Super User

Super User

بسم الله الرحمن الرحيم

 

اللہ تعالي نے انسانوں کو ايک مرد و عورت سے پيدا کيا اور ان مین مختلف قبائل اور اقوام قرار ديں تاکہ وہ ايک دوسرے کو پہچان سکيں۔ (حجرات، ۱۳) اور اسي شناخت کے راستے سے وہ ايک دوسرے کے قريب آسکيں اور خلاف بشريت وغير انساني معيارات جيسے نسل پرستي، خودپسندي وغيرہ سے پرہيز کريں نيز امن و آشتي کے ساتھ مل جل کر زندگي گزاريں اور صرف تقوي جو کہ ايک معنوي خصوصيت اور اکلوتا معيار برتري ہے، اختيار کريں۔

ايک دوسرے کو پہچاننا، دلی اور فکری سے نزديکي کا مقدمہ ہے، يہي راستہ انسان کو منزل اتحاد تک پہونچاتا ہے، يہي وہ مقصد ہے جو دين اسلام کے اکثر قوانين بالخصوص فريضۂ حج ميں دکھائي ديتا ہے۔

ہشام بن حکم جو امام صادق (ع) کے دانشور اور مومن صحابيوں ميں سے تھے، فرماتے ہيں کہ ميں نے امام عاليمقام (ع) سے فلسفۂ حج اور طواف کعبہ سے متعلق سوال کيا تو آپ نے فرمايا:

فقال: إنّ الله خلق الخلق إلى أن قال و أمرهم بما يکون من أمر الطاعة فى الدين و مصلحتهم من امر دنياهم فجعل فيه الاجتماع من الشرق و الغرب ليتعارفوا و لينزع کلّ قوم من التجارات من بلد إلى بلد و لينتفع بذلک المکارى و الجمّال و لتعرف آثار رسول الله و تعرف أخباره و يذکر و لاينسى

بيشک خدا ہي ساري مخلوقات کا خالق ہے او ر اسي نے انسانوں پر ان کے دنیوی اور آخروی کے مصالح کي بنياد پر احکام فرض کيے ہيں۔ ان هی مصالح ميں سے ايک مشرق و مغرب سے مسلمانوں کے عظيم اجتماع کا اہتمام بھي ہے (جو فريضۂ حج کے عنوان سے بيت اللہ میں حدود میں انجام پاتا ہے) يہ اجتماع ايک دوسرے کو پہچاننے کے لئے معاون ہے تاہم اس کے ذریعےايک دوسرے کے مسائل و مشکلات سے بھي واقفيت ہوتي ہے، اس کے علاوہ انہيں اس موقع پرپيغمبر اکرم (ص) کے ارشادات و فرامين سے بہتر انداز ميں آشنائي ميسر آتي ہے تاکہ وہ اسے ہميشہ اپني زندگي ميں زندہ رکھيں اور گوشۂ فراموشي کے سپرد نہ کريں۔

يہ عظيم تفکر، امت مسلمہ کے اتحاد کا پيش خيمہ ہے اور اسے نظرانداز کرنے کے نتائج انتہائي خطرناک اور تخريبي ثابت ہوسکتے ہيں، امام صادق (ع) نے اسي حديث کے اختتام ميں اس کي طرف اشارہ کيا ہے:

و لو کان کل قوم إنما يتکلون علي بلادهم و ما فيها هلکوا و خربت البلاد و سقط الجلب و الارباح و عميت الاخبار (وسائل الشيعہ، ج ۱۱، ص ۱۴)

اگر دنيا بھر کے اقوام و ملل نے اپنے شہر اور اس کي ظرفيتوں ہي پر اکتفا کي ہوتی ترقي نہ کرپاتے، مٹ گئے ہوتے، شہر کھنڈر ہي رہ جاتے، اشياء لازم کے نفع و نقصان سمجھ ميں نہ آتے، لوگ ايک دوسرے سے بے خبر رہ جاتے۔

اميرالمؤمنين حضرت علي (ع) حج کو پرچم دار اسلام جانتے تھے جس ميں دنيا کے تمام گوشہ و کنار کے مسلمان پناہ ليتے تھے (نہج البلاغہ ، ج ۱) يہ وہ جگہ ہے جہاں اسلام کے مشکلات کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے اور يہ حاجيوں کے لئے انتہائي مفيد اور منفعت بخش ہے اسي طرح دوسرے وہ لوگ کہ جو اس سرزمين سے مشرف نہيں ہوئے ہيں ان کے لئے مفيد ہے۔

امام رضا (ع) نے فرمايا:

و منفعة من في المشرق و من المغرب و في البر و البحر و ممن يحج و ممن لايحج (علل الشرائع، صدوق، ص ۴۰۴)

خانۂ خدا ميں جمع ہونے والے اور اس ميں پناہ لينے والے اس عظيم مقصد کے پيش نظر اپني ثقافتي شناخت کو کھوئے بغير بہت سے مسائل ميں متحد و يک رنگ نظر آتے ہيں اور يہي ان کي قوم و ملت کے لئے ان کي طرف سے عظیم تحفه ہے۔

بيت اللہ ميں جمع ہونے والوں کے مشترکات

دنيا بھر سے جمع ہونے والے حجاج کرام کے مابين غير معمولي اشتراک پايا جاتا ہے، ان ميں سے بعض حسب ذيل ہيں:

۱- وحدت خداوندي پر اعتقاد، سب اسي خدا کي عبادت کرتے ہيں اور اسي نيت کے ساتھ خانۂ کعبہ ميں جمع ہوتے ہيں (إِنَّ هَذِهِ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَاحِدَةً وَاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ) (سورۂ انبيا، ۹۲)

۲- رسول اللہ (ص) کي نبوت پر اعتقاد اور ان کي سنت پر يقين

۳- قيامت پر ايمان

۴- قرآن کريم پر ايمان

۵- فقہي مشترکات

۶- تمام بنيادي مسائل کے ديگر مشترکات

مقام اجتماع کي خصوصيات:

مذکورہ بالا مشترکات کے علاوہ کعبہ اور مکہ مکرمہ دوسري بہت سي خصوصيات کا حامل ہے جس سے اتحاد و يکجہتي کے اسباب فراہم ہوتے ہيں، ان ميں سے بعض مندرجہ ذيل ہيں:

۱- سلامتي

حضرت ابراہيم (ع) کي دعائے (رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَداً آمِناً) (سورۂ بقرہ، ۱۲۶) اور اجابت حضرت حق کے طفيل شہر مکہ عالم اسلام کے لئے بالعموم قيام امن ہے۔

جو بھي اس شہر ميں حج کے ارادے سے وارد ہوتا ہے ايک انتہائي محفوظ مقام پر ہوتا ہے۔

(فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِناً) (سورۂ آل عمران، ۹۷)

اس ميں واضح نشانياں ہيں جيسے مقام ابراہيم، پس جو بھي اس ميں داخل ہوا گويا مقام امن ميں ہے۔ يہ اس حد تک محفوظ ہے کہ رسول خدا نے فرمايا:

اگر کسي نے کسي کا قتل کرديا ہے يا کوئي دوسرا گناہ کيا ہے اور اسي کے بعد اس نے حرم ميں پناہ لے لي تو وہ محفوظ ہے، اس سے اتني دير قصاص نہ ليا جائے اسے گرفتار نہ کيا جائے اور اسے اذيتيں نہ جائيں۔ (الجعفريات، ص ۷۱)

قابل ذکر بات يہ ہے حرم کا با امن ہونا محض انسانوں سے مخصوص نہيں ہے بلکہ چرند، پرند و حيوانات بھي اس ميں محفوظ رہتے ہيں، عبداللہ ابن سنان کہتے ہيں کہ ميں نے حضرت امام صادق (ع) سے آيہ (وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِناً) کے بارے پوچھا، تو انہوں نے فرمايا:

من دخل الحرم من الناس مستجيراً به فهو آمن من سخط اللّه و من دخله من الوحش و الطير کان آمنا من ان يهاج أو يوذي حتي يخرج من الحرم (تہذيب، ج ۵، ۴۴۹)

اگر کسي نے لوگوں سے فرار کرکے حرم ميں پناہ لے لي وہ خشم الہي سے محفوظ ہے اور وہ ہر جانور يا پرندہ جو داخل حرم آجائے وہ تمام اذيتوں سے محفوظ ہے حب تک کہ وہ حرم سے خارج نہ ہوجائے۔

يہ امنيت و سلامتي پائداري و استقلال کي حامل ہے اور کسي بھي زمانہ ميں اس کو نقصان نہيں پہونچنا چاہئے، رسول خدا (ص) نے فتح مکہ کے دن لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا:

جب اللہ نے زمين و آسمان خلق کيا، مکہ کو حرم قرار ديا اور قيامت تک کے لئے يہ محترم ہے اور کسي کو بھي نہ مجھ سے پہلے اور نہ ہي ميرے بعد يہ حق حاصل نہيں ہے کہ اس کے احترام کو پامال کرے، يہاں تک کہ ميرے لئے ايک دن ميں ايک گھنٹے سے زيادہ روا نہيں رکھا گيا ہے۔ (کليني، ج ۴، ص ۲۲۶)

۲- اسلحہ لے جانے کي ممانعت

مکہ و حرم کواسلحوں سے مبرّا علاقہ قرار ديا گيا ہے تاکہ اس کي امنيت مکمل طور سے متحقق ہوسکے۔ امام علي (ع) نے فرمايا:

لاتخرجوا بالسيوف إلى الحرم ولا يصل أحدكم وبين يديه سيف، فان القبلة أمن (صدوق، ص ۳۵۳، خصال، ص ۶۱۶)

تلواروں کے ساتھ حرم کي طرف مت جاؤ اور حالت نماز ميں تلواريں اپنے سامنے نہ رکھو کيونکہ کعبہ، قبلہ امن ہے۔

۳- ماحوليات کا تحفظ

حدود بيت اللہ ميں پيڑ پودوں کا اکھاڑنا، حيوانات کا شکار کرنا منع ہے رسول اللہ (ص) نے فتح مکہ کے روز فرمايا:

إن هذا البلد حرمه الله يوم خلق السماوات والارض، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لاحد قبلي ، ولم يحل لي إلا ساعة من نهار ، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة ، لايعضد شوكه ، ولا ينفر صيد (النہايہ، ج ۲، ص ۷۵)

يہ وہ شہر ہے کہ جب اللہ نے زمين و آسمان کو خلق کيا تو اسے حرمت بخشي اور يہ حرمت تا روز قيامت باقي رہنے والي ہے، نہ اس کا کانٹا اٹھايا جاسکتا ہے اور نہ ہي جانور کو بھگايا جاسکتا ہے۔

۴- مالي تحفظ

اگر حدود بيت اللہ ميں کسي کا کوئي سامان ملے تو کوئي اسے اٹھانے کا حق نہيں رکھتا ہے ۔ پيغمبر(ص) نے فرمايا: (ولايلتقط لتقط الامن عرفها…) کوئي سامان اگر حدود حرم ميں ملے تو کسي کو حق نہيں کہ اسے اٹھائے البتہ اعلان کرنے کي غرض سے ايسا کيا جاسکتا ہے تاکہ اس کا مالک مل جائے۔

۵- اخلاقي تحفظ

حدود بيت اللہ کے ديگر مصاديق احترام ميں جھگڑا کرنے، قسم کھانے اور خلق خدا کي آبرو اچھالنے سے پرہيز جيسي چيزيں شامل ہيں۔ قرآن کریم ميں خداوند قدوس اس سلسلے ميں ارشاد فرماتا ہے:

فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ (سورۂ بقرہ، ۱۹۷)

احرام کي حالت ميں قربت جنسي، جھوٹ بولنا، بيجا بحث اور جھگڑا جائز نہيں ہے۔

۶- روحي تحفظ

سماعہ بن مہران کہتے ہيں:

ميں نے امام صادق (ع) سے پوچھا ايک آدمي ميرا مقروض ہے، پچھلے کچھ دنوں سے ميں اس کي تلاش ميں تھا مگر وہ نہيں ملتا تھا، آج ميں نے اسے مسجد الحرام ميں ديکھا، وہ طواف کررہا تھا کيا ميں اس سے اپنا مطالبہ کرلوں؟ امام نے فرمايا: نہيں، اسے سلام مت کرنا، اسے شرمندہ مت کرنا يہاں تک کہ وہ حرم سے باہر آجائے۔ (کليني، ج ۴، ص ۴۱)

مذکورہ خصوصيات حرم الہي کو مذاکرے، تبادل نظريات اور اہم فيصلوں کے لئے جہان اسلام کو آمادہ کرتي ہے، دلچسپ بات يہ ہے کہ اللہ نے اس کے انتظام و انصرام کي ذمہ داري متقيوں کے سپرد کر رکھي ہے تاکہ تمام خصوصيات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس سے ہدف اصلي يعني اتحاد کے لئے استفادہ کيا جاسکے۔

وَمَا كَانُواْ أَوْلِيَاءهُ إِنْ أَوْلِيَآؤُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ (سورۂ انفال، ۳۴)

وہ اس کے متولي نہيں ہيں، بيشک متقيوں کے علاوہ کوئي اس کا متولي نہيں ہوسکتا۔

مقاصد کے حصول کے راستے

ہميشہ اہم مقاصد کے حصول کے لئے مختلف محوروں کي يا ايک محور کي ضرورت ہوتي ہے اس طرح سے کہ لوگ اس کي مرکزيت کي رعايت کريں اور متحد نظر آئيں۔

قرآن کريم نے اس محور کو ’’حبل اللہ‘‘ سے تعبير کيا ہے (وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاء فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَاناً)(سورۂ آل عمران، ۱۰۳)

اللہ کي رسي کو مضبوطي سے تھام لو اور آپس ميں تفرقہ نہ کرو اور اللہ کي نعمتوں کو ياد کرو جب تم ايک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں ميں محبتوں کو قرار ديا اور تم اس نعمت کے نتيجے ميں ايک دوسرے کے بھائي ہوگئے۔

قرآن کريم کے علاوہ سنت رسول (ص) اور اہل بيت رسول (ص) بھي وحدت مسلمين کے اہم محور ہيں چنانچہ حج کے زمانے ميں بالخصوص ان امکانات کا صحيح فائدہ اٹھايا جانا چاہئے۔

شيعي تاريخي تمدن ايسے امور سے پر ہے جہاں کے رہبروں نے ان مسائل کي طرف خصوصي توجہ کي ہے تاکہ ان کے چاہنے والوں کے لئے عالم اسلام کے ساتھ اتحاد و بھائي چارہ آسان قرار ديا جاسکے، ان ميں سے بعض کا سردست ذکر کيا جارہا ہے:

۱- لوگوں کا قرآن کريم سے متمسک رہنے کي فکر کرنا

(وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ)(سورۂ آل عمران، ۱۰۳)

فاذا ثبت عليکم الفتن کقطع الليل المظلم فعليکم باالقرآن (کافي، ج ۲، ص ۵۹۸)

جب فتنہ تم پر رات کی اندھياريوں کي طرح ٹوٹ پڑے تو تم پر تمسک قرآن لازم ہے۔

۲- سنت رسول کي پيروي

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا (سورۂ حشر، ۷)

رسول (ص) جو کچھ تمہيں ديں اسے لے لو اور جس سے روکيں رک جاؤ۔

۳- آل رسول (ص) سے تمسک

رسول (ص) نے قرمايا:

إني مخلف فيكم الثقلین، ما إن تمسكتم بما لن تضلوا ولن تزلو، كتاب الله، وعترتي أهل بيتي

ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزيں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں يعني کتاب اللہ اور ميري عترت سے متمسک رہوگے گمراہ نہيں ہوسکتے۔

۱- کتاب خدا (قرآن کريم)

ما إن تمسکم به لن تضلوا من بعدي

۲- میری عترت، جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہوگے گمراہ نہيں ہوسکتے۔

 

۴- ايک دوسرے کے حقوق اور ديني و اسلامي اخوت و برادري کي رعايت

رسول اکرم (ص) نے مدينہ ہجرت کرنے کے بعد مہاجرين و انصار ميں اخوت برقرار کي اور ہميشہ فرماتے تھے:

المسلم اخوا المسلم لايظلمہ و لايسلمہ (صحيح بخاري، کتاب المظالم، باب لايظلم المسلم المسلم) مسلمان، مسلمان کا بھائي ہے نہ وہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہي ظلم کے سامنے سرتسليم خم کرتا ہے۔

امام صادق (ع) اس سلسلے ميں فرماتے ہيں:

المسلم اخ المسلم هو عينه و مرأقه و دليله لايخونه و لايخدعه و لايظلمه ولايکذبه و لايغتابه

مسلمان، مسلمان کا بھائي ہے، وہ ايک دوسرے کي آنکھ، آئينہ اور راہنما ہيں ، وہ ايک دوسرے کے ساتھ خيانت نہيں کرتے، دھوکہ نہيں ديتے، ظلم نہيں کرتے، جھوٹ نہيں بولتے اور غيبت نہيں کرتے۔

۵- تہذيب کي رعايت اور بدکاري سے پرہيز

کونوا لنا زيناولاتکونوا علینا شیناقولوا للناس حسنا و احفظوا السنتکم و کفوهاعن الفصول وقبيح القول (بحارالانوار، ج ۷۱، ص ۳۱۰)

ہمارے لئے زينت کا سبب بنو، شرمندگي کا باعث نہيں، لوگوں سے مودب انداز ميں بات کرو اپني زبان کي حفاظت کرو، زيادہ بولنے اور بدکلامي سے پرہيز کرو۔

اميرالمؤمنين حضرت علي (ع) نے تاکيد کي ہے کہ جان لو اکثر اختلافات اور جھگڑے صرف ايک بات سے شروع ہوئے ہيں چنانچہ مؤمنوں کے چاہئے کہ متانت کے ساتھ بات کريں، دشمنوں کي سازشوں سے محفوظ رہيں۔

امام علي (ع) نے فرمايا:

رب حرب حيث من لفظه (غررالحکم، ج ۵۳۱۳) بہت سي جنگيں ايک لفظ سے شروع ہوئيں ہيں۔

۶- حسد سے پرہيز

حسد ہميشہ اتحاد کي راہ ميں مانع ہوتا ہے اور امام صادق کے قول کے مطابق حسد انسان سے دلي سکون و اطمينان چھين ليتا ہے اور دشمني کا سبب بنتا ہے اور معاشرہ ميں نفاق کا باعث بنتا ہے۔ امام صادق (ص) نے فرمايا: اياکم والخصومة فانهاتشتغل القلب و تورث النفاق و تکسب الضغائن

۷- ايک دوسرے کے مقدسات کا احترام

يہ وہ موضوع ہے جس کي ہميشہ رعايت کرنا چاہئے۔ امام علي (ع) نے معاويہ کے سامنے اپنے چاہنے والوں سے فرمايا:

اکره لکم ان تکونوا سبابين قابل نفرين يہ بات ہے کہ تم ميں سے کوئي بدکلام ہو۔

اللہ تعالي نے قرآن کريم ميں مشرکين کو گالي دينے سے منع کيا ہے۔

وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ فَيَسُبُّواْ اللّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ (سورۂ انعام، ۱۰۸)

جو اللہ کو نہيں مانتے اور غير خدا کي پرستش کرتے ہيں انہيں بھي گالي نہ دو، ہوسکتا ہے وہ لاعلمي کي بنياد پر خدا کے تیئن بدکلامي کرے۔

۸- واقعيتوں کو قبول کرنا

اتحاد کے لئے مذاکروں حقيقت پسندانہ رويہ ہونا چاہئے اس لئے کہ دوسري صورت ميں اتحاد حاصل نہيں کيا جاسکتا۔

امام علي (ع) نے فرمايا:

من کان غرضہ الباطل لم يدرک الحق و لو کان اشہر من الشمس (غررالحکم، ص ۹۰۲۳)

جس کا مقصد ہي باطل ہو، چاہے حق کتنا ہي واضح يا روشن ہو وہ اسے درک نہيں کرسکتا۔

خلاصہ

حج، حرم اور مکہ مکرمہ کے خصوصيات مسلمانوں کے جمع غفير کو قرآن و سنت رسول (ص) اور آل رسول (ص) کي محوريت کے ساتھ متحد کرسکتا ہے، صحيح پروگرام اور اچھي تعليمات سے مسلمان حاجيوں کو جہالت و تعصب کے امراض سے نجات دلاتے ہوئے اسلامي معاشرہ کو اتحاد اور عزت و سربلندي سے سرفراز کيا جاسکتا ہے۔

اتحاد حج بيت اللہ کے منجملہ برکات ميں سے ايک ہے، بہترين پروگراموں کے ذريعے حاجيوں کو دنيا بھر سے بلاکر مزيد مہذب و با اخلاق بنايا جاسکتا ہے نيز فلسفۂ حج سے آشنا کراکے دنيا کو بہت بڑے بدلاؤ کي طرف موڑا جاسکتا ہے، ايک مستقل سياست اور اسلامي ممالک کے ذخائر سے اقتصادي بہرہ مندي کے ذريعے ’’الاسلام يعلو ولا يعلي عليہ‘‘اور ’’انتم الاعلون ان کنتم مؤمنين‘‘ کا مصداق تلاش کيا جاسکتا ہے۔ افسوس کي بات يہ ہے کہ ابھي تک اس سے کماحقه استفادہ نہيں کيا گيا ہے علاوہ ازين ہميشہ اسلامي خزانوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس بات کي پوري کوشش کي جاتي ہے که تفرقہ اور اختلاف کو بڑھاوا ديا جائے تاکہ مسلمانوں کو ايک دوسرے سے جدا کیا جاسکے، يہ ايسے ميں ہورہا ہے کہ جب دین اسلام ميں مسلمانوں کو کافر کہنے کي سخت نفي کي گئي ہے اور يہ سنت نبوي (ص) کے خلاف ہے۔

رسول خدا (ص) نے فرمايا:

من کفر مؤمنا صار کافراً اگر کوئي کسي مؤمن کو کافر کہے وہ خود کافر ہے۔

ايک دوسري حديث ميں رسول نے ارشاد فرمايا:

ايما امر قال لاخيه کافرالا احدهما کوئي اپنے کسي بھائي کو کافر خطاب نہ کرے مگر يہ کہ ان دونوں ميں سے ايک کافر ہے۔

اکثر مذاہب کے علما اس فکر کے مخالف ہيں ليکن اس زمانے ميں يہ فکر ايک بڑے خطرے ميں تبديل ہوگئي ہے اور آج ان کے ہاتھوں دنيا بھر ميں ہزاروں بے گناہ مرد، عورت اور بچے مارے جارہے ہيں۔ ان لوگوں کے اس کام نے دنيا بھر ميں اسلام کے چہرے کو مخدوش کرديا ہے۔ سامراجي طاقتيں اس کا فائدہ اٹھارہي ہيں، وه کوشش کررہے ہيں کہ اسلام کو ايک نيم پختہ دين کے طور پر معرفي کريں اور اس دين سے جڑنے والوں کو بدگمان کر يں۔

اميد ہے کہ دنيائے اسلام کے دانشور، ان تخريبي عناصر کے مقابل کھڑے ہوکر اور اتحاد کے ساتھ اسلام کا دفاع کريں گے اور اس اسلامي لہر کے پيش نظر جو دنيا کے مختلف گوشہ و کنار ميں دکھائي دے رهی هے، اسلام اپني عظمت رفتہ کي بازيابي کرسکے گا اور دنيا ميں اسلام کا بول بالا ہوگا اور اللہ کي مدد سے امت مسلمہ کا وقار بحال ہوگا۔

سيد علي قاضي عسکر

مترجم: مہدي باقر

ادھم بے البانیا کے دارالحکومت تیرانا کے مرکز میں واقع ایک مسجد ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا آغاز 1789ء میں ملا بے نے کیا اور اس کی تکمیل سلیمان پاشا کے پوتے حاجی ادھم بے کے ہاتھوں 1823ء میں ہوئی۔

البانیہ میں اشتراکی دور میں یہ مسجد بند کر دی گئی اور طویل بندش کے بعد 18 جنوری 1991ء کو اسے کھول دیا گیا۔ مسجد کے دوبارہ کھولے جانے پر اشتراکی حکام کی شدید مخالفت کے باوجود دس ہزار افراد پرچم ہاتھوں میں لیے مسجد پہنچے اور یہ واقعہ البانیہ میں اشتراکیت کے زوال کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔

اس مسجد میں کی خاص بات اس میں کیا گیا مصوری کا کام ہے جس میں نباتات، آبشاروں اور پلوں وغیرہ کی تصاویر بنائی گئی ہیں جو اسلامی فن تعمیر میں کہیں نہیں دیکھا گیا۔ مسجد سیاحت کے لیے تو ہر وقت کھلی رہتی ہے تاہم اس کے اندر نماز ادا نہیں کی جاتی۔

مسجد کا اندرونی منظر

ماہرین کونسل کے سربراہ آیت اللہ محمد رضا مھدوی کنی نے تہران میں ناوابستہ تحریک کے سولہویں سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد کو ایران کو الگ تھلگ کرنے پر مبنی یورپ اور امریکہ کی سازشوں کی ناکامی کی علامت قرار دیا ہے۔

ارنا کی رپورٹ کے مطابق محمد رضا مہدوی کنی نے آج ماہرین کونسل کے بارہویں اجلاس کی افتتاحی تقریب میں تہران میں ناوابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس میں اس تحریک کے رکن ممالک کے سربراہوں اور اعلی عہدیداروں کی بھر پور شرکت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران تنہا نہیں ہے۔

آیت اللہ مہدوی کنی نے مزید کہا کہ دشمنوں کو تہران میں بلائے جانے والے غیر وابستہ تحریک کے سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد کوتسلیم کرلینا چاہۓ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے اور تہران اجلاس دنیا میں ایران کا وقار بلند ہونے کا باعث بنا ہے۔

آیت اللہ مہدوی کنی نے یورپ کی ایران مخالف یکطرفہ پابندیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور انقلاب کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا رہا ہے لیکن اسلامی جمہوری نظام نے جہاد اور کوشش کے ساتھ ان پر ہمیشہ غلبہ پایا ہے۔

حزب اللہ کے سربراہ سيد حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ تحريک مزاحمت حزب اللہ کي توانائي اس سے کہيں زيادہ بڑھ چکي ہے جس کا مشاہدہ دنيا نے دو ہزار چھے کي تينتيس روزہ جنگ ميں کيا تھا - انہوں نے اسي کے ساتھ کہا ہے کہ موجودہ حالات ميں خطے کے ممالک،حکومتيں اور اقوام فيصلہ کن کردار ادا کرسکتي ہيں -

حزب اللہ کے سکريٹري جنرل سيد حسن نصراللہ نے الميادين ٹيلي ويژن سے ايک خصوصي انٹرويو ميں کہا کہ جو کچھ علاقے ميں رونما ہورہا ہے وہ علاقے کي حقيقت مستقبل اور تقدير، آئندہ کئي عشروں کے لئے تبديل کرکے رکھ دے گا - حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ علاقے ميں نئے نئے مراکز اور اتحاد جنم لے رہے ہيں اور علاقے کي قوموں اور حکومتوں کو علاقے ميں رونما ہونے والي تبديليوں کا پوري طرح سامنا ہے - سيد حسن نصراللہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عرب دنيا اس مرحلے پر عالمي سطح پر اہم کردار ادا کرسکتي ہے کہا کہ اس کا دار و مدار اقوام کے ارادوں پر ہے -

انہوں نے کہا کہ صيہوني حکومت کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب مصر کا انقلاب رونما ہوا جس کے نتيجے ميں سابق ڈکٹيٹر حسني مبارک کا تختہ الٹ گيا- انہوں نے کہا کہ اس مرحلے پر صہيوني حکومت کو جو شاک پہنچا اور جس طرح سے وہ علاقائي سطح پر تنہائي کا شکار ہوئي ہے اس کي مثال اس سے پہلے کبھي نہيں ملتي -

حزب اللہ کے سربراہ نے اس بات کي اميد ظاہر کرتے ہوئے کہ علاقے کي اقوام موجودہ صورتحال کا سربلندي اور کاميابي کے ساتھ سامنے کريں گي کہا کہ مسئلہ فلسطين کي حمايت ميں اسٹريٹجي تيار کرنے کے لئے سب کو شريک ہونا چاہئے کيونکہ اس بات کے لئے بہت زيادہ کوششيں ہورہي ہيں کہ فلسطين کے مسئلے کو بھلا ديا جائے -

سيد حسن نصراللہ نے کہا کہ صيہوني حکومت کي فضائيہ اسلامي مزاحمت کو ختم کرنے کي توانائي نہيں رکھتي کيونکہ اسلامي مزاحمت کے پاس موثر اور صحيح معنوں ميں دفاعي قوت پائي جاتي ہے - سيد حسن نصراللہ نے کہا کہ حزب اللہ اس وقت سن دوہزار چھے کي تينتيس روزہ جنگ کے زمانے سے کہيں زيادہ طاقتور اور بہتر پوزيشن ميں ہے- انہوں نے کہا کہ لبنان کي اسلامي مزاحمتي تحريک پورے اطمينان کے ساتھ اپني سرگرمياں جاري رکھے ہوئے ہے اور اپنے مستقبل کے بارے ميں وہ پوري طرح سے پراميد ہے -

حزب اللہ کے سربراہ نے ايران کے خلاف صيہوني حکومت کے دھمکي آميز بيانات کے بارے ميں کہا کہ اسرائيل جو بھي کام کرے گا اس کي ذمہ داري امريکا پر عائد ہوگي- انہوں نے کہا کہ صيہوني حکومت کي طرف سے کسي بھي طرح کے حملے کي صورت ميں ايران کا جواب صرف اسرائيل تک محدود نہيں رہے گا بلکہ علاقے ميں امريکا کے سبھي اڈوں کونشانہ بنايا جائے گا -

سيد حسن نصراللہ نے کہا کہ ايران پر حملہ کرنے کے تعلق سے خود اسرائيليوں کے درميان ہي اختلاف پايا جاتا ہے اور بات ايران کي پرامن ايٹمي سرگرميوں کي نہيں ہے بلکہ ايٹمي معاملہ محض ايک بہانہ ہے- انہوں نے کہا کہ صہيوني حکومت کے وزير اعظم نتنياہو اور وزير جنگ ايہود باراک علاقے کو ايک اور جنگ کي آگ ميں دھکيلنا چاہتے ہيں -

حزب اللہ کے سربراہ نے شام کے بارے ميں بھي کہا کہ شام کے بحران کے عروج کے زمانے ميں بعض بااثر عرب ملکوں اور امريکي عہديداروں نے شام کے صدر کو پيغام بھجوايا اور ان سے کہا کہ اگر وہ اپنا رابطہ ايران اوراسلامي مزاحمتي تحريکوں سے ختم کرليں تو يہ بحران ختم کرديا جائے گا -

حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ مشرق وسطي کے علاقے ميں امريکا کي پاليسي اسرائيل کو تحفظ دينے کي پاليسي ہے اور علاقے ميں اسلامي جمہوريہ ايران کي پاليسي فلسطين کي حمايت پر استوار ہے اسي لئے ايران چاہتا ہے کہ شام ميں جنگ بند ہوجائے اور اس کے لئے وہ اپني کوشش بھي کررہا ہے -

سید علی ہجویری کا مزار المعروف داتا دربار میں ان کی مزار

داتا دربار لاہور، پاکستان کا بہت مشہور دربار یا مزار ہے جو تقریباً ایک ہزار سال سے موجود ہے۔ یہ سید علی بن عثمان الجلابی الھجویری الغزنوی ( سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش) کا مزار ہے۔ اس مزار کو لاہور کی ایک پہچان سمجھا جاتا ہے۔

جامعہ ہجویریہ جو ایک مسجد و مدرسہ ہے، اسی مزار کے ساتھ منسلک ہے۔

جتنی بڑی تعداد میں نمازی اس مسجد میں باقاعدہ نماز ادا کرتے ہیں۔ پوری دنیا کی (حرمین شریفین کے بعد) مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد کے حوالے سے اول فہرست میں رکھا جا سکتا ہے۔

داتا دربار مسجد ابو الحسن علی ابن عثمان امام جلابی رحمہ اللہ تعالی هجویری رحمہ اللہ تعالی غزنوی یا ابوالقاسم حسن علی هجویری (عربی : علی بن عثمان الجلابی الهجویری الغزنوی) (کبھی کبھی هجویری ہجے) ، داتا گنج بخش (فارسی / اردو : داتا گنج بخش) یا داتا صاحب کے نام سے بھی مشہور ہیں ، گیارویں صدی کے دوران ایک فارسی صوفی اور عالم تھے .

انھوں نے کافی حد تک اسلام کے جنوبی ایشیا میں پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا.

آپ غزنی ( آج افغانستان میں) میں پیدا ہوئے تھے غزنوی عہد کے ابتدائی ایام میں (990 عیسوی کے ارد گرد)..

آپ کی سب سے مشہور کتاب کشف محجوب ہے . آپ نے حصول علم کی لئے بہت سے ممالک کا سفر کیا.

آپ اپنی عمر کی آخری حصے میں لاہور تشریف لائے اور اسلام کی اشاعت کا کام شروع کیا. آپ کے ہاتھوں بیشمار لوگ مسلمان ھوئے .

آپ نے 1077 عیسوی میں لاہور (پنجاب ، پاکستان) میں ہی وفات پائی.

آپ کا مزار لاہور میں آج بھی زائرین کے لئے انوار و تجلیات کا مرکز ہے اور بہت سے لوگ آپ کے وسیلہ سے الله کا قرب اور الله سے اپنی مشکلات کا حل پاتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق تہران میں غیروابستہ تحریک کے رکن ممالک کے سولہویں سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے آنے والے شمالی کوریا کی پیپلز اسمبلی کے اعلی عوامی اسمبلی کی پریزیڈیم کے چئیرمین کیم یونگ نام (Chairman of the Presidium of the Supreme People's Assembly "Kim Yong-Nam") نے آج ہفتے کے روز رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی امام سید علی خامنہ ای سے ملاقات اور بات چیت کی ہے۔

رہبر انقلاب نے اس ملاقات میں فرمایا: بلند اہداف کی طرف چلتے ہوئے سنجیدگی سے کام لینا چاہئے اور دباؤ، دھونس دھمکی، پابندیوں کی وجہ سے ملتوں کے عزم میں خلل نہیں پڑنا چاہئے۔

امام خامنہ ای نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اعلی اہداف تک پہنچنے کے لئے پرعزم ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران اور عوامی ڈموکریٹک جمہوریہ کوریا کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے امکانات بہت زیادہ ہیں

آپ نے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران اور شمالی کوریا کے مشترکہ دشمن ہیں کیونکہ استکباری طاقتیں مستقل حکومتوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہيں ہیں۔

امام خامنہ ای نے اپنی صدارت کے دوران اپنے دورہ کوریا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شمالی کوریا کے آنجہانی قائد کیم ایل سونگ کو خراج تحسین پیش کیا۔

شمالی کوریا کی پیپلز اسمبلی کے اعلی عوامی اسمبلی کی پریزیڈیم کے چئیرمین کیم یونگ نام نے، انقلاب اسلامی کے رہبر معظم کو شمالی کوریا کے راہنما کیم جونگ اون کا سلام پہنچایا اور 1980 کے عشرے میں امام خامنہ ای کے دورہ شمالی کوریا کو دوطرفہ تعلقات میں سنگ میل قرار دیا۔

انھوں نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تعلقات کا فروغ شمالی کوریا کی تزویری (Strategic) پالیسی کا حصہ ہے۔

انھوں نے بین الاقوامی سطح پر اسلامی جمہوریہ کی ترقی اور مؤثر کردار کو خراج تحسین پیش کیا۔

پاکستان کی تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے ملک میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے –

پریس ٹی وی کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسکردو میں شیعہ رہنما علامہ محمد حسن جعفری کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے ملک میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا –

عمران خان نے کوئٹہ مین ہزارہ برادری کے افراد کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان واقعات کو بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی اور اہل تشیع کی ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے نسل کشی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی قوم کے خلاف ایک خطرے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ جو عناصر بیرونی قوتوں کے کہنے پر ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں وہ جان بوجھ کر ملک میں بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات کروانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ایسا معاملہ ہے جس پرحکومت کو انتہائی توجہ دینی چاہیئے اور تمام حکومتی اداروں کی بھرپور کوششیں اس لعنت کے خلاف لڑنے اور خصوصی طور پر شیعہ افراد کے قتل میں ملوث مجرمان کو تلاش کرنے کیلۓ ہونی چاہیۓ-

رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ واجد نے اپنے ساتھ آئے ہوئے وفد کے ہمراہ ـ تہران میں غیر وابستہ تحریک کے سولہویں اجلاس کے موقع پر ـ آیت اللہ العظمی امام سید علی خامنہ ای سے ملاقات اور بات چیت کی۔

رہبر معظم نے ایران اور بنگلہ دیش کے درمیان دیرینہ ثقافتی رشتوں اور ماضی بعید میں اس ملک میں فارسی زبان کے رواج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران اور بنگلہ دیش کے گہرے ثقافتی رشتے سیاسی، بین الاقوامی، معاشی اور سماجی شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کے لئے مضبوط بنیادیں فراہم کرسکتے ہیں۔

امام خامنہ ای نے اسلامی تعاون تنظیم اور ڈی ـ 8 میں بنگلہ دیش کے مؤثر کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی ممالک کا باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھانا، قطعی طور پر مسلم اقوام کے مفاد میں ہے اور ان کی لئے روز افزوں طاقت کا باعث ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مستقل اور اسلامی ممالک کی آپس کی قربت اور تعاون کو غنڈہ گردی پر یقین رکھنے والی طاقتوں کی پالیسیوں کا مقابلے کا واحد راستہ قرار دیا اور فرمایا: اگر یہ اتحاد وتعاون سنجیدگی کے ساتھ قائم ہوتا تو یقینی طور پر آج ہمیں شام اور بحرین میں افسوسناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

بنگلہ دیشی وزیراعظم محترمہ شیخ حسینہ واجد نے بھی رہبر معظم کے موقف کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا: اسلامی اور مستقل ممالک اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے ملکوں کے لئے بڑی طاقتوں کے فیصلوں کا سد باب کریں۔

انھوں نے کہا: بنگلہ دیش اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مختلف شعبوں ـ بالخصوص معاشی اور تجارتی شعبوں میں ـ تعاون کا خواہشمند ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے بین الاقوامی امور میں مشیر شیخ الاسلام نے کہا ہے کہ ایئر ڈیفنس فوجی مشقوں کا مقصد مسلح افواج کی دفاعی تیاریوں کو بڑھانا اور دشمنوں کو خبردار کرنا ہے۔

شیخ الاسلام نے العالم ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایئر ڈیفنس کی فوجی مشقیں باقاعدگي سے ہو رہی ہیں اور ان مشقوں کا پیغام اپنی مخاصمانہ پالیسیوں پر نظرثانی کے لیے ایران کے دشمنوں کو خبردار کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان مشقوں کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ ایران کی دفاعی طاقت میں ہمیشہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

Monday, 03 September 2012 04:17

میاں بیوی کے باہمی حقوق

زوجہ کے حقوق

درحقیقت خاندان ایک چھوٹا معاشرہ ہے جو دو افراد یعنی میاں بیوی کے ذریعے قائم ہے اورمعاشرہ لوگوں کی کثرت کانام نہیں ہے بلکہ ان باہمی تعلقات کانام ہے جن کا ہدف ایک ہو۔

 

قرآن کریم نے ان کے درمیان محبت و الفت کا ہدف اطمینان اورسکون کوقراردیاہے فرماتاہے :

ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة ان فی ذلک لآیات لقوم یتفکرون۔

 

”اوراس کی آیات میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہارے نفوس سے تمہاری بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان کے ساتھ سکون حاصل کرسکو اورتمہارے درمیان محبت ورحمت پیداکردی بیشک اس میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لئے جوسوچتے ہیں“۔

 

اوریہ معاشرہ ایک ایسے عقد کے ذریعے وجود میں آتاہے کہ جس میں نہایت واضح الفاظ کے ساتھ طرفین کی طرف سے اس بات کا اظہار ہوتاہے کہ وہ اس عقد کے مفہوم اور اس کے حقوق و فرائض کو قبول کرتے ہیں ۔

 

اللہ تعالی فرماتاہے :

فانکحوھن باذن اھلھن وآتوھن اجورھن بالمعروف محصنات غیر مسافحات

 

”پس مالکوں کی اجازت سے لونڈیوں سے نکاح کرو اور ان کا مہرحسن سلوک سے انہیں دے دوان سے جو عفت کے ساتھ تمہاری پابند رہیں کھلے عام زنانہ کریں“۔

 

اس اور دیگر آیات کی روشنی میں فقہا کے نزدیک باکرہ لڑکی کے لئے سرپرست کی اجازت شرط ہے تا کہ عورت کا شوہر کو اختیارکرنے کا حق محفوظ رہے اور یہ اجازت اسکی ہتک حرمت کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ایک احتیاطی تدبیرہے تاکہ لڑکی کسی شخص سے نفسیاتی طور پر متاثر ہوکر یا جذباتی لگاؤکی وجہ سے شادی کرنے میں جلدی نہ کرے۔ اجازت کے بعد عورت کادوسراحق مہرہے تاکہ اسے یہ احساس رہے کہ وہ مطلوبہ ہے نہ طالبہ یہ احساس اسے اس حیاسے بھی حاصل رہتاہے جواس کی جبلت میں ودیعت کی گئی ہے اوربیوی کومہردینے کامطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شوہرکی غلام بن گئی ہے بلکہ اللہ تعالی فرماتاہے :

 

وآتوالنساء صدقاتھن نحلة۔

”اورعورتوں کوان کے مہرخوشی خوشی دیدو“۔

 

بیوی ایسی شریک حیات ہے جس نے مرد کے ساتھ حقوق وفرائض پرمبنی مشترک زندگی کاعہد کررکھاہے ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف…) اورعورتوں کے لئے شریعت کے مطابق اس کی مثل حق ہے جوان پرہے ۔

 

عورت کے حقوق کے سلسلے میں قرآن کے اس واضح موقف کے باوجود بعض دشمنان قرآن اس بارے میں قرآن پربعض ناروااتہامات لگاتے ہیں۔

 

مثال کے طورپرکہتے ہیں قرآن نے عورت پرپردہ واجب کرکے اس کی آزادی کو محدود کردیاہے، گھرکی سرداری مرد کے ہاتھ میں دے دی ہے اوروراثت میں مرد کوعورت سے دوگناحصہ دیاہے یہ لوگ جوحقوق زن کے سلسلے میں مگرمچھ کے آنسوبہاتے ہیں درحقیقت قرآن کے آسمانی کتاب اورشریعت اسلامیہ کامنبع ہونے پرطعن کرتے ہیں اوراشاروں میں کہتے ہیں یہ کتاب مقدس فرسودہ ہوچکی ہے اورترقی یافتہ دورکے تقاضے پورے نہیں کرتی ۔ لیکن تھوڑا ساغوروفکر کریں تویہ اعتراضات تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور نظرآنے لگیں گے۔

 

لیکن اس کے لئے قرآن، اس کے طرزکلام اورعترت طاہرہ کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے کہ جوقرآن کے حقیقی ترجمان ہیں۔

 

آپ دیکھیں گے کہ قرآن نے اس وقت عورت کوانسانی حق دیاجب اسے بہت ہی پست اورگھٹیا سمجھاجاتاتھا اوراس میں کسی وشک شبہ کی گنجائش نہیں ہے جب کہ ادیان سماویہ کے علاوہ دیگرادیان عورت کوایک پست مادہ سے پیداہونے والی مخلوق سمجھتے تھے اورمرد کواعلی عنصرسے پیداہونے والا، بعض لوگ تویہاں تک کہنے لگے عورت پلیدگی سے پیداہوئی ہے اوراس کاخالق، خالق شرہے اوردورجاہلیت میں عرب عورت کوجانورسمجھتے تھے اوراسے انسانی صورت میں اس لئے پیداکیاگیاتاکہ مرد کی خدمت کرسکے اوراس کی جنسی خواہشات کوپوراکرسکے۔

 

خلقت میں مساوی ہونااورذمہ داریاں

قرآن حکیم نے ان کھوکھلے عقائد کورد کیاہے اورزوردے کرکہاہے کہ اصل خلقت میں مرد وعورت برابرہیں نہ تومردہی اعلی عنصرسے پیداہواہے اورنہ عورت گھٹیا عنصرسے بلکہ ایک ہی عنصریعنی مٹی سے اورایک نفس سے پیداہوئے ہیں چنانچہ فرماتاہے :

یاایھاالناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث منھما رجالاکثیرا ونساء ۔

 

”اے لوگوں اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک نفس سے پیداکیااوراسی سے جوڑا خلق کیااوران دوسے بہت سارے مرد اورعورتیں پھیلادئیے“۔

 

یوں قرآن کریم نے اصل پیدائش میں عورت کومرد کے برابرقراردے کراس کی شان بڑھادی اوراسے انسانی عزت فراہم کی۔

 

نیزقرآن ذمہ داری کے لحاظ سے بھی مرد اورعورت کومساوی سمجھتاہے۔ فرماتا ہے :

من عمل صالحا من ذکراوانثی وہومومن فلنحییہ حیاة طیبة…)۔

 

”جوبھی نیک عمل کرے مردہویاعورت درحالیکہ وہ مومن ہوپس ہم ضروراسے پاکیزگی عطاکریں گے ۔

 

لیکن مرد اورعورت کے پیدائش،شرافت اورذمہ داری میں برابرہونے کے باوجودان کے درمیان طبیعی اختلاف موجودہے جوان کے حقوق وفرائض کے اختلاف کاسبب بنتاہے لذا عدل کاتقاضایہ ہے کہ مرد اوراس کے فرائض کے درمیان مساوات ہونہ مرد اورعورت کے حقوق وفرائض کے درمیان، وراثت میں مرد کوترجیح دیناعدالت کے خلاف نہیں بلکہ عین عدالت ہے مرد کے اوپرشادی کے آغازہی میں مہرہے اورپھرآخرتک اس کے اوپرنان ونفقہ واجب ہے اسی قرآن نے عورت پرحجاب کوواجب کرکے اس کی آزادی کومحدود نہیں کیابلکہ خود اسے اورمعاشرے میں اس کے احترام کومحفوظ کیاہے قرآن چاہتاہے کہ جب عورت معاشرے میں نکلے تومردوں کے جذبات کوبرانگیختہ نہ کرے لذا اپنی حفاظت کرے اوردوسروں کونقصان نہ پہنچائے۔

 

اورقرآن نے عورت کوفکر وعمل کاحق بھی دیاہے اورسے ممکن حقوق دئیے ہیں لہذا عورت کوحق ہے کہ مالک نے،ھبہ کرے، رہن رکھے، بیچے خریدے وغیرہ وغیرہ اسی طرح اسے حق تعلیم بھی حاصل ہے پس عورت اعلی علمی مراتبے تک پہنچ سکتی ہے اورقرآن نے عورت پرظلم وزیادتی کوبھی ناحق قراردیاہے۔

 

قرآن ہمارے لئے فرعون کی بیوی آسیہ کی مثال پیش کرتاہے جس نے تنگ فضا کے باوجود اپنے عقیدہ توحید کی حفاظت کی اورقابل تقلید نمونہ ٹھہریں۔

 

فرماتاہے :

وضرب اللہ مثلا للذین آمنوا، امراة فرعون اذ قالت رب ابن لی عندک بیتا فی الجنة ونجنی من فرعون وعملہ ونجنی من القوم الظالمین

 

” اوراللہ نے مومنین کے لئے مثال بیان کی ہے فرعون کی بیوی کی جب اس نے کہا میرے پروردگار میرے لئے اپنے وہاں جنت میں ایک گھربنااورمجھے فرعون اوراس کے عمل سے نجات دے اورمجھے ظالم قوم سے بخش“۔

 

یہ ایسا قطعی موقف ہے جس میں کوئی لچک نہیں ہے اوریہ مومن آل فرعون کے نرم اورمتواضع موقف سے مختلف ہے۔

 

یوں قرآن نے ہمیں یہ بھی بتایاہے اگرعورت ایمان اورفکرسلیم رکھتی ہوتوکس قدرمضبوط اورپختہ ارادے کی مالک ہوسکتی ہے اوراس کے برعکس نوح کی بیوی کی مثال ذکرکی ہے جوراہ ہدایت سے بھٹک کرجذبات وخواہشات کاشکارہوگئی۔ اورسنت نبویہ نے بھی عورت کے ماں یابیوی کی حیثیت والے حقوق کوخاص اہمیت دی ہے پیغمبر فرماتے ہیں :

 

مازال جبرئیل یوصینی بالمراة حتی ظننت انہ لاینبغی طلاقھاالامن فاحشة مبینة۔

 

”جبرئیل مجھے مسلسل عورت کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگاکہ اسے طلاق دیناجائزنہیں ہے مگرکھلی بے حیائی کے بعد“۔

 

اورپھرشوہرپرعورت کے تین بنیادی حقوق بیان کئے گئے ہیں اسے وافرخوراک مہیاکرنا، اس کے شایان شان لباس دینااوراس کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔

 

حدیث میں ہے :

حق المراة علی زوجھا: ان یسد جوعھا وان یسترعورتھاولایقبح لھاوجھا۔

 

”عورت کاشوہرپرحق ہے کہ اس کی بھوک کاسدباب کرے اس کے جسم کوڈھانپے اوراس کے ساتھ ترش روئی سے پیش نہ آئے“۔

 

دیکھئے اس حدیث نے بیوی کے حقوق کولباس اورخوراک جیسی مادی ضروریات تک محدود نہیں کیابلکہ اس کے ساتھ سات اسے حسن سلوک کاحق بھی دیا ہے اورعورت شریک حیات ہے لذااس کے ساتھ وسیلہ خدمت جیسا سلوک کرنایاتحکمانہ رویہ اپنانا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔

 

اورپیغمبر نے عورت کے ساتھ انسانی سلوک کرنے کاحکم دیاہے اوریہ کہ اگرشوہراس کی رائے کوقبول نہ کرناچاہتاہوتب بھی اس سے مشورہ کرے اورعقل وشرع دونوں اس پرزوردیتے ہیں۔

 

عورت کاایک اورمعنوی حق جواس کے مادی حقوق کی تکمیل کرتاہے یہ ہے کہ اس کااحترام کرے اس کی قدردانی کرے، اس سے بات کرتے وقت مہذب جملوں کاانتخاب کرے،گھرکے اندراطمینان کی فضاقائم کرے اورمحبت کی شمع روشن کرے پیغمبر فرماتے ہیں :

 

قول الرجل للمراة: انی احبک، لایذھب من قلبھاابدا۔

”مرد کاعورت سے یہ کہناکہ میں تم سے محبت کرتاہوں عورت کے دل سے کبھی نہیں جاتا“۔

 

امام زین العابدین اوپرذکرکئے گئے حقوق کی تاکیدکرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 

واما حق زوجتک، فان تعلم انااللہ عزوجل جعلھالک سکنا وانسا، فتعلم ان ذلک نعمة من اللہ عزوجل علیک،فتکرمھا،وترفق بھا، ان کان حقک علیھا اوجب، فان لھا علیک ان ترحمھا، لانھا اسیرتک ،وتطعمھاوتکسوھا،واذا جھلت عفوت عنھا ۔

 

”بہرحال بیوی کاحق تومعلوم ہی ہوناچاہئے کہ اللہ تعالی نے اسے تمہارے لئے باعث انس وسکون بنایاہے اوروہ تم پراللہ کی ایک نعمت ہے اس کااحترام کرو اوراس کمے ساتھ نرمی سے پیش آؤاگرچہ تمہارا حق اس پرزیادہ ضروری ہے لیکن عورت کابھی حق ہے کہ تم اس پررحم کرو کیونکہ وہ تمہاری مطیع وپابند ہے،اس لباس وطعام فراہم کرو اوراگرکسی جہالت کاارتکاب کرے تواسے معاف کرو“۔

 

اورعورت کااحترام کرنا،اس کی معمولی لغزشوں کومعاف کردیناہی رشتہ زوجیت کوبرقراررکھنے کی واحدضمانت ہے اوریہی اس کے لئے مثالی راستہ ہے اوران چیزوں کاخیال رکھنے بغیرخاندانی عمارت ریت کے گھروندے کی طرح بے ثبات ہے اوراسی وجہ سے طلاق کے اکثرواقعات کاسبب معمولی ہوتاہے چنانچہ ایک قاضی نے میاں بیوی کے چالیس ہزرا اختلافی واقعات کونمٹانے کے بعدکہاتھا”میاں بیوی کے دل میں ہرقسم کی بدبختی دونوں کاکردار ہوتاہے“۔

 

اگرمیاں بیوی صبرکادامن تھامے رکھیں اورلاشعوری طور پرسرزد ہونے والی غلطیوں سے چشم پوشی کرلیں توازدواجی زندگی کوبرباد ہونے سے بچایاجاسکتاہے۔ امام زین العابدین اپنے رسالہ حقوق میں اس پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

واماحق رعیتک بملک النکاح، فان تعلم ان اللہ جعلھا سکناومستراحا وانساوواقیة، وکذالک کل واحدمنکما یجب ان یحمداللہ علی صاحبہ، ویعلم ان ذلک نعمة منہ علیہ، ووجب ان یحسن صحبة نعمة اللہ ویکرمھاویرفق بھا،وان کان حقک علیھا اغلظ وطاعتک بھاالزم،فیما احببتوکرھت مالم تکن معصیة فان لھا حق الرحمة والموانسة ولاقوة الاباللہ ۔

”نکاح کے ذریعے تمہاری رعایہ بننے والی کاحق تویہ تمہیں معلوناہوناچاہئے کہ اللہ تعالی نے اسے تمہارے لئے سکون،استراحت،انس اوراطمینان کاذریعہ بنایاہے لذا تم میں سے ہرایک کواپنے ساتھی کے حصول پرخدائے تعالی کی حمدکرنی چاہئے اورباورکرناچاہئے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے اس پرایک نعمت ہے پس اللہ کی نعمت کے ساتھ حسن سلوک کرناچاہئے، اس کی عزت اورقدردانی کرنی چاہئے اوراس کے ساتھ اچھارویہ اپناناچاہئے اگرچہ اس پرتمہارا حق زیادہ ہے اورپسند ناپسندمیں معصیت الہی کومدنظررکھتے ہوئے اس کے لئے تمہاری اطاعت کرناضروری ہے کیونکہ اس کابھی انس وشفقت کاحق ہے اوراللہ کے سواکوئی صاحب قدرت نہیں ہے“۔

 

ان سطروں میں غورکرنے سے پتہ چلتاہے کہ رشتہ ازدواج ایک عظیم نعمت ہے اوراس پرہمیں شکرخداوندی کرناچاہئے اوراس کے ساتھ نرمی اورحقیقی صداقت کارویہ اپناکرشکرکاعملی ثبوت فراہم کیاجاناچاہئے۔

 

اوراگراس کے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے اورہروقت اسے جھڑکتارہے توآہستہ آہستہ محبت ومودت کی رگیں کٹتی چلی جائیں گی اورآخرکار یہ چیز چھری کی دھار کی طرح ازدواج کے اس مقدس رشتے کوکاٹ دے گی۔

 

امام صادق اس روش کوبیان کرتے ہیں :

 

”جس کے ذریعہ شوہراپنی بیوی کوخوش رکھ سکتاہے اورمحبت کی رسی کوٹوٹنے سے بچاسکتاہے فرماتے ہیں :

 

لاغنی بالزوج عن ثلاثة اشیاء فیما بینہ وبین زوجتہ،وہی : الموافقة، لیجتلب بھاموافقتھا ومحبتھا وھواھا، وحسن خلقہ معھا، واستعمالہ استعمالة قلبھا بالھیة الحسنة فی عینھا وتوسعتہ علیھا ۔

 

شوہرکے لئے اپنے اوربیوی کے معاملات میں تین چیزوں کاخیال رکھناضروری ہے ہم آھنگی تاکہ اس کے ذریعے بیوی کی محبت اوردلی جھکاؤ کوحاصل کرسکے،اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا اوراپنے دلی میلان کااس طرح استعمال کرناجواسے اچھالگے اوراس پرکھلے دل سے خرچ کرنا“۔

 

اس چیزپرتنبیہ کرناضروری ہے کہ یہ فرامین ہوامیں بکھرے ہوئے خالی الفاظ نہیں ہیں کہ جنہیں آئمہ نصیحت کرتے وقت زبان پرجاری کرتے تھے بلکہ انہوں نے عملی طورپرانجام دے کربتایاہے اوران کے یہاں علم وعمل میں کوئی جدائی نہیں ہے۔

 

حسن بن جہم روایت کرتاہے کہ میں نے امام ابوالحسن کوخضاب لگائے ہوئے دیکھا توعرض کیاآپ پرقربان ہوجاؤں آپنے خضاب لگایاہے :

 

فقال : نعم، ان التھیة ممایزیدفی عفة النساء، ولقدترک النساء العفہ بترک ازواجھن التھیة… ایسرک ان تراھا علی ماتراک علیہ اذا کنت علی غیرتہیة؟ قلت: لا، قال : فھوذلک۔

”توفرمایاہاں ایسی چیزوں کواہمیت دینے سے عورت کی پاکدامنی میں آضافہ ہوتاہے اورشوہروں کے ان چیزوں کوترک کردینے کی وجہ سے بیویاں اپنی عفت ترک کردیتی ہیں کیاتجھے اچھالگے گاکہ اگرتوتیارنہ ہوتووہ بھی تیارنہ ہواورگندی ہومیں نے کہانہیں فرمایا: وہ بھی ایسے ہی ہے ۔

 

توامام درک کرچکے تھے کہ ازدواجی زندگی کامرکزی نقطہ دلی میلان ہے لہذا بیوی کے حق کاخیال رکھتے ہوئے اس کے قلبی میلان کوحاصل کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ عدم توافق ازدواجی زندگی میں رخنہ اندازی کاایک بڑاسبب ہے صحیح ہے کہ اسلام میں شادی محض جنسی شہوت کوسیرکرنے کانام نہیں ہے بلکہ اس کا ہدف ایسی صالح اولاد کاپیداکرناہے جس کی وجہ سے زندگی مستمررہے ورنہ توجنسی خواہشات کاسیرکرنااس کے لئے ایک ذریعہ ہے لیکن اس کامطلب یہ بھی نہیں ہے کہ بیوی کے حق میں کوتاہی کرے بلکہ شریعت اسلامی چارماہ سے زیادہ عرصے تک مباشرت نہ کرنے کوجائز قرار نہیں دیتی۔

 

دوسری بحث : شوہرکے حقوق

کشتی ازدواج کوکامیابی کے ساحل تک پہنچانے کے لئے اس کے ناخدا کوپورے پورے حقوق دیناضروری ہیں اورشاید خدائے تعالی کی طرف سے شوہرکو عطاکیاگیاپہلاحق حاکم ہوناہے فرماتاہے :

الرجال قوامون علی النساء بمافضل اللہ بعضھم علی بعض وبماانفقوا من اموالھم۔

 

”مرد عورتوں پرحاکم ہیں کیونکہ خدانے بعض آدمیوں (مردوں) کو بعض آدمیوں (عورتوں) پرفضیلت دی ہے اورمردوں نے اپنامال خرچ کیاہے“۔

 

اورمرد کویہ حق حاکمیت اس کی پیدائشی بالادستی اوراخراجات برداست کرنے کی وجہ سے حاصل ہواہے لیکن مرد کے حاکم ہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ کلی طور پر عورت پرمسلط ہو تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کوچھوڑ کراس کے ساتھ بے جاسختی کرنے لگے کیونکہ یہ چیزعورت کے حسن سلوک والے حق سے متصادم ہے کہ جسے قرآن نے صراحت کے ساتھ ذکرکیاہے :

 

وعاشروھن بالمعروف ۔”اوران کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو“۔

 

بلاشک اسلام نے عقلی اورشرعی لحاظ سے جائز تمام کاموں میں بیوی کوشوہرکی اطاعت کرنے کاحکم دیاہے لیکن اسلام اس چیزکوپسند نہیں کرتاکہ حاکمیت کوبیوی کوذلیل کرنے اوراس کی ہتک حرمت کے لئے ہتھیار کے طورپراستعمال کرے۔

 

صحیح ہے کہ عورت پرسب سے زیادہ حق شوہرکاہے لیکن اس حق کی صحیح تشریح کرنی چاہئے اوراس کی ایسی تشریح نہیں کرنی چاہئے کہ جس کانتیجہ بیوی کوذلیل کرنا ہو۔ عورت ایک نرم ونازک پھول ہے ہرقسم کی سختی اوردر شتی سے یہ مرجھاجاتاہے اوراسے ایک ایسی باڑ کی ضرورت ہے جوآندھیوں سے محفوظ رکھے تاکہ یہ خوشبو پھیلاتارہے اورمہکنے کے موسم میں بے رونق نہ ہوجائے وہ باڑ وہ مردہے جس میں قربانی کی قوت ہے اورہمہ وقت اس کے لئے تیاررہتاہے۔

 

شوہرکادوسراحق یہ ہے کہ وہ جب چاہے بیوی اسے اپنے آپ پرقدرت دے سوائے ان استثنائی طبیعی حالات کے جوحواکی ہربیٹی پرآتے ہیں۔

 

پیغمبر فرماتے ہیں :

… ان من خیر(نسائکم)الولود الودود،والستیرة(العفیفہ)،العزیزة فی اھلھاالذلیلة مع بعلھا، الحصان مع غیرہ، التی تسمع لہ وتطیع امرہ، اذا خلابھا بذلت مااراد منھا۔

 

”بہترین بیوی وہ ہے جوبچے پیداکرے۔ محبت کرے اپنے گھرمیں عزیزاورشوہرکی فرمانبردارہو،نیز شوہرکے سامنے پاکدامن ہو، شوہرکی بات سنتی ہو اوراس کی اطاعت کرتی ہواورجب شوہرکے ساتھ تنہائی میں ہوتووہ جو چاہے اسے دیدے“۔

 

نیزفرماتے ہیں : خیرنسائکم التی اذا دخلت مع زوجھا خلعت درع الحیاء۔

”بہترین بیوی وہ ہے جوشوہرکے ساتھ ہوتوحیاکی چادراتاردے“۔

 

اوردیگرایسی احادیث ہیںجن میں بیوی کوشوہرکے بسترسے الگ ہونے سے منع کیاگیاہے اورایساکرنے پردنیاہی میں اسے اس کابدلہ ملتاہے اوروہ جب تک شوہرکے پاس نہیں آجاتی فرشتے اس پرلعنت کرتے رہتے ہیں۔

 

نیز بیوی کے لئے ضروری ہے کہ شوہرکااحترام کرے اورعہد عشق ومحبت میں اس کے ساتھ پوری طرح شریک رہے پیغمبر فرماتے ہیں :

 

لوامرت احدا ان یسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزوجھا ۔

 

”اگرمیں کسی کوکسی دوسرے کاسجدہ کرنے کاحکم دیتاتوبیوی کواپنے شوہر کا سجدہ کرنے کاحکم ضروردیتا“۔

 

پیغمبر کے ان فرامین کی روشنی میں بیوی کے لئے ضروری ہے کہ شوہرکے ساتھ بہت لطیف اورنرم رویہ رکھے اورایسے ایسے الفاظ سے مخاطب کرے جواس کے دل میں اترکراس کے چہرے پررونق بکھیردیں بالخصوص جب وہ سارے دن کے کام کاج سے تھکاماندا واپس آتاہے توبیوی کواس کایوں استقبال کرناچاہئے کہ اس کا چہرہ ہشاس بشاش ہوجائے اوراس پراپنی سب خدمات نچھاور کردینی چاہئے،یوں عورت شوہرکی خشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے پیغمبر کافرمان ہے کہ :

 

(فطوبی لامراة یرضی عنھا زوجھا)

 

”اس عورت کے لئے خوشخبری ہے جس کاشوہر اس سے راضی ہو“۔