Super User
حضرت ابو الفضل عباس علیہ السلام کا کعبہ کی چھت پر عظیم الشان خطبہ
«بسم الله الرّحمن الرّحیم»
«اَلحَمدُ لِلّهِ الَّذی شَرَّفَ هذا (اشاره به بیت اللهالحَرام) بِقُدُومِ اَبیهِ، مَن کانَ بِالاَمسِ بیتاً اَصبَح قِبلَةً. أَیُّهَا الکَفَرةُ الفَجَرة اَتَصُدُّونَ طَریقَ البَیتِ لِاِمامِ البَرَرَة؟ مَن هُوَ اَحَقُّ بِه مِن سائِرِ البَریَّه؟ وَ مَن هُوَ اَدنی بِه؟ وَ لَولا حِکمَ اللهِ الجَلیَّه وَ اَسرارُهُ العِلّیَّه وَاختِبارُهُ البَریَّه لِطارِ البَیتِ اِلیه قَبلَ اَن یَمشیَ لَدَیه قَدِ استَلَمَ النّاسُ الحَجَر وَ الحَجَرُ یَستَلِمُ یَدَیه وَ لَو لَم تَکُن مَشیَّةُ مَولایَ مَجبُولَةً مِن مَشیَّهِ الرَّحمن، لَوَقَعتُ عَلَیکُم کَالسَّقرِ الغَضبانِ عَلی عَصافِیرِ الطَّیَران.
اَتُخَوِّنَ قَوماً یَلعَبُ بِالمَوتِ فِی الطُّفُولیَّة فَکَیفَ کانَ فِی الرُّجُولیَّهِ؟ وَلَفَدَیتُ بِالحامّاتِ لِسَیِّد البَریّاتِ دونَ الحَیَوانات.
هَیهات فَانظُرُوا ثُمَّ انظُرُوا مِمَّن شارِبُ الخَمر وَ مِمَّن صاحِبُ الحَوضِ وَ الکَوثَر وَ مِمَّن فی بَیتِهِ الوَحیُ وَ القُرآن وَ مِمَّن فی بَیتِه اللَّهَواتِ وَالدَّنَساتُ وَ مِمَّن فی بَیتِهِ التَّطهیرُ وَ الآیات.
وَ أَنتُم وَقَعتُم فِی الغَلطَةِ الَّتی قَد وَقَعَت فیهَا القُرَیشُ لِأنَّهُمُ اردُوا قَتلَ رَسولِ الله صلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِه وَ أنتُم تُریدُونَ قَتلَ ابنِ بِنتِ نَبیّکُم وَ لا یُمکِن لَهُم مادامَ اَمیرُالمُؤمِنینَ (ع) حَیّاً وَ کَیفَ یُمکِنُ لَکُم قَتلَ اَبی عَبدِاللِه الحُسَین (ع) مادُمتُ حَیّاً سَلیلاً؟
تَعالوا اُخبِرُکُم بِسَبیلِه بادِروُا قَتلی وَاضرِبُوا عُنُقی لِیَحصُلَ مُرادُکُم لابَلَغَ الله مِدارَکُم وَ بَدَّدَا عمارَکُم وَ اَولادَکُم وَ لَعَنَ الله عَلَیکُم وَ عَلی اَجدادکُم.
ترجمہ
آپ علیہ السلام نے یہ خطبہ امام حسین علیہ السلام کی ۸ ذی الحجہ سن ۶۰ ہجری کو مکہ سے کربلا روانگی کے موقع پر خانہ کعبہ کی چھت پر جلوہ افروز ہو کر ارشاد فرمایا
حمد ہے اللہ کے لیے جس نے اسے (کعبے کو ) میرے مولا (امام حسین ع ) کے والد گرامی (علی ع ) کے قدم سے شرف بخشا جو کہ کل تک پتھروں سے بنا ایک کمرہ تھا ان کے ظہور سے قبلہ ہو گیا ۔
اے بد ترین کافروں اور فاجروں تم اس بیت اللہ کا راستہ نیک اور پاک لوگوں کے امام کے لیے روکتے ہو جو کہ اللہ کی تمام مخلوق سے اس کا زیادہ حق دار ہے اور جو اس کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اگر اللہ کا واضح حکم نہ ہوتا اور اسکے بلند اسرار نہ ہوتے اور اس کا مخلوق کو آزمائش میں ڈالنا نہ ہوتا تو یہی اللہ کا گھر خود اڑ کر میرے مولا کے پاس آجاتا لیکن میرےکریم مولا نے خود اس کے پاس آکر اس کوعظمت بخشی بے شک لوگ حجراسود کو چومتے ہیں اور حجر اسود میرے مولا کے ہاتھوں کو چومتا ہے ۔ اللہ کی مشیت میرے مولا کی مشیت ہے اور میرے مولا کی مشیت اللہ کی مشیت ہے خدا کی قسم اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تم پر اس طرح حملہ کرتا جیسے کہ عقاب غضبناک ہو کر اڑتا ہوا چڑیوں پر حملہ کرتا ہے اور تم کو چیر پھاڑ دیتا کیا تم ایسے لوگوں سے خیانت کرتے ہو جو بچپن ہی سے موت سے کھیلتے ہوں اور کیا عالم ہوگا ان کی بہادری کا جب کے وہ عالم شباب میں ہوں ؟ میں قربان کر دوں اپنا سب کچھ اپنے مولا پر جو کہ اس پوری کائنات پر بسنے والے انسانوں اور حیوانوں کا سردار ہے ۔ اے لوگوں ! تمہاری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کیا تم غور و فکر نہیں کرتے ایک طرف شراب پینے والے ہیں اور دوسری طرف حوض کوثر کے مالک ہیں ایک طرف وہ ہیں جن کا گھر لہو لہب اور سارے جہان کی نجاستوں کی آماجگاہ ہے اور دوسری طرف پاکیزگی کے جہان اور آیات قرانیہ ہیں اور وہ گھر جس میں وحی اور قرآن ہے اور تم اسی غلطی میں پڑ گئے ہو جس میں قریش پڑے تھے کیونکہ انہوں نے رسول اللہ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور تم اپنے نبی کے نواسے کو قتل کرنے کا ارادہ کر رہے ہو ۔ قریش اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ امیر المومنین کی ہیبت و جلال کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور کیسے ممکن ہوگا تمہارے لیے ابا عبداللہ الحسین کا قتل جب کہ اسی علی کا بیٹا رسول کے بیٹے کی حفاظت پر مامور ہے اگر ہمت ہے تو آؤ میں تمہیں اس کا راستہ بتاتا ہوں میرے قتل کی کوشش کرو اور میری گردن اڑاؤ تا کہ تم اپنی مراد پا سکو اللہ تمہارے مقصد کو کبھی پورا نہ کرے اور تمہارے آباء اوع اولاد کو تباہ کرے اور لعنت کرے تم پر اور تمہارے آباء و اجداد پر ۔
بجراکلی مسجد (بیراکلی مسجد) بلغراد ؛ سربیا
بجراکلی مسجد (بیراکلی مسجد بھی کہا جاتا ہے) سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں واقع ایک عظیم مسجد ہے۔
یہ 1575ء میں اُس وقت تعمیر کی گئی جب سربیا سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں تھا۔
1717ء سے 1739ء تک سربیا پر آسٹریا کے قبضے کے دوران اس مسجد کو رومن کیتھولک گرجے میں تبدیل کر دیا گیا لیکن جب عثمانیوں نے شہر پر دوبارہ قبضہ کیا تو اس کی مسجد کی حیثیت بحال کر دی۔
18 مارچ 2004ء کو مسجد میں آتشزدگی سے اس کو شدید نقصان پہنچا تاہم بعد ازاں اس کی مرمت کر دی گئی۔
واقعہ کربلا میں حضرت امام زین العابدین کا کردار
جزیرۃ العرب میں رسول اسلام خاتم النبیین رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورانی ظہور اور الہی معیارات پر قائم اسلامی احکام و دستور سے مقہور دور جاہلیت کے پروردہ امیہ و ابوسفیان کے پوتے یزید ابن معاویہ اور ان کے ذلہ خواروں کے ہاتھوں نواسۂ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد ظلم و استبداد کے نشہ میں چور اموی ملوکیت نے عصر جاہلیت کے انسانیت سوز رسم و رواج از سر نو اسلامی معاشرے میں رواج دینے پر کمر باندھ لی ۔
بنی امیہ کے اس استبدادی دور میں حسینی انقلاب کے پاسبان امام زين العابدین علیہ السلام کی ذمہ داریاں شعب ابی طالب میں محصور توحید پرستوں کی سختیوں ، بدر و احد کے معرکوں میں نبردآزما جیالوں کی تنہائیوں ، جمل و صفین کی مقابلہ آرائیوں میں شریک حق پرستوں اور نہروان و مدائن کی سازشوں سے دوچار علی (ع) و حسن (ع) کے ساتھیوں کی جان فشانیوں اور میدان کربلا میں پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں کے مراحل سے کم حیثیت کی حامل نہیں تھیں ۔
قرآن کی محرومی ،اسلام کی لاچاری اور آل رسول (ص) کی مظلومی کے " یزید زدہ " ماحول میں امام سجاد (ع) کی حقیقی انقلابی روش میں گویا اسلام و قرآن کی تمام تعلیمات جمع ہوگئی تھیں اور اسلامی دنیا آپ کے کردار و گفتار کے آئینہ میں ہی الہی احکام و معارف کا مطالعہ اور مشاہدہ کررہا تھا ۔
روز عاشورا نیزہ و شمشیر اور سنان و تیر کی بارش میں امام حسین (ع) کے ساتھ ان کے تمام عزیز و جاں نثار شہید کردئے گئے مردوں میں صرف سید سجاد (ع) اور بچوں میں امام باقر (ع) شہادت کے کارزار میں زندہ بچے تھے جو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ اہل حرم کے قافلہ سالار تھے ۔
خون اور آگ کے درمیان امامت و ہدایت کی یہ دونوں شمعیں الہی ارادہ اور فیصلے کے تحت محفوظ رکھی گئی تھیں جنہوں نے اپنی نرم و لطیف حکمت آمیز روشنی کے ذریعہ عاشورا کے پیغامات تاریخ بشریت میں جاوداں بنادئے ۔امام زين العابدین علیہ السلام کو خدا نے محفوظ رکھا تھا کہ وہ اپنی 35 سالہ تبلیغی مہم کے دوران عاشورا کے سوگوار کے طور پر اپنے اشکوں اور دعاؤں کے ذریعہ اموی نفاق و جہالت کو ایمان و آگہی کی قوت عطا کرکے عدل و انصاف کی دار پر ہمیشہ کے لئے آویزاں کردیں اور دنیا کے مظلوموں کو بتادیں کہ اشک و دعا کی شمشیر سے بھی استبدادی قوتوں کے ساتھ جہاد و مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ظلم و عناد سے مرعوب بے حسی اور بے حیائي کے حصار میں بھی اشک و دعا کے ہتھیار سے تاریکیوں کے سینے چاک کئے جا سکتے ہیں اور پرچم حق کو سربلندی و سرافرازی عطا کی جا سکتی ہے ۔
چنانچہ آج تاریخ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ کبھی کبھی اشک و دعا کی زبان آہنی شمشیر سے زیادہ تیز چلتی ہے اور خود سروں کے سروں کا صفایا کردیتی ہے ۔
امام زین العابدین ،سید سجاد، عبادتوں کی زینت ، بندگي اور بندہ نوازی کی آبرو ، دعا و مناجات کی جان ، خضوع و خشوع اور خاکساری و فروتنی کی روح سید سجاد جن کی خلقت ہی توکل اور معرفت کے ضمیر سے ہوئی ، جنہوں نے دعا کو علو اور مناجات کو رسائي عطا کردی ،جن کی ایک ایک سانس تسبیح اور ایک ایک نفس شکر خدا سے معمور ہے جن کی دعاؤں کا ایک ایک فقرہ آدمیت کے لئے سرمایۂ نجات اور نصیحت و حکمت سے سرشار ہے امام زين العابدین علیہ السلام کی مناجاتوں کے طفیل آسمان سجادۂ بندگي اور زمین صحیفۂ زندگي بنی ہوئی ہے ۔
آپ کی " صحیفۂ سجادیہ " کا ایک ایک ورق عطر جنت میں بسا ہوا ہے اور آپ کی صحیفۂ کاملہ کاایک ایک لفظ وحی الہی کا ترجمان ہے اسی لئے اس کو " زبور آل محمد " کہتے ہیں آپ خود سجاد بھی ہیں اور سید سجاد بھی ،عابد بھی ہیں اور زین العابدین بھی ۔
کیونکہ عصر عاشور کو آپ کے بابا سید الشہداء امام حسین (ع) کا " سجدۂ آخر " گیارہ کی شب ، شام غریباں ہیں آپ کے " سجدۂ شکر " کے ساتھ متصل ہے ۔اکہتر قربانیاں پیش کرنے کے بعد امام حسین (ع) نے " سجدۂ آخر " کے ذریعہ سرخروئي حاصل کی اور جلے ہوئے خیموں کے درمیان ، چادروں سے محروم ماؤں اور بہنوں کی آہ و فریاد کے بیچ ، باپ کے سربریدہ کے سامنے سید سجاد کے " سجدۂ شکر " نے ان کو زین العابدین بنادیا ۔
نماز عشاء کے بعد سجدۂ معبود میں رکھی گئی پیشانی اذان صبح پر بلند ہوئی اور یہ سجدہ شکر تاریخ بشریت کا زریں ترین ستارۂ قسمت بن گیا ۔باپ کا سجدۂ آخر اور بیٹے کا سجدۂ شکر اسلام کی حیات اور مسلمانوں کی نجات کا ضامن ہے ۔
در حقیقت صبر و شجاعت اور حریت و آزادی کے پاسبان امام زين العابدین ، طوق و زنجیر میں جکڑدئے جانے کے باوجود لاچار و بیمار نہیں تھے بلکہ کوفہ و شام کے بے بس و لاچار بیماروں کے دل و دماغ کا علاج کرنے کے لئے گئے تھے ۔
کوفہ بیمار تھا جس نے رسول (ص) و آل رسول (ص) سے اپنا اطاعت و دوستی کا پیمان توڑدیا تھا، کوفہ والے بیمار تھے جن کے سروں پر ابن زیاد کے خوف کا بخار چڑھا ہوا تھا اور حق و باطل کی تمیز ختم ہوگئی تھی شام بیمار تھا جہاں ملوکیت کی مسموم فضاؤں میں وحی و قرآن کا مذاق اڑایا جا رہا تھا اور اہلبیت نبوت و رسالت کومعاذاللہ " خارجی " اور ترک و دیلم کا قیدی قرار دیا جا رہا تھا ۔شام والے بیمار تھے جو خاندان رسول کے استقبال کے لئے سنگ و خشت لے کر جمع ہوئے تھے لیکن امام سجاد ان کے علاج کے لئے خون حسین (ع) سے رنگین خاک کربلا ساتھ لے کر گئے تھے کہ بنی امیہ کی زہریلی خوراک سے متاثر کوفیوں اور شامیوں کو خطرناک بیماریوں سے شفا عطا کریں
۔چنانچہ علی (ع) ابن الحسین (ع) اور ان کے ہمراہ خاندان رسول (ص) کی خواتین نے اپنے خطبوں اورتقریروں کی ذوالفقار سے کوفہ و شام کے ضمیر فروشوں کے سردو پارہ کردئے کوفہ جو گہرے خواب میں ڈوبا ہوا تھا خطبوں کی گونج سے جاگ اٹھا شام نے جو جاں کنی کی آخری سانسیں لے رہا تھا زنجیروں کی جھنکار سے ایک نئي انگڑائی لی پورے عالم اسلام میں حیات و بیداری کی ایک ہلچل شروع ہوئی اور اموی حکومت کے بام و در لرزنے لگے ۔
معروف اور منکر کے معنی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا:
اذا امّتی تواکلت الامر بالمعروف و النّھی عن المنکر ، فلیاذنو ابوقاع من اللہ
جب میری امت امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑدے تو اللہ کی طرف سے عذاب کی منتظر رہے ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
لتامرّن بالمعروف ، و لتنھن عن المنکر ، او یستعملنّ علیکم شرارکم ، فیدعو خیارکم فلا یستجاب لھم
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو، ورنہ فاسق ، فاجر اور شریر لوگ تم پر مسلط ہوجائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی مستجاب نہیں ہوں گی۔
معروف اور منکر کے معنی
حضرت امام حسین (ع) نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر جیسے عظیم فریضہ الہی کو اپنے قیام کا مقصد قرار دیا ہے۔ سید الشہداء (ع) نے اپنے وصیت نامہ میں قیامت تک آنے والوں کے تمام سوالات کاجواب خود لکھ دیا ہے ۔ اگر کوئی پوچھے کہ امام حسین (ع) نے یہ عظیم قربانی، یہ اسارتیں ، یہ شہادتیں کیوں پیش کیں؟ اور یہ معصوم بچے کیوں ذبح ہوئے ؟ ان سب سوالات کا جواب یہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتے تھے ۔
امر بالمعروف سے مراد کسی کی زندگی میں بے جامداخلت ، روکنا ٹوکنا ، کسی کے مزاحم ہونا نہیں ہے ، کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ معروف کے نام پر منکرات پھیلائے جارہے ہوتے ہیں جبکہ کبھی منکرات کے نام پر معروف سے لوگوں کو روکا جاتا ہے اس لئے کہ ایسے لوگوں کو نہ تو معروف کی شناخت ہے اور نہ ہی منکر کی پہچان ہے ، شہید تشیّع ، جناب مرتضی مطہری رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ امربالمعروف کے نام پر جتنے منکرات لوگوں نے پھیلائے ہیں کسی اور عنوان سے اتنے منکرات نہیں پھیلائے گئے ۔
حضرت امام حسین (ع) فرمارہے ہیں کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنے جارہا ہوں میں ان چیزوں پر امر کرنے آیا ہوں جنہیں خدا نے اور تمہاری عقل نے تمہارے لئے تسلیم کیا ہے اور جن چیزوں سے تمہیں روکا ہے ان سے منع کرنے کے لئے نکل رہا ہوں یعنی وہ انسانی ، قرآنی ، دینی اور اسلامی اقدار جن کی ترویج کے لئے ، جن کو پھیلانے اور احیاء کرنے کے لئے ، انسانوں کے اندر متعارف کروانے کے لئے انبیاء (ع) یکے بعد دیگرے مبعوث ہوئے ، تا کہ انسانوں کی ان اقدار کی طرف رہنمائی کرسکیں، اور ان عالی اقدار کے مقابلے میں منفی صفات ، ٹھکرائی گئی صفات اور منکرات سے انسانوں کو بچاسکیں۔
پس معروف اور منکر در حقیقت دوقدروں کا نام ہے ۔ انسانی اور الہی اقدار کا نام معروف ہے منفی اقدار ، غیر انسانی صفات ، تمام برے اعمال اور صفات کا نام منکر ہے ۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اقدار کے دو حصے ہیں ایک حصہ وہ اقدار ہیں جنہیں وحی اور عقل نے تسلیم کرکے رسمیت سے پہچانا ہو ، جبکہ منکرات وہ حصہ ہیں جنہیں ٹھکرادیا گيا ہو رد کردیا گیا ہوا ورنہ ہی خدا نے تسلیم کیا ہو اور نہ ہی عقل نے قبول کیا ہو۔
لیکن کبھی ان اقدار کا نظام بدل جاتا ہے اور لوگ یہاں تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ منکر کو معروف اور معروف کو منکر سمجھنا شروع کردیتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ (ص) سے مروی حدیث میں بھی آیا ہے ۔
کیف بکم اذا رایتم المعروف منکراو المنکر معروفا
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب معروف منکر اور منکر معروف بن جائے گا۔
قرآن کریم میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ تمام امت کے لئے قرار دیا گیا ہے لہذا امام امت کا بھی یہی فریضہ بنتا ہے کہ امام امت جب مشاہدہ کرے کہ قدروں کا نظام بدل گیا ہے امت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہو تو خود امام امت تن تنہا اس نظام اقدار کو بچانے کے لئے اقدام کرتا ہےجیسا کہ امام حسین (ع) نے یہی فرمایا کہ میں امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں ۔
اولو مسجد - ترکی کے شہر بروصہ
اولو مسجد ( ترکی :Ulu Cami، اولو جامع ) یعنی عظیم مسجد ترکی کے شہر بروصہ میں واقع ایک مسجد ہے جسے عثمانی طرز تعمیر کا اولین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
یہ مسجد سلطان بایزید اول کے حکم پر علی نجار نے 1396ء سے 1399ء کے درمیان قائم کی۔
مستطیل شکل میں بنی اس مسجد پر 20 گنبد ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سلطان بایزید نے جنگ نکوپولس میں فتح کی صورت میں 20 مساجد تعمیر کرنے کا عہد کیا تھا اور بعد ازاں انہی 20 مساجد کی جگہ بروصہ میں (جو اس وقت عثمانی سلطنت کا دارالحکومت تھا) 20 گنبدوں والی یہ مسجد تعمیر کی گئی۔
اس کے دو مینار بھی ہیں۔
مسجد کے اندر معروف خطاطوں کے 192 شاندار فن پارے رکھے گئے جو فن خطاطی کے عظيم نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اولو جامع کا اندرونی منظر، صحن کے وسط میں وضو خانہ نمایاں ہے
نماز کی محراب
اولو جامع کا بیرونی وضو خانہ
اہل حدیث
اہل حدیث کا طریقہ ، اصل میں ایک فقہی اور اجتہادی طریقہ تھا ۔ کلی طور پر اہل سنت کے فقیہ اپنی طور طریقہ کی وجہ سے دو گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں : ایک گروہ وہ ہے جن کا مرکز عراق تھا اور وہ حکم شرعی کو حاصل کرنے کے لئے قرآن و سنت کے علاوہ عقل سے بھی استفادہ کرتے تھے ۔ یہ لوگ فقہ میں قیاس کو معتبر سمجھتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بعض جگہوں پر اس کو نقل پر مقدم کرتے ہیں ۔
یہ گروہ ''اصحاب رائے'' کے نام سے مشہور ہے اس گروہ کے موسس ابوحنیفہ (متوفی ١٥٠ھ) ہیں ۔
دوسرا گروہ وہ ہے جن کا مرکز حجاز تھا ، یہ لوگ صرف قرآن وحدیث کے ظواہر پر تکیہ کرتے تھے اور مطلق طور سے عقل کا انکار کرتے تھے ، یہ گروہ '' اہل حدیث'' یا '' اصحاب حدیث'' کے نام سے مشہور ہے ، اس گروہ کے بزرگ علمائ، مالک بن انس (متوفی ١٧٩ھ)، محمد بن ادریس شافعی (متوفی ٢٠٤ھ) اور احمد بن حنبل ہیں ۔
اہل حدیث ، اپنے فقہی طریقہ کو عقاید میں بھی استعمال کرتے تھے اور اس کو صرف قرآن و سنت کے ظواہر سے اخذ کرتے تھے ۔ یہ لوگ نہ صرف عقاید کے مسائل کو استنباط کرنے کے لئے عقل کو ایک مآخذ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اعتقادی احادیث سے متعلق ہر طرح کی عقلی بحث کی مخالفت کرتے تھے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ یہ گروہ اس عقلی کلام کا بھی منکر تھا جس میں عقاید کا مستقل مآخذ عقل ہے اورایسے نقلی کلام کا بھی منکر تھا جس میںنقل کے عقلی لوازم کو عقل استنباط کرتی ہے ۔ یہاں تک کہ یہ گروہ عقاید دینی سے دفاع کے کردار کو بھی عقل کے لئے قبول نہیں کرتے تھے ۔ یہ بات مشہور ہے کہ جب ایک شخص نے مالک بن انس سے اس آیت ''الرحمن علی العرش استوی'' کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا: عرش پر خدا کا قائم ہونا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجھول ہے، اس پرایمان واجب ہے اوراس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ۔
بہرحال اہل حدیث ، دین کے متعلق ہرطرح کی فکر کرنے کے متعلق مخالفت کرتے تھے اورعلم کلام کا بنیادی طور پر انکار کرتے تھے ۔ اس گروہ کا معروف چہرہ ، احمد بن حنبل کے اس اعتقادنامہ پر ہے جس میں اس گروہ کے اساسی عقاید کو بیان کیا گیا ہے ، ان اعتقادات کا خلاصہ اس طرح ہے :
١۔ ایمان، قول وعمل اورنیت ہے ۔ ایمان کے درجات ہیں اور یہ درجات کم و زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ ایمان میں استثنائات پائے جاتے ہیں ، یعنی اگر کسی شخص سے اس کے ایمان کے بارے میں سوال کیا جائے تو اس کو جواب میں کہنا چاہئے : انشاء اللہ (اگر اللہ نے چاہا تو) میں مومن ہوں ۔
٢۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ قضا و قدر الہی ہے اور انسان، خداوند عالم کی قضا و قدرسے فرار نہیں کرسکتا ۔ انسانوں کے تمام افعال جیسے زنا، شراب پینا اور چوری وغیرہ خداوندعالم کی تقدیر سے مربوط ہے اوراس متعلق کسی کو خدا پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے ۔ اگر کوئی گمان کرے کہ خداوند عالم گناہگاروںسے اطاعت چاہتا ہے لیکن وہ معصیت کا ارادہ کرتے ہیں،تو یہ گنہگار بندوں کی مشیت کو خداوند عالم کی مشیت پر غالب سمجھتے ہیں ، اس سے بڑھ کر خداوند عالم پر کوئی اور بہتان نہیں ہوسکتا ۔ جو بھی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ خداوندعالم کو اس جہان ہستی کا علم ہے اس کو قضا و قدر الہی کو بھی قبول کرنا چاہئے ۔
٣۔ خلافت اور امامت ، قیامت تک قریش کا حق ہے ۔
٤۔ جہاد ، امام کے ساتھ جائز ہے چاہے وہ امام عادل ہو یا ظالم ۔
٥۔ نماز جمعہ ، حج اور نماز عیدین (عید فطر و عید قربان) امام کے علاوہ قابل قبول نہیں ہے چاہے وہ امام عادل اور باتقوی بھی نہ ہو ۔
٦۔ صدقات ، خراج (لگان) اور جو مال بغیر کسی جنگ و وسایل جنگ کے حاصل ہو سب سلاطین کا حق ہے ، چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو ۔
٧۔ اگر بادشاہ ، گناہ کا حکم دے تو اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہئے ،لیکن ظالم بادشاہ کے خلاف خروج کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔
٨۔ مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں ہے ، مگران جگہوں پر جن کے متعلق حدیث میں وارد ہوا ہے جیسے نماز ترک کرنے والے، شراب پینے والے اور بدعت انجام دینے والے کو ۔
٩۔ عذاب قبر، صراط، میزان، صور پھونکنا، بہشت، جہنم، لوح محفوظ اور شفاعت یہ سب حق ہیں اور بہشت و جہنم ہمیشہ سے رہیں گے ۔
١٠۔ قرآن ،خداوند عالم کا کلام ہے اور یہ مخلوق نہیں ہے ، حتی کہ الفاظ اور قاری قرآن کی آواز بھی مخلوق نہیں ہے اور جو بھی قرآن کریم کو ہر طرح سے مخلوق اور حادث سمجھتے ہیں وہ کافر ہیں ۔
اہل حدیث کے اور دوسرے نظریات بھی ہیں جیسے خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھنا، تکلیف ما لایطاق کا جائز ہونا اور صفات خبریہ کا ثابت کرنا ،ہم ان عقاید کو اشاعرہ کی بحث میں بیان کریں گے ۔
خلاصہ :
١۔ اہل حدیث کا طریقہ ، اصل میں ایک فقہی طریقہ تھایہ لوگ صرف قرآن وحدیث کے ظواہر پر تکیہ کرتے تھے اور مطلق طور سے عقل کا انکار کرتے تھے ، یہ گروہ '' اہل حدیث'' یا '' اصحاب حدیث'' کے نام سے مشہور ہے ، اس گروہ کے بزرگ علمائ، مالک بن انس (متوفی ١٧٩ھ)، محمد بن ادریس شافعی (متوفی ٢٠٤ھ) اور احمد بن حنبل ہیں ۔
٢۔ اہل حدیث اپنے فقہی طور طریقہ کو عقاید میں بھی استعمال کرتے تھے اور اعتقادی احادیث سے متعلق ہر طرح کی عقلی بحث کے مخالف تھے اور اس کے نتیجہ میںیہ علم کلام کا بنیادی طور پرانکار کرتے ہیں ۔ اس متعلق احمد بن حنبل کے نظریات اہل سنت کے درمیان سب سے زیادہ تاثیر گذار ہیں ۔
٣۔ اہل حدیث کے بعض اعتقادات وہ ہیں جو احمد بن حنبل کے اعتقادنامہ میں بیان ہوئے ہیں :
الف : ایمان، قول وعمل اورنیت ہے ۔ ایمان کے درجات ہیں اور یہ درجات کم و زیادہ ہوسکتے ہیں ۔ ایمان میں استثنائات پائے جاتے ہیں ۔
ب : اس دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ قضا و قدر الہی ہے اور انسان، خداوند عالم کی قضا و قدرسے فرار نہیں کرسکتا،انسان کو اپنے کسی فعل میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔
ج : جہاد، نماز جمعہ ، حج اور نماز عیدین (عید فطر و عید قربان) امام کے علاوہ قابل قبول نہیں ہے چاہے وہ امام عادل اور باتقوی بھی نہ ہو ۔
د : مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے کافر کہنا جائز نہیں ہے ۔
ھ : قرآن ،خداوند عالم کا کلام ہے اور یہ مخلوق نہیں ہے ۔
اشاعرہ
اشاعرہ ، ابوالحسن اشعری (٢٦٠۔ ٣٢٤ ھ)کے پیروکاروں کو کہتے ہیں ، ابوالحسن اشعری نے عقل سے استفادہ کرنے میں معتزلہ کی افراط اور اہل حدیث کا عقل سے استفادہ کرنے میں تفریط سے کام لینے درمیان ایک تیسرا راستہ اختیار کیا ، دوسری صدی ہجری کے دوران ان دوونوں فکری مکتبوں نے بہت زیادہ وسعت حاصل کی ، معتزلہ عقاید کے لئے عقل کو ایک مستقل مآخذ سمجھتے تھے اور اس کے ذریعہ اسلام سے دفاع کرنے کی تاکید کرتے تھے اور اس کو استعمال کرنے میں افراط سے کام لیتے تھے،دوسری طرف اہل حدیث ، عقل سے ہر طرح کے استفادہ کو منع کرتے تھے اور قرآن و سنت کے ظواہر کو بغیر کسی فکری تحلیل کے اس کو دینی تعلیمات میں ملاک و معیار کے عنوان سے قبول کرتے تھے ، اشعری مذہب نے چوتھی صدی کے شروع میں اہل حدیث کے عقاید سے دفاع اور عملی طور پر ان دونوں مکتبوں کی تعدیل کے عنوان سے عقل و نقل کے موافق ایک معتدل راستہ اختیار کیا ۔
ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری اپنی جوانی میں معتزلہ عقاید سے وابستہ تھے انہوں نے ان کے اصول عقاید کو اس زمانہ کے مشہور استاد ابوعلی جبائی (متوفی ٣٣ھ) سے حاصل کئے اور چالیس سال کی عمر تک معتزلہ سے دفاع کرتے تھے اور اسی موضوع سے متعلق بہت سی کتابیں بھی لکھیں، ۔ اسی دوران انہوں نے اس مذہب سے اعتزال کیا اور معتزلہ کے مقابلہ میں اہل حدیث کے مطابق کچھ نظریات پیش کئے، اشعری ایک طرف تو غیروں کے مآخذ کو کتاب و سنت بتاتے تھے اور اس وجہ سے معتزلہ کی مخالفت کرتے تھے اور اہل حدیث ہوگئے ، لیکن اصحاب حدیث کے برخلاف دینی عقاید سے دفاع اور اس کو ثابت کرنے کے لئے بحث و استدلال کو جائز سمجھتے تھے اورعملی طور پر اس کو استعمال کرتے تھے ، اسی غرض سے انہوں نے ایک کتاب ''رسالة فی استحسان الخوض فی علم الکلام'' لکھی اور اس میں علم کلام سے دفاع کیا ۔ اشعری نے نقل کواصالت دینے کے ساتھ ساتھ عقل کوثابت کرنے اور دفاع کرنے کے لئے قبول کرلیا ، وہ شروع میں معتزلہ کے نظریات کو نقض کرنے کی ذمہ داری سمجھتے تھے لیکن انہوں نے معتزلہ کے عقایدسے جنگ کرتے ہوئے اہل حدیث کے عقلی طریقہ کو ثابت اور تعدیل کیا اور ان کے نظریات کو ایک حد تک معتزلہ کے نظریات سے نزدیک کردیا ۔
اشعری کے نظریات
اس حصہ میں کوشش کریں گے کہ اشعری کی روش کے نتیجہ کو ان کے بعض عقاید میں ظاہر کریں ۔ اس وجہ سے اس کے عقیدہ کے اصحاب حدیث اور معتزلہ کے عقاید کو اجمال کے ساتھ مقایسہ کریں گے ۔
١۔ صفات خبری : علم کلام میں کبھی کبھی صفات الہی کو صفات ذاتیہ اور صفات خبریہ میں تقسیم کرتے ہیں ۔ صفات ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو آیات و روایات میں بیان ہوئے ہیں اور عقل خود بخود ان صفات کو خداوند عالم کے لئے ثابت کرتی ہے جیسے خدا کے لئے ہاتھ، پیر اور چہرہ کا ہونا ،اس طرح کے صفات کے متعلق متکلمین کے درمیان اختلاف ہے ۔
اہل حدیث کا ایک گروہ جس کو مشبھہ حشویہ کہتے ہیں، یہ صفات خبریہ کو تشبیہ کے ساتھ خداوندعالم کے لئے ثابت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ معتقد ہیں کہ خداوند عالم میں صفات خبریہ اسی طرح پائے جاتے ہیں جس طرح مخلوقات میں پائے جاتے ہیں اوراس جہت سے خالق اور مخلوق کے درمیان بہت زیادہ شباہت پائی جاتی ہے ۔ شہرستانی نے اس گروہ کے بعض افراد سے نقل کیا ہے کہ ان کاعقیدہ ہے یہ ہے کہ خداوندعالم کو لمس کیا جاسکتا ہے اور اس سے مصافحہ اور معانقہ کیا جاسکتا ہے ۔
اہل حدیث میں سے بعض لوگ صفات خبریہ کے متعلق تفویض کے معتقد ہیں ۔ یہ لوگ صفات خبریہ کو خداوند عالم سے منسوب کرنے کے ضمن میں ان الفاظ کے مفہوم و مفاد کے سلسلہ میں ہر طرح کا اظہار نظر کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اوراس کے معنی کو خداوند عالم پر چھوڑدیتے ہیں ۔ مالک بن انس کا خداوند عالم کے استوی پر ہونے کی کیفیت کے متعلق سوال کے جواب سے ان کا نظریہ معلوم ہوجاتا ہے ۔ لیکن معتزلہ ، خداوند عالم کو مخلوقات سے مشابہ ہونے سے منزہ سمجھتے ہیں اور خداوند عالم کے ہاتھ اور پیر رکھنے والے صفات کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ دوسری طرف قرآن اور روایات میں اس طرح کے صفات کی خداوند عالم سے نسبت دی گئی ہے ۔ معتزلہ نے اس مشکل کوحل کرنے کے لئے صفات خبریہ کی توجیہ اور تاویل کرنا شروع کردی اور یداللہ (خدا کے ہاتھ) کی ''قدرت الہی'' سے تفسیر کرنے لگے ۔
اشعری نے صفات خبریہ کے اثبات میں ایک طرف تو اصحاب حدیث کے نظریہ کو قبول کرلیا اور دوسری طرف ''بلا تشبیہ'' اور بلاتکلیف'' کی قید کو اس میں اضافہ کردیا ۔ وہ کہتے ہیں : ''یقینا خداوند عالم کے دو ہاتھ ہیں، لیکن خدا کے ہاتھ کی کوئی کیفیت نہیں ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے : (بل یداہ مبسوطتان) ، (سورہ مائدہ، آیت ٦٤) ۔
اسی طرح خداوند عالم کے آنکھیں بھی ہیں لیکن ان کی کیفیت بھی معلوم نہیں ہے جیسا کہ فرماتا ہے '' تجری باعیننا ) (سورہ قمر، آیت ١٤) ۔
٢۔ جبر واختیار: اہل حدیث نے قضا و قدر الہی پر اعتقاد رکھنے اور عملی طور پر اس اعتقاد کو انسان کے اختیار کے ساتھ جمع کرنے کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے وہ انسان کے لئے اس کے افعال میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے ، اس وجہ سے وہ نظریہ جبر میں گرفتار ہوگئے ۔ یہ بات ابن حنبل کے اعتقاد نامہ میں ذکر شدہ اعتقاد سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ، جب کہ معتزلہ انسان کے اختیاری افعال میں اس کی مطلق آزادی کے قائل ہیں اور قضا و قدر اور خداوند عالم کے ارادہ کے لئے اس طرح کے افعال میں کسی نظریہ کے قائل نہیں ہیں ۔
اشعری کا نظریہ یہ تھا کہ نہ صرف قضا و قدر الہی عام ہے بلکہ انسان کے اختیاری افعال کو بھی خداوند عالم ایجاد اور خلق کرتا ہے دوسری طرف اس نے کوشش کی کہ انسان کے اختیاری افعال کے لئے کوئی کردار پیش کرے ،انہوں نے اس کردار کو نظریہ کسب کے قالب میں بیان کیا ۔ اشعری کا یہ نظریہ بہت ہی اہم اور پیچیدہ ہے اس لئے ہم اس کو یہاں پر تفصیل سے بیان کرتے ہیں :
''کسب'' ایک قرآنی لفظ ہے اور متعدد آیات میں اس لفظ اور اس کے مشتقات کو انسان کی طرف نسبت دیا گیا ہے ۔ بعض متکلمین منجملہ اشعری نے اپنے نظریات کو بیان کرنے کے لئے اس کلمہ سے فائدہ اٹھایا ہے انہوں نے کسب کے خاص معنی بیان کرنے کے ضمن میں اس کو اپنے نظریہ جبر و اختیار اور انسان کے اختیاری افعال کی توصیف پر ملاک قرار دیا ہے ، اگر چہ اشعری سے پہلے دوسرے متکلمین نے بھی اس متعلق بہت کچھ بیان کیا ہے ۔ لیکن اشعری کے بعد ، کسب کا لفظ ان کے نام سے اس طرح متمسک ہوگیا ہے کہ جب بھی کسب یا نظریہ کسب کی طرف اشارہ ہوتا ہے تو بے اختیار اشعری کانام زبان پر آجاتا ہے ۔
ان کے بعد اشعری مسلک کے متکلمین نے اشعری کے بیان کردہ نظریہ سے اختلاف کے ساتھاپنی خاص تفسیر کو بیان کیا ۔ یہاں پر ہم نظریہ کسب کو اشعری کی تفسیر کے ساتھ بیان کریں گے ۔ ان کے نظریہ کے اصول مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ قدرت کی دو قسمیں ہیں: '' ایک قدرت قدیم'' جو خداوند عالم سے مخصوص ہے اور فعل کے خلق و ایجاد کرنے میں موثر ہے ۔ اور دوسری قسم ''قدرت حادث'' ہے جو فعل کو ایجاد کرنے میں موثر نہیں ہے اور اس کافائدہ یہ ہے کہ صاحب قدرت اپنے اندر آزادی اور اختیار کا احساس کرتا ہے اورگمان کرتا ہے کہ وہ کسی کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہے ۔
٢۔ انسان کا فعل ، خدا کی مخلوق ہے : اشعری کے لئے یہ ایک قائدہ کلی ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے اور تمام چیز منجملہ انسان کے تمام افعال ، خدا کی مخلوق ہیں ۔ وہ تصریح کرتے ہیں کہ افعال کا حقیقی فاعل ، خدا ہے ۔ کیونکہ خلقت میں صرف قدرت قدیم موثر ہے اور یہ قدرت صرف خدا کے لئے منحصر ہے ۔
٣۔ انسان کا کردار، فعل کو کسب کرنا ہے ۔ خداوند عالم ، انسان کے افعال کوخلق کرتا ہے اور انسان ، خداوند عالم کے خلق کردہ افعال کو حاصل کرتا ہے ۔
٤۔ کسب یعنی خلق فعل کا انسان میں قدرت حادث کے خلق ہونے کے ساتھ مقارن ہونا ۔ اشعری خود لکھتے ہیں : '' میرے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ اکتساب اور کسب کرنے کے معنی فعل کا قوت حادث کے ساتھ اور ہمزمان واقع ہونا ہے ۔ لہذا فعل کو کسب کرنے والا وہ ہے جس میںفعل قدرت (حادث) کے ساتھ ایجاد ہوا ہو ۔ مثال کے طور پر جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی آدمی راستہ چل رہا ہے یا وہ راستہ چلنے کو کسب کررہا ہے ، یعنی خداوند عالم اس شخص میں راستہ چلنے کو ایجاد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اندر قدرت حادث بھی ایجاد کررہا ہے جس کے ذریعہ انسان یہ احساس کرے کہ وہ اپنے فعل کو اپنے اختیار سے انجام دے رہا ہے ۔
٥۔ اس نظریہ میںفعل اختیاری اورغیراختیاری میں فرق یہ ہے کہ فعل اختیاری میں چونکہ فعل انجام دیتے وقت انسان میں قدرت حادث ہوتی ہے تو وہ آزادی کا احساس کرتا ہے لیکن غیر اختیاری فعل میں چونکہ اس میںایسی قدرت نہیں ہے وہ جبر اور ضرورت کا احساس کرتا ہے ۔
٦۔ اگر چہ انسان فعل کو کسب کرتا ہے لیکن یہی کسب خدا کی مخلوق بھی ہے ۔ اس بات کی دلیل اشعری کے نظریہ سے بالکل واضح ہے ۔ کیونکہ اولا : گذشتہ قاعدہ کے مطابق ہر چیز منجملہ کسب ، خدا کی ایجاد کردہ ہے ۔ ثانیا : کسب کے معنی انسان میں حادث قدرت اور فعل کے مقارن ہونے کے ہیں، اور چونکہ فعل اور قدرت حادث کو خداوند عالم خلق کرتا ہے ، لہذا ان دونوں کی مقارنت بھی اسی کی خلق کردہ ہوگی ۔ اشعری نے اس مطلب کی تصریح کرتے ہوئے قرآن کریم کی آیات سے تمسک کیا ہے وہ کہتے ہیں : '' اگر کوئی سوال کرے کہ تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ بندوں کے کسب ، خداکی مخلوق ہے تو ہم اس سے کہیں گے کہ کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے : ( خداوند عالم نے تمہیں اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو، خلق کیا ہے ) (سورہ صافات، آیت ٩٦) ۔
٧۔ یہاں پر جو سوال بیان ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسب ،خدا کی مخلوق ہے تو پھر اس کو انسان کی طرف کیوں نسبت دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ انسان کاعمل ہے ۔
اس کے جواب میں اشعری معتقد ہیں کہ مکتسب اور کاسب ہونے کا ملاک ، کسب کرنے کی جگہ ہے نہ کہ کسب کو ایجاد کرنا ۔ مثال کے طور پر جس چیز میں حرکت نے حلول کیا ہے اس کو متحرک کہتے ہیں ، جس نے حرکت کو ایجاد کیا ہے اس کو متحرک نہیں کہتے ۔یہاں پر بھی انسان ،محل کسب ہے اس لئے اس کو مکتسب کہتے ہیں ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ خداوند عالم کی سنت اس بات پر برقرار ہے کہ جب انسان سے اختیاری فعل صادرہوتا ہے تو خداوند عالم اسی وقت قدرت حادث کو بھی انسان میں خلق کردیتا ہے اورانسان صرف فعل اور قدرت حادث کی جگہ ہے یعنی فعل اور قدرت حادث کے مقارن ہونے کی جگہ ہے ۔ اس بناء پر اشعری کا نظریہ انسان کے اختیاری فعل سے جبر کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اگر چہ انہوں نے بہت زیادہ کوشش کی ہے تاکہ وہ انسان کے لئے ہاتھ او رپیر کا کردار ادا کریں لیکن آخر کار وہ اسی راستہ کی طرف گامزن ہوگئے جس پر اکثر اہل حدیث اور جبر کے قائل افراد گامزن ہیں ۔
٣۔ کلام خدا : اہل حدیث معتقد ہیں کہ خداوندعالم کا کلام وہی اصوات اور حروف ہیں جو قائم بذات خدا اور قدیم ہیں ۔
انہوں نے اس موضوع میں اس قدر مبالغہ سے کام لیا ہے کہ بعض لوگوں نے اس کی جلد اور قرآن کے کاغذ کو بھی قدیم سمجھ لیا ۔
معتزلہ بھی کلام خدا کو اصوات اور حروف سمجھتے ہیں لیکن ان کو قائم بذات خدا نہیں سمجھتے اور ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم اپنے کلام کو لوح محفوظ یا جبرئیل، یا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں خلق کرتا ہے اور اس وجہ سے خدا کا کلام حادث ہے ۔
اشعری نے میانہ راستہ اختیار کرنے کے لئے کلام کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے : پہلی قسم وہی لفظی کلام ہے جو حروف اور اصوات میں تشکیل پاتا ہے ،اس متعلق انہوں نے معتزلہ کی بات کو قبول کرتے ہوئے کلام لفظی کو حادث شمار کیا ہے ، لیکن دوسری قسم کلام نفسی ہے اس قسم میں اہل حدیث کی طرح کلام خدا کو قائم بذات اور قدیم شمار کیا ہے ۔ حقیقی کلام وہی کلام نفسی ہے جو قائم بنفس ہے اور الفاظ کے ذریعہ بیان ہوتا ہے ، کلام نفسی واحد اور نامعتبر ہے ۔ جب کہ کلام لفظی تغییر و تبدیل کے قابل ہے ، کلام نفسی کو مختلف عبارات کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے ۔
٤۔ رئویت خدا : اہل حدیث کا ایک گروہ جو مشبھہ حشویہ کے نام سے مشہور ہے ان کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کو آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے، لیکن معتزلہ ہر طرح کی رئویت خدا سے انکار کرتے ہیں ۔ اشعری نے اس متعلق درمیانہ راستہ اختیار کیا تاکہ افراط و تفریط سے محفوظ رہے ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا وندعالم دیکھا ئی دیتا ہے لیکن خدا کو دوسرے اجسام کی طرح نہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ ان کی نظر میں رئویت خدا ، مخلوقات سے مشابہ نہیں ہے ۔ اس متعلق ایک شارح نے لکھا ہے : '' اشاعرہ کا عقیدہ ہے کہ خداوند عالم کے جسم نہیں ہے اور وہ کسی سمت میںنہیں ہے اس بناء پر اس کے چہرہ اور حدقہ وغیرہ نہیں ہے لیکن اس کے باجود وہ چودہویں رات کے چاند کی طرح اپنے بندوں پر ظاہر ہوسکتا ہے اور دکھائی دے سکتا ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے '' ۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تاکید کرتے ہیں کہ '' ہماری دلیل عقل بھی ہے او رنقل بھی ہے لیکن اس مسئلہ میں اصل نقل ہے''۔
اشاعرہ کی دلیل عقلی جو دلیل الوجود کے نام سے مشہور ہے یہ ہے کہ جو چیز بھی موجود ہے وہ دکھائی دے گی مگر یہ کہ کوئی مانع موجود ہو ، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ کسی وجود کا ہونا اس کے رئویت کا تقاضاکرتا ہے اس بناء پر چونکہ خداوند عالم موجود ہے اور اس کے دکھائی دینے کا لازمہ امر محال نہیں ہے پس رئویت خدا ، عقلا ممکن ہے ۔
٥۔ حسن و قبح افعال : معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ افعال میں حسن و قبح ذاتی پایا جاتا ہے اور عقل بھی( کم سے کم بعض موارد میں)اس کے حسن وقبح کو جاننے پر قادر ہے ، بلکہ اصولی طور پر تو یہ افعال کے حسن و قبح واقعی سے انکار کرتے ہیں ۔ کتاب شرح مواقف کے مصنف اس متعلق لکھتے ہیں : '' ہمارے ( یعنی اشاعرہ کے)نزدیک قبیح یہ ہے کہ نہی تحریمی یا تنزیہی واقع ہو اور حسن یہ ہے کہ اس سے نہی نہ ہوئی ہو ،جیسے واجب ، مستحب اور مباح ۔ اور خداوندعالم کے افعال حسن ہیں '' اسی طرح نزاع کی توضیح او ربیان کے وقت حسن و قبح کے تین معنی کرتے ہیں :
١۔ کمال و نقض : جس وقت کہا جاتا ہے : '' علم ، حسن ہے'' اور'' جہل، قبیح ہے'' تو حسن و قبح کے یہی معنی مراد ہوتے ہیں ، اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حسن و قبح کے یہ معنی صفات فی نفسہ میںثابت ہیں اور عقل اس کو درک کرتی ہے اور شرع سے اس کا کوئی ارتباط نہیں ہے ۔
٢۔ غرض سے ملایم و منافر ہونا : اس معنی میں جو بھی غرض اور مراد سے موافق ہے وہ حسن ہے اور جو بھی مخالف ہو وہ قبیح ہے اور جو ایسا نہ ہو وہ نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے ۔ ان دو معنوں کو کبھی ''مصلحت '' اور کبھی ''مفسدہ '' سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اس معنی میں بھی حسن و قبح عقلی امر ہیں اور اغراض و اعتبارات کی وجہ سے بدل جاتے ہیں ، مثلا کسی کا قتل ہوجانا اس کے دشمنوں کے لئے مصلحت ہے اور ان کے ہدف کے موافق ہے لیکن اس کے دوستوں کے لحاظ سے مفسدہ ہے اس بناء پر اس معنی میں حسن و قبح کے معنی اضافی اور نسبی ہیں ، حقیقی نہیں ہیں ۔
٣۔ استحقاق مدح : متکلمین کے درمیان جس معنی میں اختلاف ہوا ہے وہ یہی تیسرے معنی ہیں ، اشاعرہ حسن و قبح کو شرعی سمجھتے ہیں ، کیونکہ اس لحاظ سے تمام افعال مادی ہیں اور کوئی بھی فعل خود بخود مدح و ذم یا ثواب و عقاب کا اقتضاء نہیں کرتا ہے اور صرف شارع کی امر و نہی کی وجہ سے ایسی خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے ، لیکن معتزلہ کے نظریات کے مطابق یہ معنی بھی عقلی ہیں ، کیونکہ فعل خود بخود ، شرع سے چشم پوشی کرتے ہوئے یا حسن ہیں جس کی وجہ سے اس فعل کا فاعل مدح اور ثواب کا مستحق ہے ، یا قبیح ہے جس کی وجہ سے اس فعل کا فاعل عقاب اور برائی کامستحق ہے ۔
٦۔ تکلیف ما لا یطاق : تکلیف ما لا یطاق کے معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم اپنے بندہ کو ایسے فعل کی تکلیف دے جس کو انجام دینے پر وہ قادر نہیں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کو ایسی تکلیف دینا جائز ہے؟ اور اس کے ترک کرنے پر عقاب کرنا جائز ہے؟ یہ بات واضح ہے کہ اس مسئلہ میں فیصلہ کرنے کے لئے مسئلہ حسن و قبح کی طرف مراجعہ کرنا پڑے گا ، معتزلہ چونکہ حسن وقبح کو عقلی سمجھتے ہیں لہذا وہ اس طرح کی تکلیف کو قبیح اور محال سمجھتے ہیں اور خداوند عالم کی طرف سے ایسی تکلیف کے صادر ہونے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ لیکن اشاعرہ چونکہ حسن وقبح کے عقلی ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے اور کسی چیز کو خداپرواجب نہیں سمجھتے ہیں اس لئے ان کا نظریہ ہے کہ خداوند عالم ہر کام منجملہ تکلیف ما لا یطاق کو بھی انجام دے سکتا ہے اور اس کی طرف سے جو عمل بھی صادر ہو وہ عمل نیک ہے ۔
مذہب اشعری کا استمرار
ابوالحسن اشعری کے مذہب کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ شروع میں علمائے اہل سنت نے ان کے نظریات کو قبول نہیں کیا اور ہر جگہ ان کی بہت زیادہ مخالفت ہوئی ، لیکن عملی طورپر ان مخالفتوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا اور مذہب اشعری آہستہ آہستہ اہل سنت کی فکروں پر غالب آتا گیا ، ابوالحسن اشعری کے بعد سب سے پہلی شخصیت جس نے اس مذہب کو آگے بڑھا یا وہ ابوبکر باقلانی (متوفی ٤٠٣ ھ) ہے ، انہوں نے ابوالحسن اشعری کے نظریات کو جو کہ دو کتابوں ''الابانہ و اللمع'' میں اجمالی طور سے موجود تھے، ان کی اچھی طرح شرح کی اور ان کو ایک کلامی نظام کی شکل میں پیش کیا ۔
لیکن اشعری مذہب کو سب سے زیادہ امام الحرمین جوینی (متوفی ٤٧٨ھ) نے وسعت بخشی ۔ خواجہ نظام الملک نے بغداد کا مدرسہ نظامیہ تاسیس کرنے کے بعد (٤٥٩ھ)میں جوینی کو تدریس کے لئے وہاں بلایا ۔ جوینی نے تقریبا تیس سال تک اشعری مذہب کی ترویج کی اور چونکہ یہ شیخ الاسلام اور مکہ و مدینہ کے امام تھے اس لئے ان کے نظریات کو پورے عالم اسلام میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ جوینی کے آثار کے ذریعہ اشعری مذہب بہت زیادہ پھیلا، یہاں تک کہ اہل سنت معاشرہ میں ان کے کلام کو ترجیح دی جانے لگی۔
جوینی نے اشعری کے نظریات کو عقلی اوراستدلالی رنگ دیا اور امام فخر رازی (متوفی ٦٠٦ھ) نے اشعری مذہب کو عملی طور پر فلسفی رنگ دیا ۔ امام فخر رازی نے اشعری کے مذہب سے دفاع اور ان کے مذہب کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ ابن سینا کے فلسفی نظریات پر انتقاد کیا ۔ دوسری طرف امام محمد غزالی (متوفی ٥٠٥ھ) جو کہ جوینی کے شاگرد تھے، نے تصوف کو اختیار کرلیا اور اشعری کے نظریات کی عرفانی تفسیر پیش کی ۔ انہوں نے ایک اہم کتاب احیاء العلوم لکھ کر تصوف اور اہل سنت کے درمیان ایک ارتباط برقرار کردیا ۔
افغانستان سے تمام بيروني افواج کي واپسي پر زور
اسلامي جمہوريہ ايران نے کہا ہے کہ افغانستان کے بحران کا حل يہي ہے کہ وہاں سے امريکي اور غير ملکي فوجيں نکل جائيں -
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے جو پاکستان کے دورے پر ہيں کراچي ميں سينئر صحافيوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ملاقات ميں کہا کہ افغانستان کو بدامني اور دہشت گردي کا جو چيلنج اس وقت درپيش ہے اس کا مقابلہ وہاں سے غيرملکي فوجوں کے انخلاء کي صورت ميں ہي کيا جاسکتا ہے انہوں نے دوہزار چودہ تک افغانستان سے غير ملکي فوجوں کے انخلاء کے بارے ميں کہا کہ امريکا نے دہشت گردي کا صفايا کرنے کے بہانے پر افغانستان پر لشکر کشي کي تھي اور علاقے ميں داخل ہوا تھا ليکن آج ايسے ثبوت پائے جاتے ہيں کہ دہشت گرد گروہوں کا سي آئي اے سے رابطہ ہے –
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ علاقے کے ملکوں کي مشکلات کي اصل وجہ غيرملکي قوتوں کي موجودگي ہے کہا کہ اگر اغيار علاقے ميں امن قائم کرنا چاہتے ہيں تو علاقے کو اس کے حال پر چھوڑ دينا چاہئے تا کہ علاقے کے ممالک آپسي تعاون سے علاقے کے درپيش چيلنجوں کا مقابلہ کرسکيں اور ان قابو پائيں -
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ امريکي حکام کے پيش نظر صرف علاقے ميں صيہوني حکومت کے مفادات کي حفاظت کرنا ہے اور وہ اسلامي ملکوں کے درميان اختلاف پيدا کر کے صيہوني حکومت کي حمايت کرني بھرپور کوشش کررہے ہيں –
ايران کي وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تہران علاقے کے سبھي بحرانوں منجملہ افغانستان کو درپيش سيکورٹي اور دہشت گردي کے چيلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے راہ حل پيش کرنے کے لئے تيار ہے اور ايران سمجھتا ہے کہ علاقے کے ملکوں کا تعاون ہي علاقے کي مشکلات کے حل کا بہترين طريقہ ہے -
فرقہ اسماعیلیہ
اسماعیل کی وفات کے بعد تقریبا ڈیڑھ صدی تک اسماعیلوں کے ائمه پوشیدہ رہے اورتاریخ اسماعیلیہ میں اس دوران کو دورہ ”ستر“ کہتے ہیں ۔ اس زمانہ میں ان کے امام کا نام اور جگہ صرف انہی لوگوں کو معلوم ہوتی تھی جو ان کے زیادہ نزدیک اور معتبر ہوتا تھا
پوشیدہ ائمہ :
اسماعیل کی وفات کے بعد تقریبا ڈیڑھ صدی تک اسماعیلوں کے پوشیدہ رہے اور تاریخ اسماعیلیہ میں اس دوران کو دورہ ”ستر“ کہتے ہیں ۔اس زمانہ میں ان کے امام کا نام اور جگہ صرف انہی لوگوں کو معلوم ہوتی تھی جو ان کے زیادہ نزدیک اور معتبر ہوتا تھا اوردوسرے اسماعیلیوں کو اپنے پوشیدہ امام کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا تھا ، لہذا پوشیدہ (مستور) ائمہ کے متعلق اطلاعات بہت کم ہیں ، مورخین کے نزدیک اس عصر کے ائمہ کے ناموں میں بھی اختلاف ہے ، فاطمیون کے عقیدہ کے مطابق پوشیدہ ائمہ کے نام یہ ہیں : محمد بن اسماعیل ، عبداللہ، احمد حسین و عبیداللہ ۔
دروز کی روایت کے مطابق : محمد بن اسماعیل دوم، محمد دوم، احمد ، عبداللہ ، محمد سوم، حسین، احمد دوم و عبیداللہ (پانچ اماموں کے بجائے نو (۹) امام۔
نزاریہ کی روایت کے مطابق : محمد بن اسماعیل ،احمد ، محمد دوم،عبداللہ اور عبیداللہ۔ لیکن اکثر اسماعیلی مورخین نے اسماعیل کے بعد مستور (پوشیدہ) ائمہ کے نام اس طرح بیان کئے ہیں : محمد بن اسماعیل، عبداللہ بن محمد، احمد بن عبداللہ، حسین بن احمد جو کہ پردہ میں آخری امام ہیں(۱) ۔
روسی محقق نے لکھا ہے : دوسری اورتیسری صدیوں کے درمیان اسماعیلیہ دو فرقوں میں تقسیم ہوگئے ،ان میں سے ایک پہلے کی طرح محمد بن اسماعیل اعقاب کی موت کے بعد ان کو پوشیدہ امامت کے عنوان سے قبول کرتا رہا اور چوتھی صدی کے بعد اس گروہ کو اسماعیلیہ فاطمیہ کہا جاتا تھا ۔ دوسرے گروہ کے ماننے والوں کا عقیدہ تھا کہ بہت سے ائمہ کی تعداد بھی انبیاء مرسل (آدم، نوح، ابراہیم، موسی، عیسی اورحضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)) کی طرح سات سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ، اسی وجہ سے محمد بن اسماعیل کو آخری امام شمار کرتے ہیں ۔ ان کے عقیدہ کے بعد محمد بن اسماعیل کے بعد کوئی امام نہیں آئے گا ۔ اور اب صرف ساتھویں پیغمبر قائم المہدی کے منتظر رہنا چاہئے جو کہ قیامت سے کچھ عرصہ پہلے ظہور کریں گے ۔ یہ فرقہ جو کہ صرف ساتھ اماموں کو قبول کرتا ہے ”سبعیہ“(سات امامی) کے نام سے مشہور ہے اور مدتوں بعد تیسری صدی میں ان کو ”قرمطیان“ کے نام سے پکارا جانے لگا۔
وہ مزید کہتے ہیں : ایک مدت تک اسماعیلیوں کی تقسیم قطعی اور یقینی نہیں تھی ،کیونکہ ائمہ مستور (پوشیدہ) کو ضخیم پردوں میں چھپا رکھا تھا اور پوشیدہ ائمہ کا باہر کے لوگوں سے مستقیم کوئی رابطہ نہیں تھا ، یہاں تک کہ کوئی ان کا نام تک نہیں جانتا تھا ، اس بناء پردہ میں پوشیدہ امام کو قبول کرنے یاقبول نہ کرنے کی وجہ سے ان دونوں فرقوں میں کوئی اختلاف یا دشمنی نہیں ہوتی تھی اور ان سب کوعام طور سے کبھی اسماعیلی اور کبھی ”سبعیہ“ اور کبھی ”قرمطیہ“ کہتے تھے ۔ اور چوتھی صدی کے شروع تک یہی حالت باقی رہی (۲) ۔
مورخین نے عام طور سے پوشیدہ ائمہ کے متعلق اپنی اطلاعات کو اسماعیلی بہت بڑے مورخ داعی ادریس عماد الدین بن حسن (متوفی ۸۷۳) مولف کتاب ”عیوان الاخبار“ سے حاصل کی ہیں ۔اور ان معلومات کے صحیح اور غلط ہونے کے متعلق کوئی علم نہیں ہے ، کیونکہ اس زمانہ میں اسماعیلی ائمہ تقیہ کی بناء پر پردہ میں زندگی بسر کررہے تھے اور ان کی حقیقت سے کوئی بھی باخبر نہیں تھا (۳) ۔
مستودع اور مستقر امام :
اسماعیلیوں کی اصطلاح میں امام کی دو قسمیں ہیں : ایک امام مستودع اور دوسرے امام مستقر: امام مستودع وہ امام ہے جو امام کا سب سے بڑا بیٹا ہو، وہ امامت کے تمام اسرار سے واقف ہوتا ہے اور جب تک وہ امام ہے اس وقت تک اپنے زمانہ کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے اور اس کو اپنی اولاد کو امامت سپرد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، کیونکہ اس راستہ سے سادات کے علاوہ کوئی دوسرا امام نہیں ہوسکتا اور امامت اس کے پاس امانت اور ودیعہ ہوتی ہے ۔
لیکن امام مستقر وہ ہوتا ہے جس کو امامت کے تمام امتیازات حاصل ہوتے ہیں اور امامت کے تمام حقوق اس کو تفویض کئے جاتے ہیں اور وہ بھی ان حقوق کو اپنے جانشینوں کو عطا کرتا ہے (۴) ۔
اس قانون کے مطابق بعض داعیان ،امام کے القاب اور وظایف کو حاصل کرتے تھے اور اس وقت حقیقی امام پردہ میں رہ کر ان کے اعمال پر نظر رکھتا تھا اور پوشیدہ مام کسی خطرہ میں پڑے عمومی افکار کی ہدایت کرتا تھا ، اس وجہ سے اسماعیلیوں کی بعض کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ مشہور رسائل اخوان الصفا کے مصنف امام احمد نے داعی ترمذی کو حکم دیا کہ وہ اپنے آپ کو ملاء عام میں امام کے عنوان سے تعارف کروائیں اوراس راستہ میں شہادت کی حد تک آگے بڑھیں، تاکہ اس متعلق ضروری تجربہ حاصل ہوجائے (۵) ۔
جوینی نے کہا ہے : اسماعیلیوں نے کہا ہے کہ کوئی بھی عالم بغیر امام کے نہیں ہے اور جو بھی امام ہو اس کا والد بھی امام ہوگا اور اس کا والد بھی اسی طرح جتنا بھی اوپر چلے جائیں سب امام ہوں گے ،یہاں تک کہ آدم تک کہ یہ سلسلہ آدم تک پہنچ جائے ۔ پس امام ،امام ہے اور اس کا بیٹا آخر تک امام ہوگا اور اس امام کو اس وقت تک موت نہیں آئے گی جب تکہ اس کے بیٹے کی ولادت نہ ہوجائے اور پھر وہ بیٹا امام ہوگا ، یا اس کے صلب سے جدا ہوجائے اور کہتے ہیں کہ اس آیت ”ذریةبعضھا من بعض“ اور اس آیت ”وجعلھا کلمة باقیة فی عقبہ“ کے معنی یہی ہیں اور شیعہ اسی پر حجت قائم کرتے ہیں اور حسن بن علی امام تھے لیکن تمام شیعوں کے نظریات کے مطابق ان کی اولاد امام نہیں ہوئی ،کہتے ہیں کہ ان کی امامت مستودع تھی یعنی ثابت نہیں تھی اور ان کو امامت عاریہ میں ملے تھی ،امام حسین (علیہ السلام) امام مستقر تھے ۔ آیت ”فمستقر و مستودع“ میں اسی بات کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ امام ہمیشہ ظاہر نہیں ہوتا ،ایک مدت تک ظاہر رہتا ہے اورایک مدت تک غائب ،جس طرح روز و شب ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں ۔ ایک زمانہ میں امام کو ظاہر ہونا چاہئے شاید اس کی دعوت پوشیدہ ہو ،لیکن جس زمانہ میں امام پوشیدہ ہو اس زمانہ میں اس کی دعوت ظاہر ہونا چاہئے ،اس کے داعی لوگوں کے درمیان معین ہوں، تاکہ مخلوق کو خدا کے اوپر حجت نہ ہو ۔ پیغمبروں کے پاس کتابیں ہوں اور ائمہ اصحاب تاویل ہیں، اورکوئی بھی زمانہ اور انبیاء کا کوئی بھی زمانہ امام سے خالی نہیں رہا ․․․ اسلام سے پہلے ”ستر“ (پوشیدہ) کا زمانہ تھا اورائمہ پوشیدہ تھے اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے زمانہ سے ائمہ ظاہر ہونے لگے اور ان کے زمانہ سے اسماعیل اور محمد بن اسماعیل کے زمانہ تک ظاہر رہے اور پوشیدہ ہونے کا زمانہ اسماعیل سے شروع ہوا اور محمد تک جو کہ آخری امام ہیں پردہ میں پوشیدہ رہیں گے اور ان کے بعد بھی امام مستور رہیں گے یہاں تک کہ ظاہر ہوجائیں اور کہتے ہیں کہ موسی بن جعفر، اسماعیل کے فادی النفس تھے ،علی بن موسی الرضا ، محمد بن اسماعیل سے فادی النفس تھے۔حضرت ابراہیم ، ذبح اور ”،فدیناہ بذبح عظیم“ کا واقعہ اس صورت کی طرف اشارہ تھا (۶) ۔
استاد تریتون (۷) لکھتے ہیں : مستودع کی اصطلاح اور امامت کا ودیعہ ہونا شیعہ غلات کے درمیان مشہور تھا ۔ لیکن مستودع کو ”الامام الحفیظ“ بھی کہتے ہیں ، کیونکہ خطروں کے وقت وہ امامت کے لقب کو قبول کرتے تھے تاکہ امام حق پردہ استتار میں محفوظ رہے (۸) ۔
یمن کے داعیوں میں سے ایک داعی سیدنا الخطاب بن حسن حسین بن ابی الحافظ حمدانی (متوفی ۵۳۳) کی کتاب ”غایة الموالید“ میں نقل ہوا ہے : امام جعفر صادق کی مرجعیت سے جو چیز مربوط ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے امامت (امر) کواپنے بیٹے اسماعیل کو تفویض کیا تھا اوراسماعیل نے غیبت اختیار کرلی، امامت ان کے پاس سے واپس نہیں ہوہوگی (شیعہ دوازدہ امامی کے عقیدے کے برعکس) اور ہرگز کسی دوسرے کو کبھی بھی تفویض نہیں ہوگی۔ اس (اسماعیل) نے اپنے بیٹے کو میمون القداح جو کہ حجت تھے ، کے پاس ودیعہ کے طور پر رکھدیا ، انہوں نے بچپنے میں اس کو پوشیدہ رکھا اور اس کو اپنی نظارت میں پرورش کی اور ان کے بزرگ ہونے تک ان کی حمایت کرتے رہے ۔ جس وقت وہ (محمد بن اسماعیل) بڑے ہوگئے تو انہوں نے اپنا ودیعہ دریافت کیا ۔ امامت ان کی نسل میں جاری رہی اور باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ علی بن حسین بن احمد بن محمد بن اسماعیل امام ہوئے اور ان کے ذریعہ آفتاب طلوع ہوا۔ (یعنی مغرب میں فاطمی خلافت برقرار ہوگئی) جس وقت شمال افریقہ اور یمن میں یہ آفتاب طلوع ہوا تو علی بن حسین افریقہ شمالی کی سر زمین پر خدا کے والی مستقر ہوئے ۔ جس وقت انہوں نے شام پہنچ کر غیبت کی تو اپنی حجت سعید الخیر معروف بہ المہدی کو اپنا جانشین بنایا۔ سعید نے دعوت کے اصولوں کو جاری کیا ،پھرسجلماسہ میں دشمنوںخصوصا افریقہ شمالی کے حکام کی طرف سے کچھ چیزں ان کے پاس آئیں اورخداوند عالم نے اپنے ولی کی مدد کی اور جس وقت مہدیہ میں ان کا انتقال ہوا تو سعید نے اپنا ودیعہ ، امام مستقر کو تفویض کردیا اور محمد بن علی القائم بامر اللہ اس کے مالک ہوگے اور پھر امامت ان کی نسل میں جاری رہی (۹) ۔
امامت کو دو قسموں مستودع اور مستقر میں تقسیم کرنے سے ہمارے سامنے یہ احتمال آتا ہے کہ ائمہ قداحی یا وہ ائمہ جو عبداللہ بن میمون قداح کی اولاد سے دورہ ”ستر“ میں امام ہوئے وہ سب مستودع یا حفیظ امام تھے۔ اس وجہ سے ”دروز“ کے جدول میں جواماموں کے نام آئے ہیں ان سے ائمہ مستودع کی طرف اشارہ ہے جن کا شمار ان کی اولاد میں ہوتا ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ”ائمہ دروز“ کا شجرہ اسماعیلیہ کے جدول کے ناموں پر حاوی ہے اور سعید بن عبیداللہ جو خطروں کے زمانہ کا امام ہے وہ قداحیوں کا آخری امام شمارہوتا ہے ان کی وفات کے بعد ابوالقاسم محمد القائم ان کی جگہ پر بیٹھا اور وہ ان کا بیٹا نہیں تھا اور وہ مستقر تھا ان سے پہلے سعید ،مستودع امام کا عہدیدار تھا (۱۰) ۔
دروزی کی کتابوں اور غایة الموالید کے ذریعہ پوشیدہ ائمہ کی دو نسلوں کو پیش کیا جاسکتا ہے : ایک ائمہ علوی یا مستقر اور دوسرے ائمہ قداحی یا مستودع:
۱۔ ائمہ علوی یا مستقر : محمد بن اسماعیل ، احمد ،حسین، علی (معلی)محمد (القائم) (۱۱) ۔
۲۔ ائمہ قداحی یا ائمہ مستودع : عبداللہ،محمد، حسین، احمد ، سعید (۱۲) ۔ ان دونوں فہرستوں کے ذریعہ سات ”فلک“ کی فہرست جوکہ ”دروزی“ کے رسالہ تقسیم العلوم(۱۳) میں بیان ہوئی ہے، درک کیا جاسکتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ اسماعیل، ۲۔ محمد ، ۳۔ احمد، ۴۔ عبداللہ، ۵۔ محمد ، ۶۔ حسین ، ۷۔ احمد (سعید کے والد) ۔
ان میں شروع کے تین ناموں کے علاوہ سب کے سب میمون القداح کی نسل سے ہیں اور ان کو امام مستودع کہا جاتا ہے ۔شروع کے تین افراد کا شمار ائمہ مستقر علوی میں ہوتا ہے ، اس بناء پر یہ فاطمی خلفاء کے اجداد علی المعل میں شمار ہوتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ کی یہ دونوں نسلیں مولفین اورمصنفین کو شک میں ڈال دیتی ہیں اوران کی اطلاعات کو غلط کردیتی ہیں،لہذانہوں نے مختلف نسب نامے پیش کئے ہیں (۱۴) ۔
اسماعیلیوں کے مختلف القاب
فرقہ اسماعیلیہ کے مختلف القاب و عناوین ہیں ، جیسے : باطنیہ ، قرامطہ،تعلیمیہ،فاطمیہ ، سبعیہ، ملاحدہ ، حشیشیہ ، نزاریہ، مستعلویہ اور سفاکین۔
اسماعیل بن جعفر کی پیروی کرنے کی وجہ سے ان کو ”اسماعیلیہ کہا جاتا ہے اور چونکہ یہ کہتے تھے کہ قرآن وسنت کی ہر چیز میںظاہر و باطن ہے اورظاہر بجائے کھال اور باطن بجائے مغز ہے اس لئے ان کو باطنیہ کہتے ہیں اور ان میں سے بعض گروہ ”حمدان قرامط “کی پیروی کرتے تھے اس لئے ان کو ”قرامطہ “ کہا جاتا تھا۔ ”تعلیمیہ“ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حقیقی تعلیم کو فقط امام زمانہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ ان کو ”فاطمی“ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ان کے تمام ائمہ، فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اولاد سے ہیں۔
اور ان کو ”سبعیہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ ائمہ کو شمار کرنے میں سات دور کے قائل تھے اور ساتویں امام کو آخری ادوار سمجھتے تھے ۔” ملاحدہ“ کا لقب ان کے دشمنوں نے خصوصا ایران میں اسماعیلیوں کو دیا تھا اور یہ ملحد کی جمع ہے ، اس کے معنی بے دین کے ہیں ۔
ان کو ”حشیشیہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ حسن صباح اور اس کے جانشین ، اسماعیلیوں کو حشیش کھلا کر اپنے مخالفین کو قتل کرنے پر مجبور کرتے تھے ، ان کو ”نزاریہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ اسماعیلیوں کا ایک گروہ ”مستنصر فاطمی“ کے بڑے بیٹے ”نزار“ کا طرفدار تھا۔ان کو ”مستعلویہ“ اس لئے کہتے ہیں کہ اسماعیلیوں کا ایک گروہ ”مستنصر فاطمی“ کے بیٹے ”مستعلی“ کی امامت کا قائل تھا(۱۵) ۔
اسماعیلیوں کے فرقے
عصر حاضرمیں اسماعیلیہ دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں :
۱۔ اسماعیلیہ نزاری جو کہ حسن صباح سے مربوط ہیں اور اب شام (مصیصہ علاقہ) میں ، عمان مں اور ایران کے بعض علاقوں (محلات کے پہاڑی علاقوں) میں اور شمال افغانستان میں موجود ہیں ، آج کے بدخشان (افغانستان کے شمال مشرق ) میں تمام لوگ نزاریان سے تعلق رکھتے ہیں ، بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تک تاجیکستان کے مشرق کے تمام لوگ اور پامیر(جو کہ آج پہاڑی علاقہ بدخشان کے خود مختار علاقہ کے نام سے پکارا جاتا ہے )کے تمام لوگ نزاری تھے۔
روسی محقق پطروشفکی نے لکھا ہے : نزاریان کا اصلی مرکز ہندوستان منتقل ہوگیا ، ان لوگوں نے تیری صدی عیسوی سے ہندوستان مہاجرت کرنا شروع کیا ، خصوصا سولہویں صدی سے انیسویں صدی تک انہوں نے بہت زیادہ ہجرت کی ،ان کے راہنما جو کہ عام طور سے اپنے اس عہدہ کو میراث میں حاصل کرتا ہے، لقب ”آقا خان“ ہے اور یہ بمبئی کے نزدیک زندگی بسر کرتے ہیں ، آقا خان اول نے ۱۳۳۸ عیسوی میں ایران (محلات کے علاقہ)سے ہندوستان ہجرت کی اوران کے مذہب میں آقاخان کی نسل کو نئی امید سمجھا جاتا ہے ، نزاریہ ،آج کے آقا خان (کریم) کو امام علی (علیہ السلام) کے بعد اڑتالیسواں امام سمجھتے ہیں۔
کریم آقا خان کے پاس کروڑوں روپے کی زمین ہے ، تمام نزاری ان کو اپنی درآمد کا دسواں حصہ (عِشر) ادا کرتے ہیں ، اس کے مرکز سے آج بھی بہت سے داعی اور مبلغ دوسرے شہروں میں تبلیغ کیلئے جاتے ہیں اور یہ خود بھی افریقہ میں تبلیغ کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں تقریبا ڈھائی لاکھ نزاری زندگی بسر کرتے ہیں (۱۶) اس گروہ میں تقریبا دس لاکھ افراد ہیں جو ایران، ایشیا اور افریقہ میں منتشر ہیں (۱۷) ۔
۲۔ معتدلی اسماعیلی جو ”مستعلوی“ سے تعلق رکھتے ہیں وہ آج بھی یمن اور ہندوستان میں زندگی بسر کرتے ہیں ہندوستان (گجرات) میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ افراد ”مستعلیہ“ سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کو وہاں پر ”بُہرہ“ یعنی تجارت کرنے والے کہا جاتا ہے ،ان کا موجودہ بادشاہ مولانا سیف الدین ہے (۱۵) ۔ جزیرة العرب، سواحل خلیج فارس،حماة، لاذقیہ میںزندگی بسر کرتے ہیں (۱۹) ۔
البتہ یہ اصطلاح فقط مسلمانوں میں منحصر نہیں ہے جیسا کہ ۱۹۰۱ کی مردم شماری سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ۶۶۵۳ ، اور چین میں ۲۵ افراد ”بُہرہ“ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے ۔
بُہرہ دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں ،ان میں سے اہم گروہ شیعہ تاجروں سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا گروہ دیہاتی اورکسانوں سے تعلق رکھتا ہے اور یہ اکثر و بیشتر اہل سنت ہیں ۔ ”گجرات کے راندیر کے اہل سنت ”برما“ سے تجارت کرتے ہیں اور ان کا شمار ثروت مندوں میں ہوتا ہے ۔ اسماعیلی بُہرہ کے بعض خاندان دعوی کرتے ہیں کہ ان کی نسل سعودی عرب سے چلی ہے (۲۱) ۔
البتہ ہندوستان کے بُہروں کے اجداد و غیرہ نے اسماعیلی داعی اور مبلغین کے ذریعہ اس مذہب کو اختیار کیا ہے ان کے ایک مشہور داعی کا نام عبداللہ تھا جس کو امام مستعلی کے ذریعہ ہندوستان میں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ۱۰۶۷ میں مغرب ہندوستان کے ایک شہر کامبای میں زندگی بسر کی اور وہاں پر بہت زیادہ تبلیغ کی ، یہ واقعہ ”الترجمة الظاہرة لفرقة البھرة الباھرة“ نامی کتابی میں لکھا ہوا ہے اور اس کے بعض نسخہ بمبئی کے کتابخانہ میں موجود ہیں اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا ہے (۲۲) ۔
اس فرقہ کا رہبر ۱۵۳۹ تک یمن میں مقیم تھا اور بُہرہ اس کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور اس کو (عِشر) دوسواں حصہ ادا کرتے تھے اور اپنے کاموں میں اس سے مشورہ کرتے تھے ، ان تمام باتوں کے باوجود ”یوسف بن سلیمان“ نے ۱۵۳۹ عیسوی میں ہندوستان ہجرت کی اور بمبئی میں قیام کیا ۔ داؤد بن قطب شاہ داعی کے مرنے کے تقریبا پچاس سال بعد اس فرقہ میں دوسرے بہت سے فرقہ پیدا ہوگئے ۔ گجرات کے بُہرہ جن کی تعداد بہت زیادہ تھی ، داؤد بن قطب شاہ کو اپنا جانشین انتخاب کرلیا اور اس کو منتخب کرنے کی دلیل یمن میں اپنے ہم مسلک افراد کو بھیج دی ، لیکن بعد میں اس فرقہ کے بعض اشخاص نے سلیمان نامی شخص کو جس نے دعوی کیا تھا کہ وہ داؤد بن قطب شاہ کا اصلی جانشین ہے ، حمایت کی ۔ یہ سند آج بھی سلیمانی کے اختیار میں ہے لیکن اس کے صحیح اور غلط ہونے کے متعلق آج تک کوئی قانونی اور علمی تحقیق نہیں ہوئی ہے (۲۳) ۔
اسماعیلیوں کے دونوں فرقہ (نزاری اور مستعلوی) آج اپنے بزرگوں کے برخلاف مسالمت آمیز فرقوں میں تبدیل ہوگئے اور ان میں آج کوئی مشترک رابطہ نہیں پایا جاتا ۔ ساتویں نزاری امام محمد شاہ آقا خان جس کا بھی جلدی ہی انتقال ہوا ہے ، برطانیہ میں علم حاصل کیا تھا اس نے ہندوستان میں برطانیہ حکومت کی بہت زیادہ خدمت کی اور اس کو برطانیہ کی طرف سے ”سر“ کا لقب بھی ملا (۲۴) ۔
ان دونوں فرقوں کے درمیان ”براون“ کسی فرق کا قائل نہیں ہے اس کاعقیدہ ہے کہ ان کے دونوں فرقہ ”المستنصر“ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ مصر کے فاطمی خلفاء کا آخری خلیفہ تھا ، بُہرہ،مستعلی کے معتقد اور آغا خانی جو کہ نزاریہ سے پہچانے جاتے ہیں ، مستنصر کے بڑے بیٹے نزاریہ کی پیروی کرتے ہیں (۲۵) ۔
ان دونوں فرقوں میں دوسرے فرقہ بھی اضافہ ہوے ہیں جیسے دروزی وغیرہ۔ دروزی ایک مستقل فرقہ ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ ”حضرت آدم کی روح امام علی بن ابی طالب میں اور علی بن ابی طالب کی روح فاطمی خلفاء میں منتقل ہوگئی ہے ، اسی طرح ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے(۲۶) ۔
ان دو فرقوں کے علاوہ اسماعیلیوں کے اہم ترین فرقے مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ آغا خانی : یہ نزاریہ کے باقی بچے ہوئے افراد ہیں اور چونکہ ان کے امام کا نام آغا خان تھا اس لئے ان کو آغا خانی کہاجاتا ہے (۲۷) ۔
۲۔ ابوسعیدیہ : ابوسعید حسن بن بہرام الجنابی کے پیرو کار وں کو ابوسعیدیہ کہا جاتا ہے یہ شخص ایرانی الاصل تھا اور اس کی پیروی کرنے والے بدو عرب، نبطیان اور ایرانی تھے ، انہوں نے بحرین کے احساء علاقہ میں اپنی حکومت بنائی اور اس کا پایتخت ہجر کو قرار دیا ، آخر کار ۳۰۱ ہجری میں اس کے ایک نوکر نے حمام میں قتل کردیا (۲۸) ۔
۳۔ برقعیہ : اسماعیلی فرقہ میں محمد بن علی برقعی کے ماننے والوں کو برقعیہ کہا جاتا ہے ، محمد بن علی برقعی نے ۲۵۵ ہجری میں اہواز میں قیام کیا اور اپنے آپ کو علویوں سے منسوب کیا جب کہ وہ خود علوی نہیں تھا ، بعض علویوں نے اس کی ماں سے نکاح کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اپنی ماں کے شوہر سے منسوب کرتا تھا ، بعد میں یہ خوزستان، بصرہ اور اہواز پر والی ہوگیا۔ عباسی خلیفہ معتضد نے ایک لشکر بھیجا اور اس کو سکشت دی ، آخر کار ۲۶۰ ہجری میں اس کو اسیر کرکے بغداد لے گئے ، معتضد نے اس کو قتل کرکے سولی پر لٹکا دیا (۲۹) ۔
۴۔ خطابیہ : غلات اور اسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہ ابوالخطاب محمد بن ابی زینب اجدع کوفی کے اصحاب تھے جو ابوالخطاب کی نبوت کے قائل تھے اور کہتے تھے کہ ائمہ ،پیغمبری کے عہدے پر پہنچنے کے بعد الوہیت کے رتبہ پر فائز ہوتے ہیں ، یہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو خدا سمجھتے تھے ، ابوالخطاب، عباسی خلیفہ منصور کے ہم عصر تھا اوراس کے حکام کے ذریعہ قتل ہوا (۳۰) ۔
۵۔ خلیطہ : جو کچھ قرآن مجید اور احادیث میں نماز، روزہ، زکات، اور حج وغیرہ کے متعلق بیان ہوا ہے ان سب کو ان کے معانی پر محمول کرتے تھے اور اس کے دوسرے معنی مراد نہیں لیتے تھے ، قیامت ، بہشت اور دوزخ کا انکار کرتے تھے (۳۱) ۔
۶۔ باسماعیلی فرقہ سے تعلق رکھنے والے بُہرہ: یہ مغرب ہندوستان میں زندگی بسر کرتے ہیں اور یہ اکثر و بیشتر ہندو ہیں جو یمنی اعراب سے مخلوط ہوگئے ہیں ، یہ فرقہ مستعلویہ کے باقی بچے ہوئے افراد ہیں ،ان کے مخالف نزاریہ اور آغا قانی ان کو ہندوستان میں ”خوجہ“ کہتے ہیں (۳۲) ۔
۷۔ خنغریہ : یمن میں علی بن فضل الخنغری داعی اسماعیل کے ماننے والوں کو خنغریہ کہتے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ یہ تمام محرمات کو حلال سمجھتے تھے ، مسجدوں کو خراب کیا اور نبوت کی دعوت دی (۳۳) ۔
۸۔ تعلیمیہ : اسماعیلی دوسرے فرقہ کا نام تعلیمیہ ہے : یہ عقلیات کو حجت قرار نہیں دیتے اور مجبورا حقایق کو معصوم کے ذریعہ سیکھتے ہیں : اسماعیلیہ کو اکثر و بیشتر خراسان میں تعلیمیہ کہتے تھے (۳۴) ۔
۹۔ دروزیہ : ان کانام کلمہ ”دروزی“ ، اس گروہ کے موسس کے نام سے لیا گیا ہے ، اس مذہب کا موسس حمزة بن علی دروزی تھا جو فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ کو خدا کی روح سمجھتا تھا ، اس وقت یہ لوگ لبنان اور شام میں مقیم ہیں اور ان کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے اور یہ اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں (۳۵) ۔
۱۰۔ صباحیہ : حسن بن صالح کے ماننے والوں کو صباحیہ کہا جاتا ہے (۳۶) ۔
۱۱۔ عبیداللھیہ : عبیداللہ مہدی اور ان کی اولاد کی الوہیت کے قائل تھے(۳۷) ۔
۱۲۔ غیاثیہ : ”غیاث “ سے منسوب ہیں یہ شخص ادیب اور شاعر تھا اور اصول اسماعیلیہ میں ایک کتاب ”بیان“ کے نام سے تحریر کی ۔ وضو، نماز، روزہ اور دوسرے احکام کے معنی کو باطنیہ کے عقیدے کے مطابق بیان کیا ، یہ کہتے ہیں : شارع کی مراد بھی یہی ہے اور جو کچھ عوام سمجھتے ہیں وہ سب خطا اور غلط ہے (۳۸) ۔
۱۳۔ قرامطہ : اسماعیلیہ اور غلات کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جو حمدان میں مقیم ہیں ۔ اور یہ محمد بن اسماعیل کی امامت کے قائل ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ وہ زندہ ہیں وہ ان کے قیام کے منتظر ہیں ۔ یہ فرقہ کہتا ہے کہ غدیر خم کے بعد رسو ل اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت سلب ہو کر حضرت علی (علیہ السلام) کو مل گئی (۳۹) ۔
۱۴۔ مبارکیہ : اسماعیلی قدیم ہیں جو کہ اسماعیل کے آزاد کردہ غلام ”مبارک “ کے ماننے والے ہیں ، یہ فرقہ محمد بن اسماعیل کے بعد ان کے بیٹے کو امام سمجھتا ہے (۴۰) ۔
۱۵۔ مہدویہ : فاطمی پہلا خلیفہ ابوعبیداللہ مہدی (متوفی ۳۲۳) کے ماننے والے جو کہ اپنے آپ کو ”المہدی“ کہتے تھے (۴۱) ۔
۱۶۔ ناصریہ : اسماعیلی شاعر اور دانشور حمید الدین ناصر خسرو قبادیانی اس گروہ کے داعی کے ماننے والے تھے یہ لوگ ماوراء النہر، خراسان اور طبرستان میں زندگی بسر کرتے تھے (۴۲) ۔
۱۷۔ مسقطیہ : نزاریہ کا دوسرا لقب مسقطیہ ہے ،ان کو ”سقطیہ“ بھی کہتے ہیں ،کیونکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ امام ، فروع کا مکلف نہیں ہے اور وہ بعض یا تمام تکالیف کو لوگوں سے ساقط کرسکتا ہے (۴۳) ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اسماعیلیوں پر بہت سے ادوار گذرے ہیں اور یہ مختلف فرقوں میں تقسیم ہوئے لیکن اسماعیلیہ فرقہ میں قدرم مشترک یہ ہے کہ تمام شیعہ اسماعیلی فرقوں میں باطنی گری کا نظریہ پایا جاتا ہے ۔
حواله جات:
1. ڈاكٹر كامل حسين محمد، طائفة الاسماعيلية، ص 1723، طبع قاهره1959م.
2.پطروشفسكى، اسلام در ايران، ترجمه كريم كشاورز، ص 297.
3. ڈاكٹر مشكور، تاريخ شيعه و... ص 207.
4. برنارد لويس، پيدايش اسماعيليه، ترجمه آژند، ص 60.
5. همان مدرك.
6. جوينى، علاء الدين عطا ملك، تاريخ جهانگشاى، ج3/152 149، چاپ ليدن به اهتمام محمد قزوينى.
7.
8. به نقل ڈاكٹر مشكور، تاريخ شيعه... ص 208.
9. بنا به نقل «برنارد لويس» در مقاله پيدايش اسماعيليه، ص 62.
10. اصول الاسلاميه، ص 127 126.
11. غاية المواليد. 12. دوساسى،ج1/85. 13. دوساسى، ج2/578.
14. اسماعيليان در تاريخ، مقاله برنارد لويس، پيدايش اسماعيليه، ص 87.
15. براون، تاريخ ادبى ايران، ج1/596 - 595 ; اقبال، خاندان نوبختى، ص 250; ڈاكٹر كامل حسين، طائفه
اسماعيليان، ص 63.
16. اسلام در ايران، ترجمه كريم كشاورز، ص 320 319.
17. گلدزيهر، العقيدة والشريعة، ص 216.
18. الشيعة في التاريخ، ص 62.
19. محمصانى، فلسفة التشريع، ص 57; طائفة الاسماعيليه، ص 110.
20. آصف نيعى، اسماعيليان، هند، ص392 - 391.
21. همان مدرك. 22.همان مدرك، ص 392.
23. همان مدرك،24، اسلام در ايران، ص 320.
25. براون، تاريخ ادبى ايران، ج2/247.
26. آدم متز، الحضارة الاسلامية، طبع قاهرة، ص 66.
27. دائرة المعارف اسلام (طبع فرانسه، ماده آغا جان).
28. غالب مصطفى، اعلام الاسماعيليه، بيروت 1964، ص 53; ابن جوزى، تلبيس ابليس، ص105، طبع مصر،
1928،
29.غلام حليم صاحب دهلوى، تحفة اثنى عشريه، ص 9، چاپ سنگى 1896.
30. مقالات اشعرى،، ص 11 10; الفرق بين الفرق، ص 242; طرق الشيعة، نوبختى، ص 38 37، 40، 58، 60و
64.
31. تحفة اثنى عشرية، ص 16.
32. ڈاكٹر مشكور، تاريخ شيعة، ص 232.
33. الحور العين، ص 200 199.
34. ابن جوزى، تلبيس ابليس، ص 112.
35. دائرة المعارف اسلام، ماده دروز، به نقل ڈاكٹر مشكور ص 233.
36. بيان الاديان، ص 161; تبصرة العوام، ص 423.
37. ابن حزم، الفصل في الملل، ج4/143.
38. تحفه اثنى عشريه، ص 9.
39. نوبختى، فرق الشيعة، ص 61; تلبيس ابليس، ص 110.
40. نوبختى فرق الشيعة، ص 58; مقالات اشعرى، 27; خطط مقريرى، ج4/172.
41. تحفه اثنى عشريه، ص 16.
42. بيان الاديان، ص 166; تبصرة العوام ص 425.
43. تحفه اثنى عشريه، ص 16.
44. همبستگى ميان تصوف و تشيع، ص 216، ترجمه مرحوم ڈاكٹر شهابى.
45. مقدمه ابن خلدون، ترجم فارسى، ج 2/984.
46. قدس زندگى منصور حلاج، ترجمه فرهادى، ص 71; طرايق الحقايق، ج3/136.
مآخذ:
فصلنامه كلام اسلامى شماره 18
حضرت شاه عبدالعظیم – تهران (ری) ایران
شاه عبدالعظیم «عبدالعظیم فرزند علی فرزند حسین فرزند زید فرزند امام حسن مجتبی(ع)» کی آرامگاہوں کے مجموعے کا نام ہے جو تہران کے نزدیک شہر ری میں ہے۔
اس روضہ کی تعمیر ھجری قمری کی تیسری صدی(نھمین صدی عیسوی) کے آخر میں کی گئ۔ لیکن مقبرے کا اصلی دروازہ جو کہ شمال میں واقع ہے،بادشاہوں آل بویه اور بعد میں مجدالملک قمی کے حکم سے مکمل کیاگیا۔
مقبرے کی عمارت کا نچلا حصہ مستطیلی ہےجس کا ہر ضلع تقریبا 8میتر ہے، اوپر سلجوقی کی دوسری عمارتوں کی طرح اس کی چتھ کو بھی چار کونوں میں ترچھا بنایا گیا ہے۔
اس کے اوپر آٹھ ضلعی اور اس کے اوپر سولہ ضلعی بنایا گیا ہے اس سولہ ضلعی کے اوپر مقبرہ کا اصلی گنبد بنایا گیا ہے۔ ان سب حصوں پر داخل سے شیشے کا کام کیا گیا ہے۔ اس حصے کی تعمیر اور اصلی تبدیلیاں شاه طهماسب صفوی کے زمانے میں کی گئیں۔ صحن اور آستانه کا ایوان دوره صفوی کے آثار ہیں۔ دور قاجار میں بہت ساری اضافی تعمیرات کی گئیں۔ گنبد کے اوپر سنہری غلاف ناصرالدین شاه کے حکم پر 1270 ھ۔ق 1835عیسوی میں چڑھایا گیا۔
حضرت شاه عبدالعظیم کے ساتھ دو اور امامزاده بهی هیں . امامزاده حمزه رح اور امامزاده طاهر رح .
تاریخی آثار
٭ عبدالعظیم مرقد کا صندوق کہ جس کو 725ھ۔ق1335عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔
٭لکڑی کے دو کتبے کہ جو لکڑے کے دو نۓ دروازوں پر لگاۓ گۓ ہیں، ان کو 848ھ،ق 1444 عیسوی میں بنایا گیا۔
٭شمالی ڈیوڑھی اورخواتین کی مسجد کے درمیان لکڑی کا بڑا دروازہ جو 904 ھ ۔ق ، 1498 عیسوی دورہ تیموری میں بنایا گیا۔
پرانا تصویر – قاجار کے دور میں
نیا تصویر – امام خمینی رحمت الله علیه کے دور میں
معتزلہ کی نظر میں قرآن کا اعجاز
معتزلہ کی پیدائش دوسری صدی کے پہلے حصہ میں ہوئی ہے ۔ اور ساتویں ہجری تک یہ فکر باقی رہی۔ اوراس نے بہت ہی اچھے مطالب ،اسلامی دنیا کے سامنے پیش کئے.
خلاصہ
ملل و نحل ، کلامی اور تاریخی کتابوں میں معتزلہ اوران کے اکثر بزرگ علماء پر قرآن کریم کے معجزہ نہ ہونے کا الزام لگایا ہے اور کہا گیاہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا معجزہ نہیں سمجھتے ،یہ مقالہ اس لئے لکھا گیا ہے تاکہ اس مرسوم نظریہ پرمختلف کتابوں میں موجود قرائن و شواہد کے ذریعہ نقد و تنقید کی جائے، اس امید کے ساتھ کہ معتزلہ کی شناخت کے بعد اس میں نئے باب کا ضافہ ہوسکے ۔
معتزلہ کی پیدائش دوسری صدی کے پہلے حصہ میں ہوئی ہے ۔ اور ساتویں ہجری تک یہ فکر باقی رہی ۔ اور اس نے بہت ہی اچھے مطالب ،اسلامی دنیا کے سامنے پیش کئے جن میں سے اکثر مطالب ، مذہبی تعصب کی وجہ سے ختم ہوگئے ۔
توحید، عدل، منزلة بین منزلتین، وعد و وعید، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، معتزلہ کے اصولوں میں شمار ہوتے ہیں ، مسعودی (١) اس متعلق لکھتے ہیں: '' فھذا ما اجتمعت علیہ المعتزلہ و من اعتقد ما ذکرنا من ھذہ الاصول الخمسة کان معتزلیا: فان اعتقد الاکثر او ا لاقل لم یستحق اسم الاعتزال ، فلا یستحقہ الا باعتقاد ھذہ الاصول الخمسة '' (٢) لیکن معتزلہ صرف انہی پانچ اصل پر کیوں پاپند تھے اور انہوں نے دوسرے اہم اصولوں کو کیوںہاتھ نہیں لگایا ان سب چیزوں کو بیان کرنے کی اس مقالہ میں گنجائش نہیں ہے ۔
بعض غلط چیزوں کا معتزلہ کی طرف نسبت دینا اور ان کو تعصب سے دیکھنے کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی قرآن کے معجزہ نہ ہونے کو اکثر معتزلہ کی طرف نسبت دینے لگے ۔ سب سے پہلے اس متعلق جس شخص نے صراحت کے ساتھ بیان کیا وہ الفرق بین الفرق کے مولف ، عبدالقاہر بغدادی (٣) ہیں : '' زعم اکثر المعتزلہ ان الزنج والترک والخزر قادرون علی الاتیان بمثل نظم القرآن و بما ھو افصح منہ و انما عدموا العلم بتالیف نظمہ و ذلک العلم مما یصخ ان یکون مقدورا لھم '' (٤) ۔ دوسری جگہ لکھتے ہیں : '' زعم النظام مع اکثر القدریة ان الناس قادرون علی مثل القرآن و علی ما ھو ابلغ منہ فی الفصاحة والنظم'' (٥) یہ نسبتیں باعث بنی کہ مشہور مستشرق گلدزیھر(٦) نے بھی اس بات کی معتزلہ کی طرف نسبت دی : '' جی ہاں معتزلہ کے علماء میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو قرآن کے معجزہ نہ ہونے یا معجزہ ہونے کو ضعیف قرار دیتے ہیں (٧) اور انہوں نے اپنی بات کی تائید کے لئے عبدالقاہر بغدادی کے اسی قول کو نقل کیا ہے ۔ اسی طرح انہوں نے ایک بات ابوالعلاء معری(٨) کے رسالة الغفران سے لیا ہے اور کہا ہے : '' ابوالعلاء نے اس بات کا مذاق اڑاتے ہوئے نقل کیا ہے جو قرآن کے معجزہ ہونے کو ضعیف کرنے کی علامت ہے (٩) ۔ اس کے جواب میں کہنا ضروری ہے: پہلی بات تو یہ ہے کہ ابوالعلاء معری ، معتزلی نہیں ہے بلکہ معتزلہ کے سرسخت مخالف ہے (١٠) دوسری بات یہ ہے کہ ابوالعلاء نے رسالة الغفران میں ان باتوں کا مذاق اڑایا ہے ،لیکن قرآن کے معجزہ ہونے کے باب میں انہوں نے قرآن کے مشہور طاعن ابن راوندی کے خلاف (١١) بیان کیا ہے اور اس میں کوئی مسخرہ والی بات نہیں ملتی ۔
قرآن کے معجزہ ہونے کے سلسلہ میں نظریات
قرآن کے معجزہ ہونے کے متعلق اسلامی مذاہب کے علماء کے درمیان اختلاف ہے جن میں سے اہم اقوال کو ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں:
١ ۔ صرفہ : یعنی خداوند عالم نے لوگوں سے اس قدرت کو سلب کرلیا ہے کہ وہ قرآن کے مثل کوئی چیز پیش کرسکیں، اس نظریہ کو ماننے والی اہم شخصیات یہ ہیں: معتزلہ میں نظام، جاحظ، رمانی، ابو اسحاق نصیبی (١٢) ۔ شیعوں میں شیخ مفید (١٣) ، سید مرتضی (١٤) اور محقق طوسی (١٥) ۔ ظاہریہ میں ابن حزم اندلسی (١٦) ۔ اشاعرہ میں ابواسحاق اسفراینی (١٧) ۔ زیدیہ میں ابن مرتضی (١٨) ۔
٢ ۔ قرآن مجید کی بلاغت، قرآن کا معجزہ ہے ۔ اس نظریہ کو اکثر اشاعرہ نے قبول کیا ہے ۔
٣ ۔ قرآن مجید کی فصاحت معجزہ ہے ۔ ابوعلی ، ابوہاشم جبائی، قاضی عبدالجبار اور حاکم جشمی(١٩) نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔
٤ ۔ قرآن کا نظم معجزہ ہے ۔ جاحظ، زمخشری، ابوالقاسم بلخی ، (٢٠) سکاکی، ابوبکر باقلانی (٢١) نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔
٥ ۔ غیب کی خبریں اور قرآن مجید میں تناقض و اختلاف نہ ہونا اس کے معجزہ ہونے پر گواہ ہیں (٢٢) ۔
اعجاز قرآن سے متعلق معتزلہ کی کتابیں
١ ۔ تاریخ اور فہرست لکھنے والوں نے اس متعلق سب سے پہلی لکھی جانے والی کتاب کو جاحظ معتزلی (متوفی ٢٥٥) کی طرف نسبت دی ہے ، انہوں نے محمد بن احمد بن ابی دائود (٢٣) کو اس طرح لکھا :
میں نے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لا کر قرآن کے استدلال اور تمام اعتراضوں کے جوا ب میں ایک کتاب تمہارے لئے لکھی ، لیکن تم نے اپنے خط میں ذکر کیا ہے کہ تمہیں قرآن کے نظم سے متعلق استدلال کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمہیں قرآن کے مخلوق (٢٤) ہونے پر ایک رسالہ کی ضرورت ہے (٢٥) ۔
خیاط ( متوفی ٣٠٠) اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں : '' ولایعرف کتاب فی الاحتجاج لنظم القرآن و عجیب تالیفہ و انہ حجة'' ۔ زمخشری اور میر سید شریف جرجانی (٢٩) نے اس کتاب کا ذکر کیا ہے لیکن اس وقت یہ کتاب موجود نہیں ہے گویا یہ کتاب نابود ہوگئی ہے ۔ جاحظ کی دوسری دو کتابیں ہیں جن کا نام آیة القرآن (٣٠) اور حجج النبوة ہے ان میں سے پہلی کتاب موجود نہیں ہے اور دوسری کتاب حاحظ کے رسائل کے ضمن میں چھپی ہے ۔
٢ ۔ محمد بن یزید واسطی (٣١) کی کتاب '' اعجاز القرآن فی نظمہ و تالیفہ '' جو آج تک دیکھنے کو نہیں ملی ہے (٣٢) ۔
٣ ۔ احمد بن علی بن اخشید (٣٣) کی کتاب '' نظم القرآن '' یہ کتاب بھی موجود نہیں ہے (٣٤) ۔
٤ ۔ ''النکت فی اعجاز القرآن، مولف علی بن عیسی الرمانی (متوفی ٣٨٦) ۔ اعجاز قرآن سے متعلق تین رسالوں کے ضمن میں چھپی ہے ۔
٥ ۔ اعجاز القرآن، مولف ابوعمر سعید باھلی بصری (٣٥) یہ کتاب بھی ہم تک نہیں پہنچی ہے (٣٦) ۔
٦ ۔ قاضی عبدالجبار (متوفی ٤١٥) انہوں نے المغنی کی سولہویں جلد میں اعجازقرآن سے متعلق مفصل بحث کی ہے ۔
٧ ۔ اعجاز سورہ الکوثر، زمخشری (متوفی ٥٣٨) یہ کتاب حامد الخفاف کی تحقیق کے ساتھ مصر میں چھپی ہے ۔
٨ ۔ بیان الاعجاز فی سورة قل یا ایھا الکافرون ،مطرزی خوارزمی ۔ یہ کتاب حمد بن ناصر الدخیل کی تحقیق کے ساتھ سعودی عرب میں چھپی ہے ۔
یہ کتابیں معتزلہ کی تفسیری کتابوں کے علاوہ ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر ختم ہوگئی ہیں ۔ سبکی نے طبقات الشافعیہ میں نقل کیا ہے کہ ابویوسف قزوینی معتزلی (٣٧) کے کتب خانہ میں ابوالقاسم بلخی ،ابوعلی جبائی، ان کے بیٹے ابوہاشم، ابومسلم محمد بن بحر معتزلی (٣٨) کی تفاسیر کو حاصل کیا جاسکتا ہے (٣٩) ۔ اور یہ تفسیریں ابوبکر الاصم (٤٠) ، ابوالقاسم اسدی (٤١) ابوالنقاش (٤٢) موسی الاسواری (٤٣) شحام (٤٤) اور کشاف کے علاوہ دوسری تفاسیر ہیں ۔ البتہ ان سب تفسیروں میں سے تفسیر الکشاف اور ابومسلم اصفہانی اور ابوعلی جبائی کی تفسیریں باقی ہیں جن کو سید محمد رضا غیاثی نے ''بررسی آراء و نظریات تفسیری ابومسلم اصفہانی کے نام سے ایک کتاب میں جمع کیا ہے ۔
اعجاز قرآن کے سلسلہ میں معتزلہ کے بزرگ علماء کانظریہ
ابوھذیل علاف (٤٥) : قاضی عبدالجبار ، ابوہذیل سے اس طرح نقل کرتے ہیں : '' و اعلم ان ما نقول ما ذکر عن شیخنا ابی ھذیل بانہ قال : قد علمنا ان العرب کانت اعرف بالمتناقض من الکلام من ھولاء المخالفین و کانت علی ابطال امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ احرص و کان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یتحداھم بالقرآن و یقرعھم بالعجز عنہ و یتحداھم بانہ لوکان من عند غیراللہ لوجدوا فیہ اختلافا کثیرا و یورد ذلک علیھم تلاوة و فحوی لانہ کان علیہ السلام ینسبہ الی انہ من عنداللہ الحکیم و انہ مما لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ و لا من خلفہ و یدعی انہ دلالة و ان فیہ الشفاء فلوکان الامر فی تناقض القرآن علی ما قالہ القول لکانت العرب فی ایامہ الی ذلک اسبق فلما رایناھم قدعدلوا عن ذلک الی غیرہ من الامور، علمنا زوال التناقض عنہ و سلامتہ علی اللغة '' (٤٦) اس عبارت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابوھذیل ، قرآن میں تناقض نہ ہونے کو قرآن کے معجزہ ہونے پر دلیل سمجھتے ہیں اور وہ قائل ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے مشرکین کو چیلنج کیا اورجب وہ قرآن کریم کی نظیر نہ لا سکے تو دوسرے کاموں کی طرف متوجہ ہوگئے ۔
نظام (٤٧) : نظام کا صرفہ کا نظریہ قرآن کے اعجاز سے متعلق ان کے مشہور نظریات میں سے ہے ۔ سب سے پہلے جس نے صرفہ کی گذارش دی ہے وہ فراء ہے (٤٨) پھر جاحظ نے رسالہ خلق القرآن (٤٩)اور خیاط نے الانتصار (٥٠) میں اس کی نسبت نظام کی طرف دی ہے ۔ ابوالحسن اشعری نے مقالات الاسلامیین میں لکھا ہے : '' و قال النظام الآیة و الاعجوبة فی القرآن ، ما فیہ من الاخبار عن الغیوب۔ فاما التالیف و النظم ، فقد کان یجوز ان یقدر علیہ العباد لولا ان اللہ منعھم بمنع و عجز احدثھما فیھم ''(٥١) ۔ اس کے بعد باقی مولفین نے ان سے نقل کیا ہے (٥٢) اس کتاب میں منقول مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ نظام ، قرآن کریم کو معجزہ سمجھتے تھے ۔ اس دلیل کی وجہ سے کہ غیب اور لوگوں کے دلوں کی خبر دی ہے، لیکن یہاں پراس کا بنیادی اعتراض ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے چیلنج سے سازگار نہیں ہے ، کیونکہ نظام ، صرفہ کے قائل ہیں ۔ صرفہ نظام کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے : نظام ، عدم اعجاز میں ایک اعجاز کے قائل ہیں ، یعنی خود قرآن کریم نظم اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے معجزہ نہیں ہے ، لیکن لوگوں کوقرآن کریم کے مثل لانے سے عاجز کردینے کے اعتبار سے ابدی معجزہ ہے جس کی خداوند عالم نے قرآن کریم کے متعلق اعمال کیا ہے ۔
ابو موسی مردار (٥٣) : معتزلہ کی کتابوں میں قرآن کریم کے اعجاز کے متعلق مردار کا کوئی نظریہ نہیں ملتا، لیکن عبدالقاہر بغدادی نے ان کے متعلق لکھا ہے : ''وکان ھذا المردار زعم ان الناس قادرون علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن و بما ھو افصح منہ کما قال النظام'' (٥٤) ۔ دوسری جگہ انہوں نے لکھا ہے : '' وکان (المردار) قد افتتح دعوتہ بان قال لاتباعہ ان الناس قادرون علی مثل القرآن و علی ما ھو احسن منہ نظما '' (٥٥) پھر ابومظفر اسفراینی (متوفی ٤٧١) ، شہرستانی (متوفی ٥٤٨) نے کتاب الملل والنحل میں اس بات کو نقل کیا ہے : '' الثالثة : قولہ فی القرآن ،ان الناس قادرون علی مثل القرآن فصاحة و نظما و بلاغة و ھو الذی بالغ فی القول بخلق القرآن'' (٥٧) سمعانی (٥٨) نے بھی الانساب میں اس بات کو نقل کیا ہے (٥٩) ان سے پہلے ابوبکر باقلانی نے اعجاز القرآن میں اس قول کو مجمل طور سے بیان کیا ہے:
'' ولیس الصرفة اعجب من قول فریق منھم : ان الکل قادرون علی الاتیان بمثلہ و انما تاخروا عنہ لعدم العلم بوجہ ترتیب لو تعلموہ لوصلوا الیہ بہ ولا اعجب من قول فریق منھم: انہ لافرق بین کلام البشر و کلام اللہ تعالی فی ھذا الباب و انہ یصح من کل واحد منھا الاعجاز علی حد واحد ''(٦٠) ۔
گویا عبدالقاہر اور شہرستانی نے انہی سے لیا ہے ، اور دوسروں نے انہی کی پیروی کی ہے (٦١) ۔
جب ہم باقلانی کی اعجاز القرآن سے پہلے کی تالیفات میں مراجعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ انتساب نظر نہیں آتا ۔ یہاں تک کہ ابوالحسن اشعری نے جو کہ فرقہ اشاعرہ کے موسس ہیں، اپنی کسی کتاب میں اس کی نسبت ابوموسی مردار کی طرف نہیں دی ہے اور یہی نہیں بلکہ مقالات الاسلامیین میں اعجاز قرآن کریم کی بحث میں اس مطلب کو بیان نہیں کیا ہے ۔ ابن راوندی نے بھی صرفہ نظام کو نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض کیا ہے لیکن اس متعلق ابو موسی مردار کا کوئی کلام نقل نہیں کیا ہے ، جب کہ خیاط نے اپنی کتاب کے تین صفحوں کو انہی مطالب سے مخصوص کیا ہے جن کو ابن راوندی نے ابوموسی مردار کی طرف نسبت دی ہے ، لیکن قرآن کے معجزہ نہ ہونے سے متعلق ابوموسی نے کچھ نہیں لکھا ہے (٦٢) ۔ اسی طرح ابن حزم اندلسی (جو کہ باقلانی کے ہم عصر ہیں لیکن اشاعرہ میں سے نہیں ہیں ) نے صرفہ نظام کو بیان کیا ہے ، لیکن انہوں نے بھی ابوموسی کا کوئی کلام نقل نہیں کیا ہے (٦٣) عبدالقاہر اس قدر متعصب ہے وہ کہتا ہے:
مردار ، خلفاء کی مجلس میں نہیں جاتے تھے اور ان سے پیسہ نہیں لیتے تھے ، لہذا مجھے تعجب ہے کہ خلفاء نے ان کو کیوںقتل نہیں کیا ہے، جس نے خلفاء کی مجلس میں نہ جانے کی بدعت کو قائم کیا ہے (٦٤)لہذا جو واجب القتل ہے اس کی با نسبت یہ بہت کم قیمت ہے جس کو ضرور ادا کرنا چاہئے ۔
حاحظ (٦٥) : جاحظ نے حجج النبوة میں کہا ہے :
'' لان رجلا من العرب لو قرا علی رجل من خطبائھم و بلغائھم سورة واحدة، طویلة او قصیرة، لتبین لہ فی نظامھا و مخرجھا وفی لفظھا و طبعھا انہ عاجز عن مثلھا و لو تحدی بھا ابلغ العرب لظھر عجزہ عنھا... و لو اراد انطق الناس ان یؤلف من ھذا الضرب سورة واحدة، طویلة او قصیرة، علم نظم القرآن و طبعہ و تالیفہ و مخرجہ لما قدر علیہ ولو استعان بجیمع قحطان و معد بن عدنان '' (٦٦) ۔
دوسری جگہ پر اس طرح بیان کیا ہے :
قرآن کریم نے اپنے نظم و تالیف کی وجہ سے شعراء اور فصحاء کو مقابلہ کی دعوت دی ہے ،لیکن کسی نے اس کو مثبت جواب نہیں دیا ہے ۔ یہاں تک کہ کوئی شخص ایسا پیدا نہیں ہوا جو یہ ادعا کرتا کہ میں بعض موارد میں اس کے مثل لے آیا ہوں (٦٧) ۔
البیان والتبین میں کہا ہے :
'' ولا بد من ان نذکر فی الجزء الثالث، اقسام تالیف جمیع الکلام و کیف خالف جمیع الکلام الموزون و المنثور و ھو منثور غیر مقفی علی مخارج الاشعار والاسجاع و کیف صار نظمہ من اعظم البرہان و تالیفہ من اکبر الحجج''(٦٨) ۔
لیکن افسوس کہ وہ اس وعدہ کو بھول گئے اور تیسری جلد میں شعوبیہ اور ان کا جواب دیتے ہیں ،اس عبارت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ جاحظ ، قرآن کو اشعار اور اسجاع کے مطابق سمجھتے ہیں ،یعنی وہ قرآن میں مسجع کے قائل ہیں ،لہذا ابوبکر باقلانی نے ان کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے:
جو بھی قرآن کریم میں سجع و صنع کاقائل ہے اس کو یہ قبول کرلینا چاہئے کہ قرآن میں نظم و تالیف کا کوئی اعجاز نہیں ہے اور خدا اوربشر کے کلام میں کوئی فرق نہیں ہے (٦٩) ۔
جاحظ ، خود قرآن کو معجزہ سمجھتے ہیں اورقرآن کریم کے نظم و تالیف کو معجزہ کی طرح سمجھتے ہیں جس کے مثل کوئی نہیں لاسکتا (٧٠) وہ صرفہ کو بھی قرآن کے سلسلہ میں قبول کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
'' ...ومثل ذلک ما رفع من اوھام العرب و صرف نفوسھم عن المعارضةللقرآن بعد ان تحداھم الرسول بنظمہ ...و فی کتابنا المنزل الذی یدلنا علی انہ صدق، نظمہ البدیع الذی لا یقدر علی مثلہ العباد'' (٧١) ۔
البتہ اس بات کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے کہ جاحظ ،ونظام کے برخلاف قرآن کریم کو ذاتی معجزہ سمجھتے ہیں ، لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ افکار کی پریشانیوں کی وجہ سے خداوند عالم نے عرب کو قرآن کا معارض نہ لانے پر مجبور بنادیا ہے ۔ اس بناء پر صرفہ جاحظ ، صرفہ نظام سے جدا ہے ۔ یحیی بن حمزة علوی (٧٢ ) ''الطراز'' میں کہتے ہیں : ''تین قسم کا صرفہ موجود ہے : صرفہ نظام، صرفہ جاحظ اور صرفہ سید مرتضی'' ۔ اس کے بعد تینوں کی تحقیق کرتے ہیں اوران کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہیں (٧٣) اگر چہ صرفہ کی چوتھی قسم بھی پائی جاتی ہے جو کہ صرفہ ابن حزم ہے (٧٤) ۔
ہشام الفوطی (٧٥) اور عباد بن سلیمان (٧٦) کے بہت سے مطالب موجود نہیں ہیں ۔ اشعری ان استاد و شاگرد کے نظریات کے متعلق ،قرآن کے اعجاز کے سلسلہ میں لکھتا ہے :
قال ھشام و عباد : لا نقول ان شیئا من الاعرض یدل علی اللہ سبحانہ : و لا نقول ایضا ان عرضا یدل علی نبوة النبی(صلی اللہ علیہ و الہ وسلم)ولم یجعلا القرآن علماللنبی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) و زعما ان القرآن اعراض(٧٧) ۔
اشعری کے کلام سے ظاہر ہے کہ یہ دونوں قرآن کریم کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کی نبوت کی دلیل نہیں سمجھتے تھے ، بلکہ اس کو حادثات کا جزء سمجھتے ہیں اور حادثات کو کسی چیز کی دلیل قرار نہیں دیتے ۔ لیکن قاضی عبدالجبار نے ان لوگوں کے جواب میں جنہوں نے اس مطلب کو بیان کیا ہے ، کہا ہے:
یہ دونوں افراد قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے منکر نہیں ہیں، لیکن چونکہ یہ اعراض کے سلسلہ میں کوئی خاص نظریہ نہیں رکھتے، لہذا اس وجہ سے انہوں نے یہ قبول کرلیا کہ قرآن کریم پیغمبرا کرم کے بعد آپ کی نبوت پر دلالت نہیں کرتا ۔ البتہ یہ دونوں افراد جبرئیل کے نازل ہونے کو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر دلیل سمجھتے ہیں اور اس طرح سے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کو بھی قبول کرتے ہیں (٧٨) ۔
قاضی عبدالجبار نے عباد اور ہشام کی طرف جو نسبت دی ہے اگر یہ صحیح ہے تو ان دونوں کے نزدیک جبرئیل کا نازل ہونا خود ایک امر خارق العادة ہے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نبوت پر دلالت کرتا ہے اور جب تک آپ پیغمبر تھے ، قرآن کریم آپ کی نبوت پر دلالت کرتا تھا لیکن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد دلالت نہیں کرتا۔نظریہ اعراض کی وجہ سے یہ دونوں افراد اس نظریہ کے قائل ہوئے ہیں : '' جسم وہی جوہر اور جدا نہ ہونے والے اعراض ہیں، لہذا اگر کوئی عرض جسم سے جدا ہوجائے تو جسم نہیں رہے گا اور کسی دوسری چیز پر بھی دلالت نہیں کرے گا ۔ اور چونکہ قرآن کریم آواز ہے اور جسم سے جدا ہوگیا ہے لہذا کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا (٧٩) ابوبکر باقلانی اور عبدالقاہر جرجانی (٨٠) نے بھی اسی نسبت کو مجمل طریقہ سے بیان کیا ہے (٨١) ۔
ابو علی جبائی (٨١): ابو علی جبائی کی اس وقت کوئی کتاب موجود نہیں ہے ، لیکن قاضی عبدالجبار نے کتاب '' المغنی'' میں جگہ جگہ ابوعلی کب کتاب کا ذکر کیا ہے، منجملہ وہ کہتے ہیں : ہمارے شیخ ابوعلی قائل ہیں کہ طویل کلام اور کثیر تالیف میں جس نے علوم کو سیکھا ہو اس شخص کے لئے تناقض و اختلاف کو رفع کرنا بعید ہے لہذا قرآن کریم، خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے نہیں ہوسکتا جو کہ خود عالم بنفسہ ہے (٨٣) ۔
لیکن اعجاز قرآن کریم کے متعلق ابوعلی جبائی کا جو قول مشہور ہے وہ قرآن کریم کی فصاحت کا قول ہے ۔ اس بات کو علامہ حلی نے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے: ''فقال الجبائیان ان سبب اعجاز القرآن فصاحة'' یہ بات قاضی کے کلام سے بھی سمجھ میں آتی ہے، لیکن انہوں نے صراحت کے ساتھ اس بات کو کسی بھی جگہ ابوعلی کی طرف نسبت نہیں دی ہے ۔
ابوہاشم جبائی (٨٤) : ابوہاشم کی کتابیں بھی ا ن کے والد کی طرح موجود نہیں ہیں، اور ابوہاشم کے نظریات سے متعلق جوبات ہم جانتے ہیں وہ دوسروں سے منقول ہے ، قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں :
و قال شیخنا ابوہاشم (٨٥) : والعادة انقضت بان انزلہ جبرئیل علیہ فصار القرآن معجزا لنزولہ و علی ھذا الوجہ و لا ختصاص الرسول بہ، لان نزول جبرئیل ھو معجز، لکنہ لو انزل مالیس بمعجز لکان لا یعلم صدق رسول اللہ ...(٨٦) ۔
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوہاشم جبرئیل کے نازل ہونے کو معجزہ سمجھتے ہیں ، لیکن یہ معجزہ اگر معجزہ جیسے کلام کی طرح نہ ہو تو پیغمبر کی صداقت پر دلالت نہیں کرے گا، اس وجہ سے ابوہاشم ، قرآن کریم کو معجزہ سمجھتے ہیں اور اس کے اعجاز کو انہوں نے قرآن کریم کی فصاحت میں دیکھا ہے (٨٧) ابوہاشم ، قرآن کریم میں تناقض نہ ہونے کو معجزہ کی دلیل سمجھتے ہیں (٨٨) ۔
رمانی (٨٩) : رمانی نے اپنے رسالہ میں لکھا ہے : اعجاز قرآن کی سات قسمیںہیں ، انہی اقسام میںسے بلاغت، غیب کی خبریں اور صرفہ ہے (٩٠) اس کے بعد وہ اپنے پورے رسالہ کو قرآن کریم کی بلاغت سے مخصوص کرتے ہیں ، یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے مسجع ہونے کو فواصل کے نام سے تعبیر کیا ہے ، وہ کہتے ہیں:
'' الفواصل حروف متشاکلة فی المقاطع توجب حسن افھام المعانی والفواصل ، بلاغة والاسجاع عیب و ذلک لان الفواصل تابعة للمعانی و اما الاسجاع فالمعانی تابعة لھا (٩١) ۔
دوسرے ادیبوں نے بھی انہی کی تقلید کی ہے اورقرآن کریم کی مسجع و مقفی عبارت کو ''فواصل'' کا نام دیا ہے، جس طرح ابوبکر باقلانی، عبدالقاہر جرجانی اور ابن ابی اصبع نے فواصل کا نام دیا ہے ۔ یہ بھی صرفہ نظام کو قبول کرتے ہیں اور اس کو قرآن کریم کے اعجاز کی عقلی قسموں میں سے سمجھتے ہیں (٩٢) ۔ پس رمانی کے نزدیک بلاغت، قرآن کریم کے اعجاز پر اہم دلیل ہے ، ایسی بلاغت جس پر بعد میں اشاعرہ نے بہت زیادہ تاکید کی ہے ۔
قاضی عبدالجبار (٩٣) : قاضی ان لوگوں میں سے ہیں جن کی کتابیں موجود ہیں ان کی اکثر کتابیں یمن میں موجود ہیں، قاضی عبدالجبار ، قرآن کریم کے اعجاز پر صرف فصاحت کو دلیل سمجھتے ہیں ، صرفہ اور غیب کی خبروں وغیرہ سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں : چونکہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے قرآن کریم سے مقابلہ کی دعوت دی ہے لہذا کوئی ایسی دلیل ہونا چاہئے جوپورے قرآن کو شامل ہو۔ اور یہ قسمیں قرآن کریم کے بعض حصہ کو شامل ہیں، البتہ یہی قسمیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہیں ، لیکن اعجاز قرآن کی دلیل نہیں ہیں(٩٤) ۔
زمخشری (٩٥) : آقائے صاوی الجوینی کی دو کتابیں منھج الزمخشری فی تفسیر القرآن اور بیان اعجاز قرآن ہیں، اورانہوں ان میں اس کے متعلق مفصل تحقیق کی ہے ، یہ فرماتے ہیں : زمخشری قرآن کریم کو دو طرح سے معجزہ سمجھتے ہیں: ایک نظم کے اعتبار سے اور دوسرے غیب کی خبروں کے اعتبار سے (٩٦)اور خود زمخشری اپنی کتاب الکشاف میں جگہ جگہ اس بات پر تاکید کرتے ہیں (٩٧) اور وہ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم میں ایسا نظم ہے جواس کے معانی سے موثق کریقہ سے وابستہ ہے اور یہی قرآن کریم کے اعجاز پر دلیل ہے (٩٨) ۔
مطرزی خوارزمی (٩٩) یہ اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں:
'' وجمع فی ھذہ الکلم المعدودة والجمل المحدودة بین اسباب الفصاحة و ارکان البلاغة من الحذف و الاضمار ...'' (١٠٠) ۔
ان کی اس عبارت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن کریم کے اعجاز پر فصاحت و بلاغت کودلیل سمجھتے ہیں ۔
سکاکی (١٠١) : سکاکی مفتاح العلوم میں کہتے ہیں :
'' واعلم ان شان الاعجاز عجیب یدرک و لا یمکن وصفہ ... و مدرک الاعجاز عندی ھو الذوق و ان علمی المعانی والبیان ھما الوسیلة الاکتساب الذوق الذی تدرک بہ مواطن الجمال البلاغی علی انھما لا یکشفان کشفا تاما علی وجہ الاعجاز لتعذر الاحاطہة بکل اسرار القرآن البلاغیة (١٠٢) ۔
سکاکی کی نظر میں قرآن کریم کی بلاغت ، معجزہ کی دلیل ہے، لیکن اس بلاغت کو سمجھنا انسانوں کے ذوق سے وابستہ ہے ۔
معتزلہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے اس طرح کہ ٧٣٠ ہجری میں ابن بطوطہ نے خوارزم کا سفر کیا وہ کہتے ہیں:
شہر اورگنج کے اکثر علماء معتزلی تھے ،لیکن یہ اپنے مذہب اور اعتقادات کو ظاہر کرنے سے پرہیز کرتے تھے، کیونکہ سلطان محمد اوزبک اور اس کے حکام کو شہر اورگنج میں اشاعر مذہب کو مانتے تھے (١٠٣) ۔
اس کلامی فرقہ سے جوچیز ابھی باقی بچی ہے وہ ان کی بہت ہی کم کتابیں ہیں ، البتہ ان سے منسوب اقوال دوسرے فرقوں کی کلامی کتابوں میں موجود ہیں ۔
نتیجہ :
جو کچھ کہاگیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام معتزلی قرآن کریم کو معجزہ سمجھتے تھے لیکن قرآن کریم کے اعجاز کی قسموں میں ان کو اختلاف تھا جو کہ فطری امر ہے ۔ لیکن چونکہ اشاعرہ ان کے بہت زیادہ مخالفت تھے لہذا انہوں نے معتزلیوں کی طرف ناروا نسبتیں دی ہیں، اور چونکہ اشاعر مذہب کے مصنفین و مولفین بہت زیادہ تھے اس لئے ان کے نظریات کی طرف زیادہ توجہ کی گئی ہے اس وجہ سے معتزلہ کی طرف قرآن کریم کے معجزہ نہ ہونے کی نسبت رائج ہوگئی ہے ۔
حاشیہ جات :
١ ۔ ابوالحسن علی بن حسن مسعودی(متوفی ٣٥٦ھ) شاید پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود کے پوتے ہیں ۔ یہ بغداد کے رہنے والے تھے اور مصر میں مقیم تھے ، فسطاط میں ان کی قبر ہے ۔ مسعودی نے بہت سے اسلامی شہروں کا سفر کیا ہے ۔ ان کی مشہور کتاب مروج الذب والتنبیہ والاشراف ہے ، ان کے مذہب میں علماء کو ا ختلاف ہے : زرکلی ، ذہبی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ معتزلی ہیں، طبقات الشافعیہ نے اس بات کو ''قیل'' (کہا گیاہے) کی صورت میں بیان کیا ہے ۔ بعض علماء ان کو شیعہ سمجھتے ہیں ، کیونکہ انہوں نے شیعہ اماموں کو لفظ '' امام'' سے یاد کیا ہے ، ایک گروہ ان کو اسماعیلی سمجھتا ہے ، کیونکہ انہوں نے اپنی اکثر و بیشتر عمر کا حصہ مصر میں خلفائے فاطمی کی حکومت میں گذارا ہے ۔
٢ ۔ مروج الذہب ، جلد ٣، ص ٢٢٢، طبع درالاندلس، بیروت ١٣٨٥ ۔
٣ ۔ ابومنصور عبدالقاہر بن طاہر بن محمد تمیمی بغدادی ، فقیہ، متکلم، ادیب ، شافعی ، اشعری مذہب۔ ابواسحاق اسفراینی کے شاگرد اور ابومظفر اسفراینی کے استاد ہیں، ان کا ٤٢٩ ہجری میں اسفراین میں انتقال ہوا۔
٤ ۔ الفرق بین الفرق، ص ١٤٠، تحقیق محمد راہد الکوثری، نشر الثقافة الاسلامیة، مصر۔
٥ ۔ عبدالقاہر بغدادی ، اصول الدین، ص ١٤٨، دارالکتب بیروت۔
٦ ۔ مستشرق مجاری یھودی الاصل، شاگرد محمد عبدہ و طاہر الجزایری، متوفی ١٩٢١ ۔
٧ ۔ گلدزیھر، مذاہب التفسیر الاسلامی، ص ١٤٢ ، ترجمہ عبدالحلیم نجار ، طبع دار اقرا، ١٤٠٥ ۔
٨ ۔ ابوالعلاء احمد بن عبداللہ بن سلیمان تنوخی، شاعر اور عرب کا نابینا متفکر، حلب کے نزدیک معرة النعمان میں ان کی ولادت ہوئی ،انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ انزوا میں گذرا ہے اور بہت سے بزرگوں کی ہجو کی ہے ۔ لیکن کسی کی بھی مدح نہیں کی ہے ۔ ان کا ٣٦٣ ہجری میں اسی جگہ انتقال ہوا۔ اس نے معتزلی، جبری مذہب، مزدکی، شیعہ، قرمطی، برہمایی دروزی اور اہل تقیہ کی طرف بے دینی کی نسبت دی ہے ۔ ان کا لزومیات کا دیوان ١٣٠٣ ہجری میں ہندوستان میں چھپا ہے ۔ ابوالعلاء کے سلسلہ میں زیادہ معلومات کے لئے رجوع کریں : الجامع فی اخبار ابی العلاء المعری و آثارہ۔ تالیف محمد سلیم الجندی، طبع ، دمشق۔
٩ ۔ مذاہب التفسیر الاسلامی، ص ١٤٣ ۔
١٠ ۔ ابوالعلاء ، عقل پر عمل کرنے والے ہیں، اور بعض اصولوں میں معتزلہ کے ساتھ ہیں، لیکن انہوں نے اپنے ایک شعر میں معتزلی ہونے کو منع کیاہے: و معتزلی لم اوافقہ ساعة۔ اقول لہ فی اللفظ دینک اجزل۔ مراجعہ کریں: الجامع فی اخبار ابی العلاء ، ج ١، ص ٤٠٥ ۔
١١ ۔ احمد بن یحیی بن اسحاق ریوندی، نیشاپور کے دیہات ریوند کے رہنے والے، معروف بہ ابن راوندی، اپنی عمر کے اوائل میں معتزلی تھے ، پھر اعتزال سے پلٹ گئے اور معتزلہ کے خلاف بہت سی کتابیں لکھیں ۔ ان کی کتاب فضیحة المعتزلہ بہت مشہور ہے ۔ قرآن کریم کے باب میں معتزلہ کی تاویلات کے خلاف انہوں نے کتاب الدامغ لکھی ہے ۔ ان کی کوئی کتاب ہم تک نہیں پہنچی ہے ۔ یہ اسلامی مذاہب کے درمیان ملحد اور زندیق کے نام سے مشہور ہے ۔
١٢ ۔ ابو اسحاق ابراہیم بن عیسی النصیبی کا شمار بصرہ کے معتزلہ میں ہوتا ہے اور ابوحیان توحیدی کے ہم عصر ہیں ۔ ابوحیان نے المقابسات اور مثالب الوزیرین میں ان کی بہت برائی کی ہے ۔ حاکم جشمی کہتے ہیں: یہ سید مرتضی کے استاد ہیں ۔
١٣ ۔ اوائل المقالات، ص ١٨، تحقیق ڈاکٹر مہد ی محقق، طبع دانشگاہ تہران، ١٣٧٢ ۔
١٤ ۔ الذخیرہ فی علم الکلام، ص ٣٧٨، تحقیق سید احمد حسینی، طبع جامعہ مدرسین، ١٤١١ ۔
١٥ ۔ کشف المراد، ص ٣٨٤، طبع موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ١٣٩٩ ۔
١٦ ۔ ابن حزم اندلسی، قرطبہ میں پیدا ہوئے ۔ یہ فروع میں شافعی اور اصول میں ظاہری تھے ۔ اشعری اور صوفیوں کے مخالف تھے ۔ ان کا ٤٥٦ ہجری میں انتقال ہوا۔ الفصل، جلد ٣، ص ٣١ ۔ طبع دار الجیل بیروت۔
١٧ ۔ ایجی نے المواقف (جلد ٨، ص٢٤٦) کی شرح میں کہا ہے: صرفہ کے قائلین میں سے ایک شخص ابواسحاق سفراینی ہے، جو ہم ( اشاعرہ) میں سے ہے ۔ لیکن عبدالقاہر بغدادی کے دو طرح عمل کرنے کی وجہ سے اس کے لکھنے والے کو تعجب میں ڈالا ہے، وہ اصول الدین میں نظام کو صرفہ کا قائل ہونے کی وجہ سے کافر جانتے ہیں، جب کہ ان کے استاد ابواسحاق اسفراینی بھی صرفہ کے قائل ہیں ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ابوبکر باقلانی نے اعجار القرآن میںنظام پر حملہ کیا ہے کہ وہ صرفہ کے کیوں قائل ہیں، جب کہ وہ جانتے تھے کہ ابوالحسن باہلی کے درس میں ان کے ہمشاگرد یعنی ابواسحاق اسفراینی بھی صرفہ کے قائل ہیں ۔ لیکن ان کے متعلق ایک بات بھی نقل نہیں کی ہے ، اس سے بھی بڑھ کر آقای توفیق الفکیکی کا نظریہ ہے جس کوانہوں نے رسالة الاسلام مجلہ میں بیان کیا ہے کہ سید مرتضی اور شیخ مفید صرفہ کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ انہوں نے یہ بات بحث جدل کی وجہ سے کہی ہے ۔ ڈاکٹر مہدی محقق نے بھی اوائل المقالات کے حاشیہ پر استاد توفیق الفکیکی کے متعلق کہا ہے : استاد توفیق نے ایک مقالہ قیم اور خوبی رسالة الاسلام میں قرآن کے اعجاز کے متعلق لکھا ہے جب کہ استاد توفیق ، شیخ مفید ، سید مرتضی،خواجہ نصیر الدین طوسی اور علامہ حلی کے لئے اچھے امانتدار نہیں ہیں، اور ان کے نظریات کو صرفہ کے باب میں بیان نہیں کیا ہے لیکن ان کے نظریات کو فصاحت و بلاغت کے باب میں بیان کیاہے ۔
١٨ ۔ المہدی لدین اللہ احمد بن یحیی بن مرتضی ، یمن میں زیدیوں کے دو امام ہیں،(متوفی ٨٤٠) ۔ صاحب طبقات المعتزلہ والبحر الزخار۔
١٩ ۔ امام حاکم ابو سعد محسن بن محمد بن کرامة جشمی بیہفی، محمد بن حنفیہ کے پوتے، متوفی ٤٩٤ ہجری ۔ اور قاضی عبدالجبار کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔ اصول میں معتزلی مذہب ہیں اور زیدیہ میں شمار ہوتے ہیں ۔
٢٠۔ عبداللہ بن احمد بن محمود ، معروف بہ ابوالقاسم کعبی یا بلخی معتزلہ کے بزرگ متکلمین میں آپ کا شمار ہوتا ہے ، آپ عبدالرحیم خیاط کے شاگرد، بلخ خراسان میں مقیم ، طبرستان کے علویوں کے کاتب ہیں متوفی ٣١٩ ۔ آپ کے اور ابن قبہ شیعی کے ایک دوسرے کے جوابات مشہور ہیں ۔ ان کی کتاب المقالات ، طبقات المعتزلہ کے ضمن میں چھپی ہے ۔
٢١ ۔ قاضی ابوبکر بن طیب بن باقلانی کا شمار اشاعرہ کے بزرگ متکلمین میں ہوتا ہے یہ بصرہ میں پیدا ہوئے اور بغداد میں مقیم تھے ، ابوالحسن باہلی بصری اور ابن مجاہد کے شاگرد ہیں ،ابن فورک اور ابواسحاق اسفراینی کے ہم کلاسی ہیں، متوفی ٤٠٣ ہجری ۔ شیخ مفید کے ساتھ ان کے مباحثیں مشہور ہیں ۔
٢٢ ۔ مراجعہ کریں : اعجاز القرآن باقلانی، دلائل الاعجاز، اسرار البلاغة و رسالة الشافعیة عبدالقادر جرجانی ۔ الاتقان سیوطی، تحریر التحبیر ابن ابی صبع مصری ۔ شرح مقاصد، جلد پنجم ۔ شرح المواقف ایجی، جلد ٨، ص ٢٤٤ ۔ ایجی نے نظم قرآن کریم کو بعض معتزلہ اور بلاغت کو جاحظ کی طرف منسوب کیا ہے جو کہ برعکس ہے ۔ المنتقذ من التقلید، جلد اول۔ الذخیرة سید مرتضی ۔
٢٣ ۔ ابو ولید محمد بن احمد بن ابی دائود ، متوکل کے زمانہ میں بغداد کے قاضی تھے ۔ متوفی ٢٣٩ہجری ۔
٢٤ ۔ امامیہ قرآن کریم کے سلسلہ میں لفظ خلق اور مخلوق کواستعمال نہیں کرتے ، بلکہ امام رضا علیہ السلام کی ایک روایت کی بناء پر کلمہ محدث کو استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن معتزلہ خلق قرآن کریم پر بہت زیادہ اصرار کرتے ہیںجس کی وجہ سے واقعہ محنت رونما ہو ۔
٢٥ ۔ رسائل جاحظ، ج ٣، ص ٢٨٧ ۔ رسالة خلق قرآن، تحقیق عبدالسلام محمد ہارون۔
٢٦ ۔ ابوالحسین عبدالرحیم خیاط، رئیس معتزلہ بغداد۔ جعفر بن حرب اور جعفر بن مبشر کے شاگرد اور ابوالقاسم بلخی، صاحب کتاب الانتصار کے استاد ہیں ، فرقہ خیاطیہ انہی سے منسوب ہے ۔
٢٧ ۔ الانتصار، ص ٢٢٦، تحقیق محمد حجازی، مکتبة الثقافة الدینیة ، مصر ۔
٢٨ ۔ اعجاز القرآن کریم، ص ٦، ص تحقیق سید احمد صقر ۔
٢٩ ۔ الکشاف ، ص ١٥ ۔
٣٠۔ ابن ندیم ، الفہرست ، ص ٢٠٨ ۔ الحیوان ، جلد ٣، ص ٨٦ ۔
٣١ ۔ ابوعبداللہ محمد بن یزید واسطی، شاگرد ابوعلی جبائی، معتزلہ بغداد کے بزرگ، متوفی ٣٠٦ ہجری ۔
٣٢ ۔ الفہرست، ص ٢١٨ ۔
٣٣ ۔ ابوبکر احمد بن علی بن معجور ، معروف بہ ابن اخشید، فقیہ، متکلم و مفسر ، بصرہ کے معتزلہ کے رئیس، ابوعبداللہ صیمری کے شاگرد، شافعی مذہب، متقی اور پرہیزگار تھے آپ کے والد عباسی حکومت کے گورنر تھے ۔ متوفی ٣٢٦ ۔
٣٤ ۔ الفہرست ، ص ٢٢٠۔
٣٥ ۔ ابو عمر محمد بن سعید باہلی بصری، قاضی بصرہ ، ابوعلی جبائی کے استاد، متوفی ٣٠٠ ہجری سے قبل، وعظ و نصیحت میں بہت زیادہ مشہور تھے ۔ اس طرح کہ متکلمین بھی آپ کی نصیحت کو سن کر گریہ کرتے تھے ۔ ان کا شمار بصرہ کے معتزلہ میں ہوتا ہے ۔
٣٦ ۔ الفہرست ، ص ٢١٩ ۔
٣٧ ۔ ابو یوسف عبدالسلام بن محمد بن یوسف قزوینی، شاگرد قاضی عبدالجبار، بصرہ کے معتزلہ، متوفی ٤٨٨ ۔
٣٨ ۔ ابومسلم محمد بن بحر اصفہانی، کاتب، نحوی، ادیب ، معتزلی مذہب کے متکلم و مفسر ۔ عباسی حکومت کے رجالی، عبدالرحیم خیاط کے شاگرد، علویان طبرستان کے دبیر، متوفی ٣٢٢ ۔
٣٩ ۔ طبقات الشافعیہ، ج ٥، ص ١٢١ ۔
٤٠۔ ابوبکر عبدالرحمان بن کیسان الاصم، واصل بن عطاء کے شاگرد، تفسر میں ابوعلی جبائی کے استاد اور ابوھذیل سے اس نے بہت سے مناظرے کئے ہیں ۔ یہ حضرت امیر (علیہ السلام) کو ان کے بہت سے افعال میں خاطی اور معاویہ کو اس کے بعض افعال میں صحیح سمجھتا تھا ۔ ابوبکر الاصم معتزلی، ابوالعباس الاصم اشعری کے علاوہ کوئی اور ہے اور یہ ابو مظفر اسفراینی کا استاد ہے ۔
٤١ ۔ عبیداللہ بن محمد جرو اسدی، معروف بہ ابوالقاسم اسدی، شاعر، نحوی اور عضدالدولة دیلمی کے کاتب، ابوعلی فارسی اور ابوسعید سیرافی کے شاگرد ہیں ، ان کا شمار بغداد کے معتزلہ میں ہوتا ہے متوفی ٣٨٧ ہجری ۔
٤٢ ۔ ابوبکر محمد بن حسن بن محمد ، بغداد کے معتزلی ، متوفی ٣٥١ ۔ ان کی تفسیر کا خطی نسخہ دارالکتب مصر اور برطانیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے ۔
٤٣ ۔ ابو علی موسی بن سیار اسواری، ابوھذیل اور نظام کے شاگرد، یہ زبان عربی اور فارسی میں تفسیر کہتے تھے ۔ انہوں نے تیس سال تک قرآن کریم کی تفسیر بیان کی لیکن تفسیر پوری نہیں ہوئی ۔ ان کے انتقال کی تاریخ معلوم نہیں ہے ۔
٤٤ ۔ ابویعقوب یوسف بن عبیداللہ بن شحام، معتزلہ بصرہ کے رئیس، ابو علی جبائی کے استاد، ابوھذیل علاف کے شاگر تھے، متوفی ٢٦٧ ۔
٤٥ ۔ محمد بن ھذیل بن عبداللہ ، معتزلہ کے سب سے پہلے راہنماوں میںسے ہیں ۔ چونکہ ان کا گھر گھانس بیچنے والوں کے محلہ میں تھا اس لئے ان کو علاف کہتے تھے ۔ یہ عثمان الطویل کے شاگر د ہیں ۔ بحث جدل میں ان کا ثانی نہیں تھا۔ ابوھذیل کی وفات کو ٢٢٧، ٢٣٠ اور ٢٣٥ ہجری نقل کیا ہے لیکن ٢٣٥ ہجری کا قول جس کو سید مرتضی اور ابن مرتضی نے نقل کیا ہے ، یقینا صحیح نہیں ہے، کیونکہ قاضی عبدالجبار کہتے ہیں : جب علاف دنیا سے گئے تو خلیفہ عباسی واثق نے ان کے تعزیت کے جلسہ میں شرکت کی ۔ اور واثق کا انتقال ٢٣٢ ہجری میں ہوا ہے ۔ لہذا علاف کا انتقال واثق سے پہلے ہوا ہے ۔ اس بناء پر ٢٣٠ ہجری کا قول صحیح معلوم ہوتا ہے ۔
٤٦ ۔ المغنی ، ١٦ ، صفحہ ٣٨٧ ۔
٤٧ ۔ ابراہیم بن سیار بن ہانی، معروف بہ نظام، ابوہذیل علاف کے بھانجے اور شاگرد تھے ، بصرہ سے بغداد گئے اور فلسفہ کی جن کتابوں کا اسی وقت ترجمہ ہوا تھا ان کامطالعہ کیا ۔ پھر بصرہ واپس آکر ابوہذیل سے مناظرہ کیا ۔ یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے معتزلہ کے مباحث میں فلسفہ کو داخل کیا اور اپنے خاص نظریات کو اس میں بیان کیا ۔ ان کی تاریخ وفات کے متعلق اختلاف ہے:
الف : ڈاکٹر طہ حاجری کتاب '' الجاحظ حیاتہ و آثارہ '' میں اس طرح نقل کرتے ہیں : اکثر و بیشتر تراجم اور تاریخ کی کتابوں نے لکھا ہے : نظام کا ٣٦ سال کی عمر میں ٢٢١ یا ٢٣١ ہجری میں انتقال ہوا ، لیکن بہت سے شواہد و قراین کے باوجود ان دونوں میں سے ایک بات غلط ہے ۔
ب : معجم الادباء (جلد ٥، ص ١٦٩) نقل کرتے ہیں کہ ہارون الرشید کے سامنے نظام اور ضرار بن عمر کے درمیان مناظرہ ہوا اور چونکہ ہارون الرشید ان کی بحثوں سے کچھ نہ سمجھ سکا تو اس نے ان کو کسائی نحوی کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مناظرہ ١٩٠ ہجری سے پہلے رونما ہوا ہوگا کیونکہ کسائی کا ١٨٩ ہجری میں انتقال ہوا ہے اور ہارون الرشید کا ١٩٣ ہجری میں انتقال ہو ا ہے ۔ اور اگر یہ قبول کرلیں کہ نظام کا ٣٦ سال کی عمر میں ٢٢١ ہجری میں انتقال ہوا ہے تو ان کی ولادت ١٨٥ ہجری میں ہونا چاہئے اور مناظرہ کے وقت ان کی عمر تین یا چار سال کی ہوگی اور ہارون الرشید چار سال کے بچہ کی پیچیدہ گفتگو کو نہیں سمجھ پایا ۔
ج : سید مرتضی ،امالی (جلد ١، ص ١٨٩) اور '' المنیة'' (ص ١٥٢) میں نقل کرتے ہیں کہ نظام کے والد ان کو خلیل بن احمد فراہیدی کے پاس پڑھنے کے لئے لے گئے اور اس وقت نظام جوان تھے ۔ جب کہ خلیل بن احمد کا ١٧٠ سے ١٧٥ ہجری کے درمیان انتقال ہوا ہے ۔ یعنی نظام کے پیدا ہونے سے پانچ یا دس سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا ہے ۔ نظام جس وقت جوان تھے اس وقت وہ خلیل بن احمد کے درس میں حاضر ہوتے تھے ۔
٤٨ ۔ ابوزکریا یحیی بن زیاد بن عبداللہ ، معروف بہ فرائ، نحو میں کوفیوں کے امام، مامون کے بیٹوں کے استاد، متوفی ٢٠٦ ہجری قمری ۔ فراء کے شیعہ ہونے کے سلسلہ میں رسالة الاسلام مجلہ (١٥/٩٦)میں مراجعہ فرمائیں ۔ معانی القرآن ، ص ٣٠١، ڈاکٹر عبدالرئوف مخلوف کی کتاب الباقلانی و کتاب اعجاز القرآن ، ص ٣٧ کے نقل کے مطابق۔
٤٩ ۔ رسائل جاحظ جلد ٣، ص ٢٨٧ ۔
٥٠۔ الانتصار ، ص ٦٨ ۔
٥١ ۔ مقالات الاسلامیین ، ص ٢٧١ ۔
٥٢ ۔ اعجاز القرآن ، ص ٤٦، کشف المراد ، ص ٣٨٤ ۔ الاتقان ، ص ١٠٠٦ ۔ التبصیر فی الدین، ص ٧٢ ۔ الملل و النحل بغدادی ، ص ٩٨ ۔ الفرق بین الفرق ، ص ٨٧، ٩٧ ۔
٥٣ ۔ ابوموسی ، عیسی بن صبیح ، ملقب بہ مردار یا مزدار، معروف بہ راہب معتزلہ، شاگرد بشر بن معتمر، رئیس معتزلہ بغداد، استاد جعفر ین، متوفی ٢٢٦ ق۔
٥٤ ۔ الفرق بین القرآن ، ص ١٠٠۔
٥٥ ۔ الملل و النحل ، ص ١٠٩، تحقیق ڈاکٹر البیر نصر نادر۔
٥٦ ۔ ابو مظفر طاہر بن محمد اسفراینی، شافعی اشعری مذہب۔ انہوں نے نظام الملک کی پیشنہاد پر توس کا سفر کیا۔ التبصیر فی ا لدین، ص ٧٢، عالم الکتب۔
٥٧ ۔ الملل والنحل ، ص ٦٧ ۔
٥٨ ۔ ابوسعد عبدالکریم بن محمد تمیمی سمعانی، اشعری مذہب، متوفی ٥٦٢، صاحب کتاب معروف الانساب۔
٥٩ ۔ عبداللہ بن صالح، الملل والنحل الواردة فی کتاب الانساب ، ص ٦٧ ۔
٦٠ ۔ اعجاز القرآن، ص ٤٦ ۔
٦١ ۔ مثل محمد بن یوسف کرمانی، (م ٧٨٦) کتاب الفرق الاسلامیہ میں شاگرد عضدالدین بن ایجی ، ص ٢١ ۔
٦٢ ۔ الانتصار ، ص ١١٧ ۔ ٣١ ۔
٦٣ ۔ الفصل فی الملل والاھواء والنحل ، ٣/ ٢٥ ۔ ٣١ ۔
٦٤ ۔ الملل والنحل ، ص ١٠٩ ۔
٦٥ ۔ عمروبن بحر جاحظ ، متوفی ٢٥٥، بصرہ کے متکلم اور ادیب، نظام کے شاگرد، مختلف تصنیفات کے مالک۔ وہ کہتے ہیں : ہمارے زمانہ میں بصرہ کی یہ حالت تھی کہ سب لوگ متکلم ہونا پسند کرتے تھے لہذا ہم نے بھی علم کلام سیکھا۔
٦٦ ۔ رسائل جاحظ، رسالة حجج النبوة، ج٣، ص ٢٢٩ ۔
٦٧ ۔ گذشتہ حوالہ، ص ٢٥١ ۔
٦٨ ۔ البیان والتبیین، ج ١، ص ٢٤٢، تحقیق حسن سندوبی ۔
٦٩ ۔ اعجاز القرآن ، ص ٨٤ ۔
٧٠ ۔ جاحظ کے نزدیک اعجاز قرآن کے سلسلہ میں، مراجعہ کریں : بینات ، شمارہ ١٦ و ١٧ ۔
٧١ ۔ الحیوان، ج ٤، ص ٨٩ ، ٩٠ ۔ جلد ٦، ص ٢٦٩ ۔
٧٢ ۔ الامام المؤ ید، یحیی بن حمزہ زیدی، متوفی ٧٤٩، یمن میں زیدی مذہب سے تعلق رکھنے والے ۔ بہت زیادہ تالیفات کے مالک۔ ان کے متعلق ڈاکٹر احمد محمود صبحی کی کتاب'' الامام المجتہد یحیی و آراء الکلامیہ '' ابھی چھپ کر منظر عام پر آئی ہے ۔
٧٣ ۔ الطراز المتضمن لاسرار البلاغة و حقایق الاعجاز، جلد ١، ص ٥ ۔ جلد ٣، ص ٣٩١ ۔ رسالة الاسلام، ج ٤، ص ٥٩ ۔
٧٤ ۔ الفصل ، ج ٣، ص ٣١ ۔
٧٥ ۔ ابو محمد ہشام بن عمروالفوطی، شاگرد ابوہذیل علاف، بصرہ کے معتزلہ، اعراض و فنا میں خاص عقیدہ کے مالک، متوفی ٢٣٠ ہجری قمری ۔
٧٦ ۔ عباد بن سلیمان، شاگرد ہشام الفوطی، بصرہ کے معتزلہ، خاص عقاید کے مالک، ان کی تاریخ وفات معلوم نہیں ہے ۔
٧٧ ۔ مقالات الاسلامیین ، ص ٢٧١ ۔
٧٨ ۔ المغنی، ج ١٦، ص ٢٤٢ ۔
٧٩ ۔ مقالات الاسلامیین ، ج٢، ص ٦ ۔
٨٠ ۔ عبدالقاہر جرجانی، متوفی ٤٧١ ۔ اشعری مذہب کے متکلم، شافعی مذہب کے فقیہ، نحو میں ابو علی فارسی کے شاگرد۔ دلائل الاعجاز، رسالة الشافعیہ اور اسرار البلاغہ کے مولف۔
٨١ ۔ اعجاز قرآن،ص ٢٣ ۔ رسالة الشافعیة، ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن کے ضمن میں، ص ١٤٢، کتاب دلائل الاعجاز کے ضمن میں، ص ٦٢٥ ۔ دلائل الاعجاز کے محقق اس کتاب کے مقدمہ میں کہتے ہیں : ''اعجاز القرآن کے اثبات سے پہلے عبدالقاہر جرجانی کی پوری کوشش اعجازقرآن کی اقسام کے سلسلہ میں جاحظ اور قاضی عبدالجبار کے قول کی مخالفت ہوتی تھی ، یہاں سے اشاعرہ اور معتزلہ کا اختلاف اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے ۔
٨٢ ۔ ابوعلی محمد بن عبدالوہاب جبائی، معتزلہ بصرہ کے سب سے بڑے متکلم، ابویعقوب شحام کے شاگرد، متوفی ٣٠٣ ۔ ابو علی کی تفسیر ابن طاووس کے پاس تھی وہ ان کے متعلق کہتے ہیں: ابو علی نے بنی ہاشم کے ساتھ قلم وبیان سے جنگ کی ہے لیکن ابن طاووس کا یہ کلام ، حضرت علی (علیہ السلام) کی افضلیت میں ابوعلی کے نظریہ کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بصرہ کے معتزلیوں کا بغداد کے ساتھ سب سے اہم اختلاف حضرت امیر المومنین علی (علیہ السلام) کا تینوں خلفاء سے افضل ہونے کی وجہ سے تھا ۔ بصرہ میں ابوہذیل ، عثمان پر حضرت علی (علیہ السلام) کی افضلیت کے قائل تھے ، لیکن واصل، عمرو ، عثمان طویل، جاحظ ، شحام اور اصم وغیرہ خلفاء کو حضرت علی (علیہ السلام) پر افضل سمجھتے تھے ۔ ابو علی جو کہ بصرہ کے معتزلہ کے رئیس تھے، نے بغداد کا سفر کیااور پھر اس بات کے قائل ہوجاتے ہیں کہ اگر طائر والی خبر صحیح ہے تو علی (علیہ السلام) خلفاء سے افضل ہیں ۔ ان کے بعد معتزلہ میں سے کسی ایک نے بھی حضرت امیر علیہ السلام کی افضلیت کو خلفاء پر قبول نہیں کی ہے اسی وجہ سے قاضی عبدالجبار ، عثمان کو معتزلہ میں شمار نہیں کرتے تھے ۔
٨٣ ۔ المغنی ، ج ١٦ ، ص ٣٢٨ ۔
٨٤ ۔ ابوہاشم عبدالسلام بن ابوعلی جبائی، رئیس فرقہ بھشمیہ، بصرہ کے معتزلی، متوفی ٣٢١، اپنے والد کے شاگرد، خاص عقاید کے مالک، ان کی کتاب جامع صغیر ، ابن طاووس کے پاس تھی ۔
٨٥ ۔ بعض تراجم اور تذکرہ لکھنے والوں نے قاضی عبدالجبار کو ابوہاشم کا شاگرد بیان کیا ہے ۔ جب کہ یہ بات تین دلیلوں کے ذریعہ صحیح نہیں ہے :
١ ۔ ابوہاشم متوفی ٣٢١ ۔ اور قاضی عبدالجبار متولد ٣٢٠ ہیں ۔
٢ ۔ ابوہاشم معتزلہ کے نویں طبقہ میں شمار ہوتے ہیں اور قاضی عبدالجبار ، گیارہویں طبقہ میں ۔
٣ ۔ حاکم جشمی عیون کی شرح میں کہتے ہیں : قاضی اپنی زندگی کے اوائل میں اشعری مذہب تھے ، پھر ابوعبداللہ بصری اور ابواسحاق عیاش کی شاگردی اختیار کی اور معتزلی ہوگئے ۔ اس بناء پر ہمیں قبول کرنا چاہئے کہ قاضی ، ابوہاشم کے شاگرد نہیں تھے بلکہ ان کاشمار فرقہ بھشمیہ میں ہوتا تھا۔
٨٦ ۔ المغنی ، ج١٦، ص ٢٣١ ۔
٨٧ ۔ کشف ا لمراد ، ص ٣٨٤ ۔ المغنی ، ١٦، ص ١٩٧ ۔
٨٨ ۔ المغنی ، ١٦، ص ٣٢٨ ۔
٨٩ ۔ ابوالحسن علی بن عیسی الرمانی نحوی معتزلی (٢٦٩ ۔ ٣٨٦) ابن اخشید کے شاگرد، ابوہاشم جبائی کے مخالف اور نحو میں ابو علی فارسی کے شاگرد ہیں ۔
٩٠ ۔ ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن ، ص ٦٩ ۔
٩١ ۔ گذشتہ حوالہ ، ص ٨٩ ۔
٩٢ ۔ گذشتہ حوالہ ، ص ١٠١ ۔
٩٣ ۔ عبدالجبار بن احمد ہمدانی اسد آبادی، شہر رے میں آلو بویہ کے قاضی آل، ابوعبداللہ بصری اور ابواسحاق عیاش کے شاگرد ، معتزلہ کے سب سے بڑے متکلم، متوفی ٤١٥ ۔
٩٤ ۔ شرح اصول خمسہ، ص ٥٨٦، ٥٨٩، ٦٠٠۔ المغنی، ١٦، ص ١٦٤ ۔ رسائل العدل والتوحید، ص ٢٣٨، بینات میں شمارہ ١٩، اس متعلق حسین علی ترکمانی کا ایک مقالہ چھپا ہے ۔
٩٥ ۔ جار اللہ محمود بن عمر زمخشری، اہل خوارزم، متوفی ٥٣٨، لغوی ، مفسر اور متکلم معتزلی، بغداد کے معتزلی ، ضبی اصفہانی کے شاگرد اور حنفی مذہب ۔
٩٦ ۔ منہج الرمخشری، ص ٢١٦، دار المعارف ، مصر۔
٩٧ ۔ الکشاف ، ج١ ،ص ٤٢٤ ۔
٩٨ ۔ منہج الزمخشری، ص ٢٩٥ ۔
٩٩ ۔ ابوالفتح ناصرین ابوالمکارم عبدالسید بن علی مطرزی خوارزمی، متوفی ٦١٠۔ حنفی معتزلی، اور زمخشری کے شاگردوں کے شاگرد۔ مشرق کے معتزلہ میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔
١٠٠۔ بیان الاعجاز فی سورة قل یا ایھا الکافرون، ص ٣٦ ، تحقیق حمد بن ناصر الدخیل ، ریاض ۔
١٠١ ۔ ابویعقوب یوسف بن ابی بکر بن محمد بن علی خوارزمی، معروف بہ سکاکی، صاحب مفتاح العلوم، حنفی مذہب ۔ روضات الجنات میں بیان ہوا ہے : ہم ان کے اساتید اور شاگردوں کو تلاش نہیں کرسکے ۔
١٠٢ ۔ مفتاح العلوم ، ص ٢٢١ ۔
١٠٣ ۔ رحلة ابن بطوطة، ج١ ،ص ٢٣٣ ۔
مآخذ : فصلنامہ ہفت آسمان شمارہ ٤ ۔




















![جناب خدیجہ کبری[س] کی سیرت](/ur/media/k2/items/cache/ef2cbc28bb74bd18fb9aaefb55569150_XS.jpg)
