Super User

Super User

مسجد حسن الثانی مراکش کے شہر کاسابلانکا میں واقع ہے۔ اس مسجد کا ڈیزائن فرانسیسی ماہر تعمیرات مائیکل پنیسو نے تیار کیا۔

اس نے مسجد کے ڈیزائن کی تیاری میں اسلامی فن تعمیر سے مدد لی۔ مسجد میں ایک لاکھ سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔

یہ مسجد الحرام کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کی تعمیر پر 80 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی۔ اس مسجد کا مینار دنیا کا سب سے بلند مینار ہے جس کی بلندی 210 میٹر(689 فٹ) ہے۔

اس مسجد کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس کا نصف حصہ سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر اور نصف حصہ بحر اوقیانوس کی سطح پر ہے۔

اس کے فرش کا ایک حصہ شیشے کا ہے جہاں سے سمندر کا پانی دکھائی دیتا ہے۔

مسجد کے مینار سے سبز رنگ کی شعاع کا اخراج ہوتا ہے اور یہ شعاع نہایت دور سے دیکھی جا سکتی ہے اور اس سے شہر کے رہنے والوں کو قبلے کی سمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اسلامی فن تعمیر کے ساتھ ساتھ یہ مسجد کئی جدید سہولیات سے بھی مزین ہے جن میں زلزلے سے محفوظ ہونا، سردیوں میں فرش کا گرم ہونا، برقی دروازے اور ضرورت کے مطابق کھولنے یا بند کرنے کے قابل چھت شامل ہیں۔

اس کا طرز تعمیر اسپین میں قائم الحمرا اور مسجد قرطبہ سے ملتا جلتا لگتا ہے۔

مسجد کے تعمیراتی کام کا آغاز 12 جولائی 1986ء کو کیا گیا اور افتتاح سابق شاہِ مراکش حسن ثانی کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر 1989ء میں کیا جانا تھا لیکن مسجد کے تعمیراتی کام میں تاخیر کے باعث اس کا افتتاح 30 اگست 1993ء کو ہوا۔

مسجد کی تعمیر میں مراکش بھر کے 6 ہزار ماہرین نے 5 سال تک محنت کی۔

حزب اللہ کے سربراہ سيد حسن نصراللہ نے غزہ پر غاصب صيہوني حکومت کے وحشيانہ حملوں کي مذمت کرتے ہوئے تمام اسلامي اور عرب ملکوں سے فلسطينيوں کي حمايت کي اپيل کي ہے -

حزب اللہ کے سربراہ سيد حسن نصراللہ نے جمعرات کي رات، شب يکم محرم کي مناسبت سے بيروت کے علاقے ضاحيہ کے سيدالشہدا کامپليکس ميں ايک بڑے اجتماع سے خطاب ميں غزہ پر صيہوني حکومت کے حملوں کي مذمت کرتے ہوئے اسرائيلي جارحيت کو تمام عرب اور اسلامي ملکوں کے لئے خطرہ بتايا - انہوں نے کہا کہ اس وقت دنيا کے تمام حريت پسندوں کو فلسطيني مجاہدين کا ساتھ دينا چاہئے کيونکہ غاصب صيہوني حکومت غزہ ميں انسانيت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کررہي ہے -

سيد حسن نصراللہ نے اس بات پر زور ديتے ہوئے کہ شام کو جو فلسطيني مزاحمتي تنظيموں کي حمايت کا ايک مضبوط مرکز تھا، دشمنوں نے، اپني سازشوں اور اپنے بھيجے ہوئے دہشتگردوں سے لڑائي ميں الجھا رکھا ہے کہا کہ اس وقت عرب ملکوں کے سربراہوں اور تمام سياسي رہنماؤں کو باہمي اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صيہوني حکومت کے وحشيانہ حملوں کے مقابلے ميں غزہ کے دفاع پر متحد ہوجانا چاہئے-

انہوں نے کہا کہ صيہوني حکومت نے شام کے بحران سے غزہ پر حملے کے لئے فائدہ اٹھايا ہے -

سيد حسن نصراللہ نے اپنے خطاب ميں کہا ہے کہ غاصب صيہوني حکومت کے حکام نے تحريک مزاحمت کي طاقت و توانائي کا اعتراف کرليا ہے - انہوں نے تل ابيب پر فلسطينيوں کے ميزائلي حملوں کو غاصب صيہونيوں کے ساتھ جنگ کي تاريخ ميں ايک اہم موڑ قرار ديتے ہوئے کہا کہ ان حملوں نے مزاحمتي فلسطيني تنظيموں کي توانائي، دليري اور استقامت و پائيداري کو ثابت کرديا ہے -

انہوں نے کہا کہ اس وقت غزہ کے شہيدوں کے جن ميں عورتيں اور بچے بھي شامل ہيں، خون نے صيہوني حکومت کے ساتھ امريکا اور مغرب کے تعاون کو پہلے سے زيادہ آشکارا کرديا ہے کيونکہ امريکا نے غزہ پر صيہوني حکومت کا حملہ شروع ہوتے ہي اس کي حمايت کا اعلان کرديا -

سيد حسن نصراللہ نے کہا کہ صيہوني حکومت نے دو ہزار چھے اور دو ہزار آٹھ کي جنگوں ميں جو اہداف مد نظر رکھے تھے ان ميں اس کو ناکامي ہوئي تھي اور آج بھي غزہ پر حملوں ميں اس نے جو اہداف مد نظر رکھے ہيں ان ميں سے کوئي بھي اس کو حاصل نہيں ہوگاکيونکہ مزاحمتي تنظيموں کي توانائي کا اس کو خود بھي اعتراف ہے -

 

رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے 150 ممتاز ماہرین، اساتید، محققین اور مؤلفین کا چوتھااسٹراٹیجک اجلاس منعقد ہوا جس میں آزادی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے قبل تین اسٹراٹیجک اجلاس منعقد ہوچکے ہیں جن میں "اسلامی – ایرانی پیشرفت کے نمونے"، " عدل و انصاف"، اور "عورت وخاندان " کے موضوعات کا جائزہ لیا گیا۔ اسٹراٹیجک اجلاس کا مقصد طویل مدت اور اسٹراٹیجک امور کے بارے میں فیصلہ اورباہمی نظریات اور گفتگو کے لئے مؤثر علمی اور فکری ماحول بنانا ہے۔

اس اجلاس میں 10 ممتاز ماہرین نے آزادی کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات پیش کئے اس کے بعد 17 محققین اور اساتذہ نے بیان شدہ نظریات پر تنقیدی مباحثہ پیش کیا۔

اس اجلاس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ملک کی عام فضا ،مسائل اور اقتصادی مشکلات جو عالمی استکبار کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قدرتی طور پر عوام کو درپیش مشکلات سے کوئی بھی شخص غافل نہیں ہے لیکن یہ اجلاس موضوع کی اہمیت اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کی وجہ سے اور طویل مدت منصوبوں کا جائزہ لینے کی غرض سے منعقد ہوتا ہے۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے بنیادی مسائل میں غور و فکر کے سلسلے میں ملک کی شدید ضرورت کو اسٹراٹیجک اجلاس منعقد کرنے کے اصلی علل و اسباب اور اہداف قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم بحر موّاج کی طرح پیشرفت و ترقی کی سمت گامزن ہے، اور اسے اساسی اور بنیادی امور میں افکار کے فعال ہونے اور غور و خوض کی سخت ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےسماج کے بنیادی اور اساسی امور میں اہم سوالات کے جوابات دینے کے سلسلے میں ممتاز شخصیات اور دانشوروں کے ساتھ براہ راست رابطہ کو اسٹراٹیجک اجلاس منعقد کرنے کا ایک دیگر ہدف قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اجلاس کو فکر ونظر کی وسعت کا باعث قراردیتے ہوئے فرمایا: ضروری ہے کہ اس اجلاس کے بعد اصلی کام شروع ہوجائے اور حوزہ علمیہ اور یونیورسٹیوں کے دانشوروں ، مفکرین اور محققین کو اس سلسلے میں بیان شدہ مطالب میں مشغول ہوجانا چاہیے کیونکہ وہ فکر و نظر کے جاری اورابلتے ہوئے چشمہ ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک میں آزادی کے موضوع کے مختلف پہلوؤں کی تشریح اور شناخت میں بہت سی خامیوں اور کمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ صدیوں میں مغربی ممالک میں دیگر موضوعات کی نسبت فکری لحاظ سے آزادی کے موضوع پر بہت زيادہ توجہ دی گئی ہے اور اس کی کلی علت وہ واقعات اور حوادث ہیں جو مغربی ممالک میں اس موضوع کے بارے میں فکری طوفان برپا کرنے کا موجب بنے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےمغرب میں " ادبی و ثقافتی دور، صنعتی انقلاب، فرانس کے بڑے انقلاب اور سویت یونین کے اکتوبر کے انقلاب " کو مغربی ممالک میں آزادی کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر فکری امواج پیدا کرنے کے اصلی عوامل اور حوادث قرار دیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک کے برعکس ہم نے آزادی کے سلسلے میں مشروطیت سے قبل کوئی فکری موج پیدا نہیں کی اور یہ حالت بھی ہمارے روشن خیال افراد کی مغرب کے روشن خیال افراد کی تقلید کا ہی سبب بنی جو آزادی کے موضوع کے بارے میں کسی خاص نتیجہ تک نہیں پہنچ سکی ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: جب آپ دوسروں سے علم و دانش کو کسی جذبے کے تحت حاصل کرتے ہیں اور وہ فکر و نظر کے ہمراہ بھی ہو تو اس سے فکری پیداوار وجود میں آتی ہے لیکن اگر آپ نے کسی جگہ سے تقلید کرتے ہوئے بغیر فکر و نظر کے کچھ حاصل کیا تو اس سے کوئی فکر پیدا نہیں ہوگی اور آزادی کے موضوع میں مغربی روشن خیال افراد کی تقلید اسی حقیقت کی اساس پر ہے اور اسی وجہ سے مشروطہ کے بعد بھی کوئی نیا اور منظم نظریہ وجود میں نہیں آیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاسلامی مآخذ میں آزادی کے بارے میں فراواں مطالب اور موضوعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلام میں ان تمام موضوعات اور مطالب کے باوجود آزادی کے باب میں بہت بڑا خلاء موجود ہے اور ہمیں آزادی کے بارے میں سوالات اور اہم مسائل کا جواب دینے کے لئے نئے نظریہ کی سمت حرکت کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اس کام کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سنجیدگی اور اسلامی اور مغربی مآخذ پر مسلط ہونے کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اجلاس کے موضوع کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: آزادی سے اس کے یہی رائج اور متداول معنی مراد ہیں جو یونیورسٹیوں اور مغربی محافل میں استعمال کئے جاتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی آزادی پر محیط ہیں اور اس سے معنوی ، سیر و سلوک الی اللہ مراد نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزادی سے مطلق رہائي و انحراف مراد لینے والے افراد پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا: آزادی کے بارے میں بحث کرتے وقت محدودیتوں سے نہیں گھبرانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم آزادی کی بحث میں اسلام کے نظریہ کی شناخت کی تلاش و جستجو میں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آزادی کے بارے میں اسلام اور مغرب کے نظریہ میں اہم فرق و تفاوت کو آزادی کی بحث کی بنیاد اور اساس قراردیتے ہوئے فرمایا: لبرل نظریہ کے مطابق آزادی کا منشاء وہی انسانی رجحان یا اومانیزم ہے جبکہ اسلام میں آزادی کا نظریہ توحید یعنی اللہ تعالی پر اعتقاد اور کفر یعنی طاغوت کے انکار پر استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اسلام کے نظریے کے مطابق انسان، اللہ تعالی کی بندگي اور عبودیت کے علاوہ تمام قیود سے آزاد ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےانسانی کرامت کو اسلام میں آزادی کےدیگر اصلی اصولوں میں قراردیا اور اسلامی مآخذ میں " قرآن میں حق" ، " فقہ و حقوق میں حق " ،" تکلیف " اور "گرانقدر نظام " میں آزادی کی بحث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: قرآن میں "حق " منظم اور با مقصد مجموعہ کے معنی میں ہے اور اس لحاظ سے عالم تکوین اور عالم تشریح دونوں حق ہیں۔ انسان کی آزادی حق ہے جو باطل کے مقابل قرار پاتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقوق و فقہ میں آزادی کو مطالبہ کرنے کی توانائي پیدا کرنے کے معنی میں قرار دیا اور تکلیف کے لحاظ سے آزادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس لحاط سے انسان کو اپنی اور دوسروں کی آزادی کی تلاش کرنی چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے " اسلام میں آزادی کے مفہوم " کے بارے میں اپنے بیان کو سمیٹتے ہوئے اس سوال کو پیش کیا کہ اسلام میں آزادی کے مفہوم اور مغرب میں آزادی کے مفہوم کے درمیان گہرے اوربنیادی فرق کے پیش نظر کیا ہم آزادی کے سلسلے میں تحقیق اور ریسرچ میں مغربی نظریات کی طرف مراجعہ کرسکتے ہیں؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب دینے سے قبل مغربی معاشرے میں آزادی کے کچھ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغرب میں " اقتصادی میدان میں آزادی " سے مراد سرمایہ داروں کے حلقے میں قرارپانا اور خصوصی امتیازات سے بہرہ مند ہونا ہے، مغرب میں "سیاسی میدان میں آزادی " کا مطلب صرف دو پارٹیوں میں منحصر ہونا ہے ، اور مغرب میں " اخلاقی مسائل میں آزادی " سےمراد فسق و فجور کو فروغ دینا ہے جس کی وجہ سے وہاں ہمجنس بازی کا رجحان بڑھ گیا ہے مغربی ممالک میں آزادی کے یہ نتائج تھے جن کی طرف رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مغربی ممالک اور مغربی معاشرے پر ان موضوعات اور واقعات کے بہت برے، تلخ اور ناگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں تبعیض، منہ زوری اور بحران میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے اور آزادی ، انسانی حقوق و جمہوریت جیسے اچھے الفاظ کے ساتھ ان کی دوگانہ اور متضاد رفتار حقائق کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ان تمام افسوسناک واقعات کے باوجود آزادی کے مفہوم میں تحقیق کے لئے مغربی دانشوروں کے نظریہ کی طرف رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ مغرب میں آزادی کے بارے میں منظم فکری و نظری کام ہوا ہے اور اس سلسلے میں ان کا تجربہ پرانا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے بیان کےاختتام میں فرمایا: مغربی دانشوروں کی طرف رجوع کرنے کے لئےتقلیدی نظریہ سے پرہیز کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ تقلید، آزادی کےسراسر خلاف ہے۔

اس اجلاس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل 10 دانشوروں اور اساتید نے اپنے نظریات کو پیش کیا۔

علاقہ طباطبائی یونیورسٹی کےسیاسی علوم کے استاد ڈاکٹر دہقانی فیروز آبادی پہلے خطیب تھے جنھوں نے " فکری آزادی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قومی مفادات" پر مبنی اپنے مقالہ کا خلاصہ پیش کیا انھوں نے خارجہ پالیسی میں حکومت کے فیصلوں کے سلسلے میں قومی حمایت میں اضافہ اور سیاستدانوں اور سیاسی محققین کے درمیان اعتماد کے ارتقاء کو قومی مفادات کے شعبے میں فکری نتائج کے عنوان سے یاد کیا۔

شہید بہشتی یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے استاد حجۃ الاسلام میر احمدی دوسرے خطیب تھے جنھوں نے "قرآن میں سیاسی آزادی " کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے توحید ، عدالت اور انسان کے حق انتخاب ، حق تنقید، حق بیان اور اجتماعات کی تشکیل کے حق کو قرآن مجید کی روشنی میں آزادی کے سب اہم موضوعات قراردیا۔

تربیت مدرس یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر شجاعی تیسرے خطیب تھے انھوں نے" عدالت و آزادی کے دینی مصادر " کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے دین اور آزادی کے درمیان تعارض کو غلط نظریہ قراردیا اور اس نظریہ کی اصلاح کے لئے توحیدی ادیان میں عدل و انصاف اور آزادی کی اصل روح کی طرف رجوع کرنے پر تاکید کی۔

حجۃ الاسلام ڈاکٹر یوسفی چوتھے خطیب تھے جنھوں نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر انسان کی اقتصادی آزادی کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ انھوں نے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں قدرت و ثروت اور آزادی کے مضر اثرات کی طرف اشارہ کیا اور انسان کی اقتصادی آزادی کے بارے میں اسلام کا نظریہ پیش کرتے ہوئے اقتصاد کے استعمال، پیداوار ، منافع اور مدیریت میں منصفانہ تقسیم کی ضرورت پر زوردیا۔

علامہ طباطبائی یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے استاد ڈاکٹر برزگر اسٹراٹیجک اجلاس کے پانچویں خطیب تھے انھوں نے اخلاقی، سیاسی اور اعتقادی تین سطح پر آزادی کا جائزہ لیا اور ان کے ذریعہ آزادی کے بارے میں مغربی ممالک کے شبہات کا مدلل جواب دیا۔

محترمہ محدثہ معینی فر اس اجلاس کی چھٹی خطیب تھیں انھوں نے اسلامی حقوق اور فقہ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور اس اجلاس میں انھوں نے اپنے مقالہ میں خاندان میں لبرل نظریہ کے بارے میں جائزہ لیا، مغربی ممالک میں سماجی بحران، خاندانی اخلاق پر برے اثرات ، جنسی فساد، ہمجنس بازی، اور حرامی بچوں کی پیدائش جیسے خطرناک عوامل کا جائزہ لیا۔

باقر العلوم یونیورسٹی کے استاد حجۃ الاسلام دکتر واعظی اسٹراٹیجک اجلاس کے ساتویں خطیب تھے انھوں نے اسلامی نظم و ضبط کے معیاروں اور آزادی کے بارے میں اپنا مقالہ پیش کیا انھوں نے سماجی روابط میں آزادی کے نقش کو اہم قراردیا اور سیاست، ثقافت اور اقتصاد کے میدانوں میں درپیش ضروریات کی شناخت کو بھی اس سلسلے میں بہت ہی مؤثر قراردیا۔

سوشیالوجی کےڈاکٹر عماد افروغ اجلاس کے آٹھویں خطیب تھے انھوں نے " آزادی کے مفہوم اور اس کےتنازعات" کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا اور فلسفی، انتزاعی اور انضمامی لحاظ سے آزادی کے مفہوم کے تنازعات کی طرف اشارہ کیا اور آزادی کے بارے میں لبرل تعریف پر تنقید کی۔

ڈاکٹر موسی نجفی نویں خطیب تھے انھوں نے " ایران کے قومی تشخص و اسلامی بیداری کے تکامل میں آزادی فکر کے درجات " کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر نجفی نے ایران کی سیاسی تاریخ بالخصوص انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد آزادی کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا۔

تہران یونیورسٹی کے سیاسی علوم کے استاد ڈاکٹر مصطفی ملکوتیان اجلاس کےدسویں اور آخری خطیب تھے انھوں نے اپنے مقالے میں آزادی کے مفہوم کا فرانس کے انقلاب اور ایران کے اسلامی انقلاب میں موازنہ پیش کیا۔ انھوں نے اپنے مقالہ میں آیت اللہ محمد باقر صدر کے افکار سے استفادہ کرتے ہوئے فرانس کے انقلاب اور ایران کے اسلامی انقلاب میں آزادی کے مفہوم کا موازنہ پیش کیا ۔

اجلاس کے آغاز میں اجلاس کے دبیرڈاکٹر واعظ زادہ نے مؤثرواسٹراٹیجک افکار کےسکرٹریٹ کے اقدامات کےبارے میں رپورٹ پیش کی۔

Saturday, 17 November 2012 09:10

پاکستان کی موجودہ صورتحال

پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے اسلام آباد میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی اور کوئٹہ کے حالات بگاڑنے میں خفیہ ہاتھہ کارفرما ہیں اور ان شہروں میں دانستہ طور پر بدامنی پھیلائی گئی ہے تاکہ نواسۂ رسول حضرت امام حسین (ع) کی شہادت کی عزاداری منائے جانے میں مسائل پیدا کئے جاسکیں ۔ انھوں نے اسلام آباد میں علمائے کرام سے ملاقات میں ان سے اپیل کی ہے کہ وہ محرم الحرام میں امن کی برقراری میں اپنا کردار ادا کریں ۔ پاکستان کی وزارت داخلہ نے ایک لائحہ عمل تیار کیا ہے کہ جس کی رو سے علمائے کرام کو اس بات کا پابند قرار دیا گیا ہے کہ وہ نماز جمعہ کے خطبوں میں اشتعال انگیز تقریریں نہیں کریں گے اور ایام عزا کے دوران مساجد کے لاؤڈاسپیکرز بھی اس طرح سے چلائے جائیں گے کہ ان کی آواز مساجد سے باہر نہ جاسکے ۔ علماء کیلئے ایک خصوصی کمیشن بھی قائم کیا جارہا ہے تاکہ وہ اس کمیشن کے ذریعے وزارت داخلہ تک اپنا احتجاج یا اعتراض پہنچاسکیں ۔ پاکستان کی وزارت داخلہ کے اس لائحہ عمل میں مسلح افراد کو دشمن اسلام ۔ دشمن انسانیت اور دشمن پاکستان اور اسی طرح ان مسلح افراد و گروہوں کے ساتھہ کسی بھی عالم دین کے تعاون کو بھی جرم قرار دیا گیا ہے ۔ پاکستان میں مختلف دہشتگرد گروہ منجملہ کالعدم سپاہ صحابہ اور لشکرجھنگوی سرگرم عمل ہیں جو محرم الحرام میں حسینی عزاداروں کو اپنے دہشتگردانہ حملوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ان گروہوں نے حال ہی میں پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف اپنے جارحانہ حملے مزید تیز بھی کردیئے ہیں جن میں درجنوں شیعہ مسلمان شہیدوزخمی ہوچکے ہیں جبکہ پیر کے روز تازہ جارحیت میں جو شہر کوئٹہ سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع مچھہ شہر میں انجام پائی چار شیعہ مسلمان شہید ہوئے ہیں ۔ اس سلسلے میں مقامی پولیس کے ایک عہدیدار شیراحمد کا کہنا ہے کہ مسلح افراد، موٹر سائیکل پر سوار تھے جنھوں نے ہزارہ شیعہ مسلمانوں کی کئی دوکانوں پر اندھادھند فائرنگ کی اور چار افراد کو شہید اور ایک شخص کو زخمی کردیا ۔ اسی طرح سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں نے اتوار کے روز کراچی میں چار شیعہ مسلمانوں کو شہید کیا ۔ اس قسم کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہزارہ ڈیموکرٹک پارٹی نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مجرموں کی فوری گرفتاری کا طالبہ کیا ہے ۔ مظاہرے کے شرکاء نے کوئٹہ سمیت صوبے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہزارہ شیعہ مسلمانوں کے، کئے جانے والے قتل عام پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور الزام لگایا کہ وہ اس قسم کے جارحانہ حملے روکنے میں ناکام رہی ہے ۔ مظاہرین نے اعلان کیا کہ سرحدی چوکیوں کے پاس کوئٹہ-چمن روڈ پر انجام پانے والے اس قسم کے حملوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سیکیورٹی فورسیز کو اس طرح کی جارحیت کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ انھوں نے سیکیورٹی فورسیز پر تعصب برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ حکومت بھی ہزارہ شیعہ مسلمانوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ مظاہرین نے فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے والے مذہبی گروہوں کی تحلیل کا بھی مطالبہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ ماہ محرم الحرام اور عزداری کے مراسم کے انعقاد کے دوران امن کی برقراری اور دہشتگرد گروہوں کے اقدامات کا مقابلہ اور اسی طرح ان گروہوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے سیکیورٹی فورسیز کی جانب سے پورے پاکستان میں سخت حفاظتی انتظامات کئے جارہے ہیں ۔

آپ(ع) كي زندگي كو ديكها جائے تو انہيں باتوں كا خلاصہ ہے جو آپ نے يہاں فرمائي ہيں’’ولا تاسفا علي شي منها ذوي عنكما‘‘ اس وصيت كا ايك ٹكڑا يہ ہے كہ اگر اس مذموم دنيا كا تهوڑا سا حصہ بهي تمہيں نہ ملے تو اس پر كف افسوس نہ ملو فلاں دولت، فلاں ثروت، فلاں لذت، فلاں مقام ومنصب، فلاں آسائش كي چيز آپ كے پاس نہيں ہے اس پر كبهي افسردہ نہ ہوں۔ يہ ہے اس وصيت كا تيسرا جملہ اس كے بعد فرماتے ہيں’’و قولا قول الحق‘‘ حق بات كہيں ،حق كو برملا كريں اسے چهپائيں نہيں۔ اگر كوئي بات آپ كي نظر ميں حق ہے تو اسے اس كي جگہ كہنا چاہئے چهپانا نہيں چاہيئے۔

 

امام علي(ع) كے كلام ميں اول تا آخر تقوٰي موضوع گفتگو رہا ہے فرماتے ہيں!’’ميرے بيٹو!اپني حفاظت كرو خدا كي راہ ميں اور خدائي معيار كے مطابق زندگي بسر كرو‘‘تقوٰي الٰہي يہي ہے۔ تقوٰي خدا سے خوف وہراس ركهنے كا نام نہيں ہے جيسا كہ بعض لوگ تقوٰي كے يہي معني بيان كرتے ہيں۔

’’خشيت الٰہي‘‘اور ’’خوف خدا‘‘ ايك دوسري چيز ہے۔ تقوا يعني يہ كہ آپ جو كام بهي كريں وہ اس مصلحت كے مطابق ہو جو خدا كي نظر ميں ہے۔تقوٰي كوئي ايسي چيز نہيں ہے كہ ايك لمحہ كے لئے بهي اسے ترك كيا جا سكتا ہو۔ اگر چهوڑ ديا تو پهر انسان كا لڑكهڑانا اور ايك گہرے گڑهے ميں گرنا حتمي ہے يہاں تك كوئي پتهر،كوئي درخت يا كوئي چيز دوبارہ ہاتهوں آئے اور اس كا سہارا لے كر ہم خود كو كهڑا كر سكيں۔’’ان الذين اتقوا اذا مسهم طائف من الشيطان تذكر وا فاذا هم مبصرون‘‘(اعراف ۲۰۱) ۔

 

تقوٰي كي ايك شرط:دنيا كے پيچهے نہ بهاگنا

’’وان لا تبغيا الدّنيا وان بغتكما‘‘

(دنيا كے پيچهے نہ دوڑواگرچہ وہ تمہارے پيچهے آئے)

يہ بهي تقوٰي كے شرائط اور لوازمات ميں سے ہے،البتہ تمام نيك كام تقوٰي كا جز ہيں جن ميں سے ايك يہي ہے۔ يہ نہيں كہا كہ’’دنيا كو چهوڑ دو، بلكہ يہ فرمايا كہ دنيا كے طالب نہ بن جاؤ اس كے پيچهے نہ بهاگو۔ يہ دنيا كيا ہے؟ اس كا مطلب كيا ہے؟كيا دنيا زمين كو آباد كا نام ہے؟ كيا دنيا الٰہي خزانوں كے زندہ كرنے كو كہتے ہيں؟كيا دنيا يہي ہے جس كا طالب بننے سے روكا جا رہا ہے؟ جي نہيں! يہ دنيا نہيں ہے۔ دنيا وہ ہے جو آپ اپنے لئے،اپني لذتوں كے لئے اور اپني خواہشات كے لئے كرتے ہيں۔ ورنہ زمين كو لوگوں كي خدمت اور خير وصلاح كے لئے آباد كيا جائے تو يہ عين آخرت ہے، يہي ہے ايك اچهي دنيا۔ وہ دنيا جسكي مذمت كي گئي اور جس كے پيچهے دوڑنے سے روكا گيا ہے وہ ہے جو ہم كو ’ہماري توانائي كو‘ ہماري محنت وہمت كو اپني طرف متوجہ كرتي ہے اور ہميں صحيح راستے سے روكتي ہے۔ خود غرضي،نفس پرستي، اپنے لئے مال ودولت كا حصول آرام وآسائش كي لالچ يہ ہے وہ دنيا جو قابل مذمت ہے۔

البتہ اس دنيا ميں حلال بهي اور حرام بهي ہے ۔ ايسا نہيں ہے كہ دنياوي اشيا كا طالب ہونا صرف حرام ہے نہ حلال بهي ہے اور اسي حلال كے بارے ميں كہا گيا ہے اس كے پيچهے بهي مت پڑو،اگر دنيا اس طرح كي ہو گئي تو اس كا حلال بهي اچها نہيں ہے، مادي زندگي كو جتنا زيادہ خدا كي طرف موڑا جائے اتنا زيادہ فائدہ مند ہے ہمارے لئے اور يہي آخرت ہے۔ تجارت بهي اگر مخلوق خدا كي خدمت كے لئے ہو ، نہ كہ دولت اكٹها كرنے كے لئے تو يہ بهي عين آخرت ہے، دنيا كے دوسرے كام بهي اسي طرح ہيں۔ پس دوسرا اہم نكتہ اس وصيت كا يہ ہے كہ دنيا كے طالب نہ بنو اور اس كے پيچهے نہ بهاگو۔

امام علي(ع) نے اس وصيت ميں جو كچه فرمايا ہے ، خود ان باتوں كا مجسم نمونہ تهے۔

آپ(ع) كي زندگي كو ديكها جائے تو انہيں باتوں كا خلاصہ ہے جو آپ نے يہاں فرمائي ہيں’’ولا تاسفا علي شي منها ذوي عنكما‘‘ اس وصيت كا ايك ٹكڑا يہ ہے كہ اگر اس مذموم دنيا كا تهوڑا سا حصہ بهي تمہيں نہ ملے تو اس پر كف افسوس نہ ملو فلاں دولت، فلاں ثروت، فلاں لذت، فلاں مقام ومنصب، فلاں آسائش كي چيز آپ كے پاس نہيں ہے اس پر كبهي افسردہ نہ ہوں۔ يہ ہے اس وصيت كا تيسرا جملہ اس كے بعد فرماتے ہيں’’و قولا قول الحق‘‘ حق بات كہيں ،حق كو برملا كريں اسے چهپائيں نہيں۔ اگر كوئي بات آپ كي نظر ميں حق ہے تو اسے اس كي جگہ كہنا چاہئے چهپانا نہيں چاہيئے۔

جس وقت منہ ميں زبان ميں ركهنے والے حق كو چهپا رہے اور باطل كو جان بوجه كر بيان كر رہے يا حق كي جگہ باطل كو لا رہے ہوں،اگر اس وقت حق آشنا اور حق گوزبانيں اظہار حق كريں تو حق مظلوم نہيں ہوگا، حق اجنبي نہيں بنے گا اور اہل باطل حق كو مٹانے كي كوشش نہيں كريں گے۔

پهر فرماتے ہيں’’واعملا للاجر‘‘الٰہي اجروثواب كے لئے كام كرو، عبث كام نہ كرو اے انسان، تيرا يہ كام ،يہ عمر، يہ خون پسينہ ايك كرنا يہي تيرا اصل سرمايہ ہے اسے يوں ہي صرف نہ كر۔ اگر زندگي بسر كر رہے ہو،اگر كوئي كام كر رہے ہو، اگر محنت و مشقت كر رہے ہو تو يوں نہ كرو بلكہ ايك اجرت كے لئے كرو۔ ليكن اس كي اجرت كيا ہے؟ كيا چند روپے انساني وجود كي قيمت ہے؟ كيا اس عمر كي يہي قيمت ہے؟جي نہيں! انسانجيسي مخلوق اور اس قيمتي عمر كي يہ اجرت نہيں ہے؟

’’فليس لانفسكم ثم الا الجنۃ فلا تبيعوها غيرها‘‘حكمت۴۵۶

يہ امام كا وہ جملہ ہے جس ميں انسان كي قيمت بتائي گئي ہے كہ تمہاري قيمت صرف جنت ہے لہذا اسے جنت كے علاوہ كسي دوسري چيز سے مت بيچو۔

وصيت كا ايك جملہ يہ بهي ہے’’كونا لظالم خصيما وللمظلوم عونا‘‘ظالم كے حريف اور مظلوم كے مددگار بن جاؤ۔ يہاں ’’خصم‘‘ كے معني دشمن كے نہيں ہيں۔ كبهي ايسا ہوتا ہے انسان ظالم كا دشمن ہوتا يعني اس سے متنفر ہوتا ہے۔ يہ كافي نہيں ہے بلكہ فرماتے ہيں اس كے حريف بن جاؤ۔

’’خصم‘‘يعني وہ دشمن جو ظالم كے مد مقابل آجائے’’وہ دشمن جو ظالم كا گريبان پكڑ ليتا ہے اور پهر چهوڑتا نہيں ہے۔

اميرالمؤمنين(ع)كے بعد بشريت اسي وجہ سے بدبختي كا شكار ہوگئي كہ ظالم كا گريبان پكڑ نے والا كوئي نہ رہا۔ اگر با ايمان ہاته ظالموں اور ستمگروں كے گريبان پكڑتے تو ظلم آگے نہ بڑهتا بلكہ ختم ہو جاتا۔ علي(ع)كے كہنے كا مقصد يہ ہے۔ ظلم كے حريف بن جاؤ يعني:مٹا دو ظلم جہاں سے جہاں جہاں بهي ملے

كہنے كا مطلب يہ نہيں ہے ابهي اور اسي وقت دنيا كے اس كونے سے اٹه كر اس كونے ميں جائيں اور ظالم كا گريبان پكڑيں بلكہ مقصد يہ ہے كہ سب كے سامنے ظاہر كريں كہ آپ ظلم و ظالم كے حريف ہيں اور جب موقع ملے ظالم كو پكڑنے كا اسے دبوچ ليں۔ كبهي ايسا ہوتا ہے انسان ظالم كے پاس جا كے اس كے سامنے اظہار نہيں كر سكتا لہذا دور سے اسكي مخالفت كرتا ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں امير المؤمنين(ع)كي اس ايك وصيت پر عمل نہ كرنے كي وجہ سے دنيا كس بدبختي كا شكار ہے اور كيا بهگت رہي ہے۔ اقوام عالم خاص كر مسلمان قوموں پر كيا گزر رہي ہے۔ اگر حضرت علي(ع) كي صرف اس حديث پر عمل ہوتا تو بہت سي بدبختياں اور ظلم وستم ختم ہو چكے ہوتے ان كا كوئي وجود ہي نہ ہوتا۔

’’وللمظلوم عونا‘‘ جہاں كہيں كسي مظلوم كو ديكهو اس كي مدد كرو، يہ نہيں فرمايا كہ اس كي حمايت كرو بلكہ فرمايا: اس كي مدد كرو، جسطرح سے بهي ہو اور جس قدر بهي ہو سكے۔

يہاں تك وصيت كے جملوں كے اصل مخاطب امام حسنؑ اور امام حسين (ع) كي ذات گرامي ہے البتہ يہ انہيں حضرات سے مخصوص نہيں بلكہ سب كے لئے ہے

اس كے بعد وصيت كا لہجہ بدل كر سب سے عمومي خطاب كرتے ہيں:

’’اوصيكما وجميع ولدي‘‘

تم دونوں اور اپنے تمام بيٹوں سے وصيت كرتا ہوں’’واهلي‘‘ اور اپنے اہل وعيال سے وصيت كرتا ہوں‘‘ ’’ومن بلغہ كتابي‘‘اور ہر اس شخص سے وصيت كرتا ہوں جس تك ميرا يہ خط پہونچے‘‘۔

اس طرح ميں اور آپ سب اس وصيت نامہ كے مخاطب ہيں جس ميں امام فرماتے ہيں تم سب كو ايك چيز كي وصيت كرتا ہوں اور وہ ہے تقوٰي الٰہي اور اس كے بعد ’’ونظم امركم‘‘اور اپنے امور كو نظم وضبط كے ساته انجام دينے كي۔ يہاں پر ’’نظم امركم‘‘ كا كيا مطلب ہے؟ كيا نظم كا مطلب يہ ہے زندگي كے تمام كاموں كو منظم طور پر انجام دو؟ ممكن ہے اس كا ايك مطلب يہ بهي ہے۔ ليكن امام نے يہاں ’’نظم امر‘‘ فرمايا ہے نہ كہ ’’نظم امور‘‘ يعني جس چيز كے نظم وضبط كي تاكيد كي جا رہي ہے وہ ايك ہے نہ كہ زيادہ۔

عام طور سے انسان يہ سوچتا ہے كہ’’نظم امر‘‘ تمام امور دنيوي كے لئے استعمال ہوا۔ ليكن ميري نظر ميں’’نظم امر‘‘ كا مطلب اسلامي نظام، اسلامي حكومت اور اسلامي ولايت كا نفاذ ہے۔

يعني حكومت اور اسلامي نظام كے سلسلے ميں نظم وضبط سے كام ليا جائے

۔

آپسي صلح و صفا

وصيت كے دوسرے حصے كي تيسري اصل يہي آپسي صلح و صفا اور بهائي چارہ ہے يعني ايك دوسرے كے ساته حسن سلوك كرو دل ايك دوسرے كي نسبت صاف رہيں۔

وحدت كلمہ پر قائم اور اختلاف سے دور رہو۔يہ جملہ فرماتے وقت رسول خدا(ص) كے اقوال سے دليل كے طور پر ان كا ايك قول نقل كرتے ہيں۔جس سے معلوم ہوتا ہے اس اصل كو بہت زيادہ اہميت ديتے ہيں۔

اس كا مطلب يہ نہيں كہ آپسي ميل و محبت كي اہميت نظم امور سے بهي زيادہ ہے بلكہ اس كا ترك كرنا زيادہ خطر ناك ہے اسي لئے پيغمبر(ص)كے قول كو دليل كے طور پر پيش كرتے ہيں ’’فاني سمعت جدّكما يقول:صلاح ذات البين افضل من عامۃ الصلاۃ و الصوم‘‘ آپس ميں صلح و صفا ركهنا اور لوگوں كے درميان صلح پيدا كرنا نماز اور روزے سے بہتر ہے يہ نہيں كہا كہ نمازوں اور روزوں سے افضل ہے بلكہ فرمايا كہ ہر نماز اور روزے سے بہتر ہے يعني نماز و روزہ بجا لائيں ليكن جس چيز كي اہميت اور فضيلت ان دونوں سے زيادہ ہے وہ كيا ہے؟ يہي صلح و آشتي ہے ۔

اگر آپ نے مشاہدہ كيا كہ امت مسلمہ كے درميان كوئي اختلاف اور رخنہ پيدا ہو گيا ہے تو اسے فوراً پر كرنے كي كوشش كيجئے۔اس كي اہميت نماز اور روزے سے زيادہ ہے۔

 

يتيموں كي ديكه بهال

چند جملوں كے بعد ايك چهوٹا سا فقرہ كہتے ہوئے فرماتے ہيں’’واللہ اللہ في الايتام‘‘ يتيموں كے سلسلے ميں خدا سے ڈرو۔ جتنا ممكن ہو سكے ان كي ديكه بهال كرو ان كا خيال ركهو كہيں ايسا نہ ہو كہ انہيں بهول جاؤ۔

بہت اہم نكتہ ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں كہ يہ انسان شناس، خدا شناس نفسيات كا ماہر اور دلسوز شخص كس طرح سے چهوٹي چهوٹي باتوں كا خيال ركهتا ہے۔ جي ہاں يتيم پروري، يتيم بچوں كا خيال ركهنا يہ فقط رحم و عطوفت نہيں ہے۔ جس بچے كے سر سے باپ كا سايہ اٹه چكا ہو وہ اپني زندگي كي بہت بڑي اور بنيادي ضرورت كو كهو چكا ہے،كسي طرح بهي اس كا جبران ضروري ہے، اگرچہ اس كا جبران نہيں كيا جا سكتا ليكن ہميں خيال ركهنا ہوگا كہ يہ بچہ، يہ نوجوان يا جوانجو اپنے باپ كے سايہ شفقت سے محروم ہو گيا، احساس كمتري ميں مبتلا ہو كر ضائع نہ ہو جائے’’واللہ اللہ في الايتام‘‘ فلا تغبوا افواههم‘‘ كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ بهوكيں رہيں، ايسا نہ ہو كہ كبهي انہيں كچه ملے اور كبهي كچه نہ ملے’’الا تغبوا‘‘يہ ہے اس كا مطلب۔ ان كي زندگي كي شان اور اسٹنڈرڈ كے اعتبار سے ان كي ضروريات پوري كرو۔

’’ولا يضيعوا بحضرتكم‘‘ كہيں ايسا نہ ہو كہ تمہارے ہوتے ہوئے ان كي زندگي كے پهول مرجها جائيں،كہيں ايسا نہ ہو كہ يہ تمہاري بے توجہي كا شكار ہو جائيں۔ اگر تمہيں پتہ نہ ہو، تم بے خبر ہو تو الگ بات ہے۔ كہيں ايسا نہ ہو كہ معاشرے كا ہر شخص اپنے كام سے مطلب ركهے اور يہ يتيم بچہ تنہا اور بے سروسامان ہوجائے۔

 

پڑوسيوں كے حقوق كي رعايت

’’اللہ اللہ في جيرانكم‘‘ اپنے بڑوسيوں سے باخبر رہو۔

ہمسائيگي اور پڑوس اسلام كي نظر ميں بہت اہم ہے، اسے يوں ہي نہ سمجهيئے۔ يہ ايك عظيم اجتماعي ضرورت ہے جسكي طرف اسلام نے توجہ دلائي ہے اور يہ فطرت انساني كے مطابق ہے، البتہ انساني فطرت سے دور تہذيبوں كے پيچ وخم ميں اس طرح كي انساني اقدار كي اہميت اور قيمت كم ہوتي جا رہي ہے۔ اپنے پڑوسيوں كے حقوق كا خيال ركهيں۔نہ صرف اقتصآدي اور مالي اعتبار سے بلكہ انسانيت كے عنوان سے اگرچہ مالي اور اقتصادي حقوق كي بهي بہت اہميت ہے۔اگر ان انساني اقدار كو زندہ كيا جائے تو ديكهئے معاشرے ميں كس طرح سے الفت ومحبت پيدا ہوتي ہے اور كس طرح سے انسانيت كے لا علاج امراض كا مداوا ہوتا ہے۔

’’فانهم وصيۃ نبيكم‘‘ يہ پيغمبر خدا(ص)كي وصيت ہے’’مازال يوصي بهم حتي ظننا انہ سيورتهم‘‘آپ پڑوسيوں كے بارے ميں اتني زيادہ وصيت اور نصيحت فرمايا كرتے تهے كہ ہم سوچنے لگے كہ پڑوسيوں كو بهي ميراث كا حق ديا جائے گا۔

’’واللہ اللہ في القرآن‘‘ قرآن كے سلسلے ميں خبر دار اور ہوشيار رہو۔’’لا يسبقكم بالعمل بہ غير كم‘‘ كہيں ايسا نہ ہو كہ قرآن پر ايمان واعتقاد نہ ركهنے والے اس پر عمل كركے تم پر سبقت لے جائيں اور تم قرآن پر ايمان واعتقاد ركهتے ہوئے اس پر عمل نہ كرو اور پيچهے رہ جاؤ۔

يعني وہي جو ہوا اور ہو رہا ہے!اس دنيا ميں جو لوگ آج آگے ہيں وہ اپني مسلسل كوشش،محنت،بہتركام اور ان صفات كو اپنا كر جو خدا كے پسنديدہ صفات ہيں آگے نكلے اور كامياب ہوتے ہيں نہ كہ ظلم وفساد كے ذريعہ اور دوسري برائيوں كے وجہ سے۔

’’واللہ اللہ في بيت ربكم لا تخلوہ ما بقيتم‘‘خدا كے گهر كو آباد كرو جب تك تم زندہ ہو يہ خالي نہ رہنے پائے ويران نہ ہونے پائے۔

’’فانہ ان ترك لم تناظروا‘‘ اسلئے كہ اگر تم نے خانہ خدا كو تنہا اور ويران چهوڑ ديا تو تمہيں مہلت نہيں دي جائيگي اور زندگي كے وسائل تمہيں فراہم نہ ہو سكيں گے(اس عبارت كے مختلف معاني كئے گئے ہيں)

’’واللہ اللہ في الجهاد باموالكم وانفسكم والسنتكم في سبيل اللہ‘‘ اپنے مال، جان، زبان كے ذريعہ خدا كي راہ ميں جہاد كو جاري ركهو يہ ترك نہ ہونے پائے۔ يہي جہاد ہے جس پر عمل پيرا ہو كر امت مسلمہ دنيا كي ايك آئيڈيل قوم بني رہي اور جب اسے پس پشت ڈال ديا تو ذليل و خوار ہو گئي۔ جہاد اپني اسلامي حدود اور اسلامي ڈهانچے كے ساته ہو تو ظلم نہيں ہے۔

جہاد ميں انساني حقوق كو پامال كرنے كي اجازت نہيں ہے۔ جہاد ميں بہانے بازي اور بلا وجہ كسي كو قتل كرنا صحيح نہيں ہے۔ جہاد يہ نہيں ہے كہ جو بهي غير مسلم ہو اس كي گردن اڑا دي جائے۔ جہاد ايك ايسا حكم خدا ہےجو بہت مقدس اور عظيم كام ہے جہاد ہي ہے جسكي وجہ سے قوميں سر بلند اور سرخرو ہوتي ہيں۔

’’عليكم بالتواصل والتباذل‘‘ پهر فرماتے ہيں كہ’’تمہيں چاہيئے كہ ايك دوسرے سے جڑے رہو،ايك دوسرے كي مدد كرو،ايك دوسرے پر اور ايك دوسرے كے لئے خرچ كرو‘‘(واياكم بالتدابر والتقاطع)’’ايك دوسرے سے قطع تعلق نہ كرو،آپس ميں جدائي نہ ڈالو،قطع رحم نہ كرو‘‘

(لا تتركوا الامر بالمعروف والنهي عن المنكر)’’امر بالمعروف اور نہي عن المنكر كو ہرگز ترك نہ كرو كيونكہ اگر اسے چهوڑ ديا(فيولي عليكم شراركم)’’تو تمہارے اوپر شر پسند افراد كا ايك گروہ مسلط ہو جائے گا‘‘

’’جس معاشرے ميں نيكي كي طرف بلانے والا اور برائي سے روكنے والا كوئي نہ ہو تو نا اہل اور شر پسند افراد ايسے معاشرے ميں برسر اقتدار آتے ہيں اور حاكم بن جاتے ہيں۔اگر لوگ برائيوں اور برے لوگوں كي مذمت نہ كريں تو پهر برے افراد حكومت كي باگ ڈور اپنے ہاتهوں ميں لے ليتےہيں

(ثم تدعون . . . .)جب ايسا ہو جاتا ہے تو پهر تم ميں سے نيك لوگ خدا كي بارگاہ ميں گڑگڑاتے ہيں كہ خدايا ہميں ان كے شر سے نجات دے

(فلا يستجاب لكم)اس وقت خدا تمہاري دعاؤں كو مستجاب نہيں كرتا۔

 

 

 

(تہران كے خطبہ نماز جمعہ ميں ولي امر مسلمين كے خطبے سے اقتباس)

Saturday, 22 September 2012 07:20

قرآن کی حفاظت

 

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ

 

یہ چند ایک افراد اور ناتواں گروہ تو معمولی سی چیز ہے اگر دنیا بھر کے جابر ، اہل اقتدار، سیاستداں ، ظالم، منحرف، اہل فکر اور جنگ آزما جمع ہو جائیں اور اس کے نورکو بجھا نا چاہیں تو وہ بھی ایسانہیں کرسکیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے اوپرلے رکھا ہے۔

 

کفار نے بہت بہانہ سازیاں کیں ۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور قرآن کے بارے میں استہزا کیا ۔ زیر بحث آیت میں ایک عظیم اور نہایت اہم حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ یہ بیان حقیقت ایک طرف تو پیغمبر اکرم کی دلجوئی کے لئے ہے : ہم یقینی طور پر اس کی حفاظت کریں گے (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) ۔ ایسا نہیں کہ یہ قرآن کسی یاور و مددگار کے بغیر ہے اور وہ اس کے آفتابِ وجود کو کیچڑ سے چھپادیں گے یا اس کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں گے یہ تو وہ چراغ ہے جسے حق تعالیٰ نے روشن کیا ہے اور یہ وہ آفتاب ہے جس کے لئے غروب ہونا نہیں ہے ۔

یہ چند ایک افراد اورناتواں گروہ تو معمولی سی چیز ہے اگر دنیا بھر کے جابر ، اہل اقتدار، سیاستداں ، ظالم، منحرف، اہل فکر اور جنگ آزما جمع ہو جائیں اور اس کے نورکو بجھا نا چاہیں تو وہ بھی ایسانہیں کرسکیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے اوپرلے رکھا ہے ۔

قرآن کی حفاظت سے مراد کن امور کی حفاظت ہے اس سلسلے میں مفسریں کے مختلف اقوال ہیں :

۱۔ بعض نے کہا ہے کہ تحریف و تغیر اور کمی بیشی سے حفاظت مراد ہے ۔

۲۔ بعض نے کہا ہے کہ آخر دنیا تک فطا و نابودی سے حفاظت مراد ہے ۔

۳۔ بعض دیگر نے کہاہے کہ قرآن کے خلاف گمراہ کرنے والی منطق کے مقابلے میں حفاظت مراد ہے ۔

لیکن یہ تفاسیر یہ صرف کہ ایک دوسرے سے تضاد نہیں رکھیتیں بلکہ ” إِنَّا لَہُ لَحَافِظُون“ کے عام مفہوم میں شامل ہیں تو پھر کیوں ہم اس محافظت کو ایک کونے میں محصور کردیں جبکہ یہ مطلق طور پر اور اصطلاح کے مطابق حذف متعلق کے ساتھ آئی ہے حق یہ ہے کہ اس آیت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ قرآن کی ہر لحاظ سے حفاظت و نگہداری کرے گا اسے ہر قسم کی تحریف سے بچائے گا ۔

اسے فنادی نابودی سے محفوظ رکھے گا اور وسوسے پیدا کرنے والے سوفسطائیوں اور بد یہات کے منکردین سے اس کی محافظت کرے گا ۔

باقی رہا بعض قدماء مفسرین کا یہ احتمال کہ یہاں ذاتِ پیغمبر مراد ہے اور” لَہُ“ کی ضمیر پیغمبر کی طرف لوٹتی ہے ، کیونکہ قرآن کی بعض آیات ( مثلاً طلاق ۱۰) میں لفظ ”ذکر “ کا اطلاق ذاتِ پیغمبر پر ہوا ہے یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ زیر بحث آیت سے قبل آیت میں لفظ ” ذکر “ صراحت کے ساتھ قرآن کے معنی میں آیا ہے ۔ او ریہ مسلم ہے کہ یہ بعد والی آیت اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔

عدم تحریف ِقرآن

تمام شیعہ سنی علماء مشہور و معروف یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی اور جو قرآن آج ہمارے ہاتھ میں ہے ، بالکل وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم پر نازل ہوا، یہاں تک کہ اس میں کوئی لفظ اور کوئی حرف بھی کم یا زیادہ نہیں ہوا ۔

قدماء اور متاٴخرین میں سے وہ عظیم شیعہ علماء کہ جنہوں نے اس حقیقت کی تصریح کی ہے ان میں سے کوئی حسب ذیل علماء کے نام لئے جاسکتے ہیں :

مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اپنی مشہورکتاب ”تفسیر بیان “ کے آغاز میں اس سلسلے میں روشن واضھ اور قطعی بحث کی ہے ۔

۲۔ سید مرتضیٰ جو چوتھی صدی ہجری کے اعاظم علما ء امامیہ میں سے ہیں ۔

۳۔ رئیس المحدثین مرحوم صدوق محمد بن علی بن بابویہ وہ عقائد امامیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔” ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی “۔

۴۔ عظیم مفسر مرحوم طبرسی سے بھی اپنی تفسیر کے مقدمہ میں اس سلسلے میں ایک واضح بحث کی ہے ۔

۵۔ مرحوم کاشف الغطاء جو بزرگ علماء متاٴخرین میں سے ہیں ۔

۶۔ مرحوم محقق یزدی نے کتاب عررہ الوثقیٰ میں جمہور مجتہدین شیعہ سے عدم تحریف قرآن نقل کیا ہے ۔

۷۔ بہت سے دوسرے بزرگواروں مثلاً شیخ مفید ، شیخ بہائی ، قاضی نور اللہ اور دیگر شیعہ محققین نے یہی عقیدہ نقل کیا ہے ۔ اہل سنت کے بزرگ اور محققین بھی زیادہ تر یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔

اگر چہ بعض شیعہ اور سنی محدثین کہ جن کی اطلا عات قرآن کے کے بارے میں ناقص تھیں انھوں نے قرآن میں وقوعِ تحریف کا ذکر کیا ہے لیکن دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی وضاحت سے یہ عقیدہ باطل قرار پاکر فراموش ہو چکا ہے ۔

یہاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ہیں :

”صحت نقل قرآن دنیا کے مشہور شہروں ، تاریخ کے عظیم واقعات اور مشہور معروف کتب کے بارے میں ہماری اطلا عات کی طرح واضح اور روشن ہے ۔

کیا کوئی شخص مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے شہروں کے ہونے میں کوئی شک و شبہ کرسکتا ہے اگر چہ اس نے کبھی بھی ان شہروں کی طرف سفر نہ کیا ہو ۔

کیا کوئی شخص ایران پر مغلوں کے حملے ، فرانس کے عظیم انقلاب یا پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا منکر ہو سکتا ہے ۔

ایسا کیوں نہیں ہوسکتا اس لئے یہ تمام چیزیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں-

قرآن کی آیات بھی اسی طرح ہیں اس تشریح کے ساتھ کہ جو ہم بعد میں بیان کریں گے ۔

اگر بعض افراد نے اپنے مفادات کی غرض سے شیعہ سنی میں تفرقہ ڈالنے کے لئے شیعوں کی طرف تحریف کے اعتقاد کی نسبت دی ہے تو ان کے دعوی کے بطلان کی دلیل علماء شیعہ کی بڑی اور عظیم کتب ہیں ۔

یہ بات عجب نہیں کہ فخر رازی جیسا شخص کہ جو شیعوں سے مربوط مسائل میں خاص حساسیت اور تعصب رکھتا ہے محل بحث آیت کے ذیل میں کہتا ہے کہ یہ آیت ” إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ“مذہب شیعہ کے بطلان کی دلیل ہے کیونکہ وہ قرآن میں تغیر اور کمی بیشی کے قائل ہوتے ہیں ۔

ہم صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس کی مراد بزرگان اور محققین شیعہ ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اس قسم کاعقیدہ نہیں رکھتا تھا اور نہ رکھتا ہے اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ اس سلسلے میں میں شیعوں کے درمیان ایک ضعیف قوم موجود ہے تو اس کی نظیر اہل ِ سنت میں بھی موجود ہے کہ جس کی نہ وہ اعتناء کرتے ہیں نہ ہم۔

معروف محقق کاشف الغطاء اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں کہتے ہیں :۔

لاریب انہ ”ای القراٰن “ محفوظ من النقصان بحفظ الملک الدیان کما دل علیہ صریح القراٰن وجماع العلماء فی کل زمان ولاعبرة بنادر ۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن کی حفاظت کے سائے میں ہر قسم کی کمی اور تحریف سے محفوظ رہا ہے جیسا کہ صریح قرآن اس پر دلالت کرتا ہے او رہر زمانے کے علماء کا اس پر اجماع رہا ہے اور شاذ و نادر افراد کی مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ( تفسیر آلاء الرحمن ص۳۵)

تاریک اسلام نے اس قسم کی ناروا نسبتیں کہ جن کا سر چشمہ تعصب کے سوا کچھ نہیں ، بہت دیکھی ہیں ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بعض دشمنون کی طرف سے پیدا کردہ غلط فہمیاں تھیں کہ جو اس قسم کے مسائل کھڑے کرتے تھے کہ مسلمانوں کی صفوں اتحاد و حدت ہر گز بر قرار نہ رہے ۔

معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مشہور حجازی موٴلف عبد اللہ القصیمی اپنی کتاب الصراع میں شیعوں کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے :۔

شیعہ ہمیشہ سے مساجد کے دشمن تھے یہی وجہ ہے کہ جو شیعوں کے شہروں میں جائے ، شمال سے جنوب تک ، اور مشرق سے مغرب تک اسے بہت کم مساجد دکھائی دیں گی ۔ 2

خوب غور کریں کہ ہم ان تمام مساجد کو شمار کرتے تھک جاتے ہیں کہ جو شاہراہوں ، بازاروں ، کوچوں بلکہ شیعہ محلوں میں موجود ہیں ۔ بعض مقامات پر تو ایک ہی علاقے میں اتنی مسجدیں ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بس کر، آوٴ کوئی او رکام بھی کرو ۔

لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مشہور موٴلف اس صراحت سے ایسی بات کرتا ہے جو ہم جیسے لوگوں کے نزدیک تو محض مضحکہ خیز ہے کہ جو ان مناطق اور شیعہ علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان حالات میں اگر فخر رازی کوئی ایسی نسبت دیتا ہے تو زیادہ تعجب نہیں کرنا چاہیئے۔

عدم تحریف ِ قرآن کے دلائل

۱۔ حافظان قرآن : عدم تحریف قرآن کے بارے میں ہمارے پاس بہت زیادہ دلائل و براہین موجود ہیں ان میں زیادہ واضح اور روشن زیر بحث آیت اور قرآ ن کی کچھ اور آیات کے علاوہ اس عظیم آسمانی کتاب کی تاریخ بھی ہے ۔

مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی یاد ہانی ضروری ہے کہ وہ ضعف اقلیت کہ جس نے تحریف ِ قرآن کا احتمال ذکر کیا ہے ، وہ صرف قرآن میں کمی کے سلسلے میں ہے ۔ ورنہ کسی نے بھی یہ احتمال پیش نہیں کیا کہ موجودہ قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیا گیا ہے ۔( غو ر کیجئے گا )

یہاں سے گذر کر اگر ہم اس موضوع پر غور و فکر کریں کہ قرآن مسلمانوں کے لئے کچھ تھ قانون ِ اساسی ، زندگی کا دستور العمل ، حکومت کاپروگرام ، مقدس آسمانی کتاب اور رمز عبادت سب کچھ تو قرآن تھا تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر اس میں کمی بیشی کا امکان نہیں ۔

قرآن ایک ایسی کتاب تھی کہ پہلے دور کے مسلمان ہمیشہ نمازوں میں ، مسجدوں میں،گھرون میں ، میدان جگ میں دشمن کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مکتب کی حقانیت پر استدلال کرنے کے لئے اسی سے استفادہ کرتے تھے یہان تک کہ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم قرآن عورتوں ک اھق مہر قرار دیتے تھے اور اصولی ور پر تنہا وہ کتاب کہ جو تمام محافل کا موضوع تھی اور ہر بچے کو ابتدائے عمر سے جس سے آشنا کیا جاتا تھا اور جو شخص بھی اسلام کا کوئی درس پڑھنا چاہتا اسے اس کی تعلیم دی جاتی تھی جی ہاں وہ قرآن یہی قرآن مجید ہے ۔

کیا اس کیفیت کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو یہ شخص کویہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس آسمانی کتاب میں تغیر و تبدل ہو گیا ہو خصوصاًجبکہ ہم نے اسی تفسیر کی جلد اول کی ابتداء میں ثابت کیا ہے کہ قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں اسی، موجود ہ صورت میں خود زمانہ پیغمبر میں جمع ہو چکا تھا اور مسلمان سختی سے اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے کو اہمیت دیتے تھے ۔اصولی طور پر اس زمانے میں افراد کی شخصیت زیادہ تر اس بات سے پہچانی جاتی تھی کہ انھیں قرآن کی آیات کس حد تک یا د ہیں ۔

قرآن کے حافظوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ تواریخ میں ہے کہ حضرت ابو بکر کے زمانے میں ایک جنگ میں قرآن کے چار سو قاری مارے گئے تھے ۔ ۱

”بئر معونہ“ مدینہ کی نزدیکی آبادیوں میں سے تھی ۔ یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہو گی تھی ۔یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہوگئی ۔ اس جنگ میں اصحاب پیغمبر میں سے قاریانِ قرآن کی ایک کثیر جماعت نے شربت ِ شہادت نوش کیا یہ تقریباًستّر افرد تھے ۔۲

ان سے اور ان جیسے دیگر واقعات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حافظ و قاری اور معلمین قرآن اس قدر زیادہ تھے کہ صرف ایک میدان ِ جنگ میں ان میں سے اتنی تعداد نے جام ِ شہادت نوش کیا اور تعداد ایسی ہونا چاہئیے تھی کیونکہ ہم نے کہا ہے کہ قرآن مسلمانو کے لئے صرف قانون اساسی نہیں ہے بلکہ ان کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے ۔ خصوصاًابتدائے اسلام میں مسلمانوں کے پاس ا س کے علاوہ کوئی کتاب نہ تھی اور تلاوت و قراٴت اور حفظ و تعلیم تعلّم قرآن کے ساتھ مخصوص تھاقرآن ایک تروک کتاب نہ یہ گھر ی امسجد کے کسی کونے میں فراموشی کے گرد و غبار کے نیچے پڑی ہوئی نہ تھی کہ کوئی اس میں کمی یا زیادتی کردیتا ۔

حفظ قرآن کا مسئلہ ایک سنت اور ایک عظیم عبادت کے عنوان سے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان تھا اور ہے یہاں تک کہ قرآن ایک کتاب کی صورت میںبہت زیادہ پھیل گیا اور تمام جگہوں پر پہنچ گیا بلکہ آج بھی چھاپہ خانے کی صنعت کے وجود میں آنے کے بعد جبکہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ قرآن ہی چھپتا اور نشر ہوتا ہے پھر بھی حفظ قرآن کے مسئلے نے ایک قدیم سنت اور عظیم افتخار کے طور پر اپنی اہمیت و حیثیت کو محفوظ رکھا ہے اور ہر شہر و دیار میں ہمیشہ ایک جماعت حافظِ قرآن تھی اور آج بھی ہے ۔

اس وقت حجاز اور کئی دیگر اسلامی ممالک میں ”تحفظ القراٰن الکریم “ یا دوسرے ناموں سے ایسے مدارس موجود ہیں ، جہاںطالب علموں کو پہلے مرحلے میں قرآن حفظ کرایاجاتا ہے ۔ سفرمکہ کے دوران اس شہر مقدس میں ان مدارس ک بر براہوں سے جو ملاقات ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے ان مدارس میں بہت سے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں مشغول تحصیل ہیں ۔ جاننے والوں میں سے ایک شخص نے بتا یا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباًپندرہ لاکھ حافظان قرآن موجود ہیں ۔

جیسا کہ دائرة المعارف فرید وجدی نے نقل کیا ہے کہ جامعة الازھر مصر کی یونیورسٹی میں داخلے کی ایک شرط پورے قرآن کا حفظ ہونا ہے اس کے لئے چالیس میں سے کم کم بیس نمبر رکھے گئے ہیں ۔

مختصر یہ کہ خود آنحضرت کے حکم و تاکید سے کہ جو بہت زیادہ روایات میں آئی ہے حفظ ِ قرآن کی سنت زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک ہر دور میں جاری و ساری ہے ۔ کیا ایسی حالت میں تحریف ِقرآن کے بارے میں کسی احتمال کا امکان ہے ؟

۲۔ کاتبان وحی : ان تمام امور کے علاوہ کاتبانِ وحی کا معاملہ بھی غور طلب ہے یہ وہ افراد تھے جو آنحضرت کے حکم اور تاکید سے آپ پر قرآن کی آیات نازل ہونے کے بعد انھیں لکھ لیتے تھے ان کی تعداد چودہ سے لے کر تنتالیس تک بیا ن کی گئی ہے ۔

ابو عبد اللہ زنجانی اپنی نہایت قیمتی کتاب”تاریخ قرآن “ میں لکھتے ہیں ۔

کان للنبی کتاباًیکتبون الوحی وھم ثلاثة و اربعون اشھر ھم الخلفاء الاربعة و کان الزمھم للنبی زید بن ثابت و علی بن ابی طالب علیہ السلام ۔

پیغمبر کے مختلف کاتب اور لکھنے والے کہ جو وحی لکھا کرتے تھے اور وہ تنتالیس افراد تھے کہ جن میں زیادہ مشہور خلفاء اربعہ تھے ۔ لیکن اس سلسلے میں پیغمبر کے سب سے بڑھ کر ساتھی زید بن ثابت اور علی ابن ابی طاللب علیہ السلام ۔3

وہ کتاب کہ جسے اس قدر لکھنے والے تھے کیسے ممکن ہے کہ تحریف کرنے والے اس کی طرف ہاتھ بڑھاسکتے ۔

۳۔ تمام رہبران اسلام نے اسی قرآن کی دعوت دی ہے : یہ امر قابل توجہ ہے کہ اسلام کے عظیم پیشواوٴں کے کلمات کا مطالعہ نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ابتدائے اسلام سے باہم بیک زبان لوگوں کو اسی موجودہ قرآن کی تلاوت ، مطالعہ اور اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے اور یہ امر خود نشاندہی کرتا ہے کہ یہ آسمانی کتاب اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر بعد تک تحریف ناپذیرمجموعہ کی صورت میں موجود ہی ہے ۔

نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کے کلمات اس دعویٰ کے زندہ گواہ ہیں ۔

خطبہ ۱۳۳ میں آپ (علیہ السلام) فرماتے ہیں :۔

وکتاب اللہ بین اظھر کم ، ناطق لایعیالسانہ، و بیت لاتھدم ارکانہ ، و عزلاتھزم اعوانہ۔

اور اللہ تمہارے درمیان ایسا ناطق ہے جس کی زبان کبھی گنگ نہیں ہوتی ۔ یہ ایسا گھر ہے جس کے ستون کبھی منہدم نہیں ہوتے اور یہ ایسا سرمایہٴِ عزت ہے کے انصارکبھی مغلوب نہیں ہوتے ۔

خطبہ ۱۷۶میں فرماتے ہیں :۔

و اعلموا ان ھٰذا القراٰن ھو الناصح الذی الیغش والھادی الذی لایضل ۔

جان لو کہ یہ قرآن ایسا ناصح ہے جو اپنی نصیحت میں کبھی خیانت نہیں کرتا او ر ایسا ہادی ہے جوکبھی گمراہ نہیں کرتا ۔ نیز اسی خطبے میں ہے :

وما جالس ھٰذا القراٰن احد الاقام عنہ بزیادة او نقصان،زیادة من ھدی ، او نقصان من عمی ۔

کوئی شخص اس قرآن کا ہم نشین نہیں ہوتا مگر یہ کہ اس سے پاس زیادتی یا نقصان کے ساتھ اٹھتا ہے ۔ ہدایت کی زیادتی یاگمراہی کی کمی ۔

اسی خطے کے آخر میں ہے :

ان اللہ سبحانہ لم یعظ احداًبمثل ھٰذا القراٰن ، فانہ حبل اللہ المتین و سببہ الامین۔

خدا نے کسی کو اس قرآن جیسی وعظ و نصیحت نہیں کی ۔ کیونکہ یہ خدا کی محکم رسی اور اس کا قابل اطمینان وسیلہ ہے ۔خطبہ ۱۹۸ میں ہے :۔

ثم انزل علیہ الکتاب نوراً لاتطفاٴ مصابیحة، و سراجاً لایخبوتوقدہ، و منھا جا لا یضل نھجہ و فرقاناً لایخمد بر ھانہ

اس کتاب کے بعد خدا نے اپنے نبی پر ایک کتاب نازل کی وہ کتاب جو خاموش نہ ہونے والا نور ہے اور جو ایسا چراغ پر فروغ ہے کہ جس میں تاریکی آہی نہیں سکتی اور یہ ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والے گمراہ نہیں ہوسکتے اور یہ حق کی باطل سے جدائی کا ایسا سبب ہے جس کی برہان خاموش نہیں ہوتی ۔

ایسی تعبیرات حضرت علی السلام اور دیگر پیشوایانِ دین کے کلمات و ارشادات میں بہت زیادہ ہیں ۔

فرض کریں کہ اگر دست تحریف اس آسمانی کتاب کی طرف بڑھا ہوتا تو کیا پھر بھی ممکن تھا کہ اس کی طرف دعوت دی جاتی ۔ اور اسے راہ کشا ، حق کی باطل جدائی کا ذریعہ ، نہ بجھنے والانور ، خاموش نہ ہونے والا چراغ، خدا کی محکم رسی اور اس کا امین و قابل اطمینان وسیلہ قرار دے کر تعارف کروایا جاتا ۔

۴۔ آخری دین اور ختم نبوت کا تقاضا :۔ اصولی طور پر پیغمبر اسلام کی خاتمیت قبول کرلینے کے بعد اور یہ تسلیم کرلینے کے بعد کہ دین اسلام آخری خدائی دین ہے اور قرآن کا پیغام دنیا کے خاتمے تک بر قرار رہے گا کس طرح یہ باور کیا جا سکتا ہے خدا اسلام اور پیغمبر خاتم کی اس واحد سند کی حفاظر نہیں کرے گا ۔

اسلام کے ہزاروں سال کے بعد باقی رہنے ، جاوداں ہونے اور آخری دنیا تک رہنے کے ساتھ کیا تحریف ِ قرآن کاکوئی مفہوم ہو سکتا ہے ؟

۵۔ روایات ِ ثقلین :۔ روایات ثقلین کہ جو طرق معتبر و متعدد ہ سے پیغمبر اسلام سے نقل ہوئی ہےں قرآن کی اصالت اور ہر قسم کے تغیر و تبدل سے محفوظ رہنے پر ایک ایک اور دلیل ہیں کیونکہ ان روایات کے مطابق پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

میں تمہارے درمیان میں سے جارہاہوں اور دو گرانمایہ چیزیں تماہرے لئے بطور یاد گار چھوڑے جارہاہوں، پہلی اور دوسری میری اہل بیت ۔ اگر تم نے ان کا دامن نہ چھوڑا ، تو ہ رگز گمراہ نہیں ہوگے ۔ ۱

۱۔حدیث ثقلین متواتر احادیث میں سے ہے یہ حدیث اہل سنت کی بہت سے کتب میں صحابہ کی ایک جماعت کی وساطت سے پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہے ان صحابہ میں ابو سعید خدری ، زید بن ارقم ، زید بن ثابت، ابو ہریرہ ،حذیفہ بن اسید ، جابر بن عبد اللہ انصاری ، عبد اللہ حنطب، عبدبن حمید، جبیر بن مطعم ، ضمرہ اسلمی ، ابوذر غفاری ، ابو رافع اور ام سلمہ وغیرہ شامل ہیں ۔

کیا ایسی با ت کسی ایسی کتاب کے لئے صحیح ہے جو تحریف کا شکار ہو گئی ہو ۔

۶۔ قرآن جھوٹی اور سچی روایات کے لئے کسوٹی ہے :ان سب پہلووٴں سے قطع نظر قرآن کا تعارف سچی اور جھوٹی روایات و احادیث کو پرکھنے کے لئے معیار کے طور پر کروایا گیا ہے بہت سے روایات کہ جو منابع اسلام میں آئی ہیں ان میں سے کہ جو حدیث کے سچے یا جھوٹے ہونے کے بارے میں شک کرو اسے قرآن کے سامنے پیش کرو، جو حدیث کے موافق وہ حق ہے اور جو حدیث اس کے مخالف ہے وہ باطل اور غلط ہے ۔

فرض کریں کہ قرآن میں کمی کے لحاظ سے ہی تحریف ہوتی تبب بھی ہر گز ممکن نہ تھا کہ اس کا تعارف حق و باطل کو پرکھنے کی کسوٹی کے طور پر کر وایا جاتا ۔

۱۔ البیان فی تفسیر القرآن ص ۲۶۰ بحوالہ منتخب کنزالعمال ۔

۲۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۵۷۔

3۔تاریخ القرآن ص۳۴۔

روایات ِ تحریف

مسئلہ تحریف کے بارے میں جو بعض لوگوں کے ہاتھ اہم ترین دستاویز ہے وہ ایسی مختلف روایات ہیں جن کا حقیقی مفہوم نہیں سمجھا گیا یا پھر ان کی سند کے بارے میں تحقیق نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اس قسم کی بری تعبیر وجود میں آئی ہے ۔

ایسی روایات مختلف قسم کی ہیں:

۱۔ ایسی روایات جن میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے قرآن جمع کرنا شروع کیا جب اسے جمع کرچکے تو اسے صھابہ کے ایک گروہ کے پاس لے آئے انہوں نے مقامِ خلافت کے ارد گرد کو گھیر رکھا تھا ۔ آپ نے پیش فرمایا تو انھوں نے اسے قبول نہ کیا اس پر حضرت علی (علیہ السلام) نے کہا :پھر تم اسے کبھی نہ دیکھو گے ۔

لیکن ان روایات میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس جو قرآ تھا وہ دوسرے قرآنوں سے مختلف نہیں تھا ۔ البتہ تین چیزوں کا فرق تھا ۔

پہلا یہ کہ اس کی آیات اور سورتیں ترتیب ِ نزولی کے مطابق منظم کی گئی تھیں ۔

دوسرا یہ کہ ہر آیت اور سورة کی شان ِ نزول اس کے ساتھ لکھی گئی تھی ۔

تیسرا یہ کہ جو تفاسیر آپ نے پیغمبر اکرم سے سنی تھیں وہ اس میں درج تھیں ، نیز اس میں آیاتِ ناسخ و منسوخ کی نشاندہی بھی کی گئی تھی ۔

لہٰذا وہ قرآن جو حضرت علی علیہ السلام نے جمع کیا تھا اس میں اس قرآ ن سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہ تھی اور جو چیز زیادہ تھہ تھی وہ تفسیر تاویل ، شان ِ نزول اور ناسخ و منسوخ کی تمیز وغیرہ تھی دوسرے لفظوں میں وہ قرآن بھی تھا اور قرآن کی اصلی تفسیر بھی تھی ۔

کتاب سلیم بن قیس میں ہے :۔

ان امیر الموٴمنین (علیہ السلام) لما رای غدر الصحابة وقلة و فائھم لزم بیتہ، و اقبل علی القرآن ، فلما جمعہ کلہ، وکتابہ بیدہ، و تاٴویلہ الناسخ و المنسوخ، بعثت الیہ ان اخرج فبایع، فبعث الیہ انی مشغول فقد آلیت علی نفسی لا ارتدی بردائی الا لصلاة حتی اوٴلف القراٰن و اجمعہ ۔1

جس وقت امیر المومومنین (علیہ السلام) نے صحابہ کی بے وفائی اور دوستوں کی کمی دیکھی تو گھر نہ چھوڑا اور قرآن کی طرف توجہ ہوئے آپ قرآن جمع کرنے اور اسے اپنے ہاتھ سے لکھنے میں مشغول ہوگئے یہان تک کہ تاویل اور ناسخ و منسوخ سب کو جمع کرلیا اس دورانمیں انہوں نے آپ کے پاس کسی کو بھیجا کہ گھرسے باہر نکلےں اور بیعت کریں آپ نے جواب میں کہلابھیجا کہ مشغول ہو ں، میں نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب تک قرآن جمع نہ کرلوں سوائے نماز کے عباکندے پر نہیں ڈالوں گا ۔

۲۔ روایات کی دوسری قسم وہ ہے جو تحریف معنوی کی طرف اشارہ کرتی ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تحریف تین طرح کی ہے :۔

۱۔ تحریف لفظی

۲۔ تحریف معنوی

۳۔ تحریف معنوی

۱۔ لفظی یہ ہے کہ قرآن کے الفا اور عبارت میں کمی بیشی اور تغیر کیا جائے اور یہ وہ تحریف ہے جس کا ہم اور تمام محققین ِ اسلام شدت سے انکار کرتے ہیں ۔

۲۔ تحریف معنوی یہ ہے کہ آیت کا معنی اور تفسیر اس طرح سے کی جائے کہ وہ اس کے حقیقی مفہوم کے برخلاف ہو ۔

۳۔ تحریف عملی یہ ہے کہ اس کے خلاف عمل کیا جائے ۔

مثلاً تفسیر علی بن ابراہیم میں ابو ذر منقول ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی :۔

یوم بیض وجوہ و تسوةوجوة

جس دن کچھ لوگوں کے چہرے تو سفید ہوں گے اور کچھ کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔ (آلِ عمران ۱۰۶) ۔

تو پیغمبر نے فرمایا:۔

روز قیامت لوگوں سوال کیا جائے گا تم تم نے ثقلین ( قرآن و عترتِ پیغمبر ) کے ساتھ کیا سلوک کیا تو لوگ کہیں گے :

اما الاکبر فحرقناہ،ونبذناہ وراء طھورن

ہم نے ثقل اکبر ( قرآن ) کی تحریف کی اور اسے پس پشت ڈال دی

واضح ہے کہ یہاں تحریف سے مراد وہی مفہوم قرآن کو دگر گوں کرنا اور اسے پس، پشت ڈال دیناہے ۔

۳۔ تیسری قسم ان روایات کی ایسی روایا ت ہیں ۔ یہ روایات دشمنوں، منحرفوں یا ناداں نے قرآن کو بے اعتبار کرنے کے لئے گھڑی ہیں مثلاً وہ متعدد روایات جو احمد بن سیاری سے نقل ہوئی ہیں کہ جن کی تعداد ایک سو اٹھاسی (یہ تعداد کتاب”برہان روشن“ کے موٴلف نے لکھی ہے ) ۔ تک جاپہنچی ہے ۔ مرحوم حاجی نوری نے کتاب ”فصل الخطاب“ میں انھیں فروانی سے نقل کیا ہے ۔

ان احادیث کاراوی سیاری بہت سے بزرگ علماء ِ رجال کے بقول فاسد المذہب، ناقابل اعتماد ضعیف الحدیث تھا اور بعض کے بقول صاحب غلو، منحرف ، تناسخ کے ساتھ مشہور اورکذاب تھا ۔ مشہور صاحب ِ کتاب رجال کشی کے بقول امام جواد علیہ السلام نے اپنے خط میں سیاری کے دعووں کو باطل اور بے بنیاد قرار دیا ہے ۔

 

البتہ روایاتِ تحریف سیاری میں منحصر نہیں ہیں لیکن ان کا زیادہ ترحصہ اسی کی طرف سے ہے ۔

ان جعلی روایات میں کچھ مضحکہ خیز روایات بھی نظر آتی ہیں جو شخص تھوڑا بہت بھی مطالعہ رکھتا ہے وہ فوراً ان روایات کی خرابی کو سمجھ لیتا ہے مثلاًایک روایت کہتی ہے کہ سورہٴ نساء کی آیہ ۳ میں ”وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ماطاب لکم من النساء“( اور اگر تمہیں ڈر ہو کے تم یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں اچھی لگتی ہیں ) شرط اور جزاء کے درمیان میں سے ایک تنہائی سے زیادہ قرآن ساقط ہو گیا ہے ۔

حالانکہ ہم سورہ ٴ نساء کی تفسیر میں کہہ چکے ہیں کہ اس اایت میں شرط اور جزاء پوری طرح ایک دوسرے سے مربوط ہیں یہاں تک کہ اس مین سے ایک لفظ بھی ساقط نہیں ہوا ۔

علاوہ ازیں ایک تہائی سے زیادہ تو پھر اس حساب سے کم ازکم چودہ پاروں کے برابر بنتا ہے ۔

یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ان سب کا تبان، وحی اور زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک قرآن کے حافظوں اور قاریوں کے ہوتے ہوئے اس کے چودہ پارے ضائع ہوگئے او رکوئی آگاہ نہ ہوا ۔

ان جھوٹوں اور جعل سازوں نے اس تاریخی حقیقت کی طرف توجہ نہیں کہ قرآن کہ جو اسلام کاقانون اساسی ہے اور شروع سے مسلمانوں کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے رات دن گھروں اور مسجدوں میں اس کی تلاوت ہوتی رہتی ہے کیا اس عالم میں اس کا ایک لفظ بھی ساقط کیا جا سکتا ہے تھا چہ جائیکہ اس کے چودہ پارے غائب کردئے جائیں ۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ایسی احایدث گھڑنے والوں کے پیدا ہونے کی واضح دلیل ہے ۔

بہت سے بہانہ تراش کتاب فصل الخطاب کا سہارا لیتے ہیں ۔ اس کتاب کی طرف ہم نے سطور بالا میں اشارہ کیا ہے یہ مرحوم حاجی نوری کی تالیف ہے اور تحریف کے سلسلے میں لکھی گئی ہے اس کے ابرے میں ہم نے جو کچھ اوپر کہا ہے اس کے علاوہ اس با تی اس کی کیفیت واضھ ہو جاتی ہے کہ مرحوم حاج شیخ آقابزرگ تہرانی کہ جو مرحوم حاجی نوری کے شاگرد مبرز ہیں ، اپنے استاد کے حالات کے ذیل میں ”مستدرک الوسائل “ کی پہلی جلد میں لکھتے ہیں :۔

باقی رہا کتاب ” فصل الخطاب“ کے بارے میں تو میں نے بارہا اپنے استاد سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ وہ مطالب جو فصل الخطاب میں ہے وہ میراذاتی عقیدہ نہیں ہے ۔ یہ کتاب تو میں نے بحث و اشکال کے لئے لکھی ہے اور اشارتاًعدم تحریف کے بارے میں اپنا عقیدہ بھی بیان کردیا ہے اور بہتر تھا کہ میں کتاب کا نام ” فصل الخطاب فی عدم تحریف الکتاب“ رکھتا ۔

اس کے بعد مرحوم محدث تھرانی کہتے ہیں :

عملی لحاظ سے ہم اپنے استاد کی روش اچھی طرح دیکھتے تھے کہ وہ روایات تحریف کو کچھ بھی وزن دینے کے قائل نہ تھے بلکہ انھیں ایسی ورایات سمجھتے تھے جنہیں دہوار پر دے مارنا چاہئیے ۔ ہمارے استاد کی طرف تحریف کی نسبت وہی شخص دے سکتا ہے جو ان کے عقیدہ سے آشنائی نہ رکھتا ہو ۔

آخری بات یہ ہے کہ بعض ایسے لوگ جو مسلمانوں کے لئے اس آسمانی کتاب کی عظمت کو محسوس نہیں کرتے تھے انھوں نے کوشش کی کہاس قسم کے خرافات اور اباطیل سے قرآن کو اس کی اصالت اور بنیاد سے گرادیں ۔ گذشتہ اور موجودہ زمانے میں بہت سی آیات تبدیل کردیں لیکن یہ ان کا اندھا پن تھا ،علماء ِ اسلام فوراً دشمن کی اس سازش سے آگاہ ہوئے اور ان نسخوں کو اکھٹا کرلیا ۔ یہ سیاہ دل دشمن نہیں جانتے تھے کہ قرآن میں سے ایک نقطہ بھی تبدیل ہو جائے تو قرآن کے مفسرین ، حفاظاور قارئین فوراً اس سے آگاہ ہو جائیں گے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ نور ِ خدا کو بجھا دیں لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے ۔

"يُريدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللَّهِ بِأَفْواهِهِمْ وَ يَأْبَى اللَّهُ إِلاَّ أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكافِرُون"( توبہ ۔ ۳۲)

۱۔اس کی عبارت اس طرح ہے ۔ و الشیعة ھم ابدا اعداء المساجد ولھٰذا یقل ان یشاھد الضارب فی طول بلادھم عرضھا مسجداً

1۔تاریخ القرآن ص۳۴۔

Saturday, 22 September 2012 07:16

میں مسلمان کیسے ہوئی؟

قرآن آیات کی معجزانہ تاثیر دیکھئے کہ آسٹریلیا کی ایک خاتون سورہ یٰسین کی آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئیں۔

ام امینہ بدریہ کی ایمان افروز داستان قبول اسلام انہی کی زبانی سنیے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے والد کا تعلق تھائی لینڈ سے تھا۔ وہ پیدائشی لحاظ سے مسلمان تھے لیکن عملی طور پر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جبکہ میری والدہ بدھ مت تھیں اور والد صاحب سے شادی کے وقت مسلمان ہوئی تھیں۔ وہ دونوں بعد میں آسٹریلیا آ کر آباد ہو گئے تھے۔

میرا پیدائشی نام '' ٹے نی تھیا‘‘ Tanidthea تھا۔ میں نے یونیورسٹی آف نیو انگلینڈ، آرمیڈیل سے ایم اے اکنامکس کیا اور بزنس مارکیٹنگ اور ہیومن ریسورسز کے مضامین پڑھے۔ پھر میں بطور ٹیوٹر پڑھانے لگی۔ اسی اثناء میں شادی ہو گئی۔ شادی اسلامی قانون کے مطابق ہوئی۔ میرے شوہر کمپیوٹر گرافکس ڈیزائنر تھے۔ وہ شادی کے وقت مسلمان ہوئے تھے لیکن نام کے مسلمان تھے۔ اسلام پر ہرگز عامل نہیں تھے۔

میرے باپ بھی نام کے مسلمان تھے اور انہیں دین کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا نہ انہوں نے ہمیں کچھ بتایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم بھی دین سے مکمل طور پر عاری تھے۔ میں کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اللہ مجھے معاف کرے، میں ملحد تھی۔ میں جب اپنے شوہر کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزار چکی تو ایک وقت مجھ پر ایسا آیا کہ دنیا سے میرا دل اچاٹ ہو گیا اور میں پریشانی کی حالت میں تھی۔ اس پر میں نے سوچا کہ مجھے نماز پڑھنی چاہیے جیسا کہ میں نے ایک دفعہ اپنے والد صاحب کو کہیں پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنے شوہر کو اس کے بارے میں بتایا تو اس نے اس بات کا بہت برا مانا۔ اس نے کہا ( نعوذ باللہ ) کوئی اللہ واللہ نہیں ہے اور نہ نماز وغیرہ کچھ ہے۔ دریں اثنا میرے والدین وفات پا گئے تھے۔

تقریبا سات سال پہلے آسٹریلیا کی نیوساؤتھ ویلز سٹیٹ کے شہر آرمیڈیل کی ایک چھوٹی سی مسجد میں گئی جو کہ غیر ملکی مسلم طلبہ کیلئے تعمیر کی گئی تھی۔ وہاں سے میں نے انگلش ترجمے والا قرآن مجید پڑھنے کیلئے مستعار لیا۔ میں اسے گھر لے جا کر محض اس کی ورق گردانی (Flip) کر رہی تھی کہ سورہ یاسین کی ان آیات کا ترجمہ میرے سامنے آیا جن میں چاند اور سورج کی حرکت کے بارے میں سائنسی انداز میں بیان کیا گیا ہے: '' اور سورج اپنی معین راہ پر گردش کر رہا ہے یہ اللہ عزیز و علیم کی منصوبہ بندی ہے اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ وہ ہر پھر کی کھجور کی سوکھی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ سورج کی یہ مجال کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے اور یہ سب اپنے اپنے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ ‘‘ یہ ترجمہ پڑھنا تھا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میرے جسم میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ میں نے سوچا کہ نبی علیہ السلام امی تھے۔ یعنی پڑھے لکھے نہ تھے لیکن اتنے بہترین سائنسی انداز میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے تو ضرور ان پر اللہ کی طرف سے وحی آسکتی ہے۔

بس اس لمحے میرے دل کی دنیا بدل گئی اور میں نے اللہ کی کتاب قرآن عظیم الشان کا مطالعہ اور اس میں غور وفکر شروع کردیا۔ میں جب بھی اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتی ہوں پہلے اپنے سابقہ عمل پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتی ہوں اور پھر اسلام پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں قبول اسلام کے بعد مسجد میں جاتی رہی۔ شروع شروع میں، میں پردہ نہیں کرتی تھی پھر جب نمازیوں نے مجھے بتایا کہ یہ گناہ ہے تو اسی دن سے میں نے اپنے گھر جا کر اسکارف لیا اور پہننا شروع کر دیا، نیز اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کرنے لگی۔ میں نے خاصی کوشش کی کہ میں اپنے شوہر کو اسلام کے بارے میں قائل کر سکوں لیکن وہ نہ مانا، حالانکہ میری اس سے بیٹی بھی پیدا ہو چکی تھی۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ یا اسلام قبول کر لو یا مجھے چھوڑ دو۔

تب اس نے مجھے طلاق دے دی اور مجھ سے اور میری بیٹی سے دستبردار ہو گیا۔ دریں اثنا میں انٹرنیٹ پر پاکستان میں رہنے والے اپنے ایک مسلم بھائی عبدالصمد سے چیٹنگ کرنے لگی اور ان سے اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی جو وہ مجھے وقتاً فوقتاً بہم پہنچاتے رہے۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ میں آسٹریلیا سے اسلام کیلئے ہجرت کر لوں۔ میں نے پاکستان کی جانب ہجرت کرنے کو ترجیح دی۔ اسلام لانے سے پہلے میری بیٹی کا نام ( توان وارٹ ) تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اس کا نام تبدیل کر کے امینہ رکھ دیا۔ میں نے اپنا نام غزوہ بدر کی نسبت سے بدریہ رکھا تھا۔ بیٹی کے حوالے سے میں ام امینہ کہلاتی ہوں۔ میں نے اپنی بیٹی کو آسٹریلیا کے کسی ا سکول میں بھجوانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ وہاں تعلیم میں موسیقی اور ان کے پرچم کے آگے ادب و احترام کیلئے مختلف افعال کی ادائیگی شامل تھی جو کہ مجھے پسند نہیں تھی اور اسلامی تعلیمات کیخلاف تھی، لہٰذا میں نے اپنی بیٹی کو اپنے گھر ہی میں اسلام کی ابتدائی تعلیم و تربیت دی ہے۔

آسٹریلیا میں اکثریت عیسائی مذہب پر یقین رکھتی ہے لیکن الحمد للہ اب لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور خاص طور پر خواتین بڑی تیزی سے اسلام کی طرف آ رہی ہیں۔ چند خواتین نے مسلمانوں کے ساتھ شادیاں کی ہیں۔ اکثر خواتین اپنے تحفظ اور احترام کیلئے اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں جو کہ صرف اسلام عطا کرتا ہے۔ آسٹریلیا کے مسلمانوں میں اکثریت عمل سے دور ہے لیکن وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو قرآن اور سنت پر مکمل عمل کر رہے ہیں اکثر مسلمان عورتیں شرعی پردہ نہیں کرتیں۔ صرف رواجی پردہ کرتی ہیں، جب گھر سے باہر نکلنا ہوتا ہے تو خوب پردہ کر لیتی ہیں لیکن گھروں میں نوکروں، دیوروں اور رشتے داروں کے سامنے پردے کا حق ادا نہیں کرتیں جس کا سارا گناہ ان کے ساتھ ساتھ ان کے شوہروں کو بھی ہو گا۔ میں ان سے یہی کہوں گی کہ وہ اپنے اللہ کی طرف رجوع کریں۔ ان شاء اللہ ان کا یہ عمل دنیا و آخرت کی کامیابی کیلئے اجر کا ذریعہ ہوگا۔

Saturday, 22 September 2012 07:14

اسلام ميں سب سے پہلى شہادت

قريش كے ہاتھوں آل ياسر كو سخت ترين سزائيں دى گئيں نتيجتاً حضرت عمار كى ماں حضرت سميّہ (رحمۃ اللہ عليہ) ، فرعون قريش ابوجہل (لعنۃ اللہ عليہ) كے ہاتھوں شہيد ہوگئيں وہ اسلام كى راہ ميں شہيد ہونے والى سب سے پہلي ہستى ہيں_ (1) حضرت سميّہ كے بعد حضرت ياسر (رحمۃ اللہ عليہ) شہيد ہوئے_البتہ كچھ لوگ كہتے ہيں كہ اسلام كے پہلے شہيد حضرت حارث ابن ابوہالہ ہيں_ وہ اس طرح كہ جب رسول(ص) اللہ كو اعلانيہ تبليغ كا حكم ہوا تو آپ(ص) نے مسجد الحرام ميں كھڑے ہو كر فرمايا: "" اے لوگو لا الہ الا اللہ كہو تاكہ نجات پاؤ ""يہ سن كر قريش آپ (ص) پر ٹوٹ پڑے، سب سے پہلے آپ (ص) كى فرياد رسى كيلئے پہنچنے والا يہى حارث تھا اس نے قريش پر حملہ كركے انہيں آپ كے پاس سے ہٹايا جبكہ قريش نے حارث كا رخ كيا اور اسے قتل كر ديا_ (2)

ليكن يہ واقعہ درست نہيں كيونكہ (جيساكہ پہلے ذكر ہوچكا) خدانے حضرت ابوطالب اور بنى ہاشم كے ذريعے اپنے نبى كى حفاظت كي، چنانچہ قريش آپ(ص) كا بال بھى بيكا كرنے كى جر ات نہ كرسكے_اسى طرح بنى ہاشم كے دوسرے ايمان لانے والوں كى حالت ہے كيونكہ وہ لوگ حضرت جعفر (رض) حضرت على (ع) اور ديگر افراد پر بھى حضرت ابوطالب (ع) كے مقام كى وجہ سے تشدد نہيں كرسكے_

اس کےعلاوہ مورخين كا تقريبا ًاتفاق ہے كہ اسلام كى راہ ميں سب سے پہلى شہادت حضرت سميہ (رحمۃ اللہ عليہ) اور ان كے شوہر حضرت ياسر (رحمۃ اللہ عليہ) كو نصيب ہوئي مزيد يہ كہ اعلانيہ تبليغ كى كيفيت كے بارے ميں جو كچھ كہا گيا ہے وہ مذكورہ باتوں كے صريحاً منافى ہے

1 _ الاستيعاب حاشيہ الاصابہ ج 4 ص 330 و 331 و 333 ، الاصابہ ج4 ص 334 و 335، سيرہ نبويہ ابن كثير ج1 ص 495، اسد الغابہ ج5 ص 481 اور تاريخ يعقوبى ج2 ص 28_

2_ نور القبس ص 275 از شرقى ابن قطامي، الاصابة ج 1 ص 293 از كلبي، ابن حزم اور عسكرى نيز الاوائل ج 1 ص 311،312_

تاریخ کے ہرمرحلے میں علماء اسلام کی سیرت مسلمانوں بلکہ اقوام عالم کے لۓ مشعل راہ رہی ہے تشنگان راہ حق کبھی بھی اس عظیم نعمت الھی سے بے نیازی کا اظہار نہیں کرسکتے ۔

سیرت علماء کے تعلق سے جس چیزپر تحقیقات کۓ جانے کی ضرورت ہے وہ شیعہ و سنی علماء کے دوستانہ تعلقات اور مفاھمت آمیز روش اور اس کے مبارک ثمرات ہیں ،بے شک اس وسیع موضوع کا ایک مقالے یا مضمون میں حق ادانہیں کیاجاسکتا بلکہ اس کے لۓ وسیع تحقیقات کی ضرورت ہے جس کے تحت صاحب نظر افراد تاریخ کے اس اھم گوشہ پر روشنی ڈالیں‎ ۔

علماء شیعہ میں بہت سی ایسی ھستیاں ہیں جن کے اھل سنت علماء کے ساتھ نہایت دوستانہ تعلقات تھے یہ لوگ اھل سنت علماء کے ساتھ علمی بحث و مباحثے بھی کیا کرتے تھے بلکہ علماءشیعہ میں بعض حضرات اھل سنت علماء کے شاگرد ہیں اسی طرح بعض علماءاھل سنت نے شیعہ علماءکے سامنے زانوے ادت تہ کیا ہے یہی نہیں بلکہ شیعہ علما ءنے اھل سنت علماءکو اجازہ روایت دیا ہے اور ان سے خود بھی اجازے لۓ ہیں،اس باھمی تعاون کا مبارک نتیجہ یہ نکلا کہ برادران اھل سنت کےعلماءپیروان اھل بیت یعنی شیعہ مسلمانوں کے عقائد و اصول سے آگاہ ہوۓ اور بہت سے غلط تصورات ابھامات اور تہمتوں کا ازالہ ہوا اور دوستی میں پختگي آئي ،یاد رہے اس دوستی سے فریقیں کے علماءکے اعتقادات میں کسی طرح کی تبدیلی یا خلل نہیں آیا بلکہ انہوں نے اپنے عقیدے اور موقف کو مستحکم بنانے کے لۓ ایک دوسرے کے نظریات سے پوری جرات کے ساتھ استفادہ کیا ۔

اس مختصر مقالے میں ہم بعض علماء شیعہ کا ذکر کررہے ہیں جن کی الھی شخصیت اور علمی عظمت میں ذرہ برابر شک نہیں کیاجاسکتا ان کے نظریات اور عملی سیرت فریقین کے نزدیک باعث تجلیل و تعظیم و تکریم ہے ۔

شیخ مفید محمد ابن نعمان البغدادی

سید شریف المرتضی علی ابن الحسین الموسوی

شیخ الطائفہ محمد بن الحسن الطوسی

علامہ حسن بن یوسف حلی

شہید اول محمد بن مکی الجزینی

شہید ثانی زین الدین بن علی العاملی

سید عبدالحسین شرف الدین العاملی

اس مختصر مضمون میں ان تمام علماء عظام کی سیرت کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا بنابریں ہم صرف شہید اول وثانی اور سید شرف الدین عاملی کی زندگي پر اختصار سے روشنی ڈالیں گے ۔

علامہ بزرگوار سید شرف الدین عاملی اسلامی امۃ کے اتحاد کو بے حد اھمیت دیتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے اھل سنت علماء سے تعلقات بڑھاے ان سے ملاقاتیں کی اور بحث ومباحثے کۓ اور آج بھی ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ علامہ شرف الدین کا اسلوب ہی ثمر بخش و مفید واقع ہورہا ہے البتہ اس بات پربھی افسوس ہوتاہےکہ آپ کے بعد آنے والے علماء فریقین نے آپ کے بتاے ہوے راستے پر سنجیدگي سے عمل کرنا ترک کردیا ،اگر فریقین کے صف اول کے علماء علامہ شرف الدین کے راستہ پر عمل کرتے رہتے اور آپسی ملاقاتوں علمی تبادلوں اور علمی تعاون کا سلسلہ جاری رکھتے تو آج ہم کو ان مبارک کوششوں کے نہایت مفید ثمرات دیکھنےکوملتے ،بہرحال آج ہمیں بڑی خوشی ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعدحضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور آپ کے برحق جانشین قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای مد ظلہ کی حکیمانہ قیادت میں عالم اسلام کو متحد کرنے کی مفید کوششیں ہورہی ہیں جو انشاءاللہ اسلام کی کامیابی کا باعث بنیں گي ۔

شہید اول محمد بن مکی العاملی ۔

شہید اول کی علمی روش کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہےکہ آپ نے کبھی بھی اپنے تعلقات کو کسی خاص فرقے گروہ یا شخص میں محدود نہیں رکھا بلکہ آپ عالم اسلام کی مختلف علمی شخصیتوں اور مکاتب فکر سے رابطے میں رہتے تھے ،مختلف مکاتب فکر کے علماء ومفکرین سے آپ کا علمی تعاون رھتا تھا ان ہی تعلقات کی بناپر آپ کی شخصیت جامع اور ھمہ گیر بن گئي ۔

شہید اول نے علماء اھل سنت کی متعدد شخصیتوں سے اجازات روائي حاصل کۓ اسی طرح متعدد علماء عامہ کو اجازے دۓ ہیں آپ ابن الخازن کے اجازہ راوئي میں لکھتے ہیں کہ اور جہاں تک سوال ہے عامہ (اھل سنت ) کی کتب اور روایات کا تو میں ان کے چالیس علماء سے روایت کرتاہوں جن کا تعلق مدینے مکہ دارالسلام بغداد دمشق مصر بیت المقدس اور بیت لحم سے ہے ،میں نے صحیح بخاری کے لۓ علماء عامہ کی بڑی تعداد سے روایات نقل کی ہیں جن کی سند بخاری تک پہنچتی ہے اسی طرح میں نےمسند احمد و موطاء مالک ،مسند دارقطنی مسند بن ماجہ مستدرک صحیحین اور دیگر کتابوں کے لۓ روایت کی ہے جن کا ذکر موجب تطویل کلام ہے

شہید اول ابن نجدہ کے اجازہ میں تحریر فرماتے ہیں میں انہیں اجازت دیتا ہوں ان تمام روایات کی جن کی میں نے حجازعراق و شام کے علماء اھل سنت سے روایت کی ہے اور وہ کثیر روایات ہیں ۔

شہید اول کے معروف اھل سنت اساتذہ

1- قاضی برھان الدین ابراھیم بن جماعۃ الکنانی متوفی سات سونوےھجری قمری،ان سے شہید اول نے شاطبیہ پڑھی ہے

2- قاضی القضاۃ عزالدین عبدالعزیزبن جماعۃ متوفی سات سو سڑسٹھ ھ ق ان کے بارے میں شھید فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ھفتے کے دن ذی الحجہ کی بائيس سات سو چون ھ ق کو اجازہ عام جس میں معقول و منقول شامل ہیں دیا ۔

3-جمال الدین ابو احمد عبدالصمد بن الخلیل البغدادی شہید اول کو اجازہ دیتے ہوۓ انہوں نے لکھا ہےکہ کہتا ہےعبد فقیر رحمت کا محتاج بغداد میں حدیث نبوی کا قاری کہ میں نے اجازت دی شیخ الامام علامہ فقیہ صاحب تقوی وفضل زاھد و پارسا شمس الدین ابی عبداللہ محمد بن مکی بن محمدکو کہ وہ مجھ سے ان تمام روایات کونقل کرسکتے ہیں جو میرے لۓ جائزہیں ۔

4-محمد بن یوسف القرشی الکرمانی الشافعی الملقب بشمس الائمہ و صاحب شرح البخاری ،انہوں نے شیہد اول کو بغداد میں سات سو اٹھاون ھ ق میں اجازہ روایت دیا ۔

5- شرف الدین محمد بن بکتاش التستری البغدادی الشافعی ،مدرس مدرسہ نظامیہ

6- ملک القراء والحفاظ شمس الدین محمد بن عبداللہ البغدادی الحنبلی

7- فخرالدین محمد بن الاعزالحنفی

8- شمس الدین ابو عبدالرحمن محمد بن عبدالرحمن المالکی ،مستنصریہ کے مدرس۔

قابل ذکر ہے نویں صدی ہجری کے بزرگ عالم اھل سنت شمس الدین الجزری نے شہید اول کے بارے میں کہا ہےکہ شیخ الشیعہ اور مجتھد جوکہ نحو قرائت وفقہ میں امام ہیںوہ میرے ساتھ لمبی مدت تک رہے ہیں میں نے اس دوران ان سے کوئي ایسی بات نہیں سنی جو سنت کے برخلاف ہو۔

شہید ثانی زین الدین بن علی العاملی ،

شہید ثانی نے اپنی سوانح حیات میں اھل سنت علماء سے استفادہ کرنے کے بارے میں لکھا ہےکہ میں نوسوبیالیس ھجری قمری کے آغاز میں تحصیل علم کےلۓ مصر گیا اور وہاں بہت سے فاضل افراد سے کسب فیض کیا سب سے پہلے میں شیخ شمس الدین ابن طولوں الدمشقی الحنفی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے صحیحین کا ایک حصہ پڑھا انہوں نے

مجھے صحیحین کی ان روایتوں کی اجازت دی جو ان کے لۓ جائزتھیں یہ بات اسی سال ربیع الاول کی ہے ۔

شہید ثانی لکھتے ہیں کہ میں گذشتہ برس ربیع الاول کے وسط میں یوم جمعہ کو مصر پہنچاتھا اور علماء کے ایک گروہ کے ساتھ علمی کاموں میں لگ گيا وہ لکھتے ہیں کہ ان علماءمیں شیخ شھاب الدین احمد الرملی الشافعی ہیں جن سے میں نے فقہ میں منھاج النووی ،اور ابن حاجب کی مختصرالاصول کے اکثر حصے پڑھے ہیں اس طرح شرح العضدی بھی پڑھی ہے اور اس کے حواشی کا مطالعہ بھی کیا ہے جن میں السعدیہ والشریفیہ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے فنون عربیہ اور عقلیہ حاصل کرنے کے لے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں جن میں شرح التلخیص المختصر فی المعانی و البیان شامل ہے جو کہ سعد الدین تفتازانی کی کتاب ہے اس طرح اصول فقہ میں امام الحرمین جوینی کی ورقات کی شرح جو خود شیخ نے تحریر کی ہے ا س کا بھی درس لیا ہے ۔

شہید ثانی لکھتے ہیں کہ میں نے اذکارالنووی اور فقہ میں جمع الجوامع المحلی کے کچھ حصے اور علم نحو میں توضیح ابن ھشام اور بہت سی دیگر کتابوں کی تعلیم بھی حاصل کی ۔

شہید ثانی نے لکھا ہےکہ شیخ نے مجھے ان روایات کی اجازت عامہ دی جو ان کے لۓ جائزتھیں ۔

شہید ثانی لکھتے ہیں کہ میں نے جن علماء اھل سنت سے استفادہ کیا ان میں ملاحسین جرجانی بھی ہیں ہم نے ان سے ملا قوشجی کی شرح تجرید حاشیہ ملا جلال الدین الدوانی اور فن ھندسہ میں قاضی زادہ رومی کی شرح اشکال التاسیس اور ھیئۃ میں شرح چغمینی کا بھی درس پڑھا ۔

وہ کہتے ہیں ہم نے ملامحمد استرآبادی سے مطول کے بعض حصوں کی تعلیم حاصل کی ساتھ میں سید شریف اور جامی کے حاشیے بھی پڑھے ۔

ان میں ملامحمد گيلانی بھی ہیں جن سے ہم نے معانی و منطق کے بعض ابواب کی تعلیم حاصل کی ۔

شیخ شہاب الدین بن النجار النبلی بھی ہمارے استاد ہیں ہم نے ان سے جاربردی کی شرح شافیہ ۔عروض و قوافی میں شیخ زکریا انصاری کی شرح خزرجیہ کا درس لیا اور مختلف فنون و حدیث کی بہت سی کتابیں انہیں پڑھ کرسنائيں جن میں صحیحین بھی شامل ہیں انہوں نے مجھے ان تمام روایتوں کے نقل کرنے کی اجازت دی ہے جن کے وہ خود راوی ہیں۔

شہید ثانی کہتے ہیں ان کے اساتذہ میں شیخ ابو الحسن البکری بھی شامل ہیں جن سے انہوں نے فقہ و تفسیر اور منھاج پر ان کی شرح کے بعض حصے پڑھے ہیں وہ لکھتےہیں کہ انہوں نے شیخ زین الدی الحری المالکی سے الفیہ بن مالک پڑھی ہے۔

شہید ثانی ناصرالدین اللقانی المالکی کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں نے مصر میں علوم عقلیہ اور عربیہ میں ان سے زیادہ کسی کوعالم و فاضل نہیں پایا شہید ثانی نے ان سے تفسیر بیضاوی اور دیگر فنون کی کتابیں پڑھی ہیں۔

شہید ثانی کے ایک اور استاد جواھل سنت ہیں ان کانام شیخ ناصر الطبلاوی الشافعی ہے شہید کہتے ہیں میں نے انہیں ابی عمروکی قرائت کے مطابق قرآن پڑھ کرسنایا اور قرآت کے موضوع پر ان کا ایک رسالہ بھی پڑھا ۔

شہید نے لکھا ہے کہ انہوں نے جن افراد سے کسب فیض کیا ان میں شیخ شمس الدین محمد ابو النجاالنحاس بھی ہیں شہید نے انہیں قرات سبعہ کے مطابق قرآن پڑھ کرسنایا اور قرآت میں شاطبیہ کا درس پڑھا وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے قراعشرہ کے مطابق قرائت قرآن شروع کی تھی لیکن اسے مکمل نہیں کرپاے ۔

شہید ثانی کے ایک اور سنی استاد عبدالحمید سہمودی ہیں ان سے شہید نے مختلف فنون کی کتابیں پڑھی ہیں اور اجازہ عام بھی حاصل کیا ۔

شہید ثانی کے ایک اور سنی استاد شیخ شمس الدین عبدالقادر الفرضی الشافعی ہیں جن سے شہید نے ریاضیات کی مختلف کتابیں پڑھی ہیں اور اجازہ عام بھی حاصل کیا ہے ،شہید ثانی لکھتے ہیں کہ انہوں نے مصر میں علماءکی بڑی تعداد سے کسب فیض کیا ہے جن کا ذکر تطویل کلام کا باعث ہے ۔

شہید ثانی مصرکے بعدنوسوتینتالیس ھجری قمری میں حجازکاسفرکرتے ہیں اس کے بعدبیت المقدس کی زیارت کےلۓ نوسواڑتالیس ھ ق میں فلسطین پہنچتے ہیں جہان وہ شیخ شمس الدین ابی اللطف المقدسی کے سامنے زانوے ادب تہ کرتےہیں اور ان سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے بعض حصے پڑھتےہیں شیخ انہیں اجازہ بھی عطاکرتے ہیں ۔

بیت المقدس کے بعد شہید ثانی بعلبک میں قیام پذیر ہوتےہیں اور یہاں ایک مدت تک مذاھب خمسہ اور دیگر علوم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

علامہ سید شرف الدین العاملی

علاہ سید شرف الدین عاملی آفاقی شخصیت کےمالک ہیں اسلام و مسلمین کی فلاح وبہبود اور امت کے اتحاد کے لۓ ان کی کوششوں کو دنیا کبھی نہیں بھلاسکتی سید شرف الدین نے شیعہ سنی اتحاد کے لۓ اھل سنت کے بزرگ علماء سے رابط کیا اور تعلقات قائم کۓ ان سے استفادہ کیا اور انہیں بھی فیض پہنچایا،لبنان ودیگر اسلامی ممالک میں اسلامی امت کے اچھے حالات ان ہی کی مجاھدانہ کوششوں کا نتیجہ ہے ۔

سید شرف الدین اپنی کتاب ثبت الاسنادفی سلسلۃ الرواۃ میں اپنے اھل سنت اساتذہ اوررفقاءکےبارے میں لکھتے ہیں کہ میرے اھل سنت اساتذہ کی تعداد شیعہ اساتذہ سے زیادہ ہے لیکن میں صرف پانچ شخصیتوں کا ذکر کررہا ہوں جنہوں نے مجھے اجازے دیے ہیں ۔

1 استاد شیخ سلیم البشری المالکی شیخ الازھر تھے اور انہیں علماء مصر کا امام کہا جاتاتھا ان سے میری ملاقات مصر میں ہوئي الازھر میں ان کے درس میں کچھ دنوں تک شرکت کی ہم دونوں کے درمیان علمی رسائل کاتبادلہ ہوتارہتا تھا ان کے خطوط سے ان کے تقوی انصاف اور علمی اخلاقی اور ادبی لحاظ سے ان کی عظمت کا پتہ چلتا ہے ۔

دوسری شخصیت ہیں فقیہ و محدث محمد المعروف بہ شیخ بدالدین الدمشقی ہیں وہ دمشق میں شیخ الاسلام کے عھدے پرفائزتھے اور اپنے زمانے کے اعلم علماءمیں ان کا شمار ہوتاتھا تیرہ سو اڑتیس میں مجھے دمشق میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اسی سال رمضان المبارک میں،میں نے ان کے درس میں

شرکت کی ہمارے درمیان حسن و قبح عقلی ،امکان رویت خدا اور اس کے محال ہونے ،قرآن کا حدوث اور قدم جیسے مسائل پر بحث ومباحثہ جاری رہا ۔

تیسری شخصیت علامہ کبیر ومحدث شہیر شيخ محمد بن محمد عبداللہ الخانی الخالدی النقشبندی الشافعی کی ہے دمشق میں ان سے ملاقات ہوئي،بیروت اور دمشق میں ان سے بعض حدیثیں سننے کاموقع ملا ۔

علامہ شرف الدین فرماتے ہیں ان کے اساتذہ میں چوتھی شخصیت شیخ محمد المعروف بہ شیخ توفیق الایوبی الانصاری الدمشقی کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ہم لوگوں نے ایک دوسرے سے کافی علمی استفادہ کیا۔

سید شرف الدین لکھتےہیں کہ ان کے ایک اور استاد کا نام شیخ محمد عبدالحی ابن الشیخ عبدالکبیر الکتانی الفاسی الادریسی ہیں سید لکھتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے پاس آیا جایا کرتے تھے اور ہمارے درمیان علمی مباحثہ رہا جس کے بڑے فائدے حاصل ہوۓ ہم نے اصول فقہ کے ابواب پربحث کی جس سے ان کی علمی عظمت کااندازہ ہوتاہے ۔

علامہ سید شرف الدین لکھتے ہیں کہ ان کا مصر کا دورہ ایک فردی دورہ تھا اوراس کا مقصد شیعہ سنی علماء کو نزدیک لانا، انہیں اھل بیت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوں کے عقائد نظریات سے آگاہ کرکے غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا تھا اور سید شرف الدین اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے ۔

سید شرف الدین نے دورہ مصر میں المراجعات نامی مستدل کتاب لکھی جو امامیہ کےنزدیک اثبات امامت پر بے نظیر کتاب ہے اس کتاب میں ایک لفظ بھی حق و انصاف سے ہٹ کر نہیں ہے بلکہ باھمی احترام کے اصولوں پر کۓ جانے والے علمی مباحثوں کا بہترین نمونہ ہے ۔

امید کہ اسلامی مکاتب فکر اسی روش کو اپناتے ہوۓ ایک دوسرے کے بارے میں موجود غلط تصورات کا ازالہ کرکے اتحاد کا ثبوت پیش کریں کے کیونکہ آج یہی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

Saturday, 22 September 2012 06:42

امام رضا (ع) کے مختصر حالات

امام رضا (ع) اللہ کے نور کاٹکڑا ،اسکی رحمت کی خوشبو اور ائمہ طاہرین (ع)کی آٹھویں کڑی ہیں جن سے اللہ نے رجس کو دور رکھا اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

مامون نے ائمہ طاہرین (ع) کے متعلق اپنے زمانہ کے بڑے مفکر و ادیب عبداللہ بن مطر سے سوال کرتے ہوئے کہا : اہل بیت (ع) کے سلسلہ میں تمھاری کیا رائے ہے ؟

عبداللہ نے ان سنہرے لفظوں میں جواب دیا : میں اس طینت کے بارے میں کیا کہوں جس کا خمیر رسالت کے پانی سے تیار ہوا اور وحی کے پانی سے اس کو سیراب کیاگیا؟ کیا اس سے ہدایت کے مشک اور تقویٰ کے عنبر کے علاوہ کوئی اور خوشبو آسکتی ہے ؟

ان کلمات نے مامون کے جذبات پر اثرکیا اس وقت امام رضا (ع)بھی موجود تھے، آپ نے عبداللہ کامنھ موتیوں سے بھر دینے کا حکم صادر فرمایا ۔ (١)

وہ تمام اصلی ستون اور بلند و بالا مثالیں جن کی امام (ع)عظیم سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ (ع) کے سلوک ، ذات کی ہو شیاری اور دنیا کی زیب و زینت سے رو گردانی کرنا سوائے اُن ضروریات کے جن سے انسان اللہ سے لولگاتا ہے، یہ سب اسلام کی دولتوں میں سے ایک دولت ہے۔۔۔ہم ان میں سے بعض خصوصیات اختصار کے طور پر بیان کرتے ہیں:

آپ (ع)کی پرورش

امام (ع)نے اسلام کے سب سے زیادہ باعزت وبلند گھرانہ میں پرورش پائی ،کیونکہ یہ گھر وحی کا مرکز ہے ۔۔۔

یہ امام موسیٰ بن جعفر (ع)کا بیت الشرف ہے جو تقویٰ اور ورع و پرہیزگاری میں عیسیٰ بن مریم کے بیت الشرف کے مشابہ ہے ،گویا یہ بیت الشرف عبادت اور اللہ کی اطاعت کے مراکز میں سے تھا، جس طرح یہ بیت الشرف علوم نشرکرنے اور اس کو لوگوں کے درمیان شائع کرنے کا مرکز تھا اسی بیت الشرف سے لاکھوں علماء ، فقہائ، اور ادباء نے تربیت پائی ہے ۔

اسی بلند و بالا بیت الشرف میں امام رضا (ع)نے پرورش پائی اور اپنے پدر بزرگوار اور خاندان کے آداب سے آراستہ ہوئے جن کی فضیلت ،تقویٰ اور اللہ پر ایمان کے لئے تخلیق کی گئی ہے ۔

آپ (ع) کا عرفان اور تقویٰ

امام رضا (ع)کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدار تھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا ، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے ، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیا اور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اگر امام (ع) اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ۔اسی بناء پر مامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ (ع) کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔

آپ کے بلند و بالا اخلاق

امام رضا (ع) بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموں یہاں تک کہ اصطبل کے رکھوالوں اور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے۔ (٢)

ابراہیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا (ع) کو یہ فرماتے سنا ہے :

ایک شخص نے آپ سے عرض کیا : خدا کی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔۔۔

امام (ع)نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا: اے فلاں! مت ڈر ، مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔خدا کی قسم یہ آیت نسخ نہیں ہوئی ہے۔

امام (ع) اپنے جد رسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔

آپ (ع)کا زہد

امام (ع) نے اس پر مسرت اور زیب و زینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوں نے دنیا میں زہد اختیار کیا ، آپ (ع) کے جد بزرگوار امام امیرالمومنین (ع) نے اس دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیاجاسکتا۔

محمد بن عباد نے امام کے زہد کے متعلق روایت کی ہے : امام (ع) گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پر بیٹھتے تھے، آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے ۔ (٣)

دنیا میں زہد اختیار کرنا امام (ع)کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا ، تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام (ع) کو ولی عہد بنایا گیا تو آپ (ع)نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا ، حکومت و سلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی، اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی ، آپ کسی بھی ایسے مظاہرے سے شدید کراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت و بادشاہت کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :

''لوگوں کا کسی شخص کی اقتدا کرنا اس شخص کے لئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کے لئے ذلت و رسوائی ہے ''۔

آپ (ع)کے علوم کی وسعت

امام رضا (ع) اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوںکہا ہے :میں نے علی بن موسی رضا (ع)سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعددجلسوںمیں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آگئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیاہو،اور میں نے آپ (ع)کو یہ فرماتے سنا ہے: ''میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پا س بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا ''۔ (٤)

ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا (ع)کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ آپ (ع)نے ہر سوال کا جواب دیا ہے ۔ (٥) ،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھااور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتاتھااورآپ (ع)اس کا جواب عطافرماتے تھے ۔ (٦)

مامون سے مروی ہے :میں اُن (یعنی امام رضا (ع))سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔ (٧)

بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پردلالت کرتے ہیں ۔دنیاکے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ (ع)پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام (ع)سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔مامون آپ کو لوگوںسے دور رکھنے پر مجبور ہوگیاکہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بدظن نہ ہوجائیں۔

اقوال زرین

امام (ع)نے متعدد غررحکم،آداب ،وصیتیں اوراقوال ،ارشاد فرماتے جن سے لوگ استفادہ کرتے تھے یہ بات اس چیز پردلالت کرتی ہے کہ آپ اپنے زمانہ میں عالم اسلامی کے سب سے بڑے استاد تھے اور آپ نے حکمت کے ذریعہ مسلمانوں کی تہذیب اور ان کی تربیت کے لئے جدوجہد کی ہے ہم ان میں سے بعض چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

عقل کی فضیلت

اللہ نے انسان کو سب سے افضل نعمت عقل کی دی ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوانات کو جدا کیا جاتا ہے اور امام (ع)نے بعض احادیث میں عقل کے متعلق گفتگو کی ہے جیسے :

١۔امام رضا (ع)کا فرمان ہے :''ہر انسان کا دوست اس کی عقل ہے اور جہالت اس کی دشمن ہے'' ۔ (٨)

یہ حکمت آمیز کلمہ کتنازیباہے کیونکہ عقل ہرانسان کا سب سے بڑادوست ہے جو اس کو محفوظ رکھتی ہے اور دنیوی تکلیفوںسے نجات دلاتی ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ جہالت ہے جو اس کو اس دنیا کی سخت مشکلات میں پھنسادیتی ہے ۔

٢۔امام (ع)کافرمان ہے :''سب سے افضل عقل انسان کا اپنے نفس کی معرفت کرنا ہے ''۔ (٩)

بیشک جب انسان اپنے نفس کے سلسلہ میں یہ معرفت حاصل کرلیتاہے کہ وہ کیسے وجود میں آیا اوراس کا انجام کیا ہوگا تو وہ عام اچھائیوں پر کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ برائیوںکو انسان سے دور کردیتا ہے اور اس کو نیکیوںکی طرف راغب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے خالق عظیم کی معرفت پر دلالت کرتی ہے ۔

جیساکہ حدیث میں وارد ہوا ہے :''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ''۔

''جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کرلی''۔

محاسبۂ نفس

امام (ع)کافرمان ہے :''جس نے اپنے نفس کا حساب کیا اس نے فائدہ اٹھایااور جو اپنے نفس سے غافل رہا اس نے گھاٹا اٹھایا''۔ (١٠)

بیشک انسان کا اپنے نفس کا حساب کرنا کہ اس نے کون سے اچھے کام کئے ہیں اور کون سے برے کام انجام دیئے ہیں اور اس کااپنے نفس کو برے کام کرنے سے روکنا، اور اچھے کام کرنے کی طرف رغبت دلانا تو یہ اس کی بلندی نفس ،فائدہ اور اچھائی پر کامیاب ہونے کی دلیل ہے ،اور جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے سے غفلت کی تو یہ غفلت انسان کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیتی ہے جس کے لئے قرار وسکون نہیں ہے ۔

کارو بار کی فضیلت

امام (ع)فرماتے ہیں :''اپنے اہل وعیال کے لئے کوئی کام کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے مانند ہے ،یہ وہ شرف ہے جسے انسان کسب کرتا ہے اور ایسی کوشش ہے جس پر انسان فخر کرتا ہے ''۔ (١١)

سب سے اچھے لوگ

امام (ع)سے سب سے اچھے اورسب سے نیک لوگوں کے بارے میں سوال کیاگیاتوآپ (ع)نے فرمایا: ''وہ لوگ جب اچھے کام انجام دیتے ہیں تو ان کو بشارت دی جاتی ہے ،جب ان سے برے کام ہوجاتے ہیںتووہ استغفار کرتے ہیں،جب ان کو عطاکیاجاتا ہے تو شکراداکرتے ہیں جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں ''۔ (١٢)

یہ حقیقت ہے کہ جب انسان ان اچھے صفات سے متصف ہوجاتا ہے تو اس کا سب سے افضل اور نیک لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور وہ کمال کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے ۔

آپ (ع)کی نصیحتیں

امام (ع)نے ابراہیم بن ابی محمود کو یوں وصیت فرمائی:''مجھے میرے والد بزرگوار نے انھوں نے اپنے آباء و اجداد سے اور انھوں نے رسول اسلام (ص) سے نقل کیا ہے :جس نے کسی کہنے والے کی بات کان لگا کر سنی اس نے اس کی عبادت کی ،اگراس کہنے والے کی گفتگوخدا ئی ہے تو اُ س نے خدا کی عبادت کی اور اگراس کی گفتگو شیطانی ہے تو اس نے ابلیس کی عبادت کی یہاں تک کہ آپ (ع)نے فرمایا :اے ابو محمود کے فرزند : میںنے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کو یاد رکھو کیونکہ میں نے اپنی اس گفتگو میں دنیا و آخرت کی بھلا ئی بیان کر دی ہے''۔ (١٣)

اس وصیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اہل بیت (ع) کی اتباع اُن کے طریقہ ٔ کار کی اقتدا اور ان کی سیرت سے ہدایت حاصل کرنا واجب ہے ،بیشک اس میں نجات ہے اور ہلاکت سے محفوظ رہنا ہے اور اللہ کی راہ میں بڑی کا میابی ہے ۔

مالدار اور فقیر کے درمیان مساوات

امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو سلام کے ذریعہ مالدار اور فقیر کے درمیان مساوات کر نے کی سفارش فرما ئی ہے :''جوشخص مسلمان فقیرسے ملاقات کرتے وقت اس کو دولت مند کو سلام کر نے کے علاوہ کسی اورطریقہ سے سلام کر ے تو خداوند عالم اس سے غضبناک ہونے کی صورت میں ملاقات کرے گا'' ۔ (١٤)

مومن کے چہرے کا ہشاش بشاش ہونا

امام رضا (ع) نے اپنے اصحاب کو وصیت فرما ئی کہ مو من کا چہرہ ہشاش بشاش ہونا چا ہئے اس کے بالمقابل اس کا چہرہ غیظ و غضب والا نہیں ہو نا چاہئے امام (ع) فرماتے ہیں :

''جس نے اپنے مومن بھا ئی کو خوش کیا اللہ اس کے لئے نیکیاں لکھتا ہے اور جس کے لئے اللہ نیکیاں لکھ دے اس پر عذاب نہیں کرے گا''۔ (١٥)

یہ وہ بلند اخلاق ہیں جن کی ائمہ اپنے اصحاب کو سفارش کیا کرتے تھے تاکہ وہ لوگوں کے لئے اسوئہ حسنہ قرار پا ئیں ۔

عام وصیت

امام (ع) نے اپنے اصحاب اور باقی تمام لوگوں کو یہ بیش قیمت وصیت فرما ئی :''لوگو ! اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کے سلسلہ میں خدا سے ڈرو ،خدا کی مخالفت کے ذریعہ خدا کی نعمتوں کو خود سے دور نہ کرو ،یاد رکھو کہ خدا و رسول پر ایمان اور آل رسول میں سے اولیائے الٰہی کے حقوق کے اعتراف کے بعد کسی ایسی چیز کے ذریعہ تم شکر الٰہی بجا نہیں لاسکتے جو اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہو کہ تم اپنے مومن بھائیوں کی اُس دنیا کے سلسلہ میں مدد کروجو اُن کے پروردگار کی جنت کی جانب تمھارے لئے گذر گاہ ہے جو ایسا کرے گا وہ خاصانِ خدا میں سے ہوگا ''۔ (١٦)

اس وصیت میں تقوائے الٰہی ،بھا ئیوں کی مدد اور اُ ن کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔

کلمات قصار

امام رضا (ع) کے حکمت آمیز کلمات قصارچمکتے ہوئے ستاروں کی طرح حکمتوں سے پُر ہیں :

١۔امام (ع) نے فرمایا ہے :''اگر کو ئی ظالم و جابر بادشاہ کے پاس جائے اور وہ بادشاہ ان کو اذیت و تکلیف دے تو اس کو اس کو ئی اجر نہیں ملے گا اور نہ ہی اِس پر صبر کرنے سے اس کو رزق دیا جا ئے گا ''۔ (١٧)

٢۔امام رضا (ع) کا فرمان ہے :''لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے ''۔ (١٨)

٣۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :''لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں عافیت کے دس جزء ہوں گے جس میں نو حصے لوگوں سے الگ رہنے میں ہوں گے اور ایک حصہ خا مو شی میں ہو گا ''۔ (١٩)

٤۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :''بخیل کے لئے چین و سکون نہیں ہے اور نہ ہی حسود کے لئے لذت ہے ،ملو ل رنجیدہ شخص کے لئے وفا نہیں ہے اور جھوٹے کے لئے مروَّت نہیں ہے ''۔ (٢٠)

٥۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :''جس نے مو من کو خوش کیا خدا قیامت کے دن اُس کو خو شحال کرے گا''۔ (٢١)

٦۔امام رضا (ع) فرماتے ہیں :''مومن، مومن کاسگا بھا ئی ہے ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھائی پر الزام لگایاملعون ہے ، ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کو دھوکہ دیا ، ملعون ہے ،ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کو نصیحت نہیں کی ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھائی کے اسرارسے پردہ اٹھایا ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کی غیبت کی ہے ''۔ (٢٢)

آپ(ع) کو تمام زبانوں کاعلم

امام (ع) تمام ز بانیں جانتے تھے، ابو اسما عیل سندی سے روایت ہے : میں نے ہندوستان میں یہ سنا کہ عر ب میں ایک اللہ کی حجت ہے، تو اُ س کی تلاش میں نکلا لوگوں نے مجھ سے کہا کہ وہ امام رضا (ع) ہیںمیں اُ ن کی بارگاہ میں حاضر ہوا جب آپ کی بارگاہ میں پہنچاتومیں نے آپ (ع)کو سندھی زبان میں سلام کیا امام (ع) نے سندھی زبان میں ہی سلام کا جواب دیا ،میں نے آپ (ع)کی خدمت مبارک میں عرض کیا: میں نے سنا ہے کہ عرب میں ایک اللہ کی حجت ہے اور اسی حجت کی تلاش میں آپ (ع) کے پاس آیا ہوں تو امام (ع) نے فرمایا :''میں ہی اللہ کی حجت ہوں ''،اس کے بعد فرمایا :''جو کچھ تم سوال کرنا چاہتے ہو سوال کرو ' 'میں نے آپ (ع) سے متعدد مسائل دریافت کئے تو آپ (ع) نے میری زبان میں ہی اُن کا جواب بیان فرمایا ۔ (٢٣)

ابو صلت ہروی سے روایت ہے :امام رضا (ع) لوگوں سے اُن ہی کی زبا ن میں کلام کیا کرتے تھے ۔ میں نے امام (ع) سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا :''اے ابو صلت میں مخلوق پر اللہ کی حجت ہوں اور اللہ کسی قوم پر ایسی حجت نہیں بھیجتا جو اُن کی زبان سے آشنا نہ ہو ،کیا تم نے امیر المو منین کا یہ کلام نہیں سُنا: ہم کو فصل خطاب عطا کیا گیا ہے ؟کیا وہ زبانوں کی واقفیت کے علاوہ کچھ اور ہے ؟''۔ (٢٤)

یاسر خادم سے روایت ہے :امام رضا علیہ السلام کے بیت الشرف میں صقالبہ اور روم کے افراد تھے، امام ابو الحسن (ع) اُن سے بہت قریب تھے، میں نے آپ(ع) کو اُن سے صقلبی اور رومی زبان میں گفتگو کرتے سنا ہے اور وہ اُس کو لکھ کر آپ (ع) کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے ۔ (٢٥)

اسی چیز کو شیخ محمد بن الحسن حرّ نے اس شعر میں قلمبند کیا ہے:

وَعِلْمُہُ بِجُمْلَةِ اللُّغَاتِ

مِنْ أَوْضَحِ الاِعْجَازِ وَالآیَاتِ (٢٦)

''تمام زبانوں سے آپ (ع)کی آشنا ئی آپ (ع)کا واضح معجزہ اور نشا نی ہے ''۔

واقعات و حادثات

امام رضا (ع) متعدد واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی اُن کی خبر دیدیا کر تے تھے، اس سے شیعوں کے اس عقیدے کی تا ئید ہو تی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو اسی علم سے نوازاہے جس سے اپنے رسول اور انبیاء (ع)کو نوازا ہے، اُن ہی میں سے امام (ع) نے یہ خبر دی تھی :مامون انپے بھائی امین بن زبیدہ کو قتل کرے گا ،جس کو اس شعر میں نظم کیا گیا ہے :

فَاِنَّ الضِّغْنَ بَعْدَ الضِّغْنِ یَفْشُو

عَلَیْکَ وَیُخْرِجُ الدَّ ائَ الدَّ فِیْنَا (٢٧)

''بیشک کینہ کے بعد کینہ مسلسل کینہ کرنے سے تمھارے اوپر راز فاش ہو جا ئے گااور دبے ہوئے کینے ابھر آئیں گے ''۔

ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ مامون نے آپ (ع) کے بھا ئی امین کو قتل کردیا۔

امام (ع) نے ایک خبر یہ دی تھی کہ جب محمد بن امام صادق (ع) نے مامون کے خلاف خروج کیا تو امام رضا (ع)نے ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فرمایا :اے چچا اپنے پدر بزرگوار اور اپنے بھائی (امام کاظم علیہ السلام)کی تکذیب نہ کرو ،چونکہ یہ امر تمام ہونے والا نہیں ہے ،تو اُس نے یہ بات قبول نہیں کی اور علی الاعلان مامون کے خلاف انقلاب برپا کر دیاکچھ دن نہیں گزرے تھے کہ مامون کا لشکر جلو دی کی قیادت میں اس سے روبروہوا اُس نے امان مانگی تو جلو دی نے اس کو امان دیدی ،اور اس نے منبر پر جاکر خود کو اِس امر سے الگ کر تے ہوئے کہا :یہ امر مامون کے لئے ہے ۔ (٢٨)

امام رضا (ع) نے برامکہ کی مصیبت کی خبر دی تھی ،جب یحییٰ برمکی ان کے پاس سے گزرا تو وہ رومال سے اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے تھا ۔امام (ع) نے فرمایا :یہ بیچارے کیا جانیں کہ اس سال میں کیا رونما ہونے والا ہے۔۔۔ اس کے بعد امام (ع) نے مزید فرمایا:مجھے اس بات پرتعجب ہے کہ یہ خیال کر تا ہے کہ میں اور ہارون اس طرح ہیں ، یہ فرماکر آپ (ع) نے اپنے بیچ اور انگو ٹھے کے پاس کی انگلی کو ایک دوسرے سے ملاکر اشارہ کیا۔ (٢٩)

ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ جو کچھ امام (ع) نے فرمایا تھا وہ واقع ہوا ،یہاں تک کہ رشید نے برامکہ پر دردناک عذاب اور مصیبتیں ڈھائیں ،رشید نے خراسان میں وفات پائی اور بعدمیں امام رضا (ع) کواسی کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔

یہ وہ بعض واقعات ہیں جن کی امام رضا (ع) نے خبر دی تھی اور ہم نے ایسے متعدد واقعات ''حیاةالامام رضا (ع)''میں ذکر کر دئے ہیں ۔

آپ (ع) کی جود و سخا

مو رّخین نے آپ (ع) کی جود و سخا کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں جن میں سے کچھ یوں ہیں :

١۔جب آپ (ع)خراسان میں تھے تو آپ(ع) اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کر دیا کر تے تھے ،عرفہ کا دن تھااور آپ (ع) کے پاس کچھ نہیں تھا ، فضل بن سہل نے اس پر ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے کہا :یہ گھاٹے کا سودا ہے۔امام (ع) نے جواب میں فرمایا :''اس میں فائدہ ہے ،اس کو تم گھاٹا شمار نہ کروجس میں فائدہ نہ ہو''۔ (٣٠)

اگر کو ئی شخص اجر الٰہی کی امید میں فقیروں کے لئے انفاق کر تا ہے تو یہ گھاٹا نہیں ہے، بلکہ گھاٹا تو وہ ہے کہ بادشاہوں اور وزیروں کے لئے ان کے سیاسی اورذاتی کاموں میں خرچ کیاجائے ۔

٢۔ آپ (ع) کا ایک مشہور و معروف واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے آپ(ع) کی خدمت با برکت میں آکر عر ض کیا :میں آپ (ع) اور آپ (ع) کے آباء و اجداد کا چا ہنے والا ہوں ،میں حج کر کے واپس آرہا ہوں ،میرے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور جو کچھ ہے بھی اس سے کچھ کام حل ہونے والا نہیں ہے، اگر آپ (ع) چا ہیں تو میں اپنے شہر واپس پلٹ جائوں، جب میرے پاس رقم ہو جا ئے گی تو میں اُس کو آپ (ع)کی طرف سے صدقہ دیدوں گا، امام (ع) نے اُس کو بیٹھنے کا حکم دیا اور آپ (ع) لوگوں سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے جب وہ سب آپ (ع) سے رخصت ہو کر چلے گئے اور آپ (ع) کے پاس صرف سلیمان جعفری اور خادم رہ گئے تو امام اُن سے اجازت لیکر اپنے بیت الشرف میں تشریف لے گئے، اس کے بعد اوپر کے دروازے سے باہر آکر فرمایا : ''خراسانی کہاں ہے ؟''،جب وہ کھڑا ہوا تو امام (ع) نے اُس کو دو سو دینار دئے اور کہا کہ یہ تمھارے راستے کا خرچ اور نفقہ ہے اور اِ ن کو میری طرف سے صدقہ نہ دینا وہ شخص امام(ع) کی عطا کردہ نعمت سے مالا مال اور خوش ہو کر چلاگیا ۔ سلیمان نے امام(ع) کی خدمت میںیوں عرض کیا : میری جان آپ (ع) پر فدا ہو آپ (ع) نے احسان کیا اور صلۂ رحم کیا تو آپ (ع) نے اس سے اپنا رخ انور کیوں چھپایا ۔

امام (ع) نے جواب میں فرمایا :''میں نے ایسا اس لئے کیا کہ میں سوال کرنے والے کے چہرہ میں ذلت کے آثاردیکھنا نہیں چا ہتا کہ میں اس کی حاجت روا ئی کر رہا ہوں ،کیا تم نے رسول خدا (ص) کا یہ فرمان نہیں سُنا کہ :چھُپ کر کی جانے والی نیکی ستّر حج کے برابر اورعلی الاعلان برائی انجام دینے والامتروک شمار ہوتاہو۔ کیا تم نے شاعر کا یہ شعر نہیں سنا :

مَتیٰ آتہِ یَوماً لِاَطْلُبَ حَاجَةً

رَجَعْتُ اِلیٰ أَھْلِْ وَوَجْھْ بِمَائِہِ (٣١)

''جب میں ایک دن کسی حاجت کے لئے اس کے پاس آئوںتو میں اپنے اہل و عیال کے پاس پلٹا تو میری عزت اُن کی عزت سے وابستہ تھی ''۔

قا رئین کرام کیاآپ نے امام رضا (ع) کی اس طرح انجام دی جانے والی نیکی ملاحظہ فر ما ئی ؟یہ صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہے ۔

٣۔ایک فقیر نے آپ کے پاس آکر عرض کیا :مجھے اپنی حیثیت کے مطابق عطا کر دیجئے ۔

''لایسَعُنِیْ ذَلِکَ ۔۔۔''۔مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے ۔

بیشک امام کی حیثیت کی کو ئی انتہا نہیں ہے ،امام کے پاس مال و دولت ہے ہی نہیں جو کسی اندازہ کے مطابق عطا کیا جائے ،فقیر نے اپنی بات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا :یعنی میری مروت کی مقدار کے مطابق۔۔۔

امام (ع) نے مسکر اکر اس کی بات قبول کرتے ہوئے فرمایا :''ہاں اب ضرور عطا کیا جا ئے گا ۔۔۔'' ۔

پھر اس کو دو سو دینار دینے کا حکم صادر فر مایا ۔ (٣٢)

یہ آپ (ع)کی سخاوت کے کچھ نمونے تھے ،اور ہم نے اِ ن میں سے کچھ نمونے اپنی کتاب حیاة الامام رضا (ع) میں بیان کر دئے ہیں ۔

عبادت

امام اللہ کی یاد میں منہمک رہتے اور خدا سے نزدیک کرنے والے ہر کام کو انجام دیتے تھے آپ (ع) کی حیات کا زیادہ تر حصہ عبادت میں گزرا جو نور، تقویٰ اور ورع کا نمونہ تھا، آپ (ع) کے بعض اصحاب کا کہنا ہے : میں نے جب بھی آپ کو دیکھا تو قرآن کی یہ آیت یاد آگئی :(کَانُوا قَلِیلاً مِنْ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ )۔ (٣٣)

''یہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے ''۔

شبراوی نے آپ(ع) کی عبادت کے متعلق کہا ہے :آپ(ع) وضو اور نماز والے تھے ،آپ ساری رات با وضو رہتے ،نماز پڑھتے اور شب بیداری کرتے یہاں تک کہ صبح ہو جا تی ۔

اور ہم نے آپ (ع)کی عبادت اور قنوت و سجود میں دعا کے متعلق اپنی کتاب ''امام علی بن موسیٰ الرضا (ع) کی سوانح حیات میں ''مفصل طور پر تذکرہ کر دیا ہے ۔

آپ (ع) کی ولی عہدی

عباسی دور میں سب سے اہم واقعہ یہ رو نما ہوا کہ مامون نے امام رضا(ع) کو اپنا ولیعہد بنا دیا یعنی وہ عباسی خلافت جو علوی سادات سے دشمنی رکھتی تھی اس میںتبدیلی واقع ہو گئی اور اس بڑے واقعہ کاخاص و عام دونوں میں گفتگوو چرچاہوا اور سب مبہوت ہو کر رہ گئے، وہ سیا سی روش جس میں عباسیوں نے علویوں کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا ،اُ ن کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ،اُن کے بچوں کو دجلہ میں غرق اور شیعوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کردیاتھا۔۔۔عباسیوں سے علویوں کی دشمنی بہت آشکار تھی ،یہ دشمنی محبت و مودت میں کیسے بدل گئی ،عباسی اُن کے حق کے معترف ہو گئے اور عبا سی حکومت کا اہم مر کز اُن (علویوں ) کو کیسے سونپ دیا، اسی طرح کی تمام باتیں لوگوں کی زبانوں پر تھیں ۔

یہ مطلب بھی بیان ہونا چاہئے کہ مامون نے یہ اقدام اس لئے نہیں کیا تھا کہ یہ علویوں کا حق ہے اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں، بلکہ اُ س نے کچھ سیاسی اسباب کی بنا پرولایت کا تاج امام رضا (ع) کے سر پر رکھا ،جس کے کچھ اسباب مندرجہ ذیل تھے :

١۔مامون کا عباسیوں کے نزدیک اہم مقام نہیں تھا،اور ایسا اس کی ماں مراجل کی وجہ سے تھا جو اس کے محل کے پڑوس اور اس کے نوکروں میں سے تھی، لہٰذاوہ لوگ مامون کے ساتھ عام معاملہ کرتے تھے ، وہ اس کے بھا ئی امین کا بہت زیادہ احترام کر تے تھے ،کیونکہ اُ ن کی والدہ عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی ، لہٰذا مامون نے امام رضا (ع)کو اپنی ولیعہدی سونپ کر اپنے خاندان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی ۔

٢۔مامون نے امام(ع) کی گردن میں ولیعہدی کا قلادہ ڈال کر یہ آشکار کرنا چاہاتھا کہ امام (ع) دنیا کے زاہدوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ وہ ملک و بادشاہت اور سلطنت کے خواستگار ہیں،اسی بنا پر انھوں نے ولیعہدی قبول کی ہے، امام (ع) پر یہ سیاست مخفی نہیں تھی، لہٰذا آپ (ع) نے مامون سے یہ شرط کی تھی کہ نہ تومیں کسی کو کوئی منصب دوں گا ،نہ ہی کسی کو اس کے منصب سے معزول کریں گے، وہ ہر طرح کے حکم سے کنارہ کش رہوںگا امام کی اِن شرطوں کی وجہ سے آپ (ع) کازاہد ہونا واضح گیا۔

٣۔مامون کے لشکر کے بڑے بڑے سردار شیعہ تھے لہٰذا اس نے امام (ع) کو اپنا ولیعہد بنا کر اُن سے اپنی محبت و مودت کا اظہار کیا ۔

٤۔عباسی حکومت کے خلاف بڑی بڑی اسلامی حکومتوں میں انقلاب برپا ہو چکے تھے اور عنقریب اُس کا خاتمہ ہی ہونے والا تھا ،اور اُن کا نعرہ ''الد عوة الی الرضا من آل محمد ''تھا ،جب امام رضا (ع) کی ولیعہدی کے لئے بیعت کی گئی توانقلابیوں نے اس بیعت پر لبیک کہی اور مامون نے بھی اُن کی بیعت کی، لہٰذا اس طرح سے اُ س کی حکومت کودرپیش خطرہ ٹل گیا ،یہ ڈپلو میسی کا پہلا طریقہ تھا اور اسی طرح مامون اپنی حکومت کے ذریعہ اُن رونما ہونے والے واقعات پر غالب آگیا ۔

اِن ہی بعض اغراض و مقاصد کی وجہ سے مامون نے امام رضا (ع)کو اپنا ولی عہد بنایا تھا ۔

فضل کا امام رضا (ع) کو خط لکھنا

مامون نے اپنے وزیر فضل بن سہل سے کہا کہ وہ امام(ع) کو ایک خط تحریر کرے کہ میں نے آپ (ع)کو اپنا ولیعہدمقر ر کردیا ہے ۔خط کا مضمون یہ تھا :

علی بن مو سیٰ الرضا علیہما السلام کے نام جوفرزند رسول خدا (ص)ہیں رسول (ص) کی ہدایت کے مطابق ہدایت کر تے ہیں ،رسول کے فعل کی اقتدا کر تے ہیں ،دین الٰہی کے محافظ ہیں ،وحی خدا کے ذمہ دار ہیں ، اُ ن کے دوست فضل بن سہل کی جا نب سے جس نے اُن کے حق کو دلانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا اور دن رات اس راہ میں کو شش کی ، اے ہدایت کرنے والے امام (ع)آپ (ع) پر صلوات و سلام اور رحمت الٰہی ہو ، میں آپ (ع)کی خدمت میں اس خدا کی حمد بجالاتا ہوں جس کے سوا کو ئی معبود نہیں اور اس سے دعا کر تا ہوں کہ اپنے بندے محمد (ص) پر درود بھیجے ۔

اما بعد :

امید وار ہوں کہ خدا نے آپ(ع) کو آپ(ع) کا حق پہنچا دیا اور اُس شخص سے اپنا حق لینے میں مدد کی جس نے آپ(ع) کو حق سے محروم کر رکھا تھا، میں امیدوار ہوں کہ خدا آپ (ع)پر مسلسل کرم فرما ئی کرے ، آپ(ع) کو امام اور وارث قرار دے ،آپ (ع) کے دشمنوں اور آپ (ع) سے روگردانی کرنے والوں کو سختیوں میں مبتلا کرے ،میرا یہ خط امیر المو منین بندئہ خدا مامون کے حکم کی بنا پر پیش خد مت ہے میں آپ(ع) کو یہ خط لکھ رہا ہوں تاکہ آپ کا حق واپس کر سکوں ،آپ کے حقوق آپ(ع) کی خدمت میں پیش کر سکوں ، میں چا ہتا ہوں کہ اس طرح آپ (ع) مجھ کو تمام عالمین میں سعا دتمندترین قرار دیں اور میں خدا کے نزدیک کامیاب ہو سکوں ،رسول خدا (ص) کے حق کو ادا کر سکوں ،آپ (ع) کا معاون قرار پائوں ،اور آپ کی حکومت میں ہر طرح کی نیکی سے مستفیض ہو سکوں ، میری جان آپ پر فدا ہو ، جب میرا خط آپ تک پہنچے اور آپ مکمل طور پر حکومت پر قابض ہو جائیں یہاں تک کہ امیر المو منین مامون کی خدمت میں جاسکیں جو کہ آپ(ع) کو اپنی خلافت میں شریک سمجھتا ہے ،اپنے نسب میں شفیع سمجھتا ہے اور اس کو اپنے ما تحت پر مکمل اختیار حا صل ہے تو آپ (ع) ایسی روش اختیار کریں جس کی وجہ سے خیر الٰہی سب کے شامل حال ہو جائے اور ملائکہ ٔ الٰہی سب کی حفاظت کریں اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ آپ (ع) کے ذریعہ امت کی اصلاح کرے اور خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین ذمہ دارہے اور آپ (ع) پر خدا کا سلام اور رحمت و برکتیں ہوں۔(٣٤)

اس خط میں آپ (ع) کے کریم و نجیب القاب اوربلند و بالا صفات تحریر کئے گئے ہیں جس طرح کہ امام(ع) کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا ذکر کیا گیاہے ۔

یہ سب مامون کی مہربانی ا ور اس کی مشقتوں سے بنے ،مامون یہ چا ہتا تھا کہ امام (ع) بہت جلد خراسان آکر اپنی خلافت کی باگ ڈور سنبھال لیں ،امام (ع) نے اس خط کا کیا جواب دیاہمیں اس کی کو ئی اطلاع نہیں ہے جو عباسی حکومت کے ایک بڑے عہدے دار کے نام لکھا گیا ہواور اس سے بڑا گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ امام (ع) نے اپنے علم و دانش کی بناپر اس لاف و گزاف(بے تکے ) ادّعا اور عدم واقعیت کا جواب تحریر ہی نہ فرمایاہو ۔

مامون کے ایلچیوں کا امام (ع) کی خدمت میں پہنچنا

مامون نے امام رضا (ع)کو یثرب سے خراسان لانے کے لئے ایک وفد بھیجا اور وفد کے رئیس سے امام (ع)کو بصرہ اور اہواز کے راستے یاپھر فارس کے راستہ سے لانے کا عہد لیااور ان سے کہا کہ امام (ع)کو کوفہ اور قم (٣٥) کے راستہ سے نہ لیکر آئیں جس طرح کہ امام کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا بھی ذکر ہے ۔ (٣٦)

مامون کے اتنے بڑے اہتمام سے یہ بات واضح و آشکار تھی کہ امام(ع) کو بصرہ کے راستہ سے کیوں لایا جائے اور کو فہ و قم کے راستہ سے کیوں نہ لایا جائے ؟چونکہ کو فہ اور قم دونوں شہر تشیع کے مرکز تھے ،اور مامون کو یہ خوف تھا کہ شیعوں کی امام (ع)کی زیادہ تعظیم اور تکریم سے اُس کا مرکز اور بنی عباس کمزور نہ ہو جا ئیں ۔

وفد بڑی جد و جہد کے ساتھ یثرب پہنچا اُ س کے بعد امام کی خدمت میں پہنچ کر آپ(ع) کو مامون کا پیغام پہنچایا،امام نے جواب دینا صحیح نہیں سمجھا،آپ (ع)کو مکمل یقین تھا کہ مامون نے آپ(ع) کو خلافت اور ولی عہدی دینے کے لئے نہیں بُلایا ہے بلکہ یہ اُس کی سیاسی چال ہے اور اس کا مقصد آپ (ع)کا خاتمہ کرنا تھا ۔

امام (ع) زند گی سے مایوس ہو کر بڑے ہی حزن و الم کے عالم میں اپنے جد رسول اللہ (ص) کی قبر کی طرف آخری وداع کے لئے پہنچے ، حالانکہ آپ (ع) کے رُخِ انور پرگرم گرم آنسو بہہ رہے تھے ، مخول سجستا نی امام (ع)کی اپنے جد کی قبر سے آخری رخصت کے سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں: جب قاصدامام رضا (ع) کو مدینہ سے خراسان لانے کے لئے پہنچا تو میں مدینہ میں تھا ،امام اپنے جد بزرگوار سے رخصت ہونے کیلئے مسجد رسول میں داخل ہوئے اور متعدد مرتبہ آپ کو وداع کیا،آپ (ع) زار و قطار گریہ کر رہے تھے ،میں نے امام (ع)کی خدمت اقدس میں پہنچ کر سلام عرض کیا، آپ (ع) نے سلام کا جواب دیااور میں نے اُن کی خدمت میں تہنیت پیش کی تو امام (ع) نے فرمایا :مجھے چھوڑ دو ،مجھے میرے جد کے جوار سے نکالا جا رہا ہے ،مجھے عالم غربت میں موت آئے گی ، اور ہارون کے پہلو میں دفن کر دیا جا ئے گا ۔مخول کا کہنا ہے :میں امام (ع) کے ساتھ رہا یہاں تک کہ امام (ع) نے طوس میں انتقال کیا اور ہارون کے پہلو میں دفن کردئے گئے ۔ (٣٧)

خا نہ ٔخدا کی طرف

امام رضا (ع) خراسان جانے سے پہلے عمرہ کرنے کے لئے خانہ ٔکعبہ کے لئے چلے ،حالانکہ آپ (ع) کے ساتھ آپ کے خاندان کی بزرگ ہستیاں تھیں جن میں آپ (ع) کے فرزند ارجمند امام جواد محمد تقی (ع) بھی تھے ، جب آپ بیت اللہ الحرام پہنچے تو آپ (ع) نے طواف کیا ،مقام ابراہیم پر نماز ادا کی ،سعی کی اس کے بعد تقصیر کی، امام محمد تقی (ع) بھی اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ عمرہ کے احکام بجا لا رہے تھے، جب آپ (امام محمد تقی (ع))عمرہ کے احکام بجا لاچکے تو بڑے ہی غم و رنجیدگی کے عالم میں حجر اسماعیل کے پاس بیٹھ گئے ، امام رضا (ع) کے خادم نے آپ (ع)سے اٹھنے کے لئے کہا تو آپ (ع) نے انکار فرمادیا ،خادم نے جلدی سے جا کر امام رضا (ع) کو آپ (ع)کے فرزند ارجمند کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ (ع)خود (امام رضا (ع) )امام محمد تقی (ع) کے پاس تشریف لائے اور اُ ن سے چلنے کے لئے فرمایا ،تو امام محمد تقی (ع)نے بڑے ہی حزن و الم میں یوں جواب دیا :میں کیسے اٹھوں ،جبکہ اے والد بزرگوار میں نے خانۂ خدا کو خدا حافظ کہہ دیا جس کے بعد میں کبھی یہاں واپسی نہیںہوگی ''۔ (٣٨)

امام محمد تقی (ع)اپنے والد بزرگوار کو دیکھ رہے تھے کہ آپ (ع)کتنے رنج و الم میں ڈوبے تھے ،جس سے آپ (ع) پریہ بات ظاہر تھی کہ یہ میرے والد بزرگوار کی زند گی کے آخری ایام ہیں ۔

خراسان کی طرف

امام رضا (ع)خانہ ٔ خدا کو الوداع کہنے کے بعد خراسان کی طرف چلے ، جب آپ (ع) شہر بلد پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپ (ع) کا انتہا ئی احترام و اکرام کیا امام (ع) کی ضیافت اور ان کی خدمات انجام دیں جس پر آپ (ع)نے شہربلد والوں کا شکریہ ادا کیا ۔

امام (ع) نیشاپور میں

امام (ع)کا قافلہ کسی رکا وٹ کے بغیر نیشا پور پہنچا ،وہاں کے قبیلے والوں نے آپ کا بے نظیر استقبال کیا ، علماء اور فقہا آپ (ع) کے چاروں طرف جمع ہو گئے ،جن میں پیش پیش یحییٰ بن یحییٰ ،اسحاق بن راہویہ ،محمد بن رافع اور احمد بن حرب وغیرہ تھے ۔جب اس عظیم مجمع نے آپ (ع)کو دیکھا تو تکبیر و تہلیل کی آوازیں بلندکرنے لگے ، اور ایک کہرام برپا ہوگیا،علماء اور حفّاظ نے بلند آواز میں کہا :اے لوگو ! خاموش ہو جائو اور فرزند رسول (ص) کو تکلیف نہ پہنچا ئو ۔

جب لوگ خا موش ہو گئے تو علماء نے امام (ع) سے عرض کیا کہ آپ (ع) اپنے جد بزرگوار رسول اسلام(ص) سے ایک حدیث بیان فر ما دیجئے تو امام (ع) نے فرمایا :''میں نے مو سیٰ بن جعفر سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار جعفر بن محمد سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار محمد بن علی سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن الحسین (ع) سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار حسین بن علی سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن ابی طالب سے اور انھوں نے نبی اکرم (ص) سے نقل کیا ہے کہ خدا وند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :

'' لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حِصْنِیْ ،فَمَنْ قَالَھَا دَخَلَ حِصْنِیْ، وَمَنْ دَخَلَ حِصْنِیْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِیْ وَلٰکِنْ بِشُرُوْطِھَاوَأَنَا مِنْ شُرُوْطِھَا ''۔ (٣٩)

''لا الٰہ الّا اللہ میرا قلعہ ہے ،جس نے لا الٰہ اِلّا اللہ کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو گیا لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں اور اُن ہی شرطوں میں سے ایک شرط میں ہو ں''۔

اس حدیث کو بیس ہزار (٤٠) سے زیادہ افراد نے نقل کیا ،اس حدیث کو حدیث ذہبی کا نام دیا گیا چونکہ اس حدیث کو سنہر ی روشنا ئی (یعنی سونے کا پانی )سے لکھا گیا،سند کے لحاظ سے یہ حدیث دیگر تمام احادیث میں سے زیادہ صاحب عظمت ہے ۔

احمد بن حنبل کا کہنا ہے :اگر اس حدیث کو کسی دیوانہ پر پڑھ دیا جائے تو وہ صحیح و سالم ہو جا ئے گا ۔ (٤١)اور بعض ساما نی حکام نے یہ وصیت کی ہے کہ اس حدیث کو سونے کے پا نی سے لکھ کر اُ ن کے ساتھ اُن کی قبروں میں دفن کر دیا جائے ''۔ (٤٢)

مامون کا امام (ع) کا استقبال کرنا

مامون نے امام رضا (ع) کا رسمی طور پر استقبال کرنے کا حکم دیا ، اسلحوں سے لیس فوجی دستے اور تمام لوگ امام کے استقبال کے لئے نکلے ،سب سے آگے آگے مامون ،اس کے وزراء اور مشیر تھے ، اُس نے آگے بڑھ کر امام (ع) سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور بڑی گرمجوشی کے ساتھ مرحبا کہا ،اسی طرح اس کے وزیروں نے بھی کیا اور مامون نے امام (ع)کو ایک مخصوص گھر میں رکھا جو مختلف قسم کے فرش اورخدم و حشم سے آراستہ کیا گیا تھا۔

مامون کی طرف سے امام (ع)کو خلافت پیش کش

مامون نے امام (ع) کے سامنے خلافت پیش کی ،اس نے رسمی طور پر یہ کام انجام دیااور امام (ع) کے سامنے یوں خلافت پیش کر دی :اے فرزند رسول (ص) مجھے آپ (ع)کے فضل ، علم ، زہد ،ورع اور عبادت کی معرفت ہوگئی ہے ، لہٰذا میں آپ (ع)کو اپنی خلافت کاسب سے زیادہ حقدار سمجھتا ہوں ۔

امام (ع) نے جواب میں فرمایا:''میں دنیا کے زہد کے ذریعہ آخرت کے شر سے چھٹکارے کی امید کر تا ہوں اور حرام چیزوں سے پرہیز گاری کے ذریعہ اخروی مفادات کا امید وارہوں ،اور دنیا میں تواضع کے ذریعہ اللہ سے رفعت و بلندی کی امید رکھتا ہوں ۔۔۔''۔

مامون نے جلدی سے کہا :میں خود کو خلافت سے معزول کر کے خلافت آپ (ع) کے حوالہ کرناچا ہتا ہوں ۔

امام (ع) پر مامون کی باتیں مخفی نہیں تھیں ،اس نے امام (ع)کو اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی وجہ سے خلافت کی پیشکش کی تھی ،وہ کیسے امام (ع) کے لئے خود کو خلافت سے معزول کر رہا تھا ،جبکہ اُ س نے کچھ دنوں پہلے خلافت کے لئے اپنے بھائی امین کو قتل کیا تھا ؟

امام (ع) نے مامون کو یوں قاطعانہ جواب دیا :''اگر خلافت تیرے لئے ہے تو تیرے لئے اس لباس کو اُتار کر کسی دو سرے کو پہنانا جا ئز نہیں ہے جس لباس کو اللہ نے تجھے پہنایا ہے ،اور اگر خلافت تیرے لئے نہیں ہے تو تیرے لئے اس خلافت کو میرے لئے قرار دینا جا ئز نہیں ہے ''۔

مامون برہم ہو گیا اور غصہ میں بھرگیا ،اور اس نے امام (ع) کو اس طرح دھمکی دی :آپ (ع) کو خلافت ضرور قبول کر نا ہو گی ۔۔۔

امام (ع)نے جواب میں فرمایا :''میں ایسا اپنی خو شی سے نہیں کروںگا.۔۔''۔

امام (ع)کو یقین تھا کہ یہ اُس (مامون )کے دل کی بات نہیں ہے ، اور نہ ہی اس میں وہ جدیت سے کام لے رہا ہے کیونکہ مامون عباسی خاندان سے تھا جو اہل بیت (ع) سے بہت سخت کینہ رکھتے ،اور انھوں نے اہل بیت علیہم السلام کا اس قدر خون بہا یا تھا کہ اتنا خون کسی نے بھی نہیں بہا یا تھا تو امام اُس پر کیسے اعتماد کرتے ؟

ولیعہدی کی پیشکش

جب مامون امام (ع) سے خلافت قبول کرنے سے مایوس ہو گیا تو اس نے دوبارہ امام (ع) سے ولیعہدی کی پیشکش کی تو امام (ع) نے سختی کے ساتھ ولیعہدی قبول نہ کرنے کا جواب دیا ،اس بات کو ہوئے تقریباً دو مہینے سے زیادہ گزر چکے تھے اور اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آرہا تھا اور امام (ع) حکومت کا کو ئی بھی عہدہ و منصب قبول نہ کرنے پر مصر رہے ۔

امام (ع) کو ولیعہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا

جب مامون کے تمام ڈپلومیسی حربے ختم ہو گئے جن سے وہ امام (ع) کو ولیعہدی قبول کر نے کے لئے قانع کر نا چا ہتا تھا تو اُس نے زبر دستی کا طریقہ اختیار کیا ،اور اس نے امام (ع)کو بلا بھیجا ،تو آپ (ع)نے اُس سے فرمایا:''خدا کی قسم جب سے پروردگار عالم نے مجھے خلق کیامیں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔۔۔اور مجھے نہیں معلوم ،کہ تیرا کیا ارادہ ہے ؟''۔

مامون نے جلدی سے کہا : میرا کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔

''میرے لئے امان ہے ؟''

ہاں آپ (ع) کے لئے امان ہے ۔

''تیرا ارادہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں :''علی بن مو سیٰ (ع) نے دنیا میں زہد اختیار نہیں کیا،بلکہ دنیا نے ان کے بارے میں زہد اختیار کیا ،کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ انھوں نے خلافت کی طمع میں کس طرح ولیعہدی قبول کرلی ؟''۔

مامون غضبناک ہو گیا اور اُس نے امام (ع) سے چیخ کر کہا :آپ (ع) ہمیشہ مجھ سے اس طرح ملاقات کرتے ہیں جسے میں ناپسند کر تا ہوں ، اور آپ (ع) میری سطوت جانتے ہیں ،خدا کی قسم یا تو ولیعہدی قبول کرلیجئے ورنہ میں زبر دستی کروں گا ،قبول کر لیجئے ورنہ میں آپ (ع)کی گردن ماردوں گا ۔

امام (ع) نے خدا کی بارگاہ میں تضرّع کیا :''خدایا تونے مجھے خو دکشی کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں اس وقت مجبور و لاچار ہوچکا ہوں ، کیونکہ عبداللہ مامون نے ولیعہدی قبول نہ کرنے کی صورت میں مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے ،میں اس طرح مجبور ہو گیا ہوں جس طرح جناب یوسف (ع)اور جناب دانیال (ع)مجبور ہوئے تھے ،کہ اُن کو اپنے زمانہ کے جابر حاکم کی ولایت عہدی قبول کر نی پڑی تھی ۔

امام (ع) نے نہایت مجبوری کی بنا پرولی عہدی قبول کر لی حالانکہ آپ (ع) بڑے ہی مغموم و محزون تھے ۔

امام (ع)کی شرطیں

امام نے مامون سے ایسی شرطیں کیںجن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ (ع)کو اس منصب کے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔وہ شرطیں مندرجہ ذیل ہیں :

١۔آپ (ع) کسی کو ولی نہیں بنا ئیں گے ۔

٢۔کسی کو معزول نہیں کر یں گے ۔

٣۔کسی رسم و رواج کو ختم نہیں کریں گے ۔

٤۔حکومتی امور میں مشورہ دینے سے دور رہیں گے ۔

مامون نے اِن شرطوں کے اپنے اغراض و مقاصد کے متصادم ہونے کی وجہ سے تسلیم کر لیا، ہم نے اس عہد نامہ کی نص و دلیل اور شرطوں کواپنی کتاب ''حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا (ع) '' میں نقل کیا ہے۔

امام (ع) کی بیعت

مامون نے امام رضا (ع)کو ولی عہد منتخب کرنے کے بعد اُن کی بیعت لینے کی غرض سے ایک سیمینار منعقد کیاجس میں وزرائ، فوج کے کمانڈر،حکومت کے بڑے بڑے عہدیداراور عام لوگ شریک ہوئے ، اور سب سے پہلے عباس بن مامون ،اس کے بعد عباسیوں اور ان کے بعد علویوں نے امام (ع) کی بیعت کی ۔

لیکن بیعت کا طریقہ منفرد تھا جس سے عباسی بادشاہ مانوس نہیں تھے ،امام نے اپنا دست مبارک بلند کیا جس کی پشت امام (ع) کے چہرئہ اقدس کی طرف تھی اور اس کا اندرونی حصہ لوگوں کے چہروں کی طرف تھا ، مامون یہ دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا ،اور امام (ع) سے یوں گویا ہوا :آپ (ع) بیعت کے لئے اپنا ہاتھ کھولئے ۔

امام (ع) نے فرمایا :''رسول اللہ (ص) اسی طرح بیعت لیا کر تے تھے ''۔ (٤٣)

شاید آپ (ع) نے اپنے قول کو خدا کے اس قول سے نسبت دی ہو :

(یداللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ )۔ (٤٤)'' اُن کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے ''۔

لہٰذا بیعت کرنے والے کا ہاتھ نبی اور امام (ع) کے ہاتھ سے اوپر ہونا صحیح نہیں ہے ۔ (٤٥)

اہم قوانین

١۔مامون نے امام رضا (ع)کو ولی عہد منتخب کرتے وقت مندرجہ ذیل اہم قوانین معین کئے :

١۔ لشکر کو پورے سال تنخواہ دی جا ئے گی ۔

٢۔عباسیوں کو کالا لباس نہیں پہنا یا جا ئے گا بلکہ وہ ہرا لباس پہنیں گے ،چونکہ ہر ا لباس اہل جنت کا لباس ہے اور خداوند عالم کا فرمان ہے :( وَ یَلْبَسُونَ ثِیَابًا خُضْرًا مِنْ سُندُسٍ وَِسْتَبْرَق)۔(٤٦)

''اور یہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز لباس میں ملبوس ہوں گے ''

٣۔درہم و دینار پر امام رضا (ع)کا اسم مبارک لکھا جا ئے گا ۔

مامون کا امام رضا (ع) سے خوف

ابھی امام رضا (ع)کو ولی عہد بنے ہوئے کچھ ہی مدت گزری تھی کہ مامون آپ (ع)کی ولیعہدی کو ناپسند کرنے لگا،چاروں طرف سے افراد آپ (ع)کے گرد اکٹھا ہونے لگے اور ہر جگہ آپ (ع) کے فضل و کرم کے چرچے ہونے لگے ہر جگہ آپ (ع)کی فضیلت اور بلند شخصیت کی باتیں ہونے لگیں اورلوگ کہنے لگے کہ یہ خلافت کے لئے زیادہ شایانِ شان ہیں ،بنی عباس چور اور مفسد فی الارض ہیں ،مامون کی ناک بھویں چڑھ گئیں اس کو بہت زیادہ غصہ آگیا ،اور مندرجہ ذیل قانون نافذ کردئے :

١۔اُس نے امام کے لئے سخت پہرے دار معین کر دئے ،کچھ ایسے فو جی تعینات کئے جنھوں نے امام (ع)کا جینا دو بھر کر دیا اور نگہبانوں کی قیادت ہشام بن ابراہیم راشدی کے سپُرد کر دی وہ امام (ع)کی ہر بات مامون تک پہنچاتا تھا ۔

٢۔اُس نے شیعوں کو امام (ع)کی مجلس میں حا ضر ہو کر آپ (ع)کی گفتگو سننے سے منع کر دیا ،اس نے اِس کام کے لئے محمد بن عمر و طوسی کو معین کیا جو شیعوں کو بھگاتا اور ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا تھا ۔

٣۔علماء کو امام (ع)سے رابطہ رکھنے اور اُن کے علوم سے استفادہ کرنے سے منع کیا ۔

 

تحرير : شریف قرشی

________________________________________

١۔حیاةالامام رضا (ع)، جلد ١،صفحہ ١٠

٢۔نورالابصار، صفحہ١٣٨

٣۔عیون اخبار الرضا (ع)،جلد ٢صفحہ ١٧٨۔مناقب ،جلد ٤،صفحہ ٣٦١

٤۔کشف انعمہ، جلد٣ صفحہ١٠٧

٥۔ایک نسخہ میں الاعلم آیاہے

٦۔ حیاة الامام الجواد (ع)صفحہ٤٢

٧۔اعیان الشیعہ ،جلد٤ صفحہ٢٠٠

٨۔اصول کافی ،جلد١ صفحہ١١ ،وسائل، جلد١١ صفحہ١٦١

٩۔اعیان الشیعہ ،جلد٤ صفحہ١٩٦

١٠۔اصول کافی، جلد ٢صفحہ ١١١

١١۔تحف العقول ،صفحہ ٤٤٥

١٢۔تحف العقول ،صفحہ٤٤٥

١٣۔وسائل الشیعہ، جلد ١٨صفحہ ٩٢

١٤۔وسائل الشیعہ ،جلد ٨ صفحہ ٤٤٢

١٥۔وسائل الشیعہ ،جلد ٨ صفحہ٤٨٣

١٦۔در تنظیم ،صفحہ ٢١٥

١٧۔تاریخ یعقوبی ،جلد ٣صفحہ ١٨١

١٨۔بحارالانوار ،جلد ٧٨ صفحہ ٣٣٥

١٩۔تحف العقول ،صفحہ ٤٤٦

٢٠۔تحف العقول ،صفحہ ٤٤٦

٢١۔وسائل الشیعہ ،جلد ١٢ صفحہ ٥٨٧

٢٢۔وسائل الشیعہ ،جلد ٨ صفحہ ٥٦٣

٢٣۔ حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا (ع)، جلد ١صفحہ ٣٨

٢٤۔مناقب ،ج ٤ص ٣٣٣

٢٥۔مناقب ،جلد ٤صفحہ ٣٣٣

٢٦۔نزھة الجلیس ،جلد ٢صفحہ ١٠٧

٢٧۔جوہرة الکلام ،صفحہ ١٤٦

٢٨۔حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا (ع)، جلد ١صفحہ ٣٩

٢٩۔الاتحاف بحب الاشراف، صفحہ ٥٩

٣٠۔حیاةالامام محمد تقی علیہ السلام ،صفحہ ٤٠۔

٣١۔حیاةالامام علی بن مو سی الرضا (ع)، جلد ١صفحہ ٣٥۔

٣٢۔مناقب ،جلد ٤، صفحہ ٣٦١

٣٣۔سورئہ ذاریات، آیت ١٧

٣٤۔حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا (ع)، جلد ٢صفحہ ٢٨٤

٣٥۔عیون اخبار الرضا ،ج ٢ص ١٤٩۔حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا (ع) ، ج٢ص ٢٨٥

٣٦۔حیاةالامام علی بن موسیٰ الرضا (ع)،جلد ٢،صفحہ ٢٨٥۔اعیان الشیعہ ،جلد ٢صفحہ١٨

٣٧۔اعیان الشیعہ ،جلد ٤،صفحہ ١٢٢،دو سرا حصہ

٣٨۔حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا (ع) ، جلد ٢،صفحہ ٢٨٧

٣٩۔عیون اخبار الرضا، جلد ٢صفحہ ١٥٣۔علماء کے نزدیک اس حدیث کی بڑی اہمیت ہے ،اور انھوں نے اس کو متواتر اخبار میں درج کیا ہے

٤٠۔اخبار الدول، صفحہ ١١٥

٤١۔صواعق المحرقہ، صفحہ ٩٥

٤٢۔اخبار الدول ،صفحہ ١١٥

٤٣۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ٤٥٥

٤٤۔سورئہ فتح ،آیت ١٠

٤٥۔حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا (ع)،جلد ٢،صفحہ ٣٠٣

٤٦۔سورئہ کہف ،آیت ٣١