Super User

Super User

Monday, 17 September 2012 07:51

سینٹ پیٹرز برگ مسجد

سینٹ پیٹرز برگ مسجد (روسی:Санкт-Петербу́ргская мече́ть) روس کے شہر اور سابق دارالحکومت سینٹ پیٹرز برگ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

جب 1913ء میں اس مسجد کا افتتاح ہوا تو اس کو یورپ کی سب سے بڑی مسجد کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

اس کے میناروں کی بلندی 48 میٹر ہے جبکہ گنبد 39 میٹر بلند ہے۔ اس میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

اس مسجد کا سنگ بنیاد 1910ء میں بخارا میں عبد الاحد خان کے اقتدار کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھا گیا۔

اس مسجد کو امیر بخارا کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا کیونکہ انہوں نے اس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات اپنے ذمے لیے تھے۔

اُس وقت روسی دارالحکومت میں مسلمانوں کی تعداد 8 ہزار تھی اور یہ مسجد اس کی اکثریت کو اپنے اندر سمو سکتی تھی۔

ماہر تعمیرات الیگزینڈر وان گوگن نے مسجد کو سمرقند میں واقع امیر تیمور کے مقبرے "گور امیر" سے ملتے جلتے انداز میں تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر 1921ء میں مکمل ہوئی۔

خواتین کے لیے نماز کی جگہ مسجد کی دوسری منزل پر واقع ہے جبکہ حضرات پہلی منزل پر عبادت کرتے ہیں۔

مسجد کو دوسری جنگ عظیم کے دوران 1940ء سے 1956ء تک عبادت کے لیے بند کر کے ایک گودام میں تبدیل کر دیا گیا۔

1956ء میں دورۂ سینٹ پیٹرز برگ کے موقع پر انڈونیشیا کے پہلے صدر سوئیکارنو کے مطالبے پر مسجد کو واپس مسلمانوں کی تحویل میں دے دیا گیا۔

1980ء میں مسجد میں تعمیر نو کا کام کیا گیا۔

نام

آپ کا اسم مبارک ""فاطمہ"" ہے۔

لقب

آپ کا مشہور لقب ""معصومہ"" ہے۔

والد

آپ کے پدر بزرگوار شیعوں کے ساتویں امام ""حضرت موسی بن جعفر(ع) ہیں۔

والدہ

آپ کی مادر گرامی"" حضرت نجمہ خاتون"" ہیں اور یہی بزرگوار خاتون آٹھویں امام کی بھی والدہ محترمہ ہیں ۔ بس اسی وجہ سے حضرت معصومہ(س) اور امام رضا(ع) ایک ماں سے ہیں۔

تاریخ و محل ولادت

آپ کی ولادت با سعادت اول ذیقعدہ سال ۱۲۳ھجری قمری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔

ابتدائی زندگی

ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ بچپنے ہی میں آپ اپنے شفیق باپ کی شفقت سے محروم ہوگئیں ۔ آپ کے والد کی شہادت ہارون کے قید خانے بغداد میں ہوئی ۔

باپ کی شہادت کے بعد آپ اپنے عزیز بھائی حضرت علی بن موسی الرضا (ع) کی آغوش تربیت میں آگئیں ۔

۲۰۰ہجری میں مامون عباسی کے بے حد اصرار اور دھمکیوں کی وجہ سے امام (ع) سفر کرنے پر مجبور ہوئے امام (ع) نے خراسان کے اس سفر میں اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہ لیا ۔

خراسان روانگی

امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ (س) نے بھی وطن کو الوداع کہا اور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ خراسان کی جانب روانہ ہوئیں۔

ہر شہر اور ہرمحلے میں آپ کا والہانہ استقبال ہو رہا تھا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب (س) کی سیرت پرعمل کرکے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی کی غربت مومنین اور مسلمانوں تک پہنچا رہی تھیں اور اپنی و اہلبیت کی مخالفت کا اظہار بنی عباس کی فریبی حکومت سے کررہی تھیں۔

حکومت وقت سے محاذ آرائی

یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہنچا تو کچھ دشمنان اہل بیت (ع) جن کے سروں پر حکومت کا ہاتھ تھا راستے میں حائل ہوگئے اور حضرت معصومہ (س) کے کاروان سے ان بد کرداروں نے جنگ شروع کردی ۔ نتیجتاً کاروان کے تمام مردوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ یہاں تک کہ ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ (س) کو بھی زہر دیا گیا ۔

قم روانگی

بہر کیف حضرت معصومہ (س) اس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہوگئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفرکو جاری و ساری رکھنا نا ممکن ہوگیا لہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیا اور آپ نے پوچھا اس شہر(ساوہ) سے شہر قم کتنا فاصلہ ہے؟ اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے فرمایا: مجھے قم لے چلو اس لئے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ انھوں نے فرمایا :

"شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے"

اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوتے ہی بزرگان قم کے درمیان ایک خوشی کی لہرسی دوڑ گئی اور وہ سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑ پڑے۔ موسی بن خزرج جو کہ اشعری خاندان کے بزرگ تھے انھوں نے آپ کی مہار ناقہ کو آگے بڑھ کر تھام لیا۔ اور بہت سے لوگ جو سوار اور پیادہ تھے پروانوں کی طرح اس کاروان کے ارد گرد چلنے لگے۔۲3 ربیع الاول سال ۲۰۱ ہجری وہ عظیم الشان تاریخ تھی جب آپ کے مقدس قدم قم کی سرزمین پر آئے ۔ پھر اس محلّے میں جسے آج کل ""میدان میر"" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حضرت کی سواری موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی نتیجتاً آپ کی میزبانی کا عظیم شرف موسی بن خزرج کو مل گیا۔ معصومہ(س) کی جائے عبادت اور قیامگاہ مدرسہ ستیہ جو آج کل ”بیت النور “ کے نام سے مشہور ہے جو اب حضرت (س) کے عقیدت مندوں کی زیارتگاہ بنی ہوئی ہے۔

وہ احادیث جو حضرت معصومہ(س) سے منقول ہیں

حدثتنی فاطمۃ و زینب و ام کلثوم بنات موسی بن جعفر قلن : ۔۔۔ عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و رضی عنہا : قالت : ”انسیتم قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یوم غدیر خم ، من کنت مولاہ فعلی مولاہ و قولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی“

اس حدیث کو حضرت فاطمہ معصومہ(س) امام صادق(ع) کی بیٹی سے نقل کرتی ہیں ۔ اس حدیث کی سند کا سلسلہ حضرت زہرا(س) پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔

حضرت فاطمہ زہرا(س) نے فرمایا : کیا تم نے فراموش کردیا رسول خدا(ص) کے اس قول کو جسے آپ نے غدیر کے دن ارشاد فرمایا تھا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع)مولا ہیں ۔

اور کیا تم نے رسول خدا(ص) کے اس قول کو فراموش کردیا کہ آپ(ص) نے علی(ع) کے لئے فرمایا تھا کہ آپ(ع) میرے لئے ایسے ہیں جیسے موسی(ع) کے لئے ہارون(ع) تھے۔(عوالم العلوم، ج/۲۱ ، ص/353)

عن فاطمۃ بنت موسی بن جعفر علیہ السلام :

۔۔۔ عن فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم : قالت :

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :

«اٴلا من مات علی حب آل محمد مات شہیداً »

حضرت فاطمہ معصومہ(س) اسی طرح ایک اور حدیث حضرت امام صادق(س) کی بیٹی سے نقل کرتی ہیں اور اس حدیث کا سلسلہ سند بھی حضرت زہرا(س) پر اختتام پزیر ہوتا ہے ۔

حضرت زہرا(س) نے فرمایا کہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: آگاہ ہوجاوٴ کہ جو اہل بیت (ع) کی محبت پر اس دنیا سے اٹھتا ہے وہ شہید اٹھتا ہے ۔

مرحوم علامہ مجلسی شیخ صدوق سے حضرت معصومہ(س) کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایت نقل فرماتے ہیں :

قال ساٴلت ابا الحسن الرضا علیہ السلام عن فاطمۃ بنت موسی ابن جعفر علیہ السلام قال : ” من زارہا فلہ الجنۃ

راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت فاطمہ معصومہ(س) کے بارے میں امام رضا (ع) سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جو شخص ان کی قبر اطہر کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوجائے گی۔

Monday, 17 September 2012 05:19

منگالیہ مسجد - رومانيه

منگالیہ مسجد رومانیہ کی قدیم ترین مسجد ہے۔

اس مسجد کو عثمانی سلطان سلیم ثانی کی صاحبزادی اسمہان نے 1525ء میں تعمیر کرایا تھا اور ان کے نام سے اسے اسمہان سلطان مسجد بھی کہا جاتا ہے۔

منگالیہ میں واقع یہ مسجد 800 سے زائد مسلم خاندانوں کا مرکزہے جن کی اکثریت ترک اور تاتار نسل سے تعلق رکھتی ہے۔

1990ء کی دہائی میں اس کی تعمیر نو کی گئی۔

مسجد سے ملحق ایک قبرستان بھی ہے جس میں 300 سال قدیم مزارات بھی واقع ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرثقافت نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند حضرت امام رضا علیہ السلام کے نام سے ہونے والا دسواں بین الاقوامی فیسٹیول ایران کے اکتیس صوبوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے اڑتالیس ملکوں میں بھی منعقد ہوگا۔ وزیر ثقافت سید محمد حسینی نے کہا کہ امام رضا علیہ السلام کے نام سے شروع ہونے والا فیسٹیول اٹھارہ ستمبر کو قم میں فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے روضہ اقدس سے شروع ہوکر اٹھائيس ستمبر کو حضرت امام رضا علیہ السلام کے روز ولادت باسعادت کو مشہد مقدس میں اختتام پذیر ہوگا۔

وزیرثقافت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں امریکی اور صیہونی حلقوں کی گستاخی کی مذمت کرتےہوئے کہا کہ اھل فن و ہنر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی نورانی چہرے کو اجاگر کرنے کے لئے فن و آرٹ نیز حقیقی محمدی اسلام کا سہارا لینا چاہیے۔

حزب اللہ لبنان کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ امریکی فلم جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئي ہے مسلمانوں سے امریکہ کی دشمنی کی علامت ہے۔

المنار ویب سائٹ کے مطابق حزب اللہ کی مجلس عاملہ کے نائب سربراہ شیخ نبیل قاووق نے جنوبی لبنان کے شہر بنت جبیل میں ایک وفد سے ملاقات میں کہا کہ امریکہ کا نفاق اس وقت پوری طرح کھل کر سامنے آجاتا ہے جب کوئي ہولوکاسٹ کے بارے میں شک و تردید کا اظہار کرتا ہے اسے سزا سے چھٹکار نہیں ملتا لیکن جب کوئي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے تو امریکی وزیر خارجہ یہ کہتی ہیں کہ وہ آزادی بیان کے تعلق سے کوئي کام نہیں کرسکتیں۔

شیخ نبیل قاووق نے کہا کہ عرب اور اسلامی ملکوں میں مسئلہ فلسطین کو ترجیح حاصل ہے اور جس تجویز میں فلسطین نہ ہو وہ ناکارہ ہے۔ انہوں نے فلسطین پر صیہونی قبضے کے جاری رہنے کو عربوں کے وقار کی توہین قراردیا۔ انہوں نے شام سے تعلقات منقطع کرنے والے ملکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان ملکوں کو صیہونی حکومت سے تعلقات بڑھانے کا بھی حق نہیں ہے۔

 

 

پاکستان کی خاتون اول " نصرت پرویز اشرف" نے اس ملک کی خواتین کو پردہ رکھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی پردہ ، خواتین کی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے –

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم کی اہلیہ بیگم " نصرت پرویز اشرف" نے جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منعقدہ "حجاب کانفرنس" میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حجاب عورت کا تحفظ اور معاشرے کی پاکیزگی و تطہیر کا ضامن ہے، یہ عورت کا فطری حق اور مسلمان عورت کا دینی فریضہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے حیاء و حجاب کے تقدس میں عورت کو محفوظ اور قابل احترام بنا ہے-انہوں نے کہا کہ آج مسلمانوں میں حجاب کے بنیادی کردار سے چشم پوشی کا رجحان دکھائی دیتا ہے مگر خاندانی نظام کے تحفظ کیلئے ہمیں حیاء کے تحفظ کو معاشرے میں عام کرنے کی ضرورت ہے-

بیگم نصرت پرویز اشرف نے مزید کہا کہ مسلم خواتین اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہوئے معاشرے میں اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرسکتی ہیں – انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ مسلم خواتین دنیا کو یہ دکھا دیں کہ اسلامی حجاب خواتین کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور انکی ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے –

Sunday, 16 September 2012 05:56

ماں اور اس کی ذمہ داریاں

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

 

دستور زمانہ اور لافانی حقیقت ہے کہ دنیا کی سبھی قوموں کا قیمتی سرمایہ "بچے‘‘ ہوا کرتے ہیں ۔ اگر اس وقت وہ گود کا کھلونا ہیں تو آگے چل کر وہی مستقبل کے معمار بنیں گے۔ ماں کی گود بچے کی درسگاہ اول ہے۔ اسی عظیم درسگاہ سے وہ اخلاق حسنہ، اطاعت و فرمانبرداری اور دنیا میں زندگی گزارنے کے سلیقے، ڈھنگ اور طور طریقے لے کر معاشرے کا حصہ بنتا ہے۔ اس لئے ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت اس طرز پر کرے کہ ان کے رگ و ریشہ میں دین کی روح پھونک دے اس کے لئے ضروری ہے کہ ماں از خود صفات کاملہ کی حامل ہو اس لئے کہ بچہ جیسے ماں کو دیکھے گا ویسا ہی بننے کی کوشش کرے گا۔ ماں تو کہتے ہی اسے ہیں جس میں ہمدردی، خیر خواہی، ایثار نصیحت و برداشت اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ ماں کو جتنی عظمت خداوند تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھی وہ انہی قربانیوں کے پیش نظر دی ہے۔ ماں اپنے اندر باپ سے کئی گنا زیادہ دلسوزی، دردمندی اور خیر خواہی کے جذبات رکھتی ہے اور تلخ کلامی اور سخت بیانی سے کوسوں دور رہتی ہے۔ ماں اپنی منزل کہکشاں سے ہوکر نہیں کانٹوں اور پتھروں سے گزر کر حاصل کرتی ہے۔ لہذا اسی اہمیت اور افادیت کے پیش مثالی ماں کے عنوان سے چند اصول و قوانین پر مشتمل مضمون قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے۔

 

1۔ بچوں کو سلام کرنے کی عادت ڈالنا

ماں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو سلام کرنا سکھائے کہ جب بچہ کسی سے ملاقات کرے یا کسی کا فون آئے تو بجائے ہیلو کے سب سے پہلے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا :

وَإِذَا حُيِّيْتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا (النساء، 4 : 86)

"اور جب (کسی لفظ) سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم (جواب میں) اس سے بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی (الفاظ جواب میں) لوٹا دیا کرو‘‘۔ (ترجمہ عرفان القرآن)

اس آیت میں اللہ رب العزت نے سلام اور اس کے جواب کے آداب بتلائے ہیں۔ لہذا مسلمان مائیں اپنی اولاد کی تربیت کریں کہ وہ اس کلمہ کو رسمی طور پر عام لوگوں کی طرح ادا نہ کریں بلکہ اس کی حقیقت کو سمجھ کر اختیار کریں اور سلام کو پھیلانا اپنی عادت بنا لیں۔ کیونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

لَاتَدْخُلُوْنَ الْجَنَّة حَتّٰی تُوْمِنُوْا وَلَا تُوْمِنُوْا حَتّٰی تَجَابُّوْا، اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَئْیٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْهُ تَحَابَبْتُمْ؟ اَفْشُوْا السَّلَامَ بَيْنَکُمْ (رواه مسلم و ترمذی)

"تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک مومن نہ ہو اور تمہارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرو، میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تمہاری آپس میں محبت قائم ہوجائے گی۔ وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرو (یعنی کثرت سے ایک دوسرے کو سلام کیا کرو)

 

2۔ مامتا کی شفقت

ایک ماں اپنے خاندان کی روح رواں ہوتی ہے۔ اسی کے وجود سے گھر کا تمام نظام قائم رہتا ہے۔ اگر ماں باپ نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہو تو خواہ سب افراد خاندان مل کر رہیں، یا الگ الگ، اس خاندان کی ساکھ، بھرم اور نظم و ضبط کو قائم رکھا جاسکتا ہے ایسے خاندان کا ہر فرد برا وقت پڑنے پر یا کسی اور آزمائش کے وقت میں تندہی سے جم کر اس صورتحال کا سامنا کرتا ہے اور خاندان کی خصوصاً "ماں‘‘ کی بلند ہمتی کو ہر قیمت پر برقرار رکھتا ہے۔

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا، موج حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہوجائے

مامتا کی شفقت مثالی ہے اگر کسی ماں کو بچوں پر بہت غصہ آتا ہو اور وہ اپنے اندر شفقت کا جذبہ پیدا نہ کر پاتی ہو تو ایسی ماں کو چاہئے کہ دو رکعت صلوۃ الحاجت کی نیت سے پڑھ کر دعا مانگیں اے میرے مالک میرے اندر یہ جذبہ پیدا فرما دے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا محاسبہ کرے کہ اگر میں شفقت اور محبت سے ان کی تربیت کروں گی تو اس پر مجھے اللہ تعالیٰ بہت ہی زیادہ اجرعطا فرمائیں گے۔ میری موت کے بعد میرے بچے میرے لئے صدقہ جاریہ ہوں گے اور سب سے بڑی بات کہ اللہ رب العزت مجھ سے راضی ہوں گے۔

 

3۔ بے جا لاڈ پیار بچے کے لئے نقصان دہ

سب مائیں یقینا اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی ہیں یہی پیار و محبت بعض بچوں کو مستقبل میں برا آدمی بنا دیتا ہے جس کی وجہ موقع محل کی پہچان اور عدم پہچان ہے کہ بچے شرارتیں کرتے ہیں ان کو پیار اور محبت سے بات سمجھائی جائے جیسے کھانا اگر بچہ ضائع کر رہا ہے تو اس کو سمجھانا چاہئے کہ اس طرح اللہ پاک کی ناشکری ہوگی اور اگر اللہ پاک ہم سے ناراض ہوگئے تو پھر جتنی چیزیں ہمیں دی ہیں وہ واپس لے لیں گے۔ لہذا آپ ایسی حرکت آئندہ نہ کرنا۔ اگر بچہ کی بے جا شرارتوں اور غلط حرکات کو بروقت حکمت کے ساتھ سدھارا نہیں گیا تو بچے کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔

 

4۔ بچوں کی ضد

ضد اور ہٹ دھرمی کی عادت بہت بری ہے ماں باپ اگر بچوں کی خیر خواہی اور بھلائی چاہتے ہوں تو ان کی یہ ذمہ داری اور فرض ہے کہ بچے میں ضد کی خصلت پیدا ہوتے ہی اس کو دبا دیں اگر ایسا نہ کریں گے تو بچہ بھی ہاتھ سے جائے گا اور خود بھی مصیبت میں پھنس جائیں گے مثلاً اگر بچہ نقصان دہ چیز مانگنے کی ضد کر رہا ہے تو اس کا نقصان اس کو سمجھائیں اور کسی دوسرے کام میں مشغول کر دیں۔ اگر دو چار مرتبہ اس کی بے جا ضد پوری نہ کی گئی تو وہ سمجھ جائے گا کہ رونے دھونے اور ضد کرنے سے کچھ نہیں ہوگا اور پھر وہ اپنی عادت ان شاء اللہ چھوڑ دے گا۔

 

5۔ بچوں کی نفسیات کا مطالعہ

ماں بچے کی حرکات و سکنات اور اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اس طرح ماں کو معلوم ہوگا کہ بچے کا قد اور وزن پچھلے ماہ کے مقابلے میں کتنا بڑھا ہے۔ سکول کے مختلف مضامین میں اس کی پراگرس کیا ہے۔ وہ کون سا کھیل پسند کرتا ہے؟ دوستوں کے ساتھ اس کے مراسم کیسے ہیں؟ پسندیدہ مضمون کونسا ہے؟ فارغ وقت میں کیا کرتا ہے؟ ماں کے ساتھ اس کا دوستانہ تعلق ہونا چاہئے۔ بہترین تربیت کے حوالے سے بچے کی عمر کے لحاظ سے والدین کو باہم مشاورت ضرور کرنی چاہئے۔

 

6۔ بچوں کی خود مختاری

ہر بچے کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ لوگوں میں اس کی حیثیت ممتاز ہو اور وہ اپنے گھر میں نمایاں مقام رکھتا ہو۔ اس تقاضا کے تحت وہ مشکل سے مشکل کام بھی سر انجام دے لیتا ہے بچہ جیسے جیسے شعوری پختگی اختیار کرتا جاتا ہے اس میں عزت نفس اور خودداری کا احساس تقویت پاتا ہے۔ قدرت نے تمام انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اس لئے ہر بچہ اپنی انفرادیت کا خواہاں ہوتا ہے۔ بچے کی خودمختاری اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے متوازن اور مناسب رویہ اختیار کریں نہ اس قدر آزادی دیں کہ بچہ شرم و حیاء اور اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرے اور نہ ہی اتنا دبایا جائے کہ دیواریں پھلانگنے پر مجبور ہوجائے۔

 

7۔ بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت و دعا

عقل مند اور تجربہ کار عورتیں اپنی اولاد کی تربیت پر نظر رکھتی ہیں ان کو انسان بنانے کی کوشش کرتی ہیں حسنِ خوبی اور سلیقہ سے، پیار و محبت سے تربیت کرتی ہیں۔ آمدنی تھوڑی ہونے کے باوجود حسن انتظام سے گھر چلاتی ہیں۔ بچوں کی تربیت کا مرحلہ اتنا اہم ہے کہ اس کی ابتدا ماں کے پیٹ سے شروع ہوجاتی ہے جس قسم کے خیالات و نظریات اور رجحانات ماں کے ہوں گے وہی خیالات لیکر بچہ دنیا میں آتا ہے۔ بہر حال یہ بات ضرور ہے کہ بچوں کے پیدا ہونے کے بعد ان کی اصلاح ماں کے اختیار میں ہے۔

بچپن سے ماں کو چاہئے بچوں کے لئے دعا مانگنے کا اہتمام کرے۔ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے بھی دعا مانگے۔ ان کے اچھے رشتے، ان کی روزی میں برکت اور زندگی میں صحت و عافیت کی بھی دعا مانگیں۔

 

8۔ بچوں کو خوش رکھنے کی فضیلت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ان فی الجنة دار يقال لها دارالفرح لايدخلها الا من فرح الاطفال. (کنزالعمال)

"جنت میں ایک گھر ہے جسے دارالفرح (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اپنے بچوں کو خوش رکھتے ہیں‘‘۔

اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کو خوش رکھنا اللہ کی رضا مندی کا سبب بھی ہے۔ بچوں کو خوش رکھنے کے کئی طریقے ہیں مثلاً بچوں کے ساتھ کبھی کبھار ان کے کھیل میں شریک ہونا۔ ان کی جائز و ننھی خواہشات کا پورا کرنا، ان کے ساتھ اچھے اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آنا کبھی کبھار کوئی ایسا لطیفہ سنانا جس سے وہ خوش ہوکر بے اختیار ہنس پڑیں لیکن مزاح میں بھی جھوٹ کا دخل نہ ہو۔ اس کا سبق بھی ہمیں سیرت پاک سے ملتا ہے کہ آقا علیہ السلام سے ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت نے کہا کہ میرے لئے دعا فرما دیں کہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جنت میں تو بوڑھوں کا داخلہ نہیں ہوگا اس پر وہ رونے لگی آپ مسکرا پڑے اور فرمایا جنت میں سب مرد و عورت جوان ہوکر داخل ہونگے۔ اگر اس طرح کا مزاح ہو جس میں نہ کسی کی دل آزاری ہو نہ جھوٹ کا دخل ہو تو بچے تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے خوش اخلاقی اور خندہ روی کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔

یاد رکھئے بچوں کی تعلیم محض بڑے سکولوں میں داخلہ دلوا دینا یا محض اچھا نصاب پڑھا دینا نہیں ہے۔ تعلیم محبت، ہمدردی، سچائی، خدمت خلق اور تہذیب و ادب سکھانے کا نام ہے۔

 

9۔ بچوں کو نصیحت کرنا

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دس باتوں کی وصیت فرمائی اس میں سے آخری دو یہ ہیں۔

وَلَا تَرْفَعُ عَنْهمْ عَصَاکَ اَدْبًا وَاَخْفِهِمْ فِی اللّٰه. (احمد والطبرانی)

"تنبیہ کے واسطے ان پر سے لکڑی نہ ہٹانا اور اللہ رب العزت

سے ان کو ڈراتے رہنا‘‘۔

اس حدیث کی شرح کچھ یوں ہے کہ لکڑی نہ ہٹانے سے مراد ہے کہ اس سے بے فکر نہ ہوں کہ انہیں حدود شرعیہ کے تحت میں کبھی کبھار مارنے کی ضرورت بھی پیش آئے تو تنبیہ و نصیحت کے واسطے ہوسکتا ہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بچوں کی نماز کی نگرانی کیا کرو اور اچھی باتوں کی ان کو عادت ڈالو۔ حضرت لقمان حکیم کا ارشاد ہے کہ باپ کی مار اولاد کے لئے ایسی ہے جیسا کہ کھیتی کے لئے پانی۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو تنبیہ کرے یہ ایک صاع صدقہ سے بہتر ہے اور ایک صاع تقریباً ساڑھے تین کلو غلہ کا ہوتا ہے۔

 

10۔ بچوں کی تربیت کا مسنون طریقہ

کتب احادیث میں آقا علیہ السلام کا بچوں کو تربیت دینے کا ایک واقعہ لکھا ہے۔

حضرت رافع ابن عمرو غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر پھینکا کرتا تھا (ایک دن) انصار مجھے پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا لڑکے تو کھجوروں کے درخت پر پتھر کیوں پھینکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کھجوریں کھاتا ہوں (یعنی کھجوریں کھانے کے لئے ان کے درختوں پر پتھر مارتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹے! پتھر نہ پھینکا کر بلکہ وہاں جو کھجوریں درخت کے نیچے گری پڑی ہوں ان کو کھا لیا کر۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا! اے اللہ تو اسے سیر فرما۔ آقا علیہ السلام نے ہمیں اپنی سنت کے ذریعے بات سمجھا دی اور سب سے پہلے اس کی وجہ پوچھی جائے۔

پھر نہایت شفقت کے ساتھ نصیحت فرمائی دیکھئے بچے کی کھجوریں کھانے کی خواہش بھی پوری ہوگئی اور جو لوگوں کو تکلیف تھی کہ ان کے درختوں پر پتھر پڑتے تھے جس سے اور کھجوریں بھی خراب ہوتی تھیں وہ بھی دور ہوگئی۔

 

11۔ بچوں کیلئے نیک صحبت کا انتخاب

آقا علیہ السلام نے فرمایا : انسان اپنے دوست کے طریقہ پر ہوتا ہے۔ اس لئے تم میں سے ہر شخص یہ دیکھ لے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ ماں کو چاہئے کہ جب انکے بچے سن شعور میں قدم رکھیں تو ان کے لئے ایسے نیک صالح اور سمجھدار ساتھیوں کا انتخاب کرے جو انہیں اسلام کی حقیقت سمجھائیں اور ایسی بنیادی باتیں سکھائیں جو ہر چیز پر محیط ہیں۔

بالغ بچوں کو شرعی مسائل کی تعلیم

ہمارے معاشرے میں بچوں کو شرعی مسائل کی تعلیم کے حوالے سے اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ماں اور باپ اپنے بچوں سے شرم و حجاب میں ان کو ضروری شرعی مسائل تک سے ناواقف رکھتے ہیں لہذا ہونا یوں چاہئے کہ جیسے ہی والدین محسوس کریں کہ اولاد بالغ ہونے کے قریب ہے اور ان میں دینی و شرعی مسائل سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے تو وہ انہیں نہایت حکمت سے کچھ ضروری باتیں سمجھا دیں۔

تحریر: خانزادہ

آیت اللہ جعفر سبحانی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ شیعوں پر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کو کافر کہنے کی بہت بڑی تہمت لگائی جاتی ہے ، کہا: شیعوں نے کبھی بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اصحاب کو کافرنہیں کہا ہے ، بلکہ شیعہ ، آنحضرت (ص) کے اصحاب کو دوست رکھتے ہوئے اور ان کا احترام کرتے ہیں ۔

آیت اللہ سبحانی نے مدرسہ عالی فقہ میں سورہ ''حشر'' کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا: غلط پروپیکنڈہ کے برخلاف شیعہ بھی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے اصحاب کو دوست رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ بعض لوگوں نے شیعوں پر جھوٹی تہمت لگائی ہے کہ شیعہ صحابہ کو کافر کہتے ہیں ۔

آپ نے مزید فرمایا: تکفیر ایک الگ مسئلہ ہے اور عدالت دوسرا مسئلہ ہے ، ان دونوں کو ایک دوسرے سے نہیں ملانا چاہئے ،شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ صحابہ کے درمیان ٧٠ فی صدسے زیادہ صحابی متقی اور عادل ہیں ، لیکن کچھ صحابہ عادل نہیں ہیں اور عدالت کا نہ ہونا تکفیر سے بالکل جدا ہے ۔

آیت اللہ سبحانی نے کہا : شیعہ کس طرح صحابہ کو تکفیر کرسکتے ہیں جب کہ شیعوں کی نظر میں ١٥٠ سے زیادہ صحابی حضرت علی (علیہ السلام) کے شیعہ ہیں، اس بناء پر جو سائٹیں اور چینلز شیعوں پر تہمت لگاتے ہیں ان کو خدا وند عالم سے ڈرنا چاہئے اور یہ جھوٹی باتیں بیان نہیں کرنا چاہئے ۔

ان مرجع تقلید نے اہل سنت کی کتابوں جیسے ''صحیح بخاری'' میں مندرج بعض روایتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: صحیح بخاری کی بعض روایات میں صحابہ کے مرتد ہونے پر تصریح کی گئی ہے ، لہذا جو لوگ شیعوں پر ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ان کو اپنی کتابوں میں مراجعہ کرنا چاہئے اور ان کی اصلاح کرنا چاہئے کہ انہوں نے مرتد ہونے کی باتیں کیوں نقل کی ہیں ۔

آپ نے تاکید کرتے ہوئے کہا: شیعوں نے کبھی بھی صحابہ کے مرتد ہونے کی بحث کو بیان نہیں کیا ہے اور ان کے کافر ہونے کی باتوں کو کبھی بھی کسی کے سامنے پیش نہیں کیا ہے ، البتہ بعض روایات میں صحابہ کے مرتد ہونے کی طرف اشارہ ہوا ہے اور یہ اشارہ ولایت سے مربوط ہے ، لہذا صحابہ کا اسلام سے مرتد ہونا صحیح نہیں ہے ،اس بناء پر جو لوگ شیعوں پر تہمت لگاتے ہیں ان کو اس بات کا علم نہیں ہے ۔

ان مفسر قرآن کریم نے بعض صحابہ کے عادل نہ ہونے پر بعض تاریخی حوادث کی تصریح کرتے ہوئے فرمایا: تاریخ بتاتی ہے کہ اصحاب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بارہا مختلف جگہوں پر اس پر اعتراض کیا اور بہت زیادہ آیتیں ان کی ہدایت اور گمراہی و فسق سے محفوظ رہنے کے لئے نازل ہوئی ہیں، جس کی بعض مثالیں سورہ حشر میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔

آیت اللہ سبحانی نے تاکید کرتے ہوئے کہا: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعض خطبے اور رسول اللہ (ص) کے بعد کی جنگیں جیسے جنگ جمل اورجنگ نہروان وغیرہ اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ بعض اصحاب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے آپ کے ارادوں پر حسد کیا اور اپنی ناراضگی کو بیان کیا ہے اور اس طرح وہ عدالت سے ساقط ہوگئے ہیں ۔

مرجع تقلید نے اپنے بیان کے آخر میں کہا : اس طرح کی آیات سے مراد یہ ہے کہ حقیقی اصحاب وہ ہیں جن میں اس طرح کے صفات اور خصوصیات پائی جاتی ہیں، وہ صفات نہیں جن کو بعض لوگ تمام اصحاب کے بدن پر عدالت اور قداست کا لباس پہنانا چاہتے ہیں ۔

امام جمعہ مراد آباد ھند مولانا سید شہوار حسین نقوی نے کہا ہے کہ حج کا مقصد فقط یہ نہیں کہ انسان خانہ کعبہ کا طواف کرے یا حجر اسود کو بوسہ دے بلکہ حج کا اصل مقصد یہ ہے کہ تمام مسلمان خانہ کعبہ میں جمع ہوں اور اجتماعی عبادت کریں۔ اجتماع کا مقصد یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوکر ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہوں، ایک دوسرے کے مشکلات کو سمجھیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

نئی دہلی میں منعقد دو روزہ بین الاقوامی حج کانفرنس امام جمعہ مراد آباد ھند مولانا سید شہوار حسین نقوی نے کہا: اس کانفرنس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو حج کی افادیت سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ سمجھیں کہ خداوند عالم نے ان پر حج کیوں واجب کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہے اور کیوں تمام لوگوں کو خداوند عالم نے مکہ میں جمع ہونے کا حکم دیا ہے۔

 

مولانا سید شہوار حسین نقوی نے مزید کہا: اس کانفرنس میں دنیا بھر سے بڑی تعداد میں علما، دانشوران جمع ہوئے تاکہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کو عالمی پیمانے پر حل کرنے کی کوشش کی جائے اور دنیا کے حکمرانوں کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا جائے کہ آج امت مسلمہ جن مسائل سے دو چار ہے ان کو ہم کس طریقہ سے حل کرسکتے ہیں۔

 

اتحاد بین المسلمین کو حج کا بنیادی مقصد قرار دیتے ہوئے مراد آباد کے امام جمعہ نے کہا: اسلام میں اجتماعیت کا واضح تصور ہے اور اس پر کافی زور دیا گیا ہے۔آپ دیکھئے خداوند عالم نے جماعت کا حکم دیا تاکہ ایک محلے کے لوگ ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ اسی طرح نماز جمعہ کا حکم دیا گیا تاکہ ایک شہر کے لوگ ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ اسی طرح حج کا حکم دیا گیا جو کہ ایک عالمی اجتماع ہے۔ حج میں ساری دنیا کے مسلمان بغیر کسی تفرقہ مذہب و ملت ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور آپسی اختلافات کو بھلا کر ایک اللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خانہ کعبہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان حج کرنے جاتا ہے تو چاہے امیر ہو، غریب ہو، بادشاہ ہو، فقیر ہو سب ایک لباس میں نظر آتے ہیں۔ وہاں انسان پہچان نہیں پاتا ہے کہ کون امیر ہے اور کون غریب۔ سب لوگ ایک لباس میں ملبوث ہرکر اللہ کی بارگاہ میں ’’لبیک اللٰھم لبیک‘‘ کہتے ہوئے حاضر ہوجاتے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر اتحاد بین المسلمین کی ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔

غازی خسرو بیگ مسجد جسے مختصراً بیگ مسجد بھی کہا جاتا ہے بوسنیا و ہرزیگووینا کے دارالحکومت سرائیوو کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے ملک کا اہم ترین اسلامی مرکز اور عثمانی طرز تعمیر کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔

یہ مسجد 1531ء میں عثمانی ولایتِ بوسنیا کے گورنر غازی خسرو بیگ کے حکم پر تعمیر کیا گیا۔ اس مسجد کو عثمانیوں کے مشہور معمار سنان پاشا نے تعمیر کیا جنہوں نے بیگ مسجد کی تعمیر کے بعد سلطان سلیم اول کے حکم پر ادرنہ میں شاندار جامع سلیمیہ تعمیر کی۔

خسرو بیگ نے 1531ء سے 1534ء کے درمیان حلب، شام میں بھی ایسی ہی ایک مسجد تعمیر کرائی جو خسرویہ مسجد کہلاتی ہے۔

محاصرۂ سرائیوو کے دوران دیگر کئی مقامات کے علاوہ مسجد کو بھی سرب جارح افواج کے ہاتھوں سخت نقصان پہنچا۔ 1996ء میں اس مسجد کی تعمیر نو کا کام کیا گیا۔

یہ مسجد آج بھی شہر کی عبادت گاہوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔

غازی خسرو بیگ مسجد میں عيدالفطر كي نماز

غازی خسرو بیگ مسجد میں عيدالفطر كي نماز

غازی خسرو بیگ مسجد میں عيدالفطر كي نماز

رات کے وقت ایک خوبصورت منظر