
Super User
صحابی رسول حضرت حجر بن عدی الکندی (رض) کے مزار کی مسماری، لاہور میں احتجاجی مظاہرہ
پاکستان کے صوبے پنجاب کے مرکز لاہور میں واقع پریس کلب کے سامنے شام میں شدت پسندوں کی جانب سے صحابی رسول حضرت حجر بن عدی الکندی (رض) کے مزار کو مسمار کرکے ان کے جسد مطہر کی بے حرمتی پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں لاہور کے شہریوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔
اسلام ٹائمز کے مطابق مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ عالم اسلام اُس معتبر اور جلیل القدر صحابی رسول (رض) کی بے حرمتی پر سراپا احتجاج ہے، شام میں اصل جنگ اسرائیل، امریکہ اُسکے اتحادی اور عالم اسلام کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدس ہستیوں کی قبروں کو مسمار کرکے اُن کی لاشوں کی بے حرمتی کوئی مسلمان نہیں کرسکتا، یقیناً یہ یہود و نصاریٰ کا کام ہے جو مخصوص ایجنڈے کے تحت اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ مقرین کا کہنا تھا کہ یہود و نصاریٰ اس جنگ کو نام نہاد اسلامی جہاد کا نام دے کر مسلمانوں کو آپس میں دست وگریبان کرنے کے درپے ہیں، لیکن خطے میں ایسی طاقتیں اللہ کی ذات نے رکھی ہیں جو ان کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیں گی۔
مغربی استعمار اس وقت شام میں وہ کام کر رہا ہے جس سے عالم اسلام کی رسوائی اور اسلامی اصولوں کے منافی اقدامات کو اسلامی روایات بنا کر ایک نیا اسلام متعارف کروایا جا رہا ہے، انشاءاللہ خطے کے غیور مسلمان کبھی اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ مقرین کا کہنا تھا کہا کہ ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور عرب ممالک جو کہ ان جنگجوؤں کے خیرخواہ ہیں، اُن سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اسلام کے نام پر اسرائیل اور امریکی مفادات کو جہاد کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنے سے باز رہیں۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے شام میں شدت پسندوں کی جانب سے کئے گئے اس المناک واقعے پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا اسرائیل اور امریکی پالتو کتوں کو مجاہدین کا نام دے کر اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے، اقوام متحدہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام آج سراپا احتجاج ہے، دنیا میں جہاں جہاں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں اس کے پیچھے امریکہ، اسرائیل اور اس کے حواری ہیں۔ او آئی سی اِس واقعے کا فوری نوٹس لے کر ان جاہل قوتوں کی حمایت کرنے والے عرب ممالک سے جواب طلب کریں، بصورت دیگر اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔
شامی تکفیریوں کا ایک اور شرمناک اقدام
شام کے تکفیریوں نے صحابی رسول حضرت حجر ابن عدی رضی اللہ تعالی علیہ کی قبر مبارک کو کھود کر آپ کے مزار کو منہدم کر دیا ہے۔ ایک لبنانی خبر رساں ادارے کے مطابق تکفیری دہشت گردی حضرت حجر ابن عدی رضی اللہ تعالی علیہ کا جسد خاکی قبر مبارک سے نکال کر لے گئے ہیں۔
خبر کے مطابق یہ واقع یعنی 2 مئی کو شام میں واقع دمشق کے مضافاتی علاقے "عدرا" میں پیش آیا۔ حضرت حجر ابن عدی رضی اللہ تعالی علیہ قبیلہ کندی سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ قبیلہ ایک یمنی قبیلہ ہے جس نے کوفہ کی جانب ہجرت کی۔ مصدقہ رویات کے مطابقحضرت حجر ابن عدی رضی اللہ تعالی علیہ اپنے بھائی ہانی بن عدی کے ہمراہ رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
حضرت حجر بن عدی زہد و کثرت عبادت کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ چنانچہ ان کے بارے میں روایت ہے کہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ حضرت حجر ابن عدی رضی اللہ تعالی علیہ اپنی کم سنی کے باوجود پیغمبر اسلام کے بزرگ اور فاضل صحابہ میں شمار ہوتے تھے۔
العالم ٹی وی چینل کے مطابق شامی تکفیری دہشتگردوں نے پہلے ان کی ضریح کو منہدم کیا اور پھر نبش قبر کرنے کے بعد ان کا جسد خاکی جو کہ صحیح و سالم حالت میں تھا، نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔
شامی دہشت گرد جنہیں امریکہ اور مغربی ملکوں کی حمایت حاصل ہے اس سے قبل معروف صحابی رسول حضرت عمار یاسر رضی اللہ کی مزار اقدس کو بخی منہدم کر چکے ہیں جبکہ نواسی رسول حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہ کے روضہ مبارک کو شہید کرنے کی کی ناپاک جسارت کرنے کے درپے ہیں۔
٭ اوپر تصویر میں حضرت حجر بن عدی (رض) کے مزار پر نصب ضریح مبارک اور مزار کے انہدام کے بعد کھلی ہوی قبر مبارک کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے٭
بے نظیر قتل کیس، ایف آئی اے پراسیکیوٹر قتل
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جمعہ کی علی الصبح نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے ایف آئی اے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو قتل کردیا۔ چودھری ذوالفقار بے نظیر قتل کیس کی پیروی کر رہے تھے اور آج اسی سلسلے میں اپنے دلائل پیش کرنے عدالت جا رہے تھے۔
پولیس کے مطابق گھات لگائے ملزمان نے علی آلصبح چوہدری ذوالفقار کو نشانہ بناتے ہوئے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ چوہدری ذوالفقار کو سینے پر گولیاں لگیں۔
چوہدری ذوالفقار آج صبح گھر سے عدالت جانے کیلئے نکلے تھے کہ گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ پولیس نے لاش قبضے میں لے کر پوسٹ مارٹم کیلئے پمز منتقل کردی۔ علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سرچ آپریشن شروع کردیا ہے
واضح رہے کہ بے نظیر قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر بے نظیر قتل کا مقدمہ چلا یا جا رہا ہے۔
اسلامی بیداری، دشمنوں کی بوکھلاہٹ کاسبب
تہران کی مرکزی نماز جمعہ آيت اللہ امامی کاشانی کی امامت میں ادا کی گئي۔
خطیب جمعہ تہران نے لاکھوں نماز یوں سے خطاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے روز ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارک باد پیش کرتے ہوئے گيارہویں صدارتی انتخابات میں شرکت کو دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے ہر فرد ملت کا فریضہ قراردیا۔ آیت اللہ امامی کاشانی نے گيارھویں صدارتی انتخابات میں عوام کی بھر پور شرکت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایسے عالم میں جب کہ دشمن اسلامی نظام کو کمزور بنانے کے لئے سازشیں کررہا ہے انتخابات میں شرکت کرنا نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ خطیب جمعہ تہران نے کہا کہ صدارتی انتخابات میں شرکت سے دشمن مایوس ہوجائے گا اور اس کی سازشیں نقش پر آب ہوجائيں گي۔ خطیب جمعہ تہران نے بعض اسلامی ملکوں میں جاری بدامنی اور تشدد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارے اختلافات اسلام کو نقصان پہنچانے کی دشمن کی سازشیں ہیں لھذا مسلمانوں کو دشمن کی سازشوں کے مقابل ہوشیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے اسلامی بیداری کو دشمنوں کی بوکھلاہت کا ایک سبب قراردیا اور کہا کہ وہ مفتی جو اسلام کے نام قومی اور مذہبی جنگوں کے فتوے دیتے ہیں نہ صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ اسلام و مسلمین کے حق میں خیانت کررہے ہیں اور سامراج و صیہونیت کے آلہ کار ہیں۔ آیت اللہ امامی کاشانی نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی برقراری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاکیدات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کے جان و مال پر حملہ کرنا حرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے درمیان تصعب کو ہوا دینا دشمن کی سازش ہے جس سے مسلمانوں کو دوری کرنی چاہیے اور سارے مسلمانوں کو خواہ شیعہ ہوں یا سنی، متحد ہوکر اسلام و قرآن کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
20 جمادی الثانی، حضرت فاطمہ زہرا کا یوم ولادت با سعادت
جمادی الثانی کوثرولایت ، مادرامامت، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا یوم ولادت باسعادت ہے
پیغمبراعظم حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یگانہ روزگاربیٹی اورقرۃ العین الرسول بعثت کے پانچویں سال اس دنیاميں تشریف لائیں اورخانہ وحی میں اپنے پدربزرگوارکے دامن تربیت میں پروان چڑھیں اورعلم ومعرفت اورکمال کی اعلی منزلیں بھی آپ کے کمال لازوال کے سامنے ھیچ نظرآئيں ۔
ہجرت کے دوسرے سال آپ ، امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے رشتہ ازدواج ميں منسلک ہوئيں ۔
رسول اسلام کی لخت جگرنے حضرت علی علیہ السلام کے کاشانہ علم ومعرفت میں بحیثیت ایک زوجہ ذمہ داریوں اورفرائض کا اعلی ترین نمونہ پیش کیا اورایک ماں کی حیثیت سے رہتی دنیاتک لئے ایسی لافانی مثال قائم کی کہ ماں کی آغوش سے اولاد کومعراج عطاہونے لگی ۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی نے کہ جن کا یوم ولادت بھی آج ہی ہے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ اگرکسی دن کویوم نسواں یاپھر روزمادرسے منسوب کرنا ہے تو شہزادی کونین کے یوم ولادت باسعادت سے بہترموقع یا دن اورکون ہوسکتا ہے اسی مناسبت سے آج کے دن اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیاکے مختلف ممالک میں مسلمان یوم نسواں یا روزمادرمناتے ہيں ۔شوہراپنی شریک حیات کی زحمتوں اوراسی طرح اولاد اپنی ماؤں کی شفقتوں اوران کی لازوال محبتوں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان کوتحفے اورتحائف پیش کرتے ہيں اوریوں اس مبارک دن کو کوثرولایت کے یوم ولادت کے طورپر ایک خوبصورت معنوی جشن سے معمورکرتے ہيں ۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای اس دن کی مناسبت سے اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا اعطیناک الکوثر ۔ فصل لربک وانحر ۔ ان شانئک ھو الابتر
بشریت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی احسان مند ہے ، ان کا فیض ، انسانوں سے بھری اس دنیا کے کسی چھوٹے سے گروہ تک ہی محدود نہیں ہے اگر ہم حقیقت پر مبنی اور منطقی نظر سے دیکھیں تو ، ہمیں نظر آئے گا کہ پوری انسانیت پر ان کا احسان ہے یہ کوئی مبالغہ نہيں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ جس طرح سے انسانیت پر اسلام ، قرآن ، انبیائے خدا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیمات کا احسان ہے ۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے ۔ آج بھی ایسی ہی صورت حال ہے اور روز بروز اسلام اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی معنویت کا نور زيادہ واضح ہوتا جائے گا اور بشریت اسے زیادہ واضح طور پر محسوس کرے گی ۔
ہمیں خود کو پیغمبر اعظم کے خاندان سے منسوب ہونے کے لائق بنانا چاہئے
ہمارا فرض یہ ہے کہ خود کو اس خاندان سے منسوب کرنے کے لائق بنائيں ۔ البتہ خاندان رسالت ، ان کے اعزاء اور ان کی ولایت میں معروف لوگوں سے منسوب ہونا بہت مشکل کام ہے ۔ زیارت میں ہم پڑھتے ہیں کہ ہم ، آپ کی محبت اور دوستی میں مشہور ہیں ۔ اس سے ہمارا فرض اور زیادہ اہم ہو جاتا ہے ۔ یہ خیر کثیر ، جس کی خوش خبری خدا وند عالم نے سورہ کوثر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دی اور کہا ہے ، انا اعطیناک الکوثر ، ہم نے تمہیں خیر کثیر عطا کیا تو اس کی تفسیر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں ۔ در اصل وہ ان تمام خیروں و بھلائی کا سرچشمہ ہیں جو روز بہ بروز دین محمدی کے آبشاروں سے ، تمام انسانیت اور تمام خلق خدا کو نصیب ہوتی ہے ۔ بہت سے لوگوں سے اسے چھپانے اور اس سے انکار کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو پائے ، واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون ، اور اللہ تو اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے بھلے ہی کافروں کو برا لگے ، ہمیں خود کو نور کے اس منبع سے قریب کرنا چاہئے ۔ اور نور کے مرکز سے قربت کا لازمہ اور نتیجہ ، نورانی ہونا ہے ۔ ہمیں عمل کے ذریعے ، خالی محبت کے ذریعے ہی نہيں ، نورانی ہونا چاہئے ۔ یہ وہ کام ہے جس کی تاکید ہماری محبت ، ولایت اور ایمان کرتا ہے اور ہم سے اس کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس کام سے ہمیں اس خاندان کا حصہ اور اس سے منسوب ہونا چاہئے ۔ ایسا نہيں ہے کہ علی کے گھر کا قنبر بننا آسان کام ہے ، ایسا نہيں ہے کہ سلمان منا اھل البیت کے منزل تک پہنچنا آسان ہے ، ہم اہل بیت کے پیروکار اور ان سے محبت کرنے والے ، ان سے یہ توقع رکھتے ہيں کہ وہ ہمیں اپنوں میں اور اپنی چوکھٹ پر بیٹھنے والوں میں شمار کریں ، وہ کہیں کہ فلاں ہماری درگاہ کے خاک نشینوں میں سے ہے ۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ اہل بیت ہمارے بارے میں ایسا سوچیں ، لیکن یہ کوئی آسان بات نہيں ہے ۔ یہ صرف دعوا کرنے سے ملنے والی چیز نہيں ہے ۔ اس کے لئے ، عمل ، قربانی و ایثار اور ان کے اتباع کی ضرورت ہے ۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے بڑی مختصر عمر میں بہت سے فضائل حاصل کئے ؟ کس عمر میں ان فضیلتوں کو حاصل کیا ؟ کس عمر میں اتنے عظمتوں تک پہنچ گئیں ؟ بہت چھوٹی عمر میں ، اٹھارہ برس ، بیس برے ، پچیس برس ، روایتیں مختلف ہيں ۔ یہ ساری فضیلتیں یونہی حاصل نہیں ہوتیں ، امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرہ ، خداوند عالم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا کا امتحان لیا ، خداوند عالم کا نظام ، حساب کتاب کے ساتھ ہے ۔ جو کچھ عطا کرتا ہے حساب سے عطا کرتا ہے ۔ اسے اپنی اس خاص کنیز کی قربانیوں و معرفت کا بخوبی علم ہے اسے لئے اس نے انہيں اپنی برکتوں کے سرچشمے سے جوڑ دیا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عمل میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکار ہونا چاہئے ، ہمیں اسی راستے پر آگے بڑھنا چاہئے ، چشم پوشی کرنا چاہئے ، قربانی دینا چاہئے ، خدا کی اطاعت کرنی چاہئے ، عبادت کرنی چاہئے ۔ کیا ہم نہيں کہتے کہ انہوں نے اتنی عبادت کی کہ ان کے پیروں میں ورم آ گیا ، اتنی عبادت ! ہمیں بھی خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی خدا کے ذکر کرنا چاہئے ۔ ہمیں بھی اپنے دلوں میں روز بروز خدا کی محبت میں اضافہ کرنا چاہئے کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ نقاہت کے عالم میں مسجد گئيں تاکہ اپنا حق واپس لے سکیں ؟ ہمیں بھی ہر حالت میں حق کی واپسی کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔ ہمیں بھی کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے ، کیا ہم یہ کہتے کہ وہ ، تن تنہا اپنے زمانے کے اس بڑے سماج کے سامنے کھڑی ہو گئيں ؟ ہمیں انہی کی طرح جیسا کہ ان کے شوہر نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ ہدایت کے لئے ساتھیوں کی کم تعداد سے نہيں ڈرتی تھیں ہمیں بھی اپنی کم تعداد کی وجہ سے ظلم و سامراج سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی چاہئے ، کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے ایسا کام کیا کہ ان کے اور ان کے شوہر اور بچوں کے بارے میں سورہ دہر نازل ہوا ؟ غریبوں کے لئے قربانی و ایثار ، بھوکی رہ کر ؟ و یوثرون علی انفسھم ولو کان بہم خصاصہ ، ہمیں بھی یہی کرنا چاہئے ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کا دم بھريں ، ان کی محبت کا دم بھریں جنہوں نے بھوکے کا پیٹ بھرنے کے لئے ، اپنے چہیتوں ، حسن و حسین اور ان کے والد کے ہاتھوں سے لقمہ لے کر فقیر کو دے دیا ، ایک دن نہيں ، دو دن نہیں ، تین دن ! کیا ہم نہيں کہتے کہ ہم ایسی شخصیت کے پیروکار ہيں ؟ لیکن ہم نہ صرف یہ کہ اپنا لقمہ کسی حاحت مند کو نہيں دیتے ، بلکہ اگر ہمارا بس چلے تو کسی غریب کا لقمہ بھی چھین لیں ! یہ کافی اور دیگر کتابوں میں جو روایت ہے شیعوں کی علامتوں کے بارے میں ، اس کا مطلب یہی ہے ۔ یعنی شیعہ کو ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ ہمیں اپنی زندگی میں ان کی زندگی کی جھلک لانی چاہئے بھلے یہ جھلک بہت ہی ہلکی ہی کیوں نہ ہو ۔ ہم کہاں اور بزرگ شخصیتیں کہاں ؟ ہم کہاں اور وہ بارگاہ کہاں ؟ ظاہر ہے ہم تو ان کے مقام کے قریب پھٹکنے کی سوچ بھی نہيں سکتے لیکن ہمیں خود کو ان کے جیسا ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ہم ان اہل بیت کی زندگی کی مخالف سمت میں تو نہيں بڑھ سکتے وہ بھی اس دعوے کے ساتھ کہ ہم تو اہل بیت کے چاہنے والے ہيں ۔ کیا یہ ہو سکتا ہے ؟ مثال کے طور پر کوئي امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے زمانے میں ، اس قوم کے دشمنوں میں سے کہ جن کے بارے میں امام خمینی ( رح) ہمیشہ گفتگو کیا کرتے تھے ، کسی کا اتباع کرتا ، تو کیا وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ امام خمینی کا پیروکار ہے ؟ اگر کوئي ایسی بات کرتا تو کیا آپ لوگ ہنستے نہیں؟ یہی صورت حال اہل بیت کے معاملے میں ہے ۔
تڑک بھڑک اور عیش و عشرت کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پیروکارنہيں بنا جا سکتا ہمیں اپنی اہلیت و صلاحیت کو ثابت کرنا ہوگا ۔ کیا ہم نہيں کہتے کہ ان کا جہیز ایسی چیزیں تھیں جن کا نام سن کر آدمی کی آنکھیں برس پڑتی ہيں ؟ کیا ہم یہ نہيں کہتے کہ وہ دینا اور دنیا کی خوبصورتیوں میں کوئی دلچسپی نہيں رکھتی تھیں ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم دن بہ دن اپنے سامان عیش و عشرت اور تڑک بھڑک میں اضافہ کرتے جائيں ، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے .
صیہونی حکومت، عالم اسلام کی تمام مصیبتوں کا ذمہ دار
العالم ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق شیخ نعیم قاسم نے آج تہران میں علما اور اسلامی بیداری بین الاقوامی کانفرنس میں کہا کہ صیہونی حکومت مسلمانوں اور تمام معاشروں کے لیے خطرہ سمجھی جاتی ہے اور وہ تمام مصائب و مشکلات کا سبب ہے۔ انہوں نے صیہونی حکومت کے قبضے کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کو حملے اور جنگ کی دھمکی دینے سے صیہونی حکومت کو کوئي فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ حزب اللہ ہمیشہ تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی بیداری جاری ہے اور یہ پورے علاقے میں پھیل جائے گی۔
خلیج فارس کا قومی دن، علاقائی تعاون کے لیے ایک موقع
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے خلیج فارس کے قومی دن کو علاقائی تعاون کے لیے ایک موقع قرار دیا ہے۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے تہران کے ایک اسکول میں خلیج فارس کی قومی گھنٹی بجانے کی تقریب میں کہا کہ خلیج فارس کا قومی دن دوستی اور علاقائی تعاون اور سکیورٹی کے لیے ایک موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیج فارس کے دن اور اس کی قومی گھنٹی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خلیج فارس کو کوئي خطرہ ہے کیونکہ دشمن کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ خلیج فارس کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا کر سکیں۔
سترہویں صدی میں تیس اپریل کو خلیج فارس پر پرتگالیوں کا قبضہ ختم ہوا اور اس دن کو خلیج فارس کے قومی دن کا نام دیا گيا.
دوسری جانب ایران کے جنوبی شہر بوشہر میں خلیج فارس کے قومی دن کا مستقل دفتر اور سمندری تجارت کامیوزیم قائم کر دیا گيا ہے۔
بوشہر کے گورنر نصراللہ ابراہیمی نے اس میوزیم اور دفتر کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ یہ میوزیم اور دفتر ایک ایسی تاریخی عمارت میں قائم کیا گيا ہے جو ایک صدی سے زائد عرصہ پرانی ہے۔
علماء اور بیداری اسلامی اجلاس سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا مکمل متن
اسلامی بیداری اور علماء بین الاقوامی اجلاس سے قائد انقلاب اسلامی کا خطاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد المصطفی و آلہ الاطیبین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین
آپ معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور خدائے عزیز و رحیم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اس اجتماعی سعی و کوشش میں برکت عطا کرے اور اسے مسلمانوں کے حالات کی بہتری کی سمت موثر قدم میں تبدیل کر دے۔ انہ سمیع مجیب وہ سننے اور قبول کرنے والا ہے۔
اسلامی بیداری کا موضوع جس پر آپ اس اجلاس میں بحث کریں گے، اس وقت عالم اسلام اور امت مسلمہ کے مسائل میں سر فہرست ہے۔ ایسی حیرت انگیزی تبدیلی جو اذن پروردگار سے اگر صحیح و سالم رہ گئی تو وہ دن دور نہیں کہ یہ اس بات پر قادر ہو جائیگی کہ امت اسلامیہ اور پھر عالم بشریت کے لئے اسلامی تمدن کو وجود عطا کر دے۔
آج جو کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور جس کا کوئی بھی باخبر اور سمجھدار انسان منکر نہیں ہو سکتا یہ ہے کہ اس وقت اسلام دنیا کے سیاسی و سماجی معاملات میں حاشئے سے نکل کر عالمی تغیرات کے فیصلہ کن عناصر کے مرکز میں نمایاں مقام پر پہنچ گیا ہے اور امور حیات، سیاست، حکومت اور سماجی تغیرات کے میدان میں ایک نیا طرز فکر پیش کر رہا ہے۔ یہ چیز موجودہ دنیا میں جو کمیونزم اور لبرلزم کی شکست کے بعد گہرے فکری و نظری خلاء سے دوچار ہے، بہت اہم اور بامعنی ہے۔
یہ شمالی افریقا اور عرب علاقے کے انقلابی و سیاسی تغیرات کا پہلا اثر ہے جو عالمی سطح پر مرتب ہوا ہے اور مستقبل میں زیادہ بڑے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کی خوش خبری دے رہا ہے۔
اسلامی بیداری کہ استکباری اور رجعت پسند محاذ کے ترجمان جس کا نام بھی زبان پر لانے سے گریزاں اور ہراساں ہیں، وہ اٹل سچائی ہے جس کے آثار اس وقت تقریبا پورے عالم اسلام میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین علامت رائے عامہ اور بالخصوص نوجوان طبقے میں اسلام کی عظمت و جلالت کے احیاء کا گہرا اشتیاق، عالمی استکبار کی حقیقی ماہیت سے اس کی آشنائی، اور ان مراکز اور حکومتوں کے پست استکباری و استبدادی چہرے کا بے نقاب ہو جانا ہے جنہوں نے دو صدیوں سے بھی زیادہ عرصے سے مشرق کے اسلامی و غیر اسلامی خطوں کو اپنے خونیں پنجوں میں جکڑے رکھا اور تہذیب و ثقافت کے پردے میں قوموں کے وجود کو اپنی بے رحمانہ اور جارحانہ تسلط پسندی کی بھینٹ جڑھایا۔
اس با برکت بیداری کے پہلو ویسے تو بہت وسیع اور پراسرار پھیلاؤ کے حامل ہیں لیکن فوری طور پر شمالی افریقا کے ممالک میں اس کے جو ثمرات سامنے آئے ہیں وہ مسقتبل میں زیادہ بڑے اور حیرت انگیز نتائج کی بابت دلوں کو امید بڑھاتے ہیں۔ اللہ کے وعدوں کا کرشماتی طور پر جامہ عمل پہننا ہمیشہ زیادہ بڑے وعدوں کی تکمیل کی امید بڑھاتا ہے۔ قرآن میں اللہ کے ان دو وعدوں کا قصہ جو اس نے مادر موسی کو دیا خاص روش خداوندی کا نمونہ ہے۔
جب اس مشکل گھڑی میں اس صندوق کو پانی میں ڈالنے کا فرمان صادر ہوا جس میں نوزاد تھا تو خطاب پروردگار میں یہ وعدہ کیا گيا کہ؛ "انّا رادّوہ الیک و و جاعلوہ من المرسلین۔ پہلے وعدے کا ایفاء جو چھوٹا وعدہ تھا اور ماں کی مسرت و شادمانی کا سامان فراہم کرنے والا تھا، رسالت عطا ہونے کے وعدے کی تکمیل کی نوید تھا جو بہت بڑا وعدہ تھا تاہم اس کے لئے طویل جدوجہد اور صبر و تحمل درکار تھا۔؛ فرددناہ الی امّہ کی تقرّ عینھا و لا تحزن و لتعلم انّ وعد اللہ حقّ۔۔۔۔۔ یہ سچا وعدہ در حقیقت مقام نبوت عطا کئے جانے کا بڑا وعدہ تھا جو چند سال بعد پورا ہوا اور جس نے تاریخ کی سمت موڑ دی۔
ایک اور مثال بیت اللہ الحرام پر حملہ کرنے والوں کی سرکوبی کرنے والی اللہ کی قدرت غالبہ کی یاد دہانی ہے۔ اللہ تعالی نے عوام الناس کو اطاعت و فرمانبرداری کی ترغیب دلانے کے لئے پیغمبر اعظم کے ذریعے یہ یاددہانی کرائی؛ فلیعبدوا ربّ ھذا البیت، اس کے بعد فرمایا : ا لم یجعل کیدھم فی تضلیل، اسی طرح اپنے پیارے نبی کی حوصلہ افزائی اور وعدے کی تکمیل کی بابت یقین دہانی کے لئے فرمایا؛ ما ودّعک ربّک و ما قلی، معجزاتی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا؛ ا لم یجدک یتیما فآوی و وجدک ضالّا فھدی۔
قرآن میں اس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
جب ایران میں اسلام کو فتح ملی اور اس نے اس انتہائی حساس علاقے کے بے حد اہم ملک میں امریکا اور صیہونزم کے قلعے کو فتح کر لیا تب اہل حکمت و اہل عبرت لوگوں کو معلوم ہوا کہ اگر صبر و بصیرت پر کاربند رہا جائے تو پے در پے مزید کامیابیاں حاصل ہوں گی، اور حاصل ہوئیں۔
اسلامی جمہوریہ کی درخشاں کامیابیاں، جن کا اعتراف ہمارے دشمنوں کو بھی ہے، سب اللہ کے وعدے پر ایقان و اطمینان، صبر و استقامت اور پروردگار سے طلب نصرت کے طفیل حاصل ہوئی ہیں۔ ہمارے عوام نے اضطراب انگیز مواقع پر کمزور قوت ارادی کے افراد کی؛ انّا لمدرکون کی چیخ پکار کے جواب میں ہمیشہ؛ کلّا انّ معی ربّی سیھدین، کا نعرہ بلند کیا ہے۔
آج یہ گراں قدر تجربہ ان اقوام کی دسترسی میں ہے جنہوں نے استکبار اور استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور بدعنوان اور امریکا کی اطاعت شعار حکومتوں کو سرنگوں یا متزلزل کر دیا ہے۔ استقامت، صبر و بصیرت اور اللہ کے اس وعدے پر: " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ انّ اللہ لقویّ عزیز" مکمل یقین سے امت مسلمہ کے سامنے اسلامی تمدن کی بلند چوٹی تک رسائی کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔
اس اہم ترین اجلاس میں جس میں مختلف ممالک اور گوناگوں اسلامی مکاتب فکر کے علماء تشریف فرما ہیں، اسلامی بیداری کے باب میں چند نکتے بیان کر دینا لازمی سمجھتا ہوں؛۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس علاقے کے ممالک میں استعمار کے ہراول دستے کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہونے والی اسلامی بیداری کی لہر غالبا دین اور دینی مصلحین کے ذریعے وجود میں لائی گئی۔ سید جمال الدین، محمد عبدہ، میرزا شیرازی، آخوند خراسانی، محمود الحسن، محمد علی، شیخ فضل اللہ، الحاج آقا نور اللہ، ابو الاعلی مودودی اور دوسرے دسیوں معروف، بزرگ، ذی اثر مجاہد علماء کا نام جن کا تعلق ایران، مصر، ہندوستان اور عراق جیسے ممالک سے ہے تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گیا ہے۔ موجودہ دور میں امام خمینی کا درخشاں نام چمکتے ستارے کی مانند ایران کے اسلامی انقلاب کی پیشانی پر ضوفشانی کر رہا ہے۔ اس عرصے میں سیکڑوں معروف اور ہزاروں غیر معروف علماء نے مختلف ممالک میں چھوٹے بڑے اصلاحی اقدامات میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ علمائے دین کی صنف کے باہر بھی حسن البناء اور علامہ اقبال جیسے دینی مصلحین کی فہرست بھی بہت طویل اور حیرت انگیز ہے۔
علمائے کرام اور دینی امور کے ماہرین کم و بیش ہر جگہ ہی عوام الناس کے فکری مرجع اور روحانی اطمینان و سکون کا سرچشمہ رہے ہیں اور جہاں بھی بڑے تغیرات کے موقعے پر وہ قائد اور رہنما کے طور پر آگے آئے اور خطرات کے مقابل عوامی صفوں میں پیش پیش رہے ہیں عوام سے ان کا فکری رشتہ اور بھی مستحکم بن گیا اور عوام کے راستے کے تعین کے لئے ان کا اشارہ زیادہ موثر رہا ہے۔ یہ چیز اسلامی بیداری کی تحریک کے لئے جتنی مفید اور بابرکت ہے، مسلم امہ کے دشمنوں، اسلام سے کینہ رکھنے والوں اور اسلامی اقدار کی حکمرانی کے مخالفوں کے لئے اتنی ہی ناپسندیدہ اور باعث تشویش ہے۔ اسی لئے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ دینی مراکز کی فکری محور کی حیثیت کو ختم کر دیں اور عوام کے لئے ایسے نئے محور تراشیں جن کے بارے میں وہ تجربہ کر چکے ہیں کہ یہ افراد قومی اقدار اور اصولوں پر بآسانی سودےبازی کر سکتے ہیں۔ جبکہ باتقوی علمائے کرام اور دینی افراد سے یہ چیز محال ہے۔
اس صورت حال میں علمائے دین کا فریضہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے۔ انہیں چاہئے کہ پوری دانشمندی، دقت نظری اور دشمن کی فریب آمیز چالوں اور حربوں کی مکمل شناخت کے ساتھ دراندازی کے سارے راستے مسدود کر دیں اور دشمن کے اس فریب کو نقش بر آب کر دیں۔ دنیاوی نعمتوں کے رنگارنگ دستر خوان پر بیٹھنا بہت بڑی آفت ہے، صاحبان دولت و ثروت سے رشتہ اور ان کے احسان تلے دب جانا، طاغوتی طاقتوں کا نمک خوار بن جانا علماء سے عوام کی روگردانی اور عوامی اعتماد و مقبولیت کے ختم ہو جانے کا خطرناک سبب ہے۔ انانیت اور جاہ طلبی جو کمزور ارادے کے مالک افراد کو طاقت و دولت کے مراکز کے قریب لے جاتی ہے، انحراف و فساد میں مبتلا ہونے کا مقدمہ ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے؛ تلک الدار الآخرۃ نجعلھا للّذین لا یریدون علوّا فی الارض و لا فسادا و العاقبۃ للمتّقین۔
آج امید افزا اسلامی بیداری کی تحریکوں میں بعض اوقات ایسے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو ایک طرف غیر قابل اعتماد فکری مراجع تراشنے کی امریکا اور صیہونزم کے مہروں کی تگ و دو اور دوسری طرف خواہشات نفس کے اسیر قارونوں کی اپنی آلودہ اور زہر آلود بساط پر اہل دین و تقوا کو گھسیٹ لینے کو کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
علمائے دین، دینی امور کے ماہرین اور دیندار افراد کو چاہئے کہ بہت محتاط اور ہوشیار رہیں۔
دوسرا اہم نکتہ مسلم ممالک میں اسلامی بیداری کی تحریک کے لئے دراز مدتی اہداف کا تعین ہے، ایسی بلندی و رفعت والا ہدف جو قوموں کی بیداری کو سمت و جہت عطا کرے اور انہیں اس بلند چوٹی پر پہنچائے۔ اسی بلند ہدف کی شناخت کے بعد ہی روڈ میپ تیار کیا جا سکتا ہے اور اس میں واقع کم اور میانہ دوری کے اہداف کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔ یہ حتمی ہدف درخشاں اسلامی تمدن کی ایجاد سے کم کوئي اور چیز نہیں ہو سکتی۔ امت مسلمہ قوموں اور ملکوں پر محیط اپنے تمام وجود اور پہلوؤں کے ساتھ قرآن کے مطلوبہ تمدن تک پہنچے۔ اس تمدن کا اصلی اور عمومی معیار اور پہچان یہ ہے کہ انسان ان تمام مادی و روحانی صلاحیتوں اور توانائیوں سے بہرہ مند ہو جو اللہ تعالی نے انسانوں کی بلندی و سعادت کے لئے عالم فطرت میں اور خود ان کے وجود کی گہرائی میں ودیعت کر دی ہیں۔ عوامی حکومت، قرآن سے ماخوذ قوانین، انسان کی نئی نئي احتیاجات پر عالمانہ بحث اور ان کی تکمیل، قدامت پسندی، رجعت پرستی، بدعت اور دوسروں کی نقالی سے اجتناب، عمومی رفاہ و ثروت، قیام عدل، سود،سود خوری، کمیشن خوری اور امتیازی مراعات سے آزاد معیشت جیسی اس تمدن کی ظاہری خصوصیات کو انسانی اخلاقیات کی ترویج، دنیا کے مظلومین کی حمایت اور سعی و کوشش اور ابتکار عمل کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے بلکہ دکھائی دینا چاہئے۔ ہیومن سائنس سے لیکر تعلیم و تربیت کے رسمی نطام تک، اقتصاد و بنکاری سے لیکر ٹکنالوجی اور تکنیکی پیداوار تک، جدید ذرائع ابلاغ سے لیکر آرٹ اور سنیما تک اور عالمی روابط تک گوناگوں شعبوں پر عالمانہ اور تجزیاتی نظر، یہ سب اس تمدن سازی کے لوازمات ہیں۔
تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ سارے اہداف حد امکان کے اندر اور ہمارے معاشروں کی صلاحیتوں کی رسائی میں ہیں۔ اس نصب العین کو عجلت پسندی اور احساس کمتری میں مبتلا ہوکر نہیں دیکھنا چاہئے۔ اپنی صلاحیتوں کے سلسلے میں احساس کمتری کفران نعمت ہے۔ امداد خداوندی اور فطرت کے اصولوں سے ملنے والی مدد سے غفلت "الظانّین باللہ ظنّ السّوء" اللہ کے بارے میں بدگمانی رکھنے والے افراد کی کھائی میں گر جانے کے مترادف ہے۔ ہم استکباری طاقتوں کے سیاسی، اقتصادی اور علمی حصار کو توڑ سکتے ہیں اور مٹھی بھر استکباری طاقتوں سے مغلوب دنیا کی اقوام کی اکثریت کے حقوق کی بازیابی کے عمل میں امت مسلمہ کو پیش قدمی کرنے پر قادر بنا سکتے ہیں۔
اسلامی تمدن ایمان، علم، اخلاق اور پیہم جدوجہد کی اپنی خصوصیات کے ذریعے امت مسلمہ اور تمام انسانیت کو پیشرفتہ افکار اور اعلی اخلاقیات سے آراستہ کر سکتا ہے اور مادہ پرست ظالمانہ آئيڈیالوجی اور پست و آلودہ اخلاقیات سے جو مغرب کے موجودہ تمدن کے بنیادی ستون ہیں، نجات کا اہم موڑ بن سکتا ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریک میں اس بات پر ہمیشہ توجہ رہے کہ سیاست، اخلاقیات اور طرز زندگی میں مغرب کی تقلید کے کیسے تلخ اور وحشت ناک تجربات سے گزرنا پڑا ہے۔
ایک صدی سے زیادہ عرصے تک مغرب کی استکباری حکومتوں کی ثقافت و سیاست کی پیروی کے نتیجے میں مسلم ممالک تباہ کن آفتوں جیسے سیاسی انحصار اور ذلت، اقتصادی فقر و غربت، اخلاقی انحطاط، سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں شرمناک پسماندگی میں مبتلا ہو گئے۔ حالانکہ امت اسلامیہ ان تمام شعبوں میں افتخار آمیز ماضی کی مالک رہی ہے۔
ان باتوں کو مغرب دشمنی پر محمول نہیں کرنا چاہئے۔ ہم جغرافیائی اختلاف کی بنیاد پر انسانوں کی کسی بھی جماعت سے دشمنی نہیں رکھتے۔ ہم نے علی علیہ السلام سے سبق لیا ہے جو انسانوں کے بارے میں فرماتے ہیں؛ اماّ اخ لک فی الدین او نظیر لک فی الخلق۔ ہمارا اعتراض ظلم و استکبار، جارحیت و تجاوز، فساد، اخلاقی انحطاط اور ان کارروائیوں پر ہے جو استعماری و استکباری طاقتوں نے ہماری اقوام کے خلاف انجام دی ہیں۔ آج بھی ہم ان ممالک میں جہاں نسیم بیداری عوامی قیام و انقلاب کے طوفان کی شکل اختیار کر گئی ہے امریکا اور علاقے میں اس کے حاشیہ برداروں کی مداخلتوں، تحکمانہ اقدامات اور زور زبردستی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ان کے وعدوں اور دھمکیوں کا سیاسی شخصیات کے فیصلوں اور اقدامات اور عظیم عوامی تحریک پر اثر نہیں پڑنا چاہئے۔ اس مرحلے پر بھی ہمیں گزشتہ تجربات سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے برسوں امریکی وعدوں سے آس لگائی اور ظالم پر اعتماد کو اپنی سیاست اور روش کی بنیاد قرار دیا وہ اپنی قوم کی کوئی بھی مشکل حل نہیں کر پائے اور خود کو یا دوسروں کو ظلم سے نجات بھی نہیں دلا سکے۔ امریکا کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کے بعد وہ ایک بھی فلسطینی مکان کو مسمار ہونے سے نہیں روک سکے جو فلسطینیوں کی سرزمین پر تعمیر کیا گيا تھا۔ جو سیاستداں اور کوئی بڑی شخصیت استکباری محاذ کی دھمکیوں سے مرعوب ہو جائے یا ان کے لالچ میں پڑ جائے اور اسلامی بیداری کے اس عظیم موقعے کو گنوا دے اسے اللہ کے اس انتباہ سے ڈرنا چاہئے کہ: "الم تر الی الذین بدّلو نعمت اللہ کفرا و احلّوا قومھم دار البوار جھنّم یصلونھا و بئس القرار"
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ آج اسلامی بیداری کو سب سے بڑا خطرہ اختلافات کی آگ اور ان تحریکوں کو خونیں فرقہ وارانہ، مسلکی، نسلی اور قومی تصادم میں تبدیل کر دینے کی سازش سے ہے۔ اس وقت تیل کے عوض ملنے والے ڈالروں اور بکے ہوئے سیاستدانوں کی مدد سے اور مغربی و صیہونی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں مشرقی ایشیا سے لیکر شمالی افریقا اور خاص طور پر عرب علاقے میں پوری سنجیدگی اور باریک بینی سے اس سازش کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ وہ دولت جو خلق خدا کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال ہو سکتی تھی دھمکیوں، کفر کے فتوؤں، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکوں، مسلمانوں کا خون بہانے اور دراز مدتی کینے کی آگ بھڑکانے پر خرچ ہو رہی ہے۔ جو لوگ متحدہ مسلم امہ کی قوت کو اپنے خبیثانہ اہداف کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں، امت مسلمہ کے اندر فتنے کی آگ بھڑکانے کو اپنے شیطانی ہدف کی تکمیل کا آسان ترین راستہ پاتے ہیں۔ وہ فقہ، کلام، تاریخ اور حدیث سے متعلق اختلاف رائے کو جو فطری اور ناگزیر شئے ہے دوسروں کو کافر قرار دینے، خونریزی اور فتنہ و فساد کے سبب کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
داخلی تصادم کے میدان کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان المیوں کے پس پردہ دشمن کا ہاتھ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ دھوکے باز ہاتھ ہمارے معاشروں میں پائی جانے والی جہالت، تعصب اور سطحی سوچ کواستعمال کر رہا ہے اور آگ میں تیل ڈال رہا ہے۔ اس مسئلے میں دینی و سیاسی شخصیات اور مصلحین کی ذمہ داری بہت اہم ہے۔
اس وقت لیبیا کسی انداز میں، مصر اور تیونس کسی اور انداز میں، شام کسی اور طریقے سے، پاکستان کسی اور انداز میں، عراق و لبنان کسی الگ طریقے سے ان خطرناک شعلوں میں جل رہے ہیں۔ بہت زیادہ توجہ رکھنے اور راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سادہ لوحی ہوگی کہ ہم ان ساری چیزوں کو اعتقادی اور نسلی جذبات و عوامل سے منسوب کر دیں۔ مغربی میڈیا اور بکے ہوئے علاقائی ذرائع ابلاغ کی تشہیراتی مہم میں شام کی خانماں سوز جنگ کو شیعہ سنی تصادم کا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور شام و لبنان میں اسلامی مزاحمت کے دشمنوں اور صیہونیوں کو محفوظ راہداری دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ شام کی لڑائی کے دو فریق شیعہ اور سنی نہیں بلکہ صیہونیت مخالف مزاحمت کے طرفدار اور اس مزاحمت کے مخالفین اس کے دو فریق ہیں۔ نہ تو شام کی حکومت کوئی شیعہ حکومت ہے اور نہ ہی اس کے اسلام دشمن مخالفین سنی ہیں۔ اس المناک سناریو کی بساط بچھانے والوں کا ہنر یہ ہے کہ اس مہلک آگ کو بھڑکانے میں سادہ لوح افراد کے مذہبی جذبات کو انہوں نے خوب کیش کرایا ہے۔ اس میدان اور اس میں مختلف سطح پر سرگرم افراد کا بغور جائزہ لینے سے ہر منصف مزاج انسان کے لئے صورت حال واضح ہو سکتی ہے۔
یہی پروپیگنڈا بحرین کے سلسلے میں بھی جھوٹ اور فریب کے ایک الگ انداز کے ساتھ جاری ہے۔ بحرین میں عوام کی مظلوم اکثریت جو برسوں سے حق رائے دہی اور قوموں کو حاصل دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہے، اپنے برحق مطالبات کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مظلوم اکثریت چونکہ شیعوں کی ہے اور وہاں دین مخالف جابر حکومت سنی ہونے کا دکھاوا کرتی ہے تو کیا اسے شیعہ سنی تنازعہ قرار دے دینا چاہئے؟
یورپی اور امریکی استعماری طاقتیں اور علاقے میں ان کی کاسہ لیسی کرنے والی حکومتیں یہی تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن کیا یہ حقیقت ہے؟
یہ باتیں علمائے دین اور انصاف پسند مصلحین کو غور و خوض کرنے اور اپنے فرائض کو پہچاننے کی دعوت دیتی ہیں اور مذہبی، نسلی اور جماعتی اختلافات کی تشہیر کے پس پردہ دشمن کے خاص اہداف کے ادراک کو سب کا فریضہ قرار دیتی ہیں۔
پانچواں نکتہ یہ ہے کہ اسلامی بیداری کی تحریکوں کی صحیح سمت کو پرکھنے کے لئے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ان کے موقف کو دیکھنا چاہئے، ساٹھ سال سے اب تک امت اسلامیہ کے قلب پر سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے سے بڑا کوئی زخم نہیں لگا ہے۔
فلسطین کا المیہ روز اول سے اب تک، قتل عام، ٹارگٹ کلنگ، انہدامی کارروائیوں، غاصبانہ اقدامات اور اسلامی مقدسات کے خلاف جارحیت کا مجموعہ رہا ہے۔ اس غاصب اور "حربی" دشمن کے خلاف استقامت و مزاحمت اسلامی مسلکوں کا نقطہ اتفاق اور تمام صادق و صحتمند قومی تحریکوں اور جماعتوں کا نقطہ اشتراک رہا ہے۔ اسلامی ممالک میں اگر کسی بھی جماعت یا گروہ نے اس دینی اور ملی فریضے کو امریکا کی تحکمانہ خواہش کی وجہ سے یا کسی اور غیر منطقی بہانے سے فراموش کر دینے کی کوشش کی تو اسے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ اسے اسلام کا وفادار اور وطن دوستی کے اس کے دعوے کو سچ سمجھا جائیگا۔
یہ ایک کسوٹی ہے۔ جو بھی قدس شریف کی آزادی اور فلسطینی قوم و سرزمین کی نجات کے نعرے کو قبول نہ کرے یا اسے حاشئے پر ڈالنے کی کوشش کرے اور مزاحتمی محاذ سے روگرداں ہو جائے، وہ الزام اور شک کے دائرے میں آ جائے گا۔
امت اسلامیہ کو چاہئے کہ ہر جگہ اور ہر وقت اس نمایاں اور اساسی معیار اور کسوٹی کو مد نظر رکھے۔
دشمن کے مکر و فریب کو نگاہوں سے ہرگز دور نہ ہونے دیجئے۔ ہماری غفلت ہمارے دشمنوں کے لئے سنہری مواقع فراہم کریگی۔
حضرت علی علیہ السلام سے ہمیں یہ سبق ملا ہے کہ: من نام لم ینم عنہ۔۔ اسلامی جمہوریہ میں بھی اس سلسلے میں ہمارے تجربات بڑے سبق آموز ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے ساتھ ہی امریکا اور مغرب کی استکباری حکومتوں نے جو مدتوں سے ایران کی طاغوتی حکومتوں کو اپنی مٹھی میں کئے ہوئے تھیں اور ہمارے ملک کی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی سرنوشت کا تعین اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں، معاشرے کی اندرونی تہوں میں موجود اسلامی عقیدے اور ایمان کی طاقت کو معمولی سمجھ بیٹھی تھیں اور اسلام و قرآن کی عوام کو متحد کرنے اور صحیح راستے کی ہدایت کی صلاحیت سے بے خبر تھیں، اچانک اپنی اس غفلت سے آگاہ ہوئيں، ان کے حکومتی ادارے، خفیہ ایجنسیاں اور فیصلہ ساز مراکز حرکت میں آئے کہ کسی صورت سے خود کو شکست فاش سے بچا سکیں۔
ان تیس پینتیس برسوں میں ان کی گوناگوں سازشیں ہم نے دیکھی ہیں۔ تاہم دو عوامل نے ہمیشہ ان کے مکر و فریب کو نقش بر آب کیا۔ ایک ہے اسلامی اصولوں پر استقامت اور دوسرے میدان میں عوام کی موجودگی۔
یہ دو عوامل ہر موڑ پر فتح و گشائش کی کنجی ثابت ہوئے۔ پہلا عامل اللہ کے وعدوں پر سچے ایمان اور دوسرا عامل پرخلوص مساعی کی برکتوں اور صحیح تفسیر و تشریح کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جو قوم اپنے رہنماؤں کی صداقت اور خلوص کا یقین کر لے وہ میدان عمل کو اپنی موجودگی سے رونق بخشتی ہے۔ جہاں بھی عوام الناس عزم راسخ کے ساتھ میدان میں ڈٹ جاتے ہیں وہاں کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ یہ ان تمام قوموں کے لئے ایک آزمودہ نسخہ ہے جو میدان عمل میں اپنی موجودگی سے اسلامی بیداری کے تعلق سے فیصلہ کن کردار ادا کر رہی ہیں۔
اللہ تعالی سے آپ سب کے لئے اور تمام مسلم اقوام کے لئے نصرت و ہدایت اور کمک و رحمت کی دعا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
پاکستان شام کی خود مختاری کی بھرپور حمایت کرتا ہے
صدر آصف علی زرداری نے بلاول ہاؤس کراچی میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے شامی نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد سے ملاقات کی اور دوطرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر صدر زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان شام کی خود مختاری اور سالمیت کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور شام تنازعہ کا حل شامی عوام کی خواہشات کے مطابق چاہتا ہے اور ایسا حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس سلسلے میں شامی عوام کو ہر قسم کے تعاون کا یقین دلاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شام کے مسئلے کا حل طاقت کا استعمال نہیں، عوام کی جمہوری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے شام میں بیرونی مداخلت سے باز رہا جائے۔
شام کے ڈپٹی وزیر خارجہ فیصل مقداد ہنگامی طور پر پاکستان پہنچے اور انھوں نے پیر کی سہ پہر بلاول ہاوس کراچی میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی۔ ملاقات میں سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی موجود تھے، صدر آصف زرداری نے فیصل مقداد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شام کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام لازمی ہے، انہوں نے شام میں تباہ ہوتی ہوئی انسانی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوام کی جمہوری خواہشات کے احترام، وسیع البنیاد مذاکرات اور سیاسی مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر آصف علی زرداری نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ شام کے مسئلے کے پرامن حل کی حمایت کرے، شام کے نائب وزیر خارجہ فیصل مقداد نے شامی صدر کا خصوصی پیغام صدر زرداری کو پہنچایا۔ ذرائع کے مطابق شام کے نائب وزیر خارجہ نے شام کی صورت حال اور بیرونی جارحیت کے خطرات سے صدر مملکت کو آگاہ کیا۔ انھوں نے مبینہ کیمیاوی ہتھیاروں کی شام کے پاس موجودگی کے حوالے سے مغربی میڈیا کی اطلاعات اور ان اطلاعات کی بنیاد پر کسی بھی جارحیت کے ممکنہ خطرات سے بھی صدر زرداری کو آگاہ کیا۔
سرزمین حجاز
خانہ کعبہ یا بیت اللہ (الكعبة المشرًّفة، البيت العتيق یا البيت الحرام( مسجد حرام کے وسط میں واقع ایک عمارت ہے جو مسلمانوں کا قبلہ ہے جس کی طرف رخ کرکے وہ عبادت کیا کرتے ہیں۔ یہ دین اسلام کا مقدس ترین مقام ہے۔ صاحب حیثیت مسلمانوں پر زندگی میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قائم کردہ بیت اللہ بغیر چھت کےایک مستطیل نما عمارت تھی جس کےدونوں طرف دروازے کھلے تھےجو سطح زمین کےبرابر تھےجن سےہر خاص و عام کو گذرنےکی اجازت تھی۔ اس کی تعمیر میں 5 پہاڑوں کےپتھر استعمال ہوئےتھےجبکہ اس کی بنیادوں میں آج بھی وہی پتھر ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نےرکھےتھے۔ خانہ خدا کا یہ انداز صدیوں تک رہا تاوقتیکہ قریش نے 604ء میں اپنےمالی مفادات کےتحفظ کےلئےاس میں تبدیلی کردی کیونکہ زائرین جو نذر و نیاز اندر رکھتےتھےوہ چوری ہوجاتی تھیں۔
خانہ کعبہ و مسجد حرام
قریش نےبیت اللہ کے شمال کی طرف تین ہاتھ جگہ چھوڑ کر عمارت کو مکعب نما (یعنی کعبہ) بنادیا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہےکہ روپے پیسےکی کمی تھی کیونکہ حق و حلال کی کمائی سےبیت اللہ کی تعمیر کرنی تھی اور یہ کمائی غالباً ہر دور میں کم رہی ہےلیکن انہوں سےاس پر چھت بھی ڈال دی تاکہ اوپر سےبھی محفوظ رہی، مغربی دروازہ بند کردیا گیا جبکہ مشرقی دروازےکو زمین سےاتنا اونچا کردیا گہ کہ صرف خواص ہی قریش کی اجازت سےاندر جاسکیں۔ اللہ کےگھر کو بڑا سا دروازہ اور تالا بھی لگادیا گیا جو مقتدر حلقوں کےمزاج اور سوچ کےعین مطابق تھا۔ حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم (جو اس تعمیر میں شامل تھےاور حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنےکا مشہور زمانہ واقعہ بھی رونما ہوا تھا) کی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو ابراہیمی تعمیر کےمطابق ہی بنایا جائے۔
خانہ کعبہ کےاندر تین ستون اور دو چھتیں ہیں۔ باب کعبہ کےمتوازی ایک اور دروازہ تھا دیوار میں نشان نظر آتا ہےیہاں نبی پاک صلی اللہ وآله وسلم نماز ادا کیا کرتےتھے۔ کعبہ کےاندر رکن عراقی کےپاس باب توبہ ہےجو المونیم کی 50 سیڑھیاں ہیں جو کعبہ کی چھت تک جاتی ہیں۔ چھت پر سوا میٹر کا شیشےکا ایک حصہ ہےجو قدرتی روشنی اندر پہنچاتا ہے۔ کعبہ کےاندر سنگ مرمر کےپتھروں سےتعمیر ہوئی ہےاور قیمتی پردےلٹکےہوئےہیں جبکہ قدیم ہدایات پر مبنی ایک صندوق بھی اندر رکھا ہوا ہے۔
کعبہ کی موجودہ عمارت کی آخری بار 1996ءمیں تعمیر کی گئی تھی اور اس کی بنیادوں کو نئےسرےسےبھرا گیا تھا۔ کعبہ کی سطح مطاف سےتقریباً دو میٹر بلند ہےجبکہ یہ عمارت 14 میٹر اونچی ہے۔ کعبہ کی دیواریں ایک میٹر سےزیادہ چوڑی ہیں جبکہ اس کی شمال کی طرف نصف دائرےمیں جوجگہ ہےاسےحطیم کہتےہیں اس میں تعمیری ابراہیمی کی تین میٹر جگہ کےعلاوہ وہ مقام بھی شامل ہےجو حضرت ابراہیم علیہ السلام نےحضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کےرہنےکےلئےبنایا تھا جسےباب اسماعیل کہا جاتا ہے۔
خانہ کعبہ سےتقریبا سوا 13 میٹر مشرق کی جانب مقام ابراہیم قائم ہے۔ یہ وہ پتھر ہےجو بیت اللہ کی تعمیر کےوقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنےقد سےاونچی دیوار قائم کرنےکےلئےاستعمال کیا تھا تاکہ وہ اس پر اونچےہوکر دیوار تعمیر کریں۔
1967ءسےپہلےاس مقام پر ایک کمرہ تھا مگر اب سونےکی ایک جالی میں بند ہے۔ اس مقام کو مصلےکا درجہ حاصل ہےاور امام کعبہ اسی کی طرف سےکعبہ کی طرف رخ کرکےنماز پڑھاتےہیں۔ طواف کےبعد یہاں دو رکعت نفل پڑھنےکا حکم ہے۔
حجر اسود
کعبہ کےجنوب مشرقی رکن پر نصب تقریباً اڑھائی فٹ قطر کےچاندی میں مڑھےہوئےمختلف شکلوں کے8 چھوٹےچھوٹےسیاہ پتھر ہیں جن کےبارےمیں اسلامی عقیدہ ہےکہ تعمیری ابرہیمی کےوقت جنت سےحضرت جبرائیل علیہ السلام لائےتھےاور بعد ازاں تعمیر قریش کےدوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنےدست مبارک سےاس جگہ نصب کیا تھا اور ایک بہت بڑےفساد سےقوم کو بچایا۔ یہ مقدس پتھر حجاج بن یوسف کےکعبہ پر حملےمیں ٹکڑےٹکڑےہوگیا تھا جسےبعد میں چاندی میں مڑھ دیا گیا۔ کعبہ شریف کا طواف بھی حجر اسود سےشروع ہوتا ہےاور ہر چکر پر اگر ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دینا چاہئےورنہ دور سےہی ہاتھ کےاشارےسےبوسہ دیا جاسکتا ہے۔ حج کےدنوں میں ہر کسی کو اس مقدس پتھر کو بوسہ دینا یا استلام کرنا ممکن ہوپاتا۔
زمزم
مسجد حرام میں کعبہ کےجنوب مشرق میں تقریباً 21 میٹر کےفاصلےپر تہ خانےمیں آب زمزم کا کنواں ہےجو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہ السلام کےشیر خوار بیٹےحضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیاس بجھانےکےبہانےاللہ تعالیٰ نےتقریباً 4 ہزار سال قبل ایک معجزےکی صورت میں مکہ مکرمہ کےبےآب و گیاہ ریگستان میں جاری کیا جو وقت کےساتھ سوکھ گیا تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےدادا حضرت عبدالمطلب نےاشارہ خداوندی سےدوبارہ کھدوایا جوآج تک جاری و ساری ہے۔ آب زمزم کا سب سےبڑا دہانہ حجر اسود کےپاس ہےجبکہ اذان کی جگہ کےعلاوہ صفا و مروہ کےمختلف مقامات سےبھی نکلتا ہے۔ 1953ءتک تمام کنوئوں سےپانی ڈول کےذریعےنکالاجاتا تھا مگر اب مسجد حرام کےاندر اور باہر مختلف مقامات پر آب زمزم کی سبیلیں لگادی گئی ہیں۔ آب زمزم مسجد نبوی میں بھی عام ملتا ہےاور حجاج کرام یہ پانی دنیا بھر میں اپنےساتھ لےجاتےہیں۔