Super User

Super User

پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبے پر پانچ روزہ مذاکرات کا دور اسلام آباد میں ختم ہوگیا۔ مذاکرات میں پاکستان کی انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم نے ایرانی سرکاری کمپنی تدبیر انرجی کو پائپ لائن بچھانے کے طریقہ کار اور تکنیکی ڈیزائن فراہم کیا۔ مذاکرات میں منصوبے کے مالی معاملات، اور ایرانی قرض پر سود کی تفصیلات بھی طے کی گیئں۔ دونوں اطراف سے تکنیکی گروپس کے بھی اجلاس ہوئے، جس میں منصوبے کا ڈیزائن، پراجیکٹ فلو چارٹ پر اپنے اپنے ملک کے مؤقف کو واضح کیا گیا۔ منصوبے کے تحت ایران پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کا قرض فراہم کرے گا، منصوبے پر پاکستانی حصے کی لاگت کا تخمینہ ڈیڑھ ارب ڈالر لگایا گیا ہے، جس میں سے ایک ارب ڈالر پاکستان کو اپنے ذرائع سے لگانا ہونگے۔

ایران پہلے ہی اپنے حصے کی 1150 کلومیٹر پائپ لائن کی تعمیر مکمل کرچکا ہے۔ مذاکرات کے اختتام پر کہا گیا ہے کہ معاہدے پر دستخط حکومتی سطح پر ہوں گے، جس کی تاریخ اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے آئی ایس جی ایس کے منیجنگ ڈائریکٹر صولت مبین اور سیکرٹری پیٹرولیم عابد سعید نے حصہ لیا جبکہ ایرانی وفد کی سربراہی عباس علی قاسمی نے کی۔ دوسری طرف کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے وزیر مملکت خزانہ سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس میں منصوبے کے لئے فنانسنگ کی منظوری بھی دے دی ہے۔

۲۰۱۳/۰۲/۱۱ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے درس خارج فقہ میں انقلاب اسلامی کی 22 بہمن کے دن کامیابی کی برسی کے موقع پر ایرانی عوام کی بصیرت، شجاعت ،موقع شناسی اور بھر پور شرکت پر شکریہ ادا کیا اور عوام کی اس عظیم شرکت کو عظیم اور تاریخی واقعہ قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی بوڑھوں، جوانوں ،بچوں ، مردوں اور عورتوں کی انقلاب اسلامی کی کامیابی کی 34 ویں برسی کے موقع اتنی عظیم اور بھر پور شرکت اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہےاورہمیں اللہ تعالی کی اس عظیم نعمت کا عمر بھر شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے موقع پر منعقد ہونے والے عظیم جشن و سرور کا دیگر ممالک کے انقلابات کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے فرمایا: سب سے بڑا اور ممتاز ہنر یہ ہے کہ ایران میں خود عوام انقلاب اور ملک کے مالک ہیں اورانقلاب کی کامیابی کی برسی کے موقع پر جشن و سرور کا انعقاد خود ان کے دوش پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ اس عظیم سرمایہ اور دولت کی حمایت کرتے ہیں جو ان کی عزت اور استقلال کا باعث ہے اور جہاں ضرورت ہوتی ہے وہاں عوام حاضر ہوجاتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب کی کامیابی کی برسی کے موقع پر قوم کے شاندارحضور پر قوم کے ہر فرد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کی عزت و استقلال کے دشمن اس بات کے منتظر تھے کہ ایرانی عوام ، اسلامی جمہوریہ اور انقلاب اسلامی کی آواز پر لبیک نہ کہیں لیکن ایرانی قوم نے اپنی عظیم شرکت اور شاندار حضور کے ذریعہ دشمن کی سازش کو ناکام اور اسے مایوس کردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی طرف سے ایرانی قوم کی ریلیوں میں شرکت اور حضور کے عظیم جلوؤں کو کمرنگ بنانے کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: البتہ دشمن حقائق سے واقف، آگاہ اور آشنا ہےاور وہ، عوامی حضور اور شرکت کو درک کرتا ہے اورتجزیہ و تحلیل کرکے اس نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ ایرانی قوم کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

۲۰۱۳/۰۲/۰۷ - رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فضائیہ کے اعلی کمانڈروں اور اہلکاروں کے ساتھ ملاقات میں گذشتہ 34 سال میں امریکہ کی طرف سے گوناگوں دھمکیوں ، دباؤ اور اس کے ساتھ ہی امریکی حکام کی جانب سے ایران کے ساتھ مذاکرات کی پیش کش کو امریکی حکام میں حسن نیت کا فقدان قرار دیا اور امریکی حکام کے مکر و فریب کے مقابلے میں ایرانی قوم کی ہوشیاری اور امریکی رعب و دبدبے میں نہ آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کی بصیر، پائدار اور عزیز قوم 22 بہمن کو اتحاد و یکجہتی کے ساتھ میدان میں حاضر ہوگی اور ایک بار پھر اپنے انقلابی اور قومی جذبے کے ساتھ اسلامی انقلاب اور نظام سے قوم کو جدا کرنے کی دشمن کی سازش کو ناکام بنادےگی۔

یہ ملاقات سن 1357 ہجری شمسی میں حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ ایرانی فضائیہ کے بعض کمانڈروں و اہلکاروں کی تاریخی بیعت کی مناسبت سے منعقد ہوئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ 34 برسوں میں ایرانی قوم کے عظیم مقام و منزلت کےفاصلے اور سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے گذشتہ تین عشروں میں دوسری قوموں کو اغیار اور تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں استقامت و پائداری کا درس دیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ اللہ تعالی پر توکل و اعتماد کے ساتھ مستقل طور پر ترقی اور پیشرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عشرہ فجرکے ایام کو مختلف میدانوں میں ایرانی قوم و نظام کی 34 سالہ حرکت کا جائزہ لینے کے لئے بہترین اور مناسب موقع قراردیتے ہوئے فرمایا: اس زاویہ نگاہ سے معلوم ہوجائے گا کہ ہم آئندہ کا راستہ کس طرح اور کیسے طے کر سکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی طرف سے مختلف سازشوں ، فوجی کودتا، فوجی تحریک، حملہ آور دشمن کی ہمہ گير حمایت،سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر یلغار، خبیث میڈیاکے دگنے پروپیگنڈے ، دباؤ اور روز افزوں اقتصادی پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ تین عشروں میں ان کے پاس جو کچھ تھا انھوں نے وہ ہمارے خلاف استعمال کیا ہے تاکہ اس طرح قوم کو مایوس اور اسے اسلام اور انقلاب کے بارے میں بدگماں بنا کر میدان سے باہر نکال دیں لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے لوگ اسلام کےبارے میں مزید شاداب ، فعال اور وفادار ہوگئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کو اسلامی نظام کے مقابلے میں قراردینے کے لئے مزید سخت اقتصادی پابندیاں عائدکرنے کے سلسلے میں امریکی حکام کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم نے ہر سال 22 بہمن کی ریلیوں میں دشمن کی اس بات کا بھر پورجواب دیا ہے اور اس سال بھی ٹھوس جواب دےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اغیار کے مقابلے میں بصیرت ،ہوشیاری اور بیداری کو کامیابی کی رمز قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم ہوشیاری اور بصیرت کے ساتھ ہرحرکت میں امریکہ اور صہیونیوں کے ہاتھ کو اچھی طرح پہچانتی ہے اور اپنی رفتار اور مؤقف میں خطا اور اشتباہ سے دوچار نہیں ہوتی اور یہ حقیقت عظیم قومی حسن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کے بیانات میں ایران کے ساتھ مکرر اور مجدد مذاکرات کے لئے آمادگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ کوئی نئی اور جدید بات نہیں ہے انھوں نے اس کا مختلف مواقع پر تکرار کیا ہے اور ایرانی قوم نے ہر بار امریکیوں کے عملی اقدامات کے پیش نظر ان کے بیانات کے بارے میں قضاوت اور فیصلہ بھی کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی زمین میں گیند پر مبنی امریکی حکام کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گيند امریکیوں کی زمین میں ہے کیونکہ امریکیوں کو جواب دینا چاہیے کہ کیا دھمکی اور دبآؤ کے ہمراہ مذاکرات کی بات کرنے میں اصولی طورپر کوئی وزن یا معنی پایا جاتا ہے؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مذاکرات حسن نیت کے اثبات کے لئے ہوتے ہیں اور تم بدنیتی سے دسیوں کام انجام دیتے ہو اور پھر زبان سے مذاکرات کی بات بھی کرتے ہو کیا ایرانی قوم یہ یقین کر سکتی ہے کہ تم حسن نیت رکھتے ہو؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکیوں کی طرف سے مذاکرات کی تجویز پیش کرنے کے علل و اسباب جاننے کے سلسلے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: البتہ ہم مذاکرات کے بارے میں ان کی ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی شکست و ناکامی سے دوچار ہوگئی ہے لہذا امریکہ کو شکست سے بچنے کے لئے خود کو کامیاب دکھانے کی سخت ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلابی عوام کو مذاکرات کی میز پر لانے کو امریکیوں کی کامیابی قراردیتے ہوئے فرمایا: امریکہ دنیا کو حسن نیت دکھانا چاہتا ہے لیکن کسی کو اس کی حسن نیت دکھائی نہیں دیتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مذاکرات کے لئے 4 سال قبل امریکی تجویز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس وقت بھی اس بات پر تاکید کی گئی کہ ہم قبل از وقت قضاوت نہیں کریں گے ہم ان کے عمل کا انتظآر کریں گے لیکن ان 4 سالوں میں امریکی سازشوں کے جاری رہنے، فتنہ پرور افراد کی مدد کرنے، ایرانی سائنسدانوں کو شہید کرنے والے دہشت گردوں کی حمایت کرنےکے علاوہ ہم نے کوئی اور چیز مشاہدہ نہیں کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تم اپنے قول کے مطابق ایرانی قوم کے خلاف فلج کرنے والی پابندیاں لگانے کی بات کرتےہو کیا آپ کا یہ عمل حسن نیت پر مبنی ہے یا بد نیتی پر؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مذاکرات اس وقت معنی خیز ثابت ہوسکتے ہیں جب فریقین کسی فریب کےبغیر ، مساوی شرائط اور حسن نیت کے ساتھ گفتگو کریں، اوراسی وجہ سے " مذاکرات کے لئے مذاکرات" ، " ٹیکٹیکل مذاکرات" اور دنیا پر سپر پاور طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے مذاکرات در حقیقت مکر و فریب پر مبنی حرکت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں سفارتکار نہیں ہوں ، میں انقلابی ہوں اور اسی وجہ میں صداقت اور حقیقت پر مبنی صاف اور شفاف بات کرتا ہوں مذاکرات کی تجویز اسی وقت مفید ہوسکتی ہے جب فریق مقابل حسن نیت کا ثبوت فراہم کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم کی طرف اسلحہ کھینچ کر کہتے ہو کہ یامذاکرات یا ہم فائرنگ کریں گے!آپ کو جان لینا چاہیے کہ مذاکرات اور دباؤ کے درمیان کوئی ربطہ نہیں ہے اور ایرانی قوم ان چیزوں سے مرعوب نہیں ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکی مذاکرات پر خوشحال ہونے والے سادہ لوح افراد پر شدید تنقیدکرتے ہوئے فرمایا: امریکہ کے ساتھ مذاکرات کسی مشکل کو حل نہیں کریں گے کیونکہ امریکیوں نے حالیہ 60 برسوں میں اپنے کسی وعدے پر عمل نہیں کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ڈاکٹر مصدق کے امریکیوں پر مکمل اعتماد کےباوجود امریکیوں نےڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خلاف 28 مرداد کے کودتا کی ترتیب و تنظيم کی اور اس کے ساتھ ظالم و ستمگر پہلوی حکومت کی مسلسل حمایت جاری رکھی اور یہ دو ایسے آشکار نمونے ہیں جو ایرانیوں کے بارے میں امریکیوں کی رفتار کی واضح علامت ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب اسلامی کے بعد بھی کچھ عرصہ ایرانی حکام نے امریکہ پر حسن ظن رکھتے ہوئے اعتماد کیا لیکن امریکیوں نے ایران کو شرارت کا محور قراردیا اوراسطرح امریکیوں نے ایرانی قوم کی بہت بڑی توہین کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس حصہ میں اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: ماضی کے حقائق کے پیش نظر میں اس بات پر تاکید کرتا ہوں کہ دباؤ اور مذاکرات دو الگ اور جداگانہ راہیں ہیں، اورایرانی قوم ہر گز قبول نہیں کرتی کہ وہ دباؤ کے تحت کسی سے مذاکرات انجام دے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: جو شخص امریکہ کے تسلط کو دوبارہ برقرار کرنا چاہےگا، قومی مفادات کی حفاظت کے بجائے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرےگا اور قومی استقلال اور ملکی پیشرفت و ترقی کو نظر اندازکرےگا تو ایرانی قوم اس کا گریبان چاک کردےگی اوراگر میں بھی عوام کی مرضی کے خلاف عمل کروں گا تو مجھے بھی عوام کے اعتراض کا سامنا کرنا پڑےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کو بردبار اور امن پسند قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمارے ان تمام ممالک کے ساتھ روابط اور مذاکرات برقرار ہیں جو ایران کے خلاف سازش میں ملوث نہیں اورہم اس مسئلہ کو قومی مفادات کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کی حرکت کو ایران، امت مسلمہ اور انسانی معاشرے کے لئے مثبت اور مفید قراردیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کی مدد سے ایرانی قوم ، امت اسلامی کو قابل فخر بلندی تک پہنچا دےگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قومی پیشرفت و عزت کے لئے بصیرت اور اتحاد پر زوردیا اور حال ہی میں بعض غیر اخلاقی حرکتوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: حکام کو ملکی مفادات کی حفاظت کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ غیراخلاقی حرکتوں کےبارے میں آئندہ عوام کو آگاہ کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حکام کو چاہیےکہ وہ اس قسم کی غیر اخلاقی حرکتوں کو ترک کردیں اور قوم کی طرح متحد اور مصمم رہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف نے نئےجنگی طیارے کی ساخت اور دیگر طیاروں اور پیشرفتہ وسائل کی مسلح افواج میں ساخت کو پورے ملک میں خلاقیت، عشق اور عظیم صلاحیتوں کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: آپ نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے قوموں کی ناتوانی کے بارے میں تسلط پسند طاقتوں کے پروپیگنڈے کا طلسم توڑ دیا ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں ایرانی ایئر فورس کے سربراہ بریگیڈیئر پائلٹ شاہ صفی نے حضرت امام خمینی (رہ) کے ساتھ 19 بہمن 1357 ہجری شمسی کو فضائیہ کی تاریخی بیعت اور فضائیہ کی اندرونی توانائی اور پیشرفت کے بارے میں جامع رپورٹ پیش کی۔

عراق میں قومی اتحاد کے قیام کےلئے آیۃ اللہ سیستانی کی تلقینعراق کے نامورمرجع تقلید آیۃاللہ سیستانی نے تمام سیاسی گروہوں سے قومی اتحاد کے قیام کی راہ میں کوششیں انجام دینے اور اختلافات دور کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ عراقی پارلیمنٹ کے ایک رکن آلا طالبانی نے کہا ہیکہ آیۃاللہ سیستانی نے عراق کے تمام سیاسی گروہوں کے نام اپنے ایک پیغام میں تمام حکومتی عہدیداروں اور سیاستدانوں سے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ اپنے تمام اختلافات بھلا کر متحد ہو جائیں اور دھڑے بندی سے پرھیز کریں –اس درمیان عراقی پارلمنٹ کے ایک کرد نمائندے نے کہا ہے کہ آیۃاللہ سیستانی کی یہ فرمائش ، اختلافات کے حل میں نمایاں طور پر اثر انداز ہوگی ۔ ھوال کویستانی نے کہا کہ کرد عوام آیۃاللہ سیستانی کے موقف کا احترام کرتے ہیں –قابل ذکر ہے کہ ایک طرف عراق کی مرکزی حکومت اوراس ملک کے علاقے کردستان کے درمیان ، متنازعہ علاقوں اور اسی طرح تیل و گیس کے مسئلے پر اختلافات ،اور دوسری جانب عراق کے بعض سنی آبادی والے علاقوں میں جاری احتجاجات نے اس ملک کی سیاسی صورتحال کشیدہ بنادی ہے ۔ بعض سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ عراق کے سنی آبادی والے صوبوں میں بیرونی ممالک ان احتجاجات کی حمایت کر رہے ہیں -

Monday, 04 February 2013 10:38

انفجار نور ولایت

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی ایک انفجار نور تھا اور امام کا یہ عزم تھا کہ وہ انقلاب سے حاصل کردہ تجربات کو دنیا بھر میں پھیلائیں گے، امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ’’مسلمہ طور پر ان تجربات کا ماحاصل مشکلات میں پھنسی ہوئی قوموں کے لیے بجز فتح و کامرانی، استقلال و آزادی اور اسلامی احکام کے نفاذ کے کچھ نہیں ہوگا۔ میں اطمینان سے کہتا ہوں کہ اسلام سپر طاقتوں کو ذلت کی خاک پر بٹھا دے گا۔ اسلام اپنی بڑی داخلی اور خارجی رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے دور کرکے دنیا کے کلیدی مورچوں کو فتح کر لے گا۔‘‘

 

تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

دہہ فجر یکم فروری سے دس فروری تک انقلاب اسلامی کی کامیابی اور لاکھوں شہداء کی پاکیزہ ارواح کو سلام پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے کہ جب ایرانی مسلمانوں نے اللہ کی نصرت اور امام زمانہ (عج) کی تائید کے ساتھ امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ظالم شاہی حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی جمہوری حکومت کی بنیاد رکھی۔ یہ ایام دراصل ایرانی غیور عوام کی استبدادی شہنشاہیت اور امریکہ اور اسرائیل جیسی عالمی غاصب طاقتوں سے آزادی کی خاطر لازوال قربانیوں کی عظیم داستان کی یاد دلاتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر سب سے زہادہ اہمیت کی حامل چیز شہداء کی یاد آوری اور ان کی عظمت کے مطابق ان کو بلند تر مقام دینا ہے۔ یہ شہداء کا مقدس خون ہے کہ جس کی وجہ سے انقلاب کو کامیابی نصیب ہوئی اور ملت ایران کو سربلندی اور دنیا بھر میں سرفرازی نصیب ہوئی۔ یہ شہداء تاریخ کی وہ با عظمت ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے امام خمینی (رہ) کی آواز پر لبیک کہا اور میدان میں نہ صرف حاضر رہے بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنی زندگیاں مرد قلندر امام خمینی (رہ) کے قدموں میں نچھاور کر دیں اور اپنے وطن کو طاغوت سے نجات دلائی اور دین مبین اسلام کو اپنی زندگی کی سرنوشت قرار دیا اور اقوام عالم اور بالخصوص مسلمانان جہاں کو یہ درس دیا کہ اللہ کی نصرت پر بھروسہ کرکے اپنی سرزمین اور ملک و قوم کو ہر ناپاکی اور برائی سے آزادی دلوانا ممکن ہے۔

 

شہداء کی قربانیاں اور ایرانی مسلمان عوام کا ایک قیادت کے پرچم تلے اکٹھا ہوکر طاغوتی طاقتوں کے خلاف یکجان ہو کر ڈٹ جانا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے عوامل میں سے اہم عامل تھا۔ پوری ایرانی قوم بغیر کسی تفریق کے امام خمینی (رہ) کی آواز پر ظالم شاہی حکومت کے خلاف باہر آگئی اور ایرانی قوم کا یہ اتحاد و اتفاق آج تک سالم ہے۔ دشمن قوتیں باوجود ہزار کوشش کے ملت ایران کو انتشار اور نفاق پیدا کرنے والے حیلوں کے ذریعے ان کی قیادت اور عوام کے درمیان فاصلے ایجاد کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ امام خمینی (رہ) کا قیام حقیقی اسلامی اور عوامی قیام تھا، یہی چیز انقلاب کی کامیابی اور اور اس کے دوام اور استمرار کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ دشمن کے پروپیگنڈہ اور وسوسوں کے باجود فقط اتحاد اور اسلام اور وطن کی راہ میں فداکاری ہی واحد راستہ ہے، اور ایران کے گلی کوچوں سے اٹھنے والی فداکاری اور راہ خدا میں شہادت دینے والے شہداء کے مقدس پیغام کی خوشبو فقط اسلامی جمہوری ایران کی سرحدوں تک محدود نہ رہی، بلکہ پوری دنیا اس سے معطر ہوئی۔ چاہے مسلمان چاہے، غیر مسلمان ممالک، ہر جگہ امام خمینی (رہ) کا آزادی، حریت پر مبنی لاشرقیہ ولا غربیہ کا نعرہ گونجنے لگا۔

 

امام خمینی (رہ) خود اس نکتے سے آگاہ تھے اور انہیں اس پر یقین تھا، اسی انہوں نے فرمایا ’’ایران کے عظیم انقلاب کی صدائے بازگشت اسلامی اور دوسرے ممالک میں گونج رہی ہے، جو موجب افتخار ہے۔‘‘ (۱) ایک صحافی نے اسی حوالے سے سوال کیا کہ ’’کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کے حالات کا سلسلہ ترکی میں بھی در آئے گا؟‘‘ امام خمینی (رہ) نے جواب میں فرمایا کہ ’’ایران کی مقدس تحریک اسلامی ہے اور ظاہر ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان اس کے زیر اثر قرار پائیں گے۔‘‘ (۲)پاکستانی صحافی مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا ہے کہ ’’کوئی باور نہیں کرتا تھا کہ عصر حاضر میں اسلام کے اصول قابل عمل ہوں گے۔ ایران کے اسلامی انقلاب نے اسلامی فکر میں نئی روح پھونک دی اور ثابت کر دیا اسلام آج بھی قابل عمل ہے اور معاشروں کے لیے بہترین بنیاد بھی ہے۔‘‘ (۳) اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ ’’امام خمینی کا عظیم اثر یہ ہے کہ اسلام میں ڈکٹیٹر شپ جائز نہیں۔ لوگوں کو انتخاب کا حق حاصل ہے اور ان کے حقوق کو پامال نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ (۴)

 

انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی (رہ) کے افکار پر ریسرچ کرنے والے پاکستانی اسکالر جناب رمیز الحسن موسوی کے مطابق انقلاب اسلامی کے اہداف کو اختصار کے ساتھ ذیل کے نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

1۔ بیرونی تسلط اور استعمار کی نفی۔

2۔ دنیا بھر کے مسلمانوں اور مستضعفین کی حمایت۔

3۔ پوری دنیا میں اسلامی ثقافت و افکار اور اعتقادات کی نشرواشاعت اور مسلمانوں کی تقویت۔

4۔ عالمی سطح پر امت اسلامی کی یکجہتی اور اتحاد کی بنیادوں کو تقویت بخشنے کے لیے جدوجہد۔

5۔ پوری دنیا میں مستضعفین کے اتحاد اور ان کو بیدار کرنے کے لیے جدوجہد۔

6۔ بین الاقوامی سطح پر انسانوں کے حقوق کے خلاف جارحیت کرنے والوں کو تنبیہ اور خبردار کرنا۔

7۔ دنیا پر مسلط غیر عادلانہ نظام کو بدلنے اور اس ظالمانہ نظام پر مبنی بین الاقوامی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا۔

 

سید رمیز الحسن موسوی صدور انقلاب اسلامی کے اصول بیان کرتے ہوئے انقلاب اسلامی کو دنیا کے طول و عرض میں پھیلانے کی شرعی بنیادیوں کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے ذیل کے 12 نکات بیان کیے ہیں، جن کی روشنی میں پوری دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اپنے خطوں میں اسلام کے احیاء کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے:

1۔ انقلاب کو برآمد کرنے کے لیے اقدام کرنا ایک شرعی فریضہ ہے۔

2۔ ایران کی سرحدوں تک انقلاب کے محدود ہوجانے کی وجہ سے انقلاب کی شکست یقینی ہے۔

3۔ اسلامی انقلاب کی ماہیت کا تقاضا ہے کہ انقلاب کے حامی اور ذمہ دار دنیا بھر کے مسلمانوں اور مستضعفین کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کریں۔

4۔ انقلاب ملک کے اندر ہی محدود ہوجائے تو اسے شکست دینے کے بارے میں عالمی طاقتوں کا عزم و ارادہ پورا ہو جائے گا۔

5۔ عالمی طاقتوں کے تسلط سے قوموں کو آزادی دلانا ایک مقدس فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔

6۔ اسلامی انقلاب نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ دنیا بھر کے تمام مستضعفین کے لیے ایک تحریک ہے۔

 

7۔ مستضعفین کے قیام کرنے سے بڑی طاقتوں کا زوال شروع ہوجائے گا اور یہ مسئلہ فقط انقلاب کو برآمد کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔

8۔ مستضعفین کے قیام اور اسلامی انقلاب کے بارے میں ان کے گہرے ادراک سے عالمی خونخوار طاقتوں کے مقابلے میں ایک تحریک شروع ہو جائے گی۔

9۔ اسلامی انقلاب ایک جانب سے اللہ تعالٰی کی قدرت لایزال کی حمایت اور مدد سے بہرہ مند ہے اور دوسری جانب تمام اقوام خصوصاً مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

10۔ اسلامی انقلاب نقطہ آغاز ہے اور اس کا تسلسل جغرافیائی سرحدوں کے ماورا جاری ہے۔

11۔ انقلاب کو برآمد کرنے کا تعلق، تبلیغ، آگاہ سازی اور معنویت و روحانیت کو منتقل کرنے سے ہے، نہ کہ یہ اسلحے اور فوجی ساز و سامان کا محتاج ہے۔

12۔ اسلام کے مدنظر اسلامی حکومت کی تعلیمات سے مستضعفین کی آگاہی اور اقدار کا صادر ہونا انقلاب کو برآمد کرنے پر مبنی افکار کا اہم ترین پہلو ہے۔

 

ان اہداف اور اصولوں کے پیش نظر رہبر معظم آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ ’’امت اسلامی، مسلمان معاشروں اور اقوام عالم کے لیے ہمارے انقلاب کا عظیم پیغام، اسلامی تشخص کے احیاء، اسلام کی طرف بازگشت، مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریک کی جانب واپسی سے عبارت ہے۔‘‘ (۵) انقلاب اسلامی ایک انفجار نور تھا اور امام کا یہ عزم تھا کہ وہ انقلاب سے حاصل کردہ تجربات کو دنیا بھر میں پھیلائیں گے، امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ’’مسلمہ طور پر ان تجربات کا ماحاصل مشکلات میں پھنسی ہوئی قوموں کے لیے بجز فتح و کامرانی، استقلال و آزادی اور اسلامی احکام کے نفاذ کے کچھ نہیں ہوگا۔ میں اطمینان سے کہتا ہوں کہ اسلام سپر طاقتوں کو ذلت کی خاک پر بٹھا دے گا۔ اسلام اپنی بڑی داخلی اور خارجی رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے دور کرکے دنیا کے کلیدی مورچوں کو فتح کر لے گا۔‘‘ (۶)

حوالہ جات:

۱۔ امام خمینی ۱۔۹۔۵۷

۲۔صحیفہ نور،۴۔۱۱۴

۳۔مجلہ حضور،ش۳۴،ص۱۵

۴۔ایضاّّ ص۱۳

۵۔پیغام آشنا، اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۱

۶۔صحیفہ نور ،۲۰۔۱۱۸

ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں شامی صدر کا کہنا تھا کہ دمشق کے فوجی تحقیقاتی مرکز پر اسرائیلی حملہ شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنیکی کوشش تھی۔

شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ دمشق کے نزدیک آرمی ریسرچ سنٹر پر اسرائیلی فضائی حملہ شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش تھی۔ آج دمشق میں ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعید جلیلی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں شامی صدر نے پہلی مرتبہ اسرائیلی حملے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جمرایا آرمی ریسرچ سنٹر پر اسرائیلی جارحیت نے شام میں غیر ملکی حمایت سے لڑنے والے باغیوں کی ماہیت کو آشکار کر دیا ہے۔ شامی صدر کا کہنا تھا کہ ان کی فوج موجود خطرات اور جارحیت سے مقابلے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ بشار الاسد کا یہ بیان شام کی طرف سے 31 جنوری کو اقوام متحدہ کو دی جانے والی اس وارننگ کے بعد آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ شام اس اسرائیلی جارحیت کا چونکا دینے والا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سعید جلیلی نے شامی صدر کو اسرائیل کے مقابلے کے لئے ایران کی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور غیر ملکی سازششوں اور منصوبوں کے خلاف مقابلے کی ضرورت پر زور دیا، جن کا مقصد شام کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ انہوں نے شامی صدر کو یقین دلایا کہ صیہونی حکومت کی جارحیت سے مقابلے کے لئے جہان اسلام شام کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ اپنے اس دورے میں ایرانی نیشنل سکیورٹی کے سیکرٹری جنرل نے شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم سے بھی ملاقات کی۔

شامی فوج نے اعلان کیا تھا کہ بدھ کو دمشق کے نزدیک جمرایا میں ہونے والے اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں دو فوجی جاں بحق اور پانچ زخمی ہوئے تھے۔ جمعرات کے روز شام کی وزارت خارجہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو لکھے جانے والے خط میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل اور اس کے وہ حمایتی جو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔ جمعرات کے دن ہی شام نے سلامتی کونسل سے کہا تھا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف ہونے والی اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت کرے، کیونکہ اسرائیل کی یہ حرکت اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر عشرہ فجر سے موسوم تقریبات کے تیسرے دن ایرانی ماہرین کے ہاتھوں تیار شدہ مقامی طیارے قاہر تین سو تیرہ کی رونمائي کی گئي۔ اس طیارے کی رونمائي کی تقریب سے صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے خطاب کیا اور اس میں وزیر دفاع اور مسلح افواج کے دیگر اعلی عھدیداروں نے شرکت کی۔ صدر احمدی نژاد نے نئے طیارے کی تقریب رونمائی کے موقع پر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی توانائياں اور دفاعی ترقی کسی بھی ملک کے خلاف جارحیت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ڈیٹرینٹ نوعیت کی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہاکہ نئے طیارے قاہر تین سو تیرہ کی ڈیزائيننگ اور تیاری ملت ایران کی خود اعتمادی، بیداری اور ترقی کی طرف گامزن رہنے کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی اس قوم نے حاصل کی ہے جو کئي ہزار برسوں پر مشتمل تاریخ اور تہذیب وتمدن کی حامل ہے ۔صدر جناب احمدی نژاد نے کہا کہ یہ کامیابی ایسے عالم میں حاصل ہوئي ہے جبکہ ملت ایران دنیا میں اپنی مثال آپ ہے اور کوئي طاقت اس پر حملہ کرنے کی جرات نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ قاہر تین سو تیرہ طیارے کی رونمائي اس بات کی علامت ہےکہ ایران کے ماہرین نےعلم و سائنس اور ترقی کی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرلیا ہے اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس تقریب سے وزیر دفاع جنرل احمد وحیدی نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ قاہر تین سو تیرہ جنگي طیارے کو راڈار نہیں پکڑسکتے اور یہ الٹرا ماڈرن طیارہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع نے کہا کہ ایران ساری دنیا میں اپنے مفادات کا دفاع کررہا ہے۔ جنرل وحیدی نے کہا کہ قاہر تین سو تیرہ جنگي طیارہ حملے کرنے کی اعلی ترین توانائيوں کا حامل ہے یہ طیارہ وزارت دفاع کے ماہرین کے نبوغ، خلاقیت اور جرات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ واضح رہے اس سال عشرہ فجر میں وزارت تیل میں ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا قومی انسٹی ٹیوٹ کی حیثیت سے آغاز بھی ہوا ہے اور کاربن کی آٹھ نینو مصنوعات کی بھی رونمائي ہوئي جواسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بنائي گئي ہیں، اس انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح اور نینو مصنوعات کی رونمائي صدر مملکت ڈاکٹر احمدی نژاد نے کی۔ ایران میں وزارت تیل کا نیشنل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مشرق وسطی کا سب سے اہم اور دنیا کے پانچ پیشرفتہ ترین ریسرچ انٹسی ٹیوٹس میں ایک ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں تیل کے سوکھے کنووں سے دوبارہ تیل نکالنا، فرسودگي اور معدنی املاح سے کنووں کو صاف کرنے کے بارے میں فیلڈ ریسرچ ، قدرتی گيس کو مایع گيس میں تبدیل کرنے ، گيس کو ایک مرحلے میں میٹھا بنانے جیسے شعبوں میں تحقیقات کی جارہی ہیں۔ گذشتہ شب ایران کے جنوب مغربی شہر آبادان میں آبادان ریفائنری میں ہائي آکٹین پٹرولیم تیارکرنے کے یونٹ کا بھی افتتاح ہوا۔ اس کے علاوہ ایرانی ماہرین کی بنائي ہوئي کئي دواؤں کی بھی رونمائي کی جانے والی ہے۔ ایران کی وزارت صحت کے مطابق ایران میں ملک کی ضرورت کی چھیانوے فیصد دوائيں تیار کی جارہی ہیں۔ یاد رہے عشرہ فجر کے آغاز سے ایک دن قبل ایرانی ماہرین نے پیشگام نامی راکٹ خلا میں بھیجا تھا، اس راکٹ کے ساتھ بایو کیپسول بھی خلا میں بھیجا گيا ہے۔ علم وصنعت یونیورسٹی آف ٹکنالوجی کے چانسلر نے کہا ہے کہ آئندہ گرمیوں میں ظفر نامی سیٹیلائيٹ زمین کے مدار میں بھیجا جائے گا۔یہ سٹیلائیٹ علم وصنعت یونیورسٹی آف ٹکنالوجی میں تیار کیا جارہا ہے۔ وزارت صنعت و معدنیات و تجارت کے مطابق گذشتہ برس سے لیکر اس سال اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ تک ملک میں تقریبا پانچ ہزار صنعتی یونٹ قائم کئے گئے ہیں جن سے تراسی ہزار افراد کو روزگار ملا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی صنعتی، سائنسی اور دفاعی ترقی کے جو نمونے پیش کئے گئے ہیں وہ مشتی از خروار کا مصداق ہیں اور اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ ایران نے مغرب کی پابندیوں اور سائنس وٹکنالوجی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کے باوجود کافی ترقی کی ہے اور یہ سلسلہ خدا کے فضل و کرم سےجاری ہے۔

عشرہ فجر انقلاب اسلامی اور حضرت امام خمینی (رہ) کی وطن واپسی کی سالگرہ کے موقع پر رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رہبر کبیر انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رہ) کے مزار پر پہنچ کر ان کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی اور انھیں خراج تحسین پیش کیا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ساتویں تیر کے شہداء کے مزار اور بہشت زہراء کے شہداء کی قبور پر بھی فاتحہ خوانی کی اور اللہ تعالی سےدعا ان کی ارواح کے درجات کی بلندی کے لئے کی۔

اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو بنایا تاکہ تم ان کے ذریعے بیابانوں اور دریاؤں کی تاریکیوں میں راستے پاسکو۔ بیشک ہم نے علم رکھنے والی قوم کے لئے (اپنی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں. [انعام، 97]

موسسۂ آل البیت للفکر الاسلامی کے سوالات کا جواب

سوال ۱ : جو مذاھب سنی نہیں ہیں کیاانہیں حقیقی اسلام کا جزو مانا جاسکتا ھے ؟

سوال ۲ : ھمارے زمانے میں کسی کو کافر کہنے کے کیا حدود ہیں ؟

الف : کیا روایتی اور قدیم مذاھب کے پیروکاروں کی تکفیر کرنا جائز ہے ؟

ب : کیا تصوف کی حقیقی طریقت کے سالکوں اور پیرووں کی تکفیر جائز ہے ؟

ان دو سوالوں نے مسلمانوں کے درمیان بحران پیدا کرکے ان کی صفوں میں انتشار پیدا کردیا ہے تمام مسلمین ایک امت ہیں جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں ان کی طرف بھیجی گئی کتاب قرآن ہے ان کا قبلہ بھی ایک ہے ان کے اصول دین پانچ ہیں خدا و رسول و معاد کی گواھی اور نماز ، زکات ، روزہ اور حج ۔ جو بھی ان اصول کو تسلیم کرتا ہے اور اس کا پابند ہے ، مومن ہے چاہے جس مذھب کا تابع ہو درحقیقت قرآن و سنت کی فہم کے مطابق کہ جو دین اسلام کا منبع ہیں اجتہاد ی مذاھب وجود میں آئے ہیں گرچہ اجتھاد کی راہیں گوناگوں ہیں اور مذاھب کے پیشوا تفسیر ، تاویل ، اقوال و آراء کے درمیان ترجیح دینے کے اصول و قواعد میں اختلاف نظر رکھتے ہیں اور اللہ کا یہ ارشاد اسی حقیقت کی عکاسی کررہاہے:

"يَا ایھا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللہ وَ رَسُولہ وَ الْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولہ وَ الْكِتَابِ الَّذِيَ اَنزَلَ مِن قَبْلُ وَ مَن يَكْفُرْ بِاللہ وَ مَلاَئِكَتہ وَ كُتُبہ وَ رُسُلہ والیوم الآخر فقد ضل ضلالا بعید ۔

ایمان والو اللہ رسول اوروہ کتاب جو رسول پر نازل ہوئي ہے اور وہ کتاب جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہے سب پر ایمان لے آو اور یاد رکھو کہ جو خدا، ملائکہ، کتب سماویہ، رسول اور روز قیامت کا انکار کرے گا وہ یقینا گمراہی میں بہت دور نکل گیا ہے ۔

یہ اصول ایمان تک پہنچنے کے لئے اساس و بنیاد ہیں اور کوئی بھی انسان اس وقت تک مومنین کے زمرہ میں شامل نہیں ھوسکتا جب تک کہ وہ خالق متعال کے وجود ، رسول خدا کی بعثت ، قرآن کی حقانیت اور قرآن سے پہلے نازل ھونے والی آسمانی کتابوں پر ایمان نہ لے آئے ۔

اور کفر بھی وہی چیز ہے جس کا آیت کے ذیل میں صراحت سے تذکرہ کیا گیا ہے :

(وَ مَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَ مَلاَئِكَتِهِ وَ كُتُبِهِ و َرُسُلِهِ وَ الْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا) اس آیت کی نظر میں جواعمال کفر سے توصیف ہوئے ہیں وہ سب کے سب مجاز ھیں اور فقھاء و متکلمین نے صرف لوگوں کے گناھان کبیرہ اور دیگر معاصی کا مرتکب نہ ہونے اور ان کے اندر گناہوں سے نفرت پیدا کرنے نیز انہیں حتیٰ الامکان برائیوں اوران کی تباہی سے بچانے کے لئے بہت سےگناہوں کو کفر سے تعبیر کیا ہے اور چونکہ اس طرح کے اعمال و کردار انسانوں کے ایمان پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں اور سچے ایمان کہ جس کی طرف خدا و رسول نے قرآن و حدیث میں دعوت دی ہے اسکے ستونوں کے منہدم ہونےاور ان کے انکار پر منتہی ہوتے ہیں یہ بھی کہتے چلیں کہ یہ شدید تعبیریں بھی شرعی نصوص یعنی قرآن و حدیث سے اخذ ہوئی ہیں ۔

بعض گناہوں کے مجازی کفر ہونے پر دلیل ابن قدامہ کا کلام ہے کہ جو بےنمازی سے نفی کفر کے قول کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کی نسبت اکثر فقھاء جیسے ابوحنیفہ ، مالک ، اور شافعی کی طرف دیتے ہیں۔ آپ متفق علیہ احادیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جو لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر جھنم کی آگ کو حرام قرار دیتی ہیں اور جہنم سے نکلنے کا سبب لا الہ الا اللہ کہنے کو جانتی ہیں اور یہ کہ انسان کے دل میں نیکی بھی ہو چاہے ایک دانہ گندم کے بارابر ہی ہو ۔ آپ صحابہ اور اجماع مسلمین سے بھی اپنی بات پر استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں : ہم نے کسی زمانے میں نہیں دیکھا کہ کسی بےنمازی کو مسلمانوں نے غسل نہ دیا ہو اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑہی ہو اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا ہو یا اس کے ورثہ کو میراث سے منع محروم کردیا ھو یا ورثہ کے مرجانے پر اسے میراث سے محروم کردیا ہو، کسی میاں بیوی کے اندر بےنمازی ہونے کے ناطے جدائی ڈال دی ہو جبکہ تارک الصلاۃ بہت ہیں اور اگر وہ واقعا کافر ہوتے تو ان پر یہ سارے قانون لاگو ہوتے۔

ابن قیم مدارج میں لکھتے ہیں : کفر دو طرح کا ہوتا ہے : کفر اکبر اور کفر اصغر کفر اکبر جہنم میں ہمیشہ جلنے کا باعث ہوتا ہے اور کفر اصغر جہنم میں ہمیشہ جلنے کے بغیر عذاب کا انتباہ ہوتا ہے ۔

اشاعرہ اور صوفیوں کے بارے میں ہماری رائے

اشاعرہ ، مذہب اہل سنت سے قریب ترین ہیں اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت انہیں کے عقاید کی تابع ہے ابوالحسن اشعری بدعتوں کا مقابلہ کرتے تھے وہ عقاید میں بہت سی کتابوں کے مولف اور سنت کے طرفداروں میں سے تھے اور سنت کی نقلی دلیلوں کے علاوہ عقلی دلیلوں کو بھی استعمال کرتے تھے۔ اھل سنت اور اشاعرہ کے درمیان خداکے بعض صفات میں اختلاف کا سرچشمہ طریقۂ اجتھاد میں تفاوت ہے امام اشعری بڑی قیمتی کتابوں جیسے الابانۃ ، الموجز و المقالات کے مولف ہیں کہ جن میں انہوں نے ملحدوں کے عقاید اور اھل بدعت کے گروہوں جیسے معتزلیوں جھمیوں اور دوسروں کی تردید کی ہے ، ان کے جیسا شخص اگرچہ اسلامی عقاید پیش کرنے کی روش میں دوسروں سے اختلافات رکھتا ہے لیکن کبھی بھی مسلمانوں سے جدائی کا متہم نہیں ھو سکتا ہے ۔

صوفی لوگوں میں جو حق کے پرستار ہیں اورانہیں عقاید و اعمال کے پابند ہیں جو سارے مسلمین قبول کرتے ہیں لیکن ان کے وہ گروہ جو دین میں بدعت پھیلاتے ہیں وہ بدعتیں جن کی خدا نے اجازت نھیں دی ہے اسی لئے بہت سے اھل سنت نے ان کی طریقت میں ان کی ہمراہی کرنے سے گریز کیا ہے ۔

سوال ۳ : کون اسلام میں فتویٰ دے سکتا ہے ؟ لوگوں کو احکام شریعت کی طرف رھنمائی اور امر فتویٰ کے عھدہ کو سنبھالنے کی بنیادی شرطیں کیا ہیں اور مفتی کی تعریف کیاہے؟

جواب : مفتی وہ شخص ہے جس کے اندر وقایع کے درک کرنے اور ان سے متعلق شرعی احکام کی شناخت از روی دلیل آسانی سے بیان کرسکے اور فقہ کے اکثر مسایل کا حافظ ہو ۔

وہ بہت اہم اور بلند مرتبےکا حامل ہوتا ہے وہ علم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث اور پروردگار عالم کی طرف سے احکام بیان کرنے والا ھوتا ہے خدا کے احکام کو بیان کرتا ہے اور ان کو لوگوں کے اعمال و کردار پر تطبیق دیتا ہے اسی لئے وہ اھل ذکر میں شمار کیا گیا ہے جن کی طرف رجوع کرنے کا خدا نے حکم صادر فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے :

(فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ) اھل ذکر سے پوچھو اگر نھیں جانتے۔

اور چونکہ مفتی ایسی عظمت و منزلت کا حامل ہے علماء نے ایسے شخص کے لئے جو اپنے آپ کو فتویٰ دینے کی منزل میں قرار دیتا ہے بہت سی شرطیں رکھی ہیں تاکہ اجتھاد کی صلاحیت کے علاوہ دیگر آداب و خصوصیت کا حامل ھونابھی ضروری ہے ۔ بعض شرطیں یہ ہیں :

پھلی : شرط یہ ہے کہ مفتی مسلمان ، بالغ ، عادل ، قابل اعتماد ، امانت دار ، پاک دامن اور زاھد و پارسا ہو ۔ دین میں بدعت ایجاد کرنے والا نہ ھو فسق و فجور اور مردانگی و مروت کے خلاف کاموں سے منزہ و پاک ھو ۔ اس لئے کہ اگر ایسا نہ ھوگا تو اس کی باتیں نامناسب اور ناقابل اعتبار ہوں گی اور فاسق کی خبر غیر قابل قبول ہے ۔

دوسری : فتویٰ جاری کرنے میں غفلت اور تساہلی کا مرتکب نہ ہو کیونکہ جو شخص تساہلی اورغفلت برتتا ہو اور اس عیب سے مشھور ہوجائے اس سے فتویٰ لینا جائز نہیں ہے مفتی کے اوپر واجبات میں سے ایک یہ ہے کہ جب تک کسی موضوع کو مکمل طریقہ سے سمجھ نہ لے اور اس کے بارے میں مکمل طور سے بحث و جستجو نہ کر لے اس کےبارے اظھار نظر نہیں کرنا چاہیئے۔ ذیل کی حدیث سنن دارمی میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے کہ : اجرئکم علیٰ الفتویٰ اجرئکم علیٰ النار تم میں فتوی دینے کے سلسلہ میں سب سے زیادہ جرئت و جسارت کرنے والا آتش جھنم کے سلسلہ میں سب سے زیادہ جری و گستاخ ہے ۔

تیسری : اسے سمجھدار عاقل ، سالم ذھن ، استوار فکر ، صریح و آشکار کلام اور واضح و روشن تحریر والا ہونا چاہیئے اپنے استنباط میں صحیح راستہ اپنائے اور زندگی کے تمام مراحل میں جملہ واقعات و حوادث کا بڑی ہوشیاری کے ساتھ جائزہ لے۔

چوتھی : عربی زبان اور کلام کے محل و مقام سے اس طرح آشنا ہو کہ اسے خدا و رسول ص کے خطابات کی مراد سمجھنے کی توانائی و صلاحیت پیدا ہوجائے کیونکہ اسلامی شریعت و قانون سازی کا یکہ و تنھا مدرک و منبع عربی زبان ہے ۔

پانچوین : اللہ کی کتاب قرآن کے اندر محکم و متشابہ ، عام و خاص مجمل و مفصل اور ناسخ و منسوخ سے اس طرح آشنا ہو کہ ان کے اندر وارد احکام اور ان کے مضامین کو سمجھ سکے ۔

چھٹی : رسول خدا کی سنت قولی و عملی اس کی روایت کا انداز کہ متواتر ہے یا خبر واحد ، صحیح ہے یا فاسد و باطل ، رجال حدیث عادل ہیں یا مجروح سب سے آشنا ہو ۔

ساتویں : گذشتہ فقھاء کے مسالک سے آشنا اور مقامات اجماع و اختلافات کو جانتا ہو تاکہ احکام کا تابع رہے اور اجماع کے خلاف فتویٰ نہ دے اور اختلافی جگہوں پر اجتھادی فکر کا حامل ہو ۔

آٹھویں : قیاس اور احکام کے علل و اسباب سے آشنا ہو تاکہ فروع کو اصول کی طرف پلٹا سکے اور جدید مسائل میں علم و معرفت کا راستہ کھول سکے ۔

نوین : ان آداب کا پابند ہو جنہیں فقھاء نے مفتیوں کے لئے بیان فرمایا ہے جیسے : غیض و غضب ، خوف ، بھوک ، حواس باختگی اور خطرات کے موقع پران سے دامن چھڑانےکی کوشش میں فتویٰ نہ دے تاکہ میانہ روی اور بھرپور جانچ پڑتال کی حالت سے خارج نہ ہو اور حکم صادر کرنے میں صرف خداوند متعال کی خوشنودی مد نظر رکھے اور یہ آیت کریمہ اس کا نصب العین رہے :

(وَ أَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ اللّهُ وَ لاَ تَتَّبِعْ أَهْوَاءهُمْ وَ احْذَرْهُمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّهُ إِلَيْكَ ) اور ان کے درمیان اسی کے مطابق حکم کرو جس کا حکم خدانے تمھارے اوپر نازل فرمایا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ان سے پرہیز کرتے رہو کہ کھیں وہ تمھیں اللہ کی بعض نازل کردہ چیزوں سے منحرف نہ کردیں ۔

متفی کو حرام یا شرعی مکروہ کی بنیاد پر فتوی نھیں دینا چاھئے اور نہ ہی اپنے فتووں میں دنیوی مفادات اور دفع ضرر کے جال میں پڑنا چاہیے اور نہ ہی وہ آمدنی نڑہانے کے لئے مباحات اور جواز کے چکر میں پڑے اسے چاہیئے کہ با وقار طریقہ سے فتویٰ صادر کرے تاکہ اس کے سامنے گستاخی و جرأت پیدانہ کریں مگر جھاں حکم خدا آشکار ھو ورنہ اسے چاھئے کہ مکمل چھان بین اور تحقیق و دقت سے کام لے تاکہ واضح جواب دے سکے اور اگر ایسانہ کرے اور فتویٰ صادر کرسکے تو اس کا یہ فتویٰ جہالت پر استوار ہوگا اور خدا و رسول ص پر افتراء کے برابر اور گناہ کبیرہ ھوگا اللہ کا ارشاد ھے :

( قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَ الإِثْمَ وَ الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ أَن تُشْرِكُواْ بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَ أَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ) کھ دو کہ میرے پروردگار نے برائیوں کو حرام قرار دیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ ناحق سرکشی کو حرام اور خدا کا شرک قرار دینا کہ جس پر کوئی دلیل نازل نہیں ہوئی ہے اور جہالت کی بنیاد پر اللہ سے کسی چیز کے منسوب کرنے کو حرام قرار دیاہے۔

یہی وجہ ہے کہ بزرگوں سے پیہم نقل ہوا ہے کہ جب بھی ان سے کسی چیز کے متعلق سوال ہوتاتھا اور وہ اس کا جواب نہیں جانتے تھے تو کھ دیا کرتے تھے کہ میں نہیں جانتا ۔

اس کے علاوہ ذیل کی صفات کو بھی شرط کے طور اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

۱ ۔ مفتی کو چاہیئے کہ علم فقہ کو وسیع پیمانے پر حاصل کرچکا ہو اور فقہ میں میانہ روی اختیار کرے فقھی کتابوں کا مطالعہ کرکے مسائل کے سمجھنے کی نسبت کافی حد تک مہارت حاصل کرچکا ہو اور فقہ کے جزئی مسائل کی تحقیق میں ید طولیٰ رکھتا ہو ۔

۲ ۔ مورد نظر مسئلہ میں صادر شدہ اکثر فتاویٰ پر مکمل احاطہ و عبور رکھتا ہو اور محققین ، فقھاء اور مفتیوں کی کتابوں کو دیکھا ہو اور ایسے حکم کو ترجیح دے کہ جو فقھی اجتھاد میں قوی دلیل اور معتبر شرایط کی بنیاد پر صادر ہوا ہو اور شاذ و نادر اقوال کی طرف رجحان پیدا نہ کرے ۔

۳ ۔ وہ ھر حال میں شریعت کے مقاصد ، فقھی قواعد ، مسائل کے درمیان جزئی فرق اور صادرشدہ احکام کے نتائج کو ہمیشہ مدنظر رکھے ۔

۴ ۔ تمام فقھی مذاھب کی مورد اعتماد کتابوں خاص طور سے ان کی اصطلاحوں کی نسبت بھر پور طریقہ سے آگھی رکھتا ہو کیونکہ یہی اصطلاحیں فقھی نصوص کو سمجھنے کی کنجی ہیں ۔

۵ ۔ ذکر شدہ تمام مسائل کی پابندی پر شدید طرح سے ہو۔ خدا پسند راہ پرگامزن رہنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردے مومنین کے حال کی رعایت کرے کہ کہیں وہ مفتی نما کم مایہ افراد کے فتووں کی وجہ سے دشواریوں اور مشکلات میں گرفتار نہ ہو جائیں یہ سارے امور بنیادی مقصد میں بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ھیں ۔

خداوند متعال سے اطاعت اور رشد و ھدایت کی توفیق کا طلب گار ہوں ۔

وصلی اللہ علیٰ سیدنا و مولانا محمد و علیٰ آلہ و صحبہ و سلم

ڈاکٹر محمد حبیب بن خوجہ مجمع فقھ اسلامی کے مدیر اعلیٰ ۔

منبع : سايت تقريب