
Super User
شام کا بحران مذاکرات سے حل کۓ جانے پر تاکید
عراقی وزیر اعظم نوری مالکی نے شام کا بحران اس ملک کے مختلف گروہوں کے درمیان مذاکرات اور پرامن طریقے سے حل کۓ جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔
عراقی خبر رساں ایجنسی السفیر نیوز کی رپورٹ کے مطابق عراقی وزیر اعظم نوری مالکی کے دفتر کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں آیا کہ نوری مالکی نے بغداد میں شام کے وزیر خارجہ ولید معلم کے ساتھ ملاقات میں شام کے بحران اور خطے پر اس کے نتائج کے بارے میں مذاکرات کۓ۔
اس بیان کے مطابق نوری مالکی نے اس ملاقات میں شام کے بحران کے پرامن حل اور اس ملک میں فوجی مداخلت کی روک تھام کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ اس بیان میں نوری مالکی نے جنیوا دو بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت پر مبنی شام کی حکومت کے فیصلے کو سراہا اور کہا ہے کہ عراق شام کے بحران کے سیاسی حل سے متعلق علاقائي اور عالمی سطح پر کی جانے والی ہر کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے۔
جناب زینب (س) کی رحلت
زینب اس باعظمت خاتون کانام هے جن کا طفولیت فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا هے جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا هوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص)نے انھیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا عصمت کبریٰ فاطمہ زہرا نے انھیں فضیلتوں اور کمالات کی ایسی گھٹی پلائی جس سے زینب کی تطهیر و تزکیہ نفس کا سامان فراہم هوگیا اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن هی سے اپنی شفقت آمیز مرافقت کا شرف بخشا یہ تھی زینب کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختا بنیادیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عہد طفولیت تکامل انسانی کی ایک مثال بن گیا.
وہ زینب جو قرة عین المرتضیٰ جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کی ٹھنڈک هو جو علی مرتضیٰ کی آنکھوں کانور هو وہ زینب جو علی مرتضیٰ کی قربانیوں کو منزل تکمیل تک پہنچانے والی هو وہ زینب جو”عقیلة القریش“هو جو قریش کی عقیلہ و فاضلہ هو وہ زینب جو امین اللہ هو اللہ کی امانتدار هو گھر لٹ جائے سر سے چادر چھن جائے بے گھر هو جائے لیکن اللہ کی امانت اسلام پر حرف نہ آئے، قرآن پر حرف نہ آئے،انسانیت بچ جائے، خدا کی تسبیح و تہلیل کی امانتداری میں خیانتداری نہ پیدا هو، وہ هے زینب جو ”آیة من آیات اللہ“آیات خدا میں ہم اہلبیت خدا هیں ہم اللہ کی نشانیوں میں سے ہم اللہ کی ایک نشانی هیں وہ زینب جو مظلومہ وحیدہ ہے جو مظلوموں میں سے ایک مظلومہ ”ملیکة الدنیا“وہ زینب جو جہان کی ملکہ هے جو ہماری عبادتوں کی ضامن هے ۔زینب اس بلند پائے کی بی بی کا نام جس کا احترام وہ کرتا جس کا احترام انبیاء ما سبق نے کیا هے جس کو جبرائیل نے لوریاں سنائی هیں کیونکہ یہ بی بی زینب ثانی زہرا سلام اللہ علیہا هے اور زہرا کا احترام وہ کرتا تھا جس کا احترام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرتے تھے ۔جس رحمة للعالمین کے احترام میں ایک لاکھ انبیاء کھڑے هوتے هو ئے نظر آئے عیسیٰ نے انجیل میں نام محمد(ص) دیکھا احترام رحمة للعالمین میں کھڑے هوگئے موسیٰ نے توریت میں دیکھا ایک بار اس نبی کے اوپر درود پڑھنے لگے تو مددکے لئے پکارا احترام محمد(ص) میں سفینہ ساحل پہ جا کے کھڑاهوگیا (یعنی رک گیا ) جس رحمت للعالمین کے احترام میں ایک کم ایک لا کھ چوبیس ہزار انبیا ء کا، کارواں کھڑا هو جائے تو وہ رحمت للعالمین بھی تو کسی کے احترام میں کھڑا هوتا هو گا اب تاریخ بتاتی هے کہ جب بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا محمد (ص) کے پاس آئیں محمد مصطفیٰ کھڑے هو گئے تو اب مجھے بتائے کہ استاد کھڑا هو اور شاگرد بیٹھا رهے سردار کھڑا هو سپاهی بیٹھے رهیں تو اب بات واضح هو گئی کہ محمد(ص)اکیلے نهیں فاطمہ(س) کے احترام میں کھڑے هوئے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا کارواں احترام فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا میں کھڑا هوا اب زینب هیں ثانی زہرا اگران کے تابوت و ان کے حرم کے سامنے احترام میں اگر شیعہ کھڑا هو جائے تو سمجھ لینا کہ وہ سنت پیغمبر ادا کررہا هے ۔
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس هوگی اس کا علم و تقویٰ کتنا بلند و بالا هوگا یهی وجہ هے کہ روایت کے جملہ هیں کہ آپ عالمہ غیر معلمہ هیں آپ جب تک مدینہ میں رهیں آپ کے علم کا چرچہ هوتا رہا اور جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی(ع) سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی هیں لیکن ہماری عورتوں نے یہ خواہش ظاہر کی هے کہ اگر هو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب(س) سے کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ جائیں ایک روز کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع هو گئیں اور ان سے درخواست کی کہ انھیں معارف الٰهیہ سے مستفیض فرمائیں حضرت زینب(س) نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں هی خواتین کی کثیر تعداد علوم الٰهی سے فیضیاب هونے لگی آپ روز بہ روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کرتی تھیں اور روز بہ روز تفسیر قرآن کے درس میں خواتین کی تعداد میں کثرت هو رهی تھی درس تفسیر قرآن عروج پر پہنچ رہا تھا اور ساتھ هی کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مردو زن کی زبان پر تھا اور ہر گھر میں آپ کے علم کی تعریفیں هو رهی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر هو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں هو رهی هے جس کا باپ ”راسخون فی العلم “ جس کا باپ باب شہر علم هے جس کا باپ استاد ملائکہ هے ۔
یہ تھی عظمت صدیقہ طاہرہ زینب کبریٰ ،لیکن، وہ و قت بھی قریب آیا کہ جب زمانہ نے رخ موڑ لیا ،جس در سے لوگ نجات حاصل کرتے تھے اسی در کو مسمار کرنے کی تیاریاں هونے لگیں حسین مظلوم(ع) نے ایک چھوٹا سا کارواں بنایا اوربحکم الٰهی نانا کے مدینہ کو خیر باد کہہ کر راہ کربلا اختیار کیا ایک روز راہ میں زینب نے دیکھا کہ دنیائے انسانیت کو منزل سعادت پہونچانے کا ذمہ دار امام محراب عبادت میں اپنے معبود کے ساتھ راز و نیاز کرنے میں مصروف هے بامعرفت بہن بھائی کے قریب بیٹھ گئی جب امام اپنے وظیفہ عبادت سے فارغ هوئے تو زینب(س) نے کہا بھیا میں نے آج شب میں ایک صدائے غیبی کو سنا هے گویا کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ
الا یا عین فاحتفظی
علی قوم تسوم قہم امنایا۔
ومن یبکیٰ اعلیٰ الشہد اء بعدی
بمقدار الیٰ انجاز وعدی
ان اشعار کا ترجمہ اردو زبان کے منظومہ انداز میں پیش خدمت هے۔
اشکبار دل حزیں هے ، میرا ساتھی یہاں کوئی نهیں هے
میرا عہد وفا پورا هوا هے ،مصیبت میں مصیبت آفریں هے
شهیدوں پر نهیں روئے گا کوئی،یهی احساس دل میں آتشیں هے
غم و کرب وبلا اور درد پیہم ، یہ سب اور ایک جسم نازنیں هے
زینب نے جب اپنے بھائی کو صحرائے کربلا میں تڑپتا دیکھا تو کہا ہائے میرے نانا محمد(ص) ہائے میرے بابا علی(ع)ہائے میرے چچا جعفر ہائے حمزہ سید الشہداء دیکھو میراغریب حسین(ع) صحرائے کربلا پر خون میں لت پت پڑا هے کاش آج آسمان گرجاتا یہ منظر زینب نہ دیکھتی لیکن ایک بار راوی کہتا هے کہ زینب نے کلیجے کو سنبھالا اور اس کے بعد بھائی کا کٹا هوا گلا چوم کر صبرو رضا کا دامن تھامے هو ئے خیام کی طرف چلیں زینب نے اتنی عظیم مصیبت پر صبرو استقامت اختیار کر کے عظمت انسانیت کو معراج بخشی اور پیام حسینی کی ہدایت نواز تاثیر سے دنیائے بشریت کو حیات جاویداں کا راستہ دکھایا۔ یهی وجہ هے کہ آج تک ہر صاحب بصیرت انسان زینب کے جذبہ استقامت کے سامنے سرِ ادب خم کئے هوئے هے کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ نے مصیبت دائم کی گھڑی میں صبرو تحمل کے ایسے نمونے پیش کئے جو آج تک ہر اہل درد کے لئے مثال بن چکے هیں حضرت علی علیہ السلام کی باعظمت بیٹی نے اپنی ہر مصیبت میں رضائے الٰهی کو مد نظر رکھا اور اپنے صبرکا اجر بارگاہ خدا سے طلب کیا۔ یهی وجہ هے کہ بھائی کی لاش پر آکر خدا کے حضور میں قربانی آل محمد علیہم السلام کی قبولیت کی دعا کرنا زینب کے مقام تقویٰ کا بے مثال نمونہ سمجھا جاتا هے اور حقیقت بھی یهی هے کہ اتنے عظیم بھائی کی لاش پر بہنیں عموماً اپنے حواس کھو بیٹھتی هیں لیکن زینب کے اخلاص صبر کی عظمتیں نمایاں هوئیں اور غم و اندوہ کی اس حالت میں رضائے الٰهی کے حصول کی دعائیں مانگتی رهیں عقیلہ بنی ہاشم زینب کبریٰ نے کربلا کی غم واندوہ فضاء میں عظمت و کردار کے جو نمونے پیش کئے وہ نہ فقط یہ کہ پوری کائنات کے لئے معیار عمل بنے بلکہ شہادت امام کے عظیم مقصد کی تکمیل بھی هوئی اور رہتی دنیا تک فطرت کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ کی ضمانت بھی فراہم هو گئی حق و باطل کی پہچان کے راستے واضح هوگئے اور شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کے پاکیزہ اسرار بھی نمایاں هوگئے۔
سیدہ زینب(س) نے اپنے پر جوش خطاب میں اموی خاندان کی بربریت اور ارباب اقتدار کی طاغوتیت کو بے نقاب کردیا اور لوگوں کو ان کے جرائم کے خلاف قیام کرنے پر آمادہ کیا ۔
اے زینب کبریٰ تیرے خطبوں کے ذریعہ
شبیر کا پیغام زمانہ نے سنا هے
دیتے هیں جو ہر روز مسلمان آذانیں
در اصل تیرے درد بھرے دل کی صدا هے
شاعر نے حضرت زینب(س) کے خطبوں کی حقیقت پر یوں روشنی ڈالی هے کہ:
ایمان کی منزل کف پا چوم رهی هے
ملت کی جبیں نقش وفا چوم رهی هے
اے بنت علی عارفہ لہجہ قرآں
خطبوں کو تیرے وحی خدا چوم رهی هے
ایک روایت بتاتی هے کہ جس وقت قیدیوں کو دمشق میں لایا گیا تھا تو اس وقت ایک عورت یزید کی بیوی ہند کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ اے ہند ابھی ابھی کچھ قیدی آئے هیں انھیں دیکھ کر دل دہل اٹھتا هے آؤ چلیں وهیں دل بہلائیں۔ ہند اٹھی اور اس نے عمدہ لباس زیب تن کیا اور اپنی سر تا پا چادر اوڑھی اور دوپٹہ سر کرکے اس مقام پر آئی اور اس نے خادمہ کو حکم دیا کہ ایک کرسی لائی جائے جب وہ کرسی پر بیٹھ گئی تو زینب کی نظر اس پر پڑی آپ نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو اسے پہچان لیا اور اپنی بہن ام کلثوم سے کہا بہن کیا آپ نے اس عورت کو پہچان لیا هے؟ ام کلثوم نے جواب دیا کہ نهیں میں نے اسے نهیں پہچانا، زینب نے فرمایا یہ ہماری کنیر ہند بنت عبداللہ هے جو ہمارے گھر میں کام کاج کرتی تھی، زینب(س) کی بات سن کر ام کلثوم(س) نے اپنا سر نیچے کر لیا اور اسی طرح جناب زینب(س) نے بھی اپنا سر نیچے کر لیا تاکہ ہند ان کی طرف متوجہ نہ هو لیکن ہند ان دونوں بیبیوں کو غور سے دیکھ رهی تھی اس نے آگے بڑھ کر پوچھا آپ نے آپس میں کیا گفتگو کر کے پر اسرار طور پر اور خاص انداز میں اپنے سر جھکا لئے هیں کیا کوئی خاص بات هے ؟ جناب زینب(س) نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموش کھڑی رهیں۔ ہند نے پھر پوچھا بہن آپ کس علاقے سے هیں ؟
اب زینب(س) خاموش نہ رہ سکیں اور فرمایا: ہم مدینہ کے رہنے والے هیں ،ہند نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو اپنی کرسی چھوڑ دی اور احترام سے کھڑی هو گئی اور پوچھنے لگی بہن کیا آپ مدینے والوں کو جانتی هیں ؟جناب زینب(س) نے فرمایا: آپ کن مدینہ والوں کے بارے میں دریافت کرنا چاہتی هیں؟ ہند نے کہا: میں اپنے آقا امام علی(ع) کے گھرانے کے متعلق پوچھنا چاہتی هوں، علی(ع) کے گھر انے کانام لےکر ہندکی آنکھوں سے محبت کے آنسوں جاری هو گئے اور خود کہنے لگی میں اس گھرانے کی خادمہ تھی اور وہاں کام کیا کرتی تھی مجھے اس گھرانے سے بہت محبت هے۔ زینب(س) نے پوچھا تو اس گھرانے کے کن افراد کو جانتی هے اور کن کے متعلق دریافت کرنا چاہتی هے ؟ ہند نے کہا کہ امام علی(ع) کی اولاد کا حال معلوم کرنا چاہتی هوں میں آقاحسین(ع) اور اولاد حسین (ع)اور علی (ع)کی پاکیزہ بیٹیوں کا حال معلوم کرنا چاہتی هوں۔ خاص طور پر میں اپنی آقا زادیوں زینب و کلثوم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی هوں اور اسی طرح فاطمہ زہرا(س) کی دوسری اولاد کے متعلق معلوم کرنا چاہتی هوں۔ زینب(س) نے ہند کی بات سن کر اشکبار آنکھوں کے ساتھ جواب دیا، تونے جو کچھ پوچھا هے میں تفصیل سے تجھے بتاتی هوں تو نے علی(ع)کے گھر کے متعلق پوچھا هے تو ہم اس گھر کو خالی چھوڑ کر آئے تھے، تو حسین(ع)کے متعلق دریافت کرتی هے تو یہ دیکھو تمہارے آقا حسین(ع) کا سر تمہارے شوہر یزید کے سامنے رکھا هے۔ تو نے اولاد علی علیہ السلام کے متعلق دریافت کیا هے۔
تو ہم ابو الفضل العباس سمیت سب جوانوں کو کربلا کے ریگزار پر بے غسل و کفن چھوڑ آئے هیں۔ تو نے اولاد حسین (ع)کے متعلق پوچھا هے تو ان کے سب جوان مارے گئے هیں۔ صرف ایک علی ابن الحسین(ع) باقی هیں۔ جو تیرے سامنے هیں اور بیماری کی وجہ سے اٹھ بیٹھ نهیں سکتے هیں اور جو تو نے زینب کے متعلق دریافت کیا هے تو دل پر ہاتھ رکھ کر سن کہ میں زینب هوں اور یہ میری بہن ام کلثوم هے۔ جناب زینب کا دردناک جواب سن کر ہند کی چیخ نکل گئی اور منہ پیٹ کر کہنے لگی ہائے میری آقا زادی یہ کیا هو گیا هے۔ ہائے میرے مولا کا حال کیسا هے۔ ہائے میرے مظلوم آقا حسین! کاش میں اس سے پہلے اندھی هو جاتی اور فاطمہ کی بیٹیوں کو اس حال میں نہ دیکھتی، روتے روتے ہند بے قابو هوگئی اور ایک پتھر اٹھا کر اپنے سر پر اتنے زور سے مارا کہ اس کا سارا بند خون خون هو گیا اور وہ گر یہ کر کے بے هوش هو گئی جب هوش میں آئی تو جناب زینب اس کی طرف متوجہ هو کر فرمانے لگیں: اے ہند تم کھڑی هو جاؤ اور اب اپنے گھر چلی جاؤ کیونکہ تمہارا شوہر یزید، بڑا ظالم شخص هے ممکن هے تمهیں اذیت و آزار پهونچائے۔ ہم اپنی مصیبت کا وقت گزار لیں گے ہم یہ نهیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے تمہارا سکون تباہ هو جائے ہند نے جواب دیا،کہ خدا مجھے اپنے آقا و مولا حسین سے زیادہ کوئی چیز عزیز نهیں هے۔ میری زندگی کا سکون ختم هو چکا هے اور اب میں اپنی زندگی کے باقی لمحات اسی طرح روتے هوئے گزاروں گی ۔
واشنگٹن پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرے
پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر سے ملاقات میں پاکستان کے اقتدار اعلی کے احترام پر تاکید کی ہے۔ ریڈیو تہران کی پشتوسروس کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے جمعے کو اسلام آباد میں امریکی سفیررچرڈ اولسن سے ملاقات میں کہا کہ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی خود مختاری اور اقتدار اعلی کا احترام کرے اورقبائلی علاقوں پر اس کے ڈرون حملوں سے جو ایک ارب روپیے کا نقصان ہوا ہے اسے بھی پورا کرے۔ نواز شریف نے کہا کہ دہشتگردی سے مقابلہ کرنا ہرملک کی ذمہ داری ہے اور صرف پاکستان ہی اس کا ذمہ دار نہیں ہے تاہم پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ واضح رہے نواز شریف نے جمعے کے دن اسلام آباد میں ہندوستان کے سفیر سے بھی ملاقات کی تھی۔ انہوں نے ہندوستان کے سفیر سے کہا تھا کہ درطرفہ مسائل مذاکرات سے حل کئےجانے چاہيں اور پاکستان باہمی احترام کے اصولوں کے مطابق ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔ واضح رہے نواز شریف کی پارٹی کو حالیہ عام انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔
حزب اللہ لبنان کا اعلان
حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں کے صیہونی قبضے سے آزاد ہونے کی ضرورت پر تاکید کی ہے۔ شخ نعیم قاسم نے کہا کہ المیادین ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ جولان کی پہاڑیوں کوآزاد کرانے کا حکم شام سے جاری ہونا چاہیے اور اگر شام نے جولان کے محاذ پر حزب اللہ کی مدد مانگي تو حزب اللہ پیچھے نہیں ہٹے گي۔ شیخ نعیم قاسم نے جولان کی پہاڑیوں کونہایت اہم قراردیا اور کہا کہ اس محاذ کو کھولنے کی ساری تیاریاں ہوچکی ہیں بس آپریشن کرنا باقی ہے۔ واضح رہے پچھلے دنوں جولان کے مقبوضہ علاقے میں شام اور صیہونی حکومت کے درمیاں جھڑپيں ہوئي ہیں۔
شام کے جنوب مغرب میں واقع جولان پر اسرائیل نے سن انیس سو سڑسٹھ میں عربوں کے ساتھ ہونے والی چھ روزہ جنگ میں قـبضہ کیا تھا ۔صیہونی حکومت نے اس علاقے پر اپنا تسلط باقی رکھنے کے لئے سن انیس سو اکیاسی میں اسے مقبوضہ علاقے میں شامل کرلیا تاکہ اس علاقے سے شام کے نام ونشان مٹادئیے جائیں۔ اسرائیل نے انیس سو اسی کی دہائي کے اوائل میں اپنی توسیع پسندی کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اس علاقے کو اپنی حدود میں شامل کر لیا اس غاصب حکومت کی پارلیمنٹ نے انیس سو اکاسی میں اس علاقے کو اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔جس کی اقوام متحدہ نے بھی مخالفت کی۔ صیہونی حکومت اس علاقے کے آبادی تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے صیہونی کالونیاں بنا رہی ہے ۔ جولان پر صیہونی قبضے کو کئی عشرے ہو رہے ہیں اور اس دوران وہ چالیس سے زیادہ کالونیاں بنا چکی ہے کھ عرصہ پہلے بہ خبر آئی تھی کہصیہونی حکومت شام میں اپنی توسیع پسندی کو جاری رکھتے ہوئے اس ملک میں دسیوں کلومیٹر طویل ایک بفر زون قائم کرنے کے چکر میں ہے۔ صیہونی حکومت نے اسی طرح شام سمیت مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اپنی سرحدوں پر حفاظتی حصار قائم کرنے کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں سمیت شام کے ساتھ اسرائیل کی سرحد کے بعض حصوں میں صیہونی دیوار کی تعمیر کا کام بھی حاری رکھا ہوا ہے۔ اس قسم کے اقدامات سے صیہونی حکومت کا مقصد جولان کی مقبوضہ پہاڑیوں پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانا اور اس علاقے کو عملی طور پر اسرائیل میں شامل کرنے کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔
صیہونی حکومت نے شام کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہ جو صیہونی حکومت اور مغربی ملکوں نے شام کو کمزور کرنے کے لیے کھڑا کیا ہے، اس ملک میں اپنی مہم جوئي تیز کر دی تھی اسکا جواب حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم نے بہت احسن طریقے سے دیا ہے
آئیے سنتے ہیں مشرق وسطی کے امور کے ماہر جناب شفقت شیرازی اس موضوع پر کیا اظہار خیال کر رہے ہیں
صیہونی حکومت شام سے تعلق رکھنے والے جولان کے علاقے کو اس کی اسٹریٹیجک حیثیت اور فراوان آبی ذخائر اور زرخیز زمین کے پیش نظر ہمیشہ سے للچائي ہوئي نظروں سے دیکھتی رہی ہےیہ ایسی حالت میں ہے کہ جب صیہونی حکومت نے ہمیشہ ڈرانے دھمکانے کی پالیسی اختیار کر کے شام کے عوام اور حکومت کو اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کے سامنے جھکانےکی کوشش کی ہے۔ لیکن شام کے عوام اور حکام نے ہمیشہ اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر صیہونی حکومت سمیت اغیار کے قبضے کے تسلسل کو ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ اسی لۓ شام ہمیشہ صیہونی حکومت کے خلاف استقامت کی فرنٹ لائن پر رہا ہے۔
اسرائیل شام کے خلاف خوف و ہراس کی پالیسی کے ساتھ ساتھ شام کو کمزور کرنے کے لۓ مختلف سازشوں کو بھی عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ شام کو داخلی بحران میں الجھائے رکھنے سے ، کہ جس میں اسرائیل اور مغربی حکومتوں کے ہاتھ نمایاں طور پر دکھائي دیتے ہیں، شام کے خلاف صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی سازشوں کی گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔
شام کو اس وقت داخلی بحران کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود شام کے عوام اور حکام جولان سے صیہونی حکومت کی پسپائی کی ضرورت پر تاکید کرتے ہیں اور وہ شام کے دشمنوں کی سازشوں کی ناکامی تک چین سے نہیں بیٹھیں گےایسے میں حزب اللہ لبنان کے نائب سربراہ شیخ نعیم قاسم کا حالیہ بیان صیہونی لابی کے لئے ایٹم بم سے کم نہیں۔
جنوبي لبنان کي آزادي کي تيرھويں سالگرہ
پچيس مئي سن دوہزار، لبنان کي تاريخ کا ناقابل فراموش دن ہے-
اس دن اسرائيلي فوج اپني تمام تر جديد ترين ہتھياروں اور وسائل کے باوجود حزب اللہ لبنان کے جوانوں کي مزاحمت کے سامنے گھٹنے ٹيکنے پر مجبور ہوگئي اور بائيس سال کے ناجائز قبضے کے بعد انتہائي ذلت آميز طريقے سے نکلنا پڑا-
لبنان کي تحريک مزاحمت نے ملک کے جنوبي علاقے کے ايک بڑے حصے کو عاضب اسرائیل کے قبضے سے چھڑا ليا اور صيہوني حکومت کے ناقابل تسخير ہونے کا افسانہ چکناچور کرديا-
جنوبي لبنان پر اسرائيلي فوج نے مارچ انيس سو اٹھتر ميں قبضہ کيا تھا اور اس کے ڈھائي ہزاز فوجي جنگي ہتھياروں کي مدد سے اس علاقے ميں داخل ہوگئےتھے-
لبناني فوج کے سربراہ جنرل جان قہوہ جي نے جنوبي لبنان کي آزادي کي سالگرہ کي مناسبت سے منعقد ہونے والي تقريب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبناني فوج اسرائيل کي ہر جارحيت کے منہ توڑ جواب دينے کے لئے تيار ہے-
انہوں نے کہا کہ ملک کي ارضي ساليمت اور اقتدار اعلي کا تحفظ فوج کي اہم ترين ذمہ داري ہے - لبناني فوج کے سربراہ نے امن کے قيام اور اسرائيلي جارحيت کي روک تھام کے لئے لبناني فوج، تحريک مزاحمت اور لبنان ميں تعينات عالمي امن فوج کے درميان تعاون کي ضرورت پر بھي زور ديا-
حزب اللہ لبنان کي پارليماني پارٹي کے رکن نواف موسوي نے بھي اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ اسرائيل، امريکہ کے کھلے تعاون کے ذريعے تحريک مزاحمت کو ختم کرنے کي کوشش کر رہا ہے- جس کا کہ مقصد لبنان کو صيہوني اور مغربي مفادات کے لئے تختہ مشق بنانا ہے-
لبنان کےسابق وزیراعظم اور سينئر سياستداں سليم الحص نے اپنے بيان ميں اسرائيل کے خلاف تحريک مزاحمت کي تيرہويں سالگرہ کي مبارک باد پيش کرتے ہوئے کہا کہ اس دن پوري دنيا کو پتہ چل گيا کہ عوام، فوج اور تحريک مزاحمت کے درميان پيدا ہونے والے اتحاد نے لبنان کو آزاد کراليا ہے اور صيہونيوں کو ذلت قبول کرتے ہوئے بھاگنا پڑا-
انہوں نے تحريک مزاحمت کے خلاف بعض ملکي دھڑوں کي جانب سے کھڑي کي جانے والي رکاوٹوں کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سياسي جماعتوں کو معلوم ہونا چاہيے کہ تحريک مزاحمت کي وجہ سے ملک اسرائيل کے خطرات سے محفوظ ہے- انہوں نے تحريک مزاحمت کي مخالفت کرنے والے سياسي دھڑوں کو مشورہ ديا کہ وہ مخالفت کے بجائے تحريک مزاحمت کي حمايت کرکے ملک کي حفاظت کو يقيني بنائيں-
لبنان کے مستعفي وزيراعظم نجيب ميقاتي نے بھي اپنے ايک بيان ميں جنوبي لبنان کي آزادي کي سالگرہ کے دن کو قومي دن قرار ديتے ہوئے عام تعطيل کا اعلان کرديا ہے-
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سيد حسن نصر اللہ نے بھي جنوبي لبنان کي آزادي کي سالگرہ کے موقع پر اپنے ايک بيان ميں کہا ہے کہ اگر اسرائيل نے ذرہ برابر غلطي اور يا لبنان پرحملے کي کوشش کي تو اسے منہ توڑ جواب ديا جائے گا-
سعودی عرب کا ہزاروں ہندوستانی کارکنوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ
سعودي عرب کي حکومت نے ہزاروں ہندوستان ملازمين اور محنت کشوں کو اپنے ملک سے نکال دينے کا فيصلہ کيا ہے۔
سعودي عرب ميں پاس ہونےوالے نئے قانون کے مطابق عنقريب تقريبا چھپن ہزار ملازمين اور محنت کش نکال دئے جائيں گے۔ہندوستان کے وزير خارجہ سلمان خورشيد نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے دس افراد پر مشتمل ايک ٹيم سعودي عرب بھيجنے کا فيصلہ کيا ہے جو ان ہندوستاني شہريوں کو سعودي عرب سے ہنگامي حالت ميں نکالے جانے کا سرٹيفکٹ تيار کرے گي۔
يہ ايسي حالت ميں ہے کہ يہ ہندوستاني ملازمين اسي وقت واپسي کا سرٹيفکٹ حاصل کرسکيں گے جب انہيں مقامي انتظاميہ کي طرف سے کليرنس مل جائے گي۔ ہندوستان کے وزير خارجہ سلمان خورشيد نے کہا کہ اب تک چھپن ہزار سے زائد ہندوستانيوں نے ہندوستاني سفارتخانے ميں اپنا نام لکھا ديا ہے يہ وہ لوگ ہيں جن کے پاس معتبر ويزا اقامہ اور حتي پاسپورٹ بھي نہيں ہے۔
اطلاعات ہيں کہ ہندوستاني وزير خارجہ سلمان خورشيد اس معاملے پر اپني سعودي ہم منصب سعود الفيصل سے بات چيت کے لئے رياض جانےوالے ہيں -سعودي عرب کے تازہ قانون نطاقات کے مطابق سعودي کمپنيوں کو اس بات کا پابند بنايا گيا ہے کہ وہ دس فيصد ملازمين سعودي نوجوانوں کو ہي رکھيں۔سعودي عرب کي حکومت نے ملک ميں غير قانوني طريقے سے کام کرنےوالے غير ملکي شہريوں کو آئندہ چھ جولائي تک کي مہلت دي ہے کہ وہ سعودي عرب سے چلے جائيں۔
انتخابات میں ملت ایران کی شرکت، اسلامی نظام کا تحفظ
تہران کی مرکزی نمازجمعہ آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی کی امامت میں ادا کی گئی۔
خطیب نماز جمعہ تہران نے لاکھوں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے ایران میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات میں ملت ایران کی وسیع شرکت کو ایران کے دشمنوں کی سازشوں کے مقابل اسلامی جمہوری نظام کے تحفظ کا سبب قراردیا۔آیت اللہ موحدی کرمانی نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ جون میں ہونے والے ایران کے صدارتی انتخابات میں ملت ایران کی وسیع شرکت ایک عظیم کارنامہ ہوگی جو ایران کے اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب کے تحفظ کا سبب بنےگی۔خطیب نماز جمعہ تہران نے کہا کہ ہر ایرانی جو ایران سے محبت رکھتا ہے اس کو ان انتخابات کے عمل میں فعال شرکت کرنی چاہئیے۔آیت اللہ موحدی کرمانی نے ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن کا حامل آئندہ صدر کو ہونا چاہئے کہا کہ یہ اہم عہدہ اختیار کرنے والے شخص کو رہبر انقلاب اسلامی کی ہدایات کے مطابق متقی، مدبر، منتظم، سامراج مخالف، انصاف پسند اور سادگی پسند ہونا چاہئیے۔خطیب نماز جمعہ تہران نے ایران پر عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران بعثی حکومت کے قبضے سے ایران کے خرم شہر کی آزادی کی سالگرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خدا پر ایمان اور ملت ایران کی صبر و استقامت خرم شہر کی آزادی کا سبب بنی۔انہوں نے شام میں دہشت گردں کے خلاف شامی فوج اور عوام کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمنوں کے مقابل شامی عوام کی استقامت کے ثمرات سامنے آنے والے ہیں۔
حجابِ حضرت فاطمہ زھرا (س) اور عصر حاضر کی خواتین
حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختلاف ہے۔ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ نے بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں اس دنیا میں تشریف لا کر اپنے وجود مبارک سے اس دنیا کو معطر کیا، حضرت فاطمہ زھرا (ع) دنیا کی وہ خاتون ہیں کہ جن کو خدا نے فرشتوں کے ذریعے سلام بھیجا اور آپ کا در وہ در یے کہ جہاں فرشتے بھی اجازت لے کر داخل ہوتے تھے، یہ مقام جو خدا نے فاطمہ زھرا (ع) کو دنیا و آخرت میں عطا کیا پے آج تک نہ کسی کو حاصل ہوا ہے نہ ہو گا، آپ کی سیرت مسلم خواتین کے لئے مشعل راہ ہے، آج کی عورت اگر آپ کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ بنا لے تو اسوقت خواتین جن مشکلات میں گرفتار ہیں وہ برطرف ہو جائیں گی۔
فضائل حضرت زہرا (س)
حضرت فاطمہ زہرا (س) عالم اسلام کی ایسی باعظمت خاتون ہیں جن کی فضیلت زندگی کے ہر شعبے میں آشکار ہے اور عظمتوں کے اس سمندر کی فضلیتوں کو قرآنی آیات اور معصومین (ع) کی روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت زہرا (س) کے فضائل کے بیان میں بہت زیادہ روایتیں وارد ہوئی ہیں، اور بعضں آیات کی شان نزول اور تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت زہرا (س) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ تفسیر فرات کوفی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ "انا انزلناہ فی لیلۃ القدر" میں "لیلۃ" سے مراد فاطمہ زہرا (س) کی ذات گرامی ہے اور "القدر" ذات خداوند متعال کی طرف اشارہ ہے۔ لہذٰا جسے بھی فاطمہ زہرا (س) کی حقیقی معرفت حاصل ہو گئی اس نے لیلۃ القدر کو درک کر لیا، آپ کو فاطمہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لوگ آپ کی معرفت سے عاجز ہیں۔
علامہ مجلسی (رہ) انس بن مالک اور بریدہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے سورہ نور کی ۳۷ویں آیت کی تلاوت فرمائی" فی بیوت اذن الله ان ترفع و یذکر اسمه یسبح له فیها بالغدو والاصال" تو ایک شخص کھڑا ہوا اور رسول خدا (ص) سے دریافت کیا؛ یا رسول اللہ یہ گھر کس کا ہے؟ فرمایا، انبیاء علیھم السلام کا گھر ہے، ابو بکر کھڑے ہوئے اور حضرت علی علیہ السلام کے گھر کی جانب اشارہ کر کے پوچھا، کیا یہ گھر بھی انھیں گھروں جیسا ہے؟ حضرت نے فرمایا، بیشک! بلکہ ان میں سب سے برتر ہے۔ کتاب البرہان فی تفسیر القرآن تالیف سید ہاشم بحرانی میں سورۂ بینہ کی پانچویں آیت کی تفسیر میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت میں دین قیم سے مراد فاطمہ (س) ہیں۔ شریعت کے سارے اعمال بغیر محمد و آل محمد (ع) کی ولایت کے باطل و بیکار ہیں اور روایات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دین کا استحکام فاطمہ(س) اور ان کی ذریت کی محبت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین قیم کی تفسیر آپ کی ذات گرامی سے کی گئی ہے۔
تفسیر قمی میں سورۂ احزاب کی ۵۷ویں آیت کے ذیل میں وارد ہوا ہے، " ان الذین یوذون الله و رسوله لعنهم الله فی الدنیا و الاخره و أعد لهم عذاباً مهینا" یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔ "
علی بن ابراھیم قمی (رہ) فرماتے ہیں کہ کہ یہ آیت علی و فاطمہ علیھما السلام کے حق کے غاصبوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ فرمایا، "جو بھی ہماری زندگی میں زہرا کو اذیت پہنچائے گویا میرے مرنے کے بعد بھی اس نے زہرا کو اذیت دی ہے اور جو بھی میری رحلت کے بعد زہرا کو اذیت دے گویا اس نے میری زندگی میں زہرا کو اذیت دی، اور جو بھی فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی ،جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی" اور خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے، "یقینا جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسوا کن عذاب مہیاّ کر رکھا ہے۔"
امام صادق علیہ السلام اپنے اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت زہرا (س) نے فرمایا، "جس وقت سورہ نور کی ۶۴ویں آیت " لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً" جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو پیغمبر اکرم (ص) کو اس طرح سے مت آواز دو) نازل ہوئی ہم نے پیغمبر اکرم (ص) کو بابا کہنا چھوڑ دیا اور یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرنے لگے، پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے فرمایا، بیٹی فاطمہ یہ آیت تمھارے اور تمھاری آنے والے نسلوں کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے چونکہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے، بلکہ یہ آیت متکبر اور ظالم قریش کے لئے نازل ہوئی ہے۔ تم مجھے بابا کہہ کر پکارا کرو چونکہ یہ کلمہ میرے دل کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور اس سے خداوند راضی ہوتا ہے، یہ کہہ کر میرے چہرے کا بوسہ لیا۔ سورہ شوریٰ کی ۲۳ویں آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے، "اے میرے رسول آپ امت سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو" ابن عباس سے روایت ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبر سے سوال کیا گیا، جن لوگوں سے محبت و مودت کا ہمیں حکم دیا گیا ہے وہ کون لوگ ہیں؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا، اس سے مراد علی، فاطمہ اور ان کے دو فرزند ہیں۔
حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی سیرہ کی روشنی میں کچھ عرائض مومن خواتین کی خدمت میں:
اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام پر فائز کیا ہے، اور اس صنف نازک کے لئے کچھ قوانین وضع کئے ہیں جو اس گوھر نایاب کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں، جب ہمارے پاس کوئی بہت قیمتی چیز ہوتی ہے تو ہماری یہ کوششں ہوتی یے کہ اس کو ایسی جگہ پر رکھا جائے کہ کوئی نہ چرا سکے لیکن افسوس صد افسوس قیمتی ترین گوھر کو دنیا کی گود میں آزادانہ ڈال دیا گیا ہے کہ جو جس طرح چاہے استفادہ کرے، ایک بہت مشہور جملہ ہے کہ "عورت ہی عورت کہ دشمن ہوتی ہے"، یہ سو فیصد درست ہے، جب عورتیں بہترین آرایش کے ساتھ معاشرے میں جلوہ گر ہوں گی تو یہ عورتیں پردے میں رہنے والی خواتین کا حق غصب کرتی ہیں، کیونکہ جب مرد بنی سنوری عورتوں کو دیکھتا یے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیوی سے مقایسہ کرنے لگتا ہے، اور یہی بات آہستہ آہستہ معاشرے میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے پردے کو عورت كی زينت اور اسکے لئے واجب قرار دیا هے، اس لئے اسلام ميں هر مسلمان عورت پر نامحرم سے پرده كرنا واجب هے، لیکن پرده واجب هونے كے باوجود اکثر مسلمان خواتين بے پرده نظر آتی هیں اور افسوس اس بات کا ہے کہ آج کے جدید معاشرے کی خواتین، پردے کو ترقی اور حسن کی راہ میں روکاوٹ سمجھتی ہیں، جو عورت بےحجابی سے حسن لانا چاہتی هے وہ یہ جان لے كه بےحجابی سے حسن پر زوال آتا هے نہ نکھار، بےحجابی سے عورت کی زينت اور وقار ختم هو جاتا هے۔
آج کے دور میں اسلام دشمن عناصر سازش کے تحت مسلم خواتین کو آلہء کار کے طور پر استعمال کر ریے ہیں، اور متاسفانہ آج كل كی عورتيں بھی modrenism کے شوق میں ان کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہیں، ایک جانب تو مغربی ممالک کی پیروی کرتی ہوئی نظر آتی ہيں اور دوسری جانب مسلمان ہونے كا ادعا بھی کرتی ہیں۔ اس بات بھی کی دعویدار ہیں کہ ہم پيرو حضرت زهرا (س) ہیں، اگر حضرت فاطمہ (س) كی پيروکار ہونے کا دعوا كرتی ہیں تو ان كي سيرت پر عمل بھی كرنا چاہیے۔ حضرت زهرا (س) نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی، اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی۔ عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامي قوانين كو رعايت كرتے هوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنا كردار ادا كرے۔ آجکل باحجاب خواتین کی بھی مختلف کیٹیگریز ہیں، کچھ وہ کہ جو حجاب واقعی کرتی ہیں، اور ان کا یہ حجاب تمام غیر محرموں سے ہے، اور یہی حجاب اسلام کو مطلوب ہے، کچھ ایسی بھی ہیں جو صرف سر پر اسکارف لینے کو حجاب کامل سمجھ لیتی ہیں، اس کے ساتھ میک اپ بھی ہے، نامحرموں کے ساتھ گپ شپ بھی ہو رہی ہے، شاید اس فارمولے کے تحت کہ "مسلمان سب بہن بھائی ہیں،"یہ وہ جملہ ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت سننے کو ملتا ہے،"حالانکہ مسلمان سب بھائی بھائی ہیں،" عورت کے لئے جسکو خدا نے نا محرم قرار دیا ہے وہ اسکے لئے نا محرم ہے، خدا نے عورت کو نامحرم سے بات کرنے سے منع نہیں کیا لیکن اس کی کچھ حدود و قیود مقرر کی ہیں۔ روایت میں ملتا یے کہ "عورت کو چاہیے کہ نا محرم سے نرم و زیبا لہجے میں بات نہ کرے"
اميرالمؤمنين علی (ع) پیامبر گرامی(ص) سے نقل کرتے ہیں؛ ايك نابينا شخص نےحضرت زهرا سلام اللہ علیھا كے گھر ميں داخل هونے كے لئے اجازت چاهی تو اس وقت حضرت زهرا سلام اللہ علیھا پردے كے پيچھے چلی گئیں پھر اس کو اندر آنے كي اجازت دی، رسول خدا (ص) نے سوال كيا یا فاطمه، يه نابينا هے اس كو تو كچھ نظر نہيں آتا كيوں پرده كر رہی ہیں؟ تو اس وقت جناب فاطمہ(س) نےجواب میں فرمايا؛ بابا جان وه مجھے نہيں ديكھ سكتا ليكن ميں تو اس كو ديكھ سكتی هوں، مجھے ڈر ہے کہ وہ میری بو استشمام كر لے گا، یہ سن کر پيامبر (ص) بے اختیار شهادت ديتے هوئے فرماتے ہیں: "فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي" فاطمه ميرے جگر كا ٹكڑا هے۔ عورت کے لئے اسلام ميں حجاب کی بہترين نوع چادر هے، يه چادر حضرت زهرا (س) کی عصمت و عفت کی يادگار هے۔ جس کو آج کی مسلمان عورت نے ایک طرف رکھ دیا ہے، خواتین کو پردے كے بارے ميں امر كرنا مرد پر واجب هے، روایت میں ملتا ہے کہ" قیامت کے روز ھر شخص چار عورتوں کے اعمال کا ذمّہ دار ہے، اور وہ چار عورتیں اس کی بیوی، بیٹی، بہن اور ماں ہیں"۔ آج کی عورت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو فاطمی اصولوں کے تحت گزارے، اس میں ہی اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا راز یے۔
دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی ملک کے سب سے بڑے مسائل ہیں
علامہ ساجد نقوی:
دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی ملک کے سب سے بڑے مسائل ہیں
ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے قائم مقام سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ دہشتگردی، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی ملک کے سب سے بڑے مسائل ہیں، امید ہے نئی جمہوری حکومت ان مسائل کے حل کیلئے موثر حکمت عملی اپنائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملک میں ہونیوالی حالیہ بدترین لوڈشیڈنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں اس وقت شدید گرم موسم ہے اور ان حالات میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باعث عوام انتہائی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ توانائی بحران کے باعث ملک معاشی عدم استحکام کا بھی شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بےروزگاری آنے والی نئی جمہوری حکومت کیلئے بڑے چیلنجز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنیوالی حکومت کی اولین ترجیح دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہونا چاہیئے کیونکہ گذشتہ کئی عرصے سے عوام اس عذاب کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے نئی قائم ہونیوالی جمہوری حکومت ملک سے دہشت گردی، لوڈشیڈنگ جیسی لعنت سے چھٹکارا پانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔
حزب اللہ کاانتباہ
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سیدحسن نصراللہ نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے اور اسلام کی شبیہ خراب کرنے کے لئے تکفیریوں کی سازشوں سےخبر دارکیا ہے۔
سیدحسن نصراللہ نے بیروت میں آئین پرعمل درآمد کے امور میں ایران کےصدر کےمعاون محمدرضامیرتاج الدینی سے ملاقات میں کہا کہ تکفیری افکار ، مسلمانوں کےمختلف فرقوں کےدرمیان تفرقہ ڈالنے اوراسلام کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہا کہ اس طرح کےباطل افکار کےمقابلے میں مسلمانوں کی ہوشیاری نہایت ضروری ہے ۔
سیدحسن نصراللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے استقامت کی حمایت کوسراہتے ہوئے کہاکہ شام پرصیہونی حکومت کےحملے کااصلی مقصد استقامت کوختم کرنا ہے۔
اس موقع پر محمدرضاتاج الدینی نے شام پرصیہونی حکومت کےحالیہ حملے اوردہشتگردوں کی دہشتگردانہ کاروائیوں کی مذمت کرتے ہوۓ کہاکہ ایران کا اصولی موقف غاصب صیہونیوں کی سازشوں اور غاصبانہ قبضوں کےمقابلے میں فلسطینی کاز اور استقامت کی حمایت کرنا ہے۔
میرتاج الدینی نے دشمنوں کےفتنوں کوناکام بنانے کےلئے عوام میں ہوشیاری کےتحفظ میں بیروت میں علماء اسلام کاکردار اوراسلامی ثالثی کمیٹی کے پہلےاجلاس کےکامیاب انعقاد کےبارےمیں کہاکہ شام کےمستقبل کافیصلہ اس ملک کےعوام ہی کرسکتے ہيں اوردوسروں کواس ملک کےعوام پر اپنےفیصلے تھوپنے کاحوق نہیں ہے۔