Super User

Super User

Tuesday, 05 March 2013 11:12

جناب عائشہ کی سیرت

جناب عائشہ، خلیفہ اول { عامر بن کعب کی ذریت اور قریش کے خاندان تیم سے تعلق رکھنے والے ابوبکر بن قحافہ} کی بیٹی تھیں- ان کی والدہ کا نام "ام رومان بنت عامر" تھا جس کی کنیت ام عبداللہ تھی- جناب عائشہ، پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت سے پانچ سال قبل مکہ میں پیدا ھوئی ہیں-

حضرت محمد مصطفے {ص}نے اپنی پہلی وفادار شریک حیات، جناب خدیجہ الکبری کی وفات کے بعد مدینہ منورہ کی طرف ھجرت کرنے سے دوسال قبل جناب عائشہ کو اپنے عقد میں قرار دیا ، اور ھجرت کے ڈیڑھ سال اور جنگ بدر کے بعد، جناب عائشہ کے والد کی درخواست پر شوال کے مہینے میں انھیں اپنے گھر لے آئے- انھوں نے رسول خدا{ص} کے ساتھ ۸ سال اور پانچ مہینے مشترک زندگی گزاری ہے-

وہ پیغمبر خدا {ص} کے ذاتی برتاو کے بارے میں ایک خاص قسم کی حساسیت رکھتی تھیں اور آنحضرت {ص} کی رفت و آمد کے بارے میں حساس تھیں- بعض مسند نویسوں نے ان کے بارے میں کچھ ایسے واقعات نقل کئے ہیں، جن سے معلوم ھوتا ہے کہ وہ، رسول خدا {ص} سے متعلق مختلف مسائل میں حساسیت اور رد عمل کا مظاہرہ کرتی تھیں- اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مسند احمد حنبل، جلد ۶ کے صفحات: ۱۱۵، ۱۴۷، ۱۵۱، ۲۲۱ کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے-

ان میں یہ حساسیت، پیغمبراسلام {ص} کی دوسری بیوی کے بارے میں بھی پائی جاتی تھی، اس کی مثالیں صحیح مسلم باب الصغیرہ اور مسند احمد حنبل جلد ۶، صفحات: ۱۱۱، ۱۴۴، ۲۷۷ میں بیان کی گئی ہیں، اس سلسلہ میں مزید تحقیق کرنے کا شوق رکھنے والے مذکورہ منابع کی طرف رجوع کرسکتے ہیں-

افک کا واقعہ:

سب سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ "افک" جو ، سورہ نور کی آیہ:" ان الذین جاء وابا لافک عصبہ منکم - - - " میں آیا ہے، کے بارے میں تحقیق کی جائے-

اس سلسلہ میں فخررازی کہتے ہیں:" افک"، جھوٹ اور افتراء سے بالا تر ہے اور اس کے معنی " بہتان" ہیں- ایک ایسا امر جو اچانک آپ کو منقلب کرے، اصل افک کے معنی " القلب" یعنی کسی چیز کو اس کی اصلی صورت سے گرا نا ہے اور اس کے معنی بدترین جھوٹ اور بہتان ہیں- جو کچھ مسلم ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے اور قرآن مجید کے مفسرین کے لئے بالاتفاق ثابت ہے ، وہ یہ ہے کہ: یہ بہتان اور افتراء نبی اکرم {ص} کے گھر اور آپ {ص} کی بیویوں میں سے ایک کے بارے میں واقع ھوا ہے، یعنی اس قسم کی ناروا تہمت لگانے والے گروہ کا اصلی مقصد یہ تھا کہ خود پیغمبر اسلام {ص} پر ضرب لگادیں، کیونکہ پیغمبر اسلام {ص} کی بیوی پر تہمت لگانا، پیغمبر اکرم {ص} کی طرف سے اپنی بیویوں کو کنٹرول کرنے میں بے لیاقتی ثابت کرنا تھا، اور جب پیغمبر اکرم {ص} کی بیوی کے لئے اس قسم کا کام انجام دینا ممکن ھو تو دوسروں کی بات ہی نہیں- اس بنا پر اسلام کے تمام فرقے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام {ص} کی بیویاں، اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال کی طرف سے " افک" کے عنوان سے متعارف کرائے ہوئے برے عمل کو انجام دینے سے پاک و منزہ ہیں- پس اس آیہ شریفہ کے بارے میں اختلاف کس چیز پر ہے؟ اختلاف اس میں ہے کہ اس آیہ شریفہ کے نازل ھونے کا سبب کیا ہے؟ اور پیغمبر اکرم {ص} کی کس بیوی پر یہ تہمت لگائی گئی ہے؟ بعض نے حضرت ابراھیم {ع} کی والدہ جناب ماریہ قبطیہ کا نام لیا ہے اور بعض نے جناب عائشہ پر یہ تہمت لگائی ہے-

فخررازی، صرف جناب عائشہ سے نقل کی گئی کئی روایتوں کے پیش نظر لکھتے ہیں:" پیغمبر اسلام {ص} جب کہیں سفر پر جانے کا ارادہ فرماتے تھے، تواپنی بیویوں میں سے ایک کو اپنے ہمراہ لے جانے کے لئے قرعہ کشی فرماتے تھے-غزوہ بنی المصطلق میں قرعہ میرے نام پر نکلا اور میں پیغمبر اسلام {ص} کے ہمراہ چلی- راستہ میں ایک پڑاو پر ہم رک گئے اور میں ایک کام کی وجہ سے کاروان سے ذرا دور چلی گئی- جب میں واپس آئی تو مجھے معلوم ھوا کہ میرا گلو بند [ہار]گم ھو چکا ہے- لہذا اس کو ڈھونڈنے کے لئے کاروان سے دور ھوئی اور جب میں واپس لوٹی تو میں نے وہاں پر کسی کو نہیں پایا، پس اس امید سے کہ کاروان والے میری عدم موجودگی سے آگاہ ھوکر ضرور مجھے ڈھونڈنے آئیں گے، اسی جگہ پر ٹھہری رہی- صفوان بن المعطل، جو ہمیشہ کاروان کے پیچھے پیچھے چلتا تھا اور کاروان سے چھوٹ گئی چیزوں کو جمع کرتا تھا، مجھے دیکھ کر پہچان گیا اور مجھے اپنے مرکب پر سوار کرکے کاروان کے پاس پہنچا دیا- لیکن لوگوں نے وہ سب کچھ کہا، جو انھیں نہیں کہنا چاہئےتھا، اور انھوں نے مجھ پر تہمت لگائی، اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن ابی پیش پیش تھا"-

اس روایت کے مطابق جناب عائشہ وہ خاتون ہیں، جو اس مشکل سے دوچار ھوئی ہیں اور خداوند متعال نے اس آیہ شریفہ کے ذریعہ ان سے یہ تہمت دور کی ہے- اس کے باوجود نا معلوم وجوہات کی بناء پر اہل سنت کے اکثر علماء اس آیہ شریفہ { آیہ افک} کی شان نزول کو جناب عائشہ کے بارے میں جانتے ہیں-

پیغمبر اسلام {ص} جناب عائشہ سے صاحب اولاد نہیں ھوئے- آنحضرت {ص} کو، موت کا سبب ھونے والی بیماری میں مبتلا ھونے کے بعد جناب عائشہ کے گھر میں منتقل کیا گیا، اور اسی گھر میں دارفانی سے وداع ہونے کے بعد سپرد خاک کئے گئے-

شیخین { خلیفہ اول و دوم} کے دوران جناب عائشہ کی قدر و منزلت:

اس دوران جناب عائشہ کا خاص احترام کیا جاتا تھا- پیغمبر اسلام کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت، جناب عائشہ بلند مقام و منزلت کی مالک تھیں- اور بعض مواقع پر فتوی جاری کئے جاتے تھے- بعض مورخین نے لکھا ہے کہ خلیفہ دوم، جناب عائشہ کی تنخواہ کو پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت بڑھا کر ادا کرتے تھے- ذہبی نے لکھا ہے کہ ایک بار جب عراق سے ایک گراں قیمت موتی غنیمت کے طور پر لایا گیا تو، جناب عمر نے حضار کی اجازت سے یہ گراں قیمت موتی جناب عائشہ کے لئے بھیجدیا-

ابن اثیر کہتے ہیں: جناب عمر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں جناب عائشہ سے درخواست کی کہ ان کی وفات کے بعد انھیں ان کے گھر میں پیغمبر اکرم {ص} کے پاس دفن کرنے کی اجازت دیں اور جناب عائشہ نے اس کی موافقت کی-

جناب عثمان کی حکومت کے دوران جناب عائشہ:

جناب عثمان بن عفان کی خلافت کے آغاز پر اگر چہ جناب عائشہ نے وقت کے خلیفہ کے ہمراہ حج کے اعمال بجا لائے، لیکن، یعقوبی کے لکھنے کے مطابق، جناب عمر کی طرف سے جناب عائشہ کو پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت دی جانے والی تین ہزار دینار کی زائد رقم خلیفہ سوم نے کاٹ دی اور ان کا وظیفہ بھی پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کے برابر کر دیا-

علامہ عسکری، اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:" ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ ان دو{ جناب عائشہ اور جناب عثمان} کے درمیان اختلافات، جناب عثمان کی خلافت کے دوسرے نصف حصہ کے دوران پیدا ھوئے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ اختلافات کسی ایک واقعہ کی وجہ سے اچانک پیدا نہیں ھوئے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ پیدا ھونے کے بعد شدید تر ھوئے ہیں اور مسئلہ یہاں تک پہنچا کہ ام المومنین اورعثمان کے درمیان اختلافات نازک مرحلہ میں داخل ھوکر روزبروز عمیق تر ھوتے گئے-

مورخین کا اعتقاد ہے کہ جو امور جناب عائشہ اور جناب عثمان کے درمیان اختلافات پیدا ھونے کا سبب بنے، ان میں جناب عثمان کے سوتیلے بھائی، ولید بن عقبہ کا موضوع تھا-

جناب عثمان کی حکومت کے دوران ولید بن عقبہ کو حکومتی مقام و منصب دئے گئے، جبکہ وہ ایک بد کردار اور فاسق شخص تھا اور قرآن مجید نے بھی اس کو اسی عنوان سے متعارف کرایا ہے-

ولید بن عقبہ، خلیفہ سوم کے زمانہ میں کھلم کھلا اور آزادی کے ساتھ گناہ کا مرتکب ھوتا تھا، یہاں تک کہ اس نے اپنے عیسائی خادم کے لئے بیت المال سے ماہانہ ایک رقم مقرر کی تھی تاکہ اس سے وہ شراب اور سور کا گوشت خریدے-

جب ولید بن عقبہ کو، کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا،تو ابو زبید نامی ایک عیسائی شاعر، اس کے ساتھ ملحق ھوا اور ولید نے، عقیل بن ابیطالب کا گھر اسے بخش دیا- حد یہ ہے کہ ابو زبید جب ولید کے پاس آنا چاہتا تھا،تو پہلے مسجد کوفہ میں داخل ھوتا تھا اور وہاں سے ولید کے گھر میں داخل ھوتا تھا اور پھر دونوں شب باشی اور شراب نوشی میں مشغول ھوتے تھے- اور اس کے بعد ابو زبید بدمستی کے عالم میں گھر لوٹتا تھا- ولید کی بدکاریوں میں سے ایک اور برا کام یہ تھا کہ اس نے مسجد کو شعبدہ بازی کا مرکز بنایا تھا- ولید کو خبر دی گئی کہ زرارہ نامی ایک یہودی شخص جو شعبدہ باز اور سحرو جادو میں مشہور ہے، پل بابل کے نزدیک ایک گاوں میں رہتا ہے، ولید نے یہ خبر سننے کے بعد حکم دیا کہ اسے کوفہ لے آئیں تاکہ اس کی فن کاریوں کا نزدیک سے مشاھدہ کرے- جب زرارہ نامی اس یہودی شعبدہ باز اور جادوگر کو لایا گیا، تو ولید نے اسے حکم دیا کہ مسجد کوفہ میں حاکم اور مسلمانوں کے سامنے اپنے کرتب اور فن کاری کا مظاہرہ کرے-

ایک اور مسئلہ، خود ولید کی شراب نوشی تھی، جس کے لئے اسلام میں شرعی حد مقرر کی گئی ہے- ولید کی شراب نوشی کا عینی مشاھدہ کرنے والے کچھ لوگ مدینہ پہنچ کر جناب عثمان کے دربار میں حاضر ھوئے اور اپنے مشاھدات کی ان کے سامنے گواہی دی اور اس سلسلہ میں دلائل و اسناد پیش کئے، اس کے بعد حضرت علی {ع} کے پاس جاکر ان سے مدد طلب کی-

ابو الفرج، " اغانی" میں لکھتے ہیں:"جناب عثمان نے ان گواھوں کے جواب میں کہا: کیا ہر شخص کو اپنے حاکم سے ناراض ھوکر اس پر تہمت اور الزام لگانے کا حق ہے؟ چونکہ آپ اس کے مرتکب ھوئے ہیں اس لئے میں، کل صبح حکم دیتا ھوں کہ تم لوگوں کی تنبیہ کی جائے- انھوں نے سزا پانے کے ڈر سے ام المومنین جناب عائشہ کے گھر میں پناہ لے لی، اور جب دوسرے دن صبح کو جناب عثمان نے جناب عائشہ کے گھر سے اپنے بارے میں جھگڑا ھونے اور اعتراضات ھونے والی گفتگو کی آواز سنی،تو انھوں نے بے اختیار صدا بلند کی:" کیا عراق کے باغیوں اور فاسقوں کو عائشہ کے گھر کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ملی ہے؟ جناب عائشہ نے بھی جب جناب عثمان کا یہ کلام سنا، تو رسول خدا {ص} کے پاپوش کو اپنے ہاتھ میں اٹھا کر، زور زور سے آواز بلند کرنے لگیں کہ: افسوس ہے کہ آپ نے صاحب پا پوش، یعنی رسول خدا {ص} کی سنت کو اتنی جلدی ہی پامال کردیا ہے؛

جناب عائشہ کی یہ بات جنگل کی آگ کے مانند لوگوں میں پھیل گئی اور لوگ مسجد میں آکر جمع ھوئے اور ان دونوں کی گفتگو کے بارے میں اس قدر جذبات بھڑک اٹھے کہ آخر کار لوگوں میں اختلاف پیدا ھوا- بعض لوگوں نے جناب عائشہ کے اس کلام کی تائید، تحسین و تمجید کی، اور بعض دوسرے لوگوں نے اس کی مخالفت کی- افسوس کہ یہ اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ مسجد میں لڑائی جھگڑا برپا ھوا اور لوگوں نے ایک دوسرے کی پٹائی کی-

بلاذری اس سلسلہ میں اضافہ کرتے ھوئے لکھتے ہیں:" ام المومنین کے اس اعتراض پرجناب عثمان خاموش نہیں بیٹھے، بلکہ انھوں نے تند و تیز لہجے میں صدا بلند کی:" تمھیں امور میں مداخلت کرنے کا کیا حق ہے؟ تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنے گھر میں خاموش بیٹھو-"

مذکورہ ماجرا کو یعقوبی نے اپنی" تاریخ" میں اور عبدالبر نے اپنی کتاب " استیعاب" میں، اسی مضمون کے ساتھ بیان کیا ہے-

حضرت علی {ع} نے بھی جناب عثمان سے فرمایا کہ:" ولید کو برطرف کرنا، کیونکہ اس کے خلاف گواھوں نے شہادت بھی دیدی ہے، اس لئے اس پر شرعی حد بھی جاری کرنا، اس کے بعد عثمان نے ولید کو کوفہ کی گورنری سے معزول کیا اور مدینہ بلایا- ولید بھی کچھ لیت و لعل کے بعد اطاعت کرنے پر مجبور ھوا اور گورنری کو جدید حاکم یعنی سعید بن العاص کے حوالے کردیا- قابل ذکر بات ہے کہ سعید نے دارالامارہ کو اپنے قبضہ میں لینے کے بعد مسجد کوفہ کو تطہیر کرنے کا حکم دیا اور اس حکم پر عمل در آمد نہ ھونے تک اس مسجد کے منبر پر جانے کے لئے حاضر نہیں ھوا- لیکن بنی امیہ کے بعض بزرگ شخصیتیں سعید کو منبر کی تطہیر کرنے کے حکم سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے تھے، کیونکہ یہ عمل ولید کے لئے ننگ و عار کا سبب بن جاتا تھا، کہ دونوں بنی امیہ اور ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن سعید نے ایک نہ مانی اور منبر کو تطہیر کرنے پر مصر رہا-

ولید کے مدینہ لوٹنے اور اس کی شراب نوشی کے بارے میں گواھوں کی شہادت ملنے کے بعد جناب عثمان نے اس پر شرعی حد {سزا} نافذ کرنے کا حکم دیا-

جو بھی ولید پر شرعی حد جاری کرنے { یعنی کوڑے لگانے} کے لئے جاتا تھا، اسے ولید کے اس جملہ سے مواجہ کرنا پڑتا تھا:" اپنے بارے میں سوچو، اور میرے ساتھ قطع رحم نہ کرو اور مجھ پر حد جاری نہ کرو اور یہ کام بجا لا کر امیرالمومنین کو غضبناک نہ کرو" ولید کا یہ جملہ سن کر کوئی شخص ولید پر حد جاری کرنے { یعنی کوڑے لگانے} کی جرات نہیں کرتا تھا-

علی بن ابیطالب {ع} نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ {ع} تازیانے کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے بیٹے حسن بن علی {ع} کے ہمراہ ولید پر کود پڑے، ولید نے اپنا وہی جملہ دہرایا، علی {ع} نے جواب میں کہا: اگر میں بھی ایسا ہی کروں { جو دوسروں نے کیا ہے} توگویا اس صورت میں، میں خدا پر ایمان نہیں لایا ہوں؛ علی {ع} نے کشمکش کے بعد ولید کے شانوں سے اس کی عبا کو ہٹاکر دوشاخوں والے تازیانہ سے ولید کی ہیٹھ پر چالیس کوڑے مارے-

جناب عثمان کا قتل:

مذکورہ واقعات رونما ھونے کے بعد خلیفہ سوم کے محاصرہ کا دائرہ تنگ تر ھوا- انھوں نے جناب عبدالمطلب کے نواسوں میں سے ایک شخص جن کا نام عبداللہ بن حارث بن نوفل تھا، کو مندرجہ ذیل شعر کے ساتھ حضرت علی {ع} کے پاس بھیجا : " فان کنت ماکولاً فکن انت اکلی والا فادرکنی ولما امزق"

" اگر قرار یہ ھو کہ مجھے کھا لیا جائے، تو بہتر ہے کہ آپ خود مجھے کھا لیں، ورنہ اس سے پہلے کہ مجھے چیر پھاڑ دیا جائے، مجھے بچا لیں-"

حضرت علی{ع} اس وقت خیبر میں تھے ، لیکن عثمان بن عفان کا یہ پیغام حاصل کرنے کے بعد مدینہ لوٹے اور جناب عثمان کے پاس گئے- خلیفہ نے علی{ع} کو دیکھنے کے بعد ان سے اسلام ، برادری، رشتہ داری اور رسول خدا {ص} کے داماد ھونے کے واسطے سے مدد کی درخواست کی- حضرت علی{ع} طلحہ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ لوگوں کو عثمان کے محا صرہ سے ہٹا دے، لیکن طلحہ نے کہا: خدا کی قسم ہرگز ایسا نہیں کروں گا جب تک نہ بنی امیہ لوگوں کے حق کے سامنے ہتھیار ڈالیں-

حضرت علی{ع} جناب عثمان کے گھر سے باہر آگئے اور بیت المال کی طرف روانہ ھوئے، بیت المال کے دروازہ کو توڑنے کا حکم دیا اور لوگوں میں مال تقسیم کرنے لگے-

طلحہ خلیفہ کے پاس گئے اور ان سے کہا: اے امیر المومنین{عثمان} میں اپنے کئے ھوئے پر خدا سے معافی مانگتا ھوں، میرے ذہن میں ایک خیال تھا لیکن خدا نے نہیں چاہا وہ پورا ھو جائے اور اس نے میری آرزو اور میرے درمیان رکاوٹ ڈالی- جناب عثمان نے جواب میں کہا: خدا کی قسم تم توبہ کرنے کے لئے نہیں آئے ھو بلکہ اس لئے آئے ھو کہ مغلوب ہوکر شکست سے دوچار ھو گئے ھو، میں تمھیں خدا پر چھوڑتا ھوں-

حضرت علی {ع} نے دیکھا کہ لوگ جناب عثمان کو قتل کرنے پر تلے ھوئے ہیں ، تو اپنے بیٹوں حسن {ع} و حسین {ع} کو یوں حکم دیا: اپنی تلواروں کو اٹھا لو اور عثمان کے گھر کے دروازے پر کھڑے ھو جاو اور کسی کو عثمان تک پہنچنے نہ دو- حضرت علی[ع] کے بیٹے ان کے حکم پر عمل کرنے کے سلسلہ میں حملہ آوروں اور مدافعین کی جھڑپوں کے درمیان ڈٹ گئے- امام حسن {ع} کا چہرہ خون آلود ھو گیا اور حضرت علی {ع} کے غلام، قنبر کے سر پر چوٹ لگی اوربری طرح زخمی ھوئے-

خلیفہ کے قتل کے بارے میں روایتیں مختلف ہیں، لیکن جو بات مسلم اور یقینی ہے، وہ یہ ہے کہ قاتل، عثمان کے گھر کے نزدیک ایک انصار کے گھر کی چھت سے ان کے گھر میں داخل ھو گئے، کیونکہ وہ خلیفہ کے گھر کے دروازے سے ان کے گھر میں داخل نہیں ھوسکے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی ھاشم کی اولاد یعنی حضرت علی بن ابیطالب {ع} کے بیٹے امام حسن {ع} اور امام حسین {ع} دروازے پر پہرہ دے رہے تھے-

ابن ابی الحدید، طبری اور بلاذری نے اپنی کتابوں میں خلیفہ سوم کے قتل کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے-

مقتول خلیفہ کا جنازہ تین دن تک زمین پر پڑا رہا ، یہاں تک کہ حضرت علی {ع} نے ذاتی طور پر ان کی تدفین کے سلسلہ میں مداخلت کی- خلیفہ سوم کو صرف مروان، ان کی پانچویں بیٹی اور تین غلاموں کے حضور میں "حش کوکب "نامی قبرستان میں دفن کیا گیا-

قابل توجہ بات ہے کہ معاویہ نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد حکم دیا کہ قبرستان "حش کوکب "یعنی جناب عثمان بن عفان کے دفن کی جگہ، کی دیوار کو منھدم کرکے بقیع کے ساتھ ملا دیں-

حضرت علی بن ابیطالب کی خلافت:

جناب عثمان بن عفان کے قتل کے بعد رسول خدا {ص} کے صحابی حضرت علی {ع} کے پاس آگئے اور کہا: اے علی، مسلمانوں کے خلیفہ عثمان قتل ھوئے اور آج مسلمانوں کو ایک مناسب اور قابل پیشوا اور سرپرست کی ضرورت ہے، اور ان کی سرپرستی کے لئے ہم آپ سے مناسب تر اور شائستہ تر کسی کو نہیں جانتے ہیں اور اس کے بعد انھوں نے حضرت{ع} کی سابقہ فضیلتوں اور صلاحیتوں کو ایک ایک کرکے گنا دیا-

طبری اپنے بیان کو جاری رکھتے ھوئے کہتے ہیں: عثمان کے قتل ھونے کے بعد لوگ گروہ در گروہ کی صورت میں کئی بارحضرت علی {ع} کے پاس آگئے اور ان سے خلافت کے عہدہ کو سنبھالنےاور مسلمانوں پر حکومت کرنے کی درخواست کی، اس کے مقابلے میں حضرت علی {ع} خلافت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے- لیکن لوگوں نے کہا کہ اگر خلافت کی زمام سنبھالنے میں اس سے زیادہ تاخیرھو جائے تو امن و امان درہم برہم ھونے کا خطرہ ہے- یہاں پر حضرت علی {ع} نے لوگوں سے مخاطب ھو کر کہا: اگر آپ اس حد تک اصرار کرتے ہیں تو مسجد میں جمع ھو جاو- حضرت علی {ع} بھی مسجد کی طرف روانہ ھوئے اوروہاں پر یہ تقریر کی: میں خلافت کی کرسی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا ھوں، لیکن ملت کے اصرار اور ان کی درخواست کو قبول کرنے پر مجبور ھوں- میں آپ سے یہ عہد و پیمان لینا چاہتا ھوں کہ میری خلافت کے دوران مندرجہ ذیل دو موضوع کسی امتیاز کے بغیر نافذ ھو جائیں:

1- طبقاتی امتیازات کا خاتمہ۲ - تمام مسلمانوں کے درمیان مساوی حقوق کی رعایت کرنا، کیا آپ لوگ اس پر راضی ہیں؟

سب نے یک زبان ھوکر کہا: جی ہاں یا علی؛

بلاذری کہتے ہیں: مسلمان گروہ درگروہ کی صورت میں بڑی تیزی اور مکمل شوق کے ساتھ حضرت علی کی طرف دوڑے اور یوں نعرے بلند کر رہے تھے کہ:" علی امیرالمومنین ہیں" - ان لوگوں نے حضرت علی کی طرف اپنے ہاتھ بلند کرکے ان کی بیعت کی- طلحہ پہلے شخص تھے جنھوں نےحضرت علی{ع} کی بیعت کی- حضرت علی {ع} کے صحابیوں میں سے عمار اور مالک اشتر نے حضرت علی {ع} سے کہا کہ بعض لوگوں کو بیعت کرنے کی دعوت دیں، لیکن حضرت علی {ع} نے جواب میں کہا کہ: جو اپنی مرضی سے ہمارا استقبال نہ کرے اور دل و جان سے ہماری بیعت کو قبول نہ کرے، ہمیں اس کی ضرورت ہی نہیں ہے- یہ جاننا دلچسپ بات ہے کہ حضرت علی{ع} کی بیعت کی مخالفت کرنے والے مروان، ولید، اور سعید بن عاص جیسے افراد تھے- جن کے دل میں حضرت علی {ع} کا بغض و کینہ تھا ، کیونکہ حضرت علی {ع} نے ان کے مشرک آبا و اجداد اور اسلاف کو قتل کیا تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ علی بن ابیطالب {ع} کی سرپرستی اور خلافت کے مخالف تھے- انھوں نےحضرت علی {ع} سے کہا کہ : آپ نے ہمارے آبا و اجداد کو قتل کیا ہے اور علی {ع} نے جواب میں کہا: میں نے ان کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ انھیں حق کی مخالفت اور دشمنی اورشرک وبت پرستی کی طرفداری نے قتل کیا ہے- اس کے علاوہ حضرت علی {ع} کا اصرار تھا کہ بیت المال کی لوٹی گئی دولت اور بڑی رقومات کو غارت گروں سے چھین کر عدالت و انصاف کا تقاضا پوا کیا جائے- دوسری جانب ، بیعت کرنے والے طلحہ و زبیر خیال کرتے تھے کہ انھیں کلیدی عہدے اور بیت المال سے بیشتر حصہ ملے گا- لیکن انھوں نے مشاھدہ کیا کہ ایسا نہیں ھوا- اس لئے حضرت علی {ع} کی حکومت پر تنقیدیں اور اعتراضات شروع ھوئے- { اس سلسلہ میں ان افراد کے ساتھ حضرت علی {ع} کی گفتگو نہج البلاغہ میں موجود ہے}-

طلحہ و زبیر کی درخواست کے بارے میں یعقوبی اپنی تاریخ میں یوں لکھتے ہیں: " یا علی؛ رسول خدا {ص} کے بعد ہم ہر عہدے سے محروم رہے اور ہم میں سے ہر ایک نظر انداز ھوا تھا- اب جبکہ خلافت آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے ہمیں توقع ہے کہ آپ ہمیں خلافت میں شریک کریں اور حکومت کے کلیدی عہدوں میں سے کوئی عہدہ ہمیں عطا کریں"-

حضرت علی {ع} نے جواب میں فرمایا:" اس تجویز کو بھول جاو- اس سے بڑھ کر کونسا عہدہ چاہتے ھو کہ تم میری طاقت اور زور بازو اور مشکلات میں میرے مددگار بن جاو - میری حکومت کی مستحکم بنیاد تمھارے شانوں پر ہے- کیا اس سے بالاتر کوئی مقام کسی مسلمان کے لئے ممکن ہے؟

طلحہ و زبیر نے محسوس کیا کہحضرت علی {ع} کسی صورت میں ان کی بات ماننے والے نہیں ہیں اور دوسری جانب سے انھیں معلوم ھوگیا کہ جناب عائشہ نےجناب عثمان کی خونخواہی کا پرچم مکہ میں بلند کیا ہے، تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ خانہ خدا کی زیارت کے بہانے سے مکہ چلے جائیں- البتہ حجرت علی {ع} سے بھی اجازت مانگی اور حضرت علی {ع} نے انھیں اجازت دیدی-

جناب عائشہ کی عمر اس وقت تقريبا پنتالیس سال تھی- طلحہ و زبیر مکہ پہنچ کرجناب عائشہ سے ملحق ھوئے اور اسی طرح حضرت علی بن ابیطالب کی حکومت کے مخالف دوسرے احزاب اور شخصیتیں بھی جناب عائشہ سے ملحق ھو گئیں، کہ ان میں اکثر وہ افراد تھے جو سابقہ خلیفہ کی حکومت میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے اور علی {ع} کی عادلانہ حکومت کی سیاست کی وجہ سے اپنے عہدوں سے معزول کئے گئے تھے- ایسے افراد کی ایک قابل توجہ تعداد جناب عائشہ کے ارد گرد جمع ھوئی تھی- ان سربراھوں اور بزرگوں میں اختلاف پیدا ھوا ، ان میں سے بعض شام جاکر معاویہ سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن کچھ لوگ عراق جاکر کوفہ و بصرہ کےلوگوں سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے، بحث مباحثہ کے بعد دوسری تجویز پر اتفاق ھوگیا اور یہ طے پایا کہ لشکر عراق{ بصرہ} کی طرف روانہ ھو جائے- طبری نے ان کی تعداد تین ہزار افراد لکھی ہے- انھوں نے طلحہ و زبیر کے درمیان راستے میں پیدا ھونے والے اختلافات کا بھی ذکر کیا ہے-

لشکر کے درمیان اختلافات اور جھگڑا:

اتفاق نظر اور باہمی تعاون کا قول و قرار طے ہونے کے باوجود لشکر کے اندر شدید اختلافات مشہود تھے- طلحہ و زبیر میں سے کسی ایک کے امام جماعت منتخب ھونے پر اختلاف تھا- اس کے علاوہ لشکر کی کمان کے سلسلہ میں بھی اختلاف تھا کہ اس سلسلہ میں جناب عائشہ کی تدبیریں بھی نا کام ھوئیں- حالات یہاں تک پہنچے کہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ ان دو یعنی طلحہ و زبیر میں سے کون امیر ہے-

کچھ لوگ زبیر کو لشکر کا کمانڈر سمجھتے تھے کیونکہ اسے عائشہ نے منصوب کیا تھا اور کچھ لوگ دونوں کو امیر جانتے تھے- اس سلسلہ میں مروان نے لوگوں میں اختلافات اور جدائی پھیلانے میں کلیدی رول ادا کیا-

دوسرا اہم مسئلہ جو لشکر کے سرداروں میں نمایاں اور مشہود تھا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے کئے ھوئے پر مطمئن نہیں تھے اور حق و نا حق کی تشخیص کرنے میں حیران و پریشان تھے-

طبری اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: زبیر نے کئی بار کہا: انا نبصر ولا نبصر، یعنی ہم نے اپنی راہ کو نہیں پہچانا ہے اور دوسروں کی راہنمائی پر چلتے ہیں- ہم اپنی راہ کی تشخیص کرنے میں حیران و پریشان ہیں اور اپنے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں شک و شبہہ سے دوچار ہیں- میں اپنی زندگی کے دوران جب کوئی اقدام کرتا تھا اس کے انجام کو مد نظر رکھتا تھا، لیکن آج میرا یہ کام میرے لئے واضح نہیں ہے -

اسی طرح علقمہ بن وقاص سے نقل کیا گیا ہے کہ اس نے کہا: میں ان دنوں طلحہ کے برتاو اور اس کے چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ متوجہ تھا اور اسے مسلسل پریشان حالت میں پاتا تھا، اکثر اوقات پر سربہ گریبان تنہا بیٹھتا تھا اور گہرے غور و فکر میں غرق ھوتا تھا- ایک دن میں نے اس سے کہا: تم کیوں پریشان اور نا راحت حالت میں غور وفکر میں غرق ہو؟ اگر علی {ع} سے جنگ کرنا پسند نہیں کرتے ھو،تو لشکر سے جدا ھوکر گھر چلے جاو-

طلحہ نے جواب میں کہا: ایک دن ہم مسلمان دشمن کے مقابلے میں متحد تھے، افسوس آج ہم دو مخالف گروھوں میں تقسیم ھوئے ہیں اور دو پہاڑوں کے مانند ایک دوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما ہیں-

ان اظہارات سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ دو سردار{ طلحہ و زبیر} اپنے مقصد میں تشویش سے دوچار تھے اور اپنے اقدامات اور فیصلوں کے بارے میں شک و شبہہ میں مبتلا تھے اور اس کام کے برے انجام اور خطرات کے بارے میں فکر مند تھے-

لیکن حضرت علی {ع} اس کے مقابلے میں فرماتے تھے: " وانی لعلی یقین من امری وفی غیر شبھہ من دینی وان معی بصیرہ" اور اپنی تقریروں کے ضمن میں فرماتے تھے: " میں یقین کے ساتھ جانتا ھوں کہ اس جنگ میں خداوند متعال میرا مددگار و پشت وپناہ ہے اور مجھے فتح و کامرانی عطا کرے گا، کیونکہ میں ایمان رکھتا ھوں کہ میں بے گناہ اور حق پر ھوں اور میں اپنے اقدام کے بارے میں ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں رکھتا ھوں اور اپنے کام کے بارے میں روشنی اور بصیرت رکھتا ھوں-"

حضرت علی {ع} کی مدینہ سے بصرہ کی طرف عزیمت:

اس سفر میں، جس کےپہلے پڑاو پر حضرت علی {ع} رکے اس جگہ کا نام "ربذہ" تھا- یہاں پر حضرت علی {ع} نے عثمان بن حنیف سے ملاقات کی- عثمان بن حنیف نے وہ سب کچھ حضرت علی {ع} کو سنایا جو مخالف لشکر نے بصرہ میں ان کے خلاف انجام دیا تھا اور ساتھ ہی شکوہ کیا، امام نے انھیں صبر کرنے کی نصیحت کی اور ان کے مصیبت بھرے حالات سن کر غمگین ھوئے- اس کے بعد کوفہ میں اپنے گورنر کے نام ایک خط لکھا اور اس کو حکم دیا کہ ایک فوج کو مسلح کرکے امام کے پاس بھیجدے، لیکن کوفہ کے گورنر ابو موسی نے امام کے اس خط اور حکم پر کوئی اعتنا نہیں کیا اور امام کے حکم کے خلاف کوفہ کے لوگوں کو امام کی مدد کرنے سے روکا-

دوسرا پڑاو جہاں پر امام علی{ع} کے لشکر نے توقف کیا اس جگہ کا نام " ذی قار" تھا- وہاں سے امام[ع] نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی {ع} کو ایک خط دے کر کوفہ روانہ کیا اور کوفہ کے لوگوں سے مدد کی درخواست کی- کوفہ کے بہت سے لوگ امام حسن مجتبی {ع} کے بیانات سے متاثر ھوکر ان کے لشکر میں شامل ھوگئے-

طبری کہتے ہیں: دونوں لشکر ایک دوسرے کے مقابلے میں ایک ایسی جگہ پر روبرو ھوئے جس کا نام بعد میں " قصرعبیداللہ بن زیاد" مشہور ھوا- پہلے تین دن کوئی ٹکراو اور تصادم نہیں ھوا،حضرت علی {ع} مسلسل اتمام حجت کرتے رہے اوراپنے مقابلے کے لشکر کے سرداروں کو خطوط لکھتے رہے اور اپنے قاصد ان کے پاس بھیجتے رہے اور کبھی خود بھی براہ راست ان سے رابطہ قائم کرتے رہے تاکہ جنگ اور خونریزی کو روک سکیں اور اپنے دشمنوں کو فتنہ و فساد سے آگاہ کرتے رہے-

جنگ جمل:

حضرت علی {ع} نے جنگ جمل کے دن اپنے لشکر سے مخاطب ھوکر بلند آواز میں اعلان کیا: لوگو؛ تم دشمن کی طرف تیراندازی نہ کرنا کسی پر تلوار اور نیزے سے حملہ نہ کرنا اور دشمن کے ساتھ جنگ شروع کرنے میں پہل نہ کرنا- دشمن کے ساتھ مہربانی اور نرم لہجہ سے گفتگو کرنا- ظہر تک ایسے ہی حالات رہے اور حکم کے مطابق حضرت علی {ع} کی فوج نے جنگ شروع کرنے سے اجتناب کیا- لیکن اس کے مقابلے میں دشمن کی فوج سے " یالثارات عثمان" کا نعرہ صاف سنائی دیتا تھا- یہاں پرحضرت علی {ع} نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر کہا: خداوندا؛ آج عثمان کے قاتلوں کو شکست دینا-

امیرالمومنین {ع} نے صلح کرنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ حاصل نہ ھونے کے بعد قرآن مجید کا سہارا لیا اور اسی کے ذریعہ اتمام حجت کی، لہذا، قرآن مجید کے ایک نسخہ کو ہاتھ میں لئے ھوئے اپنے لشکر میں یہ آواز بلند کی: کون ہے جو اس قرآن مجید کو ہاتھ میں لے کر دشمن کی فوج کو اس کی طرف دعوت دے اور اس راہ میں جام شہادت نوش کرے؟ ایک جوان اٹھا اور اس نے اس کام کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا- نضرت علی {ع} نے دوبارہ اپنی دعوت پیش کی اور پھر سے وہی جوان اٹھا- امام {ع} نے قرآن مجید کو اس جوان کے ہاتھ میں دے کر دشمن کی طرف روانہ کیا، لیکن دشمن کی فوج نے اس پر حملہ کرکے اس کے دونوں ہاتھ بدن سے جدا کر دیے ، پھر بھی وہ جوان مسلسل دعوت اور تبلیغ کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنی جان دیدی-

اس ماجرا کے بعد امیرالمومنین {ع} نے فرمایا: اب ان پر حجت تمام ھوگئی ہے اور ان کے ساتھ جنگ کرنا ہمارے لئے واجب بن گیا ہے-

سپاہ جمل کے پہلےکمانڈر، زبیر کی قربانی:

جب دو لشکر ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئےتو، حضرت علی {ع}، اسلحہ کو زمین پر رکھ کر پیغمبر اسلام {ص} کے مخصوص مرکب پر سوار ھوکر دشمن کے لشکر کی طرف روانہ ھوئے اور زبیر کو اپنے پاس بلایا، زبیر جنگی اسلحہ کے ساتھ حضرت علی {ع} کی طرف بڑھا ، جب یہ خبرجناب عائشہ کو ملی تو انھیں زبیر کی جان کا خطرہ محسوس ھوا اور فریاد بلند کی: " واحرباہ باسماء" یعنی افسوس ھو میری بہن اسماء کی بدبختی پر کہ بے شوہر ھوگی- لیکن جب ا نھیں بتایا گیا کہ حضرت علی {ع} مسلح نہیں ہیں تو انھیں اطمینان حاصل ھوگیا- مورخین نے زبیر اور حضرت علی {ع} کی ملاقات کے لمحہ کو یوں تحریر کیا ہے کہ: جب زبیر، حضرت علی {ع} کے پاس پہنچا تو ایک دوسرے سے گلے ملے اور ایک دوسرے کو چوما- اس کے بعد علی {ع} نے کہا افسوس ھو تم پر کس لئے اس لشکر کے ساتھ اس سرزمین پر آئے ھو؟ اور کیوں مخالفت کا پرچم میرے خلاف اٹھائے ھو؟

زبیر نے کہا: لشکر کشی کی دلیل جناب عثمان کی خونخواہی ہے، اورحضرت علی {ع} نے جواب دیا: خدا اسے قتل کرے جس کا عثمان کے قتل میں ہاتھ ہے- اس کے بعدحضرت علی {ع} نے زبیر کو پیغمبر اسلام {ص} کا وہ کلام یاد دلایا، جس میں آپ {ص} نے زبیر سے کہا تھا: " زبیر تم ایک دن نا حق ،علی [ع} سے جنگ کروگے"- پیغمبر اسلام {ص} کے کلام کی یاد دہانی کو سننے کے بعد زبیر نے استغفار کیا اور اپنے عمل پر پشیمان ھوئے، لیکن کہا: اب جبکہ کام یہاں تک پہنچا ہے اور ہم ایک دوسرے سے جنگ کرنے پر آمادہ ہیں ، میں اپنے لئے فرار کے تمام راستے مسدود پاتا ھوں- حضرت علی {ع} نے کہا: آج ننگ اور شرمندگی کو قبول کرنا تیرے لئے اس سے بہتر ہے کہ کل شرمندہ ھوجاوگے اور جہنم کی آگ سے بھی دوچار ھو جاو گے-

یہاں پر زبیر زبردست متاثر ھوا اور اس نے جنگ سے انحراف اور پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا- لیکن جب عبداللہ بن زبیر کو اپنے باپ کے ارادے کے بارے میں معلوم ھوا تو اس کے پاس جاکر کہا: ہمیں چھوڑ کے کیسے جارہے ھو- - -؟

مسعودی، عبداللہ کو زبیر کا جواب یوں بیان کرتے ہیں:

عبداللہ؛ نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہے جیسا تم خیال کرتے ھو، میں جنگ کے خوف سے پسپائی اختیار نہیں کر رہا ھوں بلکہ آج مجھے ایک ایسی داستان یاد آئی جس نے مجھے متنبہ کیا اور حضرت علی {ع} سے جنگ کرنے سے روکا، یہی وجہ ہے کہ میں نے جنگ سے اجتناب کرنے کو جہنم کی آگ پر ترجیح دے دیا- لیکن میرے بیٹے؛ اب جبکہ تم مجھے بزدل اور ڈرپوک سمجھتے ھو، میں اس داغ کو نیزے اور تلوار سے اپنے دامن سے پاک کر رہاھوں- اس گفتگو کے بعد زبیر نے حضرت علی [ع} کے لشکر کے میمنہ پر ایک زبردست حملہ کیا، جب حضرت علی {ع} نے زبیر کو اس غضبناک حالت میں دیکھا تو، اپنے سپاھیوں کو حکم دیا کہ اسے مہلت دیدیں اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچائیں، کیونکہ اسے اکسایا گیا ہے اور وہ اپنی عام اور فطری حالت کو کھو بیٹھا ہے-

زبیر نے دوسرا حملہ حضرت علی {ع} کی فوج کے میسرہ پر کیا اورآواز بلند کی: کون ڈرپوک اس قسم کی شجاعت کا مظاہرہ کرسکتا ہے؟ اس کے بعد جنگ سے کنارہ کشی کرتے ھوئے صحرا کی طرف روانہ ھوگیا-

کہتے ہیں کہ: زبیر ایک جگہ پر نماز پڑھنے کے لئے گھوڑے سے اترا، "عمرو بن جرموز" نامی ایک شخص نے پیچھے سے اس پر حملہ کرکے اسے قتل کر ڈالا-

سپاہ جمل کی دوسری قربانی، طلحہ:

ابن عساکر کہتے ہیں: حضرت علی {ع} نے جنگ سے پہلے طلحہ سے بھی وہی برتاو کیا جو زبیر سے کیا تھا- یعنی طلحہ سے ملاقات کی اور اس سے کہا: تمھیں خدا کی قسم ہے کہ کیا تم نے رسول خدا [ص]کا میرے بارے میں یہ کلام نہیں سنا ہےکہ:" جس جس کا میں مولا ھوں علی بھی اس کے مولا ہیں، خداوندا؛ علی{ع} کے دوستوں کو دوست رکھ اور ان کے دشمنوں سے دشمنی؟" طلحہ نے جواب میں کہا: جی ہاں میں نے سنا ہے اور مجھے یاد بھی ہے- علی {ع} نے فرمایا: تعجب کی بات ہے، پھر میرے ساتھ کیسے جنگ کر رہے ھو؟

طبری کہتے ہیں کہ: حضرت علی {ع} نے کہا: طلحہ؛ تم وہ ھو جس نے اپنی بیوی کو گھر میں رکھا ہے اور پیغمبر {ص} کی بیوی کو میدان جنگ میں لے آئے ھو اور میری بیعت توڑ دی ہے-

ابن عساکر و ذھبی لکھتے ہیں: طلحہ اپنے سپاھیوں کے درمیان صدا بلند کر رہا تھا اور ان سے درخواست کر رہا تھا کہ خاموش رہ کر ان کی بات کو سنیں، لیکن جب اسے معلوم ھوا کہ وہ لوگ اس کی بات کی کوئی اعتنا نہیں کر رہے ہیں تو اس نے غضبناک ھو کر کہا: لعنت ھو ان بھیڑیے صفت لوگوں پر جو جہنم کی آگ کی سند ہیں-

لیکن طلحہ کے قتل ھونے کی کیفیت کے بارے میں، یعقوبی، ابن عساکر، ابن عبدہ ربہ، ابن عبدالبر استیعاب میں، ابن حجر عسقلانی اور ابن اثیر اپنی کتاب کامل میں یوں نقل کرتے ہیں:

علی {ع} اور طلحہ کے سپاہی جنگ میں مشغول تھے، مروان، طلحہ کے لشکر کا ایک سردار تھا، اس نے کہا: اگر میں آج کے موقع سے استفادہ نہ کروں اور عثمان کے قاتل سے انتقام نہ لوں تو مجھے یہ موقع کبھی نہیں ملے گا، اس کے بعد اس نے اپنے ہی کمانڈر یعنی طلحہ کی طرف ایک تیر پھینکا اور اسی تیر کے زخم اورزیادہ خون بہہ جانے کے نتیجہ میں طلحہ قتل ھوگیا-

" ابن سعد" طبقات میں بیان کرتے ہیں: طلحہ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کہا: خدا کی قسم، جس تیر نے میرا کام تمام کیا، وہ علی کے لشکر کی طرف سے نہیں پھینکا گیا تھا- مورخین نے لکھا ہے کہ جنگ جمل کے دوسرے کمانڈر یعنی طلحہ کے قتل ھونے کے بعد بھی سپاھیوں میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ھوا، کیونکہ لشکر کا علمبردار وہ اونٹ تھا جس پر جناب عائشہ کا کجاوہ رکھا گیا تھا، لہذا کمانڈروں کے قتل ھونے کے بعد سپاھیوں کی بیشترتوجہ اس اونٹ کی طرف ھوئی جس پر پیغمبر {ص} کی بیوی سوار تھیں اور اس طرح جنگ تیزی کے ساتھ جاری رہی-

جب حضرت علی {ع} نے ایسے حالات دیکھے تو آپ {ع} نے سیاہ عمامہ سر پر رکھ کر اپنے لشکر کوتیار کیا اور فوج کے پرچم کو محمد حنفیہ کے ہاتھ میں دے دیا- جنگ رفتہ رفتہ شدت پکڑتی گئ، دشمن کی فوج کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی بہت سے فوجی بھاگ گئے- جو باقی بچے تھے وہ بھی خطرہ کا احساس کرتے تھے اور اپنی شکست کا مشاھدہ کر رہے تھے- جنگ کے رسومات کے مطابق شعر و رجز خوانی کے بجائے " یا لثارات عثمان" کا نعرہ بلند کر رہے تھے- اس کے مقابلے میں حضرت علی {ع} کے سپاہی " یا محمد" کا نعرہ بلند کر رہے تھے- لیکن حضرت علی {ع} نے حکم دیا کہ خود پیغمبر {ص} کے نعرہ سے استفادہ کریں اور " یا منصورامت" کا نعرہ بلند کریں -

دشمن کے میمنہ و میسرہ کے دستوں کے درہم برہم ھونے کے بعد جنگ اونٹ کے ارد گرد پہنچ گئی اور شدت اختیار کر گئی، اونٹ کے ارد گرد عجیب ازدحام پیدا ھوا- اونٹ پر تیر باران ھو گیا، لیکن چونکہ اسے نمدوں اور مضبوط اشیاء سے ڈھانپا گیا تھا لہذا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا- حضرت علی {ع} کے "یجیر" نامی ایک صحابی کو حکم دیا گیا کہ اونٹ کا کام تمام کرے، اس نے بھی ایک مناسب موقع سے استفادہ کرتے ھوئے اونٹ کی ران پر ایک کاری ضرب لگادی اور اونٹ زمین پر ڈھیر ھو گیا ، یہاں پر دشمن کے تمام سپاہی تتربتر ھو گئے اور ہر ایک جان بچانے کے لئے بھاگ گیا- حضرت علی {ع} نے صدا بلند کی: لوگو؛ کجاوہ کی رسیوں کو کاٹ دو اور کجاوہ کو اونٹ سے جدا کرو، حضرت علی {ع} کے سپاھی کجاوہ کوجناب عائشہ کے ہمراہ ہاتھوں پر بلند کرکے میدان کارزار سے دور لے گئے-

جمل کی خونین جنگ فتنہ گروں کی شکست پر ختم ھو گئی- حضرت علی {ع} نے جناب عائشہ کے بھائی محمد بن ابی بکر کو حکم دیا کہ اپنی بہن کے پاس جاکر ان کے لئے ایک خیمہ نصب کرے اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرکے ان کی سلامتی کے بارے میں اطمینان حاصل کرے- محمد بن ابی بکر اپنی بہن کے پاس گئے ،جناب عائشہ نے پوچھا کہ کون ھو؟ محمد بن ابی بکر نے جواب میں کہا کہ : آپ کا نزدیک ترین اور دشمن ترین رشتہ دار ھوں-

بہن نے کہا: کیا تم خثعمیہ { محمد بن ابی بکر کی ماں کا قبیلہ} کا بیٹا ھو؟ محمد نے کہا: جی ہاں- جناب عائشہ نے کہا: میرے ماں باپ قربان ھوں، خدا کا شکر ہے کہ تم اس جنگ میں زندہ بچ نکلے ھو- محمد نے کہا: امیرالمومنین حضرت علی {ع} نے آپ کے بارے میں مہربانی اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور فکرمند ہیں کہ کہیں آپ کو کوئی زخم تو نہیں لگا ہے- جناب عائشہ نے اظہار کیا کہ ایک تیر مجھ تک آ گیا لیکن مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا-

اس کے بعد حضرت علی {ع} جناب عائشہ کے پاس گئے اور کہا: اے حمیرا؛ کیا رسول خدا {ص} نے آپ کو اس جنگ کا حکم دیا تھا؟ کیا آپ کے شوہر رسول خدا[ص] نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ آپ گھر سے باہر نہ نکلیں؟ جنھوں نے آپ کو یہاں پہنچایا ہے انھوں نے رسول خدا {ص} کے ساتھ بے انصافی کی ہے کہ انھوں نے اپنی بیویوں کو گھروں میں رکھا ہے لیکن آپ کو جو، پیغمبر{ص} کی ناموس ھیں، میدان کارزار میں لے آئے ہیں- آپ نے لوگوں کو میرے خلاف اکسایا، اور ان کے دلوں میں میری دشمنی پیدا کی تاکہ میرے خلاف بغاوت کریں-

جناب عائشہ امام کے کلام کے مقابلے میں خاموش تھیں اور صرف اتنا کہا کہ: یا علی، جبکہ اب آپ ہم پر غالب ھوئے ہیں اور صاحب قدرت و امتیاز بنے ہیں، بخش دینا بہتر ہے-

جنگ ختم ھونے کے بعد، حضرت علی {ع} نے اپنے سپاھیوں سے مخاطب ھو کر فرمایا: شکست سے دوچار ھوئے فوجی چونکہ زبان پر کلمہ توحید جاری کرتے ہیں اس لئے ان کا احترام کرو-

جناب عائشہ کو احترام کے ساتھ مدینہ لوٹا دینا:

حضرت علی {ع} نے اپنے چچازاد بھائی، عبداللہ بن عباس کو جناب عائشہ کے پاس بھیجا تاکہ ان سے اپنے شہر، یعنی مدینہ لوٹنے کی رضامندی حاصل کریں- لیکن جناب عائشہ نے بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا- دوسری بار امیرالمومنین علی {ع} ذاتی طور پر جناب عائشہ کے پاس گئے وہاں پر کچھ ایسی عورتوں کو دیکھا جو اپنے مقتولین کے لئے عزاداری کر رہی تھیں ان عورتوں میں صفیہ بنت حارث ثقفی بھی تھی جس کے دل میں امام علی {ع} کے بارے میں زبردست دشمنی تھی، امام نے اس سے مخاطب ھوکر کہا: میں تجھے اس دشمنی کے سلسلہ میں ملامت نہیں کرتا ھوں کیونکہ جنگ بدر میں تیرے جد کو اور جنگ احد میں تیرے چچا کو میں نے قتل کیا ہے اور اس جنگ میں تیرے شوہر کو قتل کرچکا ھوں- لیکن جان لینا کہ اگر میرا مقصد تیرے عزیزوں اور دوستوں کو قتل کرنا ھوتا تو اس وقت جو تم لوگ یہاں پر جمع ھوئے ھو سب کو قتل کر ڈالتا- { امام کا اشارہ عبداللہ بن زبیر اور مروان کی طرف تھا جو اس گھر میں پناہ لے کر چھپے ھوئے تھے}-

دوسرے دن حضرت علی {ع} نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی {ع} کو جناب عائشہ کے پاس بھیجا اور انھیں پیغام دیا کہ قسم اس خدا کی جو ایک دانے کو توڑتا ہے، قسم اس خدا کی کہ جس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اگر آپ اسی وقت مدینہ کی طرف روانہ نہ ھوں گی، تو دیکھ لیں گی کہ آپ کے ساتھ کیا برتاو کروں گا- جناب عائشہ نے جب یہ کلام سنا تو فوراً اٹھیں اور روانہ ھونے کے لئے تیار ھو گئیں-

" عقدالفرید" کے مولف لکھتے ہیں: جب جناب عائشہ نے واپس لوٹنے کی رضامندی کا اعلان کیا، توحضرت علی {ع} نے ان کے سفر کے وسائل ان کے اختیار میں دیے اور ان کے ساتھ ۴۰ یا ۷۰ خواتین بھیجدیں-

طبری کہتے ہیں: حضرت علی {ع} نے بارہ ہزار درہم بھی انھیں عطا کئے اور انھیں چند خواتین اور مردوں کے ہمراہ مدینہ روانہ کیا-

مسعودی اس امر کے قائل ہیں کہ حضرت علی {ع} کی طرف سے عبدالرحمن بن ابی بکر کو ماموریت ملی کہ اپنی بہن عائشہ کو قبیلہ عبد قیس و قبیلہ ہمدان کی تیس {۳۰} خواتین کے ہمراہ مدینہ پہنچا دے- یعقوبی اور ابن اعثم نے بھی اپنی تاریخ میں اس خبر کو درج کیا ہے-

یہاں پر جو چیز ہمارے لئے قابل توجہ اور اس کی پیروی کرنا ضروری اور ناگزیر ہے، وہ امام علی {ع} کا جناب عائشہ کے ساتھ برتاو اور انھیں احترام کے ساتھ مدینہ بھیجنا ہے- امام حکم دیتے ہیں کہ ام المومنین کچھ افراد کے ساتھ روانہ ھو جائیں جو سب کے سب نقاب پوش تھے، جناب عائشہ اس حالت سے ناراض ھوگئیں- لیکن جب وہ سب مدینہ پہنچ گئے تو سب نے اپنے چہروں سے نقاب ہٹا دئے اور جناب عائشہ کو معلوم ھوا کہ وہ سب خواتین تھیں اور انھیں یہ بھی معلوم ھوا کہ حضرت علی {ع} نے توقع سے زیادہ پیغمبر {ص} کی بیوی کا احترام کیا تھا-

جناب عائشہ، جنگ جمل کے بعد:

جناب عائشہ، ایک تیزفہم ، وقت شناس اور حساس خاتون تھیں انھوں نے ایک مہربان اورعفوو بخشش کرنے والے مرد سے بخشش کی درخواست کی، جب یہ کہا کہ: اے علی {ع}؛ اب جبکہ ہم پر غلبہ حاصل کرچکے ھو اور قدرت و قوت کے مالک بن گئے ھو اپنی سخاوت سے مجھے بخش دو{ ملکت فاسجح} اس قسم کا کلام جناب عائشہ کے، خطاب پر قدرت کی دلیل ہے- اس کے علاوہ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ: " ان یوم الجمل لمعترض فی حلقی" یعنی " جنگ جمل میرے حلق میں ایک ہڈی کے مانند پھنسی ہوئی ہے-

ابن اثیر لکھتے ہیں: ایک دن جناب عائشہ کے پاس جنگ جمل کا ذکر کیا گیا، انھو ں نے پوچھا: کیا لوگوں کو ابھی بھی یہ جنگ یاد ہے؟ کہا گیا: جی ہاں؛ اس کے بعد کہا: کاش کہ میں نے اس جنگ میں شرکت نہ کی ھوتی؛

مورخین، مسروح نامی ایک شخص سے یوں نقل کرتے ہیں: جب جناب عائشہ آیہ شریفہ " وقرن فی بیوتکن" کی تلاوت کرتی تھیں تو اس قدر روتی تھیں کہ ان کا دوپٹا آنسو سے تر ھوتا تھا-

عمرو عاص سے جناب عائشہ کا برتاو:

ایک دن عمروعاص نے جناب عائشہ سے کہا: میں چاہتا تھا کہ جمل میں آپ قتل ھو جاتیں،" انھوں نے پوچھا: کیوں؟ اس نے جواب میں کہا: آپ قتل ھونے کے بعد بہشت میں جاتیں اور ہم آپ کے قتل کو سب سے بڑا بہانہ بنا کر علی {ع} کی جماعت کی سرکوبی کرتے-

عمروعاص کے اس کلام سے معلوم ھوتا ہے کہ بنی امیہ کے دماغ میں کیا ریشہ دوانیاں تھیں اور کس مقصد سے جنگ لڑتے تھے اور اس سے یہ بھی ظاہر ھوتا ہے کہ جنگ جمل کی جماعتوں اور افراد کے درمیان کس قدر اختلافات پائے جاتے تھے-

ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں ایک اور مسئلہ کی طرف اشارہ کرکے نقل کیا ہے کہ: ایک دن عائشہ کے پاس ذوالندبہ کے امیرالمومنین حضرت علی کے ہاتھ قتل کئے جانے کی بات ھوئی- جناب عائشہ نے اس حادثہ کے ایک شاھد سے اس سلسلہ میں ایک رپورٹ مرتب کرکے انھیں بھیجنے کی درخواست کی- راوی کہتا ہے کہ: جب شہادت نامہ کو ہم جناب عائشہ کے پاس لے گئے، انھوں نے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد کہا: عمرو عاص پر خدا کی لعنت ھو- وہ دعوی کرتا تھا کہ اس نے ذوالندبہ کو خود مصر میں قتل کیا ہے-

اس داستان کو نقل کرنے کے بعد ابن کثیر کہتے ہیں کہ: اس کے بعد جناب عائشہ نے زبردست گریہ و زاری کی اور تھوڑا سا آرام حاصل کرنے کے بعد کہا:" علی {ع} پر خدا کی رحمت ھو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی حق سے جدا نہیں ھوئے اور جو کچھ میرے اور ان کے درمیان واقع ھوا وہ اس مسئلہ کے مانند تھا جو عام طور پر خواتین اور ان کے شوہروں کے خاندان میں واقع ھوتا ہے-"

لیکن یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ عمرو عاص نے کیوں یہ جھوٹا دعوی کیا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ علماء اور مورخین نے ذوالندبہ کی مذمت اور اس کے قاتل کی ستائش میں متعدد روایتیں نقل کی ہیں اور عمرو عاص یہ دعوی کرکے پیغمبر خدا {ص} کی ستائش کو اپنے آپ سے نسبت دینا چاہتا تھا-

جناب عائشہ کی ذاتی خصوصیات:

ذھبی کے قول کے مطابق،جناب عائشہ ایک باھوش، سخنور، سیاست دان اور سخی خاتون تھیں- وہ ایک قوی حافظہ رکھتی تھیں اور انھیں بہت سے اشعار یاد تھے- اس کے علاوہ اپنے زمانے کے علم طب سے بھی آگاہی رکھتی تھیں-

ان کے لباس کے بارے میں کتاب طبقات کے مصنف جناب عائشہ کے قاسم نامی بھتیجے سے نقل کرکے لکھتے ہیں کہ: وہ زرد رنگ کے لباس زیب تن کرتی تھیں اور زرین انگوٹھیاں پہنتی تھیں- عائشہ کی عروہ نامی بھانجی نقل کرتی ہے کہ عائشہ کی ایک ریشمی عبا تھی جسے وہ کبھی کبھی زیب تن کرتی تھیں پھر اس عبا کو انھوں نے عبداللہ بن زبیر کو بخشا-

محمد بن ابی بکر کا بیٹا، قاسم نقل کرتا ہے کہ عائشہ، زرد لباس زیب تن کرکے سونے کے زیورات کے ساتھ محرم ھوتی تھیں-

عبدالرحمن بن قاسم اپنی ماں سے نقل کرتا ہے: میں نے جناب عائشہ کو سرخ رنگ کا لباس زیب تن کئے ہوئے آگ کےمانند دیکھا جبکہ حج کے لئے محرم ھوچکی تھیں- اور تاریخ میں جناب عائشہ کے حالات کے بارے میں اس مضمون کی بکثرت روایتیں نقل کی گئی ہیں-

ان کی سخاوت کے بارے میں، ام ذرہ{ یہ عورت کبھی کبھی جناب عائشہ کے پاس آتی تھی} یوں نقل کرتی ہے:

جناب عائشہ کے لئے دو تھیلیوں میں کافی مال بھیجا گیا- انھوں نے کہا: میرے خیال میں ان تھیلیوں میں اسی[۸۰] ہزار یا ایک لاکھ درہم ھوں گے، اس کے بعد ایک قاب کو منگوایا جبکہ وہ خود روزے سے تھیں، اس کے بعد اس مال کو تقسیم کیا، غروب تک ان کے پاس ایک درہم بھی نہیں بچا تھا، اس کے بعد انھوں نے اپنی کنیز سے کہا: افطار لانا، ان کے لئے تھوڑی سی روٹی اور زیتون کا تیل لایا گیا-

ام ذرہ کہتی ہےکہ: میں نے ان سے کہا کیا آپ اس رقم میں سے کچھ ہمیں نہیں دے سکتیں جو لوگوں میں تقسیم کی، تاکہ ہم بھی اس سے تھوڑا سا گوشت خرید کے افطار کرتے؟ جناب عائشہ نے کہا: مھجے تکلیف میں نہ ڈالو، اگر مجھے یاد دہانی کراتیں تو ضرور ایسا ہی کرتی-

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ عروہ بنت زبیر کہتی ہے کہ: میں نے ایک دن جناب عائشہ کو دیکھا کہ ۷۰ ہزار درہم لوگوں میں تقسیم کر رہی تھیں جبکہ ان کا اپنا زیب تن کیا ھوا لباس پیوند لگا ہوا تھا- جناب عائشہ کی یہ سب بخشش عبداللہ بن زبیر پر سخت گزری اور اس نے کہا میں انھیں حشیر جانتا ھوں { حشیر یعنی جسے اپنے مال میں تصرف کرنے کا اختیار نہ ھو} تاکہ دوسرے لوگ بھی اپنے مال میں تصرف نہ کرسکیں- البتہ جب جناب عائشہ نے یہ بات سنی توانھوں نے کہا: میں نذر کرتی ھوں کہ مرنے کے دم تک اس کے ساتھ بات نہیں کروں گی-

بعد میں عبداللہ نے کسی کو ثالث قرار دیا لیکن ان کی خالہ نے اپنی بات واپس نہیں لی اور کہا: خدا کی قسم میں ہرگز اس کے لئے اس کام سے پرہیز نہیں کروں گی { ان کی مراد یہ تھی کہ بخشش سے اجتناب نہیں کروں گی اور مال جمع کرنے کا کام نہیں کروں گی}- یہ جدائی دوسال تک جاری رہی ، یہاں تک کہ آخر کار عبداللہ بن زبیر دو افراد کے ہمراہ جناب عائشہ کے پاس گیا اور انھیں اپنی رشتہ داری کا قسم دے کر ان سے بات کرنے کو کہا- کافی اصرار کے بعد انھوں نے ا س سے بات کی-

جناب عائشہ کی وفات:

قابل اعتبار کتاب " بلاغات النساء" میں آیا ہے کہ جناب عائشہ احتضار کے دوران سخت بے چین تھیں ان سے کہا گیا: آپ کیوں اس قدر بے چین اور پریشان ھیں، جبکہ آپ ام المومنین ہیں ؟ جواب میں کہا: بیشک جنگ جمل میرے حلق میں ایک ہڈی کے مانند پھنسی ھوئی ہے-

ذھبی کہتے ہیں:جناب عائشہ نے احتضار کی حالت میں افسوس کے ساتھ کہا: - - - جب میں اس دنیا سے چلی جاوں تو مجھے پیغمبر {ص} کی دوسری بیویوں کے پاس دفن کرنا –

اسی طرح ذھبی نقل کرتے ہیں کہ: وہ {جناب عائشہ} رمضان المبارک کی سترھویں شب کو سنہ آٹھاون{۵۸} ھجری میں نماز وتر کے بعد وفات پاگئیں- انھوں نے حکم دیا تھا کہ انھیں اسی شب میں دفن کیا جائے- مہاجرین و انصار جمع ھوئے، ایک بے مثال اجتماع وجود میں آیا، خرما کی لکڑی میں آگ لگا دی گئی تاکہ لوگوں کے لئے رفت و آمد کا راستہ روشن ھو جائے- راوی کہتا ہے کہ: میں نے اس شب میں مدینہ النبی کی عورتوں کو قبرستان بقیع میں دیکھا کہ ایام عید کے مانند جمع ھوئی تھیں –

مروان کی طرف سے ابو حریرہ شہر مدینہ کا حاکم تھا، اسی نے ام المومنین جناب عائشہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور انھیں پیغمبر اسلام {ص} کی دوسری بیویوں کے پاس سپرد خاک کیا گیا-

وفات کے وقت ان کی عمر {۶۳} سال اور کچھ مہینے تھی-

جناب عائشہ کی روایی اور فقہی شخصیت:

جناب عائشہ سے بہت سی احادیث نقل کی گئی ہیں- اہل سنت کی دو اہم کتابوں، یعنی صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں ان سے دوسو سے زائد احادیث نبوی[ص] نقل کی گئی ہیں- حتی کہ ابن سعد کے کہنے کے مطابق وہ فقہہ اور سیرت النبی کے بارے میں بھی اپنا نظریہ اور فتوی دیتی تھیں- علامہ عسکری لکھتے ہیں کہ: وہ { عائشہ} صحابیوں کی غلطیوں کے بارے میں بھی اشارہ اور تصحیح کرتی تھیں-

ابن سعد کی طبقات میں یوں آیا ہے کہ: " کانت عایشہ و استقلت بالفتوی فی عھد ابی بکر و عمر و عثمان و ھلمہ جرا الی ان ماتت" –" عائشہ، ابو بکر، عمر، اور عثمان کی حکومتوں کے دوران اور اپنی زندگی کے آخری آیام تک تنہا خاتون تھیں جو مسلسل فتوی صادر کرتی تھیں-

عائشہ سے منقول روایتیں، عبادات، معاملات اور سماجی مسائل کے موضوعات کے بارے میں ہیں اور بعض دوسری روایتوں میں انھوں نے خاندانی مسائل، اپنی معیشت اور پیغمبر{ص} کی دوسری بیویوں اور آنحضرت {ص} کے خاندان ،من جملہ آپ {ص} کی بیٹی حضرت زہراء {س} اور آپ {ص} کے نواسوں اور علی {ع} کے ساتھ آپ کے تعلقات کے بارے میں ہیں-

نقل کی گئی روایتیں:

الف: حضرت خدیجہ {س}، حضرت فاطمہ{س} اور حضرت علی بن ابیطالب علیھم السلام کے بارے میں:

۱-" پیغمبر اسلام {ص} ہمیشہ خدیجہ[س] کو یاد فرماتے تھے اور گھر سے باہر نکلنے سے پہلے ان کے بارے میں کچھ فرماتے تھے اور ان کی ستائش کرتے تھے، ایک دن پیغمبر{ص} نے حسب معمول خدیجہ کے بارے میں کچھ بیان فرمایا، میرے وجود میں حسد پیدا ھوا اور میں نے کہا: کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے کہ وہ ایک بوڑھی عورت تھیں اور خداوند متعال نے آپ {ص} کو ان سے بہتر عنایت کی ہے- پیغمبر {ص} یہ سن کر غضبناک ھوئے اور فرمایا : خدا کی قسم مجھے ان سے بہتر کبھی کوئی نہیں ملی ہے اورمیں نے ان سے برتر کوئی جانشین نہیں پایا ہے وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں، جب لوگ میری اور میری دعوت کی مخالفت کرتے تھے، انھوں نے میرے کلام کو قبول کیا اور مجھ پر اعتماد کیا، جب لوگ مجھے اور میرے کلام کوجھٹلاتے تھے، انھوں نے اپنے مال و ثروت سے میری مدد کی جب لوگوں نے مجھے تن تنہا چھوڑ دیا تھا، خداوند متعال نے مجھے ان سے اولاد عطا کی جبکہ ان کے علاوہ میری کسی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہے- اس وقت جناب عائشہ نے کہا: میں نے آپ {ص} سے عھد و پیمان کیا کہ اس کے بعد کبھی خدیجہ کو برائی سے یاد نہیں کروں گی"-

۲-" میں نے رسول اکرم {ص} سے مخاطب ھوکر کہا: جب فاطمہ {س} آگئیں آپ {ص} نے ان کے ایسے بوسے کئے کہ اپنی پوری زبان ان کے منہ میں ڈال دی، گویا کہ آپ {ص} انھیں شہد کھلانا چاہتے تھے؟ فرمایا: جی ہاں اے عائشہ، جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا، جبرئیل نے مجھے بہشت میں داخل کیا، اس کے بعد ایک بہشتی سیب مجھے دیا ،میں نے اسے کھا لیا، اس سے میرے صلب میں ایک نطفہ وجود میں آیا، جب میں زمین پر اترا، میں خدیجہ[س] کے پاس گیا، اور فاطمہ{س} اسی نطفہ سے ہے، وہ حوراء انسیہ ہے، جب بھی میں بہشت کا مشتاق ھوتا ھوں اسے چومتا ھوں-"

۳-" ظہر کے وقت پیغمبر{ص} گھر سے باہر نکلے جبکہ آپ {ص} سیاہ رنگ کی ایک اونی عبا{کساء} اوڑھے ھوئے تھے- اس کے بعد حسن بن علی[ع] آگئے اور ان کو اس عبا کے نیچے داخل کیا، اس کے بعد حسین[ع] داخل ھوئے، اس کے بعد فاطمہ {س} آگئیں اور انھیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا، اس کے بعد علی{ع} آگئے اور انھیں بھی عبا کے نیچے داخل کیا اس کے بعد فرمایا:" انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراً" -

۴- حضرت علی{ع} کے بارے میں جناب عائشہ سے سوال کیا گیا، تو انھوں نے جواب میں کہا:" میں ان کے بارے میں کیا کہہ سکتی ھوں جبکہ وہ رسول اللہ {ص} کے لئے لوگوں میں محبوب ترین شخص تھے؟ میں نے رسول اللہ {ص} کو دیکھا کہ اپنی عبا کو علی، فاطمہ، حسن اور حسین پرڈال کر انھیں جمع کرکے فرمایا: یہ میرے اہل بیت ہیں، خداوند متعال انھیں ہر قسم کی پلیدی سے دور رکھے اور انھیں پاک و منزہ رکھے- ان {عائشہ} سے کہا گیا: پس آپ نے کیوں ان کے خلاف بغاوت کی؟ جواب میں کہا: میں پشیمان ھوں اور وہ میری تقدیر تھی-

۵-عبیداللہ بن موسی نے زکریا سے اور اس نے ابی فراس سے اور اس نے مسروق سے اور مسروق نے جناب عائشہ سے نقل کیا ہے، کہ انھوں {عائشہ} نے کہا: خدا کی قسم، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، فاطمہ کے چلنے اور رسول اللہ {ص} کے چلنے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، جب رسول اللہ {ص} نے اسے دیکھا، تو دو بار فرمایا: خوش آمدید، میری بیٹی فاطمہ؛ اس کے بعد فرمایا: کیا اس پر خوش نہیں ھو کہ تم مومن خواتین کی سردار ھو اور یا قیامت کے دن میری امت کی خواتین کی سردار ھو؟"

۶-جناب عائشہ نے فاطمہ {س} سے کہا:" کیا یہ چیز تمھیں مسرت اور شادمانی نہیں بخشتی کہ میں نے رسول خدا {ص} سے سنا کہ فرماتے تھے: بہشت کی عورتوں کی سردار چار عورتیں ہیں: مریم بنت عمران، فاطمہ بنت محمد، خدیجہ بنت خویلد اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم-

۷-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ {ص} جب سفر سے لوٹتے تھے،تو فاطمہ کو چومتے تھے اور کہتے تھے: میں اس {فاطمہ} سے بہشت کی خوشبو محسوس کر رہا ھوں"-

۸-جناب عائشہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ:" رسول خدا {ص} نے فاطمہ سے کہا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ مسلمان عورتوں میں سے کوئی عورت اس قدر مصیبت نہیں دیکھے گی، جس قدر تم دیکھو گی، پس تمھارا صبر ان سے کم تر نہیں ھونا چاہئیے،

۹-جناب عائشہ نے کہا:" بیشک میں نے رسول اللہ {ص} کے علاوہ فاطمہ سے راستگو تر کسی کو نہیں پایا ہے-"

۱۰-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا: میں نے فاطمہ کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا، جو کلام و بیان کے لحاظ سے رسول خدا {ص} کے مشابہ ترین ھو- اگر فاطمہ کسی جگہ پر داخل ھوتیں،تو پیغمبر {ص} اپنی جگہ سے اٹھتے تھے اور انھیں چومتے تھے اور انھیں خوش آمدید کہتے تھے اور فاطمہ بھی پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ ایسا ہی برتاو کرتی تھیں"-

۱۱-جناب عائشہ نے کہا:" پیغمبر {ص} کی شدید بیماری کے وقت ہم آپ {ص} کے پاس تھے، اور پورے ھوش و حواس کے ساتھ آپ {ص} کا خیال رکھے ھوئے تھے- جب فاطمہ {س} آگئیں، ایسے چلتی تھیں کہ رسول خدا {ص} کے چلنے سے کوئی فرق نہیں تھا، جب آنحضرت {ص} نے انھیں دیکھا، خوش آمدید کہہ کر فرمایا: میری بیٹی؛ خوش آمدید، اس کے بعد انھیں اپنے پاس بٹھا دیا اور اس کے بعد ان سے ایک راز بیان کیا، اس وقت فاطمہ زہراء{س} نے گریہ و زاری کی- میں نے فاطمہ {س} سے پوچھا: رسول خدا {ص} نے راز کو صرف آپ سے کہا، اس کے باوجود آپ رو رہی ہیں؟ اس کے بعد آنحضرت {ص} نے ان سےایک اور راز بیان فرمایا اور یہ راز فاطمہ{س} کے ہنسنے کا سبب بنا- جناب عائشہ نے کہا: میں نے فاطمہ سے کہا: میں آپ کو اس حق کی قسم دیتی ھوں جو میں آپ پر رکھتی ھوں، مجھے بتایئے کہ رسول خدا {ص} نے آپ سے کیا کہا؟ فاطمہ {س} نے جواب میں کہا: میں رسول خدا {ص} کے راز کو کسی صورت میں فاش نہیں کروں گی- جناب عائشہ نے کہا: رسول خدا {ص} نے جب وفات پائی تو میں نے فاطمہ {س} سے راز کے بارے میں پوچھا، فاطمہ {س} نے کہا: اب میں آپ کو بتاتی ھوں- میرے رونے کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر {ص} نے مجھ سے کہا کہ جبرئیل ہر سال ایک بار مجھ پر قرآن نازل کرتے تھے، لیکن اس سال دو بار نازل کیا کہ یہ میری موت کے نزدیک ھونے کی نشانی ہے، اس لئے میں نے گریہ و زاری کی- اس کے بعد آپ {ص} نے فرمایا: صبر و تقوی کا دامن پکڑنا، کیا تم اس پر راضی نہیں ھو کہ اس صبر کے نتیجہ میں میری امت کی خواتین کی سردار ھوگی؟ اس لئے مجھے ہنسی آگئی"-

۱۲-جناب عائشہ نے کہا:" فاطمہ داخل ھوئیں، اس طرح کہ ان کے چلنے اور رسول خدا {ص} کے چلنے کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا اور پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: میری بیٹی؛ خوش آمدید، اس کے بعد ان سے کوئی بات کہی کہ پہلے انھوں {فاطمہ} نے گریہ و زاری کی اور اس کے بعد ہنسنے لگیں- جب ان سے گریہ اور ہنسنے کی وجہ پو چھی گئی تو فرمایا: میرا رونا پیغمبر {ص} کی رحلت کی وجہ سے تھا اور ہنسنا اس لئے تھا کہ میں پہلی شخص ھوں جو پیغمبر {ص} سے ملحق ھوں گی"-

۱۳-جناب عائشہ نے پیغمبر {ص} کا یہ قول نقل کیاہے:" فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے، جو اسے اذیت و آزار پہنچا ئے اس نے مجھے اذیت پہنچا ئی ہے"-

۱۴-جناب عائشہ نے کہا:" میں نے رسول خدا {ص} سے سنا ہے کہ آپ {ص} فرماتے تھے: قیامت کے دن ایک آواز بلند کرنے والا صدا بلند کرے گا: اے مخلوقات{ جنس و انس} اپنے سروں کو نیچے رکھو کہ فاطمہ بنت محمد{ص} پل صراط سے عبور کریں گیں-

۱۵-جناب عائشہ نے کہا:" فاطمہ، پیغمبر {ص} کے لئے محبوب ترین خاتون تھیں اور ان کے شوہر علی {ع}آپ {ص} کے لئے محبوب ترین مرد تھے"-

۱۶-جناب عائشہ نے کہا:" رسول خدا {ص} نے فرمایا ہے کہ: حق علی[ع] کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ ہیں اور یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ھوں گے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملحق ھوں گے"-

۱۷-"جناب عائشہ نے کہا: میں نے دیکھا کہ ابو بکر، علی کے چہرے کو غور سے دیکھ رہے ہیں، میں نے کہا بابا؛ میں مشاھدہ کر رہی ھوں کہ آپ علی کے چہرے کو غور سے دیکھ رہے ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا: بیٹی؛ میں نے سنا ہے کہ رسول خدا {ص} فرماتے تھے: علی کے چہرے پر نگاہ کرنا عبادت ہے"-

۱۸-حافظ بن حجر عسقلانی اپنی کتاب " الاصابہ" کی جلد ۸ کے ص ۱۸۳پر نقل کرتے ہیں کہ لیلی غفاری نے کہا: میں پیغمبر {ص} کے ساتھ جنگوں میں شرکت کرتی تھی اور زخمیوں کا علاج و معالجہ کرتی تھی- جب حضرت علی، بصرہ کی طرف روانہ ھوئے، میں بھی ان کے ساتھ گئی، جب میں نے جناب عائشہ کو دیکھا، میں نے ان کے پاس جاکر ان سے پوچھا: کیا آپ نے پیغمبر {ص} سے حضرت علی کے بارے میں کوئی کلام سنا ہے؟ انھوں نے جواب میں کہا: جی ہاں، ایک دن رسول خدا {ص} میرے پاس تھے، وہ {علی} داخل ھوئے اور میرے اور پیغمبر {ص} کے درمیان بیٹھ گئے- میں نے کہا: اس سے وسیع تر کوئی جگہ آپ کو نہیں ملی ، جہاں پر بیٹھتے؟ رسول خدا {ص} نے فرمایا: میرے بھائی کو مجھ پر چھوڑ دو، بیشک وہ پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لایے ہیں اور پہلے شخص ہیں جو قیامت کے دن میرے ساتھ ملاقات کریں گے"-

۱۹-جناب عائشہ نے کہا:" میں پیغمبر{ص} کے ساتھ بیٹھی تھیں کہ علی داخل ھوئے، اس کے بعد آنحضرت {ص} نے فرمایا: اے عائشہ؛ یہ عربوں کے سردار ہیں-میں نے کہا: یا رسول اللہ؛ کیا آپ عربوں کے سردار نہیں ہیں؟ فرمایا: میں آدم {ع} کی اولاد کا سردار ھوں اور وہ عربوں کے سردار ہیں"-

۲۰-" فضائل السمعانی" میں عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ: " جب کبھی فاطمہ {س} رسول خدا {ص} کے پاس تشریف لاتی تھیں، آنحضرت {ص} اپنی جگہ سے اٹھ کر ان {فاطمہ} کے سر کو چومتے تھے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے، اور جب کبھی ان کے والد بھی ان کے پاس جاتے تھے، وہ { فاطمہ} آپ {ص} کا استقبال کرتی تھیں، اور ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے اور ایک ساتھ بیٹھتے تھے"-

۲۱-جناب عائشہ نے کہا: بیشک پیغمبر{ ص } نے فرمایا ہے:" میرے بہترین بھائی علی ہیں اور بہترین چچا حمزہ ہیں"-

۲۲-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ: پیغمبر {ص} نے فرمایا ہے: سبقت حاصل کرنے والے تین افراد ہیں: موسی{ع} کی طرف سبقت لینے والے یوشع بن نون ہیں، عیسی {ع} کی طرف سبقت لینے والے صاحب یاسین ہیں اور محمد {ص} کی طرف سبقت لینے والے علی بن ابیطالب ہیں"-

۲۳-جناب عائشہ نے کہا: ایک دن میرے سامنے فاطمہ {س} نے رسول خدا {ص} کی خدمت میں عرض کی: میں تجھ پر قربان ھو جاوں یا رسول اللہ؛ آپ {ص} نے میرے بارے میں کیا دیکھا ہے؟ آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا: تم تمام دنیا کی عورتوں میں برترین خاتون ھو- کہا: یا رسول اللہ؛ میرے چچازاد بھائی کے بارے میں؟ فرمایا: خداوند متعال کی مخلوقات میں سے کوئی ان کے ساتھ موازنہ نہیں کرسکتا ہے-

۲۴- جناب عائشہ نے کہا:" علی بن ابیطالب آپ لوگوں میں سنت کے بارے میں دانا ترین شخص ہیں"-

۲۵-جناب عائشہ نے کہا:" پیغمبر{ص} فاطمہ {س} کو کافی چومتے تھے"-

۲۶-جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ:" خداوند متعال نے کسی کو پیدا نہیں کیا ہے، جو رسول اللہ {ص} کے لئے علی بن ابیطالب سے محبوب تر ھو"-

۲۷-جناب عائشہ نے کہا:" ایک دن علی بن ابیطالب داخل ھوئے، اس کے بعد پیغمبر {ص} نے فرمایا: یہ مسلمانوں کے سپہ سالار ہیں- میں نے کہا: یا رسول اللہ؛ کیا آپ {ص} مسلمانوں کے سپہ و سالار نہیں ہیں؟ فرمایا: میں خاتم الانبیاء اور خداوند متعال کا رسول ھوں"-

ب- مختلف موضوعات کے بارے میں:

۱" میں نے سنا ہے کہ رسول خدا {ص} فرماتے تھے: جو شخص جمعہ کے دن اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی زیارت کرے اور سورہ یس پڑھے، خداوند متعال اس کے حروف کی تعداد کے برابر اسے بخش دے گا"- { الطبرانی، ابن عدی، الدیلمی}

۲-ایک شخص ایک بوڑھے کے ہمراہ پیغمبر {ص} کی خدمت میں حاضر ھوا، اس کے بعد آنحضرت {ص} نے اس سے سوال کیا: تیرے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میرا باپ ہے، فرمایا: پس، اس سے آگے نہ چلنا، اس سے پہلے نہ بیٹھنا، اسے نام سے نہ پکارنا، تم ایسا کوئی کام انجام نہ دینا، جو اس امر کا سبب بنے کہ کوئی اسے دشنام دے"-{ الھیثمی}

۳-" صلہ رحم، خوش اخلاقی اور اچھا ہمسایہ ھونا، زمین کو آباد اور عمر کو طولانی کرنے کا سبب بنتے ہیں"-{ مسند احمد حنبل و بیہقی}

۴-میں نے پیغمبر اکرم {ص} سے پوچھا:" عورت پر کون زیادہ حق رکھتا ہے؟ فرمایا: اس کا شوہر، میں نے کہا: مرد پر کون زیادہ حق رکھتا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں"{ الحاکم}

۵-پیغمبر {ص} نے فرمایا: اے عائشہ؛ اگر تم کسی گناہ کی مرتکب ھوئی، تو خدا سے توبہ کرنا، بیشک گناہ سے توبہ کرنا وہی پشیمانی اور استغفار ہے"{ احمد، مسلم بخاری}

۶-پیغمبر {ص} نے فرمایا:" ایک یا دو بار دودھ پلانا، محرمیت کا سبب نہیں بنتا ہے"{ ابن ماجہ، مسلم، ابوداود، نسائی، احمد، الدار قطنی}

۷-" میں نے پیغمبر {ص} سے سوال کا: ہمسائیگی کی حد کیا ہے؟ فرمایا: چالیس مکان"-{ البیہقی}

۸-" رسول خدا {ص} نے فرمایا:" وہ شخص مومن نہیں ہے، جو خود سیر ھو اور اس کا ہمسایہ بھوکا ھو"- {المنذری}

۹-" میں نے پیغمبر {ص} سے سنا ہے کہ فرماتے تھے: " کسی حاجتمند مسکین کو وہ چیز نہ کھلاو جو خود نہیں کھاتے ھو"- {مسند احمد}

۱۰-پیغمبر {ص} نے فرمایا: جو شخص کسی زمین کو آباد کرے، وہ دوسروں کی بہ نسبت اس زمین کے بارے میں زیادہ حق رکھتا ہے اور وہ زمین اس کے علاوہ کسی اور کا مال نہیں ہے"- {بخاری، نسائی، احمد}

۱۱-پیغمبر[ص] نے فرمایا:" ازدواج میری سنت اور طریقہ کار ہے، جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے- ازدواج کرو، تو بیشک میں تمھارے ہمراہ دوسری امتوں پر برتری حاصل کروں گا اور اگر تمھارے پاس مال ھوتو ازدواج کرو لیکن اگر مالی استطاعت نہیں رکھتے ھو تو، روزہ رکھو کیونکہ روزہ ڈھال اور محافظ ہے"-{ ابن ماجہ، دارمی}

۱۲-پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا: خداوند متعال نیمہ شعبان { ۱۵ شعبان} کی رات کو اپنے بندوں پر اپنی عنایت کی نظر ڈالتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو بخشتا ہے اور جو رحمت الہی کے طالب ھوتے ہیں انھیں اپنی رحمت سے نوازتا ہے ، لیکن بغض و کینہ رکھنے والوں کو اپنے سے دور رکھتا ہے"-

۱۳-جناب عائشہ سے کہا گیا کہ: ایک عورت نعلین {مردوں کے جوتے} استعمال کرتی ہے- انھوں نے کہا: رسول خدا {ص} ان عورتوں پر لعنت بھیجتے ہیں جو مردوں سے شباہت رکھتی ہیں"- { ابو داود}

۱۴-رسول خدا {ص} نے فرمایا: " میری امت کی سب سے بہتر عورتیں، خوش اخلاق اور کم مہر والی عورتیں ہیں-"{ ابن عدی}

۱۵-رسول خدا{ص} نے فرمایا:" تین چیزیں آنکھوں کو جلا بخشتی ہیں: سبزی، جاری پانی اور نیک صورت پر نظر ڈالنا"- {ابو نعیم}

۱۶-پیغمبر {ص} نے فرمایا: عفت کی رعایت کرو تاکہ تمھاری عورتیں باشرم اور پاک دامن بن جائیں اور اپنے باپ سے نیکی کرو تاکہ تمھاری اولاد تم سے نیکی کریں- اگر تمھارے کسی مسلمان بھائی نے اپنی غلطی کے بارے میں معافی مانگی، اور تم اسے قبول نہ کرو، تو تم حوض کوثر پر مجھ سے ملحق نہیں ھوگے'-{ الطبرانی}

۱۷-رسول خدا {ص} نے فرمایا: خداوند متعال کے پاس محبوب ترین کام، مسلسل اور پیوستہ کام ہے، حتی کہ اگرچہ چھوٹا ہی ھو"-

۱۸-پیغمبر {ص} نے فرمایا: خداوند متعال فرماتا ہے:" بیشک اپنے بندہ کے بارے میں میرا ایک عہد و پیمان ہے کہ اگر وہ وقت پر نماز ادا کرے، میں اسے عذاب نہیں کروں گا اور حساب کے بغیر اسے بہشت میں داخل کروں گا"- { الحاکم}

۱۹-پیغمبر {ص} نے فرمایا:" بیشک خداوند متعال نے اپنے بندوں پر پانچ وقت کی نماز واجب قرار دی ہے"-{ الطبرانی}

۲۰-سعید بن ہشام، جناب عائشہ سے اور وہ پیغمبر اکرم {ص} سے نقل کرتی ہیں کہ آنحضرت {ص} نے فرمایا:" صبح کی دورکعت نماز، پوری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس سے برتر ہے" { مسلم، ترمذی و نسائی}-

 

حواشی:

Tuesday, 05 March 2013 11:10

جناب جویریہ کی سیرت

غزوہ بنی المصطلق:

سنہ ۶ھجری، شعبان کے مہینہ میں، مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ قبیلہ بنی المصطلق کے سردار حارث بن ابی ضرار، مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اسلحہ اور جنگجوافراد جمع کر رہا ہے- پیغمبر اسلام {ص} نے اس خبر کو سننے کے بعد انھیں اپنی ہی سر زمین پر کچل کے رکھ دینے کا فیصلہ کیا، اس لئے رسول خدا {ص} اسلام کے لشکر کے ساتھ ان کی طرف روانہ ھوئے اور " قدیہ" کے اطراف میں " مریسیع" کے مقام پر ان کے علاقہ کے ایک چشمہ کے پاس ان سے متصادم ھوئے- سب سے پہلے آنحضرت {ص} نے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے کا حکم دیا، لیکن انھوں نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا - اس لئے جنگ چھڑ گئی- اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ھوئی اور بہت سارا مال اور اسراء مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ آگئے- اس جنگ کا مال غنیمت دوہزار اونٹوں، پانچ ہزار بھیڑ بکریوں اور اسراء کے عنوان سے دوسو گھرانوں پر مشتمل تھا-

اسیروں میں قبیلہ کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی بھی تھی- ان کے باپ کا پورا نام حارث بن ابی ضرار بن حبیب بن عابد بن مالک بن المصطلق بن سعید بن عمرو بن ربیعہ بن حارثہ بن خراعہ تھا-

جنگ چھڑنے کا سبب:

قبیلہ بنی المصطلق، مدینہ منورہ سے پانچ پڑاو کی دوری پر ساکن تھے- انھوں نے دوسرے عرب قبائل کی مدد سے ایک لشکر آمادہ کیا تھا، تاکہ بے خبری میں مدینہ پر حملہ کریں- پیغمبر اسلام {ص} اس موضوع کے بارے میں مطلع ھوئے اور " برید" نامی ایک شخص کو مزید تحقیق کے لئے مذکورہ قبیلہ کی سرزمین کی طرف روانہ کیا- اس شخص نے بھیس بدل کر مذکورہ قبیلہ کے سردار سے رابطہ بر قرار کیا اور حالات سے آگاہ ھوا- اس کے بعد مدینہ لوٹ کر آنحضرت {ص} کے سامنے اس رپورٹ کی تائید کی- اس نے پیغمبر اسلام {ص} کے لئے ایک مفید اطلاع لائی تھی- اس کے مقابلے میں قبیلہ بنی المصطلق کے جاسوس مسلمانوں کے ہاتھوں پکڑے گئے اور اس طرح وہ مسلمانوں کے بارے میں کسی قسم کی اطلاع حاصل نہ کرسکے- پیغمبر اسلام {ص} نے پیش قدم ھوتے ھوئے تاخیر کئے بغیر ان پر حملہ کیا- مسلمانوں کی جاں نثاری اور عرب قبائل کے دلوں میں مسلمانوں کے بارے میں پیدا ھوا رعب و دبدبہ اس امر کا سبب بنا کہ ایک مختصر جنگ کے بعد دشمن کے دس افراد قتل ہونے کے مقابلے میں مسلمانوں کے صرف ایک سپاہی کے شہید ھونے کے بعد دشمن کا لشکر تتر بتر ھوگیا اور ان کی شکست و ناکامی کے بعد اس جنگ میں مسلمانوں کو کافی مال، غنیمت کے طور پر ملا اور دشمن کی عورتیں اسیر ھوئیں-

مسلمانوں کی جنگ کے دلائل:

سنہ ۶ھجری میں مسلمانوں کی فوجی طاقت نمایاں اور قابل توجہ تھی، یہاں تک کہ مسلمانوں کی مخصوص فوجی ٹولیاں آسانی کے ساتھ مکہ کے قریب جاکر لوٹ سکتی تھیں، لیکن مسلمانوں کی یہ فوجی طاقت مختلف قبائل کی سرزمینوں کو فتح کرنے اور ان کے اموال پر قبضہ کرنے کے لئے نہیں تھی- اگر مشرکین مسلمانوں کی آزادی کو سلب نہ کرتے اور تبلیغ کے لئے ماحول کو آزاد رکھتے، تو پیغمبر اسلام {ص} ہرگز تلوار ہاتھ میں نہیں لیتے، لیکن چونکہ مسلمانوں اور ان کے تبلیغی گروھوں کو دشمن کی طرف سے ہمیشہ خطرہ لاحق تھا، اس لئے پیغمبر اسلام {ص} عقل کے حکم سے مجبور تھے تاکہ مسلمانوں کے دفاعی لشکر کو تقویت بخشیں-

ھجرت کے چھٹے سال، بلکہ پیغمبر اسلام {ص} کی زندگی کے آخری ایام تک ان جنگوں کے واقع ھونے کے حقیقی عوامل، مندرجہ ذیل امور میں سے تھے:

الف} مشرکوں کے بزدلانہ حملوں کا جواب دینا، جیسے: جنگ بدر، جنگ احد، اور جنگ خندق-

ب} ظالموں کو تنبیہ کرنا، جو مسلمانوں یا ان کے تبلیغی گروہوں کے خلاف بیابانوں میں حملہ کرتے تھے، یا عہد شکنی کرکے اسلام کے لئے خطرہ بن چکے تھے، جیسے: یہودیوں کے تین قبیلوں اور بنی الحیان سے جنگ-

ج} مختلف قبائل کے اسلحہ و جنگجوجمع کرکے مدینہ پر حملہ کرنے کے منصوبے کو ناکام بنانا-

جناب جویریہ:

جناب جویریہ{ ماضی میں ۶۷۰ یا ۶۷۷ء میں} قبیلہ خزاعہ کے رئیس کی بیٹی تھیں- جناب جویریہ کا باپ حارس، قبیلہ بنی مصطلق کا رئیس تھا- مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شکست کھانے کے بعد اس کا مال مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا اور ان کے زن و مرد اسیر بن گئے- ان اسیروں میں حارث کی بیٹی " برہ" بھی تھیں کہ بعد میں ان کا نام " جویریہ" رکھا گیا- وہ نافع بن صفوان کی بیوی تھیں، جو ان کا چچیرا بھائی تھا اور اس جنگ کے مقتولین میں شامل تھا-

مال غنیمت تقسیم کرنے کے دوان، جناب " جویریہ" ثابت بن قیس انصاری اوران کے چچیرے بھائی کے حصہ میں آگئیں- انھوں نے ان سے یہ طے کیا کہ وہ سات مثقال سونا ادا کرکے آزاد ھوسکتی ہیں- اس زمانہ میں اسراء فدیہ ادا کرکے آزاد ھوسکتے تھے-

ثابت بن قیس انصاری نے " برہ" کے لئے معمول سے چند گناہ زیادہ فدیہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا- چونکہ وہ اس قدر فدیہ ادا نہیں کرسکتی تھیں، اس لئے مدد کی درخواست کرنے کے لئے حضرت علی {ع} کے توسط سے پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئیں-

کچھ واقعات رونما ھونے کے پیش نظر، کہ بعد میں بیان کئے جائیں گے، سر انجام پیغمبر اسلام {ص} نے باغیوں کے سردار کی بیٹی کے ساتھ ازدواج کی اور اس ازدواج کے نتیجہ میں پیغمبر اسلام {ص} اور اس قبیلہ کے درمیان اٹوٹ انگ پیدا ھوا اور بہت سی عورتیں جو اسیر ھوئی تھیں، اس رشتہ کی وجہ سے قید و شرط کے بغیر آزاد ھوئیں- اس ازدواج کی برکتوں میں سے ایک سو اسیر عورتوں کی آزادی بھی تھی-

جناب عائشہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے فرمایا ہے:" میں کسی ایسی عورت کو نہیں پہنچاتی ھوں، جو " جویریہ" کے مانند اپنے قبیلہ کے لئے بابرکت ھو"- قبیلہ بنی مصطلق نے ایمان لایا اور الہی نعمتوں سے مالامال ھوگئے اور جناب جویریہ رسول اللہ {ص} کے گھر گئیں- ان کا گھر امہات المومنین جناب ام سلمہ، جناب عائشہ اور جناب حفصہ کے گھر کے قریب تھا-

مورخین کی روایت:

ام المومنین جناب جویریہ کے اسیر ھونے اور پیغمبر اسلام {ص}کی خدمت میں آنے تک مورخین اور سیرت لکھنے والوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے اور سب اس قول میں متفق ہیں اور اس واقعہ کے رونما ھونے کے بارے میں سبوں نے اشارہ کیا ہے-

واقعہ کی کیفیت:

آنحضرت {ص} نے جناب جویریہ کو اپنے لئے منتخب کیا اور اسراء اور غنائم کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے بعد مدینہ لوٹے- کچھ مدت بعد، جناب جویریہ کے باپ " حارث" اپنی بیٹی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے کئی اونٹوں کو اپنے ساتھ لے کر مدینہ کی طرف روانہ ھوا- راستے میں ان انٹوں میں سے دو انٹوں کے بارے میں اسے لالچ پیدا ھوئی، اس لئے ان دو اونٹوں کواس نے علاقہ عقیق میں چھپا کے رکھ دیا- اور باقی اونٹوں کو لے کر رسول خدا {ص} کی خدمت میں پہنچا اور اونٹوں کو فدیہ کے طور پر پیش کرنے کے بعد اپنی بیٹی کی رہائی کی درخواست کرتے ھوئے کہا:" یا رسول اللہ {ص}؛ میری بیٹی کو اسیر بنا کے نہ رکھئے کیونکہ وہ ایک بلند مرتبہ اور عظمت والی بیٹی ہیں"-

آنحضرت {ص} نے فرمایا:" پس وہ دو اونٹ کہاں ہیں جنھیں تم نے فلاں شعب میں چھپاکے رکھا ہے"- رسول اللہ {ص} کا یہ کلام سننے کے بعد حارث اور اس کے بیٹے نے اسلام قبول کیا اس کے بعد رسول خدا {ص} نے جناب جویریہ کو آنحضرت {ص} کے پاس رہنے یا اپنے باپ کے پاس جانے کا اختیار بخشا- حارث نے کہا: آپ {ص} نے ایک عادلانہ تجویز پیش کی ہے، اس کے بعد جناب جویریہ کے پاس جاکر کہا:" بیٹی؛ یہاں رہ کر اپنے قبیلہ کو ذلیل نہ کرنا "- جناب جویریہ نے جواب میں کہا:" میں نے خدا اور اس کے رسول {ص} کو منتخب کیا ہے"- یہ جواب سن کر حارث نے کہا:" لعنت ھو تم پر، جو چاھو وہی کرو"- اس کے بعد رسول خدا {ص} نے جویریہ کو آزاد کرکے اپنی بیویوں کے زمرے میں قرار دیا-

جناب جویریہ پیغمبر اسلام {ص} کی پہلی بیوی تھیں، جو قبیلہ قریش سے تعلق نہیں رکھتی تھیں-

جناب عائشہ کہتی ہیں:" لوگوں کو جب یہ خبر ملی کہ آنحضرت {ص} نے ان { جویریہ} سے ازدواج کرکے قبیلہ مصطلق کے داماد بن گئے ہیں، تو غنیمت میں حاصل کئے ھوئے اسیروں کو آزاد کیا اور اس طرح بنی مصطلق کے سو گھرانے آزاد ھوئے- اس لحاظ سے میں کسی ایسی عورت کو نہیں پہنچاتی ھوں، جو جویریہ کے مانند اپنے قبیلہ کے لئے خیر و برکت لانے والی ھو"-

جویریہ کا مہر:

مریسیع سے واپس لوٹنے پر آنحضرت[ص] نے جویریہ کو انصار میں سے ایک شخص کے پاس امانت کے طور پر رکھا اور ا سے حکم دیا کہ ان کی حفاظت کریں- اور اس کے بعد مدینہ چلے گئے- ان کا مہر ان کی آزادی، ایک قول کے مطابق چالیس اسیروں کی آزادی یا بنی مصطلق کے تمام اسیروں کی آزادی قرار دیا گیا تھا-

لیکن خود جناب جویریہ اس سلسلہ میں فرماتی ہیں:" جب آنحضرت {ص} نے مجھے آزاد کیااور اپنے عقد میں قرار دیا، خدا کی قسم میں نے اس کے بعد ان کے سامنے اپنے قبیلہ اور رشتہ داروں کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی- یہ خود مسلمان تھے کہ جنھوں نے انھیں آزاد کیا- ایک لڑکی، جو میری چچیری بہن تھی، نے میرے پاس آکر مجھے ان کی آزادی کی خبر دیدی، اور میں نے خداوند متعال کا شکر بجا لایا"-

کہا گیا ہے کہ آنحضرت {ص} نے جویریہ کا مہر چارسو درہم مقرر فرمایا اور ان کے نام کو "برہ" سے " جویریہ" تبدیل کیا- کیونکہ فرمایا کہ" برہ" نیک نام کے معنی میں، ایک قسم کی خود ستائش ہے باوجودیکہ یہ نام اس زمانہ میں مشہور تھا- آنحضرت {ص} نے انھیں پردہ کرنے کا حکم دیا اور اپنی دوسری بیویوں کے مانند ان کے لئے بھی حجاب معین فرمایا-

نام تبدیل کرکے جویریہ رکھنے کا سبب:

ہم ان کا نام بدلنے کا سبب نہین جانتے ہیں- رسول خدا {ص} نے اپنی بیویوں میں سے بعض کے نام تبدیل فرمائے ہیں، جیسے زینب بنت جحش، ام سلمہ، میمونہ اور جویریہ- لیکن اپنی بعض بیویوں کے نام تبدیل نہیں فرمائے ہیں جیسے؛ برہ بنت ابی نجوا اور برہ بنت سفیان وغیرہ-

ازدواج سے رحلت تک:

ام المومنین جناب جویریہ نے رسول خدا {ص} کے ساتھ پانچ سال زندگی کی، لیکن آنحضرت {ص} سے ان کی کوئی اولاد پیدا نہیں ھوئی- اور سرانجام ربیع الاول سنہ ۵۶ ھجری میں ،اور ایک روایت کے مطابق سنہ ۵۰ ھجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، ان کے جنازہ کو قبرستان بقیع میں لے جا کر سپرد خاک کیا گیا- کہا گیا ہے کہ، مدینہ کے اس وقت کے حاکم مروان بن حکم نے ابو حاتم حیان کے ہمراہ ان کی نماز جنازہ پڑھائی-

جناب جویریہ ایک متقی اور پرہیزگار خاتون تھیں کہ اکثر دنوں میں روزہ رکھتی تھں اور شب عبادتوں میں گزارتی تھیں- ان کے تقوی کی توصیف میں کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں کہ پیغمبر اسلام[ص] کی شریک حیات بننے کے بعد ان کے بلند مقام و اخلاص کی گواہ ہیں-

ذبیح اللہ محلاتی اپنی کتاب" ریاحین الشریعہ" میں لکھتے ہیں کہ جناب جویریہ ایک شیرین زبان اور فصیح بیان خاتون تھیں-

جناب جویریہ نے رسول خدا {ص} سے کئی احادیث نقل کی ہیں جنھیں ابن عباس، ابن عمر، عبید بن سباق اور ان کے بھتیجے اور دوسروں نے نقل کیا ہے- شیخ طوسی نے اپنی کتاب " رجال" میں انھیں اصحاب میں شمار کیا ہے-

جناب جویریہ ایک عالمہ و محدثہ خاتون تھیں اور آنحضرت {ص} کے بعد ۳۹ سال تک زندہ تھیں-

ترتیب و پیشکش: مریم مصدری

حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا

جبرائیل کی بشارت:

"حضرت فاطمہ زہرا (ع) کی ولادت کے وقت رسول خدا (ص) نے جناب خدیجہ سے فرمایا : جبرائیل نے مجھے بشارت دی ہے کہ ہمارا یہ پیدا ہونے والا فرزند لڑکی ہے ، اور تمام آئمہ معصومین(ع) اسی کی نسل سے ہوں گے"

ولادت

حضرت فاطمہ زھرا(ع) کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں علماء اسلام کے درمیان اختیاف ہے۔ لیکن اہل بیت عصمت و طہارت کی روایات کی بنیاد پر آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ۲۰ جمادی الثانی، بروز جمعہ مکہ معظمہ میں ھوئی۔

بچپن اور تربیت

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پانچ برس تک اپنی والدہ ماجدہ حضرت خدیجۃ الکبری کے زیر سایہ رہیں اور جب بعثت کے دسویں برس خدیجۃ الکبریٰ علیہا السّلام کا انتقال ہو گیا ماں کی اغوش سے جدائی کے بعد ان کا گہوارہ تربیت صرف باپ کا سایہ رحمت تھا اور پیغمبر اسلام کی اخلاقی تربیت کا آفتاب تھا جس کی شعاعیں براه راست اس بے نظیر گوہر کی آب وتاب میں اضافہ کر رہی تھیں .

جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا کو اپنے بچپن میں بہت سے ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ پانچ سال کی عمر میں سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا ۔ اب باپ کے زیر سایہ زندگی شروع ہوئی تو اسلام کے دشمنوں کی طرف سے رسول کو دی جانے والی اذیتیں سامنے تھیں ۔ کبھی اپنے بابا کے جسم مبارک کو پتھرون سے لہو لہان دیکھتیں تو کبھی سنتی کے مشرکوں نے بابا کے سر پر کوڑا ڈال دیا۔ کبھی سنتیں کہ دشمن بابا کے قتل کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ مگر اس کم سنی کے عالم میں بھی سیّدہ عالم نہ ڈریں نہ سہمیں نہ گھبرائیں بلکہ اس ننھی سی عمر میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی مددگار بنی رہیں۔

نام ، القاب

نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العلمین، راضیۃ، مرضیۃ، شافعۃ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔

کنیت

آپ کی مشہور کنیت ام الآئمۃ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ھے، یعنی اپنے باپ کی ماں، یہ لقب اس بات کا ترجمان ھے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بے حد چاھتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحی اور معنوی پناہ گاہ تھیں ۔

پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کو ام ابیھا کا لقب اس لئے دیا . کیونکہ عربی میں اس لفظ کے معنی، ماں کے علاوہ اصل اور مبداء کے بھی ھیں یعنی جڑ اور بنیاد ۔ لھذا اس لقب( ام ابیھا) کا ایک مطلب نبوت اور ولایت کی بنیاد اور مبدا بھی ہے۔ کیونکر یہ آپ ھی کا وجود تھا، جس کی برکت سے شجرہ ٴ امامت اور ولایت نے رشد پایا، جس نے نبوت کو نابودی اور نبی خدا کو ابتریت کے طعنہ سے بچایا ۔

 

آپ کےوالد ماجد ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی(ص) اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ بنت خولد ہیں۔ ھم اس باپ کی تعریف میں کیا کھیں جو ختم المرسلین، حبیب خدا اور منجی بشریت ھو ؟ کیا لکھیں اس باپ کی تعریف میں جسکے تمام اوصاف و کمالات لکھنے سے قلم عاجز ہو؟ فصحاء و بلغاء عالم، جس کے محاسن کی توصیف سے ششدر ہوں؟ اور آپ کی والدہ ماجدہ، جناب خدیجہ بنت خویلد جو قبل از اسلام قریش کی سب سے زیادہ باعفت اور نیک خاتون تھیں ۔ وہ عالم اسلام کی سب سے پھلی خاتون تھیں جو خورشید اسلام کے طلوع کے بعد حضرت محمد مصطفی(ص) پر ایمان لائیں اور اپنا تمام مال دنیا اسلام کو پروان چڑھانے کےلئے اپنے شوھر کے اختیار میں دے دیا ۔ تاریخ اسلام، حضرت خدیجہ(س) کی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ وفاداری اور جان و مال کی فداکاری کو ھرگز نھیں بھلا سکتی۔ جیسا کہ خود پیغمبر اسلام (ص) کے کردار سے ظاھر ھوتا ھے کہ جب تک آپ زندہ تھیں کوئی دوسری شادی نھیں کی اور ھمیشہ آپ کی عظمت کا قصیدہ پڑھا، جناب عائشہ زوجہ پیغمبراكرم (ص) فرماتی ھیں :

" ازواج رسول(ص) میں کوئی بھی حضرت خدیجہ کے مقام و احترام تک نھیں پہنچ پائی ۔ پیغمبر اسلام(ص) ھمیشہ انکا ذکر خیر کیا کرتے تھے اور اتنا احترام کہ گویا ازواج میں سے کوئی بھی ان جیسی نھیں تھی ۔"پھر عائشہ کھتی ھیں : میں نےایک دن پیغمبر اسلام(ص) سے کہا :

" وہ محض ایک بیوہ عورت تھیں" تو یہ سن کر پیغمبر اسلام(ص) اس قدر ناراض ھوئے کہ آپ کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور پھر فرمایا :

"خدا کی قسم میرے لئے خدیجہ سے بھتر کوئی نھیں تھا ۔ جب سب لوگ کافر تھے تو وہ مجھ پر ایمان لائیں، جب سب لوگ مجھ سے رخ پھیر چکے تھے تو انہوں نے اپنی ساری دولت میرے حوالے کر دی ۔ خدا نے مجھے اس سے ایک ایسی بیٹی عطا کی کہ جو تقویٰ، عفت و طھارت کا نمونہ ھے ۔ "پھر عائشہ کہتی ھیں : میں یہ بات کہہ کر بہت شرمندہ ھوئی اور میں نے پیغمبر اسلام(ص) سے عرض کیا : اس بات سے میرا کوئی غلط مقصد نھیں تھا ۔

حضرت فاطمہ زھراء(س) ایسی والدہ اور والد کی آغوش پروردہ ھیں ۔

پرورش :

جناب فاطمہ (ص) نے نبوت و رسالت کے گھرانے میں پرورش پائی اور رسول اسلام (ص) کے علم و دانش سے بہرور ہوئیں رسول اکرم (ص) سے زبانی قرآن سنا اور اسے حفظ کیا اور خود سازی و حقیقی انسان بننے کی فکر میں مشغول ہو گئیں اپنے والد محترم اور قرآن سے بے حد محبت فرماتیں ، اپنے والد ماجد کے فیض بخش وجود سے استفادہ فرماتیں تھیں یہی وہ کمالات تھے جن کی بنا پر پیغمبر اسلام (ص) آپ کو بے حد چاہتے تھے ایک روز آپ کی زوجہ "عائشہ " نے آپ سے سوال کیا ، کیا آپ (ص) فاطمہ زہرا (ع) کو اتنا چاہتے ہیں کہ جب وہ آتی ہیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے اپنے برابر میں جگہ دیتے ہیں ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : اے "عائشہ "اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ میں فاطمہ (ع) کو کیوں دوست رکھتا ہوں تو تم بھی انھیں محبوب رکھو ۔ آپ فاطمہ (ع) کو اپنا ٹکڑا سمجھتے تھے اور برابر ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ " فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے اذیت دی اس نے مجھے ستایا اور جس نے اسے راضی کیا اس نے مجھے خوش کیا " ایک روز پیغمبر اسلام ارشاد فرماتے ہیں "فاطمہ خدا تیری خوشنودی پر خوش ہوتا ہے اور تیری ناراضگی پر غضبناک ہوتا ہے " شباھت: فاطمہ زہرا (ص) صورت ، سیرت ، رفتار ، اور گفتار میں سب سے زیادہ اپنے پدر محترم سے مشابہ تھیں ، پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ ام سلمی فرماتی ہیں فاطمہ زہرا (ع) سب سے زیادہ رسول (ص) سے مشابہ تھیں

باپ بیٹی کا رشتہ :

باپ بیٹی کے درمیان یک طرفہ محبت نہیں تھی بلکہ حضرت فاطمہ زہرا (ص) رسول (ص) کی طرح اپنے والد ماجد سے محبت کرتی تھیں جناب خدیجہ کی وفات کے وقت آپ کی عمر چھ سال سے زیادہ نہ تھی ماں کے بعد گھر میں اپنے والد کے آرام و آسائش کو ہمیشہ مد نظر رکھتی تھیں فاطمہ وہ بیٹی تھیں کہ جو ہمیشہ اپنے باپ کے نقش قدم پر ثابت قدم رہیں شہر مکہ کی گلی کوچہ اور مسجد الحرام سب رسول (ص) کی توہین کرنے اور اذیت پہونچانے والوں سے بھرے ہوئے تھے جب بھی آپ کے پدر محترم زخمی ہو کر واپس آتے تو آپ ہی چہرہ اقدس سے خون صاف کرکے زخموں پر مرہم رکھتیں اور اپنی پیاری پیاری باتوں سے رسول کا حوصلہ بڑھاتی تھیں جب باپ اپنے وطن میں رہ کر مسافر ، اور اپنے میں بیگانہ ، اپنوں کے ہوتے ہوئے تنہا ، اپنی زبان بولنے والوں میں بے زبان ، ہر وقت جہل وبت پرستی سے بر سر پیکار ، تبلیغ کا سنگین بار اٹھانے میں یک و تنہا تھا تو فاطمہ (ص) ہی تو تھیں جو اپنی بے لوث محبت سے باپ کے دل کو شاد کرتی تھیں ، اور والد کی رسالت کو تسلیم کرکے ان کی امیدوں کو تقویت بخشتی تھیں یہی تو وجہ کہ پیغمبر فرماتے تھے " تمہارا باپ تم پر قربان ہو " یا یہ کہ " اپنے باپ کی ماں " کے لقب سے پکارتے تھے چونکہ آپ اپنے باپ کے لئے مثل ماں کے تھیں ۔

 

فاطمہ زہرا(س) اور پیغمبر اسلام

حضرت فاطمہ زہرا (س) کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول(ص) فاطمہ زہرا (س) سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی ۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہرا سے رخصت ہونےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا سے ملنے کے لئے جاتے تھے .

اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ(س) ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لۓ کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے . رسول کا یہ برتاؤ فاطمہ زہرا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا .

حضرت فاطمہ(س) کی شادی

یہ بات شروع سے ہی سب پر عیاں تھی کہ علی(ع) کے علاوہ کوئی دوسرا دختر رسول(ص) کا کفو و ہمتا نھیں ہے ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے ایسے لوگ، جو اپنے آپ کو پیغمبر(ص) کے نزدیک سمجھتے تھے اپنے دلوں میں دختر رسول(ص) سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔

مورخین نے لکھا ھے : جب سب لوگوں نے قسمت آزمائی کر لی تو حضرت علی(ع) سے کہنا شروع کر دیا : اے علی(ع) آپ دختر پیغمبر(ص) سے شادی کے لئے نسبت کیوں نہیں دیتے ۔ حضرت علی(ع) فرماتے تھے : میرے پاس ایسا کچھ بھی نھیں ھے جس کی بنا پر میں اس راہ میں قدم بڑھاؤں ۔ وہ لوگ کہتے تھے : پیغمبر(ص) تم سے کچھ نہیں مانگیں گے ۔

آخرکار حضرت علی(ع) نے اس پیغام کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کیا اور ایک دن رسول اکرم(ص) کے بیت الشرف میں تشریف لے گئے لیکن شرم و حیا کی وجہ سے آپ اپنا مقصد ظاھر نہیں کر پا رہے تھے ۔

مورخین لکھتے ھیں کہ : آپ اسی طرح دو تین مرتبہ رسول اکرم(ص) کے گھر گئے لیکن اپنی بات نہ کہہ سکے۔ آخر کار تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے پوچھ ہی لیا : اے علی کیا کوئی کام ھے ؟

حضرت امیر(ع) نے جواب دیا : جی، رسول اکرم(ص) نے فرمایا : شاید زھراء سے شادی کی نسبت لے کر آئے ھو ؟ حضرت علی(ع) نے جواب دیا، جی ۔ چونکہ مشیت الٰھی بھی یہی چاہ رہی تھی کہ یہ عظیم رشتہ برقرار ھو لھذا حضرت علی(ع) کے آنے سے پہلے ہی رسول اکرم(ص) کو وحی کے ذریعہ اس بات سے آگاہ کیا جا چکا تھا ۔ بہتر تھا کہ پیغمبر(ص) اس نسبت کا تذکرہ زھراء سے بھی کرتے لھذا آپ نے اپنی صاحب زادی سے فرمایا : آپ، علی(ع) کو بہت اچھی طرح جانتیں ھیں ۔ وہ سب سے زیادہ میرے نزدیک ھیں ۔ علی(ع) اسلام کے سابق خدمت گذاروں اور با فضیلت افراد میں سے ھیں، میں نے خدا سے یہ چاہا تھا کہ وہ تمھارے لئے بھترین شوھر کا انتخاب کرے ۔

اور خدا نے مجھے یہ حکم دیا کہ میں آپ کی شادی علی(ع) سے کر دوں آپ کی کیا رائے ھے ؟

حضرت زھراء(س) خاموش رھیں، پیغمبر اسلام(ص) نے آپ کی خاموشی کو آپ کی رضا مندی سمجھا اور خوشی کے ساتھ تکبیر کہتے ھوئے وھاں سے اٹھ کھڑے ھوئے ۔ پھر حضرت امیر(ع) کو شادی کی بشارت دی ۔ حضرت فاطمہ زھرا(س) کا مھر ۴۰ مثقال چاندی قرار پایا اور اصحاب کے ایک مجمع میں خطبہ نکاح پڑھا دیا گیا ۔ قابل غور بات یہ ھے کہ شادی کے وقت حضرت علی(ع) کے پاس ایک تلوار، ایک ذرہ اور پانی بھرنے کے لئے ایک اونٹ کے علاوہ کچہ بھی نہیں تھا، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا : تلوار کو جھاد کے لئے رکھو، اونٹ کو سفر اور پانی بھرنے کے لئے رکھو لیکن اپنی زرہ کو بیچ ڈالو تاکہ شادی کے وسائل خرید سکو ۔ رسول اکرم(ص) نے جناب سلمان فارسی سے کہا : اس زرہ کو بیچ دو ۔ جناب سلمان نے اس زرہ کو پانچ سو درھم میں بیچا ۔ پھر ایک بھیڑ ذبح کی گئ اور اس شادی کا ولیمہ ھوا ۔ جھیز کا وہ سامان جو دختر رسول اکرم(ص) کے گھر لایا گیا تھا،اس میں چودہ چیزیں تھی ۔

شھزادی عالم، زوجہ علی(ع)، فاطمہ زھراء(ع) کا بس یہی مختصر سا جہیز تھا ۔ رسول اکرم(ص) اپنے چند با وفا مھاجر اور انصار اصحاب کے ساتھ اس شادی کے جشن میں شریک تھے ۔ تکبیروں کی آوازوں سے مدینہ کی گلیوں اور کوچوں میں ایک خاص روحانیت پیدا ھو گئی تھی اور دلوں میں سرور و مسرت کی لہریں موج زن تھیں ۔ پیغمبر اسلام(ص) اپنی صاحبزادی کا ہاتھ حضرت علی(ع) کے ھاتھوں میں دے کر اس مبارک جوڑے کے حق میں دعا کی اور انھیں خدا کے حوالے کر دیا ۔ اس طرح کائنات کے سب سے بہتر جوڑے کی شادی کے مراسم نہایت سادگی سے انجام پائے ۔

 

حضرت فاطمہ(س) کا اخلاق و کردار

حضرت فاطمہ زھرا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوھر حضرت علی(ع) کے لئے ایک دلسوز، مھربان اور فدا کار زوجہ تھیں ۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاھلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں ۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹ سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴ سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوھر بزرگوار علی مرتضیٰ(ع) کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے ۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا ۔ فاطمہ(س) اس خاتون کا نام ھے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا ۔

فاطمہ زھرا(س) نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الھٰی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوھر کے گھر میں عملی جامہ پھنایا ۔ وہ ایک ایسی مسن وسمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ھوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رھتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوھر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔

 

حضرت فاطمہ (س) کا نظام عمل

حضرت فاطمہ زہرا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں ۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا ۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہرا کے نام سے مشہور ہے ۳۴ مرتبہ الله اکبر، 33 مرتبہ الحمد الله اور 33 مرتبہ سبحان الله ۔ حضرت فاطمہ اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی ۔ بعد میں رسول نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں . بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے . اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہرا انجام دیتی تھیں۔

 

حضرت زہرا سلام اللہ کا پردہ

سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں. آپ کا مکان مسجدِ رسولِ سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا اپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں . ایک مرتبہ پیغمبر نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا .

"کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔"

 

حضرت زہرا(س) اور جہاد

اسلام میں عورتوں کا جہاد، مردوں کے جہاد سے مختلف ہے۔ لٰہذا حضرت فاطمہ زہرا نے کبھی میدانِ جنگ میں قدم نہیں رکھا ۔ لیکن جب کبھی پیغمبر میدان جنگ سے زخمی ہو کر پلٹتے تو سیدہ عالم ان کے زخموں کو دھوتیں تھیں .اور جب علی علیہ السّلام خون آلود تلوار لے کر آتے تو فاطمہ اسے دھو کر پاک کرتی تھیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ ان کا جہاد یہی ہے جسے وہ اپنے گھر کی چار دیواری میں رہ کے کرتی ہیں . ہاں صرف ایک موقع پر حضرت زہرا نصرت اسلام کے لئے گھر سے باہر آئیں اور وہ تھا مباہلے کا موقع۔ کیونکہ یہ ایک پرامن مقابلہ تھا اور اس میں صرف روحانی فتح کا سوال تھا۔ یعنی صرف مباہلہ کا میدان ایسا تھا جہاں سیدہ عالم خدا کے حکم سے برقع و چادر میں نہاں ہو کر اپنے باپ اور شوہر کے ساتھ گھر سے باہر نکلیں جس کا واقعہ یہ تھا کہ یمن سے عیسائی علماء کا ایک وفد رسول کے پاس بحث ومباحثہ کے لیے آیا اور کئ دن تک ان سے بحث ہوتی رہی جس سے حقیقت ان پر روشن تو ہوگئی مگر سخن پروری کی بنا پر وہ قائل نہ ہونا چاہتے تھے نہ ہوئے . اس وقت قران کی یہ آیت نازل ہوئی کہ

" اے رسول اتنے سچے دلائل کے بعد بھی یہ نہیں مانتے تو ان سے کہو کہ پھر جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنے بیٹوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کولاؤ، ہم اپنے نفسوں کو لائیں تم اپنے نفسوں کو اور الله کی طرف رجوع کریں اور جھوٹوں کے لیے الله کی لعنت یعنی عذاب کی بد دعا کریں .» "

عیسائی علماء پہلے تو اس کے لیے تیار ہوگئے مگر جب رسول الله اس شان سے تشریف لے گئے کہ حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام جیسے بیٹے فاطمہ زہرا جیسی خاتون اور علی علیہ السّلام جیسے نفس ان کے ساتھ تھے تو عیسائیوں نے مباہلہ سے انکار کر دیا اور مخصوص شرائط پر صلح کرکے واپس ہو گئے .

 

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر(ص) کی نظر میں

سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبر کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں .

ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں . مثلاً

" آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ "

" ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ."

" تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں "

" آپ کی رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے "

" جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسول کو ایذا دی"

اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں .

جناب فاطمہ كى معنوى شخصيت

تمام عورتوں كى سردار، حضرت فاطمہ كى معنوى شخصيت ہمارے ادراك اور ہمارى توصيف سے بالاتر ہیں۔ يہ عظيم خاتون كہ جو معصومين (ع) كے زمرہ ميں آتى ہيں ان كى اور ان كے خاندان كى محبت و ولايت دينى فريضہ ہے ۔ اور ان كاغصہ اور ناراضگى خدا كا غضب اور اسكى ناراضگى شمار ہوتى ہے (1) ان كى معنوى شخصيت كے گوشے ہم خاكيوں كى گفتار و تحرير ميںكيونكر جلوہ گر ہوسكتے ہيں ؟

اس بناء پر ، فاطمہ كى شخصيت كومعصوم رہبروں كى زبان سے پہچاننا چاہئے ۔ اور اب ہم آپ كى خدمت ميںجناب فاطمہ كے بارے ميں ائمہ معصومين(ع) كے چند ارشادات پيش كرتے ہيں:

1۔ پيغمبراكرم (ص) نے فرمايا : جبرئيل نازل ہوئے اورانہوں نے بشارت دى كہ '' ... حسن (ع) و حسين (ع) جوانان جنّت كے سردار ہيں اور فاطمہ (ع) جنّت كى عورتوں كى سردار ہيں ۔ (2)

2۔ آنحضرت (ص) نے فرمايا: دنيا كى سب سے برتر چار عورتيں ہيں : مريم بنت عمران، خديجہ بنت خويلد ، فاطمہ دختر محمد (ص) اور آسيہ دختر مزاحم ( فرعون كى بيوي) (3)

3۔ آپ (ص) نے يہ بھى فرمايا: '' خدا ، فاطمہ كى ناراضگى سے ناراض اور ان كى خوشى سے خوشنود ہوتا ہے'' ۔ (4)

4۔ امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: '' اگر خدا ،اميرالمؤمنين كوخلق نہ كرتا تو روئے زمين پر آپ كا كوئي كفو نہ ہوتا '' ۔ (5)

5۔ امام جعفر صادق ۔سے سوال ہوا كہ : '' حضرت فاطمہ كا نام'' زہرا'' يعنى درخشندہ كيوں ہے؟ تو آپ نے فرمايا كہ : '' جب آپ محراب ميں عبادت كے لئے كھڑى ہوتى تھيں تو آپ كا نور اہل آسمان كو اسى طرح چمكتا ہوا دكھائي ديتا تھا كہ جس طرح ستاروں كا نور ،زمين والوں كے لئے جگمگاتا ہے ۔ (6)

 

فضائل حضرت فاطمہ زھرا(س)

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ عالم اسلام میں چار عورتیں سب سے بہتر ہیں

1۔ جناب مریم بنت عمران

2 ۔ جناب فاطمہ(س)بنت حضرت محمد(ص)

3 ۔ جناب خدیجہ بنت خویلد

4 ۔ جناب آسیہ زوجہ فرعون(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

" پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ(س)جنت کی بہترین عورتوں میں ہیں ۔ "(کشف الغمہ ج 2 ص 76)

پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا کہ جس وقت قیامت برپا ہوگی منادی حق عرش سے ندا کرے گا کہ اے لوگوں اپنی آنکھوں کو بند کرلو تاکہ فاطمہ پل صراط سے گزر جاۓ ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 83 ۔ ذخائر العقبی ص 48)پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت فاطمہ(س)سے فرمایا کہ خدا تمہاری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تمہاری خوشی سے خوش ہوتا ہے ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 84 ۔ اسد الغابہ ج 5 ص 522 )

حضرت عایشہ کہتی ہیں کہ رسول خدا(ص)کے بعد میں نے حضرت فاطمہ(س)سے زیادہ کسی کو سچا نہیں پایا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! پروردگار عالم نے حضرت فاطمہ زھرا(ص) کو علم کے ذریعہ فساد اور برائی سے دور رکھا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ پروردگار عالم کے پاس حضرت فاطمہ(ص) کے 9 نام ہیں۔

فاطمہ، صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ، زکیہ، رضیہ، مرضیہ، محدثہ، زھرا ۔ اسکی علت یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(ص)تمام شر اور برائیوں سے محفوظ ہیں ۔ اگر حضرت علی علیہ السلام نہ ہوتے تو کوئی حضرت فاطمہ(ص) کا شوہر نہ ہوتا ۔(کشف الغمہ ج 2 ص 89)

حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی چند احادیث

 

حدیث (۱)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” ما یصنع الصائم بصیامہ اذا لم یصن لسانہ و سمعہ و بصرہ و جوارحہ “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں:

” اگر روزہ دار حالت روزہ میں اپنی زبان ، اپنے کان و آنکہ اور دیگر اعضاء کی حفاظت نہ کرے تو اس کا روزہ اس کے لئے فائدہ مند نھیں ھے “۔

 

حدیث (۲)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” یا ابا الحسن انی لا مستحیی من الٰھی ان اکلف نفسک ما لا تقدر علیہ “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” اے علی مجھے خدا سے شرم آتی ھے کہ آپ سے ایسی چیز کی فرمائش کروں جو آپ کی قدرت سے باھر ھے “۔

 

حدیث (۳)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” الزم عجلھا فان الجنة تحت اقدامھا “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” ماں کے پیروں سے لپٹے رھو اس لئے کہ جنت انھیں کے پیروں کے نیچے ھے “۔

 

حدیث (۴)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” خیر للنسا ان لا یرین الرجال و لا یراھن الرجال “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” عورتوں کے لئے خیر و صلاح اس میں ھے کہ نہ تو وہ نا محرم مردوں کو دیکھیں اور نہ نامحرم مرد ان کو دیکھیں “۔

 

حدیث (۵)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

”حبب الٰھی من دنیاکم ثلاث : تلاوة کتاب اللہ و المنظر فی وجہ رسول اللہ

و الانفاق فی سبیل اللہ “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” میرے نزدیک تمھاری اس دنیا میں تین چیزیں محبوب ھیں: تلاوت قرآن مجید ، زیارت چھرہ رسول خدا ، اور راہ خدا میں انفاق “۔

 

حدیث (۶)

قالت فاطمہ سلام اللہ علیھا :

” من اصعد الی اللہ خالص عبادتہ اھبط اللہ عزو جل الیہ افضل مصلحتہ “

ترجمہ :

حضرت فاطمہ زھرا (ع) فرماتی ھیں :

” ھر وہ شخص جو اپنے خالصانہ عمل کو خداوند عالم کی بارگاہ میں پیش کرتا ھے خدا بھی اپنی بھترین مصلحت اس کے حق میں قرار دیتا ھے “۔

 

*************************

حوالہ جات :

1 - بحار الانوار جلد 34/19_ و26كشف الغمہ جلد 1مطبوعہ تبريز /458، الغدير جلد 3/20

2 - امالى مفيد ص 3، امالى طوسى جلد 1 ص 83، كشف الغمہ جلد 1 ص 456

3 - بحار جلد 43/9_ 26 ... ... ... ... مناقب ابن شہر آشوب جلد3 ص 322

4 - بحار جلد 43/9_ كشف الغمہ جلد 1 ص 467

5 - بحار جلد 43/19_ 26 ، كشف الغمہ مطبوعہ تبريز جلد ص 472

6 - بحار جلد 43 ص12، علل اشرائع مطبوعہ مكتبہ الداورى قم ص 181 '' قال : سئلت ابا عبداللہ عن فاطمہ ، لمَ سميّت زہراء فقال: لانّہا كانت اذ اقامت فى محرابہا زہر نورہا لاہل السماء كما يزہر نور الكواكب لاہل الارض''

Tuesday, 05 March 2013 06:55

مسجد جمعہ - مدینہ منورہ

مسجد جمعہ - مدینہ منورہ

قباء اور مدینہ منورہ کے درمیان محلہ بنو سالم بن عوف میں واقع ایک مسجد، جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سفر ہجرت کے دوران نماز جمعہ ادا کی تھی۔ صحابہ کرام نے اس جگہ ایک مسجد تعمیر کی جسے حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور گورنری میں دوبارہ تعمیر کرایا۔ مسجد جمعہ کے علاوہ اس مسجد کے دیگر کئی نام بھی ہیں جن میں مسجد بنی سالم، مسجد وادی، مسجد غُبَیب اور مسجد عاتکہ شامل ہیں۔ سابق سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کے دور میں اس مسجد کی توسیع اور تعمیر نو مکمل ہوئی۔ اب اس کا کل رقبہ 1630 مربع میٹر ہے اور اس میں 650 نمازی عبادت کر سکتے ہیں۔ مسجد کے واحد گنبد کا قطر 12 میٹر ہے اور اس کے علاوہ چار چھوٹے قبے بھی ہیں۔ مینار کی بلندی 25 میٹر ہے۔ مسجد جمعہ قباء کی بستی سے 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

سید حسن نصراللہ کا خطابحزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں لبنان اور علاقے کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق سید حسن نصراللہ نے اپنی جامع تقریر میں ان کی خرابی صحت پر مبنی بعض ذرائع ابلاغ کی افواہوں کو نفسیاتی جنگ کا حصہ قراردیا اور کہا کہ لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی امکانی جارحیت اور دھمکیوں سے مقابلے کے لئے حزب اللہ کے جانباز پوری طرح تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ حزب اللہ لبنان میں کسی بھی گروپ یا جماعت کے خلاف جارحیت کی خواہاں نہیں ہے بلکہ ہم نے اپنی پوری طاقت صیہونی حکومت سے مقابلے کے لئے محفوظ کررکھی ہے لیکن کوئي حزب اللہ کو آزمانے اور ہماری طرف غلط قدم اٹھانے کی کوشش نہ کرے کیونکہ ایسی صورت میں پہلے کی طرح پشیمانی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔سید حسن نصراللہ نے ان باتوں کو بے بنیاد قراردیا کہ لبنانی فوج ،حزب اللہ کے اختیار میں ہے اور کہا کہ بیرونی خطرات کے مقابل ملک کا دفاع اور داخلی طور پر امن کا قیام، تمام لبنانیوں کی ذمہ داری ہے۔

رہبر معظم سے یشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز کے ارکان کی ملاقات

۲۰۱۳/۰۳/۰۴- پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز کی اعلی کونسل اور اس سے متعلقہ فکری اداروں کے ارکان نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات کی۔

اس ملاقات میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں کے بعض اساتید اور ممتاز شخصیات بھی موجود تھیں، اس نشست میں پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ اور نقشہ کے بارے میں بات چیت اور تبادلہ خیال کیا گیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاس ملاقات میں پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کا نقشہ بنانے کوطویل المدت، عمیق اور بہت عظیم کام قراردیتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے محقق ہونے کے لئے معاشرے کے اندر اور ممتازشخصیات کے درمیان مؤثرمذاکرات اورگفتگو بہت ضروری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: پیشرفت کااسلامی ایرانی نمونہ کا کام درحقیقت انقلاب اسلامی اور اسلامی فکر و نظر اورتمام شعبوں میں پیشرفتہ اور جدید تمدن پر مبنی محصول کو پیش کرنا ہے۔ لہذا کام کا دائرہ وسیع اور اس کا افق طویل المدت اور عمیق ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زندگی کے تمام شعبوں میں مغربی تمدن کے تسلط اور دنیا پر مغربی پیشرفت و تمدن کے چھا جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایسے شرائط میں پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کو پیش کرنے کے لئے شجاعت جرات اور بہت زيادہ جوش و ولولہ کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فکر و نظر کو اس حرکت کی اصلی روح قراردیا اور اس طویل المدت پروگرام کے ہر نقص و عیب اور ممکنہ اشکال کو قابل اصلاح قرار دیتے ہوئے فرمایا: اس حرکت میں ہر قسم کی جلد بازی سے پرہیز ، نئے تجربات اور جوان صلاحیتوں سے استفادہ کرنا چاہیے تاکہ اس حرکت کی موٹر کبھی بھی خاموش نہ ہو۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نانو ٹیکنالوجی، ایٹمی ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعت میں ولولہ انگيز اور بانشاط ماہرجوانوں اور دانشوروں کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوانوں پر اعتماد کرنا چاہیے کیونکہ جوان اور ان کے اندر نشاط و ولولہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ میں اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھنے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کے تمام مراحل میں اسلامی اصولوں کو جامع اور دقیق طورپر مد نظر رکھنا چاہیے اور اس سلسلے میں کوئی لحاظ و ملاحظہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں حوزہ علمیہ کی ظرفیت سے استفادہ کو بہت ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ میں چار چیزوں فکر، علم ،معنویت اور زندگی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور چار موضوعات میں بھی فکر بنیادی اور اساسی موضوع ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی تمدن ، اس کی تشکیل ، اسکےانحطاط اور موجودہ دور میں اس کے نقائص و عیوب کے آشکار ہونے کو کسی تمدن کے اشکالات اور عیوب کا جائزہ لینے کے لئے عینی نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: مغربی تمدن انسانیت کی بنیاد ، سیاسی اقتدار اور پھر سرمایہ داری کے محور پر تشکیل پایا اور اوج پر پہنچنے کےبعد اب اس کی تباہی، انحطاط اور بربادی کے آثار نمایاں ہوگئے ہیں اور اس کی تباہی میں جنسی بے راہ روی ، غیر اخلاقی اورغیر انسانی حرکات شامل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےحالیہ چند صدیوں میں یورپ میں متعدد تباہ کن جنگوں کو مغربی تمدن کے بنیادی اور اساسی اشکلات میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مغربی تمدن میں معنویت کا فقدان مغربی تمدن کے انحطاط اور اشکالات کا اصلی سبب ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دین اسلام پر مبنی معنویت کو پیشرفتہ تمدن اور کم سے کم اشکالات کےحامل تمدن کی تشکیل کے لئے اصلی اوربنیادی شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: دینی معنویت سے صلاحیتوں کی شناخت ، ان سے مناسب استفادہ ، تمام شعبوں میں قابل قبول پیشرفت کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس سے آسیب ونقصان کی شرح بھی کم ہوجاتی ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس طویل المدت ، اہم اور دقیق کام کے لئے اخلاص اور جہادی جذبہ کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی ایرانی پیشرفت کے نمونہ کوعملی جامہ پہنانےکے لئے گفتگو اصلی شرط ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے گفتگو کے ذریعہ پیشرفت کےاسلامی ایرانی نمونہ کو دانشوروں کے فکر و نظر میں رسوخ اور پھر جوانوں اور قوم کے اندر اس کے اثرات کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: مضبوط و مستحکم اور فاخر نمونہ کی تدوین میں صبر و حوصلہ کے ساتھ دانشوروں اور ماہر افراد کے نظریات اور گفتگو سے استفادہ کرنا چاہیے۔

اس نشست کے آغاز میں پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز کے سربراہ جناب ڈاکٹرصادق واعظ زادہ نے پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ کے مرکز اور اس سے متعلق 28 فکری اداروں کی تشکیل اور مرکز کے منظور شدہ وظائف کی روشنی میں انجام پانے والے اقدامات کی طرف اشارہ کیا۔

ڈاکٹر واعظ زادہ نے پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونہ کے لئےریسرچ سینٹروں کی ضرورت ، فکری انجمنوں اور حلقوں کے درمیان ہم اہنگی ایجاد کرنے اور ملک میں نمونہ سازی، علمی و فکری اجلاس کا انعقاد، علمی مراکز اور شخصیات کے ساتھ ارتباط، پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونےکی ترویج کے لئے گفتگو اور قومی ظرفیت سے استفادہ، فکر و نظریہ پیش کرنے کے لئے بانشاط جوانوں کے حضور کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوشش ، اصول و اقدار پر مبنی نمونہ کی تدوین کے لئے دستاویزات کی تیاری اور ملک کی پیشرفت میں آئندہ تحقیق و آسیب شناسی کو پیشرفت کے اسلامی ایرانی مرکز کے اہم اقدامات شمارکیا۔

اس نشست میں مندرجہ ذیل 6 ممتاز اساتید اور دانشوروں نے اپنے نظریات پیش کئے:

٭ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید حسین میر معزی ( اندیشکدہ عدالت)

٭ ڈاکٹر صالحی (اندیشکدہ علم)

٭ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی دوست ( اندیشکدہ فقہ و حقوق اسلامی)

٭ ڈاکٹر زاہدی وفا ( اندیشکدہ اقتصاد)

٭ ڈاکٹر زالی ( شعبہ زراعت)

٭ ڈاکٹر ثبوتی ( یونیورسٹی کے استاد)

٭ محترمہ ڈاکٹر فرہمند پور ( اندیشکدہ خانوادہ)

مذکورہ افراد نے پیشرفت کے اسلامی ایرانی نمونےکےبارےمیں اپنے فکری اداروں سے متعلق مطالب پیش کئے۔

سمندر پر پرواز کرنےوالےایرانی ڈرون کی رونمائياسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع جنرل احمد وحیدی نے کہا ہےکہ ایران عنقریب ایسے ڈرون کی رونمائي کرے گا جو سمندر پر پرواز کرتا ہے اور میزائل بھی فائر کرسکتا ہے۔ وزیر دفاع جنرل وحیدی نے ہفتے کو فارس نیوز ‎سے گفتگو میں یہ بات کہی۔ انہوں نے کہاکہ ایران کی وزارت دفاع میں سمندر پر پرواز کرنے والے ڈرون طیاروں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کےپاس ایسے ڈرون طیارے ہیں جو بحری جہازوں سے اڑ کر اپنا مشن پورا کرسکتے ہیں۔ دراین اثنا

اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائيہ کے نائب سربراہ نے کہا ہےکہ فضائیہ میں مختلف جنگي طیاروں کے سیمولیٹر بنائےجارہے ہیں۔فضائیہ میں ٹریننگ شعبے کے سربراہ جنرل منوچہر یزدانی نے تسنیم نیوز سے گفتگو میں کہا کہ فضائیہ میں پانچ برسوں پہلے سے ہی مختلف جنگي طیاروں کے سیمولیٹر بنائےجارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فضائیہ کے ماہرین نے سیمولیٹروں کی جدیدکاری کرکے انہیں تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ جنرل منوچہر یزدانی نے کہا کہ ایران عنقریب اپنے بنائے ہوئے ساز وسامان اور سیمولیٹر دیگر ملکوں کو برآمد کرنے لگے گا۔ مختلف ملکوں کے وزرا دفاع نے ایران کی دفاعی صنعتوں کا معائنہ کرنے کےبعد ایران کی ترقی پر شدید حیرت کا اظہار کیا ہے۔ سیمولیٹر اسٹیشنری کاک پٹ ہے جس سے پائلٹوں کو پرواز کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ادھر ارنا کی رپورٹ کے مطابق ایرانی سول ایوی ایشن کے ماہرین نے پابندیوں کے باوجود ایربس کے انجن کی کور وائرنگ انجام دینے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ واضح رہے مغرب نے ایران کو مسافر طیاروں کے کل پرزوں کی فراہمی پر بھی پابندی لگارکھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق آصف علی زرداری کے دورۂ تہران کے بعد امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان پیٹرک وینٹرل نے مداخلت پر مبنی اپنے گستاخانہ بیانات میں پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنا تعاون ختم کردے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کے بارے میں خـبردار کیا۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعاون کے بجائے دوسرے آپشن کا جائزہ لینا چاہۓ اور ایران کے ساتھ اپنا تعاون ختم کردینا چاہۓ کیونکہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ ایران کے ساتھ تعاون کی صورت میں اسے امریکہ کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

امریکہ کی جانب سے یہ دھمکی ایسی حالت میں دی گئي ہے کہ جب پاکستان امریکہ کی ایران مخالف یکطرفہ اور غیر قانونی پابندیوں کو غیر موثر اور ناکام جانتا ہے۔

خاندانی عظمت :

حضرت خدیجہ کبری عام الفیل سے ۱۵ سال قبل اور ھجرت سے ۶۸ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ھوئی ہیں-

ان کے والد خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ہیں- حضرت خدیجہ کے جد " اسد بن عبدالعزی"، عہد نامہ " حلف الفضول" کے ایک اہم رکن تھے-

قصی بن خویلد کے چوتھے جد" قصی بن کلاب" ہیں، جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بھی جد امجد ہیں-

خویلد کے جد، عبدالعزی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد، عبد مناف آپس میں بھائی تھے اوران کے والد قصی بن کلاب تھے- اس بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خدیجہ کبری{س} دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے اور شجرہ نسب کے لحاظ سے بھی آپس میں قریبی رشتہ دار تھے-

خویلد، ایک ھوشیار، بلند مرتبہ، کریم اور نیک اخلاق کے مالک شخص تھے اور بنی اسد کے سردار کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے- ان کی والدہ، فاطمہ بنت " زائدہ بن الاصم" تھیں- فاطمہ کی ماں، ھالہ بنت " عبد مناف بن قصی" تھیں کہ ان کے تیسرے جد، رسول اللہ کے بھی جد تھے- اس بنا پر حضرت خدیجہ{س} اپنے پدری اور مادری نسب کے لحاظ سے کئی واسطوں کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہم نسب تھیں اور دونوں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے-

حضرت خدیجہ {س} کے ۵ بھائی اور ۴ بہنیں تھیں-

حضرت خدیجہ {س} کے بھائیوں کے نام:

۱-عوام بن خویلد: انھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھپھی صفیہ بنت عبداالمطلب سے شادی کی تھی- ان کے تین بیٹے تھے، جن کے نام زبیر، سائب اور عبدالکعبہ تھے- زبیر کے دو بیٹے، مصعب بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر نامی تاریخ اسلام میں مشہور ہیں-

۲-حزام بن خویلد: وہ دوران جاہلیت میں " جنگ فجار" میں مارے گئے اور ان کے دو بیٹے تھے، جن کے نام حکیم بن حزام اور خالد بن حزام تھے-

۳-نوفل بن خویلد: ان کے بھی تین بیٹے تھے، جن کے نام ورقہ بن نوفل، صفونی بن نوفل اور اسود بن نوفل تھے-

۴-عدی بن نوفل: تاریخ میں ان کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے-

۵-عمرو بن خویلد: حضرت خدیجہ {س} کی خواستگاری اور عقد کی تقریب ان کے ہی گھر میں منعقد کی گئی ہے-

حضرت خدیجہ{س} کی بہنوں کے نام:

۱-ہالہ بنت خویلد: وہ حضرت خدیجہ {س} کی مشہور ترین بہن تھیں- وہ ھجرت کے بعد رسول خدا {ص} کے پاس آگئیں-

۲-خالدہ بنت خویلد: ان کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاص معلومات درج نہیں کی گئیں ہیں-

۳-رقیقہ بنت خویلد: ان کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاص معلومات نہیں ملتی ہیں-

۴-ھند بنت خویلد: بعضوں نے کہا ہے کہ یہ وہی ہالہ ہیں جن کو تاریخ میں اس نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے-

تاریخ کی بعض کتابوں میں " طاہرہ" نام کی حضرت خدیجہ {س} کی پانچویں بہن کا ذکر بھی آیا ہے- لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں حضرت خدیجہ {س} کا لقب " طاہرہ" تھا-

حضرت خدیجہ {س} کے چچیرے بھائی، ورقہ بن نوفل بن اسد تھے- ورقہ بن نوفل اپنے زمانہ میں جزیرۃ العرب کے ایک مشہور دانشور اور خدا پرست راہب تھے ان کو آسمانی کتابوں کے بارے میں کافی علم تھا اور عربستان میں دوران جاہلیت کے چار مشہور عابدوں میں سے ایک شمار ھوتے تھے- ورقہ بن نوفل بت پرستی کے مخالف تھے اور بت پرست عربوں سے مخاطب ھوکر کہتے تھے:

" خدا کی قسم تم لوگوں نے حضرت ابراھیم {ع} کے دین کو فراموش کیا ہے اور گمراہی سے دوچار ھوئے ھو اور ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ھو جو حقیقت نہیں ہیں کیونکہ یہ بت نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ تمھارے لئے فائدہ بخش ہیں اور نہ تمھیں نقصان پہنچا سکتے ہیں- اے قریش والو؛ شہر بہ شہر جاکر دین حنیف ابراھیم {ع} کی تلاش و کوشش کرو اور اسے پہچا نو اور اسی دین کی پیروی کرو، دین حق کی پیروی کرو اور جان لو کہ جن بتوں کی تم پرستش کرتے ھو، وہ حقیقت نہیں ہیں-"

حضرت خدیجہ{س} اسلام سے قبل:

اگرچہ حضرت خدیجہ {س} کی زندگی اور شخصیت کے بارے میں، خاص کر قبل از اسلام کے زمانہ سے متعلق تفصیلات تاریخ میں درج نہیں کی گئیں ہیں، لیکن یہی مختصر جو نقل کیا گیا ہے، اس سے معلوم ھوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ کے لوگوں میں ایک عقلمند، دانا، مدبر اور با بصیرت خاتون تھیں- حضرت خدیجہ {س} کے اخلاقی فضائل میں سخاوت، جاں نثاری، عفت، پاک دامنی، دور اندیشی، صبر و شکیبائی اور استقامت ایسے اوصاف ہیں جن کا تمام مورخین نے اعتراف کیا ہے-

حضرت خدیجہ {س} ظاہری حسن و جمال اور کافی سرمایہ و مالی امکانات اور بہتر اجتماعی حیثیت کی مالک ھونے کے باوجود کبھی اس زمانہ کے معاشرہ کے بظاہر پرکشش حالات کے دھوکہ میں نہیں آئیں اور انسانی فضائل و صفات کو ہرگز نہیں چھوڑا-

ایام جاہلیت میں، جب پورے عربستان میں بت پرستی کا رواج عام تھا، اس وقت بھی حضرت خدیجہ {س} معنوی امور اور انسانی و اخلاقی مسائل کی رعایت کرنے سے غافل نہیں رہیں- وہ آسمانی کتابوں پر اعتقاد رکھتی تھیں اور خدائے وحدہ لا شریک کی پرستش کرتی تھیں- وہ اپنے تجارتی کاروان کو دور دراز ممالک کی طرف روانہ کرتے وقت کعبہ میں جاکر حضرت ابراھیم {ع} کے خدا سے اپنی تجارت میں برکت حاصل ھونے کی دعا کرتی تھیں -

حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کے معاشرہ کے لوگوں میں ایک پاکدامن، خیر خواہ اور بلند مرتبہ خاتون کی حیثیت سے مشہور تھیں اور انھیں" طاہرہ" کے لقب سے نوازا گیا تھا- اس سلسلہ میں نقل کیا گیا ہے: "و كانت تُدعي في الجاهلّية بالطّاهره لشدّة عفافها و صيانتها" " لوگوں نے، ایام جاہلیت میں، حضرت خدیجہ کی عفت و پاکدامنی میں بلند مرتبہ رکھنے کی وجہ سےانھیں " طاھرہ" کے لقب سے نوازا تھا- اس کے علاوہ انھیں " سیدہ قریش" کا لقب دینے کے پیش نظر معلوم ھوتا ہے کہ حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کے لوگوں میں کس قدر بلند اور باعظمت مقام پر فائز تھیں-

حضرت خدیجہ {س} ایک کامیاب تاجرہ ھونے کے پیش نظر اپنے لئے زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی کوشش کرنے کے باوجود اپنا کچھ وقت عبادت، خاص کر طواف کعبہ کے لئے مخصوص رکھتی تھیں- اس کے علاوہ ان کے گھر کا دروازہ حاجتمندوں اور فقیروں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور کبھی کوئی محتاج ان کے گھر سے خالی هاتھ اورمحروم نہیں لوٹتا تھا-

جس زمانہ میں لوگ بت پرستی میں مشغول تھے، اپنے ہاتھوں سے بنائے خداوں کی پوجا کرتے تھے اور معاشرہ میں گوناگوں خرافات کا رواج تھا، حضرت خدیجہ {س} خداوند سبحان کی پرستش کرتی تھیں- وہ مذہبی تعلیمات اپنے چچیرے بھائی " ورقہ بن نوفل" سے حاصل کرتی تھیں، جو اپنے زمانے کے چار مشہورعابدوں میں سے ایک شمار ھوتے تھے، حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں مذہبی نشستیں منعقد ھوتی تھیں اور بعض اہل کتاب دانشوروں کو دعوت دی جاتی تھی، حضرت خدیجہ{س} دوسری خواتین کے ساتھ ان علماء اور دانشوروں کی نصیحتوں کو سنتی تھیں وه پیغمبر آخر الزمان [ص]کے اوصاف کو پہچان چکی تھیں اور انھیں یقین تھا کہ آپ {ص} حجاز کی سر زمین پر عنقریب ہی ظہور کریں گے-

حضرت خدیجہ {س} کے سماجی کمالات، دولتمند ھونے اور ان کی بے مثال شخصیت کے پیش نظر اس زمانہ کے قبائل کے سرداروں اور مشہور شخصیتوں، من جملہ عقبہ بن معیط، صلت بن ابی اہات، ابو جہل اور ابو سفیان نے ان سے ازدواج کرنے کی خواستگاری کی، لیکن وہ ان میں سے کسی کو اپنی شان کے مطابق نہیں جانتی تھیں اور ان سب کی درخواست کو مسترد کردیا-

اسلام سے پہلے حضرت خدیجہ کے شوہر اور اولاد:

اکثر مورخین کے مطابق ، حضرت خدیجہ نے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے سے پہلے دو شادیاں کی تھیں اور صاحب اولاد بھی ھوئی تھیں-

۱-پہلے شوہر:

جناب خدیجہ {س} نے اپنی جوانی کی ابتداء میں " ابی ہالہ النباش بن زرارہ التمیمی" نامی ایک نوجوان سے شادی کی اور ان سے ان کے دو بیٹے تھے، جن کے نام "ھند" اور " ہالہ" تھے- ابو ہالہ، حضرت خدیجہ {س} کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کے اوائل میں ہی فوت ھو گئے اور اپنے پیچھے حضرت خدیجہ {س} اور اپنے بیٹوں کے لئے کافی دولت چھوڑی-

حضرت خدجہ {س} کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے بعد ھند اور ہالہ اپنی والدہ کے ھمراہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر آگئے اور آنحضرت {ص} ان دونوں کے ساتھ کافی محبت فرماتے تھے-

ھند بن ابی ہالہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تک زندہ تھے اور وہ آنحضرت{ص} پر ایمان لائے- مسلمانوں کے ھجرت کرنے پر ھند بن ابی ہالہ نے بھی مدینہ ھجرت کی اور جنگ بدر اور احد میں بھی شرکت کی- ھند اپنا تعارف کرتے ھوئے کہتے ہیں: « انا اكرم الناس ابا و اما و اخا و اختا، ابى رسول الله صلى الله ‏عليه و آله و اخى القاسم، و اختى فاطمه سلام الله علیها، و امى خدیجه سلام الله علیها...» " میں اپنے باپ، ماں اور بھائی کے لحاظ سے لوگوں میں بہترین فرد ھوں- میرے باپ رسول خدا {ص} میرے بھائی قاسم اور میری بہن فاطمہ سلام اللہ علیہا اور میری والدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا ہیں- - - "

ھند بن ابی ہالہ ایک بہترین مقرر تھے- وہ ایک ھنر مند اور قوی بیان شخص تھے- ایک روایت میں آیا ہے کہ امام حسن {ع} نے ان سے فرمایا کہ رسول خدا {ص} کی توصیف بیان کریں اور ھند نے بھی رسول خدا {ص} کے بارے میں ایک جامع اور مکمل توصیف بیان کی اور اصل روایت احادیث کی کتابوں میں درج کی گئی ہے اور اس روایت کی متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں-

امام حسن مجتبی {ع} نے بھی ان سے ایک حدیث نقل کی ہے اور اس حدیث کی سند کے بارے میں فرماتے ہیں: " حدثنی خالی" " یعنی میرے ماموں نے نقل کیا ہے"

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ھند بن ابی ہالہ نے امام علی {ع} کا ساتھ دیا اور حضرت علی {ع} کے ھمراہ جنگ جمل میں لڑے اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں بصرہ میں رہائش پذیر تھے- آخر کار طاعون میں مبتلا ھوکر وہیں پر اس دار فانی کو وداع کر گئے-

حضرت خدیجہ { س} کے دوسرے بیٹے، ہالہ بن ابی ہالہ سے بھی آنحضرت {ص] کافی محبت فرماتے تھے- ہالہ نے اپنی والدہ، خدیجہ کبری {س} کی وفات کے بعد شادی کی- جس دن ہالہ نے اسلام قبول کیا، آنحضرت {ص} جناب عائشہ کے گھر میں آرام فرما رہے تھے، کہ اچانک ہالہ بن ابی ہالہ کی آواز سنی- آنحضرت { ص} اچانک کھڑے ھوگئے اور ہالہ کو اپنی آغوش میں لے کر خوشی و مسرت کی حالت میں پکارنے لگے: " ہالہ؛ ہالہ؛ ہالہ"

دوسرے شوہر:

ابی ہالہ کے مرنے کے بعد، حضرت خدیجہ {س} نے، قریش کے" عتیق بن عابد بن عبداللہ عمر بن مخزوم" نامی ایک نامور شخص سے شادی کی ان سے ان کی ایک بیٹی پیدا ھوئی، جس کا نام " ھند "تھا- حضرت خدیجہ {س} نے عتیق کے ساتھ زیادہ طولانی مدت تک زندگی بسر نہیں کی، بلکہ ایک مختصر مدت کے بعد عتیق بھی فوت ھوگئے-

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ ھند بنت عتیق نے اپنے چچیرے بھائی " صفی بن امیہ بن عاید المخزومی" سے شادی کی اور ان سے کئی اولاد کی ماں بن گئیں- مسلمانوں نے حضرت خدیجہ {س} کے احترام میں، کہ انھیں ایام جاہلیت میں " طاھرہ" کہا جاتا تھا، ھند کی اولاد کو " بنی طاھرہ" کا لقب دیا تھا-

عتیق کے مرنے کے بعد، قریش کے کئی سرداروں اور بزرگوں نے حضرت خدیجہ {س} سے ازدواج کی خواستگاری کی، لیکن انھوں نے ان میں سے کسی کو قبول نہیں کیا اور ارادہ کیا کہ اب مزید شادی نہیں کریں گی بلکہ گھر میں بیٹھ کر اپنی اولاد کی تربیت کریں گی-

اگر چہ مورخین اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ {س} نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کرنے سے پہلے دوشادیاں کی ہیں- لیکن اس کے مقابلے میں شیعہ اور سنی مورخین کی ایک جماعت، من جملہ " اہل سنت کے ایک مشہور دانشور ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصفہانی-" کے علاوہ " ابو القاسم کوفی" ، " احمد بلاذری" ، " علم الھدی" { سید مرتضی} نے اپنی کتاب " شافی" میں اور " شیخ طوسی" نے اپنی کتاب " تلخیص شافی" میں کہا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت حضرت خدیجہ {س} کنواری تھیں- اور اس سے پہلے ان کا کوئی شوہر نہیں تھا - انھوں نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں بعض دلائل بھی پیش کی ہیں کہ ان میں سے چند دلائل کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۱-ابن عباس کی حدیث، جس کی بناپر حضرت خدیجہ {س} رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے شادی کرنے کے وقت ۲۸ سال کی تھیں اور حضرت خدیجہ {س} نے تب تک کسی سے شادی نہیں کی تھی-

۲-حضرت خدیجہ{ س} کے پہلے اور دوسرے شوہر کے ناموں کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے، ان کے پہلے اور دوسرے شوہر ایسے گمنام افراد نہیں ھونے چاہئے تھے، جن کے نام اور ترتیب میں اختلاف ھوتا-

۳-حضرت خدیجہ {س} کے پہلے شوہروں کی اولاد کے ناموں اور تعداد میں مورخین کا اختلاف-

۴-حضرت خدیجہ {س} کی متمول حیثیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ { گور کن و خارکن جیسے} نادار اور گمنام افراد سے ازدواج کرتیں، جیسا کہ ان کے پہلے شوہروں کا شغل بیان کیا گیا ہے-

۵-ازدواج کے وقت حضرت خدیجہ {س} کی عمر کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جانا-

نورانی خواب:

حضرت خدیجہ {س} عام طور پررات کی تاریکی میں اپنی سہلیوں کے ھمراہ کعبہ کا طواف کرنے کے لئے جاتی تھیں- ایک رات کو جب طواف کعبہ کے لئے گئی تھیں، طواف بجالانے کے بعد کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑی ھوکر اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے میں مشغول ھوئیں اور نصف شب کو گھر لوٹیں- اس وقت سب بچے سوئے ھوئے تھے، چونکہ حضرت خدیجہ {س} اس رات کو کافی تھک چکی تھیں، اس لئے کمرے کے ایک کونے میں جاکر لیٹ گئیں اور فوراً ان پر نیند طاری ھو گئی-

انھوں نے خواب میں سورج کو انسان کی شکل میں دیکھا کہ مکہ کے آسمان سے طلوع ہو کر رفتہ رفتہ ان کے گھر کی طرف آرہا ہے- جب سورج ان کے گھر میں پہنچا، تو وہاں پر رک کر اس نے تمام دنیا میں نور پھیلا دیا اور لوگ جوق در جوق اس سورج کو دیکھنے کے لئے ان کے گھر آرہے تھے-

حضرت خدیجہ {س} تعجب اور حیرت کے عالم میں نیند سے بیدار ھوئیں اور اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالی، انھوں نے سوئے ھوئے اپنے بچوں کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا- پھر وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے کے بعد چند قدم چلیں اور واپس لوٹ کر پھر لیٹ گئیں، لیکن اب انھیں نیند نہیں آئی اور چند لمحے پہلے دیکھا ھوا خواب ان کے ذہن پر مسلسل چھایا رہا-

حضرت خدیجہ {س} بخوبی جانتی تھیں کہ ان کا یہ خواب ایک معمولی خواب نہیں ہے، اس لئے انھوں نے اس سلسلہ میں گھنٹوں غور و خوض کیا، لیکن کسی نتیجہ پر نہیں پہنچیں اور دوسری جانب سے اس سلسلہ میں غور و فکر کرنا ان کے لئے نیند آنے میں رکاوٹ بن رہا تھا- اس طرح ، ان کا یہ خواب، یعنی سورج کا انسان کی شکل میں آنا اور ان کے گھر میں داخل ھونا اور لوگوں کا جوق در جوق اسے دیکھنے کے لئے ان کے گھر آنا، پو پھٹنے تک ان کے ذہن پر چھایا رہا- وہ صبح ھونے کا انتظار کر رہی تھیں، تاکہ اپنے چچیرے بھائ ورقہ بن نوفل کے پاس جاکر اپنے اس خواب کو ان کے سامنے بیان کریں- شائد اس کی کوئی تعبیر ھو- صبح اور سورج طلوع ھونے کے بعد وہ فوراً اپنے چچیرے بھائی، ورقہ بن نوفل کے گھر گئیں اور جو کچھ خواب میں دیکھا تھا، اسے من وعن ان کے سامنے بیان کیا- جوں ہی ان کی بات ختم ھوئی، ورقہ بن نوفل کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ رونما ھوئی اور انھوں نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا:" مبارک ھو تم پر اے میری چچازاد بہن؛ اگر تمھارا خواب صادق ہوا تو نور نبوت {ص} تمھارے گھر آئے گا اور تمھارے گھر کا نور تمام عالم کو منور کرے گا-"

حضرت خدیجہ {س} گہری سوچ میں پڑگئیں کہ نور نبوت کیسے ان کے گھر آئے گا اور ان کا گھر کیسے تمام دنیا کے لئے نور کا مرکز بنے گا؟ حضرت خدیجہ {س} ایک مدت تک اس خواب کے بارے میں غور و فکر میں مشغول تھیں اور اس کی تعبیر کا انتظار کر رہی تھیں-

اس دوران جو بھی شخص ان کی خواستگاری کے لئے آتا تھا، ان کے سامنے وہ نورانی سورج مجسم ھوتا تھا، جسے انھوں نے خواب میں دیکھا تھا اور جب دیکھتی تھیں کہ خواستگاری کرنے والا شخص ان کے خواب سے کوئی شباہت نہیں رکھتا ہے تو اس کا احترام کے ساتھ انکار کردیتی تھیں -

حضرت خدیجہ {س} نے پیغمبر آخر الزمان {ص} کو پہچان لیا-

مکہ کی عورتیں ایک رسم کے مطابق قدیم زمانہ سے ہر سال، ماہ رجب کی ایک رات کو کعبہ کے پاس جمع ھوتی تھیں اور جشن و سرود کی ایک محفل منعقد کرتی تھیں اور اس محفل میں اہل کتاب میں سے ایک دانشور کو تقریر کرنے کی دعوت دی جاتی تھی- ایک رات کو ایسی ہی ایک محفل منعقد ہو رہی تھی- جب حضرت خدیجہ {س} اس محفل میں پہنچیں، اس وقت ایک یہودی عالم نے تازہ اپنی تقریر شروع کی تھی- اس کی اس تقریر کے دوران اچانک حضرت محمد {ص} کعبہ کے پاس سے گزرے- تقریر کرنے والے اہل کتاب کی نظر جوں ہی آنحضرت {ص} پر پڑی، تو اس نے اپنی تقریر کو روک کر عورتوں سے یوں خطاب کیا:

" ليوشک ان يبعث فيکن نبي فايکن استطاعت ان تکون له ارضايطأها فلتفعل» " اے قریش کی خواتین؛ جو جوان ابھی ابھی کعبہ کے پاس سے گزرا، وہ مستقبل میں پیغمبر آخر الزمان {ص} ھوگا، آپ میں سے جو بھی اس کی شریک حیات بن سکتی ھو، اس میں تاخیر نہ کرنا-"

اس اہل کتاب دانشور کے کلام کو سن کر خواتین میں ہلچل مچ گئی- ان میں سے بعض عورتیں اس دانشور کے کلام پر ہنستی تھیں اور بعض عورتیں مذاق اڑا تی تھیں اور بعض عورتیں اس کو برا بھلا کہتی تھیں، بہر حال محفل شور و غل اور ہلچل سے دوچار ھوئی اور عورتیں متفرق ہوگئیں -

حضرت خدیجہ {س} اس ماجرا کا مشاہدہ کرنے کے بعد فوراً گھر چلی گئیں اور ایک کونے میں خاموش بیٹھ کر غور و فکر کرنے لگیں- اس دوران کبھی ان کے ذہن میں ، چند دن پہلے دیکھے ھوئے اپنے خواب کا منظر پیدا ھوتا تھا اور کبھی اس یہودی عالم کا کلام یاد آتا تھا- وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ یہودی دانشور کے کلام اور خواب میں دیکھے ھوئے سورج کے درمیان ضرور کوئی رابطہ ہے- دوسرے دن، حضرت خدیجہ {س} نے اپنی ایک کنیز کو اس یہودی دانشور کے پاس بھیجا اور اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی- یہ اہل کتاب دانشور جب حضرت خدیجہ {س} کے گھر پہنچا تو حضرت خدیجہ نے اس سے سوال کیا کہ : اے دانشور؛ آپ نے کیسے سمجھا کہ محمد {ص} خدا کے پیغمبر ہیں؟

یہودی عالم نے جواب میں کہا: " میں نے ان کی صفات کو تورات میں پڑھا ہے- تورات میں آیا ہے کہ پیغمبر آخر الزمان {ص} کے ماں باپ ان کے بچپن میں دنیا سے چلے جائیں گے، ان کی کفالت، پرورش اور حفاظت ان کے جد اور پھپھی کریں گے اور وہ قریش کی ایک خاتون سے شادی کریں گے جو اپنی قوم کی عظیم خاتون ھوں گی اور اپنے قبیلہ میں امیر اور صاحب تدبیر ھوں گی-"

اس کے بعد اس یہودی دانشور نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا: " اے خدیجہ؛ میری اس بات کو اپنے پاس محفوظ رکھنا اور اسے فراموش نہ کرنا"- اس کے بعد اس دانشور نے آنحضرت {ص} کی عظمت و جلال کے بارے میں چند اشعار پڑھے اور واپس جاتے وقت حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا:" کوشش کرنا کہ محمد {ص} کو نہ کھو دینا، ان کے ساتھ شادی کرنے میں دنیا و آخرت کی سعادت ہے"-

حضرت خدیجہ {س} سے پیغمبر اکرم { ص} کی ہم کاری کا آغاز:

حضرت محمد مصطفے {ص} ۲۵ سال کے تھے کہ زبردست خشک سالی نے تمام عربستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا- مکہ کے لوگ خاص کر جن لوگوں کی زندگی مویشی پالنے اور زراعت پر منحصر تھی، زبردست مشکلات سے دوچار ھوئے-

قریش کے سردار جناب ابوطالب، دوسروں کی بہ نسبت زیادہ مشکلات سے دوچار ھوئے- عیال بار ھونے، لوگوں کی زیادہ آمد و رفت اور زائرین کا ان کے گھر میں آنا اور آمدنی کی کمی نے ان کی زندگی کو گونا گون مشکلات سے دوچار کیا تھا-

اس سال، قریش کے تاجروں اور سوداگروں نے تجارتی کاروان تشکیل دے کر شام بھیجنے کا فیصلہ کیا – اس زمانہ میں یہ رسم تھی کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق جنس و مال تیار کرکے کاروان میں شرکت کرتا تھا- جن افراد کی مالی استطاعت نہیں ہوتی تھی، وہ سرمایہ داروں کے پاس جاکر ان سے قرضہ لیتے تھے اور مضاربہ کی صورت میں تجارتی کاروان میں شرکت کرتے تھے-

جناب ابو طالب نے حضرت محمد {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" اے میرے بھتیجے؛ ہم سخت حالات سے دوچار ہیں، میں بھی بوڑھا اور تنگ دست ھو چکا ھوں اور زندگی کے آخری ایام گزار رہا ھوں- میری تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے آپ {ص} کے لئے ایک شریک حیات کو منتخب کروں تاکہ آپ شادی کریں اور میں بھی اطمینان و سکون کے ساتھ اس دنیا کو وداع کرجاوں- لیکن مالی مشکلات میری اس تمنا کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں اور آپ {ص} کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ھوں-"

جناب ابو طالب نے اپنی بات کو جاری رکھتے ھوئے فرمایا:" اے محمد {ص} ؛ قریش کا تجارتی کاروان عنقریب تشکیل پاکر شام جا رہا ہے- خدیجہ بنت خویلد ہماری رشتہ دار ہے اور کافی دولتمند ہے- مکہ کے بہت سے لوگوں نے ان سے مال اور سرمایہ قرض کے طور پر لیا ہے اور ان کے مال سے تجارت کرتے ہیں- اگر آپ {ص} خدیجہ کے پاس جائیں گے، تو مجھے یقین ہے کہ وہ آپ {ص} کو کافی مال دیں گی، اس سرمایہ سے مال خرید کرقریش کے کاروان کے ہمراہ آپ {ص} شام چلے جائیں- شائد اس تجارت کے نتیجہ میں آپ {ص} کو کوئی نفع مل جائے اور خداوند متعال ہماری زندگی کی بعض مشکلات کو حل کردے-

تقدیر الہی سے ان دنوں حضرت محمد {ص} کی سچائی، صداقت، اور امانتداری کا چرچا تھا اور مکہ کے لوگوں نے آپ {ص} کو " محمد امین" کا لقب دیا تھا-

حضرت خدیجہ مکہ کے لوگوں میں امین اور صحیح کام کرنے والے افراد کو چن چن کر اپنے تجارتی کاروان میں شامل کرتی تھیں، اور وہ آنحضرت {ص} کی صداقت اور امانتداری کے بارے میں مطلع ھوچکی تھیں-

حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کی زندگی کی مشکلات اور حضرت محمد { ص} سے ان کی گفتگو کے بارے میں مطلع ھوئیں- اس کے بعد حضرت خدیجہ نے آنحضرت {ص} کو یہ پیغام بھیجا:" اگر آپ {ص} تجارت کے لئے آمادہ ہیں تو میں تیار ھوں کہ دوسرے لوگوں کی بہ نسبت آپ {ص} کے اختیار میں دوگنا سرمایہ قرار دوں تاکہ آپ {ص} میرے تجارتی کاروان میں شرکت کریں-"

آنحضرت {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کے پیغام کے بارے میں اپنے چچا ابوطالب کو آگاہ فرمایا- جناب ابو طالب نے جواب میں کہا:" میرے بھتیجے؛ یہ وہ رزق ہے جسے خداوند متعال نے آپ {ص} کا مقدر قرار دیا ہے، بہتر ہے کہ ہم جاکر جناب خدیجہ سے گفتگو کریں-"

جناب ابو طالب، جناب عباس اور بنی ہاشم کے چند دوسرے افراد کے ہمراہ جناب خدیجہ {س} کے گھر گئے- جناب خدیجہ نے خاطر تواضع کے بعد ان سے کہا:

" اے مکہ اور حرم کے بزرگو؛ میں آپ کی تشریف آوری کو خوش آمدید کہتی ھوں جو بھی حاجت رکھتے ہیں، بیان فرمائیں تاکہ میں اسے انجام دوں"-

جناب ابو طالب نے کہا:" میں ایک ایسی حاجت کے لئے آیا ھوں کہ جس کا نفع آپ کو ملے گا اور آپ کے مال میں برکت پیدا ھوگی- ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ اپنے بھتیجے محمد {ص} کے لئے آپ سے کچھ مال ضمانت اور قرضہ کے طور پر لے لیں تاکہ وہ اس سے تجارت کریں"-

حضرت خدیجہ، جناب ابو طالب کے تشریف لانے اور حضرت محمد {ص} کے تجارت کے لئے آمادگی رکھنے سے خوش ھوئی تھیں، ان سے مخاطب ھوکر کہا:" محمد {ص} بہتر ہے آپ مطلع رہیں کہ قریش کے تجارتی کاروان کا نصف سے زیادہ سرمایہ اور مال میرا ہے، مجھے اس مال کے لئے آپ {ص} جیسے امین اور صادق شخص کی ضرورت ہے تاکہ میں اسے اپنے مال و سرمایہ کا با اختیار امین قرار دوں تاکہ وہ اپنی تدبیر اور حکمت عملی سے، جس طرح مناسب سمجھے تجارت اور لین دین انجام دے"-

حضرت محمد {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں سفر کرنے میں دلچسپی رکھتا ھوں اور کاروان کےساتھ تجارت کے لئے شام جانے کے لئے آمادہ ھوں"-

حضرت خدیجہ نے، میسرہ و ناصح نامی اپنے دو غلاموں کو بلاکر ان سے کہا: " محمد {ص} میرے اموال کے امانتدار ہیں، میرے اموال کے بارے میں ان کو مکمل اختیار ہے- وہ جو کہیں اس پر عمل کرنا اور وہ جوبھی فیصلہ کریں اس کے بارے میں ان کے ساتھ تعاون کرنا- کوئی شخص ان کے فیصلہ کے بارے میں اعتراض نہیں کرسکتا ہے اور کوئی ان کے ساتھ تیز کلامی کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے-"

جناب خدیجہ {س} کے لئے حضرت محمد {ص} کا تجارتی سفر:

حضرت محمد {ص} نے میسرہ اور ناصح کے تعاون سے اونٹوں پر سامان باندھا- رخصت کرنے کے لئے آئے ھوئے اپنے چچا اور جناب خدیجہ کو الوداع کہنے کے بعد ابطح کی طرف روانہ ھوئے تاکہ شام کی طرف جانے والے قریش کے تجارتی کاروان سے ملحق ھو جائیں- لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے رشتہ داروں کو خدا حافظ کہنے کے لئے ابطح میں جمع ھوئی تھی- سر انجام مکہ کے لوگوں کی وداعی کے بعد کاروان شام کی طرف روانہ ھوا-

کئی پڑاو طے کرنے کے بعد یہ کاروان " وادی الامواہ" نامی ایک بیابان میں پہنچا، اچانک آسمان پر ہر بادلوں کی کالی گھٹائیں چھا گئیں- آنحضرت {ص} نے کاروان کے بزرگوں سے مخاطب ھوکر فرمایا:

" اس بیابان میں شدید اور سیلابی بارش ہونے والی ہے، بہتر ہے کہ کاروان کو پہاڑ کی بلندی پر ٹھہرایا جائے اور بارش اور سیلاب تھمنے کے بعد ہم پھر سے آگے بڑھیں- کاروان والوں نے حضرت محمد {ص} کی تجویز سے اتفاق کیا اور کاروان کو پہاڑی کے اوپر ٹھہرایا- کاروان کے رکنے کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ زبردست بارش ہونے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے بیابان کو سیلاب نے اپنے لپیٹ میں لے لیا- قریش کا یہ تجارتی کاروان چار دن تک اس بیابان میں رکا رہا، بارش اور سیلاب رکنے کے بعد کاروان پھر سے آگے بڑھا اورصحیح و سالم حالت میں وہاں سے گزرگیا-

کاروان آگے بڑھتے ھوئے ایک ایسے علاقہ میں پہنچا، جسے " ایلہ" یا " بصری" کہتے تھے- وہاں پر ایک عبادت گاہ تھی، جس میں بہت سے راھب اور پادری عبادت میں مشغول تھے- ان کے درمیان ایک پادری تھا جو سب سے عالم اور دانا تھا، اسے " فیلق بن یونان بن عبدالصلیب" کہتے تھے- فیلق نے پیغمبر آخر الزمان { ص} کی خصوصیات کو آسمانی کتابوں میں پڑھا تھا- وہ جانتا تھا کہ پیغمبر آخر الزمان سر زمین حجاز سے ظہور کریں گے اور تجارتی کاروان کے ھمراہ شام کی طرف سفر کریں گے- فیلق نے دور سے مشاہدہ کیا کہ کاروان کے اوپر بادل کے دو ٹکڑے سایہ کئے ھوئے کاروان کے ساتھ ساتھ " ایلہ" { یا بصری} کی طرف بڑھ رہے ہیں-

قریش کا کاروان "ایلہ" {بصری} پہنچا- حضرت محمد {ص} ایلہ کے نزدیک ایک خشک کنویں کی طرف بڑھے اور اس کے بعد اس کنویں میں اپنا ہاتھ ڈالا- اور اس میں سے چلو بھر پانی اٹھا کر اپنے ہاتھ دھولئے اور اس کے بعد قریب میں موجود ایک سوکھے ھوئے درخت کے نیچے بیٹھ گئے- سوکھا ھوا درخت سرسبز ھوا اور حضرت محمد {ص} اس کے سائے میں عبادت میں مشغول ھوگئے- پادری" فیلق" نے کاروان کے سر پرست کو بلاکر اس سے پوچھا: یہ شخص، جو اس درخت کے نیچے بیٹھا ہے، کون ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ قریش کا ایک مرد اور اہل مکہ ہے- " فیلق" نے اس سے کہا: خدا کی قسم اس درخت کے نیچے پیغمبر کے علاوہ کوئی نہیں بیٹھا ہے – اس کے بعد فیلق نے کاروان کے سرپرست سے آنحضرت {ص} کی تعریف کی اور مستقبل قریب میں ان کی نبوت کی خبر دیدی-

بہر حال کاروان، شام میں داخل ھوگیا اور وہاں کے لوگ عربستان کے تاجروں کے مال و اجناس خرید نے کے لئے جوق در جوق آگئے اور کچھ گھنٹوں کے اندر ہی تمام مال کو خرید لیا- لیکن حضرت محمد {ص} نے میسرہ اور اپنے دوسرے کارکنوں سے فرمایا کہ آج کوئی چیز فروخت نہ کریں- دوسرے دن شام کے اطراف میں موجود قبائل اور لوگوں نے قریش کے تجارتی کاروان کے آنے کی خبر سنی اور مال خرید نے کے لئے ٹوٹ پڑے- لیکن قریش کے کاروان کا تمام مال فروخت ھو چکا تھا اور صرف آنحضرت {ص} کا مال بچا تھا- اس لئے آنحضرت {ص} نے دوسرے دن اپنے مال کو مناسب تر قیمت میں بیچا اور بیشتر نفع کما کر واپس مکہ لوٹے-

حضرت محمد {ص} جب مکہ میں داخل ھوئے تو، پہلے خانہ کعبہ کے طواف کے لئے گئے- اس وقت جناب خدیجہ بطحا میں اپنے بلند محل کے ایوان پر چند خواتین کے ھمراہ بیٹھی ھوئی تھیں اور دور سے حضرت محمد {ص} کا مشاہدہ کر رہی تھیں کہ آنحضرت {ص} طواف کعبہ میں مشغول تھے اور دو فرشتے آپ {ص} پر سایہ کئے ھوئے تھے- جناب خدیجہ {س} کے پاس بیٹھی ھوئی عورتیں بھی ملائکہ کے سایہ کا مشاہدہ کر رہی تھیں-

حضرت محمد {ص} طواف کعبہ بجا لانے کے بعد، جناب خدیجہ کے گھر تشریف لائے، جو آپ {ص} کے انتظار میں تھیں- اس کے بعد آنحضرت {ص} نے اپنے شام کے سفر اور حاصل شدہ نفع کے بارے میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ شیرین زبان میں رپورٹ پیش کی، جس کا حساب و کتاب پہلے سے مرتب کیا گیا تھا- اور حضرت خدیجہ کو معلوم ھوا کہ اس عجیب سفر میں انھیں غیر معمولی نفع حاصل ھوا ہے-

اس عظیم خاتون نے سفر کی رپورٹ سننے کے بعد اپنے غلاموں سے مخاطب ھوکر کہا:" جو کچھ دوسروں کو دیا ہے، اس کا دوگنا محمد {ص} کو دیدو"-

اس کے بعد حضرت محمد {ص} جناب خدیجہ کو خدا حافظ کہہ کر اپنے چچا، جناب ابو طالب کے گھر چلے گئے-

جناب خدیجہ {س} کی خدمت میں میسرہ کی رپورٹ:

حضرت محمد {ص} کے جناب خدیجہ {س} کے گھر سے تشریف لےجانے کے بعد، میسرہ ان کے گھر میں داخل ھوا- اور اس نے اس سفر کے بارے میں جناب خدیجہ کی خدمت میں ایک مفصل رپورٹ پیش کی اور اس رپورٹ میں کاروان کے ساتھ بادلوں کے چلنے، حضرت محمد {ص} کے بارے میں " فیلق" کی پیشنگوئیوں اور سوکھے ھوئے درخت کے سرسبز ھونے کے بارے میں اپنے عینی مشاہدات من وعن بیان کئے- میسرہ کی رپورٹ نے جناب خدیجہ کو زبردست متاثر کیا اور اس امید افزا رپورٹ کو بیان کرنے کی وجہ سے اپنے اس غلام، یعنی میسرہ کو آزاد کیا- اس کے بعد جناب خدیجہ نے جو کچھ میسرہ کی زبانی سنا تھا اسے اپنے چچیرے بھائی، ورقہ بن نوفل کے پاس بیان کیا- ورقہ بن نوفل نے یہ داستان سننے کے بعد کہا:" اگر میسرہ کی رپورٹ صحیح ھو تو، محمد {ص} وہی پیغمبر ہیں، جس کا " بعثتش" نے اس امت سے وعدہ کیا ہے اور میں نے ان کے اوصاف کو آسمانی کتابوں میں پڑھا ہے"-

اس کے بعد جناب خدیجہ {س} کو یہ یقین حاصل ھوگیا کہ محمد {ص} دوسرے انسانوں کے مانند ایک عام انسان نہیں ہیں- اس لئے ایک بار پھر ان کا چند دن پہلے دیکھا ھوا خواب ان کی نظروں کے سامنے مجسم ھوگیا اور اس یہودی عالم کی باتیں بھی انھیں یاد آگئیں جس نے مکہ کی خواتین سے مخاطب ھوکر کہا تھا کہ:" اے قریش کی خواتین؛ جو جوان ابھی ابھی کعبہ کے پاس سے گزرا ہے وہ مستقبل قریب میں پیغمبر ھوگا، آپ میں سے جو بھی ان کی شریک حیات بن سکتی ہے، وہ اس میں تاخیر نہ کرے"-

حضرت محمد {ص} سے جناب خدیجہ کی رغبت:

حضرت محمد {ص} کے شام کے منافع بخش سفر، اس سفر میں آنحضرت {ص} کی صداقت و مدیریت اور میسرہ کی زبانی ان واقعات کے بارے میں مفصل رپورٹ سننے کے بعد جناب خدیجہ آنحضرت {ص} کی شیفۃ ھو گئیں اور اس کے بعد آنحضرت {ص] کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کرنے کی فکر میں لگ گئیں- لیکن اس زمانہ کے معاشرہ کی رسم کے مطابق عورتوں سے مرد خواستگاری کرتے تھے- اس قسم کے معاشرے میں اگر کوئی عورت، مرد سے خواستگاری کرتی، تو اس پر چہ میگوئیاں ھوتیں اور افواہیں پھیلائی جاتیں- اس لئے یہ پاک خاتون ایک مدت تک اس فکر میں مشغول رہیں اور اس سلسلہ میں اپنی محبت کو حضرت محمد {ص} تک پہنچانے کی راہ کی تلاش میں تھیں-

آخر کار جناب خدیجہ {س} نے " نفیسہ بنت منیہ" کو اپنے گھر بلایا اور اس سے درخواست کی کہ حضرت محمد {ص} کی خدمت میں جاکر آنحضرت {ص} سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے ان کے ارادہ کو بیان کرنے کی ضمن میں جس طرح بھی ممکن ھوسکے آنحضرت {ص} کے نظریہ کو حاصل کرے-

نفیسہ نے حضرت محمد {ص} سے اس وقت ملاقات کی جب آپ {ص} کعبہ کا طواف بجا لانے کے بعد لوٹ رہے تھے- نفیسہ نے حال و احوال پوچھنے کے بعد آپ {ص} سے سوال کیا:" اے محمد {ص} آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟" آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا:" خالی ہاتھ، شادی نہیں کی جاسکتی ہے" نفیسہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:" اگر میں کسی ایسی خاتون کا تعارف کراوں جو جاہ و جمال اور شرافت میں آپ {ص} کی ہم پلہ ھو اور کافی مال و دولت کی بھی مالک ھو، تو کیا آپ {ص} اس سے ازدواج کے لئے آمادہ ہیں؟"

حضرت محمد {ص} نے تھوڑا سا غور کرنے کے بعد فرمایا:" وہ کون ھوسکتی ہے؟" نفیسہ نے جواب میں کہا:" خدیجہ؛"

حضرت محمد {ص} نے سوال کیا:" کیا وہ شادی کریں گی؟ میں نے

تو سنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے ان کی خواستگاری کی ہے اور انھوں نے ان سب کا انکار کیا ہے اگر وہ راضی ھوں تو میں موافق اور راضی ھوں "-

نفیسہ فوراً جناب خدیجہ {س} کے گھر پہنچیں اور انھیں حضرت محمد {ص} کی ان کے ساتھ شادی کرنے کی رضامندی کی خبر سنا دی-

جناب خدیجہ {س} نے چند دنوں کے بعد آنحضرت {ص} سے ملاقات کی اور آپ {ص} سے ازدواج کی اپنی دلچسپی کے بارے میں یوں بیان کیا:" يا بن‏عم، انّي قد رغبت فيك لقرابتك و سطوتك في قومك و امانتك و حسن خلقك و صدق حديثك " اے میرے چچیرے بھائی؛ آپ {ص} میرے رشتہ دار ہیں، میں نے آپ {ص} میں خاندانی شرافت، امانتداری، حسن اخلاق اور سچائی پائی ہے اس لئے آپ کی مشتاق ھوئی ھوں"-

حضرت محمد {ص} نے، جناب خدیجہ کی آپ {ص} سے شادی کرنے کی رضا مندی اور ان سے ازدواج کی اپنی دلچسپی اور رضا مندی کے بارے میں اپنے چچا {ابو طالب، عباس اور ابولہب} کو آگاہ کیا- ابولہب نے کہا:" میرے بھتیجے؛ ہمیں عربوں میں بدنام نہ کرنا، تم خدیجہ کے لائق نہیں ھو-"

آنحضرت {ص} کے چچاعباس اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ھوئے اور ابو لہب سے تیز لہجے میں مخاطب ھوکر کہا:" تم ایک پست اور بدکردار آدمی ھو، خدیجہ میرے اس بھتیجے کے بارے میں کون سا اعتراض کرسکتی ہیں- محمد {ص} ، دلربا جمال و کمال کے مالک ہیں- خدیجہ کیسے اپنے آپ کو ان سے برتر ثابت کرسکتی ہیں- کیا مال یا کمال کی وجہ سے؟ کعبہ کے خدا کی قسم، خدیجہ جتنا بھی محمد سے مہر چاہے، میں گھوڑے پر سوار ھوکر بیابانوں میں گھوم کر اور بادشاھوں کے محلوں میں جاکر اسے مہیا کروں گا"-

سفیر عشق:

جناب ابوطالب اپنے بھائیوں سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ جناب خدیجہ کا نظریہ اور ان کی طرف سے ممکنہ شرائط معلوم کئے جائیں اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے- اس کے بعد انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھپھی صفیہ کو خدیجہ کے پاس بھیجا تاکہ بلا واسطہ ان سے گفتگو کرکے اس سلسلہ میں ان کے نظریہ کے بارے میں آگاہی حاصل کریں- جناب صفیہ، جناب خدیجہ کے گھر گئیں- جب جناب خدیجہ کو معلوم ھوا کہ صفیہ ان کی ملاقات کے لئے آئی ہیں، تو وہ دوڑ کے استقبال کرنے کے لئے آگے بڑھیں اور انھیں اپنے مخصوص کمرے میں لے گئیں- جب کمرے میں داخل ھوئیں، تو اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ جناب صفیہ کے لئے خورد و نوش کی لذیذ نعمتیں لائیں اور ان کی خاطر تواضع کریں- جناب صفیہ نے کہا:" میں کھانا کھانے کے لئے نہیں آئی ھوں، بلکہ میں اس لئے آئی ھوں کہ جان لوں کہ جو کچھ میں نے سنا ہے وہ سچ ہے یا نہیں؟

جناب خدیجہ نے یہ پوچھے بغیر کہ آپ نے کیا سنا ہے اور دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں، جواب میں کہا:

" جی ہاں، آپ نے صحیح سنا ہے،« سَعِدَتْ مَنْ تُكونُ لِمحمّدٍ قرينةً، فانّه يُزيِّنُ صاحِبَه» " وہ عورت خوش قسمت ہے جو محمد {ص} کی شریک حیات بنے، کیونکہ محمد {ص} ان کے لئے فخر ومباہات کا سبب ہیں- میں محمد {ص} کی عظمت اور شخصیت سے واقف ھوں اور ان کے ساتھ زندگی گزارنے کو اپنے لئے سعادت اور ایک عظیم فخر سمجھتی ھوں، ان کا مہر بھی میں اپنے مال سے ادا کروں گی"- جناب صفیہ نے جناب خدیجہ کا دو ٹوک الفاظ میں جواب سن کر خوشی اور مسرت میں کہا:" اے خدیجہ،خدا کی قسم آپ محمد {ص} سے محبت کرنے میں حق بجانب ہیں- ابھی تک کسی آنکھ نے آپ کے محبوب کے مانند کسی نور کو نہیں دیکھا ہے اور کسی کان نے ان کے کلام سے شیرین تر کلام نہیں سنا ہے"- اس کے بعد جناب صفیہ نے حضرت خدیجہ سے رخصت لی اور مسرت و شادمانی کی حالت میں جناب ابوطالب کے گھر کی طرف لوٹیں، جہاں پر بنی ہاشم کے بزرگ افراد ان کا انتظار کر رہے تھے- جناب ابو طالب کے گھر میں داخل ھونے کے بعد جناب صفیہ نے بنی ہاشم کے بزرگوں کے سامنے، حضرت محمد {ص} کے تئیں جناب خدیجہ کے نا قابل توصیف محبت و احترام کو بیان کیا- ابولہب کے علاوہ بنی ہاشم کے تمام افراد یہ خبر سن کر خوش ھوئے، کیونکہ ابولہب ہمیشہ حضرت محمد سے حسد رکھتا تھا- اس کے بعد آنحضرت {ص} کے چچا اور بنی ہاشم کے بزرگوں نے با ضابطہ طور پر جناب خدیجہ کے پاس خواستگاری کے لئے جانے کا فیصلہ کیا-

ازدواج کی رسم:

۲۸ سال ھجرت سے قبل { بعثت سے ۱۵ سال قبل} ۹ شوال کو جناب ابوطالب، اپنے عید کے لباس کو زیب تن کرکےبنی ہاشم کے چند بزرگوں کی سرپرستی کرتے ھوئے حضرت خدیجہ {س} کے چچا" عمرو بن اسد" کے گھر کی طرف روانہ ھوئے- کیونکہ طے یہ پایا تھا کہ نکاح خوانی کی رسم وہیں پرمنعقد ھوگی- تواضع اور مہمان نوازی کے بعد سب سے پہلے جناب ابو طالب نے خدائے سبحان کی وحدانیت اور مکہ و محمد {ص} کی عظمت کے بارے میں ایک خطبہ پڑھا-

مرحوم شیخ صدوق اور شیخ کلینی نے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ، جناب ابوطالب کے اس خطبہ نکاح کو نقل کیا ہے- شیخ صدوق {رہ} کے مطابق اس خطبہ کا متن حسب ذیل ہے:" الحمد لله الذي جعلنا من زرع ا براهيم و ذرية اسماعيل، و جعل لنا بيتا محجوجا و حرما آمنا يجبي اليه ثمرات کل شي ء، و جعلنا الحکام علي الناس في بلدنا الذي نحن فيه، ثم ان ابن اخي محمد بن عبد الله بن عبد المطلب لا يوزن برجل من قريش الا رجح، و لا يقاس باحد منهم الا اعظم عنه، و ان کان في المال قل، فان المال رزق حایل و ظل زایل، و له في خديجه رغبة و لها فيه رغبة، و الصداق ما سألتم عاجله و آجله، و له خطر عظيم و شأن رفيع و لسان شافع جسيم "

" حمد وثنا اس خداوند متعال کی جس نے ہمیں حضرت ابراھیم {ع} کا حاصل شدہ اور حضرت اسماعیل کی ذریت قرار دیا- اور ہمارے لئے ایک مقدس گھر تعمیر کیا جو حجاج کا مقصود اور امن و سلامتی کا حرم ہے کہ ہر چیز کا ثمرہ اس کے گرد گھومتا ہے- اور ہمیں اپنے شہر کے باشندوں پر حاکم قرار دیا-

میرا بھتیجہ، محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب، ایک ایسا مرد ہے، جس کا قریش کے مردوں میں سے کوئی مرد ہم پلہ نہیں ہے، کیونکہ وہ ان سے بلند تر ہے اور اس کا ان میں سے کسی کے ساتھ موازنہ نہین کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ ان سے برتر ہے، اور اگر چہ اس کے پاس مال کم ہے، لیکن مال ہمیشہ تغیر و تبدل کی حالت میں ھوتا ہے اور سایہ کے مانند زائل ھونے والا ھوتا ہے- وہ خدیجہ کو چاہتا ہے اور خدیجہ بھی اسے چاہتی ہے- نقد و غیر نقد کی صورت میں جو بھی مھر مطالبہ کیا جائے گا وہ آمادہ ہے- اور محمد {ص} ایک عظیم مقام، بلند شان اور کافی شہرت کے مالک ھوں گے"-

خطبہ پڑھنے کے بعد مہر کے بارے میں گفتگو ھوئی- حضرت خدیجہ {س} کے مہر کے بارے میں مختلف اقوال نقل کئے گئے ہیں- ابن عباس نے خدیجہ {س} کا مہر بارہ " اوقیہ" ذکر کیا ہے- جبکہ سیرہ ابن ہشام میں بیس "بکرہ" ذکر کیا گیا ہے-

جناب خدیجہ کے چچا، " عمرو بن اسد" مہر کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے تھے کہ لکنت زبان سے دوچار ھوے اور ان کی زبان لڑکھڑائی اور کچھ نہ کہہ سکے-

جناب ابو طالب، خدیجہ کے چچا کا نظریہ سمجھ چکے تھے، اس لئے ان سے مخاطب ھوکر کہا:" ولہ فی الخدیجۃ رغبۃ ولھا فیہ رغبۃ" " خدیجہ اور محمد {ص} دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ہم ان دونوں کو آپس میں ملانے اور محمد {ص} کے لئے خدیجہ کی خواستگاری کے لئے آئے ہیں"-

اس کے بعد جناب خدیجہ نے اپنے چچا سے مخاطب ھوکر کہا:" يا عمّاه، انّك و ان كنت اولي بنفسي منّي في‏ الشهود، فلست اولي بي من نفسي، قد زوجّتك يا محمد نفسي و المطّهر عليّ في مالي " " عمو جان؛ ممکن ہے دوسرے مسائل میں آپ اختیار رکھتے ھوں، لیکن یہاں پر خود مجھے اختیار ہے- اس کے بعد کہا:" اے محمد {ص}؛ میں نے اپنے آپ کو آپ {ص] کی بیوی قرار دیا اور مہر بھی میں نے اپنے ہی ذمہ لے لیا"-

جناب ابوطالب نے حضار سے مخاطب ھوکر کہا:" گواہ رہنا کہ خدیجہ نے محمد {ص} کو اپنے شوہر کے عنوان سے قبول کیا اور مہر بھی اپنے ہی ذمہ لےلیا"-

ابوجہل کھڑا ھوا اور غضبناک ھوکر حضار سے مخاطب ھوکر بولا:" تعجب کی بات ہے کہ عورتیں مردوں کے مہر کو اپنے ذمہ لیتی ہیں؛"

جناب ابوطالب غضبناک ھوگئے اور کھڑے ھوکر کہا:" جی ہاں، اگر کوئی مرد میرے بھتیجے کے مانند ھو تو عورتیں سب سے گراں قیمت مہر کو بھی اپنے ذمہ لیتی ہیں اور تم جیسے ھوں تو گراں قیمت مہر لئے بغیر ان سے ازدواج کے لئے آمادہ نہیں ھوتیں"-

مہر معین ھونے کے بعد عقد و نکاح کے مراسم منعقد ھوئے اور جناب خدیجہ اس تاریخ کے بعد قانونی طور پر حضرت محمد{ص} کی شریک حیات بن گئیں- عقد کی تقریب ختم ھونے کے بعد، تمام مہمان اٹھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے- حضرت محمد {ص} بھی اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ گھر جانے کے لئے کھڑے ھوئے- جناب خدیجہ {س} چونکہ جانتی تھیں کہ حضرت محمد {ص} کا اپنا کوئی گھر نہیں ہے، اس لئے آنحضرت {ص} کی طرف مخاطب ھوکر کہا:" - - -" الى بيتك، فبيتى بيتك و انا جاريتك" " اپنے گھر کی طرف آئیے، کہ میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں بھی آپ کی کنیز ھوں"- اس کے بعد آنحضرت {ص} سے مخاطب ھوکر کہا:" ...يا محمد مر عمك ابا طالب ينحر بكرة من بكراتك‏ و اطعم الناس " اے محمد {ص} ؛ اپنے چچا ابوطالب سے کہدیجئے کہ دس اونٹ نحر کریں اور لوگوں کو دعوت کرکے کھانا کھلائیں-

جناب ابوطالب نے دس اونٹ نحر کئے اور مکہ کے لوگوں کو کھانا کھلایا- اس طرح اس ولیمہ کے ذریعہ حضرت محمد {ص} کے عقد و شادی کی تقریب اختتام کو پہنچی-

عبداللہ بن غنم اس زمانہ کا مشہور شاعر تھا اور وہ اس تقریب میں حاضر تھا- اس نے مندرجہ ذیل اشعار کی صورت میں مبارکباد پیش کی ہے:

هنییا مرییا یا خدیجه قد جرت لك الطیرفیما كان منك بأسعد

تزوجت ‏خیر البریه كلها و من ذا الذى فى الناس مثل محمد ؟

و بشر به البر ان عیسى بن مریم و موسى ابن عمران فی اقرب موعد

أقرت به الكتاب قدما بأنه رسول من البطحاء هاد و مهتد

" مبارک ھو آپ کو اے خدیجہ کہ آپ خوش نصیب تھیں اور بہترین مخلوق سے شادی کی- لوگوں میں محمد {ص} کے مانند کون ہے؟ محمد {ص} وہ ہیں جن کے آنے کی بشارت حضرت عیسی {ع} اور حضرت موسی {ع} نے دی ہے، اور آسمانی کتابوں نے ان کی پیغمبری کی تائید کی ہے- یہ بطحاء {مکہ} سے ظہور کرنے والے رسول {ص} ہیں اور ہدایت کرنے والے اور ہدایت شدہ ہیں"-

جناب خدیجہ، پہلی مسلمان خاتون:

رسول خدا {ص} ہرسال ایک مدت تک گھر اور معاشرہ کو ترک کرکے عبادت کرنے کے لئے غار حرا میں جاتے تھے- ان کی عمر مبارک چالیس سال تھی کہ رجب کے مہینہ میں جناب خدیجہ {س} سے وداع ہو کر عبادت کے لئے غار حرا کی طرف روانہ ھوئے اور وہاں پر کئی دن عبادت میں گزارنے اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے کے بعد گھر لوٹے- جب آپ{ص} گھر میں داخل ھوئے، آپ {ص} کے سر اور چہرے پر پسینہ جاری تھا اور آپ کا رنگ متغیر ھو چکا تھا، آپ {ص} کا بدن کانپ رہا تھا اور شدید تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے- اسی حالت میں جناب خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر فرمایا:" مجھے ڈھانپ لو"-

جناب خدیجہ {س} نے بستر ڈالا اور پیغمبر اکرم {ص} کچھ دیر تک لیٹے اور اس کے بعد اچانک بسترے سے اٹھ کر بیٹھ گئے-

جناب خدیجہ {س} نے احساس کیا کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہے پیغمبر اکرم {ص} نے جب سکون کا سانس لیا، تو جناب خدیجہ {س} نے پوچھا:" کیا بات ہے؟"

پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" جب میں غار سے باہر نکلا تاکہ گھر کی طرف روانہ ھو جاوں، ابھی پہاڑ سے نیچے نہیں اترا تھا کہ اچانک میں نے ایک آواز سنی جس نے مجھے خطاب کرکے کہا :" یا محمد؛ انت رسول اللہ و انا جبرئیل" اے محمد {ص} آپ رسول خدا ہیں اور میں جبرئیل ھوں"-

میں نے اپنے بائیں جانب نظر ڈالی، کوئی بھی نہیں تھا، پھر دائیں جانب دیکھا، لیکن کوئی نظر نہیں آیا اپنے پیچھے کی طرف نظر ڈالی کسی کو نہیں دیکھا- میں نے جب سر کو اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو جبرئیل ایک مرد کی شکل میں کھڑے تھے، اور انھوں نے مجھ سے مخاطب ھوکر کہا:" یا محمد؛ انت رسول اللہ و انا جبرئیل"

یہ خبر سننے کے بعد، جناب خدیجہ پھولے نہ سمائیں ، اور ان کے تن بدن میں خوشی و شادمانی کی لہر دوڑگئی، جیسے کہ انھیں نئی جان مل گئی، ایسا لگتا تھا کہ وہ برسوں سے اس خوشخبری کو سننے کے لئے منتظر تھیں- بدون تاخیر کہا:" یابن عم! انت رسول الله، بابی انت و امی، انت یا رسول الله انی اصدقک اؤمن بالله و بک رسولا" " بیشک، آپ رسول خدا ہیں، میرے ماں باپ آپ پر قربان ھوں، میں آپ {ص} کی تصدیق کرتی ھوں، میں خدا اور آپ {ص} پر رسول خدا کے عنوان سے ایمان لاتی ھوں"-

جناب خدیجہ {س} نے اس زمانہ میں یہ کلمات زبان پر جاری کئے اور رسول خدا {ص} پر ایمان لائیں، جب معاشرہ میں سحر و جادو اور کہانت جیسے خرافات کا رواج تھا- یہ عظیم خاتون رسول خدا {ص} سے کوئی سوال کئے بغیر اور کسی قسم کے شک و شبہہ کے بغیر، بدون تاخیر خداوند سبحان اور رسول خدا {ص} کی رسالت پر ایمان لائیں اور اپنے لئے پہلی مسلمان خاتون کا لقب حاصل کیا اور اس طرح وہ پہلی ام المومنین { مومنین کی ماں} کے عنوان سے پہچانی گئیں-

ایک عرب مصنف، بنت الشاملی کا کہنا ہے کہ:

" کیا آپ خدیجہ {س} کے علاوہ کسی دوسری عورت کو پہچانتے ہیں جس نے عشق و محبت اور پائیدار ایمان سے، کسی شک و شبہہ کے بغیر اور خدا اور پیغمبر خدا {ص} کے بارے میں اپنے دائمی اعتقاد میں ذرہ برابر کمی واقع نہ ھوتے ھوئے، غار حرا سے شروع ھونے والی الہی دعوت کو قبول کیا ھو؟ "

چند لمحات کے بعد حضرت علی {ع} گھر میں داخل ھوئے- رسول خدا {ص} کی نظر مبارک جوں ہی علی {ع} پر پڑی، آپ {ص} نے انھیں اسلام قبول کرنے اور خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دی، علی {ع} نے بلا تاخیر رسول خدا {ص} کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے- اس طرح تاریخ اسلام میں علی {ع} پہلے مسلمان مرد کے عنوان سے مشہور ھوئے- تاریخ کی بعض کتابوں میں آیا ہے کہ، جب علی {ع} ایمان لائے، اس وقت رسول خدا {ص} مسرت و شادمانی میں اس قدر ہنسے کہ ان کے دندان مبارک صاف دکھائی دیتے تھے-

اس کے بعد زید بن حارثہ تاریخ اسلام کے تیسرے مسلمان کے عنوان سے ایمان لائے- اس کے بعد خدیجہ {س} نے اپنی بیٹیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور ان کی چار بیٹیاں بھی خداوند متعال اور رسول خدا {ص} پر ایمان لائیں- اس طرح سب سے پہلے جس گھر کے تمام افراد خداوند متعال اور اس کے رسول { ص} پر ایمان لائے، وہ جناب خدیجہ {س} کا گھر تھا-

پیغمبر اسلام {ص} کے جناب خدیجہ {س} سے ازدواج کے بارے میں چند نکات:

پیغمبر اسلام {ص} کے جناب خدیجہ {س} سے ازدواج کے طریقہ کار کی کچھ بے مثال خصوصیات ہیں، اور ان خصوصیات میں سے ہر ایک خصوصیت میں مسلمانوں کے لئے انتہائی سبق آموز اور قابل قدر نکات موجود ہیں اور یہ اہم نکات خاندان کو تشکیل دینے کے سلسلہ میں نمونہ عمل ہیں- ان خصوصیات میں سے بعض کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

ازدواج سے پہلے ایک دوسرے کے بارے میں کافی شناخت پیدا کرنا:

حضرت محمد {ص} اور جناب خدیجہ کی شادی، نا پائیدار نفسانی خواہشات، مادیات اور قبیلہ پرستی پر مبنی نہیں تھی، بلکہ یہ شادی، گہری اور دقیق شناخت کا نتیجہ تھی، جو مقدس مقاصد، انسانی قدروں اور اعتقاد پر مبنی تھی- جناب خدیجہ {س} اگر چہ مکہ کے دوسرے لوگوں کے مانند حضرت محمد {ص} کو پہچانتی تھیں اور آنحضرت {ص} کے اوصاف سنے تھے، لیکن انھوں نے ظاہری پہچان اور لوگوں میں مشہور اوصاف پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک مدت تک حضرت محمد {ص} کے بارے میں سنجید گی کے ساتھ تحقیق کی- حضرت محمد {ص} کے جناب خدیجہ {س} کے تجارتی کاروان میں شامل ھونے کے ابتدائی لمحہ سے آخر تک، پیغمبر اکرم {ص} کی رفتار، گفتار اپنے ماتحتوں سے عدل و انصاف کے برتاو اور خدائے سبحان پر آپ {ص} کے راسخ ایمان پر اس خاتون کے خادم اور غلام، کڑی نظر رکھے ھوئے تھے- اس لئے دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کے بارے میں ظاہری پہچان اور لوگوں کے کہنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ دقیق اور مکمل پہچان حاصل کرنے کے بعد آپس میں رشتہ ازدواج قائم کیا-

۲- طبقاتی تفاوت کے اثر میں نہ آنا:

اقتصادی حالات کے لحاظ سے پیغمبر اسلام {ص} کی زندگی اور جناب خدیجہ کی زندگی کے درمیان کافی تفاوت پایا جاتا تھا- پیغمبر اکرم {ص} کے پاس کسی قسم کے مالی امکانات نہیں تھے اور آپ {ص} سالہا سال تک اپنے جد امجد جناب عبدالمطلب اور چچا جناب ابوطالب کی سر پرستی میں زندگی گزار رہے تھے اور ان کی مالی حالت بھی مناسب نہیں تھی- لیکن اس کے برعکس جناب خدیجہ {س} ایک دولتمند عرب خاتون تھیں اور مکہ کے مشہور تاجروں میں شمار ھوتی تھیں-

اس کے باوجود ان کی زندگی اس قدر متقابل ایمان و اعتقاد پر مبنی تھی، کہ طبقاتی فاصلہ کا ان کی زندگی پرکسی قسم کا منفی اثر نہیں تھا، اور وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے کے لئے جاں نثاری اور محبت کا مظاہرہ کرتے تھے، جبکہ عام طور پر طبقاتی فاصلہ بے جا فخر و مباہات، بغض و کینہ اور خاندانی اختلافات پیدا ھونے کا سبب بن جاتا ہے-

جناب خدیجہ {س} نے اپنی ازدواجی زندگی کی ابتداء میں ہی اپنی ظاہری زندگی کے تعلقات کو چھوڑ کر اپنی ساری دولت اور سرمایہ کو پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں ھدیہ کے طور پر پیش کیا، تاکہ آپ {ص} اسے اپنی مصلحت کے مطابق اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے خرچ کریں اس کے مقابلے میں حضرت خدیجہ {س} نے اپنے شریک حیات حضرت محمد مصطفی {ص} کی محبت اور وفاداری خرید لی-

۳- عمر کے تفاوت کا موثر نہ ھونا:

ازدواج کے وقت حضرت محمد {ص} کی عمر شریف ۲۵ سال اور حضرت خدیجہ {س} کی عمر ۴۰ سال تھی- ازدواج کے وقت ان کی عمر میں ۱۵ سال کا فرق تھا کہ آج کل کے معیاروں کے مطابق اس قسم کے تفاوت کے کافی منفی اثرات ھونے چاہئیے تھے اور ان کی ازدواجی زندگی میں گونا گون مشکلات پیدا ھونے چائیے تھے- لیکن یہ عمر میں اختلاف نہ صرف ان کی زندگی میں برے اثرات پیدا کرنے کا سبب نہ بنا بلکہ پوری زندگی میں ایک دوسرے کے لئے سہارا، پناہ گاہ اور آرام و سکون پیدا کرنے کا سبب بنا- ان کا ایک دوسرے کے ساتھ شدید محبت اور اعتماد اس امر کا سبب بنا کہ عمر میں تفاوت کے برے اثرات کے بجائے ایک دوسرے کا احترام اور ایک دوسرے سے صداقت اور وفاداری کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اس کے نتیجہ میں ان کی روزمرہ زندگی کی مشکلات آرام و آسائش میں تبدیل ھوئیں-

۴- ایک دوسرے کا احترام اور محبت کرنا:

حضرت محمد {ص} اور جناب خدیجہ {س} عمر اور عقل کی بالیدگی کے لحاظ سے اپنے زمانہ کے مردوں اور عورتوں میں ممتاز تھے اور اس مقام پر تھے کہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرسکتے تھے- لیکن ان کی عقل کی بالیدگی اور ایک دوسرے سے عشق و محبت اس امر کا سبب نہیں بنا کہ وہ اپنے بزرگوں کی شان و منزلت سے چشم پوشی کرکے اور اپنی مشترک زندگی کے بارے میں ان سے صلاح و مشورہ نہ کرکے خود اپنے لئے فیصلہ کرلیں- بلکہ انھوں نے عاقلانہ تدبیر سے باہمی میلان و رغبت کے بارے میں اپنے بزرگوں اور سرپرستوں کو آگاہ کیا اور اپنے عقد و ازدواج کے بارے میں اپنے بزرگوں کی شخصیت اور اعتبار کو اصلی عامل قرار دیا-

انہوں نے ایک دوسرے سے رکھنے والے میلان و رغبت پر مبنی ازدواج کا فیصلہ ایک دوسرے کی شناخت پر مبنی قرار دیا تھا اور اس عشق و محبت کو آداب و رسوم اور بزرگوں کی شان و شخصیت کی قدر و منزلت کی رعایت کرتے ھوئے عملی جامہ پہنایا-

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نا پائیدار نفسانی خواہشات کی وجہ سے تمام قدروں کو پامال کرتے ھیں اور بزرگوں کے احترام و اعتبار کی رعایت کئے بغیر اپنے نفسانی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تمام سماجی آداب و رسوم سے چشم پوشی کرتے ہیں، وہ کبھی ایک اطمینان بخش اور پائیدار زندگی تک نہیں پہنچتے، کیونکہ بالاخر ایک دن وہ ھوش میں آکر اپنی کار کردگی کے بارے میں پشیمان ھوتے ہیں- نتیجہ کے طور پر ایسے افراد اپنے ضمیر کے عذاب سے دوچار ھوتے ہیں اور اپنے فکری و روحی آرام و آسائش کو کھو دیتے ہیں- سر انجام بے سود لڑائی جھگڑوں سے دوچار ھوتے ہیں، جن کا نتیجہ بغض و کینہ اور خاندانی اختلافات کے پیدا ھونے اور خاندانی آرام و آسائش کے کھو دینے کے علاوہ کچھ نہیں ھوتا ہے-

۵- اپنے شریک حیات کے لئے معیار کا معین کرنا:

جناب خدیجہ {س} نہ مال و دولت کے لئے، نہ سماجی حیثیت کے لئے اور نہ بعض سماجی محرومیتوں کے لئے پیغمبر اکرم {ص} سے ازدواج کے درپے تھیں، کیونکہ مکہ کے بہت سے صاحبان منصب ، سرداروں اور سرمایہ داروں نے ان سے ازدواج کی درخواست کی تھی اور اس عظمت والی خاتون نے ان سب کا منفی جواب دیا تھا- حقیقت میں جناب خدیجہ {س} نے اپنے ھونے والے شریک حیات کے لئے کچھ معیار مد نظر رکھے تھے اور ان ہی معیاروں کی بنا پر انھوں نے اپنے شریک حیات کی پہچان حاصل کرکے ان کا انتخاب کیا-

حضرت خدیجہ {س} اپنے ایک بیان میں رسول خدا {ص} سے مخاطب ھوکر اپنے مد نظر معیاروں کے بارے میں یوں اشارہ فرماتی ہیں:" میں آپ {ص} کے ساتھ اپنی رشتہ داری ، آپ{ص} کی بزرگواری، لوگوں میں آپ {ص} کی امانتداری، نیک اخلاق اور آپ {ص} کی صداقت کی وجہ سے آپ {ص} سے شادی کرنا چاہتی ھوں"-

ایک موقع پر، جب مکہ کی عورتیں حضرت خدیجہ {س} پر طعنہ زنی کرتی ہیں اور ان کا مذاق اڑاتی ہیں کہ انھوں نے کیوں عبداللہ کے یتیم کے ساتھ شادی کی، تو جناب خدیجہ {س} جواب میں فرماتی ہیں :" کیا آپ پوری سرزمین عرب میں محمد {ص} جیسے نیک، پسندیدہ خصلت والے اور شرافت کے مالک کسی دوسرے شخص کو پیدا کرسکتی ہیں؟ "

آخری نکتہ یہ کہ حضرت خدیجہ {س} کے اس انتخاب کی قدر و منزلت اس وقت معلوم ھوتی ہے جب ہم یہ جان لیں کہ انھیں اپنے معاشرہ میں ایک بلند حیثیت اور مقام حاصل تھا اور اس معاشرہ اور قریش کے کسی نامور اور دولتمند جوان سے ازدواج کے تمام امکانات اور مواقع فراہم تھے-

۶- ایک دوسرے پر فخر و مباہات کا اظہار نہ کرنا:

حضرت خدیجہ {س} نے حضرت محمد {ص} کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کے دوران کبھی اس دولت اور سرمایہ کا نام تک نہیں لیا جو انھوں نے آنحضرت {ص} کو بخش دیا تھا اور اپنے شوہر پر کبھی منت نہ رکھی- پیغمبر اسلام {ص} نے بھی کبھی فخر و مباہات پر مشتمل کوئی جملہ زبان پر جاری نہیں کیا، جو حضرت خدیجہ {س} کے لئے رنجش کا سبب بن جاتا، بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے کی جاں نثاری اور عفو و بخشش کی بات کرتے تھے- نہ آنحضرت {ص} اپنے حسن و جمال، اخلاق اور نبوت کے بارے میں حضرت خدیجہ {س} کے سامنے اظہار فخر کرتے تھے اور نہ حضرت خدیجہ {س} کبھی آنحضرت {ص} کے سامنے اپنے مال و دولت اور سماجی حیثیت کے بارے میں فخر کا مظاہرہ کرتی تھیں- ان دونوں نے ازدواج کے بعد بے بنیاد اور ظاہری فخر و مباہات کو چھوڑ دیا تھا اور اخلاص و محبت اور وفاداری پر مبنی اپنی مشترک زندگی گزارتے تھے-

۷- دوسروں کے کنایوں اور طعنہ زنیوں کا بے اثر ھونا:

حضرت خدیجہ {س} کے پیغمبر اکرم {ص} سے ازدواج کے بعد مکہ کے بہت سے مرد و زن طعنہ زنی کرتے تھے اور حسد و دشمنی کی وجہ سے اشاروں اور کنایوں کے ذریعہ مختلف صورتوں میں انھیں اذیت و آزار پہنچانے کی کوشش کرتے تھے- کبھی ان کی عمر میں تفاوت کی بات کرتے تھے اور کبھی حضرت خدیجہ {س} کے مال و دولت کو آنحضرت {ص} کی خدمت میں بخش دینے کی بات کرتے تھے اور کبھی حضرت محمد {ص} کی تنگ دستی اور فقر کی بات کرتے تھے- لیکن ان تمام طعنہ زنیوں اور اشاروں اور کنایوں کے باوجود، اس خاندان کی بنیادیں ایسی پائیدار اور مضبوط تھیں کہ کبھی کفار مکہ کی باتیں، طعنہ زنیاں، کنائے اور پروپیگنڈے ان کی پر امن اور مہر و محبت پر مبنی ازدواجی زندگی کو متزلزل نہ کرسکے، بلکہ برعکس لوگوں کی طرف سے پہنچائے جانے والے اذیت و آزار اور مداخلتوں کے باوجود ان کا باہمی اعتماد روز بروز بڑھتا گیا اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنی روز مرہ زندگی کی مشکلات کو آسانی کے ساتھ حل کرتے تھے-

۸- شوہر کی اطاعت:

حضرت خدیجہ{س} خداوند متعال پر ایمان کے بعد دل و جان سے اپنے شوہر پر ایمان و اعتقاد رکھتی تھیں اور رسول خدا {ص} کے دستوروں، نصیحتوں اور فرمودات کی من و عن اطاعت کرتی تھیں اور انھیں عملی جامہ پہناتی تھیں- جو عوامل آنحضرت {ص} کے لئے حضرت خدیجہ {س} کی محبت کو دل کی گہرائیوں میں اثر کرنے کا سبب بنتے تھے اور جن کی وجہ سے آپ {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کی حیات میں دوسری شادی نہیں کی اور حضرت خدیجہ {س} کی وفات کے بعد بھی انھیں فراموش نہ کرسکے اور ان کی نیکیوں کا ذکر فرماتے تھے، ان میں سب سے اہم حضرت خدیجہ {س} کی اطاعت اور وفاداری کا عامل تھا-

رسول خدا {ص} بھی اپنی بیوی کے اعتماد کو محفوظ رکھنے کا خیال رکھتے تھے اور ہراس چیز سے پرہیز کرتے تھے، جو حضرت خدیجہ {س} کے لئے پریشانی و تشویش کا سبب بن جاتی- یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} جب غار حرا میں طولانی اعتکاف بجا لارہے تھے یہ احتمال دیا کہ کہیں آپ {ص} کی دوری حضرت خدیجہ {س} کے لئے پریشانی کا سبب نہ بنے، اس لئے عمار یاسر کو اپنی شریک حیات کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا:

" اے خدیجہ {س} ایسا خیال نہ کرنا کہ میری کنارہ کشی آپ سے بے اعتنائی کی وجہ سے ہے ، بلکہ میرے پروردگار نے مجھے یہ حکم دیا ہے تاکہ اپنے امر کو عملی جامہ پہناوں- خیر و سعادت کے علاوہ کچھ نہیں سوچنا- خداوند متعال ہر روز چند بار، اپنے فرشتوں کے سامنے آپ کے لئے فخر کرتا ہے- پس جب رات ھو جائے، دروازہ بند کرکے بستر میں آرام کرنا"-

۹- پیغمبر اکرم {ص} کی شخصیت کا احترام:

حضرت خدیجہ {س} فراوان مال و دولت کی مالک ھونے اور اس زمانہ کے معاشرہ میں سماجی مقام و منزلت رکھنے کے باوجود رسول خدا {ص} کے ساتھ برتاو اور رفتار اور گفتار میں ہمیشہ اپنے آپ کو آپ {ص} کی ایک معمولی کنیز سمجھتی تھیں اورفخر و مباہات کرتی تھیں کہ خداوند متعال نے انھیں آنحضرت {ص} کی شریک حیات بننے کا شرف بخشا ہے- حضرت خدہجہ {س} پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کے دوران ہمیشہ آنحضرت {ص} کے احترام کا خاص خیال رکھتی تھیں، اور کبھی کوئی ایسا برتاو نہیں کرتی تھیں، جس سے جھگڑا لوپن یا اظہار برتری کا شائبہ پیدا ھو جائے- حضرت خدیجہ [س} کے اس برتاو کے جلوے ان دو میاں بیوی کی شادی کی داستان میں پائے جا سکتے ہیں- جب عقد و جشن کی تقریب اختتام کو پہنچی اور پیغمبر خدا {ص} اپنے چچا جناب ابوطالب کے گھر جانا چاہتے تھے، ملکہ بطحا اور قریش کی خاتون ، اب آپ {ص} کی شریک حیات بن چکی تھیں، یوں آپ {ص} سے مخاطب ھوئیں:" الی بیتک فبیتی بیتک و انا جارتیک" " اپنے گھر میں داخل ھو جائیے، میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں آپ {ص} کی کنیز ھوں"- لیکن یہ سب عزت و احترام اس عقیدہ و ایمان کی وجہ سے تھا جو وہ خداوند متعال کے لئے رکھتی تھیں- اور اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا-

پیغمبر اکرم {ص} کی عبادتوں کے دوران ایک بار آنحضرت {ص} کو چالیس دن لگ گئے، حضرت خدیجہ {س} نے یہ پوری مدت تنہائی میں گزاری- ازدواجی زندگی کے ابتدائی ایام میں اس قسم کی طولانی عبادت ممکن تھا، حضرت خدیجہ {س} کے لئے مختلف پریشانیوں اور اضطراب کا سبب بنتی، لیکن اس عظیم خاتون نےنہ فقط اعتراض نہیں کیا بلکہ رسول خدا {ص} کے ساتھ ہمکاری اور ہمراہی فرماتی تھیں اور آنحضرت {ص} سے، ان کے فرائض انجام دینے میں تعاون فرماتی تھیں- رسول خدا {ص} کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے حضرت خدیجہ {س} کی ہم کاری اور ہمدلی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے اپنی وفات کے وقت اپنی وصیت کے ضمن میں آنحضرت {ص} کی خدمت میں یہ عرض کی کہ:" میں نے آپ {ص} کے بارے میں کوتاہی کی ہے، مجھے بخشنا" پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں نے آپ سے ہرگز کسی کوتاہی اور قصور کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، آپ نے میرے گھر میں کافی محنت کی ہے اور آپ کافی تھک گئی ہیں"-

۱۰- ایک دوسرے کو سمجھنا:

حضرت محمد {ص} اور آپ {ص} کی شریک حیات جناب خدیجہ {س} اپنی مشترک زندگی کے دوران ایک دوسرے کا بخوبی ادراک کرتے تھے- ان کا ایک دوسرے کو سمجھنا اور ادراک کرنا، ان کے ایک دوسرے کی دقیق شناخت اور ایمان کا نتیجہ تھا- ان کا ایک دوسرے کو ادراک کرنا اس امر کا سبب بنا کہ سماجی مشکلات خاص کر قریش کی کھلی اور مخفی مخالفتیں اور دشمنیاں ان کی مشترک زندگی پر کوئی اثر نہ ڈال سکیں اور یہ میاں بیوی اپنے مقدس اور الہی مقاصد تک پہنچنے کے لئے آپس میں ہر قسم کا تعاون و ہمکاری کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے اور اس طرح وہ ایک دوسرے کے لئے قوی پشت پناہ تھے-

حضرت خدیجہ {س} کی دولت اسلام کی خدمت میں:

حضرت خدیجہ {س} نے رسول خدا {ص} سے شادی کرنے کے چند دنوں کے بعد اپنی ساری دولت رسول خدا {ص} کو بخش دی تاکہ آنحضرت {ص} جس طرح چاہیں اسے صرف کریں-

علامہ مجلسی {رہ} روایت نقل کرتے ہیں کہ:

" حضرت خدیجہ {س} اپنی شادی کے چند دنوں کے بعد اپنے چچا ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور کہا کہ: میری اس دولت کو لے کر رسول خدا{ص} کے پاس جانا اور انھیں کہنا کہ یہ خدیجہ {س} کی دولت ہے اور آپ {ص} کی خدمت میں تحفہ کے طور پر پیش کرتی ہے تاکہ آپ {ص} جس طرح مناسب سمجھیں اسے خرچ کریں اور میرے تمام غلاموں اور کنیزوں کو بھی ان کی خدمت میں بخش دینا"-

ورقہ بن نوفل نے، کعبہ کے پاس آکر زمزم اور مقام ابراھیم {ع} کے درمیان کھڑے ھوکر بلند آواز میں یہ اعلان کیا کہ:

" اے عرب کے باشندو؛ خدیجہ {س} تمھیں گواہ بناتی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو، اپنی پوری دولت کو، اپنے غلاموں، کنیزوں، ملکیت، مویشی، مہر اور اپنے تمام تحفے محمد {ص} کو بخش دئے ہیں اور ان تمام ھدایا کو محمد {ص} نے قبول کیا ہے اور خدیجہ {س} کا یہ کام ان کے محمد {ص} سے والہانہ عشق و محبت کی وجہ سے ہے- اس نے آپ لوگوں کو اس سلسلہ میں گواہ بنایا ہے اور آپ بھی اس کی گواہی دینا"-

رسول خدا {ص} نے بھی حضرت خدیجہ {س} کی دولت اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کے تحفظ میں خرچ کی اور کبھی اس دولت سے کوئی تجارت نہیں کی-

تمام مورخین اور اسلام شناسوں کا اعتراف ہے کہ حضرت خدیجہ {س} کی دولت ان موثر عوامل میں سے ایک اہم عامل تھی جو اسلام کی ترویج اور اس کے پھیلنے میں کلیدی اور بنیادی رول ادا کرچکے ہیں- مسلمان، جس دوران شعب ابیطالب میں کئی برسوں تک انتہائی سخت اور مشکل اقتصادی محاصرہ سے دوچار تھے، اس دوران حضرت خدیجہ {س} کی دولت اور سرمایہ نے مسلمانوں کی جان کو بچانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے- حضرت خدیجہ {س} بھی اپنی کم سن بیٹی، حضرت فاطمہ {س} کے ہمراہ شعب ابیطالب میں موجود تھیں اور وہیں سے مکہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجتی تھیں کہ ان کے مال و ثروت سے مسلمانوں کے لئے غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں مہیا کرکے اور کفار و مشرکین سے چھپا کے شعب ابیطالب میں پہنچا دیں-

حضرت خدیجہ {س} کا بھتیجا، حکیم بن حزام، نان و خرما خرید کر اونٹ پر لاد کر اسے رات کی تاریکی میں شعب ابیطالب میں مسلمانوں کے پاس پہنچاتا تھا-

علامہ مجلسی {رہ} شعب ابیطالب میں مسلمانوں کے محاصرہ میں ھونے کی داستان کے بارے میں نقل کرتے ہیں:" وانفق ابو طالب و خدیجہ جمیع مالھا" ابوطالب اور خدیجہ {س} نے اپنے تمام اموال کو اسلام کے تحفظ کے لئے انفاق کیا"-

بیشک حضرت خدیجہ {س} کی دولت ، اسلام کی ترویج اور پھیلاو میں اس قدر موثر تھی کہ حضرت علی {ع} کی تلوار کے برابر قرار پائی-

قدیم زمانہ سے مشہور تھا کہ اسلام ابتداء میں پیغمبر اسلام {ص} کے نیک اخلاق، حضرت علی {ع} کی مجاہدت اور تلوار اور حضرت خدیجہ کی ثروت اور جاں نثاری کی وجہ سے مستحکم ھوکر پھیلا ہے- پیغمبر اسلام {ص} ہمیشہ اسلام کے پھیلاو میں حضرت خدیجہ {س} کے مال کے قابل قدر اثرات کا ذکر خیر کرتے ھوئے فرماتے تھے: " مانفعنی مال فقط مثل ما نفعنی مال خدیجہ {س} " خدیجہ {س} کے مال کے برابر کوئی مال میرے لئے منافع بخش نہیں تھا"-

پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کے مال سے بہت سے قرضداروں کا قرضہ ادا کیا اور انھیں قرضہ کے دباو سے آزاد کیا، حاجتمندوں کی مدد فرماتے تھے، بے سہاروں اور یتیموں کی نصرت کرتے تھے-

پیغمبر اسلام {ص} ایک دوسرے موقع پر فرماتے ہیں:" ایدتنی علی دین اللہ واعا نتنی علیہ بھا لھا" " - - - خدیجہ {س} نے دین خدا کے سلسلہ میں میری مدد کی اور اپنے مال سے میری نصرت کی"-

سلیمان کتان نامی ایک عرب مصنف لکھتے ہیں:" خدیجہ {س} نے اپنی ساری دولت رسول خدا {ص} کو بخش دی، لیکن یہ محسوس نہیں کررہی تھیں کہ اپنے مال کو بخش رہی ہیں، بلکہ یہ محسوس کر رہی تھیں کہ ایک ایسی ہدایت حاصل کر رہی ہیں، جو تمام دنیا کے خزانوں سے برتر ہے-"

علی {ع} خد یجہ {س} کے گھر میں:

رسول خدا {ص} اور علی{ع} کے درمیان رابطہ دو افراد کے درمیان ایک عام رابطہ سے بالاتر ایک غیر معمولی رابطہ تھا- رسول خدا {ص}، علی{ع} کے پیدا ھونے کے لمحہ سے ہی ان سے محبت رکھتے تھے- جب علی {ع} پیدا ھوئے تو ان کی والدہ، انھیں رسول اللہ {ص} کی خدمت میں لائیں- پیغمبر اکرم {ص} نے علی {ع} کو اپنی آغوش میں لے کر چوما- پھر کبھی آنحضرت {ص} علی {ع} کے گہوارہ کے پاس بیٹھ کر آرام سے گہوارہ کو ہلاتے تھے یہاں تک وہ سوجاتے- کبھی کبھی انھیں نہلاتے تھے اور دودھ پلاتے تھے اور کبھی ان کو اپنے سینے سے لپٹا کر ان سے گفتگو کرتے تھے-

ابن ابی الحدید، زید بن علی بن الحسین {ع} سے نقل کرتے ہیں کہ:" ان دنوں رسول خدا {ص} گوشت اور خرما کو اپنے دہان مبارک میں چبا کر نرم کرتے تھے تاکہ اسے آسانی سے کھایا جائے، اس کے بعد علی {ع} کے منہ میں ڈالتے تھے"-

علی {ع} جب رفتہ رفتہ بڑے ھونے لگے تو، پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ ان کا لگاو بھی بڑھنے لگا اور آنحضرت {ص} ہمیشہ علی {ع} کو اپنے چھوٹے بھائی یا اپنے عزیز بیٹے کے مانند اپنے ساتھ لے جاتے تھے- حضرت علی {ع} خود اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ہیں: و قد علمتم موضعي من رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم بالقرابة القريبة والمنزلة الخصيصة، وضعني في حجره و انا ولد ي ضمني الى صدره و يكنفني في فراشه و يمسني جسده و يشمني عرفه و كان يمضغ الشي‏ء ثم یلقمنیہ " اے پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھیو؛ آپ پیغمبر اکرم {ص} کے ساتھ میری قرابت اور رشتہ داری اور آنحضرت {ص} کے پاس میرے مقام و منزلت سے بالکل آگاہ ہیں اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں آنحضرت {ص } کی محبت بھری آغوش میں پرورش پا چکا ھوں، جب میں پیدا ھوا تھا آنحضرت {ص} مجھے اپنے سینے سے لپٹاتے تھے اور اپنے بستر کے پاس سلاتے تھے اور میرے بدن پر اپنا دست مبارک پھیرتے تھے، اور میں آپ {ص} کی خوشبو محسوس کرتا تھا اور آپ {ص} میرے منہ میں کھانا ڈالتے تھے"-

رسول خدا {ص} اور حضرت خدیجہ {س} کے ازدواج کے بعد تقدیر الہی سے اس سال مکہ میں زبردست خشک سالی ھوئی- پیغمبر اسلام {ص} کے چچا جناب ابوطالب ایک عیال بار شخص تھے اور ان نا گفتہ بہ حالات میں ان کے لئے زندگی گزارنا مشکل تھا- پیغمبر اکرم {ص} نے اپنے چچا جناب عباس کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا، ان کی مالی حالت قدرے بہتر تھی- اس کے بعد انھوں نے اتفاق کیا کہ ان میں سے ہر ایک جناب ابوطالب کی اولاد میں سے ایک کو اپنے گھر لے آکر پالے گا- اس طرح جناب عباس جعفر بن ابیطالب کو اور آنحضرت {ص} علی بن ابیطالب {ع} کو اپنے گھر لے گئے-

علی {ع} ان دنوں ایک سات سالہ بچہ تھے، ایک دوسری روایت کے مطابق دس سالہ تھے، پیغمبر اکرم {ص} ان کا ہاتھ پکڑے ھوئے جناب خدیجہ {س} کے گھر میں داخل ھوئے- حضرت خدیجہ پہلے ہی دن سے علی {ع} کے ساتھ پیار محبت سے پیش آنے لگیں اور انھیں ایک مہربان ماں کے مانند آغوش محبت میں لے لیا- حضرت خدیجہ {س} علی {ع} کو مستقبل میں اپنی بیٹیوں کے لئے ایک امانتدار بھائی سمجھتی تھیں اور ایک مہربان اور ہمدرد ماں کے عنوان سے علی{ع} کی پرورش کرنے میں کسی قسم کا دریغ نہیں کرتی تھیں-

علی {ع} بچپن میں ہی رسول خدا {ص} کے گھر میں داخل ھوئے اور آنحضرت {ص} نے اس نونہال کی اپنے نیک اخلاق سے جس طرح مناسب سمجھا پرورش کی- اس کے بعد علی {ع} اپنا پورا وقت پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں گزار تے تھے اور آنحضرت {ص} کے الہی اخلاق اور انسانی فضائل کے اتاہ سمندر سے کافی بہرہ مند ھوئے-

حضرت علی {ع} اس سلسلہ میں فرماتے تھے:" ولقد كنت اتبعه اتباع الفصيل اثر امه يرفع لي كل يوم من اخلاقه علما ويأمرني بالاقتداء به، ولقد کان یجاور فی کل سنه بحراء، فأراه ولایراه غیری، و لم یجتمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول الله- صلی الله علیه و آله وسلم- و خدیجه و انا ثالثهما ارى نور الوحى و الرسالة و اشم ریح النبوة "

" میں ایک سایہ کی مانند آنحضرت {ص} کے پیچھے پیچھے چلتا تھا اور آپ {ص} اپنے نیک اخلاق کے بارے میں مجھ سے ہر روز ایک نیا نکتہ بیان فرماتے تھے اور مجھے حکم دیتے تھے کہ آپ {ص} کی اطاعت کروں- آپ {ص} ہرسال کچھ دن کوہ حرا میں تشریف لے جاتے تھے، صرف میں آپ {ص} کو دیکھتا تھا، میرے علاوہ کوئی نہیں دیکھتا تھا- ان دنوں رسول خدا {ص} کے گھر کے علاوہ کوئی ایسا گھر موجود نہیں تھا، جس میں اسلام داخل ھوا ھو، صرف آنحضرت {ص} کا گھر تھا کہ جس میں خود آنحضرت {ص}، خدیجہ {س} اور تیسرے فرد کے عنوان سے میں نے اسلام قبول کیا تھا- میں وحی رسالت کے نور کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا تھا اور رسالت کی خوشبو کو محسوس کرتا تھا-"

ایک روایت میں حضرت علی {ع} رسول خدا {ص} کے پاس اپنے حضور اور اس کے اثرات کے بارے میں فرماتے ہیں: " لقد صلیت مع رسول اللہ قبل الناس بسبع سنین و انا اول من صلی معہ"-

" میں نے دوسرے لوگوں سے سات سال قبل رسول خدا {ص} کے ساتھ نماز پڑھی ہے اور میں سب سے پہلا شخص ھوں جس نے آنحضرت {ص} کے ساتھ نماز پڑھی ہے"-

رسالت کے عام اعلان کے بعد پیغمبر اسلام {ص} اور آپ {ص} کے خاندان کے لئے زندگی کے مشکل ترین اور دردناک ترین مراحل شروع ھوئے- اس دوران، خاص کر بعثت کے آخری برسوں کے دوران، حضرت خدیجہ {س} اور حضرت علی {ع} سخت دباو میں زندگی گزار رہے تھے اور کبھی کبھی پیغمبر اکرم {ص} کے قتل ھونے کے خطرات کو محسوس کرتے تھے، لہذا یہ دو شخص ہمیشہ آنحضرت {ص} کے دوش بدوش رہتے تھے- اور تمام خطرات کے لئے ڈھال بن جاتے تھے-

طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:" ایام حج میں، ایک دن پیغمبر اکرم {ص} کوہ صفا پر چڑھے اور بلند آواز میں لوگوں سے خطاب کرکے فرمایا:" اے لوگوا؛ میں خدا وند متعال کا رسول ھوں"- اس کے بعد کوہ مروہ جاکر یہی مطلب تین بار بلند آواز میں دہرا کر لوگوں تک پہنچا دیا- عرب جاہلوں میں سے ہر ایک فرد ایک ایک پتھر اٹھا کر آنحضرت {ص} کے پیچھے دوڑا اور آپ {ص} پر پتھر پھینکے، اور ایک پتھر آنحضرت {ص} کی پیشانی پر لگا اور پیشانی سے خون جاری ھوا- اس کے بعد آنحضرت {ص} کوہ ابوقبیس کی طرف بڑھے اور مشرکین بھی آپ {ص} کے پیچھے دوڑے- اس دوران ایک شخص نے حضرت علی {ع} کے پاس جاکر کہا:" پیغمبر {ص} کو قتل کیا گیا-" حضرت علی {ع} یہ خبر سن کر روتے ھوئے حضرت خدیجہ {س} کے پاس پہنچے اور انھیں اس وحشتناک خبر سے آگاہ کیا- حضرت خدیجہ {س} بھی یہ خبر سن کر غمگین اور مضطرب ھوئیں اور زار زار رونے لگیں"-

اس کے بعد علی {ع} اور خدیجہ {س} گریاں اور پریشان حالت میں رسول خدا {ص} کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑ رہے تھے، لیکن آنحضرت {ص} کو نہ پاسکے- اسی دوران جبرئیل امین پیغمبر {ص} پر نازل ھوئے اور فرمایا:" حضرت خدیجہ {س} کے رونے کی وجہ سے ملائکہ گریہ و زاری کرنے لگے ہیں اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ انھیں سلام پہنچا دیں اور ان سے کہدیں کہ خداوند متعال نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور انھیں بہشت میں نور سے زینت دئے ھوئے گھر کی بشارت دی ہے"-

علی {ع} اور خدیجہ {س} پیغمبر اکرم {ص} کو مسلسل ڈھونڈ رہے تھے، یہاں تک کہ آنحضرت {ص} کو خون میں لت پت حالت میں پایا اور آپ {ص} کو اسی حالت میں گھر پہنچایا- کفار مکہ کو جب معلوم ھوا کہ علی {ع} اور خدیجہ {س} نے آنحضرت {ص} کو گھر پہنچا دیا ہے، اس لئے وہ حضرت خدیجہ {س} کے گھر آکر پتھراو کرنے لگے- حضرت خدیجہ {س} نے گھر سے باہر آکر ان سے مخاطب ھوکر فرمایا:" کیا تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ اپنی قوم کی شریف ترین خاتون کے گھر پر پتھراو کر رہے ھو؟ اور خدا سے نہیں ڈرتے ھو؟ حضرت خدیجہ {س} کا کلام سن کر کفار کو ذرا شرم محسوس ھوئی اور ان کے گھر سے دور چلے گئے-

اس وقت رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کو جبرئیل امین کا پیغام سنایا اور فرمایا:" اے خدیجہ {س}: جبرئیل امین نے میرے پاس آکر کہا کہ خدیجہ {س} کی خدمت میں پروردگار عالم کا سلام پہنچانا"-حضرت خدیجہ {س} نے جواب میں کہا:" قالت خدیجۃ: اللہ السلام و منہ السلام و علی جبرئیل السلام" "خدا سلام ہے اور سلام وہی ہے، جبرئیل پر سلام ھو اور اے رسول خدا {ص} آپ {ص} پر خدا کا سلام، رحمتیں اور برکتیں ھوں"-

حضرت خدیجہ {س} سے رسول خدا {ص} کی اولاد:

حضرت خدیجہ {س} سے رسول خدا {ص} کی اولاد کی تعداد کے بارے میں مورخین نے مختلف اقوال ذکر کئے ہیں- مشہور قول یہ ہے کہ رسول خدا {ص} کے چھ بچے تھے، جن میں دو بیٹے اور چا ر بیٹیاں تھیں- آنحضرت {ص} کے بیٹوں کے نام بالترتیب قاسم اور عبدا للہ تھے، عبداللہ کا لقب طاہر تھا- آنحضرت {ص} کی بیٹیوں کے نام : زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ {س} تھے-اگر چہ تاریخ میں آنحضرت {ص} کی اولاد کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابراھیم کے علاوہ آنحضرت {ص} کی تمام اولاد کی والدہ حضرت خدیجہ تھیں اور ابراھیم {ع} کی والدہ ماریہ قبطیہ تھیں-

رسول خدا {ص} کی اولاد کی ولادت کی داستان ترتیب سے حسب ذیل ہے:

۱- جناب قاسم، رسول خدا {ص} کے پہلے بیٹے ہیں، جو بعثت سے پہلے مکہ میں پیدا ھوئے- جناب قاسم کی پیدائش کے بعد رسول خدا {ص} کی کنیت " ابو القاسم" مشہور ھوئی- جناب قاسم نے سترہ ماہ کی عمر میں مکہ میں وفات پائی اور قبرستان " حجون" میں سپرد خاک کئے گئے-

تاریخ یعقوبی میں نقل کیا گیا ہے کہ جناب قاسم نے وفات پائی تو آنحضرت {ص} نے ان کے جنازہ کے پاس کھڑےَ ھوکر مکہ کے اطراف میں موجود ایک پہاڑ کی طرف نگاہ کرکے اس سے مخاطب ھوکر فرمایا:

" یا جبل لوان ما بی بک لھدک" اے کوہ؛ قاسم کی موت سے جو مجھ پر گزری ، اگرتجھ پر گزر تی تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے ھو جاتے"

حضرت خدیجہ {س} بھی اپنے شیر خوار بیٹے کی موت پر غم اور شکوے کا اظہار کر رہی تھیں- اس وقت رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھو کر فرمایا:" قاسم اپنی شیر خواری کے زمانہ کو بہشت میں مکمل کر رہا ہے"- پیغمبر اسلام {ص} کے اس کلام سے حضرت خدیجہ {س} کو تھوڑی سی تسلی و تسکین ملی-

۲-عبداللہ، بعثت سے پہلے مکہ میں پیدا ھوئے، ان کے القاب " طیب" و " طاہر " تھے- وہ بھی قاسم کی وفات کے تیس دن بعد مکہ میں دارفانی کو وداع کر گئے- عبدا للہ کی وفات کے بعد، عاص بن وائل سہمی نے رسول خدا { ص} کو " ابتر" کہا- اس شخص کی ناروا نسبت دینے کے جواب میں سورہ کوثر نازل ھوا-

۳-زینب، رسول اکرم{ص} اور جناب خدیجہ کی پہلی بیٹی تھیں – خدیجہ {س} نے اپنی اس بیٹی کو اپنے بھانجے ، ابو العاص بن ربیع کے عقد میں قرار دیا- ان کے ہاں " علی" نامی ایک بیٹا اور " امامہ" نامی ایک بیٹی پیدا ھوئی- علی بچپن میں ہی فوت ھو گیا- لیکن " امامہ" نے مغیرہ بن نوفل سے شادی کی، البتہ ایک مدت کے بعد اس سے جدا ھوئیں- حضرت فاطمہ زہراء {س} کی وفات کے بعد امامہ نے امیرالمومنین حضرت علی {ع} سے شادی کی-

نبی اکرم {ص} کی مکہ سے مدینہ کی طرف ھجرت کے وقت زینب اپنے شوہر ابوالعاص کے ہمراہ مکہ میں رہیں- ابو العاص سنہ ۲ ھجری میں جنگ بدر میں کفار کے لشکر میں شامل تھا اور کفار کے ستر افراد کے ہمراہ اسلامی سپاھیوں کی قید میں آگیا جب یہ طے پایا کہ قیدی فدیہ دے کر آزاد ھو جائیں، تو زینب نے اپنے شوہر کی آزادی کے لئے، حضرت خدیجہ {س} کی طرف سے ان کی شب عروسی میں عطا کئے گئے گلو بند کو فدیہ کے عنوان سے مدینہ بھیجا اور ابو العاص اس گردن بند کو لے کر سروردو عالم حضرت محمد مصطفے {ص} کی خدمت میں حاضر ھوا- پیغمبر اسلام {ص} نے جب اس گلو بند کو دیکھا تو آپ {ص} کو اپنی فدا کار اور جاں نثار شریک حیات حضرت خدیجہ {س} یاد آئیں اور بے اختیار رونے لگے- اور اس کے بعد فر مایا: رحم اللہ خدیجہ{س} ھذہ قلاید ھی جھزتھا بھا" " خداوند متعال خدیجہ {س} کو رحمت عطا کرے، یہ وہ گلو بند ہے جو خدیجہ {س} نے زینب کے لئے فراہم کیا تھا"-

پیغمبر اسلام {ص} نے ابو العاص کی آزادی کی اس شرط پر حمایت کی کہ زینب کو مدینہ آنے سے نہ روکے- ابو العاص نے پیغمبر اسلام {ص} کی یہ شرط قبول کی اور آزادی کے بعد اپنے وعدہ پر قائم رہا اور زینب کو زید بن حارثہ کے ہمراہ مدینہ بھیجا-

سر انجام، ابو العاص، فتح مکہ سے پہلے مسلمان ھوا اور مدینہ آگیا تاکہ دوبارہ زینب سے رشتہ ازدواج قائم کرے- زینب سنہ ۸ھجری میں حاملگی کی حالت میں چند دوسرے افراد کے ہمراہ مدینہ کی طرف جارہی تھیں کہ راستہ میں ایک چٹان کے گرنے سے زخمی ھوکر وفات پا گئیں- ان کے جنازہ کو مدینہ لایا گیا- ان کے جنازہ پر چند خواتین گریہ وزاری کر رہی تھیں- عمر بن خطا ب نے انھیں مارنے کے لئے ایک تازیانہ ہاتھ میں لے لیا، پیغمبر اکرم {ص} نے جناب عمر کو اس کام سے پرہیز کرنے کو کہا- بالاخر زینب کو غسل دے کر خواتین کے گریہ و زاری کے درمیان مدینہ میں سپرد خاک کیا گیا-

۴- رقیہ، رسول خدا {ص} اور خدیجہ {س} کی دوسری بیٹی ہیں کہ ان کے بارے میں تاریخ میں زیادہ معلومات درج نہیں کئے گئے ہیں-

۵- ام کلثوم، حضرت خدیجہ {س} کی تیسری بیٹی تھیں، جنھوں نے مشکلات سے بھری زندگی گزاری ہے-

رقیہ اور ام کلثوم کی شادی، ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل کی درخواست پر بالترتیب عتیبہ و عتبہ بن ابولہب سے کی گئی تھی- ابو لہب کے بیٹوں کے ساتھ ان کی شادی ابو طالب کی ثالثی پر انجام پائی تھی- خدیجہ کبری {س} باوجودیکہ ام جمیل اور اس کے بیٹوں کے برے اخلاق سے واقف تھیں، لیکن انھوں نے پیغمبر اکرم {ص} کے چچا کے احترام میں اس رشتہ کی مخالفت نہیں کی- رسول خدا {ص} کی رسالت کے اعلان کے بعد، رسول خدا {ص} نے وسیع پیمانے پر لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور اس کے نتیجہ میں عتیبہ و عتبہ بن ابولہب نے اپنی ماں ام جمیل کے حکم سے اپنی بیویوں رقیہ و کلثوم کو طلاق دے کر انھیں اپنے باپ کے گھر بھیجا تاکہ حضرت محمد {ص} اور حضرت خدیجہ کے لئے بیشتر اذیت و آزار کا سبب بنیں- پیغمبر اسلام {ص} کی دو بٹیاں اپنے باپ کے گھر لوٹیں اور پیغمبر اکرم {ص} اور حضرت خدیجہ {س} نے ان کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا- ایک مدت کے بعد عثمان بن عفان نے رقیہ کے بارے میں خواستگاری کی اور ان کے ساتھ شادی کی-

۶- حضرت فاطمہ زہراء {س}، پیغمبر اسلام {ص} کی سب سے چھوٹی اور آخری اولاد تھیں- حضرت زہراء {س} تقریباً بعثت سے پانچ سال قبل مکہ میں پیدا ھوئی ہیں- تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر اسلام {ص} کی اولاد کے بارے میں کچھ مزید اقوال بھی ذکر کئے گئے ہیں مگر ہم ان کے بیان سے صرف نظر کرتے ہیں-

حضرت فاطمہ {س} کا تولد:

بعثت کے پانچویں سال جبرئیل امین {ع}پیغمبر اسلام {ص} پر نازل ھوئے اور آنحضرت {ص} سے مخاطب ھو کر فرمایا:" اے محمد؛ خدا وند متعال نے سلام بھیجا ہے اور حکم کیا ہے کہ چالیس شب و روز خدیجہ {س} سے دوری اختیار کرنا- آنحضرت {ص} بھی خداوند متعال ک حکم کے مطابق چالیس دن تک حضرت خدیجہ {س} کے گھر نہیں گئے- اس دوران رسول خدا {ص} دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے تھے- آنحضرت {ص} نے ایک دن عمار یاسر کو اپنے پاس بلاکر ان سے فرمایا:" عمار؛ خدیجہ {س} کے پاس جانا اور ان سے کہنا کہ میرا ان کے پاس نہ آنا کسی تنفر اور ناراضگی کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ پروردگار کا حکم ہے- میں اس وقت فاطمہ بنت اسد کے گھر میں ھوں ، جب تک وعدہ الہی پورا ھو جائے"-

جب چالیس دن مکمل ھوگئے، جبرئیل امین {ع} ایک غذا بھرے خوان کو لے کر آنحضرت

{ص} کی خدمت میں نازل ھوئے اور کہا:" یا محمد؛ خداوند متعال نے آپ {ص} کو سلام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آج رات کو یہ غذا تناول کرنے کے بعد جناب خدیجہ {س} کے پاس جانا"-

رسول خدا {ص} نے خوان کو کھول کر دیکھا کہ اس میں ایک خوشہ انگور، ایک خوشہ خرما اور بہشت کے پانی کا ایک جام تھا- آنحضرت {ص} نےاسے تناول فرمایا- اس کے بعد حضرت خدیجہ {س} کے گھر تشریف لے گئے- اس رات کو فاطمہ {س} کا نطفہ منعقد ھوا- حضرت خدیجہ {س} محسوس کر رہی تھیں کہ ان کے شکم میں موجود بچہ ہر لحاظ سے دوسرے بچوں سے فرق رکھتا ہے- جب وضع حمل کا وقت آگیا، حضرت خدیجہ {س} تن تنہا گھر میں بیٹھی تھیں اور ان پر غم و اندوہ کا عالم طاری ھوچکا تھا، انھیں اس وقت مدد کی ضرورت تھی- حضرت خدیجہ {س} نے اپنے ارد گرد ایک نظر ڈالی، لیکن ان کے پاس کوئی نہیں تھا، پریشانی کے عالم میں گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئیں اور دروازہ کی طرف چشم براہ رہیں- اچانک چار بلند قامت خواتین کمرے میں داخل ھوگئیں، حضرت خدیجہ {س} انھیں دیکھ کر ڈر گئیں- انھوں نے حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر کہا: اے خدیجہ {س} ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہمیں پرودگار عالم نے بھیجا ہے، ہم آپ کی بہنیں ہیں اور آپ کی مدد کے لئے ہیں- اس کے بعد ان میں سے ہر ایک نے حسب ذیل اپنا تعارف کرایا:

پہلی خاتون نے کہا: میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ {ع} کی بیوی، " سارہ" ھوں- دوسری خاتون نے کہا: میں فرعون کی بیوی " آسیہ" ھوں- تیسری خاتون نے کہا: میں " مریم عذرا" ھوں- اور آخری خاتون نے کہا کہ: میں حضرت ابراھیم خلیل اللہ {ع} کی بہن " صفورا" ھوں-

کچھ لمحات کے بعد حضرت خدیجہ کی بیٹی متولد ھوئیں- پیغمبر اسلام {ص} نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیا اور فقرا اور مسکینوں کو کھانا کھلایا اور بیٹی کا نام فاطمہ {س} رکھا- رسول خدا {ص} حضرت فاطمہ {س} سے انتہائی محبت کرتے تھے اور ان کی بلند مرتبہ شخصیت کے بارے میں کافی احادیث بیان فرمائی ہیں-

پہلی نماز جماعت اور نماز پڑھنے والے:

بعثت کے دن جبرئیل امین {ع} کے رسول خدا {ص} کے یہاں نازل ھوکر آنحضرت {ص} پر رسالت کا ابلاغ کرنے کے دو دن بعد جبرئیل امین دوبارہ پیغمبر اسلام {ص} کے یہاں نازل ھوئے اور نماز قائم کرنے کا حکم پہنچا دیا-

ابن اثیر اپنی کتاب " الکافی فی التاریخ" میں لکھتے ہیں:" خداوند متعال نے شریعت اسلام میں جو پہلے احکام واجب قرار دئے، وہ توحید کا اقرار کرنا، بتوں کی پرستش سے پرہیز کرنا اور نماز قائم کرنا تھے- جب نماز واجب ھونے کا حکم نازل ھوا، اس وقت پیغمبر اسلام {ص} شہر مکہ کے اطراف میں ایک بلندی پر تشریف فرما تھے، کہ جبرئیل {ع} آنحضرت {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے- وہاں پر ایک چشمہ جاری ھوا- جبرئیل نے اس چشمہ کے پانی سے وضو کیا- پیغمبر اسلام {ص} جبرئیل امین {ع} کے وضو کرنے کی کیفیت کا مشاہدہ فرماتے رہے اور ان سے سیکھا- اس کے بعد پیغمبر اسلام {ص} نے بھی جبرئیل کے مانند وضو کیا- اس کے بعد جبرئیل نماز کے لئے کھڑے ھوئے اور رسول خدا {ص} بھی جبرئیل کے مانند نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ھوئے-

نماز ختم ھونے کے بعد پیغمبر اسلام {ص} گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ {س} کو وضو کرنا اور نماز پڑھنا سکھایا- اس جاں نثار اور وفا دار خاتون نے بھی پیغمبر اسلام {ص} سے وضو کرنا اور نماز پڑھنا سیکھا- اس کے بعد رسول خدا {ص} نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ھوئے اور حضرت خدیجہ {س} نے بھی رسول خدا {ص} کے ساتھ نماز پڑھی-

اس کے بعد علی {ع} گھر میں داخل ھوئے اور انھوں نے بھی رسول خدا {ص} سے وضو اور نماز پڑھنے کی کیفیت کو سیکھا- اس کے بعد جب بھی رسول خدا {ص} نماز کے لئے کھڑے ھوتے تھے، علی {ع} اور خدیجہ {س} آپ {ص} کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے- اس کے بعد کبھی کبھی وہ کعبہ کے روبرو نماز پڑھتے تھے اور مشرکین تعجب اور حیرت سے دیکھتے رہتے تھے-

عبداللہ بن مسعود، اس زمانہ میں، جب ابھی کوئی بھی پیغمبر اسلام {ص} پر ایمان نہیں لایا تھا، علی {ع} اور خدیجہ {س} کے آنحضرت {ص} کے پیچھے نماز پڑھنے کے اپنے چشم دید مشاہدات کے بارے میں یوں بیان کرتے ہیں:

" اسلام کے بارے میں سب سے پہلے جس چیز کو میں نے جانا، وہ یہ تھی کہ، میں اپنے چچا اور قبیلہ کے افراد کے ہمراہ، مکہ میں داخل ھوا، جب ہم تھوڑا سا عطر خریدنا چاہتے تھے، ہمیں عباس بن عبدالمطلب کا تعارف کرایا گیا- عباس بن عبدالمطلب، کعبہ کے پاس چاہ زمزم پر بیٹھے تھے- میں ان کے پاس جاکر ان کے نزدیک بیٹھ گیا- ہم آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ ایک پرجمال شخص باب صفا سے مسجدالحرام میں داخل ھوئے، وہ سفید لباس پہنے ھوئے تھے، گیسو اور داڑھی والے تھے، ان کے دندان سفید تھے اور ان کا چہرہ چاند کے مانند درخشان تھا- ان کے بائیں جانب ایک نوجوان تھا اور ان کے پیچھے ایک با پردہ خاتون تھیں- وہ حجرالاسود کے پاس گئے- پہلے اس شخص نے حجرالاسود پر ہاتھ پھیرا، اس کے بعد اس جوان نے اس کے بعد اس خاتون نے حجرالاسود پر اپنا ہاتھ پھیرا- اس کے بعد تینوں افراد کعبہ کی طرف متوجہ ھوئے- جب انھوں نے سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا، اور اس کے بعد حجر اسماعیل کے پاس آکر نماز جماعت پڑھی- وہ شخص تکبیر پڑھتے وقت اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھاتے تھے، جب وہ رکوع بجا لاتے تھے تو وہ جوان اور خاتون بھی ان کے ساتھ رکوع بجا لاتے تھے اور جب وہ کھڑے ھوتے تھے تو وہ دو افراد بھی کھڑے ھوتے تھے اور جب وہ سجدہ میں جاتے تو وہ دونوں افراد بھی ان کے ساتھ سجدہ میں جاتے تھے-

میں نے عباس بن عبدالمطلب سےکہا: یہ بڑا عجیب کام ہے؛ عباس نے کہا کیا اس شخص کو پہنچاتے ھو؟ میں نے کہا: نہیں- عباس نے کہا: یہ میرا بھتیجا، محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے- اس کے بعد پوچھا: کیا اس جوان کو پہچانتے ھو؟ میں نے کہا: نہیں-انھوں نے کہا: وہ میرا بھتیجا علی بن ابیطالب ہے- اس کے بعد پوچھا : کیا اس خاتون کو پہنچاتے ھو؟ میں نے کہا: نہیں- عباس نے کہا: محمد {ص} کی بیوی، خدیجہ بنت خویلد ہیں- اس کے بعد مجھ سے مخاطب ھوکر کہا: آسمان وزمین کے پروردگار نے ان کو اس دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور اس وقت کرہ ارض پر صرف یہی تین افراد اس دین پر قائم ہیں-

حضرت فاطمہ {س} کےمستقبل کے بارے میں حضرت خدیجہ {س} کی تشویش:

حضرت خدیجہ {س} اپنی زندگی کے آخری ایام میں علالت کی وجہ سے صاحب فراش ھوچکی تھیں- ایک دن اسماء بنت عمیس ان کی عیادت کے لئے آگئیں- جب اسماء کمرے میں داخل ھوئیں، تو حضرت خدیجہ {س} کو مضطرب اور پریشان حالت میں پایا- اور ان سے مخاطب ھوکر کہا: آپ دنیا کی بہترین خواتین میں سے ہیں، آپ نے اپنی پوری دولت راہ خدا میں بخش دی ہے، آپ رسول اکرم {ص} کی شریک حیات ہیں اور آنحضرت {ص} نے بارہا آپ کو بہشت کی بشارت دی ہے، اس کے باوجود آپ کیوں پریشانی کے عالم میں گریہ و زاری کر رہی ہیں؟

حضرت خدیجہ {س} نے جواب میں فرمایا: اسماء؛ میں فاطمہ {س} کے بارے میں پریشان ھوں، بیٹی کو ازدواج کے وقت ماں کی ضرورت ھوتی ہے- میں ڈرتی ھوں، کہیں اس دنیا سے چلی جاوں اور فاطمہ {س} کے لئے کوئی نہ ھو جو ماں کا فرض ادا کرے- اسماء بنت عمیس نے کہا: اے میری محترم خاتون؛ پریشان نہ ھونا، میں آپ سے عہد کرتی ھوں کہ اگر اس وقت تک میں زندہ رہی تو فاطمہ {س} کے لئے آپ کی جگہ پر ماں کا فرض ادا کروں گی اور ان کی ہر ضرورت کو پورا کروں گی-

حضرت خدیجہ {س} کی رحلت کے بعد جب حضرت فاطمہ زہراء {س} کی عروسی کی رات آن پہنچی تو پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا:" دلھن کے کمرے سے تمام عورتیں باہر نکل جائیں اور وہاں پر کوئی باقی نہ رہے"- سب عورتیں نکل گئیں، لیکن پیغمبر اکرم {ص} متوجہ ھوئے کہ ابھی اسماء بنت عمیس کمرے میں موجود ہیں- آنحضرت {ص} نے فرمایا:" کیا میں نے یہ نہیں کہاکہ سب عورتیں باہر نکل جائیں؟ " اسماء نے جواب میں عرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ، میں نے بھی آپ {ص} کا حکم سنا اور مجھے آپ {ص} کے حکم کی نافرمانی کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا، لیکن مجھے حضرت خدیجہ {س} سے کئے ھوئے وعدہ نے یہاں رکنے پر مجبور کیا، کیونکہ میں نے ان کے ساتھ عہد و پیمان کیا ہے کہ آج کی رات ، فاطمہ {س} کے لئے ماں کا رول ادا کروں"-

جب رسول اکرم {ص} نے اسماء کا یہ جواب سنا، تو آپ {ص} کی چشم ہائے مبارک سے اشک جاری ھوئے اور بارگاہ الہی میں دست ہائے مبارک کو اٹھاکر اسماء بنت عمیس کے حق میں دعا کی-

حضرت خدیجہ {س} کی شوہر داری:

حضرت خدیجہ {س} کی شوہر داری کا طریقہ کار شوہر داری کا کامیاب ترین اور بے مثا ل طریقہ کار ہے، جو آج کے خاندانوں کے لئے جامع اور مکمل نمونہ عمل بن سکتا ہے-

حضرت خدیجہ{س} دل وجان سے اپنے شوہر، رسول خدا {ص} پر ایمان رکھتی تھیں اور آپ {ص} سے والہانہ محبت کرتی تھیں- حضرت خد یجہ {س} کا یہ عشق و محبت ان کی زندگی کے ابتدائی چند ایام اور چند مہینوں تک محدود و مخصوص نہیں تھا، بلکہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ان کے باہمی عشق و محبت میں اضافہ ھوتا جارہا تھا-

اسلام کی یہ بے مثال خاتون، اپنے کردار، طریقہ کار اور ہنرمندی سے اپنے گھر کے ماحول کو اپنے شوہر کے لئے آرام و سکون کے مرکز میں تبدیل کرنے میں کامیاب ھوئیں اور اس مقصد کو تقویت بخشنے کے لئے ہر قسم کے امکانات اور وسائل سے استفادہ کرتی تھیں- حضرت خدیجہ {س} نے نہ صرف اپنی پوری دولت پیغمبر اسلام {ص} کو بخش دی تھی، بلکہ انھوں نے اپنی محبت، جذبات، آرام و آسائش حتی کہ روح و جان کو کسی قسم کی توقع کے بغیر اپنے شوہر کے اختیار میں دے دیا تھا-

حضرت خدیجہ{س} اس چیز کو پسند کرتی تھیں، جسے حضرت محمد مصطفے {ص} پسند فرماتے تھے اور وہی چیز چاہتی تھیں، جسے ان کے شوہر چاہتے تھے- وہ اپنے دل و جان اور تمام جذبات سے اپنے شوہر پر ایمان رکھتی تھیں اور انھیں روئے زمین پر بہترین، مکمل ترین اور شریف ترین انسان جانتی تھیں کہ خداوند متعال نے انھیں ان کی شریک حیات بننے کا شرف بخشا تھا-

پیغمبر اسلام {ص} کی یہ عارف اور معنویات کی ما لک بیوی، تمام قسم کی بد ظنیوں اور بے جا حساسیتوں سے پاک و منزہ تھیں، جبکہ ان ہی بد ظنیوں اور حساسیتوں کی وجہ سے عام طور پر خاندانوں کی زندگی کا آرام و سکون مختل ھوجاتا ہے، اس کے برعکس حضرت خدیجہ {س} اپنے شوہر پر مکمل ایمان و اعتماد رکھتی تھیں- مثال کے طور پر، ابھی حضرت خدیجہ {س} کی پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ ازدواجی زندگی شروع ھوئے چند دن ہی گزرے تھے کہ آنحضرت {ص} اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرنے کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ کر غارحرا میں چلے گئے- حضرت خدیجہ {س} نےاس پوری مدت کے دوران اس تنہائی کے بارے میں کوئی گلہ و شکوہ نہیں کیا، بلکہ ہر روز کھانا پانی مہیا کرکے اپنے ساتھ غارحرا میں لے جاتی تھیں، یا اسےحضرت علی {ع} کے ہاتھ غارحرا میں بھیجتی تھیں-

پیغمبر اسلام {ص} کے رسالت پر مبعوث ھونے کے بعد کفار و مشرکین کی طرف سے، دشمنیاں، مخا لفتیں، بغض و حسد اور اذیت و آزار کا سلسلہ شروع ھوا اور حضرت خدیجہ {س} ہمیشہ پروانہ کے مانند آنحضرت {ص} کے وجود مبارک کے گرد گھومتی اور آپ {ص} کی حفاظت کرتی تھیں اور آپ {ص} کے لئے آرام و سکون کا ماحول پیدا کرتی تھیں اور آنحضرت {ص} کے غم و آلام کے بوجھ کو ہلکا کرتی تھیں-

ایک دن پیغمبر خدا {ص} گھر میں داخل ھوئے، آپ {ص} اپنے دست ہائے مبارک سے اپنے چہرے کو ڈھانپے ھوئے تھے- حضرت خدیجہ {س} پیغمبر اسلام {ص} کو اس حالت میں دیکھ کر آنحضرت {ص} کی طرف دوڑیں اور پریشانی کے عالم میں آنحضرت {ص} کے دست ہائے مبارک کو آپ {ص} کے چہرے سے ہٹا دیا، اچانک حضرت خدیجہ {س} کی نگاہ انحضرت {ص} کے چہرے پر لگے طمانچے کے نشان پر پڑی اور دیکھا کہ آنحضرت{ص} کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں-

حضرت خدیجہ {س} نے پوچھا: یا رسول اللہ؛ آپ {ص} کیوں رو رہے ہیں؟ پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" اے خدیجہ؛ ان لوگوں کی گمراہی پر رو رہا ھوں-

حضرت خدیجہ {س} اضطراب اور پریشانی کے عالم میں اپنے گھر کے دروازہ پر کھڑی تھیں کہ حضرت حمزہ کو شکار سے لوٹتے ھوئے دیکھا- فوراً ان کے سامنے جاکر ان سے مخاطب ھوکر کہا:" اے حمزہ، آپ شیر کو شکار کرنے کے لئےجاتے ہیں اور لوگ آپ کے بھتیجے کے چہرے پر طمانچے مارتے ہیں اور کوئی ان کا دفاع نہیں کرتا ہے"؛

حضرت حمزہ نے یہ خبر سننے کے بعد غضبناک حالت میں کہا:" جب تک نہ اس کا انتقام لوں، میں آرام سے نہیں بیٹھوں گا"- اس کے بعد حضرت حمزہ کعبہ کے پاس کھڑے ھوئے اور بلند آواز میں اعلان کیا :" اے مکہ کے باشندو؛ جان لو میں بھی مسلمان ھوا ھوں اور اپنے بھتیجے کے دین کو قبول کرچکا ھوں اور جو ان پر حملہ کرے گا اس کا میرے ساتھ مقابلہ ھوگا"-

رسول اکرم {ص} ایک حدیث میں فرماتے ہیں:" ما اوذی نبی بمثل ما اذیت" " کسی پیغمبر نے میرا جیسا آزار نہیں دیکھا ہے"- اس کے باوجود حضرت خدیجہ {س} ان سخت اور مشکل ایام کے دوران تمام ان اذیت و آزار کے مقابلے میں پیغمبر اکرم {ص} کی مدافع اور سچی مدد گار اور آنحضرت {ص} کی روح و جان کو آرام و سکون بخشنے والی تھیں-

حضرت خدیجہ {س} اپنے شوہر سے عشق و محبت رکھتی تھیں اور دل و جان سے پیغمبر اسلام {ص} کو دوست رکھتی تھیں- یہ عظیم خاتون مناسب اوقات پر اپنے شوہر کے ساتھ رکھنے والے اپنے باطنی عشق و محبت کا مختلف صورتوں میں اظہار کرتی تھیں-

حضرت خدیجہ {س} پیغمبر اکرم {ص} کے بارے میں اپنی دلی اور باطنی محبت کو مندرجہ ذیل خوبصورت اشعار میں بیان فرماتی ہیں:

فلو اننى امشیت فى كل نعمة و دامت لى الدنیا و ملك الاكاسرة

فما سویت عندى جناح بعوضة اذا لم یكن عینى لعینك ناظرة

"اگر دنیا کی تمام نعمتیں اور بادشاھوں کی سلطنتیں میرے پاس ھوتیں اور ان کی مملکتیں ہمیشہ میرے اختیار میں ھوتیں، تو ان کی قدر و قیمت میرے لئے ایک مچھر کے پر کے برابر نہیں ہے، جب میری آنکھوں کے سامنے آپ {ص} نہ ھوں"-

ایک مشہور عرب مصنف، سلیمان کتانی کے بقول:" خدیجہ {س} اپنی محبت اور دوستی کو حضرت محمد {ص} کی خدمت میں ھدیہ کے طور پر پیش کرتی ہیں، لیکن اس کے مقابلے میں آپ {ص} سے سعادت کے تمام گوشے حاصل کرتی تھیں"-

حضرت خدیجہ {س} کا ادب:

حضرت خدیجہ {س} راسخ دینی اعتقادات، خاندانی شرافت اور سماجی شخصیت کی مالک تھیں۔ جس کی وجہ سےان کے قول فعل اور دوسروں کا احترام کرنے کا عالی ادب ان کی ذات کا اٹوٹ حصہ بن چکا تھا- وہ اسلام سے پہلے بھی اپنے تاجروں، کارکنوں اور ہمسایوں کے ساتھ کافی ادب و احترام سے پیش آتی تھیں- تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت خدیجہ {س} نے کبھی دوسروں کے ساتھ بے ادبی اور بے احترامی کا برتاو نہیں کیا-

حضرت خدیجہ {س}، حضرت رسول اکرم {ص} کے ساتھ اپنی مشترک اور ازدواجی زندگی کے دوران، اپنے شوہر کی رسالت کو صحیح طور پر ادراک کرنے کی وجہ سے آنحضرت {ص} کے حق میں نا قابل توصیف ادب و احترام کی قائل تھیں-

جس دن حضرت خدیجہ {س} نے قریش کے امین کو تجارت کے لئے دعوت دی، انھوں نے اسی دن رسول اکرم {ص} کی شخصیت اور بلند مقام کو سمجھ لیا تھا اور اسی لئے میسرہ اور ناصح نامی اپنے دو غلاموں سے مخاطب ھوکر کہتی ہیں:

« اعلما قد ارسلت اليكما امينا علي اموالي و انه امير قريش و سيّدها، فلا يدٌ علي يده، فان باع لايمنع، و ان ترك لا يؤمر، فليكن كلامكما بلطف و أدب و لا يعلوا كلامكما علي كلامه».

" میں نے اپنے مال پر ایک امین کو مقرر کیا ہے، یہ وہی قریش کے عظمت والے امیر ہیں- ان سے بالاتر کوئی نہیں ہے- اگر وہ کسی مال کو بیچنے کا فیصلہ کریں، تو کسی کو رکاوٹ بننے کا حق نہیں ہے-اگر کسی چیز کو فروخت نہ کرنے کا فیصلہ کریں، تو کسی کو انھیں حکم دینے کا کوئی حق نہیں ہے- آپ {دونوں} کی ذمہ داری ہے کہ ان کے ساتھ مہربانی اور ادب سے پیش آئیں اور ان کی بات کے خلاف کوئی بات نہ کریں"- اس کے بعد جب رسول خدا {ص} سے ازدواج کی تجویز پیش کی گئی اور دیکھا کہ ان کے شوہر مالی لحاظ سے تنگ دست ہیں، تو آنحضرت {ص} سے مخاطب ھوکر فرمایا:

"واللّه‏ يا محمد ان كان مالك قليلاً فمالي كثير، و من يسمح لك بنفسه كيف لا يسمح لك بماله، و أنا و مالي و جواري و جميع ما املك بين يديك و في حكمك لا امنعك منه شيیا"

" اے محمد {ص} خدا کی قسم اگر آپ {ص} کے پاس کوئی مال و دولت نہیں ہے، میرے پاس کافی دولت ہےاور جس نے اپنے آپ کو آپ {ص} کے اختیار میں قرار دیا ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ اس کا مال آپ {ص} کے اختیار میں نہ ھو؟ میں، میرا سرمایہ، میری کنیزیں اور جو کچھ میرے پاس ہے، وہ سب آپ {ص} کا ہے اور اس میں میری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے"-

عقد کی تقریب میں بھی جب خطبہ عقد پڑھا گیا اور تمام مہمان ایک ایک کرکے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے اور پیغمبر اکرم {ص} بھی دوسرے مہمانوں کے مانند اپنے چچا ابو طالب کے گھر جانا چاہتے تھے تو حضرت خدیجہ {س} نے اپنے شوہر سے مخاطب ھوکر کہا:

" الی بیتک، فبیتی بیتک و انا جاریتک" " اپنے گھر میں داخل ھو جائیے، میرا گھر آپ {ص} کا گھر ہے اور میں آپ {ص} کی کنیز ھوں- اختیار آپ {ص} کو ہے اور میری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے"-

حضرت خدیجہ {س} اپنی زندگی کے آخری لمحات میں جب دارفانی کو وداع کر رہی تھیں، اور رسول خدا {ص} ان کے سراہنے پر تشریف فرما تھے تو آنحضرت {ص} سے مخاطب ھو کر فرمایا:" میں نے آپ {ص} کے حق میں کوتاہی کی ہے، مجھے بخش دینا"- پیغمبر اسلام {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں نے کبھی آپ کی طرف سے کسی قصور و خطا کا مشاہدہ نہیں کیا ہے، آپ نے کافی زحمتیں اٹھائی ہیں اور میرے گھر میں کافی خستہ ھو چکی ہیں"-

یہ عظیم خاتون، اپنے مخالفوں اور دشمنں سے بھی ادب و احترام کا خیال رکھتی تھیں، جنھوں نے انھیں مسلسل کئی برسوں تک اذیت و آزار پہنچائے تھے- ابولہب کی بیوی " ام جمیل" ، حضرت خدیجہ {س} کی نزدیک ترین ہمسایہ تھی، اور حضرت خدیجہ {س} اور رسول خدا {ص} کو اذیت و آزار پہنچانے اور دل دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتی تھی- لیکن حضرت خدیجہ {س} نے کبھی اس کی بے احترامی و بے ادبی نہیں کی-

حضرت خدیجہ {س} کی سخاوت:

حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کی مشہور ترین سخی اور فیاض خاتون تھیں- اسلام سے پہلے بھی ان کا گھر حاجتمندوں، فقیروں اور محتاجوں کی پناہ گاہ ھوتا تھا- انھیں اپنے ہمسایوں اور رشتہ داروں کا کافی خیال رہتا تھا اور مختلف مناسبتوں سے ان کی مدد فرماتی تھیں- جو تاجر اور سوداگر سرمایہ نہ رکھنے کی وجہ سے تجارت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، انھیں حضرت خدیجہ{س} دعوت دیتی تھیں اور اپنے سرمایہ کے ایک حصہ کو تجارت کرنے کے لئے ان کے حوالے کر دیتی تھیں-

حضرت محمد مصطفے {ص} سے ازدواجی زندگی شروع کرنے کے ابتدائی دنوں میں ہی حضرت خدیجہ {س} نے اپنے تمام سرمایہ اور مال و دولت کو آنحضرت کی خدمت میں بخش دیا، تاکہ آپ {ص} جس طرح مصلحت سمجھیں اسے اسلام کی ترویج اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے خرچ کریں-

ذیل میں ہم حضرت خدیجہ {س} کی چند بخششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱- زید، قبیلہ کلب کا جوان تھا، جسے ڈاکووں نے اسیر بنالیا تھا- حضرت خدیجہ{س} کے بھتیجے، حکیم بن حزم نے بازار عکاظ میں اس غلام کو خرید کر حضرت خدیجہ{س} کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا تھا- پیغمبراکرم {ص} زید سے کافی محبت کرتے تھے، حضرت خدیجہ {س} نے جب پیغمبر اکرم {ص} کی زید کے تئیں اس محبت کا مشاہدہ کیا، تو زید کو آپ {ص} کی خدمت میں بخش دیا- پیغمبر اکرم {ص} نے زید کو آزاد کرکے اپنے پاس رکھا اور اس کے بعد زید پیغمبر اکرم {ص} کے منہ بولے بیٹے کے عنوان سے مشہور ھوئے-

۲- ایک دن رسول اکرم {ص} اپنے گھر میں بیٹھے ھوئے تھے اور حضرت خدیجہ {س} سے گفتگو کر رہے تھے- اسی دوران خبر ملی کہ [ آنحضرت کی رضاعی ماں ]حلیمہ بنت عبداللہ سعدیہ آگئی ہیں- پیغمبر اسلام {ص} حلیمہ سعدیہ کا نام سننے کے بعد، بہت خوش ھوئے- حضرت خدیجہ {س} حلیمہ کے استقبال کے لئے باہر نکلیں اور انھیں گھر کے اندر لے آئیں- جب حلیمہ سعدیہ گھر میں داخل ھوئیں، تو آنحضرت {ص} نے انھیں دیکھتے ہی فرمایا:" میری ماں؛ میری ماں؛ میری ماں؛" اور اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنی ردا کو جناب حلیمہ کے پاوں کے نیچے پھیلا دیا اور ان کے سامنے ادب سے دو زانو بیٹھے اور ان کے ساتھ ایسا برتاو اور گفتگو کرتے تھے جیسے آپ {ص} کی والدہ آمنہ بنت وھب آپ {ص} کی ملاقات کے لئے آئی ہیں-

پیغمبر اسلام {ص} نے حلیمہ کی زندگی اور ان کے قبیلہ کے حالات پوچھے- حلیمہ سعدیہ نے جواب میں کہا: قبیلہ کے لوگوں کی زندگی سختی سے گزر رہی ہے، کیونکہ علاقہ میں خشک سالی ہے اور قحط پڑگیا ہے اور زمینیں خشک اور بنجر بن چکی ہیں-

پیغمبر اسلام {ص} نے یہ موضوع حضرت خدیجہ {س} کے پاس بیان کیا- حضرت خدیجہ {س} نے یہ حالت سن کر چالیس اونٹ اور بھیڑ جناب حلیمہ کو بخش دئے اور وہ خوشی اور مسرت کے ساتھ اپنے وطن کی طرف روانہ ھوئیں- اسلام کے ظہور کے بعد جناب حلیمہ اپنے شوہر کے ہمراہ مکہ آئیں اور دونوں میاں بیوی نے اسلام قبول کیا-

۳- ابولہب کی ثوبیہ نامی ایک کنیز، پیغمبر اسلام {ص} کی مادر گرامی کے بعد پہلی عورت تھیں جنھوں نے آنحضرت {ص} کو دودھ پلایا تھا- پیغمبر اسلام {ص} ان سے کافی محبت اور احترام سے پیش آتے تھے- مکہ کی محترم خاتون {جناب خدیجہ} نے جب ثوبیہ کے تئیں رسول اکرم {ص} کے محبت و احترام کا مشاہدہ کیا تو ابولہب سے کہا کہ ثوبیہ کو ان کے ہاتھ بیچ دے تاکہ اسے آزاد کرے، لیکن ابولہب ثوبیہ کو بیچنے پر راضی نہیں ھوا- جب حضرت خدیجہ {س} ثوبیہ کو خریدنے سے مایوس ھوئیں، تو پیغمبر اسلام {ص} کو شاد و خوشحال کرنے کے لئے ہمیشہ ثوبیہ کا خاص خیال رکھتی تھیں اور اس کی ہر قسم کی مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتی تھیں-

حضرت خدیجہ {س} کا صبر و حلم:

حضرت خدیجہ {س} کی پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ پچیس سالہ مشترک زندگی کا زمانہ ان کی زندگی کا سخت ترین اور مشکل ترین دور تھا- ان کی مشترک زندگی کے ابتدائی سال پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت کو مخفی رکھنے اور مسلمانوں کے اسلامی احکام کو پوشیدہ اور مخفی انجام دینے کے ہمزمان تھے- اس کے بعد اسلام کے کھلم کھلا اعلان کا زمانہ شروع ھوا اور مسلمان عمومی مراکز میں ظاہر ھونے لگے، لیکن کفار و مشرکین مکہ کی طرف سے انھیں شدید اذیت و آزار کا سامنا ھونے لگا- اس کے بعد مسلمانوں کے لئے شعب ابیطالب میں محاصرہ کا تین سالہ دور شروع ھوا- حضرت خدیجہ {س} نے ان تمام سخت اور نا قابل برداشت مراحل کے دوران صبر و بردباری کا مظاہرہ کیا اور ہمیشہ رسول خدا {ص} کے قدم بہ قدم چال کر ساتھ دیتی رہیں- حضرت خدیجہ {س} کے رسول خدا {ص} سے شادی کرنے کے بعد، مکہ کی عورتوں نے ان کے ساتھ ترک موالات کیا، یہاں تک کہ حضرت خدیجہ {س} کے سلام کا جواب تک نہیں دیتی تھیں- ابولہب کی بیوی، ام جمیل حضرت خدیجہ {س} کی دیوار بیچ ہمسایہ تھی اور وہ انھیں ہر قسم کی اذیت و آزار پہنچانے میں دریغ نہیں کرتی تھی اور ہر قسم کے کوڑا کرکٹ کو حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں پھینکتی تھی اور ان کے لیے رفت و آمد میں رکاوٹیں ڈالتی تھی- اس عظمت والی خاتون نے تنہائی اور مکہ کی عورتوں کی طعنہ زنیوں کو صبر و شکیبائی سے برداشت کیا اور کبھی شکوہ تک نہیں کیا-

جب خداوند متعال نے سالہا سال انتظار کے بعد، حضرت خدیجہ {س} کو دو بیٹے عطا کئے، دونوں بیٹے مختصر مدت کے فاصلہ سے یکے بعد دیگرے فوت ھوگئے ، لیکن حضرت خدیجہ {س} نے اپنے دونوں بیٹوں کی موت پر صبر کا مظاہرہ کیا اور ایسا کلام تک زبان پر جاری نہیں کیا، جو رسول خدا {ص} کے لئے رنج کا سبب بن جاتا-

قریش کی سردار خاتون، حضرت خدیجہ {س} کی بردباری اور صبر و شکیبائی کے جلووں میں سے ایک یہ تھا کہ جب ابولہب کے بیٹوں، عتبہ اور عتیبہ نے اپنی بیویوں، یعنی حضرت خدیجہ کی بیٹیوں، ام کلثوم اور رقیہ کو طلاق دیدی اور انھیں ہمیشہ کے لئے گھروں سے نکال باہر کیا اور حضرت خدیجہ[س] کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ کے گھر لوٹیں تو حضرت خدیجہ {س} نے اپنی بیٹیوں کو اپنی آغوش میں لے لیا اور لوگوں کی طعنہ زنیوں کے جواب میں فرماتی تھیں" خداوند متعال کی طرف سے اس کام میں ضرور کوئی خیر ھوگی"

ایک مدت کے بعد رقیہ نے دوبارہ شادی کی- لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا تھاکہ مشرکین کی طرف سے اذیت و آزار اس امر کا سبب بنا کہ رقیہ مکہ میں اپنے گھر بار کو چھوڑ کر اپنے شوہر اور دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ھجرت کر گئیں، اس طرح پیغمبر اسلام {ص} کی شریک حیات، حضرت خدیجہ{س} اپنی بیٹی کے فراق میں چشم براہ رہیں-

اس عظمت والی خاتون کے صبر و شکیبائی کے دوسرے جلوے یہ تھے کہ بعثت کے پانچویں سال، یعنی حضرت فاطمہ زہراء {س} کے تولد کے وقت گھر میں تنہا بیٹھی تھیں- مکہ کی عورتوں نے انھیں تن تنہا چھوڑا تھا اور یہ پیغام بھیجا تھا کہ: " ہم تمھارے مخالف ہیں، کیونکہ تم نے ابوطالب کے یتیم کے ساتھ شادی کی ہے، ہم ہرگز تمھارے پاس نہیں آئیں گے اور تمھاری کوئی مدد نہیں کریں گے"- ایسے حالت میں حضرت خدیجہ کی ملاقات کے لئے کوئی نہیں آتا تھا کہ ان کی احوال پرسی کرتا-

حضرت خدیجہ {س} نے اپنی نشیب و فراز والی پوری زندگی کے دوران، جب کفار مکہ کی طرف سے آپ {س} کو بےحد اذیت و آزار پہنچایا جاتا تھا، صبر و شکیبائی کا دامن نہیں چھوڑا، اور کبھی زبان پر شکوے کا کوئی ایسا لفظ نہیں دہرایا، جو پیغمبر اکرم {ص} کے رنج والم میں اضافہ کا سبب بن جاتا-

خداوند متعال نے حضرت خدیجہ {س} کے صبر و شکیبائی کے صلہ میں حضرت فاطمہ زہراء {س} کی ولادت کی رات کو، جب آپ {س} گھر مں تن تنہا بیٹھی تھیں، آپ {س} کو تنہا نہیں چھوڑا اورخلقت کی برترین خواتین، یعنی، آسیہ، صفورا، مریم اور سارہ کو آپ {س} کی مدد کے لئے بھیجا- حضرت خدیجہ {س} کی عظمت اس سے زیادہ کیا ھوسکتی ہے کہ دنیا کی سب سے با فضلیت اور برتر خاتون نے آپ {س} کے دامن میں ولادت پائی اور خداوند متعال نے ائمہ معصومین {ع} اور زمین پر اپنی حجت کو ان کی نسل قرار دیا-

حضرت خدیجہ {س} کی ذکاوت اور فطانت:

حضرت خدیجہ {س} انتہائی باھوش، زیرک اور صاحب بصیرت خاتون تھیں- آپ {س} نے اپنے زمانہ کے جہالت سے بھرے معاشرہ میں، جب عورت کوئی اجتماعی حیثیت اور شخصیت نہیں رکھتی تھی، اپنے لئے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے ایک بلند اور ممتاز مقام پایا تھا-

حضرت خدیجہ {س} اپنے زمانہ کی مشہور تاجر تھیں – نقل کیا گیا ہے کہ آپ {س} کے مختلف علاقوں میں بہت سے غلام تھے اور آپ {س} کے پاس آٹھ ہزار اونٹ تھے- اور عربستان اور اس سے باہر ہر علاقے میں آپ {س} تجارت کرتی تھیں، مصر اور حبشہ جیسے علاقوں میں آپ {س} کا کافی مال و سرمایہ تھا- ایک ایسے زمانہ میں اس عظیم سرمایہ کا نظم و انتظام سنبھالنا، جب معاشرہ میں عورت کم ترین حقوق سے بھی محروم تھی اور اسے انسان شمار نہیں کرتے تھے اور عورت معاشرہ میں حاضر ھونے کا حق نہیں رکھتی تھی، اس امر کی دلیل ہے کہ حضرت خدیجہ {س} غیر معمولی ھوش و ذکاوت کی مالک تھیں- جس نے انھیں اپنے زمانہ کی تمام عورتوں اور بہت سے مردوں پر برتری بخشی تھی-

تجارت کا کام سونپنے کے لئے، امانتدار اور با تجربہ مردوں کی پہچان اور شناسائی، وقت کے نامور تاجروں سے تجارتی مقابلہ کرنے، اپنے عظیم سرمایہ کی حفاظت اور اقتصادی ترقی کے لئے کار آمد منتظمین کا انتخاب کرنے میں حضرت خدیجہ {س} کی ھوشیاری اور ذکاوت آپ کی قوی مدیریت کی علامت ہے-

حضرت خدیجہ {س} تنہا شخصیت تھیں، جنھوں نے حضرت محمد مصطفے {ص} کی بلند اخلاق پر مبنی عظمت اور شخصیت کا ادراک کیا اور آپ {ص} کی بلند اخلاقی اور روحانی خصوصیات کے بارے میں غور و فکر کرکے آنحضرت {ص} کی مستقبل میں رونما ھونے والی درخشاں عظیم شخصیت کو پہچان سکی تھیں-

یہ عظمت والی خاتون، جہالت اور بت پرستی کی تاریکی کے دوران اپنی دقیق بصیرت سے پیغمبر آخرالزمان {ص} کے اوصاف کو سمجھ سکی تھیں اور آپ {ص} کے ظہور کی علامتوں کو پہچان چکی تھیں اور حضرت محمد مصطفی {ص} کے بارے میں دقیق شناخت حاصل کرنے کے پیش نظر آنحضرت {ص} کو اپنے شریک حیات کے عنوان سے منتخب کیا تھا- اسلام کے ظہور اور پیغمبر اکرم {ص} کی بعثت کے بعد حضرت خدیجہ {س} پہلی شخصیت تھیں جو پیغمبر آخر الزمان {ص} پر ایمان لائیں-

اس کے علاوہ حضرت خدیجہ {س} کی شوہر داری، اولاد کی تربیت کرنے کے طریقہ کار، اپنے ہمسایوں، تازہ مسلمانوں اور حتی کہ مشرکین کے ساتھ ان کے برتاو نے انھیں ایک بے مثال شخصیت بنایا تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ {س} کی رحلت کے وقت رسول اکرم {ص} نے آپ {س} کا فقدان محسوس کیا اور ہمیشہ آپ {س} کو نیک الفاظ سے یاد فرماتے رہے-

حضرت خدیجہ کبری{س} کی خانہ داری کرنے میں ھوشیاری اور اخلاق و رفتار و کردار کی مہارت کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ یہ معظم خاتون، علی {ع} کو زید بن حارثہ کے ساتھ، جو ایک غلام اور پیغمبر اکرم {ص} کے منہ بولے بیٹے اور ایک دوسرے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے گزشتہ شوہروں کی اولاد کو رسول اللہ{ص} سے اپنی اولاد کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بٹھا سکیں اور ان سب کو ایک ہی سایہ کے نیچے سلا سکیں اور وہ سب کسی رقابت اور حساسیت کے بغیر باہم زندگی بسر کرسکے اور سب اپنی توانائی اور ظرفیت کے مطابق رسول اکرم {ص} سے بہرہ مند ھوسکے-

حضرت خدیجہ {س} کا گھر:

حضرت خدیجہ {س} کا گھر، من جملہ اسلام کے ان اہم مکانوں میں سے ہے کہ جن میں بہت سی تلخ و شیرین تبدیلیاں اور حوادث رونما ھوئے ہیں اور مسلمانوں کے اہم ترین تاریخی اور مذہبی مکانوں میں سے ایک مکان شمار ھوتا ہے، جس کے بارے میں مسلمان پوری تاریخ میں اس کی طرف خاص توجہ کرتے رہے ہیں اور اس کی زیارت کے لئے بھی جاتے رہے ہیں-

یہ وہ گھر ہے، جسے حضرت خدیجہ { س} نے حضرت محمد مصطفے {ص} کے ساتھ اپنی مشترک زندگی کے ابتدائی ایام میں آنحضرت {ص} کی خدمت میں ھدیہ کے طور پر پیش کیا ہے- یہ وہی گھر ہے، جہاں سے اسلام کا سورج طلوع ھوا اور نور اسلام اسی گھر سے تمام دنیا میں پھیل گیا-

بہت سے صحابی اس گھر میں رسول اکرم {ص} کی خدمت میں شرفیاب ھوئے ہیں اور آنحضرت {ص} کا کلام مبارک سننے کے بعد شہادتین کو زبان پر جاری کیا ہے اور وہاں سے مسلمان بن کر باہر آئے ہیں- اس گھر میں اسلام لانے والوں میں حضرت علی {ع}، زید بن حارثہ، رسول اکرم {ص} کی سب بیٹیاں ، جناب ابو بکر، زبیر بن عوام، ابوذر غفاری اور عثمان بن مظعون شامل ہیں-

عثمان بن مظعون ایک دن حضرت خدیجہ {س} کے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے، اور ان کی نظر رسول خدا {ص} پر پڑی- پیغمبر اکرم {ص} نے انھیں گھر میں داخل ھونے کی دعوت دی- عثمان بن مظعون نے بھی پیغمبراسلام {ص} کی دعوت کو قبول کیا اور اس گھر میں داخل ھوکر رسول خدا {ص} کے پاس بیٹھ گئے- اس وقت جبرئیل امین نازل ھوئے- رسول خدا {ص} قرآن مجید کی آیات حاصل کرنے میں غرق تھے اور چند لمحات کے لئے عثمان بن مظعوں سے غافل ھوئے- رسول اللہ {ص} کے چہرہ مبارک پر پسینہ جاری تھا اور تھکے ھوئے لگتے تھے- جب آیات الہی نازل ھونا ختم ھوئیں، رسول خدا {ص} چند لمحات کے بعد اپنی معمول کی حالت میں آگئے- عثمان بن مظعون نے سوال کیا: کیا ھوا؟ رسول اکرم {ص} نے فرمایا: جب تم بیٹھ گئے، جبرئیل امین مجھ پر نازل ھوئے- عثمان نے سوال کیا : انھوں نے کیا کہا؟ رسول اکرم {ص} نے فرمایا: جبرئیل امین نے اس آیت کو نازل کیا: :« إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ( "بیشک اللہ عد ل، احسان سے قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری، ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو"

عثمان بن مظعون نے جب قرآن مجید کی ان آیات کو سنا، تو وہ خداوند متعال اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام {ص} کے خاص صحابیوں میں شمار ھونے لگے-

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں:" جمعہ کے دن عصر کا وقت تھا، میں مسجد میں علی {ع} کی خدمت میں تھا کہ ایک بلند قامت مرد امام {ع} کی خدمت میں آگیا- اس نے کچھ مطالب پر گفتگو کرنے کے بعد کہا:" میں یمن سے اونٹ پر سوار ھوکر مکہ آگیا- جس پہلے شخص سے میری ملاقات ھوئی، وہ ابو سفیان تھا- میں نے اسے سلام کیا اور خاندان قریش کے بارے میں پوچھا- اس نے جواب میں کہا: کوئی مشکل نہیں ہے، صرف ابوطالب کے یتیم نے ہمارے دین کو خراب کردیا ہے- میں نے کہا: ان کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: محمد {ص} میں نے پوچھا: وہ کہاں پر ہیں؟ اس نے کہا: خدیجہ بنت خویلد سے شادی کی ہے اور ان ہی کے گھر میں ہے- میں نے اونٹ کی لگام کو کھینچا اور خدیجہ {س} کے گھر پہنچا اور ان کا دروازہ کھٹکھٹایا- جب میں اس گھر میں داخل ھوا، تو میری نظر پیغمبر اسلام {ص} کے نورانی چہرے پر پڑی، اور میں آپ {ص} کی رسالت پر ایمان لایا- اس کے بعد خدا حافظ کہہ کر یمن چلا گیا-

حضرت خدیجہ {س} کا گھر عالم ہستی کی سب سے برتر اور با فضیلت خاتون، یعنی حضرت فاطمہ زہراء {س} کے تولد کی جگہ ہے- اور حضرت فاطمہ زہراء {س} کی ولادت کی رات کو خداوند متعال کی بارگاہ میں محترم خواتین اس گھر میں داخل ھوئی ہیں تاکہ رسول خدا {ص} کی شریک حیات، یعنی حضرت خدیجہ کبری{س} کی مدد کریں-

پیغمبر اسلام {ص} رسالت پر مبعوث ھونے اور پہلے پیغام الہی حاصل کرنے کے وقت کانپ رہے تھے اور آپ {ص} کا رنگ بدل گیا تھا اور خستہ حالت میں اس گھر میں داخل ھوئے اور حضرت خدیجہ {س} سے مخاطب ھوکر فرمایا:" مجھے کسی کپڑے میں لپیٹ دو" پیغمبر {ص} کی وفادار ساتھی نے آنحضرت {ص} کے لئے ایک بستر تیار کیا اور آپ {ص} کو ایک کپڑے میں لپیٹا- تھوڑی دیر آرام فرمانے کے بعد پھر جبرئیل گھر میں داخل ھوئے اور آیہ:" یا ایھا المزمل" کو پیغمبر اکرم {ص} پر نازل کیا- پھر پیغمبر اسلام {ص} اپنی جگہ سے اٹھ کر ماموریت پر روانہ ھوگئے-

پیغمبر اسلام {ص} نے آیہ شریفہ:" وانذر عشیرتک الاقربین" کے نازل ھونے کے بعد حضرت علی {ع} کو حکم دیا کہ آپ {ع} بنی ہاشم کو دعوت دیدیں- بنی ہاشم کے تقریباً چالیس افراد، حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں جمع ھوئے- ان کے لئے ایک عمدہ کھانے کا اہتمام کیا گیا- اس گھر میں پیغمبر اسلام {ص} نے باضابطہ طور پر اپنی نبوت کا اعلان کیا اور بنی ہاشم کو اسلام کی پیروی کرنے کی دعوت دیدی، لیکن ابولہب کی شیطنتوں اور کار شکنیوں کی وجہ سے یہ جلسہ درہم برہم ھوا اور بنی ہاشم کے افراد ایک ایک کرکےبھاگ کر اپنے گھروں کو لوٹے- پیغمبر اسلام {ص} کا چونکہ اپنا مقصد حاصل نہیں ھوا تھا، اس لئے آپ {ص} نے ایک اور جلسہ تشکیل دیا اور اس جلسہ میں ایک مفصل تقریر کے بعد، حضرت علی {ع} کو اپنے وزیر اور جانشین کے عنوان سے متعارف فرمایا-

بعض مورخین کے نقل کے مطابق، حضرت محمد مصطفی {ص} حضرت خدیجہ {س} کے گھر سے معراج پر تشریف لے گئے ہیں اور واپسی پر بھی اسی گھر میں اترے ہیں-

" لیلۃ المبیت" میں کفار مکہ نے حضرت خدیجہ {س} کے گھرکا محاصرہ کیا اور رسول خدا {ص} کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا- لیکن رسول خدا {ص} گھر کو چھوڑ کر چلے گئے تھے اور حضرت علی {ع} آپ {ص} کے بستر پر سوئے ھوئے تھے-

رسول خدا {ص} کے مدینہ ھجرت کرنے کے بعد آنحضرت {ص} کے مکہ میں مقیم نزدیک ترین رشتہ دار، جناب عقیل بن ابیطالب اس گھر میں ساکن ھوئے تاکہ کفار مکہ اس پر قبضہ نہ کرلیں-

دنیا بھر کے مسلمان، پوری تاریخ کے دوران رسول خدا {ص} کے گھر کی حفاظت اور رکھوالی کے سلسلہ میں خاص توجہ دیتے تھے اور ہرسال اس کی مرمت اور تعمیر نو کرتے تھے اور اس کی حفاظت کرتے تھے، کیونکہ یہ گھر صدر اسلام کی تاریخ کی ایک یادگار تھا-

محقق نراقی، حضرت خدیجہ {س} کے گھر کے بارے میں لکھتے ہیں:" مکہ میں عرفات اور حطیم کے علاوہ بھی کچھ با فضیلت اماکن ہیں، جن میں سے ایک حضرت خدیجہ {س} کا گھر ہے- یہ گھر رسول خدا {ص} پر وحی نازل ھونے کی جگہ اور عالم بشریت کی خواتین کی سردار حضرت فاطمہ زہراء{س} کے تولد کی جگہ ہے- حضرت خدیجہ {س} کا گھر صفا سے مروہ کی طرف جاتے ھوئے، دائیں جانب " سوق الصباغین" میں واقع ہے- اس گھر کے اوپر ایک گنبد اور بارگاہ تھی اور مسجد الحرام سے ملا ھوا تھا- اس گھر کی زیارت کرنا اور وہاں پر دو رکعت نماز تحیت پڑھ کر خداوند متعال سے اپنی حاجت طلب کرنا مستحب ہے-

مکہ کے مورخ، تقی الدین فاسی حسنی، حضرت خدیجہ {س} کے گھر کی بعض خصوصیات بیان کرنے کے بعد، "کتاب الجامع الطیف" کے مصنف محب طبری سے نقل کرکے لکھتے ہیں:" یہ گھر، مسجد الحرام کے بعد مکہ کے با فضیلت ترین اماکن میں سے ہے"-

مشہور سیاح، ابن بطوطہ، لکھتے ہیں:" مسجد الحرام کے نزدیک واقع مشاہد میں " قبۃ الوحی" ہے کہ یہ ام المومنین حضرت خدیجہ {س} کا گھر ہے-"

شیخ مرتضی انصاری اپنی مناسک حج میں لکھتے ہیں:" مکہ مکرمہ میں خانہ خدا کے حاجیوں کے لئے حضرت خدیجہ {س} کے گھر میں شرفیاب ھونا مستحب ہے- افسوس کا مقام ہے کہ سرزمین حجاز پر وہابیوں کی حکمرانی اور تسلط کے بعد اسلام کے سیکڑوں تاریخی آثار اور اماکن کے مانند حضرت خدیجہ {س} کا گھر بھی مسمار اور منہدم کیا گیا ہے-

مسلمانوں کے مسلسل اعتراضات کے نتیجہ میں، مکہ کی بلدیہ { میونسپلٹی} نے مجبور ھوکر اس جگہ پر حفظ قرآن کا ایک مدرسہ تعمیر کیا تھا، لیکن ایک مدت گزرنے کے بعد اسے بھی منہدم کرکے، خانہ کعبہ کے بعد با فضیلت ترین مکان، یعنی حضرت خدیجہ {س} کے گھر کو " دوراۃ المیاہ" یعنی بیت الخلاء میں تبدیل کیا گیا ہے-

حضرت خدیجہ {س} قرآن مجید کی روشنی میں:

قرآن مجید میں بعض خواتین من جملہ حضرت خدیجہ {س} کی صفات اور مقام و منزلت کے بارے میں چند آیات ذکرھوئی ہیں-

اس سلسلہ میں ابن شہر آشوب کہتے ہیں:" خداوند متعال نے قرآن مجید میں بارہ جگہوں پر عورتوں کے بارے میں کنایہ سے نام لیا ہے ، جو حسب ذیل ہیں:

۱- حضرت آدم {ع} کی بیوی حوا کے بارے میں:" وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ"

2- حضرت نوح{ع} اور حضرت لوط{ع} کی بیویوں کے بارے میں:" ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً لِلَّذِينَ كَفَرُوا اِمْرَأَةَ نُوحٍ وَاِمْرَأَةَ لُوطٍ

3- فرعون کی بیوی کے بارے میں:" إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"

4- حضرت ابراھیم{ع} کی بیوی کے بارے میں:" وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ"

۵- حضرت زکریا{ع} کی بیوی کے بارے میں:" وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ"

۶- عزیز مصر کی بیوی زلیخا کے بارے میں:" الآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ"

7- حضرت ایوب {ع} کی بیوی کے بارے میں:" وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ"

۸- بلقیس کے بارے میں:" إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ"

۹- حضرت شعیب کی بیٹیوں کے بارے میں:" قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ"

10- جناب حفصہ اور جناب عائشہ کے بارے میں:" وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا"

11- حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں:" وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى"

۱۲- حضرت فاطمہ {س} کے بارے میں:" مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ"

قرآن مجید میں بعض عورتوں کے بارے میں کچھ صفتیں بیان کی گئی ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

1- حضرت آدم {ع} کی بیوی حوا کے لئے " توبہ":" قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا”

۲- فرعون کی بیوی، آسیہ کے لئے" شوق و امید":" اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ"

۳- حضرت ابراھیم {ع} کی بیوی سارہ کے لئے" مہمانی":" وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌِ"

۴- بلقیش کے لئے" عقل":" قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا"

۵- حضرت موسی {ع} کی بیوی{ حضرت شعیب کی بیٹی} کے لئے " حیا" :" فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ"

۶- حضرت خدیجہ {س} کے لئے " احسان" :" وَوَجَدَكَ عَائِلاً فَأَغْنَى"

۷- جناب عائشہ اور جناب حفصہ کے لئے" نصیحت" :« َیانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنْ النِّسَاءِ إِنْ اتَّقَيْتُنَّ فَلاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفًا* وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلاَةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ"

۸- حضرت فاطمہ زہراء {س} کے لئے" عصمت" :" وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ"

مذکورہ آیات کے علاوہ، حضرت خدیجہ {س} کی عظمت و منزلت کے بارے میں قرآن مجید میں متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے ہم یہاں پر صرف ایک مورد کے بارے میں اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

"وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ*أُوْلَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ" حضرت خدیجہ کبری {س} کی اسلام قبول کرنے میں سبقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، کیونکہ آپ {س} پہلی خاتون تھیں جو رسول خدا {ص} پر ایمان لائیں-

حضرت خدیجہ کبری {س} پیغمبر اسلام {ص} کی سب سے برتر شریک حیات:

پیغمبر اسلام {ص} کی متعدد بیویاں تھیں، لیکن ان میں صرف حضرت خدیجہ {س} کو آنحضرت {ص} نے اپنی سب سے برتر اور با فضیلت ترین شریک حیات اور عالم ہستی کی چار برگزیدہ خواتین میں سے ایک خاتون کے عنوان سے متعارف فرمایا ہے اور یہ مقام و فضیلت آنحضرت {ص} کی دوسری بیویوں میں سے کسی ایک کو حاصل نہیں ہے-

رسول اکرم {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کی، اپنی دوسری بیویوں پر افضلیت اور برتری کو مختلف الفاظ اور طریقوں سے متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے-

شائد، رسول خدا {ص} کی حضرت خدیجہ {س} کی عظمت اور بلند مقام کے باوجود اپنی دوسری بیویوں پر آپ {س} کی افضلیت اور انھیں عالم ہستی کی چار برتر خواتین میں سے ایک کے عنوان سے متعارف کرنے کی تاکید مستقبل میں مسلمانوں کو پیش آنے والے فتنوں اور حوادث کے پیش نظر تھی- لہذا، پیغمبر اسلام {ص} حضرت خدیجہ {س} اور آپ {س} کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراء {س} کو مسلمانوں کے لئے دو قابل اطمینان نمونہ عمل اور مثالی خواتین کے عنوان سے متعارف فرماتے ہیں- رسول خدا {ص} نے عالم ہستی کی مکمل ترین اور بافضیلت ترین خواتین کے عنوان سے چار خواتین کی شناخت فرمائی ہے، کہ ان میں سے دو خواتین مسلمانوں میں سے منتخب کی گئی ہیں اور باقی گزشتہ ادیان سے متعلق ہیں-

پہلی حدیث: حدیث خیریہ:

امام بخاری، رسول خدا {ص} سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ {ص} نے فرمایا: " خیر نسا یھا مریم ابنۃ عمران و خیر نسایھا خدیجۃ" " دنیا کی بہترین عورتیں خدیجہ {س} اور مریم بنت عمران ہیں"-

اس حدیث میں رسول اکرم {ص} نے صرف دو خواتین کو دنیا کی بہترین خواتین کے عنوان سے متعارف فرمایا ہے کہ ان میں سے مسلمانوں میں سے حضرت خدیجہ {س} اور دین مسیحیت میں سےحضرت مریم {س} ہیں-

دوسری حدیث: حدیث تفضیل:

ابن حجر عسقلانی عمار یاسر سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا {ص} نے فرمایا: "لقد فضلت خدیجه علی نساء امتی کما فضلت مریم علی نساء العالمین" "خدیجہ {س} نے میری امت کی عورتوں پر برتری حاصل کی ہے، جس طرح مریم نے عالمین کی عورتوں پر برتری حاصل کی ہے"-

تیسری حدیث: بہشت میں حضرت خدیجہ {س} کی برتری کی حدیث:

احمد بن حنبل اپنی مسند میں رسول اکرم {ص} سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت {ص} نے زمین پر چار لکیریں کھینچ کر فرمایا:" کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ لکیریں کیا ہیں؟ کہا گیا نہیں، یا رسول اللہ: خدا اور اس کے رسول {ص} بہتر جانتے ہیں"-

آنحضرت {ص} نے فرمایا:" " افضل نساء اهل الجنه، خديجة بنت خويلد و فاطمة بنت محمد، و آسية بنت مزاحم امراة فرعون و مريم بنت عمران" " بہشت کی بہترین عورتیں، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد، آسیہ بنت مزاحم، فرعون کی بیوی اور مریم بنت عمران ہیں"-

رسول اکرم {ص} نے اس حدیث میں، تربیتی لکیریں کھینچ کر، دنیا وآخرت میں عالم ہستی کی مثالی خواتین کو نام لے کر مشخص کیا ہے – اس حدیث سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ چار عورتیں بہشت میں بھی اعلٰی ترین عورتیں ہیں اور قیامت تک ان سے برتر کوئی عورت پیدا نہیں ھوگی-

چوتھی حدیث: دو جہان کی بہترین عورتیں:

اس حدیث میں رسول خدا {ص} فر ماتے ہیں:" خيرنساء العالمين مريم ابنه عمران، و آسيه بنت مزاحم، و خديجة بنت خويلد و فاطمة بنت محمد(ص) " " دو جہان کی بہترین عورتیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ {س} بنت محمد {ص} ہیں"-

اس حدیث میں رسول اکرم {ص} نے اول سے آخر تک عالم ہستی میں تمام ادیان کی برتر عورتوں کا نام لیا ہے-

پانچویں حدیث: عالم کی سردار عورتیں:

رسول اکرم نے اس حدیث میں ان عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے جو دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں: "اربع نسوة سيدات عالمهن مريم بنت عمران، و آسية بنت مزاحم، و خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمد، و افضلهن عالما فاطمة" چارعورتیں دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد، او فاطمہ بنت محمد {ص} اور ان میں سے دنیا میں بہترین فاطمہ {س} ہیں"-

چھٹی حدیث: عالم ہستی کی صاحب کمال عورتیں:

رسول اکرم {ص} نے ایک حدیث میں عالم ہستی کی چار صاحب کمال عورتوں کے بارے میں فرمایا ہے:" حسبک من نساء العالمین مریم بنت عمران و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد {ص} و آسیہ بنت مزاحم"- " دو جہان کی خواتین میں صاحب کمال و فضیلت کے لحاظ سے، مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد اور آسیہ بنت مزاحم کافی ہیں-

ساتویں حدیث: بہترین نانا اور نانیاں:

ایک دن رسول خدا {ص} نے مسجد میں حسن اور حسین { علیہما السلام} کی شان میں فرمایا:

" ایھا الناس الا اخبرکم بخیر الناس جدا و جدہ؟" اے لوگو؛ کیا میں تمھیں خبر دیدوں کہ نانا اور نانی کے لحاظ سے کون بہترین انسان ہیں؟ حضار نےعرض کی: جی ہاں، یا رسول اللہ ہمیں خبر دیجئے؛ آنحضرت {ص} نے فرمایا:" الحسن و الحسین جدھما رسول اللہ و جد تھما خدیجہ بنت خویلد"

" وہ حسن و حسین {ع} ہیں کہ ان کے نانا رسول خدا {ص} اور ان کی نانی خدیجہ بنت خویلد ہیں"-

حضرت خدیجہ کبری {س} سے نقل کی گئی احادیث:

حضرت خدیجہ کبری {س} نے حضرت محمد مصطفی {ص} کے ساتھ گزاری اپنی ۲۵ سالہ مشترک زندگی کے دوران بہت سے حوادث اور روداد کا اپنی آنکھوں سے فرمودات سنے تھے- اس پوری مدت کے دوران، رسول خدا {ص} سے بہت سی نصیحتیں اور فرمائشات سنی تھیں- صحابیوں کے ساتھ رسول خدا {ص} کے بہت سے مذاکرات، فیصلے اور آشکار و پنہان ملاقاتیں حضرت خدیجہ {س} کے ہی گھر میں انجام پاتی تھیں اور آپ {س} ان جلسات کی گفتگو اور فیصلوں کے بارے میں مطلع رہتی تھیں، اور اس پوری مدت کے دوران مختلف مناسبتوں کے سلسلہ میں رسول خدا {ص} سے ہزاروں احادیث اور روایتیں سنی تھیں اور بہت سی یادیں آپ {س} کے ذہن میں نقش ھوچکی تھیں- حضرت خدیجہ {س} نے رسول اللہ {ص} کی دوسری بیویوں کی بہ نسبت آنحضرت {ص} کے ساتھ طولانی تر مشترک زندگی گزاری تھی اور رسول خدا [ص]کے لئے ان سب سے زیادہ قابل اعتماد تھیں- لیکن افسوس ہے کہ ان سب اوصاف کے باوجود اس عظمت والی خاتون اور رسول خدا {ص} کی اعلٰی ترین شریک حیات سے بہت کم روایتیں نقل کی گئی ہیں-

البتہ بعض اہل سنت مورخین کا نظریہ ہے کہ حضرت خدیجہ {س} سے کوئی روایت نقل نہیں کی گئی ہے اور انھیں راویان حدیث میں شمار نہیں کرتے ہیں- لیکن اہل سنت کے مورخین میں سے کچھ اور لوگ حضرت خدیجہ {س} کو رسول خدا {ص} کی احادیث کے راویوں میں شمار کرتے ہیں اگر چہ ان کا اعتقاد ہے کہ ان سے بہت کم روایتیں نقل کی گئی ہیں- بعض تحقیقات کے مطابق حضرت خدیجہ {س} سے بعض احادیث نقل کی گئی ہیں مگر افسوس ہے کہ زمانہ کے گزرنے کے ساتھ پراسرار ہاتھوں اور اہل بیت {ع} کے دشمنوں کے ذریعہ احادیث کی کتابوں سے انھیں حذف کیاگیا ہے- من جملہ " کلا باذی" کی کتاب " رجال صحیح بخاری" میں صحیح بخاری سے نقل کرکے ۱۴۱۷ نمبر کی ایک حدیث حضرت خدیجہ {س} سے نقل کی گئی ہے کہ جدید طبع میں اس حدیث کو حذف کیا گیا ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ صحیح بخاری، بعض دشمنان اہل بیت کے ہاتھوں تحریف سے دوچار ھوئی ہے، ورنہ اگر اس قسم کی حدیث موجود نہ ھوتی تو،" کلا باذی" جیسے عظیم مورخ اس سے کبھی استناد نہیں کرتے-

حضرت خدیجہ {س} سے نقل کی گئی احادیث کی ایک تعداد حسب ذیل ہے:

۱-حدیث دعای طواف بیت:

"ابن ابی الدنیا سے سیوطی نے اور عبدالاعلٰی تیمی سے بیہقی نے روایت کی ہے جو حضرت خدیجہ{س} سے نقل کی گئی ہے کہ آپ [س] نے رسول خدا [ص] سے پوچھا: ما اقوال وانا اطوف" طواف کے وقت کیا پڑھیں؟

پیغمبر اکرم [ص] نے مجھ سے فرمایا: کہدو: " اللهم اغفر ذنوبی و خطئی وعمدی واسرافی فی امری انک ان لا تغفر لی تهلکنی" خداوندا میرے "عمداً اور سہواً" انجام پائے گناہوں اور اسراف کو بخش دینا، اگر تو نہ بخشےگا، تو ہم ہلاک ہوں گے-"

2- جبرئيل کو دیکھنے کِی حدیث:

"عن إسماعيل بن أبي حكيم مولى آل الزبير أنه حدث عن خديجة أنها قالت لرسول الله (ص) أي ابن عم أتستطيع أن تخبرني بصاحبك هذا الذي يأتيك إذا جاءك قال نعم قالت فإذا جاءك فأخبرني فجاء جبرئيل(ع) فقال رسول الله(ص) لخديجة يا خديجة هذا جبرئيل قد جاءني قالت قم يا ابن عم فاجلس على فخذي اليسرى فقام رسول الله (ص) فجلس عليها قالت هل تراه قال نعم قالت فتحول فاقعد على فخذي اليمنى فتحول فقالت هل تراه قال نعم قالت فاجلس في حجري ففعل قالت هل تراه فقال لا قالت يا ابن عم اثبت و أبشر فو الله إنه لملك كريم و ما هو بشيطان‏ قال ابن إسحاق و قد حدث بهذا الحديث عبد الله بن الحسن قال قد سمعت أمي فاطمة بنت حسين تحدث بهذا الحديث عن خديجة إلا أني سمعتها تقول أدخلت رسول الله(ص) بينها و بين درعها فذهب عند ذلك جبرئيل(ع) فقالت خديجة لرسول الله(ص) إن هذا لملك و ما هو بشیطان" آل زبیر کے مولا، اسماعیل بن ابی حکیم روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ {س} نے پیغمبر اکرم {ص} سے کہا: اے میرے چچیرے بھائی؛ کیا آپ {ص} ہمیں اس وقت مطلع کرسکتے ہیں، جب جبرئیل آپ {ص} پر نازل ھو جائیں؟ آنحضرت {ص} نے فرمایا: جب جبرئیل آئیں گے میں تمھیں خبر دوں گا، اس کے بعد جبرئیل آگئے آنحضرت نے فرمایا: اے خدیجہ؛ اس وقت جبرئیل آگئے ہیں- خدیجہ {س} نے کہا: اے میرے چچیرے بھائی، اٹھ کر میری بائیں ران پر بیٹھئے- آنحضرت {ص} اٹھے اور وہیں پر بیٹھ گئے، پھر کہا کیا جبرئیل دکھائی دیتا ہے؟ جواب میں فرمایا: جی ہاں، اس کے بعد کہا: اٹھ کر میری دائیں ران پر بیٹھئے، جب آپ {ص} بیٹھ گئے تو کہا: دکھائی دیتا ہے؟ فرمایا: جی ہاں، کہا: میرے پاس بیٹھئے، جب اسی طرح بیٹھ گئے تو کہا: کیا دکھائی دیتا ہے؟ فرمایا: نہیں- کہا: اے میرے چچیرے بھائی اس وقت مجھے یقین ھوا اور آپ کو مبارک ھو کہ یہ فرشتہ ہے نہ شیطان- اور ابن اسحاق کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حسن نے حدیث نقل کی ہے کہ : میں نے اپنی ماں فاطمہ بنت حسن سے سنا کہ وہ خدیجہ {س} سے حدیث نقل کرتی تھیں کہ میں نے سنا کہ وہ کہتی تھیں: جبرئیل کے نازل ھونے کے وقت حضرت خدیجہ {س} نے انھیں اپنے لباس کے اندر داخل کیا اس کے بعد جبرئیل چلے گئے اور خدیجہ {س} نے آنحضرت {ص} سے کہا کہ یہ فرشتہ ہے نہ شیطان"-

۳- رسول اکرم {ص} کے گھر میں داخل ھونے کے طریقہ سے متعلق حدیث:

"فی کتاب « العدد القویه» للشیخ علی بن الحسن المطهر( اخ العلامه رحمه الله) عن خدیجه (س) قالت: کان النبی (ص) اذا دخل المنزل دعا باالاناء فتطهر للصلاه، ثم یقوم فیصلی رکعتین یوجز فیهما ، ثم یُأوی الی فراشه" کتاب "العدد القویہ" میں حضرت خدیجہ {س} سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ {س} نے فرمایا:" جب رسول خدا {ص} گھر میں داخل ھوتے تھے تو ایک لوٹا پانی مانگتے تھے اور نماز کے لئے وضو کرتے تھے اور اس کے بعد مختصر طور پر دو رکعت نماز پڑھتے تھے اس کے بعد اپنے بستر پر لیٹتے تھے"-

خدا کے نزدیک حضرت خدیجہ {س} کا مقام:

خدا کے ہاں حضرت خدیجہ {س} کی دنیا و آخرت میں کافی عزت اور بلند مقام تھا-

پیغمبر خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} سے خطاب کرکے فرمایا:" : يا خديجة انّ اللّه‏ عزّ و جلّ ليباهي بكِ كرام ملائكته كلَّ يومٍ مرارا" " خدیجہ؛ خداوند عز وجل دن میں کئی بار اپنے فرشتہ مقرب کے سامنے آپ کی عظمت پر فخر و مباہات کرتا ہے"-

رسول خدا {ص} نے ایک اور موقع پر جبرئیل سے نقل کرکے فرمایا ہے:" قال جبرئيل: هذه خديجة فاقرء عليهاالسلام من ربّها و منّي و بشّرها بيتا في الجّنة” – خدا کا اور میرا سلام خدیجہ {س} تک پہنچانا اور انھیں بہشت میں ان کے لئے گھر کی خوش خبری دینا-"

ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ جب رسول خدا {ص} معراج سے واپس تشریف لائے، جبرئیل سے پوچھا : کیا کوئی اور کام ہے؟ جبرئیل نے فرمایا:" خداوند متعال اور میری طرف سے خدیجہ کی خدمت میں سلام پہنچانا- " جب رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} سے ملاقات کی، تو فرمایا:" اے خدیجہ؛ خداوند متعال اور فرشتوں نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور آپ کی قدر دانی کی ہے-" خدیجہ {س} نے فرمایا: خداوند متعال خود سلام ہے اور سلام اس سے ہے اور سلام اس کے جانب ہے اور سلام جبرئیل ، فرشتہ حق پر ھو"-

خداوند متعال نے بہشت میں حضرت خدیجہ {س} کے لئے ایک بلند مقام کا وعدہ کیا ہے اور پیغمبر اسلام {ص} بھی بارہا اس مسئلہ کے بارے میں حضرت خدیجہ {س} کو بشارت دیتے ھوئے فرماتے تھے:" بہشت میں آپ {س} کے لئے ایک گھر ہے، جس میں کسی قسم کا رنج و الم نہیں ھوگا"-

امام جعفر صادق {ع} نے بھی فرمایا ہے:" جب حضرت خدیجہ {س} نے وفات پائی، تو حضرت فاطمہ {س} چھوٹی تھں اور اپنی ماں کے فراق میں مضطرب تھیں اور باپ کے پاس جاکر اپنی ماں کو ڈھونڈتی تھیں- پیغمبر اکرم {ص} اپنی کم سن بچی کے اضطراب کو دیکھ کر محزون ھو رہے تھے اور اسے تسلی دینے کی کوشش کر رہے تھے، یہاں تک کہ جبرئیل نازل ھوئے اور آنحضرت {ص} سے فرمایا:" فاطمہ کو سلام پہنچانا اور کہنا کہ آپ کی ماں بہشت میں آسیہ {فرعون کی بیوی} اور مریم بنت عمران کی ہمسائیگی میں ایک گھر میں بیٹھی ہیں"- جب حضرت فاطمہ {س} نے یہ بات سنی تو انھیں سکون ملا اور اس کے بعد بے تابی نہیں کی-

حضرت زہراء {س} سے ایک موثق حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ جب حضرت خدیجہ {س} نے وفات پائی تو حضرت فاطمہ {س} اپنے والد گرامی کے پاس آکر پوچھتی تھیں: میرے با با؛ میری ماں کہاں ہیں؟ جبرئیل نازل ھوئے اور کہا: اے محمد {ص} ؛ آپ کا پروردگار حکم دے رہا ہے کہ فاطمہ {س} کو سلام پہنچانا اور کہنا کہ آپ کی ماں ایک ایسے گھر میں بیٹھی ہیں جس کا فرش سونے کا ہے اور اس کے ستون سرخ یاقوت کے بنے ہیں اور ان کا یہ گھر آسیہ اور مریم بنت عمران کے گھر کے درمیان ہے- جب آنحضرت {ص} نے حق تعالی کا یہ پیغام حضرت فاطمہ[س] کو پہنچا دیا تو فاطمہ {س} نے کہا: خداوند متعال ہر قسم کے نقص سے پاک ہے اور سلامتی اسی سے ہے اور سلام و تحیت اسی کی طرف پلٹتے ہیں"-

پیغمبر اسلام {ص} نے آیہ شریفہ :" عینا یشربون بھا المقربون" { وہی چشمہ بہشتی جس سے مقربین پیتے ہیں} کی تفسیر میں فرمایا ہے:" المقربون السابقون؛ رسول الله، و علي بن ابيطالب و الائمة، فاطمة و خديجة"

" مقربین سابق، رسول خدا، علی بن ابیطالب، ائمہ معصومین، فاطمہ اور خدیجہ ہیں"-

رسول خدا {ص} کے نزدیک حضرت خدیجہ [س]کا مقام و رتبہ:

حضرت خدیجہ {س} کو رسول خدا {ص} کے نزدیک بلند مقام و رتبہ حاصل تھا- آنحضرت {ص} کسی عورت کو حضرت خدیجہ کے ہم رتبہ قرار نہیں دیتے تھے اور ہمیشہ ان کی تمجید و تعریف فرماتے تھے اور انھیں اپنی دوسری تمام بیویوں پر برتری دیتے تھے اور حضرت خدیجہ {س} کی تکریم وتعظیم کے سلسلہ میں کافی کوشش کرتے تھے-

حضرت خدیجہ {س} کا یہ مقام و رتبہ اس لئے نہیں تھا کہ آپ {س} رسول اکرم {ص} کی بیوی تھیں، کیونکہ آنحضرت {ص} کی دوسری بیویاں بھی تھیں جنھیں یہ مقام و رتبہ حاصل نہیں تھا- رسول خدا {ص}، زندگی اور اجتماعی امور کے مسائل میں حضرت خدیجہ {س} کی رائے کی کافی قدر کرتے تھے اور کبھی اس عظمت والی خاتون کے نظریہ سے اختلاف نہیں کرتے تھے-

جب حضرت خدیجہ {س} کے بھانجے، ابو العاص نے، رسول اللہ کی بیٹی زینب کے بارے میں خواستگاری کی،" فسألت خديجة رسول‏ اللّه‏ (ص) ان يزوّجه و كان رسول‏اللّه‏ لا يخالفها" خدیجہ {س} نے رسول خدا {ص} سے درخواست کی کہ زینب ابوالعاص سے شادی کریں اور رسول اللہ نے ان کی تجویز کو قبول کیا، چونکہ آنحضرت {ص} کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ {ص} حضرت خدیجہ {س} کے نظریہ کی کبھی مخالفت نہیں کرتے تھے-

رسول خدا {ص}، حضرت خدیجہ {س} سے اس قدر محبت اور ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ جب تک وہ زندہ رہیں آنحضرت {ص} نے دوسری شادی نہیں کی- حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں رسول خدا {ص} کی قدر دانی صرف حضرت خدیجہ {س} کی زندگی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ان کی رحلت کے بعد بھی آنحضرت {ص} انھیں یاد فرماتے تھے اور ان کی تجلیل و تکریم فرماتے تھے-

آنحضرت {ص} کی دوسری بیویاں ھونے کے باوجود، آپ {ص} حضرت خدیجہ {س} کو یاد فرماتے تھے اور ان کی خوبیوں اور نیکیوں کو دہراتے تھے- ایک دن جناب عائشہ نے کہا: اے رسول خدا؛ آپ کیوں اس قدر خدیجہ {س} کی یاد کرتے ہیں، خدیجہ {س} ایک بوڑھی عورت تھیں جو اس دنیا سے چلی گئیں اور خدا وند متعال نے ان کے بدلے میں ان سے بہتر بیوی آپ {ص} کو عطا کی ہے- رسول خدا {ص} یہ سن کر غضبناک ھوئے اور فرمایا:" صدّقتني اذ كذبتم و آمنت بي اذ كفرتم و ولدت لي اذ عقمتم" " انھوں نے اس وقت میری نبوت کی تصدیق کی ہے، جب آپ مجھے جھٹلاتے تھے، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں ہے جب آپ کافر تھے- وہ میری اولاد کی ماں تھیں، جبکہ تم ایسی نہیں ھو"-

رسول خدا {ص} اپنی ان با کمال شریک حیات سے اس قدر محبت اور ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ حضرت خدیجہ {س} کے دوست و احباب بھی اس سے مستفید ھوتے تھے-

جناب عائشہ کہتی ہیں:

" ایک دن ایک بوڑھی عورت رسول خدا {ص} کی خدمت میں آگئی، آنحضرت {ص} نے اس کا کافی احترام کیا اور اس کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے، جب یہ بوڑھی عورت چلی گئی، میں نے پیغمبر اکرم {ص} سے اس عورت کے ساتھ مہربانی اور لطف و کرم سے پیش آنے کی وجہ پوچھی- رسول خدا {ص} نے جواب میں فرمایا:" انها كانت تأتینا فی زمن خدیجة، و ان حسن العهد من الایمان؛ " یہ بو ڑھی عورت اس زمانہ میں ہمارے گھر آتی تھی، جب خدیجہ {س} زندہ تھیں اور خدیجہ {س} کی امداد اور مہربانیوں سے سرشار ھوکر چلی جاتی تھی، بیشک نیکیوں اور سابقہ عہد و پیمان کی حفاظت کرنا ایمان کی نشانی ہے-"

جناب عائشہ سے نقل کی گئی ایک اور روایت میں آیا ہے:

" جب پیغمبر اسلام {ص} کسی بھیڑ کو ذبح کرتے تھے، تو فرما تے تھے: اس میں سے کچھ گوشت خدیجہ کے دوستوں کو بھیجدو ایک دن میں نے آنحضرت {ص} کے ساتھ اس سلسلہ میں بات کی، تو آپ {ص} نے فرمایا:" انی لا حب حبیبھا" " میں خدیجہ کے دوست و احباب کو دوست رکھتا ھوں"-

پیغمبر اسلام {ص} ، حضرت خدیجہ {س} کی وفات کی برسی پر روتے تھے- اور اپنی بیویوں سے مخاطب ھوکر فرماتے تھے:" ایسا خیال نہ کرنا کہ تمھارا مقام ان سےبالا تر ہے- جب تم لوگ کافر تھے، وہ مجھ پر ایمان لائیں اور وہ میری اولاد کی ماں ہیں- حتی کہ برسوں گزرنے کے بعد، جب حضرت فاطمہ زہراء{س} کے بارے میں حضرت علی {ع} کی خواستگاری کی خبر پیغمبر اکرم {ص} کو دینا چاہتے تھے، اس وقت حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں تذکرہ ھوا، تو آنحضرت {ص} کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے- جب جناب ام سلمہ نے رونے کی وجہ پوچھی، تو آنحضرت {ص} نے فرمایا: " خديجة صدقتنى حين يكذبنى الناس و ايدتنى على دين الله و اعانتنى عليه بمالها ان الله عز و جل امرنى ان ابشر خديجة ببيت فى الجنة من قصر الزمرد لا صعب فيه و لا نصب" " خدیجہ ؟؛ کہاں ہے خدیجہ کے مانند؟ جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے، انھوں نے میری تصدیق کی ہے، اور اپنے مال سے خدا کے دین کی مدد کی ہے- خداوند متعال نے مجھے حکم دیا تاکہ میں انھیں بہشت میں ان کے لئے مشخص کئے گئے ایک محل کی بشارت دوں جو زمرد کا بنا ھوا ہے اور اس میں کسی قسم کی سختی اور مشکل نہیں ہے-"

پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا ہے: "اشتاقت الجنة إلی أربع من النساء : مریم بنت عمران و آسیة بنت مزاحم زوجة فرعون وهی زوجة النبی ،فی الجنة و خدیجه بنت خویلد زوجة النبی فی الدنیا وآلاخرة وفاطمه بنت محمد" " بہشت چار عورتوں کی مشتاق ہے: مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم { فرعون کی بیوی} کہ بہشت میں پیغمبر کی بیوی ہے، خدیجہ بنت خویلد، دنیا و آخرت میں رسول خدا {ص} کی بیوی اور فاطمہ بنت محمد {ص}"

خدیجہ {س} ائمہ معصومین {ع} کے کلام کی روشنی میں:

ائمہ اطہار {ع} اور ان کی اولاد کے نزدیک حضرت خدیجہ {س} کا انتہائی بلند مقام و مرتبہ ہے- وہ ہر مناسبت کے سلسلہ میں حضرت خدیجہ {س} کے بارے میں فخر و مباہات کا اظہار کرتے تھے، اور ان کو عزت و احترام سے یاد کرتے تھے-

امام حسین {ع} نے عاشور کے دن اپنے آپ کو دشمن کے سامنے متعارف کراتے ھوئے ایک خطبہ کے ضمن میں فرمایا:" تمھیں خدا کی قسم ہے کہ کیا تم لوگ جانتے ھو کہ میری نانی خدیجہ {س} بنت خویلد ہیں؟"

حضرت امام حسن مجتبی {ع} معاویہ سے مناظرہ کرتے ھوئے معاویہ کے محور حق سے گمراہ ھوکر اخلاقی گراوٹ سے دو چار ھونے اور اپنی سعادت و خوش قسمتی کی ایک وجہ، اولاد کی تربیت کرنے میں ماں کے رول کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ہیں:

" معاویہ؛ چونکہ تمھاری ماں " ھند" اور دادی" نثیلہ" ہے { اور تم نے اس قسم کی پست اور کمینہ عورتوں کی آغوش میں پرورش پائی ہے} اس لئے تم اس قسم کے برے اور نا پسند اعمال کے مرتکب ھو رہے ھو- میرے خاندان کی سعادت، ایسی ماوں کی آغوش میں تربیت پانے کی وجہ سے ہے کہ جو حضرت خدیجہ {س} اور فاطمہ سلام اللہ علیہا جیسی پاک و پارسا خواتین ہیں"-

اس کے علاوہ حضرت {ع} نے دشمنوں سے مخاطب ھوکر فرمایا: " کیا تم لوگ جانتے ھو کہ میں تمھارے پیغمبر {ص} کی شریک حیات، حضرت خدیجہ {س} کا بیٹا ھوں؟"

حضرت امام سجاد {ع}، دمشق میں دربار یزید میں شام کے سرداروں اور بزرگوں کے سامنے اپنے مشہور خطبہ میں اپنے آپ کی یوں متعارف کراتے ہیں: " انا بن خدیجۃ الکبری" میں اسلام کی باعظمت خاتون حضرت خدیجہ کبری {س} کا بیٹا ھوں"-

حضرت زینب {س} نے کربلا میں گیارہ محرم سنہ ۶۱ ھجری کو شہیدوں کے پارہ پارہ ھوئے بدنوں کے پاس کچھ دلسوز مطالب بیان کئے ہیں، ان مطالب میں پیغمبر اکرم {ص} اور علی {ع} کا نام لینے کے بعد حضرت خدیجہ {س} کو یاد کرتے ھوئے فرمایا:" بابی خدیجۃ الکبری"، میرے باپ اسلام کی عظمت والی خاتون خدیجہ کبری {س} پر قربان ھوں"-

زید بن علی {ع} نے، ہشام بن عبدالملک کی طاغوتی حکومت کے خلاف ایک انقلاب اور بغاوت برپا کی اور سر انجام شہادت پر فائز ھوئے، انھوں نے دشمن سے مخاطب ھوکر یوں استدلال کیا:" و نحن احق بالمودۃ، ابونا رسول اللہ وجدتنا خدیجہ- - -"

" ہم مودت اور دوستی کے لئے مستحق تر ہیں، کیونکہ ہمارے باپ رسول خدا {ص} اور ہماری ماں خدیجہ کبری {س} ہیں"-

عبداللہ بن زبیر ابن عباس سے ایک گفتگو کے دوران حضرت خدیجہ {س} سے اپنے رشتہ کی بات کرتے ھوئےاس عظمت والی خاتون پر اپنی پھپھی کے عنوان سے فخر و مباہات کا اظہار کرتے ھوئے کہتے ہیں:" لست تعلم ان عمتی خدیجہ سیدہ نساء العالمین"- " کیا آپ نہیں جانتے کہ میری پھپھی خدیجہ {س} دو جہان کی عورتوں کی سردار ہیں" -

امام حسن {ع} کی امامت کے زمانہ میں، معاویہ حالات پر تسلط جمانے کے بعد کوفہ آگیا اور چند دن وہاں پر قیام کرکے لوگوں سے اپنے لئے بیعت حاصل کی- بیعت لینے کا کام مکمل کرنے کے بعد معاویہ نے منبر پر جاکر ایک خطبہ پڑھا اور اس خطبہ میں جتنا اس سے ممکن ھوسکا، امیر المومنین علی بن ابیطالب {ع} کی شان میں توہین کی اور آپ {ع} کو کھل کر برا بھلا کہا، باوجودیکہ اس مجلس میں امام حسن {ع} اور امام حسین {ع} بھی موجود تھے- امام حسین {ع} معاویہ کا جواب دینے کے لئے کھڑے ھوئے، لیکن امام حسن {ع} نے اپنے بھائی کو روک کر انھیں صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کرنے کی نصیحت کی اور خود کھڑے ھوکر فرمایا:

اے علی {ع} کا برائی سے ذکر کرنے والے؛ میں حسن ھوں اور میرے باپ علی {ع} ہیں اور تو معاویہ اور تیرا باپ ابو سفیان ہے- میری ماں فاطمہ {ع} ہیں اور تیری ماں ھندہ جگر خوار ہے- میرے جد رسول {ص} ہیں اور تیرا جد حرب ہے- میری جدہ خدیجہ{س} { اسلام کی عظمت والی خاتون} ہیں لیکن تیری جدہ نثیلہ { ایک بد کردار عورت} ہے- خدا اس پر لعنت بھیجے جس کا نام پلید و ناپاک ہے جس کا حسب و نسب اور سابقہ برا اور کفر و نفاق سے بھرا ہے"-

حضرت خدیجہ {س} کی وصیت:

شعب ابیطالب میں سخت اور انتہائی مشکل اقتصادی محاصرے کے چند دن گزرنے کے بعد حضرت خدیجہ{س} بیماری میں مبتلا ھوئیں- وقت گزرنے کے ساتھ اس عظیم خاتون کی حالت بدتر ھوتی جا رہی تھی اور جسمانی لحاظ سے بھی نحیف اور کمزور ھو رہی تھیں اور حضرت خدیجہ {س} محسوس کر رہی تھیں کہ وہ زندگی کے آخری ایام گزار رہی ہیں اور دنیا سے جانے والی ہیں-

ان ہی ایام میں ایک دن رسول خدا {ص} حضرت خدیجہ {س} کے سرھانے پر تشریف فرما تھے، کہ حضرت خدیجہ {س} نے آنحضرت {ص} سے مخاطب ھو کر عرض کی: " یارسول اللہ؛ میں کچھ وصیتیں کرنا چاہتی ھوں، اول یہ کہ اگر میں نے آپ {ص} کے حق میں کوئی کوتاہی کی ھو تو اسے بخش دیجیے گا"-

پیغمبر اکرم {ص} نے جواب میں فرمایا:" میں نے کبھی آپ کی جانب سے کوئی کوتاہی نہیں دیکھی اور آپ نے کافی کوششیں کی ہیں- میرے گھر میں آپ کو کافی تھکن برداشت کرنا پڑی ہے اور آپ {ص} نے اپنے مال کو راہ خدا میں صرف کیا ہے"- اس کے بعد حضرت خدیجہ {س} نے عرض کی:" یا رسول اللہ؛ میری دوسری وصیت یہ ہے کہ میری اس بیٹی کا خیال رکھنا { حضرت فاطمہ کی طرف اشارہ کیا} چونکہ وہ میرے بعد یتیم اور غریب ھوں گی- ایسا نہ ھو کہ قریش کی عورتوں میں سے کوئی انھیں اذیت و آزار پہنچادے- ایسا نہ ھو کہ کوئی ان کے چہرے پر طمانچہ مارے- ایسا نہ ھو کہ کوئی ان سے اونچی آواز میں بات کرے- ایسا نہ ھو کہ کوئی ان کے ساتھ برا سلوک کرے"-

لیکن تیسری وصیت بیان کرنے میں مجھے شرم محسوس ھو رہی ہے، وہ میں فاطمہ {س} کے پاس بیان کروں گی کہ وہ آپ {ص} کے پاس نقل کرے- اس کے بعد حضرت فاطمہ {س} کو بلا کر کہا:" اے میری نور چشم ؛ اپنے باپ، رسول خدا {ص} سے کہدو کہ میری ماں کہتی ہیں کہ:" میں تدفین کے مراسم کے بارے میں آپ {ص} سے درخواست کر رہی ھوں کہ مجھے اپنی اس عبا کا کفن دے کر قبر میں دفن کرنا جو وحی نازل ھوتے وقت آپ {ص} کے زیب تن ھوتی تھی-"

اس کے بعد فاطمہ {س} کمرے سے باہر آگئیں اور اس بات کو پیغمبر {ص} کی خدمت میں عرض کیا- پیغمبر اسلام {ص} نے اس عبا کو حضرت خدیجہ {س} کے لئے بھیجا اور وہ خوش ھو گئیں-

حضرت خدیجہ {س} کی وفات:

حضرت خدیجہ {س}، پیغمبر اسلام {ص} کے ساتھ پچیس سال اپنی نشیب و فراز والی مشترک زندگی گزارنے اور ایک عمر تک سعی و کوشش اور پیغمبر اکرم {ص} کی ہمراہی اور اطاعت کرنے کے بعد، عارض ھوئی بیماری کی وجہ سے اس دارفانی کو وداع کرکے ہمیشہ کے لئے رحلت کرگئیں-

حضرت خدیجہ {س} کی وفات، رسول خدا {ص} کے لئے کافی سخت گزری اور آپ {ص} کے غم و اندوہ میں ایک سنگین غم کا اضافہ ھوا- کیونکہ آنحضرت {ص} کی سب سے زیادہ پشت پناہی کرنے والے چچا جناب ابو طالب کی وفات کو بھی ابھی ۳۵ دن بھی نہیں گزرے تھے کہ آنحضرت {ص} کی باوفا شریک حیات، حضرت خدیجہ [س]بھی رحلت کرگئیں- مورخین نے حضرت خدیجہ کی وفات کی تاریخ کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کئے ہیں، من جملہ پانچ سال قبل بعثت، چار سال قبل بعثت، تین سال قبل ھجرت اور بعض مورخین نے معراج سے تین سال پہلے ذکر کیا ہے- لیکن ان اقوال میں مشہور قول یہ ہے کہ حضرت خدیجہ {س} ۶۵ سال کی عمر میں دس رمضان المبارک، کو بعثت کے دسویں سال، نماز صبح کے بعد اس دارفانی سے رحلت کر گئیں-

اس جاں نثار اور مہربان خاتون کی رحلت کے وقت پیغمبر اسلام {ص} ان کے بالین پر بیٹھ کر رو رہے تھے- اچانک جبرئیل بہشت سے ایک کفن لے کر حاضر ھوئے اور رسول اللہ {ص} کی خدمت میں عرض کی:" یا رسول اللہ{ص} خداوند متعال نے آپ {ص} پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ خدیجہ {س}نے اپنے مال کو ہماری راہ میں صرف کیا ہے ہمیں حق ہے کہ ان کے کفن کی ذمہ داری خود سنبھا لیں"-

پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کو خود غسل دیا، حنوط کیا اور خدا کی طرف سے جبرئیل کے لائے پارچے کا کفن دیا- اس کے بعد پیغمبر اکرم {ص} نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ حضرت خدیجہ {س} کی قبرستان حجون تک مشایعت کی- رسول خدا {ص} آنسو بہاتے ھوئے، قبر میں داخل ھوئے اور لحد میں لیٹ کر حضرت خدیجہ{س} کے لئےدعا کی- اس کے بعد اٹھے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی شریک حیات کو لحد میں رکھ کر لحد پر ایک مضبوط پتھر رکھدیا-

جب پیغمبر اسلام {ص} حضرت خدیجہ {س} کی تدفین کے بعد گھر لوٹے، تو فاطمہ {س} اپنے باپ کے پاس آکر اضطراب کی حالت میں پوچھنے لگیں: با با جان؛ میری ماں کہاں ہیں؟ پیغمبر اسلام {ص} حیران تھے کہ انھیں کیا جواب دیں، کہ اسی وقت جبرئیل امین نازل ھوئے اور کہا:" فاطمہ کے جواب میں کہدیجئے:" آپ کی ماں آرام و آسائش کی حالت میں بہشت میں زبر جد کے ایک محل میں زندگی بسر کر رہی ہیں"-

علامہ مجلسی کی نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام {ص} اس حادثہ کے بعد ایک مدت تک گھر میں گوشہ نشین ھوگئے اور گھر سے کم تر باہر نکلتے تھے

عام الحزن { غم و اندوہ کا سال} اور اس کے اثرات:

جناب ابو طالب اور خدیجہ {س} کی وفات کے بعد رسول خدا {ص} ایک مہینے کی مختصر مدت کے دوران اپنے دو اہم حامیوں اور پشت پناھوں سے محروم ھوچکے تھے اور پیغمبر اکرم {ص} پر زندگی روز بروز سخت ھوتی جا رہی تھی-

مکہ کے لوگوں، خاص کر بنی ہاشم کے درمیان جو سیادت و اقتدار جناب ابو طالب کو حاصل تھا، وہ پیغمبر اسلام {ص} کی جان کو دشمنوں کی طرف سے گزند پہنچانے میں رکاوٹ بن رہا تھا- سب جانتے تھے کہ جناب ابو طالب، پیغمبر اسلام {ص} کے سب سے بڑ ے حامی اور پشت پناہ ہیں- اور ایک با اثر اور طاقتور شخصیت ہیں کہ مکہ کے لوگ انھیں محترم اور بزرگ سمجھتے ہیں اور بنی ہاشم ان کی بات کی اطاعت کرتے ہیں- جناب ابوطالب، حضرت محمد رسول اللہ {ص} کے سرسخت مدافع تھے اور وہ آنحضرت {ص} کے خلاف ہرسازش کا مقابلہ کرسکتے تھے-

رسول اللہ {ص} کے دشمن بخوبی جانتے تھے کہ اگر وہ حضرت محمد {ص} پر کسی قسم کا حملہ کرتے یا آپ {ص} کو کوئی نقصان پہنچانا چاہتے تو، جناب ابو طالب پیغمبر اسلام {ص} کا دفاع کرنے کے لئے آگے بڑھتے اور کوئی ان کے مقابلے میں آنے کی جرات نہیں کرتا اور اگر کوئی حملہ ھوتا تو مکہ میں قبیلوں کے درمیان جنگ شروع ھوجاتی اور برسوں تک یہ جنگ جاری رہتی اور سیکڑوں افراد قتل ھوتے رہتے، لہذا وہ اس موضوع سے سخت خائف تھے-

دوسری جانب، پیغمبر اسلام {ص} کے گھر میں حضرت خدیجہ {س} آپ {ص} کی سب سے بڑی حامی اور پشت و پناہ تھیں- آنحضرت {ص} جب کبھی قریش کی اذیت و آزار سے دل آزردہ ھو کر گھر تشریف لاتے، تو گھر میں حضرت خدیجہ {س} آپ {ص} کے لئے آرام و سکون کا سبب بنتی تھیں اور گھر کے ماحول کو اس قدر آرام و دل نشین بناتی تھیں کہ رسول اللہ {ص} کے بدن سے تھکاوٹ دور ھوجاتی تھی اور آنحضرت {ص} باہر کی تمام سختیوں اور اذیت و آزار کو فراموش کردیتے تھے-

حضرت خدیجہ {س} کی رحلت کے بعد، پیغمبر اسلام {ص} نے اپنے گھر کے داخلی آرام و سکون کو کھو دیا اور جناب ابوطالب کی وفات سے آنحضرت {ص} نے اپنے سب سے اہم اور طاقتور سماجی پشت پناہ کو کھو دیا- اس سال پیغمبر اسلام {ص} اور مسلمان اس قدر محزون اور غم و اندوہ سے دوچار ھوئے کہ اس سال کا نام " عام الحزن" یعنی غم و اندوہ کا سال رکھا اور حقیقت میں ایک سال عمومی سوگ کا اعلان کیا-

پیغمبر اسلام {ص} ہمشہ فرماتے تھے:" جب تک ابو طالب اور خدیجہ زندہ تھے میرے دل میں کبھی غم و اندوہ داخل نہیں ھوتا تھا"-

جناب ابو طالب کی رحلت کے بعد، کفار اور مشرکین کسی خوف کے بغیر رسول اللہ {ص} اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ اذیت و آزار پہچانے کی جرات کرتے تھے، کیونکہ اب ان کو ابوطالب کا ڈر نہیں تھا-

ایک دن رسول اللہ {ص} مکہ کے ایک کوچہ سے گزر رہے تھے، اچانک ایک بت پرست نے ابو جہل کے حکم سے، آنحضرت {ص} کے سر و صورت پر کوڑا کرکٹ سے بھرا ایک برتن انڈیل دیا- رسول اکرم {ص} اسی حالت میں اپنے گھر میں داخل ھوئے، اپنے سر و صورت کو دھویا اور اکیلے ہی گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئے- اس سے پہلے جب کبھی رسول اللہ {ص} کے لئے ایسی حالت پیش آتی تھی، تو گھر آنے پر حضرت خدیجہ {س} مہر و محبت سے آپ {ص} کا استقبال کرتی تھیں اور آپ {ص} کے سر وصورت کو دھو دیتی تھیں اورمہر بانی سے پیش آکر پیغمبر اکرم {ص} کے زخموں پر مرہم کرتی تھیں-

بہر حال، قریش کی طرف سے اذیت و آزار میں روزبروز اضافہ ھوتا جارہا تھا اور آنحضرت {ص} کے لئے مکہ میں زندگی کو جاری رکھنا سخت ھورہا تھا- پیغمبر اسلام {ص} اس نتیجہ پر پہنچے کہ نہ گھر میں ان کے لئے آرام ہے اور نہ باہر ان کے لئے امن و سکون ہے اس لئے انھیں جتنا جلد ممکن ھوسکے، مکہ کو ترک کرکے کہیں اور ھجرت کرنی چاہئے، تاکہ وہاں کے لوگ اسلام کو قبول کرکے ان کی حمایت کریں-

رسول خدا {ص} نے حضرت خدیجہ {س} کی وفات کے ایک ماہ بعد اسی سال کے ماہ شوال کے آخری دنوں، طا ئف کے لوگوں کی دعوت پر زید بن حارثہ کے ہمراہ طا ئف ھجرت کی- پیغمبر اسلام {ص} اور زید دس دن تک طائف کے لوگوں کے درمیان رہے- ان دس دنوں کے دوران طائف کے بزرگوں اور مختلف لوگوں سے گفتگو کی اور ان کے سامنے اسلام پیش کیا، لیکن اس مدت کے دوران کوئی ایک فرد بھی ایمان نہیں لایا- اس سے بد تر یہ کہ طائف کے بزرگوں نے، بچوں، غلاموں اور دیوانوں کو اس کام پر مجبور کیا کہ جہاں پر بھی پیغمبر اسلام {ص} کو دیکھیں ان پر سنگ باری کریں اس صورت میں زید بن حارثہ آنحضرت {ص} کے سامنے سپر بنتے تھے تاکہ رسول اللہ {ص} کے بدن کو تکلیف نہ پہنچے اس کے بعد، رسول خدا {ص} ان ایام کو اپنی زندگی کے مشکل ترین دنوں کے عنوان سے یاد کرتے تھے-

سر انجام پیغمبر اسلام اور زید بن حارثہ طائف کو ترک کرکے واپس مکہ آنے پر مجبور ھوئے- جب آپ {ص} غارحرا کے نزدیک پہنچے، تو پیغمبر اکرم {ص} مکہ میں داخل ھونے کے بارے میں فکرمند تھے، اس لئے ایک قاصد کو مکہ کے بعض افراد کے پاس بھیجدیا اور ان سے اسلام کی ترویج کے سلسلہ میں مدد چاہی- اس کے نتیجہ میں صرف " مطعم بن عدی" نے رسول خدا {ص} کی حمایت کرنے کو قبول کیا- مطعم نے اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو مسلح کیا اور رسول خدا {ص} ان کی حمایت میں کعبہ میں داخل ھوئے اور طواف و نماز بجالانے کے بعد اپنے گھر لوٹے- مکہ کی حالت پہلے کی بہ نسبت کافی بدتر ھوچکی تھی اور مشرکین نے کسی خوف کے بغیر پیغمبر اکرم {ص} کا قافیہ حیات تنگ کیا تھا- جناب ابو طالب کی رحلت کے بعد ابولہب اپنے آپ کو بنی ہاشم کا سردار جانتا تھا اور وہ اپنی بیوی ام جمیل کے ساتھ، دوسروں کی بہ نسبت پیغمبر اسلام {ص} کو زیادہ اذیت و آزار پہنچاتا تھا-

پیغمبر اسلام {ص} مکہ کے اطراف میں مختلف قبیلوں کے سرداروں کے پاس گئے، من جملہ قبیلہ بنی کلب، بنی حذیفہ، بنی عامر بن صعصعہ، محارب بن خفصہ، فزارہ، غسان، مرہ، حنیفہ، سلیم، بنی نضر، بنی البکاء اور حارث بن کعب جیسے قبیلوں کے سرداروں کے پاس گئے تاکہ ان کی حمایت حاصل کریں، لیکن ان میں سے کسی نے پیغمبر اسلام {ص} کی دعوت کا مثبت جواب نہیں دیا- یہاں تک کہ موسم حج میں مدینہ سے قبیلہ خزرج کے چند سردار آگئے تھے، انھوں نے پیغمبر اکرم {ص} سے ملاقات کی اور آنحضرت {ص} کو مدینہ آنے کی دعوت دیدی اور آنحضرت {ص} نے بھی ان کی دعوت کو قبول کیا-

تاریخ کے تمام واقعات اور حوادث اس امر کے گواہ ہیں کہ پیغمبر اسلام {ص} مکہ کو ترک کرنا نہیں چاہتے تھے، لیکن حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ {س} کی وفات کے بعد آپ {ص} کے لئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں تھا حتی کہ آپ {ص} کی جان بھی خطرے میں تھی- سرانجام، پیغمبر اسلام {ص} اپنی زادگاہ کو ترک کرکے مدینہ ھجرت کرنے پر مجبور ھوئے-

حضرت خدیجہ {س} کا مرقد مطہر:

ام المومنین حضرت خدیجہ {س} کا مرقد، مکہ کے " معلی" نامی علاقہ میں قبرستان " حجون" میں واقع ہے- یہ قبرستان، اسلام سے پہلے بھی مکہ کے مردوں کی تدفین کی جگہ تھی- اس قبرستان میں، صحابیوں اور تابعین کی ایک بڑی تعداد اور علمائے اسلام اور اسلام کی بڑی شخصیتیں دفن ہیں- قبرستان حجون میں دفن کئے گئے افراد میں عبدالمطلب ، ابوطالب، ابراھیم بن محمد{ص}، عبد مناف ، یاسراور سمیہ شامل ہیں- بہت سے مورخین نے نقل کیا ہے کہ حضرت خدیجہ {س} کی قبر پر لکڑی کا بنا ھوا ایک گنبد تھا، کہ مسلمان اس کی زیارت کرتے تھے- سنہ ۷۵۰ ھجری میں محمد سلیمان مصری کے حکم سے اس قبر مبارک پر قیمتی پتھروں کا ایک گنبد تعمیر کیاگیا اور قبر مبارک کو گران قیمت پارچے سے ڈھانپا جاتا تھا- حضرت خدیجہ {س} کی قبر کی زیارت کے لئے آنے والے زائرین کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے ایک مدت کے بعد اس قبر مبارک پر ایک خادم کو رکھا جاتا تھا تاکہ اس گنبد و بارگاہ کی صفائی کی جاسکے اور اس خادم کی تنخواہ آل عثمان کے موقوفات سے ادا کی جاتی تھی- حضرت خدیجہ {س} کی بارگاہ اور گنبد کی ۱۲۴۲ ھجری میں تعمیر نو کی گئی- لیکن ۱۳۴۲ ھجری میں اس گنبد و بارگاہ کو دوسرے بہت سے اسلامی آثار کے مانند وہابیوں نے منہدم کردیا-

" سنوک ھور خرونیہ" نامی ایک مستشرق نے مکہ کے بارے میں اپنی ایک مفصل تحقیق میں لکھا ہے:

" رسول خدا {ص} کی شریک حیات حضرت خدیجہ {س} کا مقبرہ قبرستان معلی میں واقع ہے اور اس پر ایک بڑا گنبد اور بارگاہ ہے- لوگ ہر مہینے کی گیارہویں تاریخ کو حضرت خدیجہ {س} کی اس بارگاہ پر آتے ہیں اور پر شکوہ مجلسیں منعقد کرتے ہیں- ان مجلسوں میں سادات میں سے ایک شخص مولود خوانی کرتا ہے اور سرانجام اسے ایک رقم ادا کی جاتی ہے اور مولود خوانی کے بعد لوگ اپنے ساتھ لایا ھوا مزہ دار کھانا {شام} تناول کرتے ہیں- اور شام کھانے کے بعد بعض لوگ قبر کے پاس گنبد کے نیچے بیٹھتے ہیں اور قبر مبارک پر ڈالے گئے قیمتی پارچوں کو تبرک کے طور پر مس کرتے ہیں- قبر کے اردگرد لوہے کا ایک پنجرہ {ضریح} نصب کیا گیا ہے- یہ مجلسیں نصب شب تک جاری رہتی ہیں"-

حضرت خدیجہ {س} کا حرز:

حضرت خدیجہ {س} کا خداوند متعال کے ساتھ کافی گہرا اور بلند رابطہ تھا- اسلام کی اس عظمت والی خاتون کا ایک خاص حرز {تحفظ} تھا اور اس حرز کی روشنی میں وہ اپنے پروردگار سے رابطہ قائم کرتی تھیں- سید طاوس نے اپنی کتاب " نہج الدعوات" میں حضرت خدیجہ {س} کے دوحرز نقل کئے ہیں، جو حسب ذیل ہیں:

1-" بسم الله الرحمن الرحيم، يا حي يا قيوم، برحمتك استغيث فاغثني ، ولا تلكنی الي نفسي طرفة عين ابدا، و اصلح ليشایب كله؛ " " عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے، اے زندہ اور اپنی رحمت پر پائدار خدا؛ میں تیری رحمت میں پناہ لیتی ھوں ، مجھے اپنی پناہ میں قرار دینا اور مجھے کبھی آنکھ چپکنے کے برابر اپنے حال پر نہ چھوڑنا، میری زندگی میں ہر حالت میں میری مدد کرنا-

۲- بسم الله الرحمن الرحيم، يا الله يا حافظ يا حفيظ يا رقيب؛ " " عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے ، اے خدا؛ اے حفاظت کرنے والے، اے تحفظ بخشنے والے اور اے رکھوالی اور پاسداری کرنے والے"-

ترتیب و پیشکش: عبداللہ علی بخشی

Sunday, 03 March 2013 05:17

جناب ام حبیبہ كي سيرت

ام حبیبہ، پیغمبر اسلام {ص} کی ایک شریک حیات تھیں- ام حبیبہ، ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف کی بیٹی تھیں- اکثر مورخین اور ماہرین انساب کے مطابق ام حبیبہ، " رملہ" کے نام سے مشہور تھیں- وہ پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت سے سترہ سال قبل مکہ میں پیدا ھوئی ہیں-

ان کی والدہ کا نام صفیہ تھا، جو ابی العاص بن عبدالشمس بن عبد مناف کی بیٹی اور جناب عثمان بن عفان کی پھپھی تھیں- "رملہ" نے پیغمبر اسلام {ص} کی بعثت سے قبل عبیداللہ بن جحش اسدی، یعنی پیغمبر اسلام {ص} کی بیوی جناب زینب بنت جحش کے بھائی سے ازدواج کی تھی- پیغمبر اکرم {ص} کی بعثت کے بعد " رملہ" اور عبیداللہ ان پہلے افراد میں شامل تھے- جنھوں نے آنحضرت {ص} پر ایمان لایا اور اسلام قبول کیا-

جناب ام حبیبہ، خدا اور اس کے رسول {ص} کو دوسری تمام چیزوں پر ترجیح دیتی تھیں اور کفر و شرک کے بارے میں ایسے پرہیز اور نفرت کرتی تھیں، جیسے کوئی شخص آگ میں گرنے سے اپنے آپ کو بچاتا ہے-

ابو سفیان ہرگز ذہنی طور پر یہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ قریش میں سے کوئی شخص سر اٹھاکر اس کے مقابلے میں کھڑا ھونے کی جرات کرے اور اس کے دستورات کی سرپیچی اور نافرمانی کرے اور اہم و بنیادی مسائل میں اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کرے-

ابو سفیان، مکہ کا سردار تھا، سب لوگ اس کے دستورات کی اطاعت کرتے تھے- اس کی بیٹی نے خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لایا تھا اور جن خداوں پر ان کا باپ ایمان رکھتا تھا، ان کی وہ کھلم کھلا مخالفت کرتی تھیں-

جناب ام حبیبہ، نے دل و جان سے اسلام کو قبول کیا تھا- بعض کہتے ہیں کہ چونکہ ان کے شوہر، عبیداللہ نے ایمان لایا تھا، اس لئے " رملہ" نے بھی اسی وجہ سے اسلام قبول کیا تھا، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ انھوں نے اپنی مرضی اور دل و جان سے اسلام کو قبول کیا تھا- اس امر کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے اس وقت اسلام کو قبول کیا ہے، جب دین اسلام، بنی امیہ، خاص کر ان کے باپ ابوسفیان کی طرف سے زبردست دشمنی اور دباو سے دوچار تھا-

" رملہ" اور ان کے شوہر، عبیداللہ بن جحش نے ایک ساتھ خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لایا اور پیغمبر اسلام {ص} کی رسالت کی تصدیق کی اور اسے قبول کیا-

ابوسفیان نے اپنی بیٹی اور داماد کو دوبارہ اپنے آبا و اجداد کے دین کی طرف پلٹنے کے لئے سرتوڑ کوشش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ھوا-

جس ایمان نے " رملہ" کے دل میں جڑ پکڑا تھا اور اس کے پورے وجود کو تسخیرکرچکا تھا، وہ اس قدر مضبوط اور مستحکم تھا کہ ابوسفیان کی دشمنی اور خصومت اسے ہلا نہیں سکتی تھی- اس لئے " رملہ" کا اسلام قبول کرنا ابوسفیان کے لئے پریشان کن تھا- کیونکہ وہ اپنی بیٹی کو اپنے تابع اور کنٹرول میں لاکر اپنی مرضی کے مطابق پرورش نہیں کرسکا تھا اور وہ اسے حضرت محمد {ص} کی پیروی کرنے سے روک نہیں سکا تھا، اس لئے وہ اپنے قبیلہ، قریش میں سر بلندی کے ساتھ رئیس ھونے کا دعوی نہیں کرسکتا تھا-

قریش والوں کو جب معلوم ھوا کہ ابوسفیان اپنی بیٹی " رملہ" اور ان کے شوہر سے راضی نہیں ہے اور ان کی جانب سے کافی گستاخی کی وجہ سے بہت ناراض ہے تو انھوں نے بھی " رملہ" اور ان کے شوہر پر زبردست دباو ڈالا اور انھیں اس قدر جسمانی اذیت و آزار پہنچایا کہ ان کے لئے مکہ میں زندگی گزارنا نا ممکن بن گیا-

اس لحاظ سے جوں ہی پیغمبر اسلام {ص} نے مسلمانوں کو حبشہ ھجرت کرنے کی اجازت دیدی، تو " رملہ" ان کے چھوٹے بچے " حبیبہ" اور ان کے شوہر، عبیداللہ بن جحش بھی مہاجروں کے کاروان میں شامل ھوکر خدا اور اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت کے لئے حبشہ کی طرف ھجرت کرگئے اور نجاشی کی پناہ میں قرار پائے-

اس کے بعد ابوسفیان اور مکہ میں قریش کے دوسرے بزرگ آرام و سکون سے نہیں بیٹھے، کیونکہ ان کے لئے یہ بہت مشکل امر تھا کہ مسلمان آسانی کے ساتھ ان کے چنگل سے آزاد ھوکر حبشہ میں اطمینان کا سانس لیں-

اس لئے انھوں نے اپنے نمائندوں کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی طرف روانہ کیا تاکہ انھیں مسلمانوں کے خلاف اکسائیں اور ان سے درخواست کریں کہ مسلمانوں کو ان کے حوالہ کردیں اور اس کے ساتھ نجاشی کو یہ بھی کہہ دیں کہ یہ لوگ حضرت عیسی{ع} اور ان کی ماں حضرت مریم {ع} کے بارے میں اچھا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں، تاکہ نجاشی کے لئے ناراضگی کا سبب بنے-

مشرکین مکہ کے نمایندوں کی نجاشی سے ملاقات اور پیغام پہنچانے کے بعد، نجاشی نے مہاجرین کے بزرگوں کو اپنے دربار میں بلایا اور ان سے چاہا تاکہ اپنے دین کی حقیقت بیان کریں اور حضرت عیسی{ع} اور ان کی ماں حضرت مریم {ع} کے بارے میں اپنا اعتقاد ظاہر کریں- اس کے علاوہ نجاشی نے ان سے کہا کہ ان کے پیغمبر کے قلب پر وحی ھونے والی قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت بھی کریں –

مہاجرین کے بزرگوں نے نجاشی کے سامنے اسلام کی حقیقت بیان کی اور قرآن مجید کی چند آیات کی ان کے سامنے تلاوت کی- ان حقائق اور قرآن مجید کی آیات کو سننے کے بعد نجاشی نے اتنا رویا کہ ان کی داڑھی تر ھوگئ اور اس کے بعد مسلمانوں سے مخاطب ھوکر کہا:" بیشک جو آپ کے پیغمبر حضرت محمد {ص} پر نازل ھوا ہے اور جو کچھ حضرت عیسی بن مریم {ع} پر نازل ھوا ہے اس کا سرچشمہ ایک ہی ہے"-

اس کے بعد نجاشی نے خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کا اعلان کیا اور حضرت محمد مصطفے {ص} کی رسالت اور نبوت کی تصد یق و تائید کی-

قابل ذکر بات ہے کہ نجاشی کے دوسرے حکام اور کمانڈروں نے اسلام قبول نہیں کیا اور وہ اپنے ہی دین، یعنی عیسائیت پر باقی رہے، لیکن اس کے باوجود نجاشی نے مسلمان مہاجرین اور پناہ گزینوں کی حمایت کا اعلان کیا-

جناب ام حبیبہ خیال کرتی تھیں کہ درد و رنج کا زمانہ ختم ھوگیا ہے اور آرام و آسائش کا وقت پہنچ گیا ہے- وہ خیال کرتی تھیں کہ اس نے جن مشکلات اور مصائب و آلام سے بھرے راستہ کو طے کیا ہے، اس نے سر انجام اسے ایک ایسی سر زمین پر پہنچا دیا ہے جو امن و آمان کی سرزمین ہے، انھیں ایسا خیال کرنے کا حق تھا، کیونکہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کی تقدیر نے کونسا رخ اختیار کیا ہے-

خداوند متعال کی حکمت یہ تھی کہ جناب ام حبیبہ کو آرام و آسائش کے ماحول میں بھی سخت ترین امتحانات اور آزمائشوں میں قرار دے، ایسی آزمائشیں، جن میں سے چالاک اور عقلمند مرد بھی ممکن ہے کامیابی سے باہر نہ آسکیں- لیکن سرانجام منشائےالہی یہی تھا کہ جناب ام حبیبہ اس امتحان کو کامیابی اور سرفرازی کے ساتھ پاس کرے-

ایک رات کو جب جناب ام حبیبہ بسترہ پر لیٹی تھیں، ان پر نیند طاری ھوئی، سپنے میں دیکھا کہ ان کا شوہر عبیداللہ بن جحش ایک سمندر کی طوفانی لہروں کی لبیٹ میں آگیا ہے اور اس کے چاروں طرف تاریکی چھائی ھوئی ہے اور وہ ایک بری حالت میں گرفتار ھوا ہے- جناب ام حبیبہ اچانک نیند سے بیدار ھوئیں، خوف و وحشت اور اضطراب میں دوچار ھوئی تھیں اور وہ اس خواب کے بارے میں اپنے شوہر یا کسی دوسرے شخص کو آگاہ کرنا چاہتی تھیں-

لیکن جلدی ہی یہ خواب شرمندہ تعبیر ھوا، اسی رات کے گزرنے کے بعد دن کو عبیداللہ نے اپنے دین سے مرتد ھوکر دین مسیحیت کو اختیار کیا اور اس کے بعد شراب فروشی کی دوکان پر مشغول ھوا اور دن رات شراب نوشی میں گزارتا تھا اور شراب پی کر کبھی سیر نہیں ھوتا تھا-

ام حبیبہ کے شوہر نے ان کے لئے دو راہوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار بخشا، یعنی طلاق لے کر شوہر کو چھوڑنا یا اسلام کو چھوڑ کر مسیحیت اختیار کرنا- ام حبیبہ نے اچانک اپنے آپ کو ایک سہ راہہ پر پایا:

اولاً یہ کہ: اگر وہ اپنے شوہر کی مسیحیت قبول کرنے کی دعوت کو قبول کرتیں تو اس صورت میں اسے اپنے دین کو چھوڑ کر مرتد ھونا تھا اور اس طرح دنیا و آخرت کی رسوائی کو مول لیتیں-

حقیقت میں یہ ایک ایسا کام تھا، جسے جناب ام حبیبہ کسی صورت میں انجام نہیں دے سکتی تھیں، اگر چہ ان کے بدن سے گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے جدا کیا جاتا-

ثانیاً: یہ کہ اسے مکہ میں اپنے باپ کے گھر جانا چائیے تھا، جو شرک و بت پرستی کا ایک مستحکم قلعہ کے مانند تھا، اور وہاں پر بہت سخت اور دم گھٹنے والے حالات سے مقابلہ کرنا پڑتا-

اور ثالثاً: یہ کہ سر زمین حبشہ میں تنہا و بے سر پرست حالت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتیں-

جناب ام حبیبہ نے بالآخر اسی راہ کا انتخاب کیا جس میں خدا کی رضامندی تھی- انھوں نے حبشہ میں ہی بیٹھنے کا قطعی فیصلہ کیا تاکہ خداوند متعال کی طرف سے کوئی عقدہ کشائی ھو جائے- زیادہ دیر نہ ھوئی تھی کہ جناب ام حبیبہ کے لئے ایک گشائش حاصل ھوئی-

رسول خدا {ص} سے ازدواج:

جوں ہی جناب ام حبیبہ کے لئے اپنے عیسائی مذہب اختیار کئے شوہر کے طلاق کے بعد عدت ک مدت ختم ھوئی، تو ان کے لئے ایک گشائش حاصل ھوئی اور ان کے لئے سعادت و خوش قسمتی کی خبر ملی اور انھیں شادی کا پیغام ملا-

ایک دن، صبح کو جناب ام حبیبہ کے دروازہ پر دستک دی گئی، انھوں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ بادشاہ نجاشی کا خادم " ابرہہ" دروازہ پر ہے-

ابرہہ نے احترام و ادب کے ساتھ انھیں سلام کیا اور گھر میں داخل ھونے کی اجازت مانگی اور کہا: بادشاہ آپ کو سلام پہنچاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ:" محمد رسول اللہ {ص} نے اپنے لئے آپ کی خواستگاری کی ہے"-

آنحضرت {ص} نے ایک خط میں نجاشی کو اپنی طرف سے عقد پڑھنے کے لئے وکیل قرار دیا ہے اور آپ کو بھی اختیار ہے، جسے چاھو گی اپنی طرف سے عقد پڑھنے کے لئے وکیل قرار دے سکتی ہو-

اس پیغام کو سن کر جناب ام حبیبہ پھولے نہ سمائیں اور بے اختیار فریاد بلند کرتے ھوئے کہا: خدا تجھے نیک خبر کی بشارت دے-

اس کے بعد جناب ام حبیبہ نے زیب تن کئے ھوئے اپنے زیوات ایک ایک کرکے بدن سے جدا کئے، جو ایک جوڑا دست بند، کئی خلخال، ایک جوڑا گوشوارہ اور کئی انگوٹھیوں پر مشتمل تھے، اور انھیں انعام کے طور پر نجاشی کے خادم ابرہہ کو بخش دیا- حقیقت میں اگر جناب ام حبیبہ اس وقت تمام دنیا کے خزانوں کی مالک ھوتیں، تو وہ بھی ابرہہ کو بخش دینے سے دریغ نہ کرتیں- اس کے بعد ابرہہ سے کہا: میں اپنی طرف سے خالد بن سعید بن العاص کو وکیل قرار دیتی ھوں کیونکہ وہ سب سے میرے نزدیک تر ہیں-

نجاشی کا محل ایک پہاڑی پر واقع تھا- اس کے اطراف میں خوبصورت درخت لگے ھوئے تھے اس کے سامنے حبشہ کا ایک خوبصورت باغ تھا، جس میں دلربا چشمے تھے، شہر کی سڑکوں اور میدانوں کو چکاچوند لگانے والے چراغاں سے سجایا گیا تھا اور محل کو بہترین اور گراں قیمت قالین سے فرش کیا گیا تھا- یہاں پر، جعفر بن ابیطالب، خالد بن سعید بن العاص اور عبداللہ بن حذافہ سہمی وغیرہ جیسے حبشہ میں مقیم پیغمبر اسلام {ص} کے عظیم صحابی تشریف فرما تھے، ان کے حضور میں ایک محفل منعقد کی گئی- جب سب مہمان جمع ھوئے تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے محفل کی صدارت کی اور حضار کے سامنے ایک تقریر کی اور اس میں کہا:

" میں خداوند قدوس، مومن و جبار کا شکر و ثنا بجا لاتا ھوں اور گواہی دیتا ھوں کہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد {ص} خداوند متعال کے بندہ و رسول ہیں اور یہ وہی ہیں جن کے بارے میں عیسی بن مریم {ع} نے بشارت دی ہے-

اما بعد، آپ کو جاننا چاہئیے کہ رسول اللہ {ص} نے مجھ سے چاہا ہے کہ میں ام حبیبہ بنت ابوسفیان کو آنحضرت {ص} کے عقد و نکاح میں قرار دوں اور میں نے آنحضرت {ص} کو مثبت جواب دیا ہے اور خدا اور اس کے رسول {ص} کے قانون کے مطابق آنحضرت {ص} کے وکیل کی حیثیت سے چارسو دینار سونا مہر کے عنوان سے جناب ام حبیبہ کو ادا کر رہا ھوں"- اس کے بعد انھوں نے مذکورہ دینار خالد بن سعید بن العاص کے سامنے رکھے اور اس کے بعد خالد نے کھڑے ھوکر کہا:" الحمدالله احمده و استعینه و استغفره و اتوب الیه و اشهد ان محمداً عبده و رسوله ، ارسله بدین الهدی و الحق لیظهره علی الدین کله و لوکره الکافرون ، اما بعد"میں نے بھی رسول خدا {ص} کی درخواست کا مثبت جواب دیا اور اپنی موکل یعنی ام حبیبہ بنت ابوسفیان کو رسول اللہ {ص} کے عقد میں قرار دیا، خداوند متعال رسول اللہ {ص} اور آپ {ص} کی شریک حیات کو بابرکت زندگی عطا فرمائے-

اور مبارک ھو ام حبیبہ کو اس خیر و سعادت کے سلسلہ میں کہ جسے خداوند متعال نے ان کے لئے مقدر فرمایا ہے- اس کے بعد خالد نے دینار اٹھا لئے تاکہ انھیں ام حبیبہ کی خدمت میں پہنچا دیں- ان کے ساتھی بھی اٹھے اور مجلس کو برخاست کرنا چاہتے تھے، اس دوران نجاشی نے ان سے مخاطب ھوکر کہا: مہربانی کرکے تشریف رکھئے، انبیاء {ع} کا طریقہ کار یہ ہے کہ ازدواج کی تقریب پر کچھ مختصر کھانے کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے- دستر خوان بچھا دیا گیا اور مہمانوں نے کھانا تناول کیا اور اس کے بعد تشریف لے گئے- جناب ام حبیبہ کہتی ہیں: جب مہر، میرے ہاتھ میں آگیا تو میں نے اس میں سے ۵۰ مثقال سونا ابرہہ کے لئے بھیجا، کیونکہ اس نے میرے لئے یہ خوشخبری لائی تھی، اور کہا: " جب پہلے مرحلہ میں آپ نے مجھے یہ خوشخبری دیدی تو میں نے اس وقت کچھ سونا اور جواہرات آپ کو انعام کے طور پر دئے، اس وقت میرے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا- اس پیغام کے فوراً بعد ابرہہ، میرے پاس آگیا اور پچاس مثقال سونا اور زیورات اور جواہرات جو میں نے اس سے پہلے دیدئے تھے، سب مجھے واپس کئے اور کہا: بادشاہ نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ سے کوئی چیز قبول نہ کروں اور اس کے علاوہ اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ جو کچھ ان کے پاس عطر و خوشبو کے عنوان سے ہے، اسے آپ کے لئے بھیجدیں- دوسرے دن پھر سے میرے پاس آگیا اور اپنے ساتھ عود و خوشبو کی کچھ مقدار لے آیا تھا اور مجھ سے مخاطب ھوکر کہا: مجھے آپ کے ساتھ ضروری کام ہے- میں نے پوچھا: کیا کام ہے؟ اس نے جواب میں کہا: میں مسلمان اور دین محمد {ص} کا پیرو ھوں، پیغمبر اسلام {ص} کو میرا سلام پہنچانا اور انھیں یہ خبر دینا کہ میں نے خدا اور اس کے رسول {ص} پر ایمان لایا ہے- مہربانی کرکے میرے اس پیغام کو نہ بھول جانا- اس کے بعد اس نے میرے سفر کے وسائل آمادہ کئے-

ایک مبارک ملاقات:

ام حبیبہ کا کاروان، بادشاہ نجاشی کے تحفہ و تحائف کو لئے ھوئے بادشاہ کی طرف سے آمادہ کی گئی کشتی میں مدینہ کی طرف روانہ ھوا- مدینہ کے پاس پہنچ کر خبر ملی کہ پیغمبر اسلام {ص} فتح خیبر کے سلسلہ میں مدینہ سے باہر تشریف لے گئے ہیں اور یہ بھی معلوم ھوا کہ آپ {ص} جلدی ہی واپس لوٹنے والے ہیں-

پیغمبر اسلام فاتح کی حیثیت سے لوٹے، اور جعفر بن ابیطالب کا استقبال کرتے ھوئے فرمایا:" مجھے یہ سمجھ میں نہیں اتا ہے کہ جعفر کے آنے پر خوشی مناوں یا فتح خیبر پر"-

مجھے رسول خدا {ص} کے پاس لے گئے، میں نے آنحضرت {ص} سے ملاقات کی، خواستگاری، مجلس عقد اور ابرہہ سے ملاقات کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ آنحضرت {ص} کی خدمت میں پیش کی اوراس کے ساتھ ابرہہ کا سلام بھی پہنچا دیا-

پیغمبر اسلام {ص} یہ خبر سن کر خوش ھوئے اور فرمایا: و علیہ السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ-

جناب ام حبیبہ، دوسری دلھن جناب صفیہ کے ساتھ پیغمبر اسلام {ص} کے گھر گئیں- جناب عثمان بن عفان نے اپنی چچازاد بہن کی آنحضرت {ص} کے ساتھ ازدواج ھونے کے سلسلہ میں ایک بڑے جشن کا اہتمام کیا-

ابوسفیان نے اپنی بیٹی کی رسول اللہ {ص} سے ازدواج کرنے کی خبر سن کر کہا:" اس مرد کی ناک رگڑنا مشکل ہے"- یہ کلام رسول خدا {ص} کے نا قابل شکست ھونے اور آپ {ص} کے مستحکم ھونے کی طرف کنایہ تھا-

اخلاقی اوصاف:

روایت ہے کہ فتح مکہ سے پہلے صلح حدیبیہ کی تجدید کے لئے ابوسفیان مدینہ آگیا اور اپنی بیٹی جناب ام حبیبہ کے گھر گیا، اس فرش پر بیٹھنا چاہتا تھا، جس پر رسول خدا {ص} تشریف رکھتے تھے، اس کی بیٹی نے فوراً اس فرش کو اٹھالیا- ابوسفیان نے کہا: بیٹی؛ میں نہیں جانتا کہ یہ فرش میرے قابل نہیں ہے یا میں اس فرش کے لائق نہیں ھوں؟"- جناب ام حبیبہ نے فرمایا:" یہ فرش پیغمبر خدا {ص} کا ہے اور تم مشرک اور نجس ھو، اس لئے میں نہیں چاہتی ھوں کہ پیغمبر اسلام {ص} کے فرش پر بیٹھ جاو گے"- ابوسفیان نے کہا:" خدا کی قسم، بیٹی، جب سے تجھے نہیں دیکھا،تم شر پسند بن گئی ھو؛"

ام المومنین جناب ام حبیبہ ایک پرہیزگار اور عابد خاتون تھیں، وہ کافی نمازیں پڑھتی تھیں اور اکثر خدا کی یاد میں ھوتی تھیں اور دینی مسائل کو زیادہ اہمیت دیتی تھیں-

جناب ام حبیبہ ذہانت، تیز فہمی اور نیک نیتی میں مشہور تھیں- جناب ام حبیبہ اور جناب عائشہ کے درمیان غیر معمولی حد تک اچھے تعلقات تھے، کہا گیا ہے کہ اس رشتہ کے سلسلہ میں جناب عائشہ نے کلیدی رول ادا کیا ہے اور آنحضرت {ص} کو یہ کام انجام دینے کی ہمت افزائی کی ہے-

جناب ام حبیبہ کوشش کرتی تھیں کہ اپنی سوکنوں، یعنی جناب عائشہ اور جناب ام سلمہ کا اعتماد حاصل کریں، جو پیغمبر اکرم {ص} کا محبت حاصل کرنے میں رقابت کرتی تھیں، اور اس طرح اطمینان حاصل کریں کہ وہ دونوں ان سے راضی ہیں- اس بنا پر جناب عائشہ کو اپنے پاس بلاکر کہا: ہمارے درمیان ایسی چیزیں واقع ھوئی ہیں کہ ممکن ہے دوسری سوکنوں کے درمیان بھی واقع ھوجائیں، کیا آپ مجھے معاف کرسکتی ہیں؟ جناب عائشہ نے کہا: میں آپ کو معاف کرتی ھوں اور خداوند متعال آپ کو شادمانی بخشے کیونکہ آپ نے مجھے شاد کیا ہے – جناب ام سلمہ نے بھی ایسا ہی کہا-

اسلامی احکام کے سلسلہ میں حتی اپنے باپ کا بھی لحاظ نہیں کرتی تھیں:

مسلمانوں اور قریش کے درمیان صلح حدیبیہ انجام پانے کے وقت ابوسفیان مکہ میں نہیں تھا، اس لئے قریش کے ایک سابقہ سردار، سہیل بن عمرو عامری نے ابوسفیان کے نمایندہ کی حیثیت سے اس معاہدہ پر دستخط کئے-

بنی خزاعہ مسلمانوں کے ہم پیمان تھے اور صلح نامہ کے مطابق قریش کو اس قبیلہ پر حملہ کرنے کا حق نہیں تھا- مکہ کے چند ناعاقبت اندیش بیوقوفوں نے پیمان شکنی کی اور بنی خزاعہ پر حملہ کیا- جب مسلمان اس قضیہ سے آگاہ ھوئے تو انھوں نے بنی خزاعہ، یعنی اپنے ہم پیمانوں کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا-

قریش والوں کو اپنی غلطی کا احساس ھوا اور انھیں معلوم ھوا کہ اگر مسلمان ان پر حملہ کریں گے تو وہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے- اسی لئے انھوں نے ابوسفیان بن حرب کو فوراً رسول خدا {ص} کے پاس بھیجا تاکہ آپ {ص} کے ساتھ مذاکرہ کرکے صلح کے عہد نامہ کو دس سال سے زیادہ مدت کے لئے بڑھا دیں-

ابو سفیان اپنے ذہن میں جنگ و صلح جیسے ہزاروں افکار لئے ھوئے مدینہ کی طرف روانہ ھوا- وہ راستہ میں مسلسل یہ سوچ رہا تھا کہ کونسی وجہ ھوئی کہ مسلمانوں نے اس قدر عزت حاصل کی اور قریش اس قدر ذلت و رسوائی سے دوچار ھوئے؟ اسی فکر و اندیشہ میں تھا کہ اس کے ذہن میں یہ خیال آگیا کہ مدینہ پہنچ کر کس گھر میں ٹھہرے؟

اس نے اپنے آپ سے کہا: میری بیٹی "رملہ" سے کوئی میرے لئے نزدیک تر نہیں ہے- - - اگر چہ وہ محمد {ص} کی بیوی ہیں، لیکن ایک باپ کی حیثیت سے جو تکلیفیں ان کے لئے میں نےاٹھائی ہیں، ان کے پیش نظر وہ ضرور میری مدد کرے گی-

سر انجام، ابوسفیان مدینہ پہنچ گیا– سب سے پہلے اسے رسول خدا {ص} کے پاس جانا چاہئیے تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا اور مدینہ میں داخل ھوتے ہی مسجد النبی {ص} کی طرف روانہ ھوگیا- وہاں پر رسول خدا {ص} کو دیکھا کہ چند اصحاب کے ساتھ بیٹھے ھوئے ہیں- ابوسفیان آگے بڑھا اور پیغمبر اسلام {ص} کے سامنے اپنے مسائل بیان کئے- اس نے رسول خدا {ص} کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی- کہ صلح نامہ کو دس سال سے زیادہ مدت تک بڑھا دیا جائے، لیکن آنحضرت {ص} نے انکار کرکے اسے قبول نہیں کیا-

رسول خدا {ص} سے امہات المومنین کی درخواست:

۱-ایک روایت کے مطابق کئی غزوات کے بعد، پیغمبر اسلام {ص} کی بیویوں نے آنحضرت {ص} سے درخواست کی کہ ان کے نفقہ میں اضافہ فرمائیں اور ان کی زندگی کو وسعت بخشیں- نقل کیا گیا ہے کہ جناب ام حبیبہ نے پیغمبر اکرم {ص} سے ایک " سخولی" { یمن کا ایک محل یا قبیلہ} یا" سحوانی" لباس کا مطالبہ کیا- رسول خدا {ص} نے ایک مہینہ تک اپنی بیویوں سے کنارہ کشی فرمائی، یہاں تک کہ اس سلسلہ میں سورہ احزاب کی آیت نمبر ۲۸، ۲۹ اور ۳۳ نازل ھوئیں اور پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کو انتباہ کیا گیا کہ اگر تم لوگ دنیا کی زرق و برق والی زندگی چاہتی ھو، تو پیغمبر {ص] سے جدا ھوسکتی ہو: ."يـاَيُّهَا النَّبىُّ قُل لاَِزوجِكَ اِن كُنتُنَّ تُرِدنَ الحَيوةَ الدُّنيا و زينَتَها فَتَعالَينَ اُمَتِّعكُنَّ واُسَرِّحكُنَّ سَراحـًا جَميلا * و اِن كُنتُنَّ تُرِدنَ اللّهَ ورَسولَهُ والدّارَ الأخِرَةَ فَاِنَّ اللّهَ اَعَدَّ لِلمُحسِنـتِ مِنكُنَّ اَجرًا عَظيمـا "-" پیغمبر آپ اپنی بیویوں سے کہد یجئے کہ اگر تم لوگ زندگانی دنیا اور اس کی زینت کی طلبگار ھوتو آو میں تمھیں متاع دنیا دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں- اور اگر اللہ اور رسول اور آخرت کی طلبگار ھو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے- اور اپنے گھروں میں بیٹھی رھو اور پہلی جاہلیت جیسا بناو سنگھار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکواۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو- "

۲-بعض روایتوں کے مطابق سورہ احزاب کی آیات ۲۸، ۲۹ اور ۳۳ نازل ھونےکے بعد پیغمبر اسلام {ص} کی بیویاں ڈر گئیں کہ کہیں آنحضرت {ص} انھیں طلاق نہ دیں، اس لئے آنحضرت {ص] سے درخواست کی کہ بدستور آپ {ص} کی بیویوں کی حیثیت سے باقی رہیں اور آنحضرت {ص} نے بھی اس کے بعد اوقات اور نفقہ کی تقسیم میں اپنی مصلحت کے مطابق عمل کیا- پیغمبر اکرم {ص} کی بیویوں کی درخواست کے بارے میں آیہ شریفہ: " تُرجى مَن تَشاءُ مِنهُنَّ و تُـوى اِلَيكَ مَن تَشاءُ ... " نازل ھوئی-{ سورہ احزاب/۵۱}

" ان میں سے جس کو چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں- - -"

پیغمبر اکرم {ص} کی رحلت کے بعد ام حبیبہ:

اکثرروایتیں جو پیغمبر اسلام {ص}کی رحلت کے بعد ام حبیبہ کی زندگی کے بارے میں ملتی ہیں، وہ تیسرے خلیفہ جناب عثمان بن عفان کے محاصرہ اور قتل اور اس کے بعد والے حوادث سے متعلق ہیں- جب جناب عثمان اعتراض کرنے والوں کے محاصرہ میں گرفتار ھوئے، تو انھوں نے ایک شخص کو حضرت علی {ع} ، جناب ام حبیبہ، زبیر اور پیغمبر اکرم {ص} کی دوسری بیویوں کے پاس بھیجا اور ان سے اشیائے خورد و نوش کی درخواست کی- حضرت علی {ع} نے ان کی مدد کا اقدام کیا، لیکن کامیاب نہیں ھوئے- اس کے بعد جناب ام حبیبہ ایک خچر پر سوار ھوکر محاصرہ کئے ھوئے معترضین کے پاس گئیں اور یہ عنوان پیش کیا کہ بنی امیہ کے وصیت نامے عثمان کے پاس ہیں اور میں انھیں ان سے لینا چاہتی ھوں، تاکہ یتیموں اور بیووں کا مال ضائع نہ ھو جائے، اور اس طرح انھوں نے عثمان بن عفان کے گھر میں داخل ھوکر اپنے ساتھ لائی ھوئی کھانے پینے کی چیزیں ان تک پہنچانے کی کوشش کی، لیکن اعتراض کرنے والوں نے ان کی مخالفت کی اور خچر کی لگام کو توڑ دیا، اس طرح کہ ام حبیبہ خچر سے گرنے کے قریب تھیں کہ لوگوں نے انھیں بچا کرانھیں ان کے گھر لے گئے-

ایک اور روایت کے مطابق ام حبیبہ جناب عثمان کو پانی پہنچانے میں کامیاب ھوئی ہیں اور عثمان کو محاصرہ سے آزاد کرنے کا بھی ارادہ رکھتی تھیں-

انھوں نے جناب عثمان بن عفان کے قتل ھونے کے بعد ان کے خون آلود کرتے کو نعمان بن بشیر کے ہاتھ اہنے بھائی معاویہ کے لئے دمشق بھیجا، لیکن معاویہ نے اس خون سے بھرے عثمان بن عفان کے کرتے سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شام کے لوگوں کو حضرت علی {ع} کے خلاف اکسایا-

جناب ام حبیبہ کی وفات:

ایک روایت کے مطابق جناب ام حبیبہ نے دمشق سفر کیا ہے، یہاں تک کہ بعض مورخین نے ان کی وفات کو دمشق میں ہی لکھا ہے اور قبرستان باب الصغیر کے پاس ان سے منسوب ایک قبر بھی موجود ہے، لیکن چونکہ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ سنہ ۴۴ھجری میں چہتھر {۷۴} سال کی عمر میں مدینہ میں دارفانی کو وداع کر گئی ہیں اور مروان بن حکم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کو قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا-

جناب ام حبیبہ ایک راوی کی حیثیت سے:

جناب ام حبیبہ نے، پیغمبر اسلام {ص} اور جناب زینب جحش سے کئی روایتیں نقل کی ہیں- ان کے بھائی معاویہ اور غلبسہ اور انس بن مالک، ابوبکر بن سعید ثقفی، ابو جراح قرشی، شہر بن حوشب، مسیب بن رافع، عاصم بن ابی صالح اور دوسروں نے ان سے روایتیں نقل کی ہیں- کتب سحاح ستہ میں جناب ام حبیبہ سے رسول اللہ {ص} کی ۶۵ حدیثیں نقل کی گئی ہیں- مثال کے طور پر:

"میں نے پیغمبر اکرم {ص} کی بیوی، ام حبیبہ سے سنا کہ رسول خدا {ص} فرماتے ہیں:" کوئی ایسا مسلمان نہیں ہے، جو دن رات کے دوران ۱۲ رکعت نماز نافلہ { غیر واجب نماز} خدا کے لئے بجا لائے، مگر یہ کہ خداوند متعال اس کے لئے بہشت میں ایک قصر تعمیر کرے، یا یہ کہ اس کے لئے بہشت میں ایک قصر بنایا جائے"- رواہ مسلم- ۷۲۸

ام حبیبہ، عبداللہ بن عمر، ام سلیم، عائشہ، میمونہ، ام کلثوم، ام سلمہ، ابن عباس{ کہ جن کی حدیث حسن و صحیح ہے} اور اسی طرح احمد اور اسحاق سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے شہادت دی ہے کہ رسول خدا {ص} " خمرہ" پر نماز پڑھتے تھے- ابوعیسی نے کہا ہے کہ: "خمرہ "ایک چھوٹی چٹائی ہے- محمد بن عیسی ابو عیسی الترمذی السلمی الوفاء: ۲۷۹، سنن الترمذی: ج ۲، ص ۱۵۱ و ۱۵۲، دار النشر، دار احیاء التراث العربی، بیروت-

زینب بنت ام سلمہ، ام حبیبہ سے نقل کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا ہے:" ایک مسلمان عورت کے لئے، جو خدا اور قیامت پر ایمان رکھتی ہے، تین دن سے زیادہ مدت کے لئے بناو سنگھار، ترک کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اس عورت کے لئے بناو سنگھار چار مہینے اور دس دن کے لئے ترک کرنا چاہئیے، جس کا شوہر فوت ھو چکا ھو- الاربعین البلدانیہ- علی بن الحسین بن عساکر، بیروت، دار الفکر ۱۴۱۳ھ

ترتیب و پیشکش: مریم حکیم

 

مزید تحقیق کے لئے منابع و مآخذ:

]- طبری؛ تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دار التراث، طبع دوم، 1967، ج11، ص604 و مسعودی؛ التنبیه و الاشراف، تصحیح عبدالله اسماعیل الصاوی، قاهره، دار الصاوی، بی تا، ص223 و ابن هشام؛ السیرة النبویه، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفه، بی تا، ج2، ص645.

[2]- عسقلانی، ابن حجر؛ الاصابه فی تمییز الصحابه، بیروت، دارالکتب العلمیه، طبع اول، 1415، ج8، ص140.

[3]- تاریخ طبری، مذکورہ، ج11، ص604 وابن سعد؛ طبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیه، طبع اول، 1990، ج8، ص76.

[4]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص76 و ابن عبدالبر؛ الاستیعاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجبل، طبع اول، 1992، ج4، ص1844.

[5]- ابن اثیر؛ اسد الغابه، بیروت، دار الفکر، 1989، ج6، ص115.

[6]- تاریخ طبری، مذکورہ ، ج3، ص165 و التنبیه و الاشراف، پیشین، ص223 و السیرة النبویه، پیشین، ج1، ص324 و طبقات الکبری، پیشین، ص77.

[7]بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سهیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، طبع اول، 1996، ج1، ص438.

[8]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77 و السیرة النبویه، مذکورہ ، ج2، ص362 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج3، ص165 و التنبیه و الاشراف، مذکورہ ، ص223.

[9]- تاریخ طبری، پیشین، ج11، ص605 و التنبیه و الاشراف، مذکورہ ، ص223 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77.

[10]- ابنقتیبه؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشه، قاهره، الهیئة المصریة العامة للکتاب، طبع دوم، 1992، ص136.

[11]- عایشه بنت الشاطی؛ نساء النبی، بیروت، دار الکتاب العربی، 1985، ص 198.

[12]- ابن کثیر؛ البدایه و النهایه، بیروت، دار الفکر، 1986، ج5، ص294 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج11، ص606 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77.

[13]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص439 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج11، ص605 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77.

[14]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77 و تاریخ طبری، مذکورہ و ج11، ص605.

[15]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ج1، ص162 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج2، ص653.

[16]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ج1، ص162 ومسعودی؛ مروج الذهب، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الهجره، طبع دوم، 1409، ج1، ص89.

[17]- السیرة النبویه، مذکورہ ، ج2، ص645 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج2، ص653.

[18]- طبقات الکبری، ایضاً، ص78.

[19]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص439 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص77-78.

[20]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ص439 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ص79 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج2، ص654.

[21]- طبقات الکبری، مذکورہ ، ص78 و زرکلی، خیرالدین؛ الاعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، طبع هشتم، 1986، ج3، ص33.

[22]- واقدی؛ مغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسه اعلمی، طبع سوم، 1989، ج2، ص792 و السیرة النبویه، مذکورہ ، ج2، ص396 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج3، ص46.

[23]- سید جمیلی؛ نساء النبی، بیروت، دار مکتبة الهلال، 2003، ص121.

[24]- تاریخ طبری، مذکورہ ، ج4، ص385 – 386 و ابن اثیر؛ الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر – دار بیروت، 1965، ج3، ص173.

[25}. ایضاً-

[26]- مروج الذهب، مذکورہ ، ج2، ص353 و مقدسی، مطهر بن طاهر؛البدء و التاریخ، پورت سعید؛ مکتبة الثقافه الدینیه، بی¬تا، ج5، ص211 و ذهبی، تاریخ اسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، طبع دوم، 1993، ج3، ص539.

[27]- ایضاً-

[28]- حسینی دشتی، مصطفی؛ معارف و معاریف، قم، اسماعیلیان، طبع اول، 1369، ج1، ص261.

[29]- سفرنامه ابن بطوطه، ترجمه محمد علی موحد، بنگاه ترجمه و نشر کتاب، تهران، 1337، ص87 و تاریخ دمشق، ج2، ص418.

[30]- التنبیه و الاشراف، مذکورہ ، ص262 و تاریخ طبری، مذکورہ ، ج11، ص607 و انساب الاشراف، ایضاً، ج1، ص440 و طبقات الکبری، مذکورہ ، ج8، ص80.

[31]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص440.

[32]- الاصابه، مذکورہ ، ج8، ص142.

[33]- انساب الاشراف، مذکورہ ، ج1، ص441 و الاصابه، مذکورہ ، ج5، ص56.

[34]- سنن نسائی، بیروت، دار الفکر، طبع اول، 1930، ج3، ص260.

[35]- نساء النبی(بنت الشاطی)، مذکورہ ، ص212