Super User

Super User

شام میں حضرت زینب(س) کے روضہ پر حملے کے خلاف احتجاج

شام میں حضرت زینب(س) کے روضہ پر حملے کے خلاف احتجاج اور مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

پاکستان سے رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت المسلمین کی اپیل پر کل پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور تکفیری دھشتگردوں کے حملے کی مذمت کی گئی۔ اس موقع پر ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ایک سازش کے تحت شام کودھشتگردی کی آگ میں دھکیل دیا گیا ہے اور اب نواسی رسول خدا حضرت زینب(س) کے روضہ پرحملہ کر کے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مقررین نے پاکستان کی حکومت پر بھی کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے بھی دھشتگردوں کو شام بھیجا جا رہا ہے اور حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔

ادھرکراچی سے موصولہ رپورٹ کے مطابق نمائش چورنگی پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت المسلمین کے رہنماوں نے کہا کہ بی بی زینب کے روضہ مبارک پر دہشت گردوں کے حملے نے پورے عالم اسلام کے قلب مجروح کئے ہیں۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔

درایں اثنا حضرت زینب کے روضہ مبارک پر ہونے والے حملے کی پاکستان کے سیاستدانوں کی جانب سے بھی مذمت کا سلسلہ جاری ہے اور اسی حوالے سے مسلم لیگ ن کے چیئرمین سینیٹر راجا ظفر الحق کا کہنا ہے کہ شام کی صورتحال بہت خطرناک ہے جو مسلم دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے، مسلم دنیا کے تمام تنازعات کے حل کیلئے او آئی سی کو موٴثر کردار ادا کرنا چاہئے۔

مجلس وحدت مسلمین کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ امین شہیدی کا کہنا تھا کہ عالم اسلام میں غیر جمہوری حکمران استعماری قوتوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، حضرت زینب کے مزار پر حملہ ہوا اور سب خاموش ہیں جو افسوسناک ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ شام میں بی بی زینب کے مزار پر حملہ مسلمانوں کی وحدت پر حملہ ہے، جبکہ رابطہ کمیٹی نے بھی اس حملے پرافسوس کا اظہارکرتے ہوئے علماء سے اپیل کی کہ خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھیں اوراس سانحے کے خلاف میدان عمل میں نکل کر احتجاج کریں۔

ایران کی بری فوج نازعات میزائل سے لیساسلامی جمہوریہ ایران کی بری فوج کے سربراہ جنرل احمد رضا پوردستان نے کہا ہےکہ بری فوج کو نئی نسل کے میزائل نازعات سے لیس کردیا گيا ہے ۔ یہ میزائل ایرانی ماہرین نے بنائے ہیں۔

جنرل احمد رضا پوردستان نے تسنیم نیوز سے گفتگو میں کہا کہ نئي نسل کے میزائل نازعات کی رینج زیادہ ہے، ھدف کو نشانہ بنانے کی توانائی اور فائر پاور بھی نہایت اعلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ فوجی مشقوں میں اس میزائل کو استعمال کیا جاےگا۔

نازعات میزائل کی رینج ایک سو تیس کلومیٹر ہے جو جامد ایندھن سے کام کرتا ہے۔ ایرانی ماہرین نے اس کی رینج بڑھا کر ایک سو پچاس کلومیٹر کردی ہے۔ یہ میزائیل موبائل لانچر سے داغا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے یہ دیگر میزائلوں سے زیادہ کارآمد بن چکا ہے۔

افغانستان میں پر تشدد مظاہرے

افغانستان کے صوبے غور میں ہزاروں طالبعلموں نے امریکی جارحیت کے خلاف مظاہرے کئے ہیں۔

مظاہرین کا مطالبہ تھا کی افغانی حکومت امیرکہ کے ساتھ کی گئی سیکیورٹی ڈیل کو کالعدم قرار دے۔

مظاہرین نے امریکی پرچم اور امریکی صدر باراک اوباما کی تصاویر نذر آتش کیں۔

عینی شاہدین کے مطابق پر امن مظاہرے اس وقت پر تشدد مظاہروں میں بدل گئے جب مظاہرین نے اسپین کی فوجوں کی چھاونی کی جانب مارچ کرنا شروع کر دیا اور وہاں پر موجود کئی فوجی خیموں کو آگ لگا دی۔ ان پر تشدد واقعات میں ۳ مظاہرین پولیس کے ساتھ جھڑپ میں زخمی ہو گئے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ افغان حکومت کی سیکیورٹی ڈیل اس بات کا سبب بنے گی کہ غیر ملکی فوجی دستے اس ملک میں اپنے قیام کو مزید طول دیتے رہیں۔

سیدحسن نصراللہ، واشنگٹن اورتل ابیب کےمنصوبے ناکام

حزب اللہ لبنان کےسربراہ سیدحسن نصراللہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ نے واشنگٹن اورتل ابیب کےمنصوبوں کوناکام بنا دیا ہے۔

سیدحسن نصراللہ نے بیروت ميں لبنان کےمختلف گروہوں سےخطاب کرتےہوئے کہاکہ جب ایک دشمن آپ کےسامنے ہو اور آپ کی شرافت اور عوام کوللکار رہا ہو توآپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کےمقابلے میں اپنا دفاع کریں اور جب لبنان میں حزب اللہ فعال اور پرعزم ہے تو اسے نشانہ بنایا جانا فطری بات ہے۔

المیادین ٹی وی چینل کی رپورٹ کےمطابق حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے مزید کہاکہ ہمارا مد مقابل فریق قومی دفاعی حکمت عملی پربات کرنے کےلئے سنجیدہ نہيں ہے جبکہ لبنان کا دفاع تمام لبنانیوں کی ذمہ داری ہے۔

حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہاکہ کوئی بھی قیمت چکائے بغیر لبنان پرجارحیت نہيں کرسکتا اوراگرخدانخواستہ لبنانی فوج شکست کھاجائے یا بکھرجائے تو نہ امن ہوگا نہ استحکام ہوگا نہ ملک ہوگا نہ کوئی زمین باقی بچے گی ۔

سیدحسن نصراللہ نے کہاکہ حزب اللہ نے دشمن کےساتھ جنگ کےساتھ ہی الزامات کا بھی مقابلہ کیا ہے کیونکہ الزام لگانا دشمن کےپروگرام کاحصہ ہے اوراس کامقابلہ کرناچاہئے ۔

سیدحسن نصراللہ نےکہا کہ ان الزامات کی وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ نے لبنان پرجارحیت کےلئے امریکہ اورصیہونی حکومت کے مقصد کوناکام بنادیا ہے

ام المومنین حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا کا یوم وفات

10 رمضان سنہ 10 بعثت کو رسول اکرم (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے مکّے میں وفات پائی ۔آپ قریش کی دولت مند اور نامور خاتون تھیں اور بعثت سے 15 سال قبل رسول اکرم (ص) کی زوجیت میں آئیں ۔حضرت خدیجہ(س) پہلی فرد تھیں جو رسول اکرم (ص) پر ایمان لائیں اور ایمان لانے کے بعد پوری قوت کے ساتھ دین اسلام کی ترویج میں لگ گئیں ۔آپ نے اپنی تمام دولت و ثروت دین الٰہی کی ترویج و اشاعت کے لئے رسول اکرم (ص) کے حوالے کردی اور ہمیشہ آپ (ص) کی مونس و مددگار رہیں ۔حضرت خدیجہ (س) کی ذات گرامی رسول اکرم (ص) کے لئے اتنی زيادہ اہم تھی کہ اس عظیم خاتون کی رحلت کو رسول اکرم (ص) نے بڑی مصیبت قراردیا ۔حضرت خدیجہ (س) کی رحلت پر رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ : خدا کی قسم خدیجہ (س) سے بہتر خدا نے مجھے کوئی چیز عطا نہیں کی ، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ کفر میں مبتلا تھے اس وقت میری آواز پر لبیک کہا جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اس وقت اپنے مال و ثروت میں برابر کا شریک قراردیا جب لوگوں نے مجھ سے رشتہ توڑ لیاتھا ۔واضح رہے کہ اسی سال رسول اکرم (ص) کے چچا حضرت ابوطالب کی بھی وفات ہوئی تھی اور ان دونوں کے شدید غم کے سبب رسول اکرم (ص) نے اس سال کو غم کا سال قراردیا تھا۔

محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اتنے شفیق مہربان اور معصوم تھے کہ ان کے چچا ابوطالب انہیں اپنے بیٹوں سے زیادہ پیار کرتے تھے۔ جب ان کی عمر مبارک چوبیس سال کی ہوئی تو اگر چہ جناب ابو طالب کے لئے اپنے بھتیجے کی مالی مدد کرنا ممکن نہیں تھا لیکن انہیں شب و روز انہی کی فکر لاحق تھی ۔ ایک دن انہوں نے سنا کہ مکہ کی تاجر خاتون خدیجہ کو ایک ایسے دیانتدار شخص کی تلاش ہےجسے وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ تجارتی سفر پر بھیج سکیں ۔ یہ بات سنتے ہی انہیں فورا´ اپنے بھتیجے کا خیال آگیا ۔ رات کو جب ان سے ملاقات ہوئی تو ان سے کہا: اے بھتیجے تم تو میری مالی حالت اچھی طرح جانتے ہو میں تمہاری مالی مدد کرنے سے قاصر ہوں ۔ کچھ دنوں کے بعد مکہ کا تجارتی قافلہ شام کی طرف جانے والا ہے اور خدیجہ کو اپنے مال تجارت کی سرپرستی اور نگرانی کے لئے ایک ایسے دیانت دار شخص کی تلاش ہے جسے وہ اپنا مال تجارت سونپ سکیں اس کے بدلے میں وہ انہیں مناسب اجرت دیں گی اگر تم اس کے پاس جاؤ تو وہ یقینا´ تمہیں دوسروں پر ترجیح دیں گی ۔ کیونکہ تمہاری دیانت داری اور راست گوئی کی خبر مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح ان تک پہنچ چکی ہے ۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی جھکی ہوئی نظریں اٹھائیں اور اپنے چچا کو دیکھا چچانے اپنے بھتیجے کی آنکھوں میں عزت نفس اور بے نیازی کی روشنی دیکھی پھر اپنے بھتیجے کو یہ کہتے ہو‏ئے سنا: کاش وہ کسی کو میرے پاس بھیج دیتیں ۔ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کہنے کے بعد دوبارہ نظریں جھکالیں اور خاموش ہو گئے۔ ابو طالب اپنے جوان بھتیجے کی بات سن کر گہری سوچ میں پڑ گئے ۔ جی ہاں محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ سے ایسے ہی تھے وہ ہر موقع پر محتاجوں کی مدد کرتے تھے لیکن اپنا دست نیاز کسی کے سامنے دراز نہیں کرتے تھے ۔ تاریخ نے اس بات کو واضح طور پر ذکر نہیں کیا ہے کہ خدیجہ کو کس طرح ابو طالب اور ان کے بھتیجے کے در میان ہونے والی اس گفتگو کی خبر ہوئی ؟ کیا ابوطالب کی زوجہ فاطمہ بنت اسد نےجو محمد کو اپنے بیٹوں سے زیادہ چاہتی تھیں ملیکۃ العرب کو اس کی خبر دی؟ بہر حال یہ بات مسلّم ہے کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چچا سے جو بات کہی تھی وہ خدیجہ تک پہنچ گئی تھی ۔ انہوں نے دل ہی دل میں ان کی تعریف کی اور کہا : امین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ میرے پاس آنے سے گریز کرے کیونکہ اس کی خود داری اور عزت نفس اسے اس بات کی اجازت نہیں دے رہی ۔ پھر فورا´ ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور انہیں اپنے پاس آنے کی دعوت دی ۔ خدیجہ کا دل گواہی دے رہاتھا کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم وہی امین او ر دیانتدار شخص ہے جن کی انہیں تلاش تھی ۔ خدیجہ ایک دولت مند اور پاک دامن خاتون تھیں ۔ جب کہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم مکہ میں صادق اور امین کے نام سے مشہور تھے۔ خدیجہ بھی عفت و پاکدامنی کے حوالے سے مشہور تھیں اور اسی بنا پر انہیں طاہرہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا ان کی تجارت کا یہ عالم تھا کہ ان کے تجارتی قافلے ہمیشہ سفر میں رہتے تھے ۔ ان باتوں کے باوجود انہیں مال و دولت جمع کرنے کی کوئی ہوس نہ تھی اور وہ ضرورت مندوں اور محتاجوں خاص طور پر یتیموں کی ہمیشہ مدد کرتی تھیں۔لاحاصل قبائلی جنگوں میں مرنے والوں کے یتیم بچوں کا آخری سہارا جناب خدیجہ کا گھرتھا جہاں ان کی بھوک مٹانے کا انتظام ہوتا تھا ۔ جناب خدیجہ یتیموں سے اس قدر مہر و محبت سے پیش آتی تھیں کہ بعض لوگ انہیں یتیموں کی ماں کے نام سے پکارتے تھے ۔ انہوں نے سچا‏‏ئی اور ایمان داری کے سلسلے میں پیغمبر کی شہرت سن رکھی تھی لہذا وہ اپنا مال تجارت ان کے حوالے کرنا چاہتی تھیں جب انہیں پتہ چلا کہ وہ ان کا تجارتی قافلہ لے جانے کے لئے تیار ہیں تو انہوں نے تاخیر کو جائز نہ سمجھا اور انہیں بلوا بھیجا۔ جب جناب خدیجہ نے محمد امین کو اپنے سامنے دیکھا کہ شرم سے ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہیں تو محسوس کیا کہ انہیں کسی بھی اور شخص سے زیادہ ان پر یقین ہے وہ مکہ کے دوسرے لوگوں کی طرح جانتی تھیں کہ محمد کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی دوسروں کے مال پر ان کی نظر ہوتی ہے لہذا جناب خدیجہ نےاپنا مال تجارت پیغمبر کےسپرد کر دیا اور اپنے غلام میسرہ کو آپ کے ساتھ اس تجارتی سفر پر شام بھیج دیا۔ راستے میں میسرہ نے حضور کے اخلاق اور عادات و خصائل دیکھے تو آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ واپس آکر اس نے حضرت خدیجہ کو تفصیل کے ساتھ آپ کے بارے میں بتایا ۔ تجارت میں بھی حضور نہایت کامیاب رہے اور ماضی کی نسبت جناب خدیجہ کو زیادہ منافع حاصل ہوا۔ اس سفر میں بحیریٰ کی آپ سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور اس مو‍‍قع پر اس نے کہا میں شہادت دیتاہوں کہ اللّہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللّہ کے رسول ہیں ۔ وہ نبی امی جن کی بشارت عیسی بن مریم نے دی تھی۔ اسی سفر کے دوران حضور بصریٰ میں ایک درخت کے نیچے ٹھہرے جو نسطورا راہب کی خانقاہ کے پاس تھا۔ حضور کو دیکھ کر نسطورا باہر نکل آیا اور اس نے میسرہ غلام سے دریافت کیا کہ اس درخت کے نیچے کون کھڑا ہے؟ اس نے کہا قریش اہل حرم میں سے ایک شخص محمد ۔ اس پر نسطورا بولا کہ اس درخت کے نیچے عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آج تک یعنی تقریبا´ چھ سو برس تک نبی کے سوا کوئی نہیں ٹھہرا ۔ پھر نسطورا آپ کے پاس آیا آپ کا سر اور آپ کے قدم چومے اور کہا کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللّہ کے رسول وہ نبی امّی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ نے دی تھی اور کہا تھا کہ میرے بعد اس درخت کے نیچے نبی امّی ہاشمی عربی مکی صاحب الحوض و الشفاعۃ و صاحب لواء الحمد کے سوا کوئی نہیں ٹھہرے گا۔ جناب خدیجہ کو پیغمبر اسلام کے تجارتی سفر سے ماضی کی نسبت کافی زیادہ منافع حاصل ہوا ۔جناب خدیجہ نے پیغمبر اکرم کو طے شدہ معاوضے سے زیادہ معاوضہ دینا چاہا لیکن پیغمبر نے صرف وہی چار اونٹ معاوضے کے طور پر وصول کئے جو انہوں نے طے کئے تھے ۔جناب خدیجہ کو ان کے غلام میسرہ نے بھی شام میں پیش آنے والے واقعات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ وہ پہلے ہی پیغمبر اکرم کے اخلاق اور رفتار و کردار سے بے حد متاثر تھیں یہ واقعات سننے کے بعد ان کی نظر میں پیغمبر کی قدر و منزلت اور بڑھ گئی ۔ اس وقت جناب خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی وہ اپنی عفت و پاک دامنی کی بنا پر طاہرہ کے لقب سے معروف تھیں ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اللّہ تعالیٰ نے ان کو حسن و جمال کی دولت سے بھی نوازا تھا ۔ قریش کے بڑے بڑے سردار اور دولت مند ان سے شادی کے خواہش مند تھے جن میں ابو سفیان، ابو جہل اور عقبہ بن ابی معیط و غیرہ شامل تھے۔ ان افراد نے کئی بار جناب خدیجہ کو شادی کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نےسب کو سختی سے انکار کردیا۔ ان کا ضمیر ہمیشہ انہیں گناہ اور انحراف سے روکتا تھا اور نیکی و اچھائی کی ترغیب دلاتا تھا۔ ان کے ضمیر نے انہیں اس بات کا یقین دلادیا تھا کہ ان بت پرست سود خوروں کے ساتھ شادی ان کی شان کے خلاف ہے۔ اب جب محمد کی خوبیوں ،اخلاق اور گفتار و کردار کے جوہر کھل کران کے سامنے آنے لگے تو وہ ان کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئیں ۔ اسی رات جناب خدیجہ نےایک انتہائی عجیب خواب دیکھا، انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں کھڑی ہیں اور آسمان بالکل تاریک ہے اچانک ایک ستارہ چمکا اور خدیجہ کی توجہ اس کی طرف ہوگئی ۔ ستارےکی روشنی آہستہ آہستہ بڑھتی گ‏ئی یہاں تک کہ وہ مہر تاباں کی شکل اختیار کر گیا او پورا عالم اس کے نور سے روشن ہوگیا۔ پھر مہر تاباں نے نیچے کی طرف اترنا شروع کردیا اور نیچے آتے آتےمکہ کے بالکل اوپر پہنچ گیا پھر اس نے مکہ کے گرد ایک چکر لگایا اور جناب خدیجہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ وہ خورشید عالمتاب براہ راست ان کے گھر کی طرف آیا اور صحن میں اتر گیا اور اپنے نور سے ان کے گھر کو روشن و منور کردیا۔ اسی اثنا میں جناب خدیجہ کی آنکھ کھل گئی او ر اپنی ایسی حالت دیکھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ اس رات پھر وہ دوبارہ نہ ہو سکیں ۔ صبح ہوتے ہی وہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو تعبیر خواب کےعلم سےآگاہی رکھتا تھا۔ اسے اپنے اس حیرت انگیز خواب سے آگاہ کیا اور اس کی تعبیر دریافت کی ورقہ بن نوفل نے غور سے سننے کے بعد کہا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں خدیجہ یہ خواب تمہارے لئے ایک عظیم بشارت ہے۔ عنقریب تمہاری شادی روئے زمین پر موجود شریف ترین اور برترین مرد سے ہوگی جس کی شہرت نہ صرف زمین پر ہوگی بلکہ آسمان میں بھی ان کاشہرہ ہوگا۔حضرت خدیجہ نے بخوبی جان لیا کہ روئے زمین پرشریف ترین اور برترین مرد کون ہے اور انہیں کس کے ساتھ شادی کی بشارت دی گئی ہے۔انہیں ایک عرصے سے اس بات کاعلم ہو چکا تھا کہ محمد کی شخصیت بے نظیر اور لاثانی ہے۔ لیکن وہ اپنی اور پیغمبر کی عمر کے فرق اور اپنے بہت زیادہ مال دار ہونے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شادی کے بارے میں پیغمبر سے اپنی خواہش کے اظہار کے بارے میں تذبذب کا شکار تھیں ۔ اپنی اس مشکل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے مکہ کی ایک محترم خاتون نفیسہ بنت منیہ کو پیغمبرکے پاس بھیجا تا کہ وہ ان کی مرضی معلوم کر سکیں۔ نفیسہ بنت منیہ نے آنحضرت سے کہا کہ اے محمد آپ کی سچائی،امانت داری اور پاک دامنی کے ہر طرف چرچے ہیں مکہ میں ہر لڑکی آپ سے شادی کرنے کی آرزو رکھتی ہے۔اب تو آپ پچیس برس کے ہو گئے ہیں آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے۔ پیغمبر نے اپناسرجھکا لیا اور فرمایا میرے پاس کیا رکھا ہے کہ میں شادی کروں؟ نفیسہ نے کہا کہ اس کا انتظام ہوگیا ہے اور آپ کو ایک ایسی جگہ شادی کرنے کی دعوت دی جارہی ہے جہاں حسن و جمال بھی ہے اور مال بھی ،شرافت و پاک دامنی بھی ہے اور ثروت و قابلیت بھی ۔ کیا آپ اسے قبول کریں گے۔ فرمایا وہ کون ہے؟ نفیسہ نے کہا خدیجہ۔ آپ نے فرمایا کیا وہ اس شادی پر راضی ہوجائیں گی جبکہ میرے اور ان کے رہن سہن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نفیسہ نے کہا اسے آپ میرے اوپر چھوڑ دیں میں انہیں راضی کرلوں گی اور ان سے بات چیت کرنے کے لئے آپ کو ان کے گھر لے جا‎ؤں گی ۔ آپ نے فرمایا اگر یہ بات ہے تومیں تیار ہوں نفیسہ یہ سنتے ہی خوشی سے نہال ہوگئیں اور خدیجہ کو یہ خوش خبری سنانے کےلئے جلدی سے ان کےگھر کی طرف روانہ ہوگئیں۔ پیغمبر اسلام جناب خدیجہ کے اخلاق و کردار سے بخوبی واقف تھے ۔ دولت کی ہوس جہالت اور بت پرستی کے دور میں خدیجہ کی پاک دامنی، شرافت، عطا و بخشش اور یتیم نوازی زباں زد خاص و عام تھی۔ ایک ایسے شہر میں کہ جہاں تقریبا´ سب لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے بنائے ہوئے پتھر اور لکڑی کے بتوں کے سامنے سر جھکاتے اور ماتھا ٹیکتے تھے، خدیجہ اور ان کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل اس کام کو باطل سمجھ رہے تھے اور حقیقت کی تلاش و جستجو میں تھے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو بچپن سے ہی بت پرستی سے نفرت کرتے تھے کس طرح مکہ کی کسی ایسی لڑکی یا عورت سے شادی کر سکتے تھے جو بتوں پر گہرا اور پکا عقیدہ اور ایمان رکھتی تھی ۔ صرف خدیجہ ہی وہ خاتون تھیں کہ جنھیں خدا نے ظہور اسلام سے قبل اپنے آخری پیغمبر کےساتھ شادی کی اہلیت و قابلیت عطا فرمائی تھی۔ جب محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم نفیسہ کے ساتھ خدیجہ کی دعوت پر ان کے گھر تشریف لے کر گئے اور ان کےسامنے پہنچے تو ہرچیز گواہی دے رہی تھی کہ یہ کوئی معمولی شادی نہیں ہوگی بلکہ آسمانی اور ملکوتی رشتہ قائم ہونے جا رہا ہے مکہ کی پاک دامن خاتون نے اپنی بات ایک جملے میں خلاصہ کردی پیغمبر سے کہا میں آپ کی سچائی ، امانت داری ، نیک فطرت ، بہترین اخلاق کہ جس کی ہر جگہ شہرت ہے اور آپ کی عظمت و برتری کہ جو تمام لوگوں میں بے مثال ہے کی بنا پر آپ سے شادی کی خواہش مند ہوں ۔ پیغمبر چونکہ ہمیشہ بزرگوں کا احترام کرتے تھے اس لئے خدیجہ کے جواب میں کہا۔ میں اس امر سے اپنے بزرگوں کو آگاہ اور ان سے مشورہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ جناب خدیجہ نے اس بات کو پسند اور قبول کیا اور طے پایا کہ دو نوں کے بزرگ مل بیٹھیں گے اور ان کی موجودگی میں یہ کام انجام پائے گا۔ پیغمبر نے اپنے چچاؤں سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ سے شادی کےلئے ہاں کہہ دی ۔ شادی کی تاریخ طے ہوگئی اور پھر شادی کے دن پیغمبر اسلام اپنے چچاؤں کے ساتھ حضرت خدیجہ کےگھر تشریف لے گئے۔ مہمانوں کی آؤ بھگت کی گئی ۔ اس کے بعد پیغمبر کے چچا ابوطالب نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیا اور خداوند متعال کی حمد و ثنا کرنے کے بعد اپنے بھتیجے کا تعارف کراتے ہوئے کہا میرے بھتیجے محمد عبداللّہ کا قریش کےکسی بھی مرد سے موازنہ کیا جائے تو بلاشبہ وہ اس پر برتری اور شرف رکھتا ہے۔ اگر چہ مالی لحاظ سے وہ تنگ دست ہے لیکن دولت آنے جانے والی چیز ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ نہیں رہتی جبکہ تقویٰ اور شرافت ایسی چیز ہے جو پائیدار اور باقی رہنے والی ہے اور کوئی بھی دولت اس کا مقابلہ اور برابری نہیں کر سکتی ۔ حضرت ابو طالب نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کا تعارف کرانے کے بعد اپنی بات ختم کی ۔ ان کے بعد حضرت خدیجہ کے چچا زاد ورقہ بن نوفل نے بات کرنا شروع کی ۔ وہ چونکہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتی خصوصیات اور حیرت انگیز مستقبل سے کسی حد تک واقف تھے اور انہوں نے حضرت خدیجہ کا خواب سننے کے بعد پیشین گوئی کی تھی کہ ان کی شادی دنیا کے باشرف ترین مرد سے ہوگی ۔ ورقہ بن نوفل نے کہا مکہ میں کوئی بھی آپ کے فضائل اور شرافت کا منکر نہیں ہے ۔ ہم بھی صمیم قلب سےآپ کے ساتھ رشتہ جوڑنا چاہتے ہیں ۔ حضرت خدیجہ کامہر 400 درہم طے ہوا اور نکاح حضرت ابو طالب نے پڑھایا حضرت خدیجہ نے اپنا جھکا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا اورمحمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم کے خوبصورت اور پر کشش چہرے کو دیکھا اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ کس طرح ان کی زندگی اس خورشید عالمتاب کے آنے سے روشن و منور ہوگئی ہے اوران کاحیرت انگیز خواب حقیقت کا روپ دھارگیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم اورحضرت خدیجہ کی شادی کی تقریب خدیجہ کے گھر میں منعقد ہوئی۔ یہ گھر اس شادی سے قبل غریبوں اور محتاجوں کی جائے پناہ تھا اس شادی کے بعد وہ ان کے لئے مزید اہمیت اختیارکرگیا کیونکہ ان کی آنکھوں نے محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ با اخلاق اور مہربان کسی اور کو نہیں دیکھا تھا اور حضرت خدیجہ سے زیادہ عطا و بخشش کی حامل کوئی اور شخصیت نہیں دیکھی تھی اور اب وہ دیکھ رہے تھے کہ ان دو عظیم ہستیوں کی شادی ہو رہی ہے لہذا ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اس مبارک موقع پر جناب خدیجہ کےگھر کے قریب جمع ہونے والے فقیروں ، غریبوں اور نادار افراد کی اونٹ کے گوشت سے تواضع کی جارہی تھی اور ان کی زبانیں شکر کے کلمات ادا کر رہی تھیں ۔ حضرت خدیجہ اپنے شوہر کے روحانی مقام و مرتبے اور حیرت انگیز مستقبل سے بخوبی واقف تھیں اوراسی بنا پر وہ محمد صلی اللّہ علیہ و آلہ و سلم میں گہری دلچسپی لے رہی تھیں۔ شادی کے بعد انہوں نے اپنی ساری دولت پیغمبر کے اختیار میں دے دی کہ وہ جہاں اور جیسے چاہیں خرچ کریں ۔پیغمبر اکرم نے شادی کے بعد اسی راستے کوجاری رکھا جو حضرت خدیجہ نے شادی سے قبل اختیار کیا تھا یعنی یتیموں ،غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے کاراستہ ۔ یہ بے مثال جوڑا دنیا کی تمام عورتوں اور مردوں کے لئے مکمل نمونۂ عمل ہے۔شادی کے بعد پیغمبر اسلام اپنے چچا ابو طالب کے گھر سے حضرت خدیجہ کے گھر منتقل ہوگئے اور حضرت خدیجہ نےاپنا گھر اور تمام دولت و ثروت پیغمبر اکرم کےاختیار میں دے دی۔ حضرت ابو طالب کے ہاں غریبانہ زندگی گزارنے کے بعد پیغمبر خدیجہ کے مال و دولت سے بھرے گھر میں منتقل ہوگئے لیکن پیغمبر کے طرز زندگی میں ذرہ برابر تبدیلی نہ آئی۔ ان کی زندگی اسی طرح سادہ رہی۔انہوں نے غریبوں اور محتاجوں کی مدد نہ صرف جاری رکھی بلکہ اپنے پروردگار سے راز و نیاز کا سلسلہ بھی جاری رکھا اوراس کے لئے وہ بدستور شہر سے باہر پہاڑوں اور غاروں میں جاتے تھے۔

گروپ پانچ جمع ایک ایران کے ساتھ مذاکرات کے کیلئے تیارروسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گروپ پانچ جمع ایک مستقبل قریب میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے نئے دور کے انعقاد میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ارنا کی رپورٹ کے مطابق روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گيا ہے کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کی سربراہی میں گروپ پانچ ایک رکن ممالک کے نمائندوں کا اجلاس منگل کے روز برسلز میں منعقد ہوا۔ جس میں ایران کے نومنتخب صدر ڈاکٹر حسن روحانی کے بیان کے پیش نظر قدم بہ قدم کی پالیسی کے مطابق ایران کے ایٹمی مسئلے کو حل کرنے کے لیے جامع سیاسی و سفارتی راہ حل تلاش کرنے کے عزم کا اظہار کیا گيا۔

بیان میں کہا گيا ہے کہ گروپ پانچ جمع ایک کے اجلاس میں شریک نمائندوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جونہی ایرانی فریق مذاکرات کے لیے تیار ہوا تو یہ مذاکرات شروع کر دیے جائیں گے۔

رهبر معظم کی رمضان المبارک کے پانچویں دن صدر اور کابینہ کے اراکین سے ملاقات

۲۰۱۳/۰۷/۱۴- رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رمضان المبارک کے پانچویں دن صدر جمہوریہ اور وزراء کے ساتھ ملاقات میں ملک کے اندرونی اور بیرونی سطح پر انقلاب اسلامی کے نعروں کو نمایاں کرنے اور دن رات تلاش و کوشش و جد وجہد کو حکومت کی قابل تعریف خصوصیات میں شمار کیا اور صدر احمدی نژاد اور انکے ساتھیوں کی مسلسل اور پیہم تلاش و کوشش اور زحمات پر شکریہ ادا کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس جلسہ میں پیش کی گئی رپورٹ کو انجام شدہ کاموں کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: ان رپورٹوں کے بارے میں عوام کو بھی آگاہ کرنا ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض مخالفین اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور بعض ملکی ذرائع کی جانب سے حکومتی کوششوں کو نظر انداز کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بعض لوگ تو حکومت کے نمایاں کاموں کا بھی جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ انجام شدہ زحمات اور کام ملک کی عمومی فضا میں نمایاں طور پر موجود اور مضبوط و مستحکم ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکومت کی دن رات کی تلاش و کوشش اور حکومت کے اچھے اور نمایاں کاموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ آٹھ برسوں میں ہر انسان نے محسوس کیا کہ صدر جمہوریہ اور ان کے ساتھی نےسختیوں کو برداشت کرکے گذشتہ حکومتوں کی نسبت نمایاں اور برق رفتاری کے ساتھ کام انجام دیئےہیں اور یہ ایک حقیقت اور قابل قدر اور قابل تعریف نکتہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " دیگر ممالک کے حکام " کے امتیازات سے عدم استفادہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امتیازات پر عدم توجہ اور مسلسل و پیہم کام اس حکومت کا بہت بڑا امتیاز ہے اور جو لوگ منصفانہ قضاوت کرنا چاہتے ہیں انھیں حکومت کے ان گرانقدر نکات پر بھی توجہ رکھنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابی نعروں کے بیان اور ان کی تقویت کو اہم اور ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے مخالف محاذ نے انقلابی نعروں کو محو کرنے ان کی قدر و قیمت گھٹانے اور انھیں کم رنگ بنانے کے سلسلے میں کافی تلاش و کوشش کی لیکن انھیں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور اس کی سب سے بڑی وجہ حضرت امام (رہ) کی ہوشیاری اور نعروں کا بیان اور انھیں مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت امام (رہ) کے وصیتنامہ کو حضرت امام (رہ) کے مورد نظر اور پسندیدہ اقدار کا خلاصہ قراردیا اور حکام کو حضرت امام (رہ) کے وصیتنامہ کو مسلسل پڑھنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام (رہ ) کی تحریریں اور تقریریں انقلاب اسلامی کے محکمات اور بینات میں شامل ہیں جن میں تحریف اور تبدیلی ممکن نہیں متشابہات نہیں کہ جن میں تحریف اور تبدیلی ممکن ہوسکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابی نعروں کو ملک کےاندر اور باہر مضبوط کرنے کے حکومتی اقدام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کے اہداف اور مقاصد کو عالمی سطح پر بیان کرنے میں شرم محسوس نہ کرنا حکومت کے نمایاں اور بزرگ کاموں میں شامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستقبل کی تمام سرگرمیوں میں انقلابی اہداف کو مد نظر رکھنے کے سلسلے میں حکومتی ارکان کو سفارش کرتے ہوئے فرمایا: آپ جیسے شائستہ اور لائق مدیروں کے لئے تلاش و کوشش جاری رکھنا ضروری ہے اور آپ کو اپنی تمام سرگرمیوں میں انقلابی جذبہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے اپنے فرزند حضرت امام حسن علیہ السلام کے بارے میں وصیت کے بعض جملات پیش کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کے پر تلاطم ، طولانی اور سخت راستے سے قیامت کی جانب عبور کرنے کے لئے دو گرانقدر وصیتیں کی ہیں: 1) محاسبہ اور اس راہ کے لئے زاد راہ اور توشہ فراہم کرنا، 2) اور اس راہ میں اپنے بوجھ کو کم اور ہلکا کرنا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا سے قیامت کی جانب حرکت کرنے کے لئے کم سے کم توشہ واجبات پر عمل اور محرمات ترک کرنے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس کم سے کم توشہ کے ذریعہ انوار الہی کو جذب کرنے کی راہیں فراہم ہو جاتی ہیں ۔

صدر احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے وزراء کی یہ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ساتھ آخری ملاقات تھی اس جلسہ کے اختتام پر رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صدر اور ان کی کابینہ کے ارکان کو قرآن مجید کا ایک ایک نسخہ بطور ہدیہ عطا کیا۔

اس جلسہ کے آغاز میں صدر احمدی نژاد نے نویں اور دسویں حکومت کے دوران رہبر معظم انقلاب اسلامی کی بھر پور حمایت ، ہدایت اور راہنمائی پر شکریہ ادا کیا اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ہم تمام شرائط میں انقلاب اسلامی ، ملک اور حضرت عالی کی خدمت میں رہیں گے۔

صدر نے انقلاب اسلامی کے اقدار پر پابندی سے عمل، عوام کی بے لوث خدمت، اور تلاش و کوشش کو نویں اور دسویں حکومتوں کی ممتاز خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا: گذشتہ 8 برسوں سے متعہد، مؤمن اور با تجربہ مدیروں کی نئی نسل معاشرے میں خدمات انجام دے رہی ہے۔

صدر احمدی نژاد نے کہا : آٹھ برسوں میں ایسے مدیروں نے خدمات سرانجام دی ہیں جو مؤمن اور انقلابی تھےاور عوام کا احترام اور ان کے حقوق کی حفاظت ان کے فرائض میں شامل تھا۔

صدر احمدی نژاد نے کہا: نویں اور دسویں حکومت نے بھر پور انداز میں عوام کی خدمات کو سرانجام دیا اور بہت سے باقی ماندہ کاموں اور عوام کی آرزوؤں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

اس جلسہ میں نائب صدر جناب رحیمی نے بھی بازار پر نگرانی، روزگار کی فراہمی، قومی پیداوار کی حمایت، سبسیڈی کو با مقصد بنانے، اقتصادی جرائم کا مقابلہ ، کرنسی اور اجناس کی اسمگلنگ کا مقابلہ اور اقتصادی پابندیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے اقدامات کے بارے میں مختصر رپورٹ پیش کی۔

اس جلسہ میں وزیر خزانہ جناب حسینی نے عالمی اقتصادی بحران کی طرف اشارہ کیا اور مستقبل میں ایران کے اقتصاد کو تابناک اور امید افزا قراردیا۔

وزیر خزانہ نے گذشتہ سال میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں اقدامات اور غیر ملکی کرنسی کو کنٹرول کرنے کے سلسلےمیں ارز مبادلہ مرکز قائم کرنے کو اپنی وزارت کےاہم اقدامات میں قراردیا۔

وزیر خزانہ نے کہا : کرنسی کے اضافہ سے زراعت، سیاحت ،برآمدات اور بیمہ کے شعبوں میں فائدہ ہوا جبکہ کرنسی سے وابستہ درآمدات میں شدید دباؤ کا سامنا رہا۔

وزیر خزانہ نے کہا: ملک کی ناخالص پیداوار ایک ہزار ارب تومان سے اوپر پہنچ چکی ہے اور دنیا میں ایران کا اقتصادی رتبہ سترہ تک پہنچ گیا ہے ایران کے غیر ملکی ذخائر بھی 100 ارب ڈالر سے اوپر پہنچ گئے ہیں۔

بجلی کے وزیر جناب نامجو نے بھی اپنی رپورٹ میں پانی اور بجلی کے بارے میں اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: نویں حکومت کے آغاز سے بجلی کی ظرفیت 38100 میگاواٹ تھی جو اب 69500 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔

غزہ میں غذائی اشیاء کی شدید قلت

باخبر ذرائع نے علاقے میں فلسطینیوں کے خلاف صہیونی حکومت کے جاری محاصرے کے نتیجے میں غزہ میں غذائی اشیاء کی شدید قلت کی بابت خبر دار کیا ہے۔ رشیا ٹوڈے ٹیلی ویژن چینل کے نامہ نگار سائد المسویرکی نے غزہ پٹی کے محاصرہ شدہ علاقوں کا دورۂ کرنے کے بعد کہا کہ غذائی اشیاء کی شدید قلت اور جاری محاصرے کے نتیجے میں مہنگائی میں ہوش روبا اضافے نے ماہ رمضان المبارک میں غزہ کے فلسطینی باشندوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ غاصب صہیونی حکومت نے محاصرے میں شدت پیدا کرنے کے لئے مقبوضہ فلسطین کے ساتھ غزہ پٹی کی واحد تجارتی گذرگاہ کرم ابوسالم کو بند کردیا ہے۔ بین الاقوامی رپورٹوں سے نشاندہی ہوتی ہے کہ غزہ کے باشندے فوڈ سیکورٹی کے فقدان کا شکار ہیں اور حتی خوش فہم ترین ماہرین کا خیال ہے کہ یہ علاقہ 2020 عیسوی میں زندگی گزارنے قابل نہیں رہے گا۔ غزہ پٹی کے فلسطینی باشندوں کے درمیان غربت و بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ اس شعبے میں فلسطین کی منتخب حکومت کی کابینہ کے رکن محمد الفرا نے اعلان کیا ہے کہ محاصرے کے جاری رہنے کی وجہ سے غزہ پٹی کے نوے فیصد بنیادی منصوبوں پر عمل درآمد رک گیا ہے۔ محمد الفراء نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کے علاقے میں ایندھن اور تعمیراتی مٹیریل کی فراہمی کے لئے گذرگاہ کھولنے کے لئے صہیونی حکومت پر دباؤ بڑھائے۔ فلسطین کی منتخب حکومت کی وزارت تعلیم نے بھی رفح کی گذرگاہ کے بند ہونے اور محاصرے کی بنا پر غزہ میں 39 اسکولوں کے تعمیراتی کاموں کے بند ہونے کی خبر دی ہے۔ فلسطین کی منتخب حکومت کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ صہیونی حکومت کی جانب سے غزہ کے جاری محاصرے کے نتیجے میں اس علاقے میں دواؤں کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اس دائرے میں صورت حال ہر روز بگڑتی چلی جارہی ہے اور سیکڑوں فلسطینیوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔ فلسطین کی منتخب حکومت کی وزارت صحت نے مزید کہا صہیونی حکومت بین الاقوامی قانونین کی پابند نہیں ہے اور غزہ کے علاقے میں دواؤں کو طبّی ساز و سامان کی ترسیل میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے اور اس صورت حال کی بنا پر غزہ میں تقریبا 460 فلسطینی بیمار اپنی جانوں سے ہاتھ دہو بیٹھے ہیں۔غزہ میں اس وقت ایندھن کی شدید قلت کا سامنا ہے اور شدید گرمی کے موسم میں اکثر علاقوں میں بجلی کی فراہمی تقریبا معطل ہوکر رہ گئی ہے اور غزہ کے اسپتالوں میں بجلی کی فراہمی کے نہ ہونے کی بنا پر بیماروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ادھر مصر کی فوج نے بھی صہیونی حکومت کے اھداف کے دائرے میں غزہ کے محاصرے کو شدید کردیا ہے اور حتی روز مرہ کی ضروریات کا سامان بھی غزہ جانے نہیں دیا جارہا ہے۔ مصر کے ساتھ غزہ سرحد میں آٹھ سو پانچ ٹونلز ، تقریبا اسی فیصد سے زیادہ تباہ کردی گئی ہیں اور یہ ٹونلز ہی غزہ کے باشندوں کی تنہا امید تھیں۔ صہیونی حکومت نے دو ہزار سات سے غزہ کے محاصرے میں اضافہ کردیا۔ اس اقدامات کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی عربی تنظیم کے سیکریٹری جنرل علاء شبلی نے اپنے ایک بیان میں عالمی برادری کو غزہ کے محاصرے کی منسوخی کا مکمل ذمہ دار قرار دیا ہے اور غزہ کے محاصرے کے خاتمے پر تاکید کی ہے۔ علاہ شبلی نے مقبوضہ سرزمین میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے نمایندے ریچرڈ فولک کی غزہ کی تازہ ترین صورت حال پر مبنی رپورٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے علاقے میں صہیونی حکومت کی جانب سے ایندھن اور تعمیراتی ساز و سامان کے داخلے پر پابندی نے اس علاقے میں فلسطینیوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔

شام میں ایک ہزار سے زائد مساجد کی شہادتشام میں انسانی حقوق مرکز نے کہا ہے کہ دہشتگردوں نے گذشتہ دو برسوں کےدوران ایک ہزار چار سو مساجد کو شہید کیا ہے یا انہیں شدید نقصان پہنچایا ہے۔

شام کے انسانی حقوق مرکز نے دہشتگردوں کےہاتھوں مساجد کی مسماری اور مساجد کو تخریبی کاروائيوں کا نشانہ بنانے کی مذمت کرتےہوئے کہا کہ مسجدوں کی مسماری سے ملت شام کی مساجد میں نماز کی ادائیگي میں رکاوٹ نہیں بن سکی ہے۔

ادھر اطلاعات ہیں کہ شام میں سرگرم عمل مغربی اور عرب حکومتوں کے حمایت یافتہ دہشتگردوں میں آپس میں جھڑپیں ہورہی ہیں اور وہ ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق شام میں سرگرم عمل دہشتگردوں کے درمیاں گذشتہ مہینوں میں اختلافات میں اضافہ ہوا ہے۔

شام کی نام نہاد آزاد فوج کے ایک کمانڈر کمال حمامی کو ایک نامعلوم مسلح فرد نے گولی مارکر قتل کردیا تھا۔ شام کے خلاف جنگ میں مشغول تکفیری دہشتگردوں کی آپس کی لڑائي میں دسیوں دہشتگرد ہلاک ہوچکے ہیں۔

پابندیوں کے باوجود ایران دنیا کی 17 ویں بڑی اقتصادی طاقت

اسلامی جمہوریہ ایران وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران دنیا کی 17 ویں بڑی اقتصادی طاقت پر ہے ۔

ایران کے وزیر خزانہ سید شمس الدین حسینی نے گذشتہ سال فارن کرنسی میں رونما ہونے والے تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس دوران فارن کرنسی کے مصارف کے لئے ترجیحات کو نظر میں رکھ کر پروگرام طے کیا ۔

سید شمس الدین حسینی نے کہا کہ اس وقت ایران کے زرہ مبادلہ کے ذخائر سو ارب ڈالر سے زیادہ ہیں اور ایران کے بیرونی قرضے چودہ ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔

ایران کے وزیر خزانہ نے تاکید کی کہ دنیا میں اقتصادی بحران کے باوجود ، ایران کا اقتصادی روشن افق ، عائد پابندیوں کے ہوتے ہوئے روشن اور امید افزاء ہے۔