
Super User
صدر، قومی وحدت کی علامت ہونا چاہئے
لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے نمائندے نے کہا ہے کہ ملک کا صدر حتمی طور پر قومی وحدت کی علامت ہونا چاہیے۔ لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق "نواف موسوی" نے جنوبی لبنان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کا دھڑا، ایسے صدر کے انتخاب کے لئے اپنے وعدے کا پابند ہے کہ جو ملک کے عوام کے نصب العین کا محافظ ہو۔ لبنان کی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے نمائندے نے اسی طرح لبنان میں صدارتی انتخابات میں خلل پیدا کرنے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کو روکنے کے لئے اپنی قانونی ذمہ داریاں انجام دینے کے لئے آمادگی کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ لبنان کے نئے صدر کے انتخاب کے لئے، لبنان کی پارلیمنٹ کے اجلاسوں کا آغاز رواں ہفتے بدھ سے ہورہا ہے۔ دوسری جانب لبنان کے ارکان پارلیمنٹ کے پاس 25 مئی 2014 تک موقع ہے کہ وہ ملک کے نئے صدر کا انتخاب کرسکتے ہیں۔
رہبر معظم سے ذاکرین اہلبیت اور شعراء کی حضرت زہرا (س) کی ولادت کی مناسبت سے ملاقات
۲۰۱۴/۰۴/۲۰ -پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگر ، نور نظر ،بی بی دوعالم ،صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا اور ان کے فرزند برومند رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خیمنی (رہ) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے حسینیہ امام خمینی (رہ) فاطمی فضائل و مناقب کی عطر افشاں فضا سے مملو ہوگيا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے اس موقع پر شعراء اور ذاکرین اہلبیت علیھم السلام کے ساتھ ملاقات میں حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ولادت با سعادت اور اس مبارک دن کے حضرت امام خمینی (رہ) کی ولادت کے ساتھ تقارن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور انسانی معاشرے کے لئے تلاش و کوشش اور پاک و پاکیزہ زندگی کرنے کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی زندگی کا سب سے بڑا درس قراردیتے ہوئے فرمایا: دین کے درخشاں ستاروں کی زندگی کے اہم دروس بیان کرنے میں مذہبی محافل و مجالس اور مراسم کا اہم نقش ہے اور اسلامی اہداف کی پیشرفت اور اسی طرح دشمنان اسلام کی پیچيدہ سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہنرمندوں کے مضامین و متون، آکاہی، بیداری، امید و نشاط ،اتحاد اور مذہبی تقریبات میں شرعی ضوابط و قوانین کی مکمل رعایت سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام میں آئمہ (ع) کے لئے معنوی مراسم کے انعقاد کو غنیمت موقع اور اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمتوں میں شمار کرتےہوئے فرمایا: اگر چہ انسان کا محدود ذہن حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا جیسی آسمانی اور افلاکی شخصیات کی عظمت اور بلندی کے مختلف پہلوؤں کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا لیکن ضروری ہے کہ ان بزرگوں کی معنوی رفتار اور روش ، اعلی سماجی اہداف تک پہنچنے کے لئے ہمارے لئے نمونہ عمل قرارپائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی حیات طیبہ، آباد ، آزاد، مستقل ، اعلی اخلاق کے حامل ، متحد، منسجم اور متقی و پرہیزگار معاشرے کی تشکیل کو اسلامی معاشرے کے بعض نمونے قراردیتے ہوئے فرمایا: سستی ،غفلت اور مایوسی سے دوری اور تلاش و کوشش، تقوی و پرہیزگاری کے ذریعہ ایسے معاشرے تک پہنچنا ممکن ہوجائےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک میں ہزاروں با ذوق مداحوں کے ذریعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان کی تعریف و ستائش کو ایک غنیمت فرصت قراردیتے ہوئے فرمایا: اس عظیم فرصت اور امکان کے ہمراہ کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی ہیں جو ملک میں عظیم تحول اور انقلاب کا باعث بن سکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کے مذہبی اور دینی اعتقادات ، اسلامی راہ و روش اور ایرانی قوم کو منحرف کرنےکے سلسلے میں دشمنان اسلام کی پیچيدہ ارتباطاتی اور الیکٹرانکی وسائل کی ذریعہ کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: دشمن کا اصلی مقصد اسلام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا اور شیعہ معارف اور شیعہ معاشرے کو نمونہ عمل بننے سے روکنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن کے پیچیدہ منصوبوں اور سازشوں کے مقابلے میں اسلام کے پاس بھی اچھے اور بے نظیر وسائل موجود ہیں مذہبی مجالس و محافل ، خطابت ، مداحی اور عوام سے براہ راسب رابطہ ان بے نظیر وسائل میں سے ایک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بے نظیر اور گرانقدر فرصت سے غیر مناسب استفادہ کو الہی نعمت کا انکار اور کفر قراردیا اور منبر اور مداحی کو ضائع کرنےکے بعض مصادیق کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اگر منبر اور مداحی کا نتیجہ لوگوں کو مستقبل سے مایوس اور ناامید کرنا ہواور معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کی ذمہ داری پر عمل نہ ہو تو گویا یہ فرصت ضائع و برباد ہو گئی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تفرقہ اور شیعہ و سنی کے درمیان اختلافات ڈالنے کو نعمت الہی کے انکار اور کفر کا دوسرا مصداق قراردیتے ہوئے فرمایا: میں نے متعدد بار تکرار اور تاکید کی ہے کہ مذہبی جلسات میں مذہبی کینہ ، حسد اور اختلافات کو ہوا نہیں دینا چاہیے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنا اس تلوار اور شمشیر کے مانند ہے جو دشمن کے ہاتھ میں ہے اور جو دشمن کے مقاصد کو پورا کررہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اتحاد کے بارے میں مسلمان بزرگوں کی سفارش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم فخر کرتے ہیں کہ ہم علوی شیعہ ہیں اور ہمیں افتخار حاصل ہے کہ ہمارے امام رضوان اللہ تعالی علیہ ولایت کے علمبردار تھے جو اس بات کا وسیلہ بنے کہ شیعہ اور غیرشیعہ دونوں اپنے مسلمان ہونے پر فخرکریں اور غیر دانشمندانہ اقدامات اور احتلافات کے ذریعہ دشمن کی تلوار کو تیز نہیں کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذہبی تقریبات میں شرعی حدود و ضوابط کی رعایت کرنے کے سلسلے میں مداحوں کو سفارش کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذہبی ہنر اور مداحی کے ماحول کو پاک و پاکیزہ ماحول قراردیتے ہوئے فرمایا: اس ماحول کو اسی طرح پاک اور پاکیزہ رکھنا چاہیے اور بعض غیر سنجیدہ حرکات کو مذہبی اور اسلامی ہنر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر سبق آموز مضمون اور منتخب متون کو اہلبیت اطہار علیھم السلام کی مدح و ستائش کے لئے ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: ملک بھر میں انقلاب اسلامی کے دوران جو ولولہ انگیز اور آگاہی اور بیداری پیدا کرنےوالے نوحے جو پڑھے جاتے تھے ان کا انقلاب اسلامی کی کامیابی میں حیرت انگیز اثر رہا ۔
اس ملاقات کے آغاز میں اہلبیت علیھم السلام کے شعراء اور مداحوں میں سے آٹھ افراد نے پیغمبر اسلام(ص) کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی عظمت کے سلسلے میں اپنے اشعار پیش کئے۔
جموں کشمیر میں سیاسی جماعتوں کا ششماہی امتحان
وادی میں سیاسی جماعتوں کے ششمائی امتحان کی الٹی گنتی شروع ہوئی جبکہ24اپریل کو بارہمولہ پارلیمانی نشست پر انتخابات کے ساتھ ہی حکمران جماعت نیشنل کانفرنس اور اپوزیشن پی ڈی پی کے امیدواروں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ بھی ہوگا۔اس دوران سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ پارلیمانی انتخابی نتائج کے اثر ات اسمبلی الیکشن پر پڑنا طے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات کی6 نشستوں کیلئے نیشنل کانفرنس ، کانگریس ، پی ڈی پی اور بی جے پی کے مابین چو طرفہ مقابلہ ہو رہا ہے تاہم کشمیر وادی کی 3 لوک سبھا نشستوں پر اصل اور براہ راست مقابلہ حریف علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان ہو رہا ہے ۔ 3 مراحل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے آنے والے اسمبلی انتخابات کیلئے سیمی فائنل قرار دیا۔ انہوں نے اپنے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی انتخابی مہم کے سلسلے میں وسطی ضلع بڈگام میں گزشتہ دنوں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رواں پارلیمانی انتخابات سیمی فائنل ہیں جبکہ فائنل مقابلہ سال رواں کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے دوران ہوگا ۔ عمر عبداللہ کی اس بات سے قطع نظر یہ بات بلاشبہ ایک حقیقت ہے کہ جموں و کشمیر کی 6 پارلیمانی نشستوں کے لیے ڈالے جانے والے ووٹوں کی شرح اور ان 6 نشستوں کے نتائج اکتوبر نومبر 2014 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے ششمائی امتحان کی اہمیت رکھتے ہیں ، کیونکہ 6 پارلیمانی نشستوں کے تحت آنے والے 87 اسمبلی حلقوں میں ڈالے جانے والے ووٹوں سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ فی الوقت جموں و کشمیر میں عوامی سطح پر کس جماعت کو کتنی عوامی مقبولیت یا سپورٹ حاصل ہے ۔ اگر سال 2008 میں ہوئے اسمبلی انتخابات اور اس کے بعد سال 2009 میں کرائے گئے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا احاطہ کیا جائے تو 17 نومبر 2008 سے 24 نومبر 2008 تک جموں و کشمیر میں کرائے گئے 7 مراحل میں اسمبلی انتخابات کے دوران کل ملا کر 60 فیصد سے زیادہ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا جبکہ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے 2002 میں حاصل کردہ اپنی 28 نشستوں کو بر قرار رکھا تھا جبکہ اس کی خاص حریف جماعت پی ڈی پی نے اپنی نشستوں میں 5 کا اضافہ کرتے ہوئے 2008 کے اسمبلی انتخابات میں 21اسمبلی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم 2002کے مقابلے میں ریاستی کانگریس کیلئے 2008 کے اسمبلی انتخابات مایوس کن ثابت ہوئے تھے کیونکہ اس جماعت نے صرف17 نشستیں حاصل کی تھیں اور اس کو 3 نشستوں کا خسارہ ہوا تھا ۔ کانگریس کی اس ہار کا فائدہ براہ راست جموں
میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو حاصل ہوا کیونکہ 2002 میں حاصل کردہ صرف ایک اسمبلی سیٹ کے مقابلے میں اس جماعت نے 2008 کے اسمبلی انتخابات میں 10 کا اضافہ کرتے ہوئے 11نشستیں حاصل کی تھیں ۔ اس کے علاوہ سی پی آئی ایم کے محمد یوسف تاریگامی نے اپنی کولگام نشست کو بر قرار رکھنے میں کامیابی
حاصل کی ، سابق وزیر حکیم محمد یاسین اور وزیر زراعت غلام حسن میر نے بھی خان صاحب بڈگام اور ٹنگمرگ کی اسمبلی نشست پر دوبارہ جیت درج کی ۔ 2008 کے اسمبلی انتخابات میں 4 آزاد امیدوار بھی کامیاب رہے جبکہ نیشنل پینتھرس پارٹی نے ایک نشست کا نقصان برداشت کرتے ہوئے 3 اسمبلی حلقوں میں کامیابی
درج کی ۔ اگرچہ 2008کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد پردیش کانگریس نے نیشنل کانفرنس کا ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ مخلوط سرکار قائم کی لیکن گزشتہ 5 برسوں کے دوران اس ریاستی سرکار کی کارکردگی عوامی ، سیاسی اور حکومتی سطح پر اس قدر اطمینان بخش یا حوصلہ افزا نہیں رہی کہ اس کی بنیاد پر یہ اتحادی جماعتیں رواں پارلیمانی انتخابات یا آنے والے اسمبلی انتخابات کے دوران کوئی بڑا فائدہ حاصل کر سکیں۔ پارلیمانی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوجائیگا کہ اسمبلی انتخابات کے دوران اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے ۔ تاہم یہ بات اب ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے کہ جموں و کشمیر میں کوئی بھی جماعت کانگریس کی حمایت کے بغیر حکومت نہیں بنا سکتی
ہے لیکن اس کا قطعی طور یہ مطلب نہیں کہ جس طرح جموں میں اس پارٹی کو سیاسی اور عوامی سطح پر مضبوطی حاصل ہے ، وہ مضبوطی یا حمایت کانگریس کو کشمیر میں بھی حاصل ہوجائے ۔ جہاں تک موجودہ اسمبلی کا تعلق ہے تو اس میں کانگریس کے کل ممبران کی تعداد 17ہے ، جن میں صرف 3ممبران اسمبلی کا تعلق کشمیر وادی سے ہے ، جن میں تاج محی الدین ، پیر زادہ محمد سعید اور غلام احمد میر شامل ہیں ۔ 2014کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کیلئے تمام سیاسی جماعتیں رواں پارلیمانی انتخابات کو اپنے لئے ششمائی امتحان مان چکی ہیں ، اسی لئے تو نیشنل کانفرنس ، کانگریس ، پی ڈی پی ، بی جے پی اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کے تمام چھوٹے بڑے لیڈران انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ پارلیمانی انتخابات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں اپنی پارٹی کے مرکزی وزیر غلام نبی آزاد کی انتخابی مہم کو چار چاند لگانے کیلئے ہنگامی طور ڈوڈہ کا دورہ کیا جبکہ بھاجپا کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ اپنے پارلیمانی امیدوار ڈاکٹر جتندر سنگھ کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کیلئے ادھمپور کا دورہ کر رہے ہیں ۔ غور طلب ہے کہ اس سے پہلے بھاجپا کے وزیر اعظم عہدے کے امیدوار نریندر مودی جموں صوبہ میں نئی انتخابی لہر پیدا کرنے کیلئے 2 مرتبہ یہاں کا دورہ کر چکے ہیں۔ ہل اور ہاتھ کا ساتھ کس حد تک پارلیمانی انتخابات میں کامیابی سمیٹ سکتا ہے ، اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا تاہم حالیہ دنوں میں مختلف نجی نیوز چینلوں کی طرف سے لگائے گئے اندازوں میں یہ بتایا گیا کہ
جموں و کشمیر کی 6پارلیمانی نشستوں میں سے 2پر پی ڈی پی کامیابی حاصل کرے گی جبکہ باقی 4نشستیں کانگریس ، نیشنل کانفرنس ، بی جے پی اور آزاد امیدوار کے حصے میں آ سکتی ہیں ۔ اگر ان اندازوں کی روشنی میں اسمبلی
انتخابات کے نتائج کا قبل از وقت احاطہ کیا جائے تو 2008میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے مقابلے میں سال رواں کے آخر میں ہونے والے اسمبلی الیکشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے لئے بڑ ا امتحان ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ
دونوں جماعتوں کی ملی جلی سرکار کی 5سالہ کارکردگی کے بارے میں عوامی اور سیاسی سطح پر منفی رائے پائی جاتی ہے اور اگر واقعی اسی رائے کے تحت جموں و کشمیر کے لوگوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تو نیشنل کانفرنس اور
کانگریس کو کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں صوبے میں بھی سخت انتخابی خسارے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ تاہم اس کا قطعی یہ مطلب نہیں نکالا جاسکتا کہ ہل اور ہاتھ کی گرتی مقبولیت کا فائدہ براہ راست کشمیر میں پی ڈی پی اور
جموں میں بی جے پی کو حاصل ہوگا کیونکہ دونوں صوبوں میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران کچھ نئی سیاسی قوتیں یا سیاسی پارٹیاں بھی عوامی اور سیاسی سطح پر کافی متحرک ہوئی ہیں ۔ غور طلب ہے کہ الیکشن بائیکاٹ کال کے باوجود
2008کے اسمبلی انتخابات کے دوران 2002کے مقابلے میں 17فیصد زیادہ رائے دہندگان نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا۔
رہبر معظم انقلاب : سیدۃ النساء العالمین کی زندگی کا دقیق اور غور سے مطالعہ کرنا چاہیے
۲۰۱۴/۰۴/۱۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کی سیکڑوں ممتاز اور دانشور خواتین کے ساتھ ملاقات میں خاندان اور عورت کے اہم مسئلہ کے پیش نظر صحیح اسٹراٹیجک کی تدوین کے لئے ایک اعلی مرکز تشکیل دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اس ہمہ گير اورقابل اجرا اسٹراٹیجک کے حصول کے لئے تین مسئلوں کی ضرورت ہے: خواتین کے امور میں مغرب کے غلط اور دقیانوسی خیالات کو مکمل طور پر نمونہ عمل بنانے سے پرہیز، اورخالص اسلامی معارف و متون پر اعتماد و تکیہ اور ایسے مسائل کی تشریح جو حقیقت میں عورتوں کے مسائل میں شمار ہوتے ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کی اور بی بی دوعالم کی ولادت باسعادت ، یوم مادر اور ہفتہ خواتین کے باہمی تقارن کو بی بی دوعالم حضرت صدیقہ کبری فاطمہ زہرا (س) کی زندگی سے درس حاصل کرنے کے لئے غنیمت موقع قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالم شباب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے اعلی معنوی مقام اور ان کی معصومیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: سیدۃ النساء العالمین کی زندگی کا دقیق اور غور سے مطالعہ کرنا چاہیے اور تقوی، عفت، طہارت، مجاہدت، شوہرداری ، اولاد کی تربیت ، سیاست فہمی جیسی ممتاز خصلتوں کو حقیقی معنی میں نمونہ عمل قراردینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران میں ممتاز، پڑھی لکھی ، دانشور اور ماہر خواتین کی کثیر تعداد کو اللہ تعالی کی نعمات اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سب سے بڑے افتخارات میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی تاریخ میں یہ بے نظیر حقیقت در اصل اسلامی معارف ، اسلامی نکتہ نگاہ اور حضرت امام خمینی (رہ) کے مشکل کشا نظریات کا مظہر ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دفاع مقدس کے میدان میں ایرانی خواتین کی مستقل شخصیت اور ممتاز تشخص کو ایک اور تابناک نقطہ قراردیا اور شہیدوں و جانبازوں کی ماؤں اور ہمسروں کے شاندار صبر و استقامت کی تعریف اور تجلیل کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمعاشرے کے لئے مختلف جہات سے عورت کے مسئلہ کو غور و فکر اور ریسرچ و تحقیق کے قابل قراردیا اور اس سلسلے میں تین اہم جہات کی طرف اشارہ کیا:
اول: عورتوں کی عظیم ظرفیت سے کیسے صحیح و سالم صورت میں استفادہ کیا جاسکتا ہے؟
دوم: انسان کی سربلندی و تعالی ، نہ زوال کے لئے کیسے جنسیت کے حساس اور ظریف مسئلہ سے استفادہ ممکن ہوسکتاہے؟
سوم: عورت اور مرد کے درمیان قدرتی تفاوتوں کے پیش نظر معاشرے میں کون سی رفتار نافذ کی جائے جس کے ذریعہ سماج اور خاندان میں عورت پر ظلم و ستم کو روکا جاسکے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں عورت اور خاندان کو دو ناقابل تفکیک مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: جو شخص نے بھی عورت کے مسئلہ کا خاندان کے مسئلہ سےالگ جائزہ لینے کی کوشش کرےگا تو وہ اس مسئلہ کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے میں مشکل سے دوچار ہوجائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عورت اور خاندان کے مسئلہ کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے اور اس سلسلے میں سوالات کے جوابات کے لئےایک تحقیقی مرکز کی تشکیل کو لازمی قراردیتے ہوئے فرمایا: اس مرکز کو چاہیے کہ وہ عورت کے بارے میں ہمہ گير اور اسٹراٹیجک منصوبہ تدوین کرے اور ضروری اقدامات کے ذریعہ اس کو عملی جامہ پہنانے کی تلاش و کوشش کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہر مرکز اور ادارے میں اس اسٹراٹیجک منصوبہ کی تدوین اور عورت کے موضوع پر بحث کرنے کے سلسلے میں اصلی شرائط پر پابند رہنے کو اہم قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شرائط کی تشریح میں سب سے پہلے عورت کے بارے میں مغربی محصولات سے مکمل طور پر دور رہنے کی تاکید فرمائی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مختلف دلائل کی بنا پر مغرب والے عورت کے مسئلہ کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے ہیں اور انھوں نے اپنے انہی غلط اور تباہ کن خیالات کو دنیا میں سکہ کے طور پر رائج کردیا ہے اور عوام فریبی و مکاری کے ساتھ وہ دوسروں کو اس سلسلے میں بات بھی نہیں کرنے دیتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ عورت کے مختلف پہلوؤں کےبارے میں مغرب والوں کے نظریے کے بارے میں آگاہ رہنا چاہیے لیکن عورت کے بارے میں مغرب کی منحرف اور غلط فکر کو نمونہ عمل نہیں بنانا چاہیے اور ذہن کو اس خائنانہ بظاہر دلسوزانہ اور قدیم بظاہر جدید فکر سے خالی کرنا چاہیےکیونکہ مغربی افکار معاشرے کی سعادت اور ہدایت کا باعث نہیں بن سکتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا پر مادی اور غیر الہی نگاہ کو عورت کے بارے میں مغربی افکار کے انحراف کا اصلی باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی مسائل منجملہ روزگار کے مسائل میں عورتوں پر کاروباری نگاہ ، عورتوں کی تحقیر اور انھیں مردوں کی شہوترانی کا وسیلہ قراردینا مغربی افکار کے دیگر اصول ہیں جنھوں نے عورت کے بارے میں مغربی نظریہ کو مکمل طور پر ظالمانہ بنادیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عورتوں کے بارے میں مغرب میں شائع ہونے والی کتابوں اور مقالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نگاہ عورت کے بارے میں صحیح و سالم ، منطقی اور راہ گشا ہو تو پھر ہمیں عورت کے روزگار اور جنسیت کے مساوی ہونے کے بارے میں مغرب کے غلط نظریات سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مرد و عورت کی جنسیت کے برابر ہونے کو مغرب کا غلط نظریہ قراردیتے ہوئے فرمایا: برابری ہمیشہ عدالت و انصاف کے معنی میں نہیں ہے عدالت و انصاف ہمیشہ حق ہے، لیکن برابری کبھی حق اور کبھی باطل ہوتی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ عورتوں کو اللہ تعالی نے جسمی اور عاطفی لحاظ سے زندگی کے مخصوص مرحلے کے لئے پیدا کیا ہے کون سی منطق ہے جس کے تحت عورتوں کو ایسے میدان میں وارد کیا جائےجہاں انھیں سختی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عورت کے مسئلہ پر اسلام کی انسانی نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بہت سے مسائل منجملہ معنوی ترقی کے مقامات کے حصول میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے لیکن قالب متفاوت ہیں، اور اس حقیقت کے پیش نظر دوسرے مشترکہ میدانوں میں بھی منطقی طور پر تفاوت موجود ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بہت سے عالمی کنونشنز کے بنیادی فکری ڈھانچے پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک کا ان غلط بنیادوں پر اصرار انسانی معاشرے کو تباہ کردےگا اور اسی وجہ سے صحیح اور متوازن نگاہ کے حصول کے لئے مغربی اصولوں سے بچنا ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عورت کے مسئلہ میں صحیح اسٹراٹیجک کی دوسری شرط کی تشریح کرتے ہوئے اسلامی متون اور معارف پر تکیہ و اعتماد کو ضروری قراردیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دین کے نام پر عورت کے بارے میں بیان کی جانے والی ہر چیز کو قبول نہیں کرنا چاہیے لیکن ایسے اصول جنھیں قرآن و حدیث کی روشنی میں بزرگ شخصیات نے استنباط کیا ہے ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرعی اور جانبی مسائل سے دوری اور اصلی مسائل بیان کرنے پر توجہ کو عورتوں کے مسئلہ میں تیسری صحیح شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: خاندان میں عورت کی صحت و سلامتی اور آرام و سکون بہت ہی اہم اور اصلی مسئلہ ہے جس پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: خاندان میں عورت کے آرام و سکون کو سلب کرنے والے عوامل کی تلاش و جستجو کرنی چاہیے اور مختلف طریقوں منجملہ تبلیغ اور قانون کے ذریعہ ایسے سلبی عوامل کو برطرف کرناچاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جدید و قدیم ماحول میں عورت کو خدمت گزار اور دوسرے درجہ کی موجود قراردینے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: عورت کے متعلق یہ مسئلہ اسلام کی مترقی فقہ کے بالکل خلاف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: افسوس ہے کہ بعض لوگ بعض چیزیں اسلام سے لیتے ہیں اور مغربیوں کو خوش کرنے کے لئے بعض مسائل مغرب کے بھی اس کے ساتھ اضافہ کرتے ہیں حالانکہ یہ بات بالکل غلط اور قابل قبول نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تحصیل علم،رشد و ترقی و پیشرفت کو عورت کے لئے ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض نظریات کے برخلاف عورتوں کی ملازمت عورتوں کے اصلی مسائل میں نہیں ہے البتہ جب تک خاندان اور اولاد کی تربیت کے اصلی مسائل کےساتھ ملازمت میں کوئي منافات نہ ہو تب تک ملازمت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں میں عورتوں کےبعض تحصیلی مضامین کے بارے میں بیان شدہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر اس مسئلہ میں تفاوت بھی ہو تو یہ انصاف کے خلاف نہیں ہے کیونکہ عورتوں پر ایسے مضامین اور ملازمتوں کو مسلط نہیں کرنا چاہیے جو ان کے بدن کی قدرتی ساخت اور طبیعت کے خلاف ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر عورتیں بعض عہدے اور ملازمتیں نہ لیں تو یہ ان کے لئے کوئی ننگ و عار اور نقص و عیب نہیں ہے بلکہ وہ چیز غلط ہے جو عورت کی الہی طبیعت کے مطابق اور مناسب نہ ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر عورتوں کے صحیح مسائل کی تلاش و کوشش کے سلسلے میں ممتاز ، فہمیدہ اور ماہر خواتین کو بہترین افراد قراردیا اور انھیں عورتوں کے مسائل کی تلاش و جستجو کرنے کی دعوت دی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل عورتوں اور خاندان کے امور میں صدر کی مشیر محترمہ مولا وردی نے عورتوں سے متعلق مسائل کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: ایران علاقائی سطح پر عورتوں کی سماجی شراکت کے لحاظ سے بہت اچھی سطح پر ہے اور عورتیں سال کے نعرے" قومی عزم و جہادی مدیریت کے ساتھ اقتصاد و ثقافت کا سال " کو عملی جامہ پہنانے میں مؤثر اور بے نظیر کردار ادا کرسکتی ہیں۔
دانشور خواتین سے رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
دختر گرامی پیغمبر اسلام حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ولادت باسعادت کے موقع پر ایران کی دانشور اور اہم خواتین شخصیات نے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس موقع پر حضرت آیـت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ہم اگر چاہتے ہیں کہ عورت کے مسئلے میں خطا کے مرتکب نہ ہوں تو ہمیں مغرب کے خیالی، غلط اور ظاہر میں مقبول و دلسوز افکار سے اپنا ذہن صاف کرنا ہوگا یعنی مغربی افکار ہماری توجہ کا مرکز نہیں ہونا چاہیئیں۔رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خواتین کے اصل مسئلے میں دوسرے درجے کے مسائل پر توجہ نہیں ہونی چاہیئے۔خواتین کی ملازمت کا مسئلہ دوسرے درجے کا مسئلہ ہے اور اس جانب توجہ دیئے جانے کی ضرورت ہے کہ گھروں میں خواتین کا سکون ختم ہونے کی کونسی وجوہات ہوسکتی ہیں۔اگر عورت سکون سے نہ ہو تو وہ گھر کے امور چلانے میں مکمل ذمہ داری سے اپنا کردار ادا نہیں کرسکے گی اور یہی خواتین کا اصل مسئلہ ہے۔آپ نے فرمایا کہ اخلاقی و معنوی اعتبار سے مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے تاہم دائرۂ کار کے لحاظ سے مکمل فرق پایا جاتا ہے۔ حضرت آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عورت کے بارے میں مغرب کے مادیاتی افکار کو اس کے انحراف کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا کہ اقتصادی مسائل منجملہ ملازمت کے حوالے سے خواتین کی ظرفیت کو پیشہ ورانہ بنانا اور عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ایسے بنیادی مسائل ہیں جو خواتین کے بارے میں مغربی افکار کے ظالمانہ اور جھوٹے دکھاوٹی ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔ آپ نے مرد و عورت میں برابری کو مغرب کا غلط پروپیگنڈہ قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ برابری ہمیشہ انصاف کے معنی میں نہیں ہے اور انصاف، ہمیشہ برحق ہوتا ہے مگر برابری کبھی حق اور کبھی باطل پر ہوتی ہے۔رہبر انقلاب اسلامی نے بیشتر عالمی کنوینشنوں کی فکری بنیادوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئےفرمایا کہ اس غلط بنیاد پر مغربی اصرار، سماج کو تباہ کررہا ہے یہی وجہ ہے کہ صحیح اور متوازن نظر کے حصول کیلئے ان بنیادوں سے پرہیز کئے جانے کی ضرورت ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی ولادت با سعادت عالم اسلام کو مبارک ہو
آج اسلامی جمہوریہ ایران سمیت ساری دنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمۃ زہرا سلام اللہ علیھا کے یوم ولادت باسعادت کی شب کی مناسبت سے جشن منائے جارہے ہیں۔ اسلامی جہموریہ ایران میں اس مبارک موقع پر مشہد مقدس اور قم سمیت مقدس مقامات پر چراغاں کیا گيا ہے۔ مشہد مقدس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حضرت امام رضا علیہ السلام اور قم میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کے روضوں کو نہایت ہی خوبصورتی سے سجا کر بے مثال چراغاں کیاگيا ہے۔ علماء اور مراجع کرام کے گھروں پر بھی چراغاں ہے۔ مقدس مقامات، مساجد، امام بارگاہوں اور علماء و مراجع کرام کے گھروں میں جشن اور محفلوں کاسلسلہ جاری ہے جن میں محمد و آل محمد علیھم السلام کےفضائل و مناقب بیان کئے جارہے ہیں۔ عراق میں بھی نجف اشرف، کربلائے معلی ، سامرا و کاظمین میں روضہ ہائے مقدسہ کو سجایاگيا ہے اور ان مقامات مقدسہ پر لاکھوں زائرین موجود ہیں۔ شام و لبنان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس وقت دمشق میں روضہ ثانی زہرا حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے صحن میں زائرین کی کثیر تعداد موجود ہیں۔ ایران میں گذشتہ شب ہی سے محفلوں کاسلسلہ شروع ہوگيا تھا جن میں عوام کی بڑی تعداد شرکت کررہی ہے۔ بیس جمادی الثانی کوثرولایت ، مادرامامت، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا یوم ولادت باسعادت ہے۔پیغمبراعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یگانہ روزگاربیٹی اورقرۃ العین الرسول بعثت کے پانچویں سال اس دنیاميں تشریف لائیں اورخانہ وحی میں اپنے پدربزرگوارکے دامن تربیت میں پروان چڑھیں اورعلم ومعرفت اورکمال کی اعلی منزلیں بھی آپ کے کمال لازوال کے سامنے ھیچ نظرآئيں۔ ہجرت کے دوسرے سال آپ ، امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوئيں۔ رسول اسلام کی لخت جگرنے حضرت علی علیہ السلام کے کاشانہ علم ومعرفت میں بحیثیت ایک زوجہ ذمہ داریوں اورفرائض کا اعلی ترین نمونہ پیش کیا اورایک ماں کی حیثیت سے رہتی دنیاتک لئے ایسی لافانی مثال قائم کی کہ ماں کی آغوش سے اولاد کومعراج عطاہونے لگی۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح)نے کہ جن کا یوم ولادت بھی آج ہی ہے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ اگرکسی دن کویوم نسواں یاپھر روزمادرسے منسوب کرنا ہے تو شہزادی کونین کے یوم ولادت باسعادت سے بہترموقع یا دن اورکون ہوسکتا ہے اسی مناسبت سے آج کے دن اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیاکے مختلف ممالک میں مسلمان یوم نسواں یا روزمادرمناتے ہيں ۔شوہراپنی شریک حیات کی زحمتوں اوراسی طرح اولاد اپنی ماؤں کی شفقتوں اوران کی لازوال محبتوں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کوتحفے اورتحائف پیش کرتے ہيں اوریوں اس مبارک دن کو کوثرولایت کے یوم ولادت کے طورپر ایک خوبصورت معنوی جشن سے معمورکرتے ہيں ۔
لندن میں ایک انتہاپسند اور نسل پرست تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ کی نماز جمعہ کے دوران مسجد کے باھر شدید اسلام مخالف نعرے بازی
برطانیہ کی نسل پرست تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے ریجنٹس پارک مسجد پر اس وقت دھاوا بولا جب مسجد میں نماز جمعہ ادا کی جارہی تھی، اس موقع پر انتہا پسند نسل پرست تنظیم کے کارکنوں نے اسلام مخالف نعرے بازی بھی کی۔ اس تمام تر صورتحال کے دوران نمازیوں اورانگلش ڈیفنس لیگ کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے خدشہ کے پیش نظر پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد موقع پر پہنچ گئی جبکہ ہنگامی طور پر ہیلی کاپٹر کی مدد سے بھی مظاہرین کی نگرانی کی گئی تاہم بعدازاں پولیس نے مظاہرین کومنتشر کردیا۔
ماں ، عورت کا بے مثل کردار
یہ ایام ، عصمت کبری ، حوراء انسیہ ، دختر محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھاکی ولادت باسعادت کے مبارک ایام ہیں اور 20 جمادی الثانی یعنی حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کی ولادت باسعادت کے پر مسرت اور مبارک و مسعود دن کو ایران میں "یوم خواتین اور مادر" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ فاطمہ زہراء (س) عالم بشریت خاص طور پر تمام خواتین کے لئے نمونۂ عمل ہیں ۔ کیوں کہ آپ نے ایک خاتون کےطورپر گھر اور معاشرے میں بہترین انداز میں اپنا کردار نبھایا ۔ حضرت زہرا (س ) نے ایک ماں کے کردار کو بنحو احسن ادا کیا ہے ۔ اور امام حسن اور امام حسین علیھما السلام اور جناب زینب و ام کلثوم سلام اللہ علیھما جیسے بے مثال بچوں کی تربیت کی اور معاشرے کو ایسے باکمال افراد پیش کئے کہ جن میں سے ہر کوئی ، عالم ، شجاع ، مومن اور اعلی و ارفع کردار سے مزین، نیز انسانی اقدار کا حامل اور معاشرے کے لئے مفید و موثر واقع ہوا ۔ دوسری جانب آج کی دنیا ، خاص طور پر مغرب کو درپیش مشکلات کی وجہ ، خواتین اور خاص طور پر ماں کے کردار کو اہیمت نہ دینا ہے ۔ خواتین کا ایک اہم اور فطری کردار ، ماں کا ہے ۔ فیمینزم تحریک اور مغربی سرمایہ دار معاشرے کے وجود میں آنے کے وقت سے ہی ماں کے کردار کو اس معاشرے میں کمزور کرنے اور حتی اسے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور خواتین کے حقوق کے دفاع کے بہانے سے گھریلو اور مادرانہ حیثيت اور کردارپر سوالیہ نشان لگایاہے اور اسے عورت پر سب سے بڑا ظلم اور اس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ماہرین کا خیال ہے کہ ماں ہونا ایک خاتون کے لئے انتہائی لذت بخش ہے ۔ کینیڈا کے ایک مصنف "ویلیم گارڈنر" لکھتے ہيں کہ ایک خاتوں کے لئے کوئی چيز اس سے زیادہ اہیمت نہیں رکھتی کہ وہ ایک انسان کو وجود عطا کرے اور اس کی تربیت و پرورش کرے ۔ دوسری طرف مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے ہم جنس پرستی کی ترویج کے ذریعے بھی کوشش کی ہے کہ مادرانہ کردار میں خدشہ پیدا کرکے، ان کو ہلکا بناکر پیش کرے ۔ واضح ہے کہ ہم جنس پرستی ، ایک عظیم گناہ ، انسانی فطرت کے خلاف اور بے راہ روی پر چل پڑنا ہے کہ جو انسان کو اس کے فطری تقاضے سے دور کردیتی ہے ۔ کوئی بھی انسان تن تنہا یا اپنے ہم جنس کے ساتھ ، کامل نہيں ہوسکتا بلکہ ایک مرد اور ایک عورت سے مل کر کامل بنتا ہے ۔ درحقیقت خداوند عالم نے انسان کی خلقت کچھ اس طرح سے کی ہے کہ وہ اپنی جنس مخالف کے بغیر ناقص ہے اور جنس مخالف سے ہی اس کی تکمیل ہوتی ہے ۔ اور یہ دو جنس کے افراد ، روحانی اور جسمانی اعتبار سے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور باہمی زندگي گذارکر ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ انگریز فلم ساز اور سیاح " ڈيوڈ ھیوز " کہتے ہيں ۔ " عورت اور مرد مختلف نوعیت کے ہیں لیکن ان کے کردار کی تکمیل، باہمی زندگي سے ہوتی ہے اور خالص عورتوں اور یا خالص مردوں پر مشتمل ایک جنسی معاشرے کاافسانہ، محض ایک وہم و خیال ہے ۔" اس کے علاوہ عورت اور مرد کے درمیان شادی اور ان کی ازدواجی زندگي انسانیت کی بقاء کی ضامن ہے اور اسی مقدس بندھن اور رابطے سے نسل انسانی وجود میں آتی اور قائم و دائم رہتی ہے ۔ کیوں کہ دنیا کی خلقت کا مقصد، انسان کا وجود ، اس کی پرورش اور کمال کا حصول ہے ۔ اسی طرح ازدواجی زندگي کے ذریعے انسان کو فکری استقلال اور روحانی سکون حاصل ہوتا اور وہ کمال کے راستے تک رسائی حاصل کرتا ہے ۔ ایران کے مسلمان دانشور اور فلسفی استاد شہید مطہری اپنی کتاب " اسلام میں عورت کے حقوق کا نظام " میں لکھتے ہیں " خاندان کی تشکیل یعنی ایک طرح سے دوسروں کی سرنوشت سے آگاہ ہونا ہے - ازدواج ، اپنی انفرادی زندگي سے باہر نکلنے اور اپنی شخصیت میں وسعت پیدا کرنے کا پہلا مرحلہ ہے ۔ شادی اور کنبے کی تشکیل سے انسان میں جو پختگي آتی ہے اسے صرف شادی اور خاندان کی تشکیل کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ جیساکہ اس سے قبل کہا گیا کہ عورت کاایک اہم کردار اسکا ماں ہونا ہے ۔ عورت کا اپنے شوق و اشتیاق کے ساتھ ماں ہونا ، بچہ دار ہونا اوران کی حفاظت و پرورش کرنا، تمام عورتوں کی فطرت میں ودیعت کیا گيا ہے ۔ ماں ، بچے کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت و مہربانی کے ذریعے، اس کے وجود کو عشق ومحبت سے مالا مال ، اور معاشرے کے لئے ایک صحیح وسالم اور توانا بچے کی تربیت کرسکتی ہے اور اسی طرح اپنی فطری ضرورت ، بچے کو وجود دے کر پورا کرسکتی ہے ۔ امریکی مصنف ڈاکٹر "ٹونی گرنٹ" اس بارے میں کہتے ہیں " بائیلوجیکل اعتبار سے ایک ماں کے وجود کو بذات خود میں ایک مسلمہ امر قرار دیتا ہوں اس لۓ کہ ایک عورت کا ماں ہونا ، اس کی ذات سے جدا نہيں ہے ۔ آج کی عورت اگر چہ مائل ہے کہ اپنی مردانہ خصوصیات پر بھروسہ کرے ۔۔۔ لیکن اس نے مادرانہ شوق و جذبے کاتحفظ کیا ہے اور ہمیشہ سے زيادہ اس کے اظہار کی جستجو ميں ہے ۔ مائیں ، اپنے بچوں کی نسبت لطیف احساسات و جذبات کی حامل ہوتی ہیں اور یہ احساس ایک ایسا عطیۂ الہی ہے جسے خداوند عالم نے عورت کے وجود میں ودیعت کردیا ہے ۔ اسلام میں عورت کے مادرانہ کردار کو انتہائی اہمیت دی گئی ہے ۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای معتقد ہیں کہ ایک عورت کا اہم ترین کردار جو وہ کسی بھی علمی و معلوماتی اور تحقیق و معنویت کی سطح پر انجام دیتی ہے ،اس کا وہی کردار ہے جو ایک ماں اور ایک بیوی کے طور پر وہ ادا کرتی ہے ۔وہ عورت کے اس کردار کو اس کے تمام کاموں سے اہم قرار دیتے ہیں کہ جسے کوئی اور انجام نہیں دے سکتا ۔اسی طرح آپ کا خیال ہے کہ با اخلاق ، خوش طبیعت و خوش فکر اور روحانی وجسمانی لحاظ سے سالم و تندرست انسان ، عورت کے ہی پر مہر و محبت دامن میں پرورش پاتا ہے اور ماں ، ہر تعمیر ساز اور پرورش دہندہ سے زیادہ، تعمیری کردار اور قدر و قیمت کی حامل ہے ۔ عورت کی زندگی کے خوبصورت ترین اور حساس ترین مراحل میں سے ایک ، حاملہ ہونے اور بچے کو دودھ پلانے کا مرحلہ ہے ۔ حاملہ ہونے کے وقت ، ماں اپنے وجود ميں ایک انسان کی پرورش کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔عورت اس دوران اپنے بچے سے جذباتی رابطہ برقرار کرتی ہے ۔ علمی و سائنسی تجربوں اور تحقیقات کی بنیاد پر ، ماں جو اپنے بچے کی نگہداشت اور حفاظت کرتی ہے ، بچے کے مستقبل میں، ایک اہم حصہ رکھتی ہے ۔ بچے کی پیدائش کے بعد ، اس بچے سے ماں کا جذباتی رابطہ اسے دودھ پلانے سے بڑھ جاتا ہے ۔ ماں کا دودھ بچے کے لئے بہترین غذا ، اور اس کا فطری حق ہے ۔ حاملہ ہونے ، بچے کو وجود دینے اور دودھ پلانے کا دور، جو بچے کے جسمانی اور جذباتی ڈھانچے پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس کی اہمیت کے پیش نظر ، اسلام نے خواتین کے لئے ، ترغیب کے غور طلب عوامل مد نظر قرار دیئے ہيں ۔ ایک روایت میں حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل کیا گيا ہے کہ " جس دوران عورت حاملہ رہتی ہے ، وہ روزہ دار ، شب زندہ دار اور ایسی مجاہدہ ہے جو راہ خدا میں اپنی جان و مال کے ساتھ جنگ کرتی ہے ۔ بچے کی پیدائش سے اٹھنے والے درد کا لمحہ لمحہ، عورت کے لئے ایک بندۂ مومن کے آزاد کرنے کا ثواب رکھتا ہے اور جب عورت بچے کو جنم دے دیتی ہے تواس کے لئے ایک ایسا اجر و ثواب ہے کہ جس کی عظمت و وسعت کو کوئی درک نہیں کرسکتا ۔ جب وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے تو اس وقت بچے کی ہر چسکی ، فرزندان اسماعیل میں سے ایک غلام کو آزاد کرنے کے ثواب کے برابر ہوتی ہے اور روز قیامت اس عورت کے چہرےپر خدا ایک ایسا نور ساطع کریگا جو تمام اہل محشر کو حیرت ميں ڈال دیگا ۔ اور جب بچہ دودھ پی لیتا ہے تو ایک فرشتۂ الہی ماں کے پہلو پر ہاتھ رکھتا ہے اور کہتا ہے " اپنی زندگي کا دوبارہ آغاز کرو ، خدانے تمہارے تمام گذشتہ گناہوں کو بخش دیا ہے " ۔ وہ بچہ جسے ماں کادودھ نصیب ہوتا ہے وہ جسمانی اور جذباتی لحاظ سے بہت زیادہ صحیح و سالم ہوتا ہے اور بڑا ہوکر وہ ایک متوازن شخصیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اسی طرح اسلام میں بچے سے ماں کی محبت کے اظہار کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور بہترین انداز ميں بچے کو لوریاں دینے کی تلقین دی گئ ہے جیسا کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا بچے کو آغوش میں لے کر اسے یوں لوری دیتی تھیں " بیٹا حسن تم بھی اپنے بابا علی کی مانند بننا اور حق کے دامن کو کبھی نہ چھوڑنا ، جس خدا نے تمہیں نعمتیں دی ہیں اس کی بندگي کرو اور خطا کاروں اور گناہکاروں کو دوست نہ بناؤ ۔ ماں اپنے نئےانداز تربیت اوراعمال و کردار سے بچے کو اعلی اخلاق اور پسندیدہ آداب سے روشناس کراسکتی ہے ۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا ہیمشہ اپنی بے مثال محبتوں سے اپنے بچوں کو نوازتی تھیں اور ان میں کبھی بھی ماں کی مہر ومحبت کے اعتبار سے محرومیت کا احساس پیدا ہونے نہيں ہونے دیا۔ خود بھوکی اور پیاسی رہتی تھیں لیکن بچوں کو سیر و سیراب رکھتی تھیں ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اپنے بچوں کی تربیت کے مسئلے ميں اس طرح سے عمل کرتی تھیں کہ ان کے بچے کمال کی تلاش اور کمال حاصل کرنے کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے ساتھ مہربان اور ہمدرد رہیں اور خاندانی روابط میں باہمی میل جول اور احترام کو مد نظر رکھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کا خاص احترام کرتے تھے ۔ اور اپنی بہن زینب سلام اللہ علیھا سے بیحد محبت کرتے اور ان کا احترام کرتے تھے ، باوجودیکہ حضرت امام حسین علیہ السلام سے چھوٹی تھیں ان کی تعظیم ميں اٹھ جایا کرتے تھے ۔ اس طرح سے بچے کی جسمانی اور روحانی تربیت میں ماں کا کردار انتہائي اہمیت کا حامل ہے لیکن مغربی دنیا اس کردار کو معمولی قرار دے کر حقیقت میں اپنی آئندہ کی نسل اور معاشرے پر ظلم کررہی ہے ۔
یوم مسلح افواج کے موقع پر صدر مملکت روحانی کا خطاب
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران کی مسلح افواج، اسلام پسندی،وطن پرستی اور عوامی حکمرانی کا مظہر ہیں۔ صدر مملکت نے یوم مسلح افواج کی مناسبت سے دارالحکومت تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی(رہ) کے مزار مقدس کے اطراف میں مسلح افواج کی فوجی پریڈ کے موقع پر اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ایران کی مسلح افواج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سخت ترین ایام میں بھی اپنے نظام، وطن اور ملک کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا اور مسلط کردہ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران سینہ سپر بنی رہی اور عزت و شرف اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے فریضے پر مکمل عمل کیا۔انھوں نے کہا کہ مسلح افواج نے جنگ کے ہر شعبے نیز سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے جنگی منصوبوں میں بھی بھرپور تعاون کیا اور دشمنوں کے مقابلے میں پائمردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہر قسم کی جارحیت کا جواب دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب ڈاکٹر حسن روحانی نے یوم مسلح افواج کو ایرانی قوم کی قوت، اسلامی اور فداکار مسلح افواج سے عوام کی وابستگی کا دن قرار دیا اور کہا کہ یوم مسلح افواج ، مسلح افواج میں اتحاد و يکجہتی اور نشاط و شادابی کا دن ہے۔صدر مملکت جناب ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ اگر اس وقت، ایران کے سیاسی حکام و سفارتکار ڈیپلومیسی اور سیاسی مہم کے میدان میں سرگرم عمل ہوتے ہوئے عالمی طاقتوں کے ساتھ منطقی مذاکرات اور شجاعت و بہادری کے ساتھ اپنے ملک کے مفادات کا دفاع کررہے ہیں تو اس کے پیچھے ایرانی عوام کی رائے و حمایت، رہبر انقلاب اسلامی کی ہدایت و رہنمائی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا اقتدار، کار فرما ہے۔انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مذاکرات میں پوری دنیا کو اس بات کا پیغام دیا ہے کہ ایرانی حکومت اور عوام، منطق کے حامی اور جنگ وجارحیت کے خلاف ہیں جنھوں نے کبھی کسی ملک کو جارحیت کا نشانہ نہیں بنایا ہے اور ایران کے خلاف انجام پانے والی ہر طرح کی جارحیت کا منھ توڑ جواب دیا ہے اور ایران کے پڑوسی ملکوں کو اس بات کو جان لینا چاہیئے کہ ایران کی مسلح افواج، پورے علاقے میں امن و استحکام کی حامی ہیں اور علاقے کے وہ تمام ممالک، جو امن و استحکام کے خواہاں ہیں، انھیں چاہیئے کہ ایران کی مسلح افواج پر بھروسہ کریں۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایران کا اسلامی جمہوری نظام، شجاع و بہادر فوج رکھنے کے باوجود کسی بھی طاقت کو جارحیت کا مظاہرہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیگا ۔ قابل ذکر ہے کہ اٹھارہ اپریل کی تاریخ، اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم مسلح افواج سے مناسبت رکھتی ہے۔
پرامن جوہری ٹکنالوجی ،اسلامی تہذيب و تمدن ميں سنگ میل
ایران کے دارلحکومت تہران کے آج کے خطیب نماز جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین کاظم صدیقی نے پرامن جوہری ٹیکنالوجی کو اسلامی تہذیب و تمدن میں سنگ میل سے تعبیر کیا۔ انھوں نے مختلف شعبوں منجملہ زراعت و میڈیکل کے شعبوں میں پرامن جوہری ٹیکنالوجی سے متعلق ایران کی ضروریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی جوہری دانشوروں نے خدا و دین اسلام پر اپنے مکمل ایمان و یقین کی بدولت، علم و صنعت کی چوٹیوں کو سر کیا۔ خطیب نماز جمعہ حجۃ الاسلام والمسلمین کاظم صدیقی نے کہا کہ ایرانی قوم نے امید و آزادی کی بنیاد پر تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود استقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنی سعی و کوشش سے مقامی توانائی کی بنیاد پر جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیشرفت کرکے مشرق و مغرب کو حیرت زدہ کردیا۔انھوں نے پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایران کے موقف اور رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ کہا کہ تہران، پرامن جوہری توانائی کے سلسلے میں اپنے منطقی موقف سے ہرگز پسپائی اختیار نہیں کریگا۔ خطیب نماز جمعہ تہران حجۃ الاسلام والمسلمین کاظم صدیقی نے دختر گرامی پیغمبر اسلام حضرت فاطمہ زہرا(س) کی ولادت باسعادت اور یوم مادر و روز زن نیز خواتین کے حقوق کی رعایت کے بارے میں مغربی ملکوں کے دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ملکوں کی جانب سے خواتین کے حقوق کے سلسلے میں خلاف ورزی کے علاوہ کسی اور چیز کا مشاہدہ نہیں کیا گيا اور وہ ان حقوق کو صرف ایک حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔انھوں نے ایران میں یوم مسلح افواج اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی یوم قیام کی مناسبت سے مبارکباد بھی پیش کی۔