Super User

Super User

رہبر معظم کی حج کے کارکنوں اور اہلکاروں سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے حج کے کارکنوں اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں حج کو اسلامی معاشرے کے سیاسی، ثقافتی اور معنوی اقتدار کا مظہر قراردیا اور عالم اسلام ، علاقہ کے موجودہ شرائط اور بد طینت دشمنوں کی طرف سے علاقہ میں جنگ افروزی، مسلمانوں میں مذہبی اور علاقائي اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شام کے بارے میں امریکہ کا نیا مؤقف فریب سے دور اور سنجیدگی پر مبنی ہونا چاہیے اور حالیہ ہفتوں میں امریکہ کی یکطرفہ منہ زوری کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حج کےعظیم فریضہ کے دوران مسلمانوں کے درمیان باہمی برادرانہ رفتار کو حج کے حقیقی شرائط میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: قران کریم میں حج کے دوران جدال سے دوری پر تاکید کی گئي ہے اور جدال سے دوری کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں اور دینی بھائیوں کو آپس میں لفظی ، زبانی اور قلبی نفرت سے پرہیز کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: افسوس کا مقام ہے کہ بعض افراد منحرف سوچ کی بنا پر حج کے ایام میں جدال کی غلط تفسیر اس لئے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ مشرکین سے برائت کی تقریب منعقد کرنے پر سوالیہ نشان لگادیں جبکہ کفر و شرک کے ساتھ جدال، اسلام کے بنیادی دستورات میں شامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کو دشمنوں کی طرف سے اختلافات و تفرقہ ڈالنے کی سازشوں کے بارے میں ہوشیار رہنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: دشمن اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوگئے ہیں کہ اسلامی مذاہب کے درمیان اختلافات غاصب صہیونی حکومت کے مفاد میں ہے اور اسی لئے وہ ایک طرف تکفیری گروہوں کی بھر پور حمایت اور دوسری طرف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پروپیگنڈے اور کبھی اسلامی میڈیا حتی شیعہ میڈيا کے ذریعہ مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) اور دیگر بزرگ علماء نے ہمیشہ اسلامی اتحاد کی حفاظت پر تاکید کی ہے لہذا وہ شیعیت جس کی تبلیغ لندن اور امریکہ کے میڈیا کے ذریعہ اختلافات ڈالنے کی غرض سےکی جارہی ہو وہ حقیقی شیعیت نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے درمیان حج کے دوران خالص اسلامی ثقافت کے تبادلے کو حج کے دیگر قوی نقاط اور اسلامی معاشرے کے فروغ اور ترقیات کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کے مخالف میڈيا کی بڑی اور وسیع تعداد کے پیش نظر ، ایرانی حجاج کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسلام اور تشیع کے حقیقی چہرے کو عالم اسلام کے سامنے اپنے عمل اور زبان کے ذریعہ پیش کریں اور اسلامی نظام کی ترقیات اور حقائق کو ان کے سامنے بیان کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمعنویت کی تقویت کو حج کےاصلی اور اہم امور میں قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی پر توکل، مضبوط ایمان، اور اللہ تعالی کے وعدوں پر حسن ظن ، دشوار مراحل سے عبور کرنے اور دشمن کی طاقت کے مقابلے میں خوفزدہ نہ ہونے کے لئے ضروری ہے اور یہ اہم امور حج کے ایام میں حاصل ہوتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امت مسلمہ کے دشمنون کی طرف سے پاکستان، افغانستان ،عراق، بحرین اور شام میں شیعہ و سنی کے بہانے جنگ افروزی اور سیکڑوں بےگناہ افراد کے قتل عام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تسلط پسند طاقتیں بالخصوص امریکہ کو اپنے ناجائز مفادات تک پہنچنے کے لئے دوسرے ممالک میں تباہیو ویرانی پھیلانے اور بے گناہ افراد کے قتل کرنے پر کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔

رہبر معظم کی حج کے کارکنوں اور اہلکاروں سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے حالات اور حالیہ ہفتوں میں علاقہ میں امریکہ کی طرف سے جنگ افروزی کے سلسلے میں دھمکیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ بظاہر اپنے قومی مفادات اور درحقیقت صہیونی حکومت اور بڑے سرمایہ داروں کے مفادات کے لئے دوسرے ممالک اور دوسری قوموں کے حقوق پائمال کرنے کے لئے جنگ افروزی کے لئے تیاررہتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے بارے میں امریکہ کے نئےمؤقف کو مکر و فریب اور سیاسی بازی سے دور اور سنجیدگی پر مشتمل ہونے کی امید و توقع ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: اگر ایسا ہو تو گویا امریکہ اپنے چند ہفتوں کے غلط، منہ زور اور یکطرفہ مؤقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران ، دقت اور ہوشیاری کے ساتھ علاقہ کے حالات پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس حساس علاقہ میں ہم ایک عظیم قوم ہیں اور ہمیں اپنے اعلی انسانی اور اسلامی اہداف کو اسلام کی بنیاد پر دوسروں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور دنیا کو اسلام کے اعلی انسانی اصولوں کی طرف راغب ہونے کی دعوت دینی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلام کے نتائج کی بنیاد پر حرکت کے لئے قوم کے اندرونی اقتدار کی ضرورت ہے جو پختہ ایمان، عوام کے باہمی اتحاد، حکام کی صحیح کارکردگی، عوام اور حکام کے درمیان ہمدلی و ہمدردی اور اللہ تعالی پر توکل و بھروسہ کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے۔

رہبر معظم کی حج کے کارکنوں اور اہلکاروں سے ملاقات

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عقل، معنویت، توکل، حرکت اور عمل کو اندرونی اقتدار کی ساخت کے لئے پانچ بنیادی عناصر قراردیتے ہوئے فرمایا: اس راہ پر اسلامی نظام کی حرکت اس کے روزافزوں اقتدار کا باعث اور علاقہ کے حالات پر اس کے یقینی طور پر اثر انداز ہونے کا سبب بنےگی جیسا کہ اب تک ہوا ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں ولی فقیہ کے نمائندے اور ایرانی حجاج کے سرپرست حجۃ الاسلام والمسلمین قاضی عسکر نے ہفتہ حج اور عشرہ کرامت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی اور حج کی اسٹراٹیجک دستاویز کی تدوین، قرآن مجید پر زیادہ سے زیادہ توجہ پر اہتمام ، حج پر جانے سے پہلے زائرین کے اندر روحی تغیر و تحول پیدا کرنے کی تلاش و کوشش، زائرین کے حقوق کا دفاع، حج سے منسلک موضوعات کے سلسلے میں تحقیق ، تخصصی سمینار کا انعقاد، حج قافلوں کے علماء کی علمی سطح کے ارتقاء ، عربی زبان کی کلاسوں کے انعقاد،اورگذشتہ پروگراموں کی آسیب شناسی اور تجربات کی تدوین کو بعثہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کی اہم سرگرمیوں میں قراردیا۔

اسلامی ثقافت و ارشاد کے وزیر جناب جنتی نے بھی اپنی رپورٹ میں حج سے منسلک اداروں کی کارکردگی، تلاش و کوشش، اجراء ، باہمی تعاون اور زائرین کو خدمت باہم پہنچانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حج ایرانی اسلامی ثقافت کو دیگر قوموں تک پہنچانے اورفروغ دینے کا بہترین موقع ہے۔

انھوں نے حج کے معارف، اسرار اور فلفسہ کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئےکہا: اسلامی جمہوریہ ایران کی دینی و علمی شخصیات اور عالم اسلام کی دیگرشخصیات کے درمیان رابطہ، امت اسلامی کے درمیان اتحاد و انسجام کے لئے زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت کرےگا۔

حج ادارے کے سربراہ جناب اوحدی نے بھی کہا کہ اس سال 64000 ایرانی حجاج 500 قافلوں میں حج کے لئے ملک بھر کے 15 ایئرپورٹوں سے روانہ ہورہے ہیں اور بیرون ملک سے بھی 2000 ایرانی حجاج حج سے مشرف ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی حجاج کی سہولت کے لئے مکہ و مدینہ میں دو اسپتال دن رات کام کریں گے اور ایرانی حجاج کی خدمت رسانی کے دوسرے امور بھی مکمل کرلئے گئے ہیں۔

بحران شام، امریکہ و روس کے وزراء خارجہ کے مذاکرات شروعبحران شام کے بارے میں امریکہ اور روس کے وزراء خارجہ کے مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔

یہ مذاکرات سوئٹزرلینڈ کے شہر جینوا میں ہورہے ہیں۔ فارس نیوز نے رشیا ٹوڈے کےحوالے سے رپورٹ دی ہےکہ ان مذاکرت میں شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اخضر ابراہیمی بھی شریک ہیں۔ اخضر ابراہیمی کے ترجمان نے کہا تھا کہ یہ ملاقاتیں الگ الک انجام پائيں گي۔ دنیا نیوز کے مطابق شام کے تعلق سے امریکہ اور روس کے وزراء خارجہ کی پریس کانفرس میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر فوجی آپشن کی بات کی جب کہ روس کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ فوجی آپشن کو بھول جائيں اور شام کے مسئلےکا حل مفاہمت آمیز طریقے سے تلاش کریں۔ روسی وزیر خارجہ نے جینوا روانہ ہوتے وقت کہا تھا کہ روس اور امریکہ کے ماہرین کیمیاوی ہتھیاروں کے مسئلےکا جائزہ لیں گے۔

ہندوستان کے شہر مظفرنگر کی کشیدہ صورت حالہندوستان کے شہر مظفرنگر میں اگرچہ حالات میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم صورت حال بدستور کشیدہ ہے جبکہ ریاست اتر پردیش کی حکومت نے مظفرنگر میں بھڑکے فرقہ وارانہ فسادات کے تمام واقعات کی تحقیقات کے لئے ایک رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیاہے جو دو ماہ میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کریگا۔

محکمہ داخلہ کے سیکریٹری کمل سکسینہ نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مظفرنگر میں فرقہ وارانہ فسادات کی جانچ کے لیے سابق جج وشنو سہائے کی صدارت میں ایک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کمیشن گزشتہ 27 اگست کو مظفرنگر کے كوال گاؤں میں تین افراد کے قتل سے لے کر نو ستمبر کے تمام واقعات کے بارے میں اپنی رپورٹ پیش کریگا۔ کمیشن خاص طور پر اس بات کی جانچ کرے گا کہ انتظامیہ نے کہاں - کہاں نرم روّیہ اختیار کیا یا اس سے چوک ہوئی۔

سکسینہ نے کہا کہ کمیشن کو اپنی رپورٹ سونپنے کے لئے دو ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔

فسادات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن ایسی حالت میں تشکیل دیا گیا ہے کہ ہندوستان کے وزیر داخلہ سشیل کمار شندے نے کہا ہے کہ مظفرنگر کے حالات سے متعلق ریاست اترپردیش کی اکھلیش حکومت کو پہلے ہی باخبر کردیا گیا تھا۔ ادھر اکھلیش یادو نے الزام عائد کیا ہے کہ مظفرنگر میں دنگے و فسادات ان کی حکومت کو ناکام بنائے جانے کی ایک سازش ہے تاہم انھوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ شرپسند عناصر سے سختی نمٹا جائیگا۔اسی اثنا میں ہندوستان کی جماعت اسلامی نے ہندوستان کی ریاست اترپردیش کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ فسادات کی روک تھام کرنے میں ناکام رہی ہے۔

مغربی کی خصلت جھوٹ اور تظاہر, رہبر انقلاب اسلامی

مغربی کی خصلت جھوٹ اور تظاہر, رہبر انقلاب اسلامی

رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے کہ حکومت، حکام، سیاسی رہنماوں، سفارتکاروں، اور عوام کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندانہ نگاہ سے انسانی حقوق کےبارے میں امریکہ اور مغرب کے پیچیدہ اور ظاہری رویوں کا تجزیہ کریں۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ملک بھر کے ائمہ جمعہ سے خطاب میں اس بات کی وضاحت فرمائي کہ ایران اور دنیاکے مسائل کو حقیقت پسندانہ نظروں سے دیکھنے کی کیوں ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مغرب نے اپنے استعماری دور میں مشرقی ملکوں منجملہ اسلامی ملکوں پر اپنا اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی تسلط پھیلایا اور سائنسی اور ٹکنالوجیکل ترقی کی بنا پر یہ ظاہر کیا کہ ساری چیزوں کے لئے نمونہ عمل اور مرکز مغربی دنیا ہی ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ انہوں نے حتی کہ جعرافیائي امور کو بھی مغرب کی برتری ظاہر کرنے کے لئے بدل دیا اور مشرق قریب ، مشرق وسطی اور مشرق بعید جیسی غلط اصطلاحات رائج کیں۔ آپ نے استعماری دور میں مغرب کی مطلق العنانی اور تسلط پسندانہ حکمرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان حالات میں علاقے میں ایران سمیت تمام ممالک مغرب اور مادی دنیا کے زیر تسلط تھے ایسے عالم میں ایران کا اسلامی انقلاب مطلق خود مختاری اور اسلام کی پانبدی اور قرآنی تعلیمات کی اساس پر کامیاب ہوا اور اس نے مغرب کی تاریخی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ رہبرانقلاب اسلامی نے علاقے اور عالم اسلام پر ایران کے اسلامی انقلاب کے اثرات اور اس انقلاب نے قوموں کو جو اسلامی اور دینی تشخص عطا کیا ہے اس کی طرح اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے اسلامی تشخص اور اس کی فکر کے تدریجی پھیلاو نے مغرب کو بری طرح پریشان کردیا اور اسلامی فکر کے گہرے پھیلاو کے ساتھ ساتھ انہیں پیچیدہ اور گہری منصوبہ بندی کرنے پر مجبور کردیا۔ آپ نے فرمایا آج علاقے اور عالم اسلام کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ مغربی ممالک یہ سمجھتےہیں کہ وہ اسلامی انقلاب کا مقابلہ کرنے میں پیچھے رہ گئے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی اس پسماندگي کو دورکرنے کےلئے اپنی تمام تر توانائیوں سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا ایسے عالم میں علاقے میں اسلامی بیداری کی تحریک بھی شروع ہوگئي اور مغربی ممالک نے جو خود کو اسلایم انقلاب کی ترقی سے پچھڑا ہوا دیکھ رہے تھے سراسیمگي میں اسلامی بیداری اور سیاسی اسلام سے مقابلہ کرنا شروع کردیا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اسلام اور مادی دنیا کے پیکار میں اسلامی جمہوریہ ایران کو فتح الفتوح سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ یہ فتح الفتوح بدستور بھر پور توانائیوں اور استحکام کے ساتھ موجود ہے اور ملک کا داخلی اتحاد اور بیشتر سرکاری اداروں کے اصول و اقدار پر پابند رہنے سے یہ اقتدار اور فتح الفتوح پہلے سے کہیں زیادہ خطروں سے محفوظ رہے گا۔ رہبرانقلاب اسلامی نے تاکید فرمائي کہ مغربی دنیا کے سامنے طاقت سے ڈٹا رہنا چاہیے کیونکہ مغرب نے ثابت کردیا ہے کہ وہ کسی پر رحم نہیں کرتا اور انسانی حقوق اور دکھاوے کے برخلاف لاکھوں انسانوں کے مارے جانے سے بھی اس کا ضمیر متاثر نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ مغربی سیاست دانوں کی خصلت جھوٹ بولنا اور تظاہر ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ مغربی ممالک ہیروشیما کے قتل عام، پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں لاکھوں انسانوں کے مارے جانے، پاکستان ، افغانستان اور عراق کے بے گناہ عوام کے قتل عام سے دکھ درد کا احساس نہیں کرتے ہیں اور مستقبل میں بھی جہاں کہیں ان کے مفادات کا تقاضہ ہوگا انسانوں کے قتل عام سے نہیں گھبرائيں گےلھذا ہمیں سیاسی، حکومتی، معیشتی اور عوامی میدانوں میں اپنی طاقت کا تحفظ کرنا چاہیے۔

ہر مشکل کا راہ حل ’’دعا‘‘

ہر مشکل کا راہ حل ’’دعا‘‘

انسان اگر اپنے وجود میں تھوڑی سی دقت کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ وہ اس عالم بیکراں کے اندر تن تنہا اُس صفر کے مانند ہے جسکا تعلق کسی ہندسہ سے نہ ہو۔ صفر اگر تنہا ہو تو اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ہوتی ۔ صفر کا وجودمحض احتیاج ہے۔ صفر اپنی حیثیت بنانے اور اپنے وجود کو ظاہر کرنے میں ہندسہ کا محتاج ہے۔ اگر ہندسہ سے اپنا تعلق برقرار رکھے تو یہ صفر نہیں رہے گا بلکہ دس اور بیس کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ یہی حال ہے انسان کا۔ انسان بذات خود فقر محض اور احتیاج محض ہے انسان فقیر الی اللہ ہے''یا ایھا الناس انتم الفقراء الی اللہ واللہ ھو الغنی''(سورہ فاطر،١٥)بذات خود اس کی کوئی حیثیت اور قیمت نہیں ۔اس لیے کہ اس کے پاس اپنا کچھ نہیں ۔سب کچھ اس کے مالک کا دیا ہوا ہے اگر اپنے مالک سے تعلق اور رابطہ برقرار رکھے گا تو اس کی قیمت یہ ہو گی کہ وہ کائنات کی ہر شے سے اشرف اور برتر ہو گا اور اگر اپنے اس رابطہ کو منقطع کر دیا تو ''بل ھم اضل'' اور '' اسفل السافلین '' کی منزل میں آجائے گا اور اس کی کوئی ارزش و قیمت نہیں رہے گی۔

اپنے خالق اور پالنے والے سے رابطہ اور تعلق برقرار رکھنے کے ذرایع میں سے ایک عمدہ ذریعہ ''دعا'' ہے۔ دعا کو ''کلام صاعد''کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ دعا بندہ کا وہ کلام ہوتا ہے جو خدا کی طرف صعود کرتا ہے۔ دعا خدا سے ہم کلام ہونے اور اس سے راز و نیاز کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

دعا انسان کا فطری تقاضا ہے۔دعا یعنی مانگنا،طلب کرنا ۔ایک بچہ دنیا میں قدم رکھتے ہی رو کر ماں سے دودھ مانگتا ہے اور اپنی محتاجی کا اعلان کرتا ہے۔ اور مرتے دم تک دوسروں کا محتاج بنا رہتا ہے۔ اس دنیوی زندگی میں انسان کے پاس اورکوئی چارہ بھی نہیں ہے اگر کوئی باغیرت انسان پیدا ہو جائے جو یہ چاہے کہ بغیر کسی کی محتاجی اور کسی سے کچھ مانگے اس دنیا میں زندگی گذار لے تو شاید پیدا ہونے کے بعد ایک بھی دن زندہ نہ رہ سکے۔ اس لئے کہ کم سے کم زندہ رہنے کے لئے ماں کا محتاج ہونا پڑے گا۔غرض یہ کہ انسان ایسے عالم میں زندگی گذار رہا ہے جہاں ہر کام اسباب اور وسائل کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ رزق مختلف ذرایع اور اسباب کے واسطے انسان تک پہنچتا ہے مریض ہوتا ہے تو ڈاکٹر اور دوا کے ذریعے شفا ملتی ہے۔ پیاس لگتی ہے تو پانی کے ذریعے بجھتی ہے۔لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ اسباب اور وسائل اصل نہیں ہیں ۔ان اسباب کو سببیت دینے والا اور اسباب فراہم کرنے والا کوئی اور ہے۔ رزق اور دوا کے اندر تاثیر پیدا کرنے والا کوئی اور ہے۔ وہ نہ چاہے تو کھیت کے اندر بوئے ہوئے دانے کو دنیا کی کوئی طاقت اگا نہیں سکتی ۔وہ ہمیں سیر کرنا نہ چاہے تو ہم کتنا کھاتے رہیں سیر نہیں ہو سکتے ۔پانی پیتے رہیں کبھی پیاس نہیں بجھ سکتی ۔دوا ڈاکٹر نے دی مگر شفا دینے والا کوئی اور ہے۔ وہ شفا نہ دینا چاہے تو دوا کوئی اثر نہیں کر سکتی۔نازک مسئلہ یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب اور وسائل میں کھو جاتا ہے اور ان کے حقیقی مؤثر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جبکہ ’’لا موثر فی الوجود الا اللہ‘‘۔کمال تو یہ ہے کہ انسان ڈاکٹر سے دوا لے لیکن شفا خدا سے طلب کرے۔کھیت میں کام کرے لیکن رزق خدا سے طلب کرے۔ہر چیز کا مطالبہ اس سے کرے۔ اسے اچھا نہیں لگتا کہ اس کا بندہ اس کے علاوہ کسی اور کے آگے ہاتھ پھیلائے۔ خداوند عالم نے جناب موسیٰ (ع) سے کہا:

''یا موسیٰ سلنی کل ما تحتاج الیہ حتی علف شاتک و ملح عجینک''۔(بحار،٩٣،٣٠٣)اے موسیٰ اپنی ہر چیز حتی بکری کے لیے چارا اور اپنے کھانے کا نمک بھی مجھ سے مانگو۔

رسول خدا (ص) فرماتے ہیں : '' لیسأل احدکم ربہ حاجتہ کلھا حتی یسألہ شسع نعلہ اذا انقطع''(بحار ،٩٣،٢٩٥) تم میں سے ہر کوئی اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرے حتی اگر جوتے کے تسمے ٹوٹ جائیں تو وہ بھی خدا سے مانگے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ جب سب کچھ دینے والا وہی ہے تو انسان کیوں نہ ہر چیز اس سے مانگے ۔ اس سے مانگنے میں نہ کوئی عار ہے اور نہ کوئی ننگ۔ بلکہ انسان کے لئے باعث کمال اور فضیلت ہے کہ انسان ہمیشہ اپنا رابطہ اس سے برقرار رکھے اور اس کی بارگاہ میں دعا کرے۔ اور وہ سننے والا بھی ایسا ہے جو سب سے زیادہ انسان کے قریب ہے۔''اذا سألک عبادی عنی فانی قریب''( بقرہ،١٨٦) وہ انسان کی رگ گردن سے زیادہ اس کے قریب ہے۔''نحن اقرب الیہ من حبل الورید''(ق،١٦) وہ انسان اور اس کے قلب کے بیچ حائل ہو جاتا ہے''انّ اللہ یحول بین المرء وقلبہ''(انفال ٢٤) اس نے وعدہ دیا ہے کہ تم مجھے پکارو میں جواب دوں گا '' ادعونی استجب لکم'' (مومن۔٦٠) ،اجیب دعوت الداع اذا دعان (بقرہ،١٨٦)۔ جب اس نے استجابت دعا کا وعدہ دیا ہے تو ہم کیوں نہ اس سے دعا مانگیں کیوں نہ ہر حال میں اسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں اور رسول اسلام(ص) سے منقول ہے کہ ''دعا مغز عبادت ہے''(بحار ،ج٩٣ ص ٣٠٢) دعا کے بغیر عبادت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔دعا نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے ہمیں خدا سے مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ چیز عین کفر و استکبار ہے۔

دعا کی فضیلت

پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں ''الدعاء افضل من قرائة القرآن''(المیزان ٢ ،٣٤)دعا قرآن پڑھنے سے بہتر ہے۔قرآن کی تلاوت کا مطلب یہ ہے کہ خداہم سے ہم کلام ہو رہا ہے اس لئے کہ قرآن اس کا کلام ہے۔ لیکن دعا کا مطلب یہ ہے کہ ہم خدا سے اپنا رابطہ برقرار کرنا چاہتے ہیں ہم خدا سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں اور یقینا یہ عمل فضیلت کا حامل ہے۔ دوسری روایت میں آنجناب ۖسے منقول ہے ''الدعاء سلاح المومن وعمود الدین ونور السموات والارض''(کافی،٢،٤٦٨)دعا مومن کا اسلحہ ہے، دین کا ستون ہے اور زمین اور آسمانوں کا نور ہے۔امیر المومنین فرماتے ہیں:'' نعم السلاح الدعاء''(غرر الحکم)سب سے بہترین اسلحہ دعا ہے۔

آج کے اس پیشرفتہ دور میں جہاں ایٹمی اسلحہ موجود ہو دعا کو ایک اسلحہ کے طور پر باور کرانا بہت سخت بات ہے اس لئے کہ اس اسلحے سے نہ شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہزاروں جانیں لی جاسکتی ہیں ۔(مگر یہ کہ بدعا کا سہارا لیا جائے جس کی مثالیں طوفان نوح ،عذاب بنی اسرائیل وغیرہ) آج کے دور میں بہترین اسلحہ اسی کو کہا جاتا ہے جو ایک دفعہ کے وار سے ہزاروں جانیں اپنی لپیٹ میں لے اور دسیوں بستیاں اجاڑ دے۔ مگر آج دنیا والوں کو یہ حقیقت باور کر لینا چاہیے کہ ایک مومن اور خدا پرست انسان کے لئے سب سے بہترین اسلحہ ''دعا'' ہے۔جسکا مشاھدہ چند سال پہلے لبنان میں ہو چکا ہے۔ لبنان کی مقاوت اگر ایٹمی اسلحوں کے زور پر ہوتی تو اسرائیل ایٹمی اسلحے کے اعتبار سے دنیا میں چوتھا ملک ہے۔ لبنان تو اس کے مقابلے میں مٹھی بھر بھی نہیں تھا۔ مگر لبنان نے ایک عظیم کامیابی سے ہمکنار ہو کر اسرائیل کو یہ دکھلا دیا کہ جنگ صرف ایٹمی اسلحوں کے زور پر نہیں جیتی جا سکتی،ہمارے پاس وہ اسلحہ موجود ہے جسکے سامنے تمہارے بڑے بڑے ایٹمی اسلحہ ماند پڑ جاتے ہیں،جسے ہمارے عظیم الشان پیغمبر(ص) نے ہمیں ہدیہ کے طور پر دیا ہے اور وہ ہے ''دعا''۔

دعا کے مستجاب ہونے کے شرائط

آیات کی نگاہ میں

الف:دعا خوف اور رجاء کے ساتھ کی جائے۔

''وادعوہ خوفا وطمعا انّ رحمة اللہ قریب من المحسنین''(شوریٰ،٢٦)

انسان کو ہمیشہ خوف اور رجا کے بیچ میں رہنا چاہیے نہ خدا سے صرف خوفزدہ اچھی چیز ہے اور نہ فقط رجاء اور امید رکھنا اور اس کے عذاب سے نہ ڈرنا۔ دعا کرتے وقت بھی انسان کو ان دو حالتوں کے بیچ کی حالت اختیار کرنا چاہیے۔

ب:دعا تضرع اور گریہ کی حالت میں اور تنھائی میں ہونا چاہیے۔

''ادعوا ربکم تضرعا و خفیة''(اعراف ،٥٥)

اپنے پروردگار کو پکارو تضرع کے ساتھ اور تنہائی میں۔

ج: دعا کے ساتھ ساتھ ایمان اور عمل صالح بھی ضروری ہے۔

''و یستجیب الذین آمنوا وعملوا الصالحات ویزید ھم من فضلہ''(شوریٰ ،٢٦)

وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں ان کی درخواست (خدا) قبول کرتا ہے اور ان پر اپنا فضل اضافہ کرتا ہے۔

د: اخلاص

''فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین''(مومن،١٤)

خدا کو پکارو اپنے دین کو اس کے لئے خالص کر کے۔

اخلاص قبولیت اعمال کی شرط ہے وہ عمل جسمیں اخلاص اور للٰہیّت نہ ہو خدا اس کو پسند نہیں کرتا ۔

 

روایات کی نگاہ میں

الف:معرفت خداوند

قال قوم للصادق ''ندعوا فلا یستجاب لنا؟'' ''قال لانکم تدعون من لا تعرفونہ''(بحار ٩٣،٣٧٦)

ایک گروہ نے امام صادق(ع) سے کہا : ہم دعا کرتے ہیں قبول نہیں ہوتی؟ امام نے فرمایا:تم اسے پکارتے ہو جس کی نسبت تمہیں معرفت نہیں ہے۔

انسان کے پاس خدا کی معرفت جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا اسے اپنا فقیر ہونا اورخدا کا محتاج ہونا زیادہ محسوس ہوتا ہے جس کی بنا پر زیادہ خدا سے متوسل ہوتا ہے اور دعا مانگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء اور آئمہ معصومین (ع) زیادہ خدا سے دعا مانگتے رہے ہیں۔ انہیں جتنی خدا کی معرفت ہوتی ہے اتنا اس سے اپنا رابطہ اور رشتہ محکم کرتے ہیں ۔اور جب وہ ہمیشہ خدا سے اپنا رشتہ جوڑے رکھتے ہیں تو خدا بھی ان کی باتوں کو سنتا ہے اور ان کی دعاوں کو مستجاب کرتا ہے۔

ب:عمل صالح

قال رسول اللہ ۖ:''یکفی من الدعا ء مع البرّ ما یکفی الطعام من الملح''(بحار٩٣،٣٧٦)

پیغمبر اکرم ۖفرماتے ہیں:دعا نیک عمل کے ساتھ ایسے ہے جیسے کھانے میں نمک ہو۔

ج:حلال رزق

قال رسول اللہ(ص) لمن قال لہ احب ان یستجاب دعائی''طھر مأکلک و لا تدخل فی بطنک الحرام''(وہی)

پیغمبر اکرم ۖ نے اس شخص کو جو یہ کہہ رہا تھا میں چاہتا ہوں کہ میری دعا قبول ہو،ارشاد فرمایا:اپنی غذا کو پاک کرو اور اپنے پیٹ میں حرام کو داخل مت کرو۔

لقمہ حرام انسان کی زبان کو بے تاثیر بنا دیتا ہے ایک اور روایت میں ہے کہ ایک لقمہ حرام کھانے سے چالیس دن تک انسان کی دعا قبول نہیں ہوتی اور اگر انسان زندگی بھر مال حرام کھاتا رہے تو ایسے شخص کی دعا تو بالکل قبول نہیں ہو سکتی ۔وہ افراد جو سالانہ خمس نہیں نکالتے سہم امام اور سہم سادات کو اپنے مال سے الگ نہیں کرتے اور ان کے غاصب بنے رہتے ہیں وہ لقمہ حرام اپنے پیٹ میں بھرتے ہیں ایسے افراد کو کبھی بھی قبولیت دعا کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔

د:حضور قلب

''ان اللہ لا یستجیب دعاء بظھر قلب ساہ فاذا دعوت فاقبل بقلبک ثم استیقن بالاجابہ''(کافی ٢،٣٧٣)

اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی جس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہ ہو جب بھی خدا کو پکارو تو حضور قلب سے پکارو پھر یقین کر لو کہ دعا قبول ہو گی۔

 

چار طرح کے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی

امام صادق فرماتے ہیں : چار گروہ ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی:

پہلا گروہ وہ لوگ ہیں جو گھر میں بیٹھے ہوں اور دعا کریں خدایا ہمیں رزق عطا کر۔ خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے تمہیں کام کرنے کا حکم نہیں دیا؟۔

دوسرا گروہ وہ لوگ ہیں جن کی بیویاں صالح نہ ہوں اور وہ ان کو برا بھلاکہتے اور مار پیٹ کرتے ہوں ۔خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے تمہیں ایسے موقع پر طلاق کا حکم نہیں دیا؟۔

تیسرا گروہ وہ افراد ہیں جو مال وثروت رکھتے ہیں لیکن اس کو اسراف اور حرام کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر دعا کرتے ہیں خدایا ہمیں رزق عطا کر۔خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے قناعت سے کام لینے کو نہیں کہا تھا؟۔

اور چوتھا گروہ وہ لوگ ہیں جو اپنا مال بغیر گواہ کے قرض دیتے ہیں (اور جب واپس نہیں ملتا تو پریشان ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں)خدا ان سے کہتا ہے کیا میں نے گواہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا ؟۔

کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا نے شام پر حملے کی مخالفت کی

پوپ فرانسس نے ہفتے کے روز امريکي منصوبے کي مخالفت کرتے ہوئے دنيا کے ممالک سے مطالبہ کيا کہ بشريت کو غم و اندوہ اور قتل و غارت سے نجات دلائيں ـ انہوں نے کہا کہ جنگ ہميشہ بشريت کي شکست شمار ہوتي ہےـ شہر ويٹيکن کے سينٹ پيٹر اسکوائر پر ايک لاکھ افراد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ تشدد اور جنگ کا خاتمہ موت پر ہوتا ہےـ

انہوں نے کہا کہ جنگ امن و چين کي شکست ہےـ پوپ فرانسس نے کہا کہ اسلحے فروغ پا رہے ہيں، ضمير سوئے ہوئے ہيں اور نابودي و رنج و موت کے منصوبوں کي توجيہ کي جا رہي ہےـ کيتھوليک پيشوا کي درخواست پر ويٹيکن اور دنيا کے مختلف ملکوں ميں بحران شام کے حل کے لئے دعائيہ تقريبيں منعقد ہوئيں ـ ياد رہے کہ امريکا شام پر حملے کے لئے عالمي اتحاد قائم کرنے کي کوشش کر رہا ہے۔

نبیل العربی: شام پر امریکہ کے ممکنہ حملے سے پورے خطے میں آگ لگ جائےگیعرب لیگ کے جنرل سکریٹری نبیل العربی نے مصر کے اخبار الاہرام کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام پر امریکہ کے ممکنہ فوجی حملے سے پورے خطے میں آگ لگ جائے گی ۔ نبیل العربی نے دہشت گردوں کے ہولناک جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ شامی حکومت کے اشتباہات زيادہ ہیں لیکن اس کے باوجود شام پر فوجی کارروائی سے پورے خطے میں جنگ کے شعلے بلند ہوجائیں گے۔ نبیل العربی نے عرب ليگ کی طرف سے امریکہ کی ہمنوائی کے بارے میں سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا اور عرب ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں عرب لیگ کی ناکامی کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا عرب ذرائع کے مطابق عرب لیگ کا وجود عملی طور پر ختم ہوگیا ہے کہ یہ عربی تنظیم عملی طور پر امریکہ کی حامی تنظيم میں تبدیل ہوگئی ہے۔

آیت اللہ طاہری خرم آبادی کی تدفین، رہبر معظم کی تعزیترہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آیت اللہ سید حسن طاہری خرم آبادی کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے۔ مرحوم آیت اللہ سید حسن طاہری ایران کے مغربی صوبے لرستان سے فقہاء کی کونسل یعنی مجلس خبرگان کے رکن تھے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اپنے تعزیتی پیغام میں فرمایا ہے کہ تقوا، اخلاص اور ہوشیاری و متانت اس مجاہد عالم دین کی اہم خصوصیات تھیں۔ آپ نے اپنے اس تعزیتی پیغام میں حضرت امام خمینی قدس سرہ کی تحریک میں آیت اللہ سید حسن طاہری خرم آبادی کے کردار اور انقلاب کی کامیابی کے بعد انقلاب کے ساتھ ان کی وفاداری کی قدر دانی کی۔ آیت اللہ سید حسن خرم آبادی کچھ مہینوں تک علیل رہنے کے بعد سنیچر سات ستمبر کو قم کے شہید بہشتی اسپتال میں انتقال کرگئے۔ آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی کو آج قم مقدسہ میں حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیھا کے روضہ اقدس میں سپرد خاک کیا گيا۔ آیت اللہ شبیر زنجانی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائي، مرحوم آیت اللہ طاہری خرم آبادی کی نماز جنازہ میں رہبرانقلاب اسلامی کے دفتر کے سربراہ محمدی گلپائيگانی، آیت اللہ جنتی، سید حسن خمینی، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سیکریٹری محسن رضائي، مراجع عظام کے نمائندوں، مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے نمائندوں، اور دیگر سول اور فوجی حکام نے شرکت کی۔

گیارہ ممالک ایرانی صنعت پٹرولیم سے تجارت سے مستثنیٰامریکہ نے گيارہ ملکوں کو ایران کی صنعت تیل سے خرید و فروخت پر عائد پابندی سے مزید چھے ماہ تک کے لئے مستثنی کیا ہے۔ ان ملکوں میں جاپان اور یورپی یونین کے دس ممالک شامل ہیں۔ ادھر ایک غیر ملکی خبررساں ادارے نے خبردی ہے کہ امریکہ نے ایران کے چھے افراد اور چار کمپنیوں پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ واضح رہے امریکہ اور یورپی یونین نے ایران کے تیل پر بھی پابندیاں عائد کردی ہیں اور اس طرح ایران کو پرامن ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔

شام کے خلاف امریکی اقدامات، عالمی دہشتگردیحزب اللہ کے سینئر رہنماوں نے شام کے خلاف امریکہ کے جارحانہ عزائم کو عالمی دہشتگردی کا منصوبہ قراردیا جس کا مقصد علاقے اور دنیا کی حریت پسند اور خود مختار قوموں کو نقصان پہنچانا ہے۔ واضح رہے حزب اللہ اور تحریک امل نے جنوبی لبنان میں ایک مشترکہ بیان جاری کرکے کہا ہےکہ شام پرامریکہ کے حملوں سے عالمی امن تباہ ہوجائے گا۔ ان بیان میں آیا ہے کہ یہ حملے صیہونی حکومت کی حمایت اور صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کو نابود کرنے کی غرض سے ہونگے۔ اس بیان میں آیا ہےکہ علاقے میں صیہونی حکومت کےخلاف علاقے میں مزاحمت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مزاحمت صیہونی حکومت کے اھداف کی راہ میں رکاوٹ ہے جر قوموں کے ذخائر لوٹنا چاہتی ہے۔