Super User
ايران کي پيشرفت، پرچم توحيد کي سربلندي
اسلامي جمہوريہ ايران کے صدر نے کہا ہے ايراني عوام کي پيشرفت کا مطلب پوري دنيا ميں پرچم توحيد کي سربلندي ہے -
صدر احمدي نژاد نے ايران پر مسلط کي گئي آٹھ سالہ جنگ کے دوران اسير کرلئے گئے جانبازوں سے ملاقات ميں جو بعد ميں آزاد ہوکر ايران واپس آچکے ہيں، اسلامي جمہوريہ ايران کي ترقي وپيشرفت کي راہ ميں دشمن کي طرف سے کھڑي کي جانےوالي مشکلات اور دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسي بھي قوم کي ترقي وپيشرفت کي راہ ميں ہميشہ مشکلات اور رکاوٹيں آتي ہيں ليکن ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے سوا اور کوئي راستہ نہيں ہوتا –
صدر ڈاکٹر احمدي نژاد نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اللہ کے لطف و کرم اور ايران کے عوام اور حکام کي کوششوں اور حوصلوں کي بدولت دشمن کي طرف سے کھڑي کي گئي مشکلات کو عبور کرليں گے کہا کہ آج صدام کي جيلوں سے آزاد ہوکر آنےوالے جانباز کئي سال کي قيد و بند کي زندگي گذارنے کے بعد ملک کے مختلف علمي سائنسي اور اقتصادي ميدانوں ميں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہيں -
انہوں نے کہا کہ يہ لوگ اپنے جذبہ ايثار و فداکاري کے ذريعے ملک کي ترقي و پيشرفت ميں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہيں
سيد امام موسی صدر

خدا نے تمام انسانوں کے سامنے دین اسلام کو پیش کیا ہے تاکہ یہ مذھب ہر انسان کی زندگي کے تمام پہلووں پرحکم ہولیکن ہم دیکھتےہیں کہ انسانوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے اب تک ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ جب ہم اپنے ملک کے موجودہ حالات کی طرف نگاہ کرتےہیں تو تمام لوگوں کا اسلام کو اپنے دلوں اور زندگیوں پرحاکم کرنا ایک خواب سے کم نظر نہیں آتا، وہ خواب جس پرصرف ہنسا جاتاہوں۔ اس سے ہماری ہمتیں پست ہوجاتی ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ ایسے خواب دیکھنا وقت کی بربادی ہے۔ یاپھر یہ ہوتا ہےکہ ہم ایک یا دو میدانوں میں اپنی نسبی اور جزئي ترقی کو بہت بڑی کامیابی تصورکرنے لگتےہیں۔ جب تک ہماری ہمت اور فکر بلند نہیں ہوگي اور آسمانوں میں پرواز نہیں کرے گي اس وقت تک ہمارے ملک میں اسلام کا مستقبل روشن نہیں ہوگا اور کروڑوں انسان ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے اسلام کے جاودانی پیغام سے محروم رہیں گے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ ہم کیا کریں کہ ہماری فکریں اور ہمتیں بلند پرواز کریں؟ اس سوال کا اہم ترین جواب یہ ہے کہ عصر حاضر کی ایسی شخصیتوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے جو اپنے سماج میں ایسی تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہوئي ہوں جو ماضی میں عام طورسے قابل تصور ہی تھیں۔
اس قسم کی ایک درخشاں شخصیت سید امام موسی صدر کی ہے، جنکی زحمتوں کے نتیجے میں آج لبنان کی حزب اللہ تمام مسلمانوں اور تمام عدل پسند انسانوں کے لئے حیات بخش مثال بن گئي ہے، امام موسی صدر کی زندگي کا مطالعہ نہ صرف اس لئے ضروری ہے کہ آج لبنان میں زندگي کے ہرشعبہ میں بے مثال کامیابیاں دیکھی جاسکتی ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ امام موسی صدر سے پہلے کا لبنان اور آج کے ہندوستان میں شباہتیں بہت زیادہ ہیں۔ اگر آج اسلام اور مسلمان ہندوستان میں مظلوم ہیں اور وہاں مادیت اور مغربی تہذیب حاکم ہے تو آج سے پچاس برس قبل لبنان میں مسلمانوں کے حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہوچکے تھے لیکن امام موسی صدر نے انہیں جس راہ پرگامزن کیا اس کےنتیجے میں وہ آج پورے عالم اسلام کا چشم و چراغ بن گئے ہیں، اگر ہم میں ذرا بھی اسلامی حمیت ہے تو ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔

الف : مختصر سوانح حیات:
امام موسی صدر کی ولادت انیس سو ستائيس میں قم میں ہوئي، ان کاخاندان اصالتا لبنانی تھا جسمیں متعدد علماء اور مراجع گذرےہیں۔ سید صدر نے دینی تعلیم کے ابتدائی مراحل قم میں طے کئے، بعد میں چند سال نجف اشرف میں تعلیم حاصل کی، جدید تعلیم بھی قم میں حاصل کرنا شروع کی لیکن پھر تہران جاکر "اقتصادی حقوق " میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس زمانے کے فاضل طلاب جیسے آیت اللہ شہید بہشتی ، آیت اللہ جعفر سبحانی ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور آیت اللہ نوری ھمدانی انکے قریبی دوستوں اور ساتھیوں میں سے تھےاور یہ لوگ مل کرایک علمی مجلہ بھی نکالا کرتےتھے ۔ بعد میں لبنان میں شہید چمران کا بھی گہرا ساتھ رہا ۔
جب لبنان میں شیعہ مسلمانوں کے رہبر سید عبدالحسین شرف الدین کی ان سے آشنائي ہوئي تو انہوں نے امام موسی صدر کی شخصیت سے متاثر ہوکر ان کو اپنا وصی اور جانشین قراردیا اور انیس سو اٹھاون میں علامہ سید شرف الدین کے انتقال کے بعد امام موسی صدر اکتیس برس کی عمر میں لبنان پہنچے ۔
لبنان میں لوگوں کے درمیاں رہ کر بیس پچیس برسوں زحمتيں برداشت کرکے اسکول اور کالج شروع کروائے ، فقرا اور حاجت مندوں کےلئے امدادی ادارے قائم کئے ، دوسرے مذاھب کے لیڈروں اور ان کے ماننے والوں سے باہمی تعامل کے کام شروع کروائے۔ شیعوں کو سیاست میں ایک مضبوط اور اثر انداز قوت بنایا، اور اسرائيل سے مقابلے کےلئے فوج بھی تیار کی ۔ انیس سو اناسی میں لیبیا کے ایک دورے میں پراسرار طور پرلاپتہ ہوگئے۔ یہی مانا جاتا ہےکہ اسرائیل اور دوسرے دشمنوں کے اشارے پرلیبیا کے حاکم معمر قذافی نے انہیں شہید کروادیا ہے۔( لیکن ان کے اھل خانہ ، دوستوں ، شاگردوں اور ان کے دفتر کے کارکنوں کا کہنا ہےکہ ان کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ امام موسی صدر زندہ ہیں اور قذافی کی جیل میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھارہےہیں ۔ ایڈیٹر)
امام موسی صدر کی زندگی سے حاصل ہونے والےدس سبق
ان کی زندگي نمونہ عمل تھی اور ہے ان کےطریقہ کار پرچل کر ہم بھی اپنی قسمت سدھار سکتےہیں اور اپنی زندگي کو جہت دار اور ھدف مند بناسکتےہیں۔
اول : ذمہ داری کا احساس اور اسکی صحیح شناخت
یہ امام موسی صدر کی زندگي کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔ اسکی مثال ان کا حوزہ علمیہ کو ترک کرکے لبنان جیسے پچھڑے علاقے کی طرف ہجرت کرنا ہے۔ خاص طور سے جب ہم اس بات کو مد نظر رکھیں کہ اس زمانے میں انہيں آیت اللہ بروجردی کی طرف سے اٹلی میں تام الاختیار وکیل بناکر بھیجا جارہاتھا۔
دوم : اسلام کی عمیق شناخت
وہ ایک واقعی اسلام شناس تھے ۔ درجہ اجتھاد پرفائز ایک مجتھد مسلم تھے اور آپ کا ہر کام اسلام اور قرآن کی آیات کی روشنی میں ہوتا تھا وہ یہ کہتے تھے کہ اسلام ہی دنیوں اور اخروی نجات و سعادت کا سبب ہے ۔ انہوں نے جہاں محراب ومنبر کے ذریعے خدمات انجام دیں وہیں ایک عالم دین کی حیثیت سے لوگوں کو سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے کے راستے بھی دکھائے ۔
سوم : خود اعتمادی اور شجاعت
احساس ذمہ داری اور دین شناسی کے نتیجے میں امام موسی صدر کسی بھی ضروری کام کو انجام دینےسے نہیں ڈرے ، مثال کے طور پر جب شیعوں اور فلسطینیوں میں جھڑپیں شروع ہوئيں تو انہوں نے محاذ پرجاکر یہ جھڑپیں رکوائیں ۔ اسی طرح انہوں نے قدامت پسندوں کی چہ می گوئيوں کی بھی کبھی پرواہ نہ کی اور اپنے ھدف کی طرف گامزن رہے۔
چہارم : عام آدمی کی طرح رہتے تھے
امام موسی صدر پسماندہ اور ستم رسیدہ لوگوں کی دل سے عزت اور احترام کیا کرتےتھے اور ایسا کوئي کام نہیں کرتے تھے جس سے ان کی دل آزاری ہو۔ ان کی سادہ اور بے آلائش زندگي اس بات کا بین ثبوت ہے۔
پنجم : بچوں اور جوانوں کی تربیت پرخاص توجہ
امام موسی صدر یہ بخوبی جانتے تھے کہ اسلام کا مستقبل روشن کرنےوالی یہی جواں نسل ہے ۔ اسی لئے شروع ہی سے ان کی طرف خاص توجہ کرتےتھے مجتھد و رہبر ہونے کےباوجود بھی ان کے ساتھ گھل مل کررہتے تھے ، جوانوں کے ساتھ بڑے دوستانہ انداز میں پیش آتے تھے، ان کی بے دینی یا اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے انہیں ڈانٹنے اور خود سے دور کرنے کےبجائے انہیں اپنے اعمال اور محبت بھرے انداز سے اصلاح کی دعوت دیتے تھے۔ انہوں نے لبنان ہجرت کرنے کے بعد جوانوں کے لئے ایک ورزش گاہ یافٹبال کا گروانڈ تیار کروایا۔
اسلام کے ذریعے صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں کو فائدہ پہنچانا۔
امام موسی صدر کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہےکہ انہوں نے کوشش کی کہ انکے کام کا چہرہ اور تشخص مکمل طور پردینی اور شیعی رہے لیکن اسکے فوائد حتی الامکان تمام لبنانیوں تک پہنچیں۔ مثال کے طورپرانہوں نے حرکت المحرومین کے نام سے ایک کمیٹی بنائي جسکا ہدف ہرقسم کے معاشرتی ظلم اور معاشرےمیں حاکم قبائلی سیاسی نظام کا مقابلہ کرنا تھا یعنی یہ خدمت تمام لبنانیوں حتی غیر مسلمانوں کے لئےبھی انجام دی جاتی تھی اور اس کمیٹی کافائدہ سب کو پہنچتاتھا۔
بہترین دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ ملکر کام کرنا۔
امام موسی صدر کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ بہترین افراد کو اپنے حلقے میں سمولیتےتھے اور ان کے مشورے اور تعاون سے کام کرتےتھے یہ ان کی کامیابی کےاہم ترین رازوں میں سےایک ہے ۔ ساتھیوں میں سرفہرست شہید مصطفی چمران کا نام ہے ۔
اذیتوں اور نادانوں کی دشمنیوں کو برداشت کرنا
امام موسی صدرکے لئے یہ بات بالکل واضح تھی کہ دشمن کون ہے ، دشمن کو بھلا ان سےبہتر کون پہچان سکتاتھا۔ عالمی سامراج ،صیہونی حکومت اور ان کے لبنانی پٹھو یہ سب امت اسلامیہ کے دشمن تھے اور آج بھی ہیں۔ دشمنوں سے وہ سختی سے پیش آتےتھے
لیکن اگر ان کےعلاوہ کوئي اور ان سے دشمنی کا اظہار کرتاتو اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے۔ یہاں فلسطینی لیڈروں اور قدامت پسندانہ فکر رکھنےوالے مومنین کا ذکرضروری ہے کیونکہ ان لوگوں کی وجہ سے امام موسی صدر کو بڑی اذیت ہوئي اور انہوں نے بے پناہ مصائب جھیلے ، کچھ فلسطینیوں نے تو ان کےگھر پرراکٹوں سے بھی حملہ کردیا لیکن پھر بھی امام موسی صدر نے ہرگز انتقام نہ لیا اور اپنے چاہنےوالوں کو ہمیشہ حقیقی دشمن کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتےرہے۔
فکری وثقافتی محاذ کو اصل محاذ سمجھنا
گرچہ امام موسی صدر نے سیاسی اور عسکری میدانوں میں چونکا دینے والی خدمتیں انجام دی ہیں تاہم یہ حقیقت ان سے کبھی پوشیدہ نہیں رہی کہ یہ ساری چیزیں فرع ہیں اور اصل خلیفۃ اللہ کہلائے جانے کےلئے انسان کی فکر اورروحانی تربیت کی ہے،ان کی تمام تر توجہ اسی بات پرمرکوزرہتی تھی کہ وہ کس طرح اس کام سے لوگوں کو بہتر انسان اور بہتر مسلمان بناسکیں۔
ترقی کو جاری رکھنے کے لئے اہم اقدامات
امام موسی صدر کے اغوا کے بعد بھی قوم کی ترقی کا سلسلہ جارہی رہا رکا نہیں اور یہ نتیجہ تھا ان کی تدبیروں اور طریقہ ہائے کار کا انہوں نے شروع ہی سے اس پرتاکید کی تھی کہ لوگوں کو مستقل طورپر کام کرنا آنا چاہیے ، البتہ ایک ہی ہدف اور مشترکہ اقدار کےتحت ، اسکے علاوہ انہوں نے معاشرے میں مختلف تنظیمیں اور گڑوہ تشکیل دئے جو افراد کے تبدیل ہونےکےباوجود بھی اپنا کام انجام دیتے رہے اور دے رہےہیں ، ان کا ایک نمونہ مجلس اعلائے شیعیان لبنان ہے ۔
یہ تھی مختصر اور طائرانہ نظر اس عظیم مرد مجاھد کی زندگي پر جس نے اپنی ذات سے لبنان کی شیعہ قوم اور عام طورسے لبنانی قوم کو زمیں سے آسمان پر پہنچادیا۔ خدا ان کی راہ کو قائم و دائم رکھے اور ان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطاکرے۔
بشکریہ : رسالہ اصلاح لکھنو
ايران کے خلاف امريکي پابندي، صيہونيوں کی قدرداني
امريکي سينٹروں کي جانب سے کئے جانے والے ايران مخالف اقدامات کا سب سے بڑي اسرائيلي لابي نے زبردست خير مقدم کيا ہے-
امريکہ کے چوہتر سينٹروں نے صدر باراک اوباما کے نام خط ميں ايران کے خلاف دباؤ بڑھانے کي اپيل کي ہے- ان لوگوں نے يہ دعوي بھي کيا ہے کہ ايران کا ايٹمي پروگرام امريکي سلامتي کے لئے سب سے بڑا خطرہ شمار ہوتا ہے-
اس سے قبل امريکي سينٹروں نے ايک بل کي منظوري دي تھي جس کے تحت ايران کے تيل کي امريکہ ميں درآمد پر پابندي اور ايران کے ريڈيو ٹيلي ويژن کے خلاف نئي پابندياں عائد کي گئي ہيں- اوباما کے دستخط کي صورت ميں يہ بل قانون کي صورت اختيار کرجائے گا-
امريکي مقننہ کي ايران دشمني ميں ايسے وقت ميں اضافہ ہوا ہے جب امريکي حکومت ايران کے ساتھ مذاکرات کي بات کر رہي ہے- کچھ عرصہ قبل امريکي وزير خارجہ ہيلري کلنٹن نے کہا تھا کہ واشنگٹن ايٹمي پروگرام سميت تمام معاملات پر ايران کے ساتھ براہ راست بات چيت کے لئے تيار ہے-
امريکي حکام يہ سمجھتے ہيں کہ ايران کے خلاف چھڑي اور گاجر کي پاليسي جاري رکھ کر تہران کواپنےاصولي موقف سے پيچھے ہٹنے پر مجبور کر ديں گے-
گزشتہ تين عشروں کے دوران تہران واشنگٹن تعلقات کا جائزہ لينے سے پتہ چلتا ہے کہ ايران کے ساتھ امريکہ کي مشکل صرف اسکا ايٹمي پروگرام نہيں ہے- درحقيقت امريکہ مشرق وسطي کے علاقے ميں کسي ايسي آزاد و خود مختار حکومت کا وجود برداشت کرنے کے لئے تيار نہيں جو توانائي کے اہم ترين ذخائر کي حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بڑي طاقتوں کے مسلط کردہ ضابطوں کو قبول نہ کرتي ہو- امريکہ کی يہ مشکل اس وقت اور بھي پيچيدہ ہوجاتي ہے جب يہي آزاد و خود مختار سياسي نظام ، اسرائيل کو تسليم کرنے سے انکاري ہو اور فلسطيني عوام کي حمايت کا کھلا کھلا اعلان کرنے لگے- ايسے حالات ميں پوري دنيا کي صہيوني لابي حرکت ميں آجاتي ہے اور انکي نظر ميں ايران کي حکومت اور عوام کے درميان کوئي فرق باقي نہيں رہتا-
حاليہ برسوں کے دوران ايران کے خلاف ايسي پابندياں لگائي گئي ہيں جن کا مقصد يہ ہے کہ ملت ايران کو ملک کي حکومت اور ايٹمي پروگرام کي حمايت کي سزا دي جائے- مثال کے طور پر امريکہ اور پورپ کي عائد کردہ بينکاري پابنديوں کي وجہ سے دواوں، غذائي اشيا، اور بچوں کے خشک دوودھ کي ايران کو برآمد بند ہوگئي ہے-
حالانکہ امريکہ اور يورپي ملکوں کا دعوي ہے کہ انہوں نے ايران کے خلاف اسمارٹ پابندياں لگائي ہيں تاکہ ايراني عوام پر کوئي اثر نہ پڑے- ليکن مختلف ملکوں کے خلاف امريکي پابنديوں کے تجربات اس بات کي پوري نشاندھي کرتے ہيں کہ اسکي عائد کردہ اقتصادي پابنديوں کا نشانہ عام لوگ ہي بنتے رہے ہيں جبکہ اکثر اوقات ان پابنديوں کے مطلوبہ نتائج بھي برآمد نہيں ہوسکے ہيں-
يہ بات توانائي کےاہم ذخائر رکھنے والے ملک اور اپنے حقوق کے لئے پر عزم ايراني قوم کے بارے ميں دوسروں سے کہي زيادہ صادق آتي ہے-
بہرحال يہ ساري باتيں بھي صيہوني لابي کے ہاتھوں گرفتار امريکي سينٹروں کي آنکھيں نہيں کھول سکي ہيں- لہذا جب تک واشنگٹن کے مکين اسرائيل کي عينک سے ايران کو ديکھتے رہيں گے امريکہ اور ايران کي مشکلات حل نہيں ہوسکتيں-
امام خمینی کی نظر میں اتحاد

حضرت امام خمینی کے افکار و نظریات سے آگاہی حاصل کرنا جو اپنے زمانے میں اسلامی امۃ کے اتحاد کے سب سے بڑے منادی رہے ہیں اور اسی بنا پر انہوں نے ایران میں اسلامی الہی نظام کی بنیاد رکھی تھی اتحاد کا درد رکھنے والوں کے لۓ راہ گشا اور مشعل راہ ہے۔
انسان فطرتا توحید کی طرف مائل ہوتا ہے اور پوری تاریخ میں دیکھ لیں انسانی عقل نے جہاں خواہشات نفسانی اور اغراض شیطانی کا عمل دخل نہ تھا توحید کی اساس پر ہی عمل کیا ہے اور تنازعات ،پراکندگی اور تفرقہ کو انسانی معاشرے کے مفادات کے خلاف اور گمراہی کا باعث قرار دیا ہے۔
تمام انبیاء الھی علیھم الصلواۃ والسلام کی دینی دعوت کی اساس توحید پر ہی تھی انہوں نے توحید ہی کے سہارے انسان کو شرک و کفر و الحاد سے پاک کرنے کی کوشش کی،توحید کا عقیدہ اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے ۔
اسلام کے تمام مشرب خواہ فلسفی عرفانی اخلاقی کلامی یا تربیتی ہوں ان سب کی اساس توحید ہے اور وہ عالم ھستی کی تمام موجودات کو ذات وحدہ لاشریک کی آیات سمجھتے ہیں البتہ اہل تحقیق پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ انسانی معاشرے کے اتحاد کی خواہش عقیدہ توحید کا ایک جلوہ ہے اور اس کے مقابل دھڑے بندی اور کثرت پسندی مادہ پرستی و کفر کی خصوصیات ہیں۔
قرآن مجید میں امت واحدہ کو حقیقی معنی میں سیر الی اللہ کا زینہ قرار دیا گیا ہے ارشاد رب العزت ہے ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فاعبدون ۔
روز ازل سے حق و باطل کا اختلاف جس شکل میں یا جس سطح پر ہو توحید اور شرک کی بنیادوں پر رہا ہے
حضرت امام خمینی فرماتے ہیں "تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت کلمہ رحمان کی طرف سے "
دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ عالمی ادارے جن کے وجود میں آنے کا مقصد اور ان کا نعرہ قوموں اور حکومتوں کے درمیان اتحاد قائم کرنا اور اختلافات ختم کرانا ہے اکثر موقعوں پر ناکام رہے ہیں بلکہ خود سامراج کے ہاتھوں استعمال ہو کر کشیدگی اور اختلافات کا سبب بنے ہیں گذشتہ دھائیوں میں سیکڑوں تنظیموں اور حکومتوں نے آپس میں تعاون اور اتحاد قائم کرنے کے معاھدے کۓ ہیں جن کے بارے میں وسیع تشہیرات کی گئیں جن سے دنیا کے باشندوں میں امیدیں پیدا ہوگئیں لیکن ان کا کوئي نتیجہ نہ نکلا اور ناکام رہے۔
ایک زمانے سے اسلامی ملکوں کے درمیان اتحاد کی بات کی جا رہی ہے بہت سے اسلامی ملکوں میں سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں نے اتحاد کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کرلیا اور حکومت چلا رہے ہیں اس موضوع پر سیکڑوں کتابیں اور مضمون بھی لکھے جا چکے ہیں اور خطباء مقررين اور مصنفین و دانشور اتحاد کی اہمیت پر تاکید کرتے رہتے ہیں لیکن اس راہ میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا میرے خیال میں ان ناکامیوں کی وجہ ان بنیادی امور میں تلاش کرنی چاہیے کہ جن پر توجہ کۓ بغیر ساری کوششیں بدستور ناکام رہیں گي۔
میرے خیال میں ان اداروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عقیدہ اتحاد اور فکری عقیدتی اصولی اور اخلاقی نظاموں کے درمیان موجود اٹوٹ بندھن کو واضح کریں ، کیا ہم توحید کا عقیدہ رکھتے ہوے خداۓ واحد پر ایمان رکھتے ہوے اور خدا کو قادر مطلق مان کر جب عمل کی نوبت آۓ تو اس کے برخلاف عمل کریں اور خلق خدا کے حالات سے بے خبر رہیں ؟
کیا ہم موحد رہتے ہوۓ اصحاب تفرقہ کے گروہ میں شامل ہوسکتے ہیں؟ صدر اسلام میں جب توحید کی دلنشین آواز ان لوگوں کے کانوں میں پہنچتی تھی جو ظلم و شرک و بت پرستی سے تنگ آ چکے تھے تو جاہلی تعصبات فخر اور احساس برتری اور قوم پرستی کے جذبات فوری ختم ہوجاتے ہیں اور اختلافات و تفرقہ کے تمام سبب یہانتک کے سببی اور نسبی تعلقات بھی خداوحدہ لاشریک پر ایمان اور نور عبودیت کے سامنے بے رنگ ہوجاتے تھے ان لوگوں نے ایسا باکمال معاشرہ تشکیل دیا تھا کہ خدا نے انہیں خیر امت کا خطاب دیا اس معاشرہ میں ایسا اتحاد و یکجھتی پائی جاتی تھی کہ سیاہ فام غلام قریش کی بااثر اور سربرآرودہ شخصیتوں کے برابر سمجھا جاتا ہے بلکہ اپنے ایمان کی بنا پر ان سے آگے بھی نکل جاتا ہے ان ہی لوگوں نے ایسی شاندار تھذیب و تمدن کی بنیاد رکھی کہ ایران اور روم کی سلطنتیں بھی اس کے مقابل نہ ٹہر سکیں اور کچھ ہی دنوں میں اس تھذیب و تمدن نے ساری دنیا کے دل جیت لۓ ۔
تحریر : مرحوم حجت الاسلام والمسلمین سید احمد خمینی
امام خمینی کی نظر میں اتحاد(حصّہ دوّم)

ہمیں خود سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ قرآن و سنت میں "امت " پر بہت زیادہ تاکید کے با وجود ہم کیوں اس اہم امر سے غافل ہیں اور ہمارے معاشروں میں دوبارہ زمانہ جاھلیت کی عادات ،جغرافیائی اور قومی مسائل نے سر ابھارا ہے ؟ یہان تک کہ ہم ان مسائل کا شکار ہو کر ایک دوسرے کے مفادات اور تقدیر کو ایک دوسرے سے الگ الگ تصور کرنے لگے ہیں کیا ان ناپسندیدہ عادات سے ہمارے دینی مفادات کو خطرہ لاحق نہیں ہے ؟
جیسا کہ میں نے مضمون کے آغاز میں امام خمینی کا یہ قول نقل کیا تھا کہ "اختلاف و تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد و وحدت کلمہ رحمان کی طرف سے " تاریخ میں یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ حقیقی اتحاد پیدا کرنے کی آواز پر وہی لوگ لبیک کہتے ہیں جنہوں نے اپنی توحیدی فطرت کے مطابق بھرپور طرح سےتعلیمات توحید پر عمل کیا ہو ۔
اتحاد قائم رکھنا اور تفرقہ سے پرھیز واجب عینی ہے اس کی جڑیں عقیدہ توحید میں پیوست ہیں ،یاد رہے اصحاب تفرقہ شیطان کے دوست ہیں اور منادیان اتحاد رحمان کے مخلص بندے ہوتے ہیں جو امت کے مسائل سے بے خبر نہیں ہوتے۔
اسلامی انقلاب نے یہ حقیقت عملی طرح سے ثابت کردی ہے کہ تفرقہ و نفاق اتحاد کے سیلاب میں تنکے کی طرح نابود ہو جاتا ہے۔
تاریخ اس بات کو ھرگز فراموش نہیں کرسکتی کہ ایک مرد خدا نے خالی ہاتھوں صرف خدا پر بھروسہ کرتے ہوے اتحاد کی آواز بلند کی اور مومنین ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوۓ ان کے بتاۓ ہوۓ راستے پر قائم رہے ،نام نہاد ترقی یافتہ دنیا نے ان کے مقابل محاذ کھول دیا یہی نہیں ان کے تمام دشمنوں کو جدید ترین ہتھیار دے کران کے خلاف لا کھڑا کیا لیکن ملت کا اتحاد اتنا طاقتور ہوتاہے کہ ملت ان تمام سازشوں کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئی جب اسلامی انقلاب نے دشمن پر غلبہ حاصل کرلیا اور شاھی حکومت کے تمام ستون منھدم کردیے تو سامراج کے حمایت یافتہ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں گروہوں نے انقلاب اسلامی کی مخالفت شروع کردی لیکن چونکہ ملت متحد تھی لھذا ان گروہوں کو ناکامی کا منہ ہی دیکھنا پڑا۔
تحریر : مرحوم حجت الاسلام والمسلمین سید احمد خمینی
امام خمینی کی نظر میں اتحاد (حصّہ سوّم )

امام خمینی نے جو قرآن کریم اور عارف اکمل حضرت ختمی مرتبت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ طاھرین علیھم السلام کے مکتب عرفان کے شاگرد تھے اس عالم کون کے موجودات کے حقیقی اتحاد کی پر اسرار گتھیاں سلجھا لی تھیں وہ اپنے فلسفی نظریات کے مطابق نہ صرف وحدت وجود کے قائل تھے بلکہ اسرار ربانی کے اھل حضرات کی مجلس میں تمام موجودات کی حقیقی وحدت کے نکات بھی بیان کرتے تھے۔
امام خمینی اپنی کتاب "چھل حدیث " میں جو عام لوگوں کے لۓ لکھی گئی ہے فرماتے ہیں کہ:
انبیاء عظام علیہم السلام اور شرایع بزرگ کے آنے کا ایک اھم مقصد جو بذات خود مستقل ھدف ہے اور دیگر اھداف کے حصول کا ذریعہ ہے نیز مدینہ فاضلہ کی تشکیل میں بنیادی کردار کا حامل ہے
عقیدہ توحید اور امت کا اتحاد ہے اسی مقصد کے تحت معاشرے کے اھم امور میں اتفاق اور اصحاب اقتدار کے مظالم کی جو بنی نوع انسان میں برائیوں اور مدینہ فاضلہ کی تباہی کا باعث ہوتے ہیں روک تھام ہوتی ہے امام خمینی نے اس عظیم مقصد کے حصول کے لۓ بعض اھم مقدمات کا ذکر کیا ہے جن کے بغیر یہ مقصد یعنی اتحاد حاصل نہیں ہو سکتا امام خمینی فرماتے ہیں ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ یہ رحمت جاری رہے اور کوشش یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے الھی اقدار کا حامل ہونا چاھیے ،خدا کی راہ میں خدمت کرنا چاہیے خود کو خدا کے حکم کا تابع اور اس کی طرف سے ہونے اور اسکی طرف لوٹنے کا یقین رکھنا چاھیے اس طرح ہم اتحاد تک پہنچ سکتے ہیں کیونکہ تفرقہ شیطان کی طرف سے ہے اور اتحاد رحمان کی طرف سے، امام خمینی اسلامی معاشروں میں اس اتحاد کو پائدار اور مقدس جانتے تھے جو خلل ناپذیر بنیادوں پر استوار ہو آپ فرماتے ہیں کہ ہمیں قرآن مجید کی تعلیمات کے تحت متحد رھنا چاہیے ،س کی اہمیت نہیں ہے کہ سب لوگ ایک امر پر متفق ہو جائيں بلکہ خدا کا حکم یہ ہے کہ سب مل کر خدا کی رسی کو تھام لیں، انبیاء کی بعثت کا مقصد لوگوں کو مختلف امور پر متفق کرنا نہیں تھا بلکہ وہ انسان کو راہ حق پر اکھٹا کرنا چاھتے تھے۔
امام خمینی کے نزدیک اتحاد الھی اور شرعی فریضہ ہے آپ کی نظر میں اس سلسلے میں علماء مفکرین اور دانشوروں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے آپ نے اس سلسلے میں بہت تاکید فرمائی ہے امام خمینی کا خیال تھا کہ اتحاد اور اسکے استحکام کے لۓ لازمی طور سے قربانیان دینی ہوں گي اس بارے میں آپ نے لوگوں کے لۓ عملی مثال قائم کی امام خمینی جس قدر اتحاد کی اھمیت پر تاکید کرتے تھے اتنی ہی اس کے لوازمات پر تاکید کرتے تھے آپ کا خیال تھا کہ اتحاد ضروری مقدمات اور اسکی طرف معاشرے کی قیادت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور پائدار نہیں ہوگا۔
تحریر : مرحوم حجت الاسلام والمسلمین سید احمد خمینی
امام خميني (رح) اور ارتقاء انسانيت
محکوم قوميں جب اپنے سے زيادہ ترقي يافتہ اقوام کے زير نگيں ہوتي ہيں تو انہيں فوجي اور انتظامي استبداد ہي کا مقابلہ نہيں کرنا ہوتا بلکہ تہذيبي اور فکري سطح پر بھي انہيں زندگي اور موت کي لڑائي لڑني ہوتي ہے - ہر لمحہ حکمراں قوم ان کے تمام آدرشوں اور اقدار کو للکارتي ہے اور ان کے ماضي ہي نہيں حال کا بھي جواز طلب کرتي ہے-
بيسوي صدي عيسوي کے اوائل ميں عظيم اور با جبروت ملت اسلاميہ ايک ايسے ہي استبداد کا شکار تھي- اس تاريک دور ميں جب مسلمانان عالم نے اپنے آس پاس نگاہ کي تو انہيں پتہ چلا کہ وہ قافلہ ارتقاء سے کٹ گئے ہيں حيرتوں نے ان پر يورش کي اور وہ بوکھلا اٹھے ، مقابل بلندياں انہيں بہت دور نظر آئيں ان کے عقيدوں کي سنگي ديواروں ميں دراڑيں پڑ چکي تھيں انہوں نے جينے اور ہونے کا جواز تلاش کيا اور اس تلاش ميں وہ مقابل بلنديوں سے اپنے عقائد کا موازنہ کرنے لگے-
اس اندھي تلاش کا نتيجہ يہ نکلا کہ کل کي فاتح قوم آج ذليل و خوار ہو رہي تھي- سامراج کے طاقتور پنجے پوري گہرائي تک ان کے سينوں ميں پيوست ہو چکے تھے-طاقتور سرمايا دار ممالک ايشيا اور افريقہ کے پسماندہ ملکوں پر قيضہ کرنے اور محکوم بنانے کي دوڑ ميں لگے ہوئے تھے- يعني بڑي مچھليوں کو چھوٹي مچھلياں نگلنے کي پوري آزادي مل چکي تھي-
ڈارون کے نظريہ ارتقاء يا (EVOLUTION THEORY) کا سہارہ لينے والے اس بات کو سوچ رہے تھے کہ جس طرح جمادات، نباتات اور حيواتات خود بخود ارتقاء کي جانب گامزن ہيں اسي طرح انساني معاشرہ بھي بغير احساس خود شعوري اور انساني کردار کے پروان چڑھ جاتا ہے- جمادات کا ارتقاء نباتات ميں ديکھنے والے اور نباتات کا ارتقاء حيوانات ميں تلاش کرنے والے جب انسان کو تختہ مشق بنانے پر آئے انہوں نے اس ترقي ء کمالات و مقامات کي منزليں آخرت ميں تلاش کرنے کے بجائے اسے تنزل اور انحطاط کي راہ دکھا کر اس کے ارتقاء کو تسفل کے مدارج ميں ڈھونڈنا شروع کيا- انساني تمدن کا کھوج بن مانسوں اور بندروں کے جبلّي ميلانات اور وحشيوں کے شہوات ميں تلاش کرتے کرتے وہ خود وحشت و بربريت کي آخري حد کو پھانگ نکلے - نتيجے ميں بيسويں صدي عيسوي کے اوائل ميں جنگ ظيم کي تباہ کاريوں کا مشاہدہ کيا تو اواسط ميں سامراجيت اور فسطائيت کا ننگا ناچ ديکھا-
جب کبھي انسان نے قانون فطرت کي شوکت کو قانوني حاکموں کي غير فطري بالادستي کي آڑ بنايا ہے اور عسکري قوت لے کر معاشرہ کي حفاظت کے بجائے استحصال کا برتائو کيا ہے ، رحمت خداوندي جوش ميں آئي ہے-کبھي ملت ابراہيمي کي روشني نے ظلمت کدہء يونان ميں سحر کي، تو حضرت موسي نے احکام عشرہ کے ذريعے اپني امت کو پيغام ديا کہ قانون کا سرچشمہ انساني معاشرہ کي ہدايت ہے حضرت عيسيٰ نے تعليم دي کہ انسان صرف قوت کے بل بوتے پر صحت مند معاشرہ قائم نہيں کر سکتا بلکہ اس کے سامنے '' آخرت '' کا نصب العين ضروري ہے-
نبي آخر الزمان (ص) نے کردار انساني کو معراج عطا کر کے ہدايت کا بيڑا آئمہ کرام کے حوالے کر ديا آئمہ ھديٰ نے پرچم انسانيت کو دنيا کے گوشے گوشے ميں لہرا کر پرچم سالاري کي ذمہ داري علماء و مجتہدين کو سومپ دي - اب وحي کي راہ آئندہ کے لئے مسدود کر کے علم و تحقيق کي شاہراہيں کھول دي گئي-
طلوع ارتقاء
کائنات کے اخلاق قويٰ کے تصادم اور اس کے احوال و نتائج پر غور کريں تو ہميں ايک منظم قانون فطرت کارفرما نظر آتا ہے- جس کے مد مقابل ايک باطل نظريہ جنم ليتا ہے اس نظريہ کے علمبردار پيدا ہوتے ہيں اس پر ايک باطل نظام اخلاق، ايک باطل نظام معيشت اور ايک باطل نظام سياست کے ردّے چڑھتے چلے جاتے ہيں- يہاں تک کہ انديشہ پيدا ہوتا ہيکہ اس غلبہ کے نيچے دب کر صالح اخلاق کے تمام عناصر دم توڑ ديں گے تا ہم اس نظام باطل کو مہلت ملتي رہتي ہے يہاں تک کہ تمام خشکي و تري ميں فساد کي سياہي چھا جاتي ہے اس عالم کے مصلحين اس دنيا کي از سر نو اصلاح سے مايوس ہونے لگتے ہيں پھر پروردگا عالم دفتعتا ايک مخفي ہاتھ نمودار کرتا ہے جو اس نظام باطل کو کسي حد تک جھنجھوڑنے ميں کامياب ہوتا ہے
١٩٠٠ ع ميں خليج فارس کي سرزمين ايران کے شہر خمين ميں ايک ايسي ہي ہستي نصرت ايزدي کي صورت ميں حاجي آغا مصطفي کے گھر طلوع ہوئي جس نے انسانيت کے ارتقاء کو از سر نو معراج عطا کرنے کا بيڑا اٹھايا اس ہستي کا نام تھا '' آيت اللہ روح اللہ الخميني''-
مغرب کي لاديني سياست جس ميں کليسا کو حاکميت سے، مذہب کو نظام حکومت سے الگ کر ديا گيا تھا ،جو کسي نيک نيتي يا فلاح انسانيت کے تصور پر مبني نہ تھي جس نے ظلم و بربريت کے لئے ايک نيا جواز تلاش کر ليا تھادوسري طرف اسي سياست نے عقيدہ و طينت کي بنياد پر ايک نئے سياسي تصور يعني ''قوميت'' کو جنم ديا- اور تمام اقوام ميں قوميت کا تازہ جوش پيدا کر کے انہيں ملت اسلاميہ کے خلاف متحد و صف آراء ہونے پر آمادہ کر ديا-
امام خميني نے مغرب کي اسي استعماري سازش کو سب سے پہلے بے نقاب کرتے ہوئے موجودہ دنيا ميں پہلي مرتبہ سياسي پيلٹ فارم سے آواز ''اللہ اکبر'' بلند کي اور اس نعرہ اللہ اکبر کو عملي جامعہ پہنا کر مسلمانوں کو دنيائے مغرب کے سامنے سر خرو کرديا اورانسانيت کي ہچکولے کھاتي ہوئي کشتي کو معراج ارتقاء عطا کر دي-
امام موسي کاظم عليہ السلام کي حيات طيبہ کا مختصر جائزہ

امام موسي کاظم عليہ السلام نے مختلف حکاّم دنيا کے دور ميں زندگي بسر کي آپ کا دور حالات کے اعتبار سے نہايت مصائب اور شديد مشکلات اور خفقان کا دور تھا ہرآنے والے بادشاہ کي امام پرسخت نظر تھي ليکن يہ آپ کا کمالِ امامت تھا کہ آپ انبوہ مصائب کے دورميں قدم قدم پر لوگوں کو درس علم وہدايت عطافرماتے رہے، اتنے نامناسب حالات ميں آپ نے اس دانشگاہ کي جوآپ کے پدر بزرگوارکي قائم کردہ تھي پاسداري اور حفاظت فرمائي آپ کا مقصد امت کي ہدايت اورنشرعلوم آل محمد تھا جس کي آپ نے قدم قدم پر ترويج کي اور حکومت وقت توبہرحال امامت کي محتاج ہے -
چنانچہ تاريخ ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ مہدي جو اپنے زمانے کا حاکم تھا مدينہ آيا اور امام مو سيٰ کاظم سے مسلۂ تحريم شراب پر بحث کرنے لگا وہ اپنے ذہنِ ناقص ميں خيال کرتا تھا کہ معاذاللہ اس طرح امام کي رسوائي کي جائے ليکن شايد وہ يہ نہيں جانتا تھا کہ يہ وارث باب مدينتہ العلم ہيں چنانچہ امام سے سوال کرتا ہے کہ آپ حرمتِ شراب کي قران سے دليل ديجيے امام نے فرمايا ’’خداوند سورۂ اعراف ميں فرماتا ہے اے حبيب !کہہ دو کہ ميرے خدا نے کارِ بد چہ ظاہر چہ مخفي و اثم و ستم بنا حق حرام قرار ديا ہے اور يہا ں اثم سے مراد شراب ہے ‘‘ امام يہ کہہ کر خاموش نہيں ہوتے ہيں بلکہ فرماتے ہيں خدا وند نيز سورۂ بقر ميں فرماتا ہے اے ميرے حبيب! لوگ تم سے شراب اور قمار کے بارے ميں سوال کرتے ہيں کہہ دو کہ يہ دونوں بہت عظيم گناہ ہے اسي وجہ سے شراب قرآن ميں صريحاً حرام قرار دي گئي ہے مہدي، امام کے اس عالمانہ جواب سے بہت متاثر ہوا اور بے اختيارکہنے لگا ايسا عالمانہ جواب سوائے خانوادۂ عصمت و طہارت کے کوئي نہيں دے سکتا يہي سبب تھا کہ لوگوں کے قلوب پر امام کي حکومت تھي اگر چہ لوگوں کے جسموں پر حکمران حاکم تھے- ہارون کے حالات ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ قبرِ رسول اللہ پر کھڑ ے ہو کر کہتا ہے اے خدا کے رسول آپ پر سلام اے پسرِ عمّو آپ پر سلام - وہ يہ چاہتا تھا کہ ميرے اس عمل سے لوگ يہ پہچان ليں کہ خليفہ سرور کائنات کا چچازاد بھائي ہے - اسي ہنگام امام کاظم قبر پيغمبر کے نزديک آئے اورفرمايا’’اے ا کے رسول! آپ پرسلام‘‘اے پدر بزرگوار! آپ پرسلام‘‘ ہارون امام کے اس عمل سے بہت غضبناک ہوا- فوراً امام کي طرف رخ کر کے کہتا ہے ’’آپ فرزند رسول ہونے کا دعوہ کيسے کرسکتے ہيں ؟جب کہ آپ علي مرتضيٰ کے فرزندہيں - امام نے فرماياتونے قرآن کريم ميں سورۂ انعام کي آيت نہيں پڑھي جس ميں خدا فرماتا ہے ’’قبيلۂ ابراہيم سے داۆد، سليمان، ايوب، يوسف، موسيٰ، ہارون، زکريا، يحييٰ، عيسيٰ، اورالياس يہ سب کے سب ہمارے نيک اورصالح بندے تھے ہم نے ان کي ہدايت کي اس آيت ميں اللہ نے حضرت عيسيٰ کو گزشتہ انبياء کا فرزند قرار ديا ہے - حالانکہ عيسيٰ بغير باپ کے پيدا ہوئے تھے - حضرت مريم کي طرف سے پيامبران سابق کي طرف نسبت دي ہے اس آيۂ کريمہ کي رو سے بيٹي کا بيٹا فرزند شمار ہوتا ہے - اس دليل کے تحت ميں اپني ماں فاطمہ کے واسطہ سے فرزند نبي ہوں - اس کے بعدامام فرماتے ہيں کہ اے ہارون! يہ بتا کہ اگر اسي وقت پيغمبر دنيا ميں آجائيں اور اپنے لئے تيري بيٹي کا سوال فرمائيں تو تو اپني بيٹي پيغمبر کي زوجيت ميں دے گايا نہيں ؟ ہارون برجستہ جواب ديتا ہے نہ صرف يہ کہ ميں اپني بيٹي کو پيامبر کي زوجيت ميں دونگا بلکہ اس کارنامے پرتمام عرب و عجم پر افتخار کرونگا امام فرماتے ہيں کہ تو اس رشتے پر تو سارے عرب و عجم پر فخر کريگا ليکن پيامبر ہماري بيٹي کے بارے ميں يہ سوال نہيں کر سکتے اس لئے کہ ہماري بيٹياں پيامبر کي بيٹياں ہيں اور باپ پر بيٹي حرام ہے امام کے اس استدلال سے حاکم وقت نہايت پشيمان ہوا- امام موسيٰ کاظم نے علم امامت کي بنياد پر بڑے بڑے مغرور اور متکبر بادشاہوں سے اپنا علمي سکّہ منواليا امام قدم قدم پر لوگوں کي ہدايت کے اسباب فراہم کرتے رہے- چنانچہ جب ہارون نے علي بن يقطين کو اپنا وزير بنانا چاہا اورعلي بن يقطين نے امام موسيٰ کاظم سے مشورہ کيا تو آپ نے اجازت ديدي امام کا ہدف يہ تھا کہ اس طريقہ سے جان و مال و حقوق شيعيان محفوظ رہيں- امام نے علي بن يقطين سے فرمايا تو ہمارے شيعوں کي جان و مال کو ہارون کے شر سے بچانا ہم تيري تين چيزوں کي ضمانت ليتے ہيں کہ اگر تو نے اس عہد کو پورا کيا تو ہم ضامن ہيں- تم تلوار سے ہرگز قتل نہيں کئے جاۆگے- ہرگز مفلس نہ ہو گے- تمہيں کبھي قيد نہيں کيا جائے گا- علي بن يقطين نے ہميشہ امام کے شيعوں کو حکومت کے شر سے بچايا اور امام کا وعدہ بھي پورا ہوا- نہ ہارون، پسر يقطين کو قتل کرسکا- نہ وہ تنگدست ہوا- نہ قيد ہوا- لوگوں نے بہت چاہا کہ فرزند يقطين کو قتل کرا ديا جائے ليکن ضمانتِ امامت، علي بن يقطين کے سر پر سايہ فگن تھي - ايک مرتبہ ہارون نے علي بن يقطين کو لباس فاخرہ ديا علي بن يقطين نے اس لباس کو امام موسيٰ کاظم کي خدمت ميں پيش کر ديا مولا يہ آپ کي شايانِ شان ہے- امام نے اس لباس کو واپس کر ديا اے علي ابن يقطين اس لباس کو محفوظ رکھو يہ برے وقت ميں تمہارے کام آئے گا ادھر دشمنوں نے بادشاہ سے شکايت کي کہ علي ابن يقطين امام کاظم کي امامت کا معتقد ہے يہ ان کو خمس کي رقم روانہ کرتا ہے يہاں تک کہ جو لباس فاخرہ تو نے علي ابن يقطين کو عنايت کيا تھا وہ بھي اس نے امام کاظم کو دے ديا ہے- بادشاہ سخت غضب ناک ہوا اور علي ابن يقطين کے قتل پر آمادہ ہو گيا فورا علي ابن يقطين کو طلب کيا اور کہا وہ لباس کہاں ہے جو ميں نے تمہيں عنايت کيا تھا؟ علي ابن يقطين نے غلام کو بھيج کر لباس، ہارون کے سامنے پيش کر ديا ہارون بہت زيادہ خجالت زدہ ہوا يہ ہے تدبير امامت اور علم امامت-
مسجد نمرہ – سعودي عرب
مسلمان عازمین عرفات کے میدان میں نمرہ مسجد کے باہر عبادت میں مصروف ہیں
سعودی عرب کے میدان عرفات میں واقع ایک اہم مسجد ہے جہاں 9 ذی الحج کو امام حج کا خطبہ پڑھا جاتا ہے اور اس کے بعد ظہر اور عصر کی نمازوں کے دو دو فرض قصر پڑھے جاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 10ھ (7 مارچ 632ء) کو حجۃ الوداع کے موقع پر دوپہر کو ایک خیمے میں آرام فرمایا تھا۔ جب دوپہر ڈھلی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی پہاڑی پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا اسی لیے اس پہاڑی کو جبل رحمت کہتے ہیں جبکہ اس خطبے کو خطبہ حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ جس کے دیگر نام کچھ اس طرح ہیں مسجد عرنہ مسجد عرفہ یا جامع ابراہیم اس مسجد کا رقبہ اڑھائی لاکھ میٹر ہے اور عرفات میں ٹھہرنے والے نصف حاجی اس مسجد کے صحن اور اس کی منزلوں میں ٹھہرتے ہیں۔
نمرہ مسجد کے قریب دوران نماز عازمین باہر تک آئے ہوئے ہیں
اس مسجد کی جدید انجینئرنگ کی معماری کے تحت تعمیر نو کی گئی ہے اور اس کی تعمیر نو کے لیے ۴۰۰ملین سعودی ریال کی لاگت آئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مسجد نمرہ دوسری صدی ہجری میں بنائی گئی تھی اور مہدی عباسی کے دور میں اس کا رقبہ ۸ہزار مربع میٹر تھا کہ جو اس مسجد کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔
شیخ محمود شلتوت
شيخ محمود شلتوت ٥شوال ١٣١٠ ھ ق مصر کے ايک صوبہ ’بجيرہ‘[١] ضلع ’ ايقاي البارود‘‘ کے ايک گاوں ’’ منشاۃ بني منصور‘‘ کے ايک عظيم الشان علمی اور ادبی گھرانے ميں پيداہوئے ، آپ کے والد’’ شيخ محمد ‘‘نے اس نومولود کا نام محمود رکھا اور اسکي تعليم و تربيت ميں کوئي کسر نہيں چھوڑي ۔
تحصيل کي شروعات
ابھي محمود کي عمر کے سات سال گذرنے نہ پائے تھے کہ باپ کا سايہ سر سے اٹھ گيا۔ چچا ’ شيخ عبد القوي شلتوت‘ نے اپنے بھتيجے کي سرپرستي اپنے ذمہ لے لي، محمود ميں ذہانت ، نبوغ اور درخشاں استعداد کے آثار شروع ہي سے نمایاں تھے ، جب ان آثار کو چچانے ديکھا تو گاوں ہي کے ايک مکتب ميں علوم اسلامي اور معارف کي تحصيل کے لئے بٹھاديا۔
چونکہ مصر کے مکتب خانوں کے قوانين ميں سے ايک قانون يہ بھي تھا کہ عربی ادب کے شروع کرنے سے پہلے پورے قرآن کو حفظ کرنا ضروري تھا لہذا محمود نے کچھ ہي عرصہ ميں پورا قرآن حفظ کرڈالا۔
اعلی تعلیم
شيخ محمودنےعلم کے اعليٰ درجات حاصل کرنے کے لئے ١٣٢٨ ھ ق مطابق ١٩٠٦ ئ ميں شہر اسکندريہ کي طرف ہجرت کي اور اسکندريہ يونيورسٹي [٢]ميں داخلہ لے ليا۔
محمود کي ذہانت اور بے مثال استعداد کود يکھ کر اسکندريہ يونيورسٹي کے تمام اساتذہ اور طلاب حيرت زدہ تھے ، پڑھائي کے لئے دل و جان سے محنت کي اور ١٣٤٠ ق مطابق ١٩١٨ ميں اسکندريہ يونيورسٹي کي عالي سند حاصل کرلي اور انہيں بہترين طالب علم ہونے کا ايوارڈ ملا حالانکہ ابھي عمر کے کل ٢٥ سال ہی گذرے تھے۔
انہوں نے ١٣٤١ ھ مطابق فروري١٩١٩ ميں اپني تعليم کو پايہ تکميل تک پہنچایااور اسي يونيور سٹي ميں استاد کي حيثيت سے مشغول تدريس ہوگئے۔
شيخ محمود شلتوت کي طالب علمی اور تدريس کا زمانہ ’’ سعد زغلول‘‘ کي رہبري ميں مصر کي عوامي تحريک کا زمانہ تھا ، مصر کے سارے شہروں اور ديہاتوں میں سعد زغلول[٣] کي حمايت اور مصر پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے ،ان حالات کو ديکھ کر شيخ محمود شلتوت نے بھی اپنا انقلابي وظيفہ نبھاتے ہوئے زبان اور قلم سے مصر کي عوامي تحريک ميں حصہ ليا۔
الازہر يونيورسٹي ميں داخلہ
شيخ محمد مصطفي مراغي عقيدہ کے اعتبارسے شيخ محمود شلتوت کے ذہن پر چھائے ہوئے تھے ١٣٦٠ ھ مطابق ١٩٣٨ ميں الازہر يونيورسٹي کي رياست کے دوران جناب شلتوت کے مقالہ کا مطالعہ کيا اور اس کے ذريعہ ان کے قلم کے اعجاز اور عربی ادب پر مہارت کو ديکھ کر الازہر يونيورسٹي ميں تدريس کے لئے دعوت دے دي ، اس دوران شلتوت اسکندريہ يونيورسٹي ميں مشغول تدريس تھے، شيخ مصطفي مراغي کے دعوتنامہ پر لبيک کہتے ہوئے قاہرہ کا سفر کيا اور الازہر يونيورسٹي ميں استاد کي حيثيت سے مشغول تدريس ہوگئے۔
جنا ب شلتوت نے متعدد اساتيد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کيا ليکن ان تمام اساتيد ميں صرف تين اساتذہ ان کي تعليم و تربيت ميں سب سے زیادہ حصہ دار رہے ہيں:
١۔ استاد شيخ الجيزاوي : اسکندريہ يونيورسٹي ميں شيخ محمود شلتوت کے اساتيدميں سے تھے۔
٢۔ شيخ عبد المجيد سليم: استاد عبد المجيد سليم ١٣٠٤ ھ مطابق اکتوبر ١٩٨٢ ئ مصر کي سرزمين پر پيدا ہوئے ابتدائي تعليم حاصل کرنے کے بعد الازہر يونيورسٹي ميں داخلہ ليا اور ١٣٣٠ ميں وہاں سے فارغ التحصيل ہوگئے، انہوں نے اپني تعليم کوپايہ تکميل تک پہنچانے کے بعد قضاوت، تدريس اور فتواکميٹي کے رکن کی حیثیت سے اپني علمی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ان کا شمارمحمد عبدہ کے شاگردوں ميں ہوتا ہے۔
عبد المجيد سليم کا شمار’’ جماعت تقريب مذاہب اسلامي‘‘ کے بانیوں ميں ہوتا ہے بلکہ اس کے ايک اہم رکن بھي تھے ، ان کي سب سے بڑي خصوصيت صراحت اور شجاعت تھي ، انہيں اوصاف کے پيش نظر جب آپ نے ١٣٦٨ ھ ميں ديکھا کہ حکومت الازہر يونيورسٹي کے داخلي امور ميں دخالت کرنا چاہتي ہے تو فوراً اس کي صدارت سے استعفيٰ دے ديا،جب دربار حکومت کے ديوان کے رئيس نے اس طرح عبد المجيد سليم کا رد عمل ديکھا تو دھمکي دي : تم اپنے اس رويہ کي بنا پر تنبيہ کئے جاوگے ،يہ سن کر شيخ عبد المجيد نے نڈر ہوکر کہا: سن لو! جب تک ميں اپنے گھر اور مسجد کے درميان حرکت کرتا رہوں گا ،مجھے کوئي خطرہ لاحق نہيں ہوسکتا۔( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ ش،ص٢٤)
تقريب اور اتحاد اسلامي کے ميدان ميں عرصہ دراز تک خدمت کرنے کے بعد روز پنجشنبہ ١٠ صفر ١٣٧٤ ق ميں دار فاني کو وداع کيا۔( خفاجي، ج١، ص ٣٠٦)
٣۔ شيخ امام محمد مصطفي مراغي: مملکت مصر کے صوبہ ’’سوہاج‘‘ کے ايک شہر ’’ مراغہ‘‘ ميں ١٣٠٣ ھ مطابق مارچ١٨٨١ م کوپيدا ہوئے ، بچپنا گذرتے ہي حفظ قرآن ميں مشغول ہوگئے اور بہت جلد پورا قرآن حفظ کرليا، آپ کا شمار محمد عبدہ کے شاگردوں اور ان کے پيروکاروں ميں ہوتا ہے اور آپ کي شخصيت ان کے عقائد اور نظريات سے بے حد متآثر تھی
آپ کے بارے ميں جناب رشيد رضا کہتے ہيں: ’’ ان کا شمار محمد عبدہ کے خالص ترين شاگردوں ميں ہوتا ہے ۔( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ ش،ص ٢٤)
جب محمد عبدہ کو سوڈان کا سفر درپيش ہوا تو انہوں نے شيخ مصطفي مراغي کو اپنے ہمراہ لیا اور وہاں آپ نے قضاوت کي ذمہ داري سنبھال لي، جناب شيخ محمود شلتوت اپنے استاد کي تعريف و تمجيد کرتے ہوئے فرماتے ہيں: جناب شيخ مصطفي مراغي کے پاس جو کچھ علم و عقل اور افکار و نظريات تھے وہ سب شيخ محمد عبدہ کي دين تھے‘‘( احمدي، ١٣٨٣ ش ،ص٥٤)
’’ مجمع التقريب ‘‘ کميٹي کے سیکرٹری جنرل محمد تقي قمي ان کے بارے ميں اس طرح اظہارخیال کرتےہيں:’’ [امام مراغي] ايک باوقار ، بانظم اور ايک بابصيرت انسان تھے ‘‘...وہ ایمانی جوش و جذبے سے سرشارتھے اور لوگوں کو ايک نقطہ اور ايک مرکز پر لانے اور ان کے درميان رابطہ ايجاد کرنے ميں بنيادي کردار ادا کرتے تھے ، انہوں نے بعض علماء جيسے شيخ مصطفي عبد الرزاق اور شيخ عبد المجيد سليم کو میدان عمل اور اتحاد کی کوششیں کرنے کی ترغیب دلائي ۔ ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ش، ٦٥)
انہوں نے اپنے بعد بطور يادگار قرآن اور معارف اسلامي کے ميدان ميں آثار چھوڑ ے جيسے ’’ الاوليائ والمحجورين‘‘ ’’ قرآن کے ترجمہ کے متعلق ايک بحث‘‘، ’’ لغوي اور دروسي مباحث کے ہمراہ سورہ لقمان ، حجرات، الحديد، اور والعصر... کي تفسير ‘‘( احمدي، ١٣٨٣ش، ص٥٤)
شاگرد
١۔ عباس محمود عقاد
عباس محمود عقاد ايک زبردست شاعر، نقاد اور مصر کے صحافیوں ميں سرفہرست تھے ، ان کي ولادت ١٣١١ ق مطابق ١٨٨٩ شہر ’’ اسوان‘‘ ميں ہوئي ، آپ کا مشغلہ صحافت تھا ليکن شعر کہنے ميں يد طولاني رکھتے تھے۔ آپ کے بيشتر آثار اشعار سے متعلق ہيں جيسے ’’ ديوان شعر، وحي الاربعين، ہديۃ الکروان و عابر السبيل‘‘ ان تاليفات کے علاوہ دو کتابيں اور ’’ عبقريۃ محمد‘‘ اور ’’ عبقريۃ عمر‘‘ اسلامي شخصيتوں کے متعلق تحرير کي ہيں۔( المنجد في الاعلام، ص ٤٧١)
٢۔ شيخ علي عبد الرزاق
الازہر يونيورسٹي سے کنارہ کشي
شيخ مصطفي مراغي الازہر يونيورسٹي ميں بطور اصلاح کچھ تبديلياں لانا چاہتے تھے جس کے پيش نظر انہوں نے حکومت مصر کي حمايت حاصل کرنے کے لئے اپنا پروگرام حکومت وقت کے سپرد کيا، ان کي حمايت ميں جناب شلتوت نے متعدد مضامین لکھے اور ان کے پروگرام کو الازہر يونيورسٹي کی ثقافتي اور علمي حالت کو بہتر بنانے کي راہ ميں ايک بہترين اقدام کے طور پر سراہا۔
ليکن مصر کے فاسد اور غيروں پر بھروسہ کئے ہوئے دربارنے اس کي مخالفت کي ، يہ ديکھ کر جناب مصطفي مراغي نے الازہر يونيورسٹي کي رياست سے استعفيٰ دے ديا، دربار نے آپ کا استعفيٰ قبول کرتے ہوئے ’’ شيخ محمد ظواہري‘‘ کو الازہر کي رياست سونپ دي ، شيخ محمد ظواہري ، الازہر کي رياست پانے کے بعد دربار کے مقاصد کو پورا کرنے کا ارادہ بنايا ليکن انہيں دورانديش علمائ کي مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جب ظواہري نے اپنے آپ کو مخالفتوں کے گھيرے ميں ديکھا تو انہوں نے بچاو کے لئے مخالفوں کے سربراہوں کو برخاست کرديا جن ميں شيخ محمود شلتوت بھي تھے ، جنہيں ١٣٥٣ ق مطابق ١٧ ستمبر ١٩٣١ ئ ميں برطرف کيا گيا۔
جناب شلتوت الازہر سے نکلنے کے بعد ايک لحظہ کے لئے بھي بيکار نہيں بيٹھے بلکہ اپنے شاگرد شيخ علي عبد الرزاق کو ہمراہ لے کر عدالت ميں وکالت اور اخبارات ميں مقالہ نويسي ميں مشغول ہوگئے ليکن الازہر کے متعلق اپنے نظريات سے دستبردار نہيں ہوئے اور اپنے تمام مقالوں ميں الازہر ميں اصلاحات کے لئے تاکيدکيا کرتے ۔
يونہي کچھ مدت گذري ليکن الازہر کے ذمہ دار روں کو اس بات کا احساس ہوگيا کہ بزرگ اساتذہ جيسے شلتوت وغيرہ کے نہ ہونے کي وجہ سے الازہر کي اہميت کم ہوتی جارہی ہے لہذا ١٣٥٣ ق مطابق ١٩٣٥ئ ميں دوبارہ مجبور ہو کر تدريس کے لئے دعوت دے دي لہذا اسي سال شريعت کالج ميں مشغول تدريس ہوگئے۔
علمي افتخارات
شيخ محمود شلتوت کو ان کے علمی کارناموں کی وجہ سے دوران حيات ہی متعدد بار سراہاگيآ ۔ ١٣٨٠ ق مطابق ١٩٥٨ ميں چلي کی يونيورسٹي کي جانب سے اور ١٣٨٢ ق مطابق ١٩٦٠ ميں جکارتا يونيورسٹي کي جانب سے اعزازی ڈاکٹريٹ کي سند حاصل کي ۔( خفاجي، ج٣، ص ٤٤٤)
الازہر کي صدرات
مصر کي حکومت نے دوبارہ ١٣٥٩ ق مطابق ١٩٣٧ ميں شيخ مراغي کو الازہر کي رياست سونپ دي ، شيخ محمود شلتوت کي لياقت، تدبير اور شيخ مراغي کا لگاو اس بات کا سبب بناکہ آپ کو شريعت کالج کا قائم مقام سربراہ بناديں۔
شيخ مراغي نے ١٣٧٩ ق مطابق ١٣٥٧ ئ ميں شيخ شلتوت کو الازہر کا قائم مقام صدر بناديا۔
شيخ محمود شلتوت ١٣٨٣ق، مطاق ١٩٦١ ميں مصر کے صدر کي جانب سے الازہر کے وائس چآنسلرکے عھدے کے لئے منتخب ہوئے ، انہوں نے اپني صدارت کے دوران الازہر اور اسلام کے لئے بيش بہا خدمات انجام دیں
جناب شلتوت نے الازہر يونيورسٹي کے لئے جو اصلاحي پروگرام تيار کئے تھے ، ان ميں سب سے زيادہ اہم مذہبي تعصبات کا قلع قمع کرنا تھا ، جب کسي رپورٹر نے آپ سے سوال کيا: آپ کے دور ميں الازہر يونيورسٹي کا ہدف کيا ہوگا؟
جناب شلتوت نے جواب ديا: ميرے پروگرام کا بنيادي ہدف، تعصبات سے جنگ ، علوم ديني کے متعلق ہمدلي اور مل جل کر تحقيق کرنا اورايسي راہيں تلاش کرنا جن کے ذريعہ دين و ايمان کي خدمت ہوسکے اور ہر اس دليل کا اتباع کرنا جو کسي بھي افق سے طلوع کرے۔
اگر مسلمان ان معاني کو جامہ عمل پہنا ديں تو ايک ايسي طاقت کے مالک بن جائيں گے کہ جس کے سايہ ميں چين و سکون کے ساتھ اپني عظمت رفتہ اور شوکت کو زندہ کرليں گے اور ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرليں گےجو تعصبات کي وجہ سے وجود ميں آئي ہيں اورمتحدہوکرزندگي گذارسکیں گے(بي آزار شيرازي ١٣٧٧ش،ص٣٥٥جمہوري اسلامي ، ١٩١٠١٣٧٩ ،ويژہ نامہ ص١٠)
الازہر يونيورسٹي کي صدارت کے دوران تين اہم کاموں ميں سے ايک کام بقيہ مذاہب اہل سنت کي فقہوں کي تدريس کے ساتھ فقہ شيعہ کي تدريس کا سلسلہ شروع کيا، اس ضمن ميں انہوںنے فرمايا:’’ تقريب بين المذاہب اسلامي کے مدنظر الازہر يونيورسٹي کے قوانين اور مقررات ميں سے ہے کہ اس يونيورسٹي ميں کسي بھي تعصب کے بغير سني اور شيعہ فقہيں دليل و برہان کے ساتھ پڑھائي جائيں‘‘( جمہوري اسلامي ، ١٩١٠١٣٧٩ ،ويژہ نامہ ص١٠)
علمي کارنامے
١۔ ’’ تحقيقات اسلامي اکيڈمي ‘‘ کي تآسيس
اس موسسہ کي بنياد شيخ شلتوت نے رکھي جس ميں تمام مذاہب کے نمائندے اکٹھا ہوتے ہيں اوراسلام کے مختلف موضوعات پر بحث کرتے ہيں۔( مردم ودين ، ص١٦)
٢۔ ہالينڈ کي کانفرنس ميں شرکت
شيخ محمود شلتوت ١٣٥٩ق مطابق ١٩٣٧ئ ميں الازہر يونيورسٹي کي نمائندگي ميں ہالينڈ ميں برپا ہونے والي عالمي کانفرنس ’’لاہہ‘‘ ميں شرکت کي اوراس ميں ايک مقالہ پيش کيا جس کا عنوان تھا ’’ المسوليۃ المدنيۃ والجنائيۃ في الشريعۃ الاسلاميۃ ‘‘ چونکہ يہ مقالہ علمي اور ادبي لحاظ سے زبردست تھا، لہذا کانفرنس کي جانب سے اسے بہت سراہا گيا اور پھر اسے بعنوان نمونہ شائع بھي کيا گيا۔
٣۔ ريڈيوپر کي جانے والي تفسير کے کميشن کے رکن
اس کميشن کا فریضہ تھا کہ مصر ميں ريڈيو پر جو قرآن کي تفسير بيان کي جاتي ہے ، اس پر نگرانی کرے ، شيخ شلتوت اس کميٹي کے ايک فعال رکن تھے اور آپ ہي کے مشورے پر صبح ميں قرآن کي تلاوت پيش کرنے سے پہلے اوراس کے بعد ’’ حديث الصباح‘‘ کے نام سے قرآن کي تفسير بيان کي جاتي تھي۔
٤۔ الازہرکي فتوا کميٹي ميں رکنیت
اس کميٹي کا سب سے بڑا فریضہ يہ تھا کہ سماج کي ضروريات کے پيش نظر فقہ کے مختلف ابواب ميں فتوے صاد ر کرے۔
٥۔ مصر کے صف اول کے علماء کي انجمن ميں رکنیت
شيخ شلتوت جس وقت اس کميٹي کے رکن بنے اس وقت اس کميٹي کے سب سے جوان رکن تھے ليکن عمر کي کمي کے باجود دوسروں کے مقابلہ ميں جب اس کے پہلے جلسہ ميں شرکت کي تو ايسے ايسے اہم مشورے دئيے کہ جسے سننے کے بعد اس کميٹي ميں شيخ عبد المجيد کي رياست کے تحت ايک دوسري کميٹي بنائي گئي تاکہ شيخ شلتوت کے مشوروں پر تحقيق کر کے اس کو عملي جامہ پہنايا جائے۔
٦۔ مغربي جرمني کي حکومت ميں متعہ کے متعلق شيخ کے نظريات
مغربي جرمنی کي حکومت نے الازہر يونيورسٹي کے رئيس شيخ شلتوت کے نام ايک خط لکھا اور درخواست کي کہ اسلامي نقطہ نظر سے تعدد زوجات کے مسئلہ کو بطور مفصل لکھ بھيجيں تاکہ وہ لوگ اس کي مدد سے مغربي جرمني کے مردوں کے لئے تعدد زوجات کے مسئلہ کو حل کرسکيں ، شيخ شلتوت نے ان کي درخواست کا مثبت جواب ديتے ہوئے ايک مسودہ تيار کيا ، يہ مسودہ انگلش، جرمن، اور فرينچ ميں ترجمہ ہوا اورا سکے متعلق کہا جانے لگا کہ اس مسودہ ميں شيخ شلتوت نے جو بحث کي ہے وہ بے مثال ہے جو مغربي جرمني ميں ازدواج اور عورتوں کي بڑھتي ہوئي تعداد کو حل کرسکتي ہے ۔( مکارم شيرازي ، اسفند ١٣٣٨ ش،ص٤٤)
٧۔ مصرمیں عربی زبان کے ثقافتی مرکز ميں رکنیت
شيخ شلتوت کے اقدامات
شيخ شلتو ت نے ١٥خرداد ١٣٤٢ ش کے واقعہ کے ٦ روز بعد ايک خط لکھا اور تمام مسلمانوں سے درخواست کي :ايراني علمائ کي حمايت کرو جو حق سے دفاع کي وجہ سے قيد خانوں ميں بند ہيں ، انہوں نے اس خط ميں علمائ کي گرفتاري اورا ن کي ہتک حرمت کو بشريت کے لئے ايک دھبہ قرار ديا اور باضابطہ طورپر شاہ ايران کے نام ٹيلي گراف بھيجا کہ علمائے اسلام کي حرمت کا خيال رکھے اور اسے پائمال نہ کرے اور جلد از جلد گرفتار کئے گئے علما اوران کے ہمراہ افراد کو آزاد کرے۔
اعلاميہ کا متن
بسم اللہ الرحمن الرحيم
ہذا بيان للناس
’’ اس دور ميں کھلم کھلا پروپگنڈے اور بے حرمتياں ہورہي ہيں جن کي قرباني ايران کے علمائ ہيں، يہ وہ غيرت مند لوگ ہيں جو لوگوں کو خدا کي طرف دعوت ديتے ہيں اور اپنے دين کي حفاظت کرتے ہيں ، ان کا جرم صرف يہ ہے کہ تعليمات الٰہي کو عام کرتے ہيں، علمائے اسلام اور ايراني علمائ نے متعدد بار شاہ ايران کے ظلم سہے ہيں اور قید کئ گئے ہيں، امر بالمعروف جو ہر غير عاجز کا وظيفہ ہے اور نہي عن المنکر جو ہر غير عاجز پر واجب ہے ، سے روکے گئے ہيں حالانکہ ان دو واجبوں پر عمل کرنے کے خيرات و برکات امت اسلام کونصيب ہوں گے اور اس کے نتائج ملت ايران کو حاصل ہوں گے ، اس لئے کہ کسي بھي قوم کي حيات اس کے اخلاق سے وابستہ ہے اور اخلاق کا محتوا دين خدا يعني احکام، آداب ،تعليمات وغيرہ سے مل کر بنتا ہے اخلاقيات کو کمال بخشنا اور اس راہ ميں معنوي راہنما اور تاثير گذار عناصر ملت کے علمائے اخلاق ہوتے ہيں جو اپني تبليغ ، رہبري اور مواعظ کے ذريعہ اس کے تکامل کي راہوں کو ہموار کرتے ہيں ۔
اے مسلمانو! ميں تمہيں آگاہ کرتا ہوں : دنيا کے تمام مسلمانوں اور ايران کي مسلمان قوم کے اوپر ہونے والے مظالم کو معمولي نہ سمجھو بلکہ پوري طاقت سے علمائے ايران کو ايران کے ڈکٹيٹر کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے مقابلہ کرو( ولاترکنوا الي الذين ظلموا فتمسکم النار و ما لکم من دون اللہ من اوليا ثم لاتنصرون) اور ظالموں پر بھروسہ نہ کرو کہ ايک دن ضرور آگ تمہارا دامن پکڑے گي ،اس وقت خدا کے سامنے بے يار و مددگار ہوجاوگے اور کوئي تمہاري مدد نہيں کرے گا۔١٨ محرم،١٣٨٣
محمود شلتوت، شيخ الازہر ، ( روحاني[زيارتي]ج١، ص ٥٣٢)
اسرائيل کو رسميت دينا
امريکہ اور انگلينڈ کي مسلسل کوششوں کے نتيجہ ميں ٨٩١٣٢٦ ش مطابق ٢٩ نومبر ١٩٤٧ئ ميں اقوام متحدہ نے فلسطين کو دوحصوں ميں تقسيم کرنے کي پاليسي پاس کردي جس کي وجہ سے فلسطين کا ايک حصہ يہوديوں کے نام اور دوسرا حصہ فلسطينيوں کے نام کردياگيا، اسي کے پانچ مہينہ کے بعد اسرائيلي حکومت کا قيام عمل ميں آيا اورا سکے وجود ميں آتے ہي بعض ملکوں نے اسے رسميت دے دي۔
محمد رضاشاہ جو امريکہ اور انگلينڈ کا سراپا غلام تھا اور اپني بقا کوانہيں کي نوکري ميں سمجھتا تھا ، اسرائيل کو تسلیم کرتے ہوئے بيت المقدس ميں سفارت خانہ کھول ديا، اس خبر کے نشر ہوتے ہي ايران کے تمام علما اور بيرون ملک رہنے والے تمام علما نے اس اقدام پر بڑا سخت اعتراض کيا ، اس وقت کے مذہبي رہبر آيۃ اللہ کاشاني نے اس اقدام کي رد ميں ايک سخت تقرير کي، عربي ممالک نے بھي شاہ ايران کو بڑا برا بھلا کہا اور علمائے اسلام سخت احتجاج کیا۔
شيخ محمود شلتوت نے بھي اسرائيل سے اسلامي ممالک کے روابط کو ٹھکراتے ہوئے شاہ ايران کي مذمت کي اور اس سلسلہ ميں آيۃ اللہ بروجردي کے نام ٹيلي گراف روانہ کيا۔
ٹيلي گراف کا متن يہ ہے :
بسم اللہ الرحمن الرحيم
خدا کا درودو سلام ہو ہمارے تمام بھائيوں اور آپ کے بھائيوں اور ايران کے شفيق علما پرنيز ان لوگوں پر بھي ہو جو مدافع اسلام اور مسلمانوں کي يکجہتي کے نگہبان ہيں، امابعد: يہ مسلم ہے کہ جناب عالي اور تمام لوگوں نے وہ اندوہناک خبرسني ہوگي جو آج کل منتشر ہوئي ہے اور يہ بھي سنا ہوگا کہ شاہ ايران نے اس اسرائيل کو تسلیم کرلیاہے جس نے سرزمين فلسطين پر غاصبانہ قبضہ کياہے، وہاں کے لوگوں کو بے گھر اوران کے حقوق کو غصب کیا ہے۔
يہ دنيا کے مسلمانوں کے لئے بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وہ بادشاہ جو خود بھي مسلمان اورا سکي قوم بھي مسلمان ہے وہ مسلمانوں کے دشمن کي حمايت کررہا ہے اور ان کي طرف دست دوستي بڑھا رہا ہے ، ميں نے دو مرتبہ شاہ کے لئے ٹيلي گراف روانہ کيا ہے اور يہ بات گوش گذار کردي ہے کہ يہ اقدام ان لوگوں کے لئے ايک بہانہ بن جائے گا جو ان روابط کو ختم کرنا چاہتے ہيں جسے ہم محکم بنا نا چاہتے ہيں۔
يقينا آپ بھي اس اقدام سے متاثر ہوں گے اور اس کي مذمت کرنے کے لئے شدت سے کوشش کريں گے اور يقينا آپ کا کوشش کرنا اچھے نتائج کا حامل ہوگا ، آپ کے جواب کا منتظر ، والسلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا بھائي محمود شلتوت ، شيخ الازہر ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٩ش ص٢٦٢)
ليکن افسوس يہ ہے کہ يہ ٹيلي گراف اس وقت قم پہنچا کہ جب آيۃ اللہ بروجردي بستر بيماري پر تھے اور اسي بيماري ميں رحلت فرماگئے ، اس واقعہ سے شيخ شلتوت اپنے و ظيفہ سے دست بردار نہيں ہوئے بلکہ ايک دوسرا خط آيۃ اللہ العظميٰ محسن حکيم اعلي اللہ مقامہ( متوفي ١٣٩٠ق ) کو لکھا اور ان سے درخواست کي کہ اس کے متعلق کوئي اقدام کريں۔
شيخ محمود شلتوت کي طرف سے لکھے گئے يہ دونوں خط چند اہم نکات کے حامل ہيں:
١۔ سر زمين قدس کو آزاد کرانے کے لئے سعي و کوشش کرنا۔
٢۔ ان لوگوں سے مقابلہ کرنا جو کسي بھي طرح سے اسرائيل کي حمايت کرنا چاہتے ہيں۔
٣۔ علمائے تشيع کے ساتھ گہرا رابطہ جسے آپ کے خطوط ميں بخوبي ملاحظہ کيا جاسکتا ہے۔
٤۔ شيعہ علمائ سے مسلسل ان تمام مسائل ميں مشورہ لينا کہ جو دنيا کے مسلمانوں سے متعلق ہيں۔
جب يہ ٹيلي گراف آيۃ اللہ العظميٰ سيد محسن الحکيم اعلي اللہ مقامہ کو ملا تو فوراً آپ نے تہران ميں مقيم آيت اللہ سيد علي بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرا سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني کے نام ايک ٹيلي گراف روانہ کيا اور انہيں اس ماجرے سے باخبر کيا اور آيت اللہ بہبہاني نے بھي علمائے اسلام کي ناراضگي کو شاہ کے سامنے بيان کرديا۔
اتحاد کی کوشش ۔
اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ ، شيخ محمود شلتوت کا شمار کم نظير علما سے ہوتا ہے جنہوں نے اسلامي اتحاد کے لئے ايک خاص اہتمام کيا ، ان کي نظر ميں وحدت کے تحقق کے لئے ايک ايسے مشترکہ نقطہ نظرکو حاصل کرنا ضروري ہے جس پر تمام مذاہب اسلامي متفق ہوں اور تمام مذاہب اسلامي کے درميان مشترکہ نقطہ قرآن کريم ہے ، اس سلسلہ ميں شيخ شلتوت فرماتے ہيں: ’’ اسلام نے لوگوں کو اتحاد کي دعوت دي اور وہ چيز کہ جس سے مسلمان تمسک کرسکيں اور اسکے گرد اکٹھا ہوسکيں اسے حبل اللہ کي صورت ميں پيش کيا ، يہ نکتہ قرآن کي بے شمار آيتوں ميں ملاحظہ کيا جاسکتا ہے اور ہر ايک سے زيادہ سورہ آل عمران کي اس آيت ميں واضح و وروشن ہے جس ميں خدا فرماتا ہے : ’’ واعتصموا بحبل اللہ جمعيا ولا تفرقوا‘‘ ؛خدا نے ہر قسم کے تفرقہ اور اختلاف سے منع کيا ہے جو تعصب کي بنا پر وجود ميں آنے والے تفرقہ کو بھي شامل ہے ، حديث صحيح ميں وارد ہوا ہے : ’’ لاعصبيۃ في الاسلام‘‘ دين اسلام ميں کوئي تعصب نہيں ہے ۔( روزنامہ جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩)
ايک دوسرے مقام پر کتاب خدا ور سنت رسول کو تمام مذاہب اسلامي کے لئے نقطہ مشترک قرار ديتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ اختلاف سے منع کرنا، مذہبي اختلاف کو بھي شامل ہے ، اگرچہ فقہ کے اعتبار سے مذاہب اسلامي متعددہیں اوران کے مباني متفاوت ہيں اس کے باوجود يہ سب کے سب کتاب خدا اور سنت رسول۰ سے وجود ميں آئے ہيں، مذاہب اسلامي کي کثرت اور بہت سے احکام ميں نظريات کے باہمي اختلاف کے ہوتے ہوئے بھي يہ سارے مذاہب نقطہ مشترک اور کلام مشترک کي طرف پلٹتے ہيں کہ جو مصادر اصلي پر ايمان اور کتاب خدا اورسنت رسول کو مقدس ماننا ہے‘‘ ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩)
وحدت کے اسباب
١۔ ترک تعصب
جب ايک صحافي نے شيخ محمود شلتوت سے سوال کيا: اتحاد کو قائم کرنے والے اسباب کيا ہیں؟
انہوں نے جواب ديا: پہلا سبب تعصب سے دوري اور عدل و انصاف کي رعايت کرنا ہے ، يہ ايک ايسي شرط ہے جو ديگر شرائط کے وجود ميں آنے کے لئے ايک مقدمہ ہے جيسے کہ کسي اسلامي ثقافت کا وجود ميں آنا اور نظريات و افکار سے فائدہ اٹھانا، اس مقصد کوپانے کے لئے کتابيں شائع ہوں، مجلات اور ميگزينيں منتشر ہوں، نظريات اور خيالات سے استفادہ کيا جائے ، علمي مراکز اور يونيورسٹياں ايک دوسرے سے آشنا اور اساتيد اور طلاب کا ایک دوسرے کی یونیورسٹیوں کا دورہ کریں ، برادرانہ ماحول ميں نشستيں منعقد ہوں اور ايک دوسرے کے مشوروں سے بہرہ مند ہوا جائے اور اس طرح تمام مشکلات حل کي جائيں اور مسلمانوں کے باہمي روابط کواسي طرح مستحکم کيا جائے جيسا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم فرماتے ہيں:’’ اگر امت اسلام کا کوئي يک عضودرد کرنے لگے تو ديگر اعضائ کو آرام نہ ملے ‘‘ ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص١٠)
شيخ شلتوت علمي محفلوں ميں جو اختلافات پائے جاتے ہيں اور عوام الناس ميں جو خشک تعصبات پائے جاتے ہيں ، ان دونوں کے درميان فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ نظريات کا اختلاف فطری اور ايک اجتماعي ضرورت ہے کہ جس سے چھٹکارا ممکن نہيں ہے اور وہ اختلاف جو مذہبي تعصبات اور افکار کے انجماد کا باعث ہوتا ہے ، ان دونوں ميں بڑا فرق ہے اس لئے کہ تعصب مسلمانوں کے ربط باہمی کوتباہ کر ديتا ہے اور ان کے دلوں ميں دشمني اور نفرت کا بيج بوديتا ہے ليکن جو اختلافات حقيقت کے بعد اور مخالفوں کے نظريات کا احترام رکھتے ہوئے وجود ميں آتے ہيں وہ قابل تمجيد اور مورد قبول ہيں ‘‘( ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص١٠)
ايک دوسرے مقام پر بيان کرتے ہيں:’’ ہر گز کسي کے ذہن ميں يہ خيال نہ آنے پائے کہ وہ حقيقت مطلق تک پہنچ گيا ہے لہذا دوسروں پر لازم ہے کہ اس کي پيروي کريں بلکہ وہ يہ کہے کہ ميں جس نتيجہ تک پہنچا ہوں وہ صرف ايک عقيدہ اور ميري کوششوں اور ميري تحقيق کا نتيجہ ہے لہذا کسي کو يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ بے بنياد ميرا پيروکار ہوجائے بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ ميري باتوں کي حقيقت کو تلاش کرنے کے لئے دلائل ڈھونڈے، پس اگر اس کو دليل مل گئي تو ميں اس کے بعد اس کي تائيد کروںگا‘‘ ( مردم و دين ، ص١٤)
دين کے علما کا کردار
کسي بھي دين کے علما اس دين کے مقاصد کو حاصل کرنے ميں سب سے بڑا کردار ادا کرتے ہيں پس اگر اسلام کے دانشور اور علما لوگوں کو اتحاد کے فوائد اور اختلاف کے نقصانات نيز دشمنوں کے ہتھکنڈوں سے آگاہ کريں تو اسلامي اتحاد وجود ميں آجائے گا اور پھر پورا اسلام عالمي کفر کے مقابلہ ميں صف آرا ہوجائے گا۔
شيخ محمود شلتوت اتحاد اسلامي کے لئے علما کے ممتاز کردار کے پيش نظر ان سب کو اتحاد کي طرف دعوت ديتے ہوئے کہتے ہيں: ’’ ميں ايک بار پھر شيعہ اور سني علما کو نام خدا، کتاب خدا اور حبل اللہ سے تمسک کا واسطہ دے کر اتحاد کي دعوت ديتا ہوں ، اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ خدا کے نزديک وہي لوگ باکرامت ہيں جو ہر ايک سے پہلے اس مقدس ہدف کو حاصل کرليں اور اس سے پہلے انہيں اختلافات کي وجہ سے مسلمانوں کے درميان جو شگاف پڑا ہے ، اسے اور اس کے نقصانات کو ملاحظہ کرتے ہوئے ہمارے نعرہ ’’ اتحاد اسلامي ‘‘ پر لبيک کہے ۔( بي آزار شيرازي،١٣٧٩ش، ص١٨٣)
دشمن کاناجائز فائدہ اٹھانا
عالمي استکبار کي سازشوں ميں سے ايک سازش مسلمانوں کے درميان تفرقے کا بيج بونا ہے تاکہ اس کے ذريعہ وہ اپنے شرمناک مقاصد تک پہنچ سکے اور مسلمانوں کے مفادات تاراج کرسکے۔
اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ استکبار سے زيادہ کسي کو بھي مسلمانوں کے تفرقہ کو ديکھ کر مزہ نہيں آتا ، شيخ شلتوت مسلمانوں کو اس حقيقت کي طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہيں:’’ خدا نے مسلمانوں کو حکم ديا ہے کہ کلمہ وحدت کواپنا ئيں ،پارٹي بازي اور تفرقے سے پرہيز کريں جو قدرت و طاقت کو نابود کرديتے ہيں اسلئے کہ استکبار نے اسي تفرقہ کے ذريعہ بہترين نتائج حاصل کئے ہيں‘‘۔( اخبار تقريب ،ص٤٩و٥٠ ص٤١)
استعمار کو يہ پسند نہيں ہے کہ امت اسلامي متحد ہوجائے اس لئے کہ اسے اچھي طرح معلوم ہے کہ اگر يہ لوگ متحد ہوگئے تو ان کے مقاصد کے سامنے ديوار بن جائيں گے اور ہر گز اس بات کي اجازت نہيں ديں گے کہ ان کے مفادات اور ذخآئرناجائز طريقہ سے لوٹ لے جائيں ، اسي لئے وہ ہر اس اقدام کا مقابلہ کرتے ہيں جو اتحاد اسلامي کا موجب بنے، اسي سلسلہ ميں ميرزا خليل کمرہ اي مرحوم شلتوت کا ايک واقعہ نقل کرتے ہيں کہ جس سے استعمارکي سازش سمجھ ميں آتي ہے ،لکھتے ہيں:’’ ميں نے اپنے وفد کے ساتھ مصر کے سفر کے دوران دو مرتبہ شيخ شلتوت سےملاقات کي ايک مرتبہ الازہر يونيورسٹي ميں اور دوسري مرتبہ ان کے مکان پر ، ان دو ملاقاتوں ميں شيخ شلتوت نے ہمارے سامنے ايسے حقائق اور اسرار سے پردہ اٹھايا کہ جس سے بيگانوں کي مداخلت اور مشرقي ممالک بلکہ بين المذاہب روابط ميں انکے نامرئي ہاتھ اور سازشیں دکھائي دیتی ہیں انہوں نے بيان کيا کہ ’’ ميں بہت پہلے تقريباً تيس سال پہلے سے فقہ اماميہ کے متعلق جانکاري حاصل کرنا چاہتا تھا اور عراق و ايران سے کچھ کتابوں کو منگوايا ليکن ابھي تک مجھے کوئي کتاب موصول نہ ہوسکي اگرچہ استعمار کا قبضہ ختم ہوچکا ہے ليکن نہر سوئز کي فتح کے بعد آپ لوگوں کي کتابيں آنا شروع ہوگئيں اور جب ميں نے ان کا مطالعہ کياا ور حقيقت سے آگاہي کے بعدمجھ پر حجت تمام ہوگئي تو کسي بھي بات يا مقام و مرتبہ سے متاثر ہوئے بغير وہ فتوا دے ديا‘‘( بي آزار شيرازي ١٣٧٩ش،ص٩٥، ناصر الدين کمرہ اي سے منقول،ص١٧)
دار التقريب ميں شلتوت کا کردار
مصر ،شہر قاہرہ ميں تقريب مذاہب اسلامي کي کميٹي ١٣٦٠ ق مطابق ١٩٤٨ ميں مذاہب اسلامي کو متحد کرنے کے لئے وجود ميں آئي ، اس کميٹي کے اراکين علامہ محمد تقي قمي ، شيخ محمود شلتوت ، شيخ محمد مصطفي مراغي، مصطفي عبد الرزاق اور عبد المجيد سليم تھے۔
علامہ شلتوت اس کميٹي کوسراہتے ہوئے کہتے ہيں:’’ يہ تحريک’’ دار التقريب‘‘ جو مختلف اسلامي مذاہب کو متحد کرنے کے لئے چلي تھي کچھ ہي مدتوں ميں دنيا کي ايک استوار اور علمي حقيقت اور تفکرات اسلامي کي ايک تاريخ بن گئي، اس پر مسلمانوں کے درميان برادري اور محبت نيز اصلاح طلبي کي روح سايہ فگن ہوگئي تاکہ خداوند عالم کا يہ کلام محقق ہوسکے:’’ صرف باايمان لوگ ہيں جو آپس ميں دوستي کرتے ہيں ، پس اپنے بھائيوں کے درميان صلح برقرار کرو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رحمت خدا کے مستحق بن سکو‘‘( مردم و دين ،ص٩)
شيخ شلتوت ’’ دار التقريب‘‘ کي فضا کو محبت اور برادري کا نام ديتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ وہاں[دار التقريب] پر ايک مصري ، ايراني کے پاس، ايک لبناني اور عراقي، پاکستاني کے پاس بيٹھتا ہے ،وہاں پر ايک ميز کے گرد شافعي اور حنبلي ، ايک شيعہ يا زيدي کے پاس بيٹھتا ہے ، ان کي صدائيں فضا ميں گونجتي ہيں ، وہاں پر علم ، اخلاق، تصوف، فقہ اور ديگر تمام مباحث پيش کئے جاتے ہيں اور ان پر برادري ، دوستي ومحبت اور حق طلبي...کي روح حکم فرماہوتي ہے‘‘( مردم و دين ، ص١٦)
شيخ محمد تقي قمي جو ’’ دار التقريب ‘‘ کے موسس ہيں ، شيخ شلتوت کي بے نظير خدمات کے متعلق فرماتے ہيں:’’ جس زمانہ ميں استاد بزر گ شيخ شلتوت نے ہمارے ساتھ دارالتقريب کي بنياد ڈالنے کے لئے تعاون کيا ، اس زمانہ ميں وہ الازہر يونيورسٹي کے ايک عظيم استاد شمار کئے جاتے تھے ، انہوں نے مذاہب اسلامي کو متحد کرنے کے لئے اپنے دوستوں اور ہم فکر لوگوں کے ساتھ ہميشہ کوشش کی ، ايک جلسہ ميں انہوں نے يہ مشورہ ديا کہ شيعہ اور سني حضرات کو ايک تعبير ميں شامل کيا جائے، انہيں کسي فرقہ ، يا طائفہ کا نام دينے کے بدلے مذاہب اسلامي کي تعبير استعمال کي جائے اور جب الازہر يونيورسٹي کے معاون بنے تب بھي دارا لتقريب ميں مشغول رہے...‘‘ ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ ش، ص٦٩)
محمد تقي قمي ايک دوسري جگہ دار التقريب اور شيخ شلتوت کي جانفشانيوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہيں:’’ شيخ محمود شلتوت ١٧ سال تک دار التقريب کےرکن رہے اور اپني عمر کے آخري پانچ سالوں ميں الازہر يونيورسٹي کي صدارت سنبھالي ليکن ان سب کے باوجود الازہر کي صدارت سے پہلے اور اس کے بعد شيعوں اور سنيوں کو ايک دوسرے سے قريب کرنے ميں کوشاں رہے ‘‘ ( ( جمہوري اسلامي ،١٩١٠٧٩ ويژہ نامہ ص٩)
شيخ محمود شلتوت خود اپني زباني دارا لتقريب کا تاريخچہ بطور مفصل بيان کرتے ہيں کہ جس کا خلاصہ يہ ہے :’’ مسلمانوں کو اس بات پر افتخار کرنا چاہئيے کہ وہ اپنے مذاہب کو ايک دوسرے سے نزديک کرنے ميں سبقت لے رہے ہيں...ميري آرزو تھي کہ ميرے دانشمند بھائي، اصلاح پسندوں کے رہبر، محمد تقي قمي دار التقريب کا تاريخچہ تحرير فرماتے تاکہ ايسے مجاہد اوردانشور اپني زباني اس راہ ميں جن زحمتوں کے متحمل ہوئے ہيں اور جو جو فداکارياں انجام دي ہيں اور کبھي بھي ان کا تذکرہ نہيں کيا، ان سب کو بيان کرتے۔
محمد تقي قمي وہ پہلےشخص ہیں کہ جنہوں نے اس ہدف کي طرف لوگوں کو دعوت دي اور اسي کي وجہ سے اس ملک کا سفر کيا تاکہ دار التقريب کي بنياد ڈاليں ، شروع سے اس کے ساتھ ساتھ رہے ، اپني ذہانت ، علم ،اخلاص، عزم راسخ اور حوادث ايام کے سامنے صبر و تحمل کرتے ہوئے اس کي نشو و نما ميں لگے رہے ، يہاں تک کہ خدا کے لطف سے انہوں نے خود اپني آنکھوں سے اسے ايک سایہ دار درخت کي صورت ميں ديکھ ليا جو ثمر دہي ميں لگا ہوا ہے اوراس کے سايہ ميں اس ملک کے اور ديگر ممالک کے علما بہرہ مند ہورہے ہيں يا يو ں کہا جائے : کوئي ہے جو دارالتقريب کے اہداف و مقاصد اور رمز و اسرار نيز اس کي بنياد ڈالنے والے سے بخوبي واقف ہو ۔
ميں شروع سے انديشہ تقريب پر منظم پروگرام کي طرح ايمان رکھے ہوئے تھا اور اس کي پيدائش کے بعد سے آج تک اس کے تمام امور اور تقريب مذاہب کي تمام سرگرمیوں ميں حاضررہا ہوں۔
الازہر يونيورسٹي کي رياست کے دوران مجھے اتني فرصت ملي جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ريشہ دار اور اسلامي مذاہب کي فقہوں کي پيروي کے لئے جن ميں شيعہ بھي شامل ہيں ، جواز کا فتوا صادر کروں اور يہ وہ فتوا ہے جو دار التقريب ميں ہماري موافقت کے ذريعہ وجود ميں آيااور منتشر کيا گيا جس نے تمام اسلامي ممالک ميں انقلاب برپاکرديا اور ان لوگوں کي آنکھوں کو حقيقت کي طرف کھول ديا جو حق اور تقريب مذاہب کي کوشش ميں مصروف تھے ليکن دوسري طرف اس مسئلہ کو لے کربحث و مجادلہ کا بازار بھي گرم ہوگيا، مجھے اس فتوے پر پورا ايمان تھا لہذا جب بھي کوئي اس کے بارے ميں وضاحت مانگتا تو اسے تفصيلي خط لکھتا اور اس کي تائيد کرتا اور معترض حضرات کے اشکالات کا جواب ديتااوراس کي تائيد ميں جو مقالات لکھے جاتے اور تقريريں ہوتيں ان کي حمايت کرتا يہاں تک کہ مسلمانوں کے درميان يہ فتوا اصل مسلم اور ايک پابرجا حقيقت بن گيا ليکن وہ لوگ جو تعصب کا شکار تھے اور ان کي فکريں محدود تھيں وہ اپني فکر کي پستي ، فرقہ وارانہ اختلافات اور سياسي جھگڑوں ميں پڑے رہے اور اس فتوا کے متعلق شبہات اور بيہودہ باتيں کرتے رہے۔
ميري آرزو تھي کہ ان لوگوں کے سلسلہ ميں زيادہ زيادہ سے بولتا جنہوں نے اس دعوت کے لئے ايثار کيا ، وہ لوگ جنکے ساتھ ميں نے علمي مباحثہ کئے ،افکار ردو بدل کئے اور خط وکتابت کي جن ميں سر فہرست مرجع عاليقدر آقا حسين بروجردي’’ احسن اللہ في الجنۃ مثواہ‘‘ اور دوشخصيتيں شيخ محمد حسين آل کاشف الغطا اور سيد شرف الدين موسوي رحم ھم اللہ ہيں ، اگرچہ ابتدائي فضا سرزنش ، تہمت ، سوئ ظن اور بہتان وغيرہ کا شکار ہوئي ليکن تقريب بين المذاہب اسلامي ( يعني سنيوں کے چار معروف مذاہب، شيعہ اور زيدي) کميٹي کا وجود ميں آنا ايک کاميابي کي شکل ميں ظاہر ہوا اور کينہ پرور لوگوں کے غم وغصہ کا باعث ہوا ، متعصب اور متحجر لوگوں نے ہر طرف سے تقريب کي دعوت کے خلاف پروپيگنڈے شروع کردیا ، سني حضرات يہ سوچتے تھے کہ دار التقريب انہيں شيعہ بنا نا چاہتا ہے اور شيعہ حضرات يہ خيال کرتے تھے کہ ہم انہيں سني بنا ناچاہتے ہيں ، ايسے وہ تمام لوگ جو تقريب کے اہداف سے آگاہ نہ تھے يا جاننا نہيں چاہتے تھے،وہ کہا کرتے تھے :تقريب تمام مذاہب کو نابود کرنا چاہتاہے يا انہيں ايک بنانا چاہتا ہے ، ميں خدا کا شکر گزار ہوں کہ تقريب مذاہب اسلامی کي کوششیوں سے فکری اصلاح کا بھی آغاز ہوا اورمسلمانوں کے درميان گہرے اور وسيع تاثرات چھوڑے، مسلمانوں کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنے عمل اور فکر کے ذريعہ کلمہ وحدت اور مذاہب اسلامي کي تقريب کے لئے ايک دوسرے سے سبقت لي ، اخلاص اور دار التقريب کے سربراہوں اور ديگر معاصر مسلمانوں کے صائب تفکرات کے ذريعہ اس راہ ميں کامياب ہوئے۔
ميں خدا کي راہ ميں اس دعوت کي کاميابي کے لئے دعا گو ہوں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کي کھوئي ہوئي عزت اور آبرو واپس لوٹ آئے اوران کے حق ميں خدا کا يہ فرمان صادق ہو ’’ کنتم خير امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر و تومنون باللہ ‘‘ تم بہترين امت ہو جو لوگوں کے لئے قيام کرتے ہو ،نيکيوں کي طرف دعوت دیتے ہو اور برائيوں سے روکتے ہو اور خدا پر ايمان رکھتے ہو۔
’’ قل ہذہ سبيلي ادعوا الي اللہ علي بصيرۃ انا و من اتبعني ‘‘ کہہ ديں: يہ ميرا راستہ ہے ، ميں اور ميرے پيروکاربصيرت کے ساتھ لوگوں کو خدا کي طرف دعوت ديتے ہيں۔
’ يا ايھا الذين آمنوا استجيبواللہ وللرسول اذا دعاکم لما يحييکم‘‘ اے ايمان لانے ولو! خدا اور اس کے رسول کي دعوت پر لبيک کہو جب وہ تمہيں اس چيز کي طرف دعوت ديں جو تمہيں زندگي عطا کرتي ہے ۔
والسلام عليکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ ش، ص٥٧)
شيعہ علمائ سے رابطہ
١۔ آيۃ اللہ برجردي سے رابطہ
مسلمانوں کو متحد کرنے کي راہ ميں شيخ شلتوت کے ديگر کارناموں کے علاوہ ايک کارنامہ يہ بھي تھا کہ آپ نے تمام مذاہب کے علما مخصوصاً شيعہ علمائ سے برابر رابطہ رکھا، انہيں شيعہ علما مخصوصاً آيۃ اللہ بروجردي۲ سے بڑي محبت تھي اور متعدد بار آپ کي تعظيم و تکريم کي۔
بطور مثال : جب آپ کو معلوم ہو اکہ محمد تقي قمي ايران جانا چاہتے ہيں تو آيۃ اللہ بروجردی کے نام ايک خط لکھا اور محمد تقي قمي کے ساتھ روانہ کيا، انہوں نے اپنے خط ميں آيۃ اللہ بروجردي سےارادت کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد دي کہ مذاہب اسلامي کو نزديک کرنے ميں آپ کے اقدامات راہگشا اور موثر رہے ہيں‘‘(بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ش، ص٣١٦، مکتب اسلام ، خرداد ، ١٣٤، ص٦٠)
٢۔ آيۃ اللہ کاشف الغطا کي امامت ميں نماز جماعت۔
شيخ محمود شلتوت فلسطين ميں برپا ہونے والي اسلامي کانفرنس ميں شرکت کرنے کے لئے جب بيت المقدس کا سفر کيا تو ديگر علما کے ساتھ آيت اللہ کاشف الغطائ کي امامت ميں نماز جماعت ادا کي اور پھر ايک مقالہ ميں شيعوں اور سنيوں کا ايک صف ميں کھڑے ہوکر نماز جماعت پڑھنے کي کيفيت کو اس طرح بيان کيا: ’’ يہ مسلمانوں کے لئے کتنے خوشگوار لمحات ہيں کہ فلسطين کي اسلامي کانفرنس ميں شرکت کرنے والے مسلمانوں کے نمائندے مسجد الاقصي ميں شيعہ امامي کے مجتہد ، محترم استاد شيخ محمد حسين آل کاشف الغطائ کي امامت ميں نماز جماعت ادا کريں ، بغير اس کے کہ اس شخص ميں جو اپنے آپ کو سني کہتا ہے اور اس شخص ميں جو اپنے آپ کو شيعہ کہتا ہے ،کوئي فرق ہو، سب نے اکٹھا ہو کر شانہ بہ شانہ ايک صف بنائي جو خدا ئے واحد کے ماننے والے اورايک قبلہ پر ايمان رکھنے والے ہيں۔( بي آزار شيرازي ،١٣٧٩ ش ص ٤١)
تاريخي فتوا
شيخ محمود شلتوت کي زندگي کا سب سے بڑا کارنامہ و ہ فتوا ہے جسے انہوں نے معتبر مذہب تشيع کي فقہ کي پيروي کرنے کے جوازکے متعلق صادر کيا تھا، شيخ شلتوت نے يہ فتوا دے کر تقريب مذاہب کے لئے ايک بہت اہم قدم اٹھايا تھا۔
فتوا کا تاريخی پس منظر
جس زمانہ ميں الازہر يونيورسٹي کي رياست شيخ عبد المجيد سليم کے ہاتھوں ميں تھي ، اس وقت انہوں نے مذاہب اہلبيتٴ کي پيروي کرنے کے متعلق فتوا صادر کرنا چاہا اور اس امر مہم کو انجام دينے کے لئے پورا ارادہ رکھتے تھے ليکن استکبار کي جانب سے اہلسنت کے مقدسات کے متعلق کچھ کتابيں شائع ہوئيں جو دار التقريب کے ارکان کے ہاتھوں ميں پہنچا دي گئيں۔
اس کتاب کو ايک شيعہ عالم دين کي طرف منسوب کيا گیا، جس ميں نہ کوئي تاريخ تھي نہ کوئي محل نشر اور نہ ہي کسي مطبع کا ايڈريس تھا، اس کتاب نے مذہب تشيع کے خلاف ايک غم و غصہ کي لہر دوڑا دي۔
اس ميں کوئي شک نہيں ہے کہ اس فتنہ کے پيچھے استعمار کا ہاتھ تھا، جب عبد المجيد سليم کواس سوچي سمجھي ساز ش کا سامنا کرنا پڑا تو بگڑتے حالات کو ديکھ کر وہ تاريخي فتوا نہ دے سکے اور فتوا دينے سے منصرف ہوگئے اور پھردوسري فرصت کي تلاش ميں لگ گئے ، اس کے بعد اجل نے فرصت نہيں دي ليکن مدتوں بعدان کے شاگرد شيخ محمود شلتوت نے وہ تاريخي فتوا صادر کرديا۔
شايد تقدير يہي تھي کہ يہ فتوا شيخ شلتوت کے ذريعہ صادر ہوا ور ان کا نام پوري دنيا ميں مشہور ہو۔
شيخ محمود شلتوت کا فتوا تين عناصر پر مشتمل ہے :
١۔ کسي بھي مسلمان پر واجب نہيں ہے کہ وہ ہر صورت ميں اہل سنت کے چار مذاہب ميں سے کسي ايک کي پيروي کرے بلکہ ہر ايک کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ مذاہب فقہي ميں سے کسي بھي مذہب کو اختيار کرسکتا ہے ۔
٢۔ ايک مذہب سے دوسرے مذہب کي طرف منتقل ہونا جائز ہے ۔
٣۔ ہرفرد مسلمان کو يہ حق حاصل ہے کہ وہ شيعہ اماميہ کي فقہ پر عمل کرے اگرچہ وہ عمل کرنے والا سني ہي کيوںنہ ہو۔( نجف آباد ١٣٦٤ش ، ص١٧٥)
فتوا کا متن
آخر کار ١٧ ربيع الاول ١٣٧٨ ھ ميں فقہ جعفري کے رئيس امام جعفر صادق عليہ السلام اور پيغمبر اعظم حضر رسول اکرم صلي اللہ عليہ آلہ وسلم کي ولادت با سعادت کے مبارک دن شيعہ امامي ، زيدي ، شافعي، حنبلي، مالکي اور حنفي مذاہب کے نمائندوں کے سامنے شيخ محمود شلتوت نے مکتب تشيع کي پيروي کرنے کے متعلق فتوا صادر کرديا۔
فتوا کا متن اس طرح ہے :
’’ مکتب جعفري جو مذہب اماميہ اثنا عشريہ سے پہچانا جاتاہے ايک ايسا مکتب ہے جس کي پيروي ديگر مکاتب اہل سنت کي طرح شرعاً جائز ہے لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اس حقيقت کو سمجھنے کي کوشش کريں اور کسي مشخص مکتب کے متعلق ناحق تعصبات سے دست بردار ہوجائيں اسلئے کہ خدا کا دين اور اس کي شريعت کسي خاص مکتب ميں منحصر نہيں ہے بلکہ تمام مذاہب کے ائمہ مجتہد اور ان کا اجتہاد بارگاہ خداوندي ميں مقبول ہے پس وہ لوگ کہ جو صاحب نظر اور صاحب اجتہاد نہيں ہيں وہ اپنے مورد نظر جس مکتب کي چاہيں تقليد کرسکتے ہيں اور اس کے احکام پر عمل کرسکتے ہيںاوراس ميں عبادات و معاملات ميں کوئي تفاوت نہيں ہے۔( بي آزار شيرازي ، ١٣٧٧ ش ، ص٣٤٥)
اس فتوا کے صادر ہوتے ہي عالم اسلام کي نگاہيں متوجہ ہوگئيں اور بيشتر مفکرين نے اسے شيعہ سني روابط کے لئے ايک انقلاب سمجھا اوراس کي حمايت کي ليکن کوتاہ نظر اور تفرقہ ڈالنے والوں نے اس اقدام کي مذمت کي اور مذہب تشيع کو رسميت دينے پر اعتراض کيا۔
شيخ شلتوت کے نزديک اس فتوا کے صادر ہونے کے علل و اسباب ميں سب سے بڑا سبب علمائے شيعہ کي فقہي کتابوں کا مطالعہ اور ان کے دلائل ميں غور وفکر اور تحقيق کرنا تھا، شيخ شلتوت کي رائے يہ تھي کہ فقہ شيعہ کے بعض احکام دلائل کي رو سے اہلسنت کي فقہ پر فوقيت رکھتے ہيں اسي وجہ سے انہوں نے بعض احکام مخصوصا گھريلو امور، شادي بياہ ، طلاق ، ارث اور انہيں جيسے ديگر موارد ميں فقہ شيعہ کے مطابق فتوا ديا ہے اور مکتب تشيع کے متعلق ان کے ہاتھوں سے تحرير کيا گيا تاريخي فتوا امام رضا عليہ السلام کے ميوزيم ميں محفوظ ہے۔
شيخ شلتوت نے اس راہ ميں شيعوں اور سنيوں کو اعتقادي اعتبار سے متحد کرنے کے لئے ديگر موثر اقدامات بھي انجام دئيے ہيں کہ جن ميں سے ايک اقدام الازہر يونيورسٹي ميں فقہ مقارن کي تآسيس اوراسکے قوانين کو تيار کرنا تھا، فقہ مقارن کے درس ميں مختلف موضوعات جيسے تين طلاقوں کا مسئلہ ، رضايت کے ساتھ طلاق معلق، ارث ، طہارت وغيرہ کے احکام کي تدريس ہوتي تھي۔
آثار
شيخ شلتوت نے اپني زندگي ميں مختلف موضوعات پر بيس سے زيادہ کتابیں اور معتبر مقالات بطور ميراث چھوڑ ے ہيں تاکہ تشنگان معارف ان کے مطالعہ سے مستفيض ہوسکيں۔
کتابيں
١۔ تفسير القرآن الکريم ، مجمع التقريب بين المذاہب الاسلامي ، تہران ١٣٧٩ ش
يہ کتاب مجلہ ’’ رسالۃ الاسلام ‘‘ ميں چودہ سال کي مدت ميں شائع ہونے والے مقالات کا مجموعہ ہے جسے مرتب کر کے شائع کيا گياہے۔
٢۔ مقارنۃ المذاہب في الفقہ
جيسا کہ اس کتاب کے موضوع سے واضح وروشن ہے،مذاہب اسلامي کو اکٹھا کرنے کے موضوع پر تحرير کي گئي ہے۔
شيخ شلتوت نے اس کتاب ميں فقہ مقارن کے متعلق بحث کي ہے اور تمام مذاہب اسلامي کے فقہي نظريات کو بيان کيا ہے اور پھر اسي نظريہ کو مانا جو زمان و مکان اور حالات سے سازگار اور قوي دلائل پراستوار تھے۔( اخبار تقريب ، ش ٤٦، ٤٥، ص٣٠)
٣۔من توجيہات الاسلام، مطبوعات الادارۃ العامۃ للثقافۃ الاسلاميۃ ،١٩٥٩ئ
مولف نے اس کتاب ميں بعض ديني مفاہيم اور موضوعات کے متعلق وضاحت دي ہے اور سماج کي بعض اخلاقي مشکلات کے متعلق اسلام کے نظريہ کا ذکر کيا ہے ۔
اس کتاب کے بعض حصے سيد خليل خليليان کے ذريعہ بزبان فارسي ’’ عوام اور دين ‘‘ ، ’’ اخلاق‘‘ ،’’ معاشرے کي کھيتي ميں‘‘ ،’’ اسلام اور يادگاريں‘‘ کے عنوانات کے تحت ترجمہ ہو کر تہران ميں شرکت سہامي انتشارات کے ذريعہ ١٣٤٤ ش ميں شائع ہوچکے ہيں ۔
٤۔ الفتاويٰ، دار الشروق ، قاہرہ ١٤٢١ھ
يہ کتاب ان سوالوں کے جوابات پر مشتمل ہے جو شيخ شلتوت سے ان کي زندگي ميں کئے گئے تھے اور انہوں نے ان کے جوابات دئيے تھے ، شيخ شلتوت کي يہ کتاب عالم اسلام کي ايک بہترين کتاب سمجھي جاتي ہے اور مختلف اسلامي ممالک ميں مسلمانوں کي توجہ کا مرکز ہے ۔
٥۔ من ہدي الکتاب ، دار الکتاب العربي للطباعۃ والنشر، قاہرہ ، ص٣٦٠
يہ کتاب پانچ فصلوں ’’ الي القرآن الکريم ، منہج القرآن في بنا المجتمع ، القرآن والمرآۃ الاسلام والعلاقات الدوليۃ في السلم والحرب ‘‘ پر مشتمل ہے ۔
٦۔ الاسلام عقيدۃ و شريعۃ ، دار القلم ، قاہرہ
اس کتاب کا شمار شيخ شلتوت کي اہم کتابوں ميں ہوتا ہے جو تين فصلوں پر مشتمل ہے ، ’’ عقيدہ ، شريعت، مصادر شريعت ‘‘
شيخ شلتوت نے پہلي فصل ميں بعض موضوعات جيسے اسلام کے بنيادي مسائل ( توحيد ، نبوت ، قيامت ، قضا و قدر...) اور دوسري فصل ميں عبادات کي شرح ، گھراور سماج کے احکام اور ميراث جيسے مسائل پيش کئے ہيں اور آخري فصل ميں شريعت کے منابع اور مصادر ( قرآن ، سنت اور رآي) کے متعلق بحث و گفتگو کي گئي ہے۔
٧۔ الي القرآن الکريم ، دار الہلال ، قاہرہ نيز تہران ، سازمان تبليغات اسلامي، ١٣٦٤ ش
شيخ شلتوت قرآن کے ہدف کوتين موضوعات ميں منحصر سمجھتے ہيں ( عقائد کے متعلق معلومات حاصل کرنا تاکہ دل کو بت پرستي اور شرک سے پاک کيا جاسکے ، اخلاقيات سے آراستہ ہوناتاکہ نفس کي تربيت کي جاسکے اور انسانوں کي شان و منزلت بڑھے اور احکام کا جاننا تاکہ ايک سالم زندگي گذاري جاسکے ) ( الي القرآن الکريم ، مقدمہ ،ص٦)
انہوں نے اس کتاب ميں درج ذيل عنوانات کے تحت بحث کرنے کي کوشش کي ہے :
١۔ يسئلونک ( اس عنوان کے تحت مختلف موضوعات کے متعلق سوالات کے جواب لائے گئے ہيں)
٢۔ منہج القرآن في بناء المجتمع
٣۔ المسوليۃ المدنيۃ والجنائيۃ في الشريعۃ الاسلاميۃ
٤۔ القرآن والقال
٥۔ القرآن والمرآۃ
٦۔ تنظيم العلاقات الدوليۃ الاسلاميۃ
٧۔ الاسلام والوجود الدولي للمسلمين
٨۔تنظيم النسل
٩۔ رسالۃ الازہر
١٠۔ فقہ القرآن والسنۃ
١١۔ القتال في الاسلام
شيخ شلتوت کي بعض کتابيں فارسي زبان ميں بھي شائع ہوچکي ہيں جيسے:
الف۔ اسلام آئين زندگي، مولف : شيخ محمود شلتوت ، مترجم : عبد العزيز سليمي ، تہران ، نشر احسان ، ١٣٨٢ ش ، ص ٧٤٩
ب۔سيري در قرآن کريم: قرآن کے چھبيس سوروں کے بنيادي مفاہيم اور موضوعات پر ايک نظر ، مولف : شيخ محمود شلتوت ، مترجم : حسين سيدي، مشہد ، شرکت بہ نشر، ١٣٧٧ ش، ص٢٤٠
خورشيد قاہرہ کا غم انگيز غروب
آخر کار اسلام کي يہ عظيم شخصيت ٢٧ رجب ١٣٨٣ ق ميں دارفاني سے دار باقي کي طرف کوچ کر گئي اور اسلامي معاشرے کو داغدار بنادياشيخ شلتوت جيسي بے مثال شخصيت جنہوں نے مذاہب اسلامي کو متحد کرنے کے لئے بڑي جانفشاني کي ، ان کي رحلت کے بعد بڑي بڑي شخصيتوں نے تعزیت نامہ روانہ کيا، منجملہ صاحب الذريعۃ ، حضرت آيۃ اللہ شيخ آقا بزرگ تہراني نے علمائے نجف کي نمائندگي ميں تعزیت نامہ بھيجا اسي طرح حوزہ علميہ قم اور تقريب مذاہب اسلامي کميٹي کي جانب سے ان کي شخصيت کو يادگار بنانے کے لئے ’’ شيخ محمود شلتوت اور آيۃ اللہ بروجردي۲ کے افکار‘‘ کے عنوان کے تحت تہران ميں بتاريخ ١٩١٠ ١٣٧٩دو روزہ سيميناربرمنعقد کيا گيا جو بتاريخ ٢١١٠ ١٣٧٩ تک چلا جو شيعوں اور سنيوں کے لئے تجديد عہد کے مانند تھا۔
اسي سيمينار ميں الازہر يونيورسٹي کے رئيس کے قائم مقام شيخ محمود عبد الغني عاشور کي سرپرستي ميں ايک علمي وفد نے شرکت کي اور علماے مصر کي عالي رتبہ شخصيتوں ميں سے جن لوگوںنے شرکت کي اور اپے علمي مقالات پيش کئے ، ان ميں سر فہرست مصر کے مفتي اعظم ڈاکٹر نصر فريد محمد واصل ہيں۔( جمہوري اسلامي ١٩١٠١٣٧٩ويژہ نامہ ص٩)
منابع و مآخذ
١۔ آيت اللہ مکارم شيرازي ، ماہنامہ مکتب اسلام
٢۔ احمدي ، مھدي، محمد عبدہ، رايت اصلاح ( طلايہ داران تقريب ٤) جمعيت تقريب مذاہب اسلامي ١٣٨٣
٣۔ ازغندي ، علي رضا، روابط خارجي ايران ، ١٣٥٧ ، ١٣٢٠ ، نشر توس ، ١٣٧٦ ش
٤۔ الاسلام عقيدۃ و شريعہ ، دار القلم، قاہرہ
٥۔ المنجد في الاعلام ، لبنان ، چاپ ٢٧، ١٩٨٢ئ
٦۔ بر آورد استراتژيک مصر، انتشارات موسسہ فرہنگي مطالعات و تحقيقات بين المللي ايران، تہران ، ١٣٨١ ش
٧۔ بي آزار شيرازي ، کريم ،شيخ محمود شلتوت طلايہ دار تقريب، مجمع جہاني تقريب مذاہب اسلامي ، ١٣٧٩ ش
٨۔ خرمشاہي ، بہائ الدين ، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہي ، انتشارات دوستان، اول، ١٣٧٧ش
٩۔ خفاجي، محمد عبد المنعم ، الازہر في الف عام ، بيروت ، مکتبۃ الکليات الحديثۃ
١٠۔ روحاني ( زيارتي) ، سيد حميد، بررسي و تحليلي از نہضت امام خميني، مرکز اسناد انقلاب اسلامي ، تہران
١١۔ شلتوت ، محمود ، در کشتزار اجتماع، سيد خليل خليليان ، شرکت سہامي انتشار، ١٣٤٤ش،تہران
١٢۔ شريعتمداري ، حسين ، روزنامہ کيہان ، ١٣٨٢ ش
١٣۔ شلتوت ،محمود ، سيد خليل خليليان ، شرکت سہامي انتشار، ١٣٤٤ش،تہران
١٤ اسلام و ياد بود ہا، شرکت سہامي انتشار، ١٣٤٤ش،تہران
١٥۔ مردم و دين سيد خليل خليليان، انتشارات الہام ، تہران
١٦۔ صالحي نجف آبادي ، مجموعہ مقالات ، نشر دانش اسلامي، ١٣٦٤ ش
١٧۔ غروي، سيد محمد ، مع علمائ النجف الاشرف، دار الثقلين ، بيروت ، اول، ١٣٦٤ق
١٨۔ ماہنامہ اخبار تقريب، مجمع تقريب مذاہب اسلامي
١٩۔ مجاہد ، زکي محمد ، الاعلام الشرقيۃ، دار الغرب الاسلامي، بيروت ، دوم، ١٩٩٤ئ
٢٠۔ مہاجري، مسيح ، روزنامہ جمہوري اسلامي ، ١٣٧٩ش
٢١۔ نبوي ، مرتضي، روزنامہ رسالت، ١٣٧٤ ش
٢٢۔ نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتي
٢٣۔ ہمبستگي مذاہب اسلامي ، ترجمہ و نگارش کريم بي آزار شيرازي، تہران، سازمان فرہنگ و ارتباطات اسلامي ، ١٣٧٧ ش
١۔صوبہ بحيرہ کا شمارمصر کے اہم صوبوں ميں ہوتا ہے جس کي مساحت ١٠١٣٠کيلوميٹر ، جمعيت چاليس لاکھ اور دلتاي نيل کے غرب ميں ہے واقع ہے اور اس کي راج دھاني شہر ’’ دامانہور ‘‘ ہے۔
اس صوبہ کے اہم شہر ، دلنجان،رشيداور کفرالدوار ہيں۔
اس صوبہ کے زيادہ ترلوگوں کا پيشہ کاشتکاري اور زراعت ہے اس لئے کہ اس صوبہ کي زراعي زمينيں مصر کي زراعي زمينوں کے مقابلہ ميں١٩١٤ صد ہیں( برآورد استراتژيک مصر، ج ١، ص ١٠١)
٢۔يہ کالج ،اسکندريہ يونيورسٹي کے سب سے قديمي کالجوں ميں سے ہے جو الازہر يونيورسٹي کے زير نظر چلتاہے۔
٣۔ سعد زغلول مصر کي ايک قومي شخصيت کا نام ہے اس لئے کہ اسي کے ذريعہ مصر کي آزادي کا آغاز ہوا تھا ، جب١٢٩٧ ميں جنگ سے کنارہ کشي کے دو دن پہلے مصر کي آزاد لينے کے لئے برطانيہ کي ہائي کمشنر کورٹ پہنچے تو ان کي درخواست منظور نہيں کي گئي لہذا آزادي حاصل کرنے کے لئے ’’ وفد‘‘ پارٹي کي بنياد رکھي،اس کے کچھ ہي مدتوں کے بعد سعد اوران کے دوستوں کو پہلے جزيرہ ’’مالت ‘‘اور پھر’’ سي شل‘‘ جزيروں کي طرف جلاوطن کرديا، پس جب انگلينڈ نے کانگريس اوراس کي سربراہوں کے کہنے پر مصر پر اپني مالکيت کا اعلان کيا تو مصر کے قوم پرستوں نے شدت سے ان کا مقابلہ کيا يہاں تک کہ ان لوگوں نے مصر سے اپني مالکيت کو ختم کرديااور سلطان فواد مصر کا بادشاہ بن کر مصر کے امور کو اپنے ہاتھوں ميں لے ليايہاں تک يہ بادشاہي آئيني حکومت ميں بدل گئي، اس وقت سے مصر کي کامل آزادي ١٣٢٥ئ تک ايک طرف بادشاہ مصر فواد اور انگلينڈ اور دوسري طرف وفد پارٹي جس ميں قوم پرستوں کي اکثريت تھي، اقتدار حاصل کرنے کے لئے سخت مقابلہ آرائي ہوئي، زغلول جلاوطني کي زندگي کاٹنے کے بعد جب مصر لوٹے ہيں تو بھر پور ووٹ سے مصر کے وزير اعظم بنے ليکن انگلينڈ نے زغلول کي وزارت کي مخالفت کي جس سے مجبور ہوکرانہوں نے استعفيٰ دے ديا او رپھر ١٣٠٦ ئ ميںان کي وفات ہوگئي( طلايہ داران تقريب، محمد عبدہ، ص٥٠)
ایرانی ذرائع ابلاغ پر پابندی، جنگل کا قانون ہے
اسلامي جمہوريہ ايران کے ريڈيو اور ٹيلي ويژن کي عالمي سروس کے سربراہ ڈاکٹر محمد سرافراز نے کہاہے کہ ايران کے ذرائع ابلاغ کے ساتھ مغرب کا رويہ جنگل کے قانون کي يا دلاتا ہے۔
ايران کے ريڈيو وٹيلي ويژن کي عالمي سروس کے سربراہ ڈاکٹر سرافراز نے آئي آر آئي بي سے گفتگو کے دوران ايران کے ريڈيو و ٹيلي ويژن کے ادارے کے خلاف امريکي کانگريس کي پابنديوں کے قانون اور اسي طرح ايران کے سٹلائٹ ٹي وي چينلوں کي نشريات کو يورپي سٹلائٹ کمپنيوں بالخصوص اکيس دسمبر کو اسپين کي سٹلائٹ کمپني ہيسپا سيٹ کے ذريعے ايران کے اسپونل چينل اور پريس ٹي وي کي نشريات بند کئے جانے فيصلوں کے بارے ميں کہا کہ ايران اپنے ذرائع ابلاغ کے خلاف امريکا اور يورپ کے اس طرح کے مخاصمانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے قانوني چارہ جوئي کرنے جارہا ہے۔
ڈاکٹر سرافراز نے امريکا اور يورپ کے فيصلوں کو مغربي حکومتوں کي اصل ماہيت اور ان کے حقيقي چہرے کا آئينہ دار بتايا اور کہا کہ امريکا اور يورپ کوشش کررہے ہيں کہ بچگانہ طريقوں سے ايران کے ذرائع ابلاغ کي آواز کو دبا ديں۔
ايران کے ريڈيو اور ٹيلي ويژن کي عالمي سروس کے سربراہ نے کہاکہ ايراني ٹي وي چينلوں کے بارے ميں مغربي حکومتوں نے جو رويہ اپنا رکھا ہے وہ قانوني اعتبار سے جنگل کے قانون کے دور کي ياد دلاتا ہے اور آزادي بيان کے لحاظ سے قرون وسطي کي ياد تازہ کرديتا ہے، جب کسي کے لئے جاننا جرم سمجھا جاتا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ ايراني ٹي وي چينلوں پر امريکي کانگريس کي پابندياں صہيونيوں کے دباؤ ميں اور غزہ پر حملوں ميں اسرائيل کو ہونےوالي شکست اور تل ابيب سميت ديگر علاقوں ميں فلسطينيوں کے ذريعے ايراني ميزائيل فائر کئے جانے کے بعد عائد کي گئي ہيں۔
اسلامی بیداری کو کامیاب بنانے کی ضرورت، خطیب جمعہ تہران
تہران کے خطيب جمعہ نے علاقے ميں اسلامي بيداري کو کامياب بنانے کي کوششوں پر زور ديا ہے۔
تہران کے خطيب جمعہ آيت اللہ امامي کاشاني نے قوموں کے خلاف تسلط پسندانہ اور ظالم و ستم پيشہ حکومتوں کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ يہي مظالم علاقے ميں اسلامي بيداري اور ديگر خطوں ميں قوموں کے بيدار ہونے کا باعث بنے ہيں۔ انہوں نے کہا کہ ان تحريکوں کو مضبوط کرنے کے لئے معنوي اور مادي دونوں طرح کي پشتپناہي کي ضرورت ہے۔
آيت اللہ امامي کاشاني نے اس بات پر زور ديتے ہوئے کہ مکتب اسلام ہي وہ واحد مکتب ہے جو دنيا کا نظم و نسق چلا سکتا ہے اور دنيا کو ظلم وستم سے نجات دلا سکتا ہے کہاکہ بعض قوتيں اسلامي بيداري کي تحريک کو گمراہ کرنے کي کوشش کررہي ہيں ليکن وہ ہرگز کامياب نہيں ہوں گي۔ تہران کے خطيب جمعہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ مغرب نے مادي اعتبار سے خود کو طاقتور بناليا ہے اور اس کے ذريعے وہ علاقے ميں اپني گھناؤني سازشوں کو کامياب بنانے کي کوشش کرتا ہے کہاکہ سائنس اور صنعت ميں ترقي وپيشرفت کرکے مغرب کي ان سازشوں کو ناکام بنايا جاسکتا ہے۔ آيت اللہ امامي کاشاني نے صنعت و سائنس و ٹکنالوجي کے ميدان ميں اسلامي جمہوريہ ايران کي ترقي و پيشرفت کا حوالہ ديتے ہوئے کہاکہ ترقي وپيشرفت کا يہ عمل جيسا کہ قائد انقلاب اسلامي نے تاکيد فرمائي ہے جاري رہنا چاہئے تاکہ ايران کے عوام کے دشمنوں کي سازشوں کو ناکام بنايا جاسکے۔
تہران کے خطيب جمعہ نے فلسطين وشام کے حالات اور مسلمانوں پر پڑنےوالے مغرب کے دباؤ کا بھي ذکر کيا اور کہا کہ شام اور فلسطين کے عوام کي مشکلات کو ختم کرنے کي کوشش کي جاني چاہئے۔
تہران کے خطيب جمعہ نے فرزند رسول حضرت امام موسي کاظم عليہ السلام کے يوم ولادت باسعادت کي مبارکباد پيش کرتے ہوئے آپ کے اعلي صفات و کمالات کا بھي ذکر کيا اور کہاکہ عالم اسلام کو آئمہ اطہار جيسي عظيم المرتبت شخصيات کا پيرو ہونے پر فخرکرنا چاہئے۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
