Super User

Super User

Saturday, 08 December 2012 10:09

مذہب اشعری کے راہنما

چوتھی ہجری کے شروع میں ابوالحسن اشعری نے بصرہ میں اہل حدیث کے عقاید سے دفاع اور معتزلہ کی مخالفت میں قیام کیا اور اہل سنت کے درمیان ان کے کلامی مذہب کو بہت زیادہ شہرت حاصل ہوگئی ۔

١۔ ابوالحسن اشعری کی شخصیت اور علمی آثار

ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری کی ٢٦٠ ہجری (غیبت صغری کے شروع)میں بصرہ میں ولادت ہوئی اور ٣٢٤ یا ٣٣٠ ہجری کو بغداد میں انتقال ہوا ۔ ان کے والد اسماعیل بن اسحاق ، ابی بشر ، اہل حدیث کے ماننے والے تھے ۔ اس وجہ سے ابوالحسن اشعری نے بچپن میں اہل حدیث کے عقاید کو قبول کرلیالیکن اپنی جوانی میں اس مذہب سے روگردانی کی اور چالیس سال تک اسی مذہب پر باقی رہے لیکن دوسری بار پھر اہل حدیث کے عقاید سے دفاع کرنے کیلئے انہوں نے قیام کیا ، اشپی نے ان کے متعلق کہا ہے :

ابوالحسن اشعری ، بچپن میں متشرع اور جوانی میں معتزلی تھے(١) ۔

اشعری کے چاہنے والوں نے ان کے زہد و عبادت کے متعلق مبالغہ سے کام لیا ہے اور ان کے متعلق بہت سے واقعات نقل کئے ہیں (٢) اشعری کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بہت ذہین متفکر،خوش استعداد اور بہت بڑے محقق تھے، انہوں نے معتزلہ کی عقل گرائی اوراہل حدیث کی ظاہر گرائی سے تضاد کو دور کرنے میں بہت زیادہ محنت و کوشش کی ، اس متعلق فرانسوی ہانری کورین نے کہا ہے:

ابوالحسن اشعری کی کوششوں کو کامیاب فرض کریں یا ان مسائل کو حل کرنے کیلئے قوت و تونائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کوشش کو شکست سے تعبیر کریں لیکن پھر بھی انہوں نے کامل طور پر خلوص کے ساتھ قرآن سے متعلق دو نظریوں (حدوث و قدم)کو ایک کرنے میں بہت زیادہ کوشش کی ہے(٣) ۔

ابوالحسن اشعری، فن خطابت اور مناظرہ میں بہت زیادہ ماہر تھے ، ابوعلی جبائی کے ساتھ مناظرہ اور جمعہ کے روز بصرہ کی جامع مسجد میں تقریروں کی وجہ سے ان کو بہت زیادہ شہرت ملی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے قلم کے میدان میں بھی کافی محنت کی اور اپنے عقائد و نظریات کو منتشر کیا ، ابن عساکر نے٣٢٠ ہجری تک ابوالحسن اشعری کی ٩٨ تالیفات کا ذکر کیا ہے ،لیکن ان کی مشہور کتابوں میں سے چار کتابیں باقی ہیں:

١۔ مقالات الاسلامین: یہ آپ کی مشہور تالیف ہے اور اس کا علم ملل و نحل میں مشہور مصادر و مآخذ میں شمار ہوتا ہے ، کتاب ''تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی''(٤) کے برعکس۔ مقالات اسلامیین اپنی نوعیت کی پہلی کتاب نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے سعد بن عبداللہ اشعری (متوفی ٣٠١)نے کتاب ''المقالات والفرق'' اور نو بختی نے کتاب '' الآراء والدیانات'' تالیف کی ہیں ۔

٢۔ استحسان الخوض فی علم الکلام : یہ کتاب (جیسا کہ اس کے نام سے معلوم ہے)ظاہر پر عمل کرنے والوں کے خلاف تالیف ہوئی ہے جوکلامی استدلالوں کو بدعت اور حرام جانتے ہیں ۔ اور یہ کتاب کئی مرتبہ چاپ ہوئی ہے اور اس کے علاوہ کتاب ''اللمع'' کے ذیل میں بھی چھپی ہے ۔

٣۔ اللمع فی الرد علی اھل الزیغ والبدعد:

الابانة عن اصول الدیانة :

ان دونوں کتابوں میں بہت زیادہ فرق ہے ان میں سے اہم ترین فرق یہ ہے : اولا ً : کتاب ''اللمع'' میں عقلی استدلالات سے استفادہ ہوا ہے لیکن کتاب '' الابانة'' میں نقلی استدلالات کی پیروی کی گئی ہے ۔ ثانیا ً : کتاب '' الابانة'' میں حنابلہ اور اہل حدیث کے عقاید و نظریات کو بیان کرتے ہوئے ان سے دفاع کیا گیا ہے لیکن کتاب ''اللمع'' میںاپنے (اشعریوں کے) عقاید کو بیان کیا ہے اور اس میں اہل حدیث کے عقاید و نظریات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے ۔

٢۔ مذہب معتزلہ سے شیخ کا الگ ہونا

ابوالحسن اشعری کے مکتب معتزلہ سے اعتزال کرنے کے متعلق مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں ، شہرستانی کی عبارت سے استفادہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد ابو علی جبائی سے کلامی مناظرات کئے جس کا وہ جواب نہ دے سکے اور اسی وجہ سے ابوالحسن اشعری ، مذہب معتزلہ سے الگ ہوگئے جیسا کہ انہوں نے کہا ہے: معتزلہ اور سلف کے درمیان صفات کے سلسلہ میں ہرزمانہ میں اختلاف رہا ہے ۔ سلف ،''صفاتیہ'' سے مشہور تھے یہ لوگ معتزلہ کی مخالفت میں کلامی طریقوں سے استفادہ نہیں کرتے تھے اور صرف قانع ہونے والی باتوں پر اکتفاء کرتے تھے اور کتاب و سنت کے ظاہر سے تمسک کرتے تھے... یہاں تک کہ ابوالحسن اشعری اور ان کے استاد شیخ ابو علی جبائی کے درمیان حسن و قبح کے بعض مسائل پر مناظرہ ہوا اور اشعری نے جبائی کو ملزم قرار یا جس کے نتیجہ میں اشعری نے ان سے دوری اختیارکرلی اور سلف کے طریقہ کو اپنالیا اور کلامی طریقوں سے ان کے مذہب کا دفاع کرنے لگے(٥) ۔

ہانری کورین نے اشعری کے مذہب تبدیل کرنے کی دو علتیں بیان کی ہیں :

١۔ معتزلہ کی فکری رفتارجس میں وہ عقل کو مطلق طور پر قبول کرتے ہیں اور یہ دین کو مٹانے پر ختم ہوتی ہے کیونکہ عقل بغیر کسی قید و شرط کے ایمان کی جانشین ہوجاتی ہے جب عقل ،دینی مسلمات سے زیادہ ہو تو پھر خدااورجو کچھ اس کی طرف سے نازل ہوا ہے اس پر ایمان رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟

٢۔ قرآن کریم کے نظریہ کے مطابق غیب پر ایمان رکھنا دین کی بنیاد ہے اور غیب پر ایمان ، عقلی دلیلوں سے زیادہ ہے اس بناء پر دلیل مطلق کے عنوان سے عقل پر تکیہ کرنا دینی اقدار میں ایمان بالغیب کی اصل سے سازگار نہیں ہے ، لیکن اشعری مذہب میں دینی عقاید کے بجائے عقل کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ، ظاہر پر عمل کرنے والوں کے برعکس ،دلیل عقلی سے توسل کرنے کو بدعت نہیں سمجھتے ہیں اس کے باوجو د ایمان اور دینی حقائق کے مقابلہ میں عقل کو حجت مطلق نہیں سمجھتے (٦) ۔

لیکن دونوں مذکورہ علتوں میں سے کوئی ایک بھی مذہب معتزلہ کے متعلق صحیح نہیں ہے ، کیونکہ وہ عقل کو دینی ظواہر پر مقدم سمجھتے ہیں ، دینی حقایق پر نہیں،اسی طرح وہ عقل کو حجت لازم سمجھتے ہیں ، حجت کافی نہیں ۔ مذہب معتزلہ کی اساسی ترین اصل حسن و قبح عقلی ہے اور اس متعلق ان کا مدعی موجب جزئی ہے ، موجب کلی نہیں ۔

کورین نے اپنی دلیل میں ایمان بالغیب کو شناخت حقیقت کے ساتھ خلط کردیا ہے جس چیز پر ایمان رکھنا چاہئے وہ غیب کی حقیقت ہے جو عقل مستقل کی بنیاد پر ثابت ہوتا ہے اور اس کا دوسرا حصہ شرع اور عقل کے ذریعہ ثابت ہوتا ہے ، حقیقت کی اصل پہچان غیب ہے اور یہی وجہ ہے کہ تعلیمات توحیدی کے سلسلہ میں عقل کی طاقت کو ایک محدود سمجھا جاتا ہے اور اس میں وحی کی ہدایتوں سے مدد لینا چاہئے ۔

٣۔ اس متعلق دوسری علت جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اشعری نے عقاید اہل حدیث کی اصلاح کیلئے معتزلہ کی مخالفت میں قیام کیا جبکہ اس وقت اکثر مسلمانوں کے افکارپر معتزلہ کی حکومت تھی ۔ کیونکہ یہ عقاید اس وقت منحرف اور شرک آمیز تھے جیسے تجسیم کا عقیدہ، تشبیہ اور جبر کا عقیدہ۔ اور ان کی اصلاح ، عقاید اہل حدیث سے وفاداری اور مذہب معتزلہ سے دور ہونے کا اعلان کئے بغیر ممکن نہیں تھا (٧) ۔

اس توجیہ سے جو بات حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اشعری حقیقت میں عقاید معتزلہ اور ان کی روش کے مخالف نہیں تھے اور ان کا اس سے جدا ہونا صرف ایک کلامی حیلہ اور مسلمانوں کی مصلحت کیلئے تھا تاکہ وہ اس کے ذریعہ ان کو تجیسم اور تشبیہ کے خطرات سے بچائیں، لیکن تاریخی حقیقت اس توجیہ سے سازگار نہیں ہے کیونکہ :

اولا ً: مجسمہ اور مشبہ اہل حدیث کا صرف ایک گروہ ہے جس کو کبھی کبھی ''حشویہ'' سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اور ان کے عقاید کو اہل حدیث قبول نہیں کرتے جیسا کہ ابن خزیمہ نے کہا ہے:

'' انا نثبت للہ ما اثبتہ اللہ لنفسہ و نقر بذلک بالسنتنا و نصدق بذلک بقلوبنا من غیر ان نشبہ وجہ خالقنا بوجہ احد المخلوقین ، وعز ربنا عن ان نشبھہ بالمخلوقین''(٨) ۔

ہم خدا وند عالم کی اس صفت کو جس کو اس نے خود ثابت کیا ہے ثابت کرتے ہیں، ان پر ایمان رکھتے ہیں اور زبان پر جاری کرتے ہیں اور خداوندعالم کے چہرہ کو اس کی مخلوق کے چہرہ سے تشبیہ نہیں دیتے ۔

ثانیا ً : اشعری کی کتابوں میں مراجعہ کرنے کے بعد جو چیز سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حقیقت میں مذہب معتزلہ کے عقاید و کلام کی مخالفت کرتے تھے اور ان کی مخالفت ظاہری نہیں تھی ۔

٤۔ کتاب '' تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی'' کے مولف اس متعلق کہتے ہیں : شاید اس کی علت وہ شگاف تھا جو اسلامی معاشرہ میں پیدا ہوگیا تھااور یہ خطرہ تھا کہ یہ دین کی نابودی کا سبب بن جائے اور اشعری چونکہ ایک مرد مسلمان اور پرہیزگار تھا لہذا وہ نہیں چاہتا تھا کہ دین خدا اور سنت رسول ، عقاید معتزلہ پر فدا ہوجائیں، عقل کی پیروی ان کو ایسے عقاید کو قبول کرنے پر مجبور کرتی تھی کہ صحیح اسلام اس کا اقرار نہیں کرتا تھااس کے علاوہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ محدثین اور فرقہ مشبہ کی قربانی بنیں جو کہ صرف نص کے ظاہر پر عمل کرتے تھے، اس کی روح و حقیقت پر نہیں، جو دین کو جمود کی طرف لے جاتے ہیں، اور عقل کو راضی نہیں کرپاتے اوراحساسات دینی کو سیراب نہیں کرپاتے تھے ۔ اشعری چاہتے تھے عقل اور اصحاب نص کے درمیان ایک درمیانی راستہ کاانتخاب کریں ایساراستہ جس میں اسلام کی نجات اوراکثر مسلمانوں کی خشنودی پائی جاتی تھی (٩) ۔

یہاں پر دو باتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ضروری ہے : ایک یہ ہے کہ اشعری نے مذہب معتزلہ سے کیوں دوری اختیار کی؟ اور دوسرے یہ ہے کہ ان کی مخالفت کا اعلان کرنے اور دوسرا نیا مذہب بنانے کی کیا وجہ تھی ؟

پہلے سوال کے جواب میںکہنا چاہئے : کلام کے مختلف مسائل میں وہ معتزلہ کے عقاید و نظریات کو خصوصا توحید اور عدل سے متعلق مسائل کو صحیح نہیں سمجھتے تھے ۔ عقاید معتزلہ کے صحیح نہ ہونے کی دلیلیں ان کے کلامی آثار میں اور ملل و نحل کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ کیونکہ ان کا اپنے استاد ابو علی جبائی کے ساتھ قاعدہ اصلح کے متعلق مناظرہ مشہور ہے ۔

معتزلہ کی مخالفت کا اعلان کرنے کی وجہ کامل طور سے واضح نہیں ہے لیکن معتزلہ اور اہل حدیث کے درمیان مختلف بہ کلامی موضوعات میں ان کے عقاید ونظریات کی طرف توجہ کرنے اور ان کی دونوں گروہوں سے مخالفت کرنے کی وجہ سے یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ وہ دینی عقاید کی لغزشوں سے اصلاح کرنا چاہتے تھے جس کو وہ معتزلہ کی عقل گرائی اور اہل حدیث کی ظاہر گرائی میں احساس کررہے تھے ۔ اشعری کی معتزلہ سے مخالفت کرنے کی مذکورہ مختلف علتوں میں سے آخری علت زیادہ مناسب نظر آتی ہے لیکن یہ بات کہ اشعری اس رسالت کو وفا کرنے میں کامیاب ہوئے یا نہیں اس کے متعلق آئندہ بحث کریں گے ۔

شایدیہی اصلاح طلبی کی وجہ تھی کہ انہوں نے اہل سنت کے فقہی مذاہب میں کسی کی طرفداری نہیں کی ہے لہذا کسی نے ان کو شافعی ، بعض نے مالکی اور بعض نے حنبلی کہا ہے ، گویا ان کی فکر یہ تھی کہ اہل سنت کے مختلف مذاہب و فرق ان سے راضی رہیں، جیسا کہ ابن عساکر نے ان سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے : سب مجتہد ہیں اور حق پر ہیں، اصول میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ان کا اختلاف فروع میں ہے(١٠) ۔

حاشیہ جات :

١۔ سیر فلسفہ در ایران، اقبال لاہوری، ص ٥٧۔

٢۔ مراجعہ کریں : بحوث فی الملل والنحل، ج ٢، ص ١٦۔ ١٧۔

٣۔ تاریخ فلسفہ اسلامی، ہانری کورین، ترجمہ اسداللہ مبشری، ص ١٦١ ۔ ١٦٢۔

٤۔ مراجعہ کریں: تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی، حنا الفا خوری، خلیل الجر، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، ج١، ص ١٤٧۔

٥۔ ملل و نحل، شہرستانی، ج١، ص ٣٢۔

٦۔ تاریخ فلسفہ اسلامی، ص ١٥٨۔

٧۔ بحوث فی الملل و النحل، ج٢، ص ٢٣۔

٨۔ التوحید واثبات صفات الرب، ص ١١۔

٩۔ تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی، ج١، ص ١٤٦ ۔ ١٤٧۔

١٠۔ تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی، ج١، ص ١٤٧۔

مآخذ : کتاب فرق و مذاہب کلامی ۔

عزت، اخلاق اسلامی کے ثابت اور ناقابل تغییر اصولوں میں سے ہے نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے الفاظ اپنے اصلی معانی اور معارف کھو بیٹھے ہیں جیسے صبر، عشق وغیرہ، ان میں سے ایک کلمہ عزت بھی ہے اس مختصر سے مقالہ میں امام حسین(ع) کے نزدیک عزت کے معانی، معیاراور عوامل پر بحث ہو گی۔

عزت کے معنی

لغت میں لفظ "عزت" غلبہ، قوت و شدت کے معنی میں آیا ہے اور عزت مند انسان وہ ہے کہ جو کسی ایسے بلند درجے پر فائز ہو کہ ذلت و خواری وہاں تک نہ پہنچ سکے۔

(لسان العرب ابن منظور، ج5، ص374)

راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ عزت انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہے جو انسان کو خواری سے محفوظ رکھتی ہے۔

(مفردات الفاظ القرآن راغب اصفہانی)

صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ کلمۂ عزت، نایابی کے معنی میں ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز عزیز ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس تک آسانی سے رسائی ممکن نہیں ہے۔

(المیزان ج 17، ص 22، 23)

اسلامی افکار میں عزت دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے

1: عزت حقیقی: عزتِ حقیقی خداوند کے لیے ہے اور وہ انسان جو عزت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں وہ خداوند کے ساتھ رابطے کے طفیل ہی ہوتے ہیں اسی وجہ سے علمائے اسلام نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں عزت حقیقی کو خدا وند متعال، رسول (ص)، اور مؤمنین کے لیے مختص، قرار دیا ہے۔

فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا۔ (آل عِمرَان ـ (139

بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے

وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنَافِقون ـ 8)

جب کہ عزت تو اللہ، اس کے رسول اور مومنین کے لیے ہے

2: جھوٹی عزت: جاہلیت کی ثقافت میں زیادہ قدرت و طاقت، کثرت اولاد خصوصا بیٹوں، مال و دولت کی فراوانی، افراد ی قوت کی کثرت وغیرہ کو عزت کا نام دیا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات مردگان کو بھی عزت کا معیار سمجھتے ہوئے قبور کو بھی شمار کرتے ہیں اور آج بھی طاغوت پرست قوموں کے نزدیک عزت کا معیار کچھ ایسا ہی ہے۔

امام حسین (ع) نے ا پنے قیام میں عزت اور ذلت کے معیارات کو بیان کیا ہے یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت کو ذلت شمار کیا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرتے ہوئے مر جانے کو عزت کا نام دیا ہے اور کئی مقامات پر اس بات کا اظہار کیا ہے کہ حسین(ع) کبھی بھی یزید کی بیعت کر کے ذلت کو قبول نہیں کرے گا؛ اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اے میرے بھائی خدا کی قسم! اگر دنیا میں میرے لیے کوئی بھی پناہ گاہ موجود نہ ہو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کروں گا کیونکہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے " خدایا یزید کو اپنی نظر رحمت سے دور رکھ"۔

( الامام الحسین (ع) فی المدینۃ المنورۃ، ص 389)

امام حسین (ع) نے اصحاب و انصار کی کم تعداد کے باوجود اپنے مقصد و ہدف کو جاری رکھا اور ایک پل کے لیے بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ ہوئے جب عمر بن سعد نے امام حسین(ع) کو یزید کی بیعت کی دعوت دی تو فرمایا" خدا کی قسم ! ذلت کے ساتھ کبھی بیعت نہیں کروں گا اور غلاموں کی طرح اس کی خلافت کا اقرار نہیں کروں گا"۔

(موسوعۃ کلمات الامام الحسین(ع) ص 335)

اسی طرح اپنی بہن حضرت زینب کو (ع) صبر وبردباری کا درس دیتے ہوئے فرمایا اے بہن صبر کرو، گریہ نہ کرو اور دشمن کو طنز و طعن کا موقع نہ دو"۔

(( موسوعۃ کلمات الامام الحسین(ع) ص391)

امام حسین (ع) کے فرامین میں تدبر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عزت کچھ عوامل پر موقوف ہے جن کو کسب کیے بغیر عزت کے مقام کو حاصل نہیں کیا جا سکتا یہاں پر ان میں سے کچھ عوامل کو ذکر کیا جا رہا ہے۔

عوامل عزت

ارتباط با خدا

امام حسین (ع) کہ جو آغوش وحی کے پروردہ ہیں عزت نفس کو ارتباط با خد ا سے وابستہ سمجھتے ہیں خدا وند سے ارتباط کے بغیر حاصل ہونے والی عزت کو ذلت تصور کرتے ہیں اپنے پروردگار سے خلوت میں راز و نیاز کرتے ہوئے فرماتے ہیں" الہی ! تیری بارگاہ میں میری ذلت و خواری واضح ہے اور میری حالت تم سے مخفی نہیں خدا وندا ! میں اپنے آپ کو کیسے عزت مند سمجھوں کہ تیرے سامنے خاضع اور ذلیل ہوں اور کیسے احساس عزت نہ کروں جبکہ تو نے مجھے اپنے ساتھ منسوب کیا ہے "(ثار اللہ ص55)

کربلا میں کوفیوں کے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں " اگر تم میرے عذر کو قبول نہیں کرتے اور میرے ساتھ انصاف نہیں کرتے تو پھر اپنے ساتھیوں کو جمع کر لو اور مجھ پر حملہ آور ہو جاؤ اور مہلت نہ دو بے شک خدا وند جو کہ قرآن کو نازل کرنے والا ہے میرا ولی اور مدد گار ہے وہی خدا جو کہ نیک لوگوں کا ولی ہے"۔

(موسوعۃ کلمات الامام الحسین (ع) ص 336)

خود شناسی: عزت کے عوامل میں سے مہم ترین عامل اپنے آپ کو پہچاننا ہے معصومین (ع) کے فرامین سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خود شناس انسان اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ نہیں کرتا اور عزت کا احساس کرتا ہے امام حسین (ع) سے جب والی مدینہ نے یزید کے لیے بیعت طلب کی تو آپ کے جواب سے احساس ہویت چھلکتا ہوا نظر آتا ہے اور معصوم (ع) اس کو اپنے لیے عزت شمار کر تے ہوئے فرماتے ہیں " اے امیر ! ہم اہل بیت (ع) نبوت اور رسالت کا خزانہ ہیں اور یزید فاسق، شراب خور، اورپاکیزہ انسانوں کا قاتل ہے لہذا مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرے گا"۔

(( موسوعۃ کلمات الامام الحسین(ع) ص 283)

امام حسین (ع) اپنی شخصیت کو اس سے کہیں بالا تر پیش کر رہے ہیں کہ یزید جیسے کی بیعت کو قبول کریں اور امام حسین (ع) کے ساتھی بھی اسی فکر کے حامل تھے لہذا جب شمر ملعون نے جناب عباس (ع) کو پکار کر کہا کہ میں تمہارے لیے امان نامہ لے کر آیا ہوں تو آپ (ع) نے اس کو جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا جب تک کہ امام (ع) نے حکم نہ دیا ۔

اسی طرح حضرت زہیر نے بھی شمر کو وحشی جانور قرار دیتے ہوئے اس سے کلام کرنا بھی گوارا نہ کیا۔

(لواعج الاشجان فی قتل الحسین(ع)، ص101)

نسب:

خاندانی شخصیت اور ابا ء و اجداد کا کسی عزیز قبیلے سے تعلق رکھنا بھی عزت کے حصول کے لیے ایک اہم عامل شمار ہوتا ہے امام (ع) نے بھی مختلف مقامات پر اپنا تعارف رسول خدا ﷺ، اپنے والد بزرگوار امام علی(ع) اور والدہ گرامی حضرت صدیقہ طاہرہ(ع) کے عنوان سے کرایا ہے اور خاندان نبوت سے منسلک ہونے کو اپنے لیے عزت و شرف شمار کیا ہے اسی طرح امام (ع) نے دشمنوں کی تذلیل کی خاطر ان کے پست انساب کی طرف اشارہ کیا ہے مثلا ابن زیاد کو زنا زادہ، معاویہ اور یزید کو آزاد شدہ غلاموں کی اولاد، مروان کو زرقا ء کے بیٹے کے عنوان سے یاد کیا ہے اما م (ع) مروان کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں" اے زرقاء ماں کے بیٹے جو بازار ذی المجاز میں مردوں کو اپنی طرف بلاتی تھی اور بازار عکاظ میں اس نے فساد و فحاشی کا جھنڈا لگایا ہوا تھا اے مردود کے بیٹے جسے رسول خدا ﷺ نے ملعون قرار دیتے ہوئے اپنی بارگاہ اقدس سے راند دیا تھا خود کو اور اپنے والدین کو پہچانو۔

(زندگانی امام حسین(ع) ص 149)

تربیت:

وہ جگہ کہ جہاں انسان رشد کرتا ہے خصوصا خاندان، ماں، باپ اور ماحول انسان کی شخصیت کی تعمیر اور تباہی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں امام حسین(ع) اپنی خاندانی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم ﷺ کے زیر تربیت رہنے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کی گود میں پلنے، بڑھنے کو بھی اپنی عزت کے عامل کے طور پر پیش کرتے ہیں

امام حسین (ع) یزید کے بارے میں فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں" آگاہ رہو کہ اس زنا زادہ کے بیٹے زنا زادے نے مجھے ایک ایسے دو راہے پہ لا کھڑا کیا ہے کہ جن میں سے ایک قتل اور دوسرا ذلت کا راستہ ہے ہم سے کوسوں دور ہے کہ ذلت و رسوائی کو قبول کریں خدا وند متعال، پیغمبر اکرم ﷺ اور مؤمنین اس بات پر ناخوش ہیں کہ ہم ذلت کو قبول کریں۔

ماؤں کی پاک آغوش اور اباء و اجداد کے باغیرت اور شریف صلب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ قتل ہونےء کی بجائے گھٹیا لوگوں کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں"۔

(مقتل خوارزمی، ج 2 ص 7،8)

قناعت

عزت کے عوامل میں سے ایک او ر عامل قناعت اور دنیاوی نعمتوں سے دل کو نہ لگانا ہے اور مادیات سے بے نیازی کا احساس ہے امام (ع) فرماتے ہیں " عزت کا راز لوگوں سے بے نیازی کے احساس میں ہے"۔

(شخصیت امام حسین(ع) قبل از عاشورہ ص 201)

امام (ع) کی نظر میں دنیا کو خطر ے میں ڈالے اور جا ن ومال کو قربان کیے بغیر عزت حاصل نہیں کی جا سکتی وہ لوگ جو اپنے دل کو دنیا کے بدلے گروی رکھ چکے ہیں اور اپنی شخصیت کو شکم پر کرنے کے بدلے فدا کر چکے ہیں اور اپنی عزت کو مال و ثروت کے حصول کا ذریعہ بنا چکا ہیں کبھی بھی عزت نہیں پا سکتے امام (ع) کوفیوں کے، حق کے سامنے صف آراء ہونے اور ذلت کو قبول کرنے کو حرام خوری کا نتیجہ گردانتے ہیں۔

(فرہنگ سخنان امام حسین (ع) ص 341)

اسی طرح امام (ع) کی ایک بہت مشہور حدیث کہ" لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین ان کا لقلقہ زبانی ہے جب تک ان کی دنیا محفوظ ہے وہ دیندار ہیں جب کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔

(موسوعۃ کلمات الامام الحسین(ع) ص ۳۹۵)

بلند ہمتی

انسان کی عزت بلند ہمت کے مرہون منت ہے پست اہداف سے انسان پست ہو جاتا ہے اور اس کے سکوت کا باعث بنتا ہے وہ لوگ جو اپنی شہوت اور خواہشات نفسانی کو اپنا ہدف قرار دیتے ہیں آسمان کی بلندیوں کی خوبصورتی کو درک کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اور انسانی اقدار کو کھو بیٹھتے ہیں امام حسین(ع) رسول اسلام ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ" خدا وند بلند مرتبہ امور کو پسند کرتا ہے اور پست کاموں کو پسند نہیں کرتا"۔

(حماسہ حسینی ج ۱ ص ۱۴۹)

جب حر ابن یزید ریاحی نے امام حسین(ع) کو یزید کی بیعت کی دعوت دی اور قبول نہ کرنے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی تو امام (ع) نے فرمایا " موت سے ڈرنا میرے شایان شان نہیں ہے حق کو زندہ کرنے اور عزت کو پانے کی راہ میں موت کس قدر آسان ہے عزت کے حصول میں موت ابدی زندگی کا دوسرا نام ہے اور ذلت کے ساتھ زندہ رہنا موت ہے مجھے موت سے ڈرا رہے ہو تمہارا تیر خطا گیا ہے اور تمہارا گمان بے بنیاد ہے، میں موت سے نہیں ڈرتا، میرا نفس عظیم اور ہمت اس سے کہیں بلند ہے کہ موت سے ڈر جاؤں اور ذلت کو قبول کر لوں آیا قتل کرنے کے علاوہ بھی کسی کام پر قادر ہو؟

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد ٹھٹھہ (جسے شاہجہانی مسجد اوربادشاہی مسجد بھی کہا جاتا ہے) مغل بادشاہ شاہجہان نے 49-1647ء کے درمیان تعمیر کرائی تھی۔

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

اس مسجد میں 93 گنبد ہیں اور اس مسجد کو اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ اس میں امام کی آواز بغیر کسی مواصلاتی آلہ کے پوری مسجد میں گونجتی ہے۔

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد کی کاشی کاری اسے دیگر عمارات سے ممتاز کرتی ہے ۔

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

عمارت کے گنبد فن تعمیر کا حسین نمونہ ہیں۔

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

اگرچہ عہد رفتہ نے اسے نقصان پہنچایا مگر آج بھی یہ فن تعمیر کا ایک حسین شاہکار ہے ۔

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

اس مسجد میں اسلامی شاهکاروں چشم نواز ہیں – تصویروں کو دیهکیئے

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

جامع مسجد شاہجہاں ٹھٹہ - پاکستان

پرانا تصویر

مرحوم نے اپنے معنوي و عرفاني مقالات كے علاوہ بہت سے شاگردوں كي تعليم و تربيت بهي كي، ان كا يہ عمل بہت ہي گرانقدر ہے؛ ہم نے ان ميں سے بعض بزرگ شخصيات سے ملاقات اوران كي زيارت كي ہے: مرحوم آقائ طباطبائي، مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن الہي – مرحوم كے بهائي- مرحوم آقائ آ ميرزا ابراہيم شريفي- جومرحوم آقائ قاضي كے داماد تهے، جو زابل ميں تهے اورآقائ قاضي كے ممتاز شا گردوں ميں سے تهے- مرحوم آقائ حاج شيخ عباس قوچاني، اور حال ہي ميں مرحوم آقائ بہجت اور ان كے علاوہ دوسرے بزرگ بهي تهے جيسے مرحوم آقائ حاج شيخ محمد تقي آملي، مرحوم آقائ شيخ علي محمد بروجردي اور دوسري متعدد شخصيات۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظمي خامنہ اي نے مرحوم آيت اللہ سيد علي قاضي (رہ) كي علمي ، معنوي ، عرفاني اورعملي شخصيت كي ياد و احترام ميں منعقدہ كانفرنس كے نام اپنے پيغام ميں تاكيد كرتے ہوئے فرمايا: مرحوم آقائ قاضي دہر كے حسنات ميں سے ہيں اوربيشك بزرگوں ميں ان كي شخصيت كم نظير ہے۔

 

تبريز يونيورسٹي كے وحدت ہال ميں حجۃ الاسلام والمسلمين محمدي گلپائگاني نے رہبر معظم انقلاب اسلامي كے پيغام كو پيش كيا۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحيم ٭

 

مرحوم آقائ حاج ميرزا علي آقائ قاضي كي ياد ميں سمينار كا اقدام بہت ہي خوب ، سزاواراورعمدہ اقدام ہے؛ انشاء اللہ يہ كام بہت ہي مفيد كام ثابت ہوگا۔ مرحوم آقائ قاضي – ميرزا علي آقائ قاضي – دہر كے حسنات ميں سے ہيں، بيشك مرحوم قاضي كي ممتاز علمي اورعملي شخصيت بزرگوں كے درميان اگر بے نظير نہ كہيں توكم نظيرضرورہے۔

 

مرحوم نے اپنے معنوي و عرفاني مقالات كے علاوہ بہت سے شاگردوں كي تعليم و تربيت بهي كي، ان كا يہ عمل بہت ہي گرانقدر ہے؛ ہم نے ان ميں سے بعض بزرگ شخصيات سے ملاقات اوران كي زيارت كي ہے: مرحوم آقائ طباطبائي، مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن الہي – مرحوم كے بهائي- مرحوم آقائ آ ميرزا ابراہيم شريفي- جومرحوم آقائ قاضي كے داماد تهے، جو زابل ميں تهے اورآقائ قاضي كے ممتاز شا گردوں ميں سے تهے- مرحوم آقائ حاج شيخ عباس قوچاني، اور حال ہي ميں مرحوم آقائ بہجت اور ان كے علاوہ دوسرے بزرگ بهي تهے جيسے مرحوم آقائ حاج شيخ محمد تقي آملي، مرحوم آقائ شيخ علي محمد بروجردي اور دوسري متعدد شخصيات۔

 

اس سلسلے ميں سب سے اہم مسئلہ يہ ہے كہ ہمارے حوزات علميہ ميں ہمارےعلمي، فقہي وحكمي سلسلے ميںاور اس صراط مستقيم ميں ايك خاص الخاص طبقہ و سلسلہ موجود ہے جو سب كے لئے نمونہ عمل بن سكتا ہے جو درحقيقت چهوٹے بڑے علماء، تمام افراد اورجوانوں كے لئے بهي نمونہ عمل بن سكتا ہے۔يہ وہ لوگ ہيں جنهوں نے صرفظواہر پر ہي عمل نہيں كيا،بلكہ انهوں نےمعرفت، سلوك اور توحيد كي راہ ميں تلاش و كوشش اور جد وجہد كي اور اعلي درجات تك پہنچے اور سب سے اہم بات يہ ہے كہ انهوں نے سلوك و عرفان كي اس عظيم حركت ميں تصوف و عرفان كےبعضتخيّلاتي اور مصنوعي سلسلوں كي طرح عمل نہيں كيا بلكہ صرف شرع مقدس كے ذريعہ اسے حاصل كيا ہے۔

 

مرحوم آقائ قاضي كا يہي سلسلہ ، ان بزرگوں كا يہ مجموعہ ، جس كا آغاز مرحوم حاج سيد علي شوشتري سے ہوتا ہے سب كے سب طراز اول كے مجتہد تهے،يعني مرحوم آ سيد علي شوشتري جو شيخ كے شاگرد تهے اور شيخ كے سلوك و اخلاق كے استاد تهے، فقہ و اصول ميں شيخ كے شاگرد تهے اور سلوك و اخلاق ميں شيخ كے استاد تهے، شيخ ان كے پاس آتے تهے اور استفادہ اور فيض حاصل كرتے تهے ۔ شيخ كي وفات كے بعد وہ بهي مختصر مدت تك زندہ رہے ليكن اسمختصر مدت ميں شيخ نے جہاں درس چهوڑا تها وہاں سے انهوں نے پڑهانا شروع كرديا؛ مرحوم حاج سيد علي شوشتري كےدرس ميں شركت كرنے والے شاگردكہتے تهے كہ ہم نے علمي لحاظ سے شيخ اور ان كے درميان كوئي فرق محسوس نہيں كيا يعني ان كا علمي و فقہي مقام بهي اتنا ہي بلند تها، ان كے ممتاز شاگرد مرحوم آخوند ملا حسين قلي ہمداني ہيں جو عرفاني، معنوي اور سلوكي لحاظ سے بلند و بالا مقام پر فائز ہيں يعني مرحوم آخوند ملا حسينقلي كي عظمت و رفعت قابل توصيف نہيں ہے؛وہ علمي قابليت كے لحاظ سے علم فقہ و اصول ميں شيخ كے ممتاز شاگردوں ميں سے تهے؛ليكن عرفان، سلوك اور توحيد كا ان كي زندگي پر زيادہ غلبہ تها كيونكہ وہ اسراہ پر گامزن تهے، ان كے شاگرد جو مرحوم آقائ قاضي كے اساتيد تهے جيسے مرحوم حاج سيد احمد كربلائي، مرحوم حاج شيخ محمد بہاري اور ان جيسے دوسرے افراد، يہ سب وہ افراد تهے جو فقہي لحاظ سے اعلي ترين درجے پر فائز تهے؛يعني مرحوم حاج سيد احمد كربلائي ايسي شخصيت تهے كہ مرحوم ميرزا محمد تقي شيرازي اپني احتياطات كے سلسلے ميں ان كي طرف مراجعہ كرتے تهے اور وہ يقيني طور پر مرجعيت پر فائز تهے؛ ليكن وہ خود قبول نہيں كرتے تهے؛شكوہ كرتے كہ آپ احتياطات ميں ميري طرف كيوں رجوع كرتے ہيں مرجعيت قبول كرنے سے اجتناب كيا اور اسي عالم معنويت ميں رہے، ہمارے جد مرحومآقائ آسيد ہاشم نجف آبادي نے مرحوم آ سيد احمد كو ديكها تها ، درك كيا تها؛ وہ كہتے تهے كہ جب ہم رات ميں يا سحر كے وقت مسجد سہلہ كي طرف جاتے تهے يا واپس آتے تهے ، راستے ميں آ سيد احمد كا گهرپڑتا تها تو گهر سے مرحوم كے رونے كي آواز آتي تهي، ان لوگوں كے معنوي حالات اس قسم كے تهے۔

 

خوب، مرحوم آقائ قاضي بهي ان كے شاگرد ہيں البتہ مرحوم قاضي اپنے باپ مرحوم آقائ آ سيد حسين كے بهي شاگرد ہيں اور بعد ميں جب وہ نجف آئے تو وہاں مرحوم آ سيد احمد كے شاگرد بن گئے ، دس يا بارہ سال تك مرحوم سيد مرتضي كشميري كے شاگرد رہے ، البتہ مرحوم قاضي كے فرزند مرحوم آقائ آسيد محمد حسن نے ايك كتاب لكهي ہے جس ميں انهوں نے لكها ہے كہ مرحوم قاضي ، مرحوم سيد مرتضي كشميري كے سامنے تلمذ نہيں كرتے تهے بلكہ ان كي مصاحبت و ہمنشيني سے استفادہ كرتے تهے؛ليكن اسي كتاب يا مرحوم آقائ آ سيد محمد حسين طہراني كي كسي كتاب ميں، ميں نے پڑها ہے ابهي ميرے ذہن ميں نہيں كہ كہاں پڑها ہے، كہ مرحوم آقائ قاضي كہتے ہيں كہ ميں نے نماز پڑهنا سيد مرتضي كشميري سے سيكها ہے،آپ ملاحظہ كريں كہ ان كلمات كے كتنے گہرے اورعميق معاني ہيں۔ ہم بهي نماز پڑهتے ہيں اور خيال كرتے ہيں ہم اچهے اور بہترين انداز ميں نماز ادا كررہے ہيں، يہ بزرگ عارف كئي سال تبريزميں اپنے والد كي تربيت ميں رہے اور معنوي لحاظ سےكافي آگے بڑه چكے تهے ليكن جب نجف پہنچتے ہيں اور دس سال تك مرحوم آ سيد مرتضي كشميري كے پاس جاتے ہيں ، تو كہتے ہيں كہ ميں نے نماز ان سے سيكهي ہے، مرحوم حاج ميرزا عليآقائ قاضي كے شاگرد نقل كرتے ہيں كہ انهيں زندگي ميں سخت مالي اور اقتصادي مشكلات كا سامنا تها عيال كي كثرت تهي اور فقربهي تها ليكن جب نماز پڑهتے تهے تو پوري دنيا سے غافل ہوجاتے تهے يعني نماز ميں ذكر خدا ميں اس طرح خضوع و خشوع كے ساته مشغول اور مصروف ہوجاتے تهے كہ پوري دنيا سے فارغ ہوجاتے تهے، يہ غير معمولي گذرگاہيںخاص الخاص طبقہ و افراد كي گذر گاہيں ہيں، ہمارے لئے اس لحاظ سے حجت ہيں كہ ہم سمجه جائيں كہ يہ بهي ہے؛ يہ درجات، يہ سلوك، يہ خلوص اور يہ حركت اللہ تعالي كي راہ ميں ہے۔

 

يہ لوگ مكاشفات كا اظہار بهي نہيں كرتے تهے، ان سے بہت سے چيزيں نقل ہوئيں اورمرحوم آقائ قاضي كي زندگي كے عجائب كے بارے ميں منقول شدہ چيزيں مؤثق بهي ہيں اور نقل شدہ چيزيں ايك دو نہيں بلكہ كثرت سے ہيں؛ مؤثق بهي ہيں جن طرق سے نقل ہوئي ہيں وہ صحيح اورقابل يقين ہيں، ليكن يہ چيزيں ان بزرگوں كے نزديك كوئي اہم اور قابل توجہ چيزيں نہيں تهيں خود يہ بزرگ اپنے شاگردوں سے كہتے تهے؛ اگر مكاشفہ كي كوئي حالت آپ كے لئے حاصل ہوجائے اس پر توجہ نہ ديں ، آپ اپنا كام كرتے رہيں ، اپنے ذكر كو جاري ركهيں،اس خشوع كي حالت كي حفاظت كريں؛ يعني يہ ہيںان كے درجات ۔

 

بہر حال ايسي شخصيات كي ياد تازہ كرنا ، انهيں پہچنوانا اور ان كي معرفي بہت ہي اہم بات ہے البتہ اس بات پر توجہ ركهني چاہيے كہ ايسےافراد كي معرفي كے سلسلے ميں ماہر اور باكمال افراد سے استفادہ كرنا چاہيے۔ يعني ايسے افراد آئيں جو لفظ و زبان كے ذريعہ ان كے بارے ميں ہميں بتائيں تاكہ ہم كچه استفادہ كرسكيں ورنہ مرحوم آقائ حاج ميرزا علي آقائ قاضي اور ان جيسے افراد كے علمي و فقہي درجات تو بہت بلند ہيں ان كے بارے ميں بيان كرنا كافي نہيں كيونكہ وہ تو اعلي درجات پر فائز ہيں۔

 

خوب، الحمد للہ انهيں طولاني عمر بهي عطا ہوئي، انهيں بہت سي توفيقات بهي حاصل ہوئيں، انهوں نے بہت سے شاگردوں كي تربيتبهي كي،اور سلوك و عرفان كے لحاظ سے بهي وہ كم نظير ہيں يعني حقيقت ميں ان كي شخصيت ممتاز شخصيت ہے مرحوم كے فرزند مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن نےجو كتاب لكهي ہے ميں نے اسے مكرر پڑها ہے اس كتاب ميں كچه خطوط ہيں البتہ كتاب كے متن و حاشيہ كو يكساں طور پر لكها گيا ہے اور متن و حاشيہ ميں تمييز پيدا كرنا مشكل ہے البتہممكن ہے پسماندگان كے پاس اصل متن موجود ہو، اگر توجہ كي جائے تو اس ميں چار پانچ خطوط ہيں جن ميں ايك ممكنہ طور پر آقائ طباطبائي كے نام ہے،البتہ عنوان نہيں ہے ليكن متن كو ديكه كر انسان سمجه جاتا ہے كہ يہ خط آقائ طباطبائي كے نام ہے؛ ايك خط ممكنہ طور پر مرحوم آقائ آ سيد محمد حسن الہي كے نام ہے، ايك دو خط مرحوم آ شيخ ابراہيم شريفي زابلي كے نام ہيں جو مرحوم كے داماد تهے؛ ايك خط ماہ رجب يا ذي قعدہ كے حلول كي مناسبت سےتمام شاگردوں كے نام ہے جس ميں كہتے ہيں كہ ماہ حرام شروع ہوگيا ہے اور حرام مہينوں كي اہميت كے بارے ميں كچه باتيں ذكر كرتے ہيں؛ ممكن ہے بعض خطوط دوسروں كے نام ہوں ؛ اگر آپ ان خطوط كو الگ اور جداگانہ طور پر شائع كريں توميري نظر ميں يہ كام بہت اہم يادگار كام ہوگا؛ بہر حال تمام حضرات كا سپاس گزار ہوں اور اميد كرتا ہوں كہ كام اچهي طرح جاري رہے۔

 

٭رہبر معظم كے پيغام كا متن آيت اللہ سيد علي قاضي كي ياد منانے والي كانگريس كے اركان كے اجتماع سے رہبر معظم انقلاب اسلامي كے خطاب سے منتخب كيا گيا ہے جو 26 /4/1391 ہجري شمسي ميں انجام پذير ہوا۔

سرکردہ يہودي مذہبي رہنماؤں نے لندن ميں صيہونيت مخالف مظاہرے کئے ہيں-

يہ مظاہرے لندن ميں اسرائيل سفارت خانے کے سامنے کئے گئے جن ميں بڑي تعداد ميں يہودي مذہبي رہنما اور عام لوگ شريک تھے-

مظاہرے کے شرکا نے صہيونيت کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کيا اور اسرائيل کے اقدامات کي شديد الفاظ ميں مذمت کي-

مظاہرين نعرے لگا رہے تھے کہ صيہوني حکومت يہوديوں کي نمائندہ نہيں اور اسرائيل بربريت کا سلسلہ بند کرے-

مظاہرين نے فلسطينيوں کي حمايت ميں نعرے لگائے اور اسرائيل کے قيام کو يہوديت کے تعليمات کے منافي قرار ديا-

مظاہرين نے مطالبہ کيا کہ اسرائيل فلسطينيوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ فوري طور پر بند کردے –

واضح رہے کہ فلسطينيوں کے خلاف اسرائيل کے ظالمانہ اقدامات پر زبردست عالمي ردعمل سامنے آيا ہے-

Saturday, 08 December 2012 06:25

آمريكه کا اعتراف

امريکہ نے ايران کے ہاتھوں نے اپنے ايک اور ڈرون طيارے کے شکار کا اعتراف کرليا ہے-

پنٹاگون کے ترجمان جارج لٹل نے اپنے ايک بيان ميں اعتراف کيا ہے کہ ايران نے خليج فارس ميں پرواز کرنے والے جس ڈرون طيارے کو شکار کيا ہے وہ امريکي ساختہ سي ايگل ڈرون ہے-

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامي کے ايک کمانڈر نے بدھ کے روز اعلان کيا تھا کہ شکار کئے گئے امريکي ڈرون طيارے کا مکمل ڈيٹا ڈي کوڈ کرليا گيا ہے-

بريگيڈيئر جنرل رمضان شريف نے مزيد کہا کہ مذکورہ طيارہ فوجی معلومات جمع کرنے کے علاوہ ايران کے انرجي سيکٹر اور خاص طور پر تيل کي جيٹيوں سے منتقل کئے جانے والے خام تيل کے حوالے سے معلومات اکٹھي کر رہا تھا-

پنٹاگون کے ترجمان وہ پہلے امريکي عہديدار ہيں جنہوں نے اپنے بغيرپائيلٹ طيارے کے شکار کئے جانے کا اعتراف کيا ہے-

واضح رہے کہ ايران کي جانب سے ڈرون طيارہ شکار کئے جانے کے اعلان کے بعد امريکي نيوي نے کہا تھا کہ اس کے تمام ڈرون طيارے محفوظ ہيں اور يہ طيارہ کسي اور ملک کا ہوسکتا ہے کيونکہ سي ايگل قسم کے طياروں کو پہلي ہي لائن آوٹ کرديا گيا ہے-

گزشتہ سال بھي ايران نے امريکہ کے جديد ترين ڈرون طيارے آر کيو ايک سو ستر کو اپنے کنٹرول ميں لينے کے بعد کاميابي کے ساتھ اتار ليا تھا- يہ طيارہ ايران کي مشرقي سرحدوں سے ايران ميں جاسوسي کي غرض سے داخل ہوا تھا-

Monday, 03 December 2012 09:08

غزه تصويروں میں

خاموشي كيوں ؟

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

غزه تصويروں میں

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

یہ پشاور کی سب سے مشہور مسجد اور قدیم ترین مسجد ہے جس کو 1670ء میں مغلیہ بادشاہوں کے دور حکومت میں تعمیر کروایا گیا ۔ اس کا فن تعمیر مغل طرز کا ہے ۔

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

کابل کے گورنر مہابت خان نے شاہی مسجدلاہور کی طرز پر تعمیر کروائی اور اسی کے نام سے منسوب ہے ۔

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

معماری

اس کا صحن 35 میٹر لمبا اور تقریباً 30 میٹر چوڑا ہے۔

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

مسجد کے وسط میں اور صحن کے درمیان میں ایک بہت بڑا حوض اور وضو خانه ہے۔

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

مسجد کی دیواروں اور گنبدوں کاشی کاری کے علاوہ نقش نگاری اور مرقع نگاری سے مزین کیا گیا ہے۔

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

یہ بہت ہی خوبصورت مسجد ہے اور جب بھی سیاح پشاور کا رخ کرتے ہیں تو مسجد مہابت خان کو دیکھنے کی تمنا ضرور ان کے دل میں ہوتی ہے ۔

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

مسجد کے 34 میٹر بلند و بالا میناروں کے درمیان 6 چھوٹے چھوٹے مینار بھی ہیں۔ اس کی چھت پر کل 7 گنبد تعمیر کیے گئے ہیں جن میں 3 گنبد کافی بڑے ہیں۔

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

مسجد کا اندرونی منظر

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

مسجد کا اندرونی منظر

مسجد مہابت خان – پشاور ؛ پاكستان

ابوالحسن اشعری نے چوتھی ہجری کے شروع میں مذہب معتزلہ کے خلاف قیام کیا اور اپنے کلامی نظریات کو منتشر کرنا شروع کیا.

انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں مشاہدہ کیا کہ ان کے بہت سے شاگر ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ ان کے نظریات کو اہل حدیث کی ظاہرگرائی اور معتزلہ کی عقل گرائی کے مقابلہ میں پناہ گاہ کے عنوان سے تعریف کرتے ہیں ۔

ابوالحسن اشعری نے چوتھی ہجری کے شروع میں مذہب معتزلہ کے خلاف قیام کیا اور اپنے کلامی نظریات کو منتشر کرنا شروع کیا ،انہوں نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں مشاہدہ کیا کہ ان کے بہت سے شاگر ان کے گرد جمع ہوگئے ہیں اور وہ ان کے نظریات کو اہل حدیث کی ظاہرگرائی اور معتزلہ کی عقل گرائی کے مقابلہ میں پناہ گاہ کے عنوان سے تعریف کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے کہا جاسکتا ہے : مکتب اشعری خود اس کے موسس کے سامنے تاسیس ہوگیا اور اسی روز سے اس مذہب کی مخالفتیں بھی شروع ہوگئیں ۔

دوسروں سے پہلے معتزلیوں نے ان کی مخالفت شروع کی کیونکہ یہ اپنے مذہب کے دیرینہ شاگرد سے ناراض تھے ۔ ان کے علاوہ اہل حدیث اور حنبلیوں نے بھی ان کی مخالفت کی اور کہا : یہ نیا آدمی کون ہے جو معتزلہ سے دوری اختیار کرتے ہوئے بھی اس بات کی جرائت نہیں کرتا کہ کم یا زیادہ دینی نصوص و ظواہر سے استناد کرے؟

دوسری طرف جب اشعری بصرہ اور بغداد میں دینی عقاید کی اصلاح کررہے تھے ، اسی وقت سمرقند (اسلامی سرزمین کے مشرق میں واقع ہے)میں ابومنصور ماتریدی (متوفی ۳۳۳) نے اشعری سے مشابہ نظریات کے ساتھ ظہور کیا، اور اس کے نزدیکی شاگردوں نے مذہب اشعری کو ایک ناقص اورناموفق اصلاح کے عنوان سے شمار کیا اور ان کے مذہب کو محافظ اور ابن الوقت سے متہم کیا اوروہ عقاید ماتریدی سے دفاع کرتے تھے کیونکہ ماتریدی کو اہل تسنن کا احیاء کرنے والا سمجھتے تھے ۔

۲۔ سیاسی تبدیلیاں اور مذہب اشعری کا سرکاری ہونا

سیاسی نقطہ نظر سے سلجوقیوں(تقریبا پانچویں صدی کے نصف میں) کو حکومت ملنے تک مکتب اشعری کی اچھی حالت نہیں تھی کیونکہ ان سے پہلے ایک صدی سے زیادہ (۳۲۱ ۔ ۴۴۷) آل بویہ نے حکومت کی ، آل بویہ کی حکومت کے دوران معتزلہ اچھی حالت میں تھے اور اشاعرہ کی حالت بہت زیادہ خراب تھی ، کیونکہ آل بویہ ایک طرف تو مذہب شیعہ کی پیروی کرتے تھے اور معتزلہ سے دفاع کرتے تھے اور دوسری طرف ان میں سے بعض اہل علم و فضل و ادب ، آزاد اندیشی سے دفاع کرتے تھے ۔ اس وجہ سے دربار آل بویہ میں مکتب شیعہ اور مکتب معتزلہ نے زیادہ رونق پائی ۔ ابن العمید اور اسی طرح صاحب بن عباد، آل بویہ کے دانشمند وزیر اشعریوں کے مخالف تھے ۔

سلجوقیوں کو حکومت ملنے کے بعد اشعریوں کی حالت بھی بدل گئی اور مذہب اشعری کو اہل سنت کے درمیان ایک ممتاز مقام مل گیا کیونکہ سلجوقی وزیر نظام الملک(متوفی ۴۸۵) نے حکم دیا کہ بغداد اور نیشاپور کے دونوں مدرسوں میں مذہب اشعری کے مطابق تعلیم دی جائے ۔اس کے بعد سے اشعری مذہب ، اہل سنت کا قانونی مذہب شمار ہونے لگا ، اشاعرہ نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالف کلامی فرقوں سے جنگ کرنا شروع کریا ۔

ان کی مخالفت کی وجہ کلامی نظریات کے علاوہ سیاسی علت بھی تھی کیونکہ بعض جگہوں پر جہاں ان کے مخالف بعض حکومتوں کی حمایت کررہے تھے وہیں وہ ان کی مدافع حکومتوں سے جنگ بھی کررہے تھے ۔

ہانری کورین فرانسوی نے غزالی کی مخالفت کے سلسلہ میں باطنیان اور فلاسفہ سے کہا ہے :

غزالی کی باطنیان اور فلاسفہ سے دشمنی اصل میں حکومت فاطمی قاہرہ سے دشمنی کرنا تھا کیونکہ وہ فلاسفہ کی حکومت کی حفاظت کررہے تھے اور باطنی کے اصول وعقاید سے اپنے فائدہ اٹھا رہے تھے ۔

” تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ کے مولفین نے بھی غزالی کی باطنیہ سے مخالفت کے متعلق کہا ہے : اسلام کو زنادقہ اور مجوس کے مقابلہ میں باطنیہ سے زیادہ خطرہ نہیں تھا بلکہ اگر خطرہ تھا تو وہ اسلام سے زیادہ خلافت کو خطرہ تھا ۔ غزالی نے باطنیہ کے مقابلہ میں جو جنگ شروع کی تھی اس میں دین سے زیادہ سیاسی پہلو پایا جاتا تھا ۔ یہ بات ان کی کتاب ” المستظھریہ“ یا فضائح الباطنیہ و فضائل المستظھریہ“ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔

۳۔ اشاعرہ کی عقل محوری

اگر چہ ظاہر پر عمل کرنے والوں (اہل حدیث) کی معتزلہ پر کامیابی کے بعد عقل پر عمل کرنے والوں کا ستارہ غروب ہوگیا لیکن کامل طور سے ختم نہیں ہوا اور یہی نہیں بلکہ صدیوں بعد تک معتزلہ کے ماننے والے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہب کا دفاع کرتے رہے بلکہ اشاعرہ کے متکلمین کے درمیان کچھ برجستہ چہرے ایسے تھے جو تفکر عقلائی کے قائل تھے اور بعض جگہوں پر اشاعرہ کے عقاید کی مخالفت کرتے یا اس کی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔

الف : خیالی اور عبدالحکیم

”تاریخ فلسفہ در جہان اسلامی“ کے مولفین نے اس متعلق کہا ہے: اشاعرہ کے آسانی سے حاصل شدہ عقاید بہت جلد تبدیل ہوگئے ، یعنی اشاعرہ نے عقل کی طرف رجحان کرلیا ، یہاں تک کہ وہ اس کو نص پر ترجیح دینے لگے، اور جیسا کہ خیالی اور عبدالحکیم نے اپنی کتاب ”عقاید نسفی“ کے حواشی پر کہا ہے: جن جگہوں پر نص ایسی چیز کی حکایت کرتی ہو جس کو عقل منع کرتی ہو تو اس نص کی تاویل کرنا چاہئے کیونکہ عقل ، نقل پر مقدم ہے ، عقل اصل ہے اور نقل فرع ہے کیونکہ نقل ، اثبات صانع ،اثبات عالمیت اور قدرت پر متوقف ہے ۔ لہذا نقل کے ذریعہ عقل کو باطل کرنا ایسا ہے جیسے اصل کو فرع کے ذریعہ باطل کردیا ہو اور یہ عقل و نقل دونوں کو باطل کرنا ہے ۔

ب : شیخ محمد عبدہ

متاخرین اشاعرہ میں عقل پر عمل کرنے والے بہت زیادہ ظاہر ہوئے منجملہ شیخ محمد عبدہ (متوفی۱۳۲۳) بھی ہیں وہ اشاعرہ مذہب کی پیروی کرتے تھے لیکن اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان اختلافی مسائل میں وہ ایسے نظریات کو بیان کرتے تھے جن میں اشاعرہ کی مخالفت عیاں ہوتی تھی۔

بہتر ہے یہاںپر ان کے نظریہ حسن و قبح عقلی (اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان سب سے ہم مسئلہ) کو بیان کیا جائے :

انہوں نے اس آیت ” یامرھم بالمعروف و ینھاھم عن المنکر“ کے تفسیر میں کہا ہے : مشہور یہ ہے کہ عقل سالم اس کو صحیح سمجھتی ہیں اور پاک و پاکیزہ دل ،فطرت و مصلحت سے ہماہنگ ہونے کی وجہ سے اس کوپسند کرتے ہیں اور اس بات کے منکر ہیں کہ عقل سالم اس کا انکار کرتی ہے اور پاک و پاکیزہ دل اس سے متنفر ہیں لیکن ”معروف “ کی تفسیر جس کا شریعت نے حکم دیا ہے اور ”منکر“ کی تعریف جس سے شریعت نے منع کیا ہے اس کی تفسیر واضح ہے ۔اور ہماری اس بات کے معنی حسن و قبلح عقلی کے سلسلہ میں معتزلہ کی طرفداری اور اشاعرہ کی مخالفت نہیں ہے ، ہم ان دونوں نظریوں میں سے ایک حصہ کے موافق اور ایک کے مخالف ہیں ،اس بنیاد پر عقل کی قدرت کو حسن افعال کو درک کرنے میں کلی طور پر انکار نہیں کرتے (جس طرح اشاعرہ منکر ہیں)لیکن کسی چیز کو خداوند عالم کے اوپر واجب بھی نہیں جانتے (جیسا کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے) ۔

ج : شیخ شلتوت

اہل سنت کے متاخرین میں عقل پر عمل کرنے والوں میں شیخ شلتوت بھی ہیں، آپ مسئلہ جبر واختیار میں اشاعرہ کے مسئلہ کسب کو جبر کی مشکل حل کرنے کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے :تفسیر کسب یہ ہے کہ فعل کے محقق ہونے میں اس کی قدرت کے موثر ہوئے بغیر، فعل اور قدرت انسان کے درمیان تقارن پایا جائے ، اس کے علاوہ اس کی لغوی اصطلاح اور قرآنی اصطلاح میں ہماہنگی نہ ہو یہ مسئلہ تکلیف کی تصحیح و توجیہ ، اصل عدل(الہی) اور (انسان کی)مسئولیت کی ذمہ دارنہیں ہے کیونکہ مذکورہ مقارنت خداوندعالم کے ذریعہ قدرت انسان کے ظرف میں ایجاد شدہ فعل کے نتیجہ میں واقع ہوئی ہے ،انسان کی مخلوق اور قدرت کے تحت نہیں، تاکہ مصحح انسان کے فعل کی بانسبت ہو اور فعل جس طرح انسان کی قدرت کے ساتھ مقارن ہے اسی طرح سمع و بصر اور علم انسان سے بھی مقارن ہے ۔

اس صورت میں قدرت کوکونسا امتیاز پیایا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ فعل کی مقارنت انسان کی اپنے فعل کی طرف نسبت دینا کا سبب ہو ؟

انہوں نے اس متعلق اپنے نظریہ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے:

میرا نظریہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے قدرت اور ارادہ کو عبث و بیہودہ انسان میں خلق نہیں کیا ہے بلکہ یہ دونوں تکلیف و جزائاور انسان کے افعال سے منسوب ہونے کے ملاک پر منحصرہے جب بھی انسان خیر یا شر کے راستہ کوانتخاب کرلے تو خداوند عالم اس کو قہری طور پر اس راستہ پر چلنے سے منع نہیں کرتا ، اگر چہ انسان اور اس کی قدرت و اختیار،خدا کی قدرت اور مشیت کے تحت ہیں ۔ وہ اگر چاہے تو کامل طور سے خیر کے جذبہ کو اس سے لے سکتا ہے تاکہ شر اس کی پوری ذات کو گھیر لے ، نیز اگر چاہے تو اس سے شر کے جاذبہ کو سلب کرسکتا ہے تاکہ خوبی اس کی ذات کا احاطہ کرلے ، لیکن مسئلہ تکلیف میں حکمت الہی اور آزمائش اسی چیز کا اقتضاء کرتی ہے جو انسان کے اندر سموئی گئی ہے ۔

اشعری نے ایک نیا طریقہ پیش کیا تاکہ اس کے ذریعہ عقل پر عمل کرنے والوں(معتزلہ) اور ظاہر پر عمل کرنےوالوں( اہل حدیث ) کے درمیان سے تضاد کو برطرف کرے ، اس وجہ سے وہ دونوں گروہوں کےموافق بھی تھے اور مخالف بھی۔ عقل پر عمل کرنے والوں سے اس لئے موفق تھے کہ دینی عقاید کو ثابت کرنے میں عقلی استدلال بدعت اور حرام نہیں ہے بلکہ بہتر اور پسندید ہ ہے اور اس کے متعلق انہوں نے ”استحسان الخوض فی علم الکلام“ جیسی کتاب لکھی ہے جب کہ اہل حدیث علم کلام اور عقلی استدلال کو بدعت اور حرام جانتے تھے ۔

دوسری طرف عقل اور ظواہر دینی کے درمیان تعارض کے وقت ظواہر کو مقدم کرتے تھے جس کے نتیجہ میں انہوں نے صفات ذات اور صفات خبریہ کی بحث میں معتزلہ کے عقاید کی مخالفت کی ، جس طرح سے اصل حسن وقبح عقلی اوراس کی فروعات کو مردود تسلیم کیااور کسی بھی واجب عقلی کو قبول نہیں کیا اور اس متعلق اہل حدیث کے ہمفکر تھے اورچونکہ ظواہر کو محفوظ کرنے میں تاویل کو صحیح نہ سمجھتے ہوئے بعض موارد میں اصل تنزیہ اور صفات جمال جلال سے منافات پائی جاتی تھی لہذا عقلی استدلال سے استفادہ کرتے ہوئے جدید کلامی فرضیات اختراع کئے ، یا اگر یہ فرضیات پہلے سے بیان شدہ تھے تو ان کو تسلیم کرنے کاحکم دیا یہ فرضیات، علم کلام میں مخصوص عقاید و نظریات کو تشکیل دیتے ہیں ۔

ابوالحسن اشعری کی نئی تخلیقات

الف : خداوند عالم کے ازلی صفات

خداوند عالم علم، قدرت،حیات ، ارادہ وغیرہ جیسے صفات سے متصف ہے ،متکلمین میں سے کسی کو بھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ صفات ، صفات کمال ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بھی ذکر ہوئے ہیں لیکن اصل بحث خدا وند عالم کے لئے ان صفات کے محقق ہونے کی کیفیت میں ہے کہ کیا ان کی واقعیت عین ذات الہی ہے یا اس کی ذات پر زاید ہیں؟

اکثر معتزلہ ،خداوند عالم کے ازلی صفات کو اس کی عین ذات سمجھتے ہیں اور بعض اہل حدیث (مشبہ) ان صفات کو اس کی ذات سے زائد اور مغایر سمجھتے ہیں اور شیخ اشعری نے بھی نظریہ زائد بر ذات کو انتخاب کیا لیکن اس میں ایک تبصرہ کا اضافہ کیا ، وہ تبصرہ یہ ہے : یہ ازلی صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات، اگر چہ اپنی حقیقت میں قائم بالذات ہیں، جیسا کہ شہرستانی نے کہا ہے:

قال ابوالحسن : الباری تعالی عالم بعلم، قادر بقدرة، حی بحیاة، مرید بارادة، ․․․ قال : و ھذہ الصفات ازلیة قائمة بذاتہ تعالی ، لایقال : ھی ہو، ولا ھی غیرہ، لا ھو، ولا ، لاغیرہ۔

ابوالحسن اشعری نے کہا ہے: خداوند عالم علم زائد کے ذریعہ عالم، قدرت کے ذریعہ قادر، حیات کے ذریعہ حی اور ارادہ کے ذریعہ مرید ہے ،خداوند عالم کے یہ ازلی اور قائم بالذات صفات نہیں کہے جاتے جو عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ہیں ۔

مذکورہ تبصرہ کے متعلق دو نکتوں کو بیان کرتے ہیں:

۱۔ یہ مطلب شیخ اشعری کی فکر کی ایجاد نہیں ہے کیونکہ ان سے پہلے عبداللہ بن کلاب(متوفی ۲۴۰) نے بیان کیا ہے ۔ اشعری نے ”مقالات الاسلامین“ میں ان کے نظریہ کو اس طرح بیان کیا ہے : ” خداوند عالم کے نام اور صفات اس کی ذات میں موجود ہیں، نہ وہ خود ہیں اور نہ ان کے علاوہ کچھ اورہے ، یہ ذات حق کے ساتھ ثابت ہیں، لیکن صفتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ثابت ہونا جائزنہیں ہے ، اشعری کے نقل کے مطابق سلیمان بن جریر زیدی نے بھی خداوند عالم کے صفات کے متعلق یہ بات کہی ہے ۔

۲۔ اشعری کا اس بات سے ہدف یہ ہے کہ لزوم تعدد قدماکے مشہور اعتراض کے ذریعہ ان لوگوں کا جواب دیں جو صفات کے زائد ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، کیونکہ مذکورہ اعتراض اس بات پر مبتنی ہے کہ ذات ، صفات سے جدا ہے جیسا کہ ابن خلدون نے معتزلہ کی طرف سے ذات پر صفات کے زاید ہونے کے نظریہ کو تعدد قدما کے اعتراض کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہا ہے :

” وھو مردود بان الصفات لیست عین الذات و لا غیرھا“ مذکورہ اعتراض وارد نہیں ہے کیونکہ صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ۔

اسی لئے اشعری نے صفات کے منکرین و قائلین کے درمیان درمیانی راستہ کا انتخاب کیا ، تاکہ تعدد قدما کا اعتراض واردنہ ہوسکے ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بات مذکورہ اعتراض کیلئے صحیح جواب نہیں ہے ، کیونکہ اگر صفات ازلی کی کوئی حقیقت ہو اور وہ حقیقت ذات کی عین حقیقت نہ ہو تو یہ سوال پیش کیا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنے وجود میں ذات سے بے نیاز ہیں یا اس کے محتا ج ہیں؟ پہلی صورت میں تعدد قدما لازم آتے ہیں، اور دوسری صورت میں کس طرح ممکن ہے کہ جس ذات میں صفات نہ ہوں وہ ان کو ایجاد کرے؟

ذات نا یافتہ از ہستی ، بخش

کی تواند کہ شود ہستی بخش؟

ب : صفات خبری

قرآن کریم میں خداوندعالم کیلئے ید، وجہ، استواء برعرش وغیرہ جیسے صفات ذکر ہوئے ہیں ان صفات کو صفات خبریہ کہتے ہیں، اور ان سے مربوط آیات کو آیات متشابہ کہتے ہیں ۔ معتزلہ نے ان آیات کی تفسیر میں تاویل کا سہارا لیا ہے اور اہل حدیث میں سے مجسمہ اور مشبھہ نے ان کے ظواہر سے استفادہ کیا ہے ۔ اشعری نے جس طریقہ کو انتخاب کیا وہ ان دونوں کے درمیان کاطریقہ ہے کیونکہ انہوں نے معتزلہ کی تاویل کو قبول نہیں کیا اور کہا ہے : خداوند عالم میں یقینا مذکورہ صفات پائے جاتے ہیں لیکن ان کی کیفیت کے متعلق بحث کرنا جائز نہیں ہے ۔ پس اس کی کیفیت میں اظہار نظر کئے بغیر اس کے ہاتھ اور چہرہ موجود ہے ۔ اس نظریہ کو خداوند عالم کے صفات میں اشعری کی مشہور اصل کے عنوان سے یاد کی جاتاہے ۔یعنی اس کی کیفیت کے متعلق سوائے کئے بغیر ایمان رکھنا ۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اشعری نے اس معروف اصل کو ایجاد نہیں کیا ہے ، اہل حدیث اور حنابلہ بھی اس روش سے استفادہ کرتے تھے ۔ شہرستانی نے قرآن کریم کی متشابہ آیات کی تفسیر سے متعلق لکھا ہے :

احمد بن حنبل ، داوٴود بن علی اصفہانی اور سلف کے راہنماؤں نے متقدمین اہل حدیث جیسے مالک ابن انس اور مقاتل بن سلیمان کی روش کو انتخاب کیا ہے اور کہا ہے : جو کچھ قرآن اور سنت میں بیان ہوا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تاویل سے پرہیز کرتے ہیں، اور یقینی طور پر یہ بھی جانتے ہیں کہ خداوند عالم اپنی کسی بھی مخلوق سے مشابہ نہیں ہے ۔

ابن خلدون نے بھی قرآن کریم کی متشابہ آیات کی تفسیر اور صفات خبریہ میں معتزلہ اور مشبھہ کے طریقہ کے خلاف اشعری کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :

” فتوسط بین الطرق و نفی التشبیہ و اثبت الصفات المعنویة و قصرالتنزیہ علی ما قصرہ علیہ السلف “

اشعری نے درمیانی راستہ کو ثابت کیا ہے اور تنزیہ کے سلسلہ میں اسی چیز پر اکتفاء کیا جس پر متقدمین نے اکتفاء کیا تھا ۔

اس طریقہ کو طریقہ تفویض (تاویل کے مقابلہ میں) سے بھی یاد کیا جاتا ہے ، جیسا کہ شیخ محمد عبدہ نے متقدمین اور متاخرین کے طریقہ کو بیان کیا ہے جس میں کتاب و سنت کی وہ نصوص جو اصل تنزیہ سے منافات رکھتی ہیں، بیان کرتے ہوئے کہا ہے:

سلف ، اصل تنزیہ سے تفویض کی بنیاد پر دفاع کرتے تھے اور خلف اصل تنزیہ کو تاویل کی بنیاد پر محفوظ کرتے تھے ۔

ج : حدوث و قدم کلام الہی

اہل حدیث اور حنابلہ ، کلام الہی (قرآن کریم) کے قدیم ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور اس کے حادیث ہونے کے اعتقاد کو کفر کا باعث سمجھتے ہیں جیسا کہ احمد بن حنبل نے کہا ہے:

قرآن کریم کلام الہی ہے اور مخلوق نہیں ہے جو بھی قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا معتقد ہو وہ کافر ہے اور جو اس مسئلہ میں توقف کرے اور قرآن کو نہ حادث مانے اور نہ قدیم، اس کی فکر حادث ہونے کے قائلین سے بھی زیادہ خراب ہے ۔

ان کے مقابلہ میں معتزلہ قرآن کریم کے حادث ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کے اس شدید اصرار سے بہت تلخ حوادث رونما ہوئے جو ”محنہ“ کے دور سے مشہور ہے ۔

ابوالحسن اشعری نے اس کلامی اختلاف میں اہل حدیث کے عقیدہ کا دفاع کیا ہے لیکن کلام الہی کے لئے دو چیزوں کے قائل ہوگئے : ایک کلام نفسی اور دوسرے کلام لفظی، اور کہا کہ جو کچھ قدیم ہے وہ کلام نفسی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ وہ ابراز و اظہار کا وسیلہ ہے ۔

شہرستانی نے اشعری کے نظریہ کو کلام الہی کے سلسلہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

انبیاء کے اوپر فرشتوں کے ذریعہ سے جو الفاظ اور عبارتیں وحی ہوتی ہیں وہ کلام کے ازلی ہونے پر دلیلیں اور نشانیاں ہیں اور دلیل و نشانی ، مخلوق اور حادث ہے ، لیکن مدلول ، قدیم اور ازلی ہے، قرائت اور مقروء ، تلاوت اور متلو کے درمیان فرق ذکر اور مذکور کی طرح ہے کہ ذکر حادث لیکن مذکور قدیم ہے ۔ اشعری نے اپنی اس دقت و نظر کو اعمال کرکے حشویہ کی مخالفت کی ہے کیونکہ وہ حروف اور کلمات کو قدیم جانتے ہیں ،لیکن کلام کی حقیقت اشعری کی نظر میں قائم بالنفس کے معنی میں ہے ۔ جو کہ عبارت اور الفاظ کے علاوہ کچھ اور ہے اور عبارت و لفظ اس پر دلیل ہیں، اس بناء پر اشعری کی نظر میں متکلم وہ ہے جس میں صفت کلام، اس کی ذات سے قائم ہو اورمعتزلہ کی نظر میں متکلم وہ ہے جو کلام کو ایجاد کرے ۔

د : خلق افعال و کسب

معتزلہ اور اہل حدیث کے درمیان اختلافات میں سے ایک اختلاف مسئلہ ”قدر“ یا ”خلق اعمال“ ہے معتزلہ نے خداوند عالم کی حکمت و عدل سے دفاع کرنے کی غرض سے مسئلہ قدر کا انتخاب کیا اور انسان کے اختیاری افعال کو خداوندعالم کے ارادہ اور قدر الہی سے باہر سمجھا ہے اس کو اپنے افعال کا خالق تصور کرتے تھے ۔ ان کے مقابلہ میں اہل حدیث نے خداوند عالم کے عام ارادہ اور قدری الہی نیز خالقیت میں اصل توحید کو بچانے کے لئے انسان سے ہر طرح کی خالقیت کی نفی کی ہے اورانسان کے تمام اعمال و افعال کو خدا کی مخلوق سمجھتے ہیں اس عقیدہ کو ”خلق اعمال“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

شیخ اشعری نے مذہب معتزلہ سے دوری کااعلان کرنے کے بعد ”خلق اعمال“ کے عقیدہ کی حمایت ظاہر کی اور جس رسالہ میں اپنے عقاید کو اہل سنت کے نمایندہ کے طور پر لکھا ہے اس میں اس عقیدہ کی تصریح کرتے ہوئے کہا : ” ان اعمال العباد مخلوقہ للہ مقدورة“۔

بندوں کے افعال ، خداوند عالم کی مخلوق اور مقدور ہیں ۔

لیکن اصل اختیار کی توجیہ اور نظریہ جبرکے برے نتائج سے رہائی حاصل کرنے کیلئے نظریہ ”کسب“ کا انتخاب کیا یہ نظریہ ان سے پہلے حسین نجار اور ضرار بن عمرو کے ذریعہ بیان ہوچکا تھا ۔

حقیقت کسب کی تفسیر میں اشعری متکلمین اور اساتید نے مختلف نظریات بیان کئے ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ مشہور نظریہ یہ ہے کہ کسب یعنی انسان کے فعل کا اس کی قدرت اور ارادہ کے ساتھ مقارن ہونا ہے اس بات کی طرف توجہ کئے بغیر کہ اس کی قدرت اور اس کے ارادہ کا اس کو محقق کرنے میں کوئی اثر نہیں ہے ،جیسا کہ قوشجی نے کہا ہے:

” والمراد بکسبہ ایاہ مقارنتہ لقدرتہ و ارادتہ من غیر ان یکون ھنالک منہ تاثیر او مدخل فی وجودہ سوی کونہ محلا لہ “

کسب سے مراد انسان کے فعل اور اس کی قدرت و ارادہ میں مقارنت کا پایاجانا ہے ، اس چیز کی طرف توجہ کئے بغیر کہ انسان فعل کی پیدائش میں اس کا ظرف اور پیدائش کے علاوہ کوئی اور اثر رکھتا ہو ۔

نظریہ ”کسب“ پر صرف اشاعرہ نے ہی تنقید نہیں کی ہے کہ بلکہ معتزلہ کے بعض محققین نے بھی اس کو غلط بیان کیا ہے اور مبہم و معمہ جیسے نظریات میں ابوہاشم اور طفرہ ونظام کو بھی شمار کیا ہے ۔

احمد امین مصری نے اس کو نظریہ جبر میں ایک نئی تعبیر کے عنوان سے جانتے ہوئے کہا ہے: ” وھو ۔ کما تری۔ لایقدم فی الموضوع و لا یوخر، فھو شکل جدید فی التعبیر عن الجبر“ ۔ اس نظریہ نے (جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں) جبر کے موضوع میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے بلکہ اس کی نئی تعبیر ہے ۔

مآخذ :

کتاب فرق و مذاہب کلامی، ص ۱۸۷و ۱۹۵۔

Monday, 03 December 2012 08:48

اسماعیلیوں کے فرقے

مستعلی کے ماننے والے فاطمی تھےان کی امامت مصر کے فاطمین خلفاء میں باقی رہی اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان میں اسی فرقہ نے”بُہرہ“کے عنوان سے ظہور کیا اور ابھی تک باقی ہے

عبیداللہ مہدی نے ۲۹۶ ہجری میں افریقہ میں ظہور کیا اور اسماعیلیوں کو اپنی امامت کی دعوت دی ، فاطمی حکومت کی تاسیس کی ، اس کے بعد اس کی نسل نے مصر کو دارالخلافہ قرار دیا اور سات پشت تک انہوں نے اسماعیلیہ کی سلطنت اور امارت کو قائم رکھا ، ساتویں خلیفہ مستنصر باللہ جو کہ سعد بن علی تھا اس کے دو بیٹوں نزار اور مستعلی میں خلافت اور امامت پر جھگڑا ہوا اور بہت ہی زیادہ کشمکش اور جنگ و جدال کے بعد مستعلی غالب آگیا اور اپنے بھائی نزار کو گرفتار کرکے زندن میں ڈال دیا اور قید خانہ ہی میں اس کا انتقال ہوا ، اس کشمکش کی وجہ سے فاطمین کے چاہنے والے دو گروہوں میں تقسیم ہوکئے : نزاریہ ، مستعلیہ ۔

الف : نزاریہ : حسن صباح کے ماننے والوں کو نزاریہ کہتے ہیں، یہ مستنصر کے نزدیکی افراد تھے ، مستنصر کے بعد نزار کی حمایت کرنے کی وجہ سے مستعلی نے ان کو مصر سے نکلنے کا حکم دیا ، یہ لوگ ایران آگئے اور قزوین کے اطراف میں قلعہ الموت میں داخل ہوئے ، قلعہ الموت اور اطراف کے دوسروں قلعوں پر قبضہ کرکے حکومت کرنے لگے ، شروع میں انہوں نے نزارکی طرف دعوت دی اور (۵۱۸ ہجری) میں حسن ”رودباری کی بڑی امید“ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ”کیا محمد“ کی بیعت کی اور اس طرح حسن صباح کے قوانین اور طریقہ پر حکومت کرتے رہے ،اس کے بعد اس کا بیٹا ”حسن علی ذکرہ الاسلام“ چوتھا بادشاہ ہوا ۔

یہاں تک کہ ہلاکوخان مغل نے ایران پر حملہ کیا ،اس نے اسماعیلیوں کے قلعہ کو فتح کرکے تمام اسماعیلیوں کو قتل کردیا ، قلعہ کو مسمار کرکے زمین کے برابر کردیا ۔ اس کے بعد ۱۲۵۵ ہجری میں آقا خان محلاتی جو کہ نزاری تھا اس نے ایران کے بادشاہ محمد شاہ قاجار کے خلاف شورش کی اورکرمان کے نزدیک جنگ میں شکست کھاکر بمبئی کی طرف فرار کرگیا اور باطنی نزاری کی دعوت کو اپنی امامت میں منتشر کیا اور اس کی دعوت اب تک باقی ہے اوراس وقت فرقہ ”نزاریہ“ کو ”آقاخانیہ“ کہاجاتا ہے ۔

ب : مستعلیہ : مستعلی کے ماننے والے فاطمی تھے ،ان کی امامت مصر کے فاطمین خلفاء میں باقی رہی اور ۵۵۷ ہجری قمری میں یہ فرقہ ختم ہوگیا اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان میں اسی فرقہ نے ”بُہرہ“ کے عنوان سے ظہور کیا اور ابھی تک باقی ہے ۔

ج : دروزیہ : گروہ دروزیہ ، شامات کے پہاڑوں میں مقیم ہیں ، اوائل میں یہ لوگ ، فاطمین مصر کی پیروی کرتے تھے لیکن فاطمیوں کے چھٹے خلیفہ کے دور میں ”نشتگین دروزی“ کی دعوت کے بعد باطنیہ سے ملحق ہوگئے ۔ دروزیةکی امامت متوقف ہوئی اور وہ غیبت کرکے آسمان پر منتقل ہوگیا اور دوبارہ لوگوں کے درمیان واپس آئے گا ، اگر چہ بعض لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ قتل ہوگیا تھا!

د : مقنعہ : یہ لوگ شروع میں ”عطاء مروی“ معروف بہ ”مقنعہ کی پیروی کرتے تھے جو کہ مورخین کے بقول ابومسلم خراسانی کے پیروکار تھے اور ابومسلم کے بعد اس نے ادعا کیا کہ ابومسلم کی روح اس کے اندر حلول کرگئی ہے ،اس نے ایک عرصہ کے بعد نبوت کا دعوی کیا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کیا ! آخر کار ۱۶۲ ہجری میں جب قلعہ کیش کا محاصرہ کرلیا گیا اور اس کو اپنے قتل ہونے کا یقین ہوگیا تو اس نے آگ جلائی اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ اس آگ میں جل کر مرگیا ۔ ”عطاء مقنع“ کے پیروکاروں نے ایک مدت کے بعد اسماعیلیہ مذہب کو اختیار کرکے فرقہ باطنیہ سے ملحق ہوگئے(۱) ۔

 

۱۔ شیعہ در اسلام، ص ۷۱۔