
Super User
سي آئي اے کي ايذا رساني
امريکي سينٹ کي خصوصي کميٹي نے اس بات کي تصديق کي ہے کہ سي آئي اے اہلکاروں نے قيديوں کے خلاف ايذار رساني کے جديد ترين طريقے استعمال کئے ہيں-
فرانس پريس کے مطابق سينٹ کي خصوصي کميٹي نے چھے ہزار صفحات پر مشتمل دستاويزات اور شواہد کے جائزے کے بعد کہا ہے کہ مذکورہ کميٹي کے لئے يہ بات ثابت ہوگئي ہے کہ سي آئي اے کے ايجنٹوں نے قيديوں کے خلاف تشدد اور ايذا رساني کے انتہائي ماڈرن اور جديد طريقے استعمال کئے ہيں-
امريکي سينٹ کي خصوصي کميٹي کے بيان ميں يہ بات زور ديکر کہي گئي ہے کہ سي آئي اے کے ايجنٹوں نے تشدد اور ايذا رساني کے ايسے جديد ترين طريقے استعمال کرکے بہت بڑي غلطي کي ہے- قبل ازيں ہومين رائٹس واچ نے انکشاف کيا تھا کہ امريکہ ميں قيديوں کے حقوق کو جان بوجھ کر پامال کيا جارہا ہے_
رہبر معظم سے اسلامی بیداری اور یونورسٹی اساتذہ کے اجلاس کے شرکاء کی ملاقات
۲۰۱۲/۱۲/۱۱ -رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح (بروز منگل) اسلامی بیداری اور عالم اسلام کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے اجلاس میں شریک سیکڑوں دانشوروں ، ممتاز ماہرین اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ساتھ ملاقات میں اسلامی بیداری کے عنوان کی اہمیت، اسلام اور شریعت اسلامی کے مقام و منزلت ، اسی طرح انقلاب لانے والے ممالک کے عوام کے بارے میں ایک جامع تحلیل اور تجزيہ پیش کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوموں کی نجات اور سعادت کے بارے میں دانشوروں اور ممتاز شخصیات کے نقش و کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس حوالے سے اسلامی بیداری اور عالم اسلام کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا اجلاس خاص اہمیت کا حامل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشرے و سماج کی سعادت اور نجات کےسلسلے میں دانشوروں ، ممتاز شخصیات اور اساتذہ کی نقش آفرینی کے لئے اخلاص، شجاعت، ہوشیاری ، تلاش و کوشش نیز لالچ اور طمع سے دوری کو اصلی شرط قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی بیداری اور امت اسلامیہ میں اس بیداری کا رسوخ و نفوذ ایک عظيم حادثہ اور واقعہ ہے جو آج دنیا کے سامنے ہے اور جس کی بدولت بعض ممالک میں انقلاب رونما ہوا اور وہاں کی فاسد اور ظالم حکومتیں ختم ہوگئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کو عمیق اور وسیع قراردیا اور اسلامی بیداری کے لفظ سے دشمنوں کے خوف و ہراس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دشمن بہت کوشش کررہے ہیں تاکہ اسلامی بیداری کا لفظ علاقہ کی موجودہ عظیم تحریک کے لئے استعمال نہ کیا جائے کیونکہ دشمنوں کو حقیقی اور واقعی اسلام کے پھیلنے سے سخت خوف و خطرہ لاحق ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمن ، ڈالر کے غلام اسلام، فسادو اشرافیت میں ڈوبے ہوئے اسلام، اور اس اسلام سے خوفزدہ نہیں جس کی جڑیں عوام میں نہیں ہیں لیکن عمل و اقدام والے اسلام، عوام کے اندر موجود اسلام، اللہ تعالی پر توکل والے اسلام اور اللہ تعالی کے وعدوں پر حسن ظن رکھنے والے اسلام سے لرزہ بر اندام ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہمارا یقین و اعتقاد ہے کہ موجودہ عظیم حرکت ایک وسیع و عریض اور حقیقی اسلامی بیداری ہےجو اتنی آسانی کے ساتھ منحرف بھی نہیں ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بیداری کو اسلامی لفظ سے موسوم کرنے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: علاقائی انقلابات میں عوام کے اسلامی نعرے، وسیع و عظیم اجتماعات تشکیل دینے میں اسلامی شخصیات کا کردار اور فاسد حکومتوں کا خاتمہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ حرکت و تحریک اسلامی تحریک ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلابی ممالک کے انتخابات میں عوام کی اسلام پسند عناصر کو رائے اس تحریک کے اسلامی ہونے کی دوسری دلیل قراردیتے ہوئے فرمایا: آج اگر عالم اسلام کے زیادہ تر حصوں میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کرائے جائيں اور اسلام پسند سیاسی عناصر بھی حصہ لیں تو عوام اسلام پسند عناصر کو ووٹ دیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی انقلابات کے سلسلے میں بعض اہم نکات کی طرف بھی توجہ مبذول فرمائی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مصر و تیونس اور لیبیا کے انقلابات کو لاحق بعض خطرات کو پہچاننے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خطرات کو پہچاننے کے ساتھ انقلابات کے اہداف کی بھی تشریح ہونی چاہیے کیونکہ اگر ہدف مشخص نہ ہو تو حیرانی اور پریشانی وجود میں آجائےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سامراجی طاقتوں کے شر سے نجات حاصل کرنے کو اسلامی بیداری کے اہداف میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: اس مطلب کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہیے کیونکہ ایسا تصور بالکل غلط اور خطا ہےکہ امریکہ کی سرپرستی میں عالمی سامراج ممکن ہے کہ اسلامی تحریکوں کے ساتھ مل جائے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جہاں اسلام اور اسلام پسند ہوں گے امریکہ ان کو ختم کرنے کے لئے اپنی تمام کوششیں صرف کرےگا البتہ وہ بظاہر مسکرائے گا بھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عالمی سامراج کے ساتھ علاقائی انقلابات کو اپنی حدفاصل مشخص کرنے کی سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ سامراجی طاقتوں کے ساتھ جنگ کریں لیکن اگر وہ ان کے ساتھ اپنی حد فاصل مشخص نہیں کریں گے تو وہ دھوکہ کھا جائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسامراجی طاقتوں کی طرف سے دنیا پر تسلط قائم کرنےکے لئے ہتھیار، سرمایہ اور علم کے وسائل سے استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان تمام وسائل کے باوجود مغربی دنیا کے لئے اب بھی ایک بہت بڑی مشکل یہ ہے کہ ان کے پاس بشریت کو پیش کرنے کے لئے نئی فکر و سوچ نہیں ہے جبکہ عالم اسلام کے پاس نیا آئیڈیل اور نقشہ راہ موجود ہے۔
رہبر معظم انقلاب سلامی نے اسلام کو نئے افکار اور نقشہ راہ کا حامل قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ موضوع عالم اسلام کا قوی اور مضبوط نقطہ ہے اور ان افکار پر اہداف کے ترسیم ہونے کی بنا پر مغربی ممالک کے ہتھیار، علم اور سرمایہ جیسے وسائل ماضی کی طرح غیر مؤثر ثابت ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی بیداری کا ایک اہم ہدف ، اسلام اور اسلامی شریعت کے محور پرہونے کو قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ ظاہر کرنے کے لئے وسیع کوششیں جاری ہیں کہ شریعت اسلام پیشرفت، تحول اور تمدن کے خلاف ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اسلام انسانوں کی تمام ضروریات کے بارے میں جوابدہ ہے اور تمام ادوار میں انسان کی پیشرفت اور ترقی کا ضامن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ان رجعت پسند اور انتہا پسند گروہوں کے اقدامات پر افسوس کا اظہار کیا جو اپنے اقدامات کے ذریعہ اسلام میں پیشرفت کی نفی کا تصور پیش کرتے ہیں۔البتہ حقیقی اسلام وہی ہے جو بشریت کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے اور یہی فکر و سوچ قابل قبول فکر وسوچ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نظام کی تشکیل کو اسلامی بیداری کا ایک دوسرا ہدف قراردیا اور نظام کی عدم تشکیل کی بنا پر شکست سے دوچار، شمال افریقہ کے تاریخی تجربات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر انقلاب لانے ممالک میں نظام کی تشکیل نہ ہوئی اور مضبوط بنیاد نہ رکھی گئی تو انھیں اس صورت میں سخت خطرے کا سامنا کرنا پڑےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی انقلابات میں عوام کی پشتپناہی کی حفاظت کو ایک اہم مسئلہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اصلی طاقت عوام کے ہاتھ میں ہے اور جہاں عوام ایک آواز اور اتحاد کے ساتھ اپنے رہنماؤں کے ساتھ ہوں گے وہاں امریکہ اور امریکہ سے بھی کوئی بڑا کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرسکتا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کو میدان میں موجود رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دانشور، صاحبان قلم، شعراء اور بالخصوص علماء اسلام اپنا اہم اور ممتاز نقش ایفا کریں اور انقلابات کےاہداف اور دشمنوں کی طرف سے ڈالی جانے والی رکاوٹوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طاقتور بننے کے لئے انقلاب لانے والے ممالک میں علم و ٹیکنالوجی کی پیشرفت اور جوانوں کی علمی تربیت کو اسلامی ممالک کے بہت ضروری مسائل میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: یہ کام ممکن ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران اس کا عملی اور کامیاب تجربہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ایران ، انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے علم کی بہت ہی نچلی سطح پر تھا لیکن آج اسلام اور انقلاب کی برکت کی وجہ سے ایران کا دنیا کے ممتاز علمی ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اعداد و شمار کےبین الاقوامی معتبر اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایران کی علمی پیشرفت سرعت کے ساتھ جاری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس کامیاب تجربے کو اسلامی ممالک میں جاری رہنا چاہیے اور اسلامی ممالک کو اس مقام تک پہنچنا چاہیے تاکہ وہ دنیا کے لئے علمی مرجع اور نمونہ عمل بن سکیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: ایران میں اسلامی نظام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلام اور اسلامی شریعت کی بنیاد پر علم کے اعلی ترین مقام پر پہنچا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اتحاد کو عالم اسلام کے بنیادی مسائل میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک اور امریکہ شیعہ و سنی کے عنوان سے مسلمان قوموں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لہذا ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہیے اور مسائل کا اسی نقطہ نظر سے جائزہ لینا چاہیے اور اپنے مؤقف کو بیان کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور کوششوں کے باوجود عالم اسلام کی پیشقدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس پیشقدمی کی ایک نشانی آٹھ روزہ جنگ ہے جس میں ایک طرف فلسطین کے ایک چھوٹے سے علاقہ غزہ کے رہنے والے تھے جبکہ دوسری طرف دنیا کی قوی ترین اسرائیلی فوج تھی اور جنگ بندی کے دوران جس فریق نے شرط رکھی وہ غزہ کے فلسطینی تھے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: کیا دس سال قبل اس قسم کے واقعہ کا یقین ہوسکتا تھا؟
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: فلسطینیوں کو شاباش ہو، حماس اور اسلامی جہاد کو شاباش و مبارکباد ہو غزہ کی دفاعی یونٹوں کو شاباش ہو جنھوں نے اسرائیل کے مقابلے میں بھر پور شجاعت کا مظاہرہ کیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: میں اپنی طرف سے تمام فلسطینی مجاہدوں کی زحمتوں ، فداکاریوں اور کوششوں پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے غزہ کی آٹھ روزہ جنگ کو فلسطینی عوام اور اسی طرح تمام مسلمانوں کے لئے اہم درس قراردیتے ہوئے فرمایا: غزہ کی جنگ سے معلوم ہوگیا کہ اگر سب آپس میں متحد رہیں اور سختیوں پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں تو سختی کے بعد آسانی کا اللہ تعالی کا وعدہ محقق ہوجائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ بحرین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم بحرین کے مسئلہ میں عالم اسلام کی بالکل خاموشی کو مشاہدہ کررہے ہیں جواس مسئلہ پر غلط نظریہ کی عکاس ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بحرین کے مسئلہ پر بعض کی نگاہ مذہبی نقطہ نظر سے ہے اور اسی وجہ سے ایک ایسی قوم جو ظالم اور فاسد حکومت کے خلاف قیام کرے اس کا دفاع جائز ہے مگر بحرین کی قوم کا دفاع جائز نہیں کیونکہ وہ شیعہ ہے!
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: علاقہ کے حالات پر صحیح نگاہ ، دشمن کے حیلوں اور منصوبوں کے پیش نظر ہونی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شام کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے مؤقف کو دشمن کے حیلوں کے پیش نظر قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کسی بھی مسلمان کا خون بہانے کے خلاف ہے، لیکن شام کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنھوں نے شام کے مسئلہ کو اندرونی جنگ ، برادر کشی اور تخریبکاری تک پہنچایا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: قوموں کے تمام مطالبات تشدد کے بغیر اور متعارف طریقوں سے پورے کرنے چاہییں۔
اس ملاقات کے آغاز میں اسلامی ممالک کے سات دانشوروں اور اساتذہ نے علاقہ کے موجود ہ حالات اور اسلامی بیداری کے بارے میں اپنے اپنے نظریات پیش کئے۔
حضرات:
٭ ڈاکٹر منیر شفیق، فلسطینی دانشور و تجزيہ نگار
٭ ڈاکٹر مجدی حسین، مصر کی الشعب پارٹی کے سربراہ
٭ ڈاکٹر راشد الراشد، بحرین کے سیاسی سرگرم کارکن اور محقق
٭ ڈاکٹر بابا اینوبای، سینیگال کے مذہبی امور کے سابق وزیر اور محقق
٭ ڈاکٹر علی فیاض، لبنانی پارلیمنٹ کے نمائندے
٭ ڈاکٹر عمر الشاہد، تیونس یونیورسٹی کے استاد اور سیاسی کارکن
٭ محترمہ ڈاکٹر عابد علی، پاکستان میں قائد اعظم یونیورسٹی کے بین الاقوامی شعبے کی سربراہ
مذکورہ شخصیات نے مندرجہ ذیل موضوعات کی طرف اشارہ کیا:
٭ اسلامی جمہوریہ ایران نے امام خمینی (رہ) کی سربراہی میں دنیا میں اسلامی بیداری کا آغاز کیا
٭ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد قائم کرکے سازشوں اور مشکلات پر غلبہ پایا جا سکتا ہے
٭ عالم اسلام اور مقاومت کے ہاتھوں حالیہ برسوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے مناسب استفادہ
٭ اسلامی جمہوریہ ایران کا اسلامی انقلاب علاقائی انقلابوں کے لئے ناقابل انکار نمونہ ہے
٭ اسلام علاقائی انقلابوں اور تحریکوں کا اصلی محور ہے
٭ اسلامی بیداری میں جوانوں پر توجہ کی اہمیت اور ان کے لئے مسائل کی تشریح پر تاکید
٭ انقلاب لانے والے ممالک میں عالمی سامراجی طاقتوں اور اسرائیل کے مقابلے میں واضح اور آشکار مؤقف پر تاکید
٭ اسلامی ممالک میں علمی پیشرفت پر توجہ کی ضرورت
٭ بحرین میں مسلمانوں کے قتل عام پر عالم اسلام اور عالمی اداروں کے سکوت پر شدید تنقید
٭ علاقہ بالخصوص انقلابی ممالک میں بحران پیدا کرنے کی سازش کے مقابلے میں ہوشیاری پر تاکید
اس ملاقات کے آغاز میں عالمی اسلامی بیداری کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر ولایتی نے اسلامی بیداری کی گذشتہ نشستوں کی تشکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی بیداری اور عالم اسلام کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کا اجلاس " پیشرفت، عدالت اور دینی عوامی حکومت" کے عنوان سے منعقد ہوا جس میں اسلامی ممالک کے 500 اساتذہ ، دانشوروں اور محققین نے شرکت کی اور عالم اسلام اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔
حماس کا بيان، قائد انقلاب اسلامي کا شکريہ
فلسطين کي اسلامي تحريک مزاحمت حماس نے مسلمانوں کے اتحاد اور آٹھ روز جنگ غزہ ميں فلسطينيوں کي مزاحمت کي ستائش پر مبني قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي کے بيان کا شکريہ ادا کيا ہےـ
تحريک حماس نے ايک بيان جاري کرکے کہا ہے کہ جب علاقہ اپنے دشوار دور سے گزر رہا ہے اور اسے گوناگوں سازشوں کا سامنا ہے قائد انقلاب اسلامي نے ايک بار پھر اپنے اتحاد آفريں اور رہنما بيان سے نگاہوں کو علاقے کي اصلي مشکل يعني مسئلہ فلسطين اور فتنہ و شر انگيزي کي اصلي جڑ يعني قدس کي غاصب صيہوني حکومت کے منحوس وجود کي طرف مرکوز کرايا ہےـ
حماس نے اپنے بيان ميں کہا ہے کہ فلسطيني تنظيموں کي مثالي استقامت و پائيداري کي قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي کي زباني تعريف و ستائش نے دشمنوں کے ناپاک عزائم منجملہ تہران ميں حماس کا دفتر بند ہونے سے ليکر حماس کے رہنما پر بے جا الزام تراشي تک گوناگوں افواہوں کے ذريعے فلسطيني مجاہدين اور اسلامي جمہوريہ کے مابين اختلاف ڈالنے کي کوششوں کو ناکام کر ديا ہےـ
حماس کے بيان ميں آيا ہے کہ يہ تنظيم فلسطين کي مظلوم قوم اور فلسطيني مجاہدين کےلئے قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ ا لعظمي سيد علي خامنہ اي کي دائمي حمايت کي قدرداني کرتي ہے اور ذرائع ابلاغ عامہ پر قائد انقلاب اسلامي کے بيانوں اور ارشادات پر انتہائي توجہ دينے، اطلاعات کي صحيح منتقلي نيز صيہوني مہروں کے ذريعے وقفے وقفے سے پھيلائي جانے والي افواہوں سے اجتناب کي ضرورت پر تاکيد کرتي ہےـ
قائد انقلاب اسلامي نے منگل کے روز تہران ميں اسلامي بيداري اور يونيورسٹي اساتذہ کے زير عنوان منعقد ہونے والي بين الاقوامي کانفرنس کے شرکاء سے خطاب ميں آٹھ روز جنگ غزہ ميں غاصب صيہوني حکومت کے خلاف فلسطينيوں کي مزاحمت کي تعريف کي اور فرمايا کہ کوئي يہ باور نہيں کر سکتا تھا کہ فلسطينيوں اور اسرائيل کے درميان ٹکراؤ کے بعد جنگ بندي کي شرطيں فلسطينيوں کي جانب سے رکھي جائيں گي ــ
ترکي ميں حجاب پر پابندي کے خلاف مظارے
ترکي کے متعدد شہروں ميں اسلامي حجاب پر پابندي کے خلاف مظاہرے جاري ہيں
يہ مظاہرے ترکي کي وزارت تعليم کي طرف سے جاري طالبات کے اسکارف اور حجاب کي نوعيت کے بار ے ميں جاري کئے گئے تازہ سرکولر کے خلاف کئے جارہے ہيں –
ترکي کي حکومت نے گذشتہ نومبر ميں جو آئين نامہ جاري کيا ہے اس ميں کہا گيا ہےکہ صرف ديني علوم کي طالبات يا خطيب کو ہي اسلامي حجاب کرنے کي اجازت ہے اس کے علاوہ ديگر طالبات کو پردے ميں رہنے کي اجازت نہيں ہے-
اس آئين نامے پر پورے ترکي ميں غم وغصہ پايا جارہا ہے –
اسلامي رجحان کي حامل حکمراں انصاف اور ترقي پارٹي کے برسراقتدار آنے کے بعد عام توقع يہي تھي کہ ترکي ميں حجاب اور اسلامي پردے پر عائد پابندياں اٹھالي جائيں گي-
ايران کا پرامن ايٹمي پروگرام اور صيہوني حکومت کا بے بنياد دعوي
صيہوني حکومت کے وزير اعظم بن يامين نتن ياہو نے ايک بار پھر اپنا يہ بے بنياد دعوي دوہرايا ہے کہ ايران بقول ان کے ايٹمي اسلحہ بنانے کے نزديک پہنچ رہا ہے -
صيہوني حکومت کے وزير اعظم بنيامين نتنياہو نے ايک بار پھر دعوي کيا ہے کہ ايران ايٹم بنانے کے قريب پہنچ گيا ہے اور دوہزار تيرہ ميں اس کو روکنے کے لئے کچھ کرنا ہوگا-
صيہوني حکومت کے وزير اعظم نے تل ابيب ميں غير ملکي صحافيوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ايران کے پاس کافي مقدار ميں افزودہ يورينيم نہيں ہونا چاہئے جس سے وہ ايٹم بم بناسکے- انہوں نے جنرل اسمبلي ميں اپنے طنزآميز بيانات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب ايران مقررہ مقدار ميں يورينيم کو افزودہ کرلے گا تو اس وقت ايران کے ايٹمي پروگرام کو روکنے کے لئے ہمارے پاس وقت بہت کم رہ جائے گا –
اسرائيلي وزير اعظم نے پيشين گوئي کي ہے کہ ايران آئندہ ڈھائي مہينے ميں ايٹم بم بنانےوالي صلاحيتوں کے قريب پہنچ جائے گا-
انہوں نے دعوي کيا کہ يہ مسئلہ بہت بڑا چيلنج ہوگا جس سے آئندہ سال نمٹنا ہوگا -
اسرائيلي وزير اعظم نے اپنے بيان ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مشرق وسطي ميں خطرناک عدم استحکام پايا جارہا ہے ايران کے ايٹمي پروگرام کو اپني مہم پسنديوں کا بہانہ بنايا اور جھوٹے دعوے کر کے ايران کے پرامن ايٹمي پروگرام کو علاقے اور دنيا کي سلامتي کے لئے بڑا چيلنج قرارديا -
نتنياہو کا يہ مضحکہ خيز بيان ايک ايسے وقت آيا ہے جب صيہونيوں کے پاس کم ازکم تين سو ايٹمي وار ہيڈ موجود ہيں جو امريکا برطانيہ اور فرانس کي مدد سے تيار کئے گئے ہيں اور صيہوني حکومت مشرق وسطي ميں واحد حکومت ہے جو پورے خطے کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے-
اس کے علاوہ وہ دنيا کي سلامتي کے لئے بھي بڑا خطرہ شمار ہوتي ہے جبکہ ايران کي ايٹمي سرگرمياں مکمل طور پر پرامن ہيں اور ايٹمي توانائي کي عالمي ايجنسي کي نگراني ميں اور اين پي ٹي معاہدے کے تحت ہي ايران کي ايٹمي سرگرمياں انجام پارہي ہيں –
اور اگر ايران يورينيم افزودہ کررہا ہے تو وہ ايٹمي ريکٹر کے ايندھن اور اسي طرح بوشہر ايٹمي بجلي گھر کے فيول کے لئے ہے جس کي سطح بيس فيصد سے بھي کم ہے -
انٹر پول سے سابق صدر مشرف کي گرفتاري کي درخواست
پاکستان نے ايک بار پھر انٹرپول سے سابق صدر پرويز مشرف کي گرفتاري کا مطالبہ کيا ہے -
پاکستاني ذرائع سے موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کي انٹيليجنس ايجنسي ايف آئي اے نے انٹر پول کے نام ايک خط ارسال کرکے مطالبہ کيا ہے کہ سابق صدر پرويز مشرف کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کيا جائے - ايف آئي اے نے اس خط ميں لکھا ہے کہ سابق صدر پرويز مشرف سابق وزير اعظم بے نظير بھٹو کے قتل کے مقدمے ميں مطلوب ہيں اور کئي بار عدالتي سمن جاري ہونے کے باوجود وہ عدالت ميں پيش نہيں ہوئے ہيں جس کے بعد عدالت انہيں مفرور قرار دے چکي ہے -
حکومت پاکستان اس سے پہلے بھي انٹر پول سے سابق صدر پرويز مشرف کي گرفتاري کي درخواست کرچکي ہے جس کے جواب ميں انٹر پول نے کہا تھا کہ پرويز مشرف ايک سياسي شخصيت ہيں اس لئے انہيں گرفتار نہيں کيا جاسکتا -
پاکستان کي انٹيليجنس ايجنسي ايف آئي اے نے انٹرپول کے اس جواب پر اعتراض کرتے ہوئے مطالبہ کيا ہے کہ پرويز مشرف کو پاکستان کے حوالے کياجائے تاکہ سابق وزير اعظم بے نظير بھٹو کے قتل کي سازش کے کيس ميں ان پر مقدمہ چلايا جاسکے
بجراکلی مسجد (بیراکلی مسجد) بلغراد ؛ سربیا
بجراکلی مسجد (بیراکلی مسجد بھی کہا جاتا ہے) سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں واقع ایک عظیم مسجد ہے۔
یہ 1575ء میں اُس وقت تعمیر کی گئی جب سربیا سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا۔
1717ء سے 1739ء تک سربیا پر آسٹریا کے قبضے کے دوران اس مسجد کو رومن کیتھولک گرجے میں تبدیل کر دیا گیا لیکن جب عثمانیوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کیا تو اس کی مسجد کی حیثیت بحال کر دی۔
18 مارچ 2004ء کو مسجد میں آتشزدگی سے اس کو شدید نقصان پہنچا تاہم بعد ازاں اس کی مرمت کر دی گئی۔
اولو مسجد - ترکی کے شہر بروصہ
اولو مسجد ( ترکی :Ulu Cami، اولو جامع ) یعنی عظیم مسجد ترکی کے شہر بروصہ میں واقع ایک مسجد ہے جسے عثمانی طرز تعمیر کا اولین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
یہ مسجد سلطان بایزید اول کے حکم پر علی نجار نے 1396ء سے 1399ء کے درمیان قائم کی۔
مستطیل شکل میں بنی اس مسجد پر 20 گنبد ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطان بایزید نے جنگ نکوپولس میں فتح کی صورت میں 20 مساجد تعمیر کرنے کا عہد کیا تھا اور بعد ازاں انہی 20 مساجد کی جگہ بروصہ میں (جو اس وقت عثمانی سلطنت کا دارالحکومت تھا) 20 گنبدوں والی یہ مسجد تعمیر کی گئی۔
اس کے دو مینار بھی ہیں۔
مسجد کے اندر معروف خطاطوں کے 192 شاندار فن پارے رکھے گئے جو فن خطاطی کے عظيم نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اولو جامع کا اندرونی منظر، صحن کے وسط میں وضو خانہ نمایاں ہے
نماز کی محراب
اولو جامع کا بیرونی وضو خانہ
اہل حدیث
اہل حدیث کا طریقہ ، اصل میں ایک فقہی اور اجتہادی طریقہ تھا ۔ کلی طور پر اہل سنت کے فقیہ اپنی طور طریقہ کی وجہ سے دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں : ایک گروہ وہ ہے جن کا مرکز عراق تھا اور وہ حکم شرعی کو حاصل کرنے کے لئے قرآن و سنت کے علاوہ عقل سے بھی استفادہ کرتے تھے ۔ یہ لوگ فقہ میں قیاس کو معتبر سمجھتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر اس کو نقل پر مقدم کرتے ہیں ۔
یہ گروہ ''اصحاب رائے'' کے نام سے مشہور ہے اس گروہ کے موسس ابوحنیفہ (متوفی ١٥٠ھ) ہیں ۔
دوسرا گروہ وہ ہے جن کا مرکز حجاز تھا ، یہ لوگ صرف قرآن وحدیث کے ظواہر پر تکیہ کرتے تھے اور مطلق طور سے عقل کا انکار کرتے تھے ، یہ گروہ '' اہل حدیث'' یا '' اصحاب حدیث'' کے نام سے مشہور ہے ، اس گروہ کے بزرگ علمائ، مالک بن انس (متوفی ١٧٩ھ)، محمد بن ادریس شافعی (متوفی ٢٠٤ھ) اور احمد بن حنبل ہیں ۔
اہل حدیث ، اپنے فقہی طریقہ کو عقاید میں بھی استعمال کرتے تھے اور اس کو صرف قرآن و سنت کے ظواہر سے اخذ کرتے تھے ۔ یہ لوگ نہ صرف عقاید کے مسائل کو استنباط کرنے کے لئے عقل کو ایک مآخذ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اعتقادی احادیث سے متعلق ہر طرح کی عقلی بحث کی مخالفت کرتے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ یہ گروہ اس عقلی کلام کا بھی منکر تھا جس میں عقاید کا مستقل مآخذ عقل ہے اورایسے نقلی کلام کا بھی منکر تھا جس میںنقل کے عقلی لوازم کو عقل استنباط کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ یہ گروہ عقاید دینی سے دفاع کے کردار کو بھی عقل کے لئے قبول نہیں کرتے تھے ۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب ایک شخص نے مالک بن انس سے اس آیت ''الرحمن علی العرش استوی'' کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: عرش پر خدا کا قائم ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجھول ہے، اس پرایمان واجب ہے اوراس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔
بہرحال اہل حدیث ، دین کے متعلق ہرطرح کی فکر کرنے کے متعلق مخالفت کرتے تھے اورعلم کلام کا بنیادی طور پر انکار کرتے تھے ۔ اس گروہ کا معروف چہرہ ، احمد بن حنبل کے اس اعتقادنامہ پر ہے جس میں اس گروہ کے اساسی عقاید کو بیان کیا گیا ہے ، ان اعتقادات کا خلاصہ اس طرح ہے :
١۔ ایمان، قول وعمل اورنیت ہے ۔ ایمان کے درجات ہیں اور یہ درجات کم و زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ ایمان میں استثنائات پائے جاتے ہیں ، یعنی اگر کسی شخص سے اس کے ایمان کے بارے میں سوال کیا جائے تو اس کو جواب میں کہنا چاہئے : انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا تو) میں مومن ہوں ۔
٢۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ قضا و قدر الہی ہے اور انسان، خداوند عالم کی قضا و قدرسے فرار نہیں کرسکتا ۔ انسانوں کے تمام افعال جیسے زنا، شراب پینا اور چوری وغیرہ خداوندعالم کی تقدیر سے مربوط ہے اوراس متعلق کسی کو خدا پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اگر کوئی گمان کرے کہ خداوند عالم گناہگاروںسے اطاعت چاہتا ہے لیکن وہ معصیت کا ارادہ کرتے ہیں،تو یہ گنہگار بندوں کی مشیت کو خداوند عالم کی مشیت پر غالب سمجھتے ہیں ، اس سے بڑھ کر خداوند عالم پر کوئی اور بہتان نہیں ہوسکتا ۔ جو بھی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوندعالم کو اس جہان ہستی کا علم ہے اس کو قضا و قدر الہی کو بھی قبول کرنا چاہئے ۔
٣۔ خلافت اور امامت ، قیامت تک قریش کا حق ہے ۔
٤۔ جہاد ، امام کے ساتھ جائز ہے چاہے وہ امام عادل ہو یا ظالم ۔
٥۔ نماز جمعہ ، حج اور نماز عیدین (عید فطر و عید قربان) امام کے علاوہ قابل قبول نہیں ہے چاہے وہ امام عادل اور باتقوی بھی نہ ہو ۔
٦۔ صدقات ، خراج (لگان) اور جو مال بغیر کسی جنگ و وسایل جنگ کے حاصل ہو سب سلاطین کا حق ہے ، چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو ۔
٧۔ اگر بادشاہ ، گناہ کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے ،لیکن ظالم بادشاہ کے خلاف خروج کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔
٨۔ مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں ہے ، مگران جگہوں پر جن کے متعلق حدیث میں وارد ہوا ہے جیسے نماز ترک کرنے والے، شراب پینے والے اور بدعت انجام دینے والے کو ۔
٩۔ عذاب قبر، صراط، میزان، صور پھونکنا، بہشت، جہنم، لوح محفوظ اور شفاعت یہ سب حق ہیں اور بہشت و جہنم ہمیشہ سے رہیں گے ۔
١٠۔ قرآن ،خداوند عالم کا کلام ہے اور یہ مخلوق نہیں ہے ، حتی کہ الفاظ اور قاری قرآن کی آواز بھی مخلوق نہیں ہے اور جو بھی قرآن کریم کو ہر طرح سے مخلوق اور حادث سمجھتے ہیں وہ کافر ہیں ۔
اہل حدیث کے اور دوسرے نظریات بھی ہیں جیسے خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھنا، تکلیف ما لایطاق کا جائز ہونا اور صفات خبریہ کا ثابت کرنا ،ہم ان عقاید کو اشاعرہ کی بحث میں بیان کریں گے ۔
خلاصہ :
١۔ اہل حدیث کا طریقہ ، اصل میں ایک فقہی طریقہ تھایہ لوگ صرف قرآن وحدیث کے ظواہر پر تکیہ کرتے تھے اور مطلق طور سے عقل کا انکار کرتے تھے ، یہ گروہ '' اہل حدیث'' یا '' اصحاب حدیث'' کے نام سے مشہور ہے ، اس گروہ کے بزرگ علمائ، مالک بن انس (متوفی ١٧٩ھ)، محمد بن ادریس شافعی (متوفی ٢٠٤ھ) اور احمد بن حنبل ہیں ۔
٢۔ اہل حدیث اپنے فقہی طور طریقہ کو عقاید میں بھی استعمال کرتے تھے اور اعتقادی احادیث سے متعلق ہر طرح کی عقلی بحث کے مخالف تھے اور اس کے نتیجہ میںیہ علم کلام کا بنیادی طور پرانکار کرتے ہیں ۔ اس متعلق احمد بن حنبل کے نظریات اہل سنت کے درمیان سب سے زیادہ تاثیر گذار ہیں ۔
٣۔ اہل حدیث کے بعض اعتقادات وہ ہیں جو احمد بن حنبل کے اعتقادنامہ میں بیان ہوئے ہیں :
الف : ایمان، قول وعمل اورنیت ہے ۔ ایمان کے درجات ہیں اور یہ درجات کم و زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ ایمان میں استثنائات پائے جاتے ہیں ۔
ب : اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ قضا و قدر الہی ہے اور انسان، خداوند عالم کی قضا و قدرسے فرار نہیں کرسکتا،انسان کو اپنے کسی فعل میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔
ج : جہاد، نماز جمعہ ، حج اور نماز عیدین (عید فطر و عید قربان) امام کے علاوہ قابل قبول نہیں ہے چاہے وہ امام عادل اور باتقوی بھی نہ ہو ۔
د : مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں ہے ۔
ھ : قرآن ،خداوند عالم کا کلام ہے اور یہ مخلوق نہیں ہے ۔
اشاعرہ
اشاعرہ ، ابوالحسن اشعری (٢٦٠۔ ٣٢٤ ھ)کے پیروکاروں کو کہتے ہیں ، ابوالحسن اشعری نے عقل سے استفادہ کرنے میں معتزلہ کی افراط اور اہل حدیث کا عقل سے استفادہ کرنے میں تفریط سے کام لینے درمیان ایک تیسرا راستہ اختیار کیا ، دوسری صدی ہجری کے دوران ان دوونوں فکری مکتبوں نے بہت زیادہ وسعت حاصل کی ، معتزلہ عقاید کے لئے عقل کو ایک مستقل مآخذ سمجھتے تھے اور اس کے ذریعہ اسلام سے دفاع کرنے کی تاکید کرتے تھے اور اس کو استعمال کرنے میں افراط سے کام لیتے تھے،دوسری طرف اہل حدیث ، عقل سے ہر طرح کے استفادہ کو منع کرتے تھے اور قرآن و سنت کے ظواہر کو بغیر کسی فکری تحلیل کے اس کو دینی تعلیمات میں ملاک و معیار کے عنوان سے قبول کرتے تھے ، اشعری مذہب نے چوتھی صدی کے شروع میں اہل حدیث کے عقاید سے دفاع اور عملی طور پر ان دونوں مکتبوں کی تعدیل کے عنوان سے عقل و نقل کے موافق ایک معتدل راستہ اختیار کیا ۔
ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری اپنی جوانی میں معتزلہ عقاید سے وابستہ تھے انہوں نے ان کے اصول عقاید کو اس زمانہ کے مشہور استاد ابوعلی جبائی (متوفی ٣٣ھ) سے حاصل کئے اور چالیس سال کی عمر تک معتزلہ سے دفاع کرتے تھے اور اسی موضوع سے متعلق بہت سی کتابیں بھی لکھیں، ۔ اسی دوران انہوں نے اس مذہب سے اعتزال کیا اور معتزلہ کے مقابلہ میں اہل حدیث کے مطابق کچھ نظریات پیش کئے، اشعری ایک طرف تو غیروں کے مآخذ کو کتاب و سنت بتاتے تھے اور اس وجہ سے معتزلہ کی مخالفت کرتے تھے اور اہل حدیث ہوگئے ، لیکن اصحاب حدیث کے برخلاف دینی عقاید سے دفاع اور اس کو ثابت کرنے کے لئے بحث و استدلال کو جائز سمجھتے تھے اورعملی طور پر اس کو استعمال کرتے تھے ، اسی غرض سے انہوں نے ایک کتاب ''رسالة فی استحسان الخوض فی علم الکلام'' لکھی اور اس میں علم کلام سے دفاع کیا ۔ اشعری نے نقل کواصالت دینے کے ساتھ ساتھ عقل کوثابت کرنے اور دفاع کرنے کے لئے قبول کرلیا ، وہ شروع میں معتزلہ کے نظریات کو نقض کرنے کی ذمہ داری سمجھتے تھے لیکن انہوں نے معتزلہ کے عقایدسے جنگ کرتے ہوئے اہل حدیث کے عقلی طریقہ کو ثابت اور تعدیل کیا اور ان کے نظریات کو ایک حد تک معتزلہ کے نظریات سے نزدیک کردیا ۔
اشعری کے نظریات
اس حصہ میں کوشش کریں گے کہ اشعری کی روش کے نتیجہ کو ان کے بعض عقاید میں ظاہر کریں ۔ اس وجہ سے اس کے عقیدہ کے اصحاب حدیث اور معتزلہ کے عقاید کو اجمال کے ساتھ مقایسہ کریں گے ۔
١۔ صفات خبری : علم کلام میں کبھی کبھی صفات الہی کو صفات ذاتیہ اور صفات خبریہ میں تقسیم کرتے ہیں ۔ صفات ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو آیات و روایات میں بیان ہوئے ہیں اور عقل خود بخود ان صفات کو خداوند عالم کے لئے ثابت کرتی ہے جیسے خدا کے لئے ہاتھ، پیر اور چہرہ کا ہونا ،اس طرح کے صفات کے متعلق متکلمین کے درمیان اختلاف ہے ۔
اہل حدیث کا ایک گروہ جس کو مشبھہ حشویہ کہتے ہیں، یہ صفات خبریہ کو تشبیہ کے ساتھ خداوندعالم کے لئے ثابت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ معتقد ہیں کہ خداوند عالم میں صفات خبریہ اسی طرح پائے جاتے ہیں جس طرح مخلوقات میں پائے جاتے ہیں اوراس جہت سے خالق اور مخلوق کے درمیان بہت زیادہ شباہت پائی جاتی ہے ۔ شہرستانی نے اس گروہ کے بعض افراد سے نقل کیا ہے کہ ان کاعقیدہ ہے یہ ہے کہ خداوندعالم کو لمس کیا جاسکتا ہے اور اس سے مصافحہ اور معانقہ کیا جاسکتا ہے ۔
اہل حدیث میں سے بعض لوگ صفات خبریہ کے متعلق تفویض کے معتقد ہیں ۔ یہ لوگ صفات خبریہ کو خداوند عالم سے منسوب کرنے کے ضمن میں ان الفاظ کے مفہوم و مفاد کے سلسلہ میں ہر طرح کا اظہار نظر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اوراس کے معنی کو خداوند عالم پر چھوڑدیتے ہیں ۔ مالک بن انس کا خداوند عالم کے استوی پر ہونے کی کیفیت کے متعلق سوال کے جواب سے ان کا نظریہ معلوم ہوجاتا ہے ۔ لیکن معتزلہ ، خداوند عالم کو مخلوقات سے مشابہ ہونے سے منزہ سمجھتے ہیں اور خداوند عالم کے ہاتھ اور پیر رکھنے والے صفات کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ دوسری طرف قرآن اور روایات میں اس طرح کے صفات کی خداوند عالم سے نسبت دی گئی ہے ۔ معتزلہ نے اس مشکل کوحل کرنے کے لئے صفات خبریہ کی توجیہ اور تاویل کرنا شروع کردی اور یداللہ (خدا کے ہاتھ) کی ''قدرت الہی'' سے تفسیر کرنے لگے ۔
اشعری نے صفات خبریہ کے اثبات میں ایک طرف تو اصحاب حدیث کے نظریہ کو قبول کرلیا اور دوسری طرف ''بلا تشبیہ'' اور بلاتکلیف'' کی قید کو اس میں اضافہ کردیا ۔ وہ کہتے ہیں : ''یقینا خداوند عالم کے دو ہاتھ ہیں، لیکن خدا کے ہاتھ کی کوئی کیفیت نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے : (بل یداہ مبسوطتان) ، (سورہ مائدہ، آیت ٦٤) ۔
اسی طرح خداوند عالم کے آنکھیں بھی ہیں لیکن ان کی کیفیت بھی معلوم نہیں ہے جیسا کہ فرماتا ہے '' تجری باعیننا ) (سورہ قمر، آیت ١٤) ۔
٢۔ جبر واختیار: اہل حدیث نے قضا و قدر الہی پر اعتقاد رکھنے اور عملی طور پر اس اعتقاد کو انسان کے اختیار کے ساتھ جمع کرنے کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ انسان کے لئے اس کے افعال میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے ، اس وجہ سے وہ نظریہ جبر میں گرفتار ہوگئے ۔ یہ بات ابن حنبل کے اعتقاد نامہ میں ذکر شدہ اعتقاد سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ، جب کہ معتزلہ انسان کے اختیاری افعال میں اس کی مطلق آزادی کے قائل ہیں اور قضا و قدر اور خداوند عالم کے ارادہ کے لئے اس طرح کے افعال میں کسی نظریہ کے قائل نہیں ہیں ۔
اشعری کا نظریہ یہ تھا کہ نہ صرف قضا و قدر الہی عام ہے بلکہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی خداوند عالم ایجاد اور خلق کرتا ہے دوسری طرف اس نے کوشش کی کہ انسان کے اختیاری افعال کے لئے کوئی کردار پیش کرے ،انہوں نے اس کردار کو نظریہ کسب کے قالب میں بیان کیا ۔ اشعری کا یہ نظریہ بہت ہی اہم اور پیچیدہ ہے اس لئے ہم اس کو یہاں پر تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
''کسب'' ایک قرآنی لفظ ہے اور متعدد آیات میں اس لفظ اور اس کے مشتقات کو انسان کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ بعض متکلمین منجملہ اشعری نے اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لئے اس کلمہ سے فائدہ اٹھایا ہے انہوں نے کسب کے خاص معنی بیان کرنے کے ضمن میں اس کو اپنے نظریہ جبر و اختیار اور انسان کے اختیاری افعال کی توصیف پر ملاک قرار دیا ہے ، اگر چہ اشعری سے پہلے دوسرے متکلمین نے بھی اس متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے ۔ لیکن اشعری کے بعد ، کسب کا لفظ ان کے نام سے اس طرح متمسک ہوگیا ہے کہ جب بھی کسب یا نظریہ کسب کی طرف اشارہ ہوتا ہے تو بے اختیار اشعری کانام زبان پر آجاتا ہے ۔
ان کے بعد اشعری مسلک کے متکلمین نے اشعری کے بیان کردہ نظریہ سے اختلاف کے ساتھاپنی خاص تفسیر کو بیان کیا ۔ یہاں پر ہم نظریہ کسب کو اشعری کی تفسیر کے ساتھ بیان کریں گے ۔ ان کے نظریہ کے اصول مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ قدرت کی دو قسمیں ہیں: '' ایک قدرت قدیم'' جو خداوند عالم سے مخصوص ہے اور فعل کے خلق و ایجاد کرنے میں موثر ہے ۔ اور دوسری قسم ''قدرت حادث'' ہے جو فعل کو ایجاد کرنے میں موثر نہیں ہے اور اس کافائدہ یہ ہے کہ صاحب قدرت اپنے اندر آزادی اور اختیار کا احساس کرتا ہے اورگمان کرتا ہے کہ وہ کسی کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے ۔
٢۔ انسان کا فعل ، خدا کی مخلوق ہے : اشعری کے لئے یہ ایک قائدہ کلی ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے اور تمام چیز منجملہ انسان کے تمام افعال ، خدا کی مخلوق ہیں ۔ وہ تصریح کرتے ہیں کہ افعال کا حقیقی فاعل ، خدا ہے ۔ کیونکہ خلقت میں صرف قدرت قدیم موثر ہے اور یہ قدرت صرف خدا کے لئے منحصر ہے ۔
٣۔ انسان کا کردار، فعل کو کسب کرنا ہے ۔ خداوند عالم ، انسان کے افعال کوخلق کرتا ہے اور انسان ، خداوند عالم کے خلق کردہ افعال کو حاصل کرتا ہے ۔
٤۔ کسب یعنی خلق فعل کا انسان میں قدرت حادث کے خلق ہونے کے ساتھ مقارن ہونا ۔ اشعری خود لکھتے ہیں : '' میرے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ اکتساب اور کسب کرنے کے معنی فعل کا قوت حادث کے ساتھ اور ہمزمان واقع ہونا ہے ۔ لہذا فعل کو کسب کرنے والا وہ ہے جس میںفعل قدرت (حادث) کے ساتھ ایجاد ہوا ہو ۔ مثال کے طور پر جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی آدمی راستہ چل رہا ہے یا وہ راستہ چلنے کو کسب کررہا ہے ، یعنی خداوند عالم اس شخص میں راستہ چلنے کو ایجاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر قدرت حادث بھی ایجاد کررہا ہے جس کے ذریعہ انسان یہ احساس کرے کہ وہ اپنے فعل کو اپنے اختیار سے انجام دے رہا ہے ۔
٥۔ اس نظریہ میںفعل اختیاری اورغیراختیاری میں فرق یہ ہے کہ فعل اختیاری میں چونکہ فعل انجام دیتے وقت انسان میں قدرت حادث ہوتی ہے تو وہ آزادی کا احساس کرتا ہے لیکن غیر اختیاری فعل میں چونکہ اس میںایسی قدرت نہیں ہے وہ جبر اور ضرورت کا احساس کرتا ہے ۔
٦۔ اگر چہ انسان فعل کو کسب کرتا ہے لیکن یہی کسب خدا کی مخلوق بھی ہے ۔ اس بات کی دلیل اشعری کے نظریہ سے بالکل واضح ہے ۔ کیونکہ اولا : گذشتہ قاعدہ کے مطابق ہر چیز منجملہ کسب ، خدا کی ایجاد کردہ ہے ۔ ثانیا : کسب کے معنی انسان میں حادث قدرت اور فعل کے مقارن ہونے کے ہیں، اور چونکہ فعل اور قدرت حادث کو خداوند عالم خلق کرتا ہے ، لہذا ان دونوں کی مقارنت بھی اسی کی خلق کردہ ہوگی ۔ اشعری نے اس مطلب کی تصریح کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیات سے تمسک کیا ہے وہ کہتے ہیں : '' اگر کوئی سوال کرے کہ تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ بندوں کے کسب ، خداکی مخلوق ہے تو ہم اس سے کہیں گے کہ کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے : ( خداوند عالم نے تمہیں اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو، خلق کیا ہے ) (سورہ صافات، آیت ٩٦) ۔
٧۔ یہاں پر جو سوال بیان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسب ،خدا کی مخلوق ہے تو پھر اس کو انسان کی طرف کیوں نسبت دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ انسان کاعمل ہے ۔
اس کے جواب میں اشعری معتقد ہیں کہ مکتسب اور کاسب ہونے کا ملاک ، کسب کرنے کی جگہ ہے نہ کہ کسب کو ایجاد کرنا ۔ مثال کے طور پر جس چیز میں حرکت نے حلول کیا ہے اس کو متحرک کہتے ہیں ، جس نے حرکت کو ایجاد کیا ہے اس کو متحرک نہیں کہتے ۔یہاں پر بھی انسان ،محل کسب ہے اس لئے اس کو مکتسب کہتے ہیں ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند عالم کی سنت اس بات پر برقرار ہے کہ جب انسان سے اختیاری فعل صادرہوتا ہے تو خداوند عالم اسی وقت قدرت حادث کو بھی انسان میں خلق کردیتا ہے اورانسان صرف فعل اور قدرت حادث کی جگہ ہے یعنی فعل اور قدرت حادث کے مقارن ہونے کی جگہ ہے ۔ اس بناء پر اشعری کا نظریہ انسان کے اختیاری فعل سے جبر کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اگر چہ انہوں نے بہت زیادہ کوشش کی ہے تاکہ وہ انسان کے لئے ہاتھ او رپیر کا کردار ادا کریں لیکن آخر کار وہ اسی راستہ کی طرف گامزن ہوگئے جس پر اکثر اہل حدیث اور جبر کے قائل افراد گامزن ہیں ۔
٣۔ کلام خدا : اہل حدیث معتقد ہیں کہ خداوندعالم کا کلام وہی اصوات اور حروف ہیں جو قائم بذات خدا اور قدیم ہیں ۔
انہوں نے اس موضوع میں اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ بعض لوگوں نے اس کی جلد اور قرآن کے کاغذ کو بھی قدیم سمجھ لیا ۔
معتزلہ بھی کلام خدا کو اصوات اور حروف سمجھتے ہیں لیکن ان کو قائم بذات خدا نہیں سمجھتے اور ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم اپنے کلام کو لوح محفوظ یا جبرئیل، یا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں خلق کرتا ہے اور اس وجہ سے خدا کا کلام حادث ہے ۔
اشعری نے میانہ راستہ اختیار کرنے کے لئے کلام کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : پہلی قسم وہی لفظی کلام ہے جو حروف اور اصوات میں تشکیل پاتا ہے ،اس متعلق انہوں نے معتزلہ کی بات کو قبول کرتے ہوئے کلام لفظی کو حادث شمار کیا ہے ، لیکن دوسری قسم کلام نفسی ہے اس قسم میں اہل حدیث کی طرح کلام خدا کو قائم بذات اور قدیم شمار کیا ہے ۔ حقیقی کلام وہی کلام نفسی ہے جو قائم بنفس ہے اور الفاظ کے ذریعہ بیان ہوتا ہے ، کلام نفسی واحد اور نامعتبر ہے ۔ جب کہ کلام لفظی تغییر و تبدیل کے قابل ہے ، کلام نفسی کو مختلف عبارات کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے ۔
٤۔ رئویت خدا : اہل حدیث کا ایک گروہ جو مشبھہ حشویہ کے نام سے مشہور ہے ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، لیکن معتزلہ ہر طرح کی رئویت خدا سے انکار کرتے ہیں ۔ اشعری نے اس متعلق درمیانہ راستہ اختیار کیا تاکہ افراط و تفریط سے محفوظ رہے ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا وندعالم دیکھا ئی دیتا ہے لیکن خدا کو دوسرے اجسام کی طرح نہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان کی نظر میں رئویت خدا ، مخلوقات سے مشابہ نہیں ہے ۔ اس متعلق ایک شارح نے لکھا ہے : '' اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کے جسم نہیں ہے اور وہ کسی سمت میںنہیں ہے اس بناء پر اس کے چہرہ اور حدقہ وغیرہ نہیں ہے لیکن اس کے باجود وہ چودہویں رات کے چاند کی طرح اپنے بندوں پر ظاہر ہوسکتا ہے اور دکھائی دے سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے '' ۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ '' ہماری دلیل عقل بھی ہے او رنقل بھی ہے لیکن اس مسئلہ میں اصل نقل ہے''۔
اشاعرہ کی دلیل عقلی جو دلیل الوجود کے نام سے مشہور ہے یہ ہے کہ جو چیز بھی موجود ہے وہ دکھائی دے گی مگر یہ کہ کوئی مانع موجود ہو ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ کسی وجود کا ہونا اس کے رئویت کا تقاضاکرتا ہے اس بناء پر چونکہ خداوند عالم موجود ہے اور اس کے دکھائی دینے کا لازمہ امر محال نہیں ہے پس رئویت خدا ، عقلا ممکن ہے ۔
٥۔ حسن و قبح افعال : معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ افعال میں حسن و قبح ذاتی پایا جاتا ہے اور عقل بھی( کم سے کم بعض موارد میں)اس کے حسن وقبح کو جاننے پر قادر ہے ، بلکہ اصولی طور پر تو یہ افعال کے حسن و قبح واقعی سے انکار کرتے ہیں ۔ کتاب شرح مواقف کے مصنف اس متعلق لکھتے ہیں : '' ہمارے ( یعنی اشاعرہ کے)نزدیک قبیح یہ ہے کہ نہی تحریمی یا تنزیہی واقع ہو اور حسن یہ ہے کہ اس سے نہی نہ ہوئی ہو ،جیسے واجب ، مستحب اور مباح ۔ اور خداوندعالم کے افعال حسن ہیں '' اسی طرح نزاع کی توضیح او ربیان کے وقت حسن و قبح کے تین معنی کرتے ہیں :
١۔ کمال و نقض : جس وقت کہا جاتا ہے : '' علم ، حسن ہے'' اور'' جہل، قبیح ہے'' تو حسن و قبح کے یہی معنی مراد ہوتے ہیں ، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حسن و قبح کے یہ معنی صفات فی نفسہ میںثابت ہیں اور عقل اس کو درک کرتی ہے اور شرع سے اس کا کوئی ارتباط نہیں ہے ۔
٢۔ غرض سے ملایم و منافر ہونا : اس معنی میں جو بھی غرض اور مراد سے موافق ہے وہ حسن ہے اور جو بھی مخالف ہو وہ قبیح ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے ۔ ان دو معنوں کو کبھی ''مصلحت '' اور کبھی ''مفسدہ '' سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس معنی میں بھی حسن و قبح عقلی امر ہیں اور اغراض و اعتبارات کی وجہ سے بدل جاتے ہیں ، مثلا کسی کا قتل ہوجانا اس کے دشمنوں کے لئے مصلحت ہے اور ان کے ہدف کے موافق ہے لیکن اس کے دوستوں کے لحاظ سے مفسدہ ہے اس بناء پر اس معنی میں حسن و قبح کے معنی اضافی اور نسبی ہیں ، حقیقی نہیں ہیں ۔
٣۔ استحقاق مدح : متکلمین کے درمیان جس معنی میں اختلاف ہوا ہے وہ یہی تیسرے معنی ہیں ، اشاعرہ حسن و قبح کو شرعی سمجھتے ہیں ، کیونکہ اس لحاظ سے تمام افعال مادی ہیں اور کوئی بھی فعل خود بخود مدح و ذم یا ثواب و عقاب کا اقتضاء نہیں کرتا ہے اور صرف شارع کی امر و نہی کی وجہ سے ایسی خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے ، لیکن معتزلہ کے نظریات کے مطابق یہ معنی بھی عقلی ہیں ، کیونکہ فعل خود بخود ، شرع سے چشم پوشی کرتے ہوئے یا حسن ہیں جس کی وجہ سے اس فعل کا فاعل مدح اور ثواب کا مستحق ہے ، یا قبیح ہے جس کی وجہ سے اس فعل کا فاعل عقاب اور برائی کامستحق ہے ۔
٦۔ تکلیف ما لا یطاق : تکلیف ما لا یطاق کے معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم اپنے بندہ کو ایسے فعل کی تکلیف دے جس کو انجام دینے پر وہ قادر نہیں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کو ایسی تکلیف دینا جائز ہے؟ اور اس کے ترک کرنے پر عقاب کرنا جائز ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ اس مسئلہ میں فیصلہ کرنے کے لئے مسئلہ حسن و قبح کی طرف مراجعہ کرنا پڑے گا ، معتزلہ چونکہ حسن وقبح کو عقلی سمجھتے ہیں لہذا وہ اس طرح کی تکلیف کو قبیح اور محال سمجھتے ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے ایسی تکلیف کے صادر ہونے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ لیکن اشاعرہ چونکہ حسن وقبح کے عقلی ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے اور کسی چیز کو خداپرواجب نہیں سمجھتے ہیں اس لئے ان کا نظریہ ہے کہ خداوند عالم ہر کام منجملہ تکلیف ما لا یطاق کو بھی انجام دے سکتا ہے اور اس کی طرف سے جو عمل بھی صادر ہو وہ عمل نیک ہے ۔
مذہب اشعری کا استمرار
ابوالحسن اشعری کے مذہب کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ شروع میں علمائے اہل سنت نے ان کے نظریات کو قبول نہیں کیا اور ہر جگہ ان کی بہت زیادہ مخالفت ہوئی ، لیکن عملی طورپر ان مخالفتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور مذہب اشعری آہستہ آہستہ اہل سنت کی فکروں پر غالب آتا گیا ، ابوالحسن اشعری کے بعد سب سے پہلی شخصیت جس نے اس مذہب کو آگے بڑھا یا وہ ابوبکر باقلانی (متوفی ٤٠٣ ھ) ہے ، انہوں نے ابوالحسن اشعری کے نظریات کو جو کہ دو کتابوں ''الابانہ و اللمع'' میں اجمالی طور سے موجود تھے، ان کی اچھی طرح شرح کی اور ان کو ایک کلامی نظام کی شکل میں پیش کیا ۔
لیکن اشعری مذہب کو سب سے زیادہ امام الحرمین جوینی (متوفی ٤٧٨ھ) نے وسعت بخشی ۔ خواجہ نظام الملک نے بغداد کا مدرسہ نظامیہ تاسیس کرنے کے بعد (٤٥٩ھ)میں جوینی کو تدریس کے لئے وہاں بلایا ۔ جوینی نے تقریبا تیس سال تک اشعری مذہب کی ترویج کی اور چونکہ یہ شیخ الاسلام اور مکہ و مدینہ کے امام تھے اس لئے ان کے نظریات کو پورے عالم اسلام میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ جوینی کے آثار کے ذریعہ اشعری مذہب بہت زیادہ پھیلا، یہاں تک کہ اہل سنت معاشرہ میں ان کے کلام کو ترجیح دی جانے لگی۔
جوینی نے اشعری کے نظریات کو عقلی اوراستدلالی رنگ دیا اور امام فخر رازی (متوفی ٦٠٦ھ) نے اشعری مذہب کو عملی طور پر فلسفی رنگ دیا ۔ امام فخر رازی نے اشعری کے مذہب سے دفاع اور ان کے مذہب کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ ابن سینا کے فلسفی نظریات پر انتقاد کیا ۔ دوسری طرف امام محمد غزالی (متوفی ٥٠٥ھ) جو کہ جوینی کے شاگرد تھے، نے تصوف کو اختیار کرلیا اور اشعری کے نظریات کی عرفانی تفسیر پیش کی ۔ انہوں نے ایک اہم کتاب احیاء العلوم لکھ کر تصوف اور اہل سنت کے درمیان ایک ارتباط برقرار کردیا ۔
افغانستان سے تمام بيروني افواج کي واپسي پر زور
اسلامي جمہوريہ ايران نے کہا ہے کہ افغانستان کے بحران کا حل يہي ہے کہ وہاں سے امريکي اور غير ملکي فوجيں نکل جائيں -
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے جو پاکستان کے دورے پر ہيں کراچي ميں سينئر صحافيوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ملاقات ميں کہا کہ افغانستان کو بدامني اور دہشت گردي کا جو چيلنج اس وقت درپيش ہے اس کا مقابلہ وہاں سے غيرملکي فوجوں کے انخلاء کي صورت ميں ہي کيا جاسکتا ہے انہوں نے دوہزار چودہ تک افغانستان سے غير ملکي فوجوں کے انخلاء کے بارے ميں کہا کہ امريکا نے دہشت گردي کا صفايا کرنے کے بہانے پر افغانستان پر لشکر کشي کي تھي اور علاقے ميں داخل ہوا تھا ليکن آج ايسے ثبوت پائے جاتے ہيں کہ دہشت گرد گروہوں کا سي آئي اے سے رابطہ ہے –
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ علاقے کے ملکوں کي مشکلات کي اصل وجہ غيرملکي قوتوں کي موجودگي ہے کہا کہ اگر اغيار علاقے ميں امن قائم کرنا چاہتے ہيں تو علاقے کو اس کے حال پر چھوڑ دينا چاہئے تا کہ علاقے کے ممالک آپسي تعاون سے علاقے کے درپيش چيلنجوں کا مقابلہ کرسکيں اور ان قابو پائيں -
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ امريکي حکام کے پيش نظر صرف علاقے ميں صيہوني حکومت کے مفادات کي حفاظت کرنا ہے اور وہ اسلامي ملکوں کے درميان اختلاف پيدا کر کے صيہوني حکومت کي حمايت کرني بھرپور کوشش کررہے ہيں –
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تہران علاقے کے سبھي بحرانوں منجملہ افغانستان کو درپيش سيکورٹي اور دہشت گردي کے چيلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے راہ حل پيش کرنے کے لئے تيار ہے اور ايران سمجھتا ہے کہ علاقے کے ملکوں کا تعاون ہي علاقے کي مشکلات کے حل کا بہترين طريقہ ہے -