Super User

Super User

اسلامی حکومتوں اور ملتوں کو بیدار ہوجانا چاہۓ

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے غزہ پٹی کی افسوسناک صورتحال سے متعلق ایران کے صدر اور حکومت کے بہت ہی مناسب مواقف کو سراہا ہے۔ صدر مملکت اور ان کی کابینہ نے کل رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی ۔ اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ پٹی کی افسوسناک صورتحال ، فلسطینی عوام خصوصا فلسطینی بچوں اور خواتین کے قتل عام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ غزہ کی صورتحال واقعی تکلیف دہ ہے اور صیہونی حکومت اسلامی دنیا کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر یہ مظالم روا رکھ رہی ہے۔ حضرت آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ غاصب صیہونیوں کے ہاتھوں غزہ کے لوگوں کے قتل عام کو دیکھ کر اسلامی حکومتوں اور ملتوں کو بیدار ہوجانا چاہۓ اور اپنے اختلافات ختم کرتے ہوئےآپس میں متحد ہوجانا چاہۓ۔

اسلامی حکومتوں اور ملتوں کو بیدار ہوجانا چاہۓ

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر غور و فکر کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت ، رمضان المبارک سے فائدہ اٹھانے اور اس مہینے کے اعمال بجالانے کو اللہ تعالی کے ساتھ رابطے اور اپنے نفس پر قابو پانے کے اہم ترین راستے قرار دیا۔ اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے حکومت کی کامیابیوں کو عوامی حمایت اور رہبر انقلاب اسلامی کی پشت پناہی کا مرہون منّت قرار دیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے صہیونی جارحیت کی مذمتپاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے غزہ پر غاصب صہیونی حکومت کے حملوں اور فلسطینیوں کو خاک و خون میں غلطاں کیئے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ ارنا کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے فلسطین کی سرزمین میں صہیونی حکومت کی جارحیت اور فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوانے کے لئے عالمی اداروں خاص طور سے اقوام متحدہ کے فوری اقدام کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر فلسطین کے عوام کے حقوق کے دفاع اور بیت المقدس کے دارالحکومت کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے اسلام آباد حکومت کے عزم و ارادے اور وعدے پر تاکید کی۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان فلسطین کے عوام کے دکھ درد اور غم میں برابر کا شریک ہے اور ہر مشکل گھڑی میں فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری، ایک سو ساٹھ شہیدغزہ پر اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں اتوار کی شام تک شہید ہونے والوں کی تعداد ایک سو ساٹھ ہوگئی جب کہ اب تک زخمی ہونے والوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرچکی ہے،اس کے علاوہ ہزاروں افراد بے گھر ہوچکے ہیں،تاہم اسرائیلی جارحیت رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ادھر فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ سے غزہ کی صورتحال پر فلسطین کو عالمی تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے ،فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ صدرمحمود عباس اقوام متحدہ سے فلسطین کو با ضابطہ طور پر عالمی تحفظ میں لینے اور فلسطین سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لیے فوری قانونی کمیٹی بنائے جانے کے لئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کو خط لکھیں گے جو اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر برائے مشرق وسطی رابرٹ سیری کو پیش کیا جائے گا، صدر محمود عباس فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کا انکوائری کمیشن بنانے کا بھی مطالبہ کریں گے۔

اسرائیل انسانیت کے لۓ بہت بڑا خطرہحزب اللہ لبنان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے غاصب اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینی استقامت کی حمایت پر تاکید کی ہے۔ لبنان کی العہد خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے آج غزہ پٹی پر صیہونی حکومت کے حملوں کو غزہ میں فلسطین کی ملت کےخلاف اس حکومت کے مظالم کے نئے مرحلے سے تعبیر کیا۔ شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا کہ اسرائیل، خواتین ، بچوں اور عام شہریوں کو قتل کر رہاہے اور ان کے گھروں کو منہدم کر رہا ہے۔ ان حملوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل انسانیت کے لۓ بہت بڑا خطرہ ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے اسرائيل کو بحرانوں اور جنگوں کا سبب قرار دیا اور کہا کہ ملت فلسطین پر اسرائیلی مظالم جاری ہیں لیکن عالمی اداروں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ شیخ نعیم قاسم نے زور دے کر کہا کہ فلسطینی استقامت بھی لبنان کی استقامت کی طرح اسرائيل کے ساتھ جنگ میں فتح حاصل کرسکتی ہے کیونکہ حق فلسطینی استقامت کے ساتھ ہے۔

حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی حیات طیبہ پر ایک نظر

حضرت امام حسن علیہ السلام امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بیٹے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے بطن مبارک سے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارہا فرمایا تھا کہ حسن و حسین میرے بیٹے ہیں اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام اپنے تمام بیٹوں سے فرمایا کرتے تھے: تم میرے بیٹے ہو اور حسن و حسین رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ہیں۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت ۳ھ کو مدینہ میں ہوئی ،آپ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت سے تین یا چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔

فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام انسانی کمالات میں اپنے والد گرامی کا کامل نمونہ اور اپنے نانا کی نشانی تھے۔ جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم با حیات رہے اپ اور آپ کے بھائی امام حسین علیہ السلام ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس رہتے تھے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عام و خاص نے بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں کہ آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے امام ہیں، خواہ وہ اٹھیں یا بیٹھیں۔

حضرت رسول خدا(ص) فرماتے تھے: "پروردگارا! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ" ۔ اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا: "حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

فرزند رسول امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے تمام لوگ بھی آپ سے بے انتھا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار اپنی تمام دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردی تھی۔ تین بار اپنی جائداد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لئے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نہایت شجاع اور بہادر بھی تھے۔ اپنے بابا امام علی علیہ السلام کے ساتھ جب آپ جنگ کرنے جاتے تھے تو فوج میں آگے آگے رہتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ نے صرف چہ مھینے حکومت کی تھی۔

آپ کا مزار اقدس، جنت البقیع میں تین دیگر اماموں کی قبروں کے ساتھ ہے۔

دنیا بھر میں صہیونی جارحیت کے خلاف مظاہرےانڈونیشیا کےعوام نے صہیونی حکومت کے خلاف غزہ میں مظاہرے کئے۔ الاقصی ٹی وی چینل کی رپورٹ کی مطابق انڈونیشیا کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے غزہ ميں فلسطینی عوام کے خلاف جاری وحشیانہ کاروائیوں اور پے در پے حملوں کے خلاف احتجاج کیا ۔ مظاہرین اپنے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے تھے ۔ وہ ایسے پرچم بھی اٹھائے ہوئے تھے کہ جن پر تحریر تھا "غزہ کو نجات دو" ۔ انڈونیشیا کی حکومت نے دس لاکھ ڈالر فلسطینی عوام کی مدد کے لئے مخصوص کئےہیں۔ دوسری جانب غزہ میں فلسطینی عوام پر جاری حملوں کے بعد جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے فلسطینی عوام کی حمایت کے لئے کمیٹیاں قائم کئے جانے اور ان کے لئے امداد جمع کرنے کا اقدام کیا ہے۔ ارنا کی رپورٹ کےمطابق ملیشیاء کے سابق وزیر اعظم اور امن فائونڈیشن "پردانا" کے سربراہ مہاتیر محمد نے آج اس ملک کے عوام سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کے مظلوم عوام کے لئے مدد بھیجيں خواہ و کم ہی کیوں نہ ہو۔ امن فاونڈیشن کے سربراہ نے انٹرنیٹ پر ایک اکاؤنٹ کا اعلان کرتے ہوئے فلسطینی عوام کی مدد کرنے کی اپیل کی ۔

ادھر ہزاروں یہودیوں نے امریکہ کے مختلف شہروں میں غزہ پر صہیونی حکومت کی جارحیت کی مذمت کی ۔ تسنیم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جی ٹی آئی نیوز ویب سائٹ نےکہ جو خود کو پوری دنیا ميں یہودیوں کا خبری ذریعہ متعارف کراتا ہے، رپورٹ میں کہا ہےکہ کل جمعے کو امریکہ کے پندرہ شہروں منجملہ بوسٹن ، نیویارک ، شیکاگو، لاس آنجلس ، فیلادلیفا ، سانسفرانسیکو ميں اسرائیل کے خلاف مظاہرے کئےگئے ۔ نیویارک سے موصولہ خبر کے مطابق مظاہرین نے صہیونی حکومت کی نسل پرستانہ اور فسطائی پالیسیوں کی مذمت کی اور وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کیا کہ اسرائیلی حکومت کی حمایت بند کرے ۔ مظاہرین کہ جن کے درمیان امریکی مسلمانوں ، یہودیوں اورعربوں کی تعداد موجود تھی، فلسطینی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور اسرائیل کی جارحیتوں کے فوری خاتمے کا مطالبہ کررہے تھے ۔ صہیونیت مخالف خاخاموں اور یہودیوں کا ایک گروہ بھی اپنے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم اور اسرائیل مخالف پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھا ۔ اس اجتماع میں امریکہ میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن "سارا فلانڈرز" نے صہیونی حکومت کی پالیسیوں کی امریکہ کی جانب سے حمایت کئے جانے پر کڑی نکتہ چینی کی اور مظاہرین کو خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آج فلسطین کا دن ہے اور پوری دنیا میں لوگ فلسطین کی حمایت کے لئے آمادہ ہيں اور نیویارک میں ہزاروں افراد نے فلسطین کی مدد کرنے اور اسرائیل کے لئے امریکی امداد کی مخالفت میں اجتماع کیاہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات

انسانی اخلاق سے مراد مکارم اخلاق ہے جن کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق – مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے (بحارالانوار ج 71 ص 420)

ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ علیکم بمکارم الاخلاق فان اللہ بعثنی بھا وان من مکارم الاخلاق ان یعفوا عمن ظلمہ و یعطی من حرمہ و یصل من قطعہ و ان یعودمن لایعودہ۔ یہ مکارم اخلاق میں سے ہے کہ انسان اس پر ظلم کرنے والے کو معاف کر دے ، اس کے ساتھ تعلقات و رشتہ برقرار کرے جس نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے ،اور اس کی طرف لوٹ کر جائے جس نے اسے چھوڑ دیا ہے (ہندی ج 3 طبرسی ج 10ص333)

مکارم اخلاق ،انسانی اخلاق اور حسن خلق میں کیا فرق ہے ؟ آئیے لغت کا سہارا لیتے ہیں ،

مکارم مکرمۃ کی جمع ہے اور مکرمہ کی اصل کرم ہے۔ کرم عام طورسے اس کام کو کہا جاتا ہے جسمیں عفو و درگذر اور عظمت و بزرگواری ہو یا بالفاظ دیگر وہ کام غیر معمولی ہوتا ہے چنانچہ اولیا ء اللہ کے غیر معمولی کاموں کو کرامت کہا جاتا ہے۔

راغب مفردات میں کہتے ہیں کہ کرم ان امور کو کہا جاتا ہے جو غیر معمولی اور با عظمت ہوں اور جو چیز شرافت و بزرگواری کی حامل ہو اسے کرم سے متصف کیا جاتا ہے۔ بنا بریں مکارم اخلاق محاسن اخلاق سے برتر و بالا ہیں۔ البتہ روایات میں ان دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ حسن خلق سے مراد وہ اچھے اخلاق ہیں جو حد اعتدال میں تربیت یافتہ لوگوں میں ہوتے ہیں۔ اسی امر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا الخلق الحسن لاینزع الا من ولد حیضۃ او ولد زنۃ۔ حسن خلق پاک و پاکیزہ انسان کا لازمہ ہے

ہے جو فطرت و خلقت کے لحاظ سے پاک پیدا ہوا ہے اور حیض یا زناسے پیدا ہونے والا ہی حسن خلق کا حامل نہیں ہوتا شاید اسی بنا پر روایات میں حسن خلق کے مراتب ذکر کئے گئے ہیں اور جس کا اخلاق جتنا اچھا ہو گا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا ، حدیث شریف میں ہے "اکمل المومنین ایمانا"احسنہم خلقا"اس مومن کا ایمان کامل تر ہے جس کا اخلاق بہتر ہے۔ (مجلس ص 389 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ایک اور ارشاد ہے کہ ان من احبکم الی احسنکم خلقا "تم میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا اخلاق زیادہ اچھا ہو۔

مکام اخلاق حد اعلائے حسن خلق کو کہتے ہیں اور اسے ہم کرامت نفس ، اخلاق کریمانہ بھی کہ سکتے ہیں۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہے "احسن الاخلاق ما حملک علی المکارم"سب سے اچھے اخلاق وہ ہیں جو تمہیں مکارم اخلاق کی منزل تک لے جائیں۔ (غررالحکم ج 2 ص 462) مثال کے طور پر اچھے اخلاق میں ایک یہ ہے کہ انسان دوسروں کے حق میں نیکی اور احسان کرے اس کے بھی مرتبے ہیں۔

بعض اوقات کوئی کسی کے حق میں نیکی کرتا ہے جس کے حق میں نیکی کی گئی ہے اس کا انسانی ، اسلامی اور عرفی فریضہ ہے کہ وہ احسان کے بدلے احسان کرے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں کہتا ہے۔ ھل جزاء الاحسان الاحسان (الرحمن 60)کیا احسان کی جزاء احسان کے علاوہ کچھ اور ہو گی؟

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ، ہشام ابن حکم سے اپنے وصیت نامے میں فرماتے ہیں یا ہشام قول اللہ عزوجل ھل جزا ء الاحسان الا الاحسان جرت فی المومن والکافر و البر والفاجر۔ من صنع ا لیہ معرف فعلیہ ان یکافی بہ ولیست المکافاۃ ان تصنع کما صنع حتی تری فضلک فان صنعت کما صنع فلہ الفضل بالابتداء۔

اے ہشام خدا کا یہ فرمان کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہے ؟ اس میں مومن و کافر ، نیک اور بدسب مساوی ہیں۔ (یعنی یہ تمام انسانوں کے لئے ضروری ہے ) جس کے حق میں نیکی کی جاتی ہے اسے اس کا بدلہ دینا چاہئے اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہی نیک کام انجام دیدیا جائے کیونکہ اس میں کوئی فضل و برتری نہیں ہے اور اگر تم نے اسی کی طرح عمل کیا تو اس کو تم پر نیک کام کا آغاز کرنے کی وجہ سے برتری حاصل ہو گی۔

یہ وصیت نامہ علی بن شعبہ نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نیکی کے بدلے میں نیکی نہیں کرتا بلکہ اپنے اخلاقی اور انسانی فریضے کے مطابق اپنے بنی نوع کے کام آتا ہے اسکی مشکل دور کر دیتا ہے ، اسکی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔ دراصل ہر انسان اپنے بنی نوع کے لئے ہمدردی اور محبت کے جذبات رکھتا ہے۔

بقول سعدی

بنی آدم اعضای یکدیگرند۔

کہ درآفرینش زیک گوہرند۔

جو عضوی بہ درد آورد روزگار۔

دگر عضوھارا نماند قرار۔

 

اس سے بڑھ کر مکرمت اخلاقی اور کرامت نفس کا مرحلہ ہے۔ جسے ہم مکارم اخلاق کہتے ہیں۔ اسکی مثال اذیت و آزار کے بدلے میں نیکی کرنا ہے جبکہ وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن برائی کے بجائے نیکی اور احسان کرتا ہے یعنی نہ صرف انتقام اور بدلہ نہیں لیتا بلکہ بدی کرنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور نیکی سے جواب دیتا ہے قرآن کریم کے مطابق۔ ادفع بالتی ہی احسن السئیۃ ( مومنون 96) اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعے رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں۔

بقول شاعر۔

بدی رابدی سھل باشد جزا

اگر مردی احسن الی من اساء

 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ العفو تاج المکارم۔ عفوو درگزشت مکارم اخلاق میں سب سے اعلی ہے۔ (عزرالحکم ج 1 ص 140)

یہ آیات کریمہ ہماری بیان کر دہ باتوں کا ثبوت ہیں اور ان میں اخلاق کریمانہ کی پاداش بھی بیان کی گئی ہے "والذین اذا اصابھم البغی ہم ینتصرون۔ وجزاء السیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ انہ لایحب الظالمین۔ ولمن انتصر بعد طلبہ فاولئک ماعلیھم من بیل۔ ولمن صبر و غفر ان ذالک من عزم الامور۔(شوری 39-43)

"اور جب ان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کا بدلہ لے لیتے ہیں اور ہر برائی کا بدلہ اس کے جیسا ہوتا ہے پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کر دے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ یقیناً ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ اور جو شخص ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلاتے ہیں انہیں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اور یقیناً جو صبر کرے اور معاف کر دے تو اس کا یہ عمل بڑے حوصلے کا کام ہے۔

اس آیت سے چند امور واضح ہوتے ہیں۔

1۔ ستم رسیدہ کو انتقام لینے کا حق ہے کیونکہ بدی کا بدلہ عام طور سے بدی ہے۔

2۔ لیکن اگر معاف کر دے اور اسکے بعد اصلاح کرے (یعنی برائی اور ظلم و ستم کے آثار کو ظاہرا اور باطنا مٹا دے ) تواس کا اجر خدا پر ہو گا(اسکی کوئی حد نہیں ہو گی)

3۔ اگرستم رسیدہ انتقام لینا چاہے اور بدلہ لے توکسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر صبر کرے اور عفو و درگزر سے کام لے تو اس نے نہایت حوصلے کا کام کیا ہے۔

آیت اللہ شہید مطہری نے اپنی کتاب فلسفہ اخلاق میں "فعل فطری اور فعل اخلاقی"کی بحث میں مکارم اخلاق کے سلسلے میں دلچسپ تحقیقات پیش کی ہیں اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم اخلاق کے بعض جملے نقل کئے ہیں۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں اللھم صلی علی محمد وآل محمد وسددنی لان اعارض من غشنی بالنصح و اجزی من ھجرنی بالبر و اثیب من حرمنی بالبذل واکافی من قطعنی بالصلۃ و اخالف من اغتابنی الی حسن الذکر و ان اشکرالحسنۃ او اغضی عن السیئۃ۔ اے پروردگار محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما ا ور مجھے توفیق دے کہ جو مجھ سے غش و فریب کرے میں اس کی خیر خواہی کروں ،جو مجھے چھوڑ دے اس سے حسن سلوک سے پیش آؤں جو مجھے محروم کرے اسے صلہ رحمی کے ساتھ بدلہ دوں اور پس پشت میری برائی کرے میں اس کے برخلاف اس کا ذکر خیر کروں اور حسن سلوک پر شکریہ ادا کروں اور بدی سے چشم پوشی کروں۔

اس کے بعد شہید مطہری عارف نامدار خواجہ عبداللہ انصاری کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا کام ہے ، نیکی کا جواب نیکی سے دینا گدھوں کا کام ہے اور بدی کا جواب نیکی سے دینا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔

واضح رہے اس سلسلے میں بے شمار حدیثیں وارد ہوئی ہیں یہاں پر ہم ایک حدیث نقل کر رہے ہیں جو مرحوم کلینی نے ابوحمزہ ثمالی کے واسطے سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ثلاث من مکارم الدینا والآخرۃ، تعفوا عمن ظلمک و تصل من قطعک و تحلم اذا جھل علیک۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین چیزیں دنیا و آخرت میں اچھی صفات میں شمار ہوتی ہیں (انسان کو ان سے دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچتا ہے )وہ یہ ہیں کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو،اور جو تمہیں محروم کرے اس سے صلہ رحم کرو اور جو تمہارے ساتھ نادانی کرے اس کے ساتھ صبر سے کام لو۔

کلینی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایک خطبے میں فرمایا الا اخبرکم بخیر خلائق الدنیا و الآخرہ العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک و الاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں دنیا و آخرت کے بہترین اخلاق سے آگاہ نہ کروں ؟ اسے معاف کر دینا جوتم پر ظلم کرے۔ اس سے ملنا جو تمہیں چھوڑ دے اس پر احسان کرنا جس نے تمہارے ساتھ برائی کی ہو۔ اسے نوازنا جس نے تمہیں محروم کر دیا ہو۔ ان ہی الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک اور روایت نقل ہوئی۔

یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مکارم اخلاق بیان کرنا کسی انسان کا کام نہیں کیونکہ آپ کے بارے میں خداوند قدوس فرماتا ہے کہ انک لعلی خلق عظیم۔ (اصول کافی باب حسن الخلق) قلم آپ کے فضائل و کرامات بیان کرنے سے عاجز ہے۔ جو امور ذیل میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ آپ کے محاسن و مکارم اخلاق کے سمندر کا ایک قطرہ بھی نہیں ہیں۔

مرحوم محدث قمی کا کہنا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں سمونے یا آفتاب کو روزن دیوار سے گھر میں اتارنے کے مترادف ہے لیکن بقول شاعر

آب دریا را اگر نتواں کشید

ہم بقدرتشنگی باید چشید

ماخوذ : رسول الله کے اخلاق حسنه كي كتاب

جمع و ترتيب : عبيد

فلسطینی عوام، استعمار کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں: آیت اللہ جنتیتہران کی مرکزی نماز جمعہ کے خطیب آیت اللہ احمد جنتی نے عراق میں دہشتگرد گروہوں کے مظالم اور مظلوم فلسطینیوں پر صیہونی حکومت کے حملوں کے سلسلے میں عالمی برادری کی خاموشی پر تنقید کی ہے۔ تہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ احمد جنتی کی امامت میں ادا کی گئی۔ آیت اللہ احمد جنتی نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ، برطانیہ اور صیہونی حکومت کو خطے کی ایک منحوس مثلث قرار دیا اور کہا کہ ایسی صورتحال میں بھی عالمی برادری نے فلسطین اورعراق کے عوام کی افسوسناک صورتحال پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ آیت اللہ احمد جنتی نے غزہ پٹی کے بے گناہ فلسطینیوں پر صیہونی حکومت کی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اسرائیل اور امریکہ کی سازشوں کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنی استقامت کی وجہ سے فلسطینی سرزمین میں دشمنوں کے مذموم مقاصد کے حصول کے سدراہ ہوں گے۔ آیت اللہ جنتی نے خطے کے بعض ممالک کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہاکہ ان حکومتوں کے پٹھو حکام امریکی حمایت کی وجہ سے صیہونی حکومت کی جارحانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتے ہیں۔

پاکستانی صدر نے تحفظ پاکستان بل پر دستخط کردیئےپاکستان کے صدر ممنون حسین نے تحفظ پاکستان بل 2014 پر دستخط کردیئے۔ موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اتفاق رائے سے منظور ہونے والے تحفظ پاکستان بل پر صدر ممنون حسین نے بھی دستخط کر دیئے جس کے بعد تحفظ پاکستان بل تحفظ پاکستان ایکٹ 2014 بن گیا جس کا اطلاق آئندہ 2 سال کے لئے اور فوری نافذ العمل ہوگا۔ تحفظ پاکستان ایکٹ کے اطلاق کے بعد سیکیورٹی فورسز کو وسیع اختیارات حاصل ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے نفاذ کے بعد سیکیورٹی فورسز کو وارنٹ کے بغیر ملزمان کو گرفتار کرنے کا اختیار ہوگا جبکہ ملزمان کو 90 روز تک حراست میں رکھا جاسکے گا۔

Thursday, 10 July 2014 05:48

مسجد خمیس – بحرین

مسجد خمیس – بحرین

مسجد خمیس (عربی میں مسجد الخمیس)، بحرین کی ایک تاریخی مسجد کا نام ہے ، جو بحرین کی دیکھنے کے قابل عمارتوں میں شمار ھوتی ہے۔ یہ مسجد بحرین کے شمالی صوبہ میں واقع ہے۔

مسجد خمیس – بحرین

اس مسجد کا نام " مسجد خمیس" رکھنے کی علت یہ ہے کہ " علاقہ خمیس" سے اس کی نسبت دی گئی ہے اور اس کو اسی علاقہ میں تعمیر کیا گیا ہے۔ مسجد خمیس بحرین کے قدیمی علاقہ " اطمیس" میں سترہ اور رفاع کے درمیان واقع ہے۔

مسجد خمیس – بحرین

مسجد خمیس کے مینار

مسجد خمیس کے دو مینار ہیں۔ اس کے مغربی مینار پر خط کوفی میں ایک عبارت پتھر پر کندہ کاری کی گئی ہے اور یہ مینار مسجد کے صدر دروازے پر واقع ہے۔ اس عبارت سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ مینار گیارہویں صدی عیسوی کے دوسرے حصہ میں قبیلہ العوینیین کے تیسرے حکمران سنان محمد بن الفضل عبداللہ نامی شخص کے توسط سے تعمیر کیا گیا ہے ۔ لیکن اس مسجد کا دوسرا مینار سولھویں صدی عیسوی میں اضافہ کیا گیا ہے۔

مسجد خمیس – بحرین

مسجد خمیس دلکش صورت میں اسلامی معماری کے اصولوں کے تحت تعمیر کی گئی ہے۔ اس کے باقی بچے آثار میں اس کے ستون، اندرونی اور بیرونی رواق ہیں جو گچ کاری کے فن سے مزین کئے گئے ہیں۔ اس مسجد کے مغربی حصہ میں ایک دینی مدرسہ ہے جس میں علمائے دین بچوں کو فقہ، حدیث، نحو، دینی اوردنیوی مسائل کی تعلیم دیتے ہیں۔

مسجد خمیس – بحرین

" مسجد خمیس" مملکت بحرین کی ایک مشہور تاریخی اور قدیمی اسلامی عمارت ہے۔ یہ مسجد علاقہ خلیج فارس کی قدیمی ترین مسجد شمار ھوتی ہے۔ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے ہر سال بہت سے سیاح آتے ہیں۔

طے پایا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر نو کی جائے گی۔ بحرین کی وزارت ثقافت نے اعلان کیا ہے کہ: " اس وزارت نے مسجد خمیس کی تعمیر اور اسے وسعت بخشنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس مسجد کو اپنا تاریخی مقام ملے۔"

اس کے علاوہ طے پایا ہے کہ مسجد کی تاریخ کے بارے میں اطلاعات پر مشتمل ایک مرکذ بھی قائم کیا جائے گا اور اس مسجد کو خوبصورت بنانے کے سلسلے میں اس کی تعمیر نو کی جائے گی تاکہ یہ مسجد بحرین کی ایک مشہور اور اہم تاریخی عمارت میں تبدیل ھو جائے۔