Super User

Super User

رہبر معظم سے جوہری ادارے کے سربراہ اور اہلکاروں کی قومی جوہری دن کی مناسبت سے ملاقات

۲۰۱۴/۰۴/۰۹- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قومی جوہری دن کی مناسبت سے ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ، مدیروں،دانشوروں ،سائنسدانوں اور ماہرین کے ساتھ ملاقات میں ملک کےجوہری شعبہ میں ترقیات اور نتائج کو ملک میں قومی خود اعتمادی کی تقویت اور دیگر علمی و سائنسی ترقیات کا مظہر قراردیا اور اسلامی جمہوریہ ایران و گروپ1+5 کے درمیان مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے بارے سامراجی اور دشمن محاذ کی طرف سے معاندانہ رفتار ختم کرنے کے پیش نظر مذاکرات کرنےکے سلسلے میں موافقت کی گئی تھی اور ان مذاکرات کو جاری و ساری رہنا چاہیے اور یہ بات بھی سبھی کو جان لینی چاہیے کہ جوہری تحقیق اور فروغ کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی سرگرمیاں کسی صورت میں متوقف نہیں ہوں گي اور نہ ہی ایران کے جوہری تحقیقاتی پروگرام میں سے کسی کو بندکیا جائےگا اور اس کے ساتھ ہی ایران اور بین الاقوامی جوہری ادارے کے روابط بھی متعارف اور معمول کے مطابق ہونےچاہییں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملاقات کے آغاز میں بیس فروردین ماہ مطابق 9 اپریل قومی جوہری دن کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور ملک کے سرکاری کلینڈر میں اس دن کے ثبت کو ملک کے جوہری شعبہ میں سرگرم ماہرین اور سائنسدانوں کی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ قراردیا اور جوہرے ادارے کے فداکار اور مجاہد شہداء کی تجلیل کرتے ہوئے فرمایا: اگر چہ جوہری علم و دانش سے صنعت، تجارت، صحت، زراعت اور خوراک کی سکیورٹی کے سلسلے میں استفادہ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں جوہری علم و دانش کا سب بڑا فائدہ قومی خود اعتمادی کی تقویت پر مبنی تھا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوموں پر تسلط پیدا کرنے اور ان کے حقوق پامال کرنے کے سلسلے میں قدیم اور جدید استعمار کے اہم طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن کے اس مکر و فریب کو جو عامل باطل کرے وہ عامل ایک قوم کی ترقی اور عظيم حرکت کا اصلی عامل ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے ابتدائی دور میں ہی ایران کو پسماندہ اور کمزور ملک قرار دینے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں اور سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے مد مقابل ، نیز ملک کی سیاسی مدیریت کو مقہور بنانے اور بلند مدت پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے سلسلے میں دشمن نے بہت زيادہ تلاش و کوشش کی اور یہ تلاش و کوشش دشمن کے بہت سے منصوبوں کا حصہ ہے لیکن سامراجی محاذ کو اس سلسلے میں آج تک کوئي کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور آئندہ بھی اسے کوئي کامیابی نصیب نہیں ہوگي۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سطح پر ایران کے خلاف ماحول کو سازگار بنانے اور رائے عامہ ہموار کرنےکے لئے عام بہانہ تلاش کرنے کو انقلاب اسلامی کے مقابلے میں دشمن کا ایک اور مکر و فریب قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کا ایٹمی معاملہ اس کا ایک واضح نمونہ ہےجس کے بارے میں دشمن نے پروپیگنڈہ کرنے کی بہت تلاش و کوشش کی اور ایرانی نظام کے خلاف دل کھول کر جھوٹا پروپیگنڈہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حتی اب جبکہ شرعی، عقلی اور سیاسی حکم کے پیش نظر واضح ہوگیا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاربنانے کی تلاش و کوشش میں نہیں ہے، پھر بھی امریکی حکام جب بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو وہ صراحت کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کو بیان کرتے ہیں جبکہ انھیں خود اچھی طرح یقین ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں کی تلاش میں نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس جھوٹے اور غلط پروپیگنڈہ سے ان کا مقصد ایران کی خلاف عالمی رائے عامہ کو باقی رکھنا ہے اور اسی بنیاد پر نئی حکومت کے پروگرام کے مطابق ایٹمی معاملے پر مذاکرات کے سلسلے میں موافقت کی گئي تاکہ عالمی سطح پر پیدا کی گئي غلط فہمی اور جھوٹے پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جاسکے اور فریق مقابل سے اس بہانہ کو سلب کیا جاسکےاور عالمی رائے عامہ کے لئے حقیقت بھی روشن اور مشخص ہوجائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ مذاکرات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایران اپنی جوہری تحقیقات سے پیچھے ہٹ جائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اب تک جو جوہری ترقیات اور نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ درحقیقت ایرانی قوم کے لئے بشارت اور خوشخبری ہیں کہ ایرانی قوم علم و ٹیکنالوجی کی بلند ترین چوٹیوں کو فتح کرسکتی ہے۔لہذا ملک میں جوہری حرکت کسی بھی صورت میں نہ متوقف ہوگی اور نہ ہی سست ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی مذاکراتکاروں کو سفارش کرتے ہوئے فرمایا: جوہری فروغ و تحقیق کے اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہیں اور ملک کے کسی بھی جوہری تحقیقیپروگرام کو بند یا ختم نہیں کیا جائےگا اور کسی کو اس کے بارے میں معاملہ کرنے کا بھی کوئي حق نہیں ہے اور نہ ہی کوئي ایسا کام کرےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوہری سائنسدانوں اور ماہرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: جس راستے کو آپ نے شروع کیا ہے اس پر قدرت ، طاقت اور سنجیدگی کے ساتھ گامزن رہیں کیونکہ ملک کو اس وقت سائنس و ٹیکنالوجی اور جوہری شعبہ میں پیشرفت اور ترقی کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اگر جوہری شعبہ میں علمی حرکت اسی قدرت اور طاقت کے ساتھ جاری رہے تو سرعت کے ساتھ مختلف قسم کی ٹیکنالوجیاں حاصل ہوں گی، لہذا جوہری شعبہ میں علمی حرکت نہ متوقف ہوسکتی ہے اور نہ ہی سست ہوسکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے جوانوں کی صلاحیتوں کے پیش نظر مختلف ٹیکنالوجیوں کے حصول کو ممکن قراردیتے ہوئے فرمایا: جس میدان میں بھی بنیادی تعمیری وسائل موجود ہوں اس میدان میں ہمارے سائنسداں اور ماہرین حیرت انگیز کارنامے انجام دینے کے لئے تیار ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں چند سال قبل تہران کے تحقیقاتی ری ایکٹر کے ایندھن کے لئےدو ممالک کے ساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس دور میں ایندھن کی تیاری کے لئے ایک فارمولہ تیار کیا گیا لیکن امریکیوں نے اپنے دوست ممالک اور اسی طرح جنوبی امریکہ کے ایک ملک سے جو کچھ کہہ رکھا تھا اور بعض ہمارے حکام کو بھی یقین دلادیا تھا اس کے برخلاف انھوں نے اس کام میں خلل ایجاد کیا اور یہ تصور کرلیا کہ انھوں نے ایران کو مکمل طور پر مشکل میں ڈالدیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں نے اس دور میں بھی پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ امریکہ اس معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتا اور بعد میں سب نے دیکھ لیا کہ جب معاہدہ عمل کے مرحلے میں پہنچ گیا تو اس وقت امریکہ نے اسے عملی جامہ پہنانے سے روک دیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے جوہری سائنسدانوں کے عزم و ولولہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسی دور میں ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین نے اعلان کیا کہ وہ تہران ری ایکٹر کے لئے ایٹمی ایندھن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مغربی ممالک نے مذاق اڑایا، لیکن ہمارے جوانوں نے اس کام کو طے شدہ مدت سے بھی کم عرصہ میں پایہ تکمیل تک پہنچا کر دشمنوں کو مبہوت کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی دفاعی اور بایو ٹیکنالوجی کو ملک کے جوانوں کی صلاحیتوں اور توانائيوں کےدیگر نمونے قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران کے جوہری ادارے کے تمام شعبوں میں اس جذبہ اور ولولہ کی حفاظت بہت ضروری ہے اور ایران کے جوہری ادارے کو اپنی تحقیقات اور علمی نتائج کے بارے میں بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی حکام کو بھی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی حکام کو بھی ایرانی سائنسدانوں کی علمی کاوشوں اور علمی نتائج کے بارے میں دقت سے کام لینا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاملے کے فائدہ اور اخراجات کے سلسلے میں ملک کے اندر موجود بعض نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایٹمی معاملے کے بارے میں ایسے نظریات سادہ اندیشی پر مبنی اور غیر شعوری ہیں کیونکہ اگر بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ پابندیاں جوہری پروگرام اور ایٹمی تحقیقات کی وجہ سے ہیں تو انھیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ایٹمی معاملے کے ظہور سے پہلے بھی موجود تھیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس دور میں جب ایٹمی بہانہ نہیں تھا ایک مغربی عدالت نے ایران کے صدر کے خلاف غائبانہ مقدمہ درج کیا لیکن اب ملکی اقتدار کے باوجود وہ ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک کی طرف سے پابندیاں اور دباؤ ایٹمی معاملے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ وہ ایرانی قوم کے استقلال، اسلامی تشخص، ایمان اور اسی طرح ایرانی قوم کے درخشاں اور تابناک مستقبل کے خلاف ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: لہذا یہ جو کہا جاتا ہے کہ ایران کو ایٹمی معاملے کی وجہ سے پابندیوں اور دباؤ کا سامنا ہے صحیح بات نہیں ہےکیونکہ اگر ایٹمی معاملہ بھی نہ ہوتا تب بھی وہ کوئی دوسرا بہانہ تلاش کرلیتے۔، جیسا کہ اب بھی امریکیوں نے مذاکرات کے دوران ہی انسانی حقوق کو بہانہ بنالیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر انسانی حقوق کا مسئلہ بھی حل ہوجائے تو وہ کوئی اور مسئلہ اور بہانہ تلاش کرلیں گے لہذا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم دوسروں کے دباؤ میں نہ آئیں اور اپنی علمی و سائنسی پیشرفت و ترقی کو قدرت اور طاقت کے ساتھ جاری رکھیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کو جوہری دائرے کے اندر جاری رکھنے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے ملک کے مذاکراتکاروں کو فریق مقابل کےکسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کرنا چاہیے اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ روابط اور تعلقات کو بھی متعارف اور معمول کے مطابق ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جوہری ماہرین اور دانشوروں کی علمی و سائنسی کاوشوں اور نتائج کو ان کے اللہ تعالی پر ایمان و توکل اور ذمہ داری کے احساس کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ہم اس ایمان کے نتیجے میں الہی ہدایت اور قابل توجہ پیشرفت کا مشاہدہ کررہے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے روزافزوں ترقیات و پیشرفت کو جاری رکھنے کی توقع اور امید کا اظہار کیا اور جوہری ادارہ کے موجودہ اہلکاروں منجملہ جوہری ادارے کے سربراہ ڈاکٹر صالحی اور اسی طرح گذشتہ اہلکاروں کی کوششوں اور زحمتوں کا شکریہ ادا کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ جناب ڈاکٹر صالحی نے جوہری ادارے میں انجام پانے والے اقدامات اور جوہری پیشرفت کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔

ڈاکٹر صالحی نے ملک میں بجلی کی پیداوار اور انرجی کی ضروریات اور اس کے ساتھ صنعت ، زراعت ، صحت اور دیگر مختلف شعبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کو جوہری ادارے کی اصلی اور اسٹراٹیجک ذمہ داری قراردیتے ہوئے کہا: حالیہ برسوں میں ایٹمی ایندھن کی تیاری ایران کے جوہری ادارے کے درخشاں کارناموں میں شامل ہے۔

ڈاکٹر صالحی نےملک کی جوہری ترقیات اور مختلف شعبوں میں تحقیق اور توسعہ اور جدید ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : یورینیم کے جدید وسائل کی شناخت اور ہوائی و زمینی اکتشافات جوہری ادارے کے دیگر اقدامات میں شامل ہیں۔

بوشہر سائٹ میں بجلی کےجدید یونٹوں کی تعمیر اور دارخوین کے بجلی پلانٹس کی پیشرفت دیگر موارد تھے جن کی طرف ڈاکٹر صالحی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا: آج جوہری ٹیکنالوجی کے دن کی مناسبت سے اراک کے تحقیقاتی ری ایکٹر میں آسوٹوپ آکسیجن18 کے تعمیری یونٹ کا آغاز ہوگيا ہے۔

رہبر معظم سے آذربائیجان کے صدر الہام علی اوف کی ملاقات

۲۰۱۴/۰۴/۰۹ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آذربائیجان کے صدر الہام علی اوف کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی ، مذہبی ،ثقافتی تعلقات اور ہمسائیگي کو دونوں قوموں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے سلسلے میں مؤثر اور اہم عامل قراردیتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدوں کو سیاسی عزم اور سنجیدگی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے اور دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے مخالفین کی سازشوں کو سیاسی عزم کے ساتھ ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور دونوں قوموں اور دونوں حکومتوں کے باہمی روابط کو روز بروز مضبوط اور مستحکم کرنے کی تلاش و کوشش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام اور ان کے عقائد کے ساتھ گہرے استحکام کو حکومتوں کی کامیابی کا ضامن قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض مذہبی انتہا پسند گروہوں کو اسلامبی مذاہب کے درمیان اختلاف ڈالنے اور قومی اتحاد کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران اور آذربائیجان کے صدور کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات اور دونوں ممالک کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کی تشکیل کو مطلوب اور پسندیدہ اقدام قراردیتے ہوئے فرمایا: دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارتی تبادلہ فریقین کے وسیع وسائل اور ظرفیتوں کے پیش نظر بہت کم ہے اس سفر کےاقتصادی اور علاقائی تعاون میں سنگ میل ثابت ہونے کی توقع کی جاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طرفین کے سیاسی عزم و ارادہ اور سنجیدگی کو باہمی روابط کے فروغ کے لئے بہت ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: بعض ممالک منجملہ غاصب صہیونی حکومت ، ایران اور آذربائیجان کے باہمی مضبوط روابط کے فروغ سے خوشحال نہیں ہیں اور وہ اس سلسلے میں مسلسل و پیہم خلل ایجاد کررہے ہیں لیکن سیاسی عزم و پختہ ارادے کے ساتھ ان کے تخریبی اقدامات کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

اس ملاقات میں صدر حسن روحانی بھی موجود تھے، جمہوریہ آذربائیجان کے صدر جناب الہام علی اوف نے بھی ایران کے سفر پر خوشی و مسرت کا اظہار کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کو بہت ہی مفید اور تعمیری قراردیتے ہوئے کہا: ایران اور آذربائیجان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کا کام آج ہی سے آغاز ہوگیا ہے اور یہ سفر صنعت، تجارت، روڈ و ٹرانسپورٹ ،سیاحت اور دیگر مختلف شعبوں میں باہمی روابط کے فروغ میں اہم ثابت ہوگا۔

آذربائیجان کے صدر نے مذہبی انتہا پسندی کو دونوں ممالک کے لئے مشترکہ خطرہ قراردیا اور ایران و آذربائیجان کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی روابط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آذربائیجان ایران کے ساتھ تمام شعبوں میں روابط کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔

آذربائیجان کے صدر نے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سرپرستی میں علاقہ اور عالمی سطح پر ایران کی مستقل پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم ایران کے اقتدار کو اپنا اقتدار سمجھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور مضبوط روابط ،دوسروں کو منفی اثرات قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اہلسنت کی جانب سے حکومت کےمنصوبوں کی حمایتایران کے اہلسنت، حکومت کے منصوبوں کی بھرپورحمایت کرتے ہيں

جنوب مشرقی ایران میں واقع شہرزاہدان کے اہلسنت امام جمعہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے منصوبوں کی حمایت پرتاکید کی ہے۔

ارنا کی رپورٹ کےمطابق زاہدان کے اہلسنت امام جمعہ اور مدرسہ دارالعلوم کے سربراہ مولوی عبدالحمید اسماعیل زھی نے نماز جمعہ کے خطبے میں کہا کہ صوبہ سیستان وبلوچستان کے ہرطبقے کے عوام بالخصوص اہلسنت، حکومت کےمنصوبوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کومستحکم کرنے کےلئے اس کے منصوبوں کی ہمہ گیرحمایت کرتے ہیں۔

مولوی عبدالحمید اسماعیل زہی نے صدرمملکت ڈاکٹر حسن روحانی کے آئندہ دورہ سیستان وبلوچستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرحسن روحانی کا دورہ نہایت اہم ہوگا اور یقینا مختلف پہلوؤں سے نتیجہ خیزثابت ہوگا۔

آیت اللہ حکیم: پاکستان کے عوام اسلام پسند، آزادی پسند اور دین دوست ہیں

رپورٹ کے مطابق بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمٰی سید سعید الحکیم نے پاکستانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں پاکستان کے پیروان ولایت سے واقف ہوں، پاکستان کے عوام اسلام پسند، آزادی پسند اور دین دوست ہیں، اگرچہ شیعیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف تکفیری فرقہ برسرپیکار ہے لیکن پاکستان کے غیور شیعہ اور سنی مسلمان ہمیشہ ان کے عزائم کے مقابلے میں کھڑے رہے اور استقامت دکھاتے رہے۔

آیت اللہ العظمٰی سید سعیدالحکیم نے کہا کہ تاریخی طور پر سلفی تکفیری ہمیشہ اسلامی مقدسات کے خلاف متحرک رہے اور شروع سے ہی رسول پاک (ص) اور اُن کی آل پاک (ع) کے آثار کو مٹانے کے درپے رہے، لیکن مسلمانوں نے اپنے اتحاد سے اُنہیں ہمیشہ ناکام بنایا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں ان کے مقابلے کے لیے شیعہ سنی اتحاد اور بھائی چارے کو آگے بڑھانے کی ہمیشہ ضرورت رہی اور آج یہ ضرورت دوچند ہوگئی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کو میری طرف سے سلام کہہ دیجئے گا۔

عمار حکیم، سید مقتدی صدر سیاست میں واپس آئیںمجلس اعلائے اسلامی عراق کے سربراہ سید عمار حکیم نے معروف سیاسی رہنما مقتدی صدر سے اپیل کی ہے کہ سیاست میں واپس آجائيں۔ عمار حکیم نے کہا ہے کہ سید مقتدی صدر کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرکے سیاسی میدان میں دوبارہ آجانا چاہیئے۔ سید عمار حکیم نے مقتدی صدر کو ایک نہایت اہم سیاسی رہنما قرار دیا اور کہا کہ ملک میں سیاسی، عوامی اور قانونی سازی نیز اجرائي سطح پر ان کی موجودگي کا نہایت گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقتدی صدر کو اپنے ملک و ملت کے تعلق سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے سیاسی فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیئے۔واضح رہے کہ صدر گروہ کے لیڈر مقتدی صدر نے کچھ دنوں قبل سیاست سے علیحدگي کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ شہید سید محمد باقرالصدر اور سید محمد صادق الصدر کے خاندانوں کی شان کو محفوظ رکھنے کےلئے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں۔

Wednesday, 09 April 2014 06:18

تحفظ پاکستان بل منظور

تحفظ پاکستان بل منظورپاکستان کی قومی اسمبلی نے تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014 ترامیم کے ساتھ منظور کرلیا ہے جس میں قومی سلامتی کو درپیش خطرات وضع کیے گئے ہیں جبکہ دہشتگردی کے خلاف تیز رفتار ٹرائل کیلئے بھی قانون سازی کی گئی ہے۔ اسلام آباد سے ہمارے زرائع کے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں تحفظ پاکستان ترمیمی بل 2014 پیش کیا گیا جس میں تحفظ پاکستان بل 2013 کی شقیں بھی شامل تھیں۔ تحفظ پاکستان بل کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف مقدمات کے ٹرائل کو تیز کیا جائیگا، دہشتگردی کے مقدمے کی تفتیش مشترکہ ٹیم کرے گی اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کیلئے خصوصی عدالتیں بھی قائم ہوں گی جبکہ بل کے تحت سزا یافتہ شخص کو ملک کی کسی بھی جیل میں رکھا جاسکے گا۔ بل میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی مشتبہ دہشتگرد کو نوے روز کیلیے حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔ بل کے مطابق مقدمے کی کارروائی آئین کے آرٹیکل 10 کے متصادم نہیں ہوگی جبکہ خصوصی عدالت کے فیصلے کیخلاف 15 دنوں میں سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔

رہبر معظم نے صحت کی کلی پالیسیوں کا ابلاغ کردیا

۲۰۱۴/۰۴/۰۷ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے بنیادی آئين کی دفعہ 110 کی شق ایک کے نفاذ کے سلسلے میں مجمع تشخیص مصلحت نظام کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد صحت و سلامتی کی کلی پالیسیوں کا ابلاغ کردیا ہے۔

رہبر معظم نےصحت کی کلی پالیسیوں کے متن کو تینوں قوا کے سربراہان اور مجمع تشخيص مصلحت نظام کے سربراہ کو ابلاغ کردیا ہے۔ کلی پالیسیوں کا متن حسب ذیل ہے:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحت کی کلی پالیسیاں

1۔ اسلامی اور انسانی اقدار کی بنیاد پر تعلیم ، تحقیق، صحت ، علاج، اور صحت کی بحالی کے سلسلے میں خدمات پیش کرنا اور اسے معاشرے میں فروغ دینا

1۔1۔ اساتید، طلباء اور مدیروں کے لئے تعلیم و تربیت ، تشخیص اور انتخاب کے نظام کے سلسلے میں ارتقاء اور اسلامی و طبی اخلاق و آداب کے اقدار کے متناسب یونیورسٹی اور علمی ماحول میں تغیر و تحول۔

1۔2۔ عوام کو اپنی سماجی ذمہ داریوں اور حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور معاشرے میں اسلامی اخلاق و معنویت کے فروغ کے سلسلے میں حفظان صحت کے مراکز کی ظرفیت سے استفادہ کرنا۔

2۔ تمام قوانین میں صحتمند انسان اور صحت کے جامع نظام پر توجہ، اجرائی پالیسیوں اور قوانین و مقررات کی رعایت۔

2۔1۔ علاج و معالجہ سے پہلے بیماری کی روک تھام پر توجہ۔

2۔2۔ صحت اور علاج کے پروگراموں کو وقت کے مطابق قراردینا۔

2۔3۔ معتبر علمی شواہد کے پیش نظر صحت کو لاحق خطرات اور بیماریوں کو کم کرنے پر توجہ

2۔4۔ بڑے اور جامع منصوبوں کے لئے صحت کا پروگرام تیار کرنا۔

2۔5۔ جنوب مغربی ایشیائی علاقہ میں پہلا مقام حاصل کرنے کے لئے صحت کے معیاروں کے ارتقاء پر توجہ۔

2۔6۔ نگراں سسٹمز کی اصلاح و تکمیل، عوام اور بیماروں کے حقوق کی حفاظت کے لئےنگرانی ، تشخیص اور کلی پالیسیوں کا صحیح نفاذ۔

3۔ اسلامی و ایرانی زندگی کی ترویج کے ساتھ معاشرے کی نفسیاتی صحت و سلامتی کا ارتقاء، خاندانی بنیاد کا استحکام، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کشیدگی پیدا کرنے والے عوامل کا خاتمہ ، اخلاقی و معنوی تعلیم کی ترویج اور نفسیاتی صحت کے معیاروں کے ارتقا پر توجہ۔

4۔ دواؤں، ویکسین،، حیاتیاتی مصنوعات اور بین الاقوامی معیاروں کے مطابق طبی وسائل و آلات کی پیداوار کے لئے خام مال کی تیاری کے سلسلے میں بنیادی ڈھانچوں کے استحکام پر توجہ۔

5۔ ڈیمانڈ اور مطالبہ کی تنظیم،غیر ضروری مطالبات کی روک تھام، اور طبی ہدایات اور نظام کی بنیاد پر تجویز کی اجازت، ملک کے قومی دوائی اور کلی منصوبے ، پالیسی سازی اوربرآمدات کے فروغ اور قومی پیداوار کی حمایت کے مقصد کے تحت دواؤں کی پیداوار ، استعمال ، ویکسین ، حیاتیاتی مصنوعات اور طبی وسائل و آلات کی پیداوار اور درآمدات پر مؤثر نگرانی۔

6۔ غذا و خوراک کی سکیورٹی پر توجہ، صحتمند ، مطلوب اور کافی غذا سے تمام افراد کو منصفانہ طور پر بہرہ مند بنانے پر توجہ، صاف پانی و ہوا، اور بین الاقوامی و علاقائي اور قومی معیاروں کی رعایت کے ساتھ سب کے لئے طبی مصنوعات اور کھیل کے وسائل کی فراہمی پر توجہ۔

7۔ ذمہ داریوں کی تقسیم، جوابدہی اورضروریات کو پورا کرنے کے مقصد کے تحت صحت کے شعبہ میں مالی خدمات اور وسائل کی فراہمی پر توجہ، مندرجہ ذيل طریقہ سے عوام کو انصاف پر مبنی طبی سہولیات کی فراہمی پر تاکید:

7۔1۔ اجرائی پالیسیوں پر مشتمل نظام صحت، مؤثر اور اسٹراٹیجک منصوبہ بندی، وزارت صحت کی جانب سے نگرانی اور تشخيص پر توجہ۔

7۔2۔ وزارت صحت کے محور پر بیمہ سسٹم کے ذریعہ صحت کے وسائل کی مدیریت،اور اس سلسلے میں تمام مراکز اور اداروں کا تعاون۔

7۔3۔ حکومتی، عمومی اور نجی شعبوں میں خدمت کرنے والوں کے ذریعہ خدمات کی فراہمی

7۔4۔ مذکورہ امور کی ترتیب و تنظیم اور ہمآہنگی کو قانون کے مطابق ہبنانا۔

8۔ طبی خدمات کی کیفیت، بہبود اور حفاظت میں اضافہ،اور عدل و انصاف کی بنیاد پر صحت و علاج کے منصوبوں کی دیکھ بھال،اور مندرجہ ذیل طریقہ سےگریڈنگ سسٹم کے مطابق جوابدہی، شفاف سازی ، اطلاع رسانی،تاثیر،کارکردگي ، پیداوار پر تاکید:

8۔1۔ حفظان صحت، تعلیم اور خدمات کے سلسلے میں صحت کے جامع معیاروں اور ہدایات کے ساتھ سائنسی اور علمی نتائج کی بنیاد پر اقدام اور فیصلہ کی ضرورت اور نظام صحت کے ارتقاء اور بیماریوں کی روک تھام اور خدمات کے سسٹم کی درجہ بندی اور پھر اس کے طبی تعلیمی نظام میں ادغام پر تاکید۔

8۔2۔ طبی ہدایات اور معیاروں کی ترجیحات اور قیام کے ساتھ حفظان صحت کی خدمات کی کیفیت میں اضافہ پر توجہ۔

8۔3۔ جانبازوں اور معذوروں کی بحالی صحت اور ان کی توانائی کے فروغ کے لئے جامع حمایتی اور مراقبتی پروگرام کی تدوین۔

9۔ صحت و علاج کے بیموں کے معیاروں اور مقدار کے فروغ پر تاکید:

9۔1۔ علاج کے بیمہ کو ہمہ گیر بنانے پر توجہ۔

9۔2۔ معاشرے کے ہر فرد کے لئے بیموں کے ذریعہ مکمل علاج ، اور علاج و معالجہ کے اخراجات میں اتنی کمی کہ بیمار کوصرف بیماری کا درد ہو کوئي اور درد و رنج محسوس نہ ہو ۔

9۔3۔ قانونی دستورات کے دائرے میں تکمیلی بیمہ کو بنیادی بیمہ سے مزید خدمات پیش کرنا جو ہمیشہ صاف و شفاف خدمات اور علاج کا آئینہ دار ہو۔

9۔4۔ وزارت صحت کی جانب سے بنیادی اور تکمیلی بیموں میں صحت اور علاج کے پیکیج کا تعین اور بیموں کی طرف سے اس پیکیج کی خریداری اور پیکیجوں کے نفاذ و اجراء پر دقیق نگرانی اور معائنہ میں غیر ضروری اخراجات کے حذف کا اقدام اور علاج تک بیماری کی تشخيص پر توجہ۔

9۔5۔ علاج کے انشورنس کی خدمات پیش کرنے کے سلسلے میں رقابتی بازار کی تقویت۔

9۔6۔ حکومتی اور غیر حکومتی شعبوں میں افزودہ قدر کی بنیاد پر اور موجود شواہد کی روشنی میں صحت کی دیکھ بھال اور طبی خدمات کے نرخوں کی تدوین۔

9۔7۔پسماندہ علاقوں میں بیماری کی روک تھام، صحت کے ارتقاء کے سلسلے میں فعالیتوں پر خاص توجہ اور خدمات پیش کرنے والے اداروں کی مثبت حوصلہ افزائی اور منصفانہ درآمد کی ایجاد ، کارکردگی اور عملی کیفیت پر مبنی ادائیگی کے سسٹم میں اصلاح پر توجہ۔

10۔ صحت کے شعبہ میں پائدار مالی وسائل کی فراہمی پر توجہ:

10۔1۔ درآمدات، اخراجات اور طبی فعالیتوں کو قانونمند طور پر شفاف بنانے پر تاکید۔

10۔2۔ حکومتی بجٹ اور ناخالص داخلی پیداوار سے طبی خدمات پیش کرنے میں متناسب کیفیت کا ارتقاء ،طویل مدت پالیسی کے اہداف کو محقق کرنے اور علاقائی ممالک کے اوسط درجہ سے بالاتر رہنے کے لئے صحت کے بجٹ میں اضافہ پر تاکید۔

10۔3۔ صحت کے لئے مضر محصولات، مصنوعات ، مواد اور خدمات پر ٹیکس میں اضافہپر تاکید۔

10۔4۔ کم درآمد ، ضرورتمند طبقات اور پسماندہ علاقوں میں صحت کے مسائل پر توجہ دینے اور انصاف کی فراہمی کے لئے صحت کے شعبہ میں دی جانے والی سبسیڈی کو بامقصد بنانے اور مزید سبسیڈی ادا کرنے پر تاکید۔

11۔ وزارت صحت کی نگرانی میں ملکی ذرائع ابلاغ، تعلیمی ، ثقافتی اداروں کی ظرفیتوں سے استفادہ کرتے ہوئےنظام صحت کے ارتقا اور حفاظت کے سلسلے میں معاشرے ، خاندان اور ہر فرد کی آگاہی ، ذمہ دار ی ، توانمندی اور شراکت پر تاکید۔

12۔ ایران کے سنتی طب کی پہچان، ترویج، تشریح اور فروغ کے سلسلے میں ٹھوس اقدام۔

12۔1۔ وزارت زراعت کے تحت جڑی بوٹیوں کی کاشت پر اہتمام اور وزارت صحت کے تحت سنتی مصنوعات اور محصولات کے نتائج ، پیداوار اور علمی فروغ کے اہتمام پر توجہ۔

12۔2۔ طب سنتی اور اس سے مربوط نتائج میں علاج اورتشخیص کے طریقوں کو معیاری اور وقت کے مطابق قراردینے پر توجہ۔

12۔3۔ طب سنتی کے سلسلے میں تمام ممالک کے تجربات پر تبادلہ خیال۔

12۔4۔طب سنتی کی دواؤں اور خدمات پر وزارت صحت کی نگرانی۔

12۔5۔ علاج کے طریقوں اور تجربات میں تعاون کے لئے جدید طب اور سنتی طب کے درمیان منطقی بات چیت اور تبادلہ نظر برقرار کرنے پر تاکید۔

12۔6۔ خوراک اور غذائی شعبہ میں زندگی کی روش میں اصلاح۔

13۔ ملک کے مختلف علاقوں کی ضروریات کے پیش نظراور اسلامی و اخلاقی توانائیوں اور مہارتوں کے پیش نظر کارآمد ، متعہد اور مفید افراد کی تربیت اور بامقصد طور پر طبی تعلیمی نظام کی کمیت و کیفیت کے فروغ پر تاکید۔

14۔ عالم اسلام اور جنوب مغربی ایشیائی ممالک میں ایران کوطبی مرکز میں تبدیل کرنے اور طبی خدمات پیش کرنے اور علوم و فنون میں مرجع بنانے کے حصول کے لئے منصوبہ بندی ، خلاقیت اور مؤثرطبی تحقیق پر تاکید۔

حزب اللہ طاقتورنامزد صدارتی امیدوار کی حمایت کریگیحزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ حزب اللہ اس ملک کے صدارتی انتخابات میں طاقتور اور عزم و ارادے کے حامل نامزد امیدوار کی حمایت کرے گی۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل "سید حسن نصراللہ" کے لبنانی اخبار السفیر کو دیئے گيئے انٹرویو کا دوسرا حصہ کہ جو آج کے السفیر اخبار میں شائع ہوا ہے، حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے اس انٹرویو میں اس بات پر تاکید کے ساتھ کہ لبنان کا عام ماحول ، اس ملک کے صدارتی انتخابات کے انعقاد کا ماحول ہے کہا کہ حزب اللہ ایسے طاقتور نامزد امیدوار کہ جوقومی مفادات کو عملی جامہ پہنائے حمایت کرے گی۔ "سید حسن نصراللہ" نے مزید کہا کہ آج لبنان کے داخلی گروہ ، ہر زمانے سے زیادہ صدارتی انتخابات میں موثر ہیں اور اس وقت لبنان کے نئے صدر کے انتخاب کے لئے ماحول ساز گار ہے۔ حزب لبنان کے سیکریٹری جنرل نے اسی طرح لبنان کی حکومت کی جانب سے اس ملک کے شمال و مشرق میں کیئے جانے والے سیکیورٹی انتظامات کو سراہا۔ "سید حسن نصراللہ" نے وضاحت کی حزب اللہ کی جانب سے حالیہ قومی مذاکرات کے بائیکاٹ کی ایک وجہ ، لبنان کے صدر کا موقف تھا اور اس موقف سے قومی مذاکرات میں "میشل سلیمان" کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ لبنان میں سیاسی مفاہمت اور سیاسی گروہوں کے درمیان حقیقی آشتی کو اہمیت دیتی ہے ، سیاسی گروہوں اور جماعتوں کے درمیان باہمی گفتگو پر تاکید کرتی ہے۔

توہین کرنے کا یورپی پارلیمنٹ کو کوئی حق نہیں پہنچتااسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایران کی غیور و عظیم قوم کی توھین کرے۔ صدارتی پریس نوٹ کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر "حسن روحانی" نے آج نوروز کی مناسبت سے ایران کے اعلی حکام ، ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی شخصیات کے ساتھ ملاقات میں ، ایران کے خلاف یورپی پارلیمنٹ کی حالیہ قرار داد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی قراردادوں کی کوئی اہمیت نہیں اور گذشتہ چار برسوں میں یورپی پارلیمنٹ کی جانب سے ایران کے خلاف حالیہ قرارداد سے زیادہ تند و تیز لہجے پر مبنی 60 قراردادیں جاری کی جاچکی ہیں ، جن کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور کسی نے ان کی طرف توجہ تک نہیں دی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر "روحانی" نے مزید کہا کہ یورپی پارلیمنٹ کی قرارداد کی شقیں مذاکرات اور جوہری پروگرام کے سیاسی راہ حل پر تاکید پر مبنی ہیں کہ جو امریکہ کے بعض حکمرانوں کے "تمام آپشن میز پر رکھے رہنے" جیسے بیانات سے متصادم ہے۔صدر مملکت "حسن روحانی" نے دنیا کے ساتھ ایران تعلقات کے فروغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جوہری مسائل کے حوالے سے جامع سمجھوتے کے حصول کے لئے غیرملکی فریقوں کے ساتھ ایران کی مذاکراتی ٹیم کے مذاکرات پیچیدہ و دشوار ہیں لیکن امید کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان مذاکرات کو متاثر کرنے کے لئے بھی بعض عناصر کوشش کررہے ہیں۔

عظمت حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری کی نظر میں

حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ''' انا اعطیناک الکوثر''' کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں ۔اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا ، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے پر فخر کیا جاتا تھا اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نہیں کہتا '' خیر''' بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی ''خیر کثیر'' ۔

حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام گھر کے کاموں کو ایک دوسرے کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے تھے لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ رسول خدا ۖ اس بارے میں اظہار نظر فرمائیں ۔لہذا رسول خدا ۖ سے عرض کرتے ہیں : یا رسول اللہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ فرمائیں گھر کا کون سا کام علی کریں اور کون سا میں انجام دوں ؟ رسول خدا ۖ نے گھر کے کام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے سپرد کئے اور گھر کے باہر کے کاموں کی ذمہ داری علی علیہ السلام کو سونپ دی۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میری خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ میرے بابا نے مجھے گھر کے باہر کے کاموں سے سبکدوش کیا ۔ عالم و با شعور عورت کو ایسا ہونا چاہئے جسے گھر سے باہر نکلنے کی حرص و ہوس نہ ہو ۔

ہمیں دیکھنا چاہئے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کس درجہ بلند ہے؟ ان کے کمالات اور صلاحیتیں کیسی ہیں ؟ان کا علم کیسا ہے ؟ان کی قوت ارادی کس قدر ہے ؟ اور انکی خطابت و بلاغت کیسی ہے؟

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جوانی کے ایام میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اور انکے دشمن اس قدر زیادہ تھے کہ ان کے علمی آثار بہت کم ہم تک پہنچے ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کا ایک طولانی اور مفصل خطاب تاریخ میں ثبت ہوا ہے جسے صرف شیعوں نے ہی نقل نہیں کیا بلکہ بغدادی نے تیسری صدی میں اسے نقل کیا ہے ۔ یہی ایک خطبہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمان عورت خود کو شرعی حدود میں رکھتے ہوئے اور غیروں کے سامنے خود نمائی کئے بغیر معاشرہ کے مسائل میں کس قدر داخل ہو سکتی ہے۔

حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا خطبہ توحید کے بیان میں نہج البلاغہ کی سطح کا ہے ۔ یعنی اس قدر بلند مفاہیم کا حامل ہے کہ فلاسفہ کی پہنچ سے بالاتر ہے ۔ جہاں ذات حق اور صفات باری تعالیٰ کے بارے میں گفتگو ہے وہاں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کائنات کی سب سے بڑی فلسفی محو سخن ہے۔ پھر فلسفہ احکام بیان کرتی ہیں :خداوند عالم نے نماز کو اس لئے واجب کیا ،روزہ کو اس مقصد کے تحت واجب قرار دیا ، حج و امر بالمعروف و نہی از منکر کے وجوب کا فلسفہ یہ ہے ۔ پھر اسلام سے قبل عربوں کی حالت پر گفتگو کرتی ہیں کہ تم عرب لوگ اسلام سے پہلے کس حالت میں تھے اور اسلام نے تمہاری زندگی میں کیسا انقلاب برپا کیا ہے۔ مادی اور معنوی لحاظ سے ان کی زندگی پر اشارہ کرتی ہیں اور رسول خدا ۖکے توسط سے انہیں جو مادی اور معنوی نعمتیں میسر آئیں انہیں یاد دلاتی ہیں اور پھر دلائل کے ساتھ اپنے حق کے لئے احتجاج کرتی ہیں ۔