Super User

Super User

پاکستانی فوج کا دفاعی بجٹ بڑھانے کا مطالبہپاکستان کی وزارتِ دفاع نے مطالبہ کیا ہے کہ اگلے بجٹ میں فوج کے لیے مختص کیے جانے والے حصے میں اضافے کیا جائے۔ پاکستانی اخبار ڈان کی ویب سائٹ کے مطابق سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے زیرِ اہتمام پیر کے روز دفاعی بجٹ پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری برائے وزارتِ دفاع ایئر وائس مارشل ارشد قدوس نے بتایا کہ ’’نئے ہتھیاروں کے نظام کو متحرک کرنے کے لیے مزید فنڈز کا حصول ضروری ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے بجٹ میں فراہم کی جانے والی رقم سے صرف فوجیوں کی تنخواہوں اور آپریشنل اور دیکھ بھال کے اخراجات کا ہی احاطہ کیا جاسکا تھا۔ ایڈیشنل سیکریٹری نے کہا کہ ختم ہونے والے مالی سال کے لیے مختص دفاعی بجٹ کا تقریباً 43 فیصد حصہ ملازمین سے متعلق اخراجات پر صرف کیا گیا، 26 فیصد آپریشنز پر اور دس فیصد سول ورکس پر خرچ ہوا۔ باقی اکیس فیصد حصہ سروسنگ اور سازوسامان کی دیکھ بھال پر خرچ کیا گیا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا اعلان اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں کیا جائے گا۔ توقع ہے کہ حکومت بڑھتی ہوئی دفاعی ضروریات کے پیش نظر فوج کے لیے مختص حصے میں اضافہ کردے گی۔ ایئر وائس مارشل قدوس نے پاکستان کے دفاعی اخراجات کا خطے کے دیگر ممالک خصوصاً ہندوستان سے مقابلہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے سال کا ملکی دفاعی بجٹ 6.27 ارب ڈالرز تھا، جبکہ ہندوستان نے 37 ارب ڈالرز اپنی مسلح افواج پر خرچ کیے تھے۔

 

میشل عون: میں سید حسن نصر اللہ پر یقین کامل رکھتا ہوں

لبنان میں تبدیلی اور اصلاحات بلاک کے سربراہ میشل عون نے الاخبار روزنامے سے گفتگو میں کہا کہ میں لبنان کی صدارت کی کرسی کو قبول کرنے اور اسرائیل کے علاوہ دیگر تمام ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہوں۔

انہوں نے کہا: میں لبنان کو بیرونی ممالک کا کھلونا نہیں بننے دوں گا۔ میشل عون نے یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ میں سید حسن نصر اللہ پر مکمل یقین رکھتا ہوں کہا: میں المستقبل تحریک کے چیئرمین سعد حریری سے قریبی روابط رکھتا ہوں۔

اسی دوران کویتی اخبار نے لکھا ہے: ایسے حال میں کہ لبنان کے صدر جمہوریہ میشل سلیمان کی مدت آیندہ اتوار کو ختم ہو رہی ہے اور ادھر سے ایران اور سعودی عرب کے روابط میں بھی بہتری آ رہی ہے لبنان میں صدر جمہوریہ کی کرسی کے لیے میشل عون کے چانس بہت زیادہ ہیں۔

ادھر لبنان کے صدر نے اپنی مدت صدارت میں ایک سال کی توسیع پر مبنی افواہوں کو مسترد کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لبنان کے صدر میشل سلیمان نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی مدت صدارت 25 مئی 2014 کو ختم ہو رہی ہے اور وہ خود اپنے منصب کی توسیع کے خواہاں نہیں ہیں۔

توہین اہلبیت (ع) پر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاریپاکستان میں جیو انٹرٹینمنٹ چینل کے مارننگ شو ’’اٹھو جاگو پاکستان‘‘ میں منقبت اہل بیت کے دوران توہین آمیز حرکات پرعوام کے احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ کراچی میں سنی تحریک کی جانب سے توہین اہل بیت پر جیو کے خلاف ایم اے جناح روڈ پر احتجاجی ریلی نکالی گئی اس کے علاوہ مختلف مذہبی اور سماجی جماعتوں کی جانب سے بھی احتجاج کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیو ٹی وی نے سیاسی اور عسکری قیادت پر کیچڑ اچھالنے کے بعد عوام کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا شروع کردیا ہے جو کسی بھی طور پر قابل برداشت نہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور متعلقہ حکام جیو ٹی وی چینل کے خلاف کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ حیدر آباد، سکھر، لاڑکانہ، میر پور خاص، بدین، ڈگری ، ٹندو الہیار، نوابشاہ اور دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔ لاہور سمیت پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں جیو کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ داتا کی نگری میں مختلف مذہبی جماعتوں کی جانب سے نکالی گئی ریلیوں اور مظاہروں میں بڑی تعداد میں لوگوں نےشرکت کی۔

مسجد جامع زنجان – ايران

مسجد و مدرسہ جامع زنجان ، جو “ مسجد سید” کے نام سے مشہور ہے، تیرھویں صدی ہجری قمری ﴿ ١۲۴۲ ھ ق﴾ میں، قاچار بادشاہ کی حکمرانی میں، فتح علی شاہ کے ،عبداللہ میرزا دارا نامی ایک بیٹے کے ، توسط سے تعمیر کی گئی ہے۔ یہ مسجد، شہر کے قدیمی علاقہ میں رسائی کے لحاظ سے ایک مناسب جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کے مغرب میں بازار قیصریہ ، مشرق میں کوچہ مسجد سید، شمال میں خیابان امام خمینی﴿رہ﴾ اور سبزہ میدان واقع ہے۔ اس مسجد کو اس کے بانی کی زندگی میں، مسجد دارا، مسجد سید، مسجد سلطانی اور مسجد جمعہ بھی کہا جاتا تھا۔

یہ تاریخی عمارت زنجان کی سب سے بڑی اور خوبصورت ترین اور قیمتی ترین عمارتوں میں شمار ھوتی ہے اور اسے “ چہار ایوان” کے نقشہ کے تحت تعمیر کیا گیا ہے۔

مسجد جامع زنجان – ايران

اس مسجد کے چار ایوان اس کے چار ضلعوں میں ایسے واقع ہیں کہ انھیں مسجد کے صحن سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے، اس مسجد کا صحن دوسری چار ایوانوں والی مساجد کے مانند مربع مستطیل شکل کا ہے اور اس کی لمبائی ۴۸ میٹر اور چوڑائی ۳٦ میٹر یے۔

مسجد جامع زنجان – ايران

مسجد کے مشرقی اور مغربی ایوانوں میں طلاب دینی کی رہائش کے لئے ایک دوسرے سے ملے ھوئے ١٦ کمرے اور شمالی ایوانوں میں ٦ کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔

مسجد جامع زنجان – ايران

مسجد کے شمالی اور جنوبی ایوانوں کو سات رنگ والی ٹائیلوں سے دورہ قاچار کے آرٹ کی صورت میں مزین کیا گیا ہے، ان میں سیاہ اور زرد رنگ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اس کا ایک گنبد والا شبستان ہے جس کی لمبائی ۵۰ﺍ۸ میٹر ار چوڑائی ۹۰ﺍ۷ میٹر ہے، اور یہ شبستان، ایوان جنوب کے پیچھے واقع ہے۔ اور یہ مغرب و مشرق کی طرف دو طرفہ شبستان سے متصل ہے اور شمال کی طرف جنوبی ایوان سے متصل ہے۔ اس شبستان پر ایک عظیم گنبد ہے جس کی ضخامت ۳۰ﺍ۳۰ میٹر ہے۔ اس مسجد کا گنبد فیروزی ٹائیلوں سے مزین کیا گیا ہے۔ یہ گنبد گوشواروں کے بغیر چار ستونوں پر قرار پایا ہے۔ اس گنبد پر سورہ مبارکہ الدھر خط ثلث میں لکھا گیا ہے جس نے اس کی زیبائی کو چار چاند لگائے ہیں۔ اس گنبد کی نوک پر گول شکل میں پیتل کی ایک نشانی لگی ھوئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے برصغیر ہند میں طلباء کی اسلامی انجمنوں کی یونینوں کے تیسویں سالانہ اجلاس کے نام پیغام میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فکر و سوچ، علم و دانش اور دینداری اور پاکدامنی مستقبل میں طلباء اور جوانوں کی نقش آفرینی کی ضمانت کے سب سے اہم اور اصلی ترین عناصر ہیں۔

اس پیغام کے متن ہندوستان میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے نمائندے حجۃ الاسلام والمسلمین مہدوی پور نے ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں کلچرل ہاؤس کے کانفرنس ہال میں پیش کیا۔

 

رہبر معظم کا برصغیر ہند میں طلباء یونین کے سالانہ اجلاس کے نام پیغامبسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز طلباء اور جوانو

ملک کے آئندہ افق پر امید افزا نگاہ ہمیشہ آپ پر امید افزا نگاہ کے ہمراہ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور جڑی ہوئی ہیں۔ آپ ایرانی قوم کی نئی کلیاں اور اس کا عظيم سرمایہ ہیں؛ اپنے مقام ، منزلت اور نقش کو اچھی طرح پہچانیں اور مستقبل میں اپنے نقش کو سنجیدگي اور گارنٹی کے ساتھ یقینی بنائیں۔ فکر و سوچ، علم و دانش ، دینداری اور پاکدامنی مستقبل میں طلباء اور جوانوں کی نقش آفرینی کی ضمانت کے سب سے اہم اور اصلی ترین عناصر ہیں۔

آپ کو سلام اور آپ کے لئے دعا کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای

25/ اردیبہشت /1393

 

 

رہبر معظم کا قومی کشتی ٹیم کی کامیابی پر مبارکباد کا پیغام

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تہران میں منعقد ہونے والے کشتی کے عالمی مقابلوں میں ایران کی قومی کشتی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کامیابی پراپنے ایک پیغام میں شکریہ اور مبارکباد پیش کی ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذيل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قوم کا دل شاد اور مسرور کرنے پر کشتی کے کامیاب اور ظفرمند کھلاڑیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

سید علی خامنہ ای

26 اردیبہشت 1393

پرامن ایٹمی انرجی ملت ایران کا حق۔ آیۃ اللہ صدیقیتہران کی مرکزی نماز جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی کی امامت میں ادا کی گئی۔ خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب میں کہا کہ پرامن ایٹمی انرجی ملت ایران کا حق ہے۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے نئے دور کے مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پرامن ایٹمی انرجی ملت ایران کا قومی مسئلہ اور بڑی طاقتوں کے مقابل ڈیٹرینٹ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ انہوں نے اس دور کے ایٹمی مذاکرات کونہایت حساس قراردیتے ہوئے کہا کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیاں حتمی معاہدہ نہایت متوازن ہونا چاہیے اور ایسے موقع پر اس پر دستخط کئےجانے چاہیں جب ایران پر سے تمام پابندیاں ہٹادی گئي ہوں۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ ایران کا کوئي بھی ایٹمی مرکز بند نہیں ہوگا کیونکہ ملت ایران نے ان کامیابیوں کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ایٹمی سائنسداں ایٹمی تحقیقات کے راستے پر گامزن رہتے ہوئے اس شعبے کو مزید توسیع دیتے رہیں گے۔ آیت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ کسی کویہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ ایٹمی معاملے کا سودا کرے۔ انہوں نے کہا کہ این پی ٹی معاہدے کے مطابق تمام ملکوں کو پرامن ایٹمی انرجی سے استفادہ کرنے کا حق حاصل ہے اور کسی بھی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں رہنے چاہیں۔ خطیب جمعہ تہران نے رہبرانقلاب اسلامی کے بیانات نقل کرتے ہوئے کہا کہ ایران مذاکرات کا مخالف نہیں ہے بلکہ سفارتی سرگرمیاں ضروری ہیں اور ذہین اور ٹھوس ارادے کے حامل افراد مذاکرات کرنا چاہیے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ ایٹمی مذاکرات میں ملک کی ریڈ لائينوں کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔

رہبر معظم سے حضرت علی (ع) کی ولادت کی مناسبت سے صوبہ ایلام کے عوام کی ملاقات

تیرہ رجب مولی الموحدین ، امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے عوام کے مختلف طبقات بالخصوص صوبہ ایلام کے ہزاروں افراد نے آج حسینیہ امام خمینی (رہ) میں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای کے ساتھ ملاقات کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور حضرت علی (ع) کے بعض ناقابل احصاء فضائل کی طرف اشارہ کیا، اور حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے دور کی چار اہم اور نمایاں فصلوں منجملہ حکومت کے دوران مادی پیشرفت کے ہمراہ عوام کے لئے حقیقی سعادت کے مواقع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: معاشرے کی حقیقی سعادت کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے دروس میں ایک درس عوام کی معیشت اور اقتصادی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں تلاش و کوشش پر مبنی ہے اور موجودہ شرائط میں صحیح منصوبہ بندی،بیشمار اندرونی ظرفیتوں اور ملکی جوانوں کی صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس ہدف تک پہنچنا ممکن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: ایسے شرائط میں ملک مادی،روحی،اخلاقی، بین الاقوامی اعتبار، عزت اور قومی خود اعتمادی میں پیشرفت حاصل کرے گآ اور بیرونی دشمنوں کے فخر و احسان سے آزاد ہوجائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو حضرت علی علیہ السلام کے قابل درک فضائل کی چار قسموں " معنوی مقامات " " مجاہدت و فداکاری" " انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سلوک" اور حکومت کے دوران " عوام کے لئے حضرت کے ہدف " کی تقسیم بندی سے آغاز کیا اور امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے معنوی مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت علی علیہ السلام کے معنوی مقامات ، توحید، عبادت ، اللہ تعالی سے تقرب اور اخلاص کے مقام کی طرح گہرے اور عمیق سمندر کی طرح ہیں جس کے بہت سے پہلو ناشناختہ ہیں علماء اور بزرگ انسانوں نے بھی ان کی شناخت سے عجز و ناتوانی کا اظہار کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلام کے آغاز سے ہی حضرت علی علیہ السلام کی مجاہدتوں اور فداکاریوں ، مکہ میں موجودگی،ہجرت، مدینہ منورہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حکومت، پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے بعد اور پھر خلافت قبول کرنے کے ادوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت علی علیہ السلام ان تمام ادوار میں مجاہدت اور فداکاری کی عظیم اور بلند چوٹیوں پر فائز تھے اور تمام افراد ان کی اس فداکاری پر حیرت اور تعجب کرتے تھے۔

رہبر معظم سے حضرت علی (ع) کی ولادت کی مناسبت سے صوبہ ایلام کے عوام کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت علی علیہ السلام کے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سلوک کو ان کی زندگی کا ایک بے مثال پہلو قراردیتے ہوئے فرمایا: حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام جب ایک بڑے وسیع اور مالدار ملک کے حاکم تھے تو وہ ایک معمولی گھر میں ایک غریب آدمی کی طرح رہتے اور عدل و انصاف کے قیام اور اللہ تعالی کے حکم کے نفاذ کی تلاش و کوشش کرتے اور بزرگ اور نمایاں کام انجام دیتےتھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کے دوران عوام کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے اعلی ہدف کو حضرت (ع) کی زندگی کی چوتھی فصل قراردیتے ہوئے فرمایا: امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام عوام کو بہشت کی طرف ہدایت کرنے اورفکری، روحی اور قلبی میدانوں نیز عوام کی سماجی زندگی میں نقش آفرینی کو اعلی اہداف بیان کرتے ہیں جو بہت ہی اہم مسئلہ ہے اور اسلامی حاکم کے اضلی وظائف میں شامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض ایسے موضوعات جو عوام کو بہشت کی طرف ہدایت کرنے کے سلسلے میں حکومتی ذمہ داری پر سوالیہ نشان بنتے ہیں ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حاکم اسلامی کی اصلی ذمہ داری عوام کو حقیقی سعادت تک پہنچانا ہے۔ لیکن اس کا مطلب طاقت اور زور کا استعمال کرنا نہیں بلکہ سعادت کی طرف انسانی فطرت کے رجحان کے پیش نظر ان اعلی اہداف تک پہنچنے کے سلسلے میں ہدایت اور راہنمائی کی سہولیات کو فراہم کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر اسلامی معاشرہ، مادی،علمی و صنعتی ترقیات ، سماجی روابط،عزت و قومی شرف اور بین الاقوامی لحاظ سے اپنے عروج پر پہنچ جائے لیکن موت اور دوسری دنیا میں وارد ہونے کے موقع پر انسانوں کی صورتیں سیاہ ہو جائیں تو پھر سماج و معاشرہ حقیقی سعادت تک نہیں پہنچ سکا ہے۔

رہبر معظم انقلاب سلامی حقیقی سعادت تک عوام کو پہنچانے کے راستوں میں ایک راستہ عوام کی معاشی صورت حال کی بہتری اور فقر و بے روزگاری کے خاتمہ اور تبعیض اور طبقاتی فاصلہ کو ختم کرنے کا راستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اج الحمد للہ حکام عوام کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں لیکن فکروں کو منسجم کرنا اور راستہ کو درست تشخيص دینا بہت ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پائدار معیشت کلی پالیسیوں کے نفاذ، اور اندرونی صلاحیتوں اور توانائيوں پر اعتماد کو معاشی مشکلات کے حل کی صحیح راہ قراردیتے ہوئے فرمایا: جہاں بھی ہم نے ملک کے باصلاحیت ، خلاق ،مؤمن اور مخلص جوانوں پر اعتماد کیا اور ان کی قدر و قیمت کو پہچنا تو وہاں پیشرفت و ترقی کے ابلتے ہوئے چشمے ظاہر ہوگئے اور ایٹمی پیشرفت، دواؤں کے شعبہ میں پیشرفت ،خلیات، نینو ٹیکنالوجی اور صنعتی دفاعی منصوبے اس حقیقت کا عینی گواہ ہے۔

رہبر معظم سے حضرت علی (ع) کی ولادت کی مناسبت سے صوبہ ایلام کے عوام کی ملاقات

حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے فرمایا: ان حقائق اور شواہد کے پیش نظر ہم حضرت امام خمینی (رہ) کے اس جملے کو درک کرسکتے ہیں جس میں انھوں نے فرمایا: " امریکہ کوئی بھی غلطی نہیں کرسکتا ہے۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر ہم اندرونی ظرفیتوں کو فعال کریں اور اپنی داخلی توانائی اور طاقت پر متمرکز ہوجائیں تو پھر امریکہ اور دوسری طاقتیں ایران کے خلاف فوجی اور غیر فوجی شعبہ میں کسی بھی غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتیں اور نہ ہی وہ دباؤ کے ذریعہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عالمی طاقتیں جان لیں کہ وہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کرسکتی ہیں کیونکہ ایرانی قوم زندہ قوم ہے اور ایرانی جوان اس وقت صحیح راستے پر حرکت کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے جوانوں کے بارے میں بعض محدود اور غیر حقیقی نظریات اوربعض جوانوں میں موجود چند خرابیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم اور جوانوں کا عام معیار دینی معیار ہے اور انکا اسلام، قرآن اور معنویت کے ساتھ گہرا لگاؤ ہے اور وہ وطن دوست ہیں اور اس بات کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمارے ملک کے جوان اچھے جوان ہیں اور ہمیں تلاش و کوشش کرنی چاہیے تاکہ یہ جوان اچھے رہیں اور آگے کی سمت صحیح راستے پر گامزن رہیں اور ملک کے مستقبل کے لئے مفید واقع ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں انقلاب اسلامی کے مختلف مراحل منجملہ دفاع مقدس میں صوبہ ایلام کے عوام، علماء اور ممتاز شخصیات کی استقامت اور مایہ ناز خلاقیت کی تعریف اور تجلیل کی۔

اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل صوبہ ایلام میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایلام کے امام جمعہ جناب حجۃ الاسلام والمسلمین لطفی نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: صوبہ ایلام کے عوام نےشجاعت اور غیرت کے ساتھ انقلاب اسلامی اور دفاع مقدس کے دور میں اسلامی نظام کے ساتھ رہ کر مایہ ناز نقش ایفا کیا۔

ایلام کے امام جمعہ نے دفاع مقدس کے دوران میمک فوجی کارروائیوں میں ایلامی جوانوں کے اہم اور قابل فخر نقش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایلامی جوانوں کی اس کامیاب کارروائی کے نتیجہ میں اسلامی سپاہ کے حوصلے بلند ہوگئے اور اس کامیابی کے بعد کی فتوحات میں نمایاں اثرات رہے۔

ایلام کے امام جمعہ نے صوبہ میں تیل، گيس اور زراعت کی عظيم ظرفیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اگر قومی عزم اور جہادی مدیرت کے ہمراہ اقتصاد اور ثقافت کے سال میں صوبہ کی اقتصادی ظرفیتوں سے بھر پور استفادہ کیا جائے تو صوبہ ایلام ملک کے اقتصادی اور معاشی قطب میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

رہبر معظم سے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے ہمراہ وفد کی ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے ہمراہ وفد کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے وسیع ثقافتی اور دینی مشترکات کو ایران اور پاکستان کی دو قوموں کے درمیان اچھے، صمیمی اور دوستانہ روابط کے اہم عوامل میں قراردیا اور اقتصادی شعبہ میں باہمی روابط کے فروغ کی سطح کم ہونے پر گلہ و شکوہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ایسے عوامل و عناصر سرگرم ہیں جو مختلف طریقوں منجملہ مشترک طولانی سرحد پر بدامنی پھیلا کر پاکستان اور ایران کی دونوں دوست اور برادر قوموں اور حکومتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی تلاش و کوشش کررہے ہیں ، لیکن دونوں ممالک کے درمیان باہمی روابط کے فروغ کے سلسلے میں موجود عظیم فرصت کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات کے زیادہ سے زیادہ فروغ اور بڑے اقتصادی منصوبوں منجملہ گيس پائپ لائن منصوبے کے فعال ہونے پر تاکید کی اور پاکستان کے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: آپ کی حکومت کے دور میں مختلف شعبوں میں دونوں ممالک کے باہمی روابط میں اچھے تحرک کی امید اور توقع رکھتا ہوں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے باہمی روابط کے فروغ میں کسی کی اجازت کا انتظار نہ کرنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کی خباثت تو سب پر واضح اور نمایاں ہے جو دونوں ممالک کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہے لیکن امریکہ کے علاوہ بھی بعض حکومتیں ہیں جو اس سلسلے میں فعال اور سرگرم ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ مہینوں میں ایران اور پاکستان کی سرحد پر بدامنی پھیلانے کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض عناصر جان بوجھ کر دونوں ممالک کی طولانی سرحد پربد امنی پھیلانا چاہتےہیں اور ہم یقین نہیں کرسکتے کہ یہ واقعات طبیعی اور غیر عمدی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ ہمارے پس ایسی اطلاعات ہیں کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں کچھ عناصر دونوں ممالک کی سرحد پر ناامنی پھیلانا چاہتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تکفیری گروہ کو شیعہ اور سنی تمام مسلمانوں کے لئے بہت بڑا خطرہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر تکفیری گروہوں کا مقابلہ نہ کیا جائے تو وہ عالم اسلام پر مزید ضربیں وارد کریں گے اور زبردست نقصان پہنچائیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام میں ایران اور پاکستان کے باہمی روابط کے زیادہ سے زیادہ فروغ کی ایک بار پھر امید کا اظہار کیا۔

اس ملاقات میں نائب صدر جہانگیری بھی موجود تھے، پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ ایک بار پھر ملاقات پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دورہ پاکستان اور لاہور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: لاہور صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے اورآپ کے پاکستان کےدورے کے دوران میں صوبہ پنجاب کا وزیر اعلی تھا اور پاکستان کےعوام کی طرف سے آپ کا والہانہ استقبال ،احساسات اورجذبات دونوں ممالک کے گہرے ثقافتی، دینی اور تاریخی روابط کا مظہر ہیں۔

پاکستان کے وزیر اعظم نے تہران میں اپنے مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو 3 ارب ڈالر کی موجودہ سطح سے اوپر لے جانے کی بھر پور کوشش کروں گا اور گیس پائپ لائن منصوبہ کو بھی احیا کروں گا۔

پاکستانی وزیر اعظم نے دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں رونما ہونے والی حالیہ ناامنی پر سخت افسوس کا اظہارکیا اور دونوں ممالک کے روابط میں کشیدگی پیدا کرنے کے سلسلے میں کوششوں کی تائيد کی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میں جناب عالی کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پاکستانی حکومت سرحد پر ناامنی پھیلانے والے عناصر کے خلاف کسی بھی کارروائی سے دریغ نہیں کرےگی اوراس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اقدامات کی بھی حمایت کرےگی۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السّلام کی حیات طیبہ پر ایک نظر

پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابوطالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔ آپ کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔ جب کہ آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام ہاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والده دونوں ہاشمی ہیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے ۔ جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔

جب حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس تشریف لائیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا: پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراھیم علیہ السلام کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں۔

پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچہ کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ، ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافتہ ہوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره اصلی حالت میں متصل گئی ۔ فاطمہ بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مہمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاہا تو دیوار دو باره شگافتہ ہوئی، آپ کعبہ سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے کہ اس بچے کا ” نام علی “ رکھنا “ ۔

حضرت علی علیہ السلام تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیونکہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول خدا (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول اللہ (ص) نے اپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت اپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔

حضرت علی علیہ السّلام پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زیر نظر ہونے لگی ۔آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول اسلام (ص) جیسے بلند مرتبہ مربیّ کا فیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا اعلان کیا تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائی ۔ آپ ہمیشہ رسول خدا(ص) کے ساتھ رہتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شہر سے باہر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔

حضرت علی علیہ السّلام کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ہے کہ جب شب ہجرت مشرکین مکہ نے رسول خدا (ص) کے قتل کی سازش رچی تو آپ نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول خدا (ص) کے بستر پر سو کر ان کی سازش کو نا کام کر دیا

حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے جاں نثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا: کہ آج رات تم میرے بستر پر سو جاؤ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اے رسول خدا، کیا میرے سو رہنے سے آپ کی جان بچ جائے گی ؟ آنحظرت ص نےفرمایا: ہاں اے علی ، پھر آپ مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوگئے . کوئی دوسرا ہوتا تو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی علیہ السّلام نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہی ہوا کہ رسالت مآب شب کے سناٹے میں مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب علیہ السّلام رسول کے بستر پر سوگئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت مآب کوقتل کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتھ بستر پرآرام سے سوتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہاں گئے ہیں ؟ مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعی طور پر انکار کردیا اور فرمایا: کہ کیا تم نے محمد کو میرے حوالے کیا تھا ۔ ادھر رسول خدا (ص) مکہ سے کافی دور بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے گئے .علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول خدا کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین کو اپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے . آپ کئ روز تک رات دن پیدل چل کر اس حالت میں رسول خدا کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول خدا کو سب سے زیادہ اعتماد تھا اور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی اپنی آپ میں ایک مثال ہے۔

پیغمبر اکرم (ص) اپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سے مدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفہ کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین یہ آیہ بلغ لیکر نازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ص)نے قافلےکو ٹہرنے کا حکم دیا ۔ نماز ظہر کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاؤں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : ” ایھا الناس ! وہ وقت قریب ہے کہ میں دعوت حق پر لبیک کہتے ہوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ،لہذا بتاؤ کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ “ سب نے ایک آواز میں کہا :” ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا ” کیا تم گواہی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے ۔ پھر فرمایا: ” ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بہتر اور سزا وار تر کون ہے ؟۔

لوگوں نے جواب دیا :” خدا اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں “۔

پھر رسول خدا (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا :من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ۔ رسول خدا (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی ۔ اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کواس منصب ولایت کے لئے مبارک باد دی اور آپ کے ھاتھوں پر بیعت کی ۔

حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول خدا (ص) آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ فرماتے تھے کہ " علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں" .کبھی یہ فرمایا کہ " میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں . کبھی یہ فرمایا کہ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ فرمایا" علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی . کبھی یہ فرمایا: علی مجھ سے وہ نسبت ہے جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔