“(4) ”خداوندعالم نے روزہ کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں اخلاقی روح کی پرورش ہوسکے“۔
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”ان لِلْجَنّة بَاباً یُدعی الرَّیَّان لَا یَدخُلُ فِیھَا إلاَّالصَّائِمُونَ“ (بہشت کے ایک دروازے کا نام ”ریان“ (یعنی سیراب کرنے والا) ہے جس سے صرف روزہ دار ہی داخل جنت ہوں گے۔)
شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے معانی الاخبار میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازہ کا انتخاب اس بنا پر ہے کہ روزہ دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے لہٰذا جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔(5)
روزہ کے معاشرتی اثرات
روزہ کا اجتماعی اور معاشرتی اثر کسی پر پوشیدہ نہیں ہے، روزہ انسانی معاشرہ کے لئے ایک درس مساوات ہے کیونکہ اس مذہبی فریضہ کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور معاشرہ کے محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکیں گے اور دوسری طرف شب و روز کی غذا میں کمی کرکے ان کی مدد کے لئے جلدی کریں گے۔
البتہ ممکن ہے کہ بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کرکے خداوندعالم صاحبِ قدرت لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہواور اگر یہ معاملہ حسّی اور عینی پہلو اختیار کرلے تو اس کاایک دوسرا اثر
ہوتا ہے ،روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتا ہے، اس مشہور حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزہ کی علت اور سبب کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
”روزہ اس لئے واجب ہوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے کہ غنی بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کردے، کیونکہ مالدار عموماً جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوجاتا ہے خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان مساوات قائم ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور درد و غم کااحساس ہو جائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔(6)
روزہ کے طبی اثرات
طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک (کھانے پینے سے پرہیز) بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتا ہے جو قابل انکار نہیں ہے، شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مبسوط تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں، اور چونکہ اضافی مواد بدن میں جذب نہیں ہوتا جس سے خطرناک اور اضافی چربی پیدا ہوتی ہے یا یہ چربی اور خون میں اضافی شوگرکا باعث بنتی ہے، عضلات کا یہ اضافی مواد در حقیقت بدن میں ایک متعفن (بدبودار) بیماری کے جراثیم کی پرورش کے لئے گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے، ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین راہ حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزہ کے ذریعہ ختم کیا جائے، روزہ ان اضافی غلاظتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلادیتا ہے، در اصل روزہ بدن کو صاف و شفاف مکان بنادیتا ہے۔
ان کے علاوہ روزہ سے معدہ کو اچھا خاصا آرام ملتا ہے جس سے ہاضمہ کا نظام صحیح ہوجاتا ہے، چونکہ یہ بدن انسان کی نازک ترین مشینری ہے جو سال بھر کام کرتی رہتی ہے لہٰذا اس کے لئے اتنا آرام نہایت ضروری ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ اسلامی حکم کی رو سے روزہ دار کو اجازت نہیں ہے وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے، یہ اس لئے ہے تاکہ اس سے حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیا جاسکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتیجہ نہ حاصل ہوسکے۔
چنانچہ ”الکسی سوفرین“ ایک روسی دانشور لکھتا ہے:
روزہ ان بیماریوں کے علاج کے لئے خاص طور پر مفید ہے: خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ (Appendicitis) اندرونی اور بیرونی قدیم پھوڑے، تپ دق (T.B) اسکلیروز، نقرس، استسقاء،(جلندر کی بیماری جس میں بہت زیادہ پیاس لگتی ہے اور پیٹ دن بدن بڑھتا جاتا ہے) جوڑوں کا درد، نور استنی، عرق النساء (چڈوں سے ٹخنوں تک پہنچنے والا درد)، خزاز (جلد کا گرنا) امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض جگر اور دیگر بیماریاں ۔ امساک اور روز ہ کے ذریعہ علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ وہ بیماریاں جو جسمِ انسان کے اصول سے متعلق ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوئی ہیں مثلاً سرطان، سفلیس، سل اور طاعون کے لئے بھی شفا بخش ہے(7)
ایک مشہور و معروف حدیث میں پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ”صُومُوا تَصَحُّوا“،(8) (روزہ رکھو تاکہ صحت مند رہو)۔
پیغمبر اکرم (ص) سے ایک اور حدیث میں منقول ہے جس میں آپ نے فرمایا: ”المِعْدَةُ بَیْتُ کُلِّ دَاءٍ وَالحَمیةُ رَاسُ کُلِّ دَوَاءٍ“(9) معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک ( روزہ) ہر مرض کی دوا ہے۔(10)
(1)سورہ بقرہ ، آیت ۱۸۳
(2) بحار الانوار ،جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۶
(3) بحا رالانوار، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۵
(4)نہج البلاغہ ،کلمات قصار، کلمہ نمبر ۲۵۲
(5) بحار الانوار ، جلد ۹۶، صفحہ ۲۵۲
(6) وسائل الشیعہ ، جلد ۷، باب اول ،کتاب صوم ، صفحہ ۳
(7) روزہ روش نوین برای درمان بیماریہا، صفحہ ۶۵،طبع اول
(8) بحا رالانوار ، جلد۹۶، صفحہ ۲۵۵
(9) بحار الانوار ، جلد ۱۴ ، طبع قدیم
(10) تفسیر نمونہ ، جلد ۱، صفحہ ۶۲۸
جامع مسجد هرات - افغانستان
ہرات کی بڑی مسجد جامع، افغانستان کی تاریخی آثار میں سے ہے۔ مسجد جامع ہرات یا مسجد جمعہ ہرات قدیمی مساجد میں سے ایک مسجد ہے۔ یہ مسجد ۱۴۰۰سال پرانی ہے۔ اس کی مساحت ۴۶۷۶۰مربع میٹر ہے۔ اس کی معماری قابل قدر ہے۔ اس مسجد کو زیادہ تر تیموریوں کی حکمرانی کے دوران وسعت اور ترقی ملی ہے۔
اس مسجد کی سلطان غیاث الدین غوری نےسنہ ۵۹۷ ھ میں منصوبہ بندی کی، لیکن اسے مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ھوا۔ سلطان غیاث الدین غوری کا جنازہ سنہ ۱۲۰۲ عیسوی میں،اس مسجد کے شمالی ایوان کے آخر پر گنبد کے نیچے دفن کیا گیا ہے۔
عہد تیموریان میں تعمیر کی گئی مسجد کا صرف ایک چھوٹا حصہ اس کے جنوبی دروازہ پر باقی بچا ہے۔ تیموری اپنے سلیقہ سے تزئین کرتے تھے۔ اس لئے اس مسجد کی غوری حکومت کے دوران کی گئی تزئِنات تیموریوں کے دوران کی گئی تزئینات کے نیچے دب گئی ہیں۔ البتہ ماہرینآثار قدیمہ نے ۱۹۶۴ء میں ان تزئینات کا انکشاف کیا ہے۔
زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تیموریوں کے دور کے آثار نابود ھوچکے تھے ۔ لیکن ۱۳۲۲ھجری شمسی میں کی گئی اس مسجد کی مرمت کے دوران مذکورہ آثار میں سے بعض کی مرمت کے دوران مذکورہ آثار میں سے بعض کی مرمت کی گئی ہے۔
یہ مسجد، افغانستان کے قدیمی تاریخی آثار میں سے ایک ہے۔
ہر دیکھنے والا جب پہلی بار اس مسجد کو دیکھتا ہے، پہلے ہی لمحہ میں اس عظمت والی اور خوبصورت مسجد کی دلفریب اور باشکوہ معماری کو دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہے۔
اس خوبصورت اور حیرت انگیزعمارت کی جگہ پر، اسلام سے کئی ہزار سال پہلے آریاؤں کا ایک چھوٹا عبادت خانہ تھا جو لکڑی کا بنا ھوا تھا۔ ہرات کے لوگوں کے دین مبین اسلام کو قبول کرنے کے بعد سنہ ۲۹ ہجری میں یہ عبادت خانہ مسجد میں تبدیل ھوا ہے۔
اس مسجد شریف میں عالم اسلام کے بعض بڑے علماء تدریس کرتے تھے، جن میں حضرت خواجہ عبداللہ انصاری اور خواجہ محمد تاکی قابل ذکر ہیں۔
مسجد جامع ہرات نے تاریخ کے دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ یہ مسجد کئی بار گرانے کے بعد دوبارہ تعمیر یا مرمت کی گئی ہے۔
سنہ ۴۱۴ہجری میں اس مسجد کا لکڑی سے بنا ھوا حصہ نظر آتش ھوا۔ تقریبا دوصدیوں کے بعد شیخ الاسلام فخرالدین رازی کی تجویز اور سلطان غیاث الدین غوری کے حکم سے اس مسجد کو پختہ اینٹوں، تزئینات اور فیروزی رنگ کی ٹائیلوں سے استفادہ کرکے موجودہ صورت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ سلطان کی موت کے بعد اس کے بیٹے، سلطان محمود نے اس مسجد کے نا مکمل کام کو مکمل کیا۔ لہذا اس مسجد کی موجودہ عمارت تیموریوں کی معماری کے مطابق تعمیر کی گئی ہے اور حالیہ دور میں اس کی مرمت بھی کی گئی ہے جو تیموریوں کے دور کی معماری کے مشابہ ہے۔
مغلوں کے حملہ کے نتیجہ میں مسجد خراب ھوگئی تھی۔ اس لئے سنہ۸۱۸ ھجری میں اس مسجد کی تعمیر نوکی گئ ہے اور اس مسجد کے شمال میں غیاثیہ کے نام پر ایک مدرسہ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔
ملک معزالدین کرت کی حکمرانی کے زمانہ میں اس مسجد کی خوبصورتی کو بڑھاوا دینے کے علاوہ صوفیوں کے لئے ایک خانقاہ بھی تعمیر کی گئی ہے۔ ایک سو سال گزرنے کے بعد (تیموری بادشاھوں کے) شاہ رخ میرزا کے زمانہ میں اس مسجد کے رواقوں اور دیواریوں کو معرق ٹائیلوں اور خوبصورت خطاطی سے سجایا گیا ہے۔
ہند و پاک اختلافات پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش
خارجہ امور میں پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اسلام آباد، نئی دہلی کے ساتھ پائے جانے والے اختلافات کو، پرامن طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ذرائع کے مطابق سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ کے عہدیدار عنقریب مسئلہ کشمیر سے متعلق مذاکرات کا عمل جاری رکھنے کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرکے دونوں ملکوں کے آئندہ تعلقات کے بارے میں نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان، دہشتگردي کے خلاف مہم اور علاقے میں کشیدگی کی روک تھام کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔قابل ذکر ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے حکام نے حال ہی میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے موثر اقدامات عمل میں لانے کے عزائم کا اعلان کیا ہے۔
مختلف ملکوں کی طرف پہلی مرتبہ ایران کے تجارتی اتاشی روانہ
اسلامی جمہوریہ ایران میں تجارتی ترقی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایران نے مختلف ملکوں کی طرف تجارتی اتاشی روانہ کئے ہیں ۔ ابو طالب بدری نے مھر نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ایران پہلی مرتبہ یورپی ملکوں کی طرف اپنے تجارتی اتاشی روانہ کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران نے افریقی ملکوں جیسے تیونس نائجیریا، کینیا اور بعض ایشیائي ملکوں کی طرف بھی تجارتی اتاشی روانہ کئے ہیں۔ ادھر ایران و عراق کے مشترکہ کامرس چیمبرس کے سکریٹری نے کہا ہے کہ جو کمپنیاں عراق کے لئے زیادہ سے زیادہ برآمدات بھیجیں گي انہیں انعام دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیاں تجارت میں فروغ لانے کےلئے عنقریب عالمی اجلاس کرایا جائے گا۔