
Super User
اسلامی بیداری کو کامیاب بنانے کی ضرورت، خطیب جمعہ تہران
تہران کے خطيب جمعہ نے علاقے ميں اسلامي بيداري کو کامياب بنانے کي کوششوں پر زور ديا ہے۔
تہران کے خطيب جمعہ آيت اللہ امامي کاشاني نے قوموں کے خلاف تسلط پسندانہ اور ظالم و ستم پيشہ حکومتوں کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ يہي مظالم علاقے ميں اسلامي بيداري اور ديگر خطوں ميں قوموں کے بيدار ہونے کا باعث بنے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ ان تحريکوں کو مضبوط کرنے کے لئے معنوي اور مادي دونوں طرح کي پشتپناہي کي ضرورت ہے۔
آيت اللہ امامي کاشاني نے اس بات پر زور ديتے ہوئے کہ مکتب اسلام ہي وہ واحد مکتب ہے جو دنيا کا نظم و نسق چلا سکتا ہے اور دنيا کو ظلم وستم سے نجات دلا سکتا ہے کہاکہ بعض قوتيں اسلامي بيداري کي تحريک کو گمراہ کرنے کي کوشش کررہي ہيں ليکن وہ ہرگز کامياب نہيں ہوں گي۔ تہران کے خطيب جمعہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مغرب نے مادي اعتبار سے خود کو طاقتور بناليا ہے اور اس کے ذريعے وہ علاقے ميں اپني گھناؤني سازشوں کو کامياب بنانے کي کوشش کرتا ہے کہاکہ سائنس اور صنعت ميں ترقي وپيشرفت کرکے مغرب کي ان سازشوں کو ناکام بنايا جاسکتا ہے۔ آيت اللہ امامي کاشاني نے صنعت و سائنس و ٹکنالوجي کے ميدان ميں اسلامي جمہوريہ ايران کي ترقي و پيشرفت کا حوالہ ديتے ہوئے کہاکہ ترقي وپيشرفت کا يہ عمل جيسا کہ قائد انقلاب اسلامي نے تاکيد فرمائي ہے جاري رہنا چاہئے تاکہ ايران کے عوام کے دشمنوں کي سازشوں کو ناکام بنايا جاسکے۔
تہران کے خطيب جمعہ نے فلسطين وشام کے حالات اور مسلمانوں پر پڑنےوالے مغرب کے دباؤ کا بھي ذکر کيا اور کہا کہ شام اور فلسطين کے عوام کي مشکلات کو ختم کرنے کي کوشش کي جاني چاہئے۔
تہران کے خطيب جمعہ نے فرزند رسول حضرت امام موسي کاظم عليہ السلام کے يوم ولادت باسعادت کي مبارکباد پيش کرتے ہوئے آپ کے اعلي صفات و کمالات کا بھي ذکر کيا اور کہاکہ عالم اسلام کو آئمہ اطہار جيسي عظيم المرتبت شخصيات کا پيرو ہونے پر فخرکرنا چاہئے۔
نئی نسل کو ایران سائنسی ترقی کے دور سے روشناس کرایا جائے، قائد انقلاب اسلامی
قائدانقلاب اسلامی فرمایا ہے کہ نئی نسل کو ملک کی سائنسی ترقی کے دور اور ایرانی سائنسدانوں کی خدمات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
علامہ قطب الدین شیرازی کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ نوجوان نسل ایران کی سائنسی ترقی کے دور نمایاں شخصیات کےبارے میں بتانے کی ضرورت ہے کہ پر تا کہ انہیں قرون وسطی کے تاریک دور کے لوگوں کو اپنے لئے نمونہ عمل بنانے کی ضرورت باقی نہیں رہے ۔آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا ہے کہ علامہ قطب الدین شیرازی جیسی عظیم ہستیوں کی یاد منانا ایک اچھا کام ہے اور یہ کہ عظیم ہستیوں کو آج کے نوجوانوں سامنے پیش کیا جائے اور انہیں پتہ چلے کہ وہ قطب الدین شیرازی جیسی شخصیات کو اپنا نمونۂ عمل بنا سکتے ہیں۔قائد انقلاب اسلامی کے پیغام میں تاکید کی گئي ہے کہ جس وقت مغرب اور یورپ میں سائنسی سرگرمیوں کی کوئي علامت نہیں تھی اس وقت بھی ایران میں سائنسی ترقی ہورہی تھی۔
قطب الدین شیرازی بین الاقوامی کانفرنس میں قائد انقلاب اسلامی کا پیغام صوبۂ فارس میں قائد انقلاب اسلامی کے نمائندے اور شیراز کے امام جمعہ آیت اللہ ایمانی نے پڑھ کر سنایا۔
قوت اسلام مسجد ہندوستان کے دارالحکومت دہلی
قوت اسلام مسجد اور قطب مینار
قوت اسلام مسجد ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں عہد خاندان غلاماں کی ایک عظیم یادگار جس کا "قطب مینار" عالمی شہرت کا حامل ہے۔ یہ قطب الدین ایبک کے دور کی تعمیرات میں سب سے اعلٰی مقام رکھتی ہے۔ یہ ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد تھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا۔
13 ویں صدی میں التمش کے دور حکومت میں اس میں توسیع کر کے حجم میں تین گنا اضافہ کیا گیا۔ بعد ازاں اس میں مزید تین گنا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور عظیم مینار تعمیر کیا گیا۔
اس کے مشہور قطب مینار کی تعمیر کا آغاز 1199ء میں ہوا تھا۔ اور بعد ازاں آنے والے حکمران اس میں مزید منزلوں کا اضافہ کرتے گئے اور بالآخر 1368ء میں یہ مینار 72 اعشاریہ 5 میٹر (238 فٹ) تک بلند ہوگیا۔ اس طرح یہ مینار آج بھی اینٹوں کی مدد سے تعمیر کردہ دنیا کا سب سے بلند مینار ہے اور ہندی-اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ بنیاد پر اس کا قطر 14 اعشاریہ 3 جبکہ بلند ترین منزل پر 2 اعشاریہ 7 میٹر ہے۔ یہ مینار اور اس سے ملحقہ عمارات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔
مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ مسجد کے مغرب میں التمش کا مزار ہے جو 1235ء میں تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی موجودہ صورتحال کھنڈرات جیسی ہی ہے۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام "ضرب کلیم" میں ایک نظم "قوت اسلام مسجد" کے عنوان سے لکھی ہے:
” ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی
'لا الہ' مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود
چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو
کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود
کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہوا مثلِ زُجاج اس کا وجود
ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہر معرکۂ بود و نبود
اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گداز
بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ و درود
ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟ “
گیس منصوبے میں حائل رکاوٹوں کو دور کررہے ہیں
پاکستان کے صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ایران – پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے میں حائل رکاوٹوں کو دورکررہے ہیں ۔
کراچی سے موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے کل کراچی میں 36 ویں ایکسپورٹ ایوارڈ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے میں رکاوٹیں حائل ہیں جن کو دور کرنے کی کوششں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس منصوبے کو بہت بڑا منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں منظر عام پر آیا تھا جس کی تکمیل کےلئے کوشش جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض ممالک کو پاکستان، ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر تحفظات ہیں اور عالمی ادارے قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس تناظر میں گیس پائپ لائن کے منصوبے کیلئے متبادل طریقہ کار پر غور کر رہے ہیں۔
بحران شام کے حل کے لئے ایران کا چھے نکاتی فارمولا
اسلامي جمہوريہ ايران نے شام کو بحران سے نکالنے کے لئے چھے نکاتي تجويز کي تفصيلات جاري کردي ہيں۔
اسلامي جمہوريہ ايران کي وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے کوششوں کے نئے دور کا آغاز ہوگيا ہے۔ ان کوششوں کا ماحصل ايران کي طرف سے شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے پيش کئے گئے چھ نکاتي فارمولے ميں بيان کيا گيا ہے جس کو ايران کي وزارت خارجہ نے جاري کيا ہے اور جس کا مقصد شام کو موجودہ بحران سے باہر نکالنا ہے۔
جو چھے نکاتي فارمولا ايران کي طرف سے پيش کيا گيا ہے اس ميں سب سے پہلے لڑائيوں کو بند کئے جانے کي بات کي گئي ہے۔ اس کے بعد کہا گيا ہے کہ شام کے مختلف گروہوں قبائل اور طبقوں کے نمائندوں اور حکومت کے درميان قومي مذاکرات شروع ہوں جس کے نتيجے ميں ايک قومي آشتي کي کميٹي تشکيل پائے۔ اس فارمولے ميں شام کے عوام کو انسان دوستانہ امداد ديئے جانے کي بھي بات کي گئي ہے-
شام کے خلاف عائد پابنديوں کو اٹھا ليا جانا بھي ايران کے فارمولے ميں شامل ہے جبکہ يہ بھي کہا گيا ہے کہ شام کے پناہ گزينوں کي وطن واپسي کو يقيني بنايا جائے۔
ايران کي طرف سے پيش کئے گئے حل ميں يہ بھي کہا گيا ہے کہ شام ميں ايک عبوري حکومت کي تشکيل کے لئے زمين ہموار کرنے کے لئے بات چيت کا عمل شروع ہونا چاہئے۔
ايران کي وزارت خارجہ کے بيان ميں کہا گيا ہے کہ ان سبھي افراد کو فوري طور پر رہا کيا جانا چاہئے جن کو محض سياسي سرگرميوں ميں حصہ لينے کي وجہ سے گرفتار کيا گيا ہے۔ ايران نے اس بات پر بھي زور ديا ہے کہ شام کے واقعات کے بارے ميں غلط اور جھوٹي خبروں کونشر کرنے کا سلسلہ بھي بند کيا جائے۔ايران نے شام ميں آزادانہ انتخابات کي ضرورت پر بھي زور ديا ہے اور وقت پر صدارتي انتخابات کا انعقاد بھي حکومت کي ذمہ داريوں ميں شامل ہے اس بات پر بھي ايران نے تاکيد کي ہے ۔
اس ميں شک نہيں کہ ايران کي طرف سے شام کے بحران کو حل کرنے کے تعلق سے پيش کي گئي تجاويز کا اصل مقصد پہلے مرحلے ميں شام ميں امن و امان کو بحال کرنا اور اس ملک کےعوام کي مشکلات کو ختم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہي ايران کي وزارت خارجہ اس بات سے بھي واقف ہے کہ اس کا يہ فارمولا اسي وقت نافذ ہوسکتا ہے جب شام کے سبھي گروہوں کے درميان تعاون کا جذبہ پيدا ہوگا اور ساتھ ہي علاقائي اور عالمي طاقتيں بھي اس سلسلے ميں مثبت سوچ کا اظہار کريں گي۔
ايران کا کہنا ہے کہ ترکي ميں نيٹو کي طرف سے پٹرياٹ ميزائل نصب کئے جانے کا منصوبہ دفاعي نوعيت سے زيادہ جارحانہ نوعيت کا ہے اور اس سے علاقے ميں امن و امان برقرار کرنے ميں کوئي بھي مدد نہيں ملے گي۔
اس ميں بھي شک نہيں کہ شام کے بحران کے اصل ذمہ دار شام کے باہر کے عناصر اور ممالک ہيں - پچھلے دنوں دوحہ ميں شام کے مخالف گروہوں کو شامي عوام کا نمائندہ تسليم کرلئے جانے کے بعد شام ميں دہشت گردانہ کاروائيوں ميں اضافہ اسي حقيقت کي تائيد کرتا ہے۔
کچھ عرصے قبل تک شام ميں سرگرم دہشت گردوں کے پاس ہلکے ہي ہتھيار تھے ليکن اب ان کے پاس بھاري ہتھيار بھيہي نہيں بلکہ زمين سے ہوا ميں مارکرنےوالے ميزائيل بھي آگئے ہیں۔
شام کے بحران ميں يہ پيچيدگي اس بات کي علامت ہے مغربي ممالک شام کے بحران کو حل کرنے ميں مدد دينے کے بجائے شام کے صدر بشار اسد کي حکومت کو گرانے کے نئے نئے منصوبوں پر کام کررہے ہيں اور ان کي کوشش ہے کہ شام کا بحران فوجي مداخلت کے ذريعے ختم کيا جائے۔
ان تمام باتوں کے پيش نظر ايران نے قيام امن کے لئے جو تجاويز يا فارمولا پيش کيا ہے اس ميں صاف ظاہر ہے کہ ايران نے شام کے عوام کے مفادات کو سب سے اوپر رکھا ہے اور اس کو کچھ اس طرح سے تيار کيا گيا ہے کہ شام کے حالات کے بارے ميں کوئي بھي فيصلہ اس ملک کے عوام پر ہي چھوڑ ديا جائے۔
مذاکرات فریقین کے لۓ اطمینان بخش
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے کے نمائندوں کے حالیہ مذاکرات کو فریقین کے لۓ تسلی بخش قرار دیا ہے۔
ارنا کی رپورٹ کے مطابق علی اکبر صالحی نے گزشتہ شب تہران میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے تیرہ دسمبر کو تہران میں اسلامی جمہوریہ ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئي اے ای اے کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا کہ ان مذاکرات کے دوران گفتگو کے نئے دائرہ کار کی تدوین کا جائزہ لیا گيا اور فریقین کا اس سلسلہ میں متعدد امور پر اتفاق طے پا گیا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ جمعرات کے دن ایران اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں دو امور پر بحث ابھی باقی ہے اور ان امور پر جنوری سنہ دو ہزار تیرہ کو ہونے والے مذاکرات کے دوران بحث کی جائے گی۔
فاتح مسجد - ترکی کے شہر استنبول
فاتح مسجد (ترک: Fatih Camii یعنی فاتح جامع) ترکی کے شہر استنبول کی ایک جامع مسجد ہے جو عثمانی عہد میں قائم کی گئی۔
یہ استنبول میں ترک اسلامی طرز تعمیر کا ایک اہم نمونہ ہے اور ترک طرز تعمیر کے ایک اہم مرحلے کی نمائندگی کرتی ہے۔
فاتح مسجد فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد ثانی المعروف محمد فاتح کے حکم پر تیار کی گئی۔ یہ فتح قسطنطنیہ کے بعد تعمیر کی جانے والی پہلی مسجد تھی۔ ماہر تعمیرات عتیق سنان تھے جنہوں نے 1463ء سے 1470ء کے عرصے میں اس مسجد کو تعمیر کیا۔
مسجد کی اصلی عمارت مسجد کے گرد انتہائی منصوبہ بندی سے تیار کی گئی عمارات کا مجموعہ تھی۔ ان میں آٹھ مدارس، کتب خانہ، شفا خانہ، مسافر خانہ، کاروان سرائے، بازار، حمام، ابتدائی مدرسہ اور لنگر خانہ موجود تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں چند قبریں بھی تعمیر کی گئیں۔ حقیقی عمارت تقریباً مربع شکل میں 325 میٹر پر محیط تھی جو جادۂ فوزی پاشا پر شاخ زریں کے کنارے واقع تھی۔
سلطان محمد فاتح کی تعمیر کردہ اصلی مسجد 1509ء کے زلزلے میں بری طرح متاثر ہوئی جس کے بعد اسے مرمت کے مراحل سے گزارا گیا۔ 1557ء اور 1754ء زلزلوں میں ایک مرتبہ پھر مسجد کو متاثر کیا اور دوبارہ اس کی مرمت کی گئی۔ لیکن 22 مئی1766ء کو آنے والے زلزلے میں یہ مسجد مکمل طور پر تباہ ہو گئی، اس کا مرکزی گنبد گر گیا اور دیواروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
موجودہ مسجد سلطان مصطفیٰ ثالث کے حکم پر معمار محمد طاہر نے 1771ء میں تعمیر کی جو قدیم مسجد سے بالکل مختلف انداز میں تعمیر کی گئی۔
مسجد کا صحن، مرکزی داخلی دروازہ اور میناروں کے نچلے حصے ہی اولین تعمیرات کا حصہ ہیں جن پر 1771ء میں دوبارہ مسجد تعمیر کی گئی۔
مسجد کے باغ میں سلطان محمد فاتح اور ان کی اہلیہ گل بہار خاتون کی قبریں ہیں۔ ان دونوں کی تربت کو بھی زلزلے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ ان دونوں کے علاوہ مسجد کے احاطے میں سلطان محمد فاتح کی والدہ نقشِ دل سلطانہ کی قبر بھی موجود ہے جبکہ کئی سرکاری عہدیداروں کی قبریں بھی یہیں ہیں۔
ایوب انصاری مسجد کی طرح فاتح مسجد بھی فن تعمیر کے لحاظ سے اتنی اہمیت کی حامل نہیں بلکہ یہ دونوں مساجد تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔
فاتح مسجد - زلزله سے پهلے - 1559
جامعہ مسجد الازہر - کایرو ؛مصر
جامعۃ الازہر قاہرہ ، مصر کی ایک مسجد اور یونیورسٹی ہے۔
1-مسجد: بنوفاطمہ نے جب مصر کو فتح کرکے قاہرہ کو اپنا دارلحکومت بنایا تو جوہر الکاتب صقلبی نے ، جو ابوتیمم کا سپہ سالار تھا۔
359ھ میں اس مسجد کی بنیاد رکھی اور یہ دو برس بعد 361ھ میں تیار ہوگئی۔
اس کے بعد مختلف بادشاہوں نے اس میں اضافہ کیا۔
2۔ یونیورسٹی : مسجد میں ایک مدرسہ قائم کیا گیا جو کچھ مدت بعد دینی اور دینوی تعلیم کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔
چونکہ یہاں دور دور سے طلبہ آتے تھے اس لیے اس کی حیثیت اقامتی درس گاہ کی ہوگئی آج بھی نصف سے زیادہ لڑکے اقامت گاہوں میں رہتے ہیں۔ شروع میں یہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی تھی ۔ 1930ء میں پرائمری ، ثانوی ، ڈگری اور عالم ایم۔ اے کے مدارج قائم ہوئے۔ اور تعلیم کو مسجد سے نکال کر کالجوں میں منتقل کر دیا گیا۔ اب صرف دینیات کا شعبہ مسجد سے وابستہ ہے۔ يه اسلام كى قديم ترين درسگاه ہے۔
پرانا تصویر – 1900 ء
عرب ملکوں کے سفيروں سے عراقي وزير اعظم کا خطاب
عراق کے وزير اعظم نوري المالکي نے کہا ہے کہ بيروني طاقتوں کو يہ حق حاصل نہيں ہے کہ عرب اقوام کي جمہوريت اور آزادي کے بارے ميں فيصلہ کريں -
بغداد سے موصولہ رپورٹ کے مطابق عراق کے وزير اعظم نوري المالکي نے عرب ملکوں کے سفيروں سے ملاقات ميں کہا ہے کہ حکومت عراق آزادي اور جمہوريت کو عرب اقوام کا بنيادي حق سمجھتي ہے اور ان کي تحريکوں کي حمايت کرتي ہے - انہوں نے اسي کے ساتھ کہا کہ آزادي اور جمہوريت کي تحريکوں کے حوالے سے بيروني طاقتوں کو يہ حق نہيں ہے کہ وہ عرب اقوام کي جگہ فيصلے کريں اور ان پر اپنے فيصلے مسلط کريں - عراق کے وزير اعظم نے شام کے خلاف ہر قسم کي فوجي مداخلت کي مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ شام کا مسئلہ کيسے حل ہونا ہے اور وہاں کس قسم کي تبديلي آني ہے ، اس کا فيصلہ کرنے کا حق صرف شام کے عوام کو ہے-
انہوں نے دنيا کےمختلف ملکوں ميں انتہا پسندي بڑھنے کي جانب سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ عرب ملکوں کو دہشتگردي اور انتہا پسندي کے مقابلے کے لئے متحدہ موقف اختيار کرنا چاہئے –
عراق کے وزير اعظم نے تمام شعبوں بالخصوص اقتصادي اور سياسي شعبوں ميں عرب ملکوں کے ساتھ تعاون کے لئے عراق کي آمادگي کا اعلان کيا اور کہا کہ عراق قومي کاوشوں اور اتحاد کے ذريعے سيکورٹي سے متعلق دشوار مراحل سے نکل چکا ہے
شام ميں بيروني مداخلت کي مخالفت
روس نے ايک بار پھر شام ميں ہر قسم کي بيروني مداخلت کي مخالفت کي ہے -
ارنا کے مطابق روس کي مسلح افواج کے کمانڈر جنرل والري گراسيموف نے معاہدہ شمالي اقيانوس نيٹو کي فوجي کميٹي کے سربراہ جنرل بارٹلز کے ساتھ مشترکہ پريس کانفرنس ميں شام ميں ہر قسم کي بيروني مداخلت کي مخالفت کرتے ہوئے نيٹو کو خبردار کيا ہے کہ شام ميں فوجي مداخلت سے باز رہے -
جنرل گراسيموف نے اس پريس کانفرنس ميں کہا کہ وہ سمجھتے ہيں کہ شام کا مسئلہ کسي بھي قسم کي فوجي اور غير فوجي، بيروني مداخلت کے بغير تنازعے کے فريقوں کے درميان مذاکرات کے ذريعے ہي حل ہونا چاہئے - اس پريس کانفرنس ميں نيٹو کي فوجي کميٹي کے سربراہ جنرل بارٹلز نے دعوي کيا کہ ترکي ميں شام کي سرحد پر پيٹرياٹ ميزائل نصب کرنے کا فيصلہ ترکي کي درخواست پر کيا گيا ہے اور يہ اقدام صرف دفاعي ہے -
ياد رہے کہ ترکي نيٹو اور امريکا کے کہنے پر شروع سے شام کے بحران ميں مداخلت کررہا ہے اور اس نے شام ميں سرگرم مسلح گروہوں کو اسلحے سپلائي کرکے بحران کي شدت بڑھانے ميں اہم کردار ادا کيا ہے